بسم اللہ الرحمن الرحیم
جہاں یہ ایک حقیقت ہے کہ تاریخِ انسانی کا ہر باب ظلم، ناانصافی اور خوں آشامی کی دل خراش داستانوں سے بھرا پڑا ہے، وہیں یہ بھی ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ ظلم کی بالادستی کو کبھی دوام حاصل نہیں ہوسکا۔ جب بھی مظلوم اور ستم زدہ انسانوں نے ظلم اور محکومی کی زنجیریں توڑ کر غاصب آقائوں کے نظام کو چیلنج کیا ہے، اور مزاحمت اور مقابلے کا راستہ اختیار کیا ہے تو بالآخر وہ ظلم کے نظام کو پاش پاش کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں، چاہے اس جدوجہد میں کتنا بھی وقت کیوں نہ لگا ہو۔ اس کے برعکس اگر ظلم کے نظام کو چیلنج نہ کیا جائے یا اس سے سمجھوتا کرنے کی حکمت عملی اختیار کی جائے، تو پھر ظلم کی رات طویل اور تاریک سے تاریک تر ہوتی جاتی ہے، اِلاَّ یہ کہ اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہو اور تاریخ ایک نئی کروٹ لے لے۔
زندگی حق و باطل کے درمیان کش مکش ہی سے عبارت ہے۔ ظلم، ناانصافی اور حق تلفی کرنے والی قوتیں بظاہر کتنی ہی قوی کیوں نہ ہوں، بالآخر حق اور انصاف کو غلبہ حاصل ہوتا ہے بشرطیکہ صبر، استقامت اور حکمت کے ساتھ اس کے مقابلے کے لیے جدوجہد کی جائے اور غالب نظام کی کمر توڑنے کے لیے مؤثر تدابیر اختیار کی جائیں۔ پھر چشم تاریخ بار بار یہ منظر دیکھتی ہے کہ جَآئَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا ،’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا، اور باطل تو بلاشبہہ مٹنے والا ہے‘‘(بنی اسرائیل ۱۷:۸۱)۔ تاریخ نے یہ منظر بھی بار باردیکھا ہے کہ حق کے غلبے کے لیے مظلوموں کی جدوجہد مادی اور عسکری قوت کی قاہری اور طرح طرح کے منفی ہتھکنڈوں کے باوجود بھی رُونما ہوجاتی ہے جس کی طرف خود اللہ تعالیٰ نے متوجہ کیا ہے کہ کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃً بِاِذْنِ اللّٰہِط وَاللّٰہُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَo (البقرہ ۲:۲۴۹)، ’’بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا ہے ۔ اللہ صبر کرنے والوں کا ساتھی ہے‘‘۔ شرط اللہ پر بھروسا، مقصد کی حقانیت اور صداقت اور جدوجہد میں صبر اور استقامت ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو پھر ظلم کی تاریک رات کبھی ختم نہ ہو، اور جو ظالم اور غاصب ایک بار غالب آجائے پھر اس سے نجات کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔ اس حکمت ِربانی کا یہ جلوہ تاریخ کے ہر دور میں دیکھا جاسکتا ہے کہ:
وَ تِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِج وَ لِیَعْلَمَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ یَتَّخِذَ مِنْکُمْ شُھَدَآئَ ط وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ o(اٰل عمرٰن۳:۱۴۰) یہ تو زمانے کے نشیب و فراز ہیں جنھیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں۔ تم پر یہ وقت اس لیے لایا گیا کہ اللہ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم میں سچے مومن کون ہیں، اور ان لوگوں کو چھانٹ لینا چاہتا تھا جو واقعی (راستی کے) گواہ ہوں، کیونکہ ظالم لوگ اللہ کو پسند نہیں ہیں۔
الحمدللہ، تاریخ کے اس تاب ناک عمل کا نظارہ ہم اپنی مختصر زندگیوں میں باربار کر رہے ہیں۔ عالمی اُفق ہو یا مسلم دنیا کے دروبست، غالب اور غاصب قوتوں کے ایوانوں میں ہلچل ہے اور ایک کے بعد دوسرا بت گر رہا ہے۔ عرب دنیا نئی کش مکش اور مثبت تبدیلیوں کی رزم گاہ بنی ہوئی ہے۔ جنھیں اپنی قوت کے ناقابلِ تسخیر ہونے کا دعویٰ تھا، ان پر قوت کے محدود ہونے کی حقیقت کا انکشاف ہو رہا ہے۔ جو مدمقابل کو تہس نہس کردینے، صفحۂ ہستی سے مٹادینے اور مدمقابل کو پتھر کے دور میں پھینک دینے کے دعوے کرتے تھے، وہ جنگ بندی اور ایک دوسرے کی سرحدوں کو پامال نہ کرنے کی زبان استعمال کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔
امریکا کی مکمل تائید اور شہ پر اسرائیل نے جس زعم اور رعونت کے ساتھ غزہ پر تازہ یورش کی تھی اور آگ اور خون کی بارش کا آغاز کیا تھا، آٹھ دن تباہی مچانے کے بعد خود اس کی اور اس کے سرپرستوں کی کوششوں کے نتیجے میں ایک ایسا معاہدہ وجود میں آیا ہے، جس کے بڑے دُور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ اگر معاملات کو حکمت اور جرأت سے آگے بڑھایا جائے تو ایک نیا نظام وجود میں آسکتا ہے جس کے نتیجے میں شرقِ اوسط کو ایک نئی جہت دی جاسکتی ہے۔
۱۴نومبر ۲۰۱۲ء کو اسرائیل نے غزہ پر ایک بڑا حملہ کیا۔ چشم زدن میں ۸۰ سے زائد میزائل اور تباہ کن بم داغے گئے اور حماس کے ایک اہم ترین کمانڈر اور سیاسی اعتبار سے دوسری بڑی شخصیت احمدجعبری کو شہید کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ F-16 کے ذریعے غزہ پر تابڑتوڑ حملوں کا سلسلہ شروع ہوگیا جو آٹھ دن تک جاری رہا۔ اس اثنا میں اسرائیل نے ۱۵۰۰ اہداف کو نشانہ بنایا۔ اسرائیل نے پہلے جو جنگ مسلط کی تھی اور جو ۲۲دن جاری رہی تھی، اس کے مقابلے میں، خود اسرائیلی وزیراعظم کے بقول، جس بارودی قوت کو استعمال کیا گیا وہ اس سے دس گنا زیادہ تھی۔ ایک بین الاقوامی تحقیق کی روشنی میں حماس نے جو جوابی کارروائی راکٹ اور میزائل کے ذریعے کی ہے، اسرائیلی قوت کا استعمال اس سے ایک ہزار گنا زیادہ تھا۔
ان آٹھ دنوں میں غزہ میں ۱۶۳؍افراد شہید ہوئے، جن میں سے دوتہائی بچے اور خواتین تھیں۔ زخمی ہونے والوں کی تعداد ایک ہزار سے متجاوز ہے اور ان میں بھی بچوں اور خواتین کا تناسب یہی ہے۔ اسرائیل نے فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا ہے ، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ تین چوتھائی سے زیادہ اہداف سول اور غیرسرکاری مقامات تھے، جن میں عام مکانات، باغات، بازار، پُل، سرکاری، نجی اور اقوام متحدہ کے فیصلوں کے تحت چلنے والے اسکول، ہسپتال، سڑکیں، راہداری کی سرنگیں اور خوراک کے ذخیرے سرفہرست ہیں۔ سرکاری عمارتوں میں بھی نشانہ بننے والی عمارتوں میں وزیراعظم کے دفاتر، تعلیم اور ثقافت کی وزارت کی عمارتیں اور پولیس اسٹیشن نمایاں ہیں۔ مغربی میڈیا نے انسانی اور مادی نقصانات کا تذکرہ اگر کیا بھی ہے تو سرسری طور پر، ان کی ساری توجہ اسرائیل کے لوگوں کے حفاظتی بنکرز میں پناہ لینے اور خوف پر مرکوز رہی ہے، جب کہ فلسطین کے گوشت پوست کے انسانوں، معصوم بچوں اور عفت مآب خواتین کا خون، ان کے زخم اور مادی نقصانات اس لائق بھی نہ سمجھے گئے کہ ان کا کھل کر تذکرہ کیا جاتا، حالانکہ اسرائیل اور غزہ کے لوگوں کے جانی نقصان کا تناسب ۱:۳۱ اور مالی نقصان کا تناسب ۱:۱۰۰ تھا۔
اسرائیل اور اس کے پشتی بان امریکا اور مغربی ممالک کی طرف سے ایک بار پھر وہی گھسی پٹی بات دہرائی گئی ہے کہ: ’’اسرائیل نے یہ سب کچھ اپنے دفاع میں کیا‘‘۔ ساتھ ہی یہ کہا گیا ہے کہ حالیہ تنازع کی شروعات بھی فلسطینیوں ہی کی طرف سے ہوئی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کی یہ کارروائی بڑے سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے اور اس کے ناقابلِ تردید ثبوت سامنے آگئے ہیں۔ کمانڈر احمد جعبری کو نشانہ بنانے کی تیاریاں کئی ماہ سے ہورہی تھیں۔ اسی طرح یہ اسرائیل کی مستقل حکمت عملی ہے کہ وقفے وقفے کے بعد غزہ اور مغربی کنارے کے علاقوں میں بڑے پیمانے پر فوجی کارروائیاں کرے اور اس طرح وہ فلسطینی عوام کی مزاحمتی تحریک میں پیدا ہونے والی قوت کو وقفے وقفے سے کچل دے۔ فلسطینیوں کو اتنا زخم خوردہ کردیا جائے کہ وہ آزادی کی جدوجہد تو کیا، اس کا خواب دیکھنا بھی چھوڑ دیں اور مکمل اطاعت اور محکومی کی زندگی پر قانع ہوجائیں۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اپنے اس تجزیے کی تائید میں ہم چند عالمی مبصرین کی راے بھی پیش کردیں، تاکہ یہ بات سامنے آسکے کہ اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکا کا پروپیگنڈا خواہ کتنا ہی زورآور کیوں نہ ہو، وہ سب کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونک سکتا:
لندن کے اخبار دی گارڈین کا بیت المقدس کا نمایندہ ہیریٹ شیروڈ اخبار کی ۱۴نومبر ۲۰۱۲ء کی اشاعت میں غزہ سے جانے والے اِکا دکا راکٹوں کا حوالہ دے کر صاف الفاظ میں لکھتا ہے کہ: ’’کئی مہینوں سے آپریشن پِلر آف ڈیفنس (Pillar of Defence) کی توقع کی جارہی تھی‘‘۔
واضح رہے کہ یہ رپورٹ اس دن کئی گھنٹے پہلے نشر کی گئی جس دن بڑے حملے کا آغاز ہوا اور کمانڈر احمد جعبری کو شہید کیا گیا۔ اسرائیلی دانش ور اور سابق رکن پارلیمنٹ یوری ایونری اخبار کاؤنٹر پنچ (۱۶-۱۸ نومبر ۲۰۱۲ء ) میں لکھتا ہے:
غزہ کی پٹی پر تنازعات کا ’آغاز‘ نہیں ہوتا۔ یہ دراصل واقعات کی ایک مسلسل زنجیر ہے۔ ہر ایک کے بارے میں یہ دعویٰ ہوتا ہے کہ یہ کسی سابق اقدام کا ردعمل ہے یا اس کے ردعمل میں کیا جا رہا ہے۔ عمل کے بعد ردعمل آتا ہے۔ اس کے بعد جوابی حملہ، اور اس کے بعد ایک اور غیرضروری جنگ،Another superfluous war ۔
مغرب کے سیاست دانوں اور میڈیا نے غزہ پر اسرائیل کے حملے پر جس طرح زعم و ادعا پر مبنی انداز اختیار کیا ہے، اس سے آپ کو ایسا محسوس ہوگا کہ اسرائیل کو ایک بیرونی طاقت کے بغیر اُکسائے حملے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مغرب کے بیش تر میڈیا نے اسرائیل کے اس دعوے کو تسلیم کیا اور آگے بڑھایا ہے کہ اس کا حملہ حماس کے راکٹ حملوں کی محض جوابی کارروائی ہے۔ بی بی سی اس طرح بات کرتا ہے جیسے کہ پرانی نفرتوں کی بنیاد پر آپس کا جھگڑا ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ گذشتہ ایک مہینے کے واقعات کے تسلسل کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل نے جنگ کو بڑھانے کے لیے خرطوم میں ایک اسلحہ ساز فیکٹری پر حملے سے لے کر جس کے بارے میں کہا گیا کہ یہ حماس کو اسلحہ فراہم کرتی ہے، گذشتہ اکتوبر میں ۱۵ فلسطینی مجاہدین کو قتل کرنے، نومبر کے شروع میں ایک ذہنی طور پر معذور فلسطینی کو قتل کرنے، اسرائیل کے ایک حملے میں ایک ۱۳سالہ بچے کوقتل کرنے، اور حماس کے لیڈر احمد جعبری کو پچھلے بدھ کو عارضی صلح کے لیے مذاکرات کے عین موقع پر قتل کرنے تک ایک کے بعد ایک اقدام کرکے جنگ کو آگے بڑھایا ہے۔
اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کو کافی تحرک ملا کہ وہ خون ریزی کا ایک نیا دور شروع کردیں۔ اسرائیلی انتخابات کے سامنے ہونے کا تقاضا تھا (فلسطین پر اسرائیلی حملے اسرائیلی انتخابات سے پہلے کی ایک کارروائی ہیں) کہ مصر کے نئے اخوان المسلمون کے صدر محمد مرسی کو جانچا جائے، اور حماس پر دبائو ڈالا جائے کہ وہ دوسرے فلسطینی گوریلا گروپوں کو جھکا دے، اور ایران سے کسی مقابلے سے قبل میزائل کو تباہ کردیا جائے، اور ساتھ ہی یہ بھی پیش نظر تھا کہ Iron Dome کے میزائل شکن نظام کو آزمایا جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کو اس طرح پیش کرنا کہ وہ مظلوم ہے اور اسے سرحدوں سے باہر کے حملے کی صورت میں اپنے دفاع کا ہرحق حاصل ہے، حقائق کو بُری طرح مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ اسرائیل مغربی کنارے اور غزہ پر ناجائز قبضہ کیے ہوئے ہے، جہاں کی آبادی کا بیش تر حصہ ان مہاجروں کے خاندانوں پر مشتمل ہے جو ۱۹۴۸ء میں فلسطین سے نکالے گئے تھے۔ اس لیے اہلِ غزہ مقبوضہ لوگ ہیں اور مزاحمت کرنے کا استحقاق رکھتے ہیں بشمول فوجی مزاحمت کے(لیکن شہریوں کو ہدف نہ بنائیں)، جب کہ اسرائیل ایک قابض قوت ہے جو واپس ہونے کی پابند ہے، نہ کہ جن سرحدات پر اس کا کنٹرول ہے ان کا دفاع کرے اور محض فوجی طاقت کے بل پر سامراجی اقتدار کو مستحکم کرے۔
سیوماس ملن نے جن اسباب کی طرف اشارہ کیا ہے، ان کی مطابقت اس امر کی یاددہانی سے بڑھ جاتی ہے، کہ یہ حملے اسرائیل کی مستقل حکمت عملی کا حصہ ہیں اور امریکی صدارتی انتخابات اور اسرائیل کے اپنے انتخابات کے ہرموقعے پر ایسا ہی خونیں ڈراما رچایا جاتا ہے۔ دسمبر۲۰۰۸ئ- جنوری ۲۰۰۹ء کا اسرائیلی آپریشن امریکی صدارتی انتخابات اور صدارت سنبھالنے کے دوران ہوا، اور حالیہ آپریشن، امریکی صدارتی انتخاب کے چند دن بعد۔ خود اسرائیل کے انتخابات ۲۲ جنوری ۲۰۱۳ء کو طے ہیں اور نیتن یاہو اور اس کے دائیں بازو کے اتحادی اور فلسطینیوں کے سب سے بڑے دشمن لیبرمین کا مشترکہ منصوبہ تھا کہ انتخاب سے پہلے غزہ کی تحریکِ مزاحمت کی کمر توڑ دیں اور انتخابات کے بعد ایران پر حملے کے لیے اپنی پشت کو محفوظ کرنے کا سامان بھی کرلیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی مقصود تھا اور سچ ہے کہ اللہ کی تدبیر ہی ہمیشہ غالب رہتی ہے: وَمَکَرُوْا وَ مَکَرَ اللّٰہُ ط وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ o اٰل عمرٰن ۳:۵۴)، ’’اور وہ خفیہ تدبیریں کرنے لگے، جواب میں اللہ نے بھی اپنی خفیہ تدبیر کی۔ اور ایسی تدبیروں میں اللہ سب سے بڑھ کر ہے‘‘۔
اس جنگ سے ان تمام مقاصد کے ساتھ جن کا اُوپر ذکر کیا گیا ہے، اسرائیل کا اصل مقصد فلسطین کی تحریکِ آزادی کی اصل قوت حماس کو عسکری، مادی، سیاسی اور اخلاقی اعتبار سے تباہ کرنا تھا۔ فلسطینی حریت پسند تحریک ’الفتح‘ کو گذشتہ ۴۰برس میں اسرائیل نے قوت اور ڈپلومیسی، عسکریت اور سیاسی رشوت،خوف اور لالچ کا ہرحربہ استعمال کرکے غیرمؤثر کردیا۔ پہلا وار اپنے حلیفوں کے ذریعے اُردن میں ۱۹۷۰ء میں کیا گیا۔ پھر تحریکِ مزاحمت کے دوسرے بڑے مرکز لبنان میں ۱۹۸۲ء میں تصادم کا خونیں ڈراما رچا کر وہاں سے بے دخل کیا گیا۔ تیونس میں بھی کھلی کھلی جارحیت کے ذریعے ضرب پر ضرب لگائی گئی اور بالآخر ہرطرف سے دائرہ تنگ کرکے اوسلو معاہدے اور کیمپ ڈیوڈ کے ڈرامے (۱۹۷۸ئ) کے ذریعے فلسطینی لیڈر یاسرعرفات اور ’تحریک آزادی فلسطین‘ (PLO) کو امن اور دو ریاستی نظام کے چکر میں ڈال دیا اور تحریکِ آزادیِ فلسطین کو کچھ دیے بغیر اپنے دونوں بنیادی مطالبے منوائے، یعنی اسرائیل کو تسلیم کرانا اور جہاد اور مزاحمت کے راستے کو خیرباد کہہ کر نام نہاد سفارت کاری اور مذاکرات پر مکمل انحصار۔
اسرائیل کی عیارانہ حکمت عملی کا نتیجہ سب نے دیکھ لیا کہ اوسلو معاہدے میں پانچ سال کے اندر مستقل انتظامات کا لالچ دیا گیا تھا، لیکن ۲۰سال کے بعد صورت یہ ہے کہ ارضِ فلسطین کے صرف ۲۲فی صد کاجو وعدہ فلسطینیوں سے کیا گیا تھا، اس پر اسرائیلی تسلط اسی طرح موجود ہے جس طرح ۱۹۶۷ء کے بعد قائم ہوا تھا۔ اس ۲۲ فی صد کے نصف سے زیادہ علاقے پر اسرائیلی آبادکار قابض ہیں اور یہ ۶لاکھ مسلح آبادکار جنوبی افریقہ کے ماڈل کی طرح نسلی امتیاز کی بنیاد پر (apartheid) ریاست قائم کیے ہوئے ہیں۔ تمام سڑکیں ان کے پاس ہیں، سیکورٹی کا نظام ان کے ہاتھ میں ہے، فوج اور کرنسی ان کی ہے۔ محصول وہ وصول کرتے ہیں اور نام نہاد فلسطینی اتھارٹی کو کچھ خیرات دے دیتے ہیں اور ان کی ہرنقل و حرکت پر اسرائیل کا مکمل کنٹرول ہے۔ غزہ کے چند سو مربع کلومیٹر کا جو علاقہ حماس کی جرأت اور حکمت کی وجہ سے فلسطینیوں کے پاس ہے، اس کی حیثیت بھی کرئہ ارض پر سب سے بڑے کھلے قیدخانے کی سی ہے اور یہ بھی ایک کرشمہ ہے کہ اسرائیل کی ساری ناکہ بندیوں کے باوجود ۱۷لاکھ اہلِ ایمان اس محاذ کو سنبھالے ہوئے ہیں، گویا ع
اپنی ہمت ہے کہ ہم پھر بھی جیے جارہے ہیں
نومبر ۲۰۱۲ء کی فوج کشی اور فضائی جارحیت کا اصل مقصد حماس کی کمر توڑنا اور غزہ کو تہس نہس کرنا تھا، تاکہ بالآخر مغربی کنارے کو مدغم کرلیا جائے اور اس طرح فلسطین کے مسئلے کا ان کی نگاہ میں آخری حل (final solution) ہوجائے۔ اسرائیلی قیادت نے اپنے ان عزائم کا اظہار کھلے الفاظ میں کردیا تھا، اس کے لیے پوری تیاری تھی۔ امریکا کی پوری پوری اعانت اور شراکت داری تھی اور یہ سب کچھ اسی مجبور اور کمزور بستی کے لیے تھا، جسے پہلے ہی نہ صرف ایک جیل خانہ بنادیا گیا تھا، بلکہ ہرسہولت سے محروم کردیا گیا تھا اور آہستہ آہستہ موت کے شکنجے میں کَس دیا تھا۔ نوم چومسکی نے اسرائیلی حملے سے صرف ایک ماہ پہلے اسی غزہ میں چند دن گزار کر اس بستی کی حالت کی جو منظرکشی کی ہے، وہ نگاہ میں رکھنا ضروری ہے:
غزہ میں یہ معلوم کرنے میں ایک دن بھی نہیں لگتا کہ یہ احساس کیا جاسکے کہ زندہ بچ جانا کیسا ہوگا؟ جہاں۱۵ لاکھ انسان مسلسل وقت بے وقت کی اور اکثر ہولناک دہشت گردی کا شکار ہوں اور من مانی سزائیں زندگی کا ایسا معمول بن جائیں جن کا اس کے سوا کوئی مقصد نہ ہو کہ محکوم انسانوں کی تذلیل اور تحقیر کی جائے۔
غزہ کو نوم چومسکی نے the World's largest open air prison (دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل) قرار دیا۔ (دی نیشن، ۱۵ نومبر ۲۰۱۲ئ)
غزہ پر حملے اور اس کو نیست و نابود کرنے کے اسرائیلی عزائم، امریکا اور دوسری مغربی قیادتوں کے اعلانات، ایک کھلی کتاب کی مانند ہیں۔امریکا میں اسرائیل کا سفیر مائیکل ڈورن، حماس کی یہ تصویر امریکا اور دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے:’’کھلی یہودیت دشمنی اور نسل کشی کے مذہب کی پابندی کی وجہ سے حماس کو کسی امن معاہدے پر آمادہ نہیں کیا جاسکتا، ہاں اسے جنگ سے روکا جاسکتا ہے‘‘ (ہیرالڈ ٹربیون، ۲۲نومبر۲۰۱۲ئ)۔موصوف نے یہ بھی کہا کہ: ’’ہمیں انھیں ختم کردینا چاہیے تاکہ ہم اعتدال پسندوں کے ساتھ بیٹھ سکیں اور امن کی گفتگو کرسکیں‘‘۔
اسرائیلی قیادت نے حماس کو ایک نہ بھولنے والا سبق سکھانے کے دعوے سے اس سال یلغار کا آغاز کیا اور اسرائیل کے وزیرداخلہ ایلی یشائی نے اس عزم کا اظہار کیا کہ:غزہ کو ہمیں قرونِ وسطیٰ تک واپس پہنچادینا چاہیے۔ایک دوسرے وزیر نے کہا: کہ ہم غزہ کو پتھرکے زمانے (stone age) میں پھینک دیں گے۔ سابق وزیراعظم ایرل شیرون کے صاحب زادے نے بھی حماس کو صفحۂ ہستی سے مٹادینے کے عزم کا اظہار کیا۔
یہ تھے وہ اعلانات، جن کے ساتھ اسرائیل نے اس تازہ جنگ کا آغاز اکتوبر ۲۰۱۲ء میں سوڈان میں کارروائی کرکے کیا اور اسے نومبر کے دوسرے اور تیسرے ہفتے میں اپنے انجام تک پہنچانے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ امریکی صدر نے یہ کہہ کر اس کے لیے ہری جھنڈی دکھا دی تھی کہ:
ہم اسرائیل کے ا س حق کی مکمل تائید کرتے ہیں کہ اسے لوگوں کے گھروں، اور کام کرنے کی جگہوں پر، اور شہریوں کے امکانی قتل کے لیے گرنے والے میزائلوں سے دفاع کرنے کا حق حاصل ہے۔ ہم اسرائیل کے دفاع کے اس حق کی حمایت جاری رکھیں گے۔
امریکی صدر اوباما کے اس ارشاد میں قتل کی ایک نئی قسم کا اضافہ کردیا گیا ہے، یعنی potentially killing ۔ گویا قتل کیا جانا ضروری نہیں، جس اقدام میں صرف ہلاکت کا امکان بھی ہو تو وہ بھی جارحیت، یعنی فوج کشی اور دوسروں کی سرزمین پر بم باری کے لیے جواز فراہم کرتا ہے۔ اور یہ فرمانا اس صدر کا ہے، جس کی طے کردہ kill-list کے تعاقب میں ڈرون حملوں کے ذریعے ہزاروں معصوم افراد پاکستان، یمن اور صومالیہ میں شب و روز ہلاک کیے جارہے ہیں اور جن کو اپنے دفاع میں کوئی کارروائی کرنے کا یا جارح قوت پر ضرب لگانے کا دُوردُور تک بھی کوئی حق حاصل نہیں۔ یہی وہ فسطائی ذہن ہے جس کے ردعمل میں تشدد اور دہشت گردی جنم لیتی اور پروان چڑھتی ہے۔
صدراوباما جس اسرائیل کو ’خود دفاعی‘ کے نام پر قتل و غارت اور بڑے پیمانے پر نسل کشی اور تباہ کاری کی کھلی چھوٹ دے رہے ہیں، اس کی اصل حقیقت کیا ہے، یہ بھی بین الاقوامی قانون کے غیرجانب دار ماہرین کے الفاظ میں سُن لیں، تو امریکی اور یورپی قیادتوں کی حق پرستی، انسان دوستی اور اصولوں کی پاس داری کی قلعی کھل جاتی ہے:
بلاشبہہ جیسے جیسے غزہ کا حالیہ تصادم لامحالہ کم ہونا شروع ہوجائے گا، یہ بات کھل کر سامنے آتی جائے گی کہ اسرائیل کا غزہ میں اور اسی طرح مغربی کنارے پر بھی بڑے پیمانے پر افواج کو لانا، اور وہاں کے عوام کے خلاف بلاامتیاز اسلحے کا استعمال کرنا، یہ محض جنگی جرائم نہیں ہیں بلکہ یہ انسانیت کے خلاف جرائم ہیں، اور امن کے خلاف بھی۔ آخرکار اسرائیل کتنا ہی چاہے کہ مقبوضہ علاقوں میں اسے سیاسی، قانونی اور اخلاقی جواز حاصل ہو، اس کے اقدامات امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ ، شام کی حکومت کی اپنے لوگوں کے خلاف جنگ، یا دوسری ریاستوں کا اپنے شہریوں کے خلاف تشدد کا ایک سوچے سمجھے نظام کے تحت استعمال، جیسے ہیں۔ اس کا تعین اس سے ہوگا کہ اس نے عالمی قانون کو عالمی تعبیرات کے مطابق تسلیم کیا ہے یا ان کی خلاف ورزی کی ہے۔ اسرائیل جتنے طویل عرصے تک فلسطینیوں کو بلاامتیاز اور بے خوف ہوکر قتل کرتا ہے، اور مغربی کنارے اور غزہ کے ناجائز اور پُرتشدد قبضے کو جتنا عرصہ برقرار رکھتا ہے، اور ان پالیسیوں کو برقرار رکھتا ہے، اسی قدر اس کو ان پالیسیوں کے غیرقانونی ہونے کی بناپر ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا ہوگا۔
اسرائیلی قیادت کو اپنے نئے حفاظتی حصار پر بھی بہت ناز تھا، جسے امریکی سرمایہ اور مہارت کی مدد سے آہنی گنبد (Iron Dome) کے نام سے گذشتہ چار سال میں تیار کیا گیا تھا اور جس میں ایسا خودکار نظام نصب کیا گیا تھا کہ جو خود بخود، باہر سے اندر آنے والے میزائل کی شناخت کرتا ہے اور پھرانھیں ناکارہ بنادیتا ہے۔
اس تمام سازوسامان اور تیاری کے ساتھ اسرائیل کو توقع تھی کہ وہ چند ہی دن میں حماس کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردے گا اور پھر اپنی شرائط پر جنگ بندی کا معاہدہ کر کے جس طرح پی ایل او اور الفتح کو اپنے قابو میں کیا تھا، اسی طرح حماس کو بھی زیرنگیں کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ پھر جنوری کے انتخابات جیت کر نیتن یاہو اور اس کے دست ِراست لیبرمین کے اس عظیم تر اسرائیل کے قیام کے منصوبے پر گامزن ہوجائیں گے جو صہیونیت کا اصل خواب ہے۔
حماس نے اللہ پر بھروسا کیا اور اپنی صفوں میں مکمل اتحاد اور دستیاب وسائل کے بہترین استعمال کے ذریعے اسرائیل کے ان تمام منصوبوں کو خاک میں ملا دیا۔ بلاشبہہ مجاہداکبر احمد جعبری نے جامِ شہادت نوش کیا اور ان آٹھ دنوں میں ۱۶۳ مجاہد اور معصوم جوان، بچے اور خواتین شہید ہوئے، ایک ہزار زخمی ہوئے اور اربوں ڈالر کا نقصان ہوا، لیکن حماس اور پوری غزہ کی آبادی کے عزم میں ذرا کمی اور ان کے پاے ثبات میں کوئی لغزش نہ آئی۔ بچے بچے کی زبان پر کلمۂ شہادت اور دلوں میں جہاد جاری رکھنے کا عزم اور ولولہ تھا۔۱۰ہزارسے زیادہ افراد بے گھر ہوئے، مگر دوسروں نے ان کے لیے اپنے گھروں کے دروازے کھول دیے۔
میزائل کی جنگ معرکے میں ایک فیصلہ کن حیثیت رکھتی تھی۔ حماس کے مجاہدین نے وسائل اور ٹکنالوجی میں ہزار درجے سے بھی زیادہ کم تر ہونے کے باوجود، اینٹ کا جواب پتھر سے دیا اور لڑائی کو اسرائیل کے طول و عرض میں پھیلا دیا، حتیٰ کہ تل ابیب جو غزہ سے ۷۰کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، اس کو بھی اپنی زد میں لے لیا۔ بلاشبہہ اسرائیلی ہلاکتیں کم ہیں لیکن یہ واضح نہیں کہ اس کی وجہ حماس کے میزائلوں کا نشانے پر نہ لگنا ہے، یا پھر ارادی طور پر حماس کی حکمت عملی یہ رہی ہے کہ عام آبادی کو خوف و ہراس میں تو مبتلا کیا جائے، مگر سول ہلاکتوں سے اجتناب کیا جائے۔ ایک امریکی تجزیہ نگار جولیٹ کیین نے اپنے مضمون میں بڑے اہم سوال اُٹھائے ہیں، جنھیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا:
غزہ کی پٹی کی منتخب فلسطینی حکومت حماس کے لیے Iron Domeکی کامیابی اس سے کم مایوس کن تھی جیساکہ بظاہر نظر آیا۔ حماس نے یہ میزائل اس لیے نہیں چلائے تھے کہ اسرائیلیوں کو ماریں۔ اگر ان کا یہ مقصد ہوتا تو یہ ناکام ہوتے۔ دراصل اس کا مقصد اپنے دشمن اسرائیل کے مقابلے میں حماس کی مضبوطی دکھانا تھا۔ Iron Dome کی وجہ سے شہری ہلاکتوں میں کمی ہوئی ہوگی لیکن اس سے ان راکٹوں کی تعداد میں کمی نہیں آئی جو حماس نے چھوڑے۔ حماس کے راکٹ لانچر اسرائیلیوں کو محض مارنے کے لیے نہیں تھے، بلکہ یہ ایک منقسم فلسطینی قیادت میں حماس کے مقام کو بڑھانے کے لیے تھے۔
اسرائیل کے لیے Iron Dome کی کامیابی اور جس اندیشے کے پیش نظر اسے استعمال کیا گیاتھا، یہ تھی کہ یہ یقینی بنایا جائے کہ اسرائیل کی بڑی تعداد میں ہلاکتوں نے حکومت کو مجبور نہیں کیا کہ وہ غزہ میں ایک بڑی زمینی جنگ شروع کرے۔
امریکا کے لیے Iron Dome کا پیغام یہ نکلا کہ وہ مسائل جو براے تصفیہ ہیں اور جو اسرائیل اور فلسطین کو تقسیم کرتے ہیں، ان کا حل بات چیت کے ذریعے ہو۔
اس پس منظر میں حماس کی حکمت عملی کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے، اور ساتھ ہی یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ اسرائیل اور امریکا کے ہراندازے کے برعکس حماس نے ساری بے سروسامانی کے باوجود اسرائیلی جارحیت کے ہرنہلے پر دہلے کی مار دی ہے۔ جس کا نتیجہ ہے کہ اسرائیل اور امریکا کے لیے کوئی اور چارہ نہیں رہا کہ جو تہس نہس کرنے کے دعوے سے میدان میں آئے تھے، اور جنھوں نے اپنی پونے دولاکھ مستقل فوج کی مدد کے لیے ۷۵ہزارریزرو بھی بلا لیے تھے، جنھوں نے زمینی حملے کی پوری لام بندی کرنے اور اس کے واضح اعلان کے علی الرغم جو وزیردفاع ایہود بارک نے حملے کے دوسرے ہی دن کیا تھا کہ:’’ہم اس وقت تک نہیں رُکیںگے جب تک حماس اپنے گھٹنوں کے بل نہ گر جائے اور جنگ بندی کی بھیک نہ مانگے‘‘، خود جنگ بندی کی بات کرے۔
اسی اسرائیل نے خود اپنے ہی حملے کے پانچویں دن جنگ بندی کی بات شروع کردی اور وہی صدر اوباما جو اقوامِ متحدہ کے سالانہ اجتماع کے موقع پر مصر کے صدر ڈاکٹر مرسی سے ملاقات کو تیار نہ تھے، انھیں دو دن میں چار بار ٹیلی فون کرتے ہیں۔ امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن کو مصر اور فلسطین بھیجتے ہیں اور آٹھویں دن ایک معاہدہ طے پاجاتا ہے، جس میں اسرائیل کا کوئی بڑا مطالبہ جگہ نہیں پاسکا۔ حماس کے دونوں مرکزی مطالبات کہ دونوں طرف سے بیک وقت ایک دوسرے کی سرحدات کی خلاف ورزی اور دراندازی بند ہو، محض یک طرفہ جنگ بندی جس کا مطالبہ اسرائیل کررہا تھا، اس کا کوئی سوال نہیں۔ دوسری بڑی اہم شرط یہ تھی کہ غزہ کا محاصرہ ختم کیا جائے اور انسانی اور مال برداری کی نقل و حرکت معمول پر لائی جائے اور اس طرح ۲۰۰۷ء کے اسرائیل کی طرف سے مسلط کردہ ناکہ بندی (blockade) کو ختم کیا جائے۔ یہ دونوں مطالبات اس معاہدے کا حصہ ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اس معاہدے کو بجاطور پر حماس کی فتح اور اسرائیل کے لیے باعث ِ ہزیمت قرار دیا جارہا ہے، جس کے بارے میں اس راے کا اظہار اب عالمی میڈیا میں کھلے بندوں اور اسرائیل کی حزبِ اختلاف کی طرف سے برملا کیا جارہا ہے۔ لیکن اس صورت حال کو سمجھنے کے لیے چند بنیادی باتوں کا اِدراک ضروری ہے:
بلاشبہہ فلسطینیوں کا جانی اور مالی نقصان زیادہ ہوا، لیکن اگر نقصان کے تناسب کا ۲۰۰۸-۲۰۰۹ء کی ۲۲روزہ جنگ سے کیا جائے تو بڑا فرق نظر آتا ہے۔ چارسال پہلے کے اسرائیلی آپریشن میں ۱۰۰ فلسطینیوں کی شہادت کے مقابلے میں صرف ایک اسرائیلی ہلاک ہوا تھا۔ اب یہ تناسب اس کا ایک تہائی ہے یعنی ۳۱ فلسطینیوں پر ایک اسرائیلی کی ہلاکت۔
