دنیا میں جو بھی آیا، آزمایا گیا۔ کسی کی آزمایش اقتدار و اختیار، تاج و تخت او رمال و دولت کے انباروں سے ہوئی اور کسی کی بھوک، افلاس، ظلم و ستم اور پھانسی کے پھندوں سے۔ کامیاب وہی ٹھیرا جس نے ہر دو صورتوں میں اپنے رب کی سچی اطاعت و بندگی اختیار کی۔ اپنا اصل ہدف، ہمیشہ باقی رہنے والی زندگی کو رکھا۔
آج کے قومی یا عالمی حالات پر نظر دوڑائی جائے، تو آزمایشوں کی یہ سنت الٰہی نقطۂ عروج تک پہنچی دکھائی دیتی ہے۔ خون مسلم ہر جگہ پانی سے بھی ارزاں ہے۔ پہلے صرف کشمیر و فلسطین اور افغانستان کے مظلوم اہل ایمان کے لیے دُعاے رحم ہوتی تھی، اب مصر، شام، عراق، یمن، لیبیا، بنگلہ دیش، اراکان، سری لنکا، وسطی افریقا، صومالیہ اور ماوراے قفقاز ، یعنی فہرست طویل سے طویل ہوتی چلی جا رہی ہے۔ پہلے صرف اغیار کے قبضے اور استعمار کے مظالم کے خلاف دُعائیں ہوتی تھی، اب خود مسلمان حکمران اور ان کے مسلح لشکر، کفار کے مظالم سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں۔
گذشتہ صدی کے آغاز میں بھی عالم اسلام کی بندر بانٹ کی گئی تھی، تقریباً ۱۰۰ سال گزرنے کے بعد اب منقسم کو مزید تقسیم کرنے کا عمل تیز تر کیا جارہا ہے۔ ۱۹۱۵ء-۱۹۱۶ء کے درمیان فرانسیسی وزیر خارجہ فرانسوا جارج پیکو اور برطانوی وزیر خارجہ مارک سائکس نے مشرق وسطیٰ کو ذاتی جاگیر کی طرح بانٹ لیا۔ شام اور لبنان پر فرانسیسی، عراق اور خلیج پر برطانوی قبضہ ہوگیا۔ مشرقی اردن اور فلسطین بھی برطانوی نگہداری میں دیے گئے، لیکن چونکہ فلسطین کو اسرائیل میں بدلنا تھا، اس لیے ساتھ ہی وضاحت کی گئی کہ اس ضمن میں اعلان بالفور( Balfour Declaration) پر عمل درآمد کیا جائے گا۔ ۲ نومبر ۱۹۱۷ء کو جاری ہونے والے اس منحوس ڈکلریشن میں پوری ڈھٹائی سے لکھا تھا:
His Majesty's Government view with favour the establishment in Palestine home for the Jewish people. شاہِ معظم کی حکومت فلسطین میں یہودیوں کے لیے وطن بنانے کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھتی ہے۔
خلافت عثمانیہ کے خاتمے اور تقسیم و تسلط کے بعد خود تو ان استعماری طاقتوں کو جانا ہی تھا اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی چلے گئے، لیکن جاتے جاتے اکثر مسلم ممالک میں فوجی آمر اور اپنے غلام حکمران بٹھا گئے۔ ایسے حکمران کہ جنھیں ریموٹ کنٹرول کے ذریعے، جہاں اور جیسے چاہا استعمال کیا جاسکے۔ گذشتہ پوری صدی اُمت مسلمہ نے استعماری طاقتوں کے کاشت کردہ ان زہریلے بیجوں کی تلخ فصلیں کاٹی ہیں۔وسائل کے انبار ہونے کے باوجود عوام بھوک اور ننگ کا شکار رہے ہیں۔ ۳۰،۳۰ اور ۴۰،۴۰ سال مسند اقتدار پر براجمان رہنے کے بعد جب بعض حکمرانوں سے نجات حاصل کی گئی تو معلوم ہوا کہ، قوم کے اَربوں ڈالر خود ہڑپ کیے بیٹھے تھے یا پھر ان قیمتی وسائل کا تمام تر فائدہ استعمار اور اس کی پالتو ریاست اسرائیل کو پہنچا رہے تھے۔
توانائی کے سنگین بحران سے دوچار ملک مصر نے، صرف ۲۰۰۸ء سے فوجی آمر حسنی مبارک کی برطرفی تک تین سالہ مدت میں اسرائیل کو صرف ڈیڑھ ڈالر فی یونٹ کی قیمت پر گیس فروخت کی۔ اسی عرصے میں گیس کی عالمی قیمت ۱۲ سے ۱۶ ڈالر فی یونٹ رہی۔ حسنی مبارک نے اپنے ایک نمک خوار حسین سالم کے ذریعے EMG نامی کمپنی کے ذریعے مصر کو اس ایک سودے میں صرف ۱۱؍اَرب ڈالر کا نقصان پہنچایا۔صدرمحمد مرسی کے ایک سالہ دور میں اس نام نہاد کمپنی اور حسین سالم پر مقدمہ چلا اور کمپنی پر پابندی لگائی گئی۔ حالیہ فوجی انقلاب کے بعد حسین سالم اور کمپنی دوبارہ فعال ہوگئے ہیں۔ اب انھوں نے اُلٹا ریاست کے خلاف مقدمہ قائم کرتے ہوئے ۸؍ارب ڈالر ہرجانے کا دعویٰ کر دیا ہے۔
تیونس کو ہمیشہ اقتصادی ترقی اور خوشحالی کی روشن مثال قرار دیا جاتا رہا ہے۔ تیونس میں اقتصادی ترقی ثابت کرنے کے لیے عالمی رپورٹیں جاری کروائی گئیں۔ معلوم ہوا کہ اس کا پورا اقتصادی ڈھانچا زین العابدین بن علی اور ان کی اہلیہ کے رشتہ داروں کے ہاتھوں جکڑا ہوا تھا۔ خوش نما عالمی رپورٹوں کی تیاری میں شریک ایک عالمی ماہر اقتصاد، بوب ریکرز نے حال ہی میں اعتراف کیا ہے کہ وہ ساری عالمی رپورٹیں جعلی اور نام نہاد ترقی ایک سراب تھی۔ بن علی کے دور اقتدار کے صرف آخری ۱۰ برسوں میں سرمایہ کاری کے قانون میں ۲۵ مرتبہ ترمیم کی گئی۔ ان سب ترامیم کا اکلوتا مقصد، اقتصادی ڈھانچے پر خاندانی اجارہ داری کا استحکام تھا۔ بن علی کو رخصت ہوئے تین برس سے زائد عرصہ گزر گیا اور جاتے ہوئے دولت کے انبار ساتھ بھی لے گیا، لیکن اب بھی آئے روز ذاتی دولت و کاروبار کے نئے سراغ مل رہے ہیں۔ ۳۷۶ بنک اکاؤنٹ اور ۵۵۰ ذاتی جایدادیں دریافت ہوچکی ہیں۔ کئی خفیہ ذاتی گھروں میں ڈالروں کے ڈھیر گننے میں کئی ماہ کا عرصہ لگا۔ ابھی کرپشن کے سارے راز افشاں نہیں ہوسکے، اور اب ایک بار پھر سابقہ حکمران ٹولے کا اقتدار بحال کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
مصر میں جنرل سیسی کے خونی انقلاب کے فوراً بعد تیونس میں بھی سابقہ نظام کے کل پرزوں نے عالمی سرپرستی میں واپسی کا عمل شروع کردیا تھا۔ اپوزیشن رہنماؤں کے قتل، مسلح اسلامی دھڑوں کی اچانک تیز ہوتی ہوئی کارروائیوں اور دستور ساز اسمبلی کے اندر مسلسل بحرانوں کا سلسلہ چل نکلا تھا۔ اگر اس موقعے پر تحریک نہضت سیاسی بصیرت سے کام نہ لیتی، تو اب تک تیونس کو بھی خون میں نہلایا جاچکا ہوتا۔یہاں ان غلط فہمیوں کا ازالہ بھی ضروری ہے جو ایک پراپیگنڈے کی صورت میں الاخوان المسلمون مصر اور تحریک نہضت تیونس کے بارے میں اکثر پھیلائی جاتی ہیں:
اخوان کے بارے میں یہ کہ انھوں نے ضرورت سے زیادہ سختی اور عجلت دکھائی اور تحریک نہضت کے بارے میں یہ کہ انھوں نے بہت سستی دکھائی اور اقتدار کی خاطر مداہنت برتتے ہوئے بنیادی اصولوں پر سمجھوتا کرلیا اور شریعت ہی سے دست بردار ہوگئے۔
یہ دونوں الزامات محض تہمت ہیں، جن کی کوئی بنیاد نہیں۔ دونوں تحریکیں حکمت، احتیاط اور ثابت قدمی سے چلیں۔ دونوں کے خلاف پہلے روز سے سازشوں کا آغاز ہوگیا۔ لیکن ایک تو تیونس کے پڑوس میں کوئی اسرائیلی ناسور نہیں تھا اور دوسرے وہاں کی فوج کو ابھی براہِ راست اقتدار کا چسکا نہیں لگا، اس لیے اسے مصر نہ بنایا جاسکا۔ تحریک نہضت کو حاصل وسیع عوامی تائید اور دستور ساز اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل ہونے کے باوجود، انھیں اپنے دو وزراے اعظم اور بالآخر حکومت سے تو دست بردار ہونا پڑا، لیکن جناب راشد الغنوشی کے الفاظ میں: ’’ہم نے اقتدار کھو دیا لیکن ملک کو پہلا متفق علیہ دستور دے کر ملک و قوم کو جیت لیا‘‘۔ تیونسی دستور یقینا کوئی مثالی دستور نہیں، لیکن اس سے ایک ایسی بنیاد ضرور فراہم ہوگئی ہے جس پر ایک ’’خوش حال، آزاد، اسلامی ریاست‘‘ کی بنیاد رکھی جاسکے۔ اب آیندہ نومبر میں وہاں پہلے پارلیمانی انتخاب ہونا ہیں اور دسمبر میں صدارتی۔ بعض اندرونی و بیرونی قوتیں، انتخاب کا التوا اور عبوری حکومت کاامتداد چاہتی ہیں، لیکن اب تک کے واقعات کی روشنی میں یہ توقع بجا طور کی جاسکتی ہے کہ سازشی عناصر ان شاء اللہ ناکام رہیں گے۔
تیونس میں مصری تجربہ دہرائے جانے میں ہچکچاہٹ کی ایک وجہ یہ بھی بنی کہ پورا ایک سال گزر جانے اور بدترین سفاکیت کی باوجود، مصری فوجی انقلاب کامیاب نہیں ہوسکا۔ بظاہر تو وہ اپنا دستور بھی لے آئے، جنرل سیسی کو نیا حسنی مبارک بھی بنادیا گیا، لیکن مصر میں طلوع ہونے والا ہردن اس کے لیے ایک نئی مصیبت لے کر آتا ہے۔ اخوان کے ۸ہزار سے زائد شہدا، ۲۳ ہزار سے زائد گرفتار اور اتنی ہی تعداد میں کارکنان روپوش یا لاپتا ہیں۔ مصر کی نام نہاد عدالتیں، درجنوں نہیں سیکڑوں کی تعداد میں پھانسی کی سزائیں سنا رہی ہیں، لیکن یہ بات حلفیہ دعوے اور کامل یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ خونی انقلاب کے خلاف عوامی تحریک میں ایک دن کا توقف بھی نہیں آیا۔ اخوان کے کارکنان ہی نہیں، امریکی اور مغربی تجزیہ نگار بھی مسلسل اعتراف کررہے ہیں کہ فوجی انقلاب کو بالآخر رخصت ہونا ہوگا۔
سیسی حکومت سے عوامی بیزاری کا تازہ ترین مظہر وہاں کا حالیہ صدارتی انتخابی ڈراما بھی ہے۔ بھرپور ابلاغیاتی مہم اور پوری سرکاری مشینری استعمال کرلینے کے باوجود، دو روز تک جاری رہنے والی پولنگ ختم ہوئی، تو حکومتوں صفوں میں ہر طرف صفِ ماتم بچھ گئی۔ درجنوں ٹی وی چینلوں پر بیٹھے رنگ برنگے تجزیہ کار، عوام کو بالفعل گالیاں دینے لگ گئے کہ وہ اپنے ’’نجات دہندہ‘‘ سیسی کو ووٹ دینے کیوں نہیں نکلے۔ ذرا غیر جانبدار میڈیا کا معیار ثقاہت ملاحظہ کیجیے: ’’عوام جوتوں کے قابل ہیں‘‘، ’’پہلے انھیں کمر پر پڑتے تھے، اب ان کے سروں پر جوتے برسانے چاہییں‘‘، ’’جو لوگ فیلڈ مارشل عبدالفتاح سیسی کو ووٹ ڈالنے نہیں نکلے، ان کی ماؤں نے انھیںتمیز ہی نہیں سکھائی‘‘، ’’اگر جنرل سیسی کو ووٹ دینے نہ نکلے تو تاریخ کی بدترین خوں ریزی ہوگی‘‘۔پھر اسی دوران میں اچانک اعلان ہوا کہ ووٹنگ کے لیے ایک روز مزید بڑھا دیا گیا ہے۔ وہی میڈیا جو آہ و بکا کررہا تھا، اگلی شام خوشی کے شادیانے بجانے لگا کہ ۴۶ فی صد ووٹ ڈالے گئے، جن میں سے ۹۷فی صد نے جنرل سیسی کو صدر منتخب کرلیا۔ مصری عوام نے اس موقعے پر معرکۃ الصَّنَادِیقِ الخَاوِیَۃ (خالی صندوقچیوں کا معرکہ لڑا) اس معرکے میں وہی غالب رہے اور ووٹوں کا تناسب زیادہ سے زیادہ ۱۲ سے ۱۵ فی صد رہا۔
انتخاب کی طرح ان کے جشن فتح کی مثال بھی نہیں ملتی۔ نتائج کا اعلان کرنے کے بعد میدان تحریر میں رات بھر رقص و شراب نوشی جاری رہی۔ اس دوران خواتین اور بچیوں سے بدسلوکی ہی نہیں، عصمت دری تک کی گئی۔ ایک خاتون صحافی کو جو اپنی بیٹی کے ہمراہ اپنی صحافتی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے وہاں تھیں، پورے مجمعے میں مادر زاد عریاں کردیا گیا۔ یہ واقعہ اتنا بدنما داغ ہے کہ صدارتی حلف اٹھانے کے بعد جنرل سیسی نے خود ہسپتال جاکر متأثرہ خاتون کو گلدستہ پیش کرتے ہوئے، سانحے کی شدت کم کرنے کی ناکام کوشش کی۔لیکن خواتین سے بدسلوکی اور انھیں ہراساں کرنا اب مصر کی بدترین شناخت بنتی جارہی ہے۔ شاید اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ’’جیسا راجا، ویسی پرجا‘‘۔
یہ سانحات و جرائم حکمرانوں کا تعارف تو کروا ہی رہے ہیں، ان کی وجہ سے عالمی طاقتیں بھی مسلسل بے نقاب ہورہی ہے۔ مصر اور شام میں صدارتی انتخابی ڈرامہ ہو یا بنگلہ دیش کے ڈھکوسلا انتخابات، جمہوری اقدار کی دعوے دار قوتوں نے ان کی حقیقت سے باخبر ہونے کے باوجود آنکھیں موند لی ہیں اور زبانیں گنگ کررکھی ہیں۔ یہی عالم اور پالیسی حقوق انسانی کی توہین کے بارے میں ہے۔ میدانِ تحریر میں خواتین کی بے حرمتی ہو، شامی مہاجر کیمپوں میں دم توڑتی بچیاں ہوں یا بنگلہ دیش میں ۲۰ سے ۲۴ سال کی عمر کی درجنوں طالبات کی اس الزام میں گرفتاریاں ہوں، کہ ان سے حکومت مخالف سٹکر برآمد ہوئے ہیں، دنیا کی کسی ’ملالہ فین‘ این جی او یا حکومت کو توفیق نہیں ہوئی کہ ان کے خلاف آواز اٹھائے۔
نام نہاد مصری عدالتوں نے چند منٹ کی کارروائی کے بعد ۲۴ مارچ کو ۵۲۹؍ افراد کو سزائے موت سنادی، ’مہذب‘ دنیا نے خاموش رہ کر اس جرم میں شرکت کا ارتکاب کیا۔ عالمی رویے نے قاتل نظام کی حوصلہ افزائی کی، عدالتوں نے ۲۸؍ اپریل کو دوبارہ غضب الٰہی کو دعوت دیتے ہوئے ۷۰۰ مزید افراد کو پھانسی کی سزا سنادی۔ ۱۹جون کو مجرم جج پھر گویا ہوا، اخوان کے مرشد عام سمیت ۱۴مرکزی قائدین کو سزاے موت سنادی۔ ۲۱جون کو مرشد عام سمیت ۱۵۰؍ افراد کو دوبارہ سزاے موت سنا دی۔ لیکن دنیا یوں اندھی بہری گونگی بنی ہوئی ہے کہ جیسے انسانوں کوپھانسیاں نہیں دی جارہیں، کیڑے مکوڑوں سے نجات حاصل کی جارہی ہے۔
پھانسی اور عمر قید کی سزاؤں کی فہرست طویل ہے اور مزید طویل ہوتی جارہی ہے۔ جس طرح یہ قائدین اور کارکنان سزا سنانے والے ججوں کے فیصلے سن کر ہنستے مسکراتے انھیں کائنات کے حاکم اور منصف مطلق کی عدالت میں جمع کروادیتے ہیں، بہت ممکن ہے کسی روز اسی طرح ہنستے مسکراتے پھانسی کے پھندے چومتے دربار خداوندی میں بھی جاپہنچیں، لیکن وہ حقوق انسانی کے دعوے .... اَربوں کے بجٹ ... مہذب اور ترقی یافتہ ہونے کے دعوے... ؟ امریکی وزیر خارجہ نے ۲۱ جون کو قاہرہ جاکر جنرل سیسی حکومت کے لیے ۷۶۰ ملین ڈالر امداد بحال کرکے شاید اسی سوال کا عملی جواب دیا ہے۔ لیکن اصل جواب کائنات کے رب کی عدالت سے آنا ہے اور یقیناً آنا ہے، فَانْتَظِرُوْٓا اِنِّیْ مَعَکُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِیْنَ o (اعراف ۷:۷۱)، ’’اب تم انتظار کرو، میں بھی تمھارے ساتھ انتظار کررہا ہوں‘‘۔
اگست ۱۹۹۰ء میں عراقی آمرِ مطلق صدام حسین کی حماقت کی آڑ میں خلیج میں در آنے کا قدیم امریکی منصوبہ مکمل ہوا، تو امریکی صدر بش کے باپ صدر بش نے ایک جملہ کہا تھا کہ ’’اب خاکِ دجلہ و فرات سے ایک نئی تہذیب، نیا عالمی نظام جنم لے گا‘‘۔ تعلیمی، سیاسی، ثقافتی اور اقتصادی پہلوؤں سے، اس نئی تہذیب اور نئے عالمی نظام کے کئی تعارف ہیں، یہاں صرف ایک مثال دی جارہی ہے۔
۱۹۹۱ء میں امریکی سرپرستی میں اقوام متحدہ کی قرارداد کے ذریعے عراق کے پورے کرد علاقے کو ’خصوصی حیثیت‘ دے دی گئی۔ قرارداد بظاہر بڑی معصومانہ ہے، تاثر یہ دیا گیا کہ کرد آبادی کو احساس محرومی سے نجات دینے اور صدام حسین کی عرب قوم پرستانہ پالیسیوں سے محفوظ کرنے کے لیے اقوام متحدہ نے عظیم خدمت انجام دی ہے۔ لیکن اس ’بے ضرر قرارداد‘ کے اصل زہریلے پھل اب پک کر تیار ہوچکے ہیں۔ تقریباً ایک تہائی علاقے پر مشتمل عراق کا کرد علاقہ، اب تقریباً الگ ریاست کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ تیاری مکمل، فضا سازگار اور سب متعلقہ فریق ہمہ تن گوش ہیں کہ کسی بھی لمحے علیحدگی کا بگل بجادیا جائے گا۔ ۲۵جون کو امریکی وزیرخارجہ کے دورے کے موقع پر اسرائیلی وزارتِ خارجہ کے ذمہ داران نے بھی اسے ’اطلاع‘ دے دی ہے کہ کردستان ریاست کا اعلان کسی بھی گھڑی ہوسکتا ہے اور یہ کہ اسرائیل اس نئی ریاست کو تسلیم کرنے والے اولیں ممالک میں سے ہوگا۔کردستان کا الگ ریاست بنادیا جانا، صرف عراقی کردستان تک ہی محدود نہیں رہے گا۔ ایران، شام اور ترکی میں موجود کرد آبادی کو بھی طویل عرصے سے اسی بخار کا شکار کیا جارہا ہے۔ توڑ پھوڑ اور تقسیم در تقسیم کا یہ مکروہ کھیل وہاں بھی کھیلا جائے گا، خواہ اس کھیل کے لیے ان ممالک کو کتنا ہی عرصہ حالت ِ جنگ میں رکھنا پڑے۔
عراق پر امریکی قبضے کے فوراً بعد جو عبوری حکومت تشکیل دی گئی، اسی میں عراق کو ٹکڑوں میں بانٹنے کا آغاز کردیا گیا تھا۔ حکومت کی تشکیل، ایک ملک کے شہریوں کی حیثیت اور صلاحیتوں کی بنیاد پر نہیں، مختلف مذہبی، علاقائی اور نسلی گروہوں کے لیے تناسب کی بنیاد پر کی گئی۔ شیعہ، سُنّی اور عرب، کرد اور ترکمان کی تعصباتی تقسیم گہری کرتے ہوئے، عراق میں خون کے وہ دریا بہائے گئے کہ الأمان الحفیظ۔ٹیکس گزار امریکی شہریوں کے اَربوں ڈالر اور ہزاروں امریکی شہریوں کی جانیں، عراقی الاؤ میں جھونکنے کے بعد بظاہر تو امریکی افواج عراق سے بھاگ گئیں، لیکن امریکا عملاً اب بھی وہاں موجود ہے اور اب بھی اسی کاایجنڈا نافذ ہورہا ہے۔ تیل کی بندربانٹ بھی اسی ایجنڈے کا حصہ ہے۔ صوبہ کردستان اور مرکزی حکومت میں ایک جھگڑا تیل سے مالامال ’کرکوک‘ شہر پر قبضے کا بھی تھا۔ حالیہ واقعات کے فوراً بعد کرد فوج ’بیشمرکہ‘ نے یہ کہتے ہوئے کرکوک پرقبضہ کرلیا کہ اسے ’داعش‘ سے خطرہ ہے۔ دوسری طرف ’بیجی‘ میں واقع عراق کی سب سے اہم آئل ریفائنری پر اہلِ سنت فورسز کا قبضہ مکمل ہوگیا۔ اس طرح ایک ملک کے بجاے اب عراقی تیل تین قوتوں کے قبضۂ اختیار میں ہے۔ تین نسبتاً کمزور مالکوں کے ساتھ سودے بازی میں عالمی قوتوں کو آسانی ہوگی۔
عراقیوں کو باہم قتل و غارت کی دلدل میں اتارنے کا سب سے مہلک ہتھیار شیعہ سنی کی آگ بھڑکانا تھا۔ یہ درست ہے کہ اس سلسلے میں طرفین نے کوئی کسر نہیں چھوڑی، لیکن حکومت و اقتدار میں ہونے کے باعث شیعہ آبادی کا پلّہ بھاری رہا۔ اس آگ کو بجھانے کے لیے اسلامی جمہوریہ ایران جیسے پڑوسی ملک کا کردار بہت مؤثر ہوسکتا تھا، لیکن بدقسمتی سے نہ صرف یہ کہ ایسا نہیںہوسکا بلکہ عراقی عوام نے ہر قدم پر محسوس کیا کہ ایران جیسے اَہم ملک کا تمام تر و زن و نفوذ، ان کے بجائے متعصب عراقی حکومت کے پلڑے میں ہے۔ کہنے والوں نے تو اس ضمن میں بہت ساری دستاویزات و حقائق پیش کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ عراق کی اصل حکومت تہران سے چلائی جارہی ہے۔
انتہائی مسموم ابلاغی یلغار اور گہرے احساس محرومی کی وجہ سے عراق کے اہل سنت اکثریتی علاقوں میں گذشتہ تقریباً ڈیڑھ برس سے پُرامن عوامی احتجاج جاری تھا۔ بڑے چھوٹے شہروں میں کسی ایک جگہ مشترک نماز جمعہ ادا کی جاتی اور پھر دھرنوں، ریلیوں کے ذریعے مطالبہ کیا جاتا کہ ’’اہلسنت آبادی کو جینے کا حق دیا جائے‘‘۔ ادھر بغداد سمیت مختلف عراقی شہروں میں بم دھماکوں، اندھا دھند فائرنگ اور آتش زنی کے واقعات کے ذریعے وسیع پیمانے پر شیعہ اور سنی آبادی کے قتل عام میں تیزی پیدا کردی گئی۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق صرف حالیہ ماہ جون کے دوران، عراق میں ۲ہزار سے زائد شہری قتل یا زخمی ہوئے (اصل تعداد یقینا زیادہ ہے)۔ اس پوری فضا میں اچانک اہل سنت اکثریتی علاقوں میں بعض مسلح گروہ اٹھے اور انھوں نے وہاں سے عراقی افواج کو بھگاتے ہوئے وسیع و عریض علاقوں پر اپنی گرفت مضبوط کرلی۔
عالمی ذرائع ابلاغ نے اس پوری کارروائی کو ’داعش‘ نامی تنظیم سے منسوب کیا ہے۔ لیکن درحقیقت یہ اس علاقے کی پوری آبادی کا مشترک ردعمل ہے، جس کا سامنا کرنا نوری المالکی انتظامیہ کے بس میںنہیں۔ اگرچہ اس پوری کارروائی میں نمایاں حصہ ’داعش‘ کا دکھائی دیتا ہے، لیکن کرد صدر مسعود بارزانی کے بقول اس میں داعش کا حصہ ۱۰فی صد سے زیادہ نہیںہے۔ صدام فوج کی سابق افواج، مسلح قبائلی لشکر اور عام آبادی سب ان واقعات میں شریک ہیں۔ عراقی فوج کو نکالنے کے بعد پہلے ہی دن صدام حسین کی تصاویر اُٹھا کر مظاہرے، اور پھر صدام کو سزاے موت سنانے والے جج کو پھانسی ’داعش‘ کی نہیں انھی دیگر گروہوں کی سرگرمیاں ہیں۔باقی تمام، عناصر کو چھوڑ کر صرف ’داعش‘ کا نام نمایاں کرنے کے اپنے مقاصد ہیں۔