اصل مقابلہ میزائلوں اور راکٹوں کی جنگ میں ہوا ہے۔ اسرائیل کا منصوبہ یہ تھا کہ جس طرح جون ۱۹۶۷ء کی جنگ میں اس نے پہلے ہی ہلے میں مصر کی پوری فضائیہ اور ہوائی حملے کی صلاحیت کا خاتمہ مصر کے ہوائی اڈوں پر ہی کردیا تھا، اسی طرح موجودہ فوج کشی کے پہلے دنوں میں حماس کی راکٹ اور میزائل چلانے کی صلاحیت کو ختم کردیا جائے گا ۔ اس نے حملے کے لیے دوسرا دن فیصلہ کن اقدام کے لیے رکھا۔ منصوبہ یہ تھا کہ پہلے دن کے حملے کے ردعمل میں حماس جو کارروائی کرے گی، اس سے اس کے راکٹ اور میزائل کے ٹھکانوں کی نشان دہی ہوجائے گی۔ دوسری خفیہ معلومات کی روشنی میں دوسرے دن حماس کی اقدامی صلاحیت کا خاتمہ کردیا جائے گا۔ نیز اربوں ڈالر خرچ کرکے اسرائیل نے جو آہنی حصار (Iron Dome) بنالیا ہے، اس کے ذریعے حماس کی جوابی کارروائی کو بے اثر کردیا جائے گا۔ ان کا اندازہ تھا کہ غزہ سے آنے والے میزائلوں اور راکٹوں کے ۸۵ سے ۹۰ فی صد میزائل یہ نظام تباہ کردے گا اور اس طرح دوسرے دن ہی سے فضا پر اسرائیل کی مکمل حکمرانی ہوگی اور غزہ اسرائیل کے سامنے سرنگوں ہوجائے گا۔ لیکن ع اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔
لندن اکانومسٹ نے ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کے علاوہ تین تحقیقی اداروں کی جمع کردہ معلومات کی روشنی میں جو تفصیلی نقشے شائع کیے ہیں، ان کے تجزیے سے یہ دل چسپ صورت حال سامنے آتی ہے کہ حماس نے ہر روز مقابلے کی قوت کا مظاہرہ کیا، حتیٰ کہ آخری دن بھی کسی کمزوری کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اس جنگ میں کامیابی اور ناکامی کا اصل معیار انسانی جانوں کی ہلاکت نہیں بلکہ اس جنگی ٹکنالوجی کے میدان میں مقابلہ ہے، جس نے اسرائیل کے تمام اندازوں کو غلط ثابت کردیااور وہ مجبور ہوا کہ نہ تو زمینی یلغار کرے جس میں اس کے لیے ہلاکتوں کا زیادہ خطرہ تھا بلکہ فضائی جنگ کو بھی روکے کہ یہ غیرمؤثر ہورہی تھی۔
اسرائیل اور حماس کے ایک دوسرے کے اہداف پر حملے (یومیہ صورتِ حال)
۱۴ نومبر ۲۰۱۲ء
۱۵ نومبر ۲۰۱۲ء
۱۶ نومبر ۲۰۱۲ء
۱۷ نومبر ۲۰۱۲ء
۱۸ نومبر ۲۰۱۲ء
۱۹نومبر ۲۰۱۲ء
۲۰ نومبر ۲۰۱۲ء
۲۱ نومبر ۲۰۱۲ء
۲۲ نومبر ۲۰۱۲ء
اسرائیل کے حماس پر حملے
۱۰۰
۲۷۰
۳۲۰
۳۰۰
۱۳۰
۸۰
۱۰۰
۲۰۰
x
حماس کے اسرائیل پر حملے
۸۰
۳۱۰
۲۳۰
۲۳۵
۱۶۰
۱۴۰
۲۱۵
۱۲۰
x
حماس کے وہ حملے جنھیں اسرائیل نے ناکارہ بنادیا
۴۰
۱۴۰
۱۲۰
۹۰
۶۰
۶۵
۶۵
۲۰
x
حماس کے وہ حملے جنھیں اسرائیل کے دفاعی حصار نے متاثر نہیں کیا
۴۰
۱۷۰
۱۱۰
۱۴۵
۱۰۰
۷۵
۱۵۰
۱۰۰
x
۱- اسرائیل کو توقع تھی کہ وہ پہلے ہی دو دن میں حماس کو مفلوج کردے گا، لیکن حماس نے کسی اعلیٰ صلاحیت کے جدید ترین حفاظتی حصار کے بغیر اپنی اقدامی اور دفاعی صلاحیت کو محفوظ رکھا ، اور پہلے دن اسرائیل کے ۱۰۰ حملوں کے جواب میں۸۰، دوسرے دن ۲۷۰ کے جواب میں۳۱۰، اور آخری دن ۲۰۰ کے جواب میں ۱۲۰ حملے کرکے اپنی صلاحیت کا لوہا منوا لیا اور اسرائیل اور امریکا کو ششدر کردیا۔
۲- اسرائیل کے نہایت ترقی یافتہ (sophisticated) اور مہنگے حفاظتی حصار کے باوجود حماس کے تقریباً ۵۰ فی صد میزائل اور راکٹ اس نظام کی گرفت سے بچتے ہوئے اپنا کام دکھانے اور ٹھکانے پر پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔
۳- یہ بات درست ہے کہ تباہی مچانے والے بارود کی مقدار اور صلاحیت کے میدان میں اسرائیل اور حماس کے میزائلوں میں بڑا فرق ہے۔ یہ دعویٰ اسرائیل کی عسکری اور سیاسی قیادت نے کیا ہے کہ اسرائیل کی تباہ کرنے کی صلاحیت ایک ہزار گنا زیادہ تھی۔ اس اعتبار سے جو اصل تباہی ہوئی ہے وہ اسرائیل کے منصوبے کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ لیکن یہ حقیقت کہ وسائل اور صلاحیت کے اس عظیم فرق کے باوجود حماس نے آخری دم تک مقابلہ کیا اور جنگ بندی کے آخری لمحات تک اپنے میزائل برساتا رہا، جو اس کے مقابلے کی صلاحیت کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے، اور اس سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ آیندہ کے لیے اس میں اپنی صلاحیت کو ترقی دینے اور اسرائیل کا بھرپور مقابلہ کرنے کی استعداد موجود ہے۔
۴- اسرائیل کا خیال تھا کہ حماس کے میزائل اور راکٹ ۱۵ سے ۳۰کلومیٹر سے آگے نہیں جاسکتے، لیکن الحمدللہ، حماس نے اسرائیل کی آخری حدود تک اپنی پہنچ کا ثبوت دے کر اسرائیل اور امریکا کو انگشت بدنداں کردیا۔ تل ابیب، بیت المقدس اور تیسرے بڑے شہر بیرشیوا (Beersheva) کے قرب و جوار میں ہی نہیں، بلکہ اسرائیل کے نو ایٹمی تنصیبات کے مرکز ڈایمونا (Dimona) تک حماس کے میزائل پہنچے ہیں، اور یہ وہ حقیقت ہے جس نے اسرائیل کو اپنے پورے نقشۂ جنگ پر نظرثانی پر مجبور کردیا ہے۔
۵- بلاشبہہ میزائل اور راکٹ ٹکنالوجی کے حصول میں حماس نے دوسرے مسلمان ممالک خصوصیت سے ایران سے فائدہ اُٹھایا ہے اور اس کا برملا اعتراف بھی کیا ہے ۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حماس نے میزائل اور راکٹ دونوں کو بنانے اور انھیں ہدف پرداغنے کی صلاحیت مقامی طور پر حاصل کرلی ہے۔ اسرائیل اور امریکا کی تمام پابندیوں کے باوجود نہ صرف باہر سے اجزا حاصل کیے ہیں، بلکہ ان اجزا کو اندرونِ غزہ جمع کرنے (assemble) اور مؤثر طور پر کام میں لانے کا (operationalize ) نظام قائم کیا ہے، اور اسے اسرائیل کی خفیہ نگرانی اور تباہ کن جارحانہ صلاحیت سے محفوظ رکھا ہے۔ اگر مغربی نامہ نگاروں کی یہ روایت صحیح ہے کہ اسرائیل کی فوجی قیادت نے اعتراف کیا ہے کہ جو میزائل اورراکٹ اسرائیل پر داغے گئے ہیں، ان میں سے کم از کم ایک بڑی تعداد غزہ ہی میں بنائی گئی ہے، تو اس پر اللہ کے شکر کے ساتھ حماس کی سیاسی اور عسکری قیادت کو ہدیۂ تبریک پیش کرنا اعترافِ نعمت کا ہی ایک رُخ ہے۔
اگر اسرائیل اور حماس کی اس فضائی جنگ کی حکمت عملی کا ملٹری سائنس اور انٹرنیشنل ہیومینٹیرین لا کی زبان میں موازنہ کیا جائے تو اسرائیل کے میزائل اور F-16 سے آگ اور خون کی بارش ہمہ گیر تباہی کی، جسے Weapons of Mass Destruction کہا جاتا ہے، قبیح ترین شکل ہے۔ اسرائیل نے ان تباہ کن ہتھیاروں کا بے دریغ اور بے محابا استعمال کیا ہے۔ اس کے برعکس حماس نے جو حکمت عملی اختیار کی ہے اس میں اہتمام کیا گیا ہے کہ دشمن کی صفوں میں بھی جاں کا ضیاع نہ ہونے کے برابر ہو، البتہ اسی کے ذریعے مقابلے کی قوت کو جنگ بندی اور مذاکرات کے ذریعے مسائل کے حل کی طرف لایا جاسکے۔ یہی وہ چیز ہے جسے اصل سدِّجارحیت (deterrance) کہا جاتا ہے۔
یہ ہے وہ اصل جنگی منظرنامہ جو اسرائیل اور امریکا کو جنگ بندی اور اس معاہدے تک لایا جو ۲۱ نومبر کو طے پایا اور ۲۲ نومبر سے اس پر عمل شروع ہوا۔ اس معاہدے کے تجزیے اور اس کے ان اثرات پر بھی تفصیل سے گفتگو کرنے کی ضرورت ہے، جو اس سے متوقع ہیں۔ فی الحال اس حقیقت کے اعتراف پر بات کو مکمل کرتے ہیں کہ بلاشبہہ حماس اور اہلِ غزہ نے جانوں اور قربانیوں کا نذرانہ کہیں زیادہ ادا کیا، لیکن اسرائیل اور اس کی پشت پر امریکا کی قوت کو چیلنج کرکے اور بے سروسامانی کے باوجود انھیں جنگ بندی کی طرف آنے اور ناکہ بندی کو ختم اور راہداری کھولنے پر مجبور کر دیا ہے جوبڑی کامیابی ہے۔ اس نے نقشۂ جنگ ہی نہیں، سیاسی بساط کو بھی بدل دیا ہے۔ اب اس کا اعتراف دوست اور دشمن سب کر رہے ہیں۔ لندن دی اکانومسٹ نے اسرائیلی وزیردفاع ایہودبارک کے ایک مشیر کے یہ الفاظ نقل کیے ہیں کہ:’’حماس نے جنگی میدان میں شکست اور سیاسی میدان میں فتح حاصل کی‘‘۔
اسرائیل کی انتخابی مہم کو نہ دیکھا جائے تو غزہ پر فضائی بم باری کے آخری آٹھ دنوں کو کسی حکمت عملی کی کامیابی قرار دینا مشکل ہے۔ اسرائیل کے دفاعی انتظامی نقطۂ نظر سے یہ ایک خوشی کے لمحے سے شروع ہوا ___ فلسطینی کمانڈر احمد جعبری کی کار پر حملے سے___ اور حماس اور دو دوسرے فوجی گروپوں کو ناکام بنانے پر جنھوں نے تل ابیب پر باربار راکٹ پھینکے، جو کہ حزب اللہ نے بھی دوسری لبنانی جنگ کے عروج پر نہیں کیا تھا،اور بسوں پر بم باری کی حکمت عملی کی طرف واپسی سے روکنا۔ اگر بدھ کی رات ہونے والا معاہدہ قائم رہتا ہے تو حماس مکمل واپسی کے بعد بھی جنگ بندی نہیں کررہی۔
نیتن یاہو کا دعویٰ ہے کہ اس نے حماس کو ناکارہ کردیا ہے، اور زمینی حملے کے بارے میں تنبیہات کو وزن دینے سے اس نے اپنے لیے مغربی حمایت کو مضبوط بنالیا ہے۔ لیکن اس کی یہ قیمت ادا کی کہ عرب دنیا میں حماس کا مقام بلند ہوگیا۔ اس نے تنظیم کے ساتھ وہ کیا ہے جو اس نے خالدمشعل کے ساتھ کیا تھا۔ جب اس نے زہر سے اس کے قتل کا حکم جاری کیا تھا اور پھر اُردن کو تریاق فراہم کرنے پر مجبور ہوا تھا۔ اس کے نتیجے میں مشعل کے قدکاٹھ میں اضافہ ہوا۔ اسی طرح حماس بھی پی ایل او کی قیادت کے مقابلے میں آگے بڑھنے کی بہتر پوزیشن میں آگئی ہے۔ کیا اسرائیلی وزیراعظم یہی چاہتا تھا یا اسے طاقت کی قوت کے استعمال کا اب احساس ہوا ہے؟ نیتن یاہو کو طاقت سے حماس کو ختم کرنے کے بجاے شاید ان سے گفتگو کرنا چاہیے۔
ایک مغربی سفارت کار نے اسرائیل کی عسکری بالادستی کو tactical کامیابی ضرور قرار دیا ہے لیکن ساتھ ہی آٹھ روزہ جنگ کے حاصل کو حماس کے لیے اسٹرے ٹیجک جیت قرار دیا ہے، اور خود اسرائیل کے اخبارات نے فوج کے عام سپاہیوں کا یہ احساس ریکارڈ کیا ہے کہ: Bibi (Benjamin Natan Yahu) is a loser. (ایکسپریس ٹربیون، ۲۴نومبر ۲۰۱۲ئ)
اسرائیلی راے عامہ کے جائزوں سے بھی یہ حقیقت سامنے آرہی ہے کہ اسرائیل کی ۷۰ فی صد آبادی اس جنگ بندی کے معاہدے پر ناخوش ہے، جب کہ صرف ۲۴فی صد نے اس کی تائید کی ہے۔
بحیثیت مجموعی عالمی سیاست پر نظررکھنے والوں کا احساس ہے کہ فلسطین کے مسئلے کا فوجی حل، جو اسرائیل اور خود امریکا کی حکمت عملی تھا، اس کی کامیابی کے امکانات کم سے کم تر ہورہے ہیں اور اس کی جگہ افہام و تفہیم کے ذریعے کسی سیاسی حل کی ضرور ت کا احساس روزافزوں ہے۔
پہلو اور بھی بہت سے ہیں جن پر غوروفکر اور مباحثے کی ضرورت ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ اس طرف اشارہ کررہی ہے کہ ایک بڑے شر میں سے بھی کسی نہ کسی صورت میں خیر کے رُونما ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ بلاشبہہ ابھی کش مکش اور جدوجہد کے بے شمار مراحل درپیش ہیں۔ راستہ کٹھن اور دشوار گزار ہے۔ ہرلمحہ آنکھیں کھلی رکھنے اور معاملات کا ہرپہلو سے جائزہ لے کر مقصد سے وفاداری اور حقیقت پسندی کے ساتھ حکمت عملی طے کرنے کی ضرورت جتنی پہلے تھی، اب اس سے کچھ زیادہ ہی ہے۔
صاف نظر آرہاہے کہ ان شاء اللہ اب امریکا کی محکومی اور امریکی سامراجیت کے زیراثر مفادات کی سیاست کا باب ختم ہونے جارہا ہے۔ شہدا کے خون اور مظلوموں کی تمنائوں اور قربانیوں کا یہی تقاضا ہے، تو دوسری طرف یہی ایمان، آزادی اور عزت کا راستہ ہے۔ اب جن نئے امکانات کی راہیں کھل رہی ہیں ان سے پورا پورا فائدہ اُٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ اُمت مسلمہ کے سلگتے ہوئے مسائل کو حل کیا جائے اور اتحاد اور خودانحصاری کی بنیاد پر تعمیرنو کی سعی و جہد ہوسکے۔ اللہ تعالیٰ اُمت مسلمہ اور اس کی قیادت کی رہنمائی فرمائے، اور ہم سب کو درست اور بروقت فیصلے کرنے اور صحیح راستے پر چلنے کی توفیق سے نوازے۔ آمین!
۱۱نومبر ۲۰۱۲ء کو اسلام آباد کے کنونشن سنٹر میں ایک تاریخ ساز اجتماع ہوا۔ ملّی یک جہتی کونسل کے سربراہ قاضی حسین احمد کی دعوت پر ملک و بیرونِ ملک کی اسلامی تحریکوں کے نمایندگان، علماے کرام، مشائخ عظام جمع ہوئے تاکہ اُمت کو جو مسائل درپیش ہیں، ان سے نبردآزما ہونے کے لیے مل جل کر کوئی راہ نکالی جائے۔ اللہ تعالیٰ کا بے حد شکر ہے کہ ہر مکتب ِ فکر کے علما بڑی تعداد میں جمع ہوئے اور انھوں نے ایک آٹھ نکاتی لائحہ عمل پر اتفاق کیا۔ یہ آٹھ نکاتی اعلامیہ پیش کیا جارہا ہے:
یہ کانفرنس اس امر کا اعلان کرتی ہے کہ اُمت مسلمہ کی اصلی شناخت اسلام اور صرف اسلام ہے اور یہی ہماری وحدت کی بنیاد اور دنیا اور آخرت میں ہماری کامیابی کی ضامن ہے: اِنَّ ھٰذِہٖٓ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّ اَنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْنِ o (الانبیاء ۲۱:۹۲) ’’یہ تمھاری امت حقیقت میں ایک ہی امت ہے اور میں تمھارا رب ہوں پس تم میری ہی عبادت کرو‘‘۔اور یہ امت ایک پیغام اور مشن کی علَم بردار امت ہے جو خود بھی انصاف اورا عتدال پر قائم ہے اور دنیا میں بھی انصاف اور اعتدال قائم کرنے پر مامور ہے: وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا ط (البقرہ۲:۱۴۳)’’اور اس طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک اُمت ِو سط بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسولؐ تم پر گواہ ہو‘‘۔
اس عظیم مشن کو انجام دینے کا جو منہج اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے مقرر فرمایا ہے وہ ملت کا اتحاد اور ایمان اور دنیا کے تمام انسانوں کو خیر کی طرف دعوت، نیکی کے حکم اور بدی کے خلاف جدوجہد سے عبارت ہے :وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا (اٰل عمرٰن۳:۱۰۳) ’’سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو ار تفرقہ میں نہ پڑو ‘‘۔اور وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِط وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَo (اٰل عمرٰن۳:۱۰۴) ’’تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرورہونے چاہیے جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں، اور برائیوں سے روکتے رہیں۔ جولوگ یہ کام کریں گے وہیں فلاح پائیں گے‘‘۔
اس کانفرنس کے تمام شرکا قرآن کی دی ہوئی اس راہِ عمل سے مکمل وفاداری کے ساتھ امت کے تمام مسالک، مذاہب اور نقطہ ہاے نظر سے وابستہ افراد کو دعوت دیتے ہیں کہ مشترکات کی بنیاد پر بنیان مرصوص بن کر اسلام کی سربلندی اور اُمت مسلمہ کو موجودہ درپیش مسائل اور چیلنجوں سے نکالنے کے لیے تعاون، اعتمادِ باہمی اور مخلصانہ رواداری کے ساتھ زندگی کے ہر شعبے اور میدان میں اور دنیا کے ہر حصے میں مل جل کر جدوجہد کریں۔
آج مسلمان عالمی آبادی کا ایک چوتھائی حصہ ہونے،۵۷آزاد ممالک میں اختیارات کے حامل ہونے، اور اپنی سرزمین پر اللہ کی رحمت سے بیش بہا مادی اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود دنیا کی بڑی طاقتوں کے لیے نرم نوالابنے ہوئے ہیںاور عملاً غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ آج اسلام اور مسلمانوں کو علمی اور عملی ہر سطح پر سب وشتم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔اسلام کی تعلیمات کو مسخ کرنے اور نبی برحق محسن انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر رکیک حملوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے، مسلمانوں کے وسائل پر بیرونی قوتوں کا قبضہ ہے اوریاوہ ان کو اپنے مفاد میں استعمال کر رہی ہیں، اور مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ معیشت، معاشرت، تجارت ، تعلیم سائنس وٹکنالوجی ہر میدان میں دوسروں کے دست نگر ہیں۔
اس پر مستزاد مسلمانوں میںباہمی کش مکش اور ان کو بانٹنے اور آپس میں لڑانے اور دست و گریبان کرنے کی سازشیں عروج پر ہیں،اور بد قسمتی سے ان سازشوں میں غیروں کے ساتھ خود اپنوں کا کردار بھی ان مصائب کا ذمہ دار ہے جو حالات کے بگاڑ اور فساد کے فروغ کا ذریعہ بنا ہوا ہے ۔
ان حالات میں یہ کانفرنس دنیا بھر کے مسلمانوں اور اُن کی ہر سطح کی قیادت کو دعوت دیتی ہے کہ ہم فروعی اور ذیلی اختلافات سے بالا ہو کر اپنے مشترک مشن کے حصول اور دشمنوں کی ریشہ دوانیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے متحد اور منظم ہو جائیں۔یہ وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ اس کے لیے یہ کانفرنس مندرجہ ذیل اصولوں اور اہداف پر مکمل اتفاق اور ان کے مطابق کام کرنے کے عزائم کا اظہار کرتی ہے :
۱-اللہ کی طرف رجوع اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن کو مضبوطی سے تھامنے اور دین حق کے پیغامِ عدل و رحمت کے علمبردار بنیں، اسلام کی تعلیمات اُن کی اصلی شکل میں دعوت اور تبلیغ اور اشاعت عام کا اہتمام کریں اور اس کے ساتھ ہر سطح پر سارے وسائل اس مقصد کے لیے استعمال کریں اور معاشرے کی دینی تربیت ہو ، اسلام کے عدل اجتماعی کا نظام ہماری سرزمین پر جاری و ساری ہو اور دنیا کے سامنے اسلام کا صحیح نمونہ پیش کیا جاسکے، اپنے گھر کی منہج نبویؐ کے مطابق اصلاح ہماری اولین ذمہ داری ہے۔ دشمنانِ اسلام کی ریشہ دوانیوں کا مقابلہ کرنا اور اس مقصد کے لیے اُمت مسلمہ میں اجتماعی قوت کو بروے کار لانا وقت کی ضرورت اور مخالفین کے مقابلے کا صحیح راستہ ہے۔ اسلامی اقدار اور تعلیمات کا معاشرے اور انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہردائرے میں عملی نفاذ اور بالادستی کی جدوجہد ہمارا اصل فرض ہے ۔
۲-اختلافات اور بگاڑ کو دور کرنے کے لیے ایک اہم ضرورت یہ ہے کہ تمام مکاتب فکر نظم مملکت اور نفاذ شریعت کے لیے ایک بنیاد پر متفق ہوں ۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے ہم ۳۱سر کردہ علما کے ۲۲نکات کو بنیاد بنانے پر متفق ہیں،اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کی بنیاد پر زندگی کے ہر شعبے کی اصلاح کے داعی ہیں۔
۳-نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و حرمت ہمارے ایمان کی بنیاد ہے اور آ پؐ کی کسی طرح کی توہین کے مرتکب فرد کے شرعاً قانوناً موت کی سزا کا مستحق ہونے پر ہم متفق ہیں۔ اس لیے توہین رسالتؐ کے ملکی قانون میں ہم ہر ترمیم کو مسترد کریں گے اور متفق اور متحد ہوکر اس کی مخالفت کریں گے۔ عظمت اہل بیت اطہار و امام مہدی ؓ، عظمت ازواج مطہراتؓ اور عظمت صحابہ کرامؓ و خلفاے راشدین رضوان اللہ علیم اجمعین ایمان کا جز ہے۔ ان کی تکفیر کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہے اور ان کی توہین و تنقیص حرام اور قابل مذمت و تعزیر جرم ہے۔ ایسی ہر تقریر و تحریر سے گریز و اجتناب کیا جائے گا جو کسی بھی مکتب فکر کی دل آزاری اور اشتعال کا باعث بن سکتی ہے۔ شرانگیز اور دل آزار کتابوں، پمفلٹوں اور تحریروں کی اشاعت، تقسیم و ترسیل نہیں کی جائے گی۔ تمام مسالک کے اکابرین کا احترام کیا جائے گا۔
۴-ہم ملک میں مذہب کے نام پر دہشت گردی اور قتل و غارت گری کو اسلام کے خلاف سمجھنے، اس کی پر زور مذمت کرنے اور اس سے اظہار برأت کرنے پر متفق ہیں۔
۵- باہمی تنازعات کو افہام و تفہیم اور تحمل ورواداری کی بنیاد پر طے کیا جائے گا۔عالم اسلام میں جہاں باہمی انتشار جنگ و جدال اور کش مکش ہے اُسے مذاکرات اور ثالثی کے ذریعے حل کیا جائے اور قوت کے استعمال کو یکسر ختم کرنے کے لیے مؤثر کارروائی کی جائے۔ تمام مسلمان ممالک اور ان کی سیاسی اور دینی قیادتیں اس سلسلے میں ایک مؤثر کردار ادا کریں۔نیز مسلمانوں کی اجتماعی تنظیم او آئی سی (Organization of Islamic Cooperation- OIC) اس سلسلے میں متحرک اور مؤثر ہو۔
۶- اقوامِ عالم میں اُمت مسلمہ کے جذبات اور احساسات کی ترجمانی مؤثر انداز میں کی جائے۔ مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے آواز اُٹھانا اور جارحیت کے مقابلے میں اُمت مسلمہ کا دفاع کرناہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ امن عالم کے قیام اور ضروری ترجیحی بنیادوں پر فلسطین، افغانستان، کشمیر اور برما کے مسلمانوں کی مبنی برحق جدوجہدکی تائید اور مدد کی جائے۔ عالمی راے عامہ کی تائید اور مسلمانوں کے تمام وسائل کے استعمال کے لیے جدوجہد کو اولین اہمیت دی جائے۔
۷-افغانستان سے امریکی اور ناٹو افواج کا جلد از جلد انخلا عالمی امن کے لیے ضروری ہے۔ ہمارا ہدف افغانستان کے مسئلے کا وہ حل ہے جو وہاں کے عوام کی خواہش کے مطابق ہو اور ان کے اپنے مشورے اور قومی مفاہمت کی بنیاد پر کیا جائے۔ نیز عالم اسلام میں جہاں بھی بیرونی افواج کا عمل دخل ہے اُسے ختم کیا جائے۔
ہم عہد کرتے ہیں ان اصولوں اور اہداف کو اپنی ساری جدوجہد کا محور بنائیں گے اور مسلم ممالک کی قیادت،مسلم عوام اوردینی و سیاسی جماعتوں کواس جدوجہد میں اپنا کردار ادا کرنے کی دعوت دیں گے۔
اسی شہر لاہور میں جس وقت مسلمانوں نے یہ طے کیا تھا کہ ہم ایک الگ خطۂ زمین حاصل کریں گے، اس وقت تمام متحدہ ہندستان کے مسلمانوں کا ارادہ یہ تھا کہ قطع نظر اس کے کہ وہ پاکستان میں شامل ہوسکیں یا نہ ہوسکیں، لیکن ایک خطۂ زمین ہندستان میں ایسا حاصل کیا جائے جس کے اندر اسلامی تہذیب کو زندہ کیا جائے، جس کے اندر اسلامی قوانین جاری ہوں، جس میں مسلمان اپنے نظریۂ حیات کے مطابق زندگی بسر کر سکیں۔ یہ جذبہ جنوبی ہند کے آخری گوشوں سے لے کر شمالی اور مغربی ہندستان کے انتہائی گوشوں تک تمام مسلمانوں میں یکساں طور پر پایا جاتا تھا۔ اُن مسلمانوں میں بھی پایا جاتا تھا جن کو کبھی یہ توقع نہیں ہو سکتی تھی کہ وہ کبھی پاکستان میں شامل ہوسکیں گے۔ اسی چیز کے نتیجے میں پاکستان بنا۔
اگر مسلمانوں میں مسلمان ہونے کا احساس تمام دوسرے احساسات پر غالب نہ ہوتا، اگر مسلمان اس بات کو بھول نہ گئے ہوتے کہ ہم مدراسی ہیں، پنجابی ہیں، بنگالی ہیں، گجراتی ہیں، پٹھان ہیں اور سندھی ہیں، اور صرف ایک تصور ان کے اوپر غالب نہ ہوتا کہ ہم مسلمان ہیں اور مسلمان کی حیثیت سے اس سرزمین میں جینا چاہتے ہیں تو پاکستان کبھی وجود میں نہیں آ سکتا تھا، بلکہ پاکستان کا تخیل سرے سے پیدا ہی نہیں ہو سکتا تھا۔
پاکستان کا تخیل ہمارے مسلمان ہونے کے احساس پر مبنی تھا۔ پاکستان کا تخیل ہمارے اس جذبے پر مبنی تھا کہ ہم اسلام کے مطابق زندگی بسر کریں گے۔ یہ عام مسلمانوں کے احساسات تھے۔ مجھے کچھ پتا نہیں کہ بڑے بڑے لیڈروں کے ارادے کیا تھے، اور ان کے احساسات کیا تھے؟ یہ بھی یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ ہمارے کھاتے پیتے طبقوں کے احساسات کیا تھے؟ یہ بھی مَیں نہیں جانتا کہ جو لوگ ہمارے ہاں سرکاری ملازمتوں میں اُونچے مناصب پر تھے ان کے کیا خیالات تھے اور اس وقت وہ کیا سوچ رہے تھے، لیکن عام مسلمان یہی کچھ سوچ رہا تھا، اور اس نے یہی سمجھتے ہوئے اپنی جان و مال لٹائے کہ یہ سب کچھ غلبۂ اسلام کے لیے کیا جا رہا ہے۔ اس کو یقین تھاکہ ہندستان کے ہندو ان سے بدلہ لیے بغیر نہیں رہیں گے۔ ان کے خون کی ندیاں بہائیں گے، ان کی آبرو پر ہاتھ ڈالیں گے، ان کے مال برباد کریں گے، مگر اس کے باوجود انھوں نے اس خطرے کو مول لیا اور اس مملکت کو قائم کرنے کے لیے جدوجہد کی۔ لیکن پاکستان بننے کے بعد کیا ایک دن کے لیے بھی یہاں اسلام کے لیے خلوص کے ساتھ کام کیا گیا۔ پوری تاریخ آپ کے سامنے ہے۔
پاکستان بننے کے بعد یہاں اسلام کو مملکت کی بِنا قرار دینے میں پس و پیش شروع کر دی گئی۔ بڑی جدوجہد اور مطالبوں کے بعد اگر قرارداد مقاصد پاس کی بھی گئی تو اس کی بنیاد پر اوّل تو دستور بنانے کے بعد بھی اس قرارداد کو محض ایک دیباچے کے طور پر اس میں شامل کیا گیا۔
اس کے ساتھ جس بات کی سب سے پہلے ضرورت تھی وہ یہ کہ نظامِ تعلیم کو تبدیل کیا جائے۔ طلبا کے اندر اسلام کا فہم پیدا کیا جائے، ان کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ اپنے اس ملک کو اسلام کے مطابق چلا سکیں۔ لیکن اس چیز کی طرف بار بار توجہ دلانے کے باوجود اس کی کوئی فکر نہ کی گئی اور نظامِ تعلیم میں کوئی تغیر نہ کیا گیا۔ اسی طرح سے نشرواشاعت کے جو ذرائع موجود تھے جن سے لوگوں کی راے تیار کی جاسکتی تھی، جن سے لوگوں کے ذہن اسلام کے مطابق بدلے جاسکتے تھے، ضرورت تھی کہ ان سے کام لے کر مسلمانوں کے اندر مسلمان ہونے کا جذبہ زیادہ سے زیادہ شدید کیاجائے۔ اس لیے کہ وہی ہماری مملکت کی بنیاد تھی اور ہے۔ اس کے مضبوط رہنے پر اس مملکت کو مضبوط رہنا ہے، اور اس کے کمزور ہونے پر اس مملکت کا کمزور ہونا منحصر ہے۔ لیکن اس چیز کی طرف بھی توجہ نہیں کی گئی، بلکہ اس کے بالکل برعکس نشرواشاعت کے تمام ذرائع کو اسلام سے لوگوں کو منحرف کرنے کے لیے استعمال کیا گیا اور ان کے ذریعے ہر طرح کے باطل خیالات اور نظریات پھیلائے گئے۔
تعلیم کے بعد جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت تھی وہ یہ کہ مسلمانوں کے اخلاق کو اسلام کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی جاتی۔ کیونکہ ایک اسلامی مملکت کی بنیاد اسلامی فکر کے بعد اسلامی اخلاق ہے۔ اگر اسلامی فکر کے ساتھ اسلامی اخلاق موجود ہو تو ایک نہایت مضبوط و مستحکم مسلم مملکت تیار ہوسکتی ہے۔ لیکن نہ یہاں اسلامی فکر کو مضبوط کیا گیا اور نہ اسلامی اخلاق کو۔ اس کے برعکس مسلمانوں کے اخلاق کو خراب کرنے کے لیے جو کچھ کیا جا سکتا تھا، وہ کیا گیا۔ مسلمانوں میں تقسیم سے قبل ناچ گانے کا وہ زور نہ تھا جو بعد میں ہوا۔ گویّے اور نچیّے تقسیم سے پہلے مسلمانوں کے ہیرو نہ تھے مگر تقسیم کے بعد [ان پیشوں سے وابستہ لوگ] ہمارے ہیرو قرار پائے۔ تقسیم کے بعد ملک کے دونوں حصوں کے درمیان جو ثقافتی وفود کا تبادلہ ہوتا تھا وہ ناچنے اور گانے والوں کا ہوا۔ گویا یہ تصور کیا گیا کہ ناچ اور گانے سے یہ مملکت قوی ہوگی ۔مسلمانوں میں شراب نوشی، بدکاری اور بے حیائی پھیلانے کے لیے جتنا کام انگریز نے ڈیڑھ سو برس کے اندر نہیں کیا تھا وہ ہمارے ہاں [چند] برس کے اندر کر ڈالا گیا۔ اس طرح سے ہمارے افکار کو اسلام سے منحرف کیا گیا۔ ہمارے اخلاق کو اسلام سے منحرف کیا گیا اور ہمارے اندر سے وہ تمام جڑیں کھودنے کی کوشش کی گئی جن کی بنا پر ہم مسلمان تھے اور مسلمان ہونے پر فخر کرتے تھے۔ جو تعلیم ہمیں دی جارہی تھی وہ لادینیت کی تعلیم تھی۔ اس کے اندر سب کچھ تھا مگر خدا نہ تھا۔ اس میں سب کچھ تھا مگر خدا کا رسولؐ اور خدا کی کتاب نہ تھی۔
لازمی طور پر اس ماحول میں جو ہماری نئی نسلیں اُٹھیں، مشرقی پاکستان [موجودہ بنگلہ دیش] میں تھیں تو ان کے اندر بنگالیت کا احساس پیدا ہوا۔ مغربی پاکستان میں تھیں تو ان کے اندر پنجابی، سندھی، پٹھان اور بلوچی ہونے کا احساس اُبھرنا شروع ہوا۔ ظاہر بات ہے کہ جب مسلمان ہونے کا احساس دبے گا تو اس کے بعد اگر کوئی دوسرا احساس ہوسکتا ہے تو مقامی اور علاقائی قومیتوں کا احساس ہوسکتا ہے، اور وہی چیز پیدا ہوئی۔
بنگالی مسلمانوں میں بنگالی زبان، بنگالی تہذیب، بنگالی ثقافت، ساری کی ساری وہ پھیلائی گئی جو ان کو ہندوئوں کے ساتھ جوڑتی تھی، مسلمانوں سے الگ کرتی تھی۔ ان کے اسلامی احساسات کو زیادہ سے زیادہ فنا کرنے اور مٹانے کی کوشش کی گئی اور نتیجے میں ان کے اندر بنگالیت اور بنگالیت کے ساتھ ہندوئیت کے احساسات پیدا ہونا شروع ہوگئے۔ یہاں تک کہ آخرکار بنگالی مسلمان نوجوان اور ہندو نوجوان کے درمیان کوئی وجۂ امتیاز باقی نہ رہی۔ نہ صرف مردوں میں بلکہ عورتوں میں جو عورتیں بھی نئی تعلیم پانے والی تھیں ان میں اور نئی تہذیب اختیار کرنے والی ہندو بنگالی عورت میں بظاہر کوئی فرق نظر نہ آتا تھا۔ وہی ان کی تہذیب، وہی ان کے تصورات اور وہی ان کا ناچ گانا....
آپ نے اس کا نتیجہ اب دیکھ لیا کہ آخرکار وہاں وہ تحریک اٹھی جس کے چلانے والے، جس کے لیڈر اور جس کے کارکن نہ صرف یہ کہ اسلام کے تصورات سے خالی تھے، نہ صرف یہ کہ اسلام سے منحرف تھے بلکہ ان کے اندر اسلام کے لیے چڑ پیدا ہوئی۔ وہ اسلام کا نام سننا گوارا نہیں کرتے تھے… ان کے اندر نفرت مغربی پاکستان کے خلاف اس حد تک پھیلی کہ آخرکار انھوں نے ارادہ کر لیا کہ چاہے کافروں سے بھی مدد لینی پڑے لیکن ہم کو مغربی پاکستان سے الگ ہونا ہے۔ تاریخ میں بہت کم مثالیں آپ کو ایسی ملیں گی کہ مسلمانوں نے مسلمانوں سے لڑنے کے لیے کافروں سے مدد حاصل کی ہو۔ یہاں یہ مثال دیکھی گئی کہ مسلمان، بت پرستوں سے اس غرض کے لیے مدد لیتے ہیں کہ مسلمان مملکت سے الگ ہوں اور اپنے مسلمان بھائیوں کے خلاف لڑیں۔ اس طرح سے آخرکار مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوا۔
ظاہر بات ہے کہ مشرقی پاکستان نہ فوج کی طاقت سے اور ہتھیاروں کی طاقت سے پاکستان میں شامل ہوا تھا اور نہ ان کی طاقت سے شامل رکھا جا سکتا تھا۔ وہ اگر شامل ہوا تھا تو اسلامی احساسات کی بنا پر، مسلمان ہونے کے جذبات کی بنا پر شامل ہوا تھا، اپنے ارادے سے شامل ہوا تھا، کسی نے اسے فتح کرکے شامل نہیں کیا تھا۔ اور آخرکار آپ نے اسلام سے اپنے انحراف کی بناپر ان کے اندر مسلمان ہونے کے احساس کو دبا دیا بلکہ مٹا دیا، تو ظاہر ہے کہ فوج کی طاقت سے ان کو مغربی پاکستان کے ساتھ نہیں ملایا جا سکتا تھا۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ جب انھوں نے دیکھا کہ پاکستان کی فوج کے مقابلے میں وہ نہیں لڑسکتے تو انھوں نے ہندستان کو دعوت دی، اس کی مدد حاصل کی اور اس کے ذریعے سے علیحدہ ہوگئے۔
اب اس کے بعد صرف مغربی پاکستان [موجودہ پاکستان] رہ گیا ہے جس کو ہندستان کے مقابلے میں تقریباً ایک اور گیارہ کی نسبت ہے، پہلے ایک اور پانچ کی نسبت تھی۔ اس خطے کے اندر بھی آپ دیکھیے کہ اسلام سے انحراف کے نتیجے میں کیا صورت پیدا ہوگی۔ اس خطے میں بھی چونکہ اسلامی تعلیم نہیں دی گئی، نہ اسلامی اخلاق پیدا کیے گئے بلکہ اُلٹا اسلامی تصورات کو دبایا گیا اور غیراسلامی تصورات کو اُبھرنے کا موقع دیا گیا، اس لیے یہاں بھی الحاد، دہریت، سوشلزم اور دوسرے لادینی نظریات پھیلے اور اخلاقی اباحیت کو فروغ حاصل ہوا۔
اس کے نتیجے میں آپ دیکھیے یہاں پنجابی، پٹھان، سندھی اور بلوچی ہونے کے احساسات اُبھر رہے ہیں اور مسلمان ہونے کا احساس ختم ہو رہا ہے۔ اب اِس خطے کے ٹکڑے اڑتے نظرآرہے ہیں۔ اُس خطے کو بھی جمع کرکے رکھنے والی اگر کوئی چیز تھی تو وہ اسلام اور مسلمان ہونے کا احساس تھا۔ اگر اِس چیز کی اب فکر نہ کی گئی تو یہ بھی منتشر ہوجائے گا، اور پھر منتشر ہوجانے کے بعد اس کا کوئی حصہ بھی آزاد نہ رہے گا۔ یہ سب غلام بن جائیں گے اور یہ غلامی اس سے بدتر ہوگی جو تقسیم سے پہلے آپ کی غلامی تھی۔ (مولانا مودودی کی دو اہم تقاریر، مرکزی مجلسِ شوریٰ سے خطاب، ۱۲-۱۷ فروری ۱۹۷۲ئ، ص ۶-۱۰)
خرم مراد: حیات و خدمات کا نیا ایڈیشن ان شاء اللہ جلد شائع ہوگا
ھمارے قارئین یا ان کے جاننے والوں کے پاس محترم خرم مراد کے بارے میں کوئی مشاھدہ، کوئی تاثر، کوئی جذبہ محفوظ ھو تو اسے لکھ بہیجیے۔
ایسے بہت سے واقعات ہمارے رفقا کے سینوں میں محفوظ ہیں۔ یہ وقت ہے کہ اسے تاریخ کو منتقل کردیں تاکہ ان کی طرح دوسروں کے لیے ہدایت کا باعث بنیں اور انھیں بھی اُس صدقہ جاریہ میں اپنا حصہ لینے کا موقع ملے جو محترم خرم مراد کو مل رہا ہے۔ مختصر کی شرط نہیں، آپ جو بھی ان کے بارے میں لکھنا چاہیں، لکھیں۔ آپ جو کچھ بھیجنا چاہتے ہیں ۲۰دسمبرسے پہلے بھیج دیں۔
عالمی ترجمان القرآن
منصورہ، ملتان روڈ، لاہور- 54790
ای -میل: tarjumanq@gmail.com مسلم سجاد
بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
ٰٓیاََیُّھَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ ج تَبْتَغِیْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِکَ ط وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ o قَدْ فَرَضَ اللّٰہُ لَکُمْ تَحِلَّۃَ اَیْمَانِکُمْ ج وَاللّٰہُ مَوْلٰـکُمْ جوَھُوَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ o (التحریم ۶۶:۱-۲) اے نبیؐ! تم کیوں اُس چیز کو حرام کرتے ہو جو اللہ نے تمھارے لیے حلال کی ہے؟ (کیا اِس لیے کہ) تم اپنی بیویوں کی خوش نودی چاہتے ہو؟ اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ اللہ نے تم لوگوں کے لیے اپنی قَسموں کی پابندی سے نکلنے کا طریقہ مقرر کر دیا ہے۔ اللہ تمھارا مولیٰ ہے، اوروہی علیم و حکیم ہے۔
اِس سورت میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خانگی زندگی کے سلسلے میں حضوؐر کی اَزواجِ مطہرات کے متعلق تین واقعات پر تبصرہ کیا ہے اور ان کے بارے میں احکام اور ہدایات دی ہیں۔ یہ تین واقعات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیش آئے تھے۔ اَزواجِ مطہراتؓ سے کچھ قصور سرزد ہوئے تھے جن پر اللہ تعالیٰ نے گرفت فرمائی۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک لغزش تھی جس پر اللہ تعالیٰ نے گرفت فرمائی اور اس سلسلے میں احکام دیے۔
ٰٓیاََیُّھَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ ج اے نبیؐ! تم اپنے لیے اُس چیز کو کیوں حرام کرتے ہو جس کو اللہ نے تمھارے لیے حلال کیا ہے؟
اس سلسلے میں احادیث میں جو تفصیل آئی ہے وہ یہ ہے کہ اُم المومنین حضرت زینبؓ کے ہاں کہیں سے شہد آیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو شہد بہت پسند تھا، اور آپؐ شہد بڑی رغبت سے استعمال فرماتے تھے۔ چنانچہ آپؐ روزانہ عصر کے بعد حضرت زینبؓ کے ہاں تشریف لے جانے لگے۔ اس چیز پر دوسری ازواجِ مطہراتؓ کو کچھ رشک ہوا کہ اب حضوؐر روز زینبؓ کے ہاں جانے لگے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے آپس میں یہ طے کیا کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں تشریف لائیں تو ہم آپؐ سے کہیں گے آپؐ کے منہ سے مَغافیر کی ُبو آتی ہے۔ مَغافیر ایک خاص قسم کے پھول تھے جو مدینہ کے اطراف میں پائے جاتے تھے جن سے شہد کی مکھیاں رس چوستی تھیں۔ قاعدہ یہ ہے کہ شہد کی مکھی جس علاقے میں ہوتی ہے وہ اُسی علاقے کے پھولوں سے رس حاصل کرتی ہے، اور جس چیز سے بھی وہ رس حاصل کرتی ہے اُس کی بو یا مہک بھی اس کے شہد میں آجاتی ہے۔ اس وجہ سے ازواجِ مطہراتؓ نے آپس میں یہ طے کیا کہ ہم نبی اکرمؐ سے کہیں گے کہ آپؐ کے منہ سے مَغافیر کی بو آتی ہے۔
یہ بات معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منہ کی بُو سے طبعاً سخت نفرت تھی۔ اس لیے آپؐ اپنا دہنِ مبارک اتنا صاف رکھتے تھے کہ وہ خوشبودار محسوس ہوتا تھا۔ یہ بھی ایک فطری بات ہے کہ ایک پاکیزہ مزاج آدمی کبھی اِس بات کو پسند نہیں کرتا کہ دوسرے لوگوں کو اس سے یہ شکایت ہو کہ اُس کے منہ سے یا کپڑوں سے یا جسم سے بو آتی ہے۔ پھر نبیؐ کا معاملہ تو بہت خاص ہے۔ نبی تو کبھی اس بات کو پسند نہیں کرسکتا کہ اس کے متعلق کوئی شخص یہ شکایت کرے کہ اس کے پاس سے بو آتی ہے۔ نبی کا کام تو لوگوں کو بھلائی کی طرف بلانا ہوتا ہے۔ اس لیے ایک داعی کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کے اندر کوئی ایسا عیب نہ ہو جس کی وجہ سے لوگ اس سے نفرت کریں، لوگوں کو اس کی کسی بات سے کراہت محسوس ہو، بلکہ اس کی ذات کو ہرلحاظ سے پُرکشش اور جاذبِ نظر ہونا چاہیے۔ لوگ اس کے قرب سے سکون حاصل کریں، بجاے اس کے کہ اس سے کراہت محسوس کریں۔ اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ نہایت صاف ستھرے رہتے تھے۔ دن میں کئی کئی مرتبہ مسواک کرتے۔ رات کو سوتے وقت بھی مسواک کرتے تھے۔ سو کر جب بھی اُٹھتے تھے مسواک کرتے تھے تاکہ منہ سے بو نہ آئے۔ ہمیشہ عطر استعمال فرماتے تھے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آپؐ کے کپڑوں سے عطر کی خوشبو نہ آئے۔ اس لیے جب ازواجِ مطہرات نے وہ بات کہی تو حضوؐر کو شک پیدا ہوا کہ کہیں واقعی میرے منہ سے بو تو نہیں آتی۔ چنانچہ آپؐ نے قَسم کھا لی کہ اب میں یہ شہد استعمال نہیں کروںگا۔ آپؐ کے اس عزم پر اللہ تعالیٰ نے گرفت فرمائی کہ آپ اُس چیز کو اپنے اُوپر کیوں حرام کرتے ہیں جس کو اللہ نے آپؐ کے لیے حلال کیا ہے؟
بظاہر یہ ایک بڑی معمولی سی بات ہے کہ کوئی شخص ایک چیز کو پسند نہ کرے اور یہ طے کرے کہ آیندہ وہ اسے استعمال نہیں کرے گا، لیکن عام آدمی کی بات الگ ہے، اور اللہ کے رسولؐ کی بات الگ ہے۔ اللہ کا رسول اگر کسی چیز کو چھوڑ دے اور فیصلہ کرلے کہ اب مجھے اس کو استعمال نہیں کرنا ہے تو وہ چیز صرف اللہ کے رسول ہی کے لیے نہیں، پوری اُمت کے لیے حرام ہوجائے گی۔ پوری اُمت اس کا استعمال ترک کردے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حلال و حرام کے اختیارات کاملاً اپنے ہاتھ میں رکھے ہیں۔ اپنے رسول کی طرف بھی منتقل نہیں کیے ہیں۔ رسول کو بھی یہ حق نہیں ہے کہ وہ بطورِ خود کسی چیز کو حرام یا حلال کردے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس بات پر گرفت فرمائی کہ یہ کام آپ نے اپنے اختیار سے باہر جاکر کیا ہے۔ کوئی عام آدمی یہ کام کرتا تو کوئی بات نہیں تھی۔ لیکن آپؐ نے یہ کیا ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ قانونِ الٰہی میں ترمیم ہوجائے گی۔ جو چیز قانونِ الٰہی میں حلال ہے وہ آپؐ کی وجہ سے حرام ہوجائے گی۔ کم از کم اس سے اُمت کے اندر یہ خیال ضرور پھیل جائے گا کہ اورکچھ نہیں تو یہ چیز مکروہ ضرور ہے۔ اِسی وجہ سے حضوؐر نے اسے ترک فرمایا ہے۔
اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم کیوں اُس چیز کو حرام کرتے ہو جس کو اللہ نے حلال کیا ہے؟ پھر فرمایا: کیا تم اپنی بیویوں کی خوشی چاہتے ہو؟ اب اس میں اشارہ بیویوں کے قصور کی طرف بھی ہے کہ اُنھوں نے اپنے ایک ذاتی جذبے کی بنا پر، جو حضوؐرکی ایک دوسری بیوی سے رشک کا جذبہ تھا، اللہ کے رسولؐ کے دل میں ایک ایسی بات بٹھائی جس کی وجہ سے انھوں نے ایک حلال چیز کو اپنے اُوپر حرام کرلیا۔ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا: تَبْتَغِیْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِکَ ط ،’’تم اپنی بیویوں کی خوشی چاہتے ہو؟‘‘ پھر فرمایا: وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ، ’’اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے‘‘۔
اس موقع پر اس ارشاد کے دو معنی ہیں: ایک یہ کہ تم نے کوئی ایسا گناہ نہیں کیا ہے جس پر کوئی سزا ہو۔ اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے۔ اس نے تمھاری اس لغزش سے درگزر فرمایا ہے۔ دوسرے اس سے خود بخود یہ معنی نکلتے ہیں کہ تمھیں بیویوں کی خوشی چاہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ جس ہستی کی مغفرت اور رحمت تمھیں درکار ہے وہ تو اللہ ہے۔ تمھارے لیے بیویوں کی خوش نودی اہمیت نہیں رکھتی بلکہ صرف اللہ کی خوش نودی اہمیت رکھتی ہے کیونکہ تم اللہ ہی کی مغفرت اور رحمت کے اُمیدوار ہو۔
اس کے بعد فرمایا کہ: قَدْ فَرَضَ اللّٰہُ لَکُمْ تَحِلَّۃَ اَیْمَانِکُمْج ،’’ اللہ نے تم لوگوں کے لیے اپنی قسموں کی پابندی سے نکلنے کا طریقہ مقرر کردیا ہے‘‘۔ اللہ نے تمھارے لیے فرض کیا ، یا یہ طریقہ مقرر کیا ہے (دونوں معنی مراد ہیں)۔ ایک یہ کہ ایک آدمی اگر اپنی قسم کی پابندی سے نکلنا چاہے تو اس کے لیے قرآنِ مجید میں طریقہ بیان کیا جاچکا ہے کہ وہ اپنی قسم کا کفارہ ادا کرے۔
دوسرے معنی اس آیت کے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر فرض کردیا ہے کہ تم ایسی قسموں کو توڑ دو اور کفارہ ادا کرو۔ اس سے یہ مسئلہ نکلتا ہے کہ اگر آدمی کسی ناجائز کام کی قسم کھا بیٹھے تو اس کا فرض ہے کہ وہ اس قسم کو توڑ دے کیونکہ اس کی پابندی کرنا غلط کام ہے۔ اگر اس نے جائز کام کی قسم کھائی ہو تو وہ اس کی پابندی کرے لیکن اگر کسی ناجائز کام کی قسم کھا لی ہو تو اس کے لیے لازم ہے کہ اس کو توڑے اور اس کا کفارہ ادا کرے۔
بعض احادیث میں آیا ہے کہ غلط قسم کا توڑنا ہی اس کا کفارہ ہے لیکن بعض دوسری احادیث میں ہے کہ قسم کو توڑ دیا جائے اور اس کا کفارہ بھی ادا کیا جائے۔ فقہا عموماً اسی بات کے قائل ہیں۔پھر فرمایا: وَاللّٰہُ مَوْلٰکُمْ ج وَھُوَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ، ’’اللہ تمھارا مولا ہے اور وہی علیم و حکیم ہے‘‘۔
اس مقام پر اللہ کی دو صفتوں کا ذکر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حلال و حرام کی جو صورتیں مقرر کی ہیں وہ علم اور حکمت کی بنا پر کی ہیں۔ جس چیز کو حلال کیا ہے علم کی بنا پر کیا ہے، جس چیز کو حرام کیا ہے علم کی بنا پر حرام ہے۔ اس کی تحلیل اور تحریم دونوں کے اندر اس کی حکمت کام کر رہی ہے کیونکہ اس کا ہرفعل علم اور حکمت پر مبنی ہوتا ہے۔ اس لیے اس کے مقرر کیے ہوئے حلال و حرام میں تغیر و تبدل کرنے کا حق کسی کو نہیں ہے۔ اگر کسی قسم کا تغیر و تبدل ہوگا تو وہ علم اور حکمت کے خلاف ہوگا۔
وَاِِذْ اَسَرَّ النَّبِیُّ اِِلٰی بَعْضِ اَزْوَاجِہٖ حَدِیْثًا فَلَمَّا نَبَّاَتْ بِہٖ وَاَظْہَرَہُ اللّٰہُ عَلَیْہِ عَرَّفَ بَعْضَہُ وَاَعْرَضَ عَنْم بَعْضٍ فَلَمَّا نَبَّاَھَا بِہٖ قَالَتْ مَنْ اَنْبَاَکَ ہٰذَاط قَالَ نَبَّاَنِیَ الْعَلِیْمُ الْخَبِیْرُ (۶۶:۳) اور یہ معاملہ بھی قابلِ توجہ ہے کہ نبیؐ نے ایک بات اپنی ایک بیوی سے راز میں کہی تھی۔ پھر جب اُس بیوی نے (کسی اور پر) وہ راز ظاہر کر دیا، اور اللہ نے نبیؐ کو اس (افشاے راز) کی اِطلاع دے دی تو نبیؐ نے اس پر کسی حد تک (اُس بیوی کو) خبردار کیا اور کسی حد تک اُس سے درگزر کیا۔ پھر جب نبیؐ نے اسے (افشاے راز کی) یہ بات بتائی تو اس نے پوچھا: آپ کو اِس کی کس نے خبر دی؟ نبیؐ نے کہا: ’’مجھے اُس نے خبر دی ہے جو سب کچھ جانتا ہے اور خوب باخبر ہے‘‘۔
پہلی بات غور طلب یہ ہے کہ قرآنِ مجید میں اس بات کا ذکر کس غرض سے کیا گیا ہے۔ غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ایک بیوی کو اللہ تعالیٰ نے اپنے شوہر کا رازداں بنایا ہے، جیساکہ قرآنِ مجید میں ارشاد فرمایاگیا: ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّھُنَّ(البقرہ ۲:۱۸۷)، ’’یعنی تمھارا اور تمھاری بیویوں کا وہ تعلق ہے جو جسم اور لباس کا ہوتا ہے‘‘۔ سامنے کی بات ہے کہ لباس سے جسم چھپا ہوا نہیں ہوتا اور جسم سے لباس چھپا ہوا نہیں ہوتا۔ بیوی کا یہ کام ہے کہ اگر اس کا شوہر اس سے راز میں کوئی بات کہے تو اسے چاہیے کہ وہ اس راز کو اپنے تک رکھے، دوسروں کے سامنے اس کو افشا کرنا کسی طرح درست نہیں ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات کا مقام عام لوگوں کی بیویوں کے مقام سے بلندتر ہے۔ یہ بھی معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام تک کسی کی رسائی نہیں ہے۔ پھر اُمت میں بھی جو لوگ کسی ذمہ داری کے منصب پر ہوں، ان کی بیویوں کا کام عام بیویوں کی بدولت بدرجۂ اَولیٰ یہ ہے کہ اُن کے شوہروں کے ذریعے سے جو باتیں اُن کے علم میں آئیں وہ دوسروں کے سامنے اُن کو نہ کھولتی پھریں، کیوں کہ جس شخص کا منصب جتنا زیادہ ذمہ داری کا ہو اگر اس کے گھر سے راز افشا ہونے لگیں اور وہ غیرمتعلق لوگوں تک پہنچ جائیں تو اس حرکت کی وجہ سے پوری قوم کی قوم نقصان اُٹھا سکتی ہے، ہلاکت کے خطرے میں پڑسکتی ہے۔ دنیا میں بہت سے بگاڑ اس وجہ سے پیدا ہوئے کہ عورتوں کے علم میں جو راز اُن کے ذمہ دار شوہروں کی طرف سے پہنچے تھے انھوں نے ان کو عام لوگوں میں پھیلا دیا اور بات دشمنوں کے ہاتھ لگ گئی۔ چنانچہ پوری قوم پر اس کی وجہ سے تباہی آئی۔ اس طرح کے واقعات دنیا میں رُونما ہوتے رہے ہیں۔
تیسرا پہلو ازواجِ مطہراتؓ کو اس بات کی طرف متوجہ کرنا ہے کہ تم اپنے منصب اور مقام کو سمجھو اور دیکھو کہ تم کس ہستی کی بیوی ہو۔ کتنے عظیم الشان منصب کے حامل انسان کی تم رفیقۂ زندگی ہو۔ ایسے عظیم الشان منصب کے حامل انسان کی بیویوں کا یہ کام نہیں ہے کہ اگر ان کے علم میں نبیؐ کی طرف سے کوئی راز کی بات آئے، تو وہ اسے دنیا کے سامنے پھیلا دیں۔ اس وجہ سے اس واقعے پر گرفت کی گئی اور قرآنِ مجید میں اس کا ذکر کیا گیا۔
ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ یہ بات اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی کہ آپؐ کی بیوی نے وہ راز کھول دیا ہے جس کی حفاظت اس کی ذمہ داری تھی، تو اس کا ذکر قرآن مجید میں کہیں نہیں ہے کہ وہ راز کی بات کیا تھی۔ قرآنِ مجید میں کوئی آیت ایسی نہیں آئی ہے جس میں یہ کہا گیا ہو کہ ’’اے نبیؐ!تمھاری بیوی نے یہ راز کھول دیا ہے‘‘۔ قرآنِ مجید میں اس بات کو کھول دینے پر ان کے قصور کے اُوپر تو گرفت کی گئی لیکن یہ کہیں نہیں بتایا گیا ہے کہ ’’اے نبیؐ! تمھاری بیوی نے یہ بات کھول دی ہے‘‘۔ یہ آیت اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآنِ مجید کے علاوہ بھی وحی آتی تھی۔ جو لوگ یہ لغو بات کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآنِ مجید کے علاوہ اور کوئی وحی نہیں آتی تھی، وہ اس بات کاکیا جواب دیں گے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فَلَمَّا نَبَّاَتْ بِہٖ ، ’’جب رسولؐ نے اپنی بیوی کو خبردار کیا کہ تم نے یہ راز فاش کردیا ہے‘‘، اور قَالَتْ مَنْ اَنْبَاَکَ ہٰذَا ،’’اُس نے پوچھا کہ آپ کو کس نے بتایا ہے کہ میں نے یہ کام کیا ہے؟‘‘ قرآن کہتا ہے:قَالَ نَبَّاَنِیَ الْعَلِیْمُ الْخَبِیْرُ ،آپؐ نے فرمایا کہ مجھے علیم و خبیر نے اس کی خبر دی ہے‘‘۔
اب وہ خبر کب دی گئی___ اس کا کوئی ذکر قرآنِ مجید میں نہیں ہے۔ صرف خبر دینے پر جو گرفت کی گئی ہے اُسی کا ذکر قرآنِ مجید میں ہے، جب کہ ظاہر ہے کہ وہ خبر بہرحال وحی کے ذریعے سے دی گئی تھی۔ اللہ تعالیٰ کے فرشتے ہی نے آکر یہ کہا ہوگا کہ تمھاری بیوی سے یہ قصور سرزد ہوا ہے۔ چنانچہ اس پر قرآنِ مجید میں گرفت کی گئی۔ یہ اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ حضوؐر پر قرآن کے علاوہ بھی وحی آتی تھی۔ اس کے علاوہ بھی قرآنِ مجید میں بہت سی مثالیں موجود ہیں لیکن یہ آیت اس معاملے میں نہایت صریح ہے۔
اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی دیکھیے کہ قرآنِ مجید میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں آیا کہ آخر وہ راز کی بات کیا تھی۔ معلوم ہوا کہ قرآنِ مجید میں غیرضروری تفصیلات بیان نہیں کی جاتیں۔ اگر اس بات کا ذکر کرنا اُمت کے لیے مفید ہوتا تو ضرور کردیا جاتا۔ لیکن دراصل اُمت کو یہ بتانا مقصود تھا کہ جو شخص ذمہ داری کے جتنے بڑے منصب پر ہو اُس کی بیوی کو اتنا ہی زیادہ رازدار اور ذمہ دار ہونا چاہیے۔ یہ بتانا بھی مقصود تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسولؐ کو وہ خبریں اور معلومات بھی دی جاتی ہیں جو عام انسانوں کو نہیں دی جاتیں اور جن کے جاننے کا کوئی ذریعہ عام انسانوں کے پاس نہیں ہوتا۔
اس راز کی بات کے ضمن میں مختلف محدثین اور مفسرین نے یہ قیاس کیا ہے کہ فلاں بات ہوگی یا فلاں بات ہوسکتی ہے۔ لیکن میرے خیال میں جس راز کا ذکر کرنا اللہ تعالیٰ نے پسند نہیں کیا ہے اس کو ٹٹولنا بھی ایک قصور ہے، ایک خطا ہے۔ اس وجہ سے کہ ازواجِ مطہراتؓ پر جب اس معاملے میں گرفت کی گئی کہ انھوں نے وہ بات عام کردی جو نہیں کرنی چاہیے تھی تو اب آپ اُسی راز کی بات کو تلاش کرنے اور ٹٹولنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جب کسی خاص حکمت کے تحت اس بات کو نہیں کھولا، تو اس کو کھول دینے کے بعد اس پر گرفت کرنا بے معنی ہوجاتا (واللّٰہ اعلم بالصواب)۔ بہرحال کوئی ایسی بات ہوگی جو اُمت کی فلاح سے تعلق رکھتی ہوگی۔ اِسی طرح یہ بات بھی ظاہر ہے کہ نعوذ باللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ذاتی راز تو ایسا نہیں تھا جو اُنھوں نے چپکے سے اپنی بیوی سے کہا ہو۔ اگر نعوذباللہ رسولؐ اللہ کا کوئی چھپا ہوا عیب ہوتا تو پہلے تو بیویوں ہی کا ایمان ختم ہوجاتا۔
پھر آپ یہ بھی دیکھیے کہ اگر کوئی شخص عیب دار ہو تو اس کی بیوی اس کا ساتھ تو دے سکتی ہے لیکن اس کی معتقد نہیں ہوسکتی۔ اس لیے کسی کو یہ شبہہ نہ ہو کہ نعوذ باللہ وہ راز کی بات کوئی عیب کی بات تھی جو آپؐ نے چھپا کر اپنی بیوی سے بیان کی تھی۔ ہرگز نہیں! بلکہ وہ یقینا اُمت کے مفاد و مصلحت کا کوئی اہم معاملہ تھا جس کا ذکر کسی مصلحت سے آپؐ نے اپنی کسی بیوی سے کیا ہوگا لیکن اس نے اس کو دوسروں پر ظاہر کر دیا جو مناسب نہ تھا۔
اس کے ساتھ کچھ اور مسائل بھی ہیں جن کا ذکر میں اس بحث کے خاتمے پر کروں گا۔
اُمھات المومنینؓ کے رویّے پر توجہ
اِِنْ تَتُوْبَآ اِِلَی اللّٰہِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَا ج وَاِِنْ تَظٰہَرَا عَلَیْہِ فَاِِنَّ اللّٰہَ ھُوَ مَوْلٰــہُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ ج وَالْمَلٰٓئِکَۃُ بَعْدَ ذٰلِکَ ظَہِیْرٌ o عَسٰی رَبُّہٗٓ اِِنْ طَلَّقَکُنَّ اَنْ یُّبْدِلَـہٗٓ اَزْوَاجًا خَیْرًا مِّنْکُنَّ مُسْلِمٰتٍ مُّؤْمِنٰتٍ قٰنِتٰتٍ تٰٓئِبٰتٍ عٰبِدٰتٍ سٰٓئِحٰتٍ ثَیِّبٰتٍ وَّاَبْکَارًا o (۶۶:۴-۵)،اگر تم دونوں اللہ سے توبہ کرتی ہو (تو یہ تمھارے لیے بہتر ہے ) کیونکہ تمھارے دل سیدھی راہ سے ہٹ گئے ہیں، اور اگر نبیؐ کے مقابلے میں تم نے باہم جتھہ بندی کی تو جان رکھو کہ اللہ اُس کا مولیٰ ہے اور اُس کے بعد جبریل ؑ اور تمام صالح اہلِ ایمان اور سب ملائکہ اس کے ساتھی اور مددگار ہیں۔ بعید نہیںکہ اگر نبیؐ تم سب بیویوںکو طلاق دے دے تو اللہ اُسے ایسی بیویاں تمھارے بدلے میں عطافرما دے جو تم سے بہتر ہوں، سچی مسلمان، باایمان، اطاعت گزار، توبہ گزار، عبادت گزار، اور روزہ دار، خواہ شوہر دیدہ ہوں یا باکرہ۔
پہلے یہاں خاص طور پر دو بیویوں کے اُوپر گرفت کی گئی ہے اور پھر آگے چل کر تمام ازواج کا ذکر ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل قصور تو دو بیویوں کا تھا لیکن باقی بھی کسی نہ کسی حد تک اس میں شریک تھیں، اس لیے ان کو بھی ان آیات میں مخاطب کیاگیا۔
احادیث سے اس معاملے کی تفصیل یہ معلوم ہوتی ہے کہ وہ زمانہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے انتہائی معاشی تنگی کا تھا اور آپؐ کے مالی حالات اس وقت انتہائی خراب تھے۔ جو سرمایہ تھا وہ زیادہ ترمکہ معظمہ میں کارِ دعوت میں خرچ ہوچکا تھا اور جو کچھ موجود تھا وہ چھوڑ چھاڑ کر صرف تن کے کپڑوں میں مدینہ تشریف لے آئے تھے۔ پھر مدینہ طیبہ تشریف لانے کے بعد آپؐ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ دین کے کام میں صرف ہورہا تھا۔ اتنی فرصت نہیں تھی کہ اپنا کوئی کاروبار کر کے اپنی آمدن کا کوئی ذریعہ پیدا فرماتے، اور اس کے ساتھ نبی کا یہ مقام بھی نہیں ہے کہ وہ کسی سے مانگے۔ اس وجہ سے اس زمانے میں حضوؐر کے اُوپر ایسی تنگی کا وقت تھا کہ کئی کئی روز تک آپؐ کے گھر میں چولھا نہیں سلگتا تھا۔ یہ حالات ازواجِ مطہراتؓ خود بیان کرتی ہیں۔ مزید برآں صورتِ حال یہ تھی کہ جن دینی مصلحتوں کی خاطر آپ نے پے درپے کئی شادیاں کیں، وہ بھی اُمت ہی کی ضروریات کی وجہ سے کیں۔ کوئی اپنی ذاتی خواہش اس کی محرک نہیں تھی۔
ظاہر بات ہے کہ ذاتی خواہش ۵۵ برس کی عمر میں کہاں ہوسکتی ہے۔ جس شخص نے ۲۵سال کی عمر میں ۴۰ برس کی عورت سے شادی کی ہو، اور جب تک وہ زندہ رہیں تب تک وہی تنہا آپؐ کی بیوی تھیں۔ ایسے شخص کے بارے میں یہ گمان کرنا کہ ۵۵ برس کی عمر میں جاکر اس کے اندر شادی کرنے کی خواہش جاگ اُٹھی ہو، اور وہ بھی اس مفلسی کی حالت میں۔ لہٰذا یہ بات کسی طرح قابلِ تصور نہیں ہوسکتی۔ یہ تو فقط اُمت ہی کے بعض مصالح کا تقاضا تھا جس کی خاطر آپؐ نے متعدد شادیاں کیں۔
حال یہ تھا کہ مدینہ منورہ آکر کوئی پختہ عمارت بننے کی نوبت نہیں آئی تھی جن میں ازواجِ مطہراتؓ قیام پذیر ہوتیں۔ جس وقت تک مسجد نبویؐ کی توسیع کی ضرورت پیش نہیں آئی اُس وقت تک ازواجِ مطہراتؓ کے بالکل سادہ سے حجرے مسجد نبویؐ کی دیوار کے ساتھ متصلاً بنائے گئے تھے۔ بعد کے دور میں لوگ جاجاکر دیکھا کرتے تھے کہ آج ہم کن محلّات میں رہتے ہیں، اور جس ہستی کی بدولت یہ دولت ہمیں نصیب ہوئی ہے وہ ہستی خود کہاں رہتی تھی اور ازواجِ مطہرات کیسے زندگی بسر کرتی تھیں۔ ایک مدت تک یہی صورتِ حال رہی۔ اس صورتِ حال میں ازواجِ مطہراتؓ آپؐ کی رفاقت میں تھیں۔
فطری طور پر ایک عورت چاہتی ہے کہ اس کے پاس زیور ہو، سامانِ آرایش ہو، عمدہ کپڑے ہوں۔ آخرکار مدینہ طیبہ ہی میں کھاتے پیتے لوگ بھی موجود تھے۔ وہ ان کی بیویوں کو بھی دیکھتی تھیں۔ وہ قوم کے سردار کی بیویاں ہوتے ہوئے اپنی حالت کو بھی دیکھتی تھیں۔ وہ دیکھتی تھیں کہ ایک طرف اُن کے واجب الاحترام شوہر کاحکم لوگوں پر چل رہا ہے اور ساری کی ساری قوم اُن کی مطیعِ فرمان ہے، اور اس قوم میں ایسے ایسے کھاتے پیتے لوگ ہیں کہ ان کی بیویاں اچھے سے اچھے کپڑے پہنتی ہیں، اور دوسری طرف قوم کے سردار کی بیویوں کا حال یہ تھا کہ اپنے کپڑوں کو پیوند لگائے بیٹھی ہیں۔ اس لیے ان کے اندر اپنی محرومی کا احساس اُبھرنا کوئی تعجب کی بات نہیں تھی۔ ان کا بے صبر ہوجانا عین فطری امر تھا۔ ان حالات میں وہ حضوؐر سے نفقے کا مطالبہ کرتی تھیں اور آپؐ کو تنگ کرتی تھیں۔لیکن یہی بات اللہ کے رسولؐ کے لیے فطری طور پر پریشانی اور اذیت کا باعث بنتی تھی اور اس کا بار آپؐ کی طبیعت پر پڑتا تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے پیشِ نظر آیات میں ازواجِ مطہرات کے اس رویّے پر گرفت فرمائی۔
اس معاملے کا ذکر سورئہ احزاب میں بھی کیا گیا ہے۔ وہاں بھی ازواجِ مطہراتؓ کو مخاطب کرکے کہا گیا تھا کہ اگر تم کو دنیا چاہیے تو نبیؐ تم کو طلاق دے کر آزاد کردیتا ہے، لیکن اگر تم نبیؐ کا ساتھ دینا چاہتی ہو تو صبر سے کام لو اور جو مقام تم کو حاصل ہے اس مقام کے تقاضوں کو سمجھو!