الدولۃ الإسلامیہ فی العراق و الشام، (داع ش) یا Islamic State in Iraq & Syria (ISIS) کی حقیقت ایک معما ہے۔ یہ مسلح تنظیم گذشتہ کئی ماہ سے شام میں کارروائیاں کررہی ہے۔ اسے آغاز میں وہاں کی ’القاعدہ‘ کا نام دیا گیا۔ لیکن خود ایمن الظواہری سمیت القاعدہ قیادت نے اس سے اپنی برأت کا اعلان کردیا۔ اب اس کے بارے میں مختلف متضاد دعوے کیے جارہے ہیں۔ اس کے پیچھے سعودی عرب، امریکا، ترکی حتیٰ کہ خود ایران کا ہاتھ ہونے کے دلائل دیے جاتے ہیں۔ باعث حیرت امر یہ ہے کہ ’داعش‘ کو سب ممالک اپنا دشمن اور خطے کے لیے بڑا خطرہ قرار بھی دیتے ہیں، لیکن اس کی کارروائیوں اور کامیابیوں پر ان کی غیر علانیہ طمانیت بھی چھپائے نہیں چھپتی۔ ’داعش‘ اگر عراق میں نوری المالکی فورسز سے برسرِ پیکار نظر آتی ہے، تو شام میں نوری المالکی کے ہم زاد بشار الاسد کے مخالف مزاحمتی گروہوں سے بھی جنگ کررہی ہے۔
اس غبار آلود منظر کا سب سے خطرناک پہلو عراق ہی نہیں پورے خطے میں سنی شیعہ تقسیم کا گہرا اور سنگین تر ہوجانا ہے۔ تعصب فرقہ وارانہ ہو یا نسلی، علاقائی اور لسانی، رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بدبودار مُردار قرار دیتے ہوئے، اس سے دور رہنے کا حکم دیا ہے۔ الحمدللہ، عالمی اسلامی تحریکات ان سارے بتوں کی پرستش سے پاک ہیں۔ یہاں بیان کردہ حقائق بھی صرف تصویر کو مکمل طور پر دیکھ سکنے کے مقصد سے پیش کیے جارہے ہیں۔
اسی بنیاد پر الاخوان المسلمون سمیت اکثر تحریکات نے اس امر پر گہری تشویش ظاہر کی ہے کہ حالیہ صورت حال کے بعد عراق کے اعلیٰ ترین شیعہ مرجع آیت اللہ سیستانی کی طرف سے شیعہ آبادی کے لیے نفیر عام نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ وزیراعظم نوری المالکی نے بھی غالب شیعہ اکثریت رکھنے والی عراقی فوج کے ہزاروں افسروں اور سپاہیوں کو فارغ کرتے ہوئے ’متبادل فوج‘ کے نام سے فرقہ ورانہ ملیشیا تیار کرکے دشمن ہی کاکام آسان کیا ہے۔ فریقین کو یہ حقیقت بخوبی معلوم بھی ہے اور یاد بھی رکھنا چاہیے کہ دونوں ایک دوسرے کو صفحہء ہستی سے نہیں مٹا سکتے، لیکن اس کے باوجود کوشش اور اعلانات دونوں کے یہی ہیں۔
ٹھیک ۱۰۰ برس قبل اور آج رُونما ہونے والے واقعات پر غور کریں تو حیرت انگیز مماثلت دکھائی دیتی ہے۔ دشمن کی چالیں اور ہتھکنڈے بھی وہی ہیں اور اپنوں کی حماقتیں اور جرائم بھی وہی۔ تب بھی مغربی استعمار کا ہدف عالم اسلام کو تقسیم و تباہ کرنا تھا۔ تب بھی اس کے اصل آلہ کار، حرص اقتدار کے شکار حکمران تھے، اب بھی اس کا ہدف اور آلۂ کار یکساں ہے۔ رابطے کے تیز رفتار وسائل، ذرائع ابلاغ کے مہیب جال اور ہتھیاروں کے مزید مہلک پن نے اسے اور اس کے غلاموں کو مزید غرور و سفاکیت میں مبتلا کردیا ہے۔ گویا تاریکی اور شدائد عروج کو جاپہنچے ہیں۔
کامیابی کا حتمی تعین کرنے والی کائنات کی سب سے سچی اوراللہ کی آخری کتاب کا مطالعہ کریں تو گاہے حیرت ہونے لگتی ہے،ظلم و ستم اور عذاب و آزمایش کے سنگین ترین لمحات ہی نصرت و نجات کا آغاز ثابت ہوتے ہیں۔ ابتلا کے عروج پر بھی خالق نے اپنے سچے پیروکاروں کو اُمید اور عطا کی ہی بشارت دی ہے۔ تنگی اور عسر کے بعد نہیں، تنگی اور عسر کے ساتھ لگی ہوئی یسراور آسانی کی نوید سنائی ہے۔ انسان کو اس نے چونکہ کمزور (ضعیفًا) اور گھبرا جانے والا (ھلوعا) بنایا، اس لیے ایک بار نہیں، دو بار فرمایا: فَاِِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا o اِِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا o (الم نشرح ۹۴:۵-۶ )’’پس حقیقت یہ ہے کہ تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے۔ بے شک تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے‘‘۔اس کے عملی مشاہدے قرآن کریم میں جابجا دکھائی دیتے ہیں:
پوری سیرت انبیاء اور تاریخ انسانی ایسی ہی مثالوں سے معمور ہے۔ یہی نہیں خالق نے پورے کارخانۂ قدرت میں بھی اسی سنت کو نافذ کیا ہوا ہے۔ تاریکی عروج پر پہنچتی ہے تو سپیدۂ سحر طلوع ہونے لگتا ہے۔ حبس انتہا کو پہنچے، تو ابر کرم جھوم کے آتا ہے، کٹھالی میں جتنا کھولایا جائے، آلایشوں سے اتنی ہی نجات ملتی ہے۔
آج بھی رحمت خداوندی کے علاوہ سب در بند دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے میں اُمید کی کرن تعصبات سے پاک، بے لوث و مخلص اہل دین اور انھی اسلامی تحریکات کو بننا ہے، جنھوں نے گذشتہ صدی میں تجدید و احیاے دین کا فریضہ انجام دیا۔ گذشتہ صدی کے آغاز میں ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جاتی تھی، آج وہ لاکھوں میں ہیں۔حلقۂ یاراں ہو، یعنی اپنے ہم وطن مسلمانوں میں کام کرنا ہو تو یہ تحریکات ہزاروں شہدا اور اسیر پیش کرکے بھی پُرامن رہتی ہیں۔ دعوت و تربیت اور پُرامن سرگرمیوں پر اکتفا و انحصار کرتی ہیں۔ لیکن کشمیر، فلسطین، افغانستان اور عراق کی طرح استعمار قابض ہوجائے، تو جہاد اور فداکاری کی ناقابل یقین تاریخ رقم کردیتی ہیں۔ حقائق اور خود اغیار کی اپنی دستاویزات ثابت کررہی ہیں کہ آیندہ ۱۰ سے ۱۵ برس انتہائی اہم ہیں۔ عالمِ اسلام کو تقسیم کرنے کا ایک اہم ہدف اسرائیلی ناجائز ریاست کا دفاع قرار دیا جاتا ہے۔ اب خود اسرائیلی دانش ور سوال اُٹھا رہے ہیں کہ کیا ہم آیندہ عشرے کے اختتام تک اپنا وجود باقی رکھ سکیں گے؟غیب کا علم صرف پروردگار عالم کو ہے، لیکن آزمایشیں جتنی بڑھتی جاتی ہیں، ألَا اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ کی ملکوتی ندا بلند تر ہوتی جارہی ہے۔
’’ایف ایس سی کے امتحان میں قومی سطح پر میری چھٹی پوزیشن تھی۔ ایم بی بی ایس کے امتحان میں ہر سال میں ملک بھر میں اول آتا رہا۔ پھر میرا شمار اپنے شعبے میں ملک کے قابل ترین ڈاکٹروں میں ہونے لگا۔ جامعہ الازہر کے میڈیکل کالج میں تدریس کے فرائض بھی سرانجام دیے۔ میں نے اپنی نگرانی میں ایک کلینک قائم کیا جو ملک کے بہترین طبی مراکز میں شمار ہوتا تھا۔ پھر دو ماہ کے عرصے میں مجھ پر ملک کے ۲۵؍ اضلاع میں ۲۵ خطرناک مقدمات قائم کردیے گئے۔ مقدمات دیکھ کر لگتا ہے کہ میں ملک کا ایک معروف اور قابل ڈاکٹر نہیں کسی خطرناک مافیا کا سرغنہ ہوں .... آپ لوگوں نے میرا کلینک جلا کر راکھ کردیا… کالج میں زیر تعلیم میری بیٹی اسما کو قتل کردیا .. میرے بیٹے کو جیل بھیج دیا ... میری اہلیہ کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں...... لیکن جج صاحب! آپ کا خیال ہے کہ میں عدالت کے کٹہرے میں قیدیوں کا لباس پہنے اپنے دفاع میں کوئی دلیل پیش کروں گا..... رب ذوالجلال کی قسم! میرے لیے پھانسی کے پھندے پر جھول جانا یا ان تمام الزامات سے بری الذمہ ہوجانا یکساں حیثیت رکھتا ہے ..... جج صاحب ! میں آج یہاں صرف اس لیے کھڑا ہوں کہ امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آیندہ نسلیں تک جان لیں کہ کون حق پر تھا اور اہل حق کے ساتھ کھڑا تھا، اور کون باطل پر تھا اور اہل باطل کی صف میں کھڑا تھا‘‘۔
یہ الفاظ اخوان کے مرکزی رہنما ڈاکٹر محمد البلتاجی کے ہیں جو انھوں نے چند روز قبل جیل سے ایک عدالتی پنجرے میں لائے جانے پر جج کے سامنے کھڑے ہوکر کہے۔ ڈاکٹر بلتاجی کو معلوم تھا کہ یہی عدالتیں چند منٹ کی کارروائیوں کے بعد سیکڑوں افراد کو سزاے موت سنا رہی ہیں۔ خودان کے خلاف کسی بھی وقت اور کوئی بھی فیصلہ آسکتا ہے۔ لیکن لگتا تھا کہ جج بھی سکتے میں آگیا ہو ... ہر دیکھنے اور سننے والے نے تبصرہ کیا: ’’لگتا ہے جج کٹہرے میں کھڑے ہیں اور ملزم ان پر فرد جرم عائد کررہا ہے‘‘۔یہ اپنی نوعیت کا کوئی منفرد واقعہ نہیں۔ اخوان کے تمام گرفتار شدگان موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسلسل اسی جرأت و عزیمت کا ثبوت دے رہے ہیں۔ ۱۱ ماہ کا عرصہ گزر گیا، خونی فوجی انقلاب مسلسل خوں ریزی کررہا ہے، لیکن اس پورے عرصے کا کوئی ایک دن... جی ہاں کوئی ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا کہ جب ملک کے طول و عرض میں مصری عوام سراپا احتجاج نہ ہوں۔ ۸ ہزار سے زائد شہدا اور ۲۳ ہزار سے زائد گرفتار شدگان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ابھی جمعہ ۲۳ مئی کو پانچ مزید بے گناہ شہید ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے جمعے کو بھی آٹھ افراد نے جام شہادت نوش کیا۔ دوران ہفتہ بھی شہدا کا قافلہ مسلسل گامزن رہتا ہے۔
حیرت ناک بات یہ ہے کہ شہدا کی اس روز بروز بڑھتی ہوئی تعداد سے عوام میں خوف یا مایوسی نہیں، ان کے عزم و استقامت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ذرا عین الشمس یونی ورسٹی کے طالب علم محمد ایمن کا پیغام پڑھیے، جو اس کے ٹویٹر اکاؤنٹ پر اس کا آخری پیغام ثابت ہوا۔ اپنے نفس کو مخاطب کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’اللہ کی قسم! میں تمھیں جنت کی طرف لے جا کر رہوں گا۔ کیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کا خیال ہے کہ وہ اکیلے اکیلے جنت میں چلے جائیں گے..؟ ہرگز نہیں ... ہم ان کے شانہ بشانہ جنت کے دروازوں سے داخل ہوں گے تاکہ انھیں بھی معلوم ہوجائے کہ انھوں نے اپنے پیچھے حقیقی مردانِ کار چھوڑے ہیں‘‘۔ ۷مئی کی رات ۵۵:۸ پر اس کا یہ پیغام نشر ہوا اور کچھ ہی دیر میں وہ شہدا کی صف میں شامل ہوگیا۔ تصویر دیکھیں تو مصریوں کا روایتی جمال آنکھوں اور چہرے سے واضح چھلک رہا ہے۔ حسن اتفاق دیکھیے کہ ۲۳مئی کو پھر ایسا ہی واقعہ سامنے آتا ہے۔ یونی ورسٹی کا طالب علم ابراہیم عبد الحمید ٹویٹر پر اپنا پیغام لکھتا ہے: النصر الحقیقی ھو الشہادۃ’’حقیقی فتح، شہادت ہے‘‘ ،اور پھر یہی آخری پیغام چہرے پر سجائے رب کے دربار میں حاضر ہوجاتا ہے۔ اِکا دکا نہیں ایسے واقعات مسلسل ہورہے ہیں اور اللہ کے عطا کردہ بنیادی انسانی حقوق کی بحالی کے لیے جاری، جنرل سیسی مخالف تحریک کی آب و تاب میں مسلسل اضافہ کررہے ہیں۔
دوسری جانب دیکھیں تو جلاد سیسی اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہے۔ صرف قتل و غارت ہی نہیں اب وہ خود کو منتخب صدر کی حیثیت سے ملک و قوم پر تھوپنا چاہتا ہے۔ جنرل سیسی نے ۳۰ جون ۲۰۱۳ء کے خونی انقلاب کے بعد درجنوں بار کہا کہ ’’وہ اقتدار نہیں چاہتے‘‘، ’’صدارت کا اُمیدوار نہیں ہوں‘‘، ’’فوج سیاست سے بالاتر رہے گی‘‘ لیکن پھر ’’عوام کے پُرزور اصرار‘‘ پر انھوں نے فوج کی سربراہی اپنے ایک قریبی رشتے دار کے سپرد کرتے ہوئے وردی اتاری اور صدارتی اُمیدوار بن بیٹھے۔صدر جنرل سیسی کی مہم شروع ہوتے ہی، عوام کی طرف سے ایسی نفرت کا اظہار کیا گیا کہ کوئی صاحب ِغیرت ہوتا، تو اس پورے کھیل کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دیتا۔ عوام نے ایک ایسا ناقابل بیان نعرہ ایجاد کیا کہ جس میں نفرت کی شدت بھی تھی اور استہزا کی انتہا بھی۔ ’’انتخبوا...... کو منتخب کرو‘‘کا یہ نعرہ اتنا معروف ہوا کہ اس میں سے گالی نما لفظ نکال کر بھی اگر کہیں صرف اتنا ہی لکھا ہوتا ہے کہ ’’...... کو منتخب کرو‘‘ تو یہ بدنما لفظ بھی خود ہی ادا سمجھا جاتا ہے۔ مصر کی آبادی ۸ کروڑ ہے اور اس میں سے یقینا ایک حصہ بالخصوص مسیحی آبادی سیسی کا ساتھ دے رہی ہے، لیکن غیر مصری عوام نے بھی یہ نعرہ ایک دوسرے سے شیئر کیا۔ عالمی اعداد و شمار کے مطابق ’’..... کو ووٹ دو‘‘ کا یہ نعرہ سوشل میڈیا پر ساڑھے ۹ کروڑ سے زائد افراد نے ارسال کیا۔
انتخابی ڈرامے کو حقیقت ثابت کرنے کے لیے متعدد صدارتی اُمیدوار میدان میں اتارنے کے لیے کئی جتن کیے گئے۔ لیکن جہاں صدر محمد مرسی کے انتخاب کے وقت ۱۳؍ اہم قومی شخصیات میدان میں تھیں، حالیہ انتخابی ڈرامے میں سو پاپڑبیلنے کے بعد بھی صرف ایک اُمیدوار حمدِین صبَّاحی کو میدان میں لایا جاسکا۔ حمدِین صبَّاحی گذشتہ اصل انتخاب میں بھی صدارتی اُمیدوار تھے اور بائیں بازو کے ترجمان سمجھے جاتے تھے۔ انتخاب کے دوسرے مرحلے میں انھوں نے بھی فوج کے اُمیدوار جنرل شفیق کی بھرپور مدد کی تھی۔ خود جنرل شفیق جو حسنی مبارک کے زوال کے بعد سے آج تک ابوظبی میں مقیم ہیں، کی طرف سے بھی نہ صرف صدارتی اُمیدوار بننے سے معذرت کی گئی بلکہ انھوں نے جنرل سیسی کی مخالفت کرتے ہوئے بیانات بھی دیے۔ ان کا کہنا ہے: ’’اس نے فوج کو متنازع بنادیا ہے‘‘ اور ’’میں ایسے انتخاب میں کیوں حصہ لوں کہ جس کے نتائج پہلے سے معلوم ہیں‘‘۔
خود جنرل سیسی نے بھی ایک ایسی انوکھی انتخابی مہم چلائی ہے کہ خود مسلسل روپوش ہیں۔ پوری مہم کے دوران میں ایک بار بھی عوام کے سامنے نہیں آئے۔ ایک بھی ریلی، جلسے یا اجتماع سے خطاب نہیں کیا۔ ہاں، ذرائع ابلاغ اور اشتہار بازی کے ذریعے ہر طرف دکھائی دیتے ہیں۔ پوری انتخابی مہم کے دوران ایک ٹی.وی چینل کے ذریعے اپنے دو پسندیدہ صحافیوں کو چار گھنٹے طویل انٹرویو دیا۔ صحافیوں کے اس جوڑے میں سے بھی جب مرد اینکر پرسن نے تھوڑا سا تیکھا سوال کرنے کی کوشش کی، تو جنرل صاحب ہتھے سے اکھڑ گئے۔ کہنے لگے کہ ’’میں تمھیں یہ سوال کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دے سکتا‘‘۔ جنرل سیسی کے ۱۱ ماہ کے دور اقتدار میں دو درجن کے قریب صحافیوں کا قتل دیکھ لینے والا یہ ’چہیتا‘ صحافی بھی فوراً چاپلوسانہ دائرے میں واپس چلا گیا۔ جنرل سیسی کو عوام میں اپنی ’مقبولیت‘ کا ہی ادراک نہیں، وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ عافیت زیر زمین چھپے رہنے ہی میں ہے۔ خود یہ بیان بھی دے چکے ہیں کہ ’’مجھے بھی انور سادات کی طرح قتل کیا جاسکتا ہے‘‘۔ اس کے باوجود بھی غرور و تکبر کا یہ عالم ہے کہ اسی چار گھنٹے کے اکلوتے انٹرویو میں دعویٰ کرڈالا کہ ’’میں اخوان کو صفحۂ ہستی سے مٹا ڈالوں گا‘‘.... ’’میں انھیں جڑ سے اُکھاڑ پھینکوں گا‘‘۔ یہ متکبرانہ، فرعونی دھمکیاں سننے والے اکثر لوگ بے اختیار کہہ اُٹھے کہ جنرل سیسی نے خود اپنے خلاف حجت تمام کر ڈالی۔ رہیں دھمکیاں تو فرعون نے بھی اپنے اقتدار کے منکر اہلِ ایمان سے کہا تھا ’’میں تمھیں پھانسی چڑھا دوں گا‘‘۔ ’’اُلٹی سمت سے تمھارے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالوں گا‘‘۔ اہل ایمان کا جواب اس وقت بھی یہی تھا اور آج بھی یہی کہ فَاقْضِ مَآ اَنْتَ قَاضٍ اِنَّمَا تَقْضِیْ ھٰذِہِ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا (طٰہٰ ۲۰: ۷۲) ’’تم جو فیصلہ کرنا چاہو کرلو، یہ تو اسی حیات دنیا کی فیصلے ہیں‘‘۔ پھر رب ذو الجلال نے ابدی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرمایا:اِنَّہٗ مَنْ یَّاْتِ رَبَّہٗ مُجْرِمًا فَاِنَّ لَہٗ جَھَنَّمَ لَا یَمُوْتُ فِیْھَا وَ لَا یَحْیٰی(طٰہٰ ۲۰: ۷۴) ’’ جو اپنے رب کے حضور مجرم بن کر آئے گا، اس کے لیے ایسی جہنم ہے جس میں نہ اسے موت آئے گی اور نہ وہ جی ہی پائے گا‘‘۔
جنرل سیسی اور مصری فوج کی طرف سے حالیہ انتخابی مہم کے دوران عجیب وغریب شعبدے بھی سامنے آئے۔ مقصد تو تھا سیسی اور فوج کا تاثر بہتر بنانا، لیکن بالآخر یہ انھی پر اوندھے آن پڑے۔ مثلاً کہا گیا: ـ’’فوج کے تحقیقی یونٹ نے ایڈز اور ہیپاٹائیٹس سی کا علاج دریافت کر لیا ہے‘‘ لیکن جب اس کی تفصیل سامنے آئی تو ایسا مضحکہ خیز دعویٰ کرنے والے خود ہی جھینپ کر رہ گئے۔ عذابِ الٰہی کا درجہ رکھنے والی اس خوف ناک بیماری کا علاج یہ بتایا گیا کہ ’’بیمار کے کچھ خلیے حاصل کر کے، کباب میں رکھ کر خود اسی بیمار کو کھلا دیے جائیں گے اور زیادہ سے زیادہ۱۶روز میں ایڈز / ہیپاٹائیٹس سی سے نجات حاصل ہوجائے گی۔
ہر مسئلے کا حل فراہم کرنے والے جنرل سیسی نے بدسے بدتر ہوتے بجلی کے بحران کا بھی یہ نادر حل دریافت کیا کہ پورے ملک سے پرانے بلب اور ٹیوب لائٹیں تبدیل کر کے نئی لگادی جائیں‘‘۔ صحافی نے حیرت سے ان کا جملہ دہرایا تو جنرل صاحب گویا ہوئے: ’’یہ علمی باتیں ہیں صرف تجربے سے سمجھ میں آسکتی ہیں‘‘۔ اپنی انتخابی مہم میں سیسی صاحب نے اس عبقری علاج پر ایک اور ردّا چڑھاتے ہوئے ۳کروڑ’ انرجی سیور ‘بلب مفت تقسیم کیے ہیں۔ ظاہر ہے قومی مفاد میں اس کے لیے درکار کروڑوں ڈالر قومی خزانے ہی سے حاصل کیے گئے۔ انتخابی مہم تو محض ایک اتفاق ہے۔
قتل وغارت ، خون کے دریا، اقتدار کا فرعونی تصوراور اجتماعی عقل و شعور کا مذاق اڑانے کے باوجود صدارتی انتخابات کا عمل تیزی سے جاری ہے۔ تادم تحریر بیرون ملک مقیم مصری ووٹروں نے ووٹ ڈال دیے ہیںاور دیگ کا یہی دانہ انتخابی نتائج کی تفصیل بتا رہا ہے۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق بیرون ملک مقیم مصری ووٹروں کی ۴ فی صد تعداد نے ووٹ ڈالا (صدر محمد مرسی کے انتخاب میں یہ تناسب ۴۴ فی صد تھا)۔ ان ۴ فی صد میں سے ۵ء۹۵فی صد ووٹروں نے جنرل سیسی کو صدر منتخب کیا۔ اب سارا ابلاغیاتی زور ۴ فی صد پر نہیں ۵ء۹۵فی صد پر ہے۔ اپنے پیش رو مصری فوجی صدور کی طرح جنرل سیسی بھی ’بھاری اکثریت‘ سے صدر بننے کا دعویٰ کرے گا، لیکن مصری عوام سے پہلے خود جیتنے والے کا دل گواہی دے رہا ہوگا کہ یہ صرف ایک فریب ہے، دھوکا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ مصری عوام کی غالب اکثریت نے اسمبلی، سینیٹ اور صدارتی انتخابات میں اخوان اور صدر محمد مرسی کو ہی منتخب کیا ہے۔
جنرل سیسی کی خود فریبی سے بھی بڑا سانحہ ہے کہ جمہوریت اور حقوقِ انسانی کی علَم بردار عالمی برادری بھی اس دھوکادہی میں اس کا ساتھ دے رہی ہے۔ وہی امریکی انتظامیہ جو تھائی لینڈ میں تازہ فوجی انقلاب کی مذمت کرتے ہوئے اسے مسترد کر رہی ہے، جنرل سیسی کی تمام قتل و غارت پر آنکھیں موندے، اس کے فراڈ انتخابات کو تسلیم کررہی ہے۔ جمعرات ۲۲مئی کو جب وزیرخارجہ جان کیری نے سخت بیان دیا کہ ’’انھیں تھائی فوجی انقلاب سے سخت مایوسی ہوئی ہے اور اس فوجی انقلاب کا کوئی جواز نہیں‘‘ تو خود امریکا میں یہ سوال اُٹھایا گیا کہ تھائی اور مصری فوجی انقلاب میں کیا جوہری فرق ہے؟ واشنگٹن پوسٹ جیسے اخبار نے بھی سوال اُٹھایا کہ: ’’جس کیری نے اپنے دورئہ پاکستان کے دوران مصری خونیں فوجی انقلاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ لاکھوں مصری عوام فوجی مداخلت چاہتے تھے۔ آج مصر میں فوجی اقتدار نہیں حقیقتاً ایک سول حکومت ہے جو ملک میں جمہوریت بحال کرنے کے اقدامات کر رہی ہے‘‘، وہ کیری آج کس منہ سے تھائی فوجی انقلاب کی مخالفت کر رہا ہے؟ اس ساری تنقید کے باوجود امریکا سمیت اکثر عالمی طاقتیں اور ان کے گماشتے سیسی اقتدار کو منتخب حکومت قرار دینے کے لیے زمین آسمان کے قلابے ملا دیں گے۔