یہ تھا ازواجِ مطہرات کا وہ قصور جس کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے یہ کہنے کا اختیار دیا گیا کہ چاہو تو نبیؐ کی رفاقت کا فیصلہ کرو اور جو کچھ تم کو دیا جاتا ہے اسے قبول کرو، ورنہ چاہو تو تمھیں طلاق دے کر آزاد کردیا جائے۔ دوسرا قصور (جو اُوپر مذکور ہوا) خاص طور پر دو ازواجِ مطہراتؓ کا تھا۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خواتین حضرت حفصہؓ اور حضرت عائشہ ؓ تھیں۔
احادیث میں یہ بات آتی ہے کہ حضرت حفصہؓ اور حضرت عائشہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں کچھ زیادہ جَری ہوگئی تھیں۔ بعض اوقات گفتگو کا نامناسب انداز اختیار کربیٹھتی تھیں۔ چنانچہ یہ واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے اپنی بیٹی حضرت حفصہؓ کو اس طرزِعمل پر بُری طرح ڈانٹا۔ پھر یہ بھی ہوا کہ اَزواجِ مطہراتؓ کے اس رویّے سے پریشان ہوکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِیلا کرلیا۔ اِیلاء سے مراد تعلقات قائم نہ رکھنے کی قَسم کھالینا ہے جس کے اَحکام سورئہ بقرہ میں آئے ہیں۔ (تفہیم القرآن، ج۱، ص ۱۷۱-۱۷۳)
پہلے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت حفصہؓ اور حضرت عائشہؓ کو سختی سے ڈانٹا کہ اگر تم توبہ کرو تو یہ تمھارے لیے بہتر ہے کیونکہ تمھارے دل راہِ راست سے ہٹ گئے ہیں۔ یعنی اس میں شک نہیں کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں ہو، وہ تمھارے ساتھ محبت کرتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تم رسولؐ کے مقابلے میں گستاخ ہوجائو۔ یہاں تک فرمایا کہ صرف یہ نہیں کہ تمھاری زبانیں خراب ہوگئی ہیں بلکہ فرمایا کہ تمھارے دل خراب ہوگئے ہیں۔ تمھارے دلوں میں یہ خرابی پیدا ہوگئی ہے کہ تم رسولؐ کے مقابلے میں جرأت کرتی ہو۔ ارشاد فرمایا گیا: وَاِِنْ تَظٰہَرَا عَلَیْہِ فَاِِنَّ اللّٰہَ ھُوَ مَوْلٰــہُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمَلٰٓئِکَۃُ بَعْدَ ذٰلِکَ ظَہِیْرٌ o(۶۶:۴)،یعنی اگر تم دونوں نے رسولؐ کے مقابلے میں باہم جتھہ بندی کی تو یہ سمجھ لو کہ رسولؐ کا مولیٰ اللہ ہے، تمام مومنین رسولؐ کے ساتھ ہیں اور سارے فرشتے رسولؐ کے ساتھ ہیں۔ تم مقابلہ صرف رسولؐ کا نہیں کرو گی بلکہ تمھارا مقابلہ ساری کائنات کے ساتھ ہوگا۔ جس ہستی کے ساتھ اللہ، سارے مومنین اور سارے فرشتے ہیں، کیا تم اس کے ساتھ مقابلہ کرو گی؟
اس کے بعد تمام ازواجِ مطہراتؓ سے خطاب کر کے فرمایا: عَسٰی رَبُّہٗٓ اِِنْ طَلَّقَکُنَّ اَنْ یُّبْدِلَہٗٓ اَزْوَاجًا خَیْرًا مِّنْکُنَّ مُسْلِمٰتٍ مُّؤْمِنٰتٍ قٰنِتٰتٍ تٰٓئِبٰتٍ عٰبِدٰتٍ سٰٓئِحٰتٍ ثَیِّبٰتٍ وَّاَبْکَارًاo (۶۶:۵)، ’’بعید نہیںکہ اگر نبیؐ تم سب بیویوںکو طلاق دے دے تو اللہ اُسے ایسی بیویاں تمھارے بدلے میں عطافرما دے جو تم سے بہتر ہوں، سچی مسلمان، باایمان،اطاعت گزار، توبہ گزار، عبادت گزار، اور روزہ دار، خواہ شوہر دیدہ ہوں یا باکرہ‘‘۔ دیکھیے اُوپر تثنیہ کا صیغہ تھا جس میں دو ازواج مخاطب تھیں لیکن یہاں منکن جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے جس میں سب ازواجِ مطہراتؓ شامل ہوجاتی ہیں۔ ان کو مخاطب کر کے کہا گیا کہ اگر ہمارا رسولؐ تم کو طلاق دے دے تو بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ اُس کو تم سے بہتر بیویاں دے دے۔ وہ بہتر بیویاں کیسی ہوں گی؟
پہلی بات فرمائی کہ وہ مسلمات اور مومنات ہوں گی۔ جب مسلم کا لفظ مومن کے علاوہ استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے مراد عملاً اطاعت کرنے والے شخص کے ہوتے ہیں۔ یہاں اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ سچے دل سے ایمان لانے والی اور سچے دل سے اطاعت کرنے والی ہوں گی۔ وہ ایمان کے تقاضوں کو صحیح معنوں میں پورا کرنے والی ہوں گی۔
اس کے بعد فرمایا: وہ قٰنِتٰتٍہوں گی، یعنی اطاعت گزار ہوں گی۔ اس کے ایک معنی یہ ہیں کہ وہ اللہ کی اطاعت گزار ہوں گی اور دوسرے معنی یہ ہیں کہ اپنے شوہر کی اطاعت کرنے والی ہوں گی۔
پھر فرمایا: وہ تٰٓئِبٰتٍ ہوں گی۔تائب کے معنی ایسے شخص کے ہیں کہ جب کبھی اس سے قصور سرزد ہوجائے، کوئی لغزش ہوجائے تو وہ اس پر نادم ہونے والا اور اس پر اپنے رب سے معافی مانگنے والا ہوتا ہے۔ گویا ان بیویوں کی یہ صفت ہوگی کہ وہ توبہ کرنے والی ہوں گی۔
مزید فرمایا: وہ عٰبِدٰتٍ ہوں گی، یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت گزار ہوں گی۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کا عبادت گزار ہوتا ہے اسی میں تائب ہونے کی صفت ہوتی ہے۔ وہ ہروقت اللہ کے حضور توبہ کرنے والا ہوتا ہے۔ اسی کی یہ صفت ہوتی ہے کہ وہ ایمان کے تقاضے پورے کرنے والا ہوتا ہے۔ اس کا ایمان زندہ و بیدار ہوتا ہے۔ پھر فرمایا: وہ سٰٓئِحٰتٍ ہوں گی۔
مفسرین نے سٰٓئِحٰتٍ کے دو معنی بیان کیے ہیں۔ ایک معنی ہیں روزہ رکھنے والی اور دوسرے معنی ہیں کہ وہ رسولؐ کے ساتھ ساتھ زندگی کا عرصہ طے کرنے والی ہوں۔ یعنی وہ رسولؐ کا مکمل ساتھ دینے والی ہوں گی۔ رسولؐ جن حالات میں بھی ہوں گے وہ انھی حالات میں اس کے ساتھ رہنے پر راضی ہوں گی۔ وہ انھی حالات کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنے والی ہوں گی۔
ان کی مزید صفت یہ بیان کی گئی کہ: ثَــیِّبٰتٍ وَّاَبْکَارًا، یعنی شادی شدہ بھی اور باکرہ بھی۔
ان بیویوں کی یہ ساری صفات بیان کرتے ہوئے یہ فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولؐ کو ہرقسم کی عورتیں دینے پر قادر ہے۔
قرآنِ مجید میں جن ہستیوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ اُمہات المومنین ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں ہیں۔ ان کا مقام صحابۂ کرامؓ سے بھی بڑا ہے۔ کیوں کہ صحابہ میں سے کسی کو بھی اُمت کا باپ نہیں کہا گیا، جب کہ اَزواجِ مطہراتؓ کو اُمت کی مائیں قرار دیا گیا۔ کیا اِن واقعات کا یہاں ذکر کرنے سے اللہ تعالیٰ کا یہ منشا ہوسکتا ہے، اور کیا ہم اس بات کا تصور کرسکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ ازواجِ مطہرات کا کوئی مقام اور احترام اُمت کے دلوں میں نہ رہے۔ وہی خدا جو اُن کو اُمہات المومنین قرار دے رہا ہے، وہی خدا ان کے احترام کا حکم دے رہا ہے۔ وہی خدا یہاں اُن کے قصور بیان کر رہا ہے اور مسلسل ایک ہی سلسلۂ کلام میں ان کے تین قصور بیان کرتا ہے تو کیا اس کا مدعا یہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ خود یہ چاہتا ہے کہ ان کا احترام اہلِ ایمان کے دلوں میں نہ رہے۔ پھر ظاہر بات ہے کہ اگر ازواجِ مطہرات ہی کا احترام لوگوں کے دلوں سے اُٹھ جائے تو صحابۂ کرامؓ کا کیا احترام باقی رہ سکتا ہے؟
پھر یہ بات بھی معلوم ہے کہ قرآنِ مجید میں صحابۂ کرامؓ کی بعض لغزشوں پر بھی کئی جگہ گرفت کی گئی ہے، مثلاً سورئہ جمعہ کی آخری آیت یہ ہے:
وَاِِذَا رَاَوْا تِجَارَۃً اَوْ لَہْوَا نِ انْفَضُّوْٓا اِِلَیْھَا وَتَرَکُوْکَ قَـآئِمًاط (الجمعہ۶۲:۱۱) ، جب اُنھوں نے دیکھا کہ لہوولعب ہورہا ہے، تجارتی قافلہ آرہا ہے اور لوگ کاروبار کررہے ہیں تو وہ تمھیں اپنی جگہ کھڑا چھوڑ کر اس کی طرف چلے گئے۔
یہ واقعہ مدنی زندگی کے آغاز میں پیش آیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی نماز کے لیے خطبہ دے رہے ہیں۔ اس خطبے کے دوران میں مسجد کے باہر سے ڈھول تاشوں کی آواز آتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تجارت ہورہی ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خطبہ دیتے ہوئے چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ اس بات کا ذکر قرآنِ مجید میں سورئہ جمعہ میں کیا گیا ہے۔ کیا قرآن میں یہ واقعہ بیان کرنے سے اللہ تعالیٰ کا منشا یہ ہے کہ قیامت تک لوگوں کے دلوں میں صحابہ کرام کا احترام اُٹھ جائے کیونکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جمعہ کا خطبہ دیتے ہوئے چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ یہاں ان جانے والوں کی تعداد بیان نہیں کی گئی لیکن ان کے لیے جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید سارے صحابہ اُٹھ کر چلے گئے ہوں گے۔
یہ تو احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف ۱۲ کی تعداد باقی رہ گئی تھی لیکن قرآن مجید سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کچھ لوگ ٹھیر بھی گئے تھے۔ اب سوچیے کہ کیا اللہ تعالیٰ کا منشا ان ساری چیزوں کا ذکر کرنے سے یہ ہے کہ اِن ہستیوں کا کوئی احترام لوگوں کے دلوں میں باقی نہ رہے؟
دراصل قرآنِ مجید میں ان چیزوں کا ذکر کرنے کی غرض یہ ہے کہ لوگ ان بزرگوں کو خدا یا خدا کی اولاد قرار نہ دے لیں، جیساکہ پچھلے انبیا ؑکی اُمتوں نے اپنے انبیا کو خدا کی اولاد قرار دیا یہاں تک کہ اس سے بھی آگے بڑھ کر بنی اسرائیل نے خود اپنے آپ کو Children of God (خدا کی اولاد) قرار دے لیا۔ لیکن صحابہ کرامؓ نہ خدا تھے نہ وہ خدا یا خدا کی اولاد، نہ خدائوں کی قسم کی کوئی مخلوق تھے۔ وہ انسان تھے، ان کی تربیت اللہ تعالیٰ نے کی اور اللہ کے رسولؐ نے ان کا تزکیہ فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے ان کی اعلیٰ درجے کی خدمات کے بارے میں خودفرمایا: رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ، ’’اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اس سے راضی ہوگئے‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اعلیٰ درجے کی خدمات کی خود قرآن مجید میں تعریف کی ہے لیکن ان کے مقام اور مرتبے کی بلندی کے باوجود اُن سے جو قصور سرزد ہوئے اُن پر گرفت کی گئی، اور جیسا قصور تھا ویسی ہی سخت گرفت فرمائی گئی۔
جنگِ اُحد میں جن لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہاڑی ٹیلے پر تیرانداز بناکر بٹھایا تھا تاکہ اس جانب سے دشمن حملہ نہ کرنے پائے، اُن لوگوں نے جب دیکھا کہ کفار کو شکست ہوگئی ہے اور مالِ غنیمت لُٹ رہا ہے تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ہدایت کے باوجود کہ اگر تم دیکھو کہ پرندے ہماری بوٹیاں نوچ کر لے جارہے ہیں تب بھی تم اپنی جگہ سے نہ ہلنا،مگر وہ اس صریح ہدایت کے باوجود اس حکم کو نظرانداز کرگئے اور کفار کو شکست ہوتے دیکھ کر مالِ غنیمت لُوٹنے میں لگ گئے۔ اسی وقت کفار نے اُحد کے پیچھے سے حملہ کر کے جنگ کی صورتِ حال یک لخت بدل ڈالی۔
قرآنِ مجید میں اس واقعے پر سخت گرفت کی گئی ہے اور ان کو بتایا گیا کہ انھوں نے کیا غلطی کی ہے۔ توصحابۂ کرامؓ انسان تھے، ان سے بشری تقاضے سے قصور سرزد ہوئے اور جو قصور سرزد ہوا، قرآنِ مجید میں ان کا ذکر کر کے ان پر گرفت کی گئی ہے لیکن اس کے باوجود قرآن کا منشا یہ نہیں ہے اور نہ ہوسکتا ہے کہ ان کی ان غلطیوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے لوگوں کے دلوں سے ان کا احترام اُٹھ جائے۔
اس تفصیل سے اُصولی بات یہ سامنے آئی کہ صحابۂ کرامؓ کا اُتنا ہی احترام کیا جائے گا جتنا اللہ تعالیٰ خود چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اَزواجِ مطہراتؓ کے قصوروں پر گرفت فرمائی ہے اور مسلسل ان کے تین قصور گنوائے گئے، اور اس کے باوجود وہ اَزواجِ مطہراتؓ ہیں ،اُمہات المومنینؓ ہیں اور ہمارے لیے حددرجہ واجب الاحترام ہیں۔ ان کے قصوروں کا ذکر کرنے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ہم اُن کی توہین کر رہے ہیں۔ ایسے واقعات کا ذکر کرنے سے دراصل یہ سمجھانا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ کا دین بے لاگ ہے۔ غلطی ہے تو غلطی ہے، صحیح ہے تو صحیح ہے___ اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی لاگ لپیٹ نہیں ہے۔ اگر واقعتا کسی سے کوئی قصور ہوا ہے تو آپ خواہ اس کی کچھ بھی تاویلیں کریں کہ یہ قصور نہیں تھا۔ جب اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں کوئی کام غلط ہے، تو غلط ہے، اور صحیح ہے تو صحیح ہے۔ لوگوں پر یہ بات اس لیے واضح کردی گئی کہ آیندہ وہ ایسی غلطیوں سے بچیں جو پہلے لوگوں نے کیں، اور جن ہستیوں کا جو مقام اللہ نے قرار دیا ہے، اس کو اسی کے مطابق رہنے دیں۔ ورنہ اگر ایک دفعہ اپنے بعض مفروضوں کی بناپر کسی غلط کو صحیح قرار دے دیا جائے گا تو معیار ہی ختم ہو جائے گا، اور اس بات کی تمیز اُٹھ جائے گی کہ غلط کیا ہے اور صحیح کیاہے___! (جاری)۔ (کیسٹ سے تدوین: حفیظ الرحمٰن احسن)
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خطاب فرمایا۔ اس میں فرمایا کہ جھنڈا زید نے لیا پھر جامِ شہادت نوش کرلیا، پھر جھنڈا جعفر نے پکڑا اور وہ بھی شہید ہوگئے۔ اس کے بعد عبداللہ بن رواحہ نے پکڑا توو ہ بھی شہید ہوگئے۔ پھر خالد بن ولید نے جھنڈا لے لیا بغیر اس کے کہ اسے مقرر کیا گیا ہو۔ (نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تینوں مذکورہ صحابہ کرامؓ ، زید بن حارثہ، جعفر بن ابی طالب اور عبداللہ بن رواحہ کو امیر مقرر کیا تھا، تینوں شہید ہوگئے تو خالد بن ولیدؓ نے ہنگامی بنیادوں پر جھنڈا پکڑ لیا (جھنڈا فوج کی کمان کرنے والے کے پاس ہوتا تھا اور اسی کو سربراہ اور امیر سمجھا جاتا تھا۔ چنانچہ صحابہؓ نے ان کو اپنا امیر سمجھ کر ان کی قیادت میں جنگ کی اور جنگ جیت لی) اور فتح پائی۔ (بخاری، کتاب الجہاد)
یہ غزوئہ موتہ کا واقعہ ہے۔۳ہزار کی تعداد میں صحابہ کرامؓ تھے اور قیصرروم کی ایک لاکھ فوج تھی۔۳ہزار کی فوج نے ایک لاکھ کا مقابلہ کیا۔ ایک اور ۳۳ کی نسبت تھی۔ مسلمانوں نے اپنی قلت تعداد کے باوجود دُوردراز علاقے میں کفار کی فوجوں کا مقابلہ کیا اور انھیں شکست سے دوچار کیا۔ اس جنگ کا پس منظر یہ ہے کہ رومی سلطنت کے ساتھ کش مکش کی ابتدا فتح مکہ سے پہلے ہوچکی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ کے بعد اسلام کی دعوت پھیلانے کے لیے جو وفود عرب کے مختلف خطوں میں بھیجے تھے، ان میں سے ایک وفد شمال کی طرف سرحد شام سے متصل قبائل میں بھی گیا تھا۔ یہ لوگ زیادہ تر عیسائی تھے اور رومی سلطنت کے زیراثر تھے۔ ان لوگوں نے ذات الطلع یا ذات اطلاع کے مقام پر اس وفد کے ۱۵آدمیوں کو قتل کردیا، اور صرف امیروفد کعب بن عمیر غفاری بچ کر واپس آئے۔ اسی زمانے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بصرہ کے رئیس شرحبیل بن عمرو کے نام بھی دعوت اسلام کا پیغام بھیجا تھا مگر اس نے آپؐ کے ایلچی حارث بن عمیر کو قتل کردیا۔ یہ رئیس بھی عیسائی تھا اور براہِ راست قیصرروم کے احکام کاتابع تھا۔ ان وجوہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جمادی الاولیٰ ۸ہجری میں۳ہزار مجاہدین کی ایک فوج سرحدشام کی طرف بھیجی تاکہ آیندہ کے لیے یہ علاقہ مسلمانوں کے لیے پُرامن ہوجائے اور یہاں کے لوگ مسلمانوں کو بے زور سمجھ کر ان پر زیادتی کرنے کی جرأت نہ کریں۔ یہ فوج جب ھان کے قریب پہنچی تو معلوم ہوا کہ شرحبیل بن عمرو ایک لاکھ کا لشکر لے کر مقابلے پر آرہا ہے۔ خود قیصرروم مقامِ حمص پر موجود ہے اور اس نے اپنے بھائی تھیوڈور کی قیادت میں ایک لاکھ کی مزید فوج روانہ کی ہے۔ لیکن ان خوف ناک اطلاعات کے باوجود ۳ہزار سرفروشوں کا یہ مختصر دستہ آگے بڑھتا چلا گیا اور موتہ کے مقام پر شرحبیل کی ایک لاکھ فوج سے جاٹکرایا۔ اس کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ مجاہدین اسلام بالکل پس جاتے لیکن سارا عرب اور تمام شرق اوسط یہ دیکھ کر ششدر رہ گیا کہ ایک اور ۳۳ کے اس مقابلے میں بھی کفار مسلمانوں پر غالب نہ آسکے۔ یہی چیز تھی جس نے شام اور اس سے متصل رہنے والے نیم آزاد عربی قبائل کو بلکہ عراق کے قریب رہنے والے نجدی قبائل کو بھی جو کسریٰ کے زیراثر تھے ، اسلام کی طرف متوجہ کردیا اور وہ ہزاروں کی تعداد میں مسلمان ہوگئے(بحوالہ تفہیم القرآن، سورئہ توبہ)۔ آج بھی اس تاریخ کو دہرایا جاسکتا ہے ، مسلمان اپنی قلت تعداد اور فوج اور اسلحہ اور ٹکنالوجی میں کفار سے کم تر ہونے کے باوجود ان کو پسپا کرسکتے ہیں بشرطیکہ ان میں اسی طرح کی جاں سپاری، سرفروشی ، جرأت اور بہادری ہو اور وہ کفار سے مرعوب ہونے کے بجاے مرعوب کرنے والے ہوں۔ لیکن آج تو صورت حال یہ ہے کہ مسلمان حکمران کفار کے لیے نرم چارہ بن چکے ہیں اور ان کے سامنے جھک کر، تابع فرمان بن کر زندگی گزارنے کو اپنی زندگی کا سامان سمجھتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسی قیادت آگے آئے جو صحابہ کرامؓ کے جذبۂ ایمان اور شوقِ شہادت کو زندہ کرنے والی ہو اور زمین پر اللہ تعالیٰ کی حکمرانی قائم کردینے کا مشن رکھتی ہو۔
o
حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ تعالیٰ کے لیے ایک درجہ تواضع کرے اللہ تعالیٰ اس کو ایک درجہ اُونچا کرتے ہیں اور اس کو اتنا اُونچا کرتے ہیں کہ وہ علیین تک پہنچ جاتا ہے، اور جو اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں تکبر کرے اللہ تعالیٰ اسے اسفل السافلین تک پہنچا رہے ہیں۔ (مسند احمد)
اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکنا اس کے احکام کے سامنے سرتسلیم خم کرلینا عزت و رفعت کا سامان ہے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: ہم وہ قوم ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کی بدولت عزت دی ہے، جب ہم اسلام کے علاوہ کسی اور چیز سے عزت طلب کریں گے تو اللہ ہمیں ذلیل کردے گا۔ آج مسلمان اللہ تعالیٰ کے دین کو چھوڑ کر پستی میں گر چکے ہیں۔ علامہ اقبال نے کیا خوب فرمایا ؎
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر
دین کو چھوڑنا اور لادینی نظاموں کو قبول کرنا دراصل اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں بڑا بننا ہے، جو اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: العظمۃ ازاری والکبریائی روائی فمن ناز عنی فیھما اھینۃ، ’’عظمت پر آزاری ہے اور بڑائی میری چادر ہے جس نے میرے ساتھ ان کے معاملے میں کش مکش کی میں اسے ذلیل کروں گا‘‘۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے دین کے تابع کردے تاکہ ہماری ساری ذلتیں اور پستیاں ختم ہوجائیں اور ہم اس دنیا میں بھی سربلند اور آخرت میں بھی سرخرو اور کامیاب ہوجائیں۔
o
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے ساتھ احسان کیا جائے تو وہ اس کا بدلہ دے۔ اگر بدلہ نہ دے سکے تو اس کا تذکرہ کرے، جس نے اس کا تذکرہ فرمایا تو اس نے اس کی شکرگزاری کردی اور جو آدمی اپنے آپ کو سیر ظاہر کرے درآنحالیکہ وہ بھوکا ہو، اس کے پاس وہ چیز نہ ہو جسے وہ اپنے پاس ظاہر کر رہا ہے تو وہ جھوٹا لباس پہننے والے کی طرح ہے۔(مسند احمد)
بہت سے لوگ بھوکے ہوتے ہیںاور وہ اپنے آپ کو سیر ظاہر کرتے ہیں، جاہل ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو عالم ظاہر کرتے ہیں۔ سیرت و کردار کے خام ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو متقی و پرہیزگار ظاہر کرتے ہیں۔ یہ دراصل نفاق میں مبتلا ہوتے ہیں کہ ان کے ظاہر و باطن میں اختلاف ہے اور جس کے ظاہروباطن میں اختلاف ہو وہ منافق ہوتا ہے، یہ جھوٹا لباس ہے۔اپنے آپ کو متقی اور پرہیزگار ظاہر کرنا درآنحالیکہ اس میں تقویٰ نہ ہو ایسی بیماری ہے کہ اس کا جلداز جلد علاج کیا جائے ورنہ نفاق کی بیماری بڑھ گئی تو وہ کینسر بھی بن سکتی ہے، جو لاعلاج بیماری ہے۔
o
حضرت عمرؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم مریض کی عیادت کرنے جائو تو اس سے اپنے لیے دعا کرائو۔ اس کی دعا فرشتوں کی دعا کی طرح ہے۔ (ابن ماجہ)
بیماری مسلمان کو گناہوں سے پاک وصاف کردیتی ہے۔ اگر ایک مسلمان شعوری طور پر مسلمان ہو اور دین پر عمل پیرا ہو تو بیماری اس کے لیے تزکیہ کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ اور وہ گناہوں سے اسی طرح پاک ہوجاتا ہے جس طرح فرشتے گناہوں سے معصوم ہوتے ہیں۔ اس لیے اس کی دعا قبول ہوتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبولیت ِدعا کا ایک دروازہ بیمار مسلمان سے دعا کرانے کا بتلا دیا ہے۔ بیمار کی عیادت کرنا، اس کے لیے دعا کرنا بھی سنت ہے اور ا س سے دعا کرانا بھی سنت ہے۔ بیمارسے دعا کرانے کی سنت کو بھی عام کرنا چاہیے جن سے لوگوں کی مشکلات اور مصائب حل ہوں۔
o
حضرت عیاض بن حمار مجاشعیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ تواضع سے پیش آئو! کوئی کسی پر فخر نہ کرے اور کوئی کسی کے ساتھ زیادتی نہ کرے۔ (مسلم، مشکوٰۃ، باب المفاخرہ والعصبیت)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ہدایت کو پیش نظر رکھا جائے تو معاشرے میں انس و محبت کا دور دورہ ہوجائے۔ جب ہر کوئی دوسرے سے اپنے آپ کو چھوٹا سمجھے اور کسی پر فخر نہ کرے اور کسی کے ساتھ زیادتی سے بھی پیش نہ آئے تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ لوگ آپس میں متصادم اور برسرِپیکار ہوں۔ اس کے برعکس ہر ایک دوسرے کا ہمدرد و غم گسار ہوگا اور دوسرے کی مصیبت میں اس کے کام آنے والا ہوگا جس کے نتیجے میں باہمی محبت میں اضافہ ہوگا۔ آج معاشرے کو اس ہدایت کی سخت ضرورت ہے۔
o
حضرت ابودردائؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر چیزکے لیے ایک حقیقت ہے، ایمان کے لیے بھی ایک حقیقت ہے۔ اور کوئی شخص ایمان کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا جب تک یہ عقیدہ نہ رکھے کہ جو آرام اور تکلیف اسے پہنچی ہے، وہ پہنچ کر رہنی تھی اور جو آرام اور تکلیف اسے نہیں پہنچی وہ اسے پہنچنے والی نہ تھی۔ (مسند احمد)
انسان زندگی کے جن مراحل سے گزرتا ہے وہ اس کی تقدیر میں لکھ دیے گئے ہیں۔ وہ ان مراحل سے گزر کر ہی آگے بڑھتاہے۔ اس لیے وہ جس حال میں بھی ہو اسے صبروشکر کو اپنا وظیفہ بنا کر حوصلے کے ساتھ زندگی گزارنا چاہے اور کبھی بھی بے حوصلہ ہوکر مایوسی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ مومن جرأت مند اور حوصلہ مند شخصیت کا مالک ہوتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہؓ نے ہمارے سامنے یہی نمونہ پیش کیا ہے۔ اس کو اپنانا کامیابی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انقلاب اور صحابہ کرامؓ کی خلافت راشدہ اسی کی تصویر ہے۔ آج بھی اسے دہرایا جاسکتا ہے۔
قرآن پاک کی تفسیر کا سلسلہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے شروع ہوا اور کسی انقطاع کے بغیر تسلسل کے ساتھ پندرہ صدیوں سے جاری ہے ۔ اب تک مختلف زبانوں ، مختلف ملکوں اور مختلف النوع اتنی تفسیر یں وجود میں آچکی ہیں کہ ان کا شمار ممکن نہیں ہے۔ یہ قرآن پاک کی شان لاینقضی عجائبہ(ترمذی)(اس کے عجائب ختم نہ ہوں گے) کا تقاضا ہے ۔ چنانچہ ہر تفسیر میں نئے نئے نکات سامنے آتے رہتے ہیں اور کوئی تفسیر دوسری تفسیر سے مستغنی کر دینے والی نہیں ہے ۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ سے لے کر شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ ، حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ، شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی ، مفتی اعظم پاکستان مولانا محمد شفیعؒ اور دیگر جلیل القدر علما و مفسرین عظام نے گراںقدر علمی ، فقہی اور روحانی نکات پر مشتمل تفاسیر پیش کیں جو اہل علم کے ہاں مقبول ہوئیں اور ان سے استفادہ سے تفسیری سلسلے کو بڑھنے اورپھیلنے میں مدد ملی۔ دورِ حاضر میں مفکر اسلام سید ابوالاعلیٰ مودودیؓ کی تفسیر تفہیم القرآن اور شہید اسلام سیدقطب کی تفسیر فی ظلال القرآن کے ذریعہ قرآن پاک کا فہم و شعور علما و مشایخ کے دائرے سے نکل کر عوام تک پہنچ گیا ۔ ان تفاسیر کے ذریعے بڑی تعداد میں عوام اور جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں نے قرآن پاک سے فیض حاصل کیا۔ لیکن لاینقضی عجائبہ کے فرمانِ رسولؐکی صداقت کے ظہور کا سلسلہ جاری و ساری ہے ۔
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی صاحب بھی ان خوش قسمت ہستیوں میں شامل ہیں جنھیں تفسیر قرآن کی فضلیت حاصل کرنے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ ان کی زندگی قرآن پاک میں غورو فکر ، تفسیر ی ذخیرے کے مطالعے اور دروس قرآن دینے میں گزری جواب کتابی شکل میں مرتب ہو کر سامنے آگئے ہیں۔ یہ دروس ڈاکٹر صاحب نے طلبا، اساتذہ، مختلف طبقات سے وابستہ افراد کے سامنے دیے اورپھر بذریعہ املا ان کی کتابت کروائی اور کتابی شکل میں مرتب کروایا ۔ اس تفسیر کے مقام و مرتبے کو جاننے کے لیے ضروری ہے کہ تفسیر کی شرائط کو جانا جائے اور ان شرائط کی روشنی میں اس کا جائزہ لیا جائے ۔
۱-قرآن و سنت عربی زبان میں نازل ہوئے ہیں۔ اس لیے مفسر کے لیے ضروری ہے کہ وہ عربی زبان ، اس کی باریکیوں ، اس کے اصناف و انواع ، اس کے محاسن سے پوری طرح واقف ہو۔ وہ عربی زبان کی باریکیوں ، خوبیوں ،اشاروں ، کنایوں اور استعاروں سے جس قدر زیادہ واقف ہو گا، اسی قدر تفسیر کا حق ادا کر سکے گا۔
۲- قرآن پاک کی ایک دعوت اور اس کا ایک مشن ہے۔ اس کے لیے نبیؐ نے ایک تحریک برپاکی۔ اس تحریک کے مختلف ادوار تھے ۔ ہر دور میں قرآن پاک کا ایک حصہ نازل ہوا۔ ۸۵مکّی سورتیں ہیں اور ۲۹ مدنی سورتیں ۔ ان سورتوں کے نزول کے وقت نبیؐ اور آپؐ کی جماعت جس مرحلے میں تھی، اس مرحلے کو سمجھنا ضروری ہے ۔ ان مراحل کو شان نزول سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ اس طرح بعض آیات کی خصوصی شان نزول بھی ہوتی ہیں ۔ تفسیر کو سمجھنے کے لیے ان کا سمجھنا ضروری ہے۔
۳-قرآن وسنت ایک نظام ہے جسے نبیؐ نے اپنے دور میں عملاً نافذ فرمایا اور اس کے بعد کے ادوار میں نافذ رہا۔ قرآن پاک کو سمجھنے کے لیے اس نظام اور اس پر تعامل کو سمجھنا ضروری ہے ۔ قرآن پاک پر عمل کو جو شکل اور صورت نبی کریمؐ ، صحابہ کرام ؓ ، تابعین ، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین اور سلف صالحین نے دی ، اسے نظر انداز کر کے محض لغت کی بنیاد پر تفسیر گمراہی کا سبب بن سکتی ہے ۔ جن لوگوں نے ایسا کیا ہے انھوں نے تفسیر کے بجاے تحریف کا ارتکاب کیا ہے ۔
۴-فصیح عربی زبان کی بنیاد پر ایسی تفسیر کی جاسکتی ہے جو قرآن و سنت ،اجماع صحابہ و سلف صالحین کے تعامل سے متصادم نہ ہو ۔
۵-عقل سلیم کے ذریعے بھی تفسیر کی جاسکتی ہے، جب کہ وہ قرآن وسنت ، اجماع صحابہ و تابعین و سلف صالحین سے ثابت شدہ امور سے متصادم نہ ہو۔
محترم ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی صاحب عربی زبان ، اردوا دب میں بھی مہارتِ تامہ رکھتے ہیں۔ تحریک اور دعوت کے مختلف مراحل اور تاریخ اسلام میں بھی بصیرت رکھتے ہیں۔ اسلام کو ایک نظام کی حیثیت سے انھوں نے اچھی طرح سمجھا ہے اور شریعت اسلامیہ میں گہرائی کے حامل ہیں ۔ تعامل اُمت ،تفسیری اور فقہی ذخیرے پر بھی عبور رکھتے ہیں اور ایک مفسر میں جو خوبیاں اور کمالات ہونے چاہییں، جن کا اجمالی ذکر درج بالا سطور میں ہوا ہے، وہ بھی ان میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں ۔
تفسیر روح القرآن کے امتیازات کے ضمن میں اس کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس کا اسلوب عام تفاسیر سے مختلف ہے ۔ عام تفاسیر مفسر کی تحریر کا نتیجہ ہوتی ہیں اور یہ دروس دراصل ڈاکٹرصاحب کی اِملا کا نتیجہ ہے ۔یہ ان کے دروس ہیں جو انھوں نے ہفتہ وار محافل میں پڑھے لکھے شائقین علوم قرآنیہ کے سامنے پیش کیے ہیں ۔ ان میں علما، پروفیسر ، دانش ور ، صحافی ، تاجر ، وکلا، کالجوں، یونی ورسٹیوں اور مدارس کے طلبا ، کارکنان تحریک اسلامی اور عامۃ المسلمین ان کے مخاطب ہیں اور بڑی تعداد میں ذو ق وشوق کے ساتھ حاضر ہوتے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب انھیں اپنے علم اور ولولہ انگیز خطابت کے شہ پاروں سے فیض پہنچاتے ہیں ۔ ایک بلند پایہ خطیب کی خطابت ، جب کہ وہ قرآنی علوم سے دلوں اور دماغوں کو منور کر رہی ہو، کی اثر انگیزی کا آپ اندازہ کر سکتے ہیں ۔ قرآن پاک کی زبان خطابت کی زبان ہے ۔ اس کی تفسیر بھی خطیبانہ انداز میں ہو تو ظاہر ہے کہ قرآن پاک کے اثر کو اس تفسیر سے زیادہ کر دے گی جو خطابت کے انداز کے بجاے تحریر کے انداز میں ہو گی ۔ ان دروس کا اثر پڑھنے والے پر اس طرح ہوتا ہے جس طرح ایک سامع پر خطیب کے خطبے سے ہوتا ہے۔
دوسرا امتیاز یہ ہے کہ قرآن پاک ایسی کتاب ہے جو معاشرے کے لیے ایک غذا اور دوا کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اگر اس کتاب کے ذریعے مسلمان معاشرے کو روحانی غذا نہ دی جائے اور کفارو منافقین کا علاج نہ کیا جائے تو اس کتاب کو اس کا حقیقی اور واقعی مقام نہیں دیاجاسکتا ۔ ڈاکٹر صاحب اس کتاب کو معاشرے پر منطبق کرتے ہیں اور اس میں اہل ایمان کے لیے جو غذا اور کفار و منافقین کے لیے جو دوا ہے اسے پوری طرح واضح کرتے ہیں ۔ مغرب اوراہل مغرب کے لیے اس میں جو پیغام ہے اسے واضح کرتے ہیں ۔ اہل ایمان کو ان کے شرسے باخبر کر کے اس سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں ۔ تفسیری نوٹس ہر جگہ اس بات کے گواہ ہیں ۔
ا س تفسیر کے مطالعے سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو قرآن پاک اور اس کے علوم و فنون پر مکمل عبور حاصل ہے ۔ انھیں صرف ونحو ، معانی بلاغت ، اصول فقہ ، لغت عربیہ ، اصولِ تفسیر، احادیث نبویہؐ، آثار صحابہ و تابعین ، اقوال ائمہ مجتہدین ، قدیم و جدید علم کلام ، قدیم وجدید مفسرین کے تفسیری ذخیرے ، تاریخ و قصص ، مستشرقین وملحدین کے لٹریچر ، منکرین سنت اور قادیانیت کے شکوک و شبہات اور ان کی تردید پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ انھیں مضامین قرآن ، التذکیر باٰلاء اللہ ، التذکیر بایام اللہ، التذکیر بالموت وبما بعد الموت ، علم المخاصمہ ، علم الاحکام پر مکمل دسترس حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور جلالی وجمالی شانوں کو جدید سائنسی معلومات کی روشنی میں اس قدر شرح و بسط سے اور ایسے انداز سے پیش کرتے ہیں کہ انسان اس کی لذت سے سرشار ہو کر ان کے مطالعے میں اس طرح مستغرق ہوجاتا ہے کہ مضمون دل و دماغ میں اُتر جاتا ہے ۔
ڈاکٹر صاحب عالم ہیں تو ایسے کہ تبحر علمی ان کی تقریر و تحریر سے نمایا ں ہوتا ہے ۔ ادیب ہیں تو ایسے کہ ادب ان کی لونڈی نظر آتا ہے۔ خطیب ہیں تو ایسے کہ ان کی شعلہ بیانی آدمی کو مسحور کردیتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں ذہانت و فطانت اور حافظے کی نعمتوں سے نہایت وافر مقدار میں مالامال کیا ہے ۔ حافظ العلوم مولانا معین الدین خٹک رحمۃ اللہ علیہ کا حافظہ ضرب المثل تھا ، انھیں چلتا پھرتا ٹیپ ریکارڈ کہاجاتا تھا ۔ لیکن ڈاکٹر صاحب کی تفسیر سے اندازہ ہوا کہ ان کا حافظہ بھی مثالی ہے۔ انھیں عربی ادب کی طرح اردو ادب پر بھی عبور حاصل ہے ۔ اُردو زبان کے محاورے اور شعرا کے ہزاروں شعرازبر مستحضر ہیں ۔ موقع و محل کی مناسبت سے اشعار کے ذریعے کلام کو مدلل اور مزین کرنا ان کا کمال ہے ۔ ہر مضمون کی تشریح اس طرح کرتے ہیں کہ قاری اسے اچھی طرح ذہن نشین کرلے ۔ ایسے انداز سے دلیل پیش کرتے ہیں کہ بات دل میں اتر جائے ۔ عقلی دلائل کی تفہیم کے ساتھ نقلی دلائل کا انبار لگا دیتے ہیں ۔ قدیم و جدید تفاسیر سے نقول پیش کرتے ہیں ۔ منکرین سنت اور مستشرقین کو مسکت جواب دیتے ہیں۔بلاشبہہ ان کے دروس علم اور معلومات کا خزانہ ہیں جو دریا کی سی روانی کے ساتھ بہتا چلا جاتا ہے ۔یہ تفسیر علما ، طلبہ ، طالبات ، مبلغین اور اسلامی تحریک کے کارکنان کے لیے بے مثال تحفہ ہے ۔ وہ اس سے بھر پوراستفادہ کر کے اپنے علم میں اضافہ کریں اور قرآن پاک کے علوم کی اشاعت کے ذریعے اسلامی انقلاب برپا کردیں۔
oتفسیر روح القرآن (۱۲جلدیں)،مؤلف: ڈاکٹر مولانا محمد اسلم صدیقی ۔ ناشر: ادارہ ھدًی للناس، ۳۴۳-مہران بلاک، علامہ اقبال ٹائون، لاہور۔ فون: ۳۵۴۲۶۸۰۰-۰۴۲۔ صفحات: ۷۷۶۷۔ قیمت: ۸۵۰۰ روپے۔
عصرِحاضر میں جہاں کہیں بھی تحریکِ اسلامی کو سیاسی محاذ پر کامیابی حاصل ہوئی ہے وہاں اللہ کے بندوں کے حقوق کی ادایگی ایک اہم عنصر رہا ہے۔ سب سے نمایاں مثال ترکی کی ہے۔ ۱۹۷۰ء سے ترکی میں تحریکی قیادت نے جس حکمت عملی کو اختیار کیا اسے ترکی کی حد تک محدود سمجھنا درست نہیں ہوگا۔ یہ حکمت عملی ایک عالم گیر دعوتی اصول کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسے جہاں بھی استعمال کیا جائے گا متوقع نتائج فطری طور پر وجود میں آئیں گے۔
ترکی میں تین عشروں پر محیط اس حکمت عملی کے جائزے سے کیا سبق ملتا ہے، ایک تفصیل طلب باب ہے، اور اس کے ہرمرحلے پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہرملک اور مقام کے حالات کسی اور مقام پر مکمل طور پر دہرائے نہیں جاسکتے لیکن جن امور کی حیثیت اصولوں کی ہو، وہ زمان و مکان کی قید سے آزاد ہوتے ہیں۔ پاکستان کے تناظر میں یہ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ترکی میں ۳۰سالہ حکمت عملی نے جو نتائج ظاہر کیے، ان میں سے کون سے پہلو پاکستان کے حالات سے مطابقت رکھتے ہیں، اور اس تقابل کے پیش نظر معمولی تبدیلی کے ساتھ اختیار کیے جاسکتے ہیں، اور کن پہلوئوں کو سمجھنے اور جاننے کے باوجود یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔
اس تقابل اور جائزے کے عمل سے گزرتے ہوئے ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ تحریکات عموماً اپنے روزمرہ کے سیاسی، تنظیمی اور معاشی حالات کی بنا پر ملکی اور مقامی مسائل میں اتنی اُلجھی رہتی ہیں کہ بعض اوقات طویل المیعاد اور مختصرالمیعاد حکمت عملی وضع کرنے، اس کی مناسبت سے انسانی قوت پیدا کرنے اور مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے حکمت عملی کی تنفیذ جیسے اہم اسٹرے ٹیجک مراحل نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔ یاد رہے کہ اس دوران خود احتسابی بھی ایک بنیادی شرط ہے اور خود احتسابی ہی قلیل اور طویل المیعاد منصوبہ بندی میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ اس تناظر میں ترکی کے ماڈل پر نظرڈالی جائے تو وہاں تحریک کی حکمت عملی کو ہم تین مراحل میں تقسیم کرسکتے ہیں۔
جدید ترکی کی تاریخ کا آغاز کمال ازم کے قیام (۱۹۲۳ئ-۱۹۳۸ئ) سے ہوتا ہے۔ اس عرصے میں اسلام کو ذاتی عبادات کے دائرے میں محدود کردیا گیا اور سرکاری نگرانی میں خطیب امام اسکول کے لیے ایسے امام تیار کرنے کا منصوبہ عمل میں لایا گیا جو حکومت کے فراہم کردہ فرمودات کو بطور خطبہ مسجد میں بیان کریں۔ دورِعثمانی خود ایک روبہ زوال معاشرہ تھا اور خلیفہ باوجود احترام کے حکومتی معاملات میں فیصلہ کن مقام نہیں رکھتا تھا۔ اس کے باوجود خلافت علاماتی طورپر اُمت مسلمہ کے اتحاد اور قوت کا مظہر تھی۔ کمال ازم نے ریاست کو مکمل طور پر مغربی لادینیت کے تصور پر قائم کیا اور مذہبی اثرات کو کم سے کم کرنے کے لیے مغربی تہذیب و ثقافت کی یلغار، رسم الخط کی تبدیلی، اذان کا عربی میں ممنوع کیا جانا، مغربی لباس کا اختیار کیا جانا، لباس میں حجاب پر پابندی اور روایتی ترکی ٹوپی کی جگہ انگریزی ہیٹ کو علاماتی طور پر رواج دے کر ملک کی ثقافت کو تبدیل کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔
یہی وہ زمانہ ہے جب بدیع الزماں سعید نورسی(۱۸۷۶ئ-۱۹۶۰ئ) نے اپنی تحریک کا آغاز کیا۔ قرآن کریم کے دروس کے ذریعے اور مختصر رسائل کی شکل میں اور بعض اوقات طویل خطوط کی شکل میں زیرحراست ہونے کے باوجود اپنے طلبہ تک پہنچائے، انھوں نے ان قرآنی رموز کی دستی نقول تیار کر کے جہاں جہاں ممکن ہوا اسے عام کرنے کی کوشش کی۔ استاذ سعید نورسی کی تحریک کمال ازم کے تمام سرکاری زور و قوت کے باوجود عوامی سطح پر پھیلتی رہی اور آخرکار اس دعوت کے اثرات ۷۰ کی عشرے میں ان کے انتقال کے ۱۰ سال بعد واضح ہوکر نظر آنے لگے۔
۷۰ کے عشرے کے آخری دور میں ترکی دو واضح انتہائوں میں گھرا نظر آتا ہے۔ ایک جانب دائیں بازو کے الٹرا نیشنلسٹ اور دوسری جانب انقلابی یا بائیں بازو کے اشتراکیت سے متاثر گروہ، مثلاً Neo-Markist Kurdish Worker Party یا PKK تھے۔ چنانچہ ۱۹۷۵ء اور ۱۹۸۰ء کے درمیان پانچ ہزار سے زائد افراد ملک میں بدامنی، دہشت گردی اور قتل و غارت میں زندگی کی نعمت سے محروم ہوئے اور ۱۹۸۰ء میں ترکی میں ایک خانہ جنگی کی سی کیفیت پیدا ہوگئی۔ تقابلی طور پر دیکھا جائے تو معاشی بدحالی، زر کی کساد بازاری، جرائم، بدامنی، بدعنوانی ، اقرباپروری، غرض ہر وہ خرابی جس کا رونا آج ہم پاکستان میں یا کل تک مصر، تیونس، عراق اور شام میں روتے رہے ہیں ان میں سے ہر خرابی بدرجۂ اتم ترکی میں موجود تھی۔ پھر کس جادو کی چھڑی نے ملک و قوم کی قسمت بدلی۔ یہ امر سنجیدہ، تنقیدی اور معروضی تجزیے کا محتاج ہے۔
اس ٹکرائو میں نیشنل سالویشن پارٹی (NSP) جو اسلامی رجحانات کی حامل تھی کسی بھی تشدد کی کارروائی میں ملوث نہیں ہوئی۔ ۶ستمبر ۱۹۸۰ء کو ’القدس بچائو‘ کے لیے پُرامن اور انتہائی منظم مظاہرے اور جلوس کا اہتمام کیا اور اس موقع پر ترکی میں شریعت کے نفاذ کا مطالبہ بھی کیا۔ ان کا نعرہ تھا:’’شریعت آئے گی، سفاکیت جائے گی‘‘، ’’حاکمیت صرف اللہ کی ہے‘‘، ’’ہمارا دستور قرآن ہے‘‘، ’’سیکولرزم لادینیت ہے‘‘، ’’ہم ایک غیرطبقاتی اسلامی معاشرہ چاہتے ہیں‘‘۔
اس ریلی میں انھوں نے روایت سے ہٹ کر ترکی کا قومی ترانا گانا بھی پسند نہیں کیا۔ اس تحریک کی قیادت ڈاکٹر نجم الدین اربکان مرحوم نے کی۔ مظاہرے میں شامل لاکھوں افراد نے یک زبان ہوکر ان کی حمایت میں نعرے لگائے اور کہا:ہمیں حکم دیں اور ہم جان دیں گے وغیرہ۔ یہ گویا فوج اور سیکولرزم کے خلاف اعلانِ جہاد تھا اور ا س تاریخ سے ترکی کی جدید تاریخ کا دھارا ایک نیا رُخ اختیار کرگیا۔
اس کا ردعمل جلد ہی سامنے آیا اور ۳۰؍اکتوبر ۱۹۸۰ء کو چیف آف جنرل اسٹاف جنرل ایورن نے اپنے خطاب میں آگاہ کیا کہ ہر اُس کوشش کو جو ترکی کے سیکولرنظام کو نقصان پہنچانے کے لیے ہوگی، قوت سے کچل دیا جائے گا۔ فوج میں گھس کر انتشار کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ فوج کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کی سالمیت اور وحدت کے لیے اپنے اختیارات استعمال کرے اور جو اقدامات ضروری ہوں قومی ضرورت کے طور پر ان میں کمی نہ کرے۔ چنانچہ فوج نے اعلان کیا کہ اُس نے ملک کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے ۔ یہ دور ۱۹۸۰ء سے ۱۹۸۳ء تک رہا۔ اس فوجی انقلاب میں ساڑھے چھے لاکھ افراد کو گرفتار کیا گیا۔ ۱۶ لاکھ افراد پر مقدمات قائم کیے گئے۔ ۵۱۷؍افراد کو سزاے موت سنائی گئی اور ۴۹؍افراد کو پھانسی دی گئی۔۱۴ ہزار افراد کی ترکی شہریت ختم کی گئی اور ۶۶۷ تنظیموں اور مؤسسات کو خلافِ قانون قرار دیا گیا۔ ان زمینی حقائق کو ذہن میں رکھتے ہوئے غور کرنے کی ضرورت یہ ہے کہ قرآن کریم جس آزمایش اور امتحان کی بات کرتا ہے اس کی ایک جھلک یہاں تو موجود ہے لیکن کیا ابھی تک ایسی کوئی آزمایش تحریک کو پیش آئی ہے؟ گو، یہ ضروری نہیں کہ ہرتحریک اتنی سخت آزمایش سے لازماً گزرے۔
چونکہ NSP کسی تشدد یا عسکری سرگرمی میں ملوث نہ تھی اس لیے فوج نے اسے اپنے لیے خطرہ تصور نہیں کیا۔ فوج نے اپنی زیادہ توجہ بائیں بازو کی جماعتوں پر رکھی جو اشتراکی فکر سے متاثر تھیں۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ ترکی میں ۵۰، ۶۰ اور ۷۰ کے عشرے میں اشتراکی رجحانات نمایاں تھے۔ ان حالات میں فوج کا اسلامی فکر رکھنے والی جماعتوں کو گوارا کرنا اور اشتراکیت کے قلع قمع کے لیے انھیں اپنے سے قریب لانا ایک فطری عمل تھا۔ بالکل یہی شکل مصر میں انورسادات کے زمانے میں پیش آئی اور دیگر مسلم ممالک کے فوجی اور غیرفوجی آمروں نے ہمیشہ اسی حکمت عملی کو اختیار کیا۔ اشتراکیوں کے خلاف فوج کے اقدامات سے بظاہر اسلام پسند بھی مطمئن تھے، لیکن مسئلے کا حل فوج اور اسلامی رجحان والے افراد کا اشتراکِ عمل نہیں تھا، بلکہ اس کے نتیجے میں ایک معاشرتی تحریک (social movement)کا برپا ہونا تھا جو آگے چل کر سیاسی تبدیلی کا باعث بنی۔ یہ دوسرے دور کا آغاز تھا جس میں تحریک ایک معاشرتی تحریک کی شکل اختیار کرگئی۔
یہ معاشرتی یا سوشل موومنٹ جن بنیادوں پر قائم ہوئی ان میں نورسی تحریک سے متاثر حضرات کے اخوتی حلقے (brotherhoods)، تعلیمی میدان میں اسکولوں کا قیام، آزاد اوقاف کے ذریعے معاشرتی بھلائی کے کام اور روحانی پہلو پر توجہ تھی۔ اس دوران ترکی نیشنلزم کی تحریک میں Pan-Turkism کے تصور میں اسلام کو بھی بطور ایک عنصر شامل کیا گیا تاکہ اشتراکی فکر کی مخالفت کے لیے ایک زیادہ مضبوط فکر اُبھر سکے۔ علمی اور فکری سطح پر بعض مفکرین نے ترک قومیت کے حوالے سے یہ تصور پیش کیا کہ یہ قومیت، سُنّی اسلام اور اپنے مخصوص معاشرتی ثقافتی خصوصاً فنِ تعمیر و طریق بودوباش سے مل کر بنی ہے۔ یہ بات بھی کہی گئی کہ ترک وہ مسلمان ہے جو ترکی زبان بولتا ہے۔ گویا اس دور میں ترک قوم نے اپنی شخصیت کی تلاش شروع کی اور یہ سمجھنا چاہا کہ ان کے ترک ہونے کا مطلب کیا ہے۔ اس کش مکش اور پاکستان میں پائی جانے والی سرگرم اور غالب سیکولر ابلاغ عامہ کے جتھے کی قائداعظم کو اور پاکستان کو سیکولر پیش کرنے میں مماثلت پائی جاتی ہے۔ یہ پہلو بطور جملہ معترضہ قابلِ غور ہے کہ سیکولر ابلاغ عامہ بالخصوص الیکٹرانک میڈیا جو منفی تصور عوام اور نوجوانوں میں پھیلا رہا ہے اس کا مثبت جواب کس حد تک دیا جارہا ہے۔ اس فکر کو سیاسی محاذ پر آگے بڑھانے میں ڈاکٹر نجم الدین اربکان نے غیرمعمولی اہم کردار ادا کیا اور اب یہ بات زبان زدعام ہونے لگی کہ اسلام اور ترک قومیت کو الگ نہیں کیا جاسکتا۔اس کا اظہار Turk Ocaklari سے وابستہ افراد نے اپنے بیانات میں خاص طور پر کیا۔ اس گروہ کے صدر Suleyman Yalcin کے الفاظ میں: ’’ترک قوم کے زندگی، وجود اور کردار کے سرچشمے ترک تصور اور اسلامی عبادات اور تصورِجہاں دونوں پر مبنی ہیں‘‘۔(بحوالہ The Mobilization of Political Islam in Turkey, ، Banu Eligur، کیمبرج، کیمبرج یونی ورسٹی پریس، ۲۰۱۰، ص ۱۰۰)
اس فکر کے حامل افراد Turkish Hearths کے نام سے مشہور ہوئے اور ان کے نمایندہ Yalcin نے واضح طور پر اپنے بیانات میں بغیر کسی معذرت پسندانہ رویے کے اسلامی تصورات کا اظہار کیا، اور اشتراکیت اور سرمایہ داری دونوں کو تنقید کا ہدف بناتے ہوئے اسلام کو بطور حل پیش کیا۔
اس فکر کے علَم بردار مفکرین نے مغربی ثقافتی سامراجیت، سیاسی بازی گری، تیزی کے ساتھ مغربی مادہ پرستی، اور نتیجتاً ترک اسلامی ثقافت و معاشرت کے فضا میں تحلیل ہونے کی سنگین صورتِ حال کو علمی سطح پر اور عوامی زبان میں پیش کرنا شروع کیا۔ Yalcin کا کہنا تھا کہ When Truks lose their faith in Islam, they disappear ۔ اس قسم کے مؤثر جملوں کو زبان زدعام کرنے کی کوشش کی گئی۔ ان کی ایک مثال یہ ہے:
ترک نسلیت اور اسلام کو الگ نہیں کیا جاسکتا۔ ایک ترک کا مسلمان ہونا لازمی ہے۔ اس لیے اسے بطور ایک ترک کے سوچنا چاہیے اور بطور مسلمان کے بودوباش اختیار کرنی چاہیے۔
اس تحریک نے ۱۹۸۲ء کے دستور کے بننے میں اہم کردار ادا کیا۔ ملک گیر پیمانے پر اسلامی فکر رکھنے والے دانش وروں اور فوج کے اپنی مجبوری اور ضرورت کی بنا پر اسلامی فکر رکھنے والے افراد کو اپنے سے قریب رکھنے کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ فوجی رہنما بھی اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے اپنے بعض بیانات میں یہ کہنے پر مجبور ہوگئے، مثلاً:’’ہمارے مذہب میں کوئی فرقہ بندی نہیں ہے۔ ہم سب ایک اللہ پر ایمان رکھتے ہیں، ہمارا ایک رسولؐ ہے، ہم سب ایک ہی قرآن پڑھتے ہیں۔ پھر یہ تقسیم کس لیے؟‘‘
یقین کے ساتھ یہ کہنا تو مشکل ہے کہ فوجی حکمرانوں کی زبان جس بات کا اظہار کر رہی تھی وہ کہاں تک ان کے دل کی آواز تھی لیکن قومی سطح پر اسلامی فکر کے مطالبے نے انھیں لازمی طور پر ایسے الفاظ استعمال کرنے پر مجبور کیا جو بعد میں اسلامی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوئے۔ یہاں یہ بات ذہن میں رکھیں کہ نہ صرف مصر بلکہ خود پاکستان کے فوجی حکمران بشمول ضیاء الحق اور پرویزمشرف کے اسلام کے حوالے اور ترک فوجی آمروں کے اسلام کے حوالے میں غیرمعمولی مماثلت نظر آتی ہے۔ چنانچہ ترکی میں تعلیمی اصلاحات کا اعلان کرتے وقت اور لوگوں کو بچوں کو اسکول بھیجنے کی تلقین کرتے وقت جنرل ایوران نے جو زبان استعمال کی وہ انتہائی قابلِ غور ہے:
اللہ تعالیٰ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم دونوں ہم کو یہ حکم دیتے ہیں ۔محمدؐ ایک حدیث میں فرماتے ہیں: سائنس مسلمانوں کے لیے فرض ہے۔کیا کوئی ناخواندہ صاحب ِعلم ہوسکتا ہے، اس لیے ہمیں سب سے پہلے خواندہ ہونا چاہیے۔
اصل نکتہ جس کی طرف یہ جادو سر پر چڑھ کر اشارہ کرتا ہے وہ ایک جانب فوج کا اپنی ضرورت کے پیش نظر اسلام کا حوالہ استعمال کرنا ہے تو دوسری طرف تحریکِ اسلامی کے دانش وروں کا اس Turkish-Islamic synthesisکو اپنی حکمت عملی میں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا ہے۔ گویا اگر جزوی طور پر ہی سہی، اشتراکیت کے خطرے کے خلاف معروف طاغوتی نمایندوں سے مصلحت عامہ اور سیاست شرعیہ کی بنا پر کوئی رسم و راہ رکھی گئی تو اس سے کون سے اہداف کا حصول مقصود تھا۔ بالعموم تحریک جو آئیڈیلزم اپنے کارکنوں، خصوصاً گرم خون رکھنے والی نسل کے دل و دماغ میں اُتارتی ہے اس کا شعار یہی ہوتا ہے کہ قرآن ہمارا دستور، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے قائد، اور شہادت ہماری تمنا ہے۔ اس کلمۂ حق سے سرشار نوجوان فوری تبدیلی اور طاغوتی قوتوں کو اپنے پائوں کے نیچے کچلنے کے لیے بے تاب ہوتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ جس دین کے قیام کے لیے انبیاے کرام ؑ اور صحابہ کرام اجمعینؓ نے اپنی قوتیں، وسائل اور جانیں صَرف کیں، اس میں حکمت، مصلحت عامہ اور سیاست شرعیہ بنیادی دعوتی اصول ہیں۔ یہ وہ اصول ہیں جن کو نظرانداز کرکے حضرت یوسف ؑ مصر میں تبدیلی نہیں لاسکتے تھے۔
تحریکی قیادت اور کارکنوں کو ہمیشہ یہ بات سامنے رکھنی چاہیے کہ مداہنت اور حکمت عملی دومختلف چیزیں ہیں۔ آخری فیصلہ کن بات نیت، طریق کار کی شفافیت اور باہمی مشاورت کے بعد عزم الامور میں مضمر ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا صداقت سے بھرپور فرمان ہے کہ اُمت گمراہی پر مجتمع نہیں ہوگی۔ اس لیے اگر تحریک میں مشاورت، تنقید، تجزیہ و تحلیل کے بعد ایک پالیسی مصلحت عامہ کے شرعی اصول کی بنا پر طے پاجائے تو پھر چند نوجوانوں یا کسی بھی گروہ کا تنہا اپنی عقل کے فیصلے پر قائم رہنا دین کی حکمت سے عدم آگاہی ہے(یہ اہم بنیادی فکری بحث مزید تفصیل کی محتاج ہے جس کا یہ مقام ہے نہ موقع)۔
ترکی کی اسلام پسند قوتوں نے اس Turkish-Islamic synthesis کا بروقت اور بربناے حکمت عملی استعمال کرکے دیگر تحریکات کے لیے ایک لمحۂ فکریہ فراہم کیا ہے۔ حکمت عملی اور اسٹرے ٹیجی کے نقطۂ نظر سے اس بات کی ضرورت ہے کہ اپنے وژن، مشن، اسٹرے ٹیجی اور وقت کے میقات کے تعین میں بے لاگ طور پر، اور پہلے سے قائم کیے ہوئے تحفظات و خدشات سے آزاد ہوکر، غور کیا جائے، چاہے اس میں ہمیں اپنے بعض سیاسی اور تنظیمی فیصلوں کی غلطی کا اعتراف کرنا پڑے۔ آخر حضرت علیؓ کے اُس قول کا اور کیا مفہوم ہوگا کہ انسان کے ارادوں کی ناکامی اللہ تعالیٰ کی قدرتِ عظمت و علم کے اعلیٰ ترین ہونے کی دلیل ہے۔ہر انسانی حکمت عملی اپنے تمام تر کمال کے باوجود ایک محدود انسانی فکر پر مبنی ہوتی ہے اور ہمیشہ دوبارہ غور کرنے اور تبدیل کرنے کی مستحق ہوتی ہے۔
Hearths سے وابستہ ترک دانش ور اس فضا کی تیاری میں مصروفِ عمل رہے۔ چنانچہ ۹مئی تا ۱۰مئی ۱۹۸۱ء کو انقرہ میں ’قومی تعلیم اور دینی تعلیم‘ کے موضوع پر ایک سیمی نار منعقد کیا گیا اور یہ مطالبہ کیا گیا کہ دینی تعلیم کو لازمی مضمون کی حیثیت سے سیکنڈری اور ہائی اسکولوں میں پڑھایا جائے۔ اس سیمی نار میں جن حضرات نے شرکت کی ان میں مذہبی امور کے شعبے کے ڈائرکٹر طیارالکنولچ، نیکاتی اور ترگت اوزال جو اس وقت نائب وزیراعظم تھے اور بعد میں وزیراعظم بنے اور صالح تگ جو معروف مذہبی اسکالر اور مرمرا یونی ورسٹی کے الٰہیات کے ڈین تھے، شامل تھے۔ اس سیمی نار میں اور دیگر مواقع پر یہ بات ذہن نشین کرائی گئی کہ نوجوان نسل ترکی کی وفادار نہیں ہوگی جب تک دینی تعلیم نہ دی جائے۔ مزید یہ کہ ترکی کی لادینیت اور مذہبی تعلیم دیے جانے میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ اس علمی بحث میں برسرِاقتدار جماعت نے دینی تعلیم کی مخالفت کی اور اس بات پر زور دیا کہ جو اخلاقی تعلیم دی جارہی ہے وہ کافی ہے۔