’حمام کے سب ننگوں‘ کی طرح اسی علاقائی انتخابی، عسکری، انقلابی ماحول میں شام کا جلاد حکمران بشارالاسد بھی ایک نام نہاد انتخاب کروا رہا ہے۔ ماہِ جون ہی میں وہ بھی ایک بار پھر منتخب صدر ہونے کا دعویٰ دہرائے گا اور بظاہر اس کی مخالفت کرنے والے ممالک بھی اس کا اقتدار اسی طرح جاری و ساری رکھنے سے اتفاق کریں گے۔
مصر کے مغربی پڑوسی لیبیا میں بھی ایک سابق فوجی جنرل خلیفہ حفتر نے ملک کے دوسرے بڑے شہر بنغازی سے فوجی انقلاب کا آغاز کردیا ہے۔ جنرل مفتر کرنل قذافی کا ساتھی تھا۔ شاہ ادریس کے خلاف قذافی انقلاب میں وہ اس کا ساتھی تھا۔ پھر قذافی سے اختلافات ہوگئے تو امریکا فرار ہوگیا۔ امریکی ریاست ورجینیا میں طویل عرصہ مقیم رہا اور اب امریکی شہریت رکھتا ہے۔ قذافی کے خاتمے اور پھر طویل ہوتی ہوئی قبائلی چپقلش کے بعد اچانک جنرل مفتر کا ظہور ہوا ہے۔ لیبیا میں متعین خاتون امریکی سفیر نے اگرچہ اس کے انقلاب اور بغاوت سے لاتعلقی ظاہر کی ہے لیکن اس طرح کہ سب اس تعلق کو جان بھی لیں۔ مفتر نے بھی عالمی برادری اور اس کی لے پالک صہیونی ریاست کو پیغام دینے کے لیے کہا ہے: ’’ملک سے اسلام پسندوں بالخصوص اخوان کا خاتمہ کردوں گا‘‘۔
اخوان کے زیرحراست مرشدعام ڈاکٹر محمد بدیع نے ایک عدالتی حاضری کے دوران بیان دیتے ہوئے عالمی دوغلے پن کا اصل سبب بیان کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ۲۰۱۳ء میں ایک اسرائیلی فکری مرکز (تھنک ٹینک) نے اپنی مفصل رپورٹ میں کہا تھا: ’’الاخوان المسلمون اسرائیل کے سخت ترین دشمن ہیں‘‘۔ یہی وہ ہمارا بنیادی جرم ہے جس کی سزا دی جارہی ہے۔ لیکن ہم اسے اپنا بنیادی اعزاز سمجھتے ہیں۔ ہم وہ اکلوتی جماعت ہیں کہ جس نے ۱۹۴۸ء میں قبلۂ اوّل پر قبضہ کرنے والی صہیونی افواج کے خلاف جہاد کیا۔ لیکن مرشدعام نے ساتھ ہی یہ واضح کیا کہ آزادیِ مسجد اقصیٰ کے اس مقدس جہاد کے علاوہ ہم نے نہ کبھی کسی کے خلاف قوت استعمال کی ہے اور نہ کبھی کریں گے۔ انھوں نے کہا کہ ایک آزاد ملک میں قوت کا استعمال کسی بھی طور جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اخوان کی ۸۶سالہ تاریخ میں ہم پر مسلسل ظلم ڈھائے گئے، ہمارے کارکنان کو دی جانے والی ساری سزائوں کو جمع کریں تو یہ ۱۵ہزار سال کی مدت بنتی ہے لیکن اس سب کچھ کے باوجود ہم نے پُرامن جدوجہد جاری رکھی ہے اور جاری رکھیں گے۔ انھوں نے بتایا کہ اس وقت اخوان کے ۲۳ہزار قیدیوں میں ۲۵۷۴ انجینیر ہیں، ۱۲۳۲ ڈاکٹر ہیں اور ۹۲۲۱ طلبہ ہیں، جن میں سے ۵۳۴۲ کا تعلق جامعہ الازہر کے مختلف کالجوں سے ہے۔ حقوقِ نسواں کے سب دعوے دار جانتے ہیں کہ ان میں سے ۷۰۴ خواتین اور ۶۸۹بچوں پر کیا ظلم ڈھایا جا رہا ہے۔ لیکن کسی کو یہ ظلم دکھائی نہیں دیتا۔
خود ۷۱ سالہ مرشد عام جن کا شمار عالمِ عرب کے ۱۰۰ بہترین ڈاکٹروں میں ہوتا ہے، بھی طویل عرصہ جیلوں میں گزار چکے ہیں۔ اس وقت بھی انھیں سزاے موت سنائی جاچکی ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود انھوں نے باصرار کہا کہ ’’ہم کسی صورت تشدد کا راستہ اختیار نہیں کریں گے۔ ٹھیک ہے ہمارے ۲۸دفاتر جلاکر اور ہزاروں کارکنان کو شہید کرکے الزام بھی ہمارے سر لگائے جارہے ہیں لیکن ہم وہ اہلِ ایمان ہیں جنھیں یقین ہے کہ اصل عدالت اللہ کی عدالت ہے اور اصل فیصلہ بھی وہیں ہونا ہے۔ ہمیں کامل یقین ہے کہ رب ذوالجلال دنیا میں بھی یقینا انصاف کرے گا اور آخرت میں بھی‘‘۔
جنرل سیسی کے مظالم، انتخابی ڈرامے اور مرشدعام کے عدالتی بیان کا مطالعہ کرتے ہوئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بھی بار بار یاد آرہی ہے کہ مَنْ أَعَانَ عَلٰی قَتْلِ مُسْلِمٍ بِشَطْرِ کَلِمْۃٍ لَقِیَ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ مَکْتُوْبٌ بَیْنَ عَیْنَیْہِ : آیِسٌ مِنْ رَحْمَۃِ اللّٰہِ، ’’جس نے کسی مسلمان کا قتل کرنے میں آدھی زبان سے بھی قاتل کی مدد کی، وہ قیامت کے روز اس عالم میں رب العزت سے ملے گا کہ اس کی آنکھوں کے درمیان (پیشانی پر) لکھا ہوگا: اپنے رب کی رحمت سے مایوس‘‘۔
نائیجیریا مسلم اکثریت کا ملک ہے۔ یہاں وقفے وقفے سے دھماکوں، اغوااور دیگر جرائم کی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں۔ ان کارروائیوں کا شکار بے گناہ شہری بنتے ہیں۔ جان سے ہاتھ دھونے والے یہ افراد مسلم بھی ہوسکتے ہیں اور عیسائی بھی۔ گذشتہ اپریل میں دارالحکومت ابوجا کے نواح میں دھماکوں کا سلسلہ جاری رہا جس میں ۲۰۰ سے زائد شہری لقمۂ اجل بن گئے۔ اس کے بعد ۲۲۳ طالبات کا اغوا عمل میں آیا جس کی ذمہ داری وہاں کی تشدد پسند تنظیم ’بوکوحرام‘ نے قبول کی ہے۔
’بوکوحرام‘ کا مفہوم ’ہوسا‘ قبائل کی زبان میں ہے:’’مغربی تعلیم حرام ہے‘‘۔ یہ تنظیم اپنی سرگرمیاں ملک کے شمال میں جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ اسلامی شریعت کے نفاذ کی دعوے دار ہے۔ قانونی طور پر یہ تنظیم اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کا حق کھو بیٹھی ہے۔ ۲۰۰۲ء میں نائیجیریا کے شمال میں بورنو کے علاقے میں ایک دینی مدرس اور عالم محمد یوسف کی قیادت میں یہ تنظیم قائم ہوئی۔ ’بوکوحرام‘ ایک پُرامن اور اصلاحی تنظیم تھی۔ اس کا مطالبہ ملک پر مسلط صلیبی حکومت کی مغرب زدگی سے نجات حاصل کرنا تھا۔ مگر افسوس کہ اس کے قائدین نے دین و سیاست کا درست فہم نہ رکھنے کے باعث مسلمانوں کے لیے بہت سی مشکلات اور پریشانیاں کھڑی کردیں۔ اس طرح انھوں نے صلیبی حکومت کو نائیجیریا کی اسلامی بستیوں اور شہروں میں قتل و غارت کے درجنوں مواقع فراہم کردیے۔ ہزاروں لوگ موت کی نیند سلا دیے گئے اور ہزاروں اسیر بنا کر پسِ دیوارِ زنداں ڈال دیے گئے۔
تنظیم کے قیام کے کچھ عرصے بعد یہ خبریں ملنے لگیں کہ بعض مغربی ممالک اس تنظیم کو اسلحہ اور مالی وسائل فراہم کر رہے ہیں۔ تنظیم کا مقصد یہ تھا کہ یہ تحریک چھوٹے چھوٹے گروپوں کے بجاے ایک بڑی اور مؤثر تنظیم بن جائے۔ یہ تنظیم دراصل اُن طلبہ نے تشکیل دی تھی جو مغربی نظامِ تعلیم کو اختیار کرنے سے انکاری تھے۔ ان کے ساتھ بعض نام نہاد بہی خواہ بھی بیرونی ممالک سے ساتھ مل گئے تھے۔ تنظیم نے اپنی پُرامن شناخت کو اُس وقت بالاے طاق رکھ دیا جب ۲۰۰۹ء میں اس کے رہنما محمد یوسف کو ملک کی امن فورسز نے ایک مسلح تصادم میں گرفتار کرلیا اور بعدازاں قتل کرکے میڈیا پر اعلان کیا کہ حکومت نے امن فورسز کے ذریعے ’بوکوحرام‘ کو مکمل طور پر ختم کردیا ہے۔
’بوکوحرام‘ کا دنیا کی مشہور ریڈیکل تنظیموں کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں، خصوصاً القاعدہ کے ساتھ تو کبھی کوئی رابطے دریافت نہیں ہوسکے۔ دراصل معاملہ بین الاقوامی طاقتوں کے مفادات اور نائیجیریا کے اندر تیل کی دولت سے وابستہ ہے۔ ۲۰۰۴ء میں ترک صحافی ابراہیم قرہ گل نے اس موضوع پر ’’پینٹاگان کا خفیہ منصوبہ ___ عنقریب کہاں کہاں تصادم رُونما ہوں گے‘‘ کے عنوان سے تجزیہ کیا تھا۔ یہ تحریر عراق پر امریکی حملے کے بعد لکھی گئی۔ انھوں نے اُس وقت نائیجیریا کو تصادم کا اگلا مرکز قرار دیا تھا۔ یہ بھی کہا کہ یہ بحران کئی سال سے مسلسل جاری ہے اور جاری رہے گا، حتیٰ کہ ملک تقسیم ہوکر رہے گا۔ قرہ گل نے طالبات کے موجودہ اغوا پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’بوکوحرام‘ اس ناپاک جنگ کا ایک حصہ ہے۔ اس منظرنامے کا مزید طویل ہونا ملکی وسائل کو تقسیم کے عمل سے گزارنا ہے، یعنی مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان تصادم برپا کرکے اس مقصد کو حاصل کیا جائے گا۔
تیل کی دولت نائیجیریا کے شہریوں کے لیے یقینی طور پر بے پناہ اہمیت کی حامل ہے مگر یہ بین الاقوامی تسلط اور انتشارپسندی کا باعث بھی ہے۔ اس سے ملک کے اندر سیاسی اور علاقائی مشکلات پیدا ہورہی ہیں۔ وزیرمالیات ندیدی عثمان کہتی ہیں کہ پٹرول نے ہمیں بے کار بنادیا ہے۔ میں جب چھوٹی تھی تو یہ سیکھا تھا کہ کامیابی حاصل کرنے کے لیے عقل اور محنت سے کام لوں ، جب کہ پٹرول کے دور کی موجودہ نسل اس امر کا اہتمام نہیں کرتی، حتیٰ کہ سوچتی تک نہیں۔ نائیجیریا کے سابق صدر ’اوباسانچو‘ نے بذاتِ خود انھی خیالات کا اظہار ۲۰۰۳ء میں ایک بڑے عوامی جلسے میں کیا تھا کہ: ہمیں گیس اور پٹرول نے اندھا کردیا ہے اور ہماری روایات و اقدار سے دُور دھکیل دیا ہے، بلکہ ہمیں ان سے وحشت ہوتی ہے اور ہم اس معاملے میں سخت دل ہوگئے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق امریکا براعظم افریقہ کے مغرب میں واقع ممالک خصوصاً نائیجیریا کے اندر پٹرول کو بہت اہم خیال کرتا ہے۔ یہ خطہ ۶۰ لاکھ بیرل یومیہ تیل پیدا کرتا ہے۔ اس طرح یہ ایندھن کی پیداوار کے لحاظ سے دنیا کے اہم ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کو عدم استحکام سے دوچار رکھا جاتا ہے۔ ادھر نائیجیریا اُن ممالک میں سرفہرست ہے جو امریکا کو تیل برآمد کرتے ہیں۔ نائیجیریاکا تیل امریکا کے لیے پانچواں بڑا مرکز قرار پاتا ہے کیونکہ یہاں سے اُسے ۱۵لاکھ بیرل تیل روزانہ مہیا ہوتا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق یورپی ممالک بھی امریکا کے ساتھ نائیجیریا سے تیل حاصل کرنے کے متمنی ہیں۔ دونوں کے مفادات ’اتحاد و اتفاق‘ کی سطح پر نہیں ہیں بلکہ برطانیہ سمجھتا ہے کہ وہ طویل عرصہ نائیجیریا پر قابض رہا ہے، لہٰذا اس کا حق فائق ہے۔ اس کے ساتھ ہی اُسے یہ امر بھی فائدہ پہنچاتا ہے کہ نائیجیریا دولت ِ مشترکہ کا رکن بھی ہے۔ برطانیہ کی قدیم ترین کمپنی ’کان شیل‘ بھی نائیجیریا کے ان علاقوں میں ایک عرصے سے موجود ہے جہاں تیل کے کنویں ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ برطانیہ اپنی ضرورت کا ۱۰ فی صد تیل نائیجیریا سے لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برطانیہ اس خطے کو اہمیت دیتا ہے اور پُرامن تعاون کا خواہش مند بھی ہے اور اس کے لیے کوشاں بھی۔
اس منظرنامے کو پیش نظر رکھیں تو اغواشدہ طالبات کی رہائی کے لیے عالمی واویلے کی حقیقت سمجھ آتی ہے۔ امریکی صدر اوباما کی بیوی نے ’یومِ ماں‘ کے موقع پر ان طالبات کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ عالمی ذرائع ابلاغ نے اس واقعے کو بہت زیادہ اُچھالا۔ امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے بھی اس معاملے میں تمام تر حمایت اور تعاون کا یقین دلایا۔ ’بوکوحرام‘ کی دہشت گردانہ کارروائیوں کو روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کا اظہار کیا۔ برطانیہ اور اسرائیل نے بھی اس معاملے میں اپنی اپنی حمایت کا یقین دلایا۔ معروف مصری کالم نگار ڈاکٹر حلمی القاعود نے لکھاہے: محسوس ہوتا ہے کہ دنیا کے شرپسند اس وقت نائیجیریا کی ان طالبات کی رہائی کو بہانہ بناکر نائیجیریا کے اندر اپنے براہِ راست داخلے کی تیاری میں ہیں۔وہ اپنی افواج کی موجودگی کو لامحدود عرصے تک وہاں یقینی بنانا چاہتے ہیں۔ امریکا، برطانیہ، فرانس اور اسرائیل سب نے طالبات کو رہا کرانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ انسانی حقوق کے نام نہاد عالمی محافظوں کو شام، برما، فلسطین، مصر اور دیگر ممالک میں انسانی حقوق پامال ہوتے بھی دکھائی دینے چاہییں جہاں یہ حقوق ہیں تو انسانی مگر مسلمانوں کے لیے نہیں!
جزیرہ نما کریمیا بحیرۂ اسود (Black Sea)کے ساحل پر واقع دنیا کے خوب صورت ترین ساحلوں میں شمار ہوتا ہے۔ موجودہ یوکرائن کی حدود میں شامل یہ مسلم ریاست تاریخی اعتبار سے ایک مسلم اکثریتی علاقہ ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی تہذیب و ثقافت کا مرکز رہی ہے ۔سابق سوویت یونین میں دو طرح کے تاتار مسلمان آباد ہیں۔ ان میں کریمیا کے تاتار اور قازان کے تاتار مسلمان دو مختلف علاقوں میں آباد رہے ہیں۔کریمیا کے تاتاروں کوکریمیا سے نکال دیا گیا اور انھیں سابق سوویت یونین کی مختلف ریاستوں میں جبراً ـ ہجرت پر مجبور کیاگیا۔
کریمیا کا رقبہ ۲ہزار۷سو مربع کلو میٹر پر مشتمل ہے اور دنیا کا خوب صورت ترین ساحل سمندر اور ساحلی شہر سوچی کریمیا میں واقع ہے ۔یہاں پر قدرتی و سائل کے ساتھ ساتھ ٹورسٹ انڈسٹری بہت نمایاں اور دنیا کے ہر علاقے سے آنے والے سیاحوں کا مرکز ہے۔ گرمیوں کے چھے ماہ سوچی اور اس کے گرد و نواح سیاحوں سے بھرے رہتے ہیں۔
تاریخی اعتبار سے کریمیا کے تاتاروں نے نہ صرف یوکرائن اور روس کے بڑے علاقے پر حکومت کی ہے،بلکہ پولینڈ کا ایک بڑا علاقہ بھی کریمیا کی سلطنت کا حصہ رہا ہے۔ یہاں کے تاتاروں نے ماسکو پر بھی کئی مرتبہ چڑھائی کی، جب کہ روسی بادشاہ ماسکو چھوڑ کر فرار بھی ہو گیا تھا۔ ماسکو کی تباہی کے یہ مناظر دیکھنے کے لیے سیاح کئی سالوں تک دُور دُور سے آتے رہے۔
۱۴۷۵ء میں کریمیا خلافت عثمانیہ میں شامل ہو گیا اور ماسکو کے بادشاہ زار کو کریمیا کے تاتاریوں نے ہفتہ وار مسجد میں آنے اور انتظامات دیکھنے کا پابند بنایا۔ خلافت عثمانیہ کے کمزور پڑتے ہی روسی حکمرانوں نے کریمیا کے مسلمانوں کو زیر اثر لانے کی کوشش کی اور آخر کار۱۷۸۳ء میں کریمیا پر روسیوں کا قبضہ ہو گیا۔ اس دوران شدید جھڑپیں ہوئیں اور کریمیا کے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ترکی منتقل ہو گئی۔ روسی حکمرانوں نے روس کے مختلف علاقوں سے بڑی تعداد میں روسیوں کو کریمیا منتقل کیا۔ یہاں تک کہ ۱۸۹۷ء کے اعداد و شمار کے مطابق کریمیا میں مسلمانوں کی تعداد صرف ایک لاکھ ۸۶ہزار رہ گئی،جب کہ اس وقت مسلمان کل آبادی کا ۱ء۳۴ فی صد تھے۔ چونکہ مسلمانوں پر ظلم و ستم اور جارحیت کا عمل جاری رہا، اس لیے آہستہ آہستہ مزید مسلمان کریمیا چھوڑ کر چلے گئے اور یوں روسیوں نے اس مسلم ریاست پر اپنے پنجے گاڑ لیے۔
کمیونسٹ انقلاب کے بعد کریمیا کے مسلمان جبر و تسلط کا شکار رہے۔ جب سٹالن نے ۱۹۴۴ء میں کریمیا کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کی انتہا کردی، تو اس جزیرہ نما کے سارے کے سارے مسلمانوں کو مال گاڑیوں میں بھر کر ازبکستان اور سائبیریا روانہ کر دیا گیا۔ جہاں انتہائی نامساعد حالات میں بھوک و پیاس، سردی اور تشدد سے مہاجرین کی ایک بڑی تعداد ہلاک ہو گئی اور بچے کھچے مسلمان روسی ریاستوں میں غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے۔ ۱۹۵۴ء میں سٹالن کی موت کے بعد خرشچیف برسرِ اقتدار آئے اور انھوں نے کریمیا کو یوکرائن کا حصہ بنا دیا۔
سوویت یونین کے کمزور پڑتے ہی کریمیا کے مسلمانوں نے واپس کریمیا کا رخ کرنا شروع کر دیا۔ روسی آبادی نے بھرپور مخالفت کی اور بہت سے تاتاریوں کو واپس اپنے علاقوں میں آنے سے روکے رکھا۔ تاہم مسلمانوں نے اپنی جدوجہد جاری رکھی اور سوویت یونین کے ٹوٹتے ہی تاتاری مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کریمیا پہنچ گئی۔ اب کریمیا میں ۷۰فی صد سے زائدآبادی مسلمانوں کی ہے۔ مسلمانوں کی آبادی ۳لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔موجودہ روسی قبضے نے مقامی تاتاری آبادی کو بڑا مضطرب کر رکھا ہے۔ دوسری طرف یوکرائن کے خلاف تاتاری مسلمان زیادہ جذبات نہیں رکھتے۔ روس اور یوکرائن کی اس جنگ کے جو بھی نتائج ہوں مجموعی طور پر مسلمان زیادہ متاثر ہوں گے۔ کیوںکہ تاتاریوں کی زبان مختلف ہے، مذہب اور تہذیب جدا ہے، جب کہ روسی اور یوکرائن ایک قوم اور بڑی حد تک ایک ہی زبان بولنے والے ہیں اور ہمیشہ سے ان کا اتحاد بھی رہا ہے۔
روس کا یوکرائن، بیلارس اور پولینڈ پر قبضہ اسی صورت میں ممکن ہو سکا تھا، جب روسیوں نے تاتاری مسلمانوں کو شکست سے دوچار کیا تھا۔ ۱۹-۱۹۱۸ء میں یوکرائن کو سابق سوویت یونین کا حصہ بنایا گیا ۔ کریمیا چونکہ یوکرائن کا حصہ تھا، اس لیے ۱۹۹۱ء میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد کریمیا یوکرائن کا حصہ ہی رہا ۔ یوکرائن نے کریمیا کو ایک نیم خود مختار ریاست کے طورپر قائم رکھا۔ اس طرح کریمیا میں تین قومیں روسی، یوکرائنی اور مسلمان آباد ہیں، جب کہ بقیہ اقوام وسطی ایشیائی ممالک، یہودی اور چیچن کی قلیل تعداد بھی آباد ہے۔
یوکرائن کا کل رقبہ۶لاکھ مربع کلو میٹر ہے، جب کہ اس کی آبادی تقریباً ۴کروڑ ۶۰ لاکھ ہے۔ اس آبادی کا تقریباً ۳۰فی صد روسیوں پر مشتمل ہے اور روس کے مختلف شہروں اور دیہاتوں میں بھی یوکرانیوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔۱۹۹۱ء میں یوکرائن میں ایک بڑا ایٹمی پلانٹ چرنوبل کے مقام پر موجود تھا۔ یوکرائن کے پاس بڑی تعداد میں ایٹمی اسلحہ اور میزائل موجود تھے۔ ایک سہ فریقی معاہدے کے تحت جس میں روس امریکا اور برطانیہ نے یوکرائن کی سلامتی اور حفاظت کی ذمہ داری لی تھی، یوکرائن ایٹمی ہتھیار رکھ سکے گا۔ دوسری طرف یوکرائن ایک زرعی ملک ہونے کے ناطے روس کو بڑی تعداد میں زرعی اجناس فراہم کرتا رہا ہے۔ یوکرائن میں بھاری صنعت بھی کافی حد تک ترقی پاچکی ہے۔یوکرائن سابق سوویت یونین کی ریاستوں میں روس کے بعد سب سے بڑا صنعتی ملک سمجھا جاتا ہے۔ یوکرائن میں تیل اور گیس کے ذخائر نہ ہونے کے برابر ہیں، لہٰذا اس ضرورت کو بھی ایک معاہدے کے تحت روس پوری کر رہا تھا۔