اس مقام پر یہ اشارہ کرنا ضروری ہے کہ مشرف کے دور میں تعلیمی اصلاحات کے زیرعنوان پاکستان سے اسلامی رجحانات اور پاکستانیات کو خارج کرنے کے لیے جو غیرسرکاری تنظیموں کے افراد پر ماہرین کی کمیٹیوں نے، مثلاًA.H. Nayyar اور Ahmed Salim کی رپورٹ The Subtle Subvirsion: The State Curricular and Tenthly in Pakistan (اسلام آباد، مارچ ۲۰۰۳ئ) وغیرہ کے نتیجے میں نصابی کتب سے قرآنی آیات اور اسلامی حوالوں کو نکالا گیا۔ یہ ایک عالمی طور پر آزمودہ حکمت عملی کا دھرایا جانا تھا۔ اسی طرح انگریزی کے لازمی مضمون کے طور پر پہلی جماعت سے پڑھائے جانے، ایک بڑے صوبے میں تو تدریس کی زبان کے طور پر اسے نہایت بھونڈے انداز میں قوم پر مسلط کرنے میں بھی اصل محرک پاکستان کی نظریاتی بنیاد اور اُردو کے بین الصوبائی اتحاد کے کردار کو مجروح کرنا مقصود ہے۔ ترکی میں تحریکی دانش وروں نے جو حکمت عملی وضع کی اس میں ترکی کے سیکولر ماضی اور حال کو دوبارہ اسلام کی طرف لانے کی فکر کارفرما تھی۔
ملک گیر فکری اور علمی بحث کے نتیجے میں جنرل ایوران جو فوجی حکومت کے سربراہ تھے ایک دینی تعلیمی مشاورتی کمیشن بنانے پر مجبور ہوئے۔ گو، کمال ازم کے زیراثر ۱۹۳۰ء میں مذہبی تعلیم کو محض ایک اختیاری مضمون قرار دیا گیا تھا اور ۱۹۳۷ء میں سیکنڈری اسکول کے نصاب سے خارج کردیا گیا تھا، اور ۱۹۳۱ء میں ابتدائی تعلیم اور ۱۹۳۸ء میں گائوں کے ابتدائی اسکولوں سے بھی خارج کردیا گیا تھا۔
۸۰ کے عشرے میں ہونے والی ان بنیادی تبدیلوں نے اسلامی فکر کے احیا اور تعلیم کے میدان میں یہ گنجایش پیدا کی کہ پرائیویٹ تعلیم میں دینی تعلیم کو بلاروک ٹوک پڑھایا جاسکے۔ ادھر تعلیمی کمیشن نے بھی تجویز کردیا کہ مذہبی تعلیم کو لازمی قرار دے دیا جائے۔ یہاں پر یاد رہے کہ ان اقدامات کے پس منظر میں PKK جو کرد سوشلسٹ فکر کی حامی تنظیم تھی، اس کے نظریاتی سطح پر رد کرنے کا جذبہ بھی کارفرما تھا۔
۱۹۸۲ء میں قومی ثقافتی رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا کہ ترک قومیت کے عناصر ترکیبی میں اسلام شامل ہے۔ اس لیے مغرب کی نقالی اور مذہب سے دُوری ترکی کے مفاد کے منافی ہے۔ ۱۹۸۲ء کے دستور کی دفعہ۲۴ میں تعلیم کے حوالے سے یہ بات کہی گئی کہ: ’’مذہبی ثقافت اور اخلاقیات کی تعلیم پرائمری اور ثانوی کے نصاب میں شامل ہوگی‘‘۔
گو، دستور کی دفعہ۲ میں ترکی کو ایک سیکولر ریاست قرار دیا گیا تھا۔ اس صورت حال کو ہم یوں بھی بیان کرسکتے ہیں کہ ترکی کے خصوصی حالات میں سیکولرزم کی علَم بردار فوج نے ملک کے دفاع اور سوشلسٹ خطرے کے مقابلے کے لیے ضروری سمجھاکہ اسلامی فکر کے حامل افراد کا تعاون حاصل کرے۔ دوسری جانب دینی فکر رکھنے والے افراد کو سانس لینے کا موقع ملا تو انھوں نے بھی اس موقع کو نہ صرف غنیمت جانا بلکہ ایک طویل المیعاد حکمت عملی کے ذریعے اس موقعے کو اسلامی احیا کے لیے استعمال کرنا چاہا جسے Turkish-Islamic synthesis سے تعبیر کیا گیا ہے۔
۸۰ کے عشرے میں ایک اور عنصر ترکی کی معاشی پالیسی کا سامنے آیا۔ ترگت اوزال کی معاشی پالیسی کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ انھوں نے ملک کے باہر سے ان افراد کو ترکی میں اپنے مالی وسائل کو معیشت میں لگانے کی دعوت دی جو اسلامی رجحان بھی رکھتے تھے۔ چنانچہ سعودی شہزادہ محمدالفیصل، کویتی فنانس ہائوس اور سعودی ارب پتی شیخ صالح کامل نے بڑے پیمانے پر ترکی میں تجارتی منصوبوں میں سرمایہ کاری کی۔ ۱۹۸۳ء میں دانش ور اور علمی حلقے Hearths کی کوششوں سے دورِ عثمانی کی ثقافتی علامات، مثلاً محمدالفاتح کے زمانے میں استعمال ہونے والا فوجی نغمے اور مقامی ترک زبانوں کے احیا کی کوشش بھی کی گئی۔ ساتھ ساتھ یہ بات بھی دہرائی گئی کہ شہریوں کی روحانی ضرورت کو پورا کرنا بھی ریاست کی ذمہ داری ہے۔
۱۹۸۰ء کے فوجی انقلاب سے قبل نجم الدین اربکان مرحوم نے واضح طور پر ترکی میں بے چینی اور بدامنی کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ بات کہی تھی کہ اس بدامنی کا اصل سبب تعلیم میں روحانی اور اسلامی پہلو کا نہ ہونا ہے۔ چنانچہ ۱۹۸۳ء میں رفاہ پارٹی ( Welfare Party)نے اپنے منشور میں اس بات کو شامل کیا کہ دینی تعلیم کو لازمی کیا جائے۔
۶نومبر ۱۹۸۳ء کو ہونے والے عام انتخابات میں فوج نے رفاہ پارٹی کو حصہ لینے کا موقع نہیں دیا اور صرف تین سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی۔ ان میں نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی (NDP) جس کی سربراہی ریٹائرڈ جنر ل ترگت سونالپ کر رہے تھے۔ Populistپارٹی (PP) جس کی سربراہی ایک سابقہ سرکاری افسر Necdit Calp کر رہے تھے۔ ترگت اوزال نے ۱۹۸۳ء میں Motherland Party (MP) قائم کی اور اس کی پہچان روایت پرست آزد معیشت اور سوشل جمہوریت کو قرار دیا۔ چونکہ ویلفیئر پارٹی یا رفاہ پارٹی کو انتخاب میں شرکت کی اجازت نہ تھی اس لیے رفاہ کے بہت سے افراد نے اوزال کی پارٹی میں شرکت کی۔ اوزال نے صوفی نقشبندی سلسلے کی حمایت بھی حاصل کرلی اور اس طرح ۱۹۸۳ء سے ۱۹۹۱ء تک اوزال کی وطن پارٹی برسرِاقتدار رہی۔
یہی وہ دور ہے جس میں اسلامی عناصر نے معاشرتی فلاح کے کاموں اور شہری انتظامیہ میں اثرورسوخ حاصل کیا۔ ترکی میں اسلام پسند حضرات کا اُوپر آنا محض ان کے اسلام پسند ہونے کی بناپر نہیں تھا۔ جن لوگوں نے استنبول، انقرہ اور دیگر مقامات پر شہریوں کی سہولیات فراہم کیں اور دیانت داری سے کام کیا، ان کا کام ان کی حمایت کا سبب بنا۔ تحریکِ اسلامی کے لیے قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ سیاسی حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے ایسے لمحے کی تلاش میں رہنا چاہیے جب وہ سیاسی سفینے پر سوار ہوسکے اور سیاسی توازن پیدا کرنے کے لیے اس کے وجود کو بخوشی تسلیم کیا جائے۔ MP میں کثرت سے اسلام پسندوں کی شمولیت نے پارٹی کی پالیسی پر گہرا اثر ڈالا۔ اوزال کے دور میں ترکی میں اسلامی احیا اور عثمانی ثقافت کو جدید دور میں متعارف کرانے کے لیے مثبت اقدامات کیے گئے۔ نصابِ تعلیم میں تبدیلیاں کی گئیں لیکن فوج کو ہاتھ نہیں لگایا گیا۔ اوزال نے دستوری عدالت (Constitutional Court) ، اعلیٰ تعلیمی بورڈ، یونی ورسٹیوں کے صدور کے لیے دینی رجحان والے افراد کا تقرر کیا اور سرکاری دفاتر میں بھی ایسے افراد کو داخل کیا جو دینی فکر کے حامل تھے۔ امام خطیب مدارس کو مراعات دی گئیں اور دورِعثمانی کے بہت سے اوقاف کو کھل کر کام کرنے کا موقع دیا گیا۔ یہ معاشرتی تبدیلی آگے ہونے والی سیاسی تبدیلی کا پیش خیمہ بنی۔
۸۰ء کے وسط میں ویلفیئرپارٹی یا رفاہ پارٹی نے ایک عالم گیر ایجنڈا بنایا جو جمہوریت کے فروغ، انسانی حقوق اور آزادی اور ’سیاسی شناخت‘پر مبنی تھا۔ ڈاکٹر اربکان نے حالات، سیاسی ضرورت اور عالمی سطح پر اپنی بات کے ابلاغ کے لیے وہ زبان استعمال کی جو مغرب بھی سمجھ سکے۔ یہ نہ اصولوں پر سمجھوتا تھا، نہ دبنا تھا اور نہ مداہنت تھی بلکہ خالصتاً سیاسی اور دعوتی حکمت عملی تھی۔ چنانچہ انھوں نے ۱۹۸۷ء کے سیاسی انتخابات کی مہم میں جمہوریت Democratization (یعنی حقیقتاً عقیدے پر عمل کرنے کی آزادی اور اسلامی فکر کو کھل کر پیش کرنے کے حق) کو اپنے سیاسی لٹریچر میں نمایاں مقام دیا۔ اس میں بغیر کسی تصریح کے سر پر اسکارف باندھنے کا حق بھی شامل تھا لیکن اس کے لیے جو سیاسی زبان استعمال کی گئی وہ اُس سے مختلف تھی جو روایتی طور پر علما استعمال کرتے ہیں۔ یہ یاد رہے کہ ڈاکٹر اربکان انجینیرنگ میں پی ایچ ڈی تھے لیکن ان کی دینی ثقافت کے پیش نظر انھیں ہمیشہ خوجہ، جو ترکی میں عالم کے لیے استعمال ہوتا ہے، کہہ کر خطاب کیا گیا۔
دوسری بات جو کہی گئی وہ just order یا عادلانہ نظام سے متعلق تھی۔ کرپشن اور بدعنوانی کا خاتمہ، عوام کو روزگار، پانی، صحت اور دیگر ضروریات کی فراہمی، ملک میں قانون کی بالادستی جس میں دینی آزادی، بیرونی فکری اور مالی غلامی سے آزادی، ترکی میں مضبوط معاشی نظام کا قیام، عالمِ اسلام میں تجارتی تعلقات کو بجاے ڈالر پر مبنی حقیقت کے براہِ راست جنس کے بدلے جنس کی تجارت کا تصور، غرض ڈاکٹر اربکان نے اپنے سیاسی منشور میں ان مسائل کو مرکزی مقام دیا جو عوامی مسائل تھے، اور لوگوں کو یہ یقین ہوگیا کہ ’عادلانہ نظام‘ کا مطلب امریکا کو بُرا بھلا کہے بغیر امریکی اور مغربی غلامی سے نجات اور بنیادی ضروریات کی فراہمی ہے۔
اس سیاسی زبان نے رفاہ پارٹی کو عوامی جماعت بنا دیا۔ چنانچہ ۱۹۸۴ء میں صرف ۴ئ۴ فی صد ووٹ حاصل کرنے والی رفاہ پارٹی ۱۹۹۵ء میں ۴ئ۲۱ فی صد ووٹ حاصل کر کے ۱۵۸ نشستوں پر کامیاب ہوئی۔ اس عرصے میں ترکی کی معیشت کی کمزوری سے عوام پریشان تھے چنانچہ رفاہ پارٹی کے معاشی منصوبے نے اس کی کامیابی میں بنیادی کردار ادا کیا۔
تفصیلات میں جائے بغیر یہ بات ہمارے لیے قابلِ غور ہے کہ رفاہ پارٹی ہو یا عدالت پارٹی(J.P)، یا بعد میں وجود میں آنے والی جسٹس اور ڈویلپمنٹ پارٹی(JDP) یا عدالت و کلکینا پارٹی (AKP)، جب تک زمینی حقائق کے پیش نظر وہ سیاسی زبان جو عوام سمجھتے ہیں، جس میں لازمی طور پر نظریاتی تعلق کا کھلا اظہار ہو، لیکن عوامی مسائل کا معقول حل اور تبدیلی کے لیے پُرامیدی بلکہ یقین پایا جائے، حکمت عملی کے ایک لازمی حصے کے طور پر بھرپور اور مؤثر انداز میں استعمال نہیں کی جائے گی، تحریک کی دعوت عوام کے ذہن کو متاثر نہیں کرسکتی۔ انسانی نفسیات ہے کہ وہ ایک مضبوط اور فربہ گھوڑے کے مقابلے میں اس گھوڑے کو جو دوڑنے میں تیز ہو، ترجیح دیتی ہے۔ اس لیے عوام کا مطمئن کیا جانا اور یقین کا مستحکم کیا جانا سیاسی حکمت عملی میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔
ترکی کی صورت حال میں اسلام پسند جماعتیں وقت کے تقاضوں کے لحاظ سے خلافِ قانون قرار دی جاتی رہیں لیکن ہرقانونی یا دستوری عدالت کے حکم نامے کے بعدو ہ ایک نئے نام کے ساتھ دوبارہ اُبھر کر آتی رہیں۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ سیاسی حکمت عملی میں اگر ایک نام سے کام کرنا ممکن نہ ہو تو ایک تحریک اپنے تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے دوسرانام بھی اختیار کرسکتی ہیں۔ چنانچہ National Salvation Party (NSP) یا MSP ملّی سلامت پارٹی نے ۷۲-۱۹۸۰ء کام کیا اور ۱۹۸۰ء میں فوجی مداخلت کے بعد غیرقانونی قرار دے دی گئی۔ یہی ویلفیئر پارٹی کے عنوان سے ۸۳-۱۹۹۸ء تک کام کرتی رہی۔ اسے بھی خلافِ قانون قرار دے دیا گیا تو یہ Virtue Party، فضیلت پارٹی کے نام سے سرگرم ہوئی۔ چنانچہ ۱۹۹۸ئ-۲۰۰۹ء تک یہ عوام میں مصروفِ عمل رہی۔ جب اس پر بھی دستوری عدالت نے پابندی عائد کردی تو تحریکِ اسلامی دوحصوں میںتقسیم ہوگئی۔ جسٹس اور ترقی پسند جماعت جو ۲۰۰۹ء میں اردوگان اور عبداللہ گل کی قیادت میں عمل میں آئی اور استاذ اربکان کی فضیلت پارٹی سعادت پارٹی جو ۲۰۰۹ء میں الگ ہوگئی۔
جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (AKP) جو اس وقت بھی حکمران ہے اپنے منشور کے علاوہ جس میں تعلیم، بے روزگاری، صحت، تقسیمِ دولت، سوشل سیکورٹی ، صنعت کاری، قرض پر مبنی معاشی بوجھ سے نجات، شہری سہولتوں اور ماحولیات پر واضح سوچے سمجھے اور قابلِ عمل منشور کے ساتھ ساتھ اپنے ساتھ عوام کی خدمت کا ایک عملی نمونہ لے کر آئی۔ چنانچہ اردوگان اور ان کے ساتھیوں نے استنبول کی لوکل باڈی اور دیگر تین بڑے شہروں کی انتظامیہ میں اپنے دور میں جو کام کیے ان سے عوام میں یہ اعتماد پیدا ہوا کہ اگر یہ جماعت ملک گیر پیمانے پر کامیاب ہوگئی تو تبدیلی کا عمل واقعی ہوگا۔
۱۹۹۱ء میں ۵۶ فی صد آبادی نے انفرادی راے شمارے کے اندازوں میں اس بات کا اظہار کیا کہ عوامی فلاح کا کام ریاست کی ذمہ دری ہے۔ ۵۰ فی صد نے کہا کہ وہ سیاسی نظام پر یقین نہیں رکھتے اور ۴۲ فی صد نے کہا کہ وہ پارلیمنٹ پر اعتماد نہیں کرتے۔ ۹۱ فی صد نے فوج پر اعتماد کا اظہار کیا، جب کہ ۶۷ فی صد نے اسلامی جماعتوں پر اعتماد کا اظہار کیا۔ (ایضاً، بحوالہ سابقہ، ص۱۵۹)
طیب اردوگان نے استنبول کے صوبے سے سربراہ کی حیثیت سے بار بار اس بات کا اعلان کیا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی حمایت پر مکمل یقین رکھتے ہیں، وہی ہماری قوت ہے، یہی ہماری منزل ہے اور اس کے بعد عوام ہماری قوت ہیں۔
طیب اردوگان نے برسرِاقتدار آتے ہی جو اقدامات کیے ان میں استنبول کے صوبے میں پانی کی فراہمی، ماحولیاتی آلودگی کا خاتمہ، شہر کی صفائی اور کچرا صاف کرنا عوامی سفری سہولت کے لیے بسوں اور ٹرینوں کا نظام، عوامی شکایت کے وصول کیے جانے پر ۴۸گھنٹے میں اس پر عمل ، چھوٹے تاجروں کے لیے ایک مجلس مشاورت جو ان کی تکالیف کو دُور کرنے کے لیے تجاویز دے، شامل تھے۔ غرض ان تمام اقدامات نے عوام کو یہ یقین دلا دیا کہ واقعی یہ لوگ ہمارے مسائل کا حل کرسکتے ہیں، جب کہ دوسری سیاسی جماعتیں وعدے، دعوے اور منصوبے تو بناتی ہیں ، ملک میں کوئی قابلِ محسوس تبدیلی نہیں لاسکتیں۔ چنانچہ محتاجوں اور غریبوں کے لیے سہولتیں پیدا کی گئیں۔ ان کے لیے کم خرچ پر مکانات کی تعمیر اور مالی امداد فراہم کی گئی۔
شہروں میں اصلاح و بہتری کے لیے اور آبادی کے بڑھنے سے پیدا ہونے والے مسائل کے حل کے لیے کیے گئے فوری اقدامات نے طیب اردوگان کی حکومت اور پارٹی کو عوام میں غیرمعمولی طور پر مقبول بنا دیا۔ ۸۰ء اور ۹۷ء کے دوران شہری آبادی میں اضافہ ہوا اور وہ ۴۴ فی صد سے بڑھ کر ۶۰ فی صد ہوگئی۔ اس اضافے کی بنا پر سڑکیں، پانی، رہایش، صفائی، غرض ہرہرشعبے میں مسائل میں اضافہ ہوا۔ AKP نے ان مسائل کو حل کیا اور تین بڑے آبادی والے علاقوں استنبول، انقرہ اور ازمیر میں بے روزگاری کے خاتمے کے لیے اقدامات اور ملکی معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کے لیے پالیسی میں تبدیلی نے AKP کے سیاسی استحکام میں بنیادی کردار ادا کیا۔
AKP نے اپنی انتخابی حکمت عملی میں نوجوانوں اور خواتین کو شامل کر کے لاکھوں رضاکاروں کی ایسی فوج تیار کرلی جو خلوصِ نیت کے ساتھ ملک میں عدل و انصاف کے نظام کی جدوجہد میں سرگرمِ عمل ہوئی اور اس کے نتائج جلد سامنے آگئے۔
یہ سمجھنا درست نہیں ہوگا کہ اس عرصے میں سیکولر قوتیں خاموش رہیں لیکن چونکہ اسلام پسند افراد بیک وقت بیوروکریسی، طلبا، تاجر برادری، خواتین، دیہی علاقہ جات اور شہروں میں عوامی اور سیاسی سطح پر نفوذ کے نتیجے میں سرگرمِ عمل ہوگئے تھے اس لیے سیکولر جماعتوں کے اثرات میں نمایاں کمی ہوئی۔ اوزال کا اسلام پر غیرمتزلزل عقیدہ اور سیکولرزم کے بارے میں یہ تصور کہ اس کا جبری نفاذ حقوقِ انسانی کے منافی ہے، ترک نوجوانوں اور عوام الناس میں ان کی مقبولیت کا بڑا سبب بنا۔
۱۹۸۳ء سے ۱۹۹۰ء کے دوران ہرسال ۱۳۵ سے زائد قرآنی حلقہ جات کااضافہ ہوا۔ ۱۹۹۰ء میں قرآنی کورس کرانے والے تقریباً ۵ہزار حلقے سرگرمِ عمل تھے۔ ان حلقات میں تقریباً ۱۰لاکھ نوجوانوں نے قرآنی کورس کی تکمیل کی۔ امام خطیب اسکول سے فارغ ہونے والے طلبا کی تعداد ۱۹۷۵ء میں ۴۸ہزار۹سو تھی، جب کہ ۱۹۸۱ء تک یہ ۲لاکھ ایک ہزار۴ اور ۱۹۹۱ء میں ۳۰لاکھ۹ہزار ۵سو۵۳ تک پہنچ گئی۔ یہ لاکھوں تربیت یافتہ کارکن دیہات اور شہروں میں سیاسی شعور بیدار کرنے میں انتہائی مؤثر ثابت ہوئے۔
اپنے بچوں کو منشیات، تمباکو نوشی اور اخلاقی خرابیوں سے بچانے کے لیے بہت سے والدین نے امام خطیب اسکول میں داخلہ دلوایا، اور اس طرح یونی ورسٹیوں میں جب یہ بچے پہنچے تو ملک کی جامعات میں ایک واضح تبدیلی کا آغاز ہوا۔
بعد میں پیش آنے والے حالات کو اگر اس تناظر میں دیکھا جائے تو تحریکاتِ اسلامی کے لیے اس طویل سوچے سمجھے سفر میں غور کرنے کے لیے بہت سے پہلو نظر آتے ہیں۔ چند نمایاں نکات درج ذیل ہیں:
۱- تحریکِ اسلامی نے زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے تبدیلیِ زمان و مکان کے لحاظ سے طویل المیعاد حکمت عملی بنائی اور سیاسی مواقع کو ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ یہ بالکل فطری بات ہے کہ تحریکی آئیڈیل ازم مطالبہ کرتا ہے کہ اس کا ہر کارکن اعلیٰ ترین اخلاقی طرزِعمل کی مثال ہو اور کسی بھی معاملے میں خواہ سیاسی ہو یا انفرادی کسی لچک کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔ لیکن بنیادی تعمیر سیرت اور قرآن و سنت سے وابستگی پر کوئی سمجھوتا کیے بغیر حالات کی مناسبت سے تحریک کے سیاسی تعلقات اور وابستگیوں میں تبدیلی اور سیاسی پابندیوں سے نکلنے کے لیے کسی نئی جماعت کے قیام کو مناسب طور پر استعمال کیا گیا۔
۲- طویل حکمت عملی کے پیش نظر تعلیمی اداروں کا قیام اور موجود تعلیمی اداروں میں نوجوانوں میں نظریاتی کام کے ذریعے بیداری اور نظم کا قیام عمل میں لایا گیا۔ نتیجتاً اردوگان کی مہم میں ایک لاکھ سے زائد تربیت یافتہ کارکن ہمہ وقت سیاسی اور معاشرتی کاموں میں مصروف رہے ، جس کے بعد وہ نتائج سامنے آئے جن کی توقع تھی۔
۳- تحریک کا معاشرتی تبدیلی کے عمل میں براہِ راست متعلق ہونا تاکہ تاجر برادری اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے پیشہ ور افراد کا ایک ایسا منظم گروہ بن جائے جو اپنی خدمات اور products میں ایمان داری اور معاملات میں شفاف ہو۔ ان حضرات نے نہ صرف تجارت اور معیشت کو بلند کرنے میں بلکہ اپنے مالی ایثار سے تحریک کو کامیاب کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔
۴- مرکزی قیادت تک پہنچنے سے قبل شہری انتظامیہ کے ذریعے اپنی مثبت تصویر اور کارکردگی کی بناپر عوام کی حمایت کا حاصل کرنا۔ اس سلسلے میں شہر میں سڑکوں، ٹرانسپورٹ کے نظام، بجلی، پانی کی فراہمی، شہر میں صفائی، شہر کی خوب صورتی، معاشی طور پر کم تر افراد کو روزگار کی فراہمی، تحریک کی کامیابی کا ایک بڑا سبب بنا۔
۵- تحریک کی امداد و رہنمائی کے لیے ایسے اداروں کا قیام جو ملکی اور بیرونی پالیسی سازی میں فنی رہنمائی فراہم کرسکیں۔ ان مشاورتی اور تجزیاتی اداروں (Think Tanks ) نے افرادی قوت اور ماہرین فراہم کیے اور حکومت کے حصول کے بعد مختلف شعبوں میں سربراہی کے کام انجام دینے میں مدد کی۔ کسی بھی تحریک میں جب تک اعلیٰ ذہنی اور انتظامی صلاحیت کے افراد نہ ہوں وہ اپنے منصوبوں کو عملی شکل نہیں دے سکتی۔
۶- عوامی سطح پر (grassroot level ) پر کام کے دوران اپنی نظریاتی تربیت کرتے رہنا تاکہ اقتدار ملنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کے خوف کی بنا پر کسی بدعنوانی، اقرباپروری اور جماعتی تعصبات کی وجہ سے کسی کے ساتھ ناانصافی اور غیرعادلانہ رویہ اختیار نہ کیاجاسکے۔
۷- جامعات اور سرکاری شعبوں میں اپنا اثرونفوذ پیدا کرنے کے لیے تربیت یافتہ نوجوانوں کو وہاں کام کرنے پر راغب کرنا اور اسلامی فلاحی اداروں کا نیٹ ورک قائم کرنا۔ اس روابط کے نظام نے شہری اور دیہاتی سطح پر متوسط اور اس سے کم تر طبقات کو تحریک سے وابستہ کردیا اور اس طرح عوامی طاقت میں اضافہ تحریک کی کامیابی کی راہ ہموار کرنے کا باعث بنا۔
۸- تحقیق اور مطالعہ و تجزیے کی بنیاد پر نئے معاشی راستے نکالنا تاکہ ایک جانب روزگار فراہم ہو اور دوسری جانب صنعتی ایجادات میں اضافہ ہو۔ یہ entropreneurship یا مسابقت کرتے ہوئے ایک کام کا کرنا کاروبار تک محدود نہیں رہا ،بلکہ اس نے دعوتی میدان میں نئے تجربات کی دعوت دی اور اس طرح تحریک نہ کبھی جمود کا شکار ہوئی اور نہ مایوسی اور بے دلی اس پر طاری ہوسکی۔
۹- ایک بڑا قابلِ غور پہلو مختلف دینی قوتوں کو ایک دوسرے سے الگ ہونے کے باوجود ایک دوسرے کی مخالفت سے اجتناب، باہمی رواداری کا اہتمام اور اپنے دائرے میں اپنے کام کو محدود رکھتے اور دوسرے کو بدنام کرنے یا اس پر طعن زنی سے بڑی حد تک گریز کرنا ہے۔
۱۰- ایک اور لیکن اہم پہلو یہ ہے کہ اسلامی قوتوں نے خود اپنے ذہن اور رویے اور اپنی عام ذہنی تصویرکشی (image) میں اپنے کو تنہا رہ جانے سے بچایا اور عوام میں سے ہونے اور عوام کے لیے ہونے کا احساس اور شعور پیدا کیا۔ اپنے وژن کو محکم اور اپنے تربیتی نظام کو مستحکم رکھا مگر اس کے ساتھ ساتھ پوری کمیونٹی اور قوم اور اس کے تمام ہی عناصر سے اپنے کو مربوط رکھا۔ ان کو اپنی سرگرمیوں میں خواہ ان کا تعلق معاشرتی اصلاح، تعلیم، دعوت اور نوجوانوں کی سرگرمیوں بشمول اسپورٹس ہوں یا یقینی طور پر سیاسی اور اجتماعی اصلاح کی کوششیں اور ان میں بھی لوکل باڈیز میں مضبوط کام اور اعلیٰ مثال کے قیام جو نمونہ بنا ، اُوپر کے دائروں میں کام اور عوامی اعتماد کے حصول کا ذریعہ بنا۔ دوسرے الفاظ میں نظری اور تربیتی، ہردواعتبار سے مرکزی اور اندرونی نظام کو مضبوط رکھتے ہوئے ایک وسعت پذیری (outer reach) کا شعوری اہتمام اور تحریک کے دائرۂ اثر کو مقامی سطح سے بڑھا کر قومی اور بین الاقوامی سطح تک پہنچانا اس دیرپا اور خاموش حکمت عملی کا ایک اہم پہلو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صرف ترکی ہی میں نہیں بلکہ پورے یورپ میں ترک آبادیاں اس عمل کا ایک مؤثر حصہ رہیں، اور جو تبدیلی ۲۰۰۰ء کے عشرے میں سامنے آئی اس کی پشت پر کم از کم ۴۰سال کی محنت، مناسب منصوبہ بندی اور اس پر مؤثر عمل کی لازوال جدوجہد کے نشانات دیکھے جاسکتے ہیں۔
ان تمام پہلوئوں سے زیادہ جو بات قابلِ غور ہے وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے خصوصی نصرت کی درخواست اور اپنی کمزوریوں پر مغفرت مانگتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی کے لیے ہرقربانی کے لیے تیار رہنا ہے۔ انسانی کوششیں کتنی ہی اعلیٰ کیوں نہ ہوں جب تک رب کریم کی خصوصی عنایت نہ ہو، کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوسکتی۔
ترکی کے تجربے کو تجزیاتی نظریے کے ساتھ دیکھنے کے بعد ہمیں اور دوسری اسلامی تحریکات اور تنظیموں کو کھلے ذہن کے ساتھ غور کرنا ہوگا کہ ہم اس تجربے کے کن کن پہلوئوں کو اپنے حالات کے پیش نظر مناسب تبدیلی کے ساتھ استعمال کرسکتے ہیں، اور کون سے پہلو ایسے ہیں جو ترکی کے حالات کی مخصوص ضرورت تھے۔ تحریک اسلامی کو اجتہاد کے اصول کو مسلسل استعمال کرنا ہوگا اور تحریکی قیادت کو اپنی سابقہ حکمت عملی کے دفاع کی جگہ نئے راستے نکالنے ہوں گے۔ مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے جو بات جماعت اسلامی کے سالانہ اجتماع میں تیزرو پہاڑی دریا اور راہ میں حائل پہاڑ کی مثال دے کر سمجھانی چاہی تھی اس پر عمل کرنا ہوگا، تاکہ مشکلات کے پہاڑ راستہ نہ روک سکیں اور نئے راستے منزل تک پہنچنے کے سفر کو کامیاب بناسکیں۔یہ بات دہرانے کی ضرورت نہیں کہ اس کام کے لیے خوداحتسابی، اپنے بعض فیصلوں پر نظرثانی کی ضرورت اور طویل المیعاد حکمت عملی کے نفاذ کے لیے صحیح افرادی قوت کی تیاری وہ بنیادی کام ہیں جن کے بغیر توقعات اور اُمیدیں عملی شکل نہیں اختیار کرسکتیں۔وما توفیقی الا باللّٰہ۔
لیبیا قریباً ۷۰ لاکھ نفوس پر مشتمل آبادی کا ملک ہے، لیکن قدرت نے اسے پٹرول کی بے پناہ دولت سے مالامال کر رکھا ہے۔ دو ملین بیرل پٹرول کی یومیہ پیداوار ملکی معیشت کے لیے آسودہ اور خوش حال زندگی کی ضمانت فراہم کرتی ہے۔ چھوٹی سی آبادی کے لیے بے پناہ دولت کے اس قدر تی وسیلے کو اللہ تعالیٰ کی نعمت ِ غیرمترقبہ ہی کہا جاسکتا ہے مگر جس طرح ’تدبیر منزل‘ کے بغیر اُمورِخانہ بگڑ جاتے، اسی طرح’تدبیر مملکت‘ کے بغیر ’کارِجہاں بانی‘ بھی زوال آشنا ہوجاتا ہے۔
۲۰۱۱ء میں جن عرب ممالک میں حکومتوں کو عوامی سیلاب کے سامنے سر نگوں ہونا پڑا ان ممالک میں تین تین چار چار عشروں سے ایک ہی خاندان حکمرانی کے استحقاق پر قابض تھا۔ کسی ایک خاندان کا اُمورِ حکومت کو ۳۰، ۴۰ برس اپنے ہاتھ میں لیے رکھنا ا س ملک کے عوام کی نفسیات میں محرومی کے احساس کو شدید تر کرنے کے لیے کافی مدت ہے۔ لیبیا پر کرنل معمرالقذافی کا تسلط ۴۲برس پر محیط ہے۔ ۲۰۱۱ء میں ’عرب بہارِ انقلابات‘ کا ریلا اس آمرانہ تسلط کو توڑنے کا بھی باعث ہوا۔ ۱۷فروری ۲۰۱۱ء کو لیبیا میں بھی عوامی احتجاج اور مظاہروں کا آغاز ہوگیا۔ احتجاج کا یہ سلسلہ روزافزوں شدت اختیار کرتا گیا۔ حکومت نے اس احتجاج کو کچلنے کے لیے اپنی تمام طاقتوں کو آزمایا۔ بالآخر ناکامی کا منہ دیکھتے ہوئے کرنل قذافی دارالحکومت طرابلس کو چھوڑ کر ۳۶۰کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ’سرت‘ شہر میں روپوش ہوگیا۔یہ ۲۰؍اکتوبر ۲۰۱۱ء کا دن تھا جب سرت میں قذافی مظاہرین کے ہاتھوں زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ ۴۲برس بلاشرکت ِ غیرے لیبیا کا حکمران رہنے والا شخص جس بے بسی کے عالم میں عوام کے ہاتھوں مارا گیا، یہ ہرظالم و جابر حکمران کے لیے درسِ عبرت ہے۔ فروری سے اکتوبر تک عوامی احتجاج کو روکنے کے لیے لیبیا حکومت نے پورا زور صرف کیا اور آٹھ ماہ کے اس عرصے میں ۵۰ہزار سے زائد افراد کو اپنے اقتدار کی خاطر موت کی نیند سُلا دیا۔