یوکرائن کی دیرینہ خواہش ہے کہ وہ یورپی یونین کا حصہ بنے۔ یورپی ممالک اور امریکا بھی اس خواہش کا احترام کرتے ہیں۔ دوسری طرف روس یوکرائن کی اس خواہش کا سخت مخالف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روس یوکرائن کی حکومت کو اپنے زیر تسلط رکھنا چاہتا ہے اور کسی طور بھی یوکرائن کو مکمل خودمختاری دینے کا حامی نہیں ہے ۔یوں روس اور یوکرائن کے درمیان چپقلش کا آغاز ہوا اور امریکا نے یوکرائن کی سر زمین کو روس کے خلاف استعمال کرنے کا بھی اشارہ دیا۔ جب ویکٹر یانو کوچ یوکرائن کے صدر منتخب ہوئے تو روس نے سکھ کا سانس لیا اور ان کی حکومت کو مضبوط کرنے کے لیے یانوکوچ کا ساتھ دیا۔ ویکٹریانوکوچ نے روس کے ساتھ قریبی تعلقات ہونے کی وجہ سے یورپ اور امریکا سے کنارہ کشی اختیار کی اور امریکا ،ناٹو اور یورپی ممالک کے ساتھ تعاون کے معاہدے سے انکار کر دیا۔ یورپی اقوام اور امریکا کے ایما پرحزب اختلاف جوبنیادی طور پر قوم پرستوں پر مشتمل تھی ، سڑکوں پر نکل آئی اور صدر سے استعفے کا مطالبہ کر دیا۔ آخر کار وہ صدر ویکٹریانوکوچ کو یوکرائن بدر کر کے روس میں پناہ لینے پر مجبور کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
روس کے حکام اور بالخصوص صدر ولادی میر پوٹن دوبارہ سویت یونین کے قیام کے لیے کوشاں ہیں۔ سابق سوویت یونین کی کوئی ریاست بھی روسی فوجی قوت کا سامنا کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی اور روسی منصوبہ بندی کے کامیاب ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ کریمیا پر قبضے سے دوہفتے قبل، روسی صدر ولادی میر پوٹن نے کریمیا پر روسی قبضے کو خارج از امکان کہا تھا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ روسی فوج کریمیا کے علاقو ں میں موجود ہے،تو انھوں نے جواب دیا کہ یہ عام لوگ ہیں جو روسی فوجی وردی کو پسند کرتے ہیں، اور چند دنوں بعد ہی آسانی سے روسیوں نے کریمیا پر قبضہ کر لیا۔ دوسری طرف روسی افواج یوکرائن کی مشرقی اور جنوب مشرقی سرحدوں پر جمع ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ یاد رہے یہ سرحدی علاقے روسی آبادی پر مشتمل ہیں اور یہاں سے یوکرائن کے علاقوں میں داخل ہونا آسان بھی ہے اور بآسانی یوکرائن کے بڑے حصے کو زیر قبضہ لایا بھی جاسکتا ہے۔ ان حالات میں اگر روس نے یوکرائن پر چڑھائی کی تو ناٹو افواج کی مزاحمت کا اندیشہ ہے۔
یورپی یونین میں تیل اور گیس کے صدر Kherman Vanrompe نے برسلز(بلجیم) میں کہا ہے کہ روس یورپ کی گیس کی ۳۲فی صد ضرویات فراہم کرتا ہے ،جب کہ ۳۵فی صد تیل بھی روس فراہم کرتا ہے۔ یورپی یونین تین ماہ کے اندر اندر اپنی گیس اور تیل کی ضروریات متبادل ذرائع سے پورا کرنے کا اہتمام کرے گا اور روس سے تیل اور گیس کی خریداری بند کرنے کے ساتھ ساتھ روس پر معاشی پابندیاں عائد کر دی جائیں گی۔ روسی کمپنیوں کی یورپ تک رسائی معطل کر دی جائے گی اور روس کو یوکرائن میں مداخلت کے عوض خطرناک معاشی اور اقتصادی بدحالی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ادھر امریکا نے اہم روسی شخصیات اور روسی صدر کے قریبی ساتھیوں پر ویزے کی پابندی عائد کر دی ہے اور اس طرح روس اور یوکرائن کی یہ لڑائی عالمی امن کی تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔ کریمیا کے تاتارجو خدا خدا کر کے اپنے گھروں کو آباد کرنے لگے تھے ایک خطرناک صورت حال سے دوچار ہونے والے ہیں۔ روسی حکام نے ابھی سے مسلمانوں کو اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔ روسی حکام نے تاتاری مسلمانوں کی مجلس کے صدر جمیل مصطفی کو ملک بدر کرنے کے ساتھ ساتھ عام مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیے ہیں۔ کئی تاتاری مسلمان نوجوانوں کے لاپتا ہونے کی اطلاعات بھی زبانِ زد عام ہیں۔ دوسری جانب یوکرائن کی طرف سے مسلح مزاحمت بہت کمزور ہو گی اِلا یہ کہ یورپی یونین یا ناٹو ان کی مدد کو پہنچیں۔ بہرحال یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ روسی افواج بغیر مسلح مزاحمت کے واپس جانے کے لیے تیار نہیں ہوں گی۔
روس کی اندرونی صورت حال بھی خلفشار سے دوچار نظر آتی ہے۔ روسی صدر ولادی میر پوٹن کا ۱۴سالہ دور اقتدار پرسکون دکھائی دے رہا تھا اور کسی خاص قابل ذکر مزاحمت کا سامنا نہیں تھا مگر اب اپنے دورِحکومت کو دوام دینے میں سخت مزاحمت کا سامنا کر رہے ہیں۔ ملک کی اہم شخصیات اور تجزیہ نگار ان کے حالیہ اقدام پر کڑی تنقید کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ کچھ نقادوں اور مخالفین کو جن میں یونی ورسٹی پروفیسر اور صحافی شامل ہیں، جیل بھیج دیا گیا ہے۔ روس کے قومی جرنلسٹ پوری مستاض کو صدر پوٹن کے خلاف اداریہ لکھنے کی پاداش میں پابند سلاسل کر دیا گیا ہے۔ روسی تجزیہ نگاروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ روس اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے لیے خطرناک جنگ میں کود پڑا ہے اور یوں لگتا ہے کہ ملک کے اندر اور سرحدوں پر مزاحمت شروع ہونے والی ہے۔ ایک مشہور خاتون صحافی اور ادیب الیستکایا نے روسی صدر کے حالیہ اقدامات پر کڑی تنقید کی ہے۔انھوں نے یوکرائن اور کریمیا کے عوام پر صدرپوٹن کے خلاف شدید ردعمل کے اظہار کے لیے زور دیا ہے۔
۲۰۰۰ء-۲۰۰۵ء تک صدر پوٹن کے مشیر خاص سرگئی لاروف(Sargi Larov) نے صدر کے کردار اور شخصیت پر شدید تنقید کی ہے۔ لاروف نے ایک خفیہ روسی منصوبے کا ذکر کیا ہے جسے ۲۰۰۸ء میں تیار کیا گیا تھا اور جس کے مطابق روس اپنی سرحدوں کے قریب تمام ممالک پر اور خاص طور پر سابق سوویت ریاستوں پر اپنا تسلط برقرار رکھنا چاہتا ہے اور کسی قسم کے مغربی اثر و رسوخ کو رد کرتا ہے۔ اس منصوبے کے مطابق یوکرائن کو مزید ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا جائے گا اور اس کی موجودہ سیاسی و معاشی قوت بکھر جائے گی۔ اس طرح روسی سرحدوں پر واقع علاقوں پر روسی تسلط قائم کرکے انھیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
روسی حکام اس منصوبے پر عمل کرنے کے بعد تمام ملحقہ علاقوں میں نیم خود مختار ریاستیں قائم کریں گے اور ان ریاستوں کے معاشی و سائل براہ راست روس کے زیر استعمال رہیں گے۔ سرگئی لاروف کے مطابق روس اپنے طے شدہ منصوبے پر عمل پیرا ہے، جب کہ یوکرائن کو مسلح مزاحمت کرنے کی ضرورت ہے۔ مسلح مزاحمت کی صورت میں ہی ناٹو افواج یوکرائن کی مدد کو آئیں گی۔
سرگئی لاروف اپنی شہرئہ آفاق تصنیف میں فن لینڈ کی مثال دیتے ہوئے لکھتا ہے: ’’اگر فن لینڈ اسٹالن کی حکومت کے خلاف مسلح جدوجہدنہ کرتا تو آج ایک آزاد اور خود مختار ملک نہ ہوتا‘‘۔ اسی طرح روس میں موجودہ حزب مخالف کے سیاست دانوں بہ شمول ولیرو نوادروسکی (Valirio Novadrovsky) نے بھی روسی صدر کی توسیع پسندانہ عزائم پر کڑی تنقید کرتے ہوئے اپنے ہی ملک کے خلاف یوکرائن کو مسلح جدوجہد کرنے پر زور دیا ہے کہ اگر یو کرائن نے روسی افواج کا مقابلہ نہ کیا تو یوکرائن اپنے آپ کو ٹکڑوں اور چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم در تقسیم ہونے کے لیے تیار سمجھے۔ اس تقسیم در تقسیم کے جہاں یوکرائن کو نقصانات ہوںگے وہاں روسی عوام اور ملک کو بھی سیاسی، معاشرتی اور معاشی بدحالی کا شکار ہونے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
روس کو جہاں بیرونی تنقید اور پابندیوں کا سامنا ہے وہاں اندرونی طور پر بھی روسی حکومت کو پڑوسی ریاستوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے پر مزاحمت اور تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ روسی تاریخ میں کسی بھی حکومت کے خلاف یوں کھل کر اظہار راے پہلے کبھی نہیں کیاگیا جس طرح اس دفعہ روسی جارحیت کے خلاف اندرونی طور پر لوگ صف آرا ہو گئے ہیں۔
ادھرکریمیا کے مسلمانوں نے اپنے تشخص اور علاقائی سا لمیت کے لیے عالمی طاقتوں سے مداخلت کی اپیل کی ہے اور ان کی اس آواز کو روس کے اندر، سابق سوویت ریاستوں اور یورپی ممالک نے حق بجانب قرار دیا ہے۔ روسی صدر کا کریمیا پر قبضہ محض اتفاقیہ عمل نہیں ہے بلکہ پہلے سے تیارشدہ منصوبے کے مطابق ہے۔کریمیا کے مسلمانوں کے حق میں مسلم دنیا اور غیر مسلم طاقتوں نے کبھی کوئی کمزور آواز بھی نہیں بلند کی اور یوں مسلم ممالک کا میڈیا، صحافتی ادارے، دانش ور اور حکومتیں مکمل خاموشی کے ساتھ اس مسلم ریاست کے تباہ ہونے پر راضی نظر آتے ہیں۔
تمام تر مغربی دباؤ اور حربوں کے باوجود روس کریمیا اور یوکرائن سے متعلق اپنی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں لایا۔ ۱۶؍اپریل۲۰۱۴ء کی پریس کانفرنس اور بعد میں بیان کردہ روسی پالیسی جسے نہ صرف پالیسی کے تسلسل کا مظہر کہا جاتا ہے، بلکہ روسی صدر، وزیر خارجہ اور روسی پارلیمنٹ کے بیش تر ارکان نے اپنے پالیسی بیانات میں روس کا کریمیا پر اپنا حق تاریخی اعتبار سے اور حالیہ واقعات کی روشنی میں واضح کیا ہے۔ روسی عوام میں حالیہ امریکی اور مغربی پابندیوں سے متعلق جواضطراب پایا جاتا ہے، اسے تحلیل کرنے کے لیے تمام پارلیمانی کمیٹیوں نے ایک بھرپور مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ ادھر روسی پارلیمنٹ نے روسی صدر کو یوکرائن پر فوجی چڑھائی کرنے اور روسی سفیر کو امریکا سے واپس بلانے کا اختیار دے دیا ہے۔صدر ولادی میر پوٹن نے روسی آئین کے آرٹیکل ۱۰۲کے مطابق روسی افواج کی یوکرائن پر چڑھائی کو بالکل حق بجانب قرار دیا ہے۔
۱۷؍اپریل۲۰۱۴ء کے بیان میں صدر کے ترجمان نے واضح کیا کہ روسی افواج کسی وقت بھی یوکرائن کے اندر داخل ہو کر کارروائی کر سکتی ہیں۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ روسی افواج پہلے بھی بڑی تعداد میں یوکرائن کے سرحدی علاقوں میں موجود ہیں اور پیش قدمی کے لیے منتظر ہیں۔اس سلسلے میں روسی ترجمان نے کسی احتیاط کے بغیر اپنی آیندہ کی منصوبہ بندی بیان کرتے ہوئے تمام تر مغربی دباؤ کو نہ صرف مسترد کیا بلکہ مضحکہ خیز بھی قرار دیا۔اُدھر کریمیا میں ہونے والے ریفرنڈم اور ان کے نتائج کو کچھ ملکوں نے تسلیم کر کے روسی موقف کی تائید کی ہے۔ اس ریفرنڈم کو شروع میں ۱۸ملکوں نے تسلیم کیا تھا لیکن اب یہ تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے۔ چین نے بھی انتہائی محتاط انداز میں امریکا اور مغربی قوتوں کو رشین فیڈریشن اور یوکرائن کے تنازعے میں مداخلت سے باز رہنے کی تلقین کی ہے۔ یہ اس طرف اشارہ ہے کہ روس کے خلاف امریکا اور مغربی پابندیوںکو، جن میں روزافزوں اضافہ ہو رہا ہے ،انتہائی خطرناک قرار دیا ہے۔
برسلز میں یورپی نمایندوں کا اجلاس اور ان کے فیصلے جن میں روسی مفادات کو نقصان پہنچانے کے عزم کا اظہار کیا گیا تھا، روس پر قابلِ ذکر دباؤ ڈالنے میں ناکام رہے ہیں۔روسی موقف گو کہ بڑا متزلزل رہا ہے کہ کریمیا ۱۹۵۴ء میں غیر منصفانہ طور پر روس سے الگ کیا گیا تھا اور روس اپنے لوگوں کا وہ جہاں کہیں بھی ہوں دفاع کرنے کا حق رکھتا ہے، کو مغربی طاقتوں نے مسترد کیا ہے، تاہم کریمیا کے لوگوں نے اپنے ریفرنڈم سے بھی اس کی تائید کی ہے۔ ادھر اقوامِ متحدہ میں روسی سفیر مسٹر پوری کلامینکا نے جنیوا میں سفارت کاروں کے ساتھ ایک ملاقات میں برملا کہا ہے کہ روس عنقریب یوکرائن پر پوری فوجی قوت کے ساتھ حملہ کرنے والا ہے۔
۱۹؍اپریل۲۰۱۴ء کو روس نواز حکومت نے کریمیا میں اپنی پوزیشنوں (ٹھکانوں) کو مستحکم کرتے ہوئے متحدہ یوکرائن کے سپاہیوں کو گرفتار کیا ہے اور دارالحکومت سیمفراپول (Simferopol) کو تمام یوکرائن فوجیوں سے پاک کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس طرح مقامی مسلمان آبادی جو کبھی بھی زیر تسلط رہنے پر راضی نہ ہو سکی، یوکرائن کی غلامی سے آزادی حاصل کر کے روس کی غلامی میں منتقل ہو رہی ہے۔ بحیرئہ اسود پر واقع جزیرہ نما کریمیا میں ایک بڑا روسی فوجی کارروان بھی ۱۹؍اپریل کو داخل ہو چکا ہے، جسے نوزائیدہ روس نواز ملیشیا کی حمایت حاصل ہے اور جسے کریمیا میں بڑے پیمانے پر حال ہی میں منظم کیا گیا ہے۔ اس ملیشیا کے لیڈروں کی بڑی تعداد مسلمان نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یوکرائن سے آنے والے تمام بحری جہازوں کو بھی روسی بحریہ کی مدد سے روک دیا گیا ہے۔
سیمفراپول میں موجود غیر ملکی سفارت کاروں نے کریمیا چھوڑنا شروع کر دیا ہے۔ ادھر ۲۰؍اپریل کو یوکرائن کے وزیر اعظم Arseniy Yat Senyukنے کیف میں کریمیا میں امن قائم کرنے کے لیے یوکرائن کے مثبت کردار ادا کرنے اور اپنے دورۂ امریکا کے بعد یوکرائن کی حکومت کی واضح پالیسی وضع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
روسی صدر کے توسیع پسندانہ عزائم سے کریمیا کے مسلمان پوری طرح باخبر نہ ہونے کی وجہ سے روس کے ساتھ کریمیا کے اتحاد کا خیر مقدم کر رہے ہیں، اور روسی افواج نے سابقہ مسلمان لڑاکا گروہوں کو متحد کر کے یوکرائن کے خلاف صف آرا کرنے کے لیے تیار کر لیا ہے۔ ادھر روس کے مسلم بورڈ نے روسی حکومت کی حمایت کرتے ہوئے کریمین تاتار بورڈ کو روسی حمایت پر تیار کر لیا ہے۔ اس طرح روسی حکام نے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو استعمال کرتے ہوئے یوکرائن کے خلاف اُبھارنے کی منظم کوششیں شروع کر دی ہیں (ماسکو ٹائمز، ۱۹-۲۰؍اپریل ۲۰۱۴ء)، جب کہ مسلم حکومتوں نے کریمیا کے مسلمانوں اور مسلم ریاست کی بندر بانٹ پر مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ جس کے نتیجے میں کریمیا کے مسلمان اپنے آپ کو نہ صرف تنہا و بے بس سمجھتے ہیں بلکہ مسلم حکومتوں کی بے حسی پر انتہائی مایوس بھی ہیں۔ (بہرام بالکی،Eurasia، ۱۵؍اپریل ۲۰۱۴ء)
بنگلہ دیش میں بلدیاتی انتخابات کا جو مرحلہ وارسلسلہ ۱۹فروری ۲۰۱۴ء کو شروع ہوا تھا وہ ۳۱مارچ ۲۰۱۴ء کو مکمل ہوگیا۔ بنگلہ دیش کی آبادی کم وبیش ۱۶کروڑ ہے اور یہاں کُل اضلاع ۶۴ہیں۔ یہاں سب ڈویژن یا تحصیل کہنے کے بجاے سب ڈسٹرکٹ یا اُوپا ضلع (Upazila) کہا جاتا ہے۔ کل ۴۸۷؍اُوپا ضلع ہیں۔ ان میں سے۴۶۹ میں انتخابات ہوسکے، جن میں سے بیش تر کے نتائج کا الیکشن کمیشن نے اعلان کردیا ہے۔ ۴۵۵ تحصیلوں میں حکومت اور اپوزیشن میں مقابلہ ہوا۔ ان انتخابات میں جو حقائق سامنے آئے ہیں وہ بڑے چونکا دینے والے ہیں۔ حکمران عوامی لیگ نے ان انتخابات میں جو دھاندلیاں کی ہیں ان کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ مرحلہ وار انتخابات کے نتائج کو دیکھیں تو پہلے مرحلے میں عوامی لیگ کی حکومت، بی این پی جماعت اسلامی اتحاد کے مقابلے میں شکست کھا گئی تھی۔
پہلے مرحلے کی ان تحصیلوں میں سے ایک پیرگنج بھی تھی، جو حسینہ واجد کے انتخابی حلقے کا حصہ ہے۔ یہاں عوامی لیگ کا اُمیدوار براے چیرمین سیادت حسین تمام تر دھاندلی کے باوجود ۷۰ہزار۸سو۷۷ ووٹ حاصل کرسکا، جب کہ اس کے مدمقابل بی این پی کے اُمیدوار نور محمد مندل نے ۴۷ہزار۹سو۴۲ ووٹ لے کر یہ نشست جیت لی۔اس دوران بی این پی کے عہدے داران نے ایک پریس کانفرنس میں جو ڈیلی نیو ایج میں ۲۱فروری ۲۰۱۴ء کو چھپی، اس خدشے کا اظہار کیاتھا کہ اپنی شکست دیکھ کر عوامی لیگ حکومت اگلے مراحل میں انتخابی نتائج چرانے کا منصوبہ بنا چکی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اپوزیشن اتحاد سے تعلق رکھنے والے اُمیدواروں کو پولیس گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال رہی ہے۔ جماعت اسلامی اور بی این پی کے عہدے داران نے اس پر شدید احتجاج کیا تھا مگر حکومت کے کان پرجوں تک نہ رینگی۔
الیکشن کے شیڈول کے دوسرے مرحلے سے قبل ہی عوامی لیگ نے تشدد، ماردھاڑ، قتل وغارت گری اور مخالف اُمیدواروں کے علاوہ ان کے حامیوں بلکہ عام ووٹرز کو بھی اس قدر ہراساں کردیا کہ جو لوگ ووٹ دینے کے لیے آئے وہ جان ہتھیلی پر رکھ کر گھر سے نکلے۔ کئی اُمیدوار اور ان کے فعال کارکنان جیل میں ڈال دیے گئے۔ اس کے باوجود عوامی لیگ اس مرحلے میں بھی شکست کھاگئی۔ تیسرا مرحلہ دوسرے مرحلے کے دو ہفتے بعد، یعنی ۱۵مارچ کو آیا تو عوامی لیگ نے ایسی صورت حال پیدا کردی کہ جس میں ووٹ ڈالنے والوں کو پولنگ اسٹیشن کے اندر جانے کے لیے چھلنی سے گزارا گیا، اور ستم بالاے ستم یہ کہ بیلٹ بکس راتوں رات عوامی لیگ کے حامی اُمیدواروں کے حق میں ووٹوں سے بھر دیے گئے۔ اس ظالمانہ بندوبست کے باوجود عوامی لیگ معمولی اکثریت حاصل کرپائی۔ چوتھے مرحلے میں، یعنی ۲۳مارچ۲۰۱۴ء کو عوامی لیگ نے دھاندلی اور تشدد میں اتنا اضافہ کردیا کہ اپوزیشن اتحاد سے متعلق نمایندوں نے اپنے ووٹرز کی جانیں بچانے کے لیے بائیکاٹ کی دھمکی دی اور عملاً ۱۵ سے ۲۰ تک حلقوں میں اپوزیشن اُمیدواروں نے بائیکاٹ کردیا۔
چوتھے مرحلے کے انتخابی معرکے میں عوامی لیگ کی حکومتی سطح پر غنڈا گردی نے ایسے حالات پیدا کردیے کہ اکثر پولنگ اسٹیشنوں پر عملاً ووٹ ڈالے ہی نہ جاسکے۔ انتخابی عملہ خاموش بیٹھا رہا اور عوامی لیگ کے کارکن ٹھپے لگا لگا کر بیلٹ بکس بھرتے رہے۔ یوں حکومتی پارٹی نے واضح اکثریت حاصل کرلی۔ جب آخری اور پانچواں مرحلہ ۳۱مارچ کو ہوا تو تمام غیرملکی مبصرین نے ماحول کو دیکھتے ہوئے کہا کہ اس ووٹنگ کو انتخاب کہنا انتخابات اور جمہوریت کے ساتھ بدترین اور سنگین مذاق ہے۔ بی این پی نے اس انتخاب کا عملاً بائیکاٹ کردیا۔ اسے عوامی لیگ نے یک طرفہ بلڈوز کیا لیکن عوام کی شدید نفرت کا یہ منہ بولتا ثبوت ہے کہ اس کے باوجود عوامی لیگ کے ۵۳چیرمین کے مقابلے میں عوام نے بی این پی کے ۱۴ اور جماعت اسلامی کے تین نمایندے کامیاب کروادیے۔ ہرچند کہ حکومتی ٹولے نے ہرمرحلے میں ظلم وستم اور بددیانتی ودھاندلی کے ذریعے نتائج کواپنے حق میں بدلا ہے۔
اب آئیے مرحلہ وار تجزیہ کرکے دیکھیں کہ حسینہ واجد کے ظالمانہ اقدامات نے کس طرح ان انتخابات کو ایک دل چسپ ڈراما بنا دیا ہے:
پہلا مرحلہ: عوامی لیگ: ۳۷ فی صد بی این پی +جماعت اسلامی۶۳ فی صد
دوسرا مرحلہ: عوامی لیگ:۳۹ فی صد بی این پی+جماعت اسلامی:۶۰ فی صد
تیسرا مرحلہ: عوامی لیگ:۵۳ فی صد بی این پی+جماعت اسلامی:۴۷ فی صد
چوتھاا مرحلہ: عوامی لیگ:۶۳ فی صد بی این پی+جماعت اسلامی:۳۷ فی صد
پانچواں مرحلہ: عوامی لیگ:۷۶ فی صد بی این پی+جماعت اسلامی:۲۴ فی صد
یہ صرف چیرمینوں کا تجزیہ ہے وائس چیرمینوں (مردوخواتین) کا تجزیہ نہیں کیا گیا۔ مجموعی طور پر دیکھیں تو ۱۹فروری کو جو عوامی لیگ ۳۷ فی صد پر تھی، وہ ۳۱مارچ کو ۷۶ فی صد پر جاپہنچی۔ یاللعجب! اسی طرح جو اپوزیشن ۶۳ فی صد کی اکثریت رکھتی تھی صرف چھے ہفتے میں ۲۴ فی صد پر لے آئی گئی۔ کیا یہ منصفانہ انتخابات ہیں!!