عرب میڈیانے قذافی کے ۴۲سالہ دورِ حکومت کو ’خونیں دورِحکومت‘ کہا ہے۔ ایک راے کے مطابق قذافی کا دورِحکومت قتل و خون ریزی کا دور تھا۔ جو اُس کے خلاف آواز بلند کرتا اُسے معافی نہیں مل سکتی تھی بلکہ ایسی ہر آواز کا واحد علاج ’قتل‘ تھا،جیساکہ متعدد مواقع پر ہوا۔ لاکربی کا مشہور واقعہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس کے بعد لیبیا پر ۱۹۹۲ء میں ۱۰سال کے لیے عالمی پابندیاں عائد کی گئیں۔ جب بین الاقوامی تنہائی نے اسے مصالحت پر مجبور کردیا تو اس نے اپنے بیٹے سیف الاسلام کو نئے چہرے کے طور پر متعارف کرایا۔
۲۰؍اکتوبر ۲۰۱۱ء کو قذافی قتل ہوا اور ۲۳؍اکتوبر ۲۰۱۱ء کو ’قومی مجلس‘ (عبوری مجلس) نے لیبیا کی ’کامل آزادی‘ کا اعلان کردیا۔ ۳۱؍اکتوبر ۲۰۱۱ء کو ایک علمی شخصیت عبدالرحیم الکیب کو نگران حکومت کا صدر منتخب کیا گیا۔ ۲۲نومبر کو عبدالرحیم الکیب نے اپنی حکومت کی تشکیل کا اعلان کیا۔ عبوری مجلس نے آٹھ ماہ کے اندر ’دستوری مجلس‘ کے انتخاب کرانا تھے جو آٹھ ماہ کے اندر تو نہ ہوسکے البتہ معمولی تاخیر کے ساتھ نوماہ کے اندر ۷جولائی۲۰۱۲ء کو ہوئے۔
۷جولائی ۲۰۱۲ء کا دن لیبیا کے عوام کے لیے تاریخ کے پہلے عام انتخابات کا دن تھا۔ اس انتخاب میں لیبیا کی اس قیادت کا خاص کردار رہا جو ایک عرصے سے بیرونِ ملک جلاوطنی کے دن گزار رہی تھی۔ اگرچہ یہ جلاوطنی خوداختیاری تھی مگر لیبیا کے داخلی حالات سے ان لوگوں کے عدم اطمینان اور حکومت کے جابرانہ سلوک کی بنا پر اختیار کی گئی تھی۔ ملک کی اسلامی اور لبرل جماعتوں نے ان انتخابات میں حصہ لیا۔ اسلامی قوتوں نے اپنی اپنی جماعتوں کے نام سے انتخاب میں شرکت کی، جب کہ لبرل جماعتیں ایک قومی الائنس کے تحت اس انتخاب میں داخل ہوئیں۔ اگرچہ یہ چھوٹے چھوٹے گروپ تھے مگر ۶۰گروپوں کے اس الائنس نے لیبیا کے انتخابات کی کایاپلٹ دی۔ اخوان المسلمون نے حزب العدالۃ والبناء (تعمیر و انصاف پارٹی) کے نام سے یہ انتخابات لڑے۔ دیگر جماعتیں بھی مختلف ناموں سے شریکِ انتخاب تھیں مگر قابلِ ذکر قرار نہ پاسکیں۔ البتہ آزاد اُمیدواروں نے مجموعی طور پر ان انتخابات میں میدان جیتا۔ ’قومی جماعتوں کے الائنس‘ کی قیادت عبوری مجلس کے سابق وزیراعظم محمود جبریل نے کی۔ اسی الائنس نے بحیثیت پارٹی سب سے زیادہ ۳۹ نشستیں حاصل کیں۔اخوان کی تعمیروانصاف پارٹی کو ۱۷نشستیں ملیں اور آزاد اُمیدواروں کو ۱۲۰، نشستوں پر کامیابی ملی۔ ان آزاد اُمیدواروں میں بھی کثرت لبرل ارکان کی ہے۔ اسلامی اور لبرل ناموں کی تقسیم کے اعتبار سے لیبیا کے اسلام پسند یااسلامی شناخت اور امتیاز رکھنے والے اُمیدوار دوسرے نمبر پر آئے اور لبرل شناخت کے حامل پہلے نمبر پر۔
انتخابی نتائج کی یہ صورت حال نہ صرف روایتی تجزیہ نگاروں کے لیے حیرت انگیز تھی بلکہ خود اسلامی قوتوں کے لیے بھی اس میں اپنی حکمت عملی پر سوچ بچار کرنے کا درس موجود تھا۔ انتخابات میں قوم کے مزاج اور تہذیب و کلچر کا ضرور دخل ہوتا ہے مگر جہاں ۴۰، ۴۰ برس سے لوگوں نے ایک کے سوا کسی دوسرے کا نام حکمران کے طور پر سنا ہی نہ ہو وہاں ا س مزاج اور کلچر کے اُوپر انحصار کرکے مطلوبہ نتائی کی توقع رکھنا خام فکری کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ خلوص اور دیانت داری کے ساتھ صلاحیت اور اہلیت بھی ضروری ہے اور ان کے ساتھ حکمت عملی بھی ناگزیر ہے۔
اسلامی قوتوں کے مقابلے میں لبرل قوتوں کی کامیابی تجزیہ نگاروں کے مطابق متعدد وجوہات کی بنا پر سامنے آئی۔ لیبیا کے ایک سیاسی تجزیہ نگار عصام محمد الزبیر کے مطابق لبرل الائنس کی عبوری مجلس کے سابق وزیراعظم محمود جبریل الائنس کا سربراہ تھا اور وہ قذافی کے خلاف مزاحمت کے دوران بین الاقوامی طور پر معروف ہوچکا تھا۔ ملک کے اندر بھی عوام اس کی شخصیت سے متعارف تھے۔ اس بنا پر اس نے ۶۰ گروپوں کا الائنس بنانے میں نہ صرف کامیابی حاصل کی بلکہ سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہا۔
دوسرا سبب ایک اور تجزیہ نگار کے نزدیک یہ تھا کہ لبرل گروپ اپنی اعتدال پسندی اور دین داری دونوں اعتبار سے عوام کے لیے اسلامی جماعتوں کی نسبت زیادہ قابلِ قبول رہے۔ اسلامی جماعتوں کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ ان کے ہاں شدت پسندی زیادہ ہے۔ انتخابات سے قبل احتجاج کے دوران ان جماعتوں کے بارے میں پروان چڑھنے والی اس راے نے ان جماعتوں کو بعض اُن نشستوں سے بھی محروم کردیا جہاں فضا مکمل طور پر ان کے حق میں خیال کی جاتی تھی،بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ ان حلقوں کو اسلامی جماعتوں کے ووٹروں کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔
ایک سبب یہ بتایا گیا ہے کہ اسلامی جماعتیں اپنی گہری جڑیں رکھنے کے باوجود اس بنا پر کم نشستیں حاصل کرپائیں کہ یہ غیرمتحد تھیں۔ یہ اسلامی شناخت رکھنے کے باوجود چھے جماعتوں میں تقسیم تھیں، جب کہ محمود جبریل کے الائنس نے لبرل لیبل کے باوجود ۶۰گروپوں کو متحد کر رکھا تھا۔ (الجزیرہ نیٹ، ۱۰ جولائی ۲۰۱۲ئ)
ان انتخابات کے نتیجے میں بننے والی پارلیمان کو دستوری طور پر ملک کا نظامِ حکومت منتقل ہونا تھا جو اس سے پہلے انقلاب کے نتیجے میں قائم ہونے والی ’قومی مجلس‘ کے پاس تھا۔ ۸؍اگست ۲۰۱۲ء کو قومی مجلس نے اس انتقالِ اقتدار کا مرحلہ بھی طے کرا دیا۔ پُرامن انتقالِ اقتدار کا یہ عمل ۴۲برس کے آمرانہ دورِ حکومت کے بعد پہلی مرتبہ انجام پایا۔ ایک باقاعدہ تقریب میں مجلس اور پارلیمان کے ذمہ داروں، ارکان اور سربراہوں کی موجودگی میں یہ مرحلہ لیبیاکے عوام نے ٹیلی وژن اسکرین پر براہِ راست مشاہدہ کیا۔ قومی مجلس کے سربراہ مصطفی عبدالجلیل نے پارلیمان کے ۲۰۰؍ارکان میں عمر کے اعتبار سے سینیر ترین رکن محمدعلی سلیم کو چارج باقاعدہ طور پر سپرد کیا۔ اختیار لینے اور حوالے کرنے کی دستاویزات پر دونوں اطراف سے دستخط کیے گئے۔ مصطفی عبدالجلیل نے جھنڈا پارلیمان کے صدر محمدعلی سلیم کے حوالے کیا اور دونوں سربراہو ں نے حسب ذیل تحریر پر دستخط کیے:
عبوری مجلس دستوری اختیارات ملکی قیادت قومی پارلیمان کے سپرد کرتی ہے اور اسی تاریخی لمحے سے پارلیمان لیبی قوم کی واحد دستوری نمایندہ قرار پاگئی ہے۔ لیبیا کی آزادی، امن و سلامتی اور وحدتِ اراضی کی نگہبان اب یہی پارلیمان ہے۔
مصطفی عبدالجلیل نے ’لیبیا کی تاریخ میں انتقالِ اقتدار کا پہلا عمل‘ کے عنوان سے خطاب بھی کیا۔ انھوں نے کہا کہ یہ اہلِ لیبیا کے لیے تاریخی لمحہ ہے۔ میں انتقالِ اقتدار کے اس عمل کے دوران میں ہونے والی غلطیوں کا اعتراف کرتا ہوں۔ بعض اہم امور میں ہم سے تاخیر ہوگئی اور ہم چاہتے ہیں کہ پارلیمان ان اُمور کو نبٹانے میں کامیاب ہو۔ ان اُمور میں امن و امان کا قیام، ملک سے اسلحہ اکٹھا کرنا اور اندرون و بیرونِ ملک شہریوں کے علاج پر توجہ دینا اہم ہیں۔ ہم ان اُمور کے حل کے لیے کوئی طریقہ تجویز نہیں کرتے اگرچہ ہم نے عبوری مجلس میں ان کے بارے میں بہت سے فیصلے کیے، تجاویز منظور کیں۔
مصطفی عبدالجلیل نے کہا: عبوری مجلس اپنے آپ کو پارلیمان کی حکمرانی کے تحت کسی بھی معاملے میں اپنا تعاون پیش کرنے کے لیے حاضر ہے۔ ہم اپنے ان بھائیوں کے لیے بہترین مددگار ثابت ہوں گے جنھوں نے ہم سے یہ جھنڈا حاصل کیا ہے۔ کیونکہ لیبیا کا مفاد ہمارے لیے اہم ہے اور انقلاب کی کامیابی ہم سب کا ہدف ہے۔ پارلیمان انقلاب کے جس میدان میں بھی چاہے ہم اُس کے وفادار ثابت ہوں گے۔
مصطفی عبدالجلیل کرنل قذافی کے دور میں عدلیہ کی سپریم کونسل کے رکن تھے۔ انھوں نے اس کونسل سے اور عبوری مجلس کی رکنیت سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا ہے۔ انتقالِ اقتدار کی یہ تقریب قریباً پون گھنٹا جاری رہی۔ اس میں نومنتخب اسمبلی کے ارکان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اپنے صدر اور نائب صدر کے انتخاب کے لیے اجلاس بلائیں۔ (الجزیرہ نیٹ ۹؍اگست ۲۰۱۲ئ)
مذکورہ اجلاس کے اگلے روز نومنتخب ارکان اسمبلی نے قذافی حکومت کے تاریخی مخالف محمدالمقریف کو اسمبلی کا صدر منتخب کیا۔ محمدالمقریف سیاسی اتحاد جبھۃ الوطنیۃ للانقاذ کی قیادت کر رہے تھے جو جلاوطنی کے دوران قائم ہوا اور ایسی بہت سی شخصیات اس سے وابستہ رہیں جو قذافی حکومت کے خلاف تھیں۔ محمدالمقریف کو اسمبلی سے ۱۱۳ ووٹ حاصل ہوئے اور ان کے مدمقابل علی زیدان محمد کو ۸۵ ووٹ ملے۔ علی زیدان محمد بھی قذافی نظامِ حکومت کے پرانے مخالف اور آزاد رکن اسمبلی اور لبرل رجحانات کی حامل شخصیت ہیں۔ محمدالمقریف ۱۹۴۰ء میں پیدا ہوئے۔ قذافی حکومت میں سفارتی خدمات انجام دیں مگر جلد ہی اس سے لاتعلق ہوکر جلاوطن ہوگئے۔ وزیراعظم کا انتخاب، نئی حکومت کی تشکیل، قوانین کا اجرا، نئے دستور کی تیاری اور مکمل پارلیمانی انتخابات کے مراحل طے کرانا محمد المقریف کی ذمہ داری ہوگی۔
انتخابِ صدر کے بعد انتخابِ وزیراعظم کا مرحلہ شروع ہوا۔ ۱۲ستمبر ۲۰۱۲ء کو لبرل الائنس کے سربراہ محمود جبریل اور اسلامی شناخت کے حامل مصطفی ابوشاقور کے درمیان وزارتِ عظمیٰ کے لیے مقابلہ ہوا اور شاقور دو ووٹوں سے یہ انتخاب جیت گئے۔ لیکن ووٹوں کا یہ معمولی فرق اُن کی حکومت تشکیل دینے میں بہت بڑی رکاوٹ بنا رہا۔ دو بار انھیں تشکیل حکومت کا موقع دیا گیا مگر وہ اسمبلی سے اعتماد حاصل نہ کرسکے اور بالآخر اس عہدے سے انھیں ہٹنا پڑا۔
مصطفی ابوشاقور کے انتخاب اور بعدازاں ناکامی کے قریباً ایک ماہ بعد نئے وزیراعظم کا انتخاب عمل میں آیا اور صدارتی انتخاب میں حصہ لینے والے دوسرے امیدوار علی زیدان محمد لبرل الائنس کی جانب سے محمود جبریل کی قیادت میں سامنے آئے۔ اسلامی جماعتوں کے نمایندے کے طور پر محمدالہاشمی الحراری نے حصہ لیا۔ علی زیدان محمد کو ۹۳ووٹ اور الحراری کو ۸۵ ووٹ ملے۔ یوں علی زیدان محمد وزیراعظم لیبیا منتخب ہوگئے۔ تیسرے اُمیدوار عبدالحمید نعمی اسمبلی کے ۴۰ارکان کی طرف سے تائید حاصل کرنے میں ہی ناکام رہے، لہٰذا مقابلے سے باہر ہوگئے اور چوتھے اُمیدوار ابراہیم دباشی اجلاس میں شریک ہی نہ ہوئے۔
وزیراعظم علی زیدان محمد کا تعلق لیبیا کے ضلع جفرہ کے شہر ودّان سے ہے۔ ۱۹۵۰ء میں پیداہوئے۔ بھارت کی جواہر لعل نہرو یونی ورسٹی دہلی سے بین الاقوامی تعلقات میں ایم اے کیا۔ ۱۹۷۵ئ-۱۹۸۲ء لیبیا کی وزارتِ خارجہ کے ڈپلومیٹک ونگ میں کام کیا۔ اس دوران دو سال کے لیے بھارت میں سفارت خانۂ لیبیا میں رہے۔ ۱۹۹۴ء سے تاحال ہیومن ڈویلپمنٹ کی جرمن ایجنسی کے صدر ہیں۔ ۱۹۸۲ء سے ۱۹۹۲ء تک لیبیا کے جبھۃ الوطنیۃ للانقاذ کے رکن رہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم الرابطۃ اللیبیۃ کے ۱۹۸۹ء سے باقاعدہ ترجمان ہیں۔ انقلاب کے بعد عبوری مجلس کی طرف سے یورپ خاص طور پر فرانس میں نمایندے مقرر کیے گئے۔
علی زیدان محمد بھارت میں بطور سفارت کار تعیناتی کے دوران قذافی نظامِ حکومت سے الگ ہوئے اور لیبیا حکومت مخالف اتحاد میں شامل ہوگئے جو بیرونِ ملک شخصیات نے جبھۃ الوطنیۃ للانقاذ کے نام سے قائم کیا تھا۔ زیدان کو قذافی نظامِ حکومت کا ’ریڈیکل مخالف‘ کہا جاتا ہے۔ کیونکہ انھوں نے اس وقت بھی حکومت کے ساتھ مکالمے اور سودے بازی سے انکار کیا جب سیف الاسلام قذافی بعض بڑی مخالف شخصیات کو بھی اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوگیا تھا۔
۷جولائی ۲۰۱۲ء کے انتخابات میں اگرچہ مجموعی طور پر لبرل اُمیدواروں کی کامیابی کا تناسب اُونچا رہا مگر اس کے باوجود وزیراعظم کے انتخاب میں ان کو بھی بڑے فرق کے ساتھ کامیابی نہیں ملی۔ زیدان صرف آٹھ ووٹ زیادہ لے کر محمدالحراری کے مقابلے میں وزیراعظم بنے ہیں۔ ملکی صورت حال کی ابتری اور نظامِ حکومت کو استحکام دینے کے لیے اب تمام پارلیمانی قوتیں وزیراعظم زیدان کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہیں۔ اخوان المسلمون کے سیاسی گروپ العدالۃ والبناء کے سربراہ محمد صوان نے علی زیدان کے لیے اچھے جذبات کا اظہار کیا۔ علی زیدان کے انتخاب کو بھی تجزیہ نگاروں نے کسی ٹھوس کامیابی سے تعبیر نہیں کیا۔ کہا گیا ہے کہ زیدان کی کامیابی کا سبب یہ ہے کہ پارلیمان میں کوئی جماعت ایسی نہیں جس کے پاس کوئی منشور اور واضح فکر ہو۔ بیش تر آزاد اُمیدواروں کا مقصد مناصب کا حصول ہے جس کی بنا پر انھوں نے علی زیدان کے حق میں ووٹ دیا۔ یہ سیاسی لوگوں کے درمیان سودے بازی کا نتیجہ ہے۔ زیدان کو اسمبلی کا متفقہ وزیراعظم قرار نہیں دیا جاسکتا۔
وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد زیدان نے اپنے پہلے بیان میں کہا کہ وہ لیبیا میں امن کی بحالی پر خصوصی تو جہ دیں گے۔ اُن کے خیال میں ’’تمام مشکلات جن سے لیبیا دوچار ہے وہ امن کے مسائل سے ہی جنم لیتی ہیں‘‘۔ انھوں نے کہا کہ مسائل کے حل کی خاطر حکومت خود کو ہنگامی حالت میں تصور کرے گی اور وہ اخوان المسلمون کی آرا و تجاویز کو خوش آمدید کہیں گے۔ زیدان نے کہا: ہر قانونی تعبیر کا مصدر و منبع اسلام ہوگا اور ہر وہ چیز ناقابلِ قبول ہوگی جو شریعت سے متصادم ہوگی۔(الجزیرہ نیٹ، ۱۵؍اکتوبر ۲۰۱۲ئ)
قذافی نظامِ حکومت سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد علی زیدان محمد نے ۲۰۱۱ء کے انقلاب تک جرمنی کو اپنا مستقر بنائے رکھا۔ قذافی دور میں سیاست دانوں کے پاس دو ہی اختیار تھے: وہ لیبیا میں رہ کر اہم مناصب پر فائز رہیں یا طویل جلاوطنی کی زندگی کو قبول کرلیں۔ ان کے لیے پہلی صورت کو اختیار کرنا ممکن نہیں تھا کیونکہ جن افراد کے اُوپر حکومت کو شک گزرتا اُن کی اس نظام میں جگہ نہ ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ انقلاب کی بیش تر قیادت بیرونِ ملک مقیم رہی۔
وزیراعظم لیبیا علی زیدان کو بھی تشکیل حکومت کے لیے دو ہفتے کی مہلت دی گئی۔ انھوں نے اکتوبر کے آخری دنوں میں ۳۲؍افراد پر مشتمل حکومت کا خاکہ صدر کو بھجوایا جس میں آزاد، اسلامی اور لبرل جماعتوں کے افراد کو شاملِ حکومت کیا گیا تھا۔دوخواتین ارکان بھی حکومت میں شامل ہیں۔ اس حکومت میں اہم وزارتوں پر آزاد ارکان کو فائز کیا گیا ہے۔ خارجہ، بین الاقوامی تعلقات، مالیات، عدل و انصاف، داخلہ اوردفاع کی وزارتیں آزادارکان کے سپرد کی گئی ہیں۔ ان ۳۲؍افراد میں تین ارکان وزیراعظم کے ساتھ ہوںگے، ۲۷ وزیر ہیں۔دو وزراے مملکت ہیں جن میں ایک پارلیمان اور دوسرا دورانِ انقلاب زخمی ہونے والوں کے مسائل سے متعلق ہوگا۔
۳۱؍اکتوبر کو صدر پارلیمنٹ محمدالمقریف نے زیدان حکومت کے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیابی کا اعلان کیا۔ مقریف کے مطابق حکومت نے ۱۰۵ ووٹ حاصل کیے، جب کہ ۹ووٹ حکومت کے خلاف رہے اور ۱۸ ووٹ خاموش رہے۔ ۲۰۰؍ ارکان پر مشتمل اسمبلی کے ۲۰ سے زائد ارکان فریضۂ حج کی ادایگی کے باعث غیرحاضر تھے اور قریباً اتنی ہی تعدادپارلیمانی امور کے سلسلے میں برطانیہ اور کینیڈا میں تھی۔
واشنگٹن پوسٹ نے زیدان کی حکومت کو کمزور قرار دیا ہے۔ اخبار کے مطابق طرابلس سے صرف ۱۰۰ میل کے فاصلے پر واقع شہر بنی ولیدمیں انقلاب کے حامیوں اور سابق نظامِ حکومت کے طرف داروں کے درمیان اب تک تصادم جاری ہے جس سے حکومت کی کمزور گرفت ظاہر ہوتی ہے۔ بنی ولید قذافی حکومت کے حامیوں کا آخری گڑھ ہے، جو انقلاب پسندوں سے مکمل طور پر فتح نہیں ہوسکا۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں اور ماہرین قانو ن کے مطابق لیبیا میں مسلح تنازعات کا سبب قانون کی حکمرانی کاعدم نفاذ ہے۔ چونکہ عبوری مجلس کو قریباً ایک سال تو انتقالِ اقتدار کا مرحلہ طے کرنے میں لگ گیا اور چار ماہ نئی حکومت کی تشکیل میں گزر گئے۔ وزیرعدل نے کہا ہے کہ ہم فوت شدگان کو تو زندہ نہیں کرسکتے البتہ قانون کی حکمرانی کو عام کرنا ہمارے بس میں ہے۔ ہمارے لیے یہ ممکن ہے کہ ہم دونوں اطراف کے جانی نقصانات اُٹھانے والوں کو معاوضے دے دیں اور ہمارے اختیار میں یہ ہے کہ ہم لیبیا کی تعمیرنو کو ممکن بنائیں۔(الجزیرہ نیٹ، ۱۳ نومبر ۲۰۱۲ئ)
لیبیا کے سیاست دانوں اور تجزیہ نگاروں کے مطابق علی زیدان کی کابینہ تمام سیاسی جماعتوں پر مشتمل ہونے کے باعث بہتر دورِ حکومت کا آغاز ہے کیونکہ علی زیدان نے اسلامی، لبرل اور قومی قوتوں کے درمیان سیاسی دُوری کو بہت حد تک کم کردیا ہے۔ گویا یہ اتحادی حکومت ہے۔ حزب العدالۃ والبناء کے ایک رکن ولیدماضی کا کہنا ہے کہ زیدان حکومت سیاسی اور جغرافیائی اعتبار سے خاصی حمایت حاصل کرچکی ہے اور یہ وسیع حلقے پر مشتمل حکومت ہے۔ ولید ماضی کے مطابق حکومت کو مطلوبہ حمایت حاصل ہے، لہٰذا وہ قومی اہداف کے حصول کے لیے واضح خطوط پر مشتمل پروگرام کے مطابق آگے بڑھے تاکہ عام شہری کا اعتماد بھی حکومت کے اداروں پر قائم ہوسکے۔
قذافی کے قتل کے ٹھیک ایک سال بعد نئی حکومت وجود میں آئی ہے۔ اس نئی حکومت اور تمام ارکانِ پارلیمنٹ کی کمزوریاں اور خامیاں اپنی جگہ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ۴۰برس کی طویل مدت کے بعد ان تمام سیاسی قوتوں کو پہلی بار حکومت کا تجربہ ہورہا ہے۔ لہٰذا وہ تمام مطالبے جو کسی تجربہ کار رواں نظامِ حکومت کی مشینری سے کیے جاسکتے ہیں اُن کی توقع اس نوآموز پارلیمنٹ سے رکھنا مناسب نہیں ہوگا۔ اس کے ساتھ انقلاب کے نتیجے میں پیدا ہونے والے وہ ملکی حالات بھی ہیںجن سے نبٹنا بڑی حکمت و دانش اور مہارت کا تقاضا کرتا ہے۔ عوام کو جمہوری قدروں اور قومی تعمیروترقی سے ہم آہنگ رویوں سے آشنا کرنے کی ضرورت ہوگی۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ملک بھر میں پھیلے ہوئے اسلحے کا ہے جو امن و امان کی غیریقینی صورتِ حال کا سب سے بڑا سبب ہے۔ دوسرا مسئلہ دستور کی تیاری کا ہے جس کے لیے حکومت کو دیگر داخلی مسائل سے فرصت ملنا ضروری ہے۔ اُمید کی جاسکتی ہے کہ موجودہ حکومت وسیع سطح پر متفقہ حکومت ہونے کے ناتے ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش میں بہت حد تک کامیاب ہوگی۔
اسلامی قوتوں کے لیے بھی یہ عرصہ اپنی حکمت عملی کو بہتر طور پر وضع کرنے اور مستقبل کے لائحۂ عمل کو ٹھوس بنیادوں پر تشکیل دینے کے لیے عبوری دور کی حیثیت رکھتا ہے۔ اخوان المسلمون جو حالیہ انتخابات میں بھی اپنی جداگانہ حیثیت کے اعتبار سے پہلے نمبر پر رہی ہے، اگر قومی الائنس میں شامل گروپ متحد نہ ہوتے تو نتائج میں سرفہرست اخوان ہوتے۔ ملکی تہذیب اور کلچر کو اسلامی بنیادوں پر قائم رکھنے اور ۴۰برس کے دوران کی گئی اپنی جدوجہد کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے اسلامی قوتوں کو بہرحال ایسی ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جو ان کے خواب کی تعبیر کو ممکن بناسکے۔
ادارتی دفتر کا نیا ای میل پتا
عالمی ترجمان القرآن کے ادارتی دفتر کے سابقہ ای میل پتے کے بجاے نئے پتے پر رابطہ کیجیے:
tarjumanq@gmail.com
مصری صدر محمد مرسی کے خلاف ساری دنیا میں پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ انھوں نے مزید اختیارات سمیٹ لیے، فرعون بننا چاہتے ہیں، دوسرا حسنی بن بیٹھے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ پہلے سے حاصل اختیارات سے بھی دست بردار ہورہے ہیں۔ اس وقت مصر میں ملکی تاریخ کا پہلا عوامی دستور وضع کیا جارہا ہے۔ مجوزہ دستور میں صدارتی نظام حکومت کے بجاے پارلیمانی نظام متعارف کروایا جارہا ہے۔ اب اصل اختیارات صدر مملکت نہیں منتخب پارلیمنٹ اور اس کے منتخب کردہ وزیراعظم کے پاس ہوں گے۔ یہ دستور سازی مصر میں ایک نئے جمہوری دور کا آغاز اور اہم کارنامہ ہوگا، مخالفین صدر مرسی کو یہ اعزاز لینے سے روکنا چاہتے ہیں۔ دستور سازی کے ان آخری مراحل میں ایک بار پھر حسنی مبارک کی باقیات کے ذریعے دستوری عدالت کو متحرک کیا جارہا تھا۔ نو منتخب قومی اسمبلی کو چند ہفتوں کے اندر اندر تحلیل کردینے والی اس عدالت کے جج باقاعدہ بیانات دینے لگ گئے کہ نئے دستور کا مسودہ اور پارلیمنٹ کی منتخب کردہ دستوری کمیٹی غیر قانونی ہے۔ ملک میں سنگین دستوری بحران پیدا کرنے کی سازش کے واضح ثبوت مل جانے پر، صدر نے ایک عبوری حکم جاری کرتے ہوئے ملک میں نیادستور نافذ ہوجانے تک استثنائی اختیارات حاصل کرلیے ہیں جنھیں کوئی عدالتی فیصلہ متاثر نہیں کرسکتا۔ دستور کی راہ میں رکاوٹوں اور سازشوں کا سدباب صدر مرسی کا اصل جرم ہے۔
انگریز سے آزادی کے بعد سے لے کر اب تک مصر میں عوام کی حقیقی مرضی سے کوئی دستور نہیں بن سکا۔ پہلے ۱۹۲۳ء کا دستور نافذ رہا جو بادشاہت کا محافظ تھا۔ ۱۹۵۲ء کے فوجی انقلاب کے بعد جنرل جمال عبدالناصر اور ان کی فوجی انقلابی کونسل نے دستوری فرامین جاری کیے۔ ۱۹۵۶ء میں شام اور مصر کی متحدہ ریاست کا دستور جاری کردیا گیا۔ ۱۹۷۱ء میں دوسرے ڈکٹیٹر انور السادات نے اپنی مرضی کا دستور جاری کردیا۔ تیسرے ڈکٹیٹر حسنی مبارک نے بھی اپنے ۳۰ سالہ دورِ اقتدار میں یہی دستور مسلط کیے رکھا، البتہ گاہے بگاہے ترامیم کرکے اپنے لیے پانچویں بار منتخب ہونے اور اپنے بعد صاحب زادے جمال مبارک کے اقتدار کی راہ بھی ہموار کی۔ حسنی مبارک کے ساتھ ہی ان ڈکٹیٹروں کا دستور بھی رخصت ہوگیا۔ ریفرنڈم کے ذریعے ۶۳ شقوں پر مشتمل ایک عبور ی دستور منظور کیا گیا جس میں پارلیمانی و صدارتی انتخابات کے علاوہ ملک کو مستقل دستور تشکیل دینے کا طریق کار بھی طے کردیا گیا۔ طے پایا کہ منتخب پارلیمنٹ کے دونوں ایوان ۱۰۰ ماہرین پر مشتمل دستوری کمیٹی کا انتخاب کریں گے اور یہ کمیٹی چھے ماہ کے اندر اندر دستوری مسودہ تیار کرکے پارلیمنٹ کو پیش کردے گی جس پر عوامی ریفرنڈم کے ذریعے قوم کی راے لیتے ہوئے، یہ جامع دستور نافذ کردیا جائے گا۔
مصر میں قومی اسمبلی کی طرح سینٹ کا بھی عام انتخابات کے ذریعے انتخاب ہوتا ہے۔ دونوں ایوانوں کا انتخاب مکمل ہوتے ہی دستوری کمیٹی منتخب (متعین نہیں) کرلی گئی اور اس نے فوراً دستور سازی کا کام شروع کردیا۔ جمہوریت، مساوات، حقوق اور آزادی کے دعوے داروں نے تعاون کرنے کے بجاے قدم قدم پر بے ڈھنگے اعتراضات کی رکاوٹیں کھڑی کرنا شروع کردیں۔ سارا میڈیا چیخنے لگا کہ چوں کہ پارلیمنٹ پر ایک ہی رنگ، یعنی اسلامی ذہن چھایا ہوا ہے، اس لیے دستوری کمیٹی پوری قوم کی ترجمان نہیں ہوسکتی۔ ’’تنگ نظر اسلام پسندوں‘‘ نے نہ صرف دیگر پارٹیوں بلکہ عیسائیوں سمیت دیگر طبقات کو بھی، اس دستوری کمیٹی میں منتخب کرکے سارے پروپیگنڈے کی قلعی کھول دی۔ اس کے باوجود مختلف ارکان کمیٹی سے استعفے دینے کا اعلان کروایا گیا۔ بدقسمتی سے ان اعلانات کرنے والوں میں کئی دینی ذہن رکھنے والے اور خود جامعہ الازہر بھی شریک ہوگئی۔ کمیٹی نے اپنا کام پھر بھی جاری رکھا تو اکثر اعلان کرنے والے بھی واپس آگئے۔
مجوزہ دستور کی ایک ایک شق پر احتجاج و اعتراضات کی آندھیاں چلائی گئیں، لیکن بالآخر دستور کا ابتدائی مسودہ تیار ہوگیا۔ اب ایک ذیلی کمیٹی اس کی خواندگی کررہی ہے۔ ۱۰ دسمبر کو دستوری مسودہ تیار کرنے کے لیے مقررہ چھے ماہ کی مدت مکمل ہوجائے گی، لیکن ارکان کمیٹی کے بقول انھیں ابھی اس کے لیے کچھ مزید مہلت درکار ہے۔ اسی دوران میں دستوری عدالت کی تلوار سر پر لٹکا دی گئی۔ سازشی عناصر کی ویڈیوز اور دستاویزات نے ثابت کردیا کہ خدشات و خطرات حقیقت بن سکتے ہیں۔ جس طرح صدارتی انتخاب سے صرف ۱۲گھنٹے قبل نو منتخب قومی اسمبلی کو بلاجواز تحلیل کردیا گیاتھا، اب چھے ماہ کی ان تھک جدوجہد کے اختتام پر، صدر کے سامنے دستوری مسودہ لانے سے پہلے پہلے دستوری کمیٹی ہی کو تحلیل کیا جارہا تھا۔ صدر محمد مرسی نے سازشوں کا بروقت سدباب کرتے ہوئے، ایک عبوری حکم کے ذریعے دستور نافذ ہونے تک استثنائی اختیارات حاصل کرلیے۔ اب ان کے کسی فیصلے کو کوئی عدالتی فیصلہ متاثر نہیں کرسکتا لیکن جیسے ہی دستور نافذ ہوجائے گا، یہ استثنائی اختیارات بھی ختم ہوجائیں گے۔ حالیہ صدارتی آرڈی ننس کا ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ کوئی عدالت اس دوران سینٹ یا دستوری کمیٹی کو تحلیل نہیں کرسکے گی۔