اگر مجموعی تجزیہ کریں تو پوزیشن یہ بنتی ہے:
عوامی لیگ ٹوٹل چیرمین: ۲۲۱ (۳۶ء۵۲فی صد)
اپوزیشن اتحاد (پی این پی اور جماعت اسلامی): ۲۰۱ (۶۴ء۴۷فی صد)
ان انتخابات کے دوران ایک دل چسپ اور حوصلہ افزا بات یہ بھی سامنے آئی ہے کہ جماعت اسلامی کے خلاف موجودہ بنگلہ دیش حکومت کے حد سے بڑھے ہوئے انتقامی وظالمانہ اقدامات کے باوجود جماعت کی حمایت میں کمی کے بجاے اضافہ ہو ا ہے۔ جماعت کو حسینہ واجد حکومت نے از حد غیراخلاقی وغیرقانونی حربے استعمال کرتے ہوئے خلافِ قانون قرار دے دیا ہے۔ اس کی ساری قیادت جیلوں میں بند ہے اور بیش تر راہ نماؤں کو سزاے موت سنا دی گئی ہے۔
جماعت کے راہنما جناب دلاورحسین سعیدی (سابق ممبرپارلیمنٹ) کے صاحبزادے مسعود سعیدی اپنے آبائی علاقے میں تحصیل کے چیرمین منتخب ہوچکے ہیں۔ مسعود سعیدی نے تحصیل ضیانگر کے انتخابات میں چیرمین کی نشست ۲۱ہزار۷۷ ووٹوں سے جیتی ہے۔ ان کے مدمقابل حکومتی اُمیدوار عبدالخالق غازی جو دوسرے نمبر پر تھے، صرف ۶۶۱۵ ووٹ حاصل کرسکے اور پھر پُرتشدد کارروائیوں پر اتر آئے۔ واضح رہے کہ مولانا دلاور حسین سعیدی بھی اس علاقے سے بھاری اکثریت کے ساتھ پارلیمانی انتخاب جیتتے رہے ہیں۔ اس طرح کے کئی دیگر واقعات بھی ریکارڈ کا حصہ بن چکے ہیں۔ اب عوامی لیگ نے قتل وغارت گری کا ایک نیا دور شروع کردیا ہے جس کا بڑا ہدف جماعت اسلامی اور چھاتروشبر (اسلامی جمعیت طلبہ) کے ذمہ داران وکارکنان ہیں۔ اب تک کئی شہادتیں ہوچکی ہیں مگر عوامی لیگ سے نفرت بھی اسی تناست سے روز بروز بڑھتی چلی جارہی ہے۔
بی این پی کے قائم مقام سیکرٹری جنرل مرزا فخرالاسلام عالم گیر، جماعت اسلامی کے قائم مقام امیر جناب مقبول احمد اور قائم مقام سیکرٹری جنرل ڈاکٹر شفیق الرحمن صاحب نے الگ الگ بیانات میں واضح الفاظ میں اظہار کیا ہے کہ انھوں نے ان بلدیاتی انتخابات میں حصہ لے کر عوام کی راے معلوم کرنے اور آیندہ کا لائحہ عمل طے کرنے کا پروگرام بنایا تھا۔ اب اس غاصب حکومتی ٹولے کے خلاف بھرپور عوامی احتجاج کے ذریعے نئے سرے سے جدوجہد کا آغاز کیا جارہا ہے۔ دوسری طرف کئی تجزیہ نگار یہ لکھ رہے ہیں کہ عوامی لیگ ۲۰۱۹ء تک اپنے اقتدار کے دوران ون پارٹی رول کی فضا بنانے کا پروگرام رکھتی ہے۔ وڈروولسن انٹرنیشنل سنٹر واشنگٹن میں سابق امریکی سفیر ولیم بی میلام (William B. Milam) نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ گذشتہ دوعشروں میں بنگلہ دیش کی معیشت نے جو کچھ حاصل کیا ہے موجودہ حکمرانوں کی جمہوریت کش پالیسیوں کی وجہ سے اس کے تباہ وبرباد ہوجانے کا خدشہ اور امکان موجود ہے۔ (دی ایکسپریس ٹریبون ۸؍اپریل ۲۰۱۴ء)
مخالفین طعنہ دیتے ہیں کہ: ’’انھوں نے دعوت چھوڑ کر سیاست اپنا لی ہے‘‘۔ مغرب نے بھی اسلامی تحریکوں کے لیے ’سیاسی اسلام‘ کی اصطلاح گھڑرکھی ہے۔ اس کے بقول یہ اسلام کی سب سے خطرناک قسم ہے۔ لیکن اسلامی تحریک کے کارکن بھی عجیب ہیں، سنگین سیاسی بحران عروج پر ہے، خونیں فوجی انقلاب دن رات قتلِ عام کر رہا ہے، ۲۱ہزار سے زائد کارکنان جیلوں میں ہیں، نام نہاد عدالتیں آئے روز طویل قید کی سزائیں سنارہی ہیں لیکن مصر کی طالبات نے نئی مہم شروع کردی ہے۔ مہم کا عنوان ہے: صلاۃ الفجر بدایۃ النصر،’’نمازِ فجر آغازِ نصر‘‘۔
طالبات کے بقول: فرعون سیسی کے خلاف ہماری ساری تحریک اللہ کی خاطر ہے، اللہ کو منائے بغیر اس کی نصرت شاملِ حال نہیں ہوسکتی۔ طالبات ضد الانقلاب، نامی طالبات تحریک نے اپنی نئی مہم کے لیے مختلف اسٹکر، پٹیاں، پوسٹر اور پمفلٹ تیار کیے ہیں اور وہ فرداً فرداً تمام طالبات سے وعدہ لے رہی ہیں کہ نمازِ فجر کا خصوصی اہتمام کریں گی، جس کا مطلب ہے کہ باقی نمازیں بدرجۂ اولیٰ ادا ہوں گی۔ اس مہم کی ایک ذمہ دار تسبیح السید کے بقول ہماری مہم توقع سے بھی زیادہ کامیاب ہورہی ہے اور طالبات کے ذریعے ہمارا پیغام ان کے اہلِ خانہ تک بھی پہنچ رہا ہے۔
مصر کے پہلے منتخب جمہوری صدر محمد مرسی کو ایک سالہ اقتدار کے بعد ہی رخصت کرتے ہوئے، قابض خونیں جرنیلوں نے پورا ملک خاک و خون میں نہلا دیا ہے۔ مصری عوام کی اکثریت اس فوجی انقلاب کو مسترد کررہی ہے۔ گذشتہ تقریباً نوماہ میں کوئی ایک روز بھی ایسا نہیں گزرا جس میں انقلاب مخالف مظاہرے نہ ہوئے ہوں۔ جنرل سیسی نے اپنے پیش رو مصری حکمرانوں کی طرح نہتے شہریوں کو کچلنے کے لیے ہرہتھکنڈا آزما کر دیکھ لیا ہے۔ لیکن ہرظلم اور ہرجبر عوامی تحریک کو مزید توانا کرنے کا ذریعہ ہی بن رہا ہے۔ سب تجزیہ نگار حیرت زدہ ہیں کہ ۸ہزار کے قریب شہدا پیش کرکے بھی اخوان کیوں کر میدان میں کھڑے ہیں۔ صلاۃ الفجر بدایۃ النصر مہم اس حیرت و استفسار کا ایک واضح جواب ہے۔ یہی مہم نہیں، اخوان کی پوری تاریخ اور پوری تحریک ہی اس تعلق باللہ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ امام حسن البنا کی یہ ہدایت کہ ہمارا ایک روز بھی اللہ کی کتاب سے ملاقات کیے بغیر نہ گزرے، ہر کارکن نے مضبوطی سے پلے باندھ رکھی ہے۔ اخوان کے کارکنان نے یہ بھی ثابت کردیا کہ وہ قرآن کریم کو دل کی نگاہوں سے پڑھتے اور عمل میں ڈھال دیتے ہیں۔ پھر یہی قرآن ہر ظلم کے مقابلے میں ان کی ڈھال بن جاتا اور انھیں ثابت قدم رکھتا ہے۔
گذشتہ تین سالہ عرصے میں اخوان کے بیانات، مضامین، مظاہروں اور اجتماعات میں ہرطرف یہی قرآنی رنگ نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ جامعہ ازہر کے طلبہ کا یہ بیان ملاحظہ فرمایئے۔ ۲۲مارچ کو جاری ہونے والے بیان کا عنوان ہے: سَنُحَاجِجُکُمْ بکل ما اقترفتموہ فی دنیاکم واخراکم ’’ہم دنیا و آخرت میں تم سے تمھارے جرائم کا حساب لیں گے‘‘۔ یہ بیان جامعہ ازہر کے ۱۶طلبہ کو تین تین سال قید کی سزا سنائے جانے کے بعد جاری کیا گیا ہے۔ ان طلبہ پر الزام تھا کہ انھوں نے جامعہ میں مظاہرہ کیا۔ طلبہ اپنا مذکورہ بالا بیان دے کر گھر نہیں بیٹھ گئے۔ یہ بیان بھی ایک نئے مظاہرے کے دوران دیا گیا۔ اس دوران جامعہ ازہر طلبہ یونین کے قائم مقام صدر (صدر گرفتار ہے) نے عدلیہ سے مخاطب ہوتے ہوئے یہ اشعار بھی پڑھے کہ:
اذا جار الامیر وحاجباہ
وقاضی الارض أسرف فی القضاء
فویل ثم ویل ثم ویل
لقاضی الارض من قاضی السماء
(جب حکمران اور اس کے مصاحب ظلم ڈھانے لگیں، اور دنیا کے جج بے انصافی پر اُتر آئیں، تو پھر دنیا کے ججوں کے لیے منصف ِ کائنات کی طرف سے ہلاکت ہے، ہلاکت ہے، ہلاکت ہے۔)
۲۱ہزار سے زائد جو بے گناہ کارکنان جیلوں میں عذاب و اذیت جھیل رہے ہیں وہ بھی اسی عزم و یقین سے سرشار ہیں۔ ذرا اخوان کے رکن اسمبلی حمدی اسماعیل کو دیکھیے۔ وہ خود بھی گرفتار ہیں اور ان کا بیٹا ایک دوسری جیل میں پابند سلاسل ہے۔ حال ہی میں ان کے دوسرے بیٹے کو حکومتی سرپرستی میں اغوا کرلیاگیا اور رہائی کے لیے ۸۰لاکھ پائونڈ (تقریباً سوا ارب روپے) تاوان کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ حمدی اسماعیل نے اسی دوران کسی طرح اپنا تحریری پیغام اہلِ خانہ کو بھجوایا ہے، لکھتے ہیں: ’’عزیزرفیقۂ حیات! امید ہے آپ بخیریت ہوں گے۔ ہمیں یہ بات کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں آزما رہا ہے۔ وہ ہمیں گناہوں سے پاک کرنا چاہتا ہے اور ہمیں دنیا ہی میں اس وعدے سے نواز رہا ہے کہ آخرت کی منزل بہت خوب ہوگی۔ پروردگار ہم بندوں پر خود ہم سے بھی زیادہ مہربان ہے وگرنہ وہ اپنے انبیاے کرام ؑ کو بھی آزمایشوں میں کیوں مبتلا کرتا۔ ذرا ان آیات کی تلاوت کر کے دیکھو: وَاذْکُرْ عَبْدَنَــآ اَیُّوبَم اِِذْ نَادٰی رَبَّہٗٓ…(صٓ ۳۸:۴۱-۴۹)۔ اب آپ بھی ارادوں کو مضبوط کرلیں اور جدوجہد مزید تیز کردیں تاکہ ہم اپنی آزمایش میں سرخرو ہوسکیں۔ یہ زندگی، اصل زندگی کا صرف ایک منظر ہے۔ اس میں ہمیں اپنی بہترین پونجی آخرت کے لیے پیش کرنا ہے۔ یقینا اللہ ہی کا فیصلہ غالب رہے گا،لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں‘‘۔
یہ کوئی اکلوتا خط یا اکلوتا اظہار نہیں، ہر کارکن اور ہر اسیر اسی جذبے سے سرشار ہے۔ ایک اسیر کے یہ جملے ملاحظہ کیجیے جو وہ اپنے معصوم بیٹے کے نام خط میں لکھ رہے ہیں: ’’جانِ پدر! ذرا سوچو اگر میں اس تحریک میں گرفتار نہ ہوتا اور خدانخواستہ کسی ٹریفک حادثے کا شکار ہوجاتا، یا کوئی بیماری مجھے آن لیتی، تو اس صورت میں بھی صبر ہی کرنا پڑتا۔ یاد رکھو کہ ہمیں بہرصورت اللہ کے فیصلوں پر راضی رہنا ہے۔ ہم سب اللہ کے بندے ہیں۔ اس کے فیصلوں کے سامنے سرتسلیم خم کرنا ہی آخر ت میں کامیابی کا ذریعہ بنے گا۔ تمھیں اپنے آپ کو ایک ذمہ دار انسان ثابت کرنا ہے۔ قرآن کی تلاوت کبھی نہ چُھوٹے۔ نماز باجماعت ادا ہو، اپنی والدہ کو خوش رکھیں اور اس آزمایش میں ان کے معاون بنیں۔ اصل مردانگی کردار واخلاق کا نام ہے۔ اگر اس کڑے وقت میں بہادری نہ دکھائی تو آخر کب اس کا موقع آئے گا۔ اللہ سے ہردم مدد طلب کرتے رہو اور کبھی کسی کمزوری کو قریب نہ پھٹکنے دو‘‘۔
ظلم و جبر کے مقابلے میں اخوان کی ثابت قدمی پر حیرت کا اظہار کرنے والوں کو ان کی قوت کا یہ اصل راز معلوم ہے، لیکن ہرفرعون کی طرح اقتدار کا نشہ انھیں بھی اس غلط فہمی کا شکار کیے ہوئے ہے کہ ’’سب کو تہِ تیغ کردیں گے۔ میرا اقتدار ہی میری قوت رہے گا‘‘۔ اخوانی کارکنان کا موسوی کردار جب ان کی چالوں کو بودا ثابت کرتا ہے، تو ظلم و تشدد پاگل پن کی آخری حدیں جاچھوتا ہے۔ پہلے تو اخوان کو دہشت گرد اور غیرقانونی قرار دیا تھا، اب فلسطین کی تحریک حماس کو بھی دہشت گرد قرار دے دیا گیا ہے۔ مصر کے ساتھ ساتھ اہلِ غزہ پر غصہ اُتارنے کی سعی لاحاصل میں تیزی آگئی ہے۔ ماہِ رواں کے دوران بھی غزہ کی حدود سے متصل کئی کلومیٹر کا علاقہ خاک میں ملا دیا گیا ہے۔ اسرائیل اور اس کے عالمی سر پرستوں کو اپنی وفاداری کا یقین دلانے کے لیے پورے سرحدی علاقے کے رہایشی علاقوں کو بارود سے اُڑا کر بلڈوزر چلا دیے گئے ہیں۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق مصری انتظامیہ گذشتہ چند ماہ میں ۱۳۵۰ سے زائد سرنگیں تباہ کرچکی ہے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اہلِ غزہ کی زندگی کی ڈور انھی سرنگوں سے بندھی ہے۔ ساتھ ہی ایک عدالتی فرمان کے ذریعے مصر میں موجود حماس کے تمام ’اثاثہ جات‘ ضبط کرلینے کا اعلان کردیا گیا۔ حماس کے ترجمان نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’سیسی انتظامیہ اب ذرا ان اثاثہ جات کا اعلان بھی کردے کیوں کہ ہمارے علم کے مطابق وہاں ہمارے کوئی اثاثہ جات ہیں ہی نہیں‘‘۔ گویا کہ مصری فرمان کا اصل ہدف صہیونی ریاست کو خیرسگالی کا پیغام دینا ہی تھا۔
جنرل سیسی کے اقتدار کو استحکام و دوام بخشنے کے لیے ابتدائی ایام ہی سے ایک مہم یہ شروع کردی گئی تھی کہ اب اس مدارالمہام کو منصب ِصدارت بھی سنبھال لینا چاہیے۔ کئی بار تو ایسی فضا بنادی گئی کہ اعلانِ صدارت گویا اب چند روز کی بات ہے، لیکن نامعلوم وجوہات کی بناپر ابھی تک مصری عوام پر یہ احسانِ عظیم نہیں کیا جاسکا۔ مصری اور مغربی تجزیہ نگار اس کی کئی وجوہات بتاتے ہیں۔ ان تجزیوں کا مشترک نکتہ یہی ہے کہ خود حکمران ٹولے میں بھی اس بارے میں گہرے اختلافات پائے جاتے ہیں۔ صدرمنتخب ہونے کے لیے جنرل سیسی کو بھی وردی اُتارنا پڑے گی۔ ہزاروں بے گناہوں کا خون اپنے اقتدار کی بھینٹ چڑھا دینے والے کو اپنے دائیں بائیں بیٹھے وردی والوں پر ابھی یہ بھروسا نہیں کہ وردی اُترتے ہی وہ اس کا کام تمام نہیں کردیں گے۔ رہی سہی کسر ایک ’نامعلوم‘ فون کال کے ذریعے پوری کی جارہی ہے۔سرکار کے ترجمان ایک ٹی وی چینل پر موصولہ یہ کال کسی ’وحید‘ نامی شخص کی ہے۔ مصر کے ایک معروف تجزیہ نگار ڈاکٹر حلمی القاعود کے مطابق گذشتہ تقریباً چاربرس میں ’وحید‘ کی یہ چوتھی فون کال تھی۔ اس کا نمبر یا ٹھکانا کبھی معلوم نہیں کیا جاسکا۔ پہلی کال حسنی مبارک کے خلاف عوامی جذبات عروج پر پہنچ جانے کے دوران آئی تھی، جس میں اس نے دعویٰ کیا تھا کہ حسنی مبارک کے اقتدار کا خاتمہ ہوجائے گا۔ جمال مبارک اس کا وارث نہیں بن سکے گا۔ دوسری کال صدر محمد مرسی کے انتخاب کے بعد تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ صدر مرسی کا اقتدار جلدختم ہوجائے گا۔ تیسری کال جنرل سیسی کے برسرِاقتدار آنے کے بعد تھی جس میں دعویٰ تھا کہ وہ صدارتی انتخاب نہیں لڑیں گے۔ چوتھی کال چند ہفتے قبل آئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ملک کا اصل اقتدار اس وقت منظرعام پر موجود فوجی قیادت کے ہاتھ میں نہیں، خفیہ قیادت کے ہاتھ میں ہے۔ جنرل سیسی اس قیادت کا مجرد ایک آلۂ کار ہے۔ ملک کا آیندہ صدر وہ نہیں بلکہ اسی خفیہ فوجی قیادت میں سے کوئی شخص ہوگا جس کا نام ابھی کسی کے سامنے نہیں ہے۔ اسی چوتھی کال میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ صدر محمد مرسی کو جیل سے رہا کردیا جائے گا، لیکن پھر اغوا کرکے زندگی سے محروم کردیا جائے گا۔ ڈاکٹر حلمی قاعودکے مطابق: ’وحید‘ کوئی نام نہاد نجومی یا علمِ غیب رکھنے والا کردار نہیں بلکہ اسی ’اصل خفیہ قیادت‘ کا کوئی ’خفیہ ترجمان‘ ہے جو ان پیغامات کے ذریعے ایک تیر سے کئی کئی شکار کرنا چاہتا ہے۔
اسی عرصے میں فوج کے سابق سربراہ فیلڈمارشل طنطاوی جو ۱۹۹۱ء سے ۲۰۱۲ء تک کے طویل ۲۱برس تک فوجی سربراہ اور وزیردفاع رہے، بھی ذرائع ابلاغ میں نمودار ہوئے اور انھوں نے ملک کی اکلوتی جمہوری منتخب حکومت سے نجات پانے پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔جنرل سیسی نے بھی اپنے اس پیش رو کی خوشامد نُما تعریفوں کے پُل باندھے ہیں۔ ڈاکٹر حلمی کے مطابق جنرل طنطاوی نے اپنے انٹرویو میں تقریباً ۲۰مرتبہ ایک لفظ استعمال کیا اور وہ تھا: ’مُخَطَّطْ: منصوبہ‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ۳۰جون ۲۰۱۳ء کو عوام بھی یہ منصوبہ سمجھ گئے اور صدرمرسی کے خلاف نکل آئے۔ جنرل طنطاوی نے جب بار بار ’منصوبے‘ کا ذکر اور اخوان سے نجات پر خوشی ظاہر کی تو انٹرویو کرنے والے نے پوچھ ہی لیا کہ ’’پھر آخر آپ لوگوں نے اخوان کو اقتدار دیا ہی کیوں؟‘‘ جواب میں انھوں نے مصری لہجے میں بے اختیار تین بار کہا: ’’مَاسَلَّمْتُھَاشْ… مَاسَلَّمْتُھَاشْ… مَاسَلَّمْتُھَاشْ، ’’میں نے انھیں اقتدار نہیں سونپا… میں نے نہیں سونپا… میں نے نہیں سونپا‘‘۔ ہم نے عوام کے اصرارپر انتخابات کروائے اور عوام نے اخوان کو ملک پر قابض ہونے کا موقع دے دیا‘‘۔
ان تمام حقائق سے قرآن کریم کے الفاظ کے مصداق: قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآئُ مِنْ اَفْوَاھِھِمْ (اٰلِ عمرٰن ۳:۱۱۸) ’’ان کے دل کا بُغض ان کے منہ سے نکلا پڑتا ہے‘‘،عوام کا یہ یقین مزید مستحکم ہوگیا ہے کہ جابر فرعونی نظام سے نجات کے لیے قربانیوں کا یہی سفر ناگزیر ہے۔ اخوان کے کارکنان سیّدقطب شہیدؒ کے یہ الفاظ ایک دوسرے کو سنا رہے ہیں کہ: ’’اللہ کی نصرت آنے میں دیر لگ سکتی ہے، کیونکہ قدرت یہ چاہتی ہے کہ باطل کا باطل ہونا دنیا کے سامنے کھل کر آجائے۔ اگر باطل پوری طرح کھوٹا ثابت ہوئے بغیر مغلوب ہوجائے، تو ہوسکتا ہے کہ بعض لوگ اس سے پھر دھوکا کھاجائیں۔ اللہ چاہتا ہے کہ باطل کو پوری مہلت ملے ،یہاں تک اس کے بارے میں کسی کو کوئی شبہہ نہ رہ جائے اور پھر اس کے زوال پر کسی کو کوئی افسوس نہ ہو‘‘۔
اخوان بھی یقینا انسان ہیں اور بلااستثنا ہر انسان قرآن کریم کی اطلاع کے مطابق کمزور بنایا گیا ہے، لیکن آزمایشوں کی بھٹی نے انھیں ایسا کندن بنادیا ہے کہ ہر عذاب و آزمایش کے بعد پہلے سے زیادہ مضبوط و توانا ہوکر اُبھرتے ہیں۔ گذشتہ تمام قتل و غارت سے شکستہ یا مایوس ہونے کے بجاے انھوں نے ۱۹مارچ سے تحریک کا مزید پُرجوش دوسرا مرحلہ شروع کر دیا ہے۔ اگرچہ مظاہرے تو پہلے بھی ایک دن کے لیے نہیں رُکے تھے، لیکن نئے مرحلے کے پہلے ہی روز ملک بھر میں ۳۵۰مظاہرے ہوئے۔ اس وقت فوجی انقلاب مخالف درجنوں تنظیمیں میدان میں ہیں۔ طلبہ، طالبات، خواتین، مزدور، ڈاکٹر، کسان، اساتذہ___ ہر میدان میں الگ تنظیم و تحریک ہے۔ سب ہی اپنے اپنے شہدا پیش کررہے ہیں۔ اس تحریر کے دوران ہی ایک۱۴سالہ بچے عمرو کی شہادت کی خبر بھی ملی ہے اور ایک صحافی خاتون کی بھی۔پھولوں جیسے معصوم عمرو کے والدین نے آنسو بہائے لیکن الحمدللہ کا ورد کرتے ہوئے یہی کہتے رہے: ’’لخت جگر چلا گیا… لیکن کچھ عرصے سے یقین ہوچلا تھا کہ اسے تو ضرور ہی شہادت ملے گی… کوئی جلوس یا مظاہرہ ایسا نہیں ہوتا تھا کہ عمرو کو اس کا پتا ہو اور وہ مظاہرین اور زخمیوں کو پانی پلانے کے لیے اس میں نہ چلا گیا ہو‘‘۔
خاتون صحافی رقیہ اسلام جامعہ ازہر کے ایک بڑے عالم دین جناب ہاشم اسلام کی صاحبزادی تھیں۔ وہ صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ یونی ورسٹی کی طالبہ بھی تھیں۔ ہاشم اسلام کا کہنا ہے کہ ’’انھوں نے میری رقیہ کو نہیں، مجھے سزا دی ہے کیوں کہ مَیں نے جنرل سیسی کے حق میں فتویٰ دینے سے انکار کردیا تھا… اگر مجھے اپنے فتوے اور مبنی بردلیل راے کی قیمت بیٹی کی میت سے بھی زیادہ ادا کرنا پڑتی تو وہ بھی ہیچ تھی۔ البتہ غم اس بات کا ہے کہ جن علماے کرام نے جنرل سیسی کے حق میں فتویٰ دیا تھا، رب کے دربار میں وہ بھی میری بیٹی کے قتل میں برابر کے مجرم قرار پائے‘‘۔
عمر نامی ایک اور نوجوان بھی کئی ماہ قبل اسی تحریک کے دوران زخمی ہوگیا تھا۔ دائیں پہلو سے جسم میں داخل ہونے والی گولی بائیں پہلو سے نکلی تو تمام اندرونی نظام کو کاٹتے ہوئے چلی گئی۔ تب سے علاج جاری ہے، لیکن اُمیدیں بار بار دم توڑ دیتی ہیں۔ ان کی والدہ کا ایک تفصیلی انٹرویو فریڈم اینڈ جسٹس اخبار میں شائع ہوا ہے۔ دیگر باتوں کے علاوہ وہ ایک تاریخی جملہ یہ کہتی ہیں: ’’اگر بیٹے کو شہادت نصیب ہوگئی تو یہ میری خوش بختی ہوگی۔ میرے لیے غم کا سب سے بڑا دن وہ ہوتا جس روز خدانخواستہ میرا بیٹا اللہ کی اطاعت کی راہ سے ہٹ گیا ہوتا‘‘۔
صلاۃ الفجر تحریک، قرآن سے جڑے ہوئے، شہادت پر نازاں اخوان کو بھی اگر دنیا دہشت گرد قرار دیتی ہے، تو کیا ایسا کرنے والے رب کے حضور بھی کوئی جواز پیش کرسکیں گے…؟
کچھ عرصہ قبل علامہ یوسف القرضاوی صاحب کا شریکِ سفر ہونے کا موقع ملا۔ دورانِ سفر عرض کیا کہ کوئی خاص نصیحت کیجیے۔ کہنے لگے: اگرچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر دعا جامع اور الہامی دعا ہے لیکن یہ دعا کئی حوالوں سے بہت اہم ہے کہ اللھم ارنا الحق حقًا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ، ’’اے اللہ! ہمیں حق کو حق دیکھنے اور اس کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرما، اے پروردگار! ہمیں باطل کو باطل سمجھنے اور اس سے اجتناب کی توفیق عطا فرما‘‘۔ آیئے ہم بھی یہی دعا کرتے ہوئے رب کے حضور دست دعا بلند کریں۔
_______________________________________________________
٭ شمارہ اشاعت کے لیے جارہا تھا کہ فرعونِ مصر نے ظلم کی ایک نئی تاریخ رقم کردی۔ مصری عدالت نے دو روز کی ’طویل‘ سماعت کے بعد ۵۲۹ بے گناہ قیدیوں کو ’سزاے موت‘ کی سزا سنادی ہے۔ سزا یافتگان میں اخوان کے مرشدعام ڈاکٹر محمد بدیع، قومی اسمبلی کے منتخب اسپیکر ڈاکٹرسعدالکتاتنی، فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کے نائب صدر ڈاکٹر محمد البلتاجی سمیت ملک کی نام وَر سیاسی، علمی اور قومی شخصیات شامل ہیں۔
یہ انوکھا فیصلہ اگرچہ ظلم و جبر کی عدالتی تاریخ کا سیاہ ترین فیصلہ ہے لیکن ہرسننے والا انصاف پسند بلااختیارکہہ اُٹھتا ہے کہ یہ ظلم کی انتہا اور ظالموں کے خاتمے کا اعلان ہے، ان شاء اللہ!
گذشتہ تین برس سے شام خون آشام ہے۔ یہ خون آشامی آمر بشارالاسد کی ہرقیمت پر اقتدارسے چمٹے رہنے کی ہوس کا نتیجہ ہے۔امریکا ہو یا روس، شام کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ ایک طاقت بشار کی حمایت کرتی ہے تو دوسری اپوزیشن کی۔ بھیڑیوں کی اس جنگ میں نشانہ بے گناہ عوام بن رہے ہیں۔ اس جنگ کا نتیجہ ہے کہ یہ آگ بجھنے میں نہیں آرہی۔ لاکھوں لوگ ہلاک ہوچکے ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں ہجرت پر مجبور ہیں۔
سنٹر فار ڈاکومنٹیشن فار وائی لیشنز (Centre for Documentation for Violations ) کے مطابق ۲۲جنوری ۲۰۱۴ء تک ۹۷ہزار۵سو۷، جب کہ سیرین ابزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق ایک لاکھ۳۰ہزار ۴سو۳۳ ہلاکتیں ہوئیں اور یہ عام شامی ہیں جو جاں بحق ہوئے۔ وکی پیڈیا کے مطابق ان تین سالوں میں فوج اور پولیس کے ۳۲ہزار۱۳، پیراملٹری فورسز کے ۱۹ہزار۷سو۲۹ ؍ افراد خانہ جنگی کی نذر ہوئے۔ اسی طرح ریف دمشق میں ۲۲ہزار۸سو۹۷، الیپو میں ۱۶ہزار۵۴، حمص میں ۱۳ہزار۴سو۶۹، ادلب میں ۱۰ہزار۲۷، درعا میں ۸ہزار۳۴ اور دمشق میں ۷ہزارایک سو۳۷، حلب میں ۱۲ہزار۶سو۴۳، حماۃ میں ۵ہزار۷سو۵۵ لاشیں دفن کی جاچکی ہیں۔ خانہ جنگی کے باعث بیرونِ ملک نقل مکانی یا ہجرت کرنے والوں کی تعداد ۲۲لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔ یو ایس ایڈ کے مطابق اندرونِ ملک ہجرت کرنے اور بے گھر ہونے والوں کی تعداد ۶۳لاکھ سے زائد ہے۔ بیرونِ ملک رجسٹرڈ شامی پناہ گزین مختلف ملکوں میں قائم کیمپوں میں کسمپرسی کی حالت میں رہ رہے ہیں۔لبنان میں ۱۰لاکھ ، اُردن میں ۶لاکھ، ترکی میں۵لاکھ، عراق میں۲لاکھ، مصر میں ایک لاکھ اور کچھ دوسرے ممالک میں پناہ گزین ہیں، جب کہ ایک لاکھ ۳۰ہزار شامی گرفتار یا لاپتا ہیں۔
شامی پناہ گزین اسرائیل کے علاوہ تمام پڑوسی ممالک میں پناہ لیے ہوئے ہیں، جب کہ ایک بڑی تعداد یورپ میں بھی پناہ گزین ہے۔ نیوزویک نے یورپ منتقل ہونے والوں کو خطرے کی گھنٹی قرار دیا ہے۔یورپ کا رویہ پناہ گزینوں کے ساتھ بخل کا رہا ہے، اور اس نے انھیں پناہ دینے کے بجاے گریزکا رویہ اختیار کیا ہے۔تاہم، کچھ ایسے یورپی ممالک بھی ہیں جنھوں نے آگے بڑھ کر تعاون کیا جن میں جرمنی سرفہرست ہے۔ جرمنی میں ۱۰ہزار سے زائد لوگ پناہ لیے ہوئے ہیں۔ پناہ گزینوں کا زیادہ تر دبائو لبنان پر ہے۔ اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ لبنان میں مقیم شامی مہاجرین کو بالعموم اور بچوں کو بالخصوص سخت قحط کا سامنا ہے۔مصر کی فوجی حکومت کا رویہ بھی پناہ نہ دینے کا رہا جس کے باعث پناہ گزینوں نے ادھر کم ہی رُخ کیا۔ اقوام متحدہ کی نومبر۲۰۱۳ء کی رپورٹ کے مطابق یہ لوگ سخت سردی، خوراک کی قلت، صحت کی سہولتوں سے محرومی کے باعث انتہائی کسمپرسی، مفلوک الحالی، غربت اور بے بسی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ پناہ گزین کیمپوں میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے بچے ہیں جو اس کُل تعداد کے نصف سے زائد ہیں، جب کہ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق ان کی تعداد ۱۰لاکھ سے زائد ہے۔ بچوں کی بڑی تعداد تعلیم سے محروم ہوگئی ہے۔ ظاہر ہے کہ ان کیمپوں میں تعلیم کی وہ سہولیات دستیاب نہیں ہیں جو ہونی چاہییں، نیز یہ بچے محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ ان کیمپوں میں زندگی کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ویسے بھی کیمپوں میں کیا سہولیات میسر ہوسکتی ہیں!
بشار نے اپنی حکومت کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے خلاف طاقت کا بے محابا استعمال کیا۔ لاٹھی، گولی، آنسوگیس، گرفتاریاں، بکتربندگاڑیاں اور ٹینکوں کا بے دریغ استعمال کیا ہے۔ جنگی جہازوں، توپوں اور میزائلوں سے بم باری کے ذریعے عام آبادیوں، اسکولوں، ہسپتالوں، مساجد اور گھروں کو نشانہ بنایا گیا، حتیٰ کہ پناہ گزینوں کے کیمپ بھی اس دست برد سے محفوظ نہ رہے۔ بشار حکومت کے وحشیانہ تشدد، انسانیت سوز مظالم سے قیدی بھی نہ بچے۔
قفقاز سنٹر کی ۲۱جنوری کی رپورٹ جسے ترک ایجنسی (Anadolu) نے جاری کیا ، کے مطابق ملٹری پولیس میں ۱۳سال تک کام کرنے والا اہل کار ’قیصر‘ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر زیرحراست تشدد سے ہلاک ہونے والوں کی دو سال تک تصاویر بناتا رہا۔ اس نے ۱۱ہزار لاشوں کی ۵۵ہزار تصاویر بنائیں۔ تعذیب خانوں سے لاشیں ملٹری ہسپتال لائی جاتیں، جہاں ہرلاش پر کوڈ لگایا جاتا اور فلیش ڈرائیو (flash drive) کے ذریعے ان تصاویر کو حکومتی ریکارڈ میں بھیج دیا جاتا۔ یہ تصاویر اُتارنے کا مقصد اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ اعلیٰ حکام کو یقین دلایا جائے کہ زیرحراست ملزمان کو رہا نہیں کیا گیا، بلکہ ہلاک کردیا گیا ہے، جب کہ لواحقین کو بتایا جاتا کہ قیدی دل کے دورے یا سانس کی تکلیف سے ہلاک ہوا ہے۔ دوسال تک قیصر یہ فوٹوگرافی کرتا رہا۔ دوسال کے بعد تنگ آکر اس نے اپوزیشن سے رابطہ کیا اور بشار حکومت کا یہ ظلم دنیا کے سامنے آسکا۔
قیصر کے مطابق روزانہ ۵۰ کے لگ بھگ لاشیں آتیں۔ تصاویر سے ہونے والی عکاسی کے مطابق زیرحراست افراد بھوک، پیاس، وحشیانہ تشدد، گلا گھونٹنے،بجلی کے جھٹکوں اور لوہے اور بجلی کے تاروں سے باندھنے سے ہلاک ہوئے۔ لندن کی ایک لیبارٹری نے ۲۶ہزار تصاویر کا معائنہ کرنے کے بعد کہا ہے کہ یہ تصاویر درست ہیں، ان میں کمپیوٹر کے ذریعے کوئی کام نہیں کیا گیا۔ اپوزیشن اس مسئلے کو انٹرنیشنل کریمنل کورٹ میں لے جانا چاہتی ہے۔
ایک جائزے کے مطابق گذشتہ تین سالوں میں ۱۲لاکھ سے زائد گھر تباہی کا نشانہ بنے۔ شہر کے شہر کھنڈر بن گئے، جابجا لاشوں کے ڈھیر اور ویرانی ملک کامقدر بن گئی ہے۔ اس صورت حال نے لوگوں کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ پناہ گزینوں کی حالت قابلِ رحم اور تشویش ناک ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق ۶۸لاکھ افراد ہنوز امداد و تعاون کے منتظر ہیں، جب کہ اندرونِ ملک بھی ایک بڑی تعداد کو امداد درکار ہے۔ امریکا، یورپ اور عرب ممالک اربوں ڈالر امداد دے چکے ہیں لیکن یہ امداد اُونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر بھی نہیں۔
۱۵جنوری ۲۰۱۴ء کو دنیا کے ۶۰ کے لگ بھگ ممالک نے اقوامِ متحدہ کی ڈونرز کانفرنس میں شرکت کی۔ اقوام متحدہ نے شام کی خانہ جنگی سے متاثر ہونے والے ایک کروڑ ۳۰لاکھ شامی مہاجرین کے لیے ۵ء۶ ؍ارب ڈالر کی اپیل کی مگر اس میں صرف ۴ء۱؍ ارب ڈالر کے وعدے ہوئے،جب کہ ۵۰۰ ملین ڈالر صرف کویت نے دینے کا وعدہ کیا۔
دمشق کے جنوب میں واقع فلسطینیوں کے ایک مہاجرکیمپ ’یرموک‘کی تفصیلات میڈیا کے ذریعے سامنے آئی ہیں جو بہت ہولناک ہیں۔ یہ کیمپ گذشتہ تین ماہ سے حکومتی افواج کے محاصرے میں ہے۔ ہرقسم کی اشیاے خوردونوش کیمپ میں جانے سے روکی جاتی ہیں ۔ کیمپ میں ایک لاکھ کے لگ بھگ لوگ محصور ہیں۔ مسلسل محاصرے کے باعث اشیاے خوردونوش ختم ہوچکی ہیں۔ خواتین، بچوں اور بوڑھوں کی حالت قابلِ رحم ہے۔ بچے بھوک کے باعث بلکتے ہیں اور تڑپ تڑپ کر مر رہے ہیں۔ مہاجر کیمپ کی مسجد کے امام و خطیب نے اس کیفیت میں حرام جانوروں کا گوشت کھانے کا فتویٰ دے دیا ہے۔
برطانیہ میں مقیم سرجن ڈاکٹر عمرجبار جنھوں نے ایک خیراتی ادارے ہینڈان ہینڈ میں شام کے لیے رضاکارانہ طور پر کام کیا اور کئی بار امدادی سرگرمیوں کے لیے شام گئے۔ان کا کہنا ہے کہ شام میںتنازعے کے باعث ایک نسل تباہ ہوچکی ہے۔ آپ تصور کریں کہ اگر آپ کا بچہ تین سال سے سکول نہ گیا ہو اور آپ گھر سے باہر روزگار کے لیے نہ جاسکیں، تو کیا عالم ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ وقت ہے کہ انسانیت کی خاطر سوچا جائے۔ جلتی پر تیل ڈالنے کا کام بند ہونا چاہیے۔
شامی بحران پر جنوری میں ہونے والے جنیواٹو مذاکرات بھی ناکامی سے دوچار ہوگئے ہیں۔ مذاکرات کا دوسرا دور اس لحاظ سے ناکام رہا کہ فریقین کو اس میں بنیادی مقصد طے کرنے میں ناکامی ہوئی۔ انھی مذاکرات میں شام کی عبوری حکومت کا طریقۂ کار طے ہونا تھا۔ جنیواوَن کی طرح یہ مذاکرات بھی اقوامِ متحدہ کے تحت منعقد ہوئے۔ جون ۲۰۱۲ء میں منعقد ہونے والے جنیوا ون مذاکرات میں امریکا، روس، چین، برطانیہ اور فرانس کے علاوہ ۴۰ممالک کے وزراے خارجہ نے شرکت کی تھی جس میں عرب لیگ کے ۲۲ممالک بھی شریک تھے۔ جنیواٹو مذاکرات کے آغاز سے قبل ہی شامی اپوزیشن کے وفد نے اس پر اعتراضات کر کے شامل ہونے سے انکار کردیا۔ امریکا اور دوسرے مغربی ممالک کے دبائو پر اپوزیشن نے شرکت کی۔ ان مذاکرات کا پہلا دور سوئٹزرلینڈ کے قصبے مونٹرو میں منعقد ہوا، جب کہ دوسرا دور تین دن بعد جنیوا میں منعقد ہوا۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے پہلے اجلاس کی صدارت کی۔ مذاکرات کو اس وقت سخت نقصان پہنچا جب اقوام متحدہ نے ایران کو دعوت دے کر واپس لے لی۔ ایران کو مذاکرات کی دعوت دے کر واپس لینے کی وجہ مبصرین یہ بیان کرتے ہیں کہ ایران بشارالاسد کا زبردست حامی ہے۔ اس وجہ سے وہ مذاکرات پر اثرانداز ہوسکتا تھا۔ ایران جنیوا وَن مذاکرات کے عبوری حکومت کے فیصلے کا مخالف تھا۔ اس موقع پر شامی حکومت اور اپوزیشن میں مذاکرات کا آغاز تو ہوا، لیکن کسی ٹھوس نتیجے پر پہنچے بغیر اختتام پذیر ہوگئے۔ اقوام متحدہ کے خصوصی نمایندے براے شام لحذر براہیمی نے بشارحکومت کو جنیوا میں ہونے والی اس دوسری کانفرنس کی ناکامی کا ذمہ دار ٹھیراتے ہوئے کہا: ’’شامی حکومت ملک میں خانہ جنگی ختم کروانے میں سنجیدہ نہیں‘‘۔
شام کی صورت حال خوف ناک اور الم ناک ہے۔ تین سال کی خونریزی اور خانہ جنگی کے نتیجے میں کوئی فریق اتنا طاقت ور نہیں رہا کہ وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوسکے اور دوسرے کو شکست دے سکے۔ عالمی طاقتیں دل چسپی لیتیں تو یہ مسئلہ اب تک حل ہوچکا ہوتا لیکن عالمی طاقتوں کے اپنے مفادات ہیں اور اُمت مسلمہ ٹکڑوں میں بٹی ہوئی، غیروں کے لیے ترنوالہ اور زبوں حالی کا شکار ہے۔
بشار نے ایسی حکمت عملی ترتیب دی جس سے وہ اپنے طاقت ور عالمی حلیف روس کو بڑی کامیابی سے اپنے حق میں استعمال کرپایا۔ اسی طرح ایران اور حزب اللہ کی بھرپور اخلاقی، سیاسی اور عسکری تائید حاصل کی، جس نے اسے مشرق وسطیٰ پر پڑنے والے دبائوسے بچایا اور وہ انتہائی بے دردی سے اپنے شہریوں پر قوت استعمال کرپایا۔ ترک صدر عبداللہ گل نے انتباہ کیا ہے کہ اگر عالمی برادر ی نے شام میں خانہ جنگی رکوانے کی کوشش نہ کی تو شام مشرق وسطیٰ کا افغانستان بن جائے گا۔ برطانوی جریدے اکانومسٹ کے مطابق شام کو پُرآشوب رکھنا مغربی منصوبے کا حصہ ہے۔مسلم دنیا اور مسلم حکمرانوں کا کردار افسوس ناک رہا ہے اور عالمی ضمیر سو رہا ہے۔ اسلامی تحریکوں نے اُمت کو جگانے اور بیدار کرنے کے لیے آواز ضرور بلند کی ہے لیکن یہ آواز بھی صدا بصحرا ثابت ہوئی ہے۔
شامی مہاجرین کی مظلومی و بے بسی اور بے چارگی کو اُجاگر کرنے اور ان کی امداد کے لیے معروف صحافی اور نومسلم مریم ریڈلے نے بھی گذشتہ دنوں پاکستان کا دورہ کیا۔ انھوں نے اُمت مسلمہ کو اپنا کردار ادا کرنے پر زور دیا۔ انھوں نے کہا کہ شام کو آج ہمارے آنسوئوں کی نہیں ہمارے مال اور دعائوں کی ضرورت ہے۔ اگر ہم ان مظلوموں کے لیے اور کچھ نہیں کرسکتے تو اتنا تو ہمارے بس میں ہے کہ ہم ان کو اپنی دعائوں میں یاد رکھیں!
مضمون نگار سے رابطے کے لیے: www.ghazinaama.com.pk
امریکی جریدے فارن پالیسی کی ۱۲دسمبر ۲۰۱۳ء کی رپورٹWhy is Saudi Arabia buying 15,000 US Anti-Tank missiles for a war it will never fight? (سعودی عرب ۱۵ہزار امریکی اینٹی ٹینک میزائل ایک ایسی جنگ کے لیے کیوں خرید رہا ہے جو کبھی نہ لڑی جائے گی؟)کے مطابق سعودی عرب اور امریکا کے مابین جدید اسلحے کی خریداری کے لیے ایک بڑے سودے پر بات چیت جاری ہے۔مذکورہ رپورٹ کے مطابق سعودی عرب نے امریکا سے انتہائی جدید ترین ۱۵ہزار ریتھون اینٹی ٹینک میزائل خریدنے کی خواہش ظاہر کی ہے جس کی مالیت ایک ارب امریکی ڈالر سے بھی زیادہ ہے۔
بین الاقوامی دفاعی امور پر نظر رکھنے والے ادارے International Institute of Stratagic Studiesکی رپورٹ Military Balance 2014کے مطابق سعودی عرب کے پاس پہلے ہی یہ میزائل ۴ہزار کی تعداد میں موجود ہیںجو کہ ۲۰۰۹ء میں کیے گئے سودے کے نتیجے میں سعودی عرب کو حاصل ہوئے تھے۔اس پس منظر میں یہ سوال اُٹھنا لازمی ہے کہ بالآخر وہ کون سی ایسی ضرورت ہے جو سعودی عرب کو مزید ۱۵ہزار اینٹی ٹینک میزائل خریدنے پر مجبور کر رہی ہے؟ یہ یقینا بہت اہم سوال ہے جس کا جواب ڈھونڈنے کے لیے مشرقِ وسطیٰ کے دیگر ممالک کے دفاعی اخراجات کا جائزہ لینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے۔
سویڈن میں قائم ایک معتبر ادارہStockholm International Peace Research Institute (SIPRI)جو گذشتہ دو دہائیوں سے دنیا بھر کے ممالک کے دفاعی اخراجات پر نظر رکھے ہوئے ہے، کی رپورٹ Trends in World's Military Expenditure 2012 کے مطابق دنیا کے ۱۵بڑے دفاعی اخراجات کے حامل ممالک میں سعودی عرب اس وقت ساتویں نمبر پر ہے۔ اسی ادارے کی ۲۰۱۱ء کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب ۲۰۱۱ء میں آٹھویں نمبر پر تھا۔ لیکن ۲۰۱۲ء میں سعودی عرب کے دفاعی اخراجات کی مد میں ۲۰۱۱ء کی نسبت۱۲ فی صد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے جو کہ سعودی عرب کے کل جی ڈی پی کا ۹ء۸ فی صد بنتا ہے۔رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۲ء-۲۰۱۳ء سعودی عرب کے دفاعی بجٹ میں کُل۱۱۱فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔لہٰذا اپنے جی ڈی پی کے تناسب کے اعتبار سے سعودی عرب دنیا میں دفاعی اخراجات کی مد میں بجٹ خرچ کرنے والاسب سے بڑا ملک بن چکا ہے۔سال ۲۰۱۲ء میں اس کے دفاعی اخراجات کا بجٹ ۷ء۵۶ ارب امریکی ڈالر ریکارڈ کیا گیا تھا۔
سعودی عرب کے بعد دوسرا عرب ملک جس کے دفاعی اخراجات میں اچانک بے پناہ اضافہ ہوا ہے وہ ریاست عمان ہے۔عرب ریاست عمان جس کی کل آبادی تقریباً ۴۰لاکھ نفوس پر مشتمل ہے اور مالی لحاظ سے بھی دیگر امیر ریاستوں کی بہ نسبت کمزور ہے، اب وہ دوسری بڑی ریاست بن چکی ہے جو کہ سعودی عرب کے بعد اپنے دفاعی اخراجات میں تیزی سے اضافہ کر رہی ہے۔SIPRI ہی کی ۲۰۱۲ء کی رپورٹ کے مطابق ریاست عمان نے اپنے دفاعی اخراجات میں ڈرامائی اضافہ کرتے ہوئے سال ۲۰۱۱ء کی نسبت اچانک ۵۱ فی صد اضافہ کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ عمان نے اپنے حالیہ ۲۰۱۳ء کے بجٹ میں دفاع کی مد میں ۵۴ء۳۳ ارب امریکی ڈالر کی رقم مختص کی ہے جو کہ سال ۲۰۱۲ء کے مقابلے میں ۵ء۷ ارب امریکی ڈالر زیادہ ہے۔ SIPRIکی ۲۰۱۱ء کی رپورٹ کے مطابق ریاست عمان نے اپنے کُل جی ڈی پی کا ۵ء۸ فی صد دفاع پر خرچ کیا ۔
اسلحے کی اس دوڑ میں تیسری عرب ریاست کویت ہے۔SIPRIکی ۲۰۱۲ء کی رپورٹ کے مطابق کویت نے بھی ۲۰۱۱ء-۲۰۱۲ء کے دفاعی اخراجات میں ۱۰فی صد اضافہ کیا ہے، جب کہ SIPRI ہی کی ۲۰۱۱ء کی رپورٹ کے مطابق کویت نے سال ۲۰۱۱ء میں دفاع کی مد میں کُل ۵۶۴۰ملین امریکی ڈالر خرچ کیے۔دیگر عرب ریاستیں جن میں بحرین اور قطر شامل ہیں نے بھی سال ۲۰۱۲ء میں اپنے دفاعی اخراجات کی مد میں مسلسل اضافہ کیاہے ۔
عرب ریاستیں کیونکہ سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں زیادہ آگے نہیں ہیں، لہٰذا وہ اپنی دفاعی ضروریات کو پور ا کرنے کے لیے مغربی ممالک پر ہی انحصار کرتی چلی آ رہی ہیں۔ ان کی دفاعی پیداواری صلاحیت نہ ہونے کے برابر ہے اور ہتھیار اور ان کے فاضل پُرزے مسلسل مغربی ممالک سے حاصل کیے جارہے ہیں، جو ان کی دفاعی صنعت کی تقویت کا باعث ہورہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ یہ عرب ریاستیں اس وقت دنیا بھر میں اسلحے کے سب سے بڑے ڈیلر امریکا کی بہترین گاہک ہیں اور مشرقِ وسطیٰ مغربی ممالک کے اسلحے کی خریداری کے حوالے سے سب سے بڑی منڈی بن چکا ہے۔۲۰۱۰ء میں SIPRI کی جاری کردہ ایک اور رپورٹ Military Spending and Arms Procurment 2010کے مطابق ان تمام تر دفاعی سودوں میں سب سے زیادہ فائدہ بالترتیب امریکا، فرانس اور برطانیہ نے اٹھایا ہے۔ اسی رپورٹ کے مطابق عرب ریاستوں کے ہر۱۰۰ میں سے ۷۰ سودے امریکی اسلحہ ساز اداروں سے ہی ہوتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں ہر سال عرب ریاستوں کے کئی سو ارب امریکی ڈالرامریکا کے اسلحہ ساز اداروں کے اکائونٹس میں چلے جاتے ہیں۔اب اگر ان بھاری بھرکم فوجی اخراجات کے مقابلے میں عرب ریاستوں کو لاحق بیرونی خطرات کا جائزہ لیا جائے تو اور بھی پریشان کن سوالات جنم لیتے ہیں۔
ماضی کی باہمی جنگوں کے تناظر میںعرب ریاستوں کے لیے ایک بڑا خطرہ عراق ہو سکتا تھا۔ لیکن امریکا کے ہاتھوں عراق کی تباہی و بربادی کے بعد اب وہ خطرہ کافی حد تک ختم ہوچکا ہے۔ایران اور روس کی پشت پناہی کے نتیجے میں شام جو کہ خطے میں ایک اُبھرتی ہوئی بڑی فوجی قوت تھا اس وقت داخلی انتشار و تباہی کے راستے پر گامزن ہے اور اب وہ کسی دوسرے ملک کے لیے کوئی خطرہ نہیں رہا۔باوجود اس کے کہ ایران کو عرب ریاستوں کے خلاف ایک ہوّے کے طور پر استعمال کیا گیا، لیکن ایران، جو دو دہائیوں کی سخت پابندیوں اور تنہائی کے بعد ایک دفعہ پھر عالمی برادری میں اپنا مثبت تاثر قائم کرنے کی طرف جا رہا ہے، کا بھی فوری طور پر کسی قسم کی جارحیت کا ارتکاب مشکل ہے۔ رہا اسرائیل کا خطرہ___ جو اصل خطرہ ہے، اس سے ان تمام ہی ممالک کو بظاہر کوئی خطرہ نہیں اور یہ سب اسرائیل سے کھلے یا خفیہ تعلقات استوار کیے ہوئے ہیں۔ حال ہی میں یہ تمام حقائق دنیا کے سامنے آئے ہیں کہ خلیجی ممالک کے اعلیٰ ترین اجتماع میں سکائپ (بذریعہ انٹرنیٹ) کے ذریعے خود اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے شرکت کی ہے جس پر امریکی تجزیہ نگار بھی تعجب کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکے۔ خصوصیت سے بین الاقوامی نیویارک ٹائمز کے تجزیہ کار فریڈمین کا مضمون چشم کشا ہے۔ لہٰذا اس مختصر جائزے کے بعد ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ عرب ریاستوں کو فی الحال کسی سنگین اور فوری نوعیت کے بیرونی خطرے کی پیش بندی کی ضرورت نہیں ہے۔لیکن پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ روزبروز بڑھتے ہوئے دفاعی اخراجات کیوں؟
مشرق وسطیٰ سے جاری ہونے والے انگریزی اخبار (الاخبار)کے تجزیہ نگار Raymond Barrett کے مضمون New Trends in Arab Defence Spendings (عرب دفاعی اخراجات میں نئے رجحانات) کے مطابق عرب ریاستیں جیسا کہ بحرین ، کویت اور سعودی عرب اس وقت گذشتہ عرب بہار کے خوف سے خارجی سے زیادہ اپنی داخلی سلامتی کے حوالے سے تشویش میں مبتلا ہیں، Raymond Barrettکا یہ تجزیہ کافی حد تک صحیح معلوم ہوتا ہے۔کیونکہ عرب ریاستوں خصوصاً بحرین ، کویت اور سعودی عرب کی جانب سے الیکٹرانک سرویلنس اوردیگر جاسوسی کے آلات کی خریداری اور سوشل میڈیا اور موبائل فون پر سخت نگرانی کے نظام کا حصول اُن کے اِس داخلی سلامتی کے حوالے سے خوف کی غمازی کرتا ہے۔طویل اور جابرانہ آمریت کے بعد مصر اور تیونس میں سوشل میڈیا کے مؤثر استعمال کے نتیجے میں برپا ہونے والی انقلابی تحریکوں کے کامیاب ہونے کے بعد سے دیگر عرب ریاستوں میں سوشل میڈیا ویب سائٹس اور موبائل فونز کی نگرانی اور اس کے نتیجے میں سیاسی کارکنوں کی گرفتاریاں بھی عرب ریاستوں کے اسی داخلی سلامتی کے حوالے سے شدید تشویش کی غمازہیں۔
ماضی میں شام کی طرف سے روس اورچین سے اسرائیل کے نام پر خریدے گئے ہتھیار بھی بشار الا سد اپنے ہی ملک کے عوام کو تباہ و برباد کرنے پر صرف کر رہا ہے۔ جن میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال بھی شامل ہے، جو کہ سنگین جنگی جرائم کے زمرے میں آتاہے جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد جاں بحق، جب کہ لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ یہی صورت حال عرب ملک مصر کی ہے۔ جہاں ایک جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد وہاں کے فوجی آمر کی طرف سے اپنے ہی عوام کے جمہوری حقوق اور آزادی کو کچلنے کے لیے بے دریغ گن شپ ہیلی کاپٹر اور ٹینکوں کا استعمال کیا گیا۔لہٰذا جو بجٹ عرب عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لیے استعمال ہونا چاہیے تھا وہی اب ان کے جمہوری حقوق کی پامالی کے لیے داخلی سلامتی اور دہشت گردی کو کچلنے کے نام پر استعمال ہو رہا ہے۔
ایک طرف اسلحے کی خریداری کی یہ ریل پیل ہے اور دوسری طرف ان ممالک اور دوسرے عرب اور مسلمان ممالک کے عوام کی معاشی، تعلیمی اور سماجی حالت دگرگوں ہے۔ آئی ایم ایف کی شائع کردہ رپورٹ Prespectives on Youth Employment in Arab World 2012 جو کے ورلڈ اکنامک فورم کے تحت شائع کی گئی کے مطابق اس وقت مشرقِ وسطیٰ نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح کے حوالے سے پوری دنیا میں بدترین صورت حال سے دوچار ہے، جہاں نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح ۲۵ فی صد سے بھی زیادہ ہے۔امریکا کے عراق پر قبضے اور شامی بحران کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مہاجرین کا مسئلہ ایک انسانی بحران کی کیفیت اختیار کرچکا ہے اوراس حوالے سے دسمبر کے مہینے میں اقوامِ متحدہ نے اپنی تاریخ کی سب سے بڑی امدا د کی اپیل جاری کی ہے۔
بچوں میں پولیو وائرس مشرقِ وسطیٰ کے ممالک میں ایک بار پھر سر اُٹھا چکا ہے۔ لیکن عرب ریاستیں ان حقیقی مسائل کے حل کے لیے کوئی مؤثر کردار ادا کرنے سے اغماض برت رہی ہیں اور جو بجٹ عوام کی فلاح و بہبود ،تعمیر و ترقی ،تعلیم و صحت اور دیگر اس جیسی شہری سہولیات پر خرچ ہونا چاہیے تھا وہ اب غیر ضروری اور محض تصوراتی خوف پر مبنی دفاعی اخراجات کی نذر ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ منجملہ دیگر اُمور امریکا کی War on Terrorکے نام سے پوری دنیا میں پھیلائی ہوئی دہشت ہے کہ جس کے نتیجے میں امریکا سے یورپ اور مشرقِ وسطیٰ تک اپنے ہی عوام کی جاسوسی اور نگرانی جیسے جنون کی وجہ سے عوامی فلاح کابجٹ سیاسی مفادات کے لیے ضائع ہو رہا ہے۔ اور اس کا اصل فائدہ مغربی ممالک اور خصوصیت سے ان کے ہتھیار بنانے والے ادارے اُٹھارہے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اب مسلم دنیا اپنی ترجیحات کاازخود تعین کرتے ہوئے، مغربی پروپیگنڈے سے باہر نکل کر انھیں ازسرِنو مرتب کرے اوراپنے عوام کو جائز شہری وسیاسی حقوق، جمہوری روایات اور تعلیم و صحت جیسی فلاحی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اپنے بجٹ کو صرف کرے، تاکہ آج کی مسلم دنیا بھی تعلیم و ترقی کے میدان میں جدید دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوسکے۔
(مضمون نگار انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد میں ریسرچ اسسٹنٹ ہیں)
افغانستان میں وہ کون سی ایسی کشش یا اس کی طلسماتی سحرانگیزی تھی کہ دنیا کی تین بڑی سوپرپاورز کو اپنی طرف کھینچا اور وہ اپنے مستقبل کے انجام سے بے خبر اس خطے میں داخل ہوگئیں اور بالآخر اِن کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ تاریخ کا بھی یہ حیرت انگیزباب ہے کہ ہرسوپرپاور کی شکست نے جغرافیائی اور سیاسی تبدیلیاں پیدا کیں، اُن کی حیثیت مضمحل ہوگئی اور اپنے دائرے میں محدود ہوکر رہ گئیں۔ مجاہدین کے ہاتھوں سابق سوویت یونین کی شکست نے بڑے گہرے اثرات مرتب کیے۔ دنیا کے نقشے سے سوویت یونین کا وجود ہی مٹ کر رہ گیا۔ سوویت یونین کو شکست ہوسکتی ہے؟ اس پر قوم پرست اور بائیں بازو کے دانش ور اور سیاست دانوں کو یقین ہی نہیں آتا تھا۔ اس کا اندازہ بھارت کے ممتاز صحافی راجیندرا سرین (Rajendra Sareen) کی کتاب Pakistan - The Indian Factor کے مطالعے سے ہوسکتا ہے۔ ان کے خیالات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ کس طرح سوچتے تھے لیکن وقت اور تاریخ نے کچھ اور فیصلہ کیا۔
جب امریکا افغانستان میں داخل ہوا تو سیکولر اور بایاں بازو امریکا کے سایے میں کھڑا ہوگیا اور ان کی سو چ اور تجزیہ بھی ایسا ہی تھا کہ امریکا کو کون شکست دے سکتا ہے، لیکن آج امریکا ۱۱سال کی لاحاصل جنگ کے بعد افغانستان سے ناکام اور نامراد لوٹ رہا ہے۔ اس کے بعد افغانستان میں کیا صورت حال ہوگی؟ پاکستان پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ جنوبی ایشیا کس طرح اور کن کن پہلوئوں سے اثرانداز ہوگا؟ کشمیر میں اس کے کیا اثرات پڑیں گے؟ ایران اور افغانستان کے تعلقات کس سمت میں سفر کریں گے؟ بین الاقوامی طور پر حالات کیا رُخ اختیار کریں گے؟ کیا جغرافیائی تبدیلی رُونما ہوگی؟ اور ان سب سے اہم سوال یہ ہے کہ خود افغانستان پر اس کے اثرات کس طرح پڑیں گے؟ان سب پر تفصیل سے تجزیے کی ضرورت ہے۔
افغانستان میں امریکا کا کردار خاتمے کی طرف بڑھ رہا ہے اور جوں جوں دسمبر۲۰۱۴ء قریب آتا جائے گاطالبان کے حملوں میں شدت آتی جائے گی۔ جنگ کی طوالت نے امریکی عوام میں مایوسی کو تیزی سے پروان چڑھایا ہے۔ امریکا کے ۷۰ فی صد عوام فوج کی واپسی چاہتے ہیں۔ ۲۰۱۰ء میں واشنگٹن پوسٹ میں ایک مضمون طالبان کے حوالے سے شائع ہوا۔ اس میں اس بات کا اعتراف کیا گیا کہ طالبان کے حوصلے اس تصور ہی سے بلند ہوگئے ہیں کہ اب امریکا افغانستان سے بوریا بستر لپیٹنے کی تیاری کر رہا ہے۔ ان کے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ امریکا کو کسی نہ کسی طرح زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا جائے۔ مشرقی اور جنوبی افغانستان میں امریکی فوجیوں پر حملوں کا سلسلہ وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔ اس وقت اس بات کو تسلیم کیا گیا کہ افغان فوج اس قابل نہیں کہ اسے پورے افغانستان کی سکیورٹی کی ذمہ داری سونپی جائے۔ افغانستان میں تیزی سے بگڑتی ہوئی صورتِ حال کا طالبان بھرپور فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔
امریکا نے افغانستان کے حوالے سے جو اہداف طے کیے تھے اس میں اسے مکمل ناکامی کا سامنا ہے، اور اس سے امریکی عوام اور اتحادیوں میں تشویش بڑھتی جارہی ہے۔ امریکا کے سابق وزیرخارجہ ہنری کسنجر نے اپنے ایک مضمون میں امریکا کو بعض اہم مشورے دیے ہیں اور بعض اقدامات تجویز کیے ہیں۔ لیکن ہنری کسنجر کو سب سے زیادہ تشویش اور خوف اس بات کا ہے کہ امریکا ایک فاتح کے بجاے شکست خوردہ سوپرپاور کی حیثیت سے لوٹے۔
ہنری کسنجر اپنے مضمون میں اس طرف یوں نشان دہی کرتے ہیں: ’’اگر امریکا نے افغانستان سے نکلنے میں جلدی کی اور دانش مندی سے کام نہ لیا اور دنیا کو یہ تاثر ملا کہ واحد سوپرپاور شکست کھاگئی ہے تو علاقائی اور عالمی سطح پر جہادازم کو فروغ ملے گا ۔ مسلم عسکریت پسندوں کو مقبوضہ کشمیر میں اور بھارتی سرزمین پر تیزی سے اقدامات کی تحریک ملے گی۔ ایسی حالت میں افغانستان میں نسلی بنیادوں پر خانہ جنگی اور بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک ڈھکی چھپی جنگ کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔
اگر افغانستان میں طالبان دوبارہ برسرِاقتدار آگئے تو کئی ممالک کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی۔ روس میں چیچنیا کا علاقہ، چین میں سنکیانگ کا صوبہ عسکریت پسندوں کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔ ایران میں سُنّی عسکریت پسند مستحکم ہوسکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو ایران جواب میں افغانستان کی شیعہ آبادی کو ملیشیا کی سطح پر مدد فراہم کرسکتا ہے، جیساکہ اس نے لبنان اور عراق میں کیا۔ افغانستان سے امریکی انخلا کا معاملہ زیادہ پیچیدہ اس لیے ہوگیا ہے کہ پاکستان اور ایران سے امریکا کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ ان دونوں ممالک کے پاس افغانستان سے نکلنے کا آپشن موجود نہیں ہے۔ ان کے اور ہمارے مفادات میں ہم آہنگی نہ پائی گئی تو افغانستان کو اِن کے معاملے میں دبائو کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اگر افغانستان میں استحکام کا اہتمام نہ کیا گیا تو امریکا سے زیادہ پڑوسی ممالک خطرے میں رہیں گے، اور اگر امریکا نے نکلنے میں عجلت کا مظاہرہ کیا تو بنا بنایا کھیل بگڑ جائے گا۔ افغانستان سے نکلنے کے معاملے میں امریکیوں کو ایک بات یقینی بنانا ہوگی۔ وہ یہ کہ انخلا حتمی ہو، یعنی دوبارہ مداخلت کی کوئی گنجایش نہیں ہونی چاہیے‘‘۔(نیوزویک، پاکستان اڈیشن،۳ جون، ۲۰۱۱ء)
امریکا کے سامنے اب بنیادی کام یہ ہے کہ کسی بڑے قضیے کو روکتے ہوئے کسی طرح افغانستان سے نکلا جائے اور جنگ کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔ ہنری کسنجر اپنے تجزیے میں بعض اہم پہلوئوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ طالبان سے مذاکرات بارآور ہونے چاہییں۔ اگر ایسا نہ ہوسکا تو پھر افغانستان کو متحارب گروپوں میں تقسیم کردیا جائے۔(ایضاً)
امریکا کی پوری کوشش ہے کہ طالبان کے ساتھ کسی حتمی فیصلے تک پہنچا جائے۔ لویہ جرگہ کو مُلّاعمر اور حکمت یار نے مسترد کردیا ہے اور صدرکرزئی کچھ شرائط کے ساتھ بالآخر دستخط پر آمادہ ہوجائیں گے۔ وہ کیا شرائط ہوں گی؟ ابھی پردۂ راز میں ہیں۔ وقت تیزی سے امریکا کے ہاتھوں سے نکلا جا رہا ہے۔ ۱۱سال لمحوں میں گزر گئے تو ۱۱مہینے ہوا کے جھونکوں کی طرح گزر جائیں گے۔
امریکا ایک شکست خوردہ سوپرپاور کی حیثیت سے افغانستان سے لوٹنا شروع ہوگیا ہے۔ افغانستان میں اس وقت ۳۰؍ارب ڈالر کا اسلحہ موجود ہے اور امریکا ۲۰؍ارب ڈالر کا اسلحہ نیلام کرنا چاہتا ہے، جب کہ باقی ۱۰؍ارب ڈالر کا اسلحہ پاکستان کو فروخت کرنا چاہتا ہے اور کچھ حصہ افغانستان کو دینا چاہتا ہے۔ امریکی افواج کا انخلا تیزی سے جاری ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق امریکی فوج کے کرنل اینڈریو رالنگ نے چھے ماہ میں ۳ہزار سے زائد اسلحے کے کنٹینر امریکا روانہ کیے ہیں۔ افغانستان میں امریکا کے زیراستعمال گاڑیوں کی تعداد ۵۰ہزار ہے۔ گولہ بارود اور دیگر سازوسامان کو بھیجنے میں امریکا کو ۵؍ارب ۷۰کروڑ ڈالر خرچ کرنا ہوں گے۔ وہ بہت کم سازوسامان فوجیوں کے لیے چھوڑنا چاہتا ہے۔ کرنل اینڈریو رالنگ امریکا کی ۱۳۳ویں ایربورن بریگیڈ کے سربراہ ہیں۔ ان کے سامنے چھے میٹر طویل کنٹینروں کا ایک سمندر موجود ہے۔ امریکا اور اتحادیوں کے پاس اب صرف ۱۱مہینے بچے ہیں۔ اس عرصے میں ان سب کو نکالنا ایک دشوار ترین کام ہے۔
اربوں ڈالر کی مالیت کا اسلحہ بارود اور دیگر سامان افغانستان میں بکھرا پڑا ہے۔ نہ سب کو چھوڑ سکتے ہیں اور نہ سب ساتھ لے جاسکتے ہیں۔ اسلحے سے بھرے کنٹینر سڑکوں پر کھڑے ہیں۔ ان میں قیمتی سامان موجود ہے۔ اسلحے سے بھرے کئی کنٹینر غائب بھی ہوگئے ہیں۔ ان کی رپورٹ بھی درج کی گئی ہے۔ مشرقی افغانستان میں باگرام ایئربیس میں امریکا کا سب سے بڑا اڈا موجود ہے۔ اس کے علاوہ کئی چھوٹے چھوٹے ایئربیس بھی ہیں۔ چھوٹے اڈوں سے اسلحہ اور سازوسامان واپسی کے لیے یہاں پہنچایا جاتا ہے اور چھانٹی کی جاتی ہے۔ سول کنٹریکٹر دن رات اسی کام میں لگے ہوئے ہیں کہ کون سا سامان تلف کرنا ہے۔ یہ سب کام تیزی سے ہورہا ہے اور مزدور دن رات کام میں لگے ہوئے ہیں۔ امریکی فوج کے ۴۵۵ بریگیڈ کو فوجیوں کو امریکا بھجوانے کا کام سونپا گیا ہے۔ فوج کا یہ یونٹ روزانہ ۱۳۰۰ فوجی اور ۶۰۰ٹن سامان امریکا بھجواتا ہے۔ ۴x۴ فٹ کے ککرباکس میں ۳لاکھ ڈالر کی اشیا موجود ہوتی ہیں اور ہرہفتے ۳۰۰ کنٹینر جارہے ہیں۔ امریکا کے ایک لاکھ فوجیوں کا انخلا دسمبر۲۰۱۴ء تک مکمل ہونا ہے۔ امریکا ۱۱سال تک اسلحہ اور سامان افغانستان پہنچاتا رہا ہے۔ یہ اب ایک ڈھیر کی صورت میں وہاں موجود ہے۔ افغانستان سے ترسیل آسان کام نہیں ہے۔( ٹائم میگزین،۸مارچ ۲۰۱۳ء)
ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں ایک لاکھ بھرے ہوئے کنٹینر واپسی کے لیے تیار کھڑے ہیں۔ اب ان کا سلسلہ بلوچستان کے راستے شروع ہوچکا ہے۔ قندھار سے کوئٹہ اور کوئٹہ سے براستہ خضدار کراچی جارہا ہے۔ صوبہ کے پی کے میں دھرنے سے واپسی متاثر ہوئی ہے۔ اگر وہ راستہ نہ کھلا تو سامان کی واپسی میں مزید تاخیر ہوگی اور اخراجات بھی بڑھ جائیں گے۔
امریکا نے دہشت گردی ختم کرنے کے نام پر افغانستان اور عراق میں جو کچھ کیا ہے اس کو اس کے نتائج بھی بھگتنا پڑرہے ہیں۔ امریکی صدر جارج بش نے ۲۰۰۳ء میں کہا تھا کہ امریکا کو دونوں جنگوں میں مجموعی طور پر ۵۰ سے ۶۰؍ ارب ڈالر اخراجات برداشت کرنا پڑیں گے۔ ۲۰۱۱ء میں برائون یونی ورسٹی کے واٹسن انسٹی ٹیوٹ انٹرنیشنل اسٹڈیز نے اعداد وشمار پیش کیے کہ عراق اور افغانستان میں جنگوں پر تقریباً ۴۴۰۰؍ارب ڈالر کے اخراجات ہوئے ہیں۔ اس میں زخمیوں کے علاج اور افغانستان میں تعمیرنو کے اخراجات شامل نہیں ہیں۔ ماہرمعاشیات جوزف اسٹگلر کا کہنا ہے کہ صرف افغانستان میں ۲۲۰۰؍ارب ڈالر خرچ کرنا پڑے ہیں اور امریکا پر ۲۰۱۲ء تک ۱۶ہزار ارب ڈالر سے زائد قرضوں کا بوجھ بڑھ جائے گا اور امریکا میں ۲کروڑ ۲۵لاکھ افراد بے روزگار ہوچکے ہیں۔ (Was it Worth It, Afghanistan 11 Years Later، گلوبل ریسرچ، ۸؍اکتوبر ۲۰۱۲ء)
امریکا کا سب سے بڑا اتحادی برطانیہ ہے۔ اس کو افغانستان کی جنگ میں کتنا نقصان اُٹھانا پڑا؟ اس کے نقصانات کے اعدادوشمار بھی حیرت انگیز ہیں۔ برطانیہ کے فوجیوں کو ۲۰۰۶ء میں ہلمند میں تعینات کیا گیا۔ ہلمند کی کُل آبادی ۱۵لاکھ ہے۔ ایک تازہ کتاب میں جنگ کے حوالے سے تجزیہ پیش کیا گیا ہے کہ افغانستان میں برطانوی حکومت کے مجموعی اخراجات کم و بیش ۴۰؍ارب پونڈ ہوں گے۔ سرکاری تخمینوں کے مطابق قومی خزانے سے افغانستان کی جنگی کارروائیوں کے لیے مختص رقم ۲۵؍ارب پونڈ سے زیادہ ہوگئی ہے۔(دی گارڈین، ۳۰ مئی ۲۰۱۳ء)
یہ اعداد و شمار ۲۰۱۲ء-۲۰۱۳ء کے ہیں۔ ۲۰۱۴ء شروع ہوگیا ہے۔ ہلاکتوں اور اخراجات میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ جوں جوں امریکا اور ناٹو تیزی سے اپنے سازوسامان اور فوجیوں کو واپس لے جارہے ہیں اور طالبان کے حملوں میں بھی شدت بڑھتی جارہی ہے۔ افغانستان کی سرزمین پر ۲۰ویں صدی میں برطانیہ اور سابق سوویت یونین کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ اب ۲۱ویں صدی امریکا اور اُس کے اتحادیوں کی ایک اور شکست دیکھے گی۔ افغانستان میں دونوں عالمی سامراجی سوپرپاور جنگ کے مابعد اثرات سے نہیں بچ سکی ہیں تو امریکا اور اس کے اتحادی کیسے بچ سکتے ہیں۔ امریکا کے مضمحل ہونے کا عمل شروع ہوگیا ہے اور یہ منظر بھی دنیا دیکھے گی کہ جغرافیائی اور سیاسی تبدیلیاں کس طرح سے رُونما ہوں گی۔
تیونس میں دستور سازی کا مشکل مرحلہ مکمل ہوچکا ہے ۔ اتوار ۲۶ جنوری ۲۰۱۴ء کو رات گئے قومی اسمبلی میں اس پر راے شماری ہوئی اور ۱۲کے مقابلے میں۲۰۰؍ ارکان نے اس کے حق میں ووٹ دے کر حتمی منظوری دے دی ۔ مصر کے حالیہ سیاسی بحران کے تناظر میں ہر طرف سے تیونس کے انقلاب ِ یاسمین کی کامیابی پر نہ صرف سوالات اٹھائے جا رہے تھے، بلکہ ملک دشمن عناصر مختلف تخریبی کارروائیوں کے ذریعے حالات کو وہی رخ دینے کی کوشش کر رہے تھے ۔کبھی امن وامان کا مسئلہ کھڑا کرکے اور کبھی دستور سازی کے عمل کو مشکوک قرار دے کرتیونس حکومت سے دست برداری کا مطالبہ کر رہے تھے۔ تاہم، تیونس کی لیڈرشپ نے بروقت اورحکیمانہ اقدامات کرکے حالات پر قابو پالیااور تین سال کی کش مکش کے بعد ملک کو ایک متفقہ آئین دینے میں کامیاب ہوئی ہے۔ اس ساری مدت میںاندرون اور بیرون ملک سے جلتی پر تیل کاکام کرنے والے مسلسل سازشیں کرتے رہے۔ اقتصادی ناکامی کا ڈراما رچایا گیا، انسانی حقوق کا واویلا مچایا گیا، ملک میں تخریبی کارروائیاںکی گئیںاور آخر میں دو اپوزیشن لیڈروں کو قتل کروایا گیا، تاکہ ان واقعات کی آڑ لے کر منتخب جمہوری حکومت کا دھڑن تختہ کیا جائے اور آزادی و جمہوریت کے سفرکو آغاز ہی میں ناکام بنایا جائے۔
۱۴ جنوری ۲۰۱۱ء کونصف صدی سے جاری آمریت سے نجات حاصل ہوئی تو ملک کے پہلے آزاد انتخابات میں عوام نے اسلامی تحریک پر اعتماد کیا اور ۲۱۷کے ایوان میں ۹۰ پر اسے کامیابی ملی۔دوسری پوزیشن حاصل کرنے والی پارٹی کو ۳۰ نشستوں اور تیسرے نمبر پر آنے والی جماعت کو صرف ۲۱نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی ۔تحریکِ نہضت چاہتی تو تنہا ہی حکومت بنالیتی لیکن اس نے ملکی وحدت اورقومی سلامتی کو پیش نظر رکھتے ہوئے بائیں بازو کی معتدل جماعتوں کو ساتھ ملا کر ایک قومی حکومت تشکیل دینے کا فیصلہ کیا۔چنانچہ دوسرے نمبر پر آنے والی جماعت ’کانگریس پارٹی‘ کو صدارت، اور تیسرے نمبر پر آنے والی پارٹی ’التکتل‘ کوا سپیکر شپ کی دعوت دی جو انھوں نے قبول کی اور خود وزارت عظمیٰ پر اکتفا کیا۔
حکومت کی یہ کامیابی اندرون و بیرون ملک اسلام دشمن عناصر کو ایک آنکھ نہ بھائی اور مخالفت کا ایک طوفان کھڑا کر دیا گیا۔ سیکولر لابی نے اپنے آقاؤں کے اشارے پر واویلا شروع کیا کہ تحریکِ نہضت ملک میں خلافت نافذ کرنا چاہتی ہے۔ اب لوگوں کے ہاتھ کٹیں گے اور ہرطرف اسلام کے سخت قوانین کو بالجبر نافذ کیا جائے گا۔ نام نہاد انسانی حقوق کے علَم برداروں نے شور مچایا کہ تحریکِ نہضت کی کامیابی سے مذہبی آزادی اور حقوقِ نسواں کو سنگین خطرہ لاحق ہوگیا۔ زین العابدین کی باقیات اور ان کے زیر اثر میڈیا نے آسمان سر پر اٹھایا کہ اسلام پسند ملک کو تاریک اندھیروںمیں ڈبونے جارہے ہیں۔بڑے سرمایہ داروں نے معیشت کی تباہی کی دہائی دی اور ایسا نقشہ کھینچا گیا کہ اگر تحریکِ نہضت کی حکومت کا خاتمہ نہ کیا گیاتو ملک دیوالیہ ہوجائے گا۔یہ اور اس طرح کے دیگر نعروں سے عوام کو مشتعل کرنے کی کوشش کی گئی اور حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے۔
ایک کروڑ ۱۰ لاکھ کی مجموعی آبادی میں ۷لاکھ بے روزگاروںکو روزگار فراہم کرنا انقلاب کے بنیادی مقاصد اور مطالبات میں شامل تھا۔ ایک بالکل نئی حکومت کے لیے چند دنوں یا مہینوں میںیہ مسئلہ حل کرنا ممکن نہ تھا۔ وہ بھی ایسے وقت میںجب بن علی اور اس کا خاندان سرکاری خزانے کو مالِ مفت سمجھ کر ہڑپ کر گئے تھے۔ چنانچہ مخالفین نے اس مسئلے کوخوب اُچھالا اور اعلان کیا کہ حکومت انقلاب کے مقاصد کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے۔
ذرائع ابلاغ جن کی اکثریت دین بے زارسرمایہ دار وںاورمفرور صدر بن علی کے قریب ترین افراد کی ملکیت ہے، نے جلتی پر تیل کا کام کیا ۔گذشتہ دو سال کی قلیل مدت میں ۲۰نئے اخبار،چھے ٹی وی اور سات ریڈیو چینل وجود میں آئے اور روزِ اول سے اپنی توپوں کا رخ حکومت کی طرف کردیا۔ اس ساری کارروائی میں وہ جماعتیں پیش پیش تھیں جنھیں عوام نے انتخابات میں بُری طرح مسترد کردیا تھا۔ ان سب کا ایک نکاتی ایجنڈا یہ تھا کہ حکومت کو تحلیل کیا جائے اور نئے سرے سے انتخابات کرائے جائیں۔
۲۰۱۳ء انقلابِ یاسمین کے لیے آزمایشوں سے بھر پور سال رہا۔حکومت کی برطرفی اور نئے سرے سے انتخابات کا مطالبہ کامیاب نہ ہوا تومخالفین اوچھے ہتھکنڈوں پر اُتر آئے۔ ملک میں قتل وغارت اور جلاؤ گھیراؤ کی سیاست مزید تیز کردی گئی۔اپوزیشن کے ایک رہنما شکری بلعید کو قتل کرکے حکومت کو اس کا ذمہ دار قراردیا گیا۔ چنانچہ پُر تشدد مظاہروںکا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا اور حکومت کی برطرفی کا مطالبہ ایک دفعہ پھر زور پکڑ گیا۔ حکومت میں شامل جماعتوں کے پاؤں بھی لرزنا شروع ہوگئے اوردستور سازی کا عمل رک گیا۔ ایسے میں تحریک نہضت نے تاریخ کی انوکھی قربانی دی اورپارلیمنٹ میںسب سے زیادہ نشستیں ہونے کے باوجود وزارت عظمیٰ سمیت کئی اہم وزارتوں سے دست برداری کا اعلان کیا اور حکومت ایک غیرجانب دار فردکے حوالے کردی۔
حالات نسبتاً معمول پر آئے تو دستور سازی کا عمل دوبارہ شروع ہوا۔ حکومت جلد سے جلد ملک کو ایک نیا آئین دے کر عام انتخابات کرانا چاہتی تھی لیکن سازشوں کے تانے بانے بُننے والے اپنے مذموم مقاصد سے بازنہ آئے ۔ جولائی ۲۰۱۳ء میں ایک اور اپوزیشن رہنما محمد البراہیمی کو قتل کردیا گیا۔ بین الاقوامی اور ملکی میڈیا نے ایک دفعہ پھر آسمان سر پر اٹھا لیا۔ امن وامان کی صورت حال بگڑ گئی اور حکومت کی برطرفی اور پارلیمنٹ کی تحلیل کا مطابہ زور پکڑ گیا۔
یہی دن تھے جب مصر میں جمہوریت پر شب خون مارتے ہوئے منتخب حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا اور صدر محمد مرسی کو پابند سلاسل کردیاگیا۔ تیونس کے ناکام سیاست دان یہاں اسی تجربے کو دہرانے کے لیے سرگرم ہوگئے۔ حکومتی صفوں میں دراڑ پیدا کرنے کی کوششیں بھی کی گئیں۔ تحریکِ نہضت نے پارلیمنٹ کی بھر پور تائید کے باوجود ایک دفعہ پھر کمالِ حکمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مکمل طور پر حکومت سے علیحدگی کا اعلان کیا اور باقی تمام وزارتیںبھی چھوڑدیں۔ملک میں غیر جانب دار ٹیکنو کریٹس کی حکومت قائم کرنے کے لیے مہدی جمعہ کو وزارتِ عظمی کا قلم دان سونپ دیا۔یوں مخالفین کے منہ بند ہوئے اور سازشی عناصر کواپنے مذموم ارادوںمیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ قومی اسمبلی نے دستور سازی کا عمل جاری رکھااور آخر کارجنوری ۲۰۱۴ء میںیہ صبر آزما مرحلہ مکمل ہوگیا۔
جمعرات ۲۳ جنوری ۲۰۱۴ء کو قومی اسمبلی نے نئے دستورپر شق وارتفصیلی بحث کی جس کے بعدارکان اسمبلی نے اس کی بنیادی منظوری دے دی۔ ۲۶ جنوری کو حتمی منظوری کے لیے ایوان کے سامنے پیش کیا گیااورصرف ۱۲؍ ارکان نے اس کی مخالفت میں ووٹ دیا۔یہ ۱۹۵۹ء کے بعد ملک کا پہلا جمہوری آئین ہے۔
نئے آئین میں اسلام کو ریاست کا دین، عربی کواس کی زبان اور جمہوریت کو اس کا نظام قرار دیاگیا ہے، جب کہ شہریوںکو بشمول مذہبی آزادی، ہر قسم کی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے۔ خواتین کے حقوق کا بھی خاص طور پر خیال رکھا گیا ہے ۔نئے دستور کی رو سے فوج کے کردار کو واضح طور پر متعین کیا گیا ہے جو ملکی دفاع ،قانون کی پاس داری اور سیاست سے مکمل طور پر غیر جانب دار رہنے پر مبنی ہے۔موجودہ حالات میں یہ ایک متوازن دستور ہے ۔ بعض لوگ اسے ایک سیکولر آئین قرار دیتے ہوئے کہتے ہیںکہ اس میںقانون کو شریعت کا پابند نہیں کیا گیا ہے۔ تاہم جو لوگ تیونس کی ۶۰ سالہ تاریخ اور اس سے پہلے ۷۵ سالہ استعماری دور سے واقف ہیںوہ جانتے ہیں کہ ایک ایسے ملک میں جہاں سر پر اسکارف لینے والی خاتون کے کسی بھی سرکاری دفتر، کالج اور یونی ورسٹی میںداخلے پر پابندی ہواور جہاں نوجوان مسجد میں نماز پڑھیں تو انھیں غائب کر دیا جائے، جہاں پر داڑھی رکھنا معیوب ہی نہیں جرم سمجھا جاتا ہواور جہاں اسلام پسندی کی سزا کال کوٹھریاں ہوں اور جہاں ۶۰ سال سے قانون حکمرانوں کے گھر کی لونڈی ہو، وہاں آزادی کے پہلے مرحلے میں اس سے مناسب اور متواز ن آئین لانا شاید سر دست ممکن ہی نہ ہو۔
اس تاریخی کامیابی کے بعد عبوری حکومت ایک غیر جانب دار الیکشن کمیشن کے قیام کے لیے مشاورت کر رہی ہے جو ملک میں شفاف، آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنائے۔ توقع ہے کہ نئی حکومت تمام تر چیلنجوں کے باوجود اس مرحلے کو بھی طے کر لے گی۔
بیرونی اور اندرونی سازشیںمسلسل جاری رہیں۔مختلف حربے استعمال کیے گئے، کئی ایک دینی جماعتوں کو بھی استعمال کیا گیا، متشدد گروہوں نے حکومت کو بدنام کرنے کے لیے دہشت گردی کی کئی ایک کارروائیاں بھی کر ڈالیں،لیکن اسلامی تحریک ثابت قدم رہی اور دُوراندیشی کا ثبوت دیتے ہوئے تمام لوگوں کو ساتھ لے کر یہ سارے مراحل طے کر لیے۔ اس پورے عرصے میں فوج غیر جانب دار رہی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ برادر اسلامی ملک میں کامیابی کا یہ سفر کہاں تک جاری رہتا ہے۔
بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی جس ابتلا و آزمایش سے گزررہی ہے، اس کی جڑیں سرزمینِ بنگلہ دیش میں نہیں بلکہ اس طوفانِ کرب و بلا کا مرکز سرحدپار موجود ہے۔ بنگلہ دیش میں اس نفرت کے سوداگر عوامی لیگ، بنگالی قوم پرست، مقامی ہندو اور سیکولر طبقات ہیں۔ حسب ذیل تحریر ملاحظہ کیجیے:
میں ذاتی سطح پر جماعت اسلامی کے بارے میں ۱۹۷۱ء کی مناسبت سے کوئی اچھی راے نہیں رکھتا۔ لیکن اس لمحے جب بنگلہ دیش میں دانش وروں اور صحافیوں کی ایک بڑی تعداد جماعت اسلامی پر سنگ باری کر رہی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ مجھے سچ کہنے میں بزدلی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔
بہت سے مقامات پر، بہت سے لوگوں سے ملنے کے بعد مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے کہ عوامی لیگ خود دہشت گردانہ کارروائیاں کرکے، ان جرائم کا الزام جماعت اسلامی پر دھر رہی ہے۔ مزید یہ کہ ، بے شمار تحریروں اور تصانیف کے مطالعے کے بعد، جب میں [بنگلہ دیش کے حوالے سے] بھارت کے موجودہ طرزِعمل کا جائزہ لیتا ہوں، تو مجھے صاف دکھائی دیتا ہے کہ ۱۹۷۱ء میں [مشرقی پاکستان پر مسلط کردہ] جنگ بھارت کی مسلط کردہ تھی، اور جو فی الحقیقت بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ (RAW) کا پراجیکٹ تھا۔ اسی طرح جب میں عوامی لیگ اور ذرائع ابلاغ کو جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈا کرتے ہوئے دیکھتا ہوں، تو مجھے اس یلغار کے پسِ پردہ محرکات کو سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی کہ بنگلہ دیش میں فی الواقع جماعت اسلامی ہی وہ منظم قوت ہے، جو بھارت کی بڑھتی ہوئی دھونس اور مداخلت کو روکنے میں اہم کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ گویا کہ ۱۹۷۱ء میں ہماری آزادی کے حصول کی جدوجہد کے دشمن، آج ہماری آزادی کے تحفظ کے بہترین محافظ ہیں۔ میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جماعت اسلامی کی سیاسی جدوجہد کی مخالفت کرنے کے باوجود میں محسوس کرتا ہوں کہ اس پارٹی کا وجود ہماری آزادی کے تحفظ کے لیے اشد ضروری ہے۔ بھارت نے ہمارے صحافیوں، سیاست دانوں، قلم کاروں اور فوجیوں کو خرید رکھا ہے، لیکن میں واشگاف کہوں گا کہ وہ جماعت اسلامی کو خریدنے میں ناکام رہا ہے۔
یہ تحریر بنگلہ دیش کے سابق وزیر بیرسٹر شاہ جہاں عمر کی ہے، جو ایک ماہر معاشیات بھی ہیں اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے مرکزی رہنما اور خالدہ ضیا کے مشیر بھی ۔ پاکستان سے علیحدگی کی جدوجہد میں حصہ لینے کے اعتراف میں بنگلہ دیش نے انھیں دوسرے سب سے بڑے قومی اعزاز ’بیراتم‘ سے نوازا ہے۔ انھوں نے یہ احساسات اپنے فیس بک اکائونٹ پر ۱۸جنوری ۲۰۱۴ء کو مشتہرکیے۔ انھی بیرسٹر شاہ جہاں عمر نے عبدالقادر کی شہادت کے دو روز بعد ۱۴دسمبر ۲۰۱۳ء کو لکھا تھا:
وہ لوگ جو عبدالقادر کی شہادت پر مٹھائیاں تقسیم کر رہے تھے، ان کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ نہ تھی، اور یہ لوگ ایک غیرانسانی اور وحشیانہ عمل کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ لیکن ان ایک ہزار پاگلوں کے مقابلے میں ۱۰۰ سے زیادہ مقامات پر لاکھوں لوگوں نے عبدالقادر کی شہادت پر غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کرکے اس ابدی سچائی کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا کہ وہ ایک مظلوم انسان تھا، جسے انتقام کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔
بنگلہ دیش جماعت اسلامی درحقیقت اُس نام نہاد ’امن کی آشا‘ کے سامنے ایک آہنی چٹان ہے، جسے ڈھانے کے لیے برہمنوں ، سیکولرسٹوں اور علاقائی قوم پرستوں کے اتحادِ شرانگیز نے ہمہ پہلو کام کیا ہے۔ اس ضمن میں ان کا حقیقی سرمایہ جھوٹا پروپیگنڈا اور اسلام کی تضحیک ہے۔ بھارتی کانگریس کے لیڈر اور گذشتہ ۱۰ برسوں سے حکمران وزیراعظم من موہن سنگھ اس مناسبت سے ایک دل چسپ کردار ہیں۔ جنھوں نے: بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کو بے دست وپا کرنے، مولانا مودودیؒ کی کتابوں پر پابندی عائد کرنے اور دو قومی نظریے کی حامی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کو دیوارسے لگانے کے لیے حسینہ واجد حکومت کی بھرپور سرپرستی کی۔ دوسری جانب خود بھارت میں مسلم نوجوانوں کو جیل خانوں اور عقوبت کدوں میں سالہا سال تک بغیر کسی جواز اور عدالتی کارروائی کے ڈال دینے کا ایک مکروہ دھندا جاری رکھا ہے۔ افسوس کہ پاکستانی اخبارات و ذرائع ابلاغ اس باب میں خاموش ہیں۔
بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے حوالے سے بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کے اس بیان کو پڑھیے، جو انھوں نے بنگلہ دیش میں اپنے مجوزہ دورے سے قبل۳۰جون ۲۰۱۱ء کو نئی دہلی میں بنگلہ دیش اور بھارت کے ایڈیٹروں سے گفتگو کرتے ہوئے دیا تھا:
بنگلہ دیش سے ہمارے اچھے تعلقات ہیں، لیکن ہمیں اس چیز کا لحاظ رکھنا پڑے گا کہ بنگلہ دیش کی کم از کم ۲۵ فی صد آبادی اقراری طور پر جماعت اسلامی سے وابستہ ہے اور وہ بہت زیادہ بھارت مخالف ہے۔ اس لیے بنگلہ دیش کا سیاسی منظرنامہ کسی بھی لمحے تبدیل ہوسکتا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ یہ عناصر جو جماعت اسلامی پر گرفت رکھتے ہیں، بنگلہ دیش میں کب کیا حالات پیدا کردیں۔
وزیراعظم من موہن سنگھ کی اس ’فکرمندی‘ اور بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کو کچلنے کی خواہش کو معلوم نہیں پاکستانی وزارتِ خارجہ کس نظر سے دیکھتی ہے، تاہم عوامی لیگ، حسینہ واجد اور ان کے ساتھیوں کی حیثیت محض ایک بھارتی گماشتہ ٹولے کی سی ہے۔ جسے بنگلہ دیش کے مفادات سے زیادہ بھارتی حکومت کی فکرمندی کا احساس دامن گیر ہے۔ گذشتہ تین برسوں پر پھیلے ہوئے عوامی لیگی انتقام کو پاکستانی سیکولر طبقے ۱۹۷۱ء کے واقعات سے منسوب کرتے ہیں، حالانکہ بدنیتی پر مبنی اس یلغار کا تعلق حالیہ بھارتی پالیسی سے ہے۔ وہ پالیسی کہ جس کے تحت بھارت اپنے ہمسایہ ممالک میں نوآبادیاتی فکر اور معاشی و سیاسی بالادستی کو مسلط کرنا چاہتا ہے۔ بنگلہ دیش کی حکومت یہ کام کھل کر ، کررہی ہے اور پاکستان میں یہ ظلم ’مادرپدر آزاد میڈیا‘ اور وفاقی حکومت میں گھسے کچھ عناصر انجام دے رہے ہیں جس کے تحت انجام گلستان صاف دیکھا جاسکتا ہے۔
یہ ایک انتہائی ادھورا اور آمرانہ دستور ہے جس پر ۱۴ جنوری ۲۰۱۴ء کو جعلی ریفرنڈم کروا کے عوام کے گلے ڈال دیا جائے گا۔ دستور کسی بھی ریاستی نظام کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے لیکن مصر کا مجوزہ دستور یہ بھی نہیں بتا رہا کہ جو اسمبلی قانون سازی کرے گی وہ کیسے منتخب ہوگی، کب منتخب ہوگی؟ وزیراعظم کیسے اور کب منتخب ہوگا؟ ملک کے معروف اور بزرگ قانون دان ڈاکٹر طارق البشری، جن کا تعلق اخوان سے نہیں ہے کے بقول: ’’یہ اس بچے کا نکاح پڑھا یا جارہا ہے جو ابھی پیدا ہی نہیں ہوا‘‘۔ حکومتی پراپیگنڈا اسی غیر مولود دستور کے حق میں زمین و آسمان کے قلابے ملارہا ہے۔
صدر محمد مرسی کے ایک سالہ دور اقتدار میں مصر کو پہلا جمہوری دستور نصیب ہوا تھا۔ ۶۱سالہ فوجی آمریت اور اس سے قبل برطانوی استعمار کے زیرسایہ بادشاہت خود ہی قانون بھی تھی اور دستور بھی۔ صدر مرسی کے دور میں ارکان پارلیمنٹ کے ووٹ سے ۱۰۰ رکنی دستور ساز کونسل منتخب کی گئی۔ مسلمان ہی نہیں عیسائی بھی، اسلامی ہی نہیں سیکولر ماہرین قانون بھی اس کونسل کا حصہ تھے۔ طویل مشاورت اور ایک ایک شق کی کئی کئی بار خواندگی کے بعد اسے عوامی ریفرنڈم کے لیے پیش کیا گیا۔ ابتدا میں اس پر کڑی تنقید کرنے والوں نے بھی بالآخر اس میں بھرپور حصہ لیا۔ مکمل طور پر شفاف ووٹنگ میں ۶۷ فی صد ووٹ ڈالے گئے۔ ۶۴ فی صد عوام نے ہاں کہا اور ملک کو ایسا دستور مل گیا، جسے عوام کے حقیقی نمایندوں نے تیار کیا تھا۔ یہ پہلا دستور تھا جس کے بنوانے والے صدر نے اپنے اختیارات میں اضافہ نہیں کمی کی تھی۔ خود کو پارلیمنٹ ہی کا نہیں وزیر اعظم اور کابینہ کے مشوروں کا بھی پابند بنایا تھا، تاکہ آمریت کا خاتمہ ہوسکے۔ مصر کے اس حقیقی دستور کی شق ۱۴۱ واضح طور پر بیان کرتی ہے: ’’صدر جمہوریہ اپنے اختیارات، وزیراعظم، اس کے نائبین اور وزرا کے ذریعے سنبھالے گا‘‘۔ دفاع، خارجہ اور قومی سلامتی کے بعض اُمور، دیگر کئی شقوں کے پابند بناتے ہوئے مستثنیٰ بھی رکھے گئے تھے، لیکن ان کی مجموعی اور اصل روح یہی تھی کہ عوام کے براہِ راست ووٹوں سے منتخب ہونے والا صدر بھی جواب دہ اور تقسیمِ کار کا پابند بنایا جاسکے۔
اس دستور میں ترمیم کے لیے بھی ایک کڑا نظام وضع کیا گیا تھا تاکہ کسی ڈکٹیٹر کے لیے اسے موم کی ناک بنانا ممکن نہ ہوسکے۔ دستور کی دفعہ ۱۱۷اور۱۱۸ کے مطابق دستوری ترمیم کے لیے صدر جمہوریہ یا قومی اسمبلی کے ۵/۱ ارکان ترمیم پیش کرسکتے تھے۔ ۳۰ روز کے اندر اندر، قومی اسمبلی اور سینیٹ الگ الگ کثرت راے کے ذریعے، اسے بحث کے لیے منظور یا مسترد کرسکتی تھی۔ اس کے بعد دونوں ایوان ۶۰ دن کے اندر اندر بحث کرکے دو تہائی ووٹوں سے اسے منظور کرتے تو ۳۰روز کے اندر اندر اس پر عام ریفرنڈم کرواکے منظور یا مسترد کیا جاسکتا تھا۔ اب کیا ہوا ہے؟ جنرل کی وردی میں ایک لاٹ صاحب نے بیک جنبش قلم پورے دستور کو معطل کردیا۔ اسے ایک خود ساختہ ۵۰رکنی کمیٹی کے سپرد کردیا، جس نے پانچ ماہ میں ترمیم کے نام پر، ایک نیا دستور قوم کے سامنے رکھ دیا ہے، جو ۱۴ اور ۱۵جنوری کو ریفرنڈم کے ذریعے ملک پر تھوپ دیا جائے گا۔
یہ ایک ایسا دستور ہے جس میں اصل اختیارات فوج کے سربراہ اور وزیر دفاع کے ہاتھ میں ہیں۔ واضح رہے کہ وزیر دفاع بھی جنرل عبد الفتاح سیسی ہیں اور فوج کے سربراہ بھی وہی ہیں۔صدر مملکت یا پارلیمنٹ سمیت کوئی بھی وہ دوام و اختیارات نہیں رکھتا جو وزیر دفاع صاحب رکھتے ہیں۔ حکومت ختم ہونے یا مدت صدارت ختم ہوجانے پر بھی وزیر دفاع کا عہدہ برقرا رہے گا۔ اس کی تعیناتی بھی حکومت یا صدر جمہوریہ نہیں، فوج خود ہی کرے گی۔ حالیہ مسودے کی شق ۲۳۴ کہتی ہے ’’وزیر دفاع کا تعین مسلح افواج کی سپریم کونسل کی منظوری سے کیا جائے گا اور اس کایہ عہدہ دو مکمل صدارتی مدتوں کے لیے ہوگا‘‘۔ یعنی سربراہ ریاست تمام سیاسی جماعتیں اور ارکان پارلیمنٹ تو ایک آئینی مدت مکمل ہونے پر ووٹ لینے عوام کے پاس جائیں گے، جب کہ وزیر دفاع صاحب وہی رہیں گے۔ یہ سوال بھی بلا جواب ہے کہ اگر بالفرض کوئی صدر صاحب اپنی دو مدتیں مکمل نہ کرپائیں، یا انھیں پوری نہ کرنے دی جائیں تو کیا وزیر دفاع کی مدت از سرِ نو شروع ہوجائے گی؟ ظاہر ہے کہ پھر ’’شیر کی مرضی ہوگی، انڈا دے یا بچہ دے‘‘۔ نئے دستور کے مطابق فوج کے لیے الگ فوجی عدالت قائم کی گئی ہے لیکن اس میں عام شہریوں پر بھی مقدمات چلائے جاسکیں گے، جب کہ فوج پر جو قوم ہی کا حصہ ہوتی ہے، کسی عام عدالت میں مقدمہ نہیں چلایا جاسکے گا۔ فوج کے بار ے میں کوئی قانون سازی یا فوجی بجٹ کی منظوری و بحث بھی پارلیمنٹ یا کوئی اور ادارہ نہیں، قومی دفاعی کونسل ہی کرسکے گی جو چھے سو یلین (صدر مملکت سمیت) اور آٹھ فوجی جرنیلوں پر مشتمل ہوگی۔
مصر کے حقیقی اور اصل دستور میں ملک و قوم کی دینی و نظریاتی شناخت کی حفاظت اور تمام قوانین کو دائرۂ شریعت میں محفوظ کرنے کا محکم انتظام تھا۔ حالیہ مسودے میں اس طرح کی تمام شقیں ہی نہیں، قرآن و سنت اور اسلامی تعلیمات پر مبنی تمام شقیں حذف کردی گئی ہیں۔ یہی نہیں توہین رب العالمین اور توہین رسالت کی سزا بھی حذف کردی گئی ہے۔ شریعت کے احکام کی وضاحت کے لیے جامعۃ الازہر کی سپریم علما کونسل کو دستوری حق دیا گیا تھا۔ اب شریعت کی وضاحت بھی دستوری عدالت کرے گی۔ جی ہاں، وہی دستوری عدالت جس نے ہر قدم پر صدر مرسی کی راہ میں روڑے اٹکائے، جس نے نو منتخب قومی اسمبلی چند ہفتے بعد ہی تحلیل کر دی اور جو سینیٹ تحلیل کرنے جارہی تھی۔ جس کے ججوں کی اکثریت واضح طور پر سیکولر بلکہ دین دشمن افراد پر مشتمل ہے۔ مساوات مردوزن کے حوالے سے ایسی ملفوف عبارت لکھی گئی ہے جس سے وراثت میں مردوں اور عورتوں کا حصہ برابر قرار پائے گا۔ نئے دستور میں قرآن کریم، یا حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے تو کوئی ایک سطر یا جملہ بھی نہیں درج ہونے دیا گیا، لیکن قبطی مسیحی پیشوا ’ شنودہ‘ کا معروف جملہ اصل متن کے ساتھ دستور کا حصہ بنا دیا گیا ہے کہ: ’’مصرہمارا وطن ہے ہم اس میں بستے ہیں اور وہ ہم میں رہتا ہے‘‘۔ اصل دستور میں کرپشن کے خاتمے کے لیے ایک قومی ادارہ تشکیل دینے کا ذکر تھا، اسے بھی حذف کردیا گیا ہے۔ ایک شق میں کہا گیا تھا کہ ’’بچوں کی صحت اور تعلیم کے علاوہ دینی تعلیمات اور قومی روایات کی روشنی میں ان کی تربیت ریاست اور معاشرے کی مشترک ذمہ داری ہوگی‘‘۔ گویا اس مقصد کے حصول کے لیے مطلوبہ ماحول کی فراہمی حکومت اور معاشرے کا دستوری تقاضا ٹھیری تھی۔ اب اسے حذف کردیا گیا ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ دو سال کے اندر اندر پانچ انتخابات میں مصری عوام نے اخوان پر اعتماد کا اظہار کیا تھا۔ قومی اسمبلی، سینیٹ اور صدارتی عام انتخابات کے ان تمام نتائج کو فوجی بوٹوں اور بندوقوں نے روند ڈالا۔ اس غیر قانونی اور غیر اخلاقی اقدام کو سند جواز بخشنے کے لیے ۳۰ جون کو فوج اور سیکورٹی اداروں کی زیرسرپرستی میدان التحریر میںایک بڑا عوامی مظاہرہ کیا گیا تھا۔ جنرل سیسی نے اسی عوامی مظاہرے کو اپنے قبیح جرائم کی بنیاد بنایا تھا۔ اب دستور میں یہ شق شامل کردی گئی ہے کہ صدر جمہوریہ کو ہٹانے کے کسی عوامی مظاہرے یا جلسے جلوس کو وجۂ جواز نہیں بنایا جاسکے گا۔ بھلا اب اس کا کیا مطلب ہوا؟ یہی ناں کہ جنرل صاحب کو تو کسی قانون یا اخلاق کیا پورے پورے دستور کی بھی پروا نہیں، یہ نئی دستوری شق بھی ان کے ارادوںمیں حائل نہیں ہوگی۔ لیکن دوسروں کے لیے وہ سب کچھ حرام ہے جو ہمارے لیے حلال تھا۔ ویسے اگر وہ سمجھ سکیںتو یہ تازہ شق کھلم کھلا اعترافِ جرم بھی ہے کہ ہم نے ۳۰ جون کو جو کچھ کیا، وہ باطل تھا۔ اس لیے اب دستور میں اسے باقاعدہ باطل قرار دے رہے ہیں۔ انسان اگر اپنی ڈاکا زنی کا اعتراف کرلے تو اس کی تلافی صرف یہی ہوسکتی ہے کہ اس نے جو کچھ لُوٹا اور غصب کیا تھا وہ واپس کردے۔ لیکن اس اعتراف اور اس عظمت کے لیے انسان ہونا بھی ضروری ہے۔
دستور تازہ کے بارے میںآخری اور اہم بات یہ ہے کہ جنرل صاحب کی پسند پر مبنی اس ۵۰رکنی کمیٹی میں سے صرف پانچ افراد پنج وقتہ نماز ادا کرتے تھے۔ باقی ۴۵ میں سے کئی ایسے بھی ہیں جو کھلم کھلا منشیات استعمال کرتے ہیں، یا کورے جاہل ہیں یا پورے ملک میں واضح طور پر امریکی و اسرائیلی مفادات کے ضامن سمجھے جاتے ہیں۔ کمیٹی کے سربراہ عمرو موسیٰ تھے جو طویل عرصے تک حسنی مبارک کے وزیر خارجہ اور پھر عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل رہے۔ خط کا یہ عنوان بھی اس کا مضمون بتانے کے لیے کافی ہے۔
اخوان ہی نہیں آغاز میں فوجی انقلاب کا ساتھ دینے والے کئی اخوان مخالف گروہ اس مضحکہ خیز دستوری تماشے کے بائیکاٹ کا اعلان کرچکے ہیں۔ کرنل جمال ناصر ، کرنل انور سادات اور ایئرکموڈور حسنی مبارک کے دور میں بھی کئی بار فوجی سنگینوں تلے ریفرنڈم ہوئے۔ پانچ بار ہونے والے ہر فوجی ریفرنڈم میں ۹۹ فی صد عوام کی ہاں والا نتیجہ برآمد ہوا۔ اب بھی اسی طرح کے نتائج کا پوراپورا انتظام کرلیا گیا ہے۔ ہوسکتا ہے تناسب کچھ کم دکھایا جائے، کیونکہ صدرمرسی کے جمہوری دور میں ہونے والے اکلوتے ریفرنڈم میں گھنٹوں لائن میں کھڑے رہنے کے بعد ووٹ ڈالے گئے، تب بھی ووٹوں کاتناسب ۷ء۶۶ فی صد ہوسکا تھا۔ آیندہ دستوری ریفرنڈم میں مرضی کے نتائج کے حصول کے لیے ایک خصوصی اہتمام یہ بھی کیا گیا ہے کہ ووٹوں کی گنتی پولنگ سٹیشن پر ہی کرنے کے بجاے، بیلٹ باکس الیکشن کمیشن لے جائیں گے اور وہاں ’’خود کوزہ و خود کوزہ گر و خود گِل‘‘ کی مثال تازہ کی جائے گی۔ ریفرنڈم کے لیے ۱۴ اور ۱۵ جنوری کی تاریخیں رکھی گئی ہیں۔ میدان رابعہ میں ۱۴؍ اگست کو قیامت صغریٰ برپا کرنے کے ٹھیک پانچ ماہ بعد یہ دستوری نمک پاشی کسی طور فوجی حکمرانوں کے حق میں نہیں جائے گی، لیکن جب حماقت ہونا ہو، تو قدرت اسی طرح مت مار دیتی ہے۔
اسی طرح کی ایک اور سنگین حماقت اخوان کو دہشت گرد قرار دینا ہے۔ جنرل سیسی کے متعین کردہ وزیراعظم حازم السیلاوی نے ابھی چند روز قبل ہی کہا تھا: ’’اخوان کو دہشت گرد قرار دینا کابینہ کا کام نہیں۔ یہ اس کے دائرۂ اختیار میں نہیں آتا ہے۔ اگر ایسا ہونا بھی ہے تو یہ کام عدالتوں کے ذریعے ہوگا وگرنہ ہم ایک بے قانون ریاست شمار ہوں گے‘‘۔ پھر اچانک دقہلیہ شہر میں پولیس اسٹیشن پر دھماکا کروایا گیا اور اسی وزیراعظم اور اس کی کابینہ نے اخوان کو دہشت گرد قرار دینے کا اعلان کر دیا۔ ساتھ ہی ۱۰۵۵؍ رفاہی اداروں پر پابندی لگاتے ہوئے ان کے اکائونٹ منجمد کردیے حالانکہ ان سب کا تعلق اخوان سے نہیں ہے۔ اس فیصلے سے گویا لاکھوں غریب اور محتاج موت کی وادی میں دھکیل دیے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک رفاہی ادارہ ۵لاکھ یتیموں اور بیوائوں کی کفالت کر رہا تھا۔
اسکندریہ یونی ورسٹی میں فزکس کی لائق ترین طالبہ ’’روضہ شلبی‘‘ بھی انھی سزا یافتہ پھولوں میں شامل تھی۔ اس کی والدہ بتارہی تھیں کہ میں نے سزاؤں کے اعلان کے بعد روضہ کو عدالتی پنجرے میں ہنستے ہوئے دیکھا تو سمجھی کہ میری معصوم بیٹی کو شاید معلوم ہی نہیںہوسکا کہ کتنی خوف ناک سزا سنادی گئی ہے۔ رہائی کے بعد میںنے پوچھا: روضہ! کیا تمھیں پتا تھا کہ جج نے کتنی سزا سنادی ہے؟ ہاں، امی معلوم تھا۔ تو پھر ہنس کیوں رہی تھیں؟ امی بس عدالت اور پولیس کے سامنے بے اختیار ہنس دی۔ مجھے محسوس ہوا ہنسی میرے دل سے نکل رہی ہے کیونکہ اس سے دل کا سارا بوجھ اُترگیا۔ یہ یقین بھی مزید مضبوط ہوگیاکہ اللہ کا ارادہ ان سب پر غالب ہوگا ،ان شاء اللہ۔ لیکن امی جیل میںتنہا ہو ئی تو، آنسوؤں کا دھارا بے اختیار بہہ نکلا تھا۔ مجھے اپنے ملک میں ظلم کی انتہا پر رونا آیا کہ یہ مظالم کب تک اور کیوں کر ہوتے رہیں گے‘‘!
رب کی رحمت و قدرت، جلادوں کی خواہش پر غالب آئی اور سیسی حکومت منہ کالا کروانے اور عوامی تحریک کو مزید مضبوط کرنے کے علاوہ کچھ حاصل نہ کرپائی۔ مزید حیرت انگیز بات یہ ہے کہ عدالت نے دھمکی دی تھی کہ اگر دوبارہ کوئی حرکت کی تو پھر گرفتار کرلیں گے اور آیندہ کوئی معافی نہیں ملے گی۔ جیل سے رہائی پاتے ہی سب معصوم بچیوں نے گروپ کی صورت میں چار انگلیوں سے رابعہ کا نشان بناتے ہوئے باآواز بلند اعلان کیا ہم نے پہلے بھی اپنے حقوق کے لیے مظاہرے کیے تھے، آیندہ بھی ہمیںاس سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ایک بچی نے کہا: لَسْنَا نَادِمَاتٍ وَلَا خَائِفَاتِ لِأَنَّنَا عَلَی الْحَقِّ وَسَنَنْتَصِرْ فِي الْاَخِیْر اِنْ شَائَ اللّٰہِ، ’’ہم نہ تو نادم ہیں نہ خوف زدہ کیوں کہ ہم حق پر ہیں اور نصرت بالآخر ہمیں ہی ملنا ہے‘‘۔