صدر کے حالیہ آرڈی ننس میں دوسری اہم بات صدر حسنی مبارک اور اس کے ساتھیوں کے خلاف مقدمۂ قتل کی تحقیقات و سماعت کا دوبارہ شروع کیا جانا ہے۔ حسنی مبارک کے ۳۰ سالہ جابرانہ دور میں تو جو مظالم ہوئے سو ہوئے، اس کے خلاف صرف تین ہفتے کی احتجاجی تحریک کے دوران میں تقریباً ساڑھے نوسو افراد کو شہید کردیا گیا تھا۔ کئی ماہ کی عدالتی تحقیقات کے بعدسیکڑوں افراد کے ان قاتلوں میں سے کسی کو بھی قرار واقعی سزا نہیں دی گئی۔ اس بے انصافی کی ایک اہم وجہ حسنی مبارک کا اپنا نامزد کردہ اٹارنی جنرل عبد المجید محمود بھی تھا۔ جو نہ صرف قتل کے ان مقدمات بلکہ اپنے سابق آقاؤں کی کرپشن کے خلاف لاتعداد مقدمات کی راہ کھوٹی کرنے کی ایک اہم کڑی تھا۔ بعض افراد نے جب اس کی شخصیت کو بے نقاب کیا تو اس نے خود دھمکی آمیز فون کرکے انھیں بلیک میل کرنے کی کوشش کی۔حسنی مبارک اور ہم نواؤں کے اپنی اصل سزا سے بچ نکلنے کے بعد سے عبدالمجید کے خلاف شہدا اور زخمیوں کے ورثا میں بھی اشتعال پایا جاتا تھا۔ صدر مرسی نے اب اس کی جگہ اچھی شہرت کے حامل ایک جج جسٹس طلعت ابراہیم کو نیا اٹارنی جنرل مقرر کردیا ہے۔
ان فیصلوں کو بنیاد بنا کر امریکی وزارت خارجہ اور یورپی یونین سے لے کر مصر کی تمام سیکولر طاقتوں نے صدر مرسی اور ان کی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔ اپنے خلاف تحریک کو کچلنے کے لیے حسنی مبارک کا اصل ہتھیار پیشہ ور غنڈوں کا ایک لشکر تھا۔ اچانک انھی جرائم پیشہ عناصر کو دوبارہ میدان میں اتار دیا گیا ہے۔ انھوں نے مختلف شہروں میں اخوان کے دفاتر نذر آتش کرنا شروع کردیے ہیں۔ دمنہور شہر میں اخوان کے دفتر پر حملہ کرتے ہوئے ایک کارکن اسلام مسعود کو شہید کردیا گیا ہے۔ ججوں کی ایک تنظیم سے عدالتوں کے بائی کاٹ کا اعلان کروادیا گیا ہے اور میدان التحریر میں کچھ لوگ خیمہ زن ہوگئے ہیں، کہ صدارتی حکم نامہ منسوخ کیا جائے۔
اعتراض اور احتجاج سیاسی عمل کا لازمی جزو ہے۔ قانون و اخلاق کے دائرے میں رہ کر احتجاج، نہ صرف ایک مسلمہ حق ہے بلکہ اس سے فیصلوں اور آرا میں تواز ن پیدا ہوتا ہے۔ لیکن اگر مقصد صرف تباہی اور سازشیں کرنا ہی رہ جائے تو پھر نتیجہ سب کے لیے ہلاکت ہے۔ اخوان نے متشدد مخالفین کے مقابلے میں صبر و حکمت کا راستہ اختیار کیا ہے۔ صدر مرسی نے ایک طرف تو تمام سیاسی طاقتوں اور عدلیہ کے ذمہ داران سے ملاقاتیں شروع کردی ہیں اور دوسری طرف قانونی ماہرین کو معاملے کے تمام پہلوؤں پر نظر ثانی کا کہا ہے۔ اگرچہ تقریباً تمام عالمی اور مقامی ذرائع ابلاغ اخوان کے مدمقابل کھڑے ہیں، لیکن عوام کے جذبات و موقف کے اظہار کے لیے اخوان نے بھی ملین مارچ منعقد کرنے کا اعلان کیا۔ ان بڑے عوامی مظاہروں میں اخوان نے تصادم سے بچتے ہوئے، پہلے تو میدان التحریر سمیت ان تمام جگہوں سے دور جاکر اپنے پروگرام کرنے کا اعلان کیا کہ جہاں فتنہ ُجو عناصر عوام کو باہم متصادم کرسکتے ہیں اور پھر عوامی قوت کا اپنا مظاہرہ ملتوی کردیا ۔ مصر کے کئی سیاسی رہنماؤں اور تجزیہ نگاروں نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ چونکہ مخالفین کی سب کوششوں کے باوجود اخوان اپنے قدم مضبوط کرتے جارہے ہیں اس لیے اب ان کی آخری کوشش ملک میں انتشار اور خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کرنا ہے۔ لیکن اب تک کے واقعات ثابت کررہے ہیں کہ مخالفین کی تمام سازشیں خود انھی کے خلاف جاتی ہیں۔ رب ذو الجلال کا ارشاد بار بار اپنی حقانیت منوا رہاہے کہ وَ لَا یَحِیْقُ الْمَکْرُ السَّیِّیُٔ اِلَّا بِاَھْلِہٖ ط (الفاطر۳۵: ۴۳)، ’’حالاں کہ بُری چالیں اپنے چلنے والوں ہی کو لے بیٹھتی ہیں‘‘۔
حسنی مبارک کے جانے کے بعد اخوان نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ انتخابات میں تمام نشستوں پر اُمیدوار کھڑے نہیں کریں گے۔ فوجی جنتا کے اشارے پر اخوان کی بعض حلیف جماعتوں نے اپنے اُمیدواروں کے کاغذات واپس لے لیے اور اخوان کو سب نشستوں پر کاغذات جمع کروانا پڑے، وگرنہ سب کے سب کاغذات مسترد ہوجاتے۔ اللہ نے انھیں دونوں ایوانوں میں اکثریت دے دی۔ lاخوان نے پہلے دن سے فیصلہ و اعلان کیا تھا کہ وہ اپنا صدارتی اُمیدوار نہیں لائیں گے۔ کاغذاتِ نامزدگی داخل کرنے کی مدت ختم ہو نے کو تھی کہ سابق نظام کی باقیات نے حسنی مبارک کے دست راست عمر سلیمان یا احمد شفیق کو صدر بنانے کا فیصلہ کرتے ہوئے، دونوں کو میدان میں اُتار دیا۔ اخوان کی مجلس شوریٰ نے بھی کئی روز کی طویل مشاورت کے بعد، چند ووٹوں کے فرق سے اکثریت راے کے ذریعے اپنا فیصلہ تبدیل کردیا۔ اللہ نے اسی فیصلے میں برکت دی وگرنہ آج اسمبلی تحلیل ہونے کے ساتھ ساتھ ایوانِ صدر میں بھی کوئی دوسرا حسنی مبارک بیٹھا ہوتا۔
اب ایک بار پھر سیاسی بحران عروج پر ہے۔ حالیہ بحران کی ایک خاص بات اس کا وقت بھی ہے۔ اس سے ایک ہی روز قبل غزہ کے خلاف اسرائیل کی تازہ جارحیت اختتام پزیر ہوئی تھی۔ اسے خود فلسطینیوں کی اکثر شرائط قبول کرتے ہوئے جنگ بندی کرنا پڑی تھی۔ اس لڑائی میں دوباتوں نے اسرائیل کو سب سے زیادہ پریشان کیا۔ ایک تو یہ کہ جس فلسطینی تحریک مزاحمت کا آغاز ۱۹۸۸ء میں پتھروں اور غلیلوں سے ہوا تھا اور جس نے فروری ۲۰۰۲ء میں پہلی بار خود ساختہ میزائل (قسام ۱) چلایا تھا، ۲۰۱۲ء میں اس کے تیار کردہ میزائل اسرائیل کے قلب تل ابیب تک جاپہنچے۔ اگر امریکا کا فراہم کردہ خود کار میزائلوں کا دفاعی نظام جسے ’فولادی ڈھال‘ کا نام دیا گیا ہے، جو حملہ آور میزائل کو فضا ہی میں تباہ کردیتا ہے، نہ ہوتا تو اب تک یقیناً ہزاروں اسرائیلی تہ خاک جاچکے ہوتے۔ اسرائیلیوں کے لیے دوسری تلخ اور صدمہ خیز حقیقت یہ تھی کہ گذشتہ جنگ میں مصری حکومت مکمل طور پر اس کی پشتیبان تھی، غزہ کے خلاف جنگ کا اعلان ہی قاہرہ میں بیٹھ کر کیا گیا تھا، لیکن اس بار مصری حکومت پوری قوت کی ساتھ فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑی تھی۔ وزیراعظم ہشام قندیل، عین جنگ کے درمیان غزہ جاپہنچے اور واضح اعلان کیا کہ مصر اپنے بھائیوں کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔ یہ درست ہے کہ اگلے ہی روز اسرائیل نے بم باری کرکے اس وزیراعظم ہاؤس کو راکھ کا ڈھیر بنادیا، جہاں چند گھنٹے قبل مصر اور غزہ کے وزراے اعظم نے اکٹھے اعلان یک جہتی کیا تھا، لیکن تمام اسرائیلی تجزیہ نگار متفق ہیں کہ مصر کے تعاون کے بغیر اور مصر میں اخوان کی حکومت کے ہوتے ہوئے اسرائیل کا مستقبل محفوظ نہیں ہے۔
اس بار صدر مرسی کا راستہ روکنے کے لیے دستوری عدالت کے علاوہ ایڈمنسٹریٹو عدالت بھی میدان میں ہے۔ اس نے صدارتی حکم کے خلاف درخواست منظور کرتے ہوئے ۴ دسمبر کی تاریخ، سماعت کے لیے طے کی ہے، لیکن اس پورے منظر نامے کے باوجود، اللہ کی نصرت پر یقین رکھنے والے یکسو ہو کر پکار رہے ہیں ؎
تندیٔ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے
موجودہ زمانے میں فحاشی اور جنسی بے راہ روی کے جس طوفان نے تمام دنیا کواپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ،اب وہ ہمارے دروازے پر ہی دستک نہیں دے رہا بلکہ ہمارے گھروں کے اندر بھی داخل ہو چکا ہے۔ ٹی وی، ڈش،انٹرنیٹ اور دیگر مخرب اخلاق پرنٹ میڈیا کے ذریعے ہماری نوجوان نسل جس انداز میں اُس کا اثر قبول کر رہی ہے، اُس کے پیشِ نظر یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ ہم بھی یورپ اور امریکا کے نقشِ قدم پر نہایت تیزی کے ساتھ چلے جارہے ہیں،جس پر وہ عیسائی مذہبی رہنمائوں کی غلط تعلیمات و نظریات کے نتیجے میں آج سے ایک ڈیڑھ صدی قبل رواں دواں ہوئے تھے۔ امریکا اور یورپ اس جنسی بے راہروی کی وجہ سے بن بیاہی مائوں، طلاقوں کی بھرمار،خاندانی نظام کی تباہی اور جنسی امراض بالخصوص ایڈز کی وجہ سے تباہی کے دھانے پر کھڑے ہیں۔ کیا مسلمان ممالک بھی اُنھی نتائج سے دوچار ہونا چاہتے ہیں؟یہ اور اس قسم کے چند سوالات ہیں جنھوں نے اس ملک کے سوچنے سمجھنے والے طبقے کو پریشان کیا ہوا ہے۔ اس کا علاج ایک طرف امریکا، یورپ اور اقوامِ متحدہ کی جانب سے مختلف غیر سرکاری تنظیموں کے ایک جال ہم رنگِ زمیں کے ذریعے مسلمان ممالک کو اُسی رنگ میں رنگنے کے لیے کوششوں سے ہو رہا ہے۔ تاہم اس کا دوسرا یقینی اور قابلِ اعتماد حل وہ ہے جو ہمیں قرآن اور اسلامی تعلیمات کے ذریعے دیا گیا تھا، جسے نظرانداز کرنے اور بھلانے سے ہم آج اس دوراہے پر کھڑے ہیں۔ زیر نظر مضمون میں اس موضوع کے مختلف پہلوئوں پر گفتگو کی گئی ہے۔
موجودہ زمانے میںجنس اور جنسیت کے بارے میں ایک متوازن اور معتدل نقطۂ نظر پیش کرنے کی ضرورت طویل عرصے سے محسوس کی جارہی تھی۔ خاص طور پر ہماری وہ نسل جو آج کل کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں زیر تعلیم ہے، جہاں مخلوط تعلیم کی بنا پر وہ ہر وقت آپس میں ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے ہیں۔ وہ ایک کلاس روم میں پڑھتے ہیں، ایک جگہ لائبریری، لیبارٹری میں کام کرتے ہیں اور تعلیمی اداروں سے باہر ہوٹل، پارکوں اور دیگر تفریحی مقامات پر بھی انھیں میل جول کے مواقع حاصل ہیں۔ انھیں باربار یہ ضرورت پیش آتی ہے کہ وہ یہ جانیں کہ اسلام کا اس حوالے سے کیا نقطۂ نظر ہے اور ایک دوسرے کے ساتھ باہمی تعلقات رکھنے میں انھیں اسلام کے کن قوانین اور حدودوقیود کا خیال رکھنا چاہیے۔
آج سے چالیس پچاس سال قبل تو شاید یہ معلومات صرف ان مسلمانوں کے لیے ضروری تھیں جو تعلیم کے حصول، کاروبار یا بسلسلۂ ملازمت امریکا اور یورپ کے ممالک میں قیام پذیر ہوتے تھے۔ تاہم گذشتہ دو تین عشروں میں تو یہ سوال ایک حقیقت کے طور پر سامنے آ گیا ہے کہ اس سے صرفِ نظر کرنا کسی ہوش مند فرد کے لیے کسی صورت بھی مناسب نہیں۔ اگرکسی کے دل میں موجودہ نوجوان نسل کے بارے میں ’معصوم‘ہونے کا خیال ہے تو یہ خود فریبی ہے اور حقائق سے کورچشمی کی دلیل ہے۔
پاکستان میں نوجوان نسل جس تیزی کے ساتھ بگاڑ کا شکا ر ہو رہی ہے ، اس کے اندازہ اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں سے باآسانی لگایا جا سکتا ہے۔گذشتہ دنوں راولپنڈی کے ایک سکول کی تین طالبات اور تین طلبہ کے سکول سے غائب ہو جانے اور پھر دو تین دن کے بعد پشاور کے ایک ہوٹل سے برآمدہونے کا واقعہ جس خطرناک رجحان کی نشان دہی کر رہا ہے وہ ہماری آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہونا چاہیے۔یہ صورتِ حال تو یوں سامنے آئی کہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں دو تین دن تک گھروں سے غائب رہے، وگرنہ صبح جا کر شام تک یونی ورسٹی، کالج اور ہوٹلوں میں وقت گزار کر شام کو واپس آنے والے بچوں کا تو شمار ہی نہیں کیا جا سکتا!
اس ضمن میں جنرل (ر) عبدالقیوم لکھتے ہیں کہ: ’’مغرب کا نعرہ ’آزادی‘وہ آزادی ہے جس کو ساری مہذب دنیا مادر پدرآزادی کہتی ہے۔ اس آزادی کا مطلب یہ بھی ہے کہ آپ کی جواں سال بیٹیاں یا بیٹے بے شک بغیر شادی کے اپنے جوڑے چن لیں، حتیٰ کہ ناجائز بچے بھی پیدا کرلیں تو ماں باپ کو یہ حق نہیں کہ وہ ان سے کوئی سوال بھی کر سکیں۔بدقسمتی سے اب پاکستانی معاشرے میں بھی بے حیائی عام ہوتی جارہی ہے۔ کیبل پر انتہائی واہیات پروگرام دیکھ کر اب ٹیلی ویژن پر شرم وحیا سے عاری اشتہار بھی مہذب لگنے لگے ہیں۔ موبائل ٹیلی فون ، انٹرنیٹ اور کیبل نیٹ ورک کے غلط استعمال سے ہماری نوجوان نسل تباہ ہو رہی ہے‘‘۔(نواے وقت، ۱۱مئی ۲۰۱۲ئ)
اس پس منظر میں ہمیں اس سوال پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا اسلام نے انسانی زندگی کے اس اہم ترین شعبے (جنسیت)کے بارے میں کوئی رہنمائی دی ہے یا دیگر مذاہب کی طرح اس بارے میں انسان کومادرپدر آزاد چھوڑ دیاگیا ہے؟
تاریخِ انسانی کے طویل دورمیں جنسیت کے حوالے سے انسان دو انتہائوں کے درمیان ہچکولے کھاتا نظر آتا ہے۔ایک انتہا یہ ہے کہ انسان پر اس حوالے سے کوئی قانونی ، اخلاقی، معاشرتی یا مذہبی پابندی عائد نہیں۔ وہ جب ، جہاں اور جس کے ساتھ چاہے اس جبلت کی تسکین کر سکتاہے، اور مرد پر بلخصوص اس کے نتائج کے بارے میں کسی قسم کی کوئی پابندی بھی عائد نہیںہوتی۔اسے مغرب کے موجودہ زمانے کی اصطلاح میں مادرپدرآزاد جنسی آزادی (Free Sex)کہتے ہیں۔ تاہم، یہ انوکھااور جدید تصور نہیں۔ قرآن کریم نے مصر کے ہزاروں سالہ پرانے جاہلی معاشرے میں انفرادی اور اجتماعی سطح پر (Group Sex)کی تصویر کشی سورۂ یوسف (۱۲:۲۳-۳۰) میں کر دی ہے۔ انسانی زندگی میں جنسی رویے کی دوسری انتہا جس کا ذکر بھی قرآن کریم نے سورۂ حدید (۵۷:۲۷) میں کر دیا ہے، وہ راہبانہ تصور ہے جس کا تعلق اس فطری جبلت کو ختم کرنے کے لیے دنیوی علائق کو تیاگ دینے اور لنگوٹ کس کر جنگلوں ، پہاڑوں میں زندگی بسر کرنے سے ہے۔ عیسائیت میں اس تصور کو فروغ دینے کا بانی سینٹ پال تھا، جس کے بعد متعدد کلیسائی رہنمائوںنے نہ صرف اس کی تلقین کی بلکہ اس پر عمل پیرا بھی ہوئے۔ تاریخِ انسانی ان راہبوں کے گھنائونے اور انسانیت کش حالات سے بھری ہوئی ہے جس کے تحت شادی (نکاح) کے ذریعے میاں بیوی کے درمیان تعلقات کو بھی بنظرتحسین نہیں دیکھا گیا۔
اٹھارھویںصدی عیسوی یورپ کی عورتوں کے لیے بالخصوص اور تمام دنیا کی عورتوں کے لیے بالعموم ایک ایسی ’بدقسمت صدی‘ ثابت ہوئی جس کے مسائل اور آلام ومصائب سے انسانیت آج تک بلبلا رہی ہے اور نہ معلوم کتنے عرصے تک اُسے اس کے برے اثرات کا سامنا کرنا پڑے۔ ۱۷۶۰ء کی دہائی سے شروع ہونے والے صنعتی انقلاب کی وجہ سے دیہاتوںسے شہروںکی جانب آبادی کے بہائو (urbanization) کے نتیجے میںیورپ کے بڑے بڑے شہر تو آباد ہوگئے لیکن اس کی وجہ سے یورپین خاندانی اور معاشرتی ڈھانچا زیروزبر ہو گیا۔ بعدازاں جنگ عظیم اوّل اور دوم کی وجہ سے مردوعورت کے تناسب میں ایک ایسا تفاوت پیدا ہو گیا جس کے نتیجے میں جنسی وصنفی انارکی کا ایک طوفان بے محابہ اٹھ کھڑا ہوا۔ عورتوں کو اپنے خاندان کے وجو دکو برقرار رکھنے کے لیے نہایت قلیل معاوضے پر طویل دورانیے کے لیے کام کرنا پڑا۔ سرمایہ دار نے ان کی محنت کا ہی استحصال نہیںکیا بلکہ ان کی عزت و عصمت کا بھی سودا کر لیا۔
صنعتی انقلاب کے تلخ پھل جو کام کی زیادتی ، کم تنخواہ، عزتِ نفس کے مجروح ہونے اور عصمت و عفت کے لٹ جانے کی شکل میںظاہر ہوئے، ان کی وجہ سے یورپین عورت اس امر پر مجبور ہوگئی کہ وہ شادی کے بندھن سے چھٹکارا حاصل کرے ۔ کیونکہ وہ یک و تنہا بیمار یامعذور خاوند اور بچوں کے خاندانی نظام کو چلانے کی سکت نہیں رکھتی تھی۔ علاوہ ازیں، صنعتی ترقی نے لوگوں کو جہاں سہولیات اور آسایشات مہیا کیں، وہیں ان کی زندگیوں میں تلخیاں بھی بھر دیں۔ ا ب گھر میں ان تمام سہولیات کی فراہمی کے لیے عورت کو بھی اتنا ہی کام کرنا پڑا جتنا قبل ازیں مرد کیا کرتا تھا اور یہیں سے خاندانی نظام میں توڑ پھوڑ شروع ہوئی۔
عورت گھر سے باہر نکلی تو دنیا کے تقاضے مختلف پائے۔اب اس کے سامنے دو راستے تھے: ایک تو یہ کہ گھر واپس لوٹ جائے، مگر اس صورت میں سہولیات اور آسایشات سے محرومی نظر آتی تھی۔ دوسری راہ اس سے بالکل متضاد تھی کہ وہ مرد کے ساتھ مسابقانہ اصول کے تحت اپنی نسوانیت کو خیر باد کہتے ہوئے شرم و حیا کو بھی بالاے طاق رکھے اور ’ہل من مزید‘ کی آس میں مرد کی ہوس کا شکار ہوتی رہے۔یہ راہ جنسی بے راہ روی کے اس میدان تک لے گئی جہاں عورت اب ماں، بہن ، بیوی یا بیٹی نہیں رہی تھی بلکہ جنسی کشش اور دعوت کا نمونہ بن گئی۔ انھی حالات میں اس کے اندر پیدا ہونے والی سوچ نے ایک ردعمل کو جنم دیاجو بتدریج بڑھتا ہوا احتجاجی مظاہروں، جلسے جلوسوں اور تشہیری مہم کے ذریعے اس قدر طاقت ور ہو گیا کہ نتیجتاً عورتوں کو مردوں کے برابر معاوضے کا حق مل گیا۔
بات یہیں تک رک جاتی تو گوارا تھا۔عورت گھر سے باہر نکلی، کام اور معاوضے کا حق تسلیم کیا گیا،ہر سطح پر برابری ملنے لگی تو بالآخر معاملہ نسوانی تحریکوں (فیمینزم) کے ایک چونکا دینے والے مرحلے میں داخل ہو گیا۔عورتوں نے شادی کے ادارے ہی کو چیلنج کر دیا۔ ان کے خیال میں شادی اور خاندان کا ادارہ عورت کو محکوم بنانے کی ’مردانہ سازش ‘ تھی۔اس ’سازش‘ کے خلاف ’جنگ‘ یوں جیتی جا سکتی تھی کہ عورت بیوی اور ماں بننے کے لیے’خود مختارانہ فیصلے ‘کرنے کی اہل ہو۔یوں سمجھیے کہ گیند اب ایک ڈھلوان سڑک پر تھی جو آگے ہی آگے چلی جا رہی تھی۔عورتوں نے جنس کے فطری تقاضے کی تسکین کے لیے ازدواجی حدود یکسر مسترد کر دیں اور ایک نیا نعرہ بلند ہوا کہ ’’عورت کا جسم اس کی اپنی ملکیت ہے جس پر کسی دوسرے کا کوئی اختیار نہیں ‘‘۔ مردوں کے لیے یہ امر خوش کن تھا۔عورت اور مرد ، دونوں اپنے اپنے گمان میں مسرور اور مطمئن ہو گئے ۔لیکن اس کی کس قدر قیمت طبقۂ نسواں اور انسانیت کو ادا کرنی پڑی اس کا ابھی تک مکمل شعور انسان کو نہیں ہوسکا۔
اٹھارھویں صدی میں چرچ اور سائنس کے درمیان جو جنگ لڑی گئی اس میں چرچ کے غیر عقلی اور غیرمنطقی طرزِ عمل سے اس کا دائرہ ِعمل یورپ کی سوشل زندگی اور بالآخر ریاست کے دائرۂ کارسے بالکل علیٰحدہ ہوگیا۔انقلابِ فرانس اور مارٹن لوتھر کے ذریعے الحادی نظام کو جڑ پکڑنے کا موقع ملا اور یوں چرچ نے خود اپنے آپ کو ویٹی کن سٹی (روم) کی چاردیواری تک محدود کر لیا۔مزید برآںعیسائیت کو دیگرتمام الہامی مذاہب کے برابر گردانتے ہوئے یورپی مفکرین نے تمام مذاہب بشمول اسلام کو بھی خدا اور انسان کے درمیان ایک پرائیویٹ تعلق کی حد تک محدود کرنے کا پرچار شروع کیا، جس سے موجودہ زمانے کے مسلمان بھی اس تصور کے قائل ہو گئے، اور یوں دین ودنیا کی دوئی کا تصور جڑ پکڑتاچلا گیا جس کے نتائج ِبد سے آج انسانیت کراہ رہی ہے۔
موجودہ زمانے میںعورتوں کی عزت و احترام کے کھو جانے کی وجہ سے عورت ، مردوں کے ہاتھوں جنسی شہوت اور لذت کے حصول کا ذریعہ بن کر رہ گئی ہے۔یورپ ،امریکا اور بھارت کی عریاں فلم ساز صنعت (Pornographic Industry) اس کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے۔ ان حالات میں ہر اس عورت سے، قطع نظر اس سے کہ اس کا تعلق مشرق سے ہے یا مغرب سے ، وہ مسلم ہے یا غیرمسلم،وہ امیر ہے یا غریب لیکن جو تہذیبِ جدید کی دوڑ میں شریک ہونے کی خواہش مند ہے، اس سے ایک سوال پوچھنے کو جی چاہتاہے کہ کیا اس کی زندگی کا آئیڈیل صرف ایک پلے گرل (Play Girl) بننا ہی رہ گیا ہے کسی پلے بوائے(Play Boy)کے ہاتھوں ؟
جنسیت کا موضوع ،انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے دونوں پہلوئوں پر حاوی ہے۔یہ ایک ایسا موضوع ہے جس کی حدود اخلاق،تہذیب و ثقافت سے ملتی ہیں،اور قانون کے علاوہ معاشرتی آداب اور طور طریقوں سے بھی۔اگرچہ جنسیت ایک انسانی جبلت ہے، تاہم نکاح کے نتیجے میں بچوں کی پیدایش کے ذریعے انسانی معاشرے کی بقا اور ترقی کا انحصار بھی اس امر پر ہے کہ اس جبلت کو کس طرح ایک ضابطے کے تحت رکھا جائے۔ اس کا اظہار کس طریق پر ہونا چاہیے اوراس سے کس حد تک استفادہ یا اجتناب کرنا ضروری ہے۔ تاریخ ِ انسانی سے یہ سبق ملتا ہے کہ جب اور جس جگہ جنسیت اس قدر عام ہو جاتی ہے جیسا کہ امریکا اور دیگر مغربی ممالک میں، تو بلاشبہہ وہاں معاشرے اور قوم کو اس کی بہت بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔یونان، روم، ہندستان، نیز قدیم مصری تہذیبوں کا خاتمہ اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ ان ممالک میں انصاف کم یاب، طبقاتی تفریق ایک حقیقت، اوربے لگام جنسیت عام ہو گئی تھی ۔ پھر قانونِ الٰہی کے مطابق وہ اقوام بالآخر نیست ونابود ہوگئیں۔ایک انسان اس امر کا اندازہ نہیں کر سکتا کہ ان قوموں سے قدرت نے کس قدر سخت انتقام لیا، اور اس طرح کی خوف ناک سزا کسی قوم کو اس وقت ہی ملتی ہے جب وہ جنسیت کے بارے میں مادرپدر آزاد رویہ اختیار کر لیتی ہے۔یہاں اس امر کی صراحت شاید ضروری ہو کہ دنیا بھر میں جہاں جہاں جنسی جذبے کی تسکین بے محابہ انداز میں کی جارہی ہے، وہاں خاندانی نظام تلپٹ ہو کر رہ گیا ہے۔ایسے حالات میں خاندان کا ادارہ جس کے ذریعے مستقبل کی نسل کی پرورش کا فریضہ سر انجام دیا جاتاہے قائم نہیں رہتا۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے موجودہ حالات کے پیشِ نظر یہ خیال کہ وہ ایک بہت بڑے حادثے سے دوچار ہونے والے ہیں، بعید ازقیاس نہیں___ اگرچہ ان ممالک کے نوجوان طبقے میں عیسائیت کے خلاف جو جذبہ بغاوت پیدا ہو گیا ہے وہ صحیح نہیں۔ تاہم، اس مقالے کے آغاز میں جن چند واقعات کا تذکرہ کیا گیا ہے، کیا وہ واضح کرنے کے لیے کافی نہیں کہ پاکستان میں بھی حالات ان ممالک سے بہت زیادہ مختلف نہیں۔بدقسمتی سے یہاں مذہبی لیڈر حضرات نے معاشرے کے مختلف طبقوں کو، جس میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں سرفہرست ہیں،جنسی جذبے کی اہمیت اور انسانی زندگی میں اس کے جائزاور صحیح استفادے کے بارے میں بتانے سے مجرمانہ حدتک تساہل و تغافل برتا ہے ۔اس ضمن میں زیادہ تر لٹریچر تعزیروں اور عذابوں کی تکرار پر مشتمل ہے، جسے آج کا تعلیم یافتہ اور بالخصوص مغربی تعلیم سے متاثر پاکستانی نوجوان طبقہ آسانی سے قبول کرنے کو تیار نہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اسے منطقی اور سماجی حالات کو مد ِ نظر رکھ کر سوچنے سمجھنے کا خوگر بنایا جائے کہ جسے وہ محض دو افراد کے درمیان وقتی لذت کوشی اور فطری جذبے کی تسکین کا نام دیتے ہیں، حقیقت میں اس کے اثرات نہایت ضرر رساں اور خوف ناک ہو سکتے ہیں۔ انسانی زندگی میں نکاح یا بیاہ کی ضرورت ،خاندانی نظام کے قیام ، بچوں کی تربیت، نیز میاں بیوی کے درمیان محبت و مودت پر مبنی تعلیمات اور خاندانوں کے درمیان اتفاق و اتحاد کے مثبت نتائج سے انھیںآگاہ نہیں کیا جاتا۔ جب تک کہ موجودہ روش کے نتیجے میں گھریلو تشدد ،بچوں کی تربیت پر مضرت رساں اثرات، طلاق اور اس سے متعلقہ نفسیاتی ، معاشی اور معاشرتی مسائل کی طرف ان کی توجہ نہیں دلائی جاتی، محض پند و نصائح پر مشتمل چند لمحوں کی گفتگو کسی طور بھی مطلوبہ نتائج کی حامل نہیں ہو سکتی۔جنسی ہیجانات کی وجہ سے مسلم سوسائٹی میں سخت خلفشاربرپاہے ، جو ہر آنے والے لمحے میں بڑھتا ہی جا رہا ہے ۔اس بارے میں اسلامی رہنمائی تو موجود ہے مگر اس موضوع کو ’شجرممنوعہ‘ بنا دیا گیا ہے۔ اسلامی تعلیمات پر مبنی مناسب لٹریچر کی عدم موجودگی، یا کم دستیابی کے نتیجے میں نوجوان طبقہ مجبوراً یہ معلومات ٹی وی، ڈش اور انٹر نیٹ سے حاصل کررہا ہے، اور چونکہ ان ذرائع سے جو معلومات حاصل ہوتی ہیں، ان میںلذتیت کا پہلو بہت نمایاں ہو تا ہے، اس کی وجہ سے نوجوان طبقہ اسی ایک پہلو پر عمل کر تاہے۔ یوں معاشرے میں بہت سے اخلاقی اور معاشرتی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔
اسلام میں انسان کی جسمانی، روحانی،عقلی اور جذباتی احساسات کی تمام تر ضروریا ت کو پیش ِنظر رکھا گیاہے۔ قرآن کریم نے زندگی کا کوئی ایسا پہلو نہیں چھوڑا جو انسانی زندگی کی کامیابی کے لیے ضروری نہ ہو ۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو صحت و جوانی کے ساتھ ساتھ جنسی داعیہ بھی دیا ہے، لہٰذا اس کو ختم کر نا یا اس سے جائز طریق پر استفادہ نہ کرنا منشاے الٰہی نہیں ہو سکتا۔اسلام کے نزدیک کوئی ایسا کام جو انسانی زندگی میں انتہائی دنیوی سمجھا جاتا ہو اگر احکامِ خداوندی کے مطابق کیا جائے تو وہ ایک روحانی اور مذہبی عمل بن جاتاہے، حتیٰ کہ میاں بیوی کے درمیان تعلق بھی ایک باعثِ ثواب عمل بن جاتا ہے ۔یہ اسلام کا ایک طرۂ امتیاز ہے کہ اس نے انسانی زندگی کے تمام پہلوئوں کو اس طرح باہم سمو دیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔
درجِ بالا گفتگو سے اب ہم اس مرحلے پر پہنچ گئے ہیں جہاں ایک شخص کے ذہن میں یہ سوال ابھرتاہے کہ آخر وہ کون سی تعلیمات ہیں جو اسلام نے ایک مسلمان کو اپنی جنسی زندگی کی رہنمائی کے لیے دی ہیں؟بہت سے لوگوں کو اکثر اوقات اس بات پر ہی اچنبھا محسوس ہوتا ہے کہ کیا اس موضوع پر بھی قرآن کریم جیسی الہامی کتاب میں کوئی رہنمائی دی گئی ہے؟۔صدیوں تک ہندووں کے ساتھ رہنے کا یہ نتیجہ نکلا کہ اسلام کو بھی ایک مذہب ہی سمجھا گیا جس کے معنی صرف عبادت (پوجا پاٹ) کے لیے چند ظاہری رسوم کی پیروی کرنا ہے۔ مغربی تعلیم و تہذیب کے زیرِاثر یہ بات ہمارے ذہنوں میں راسخ ہو گئی کہ دنیاوی معاملات ازقسم شادی بیاہ ، لین دین، سیاست، اخلاق اور زندگی کے دیگر مختلف پہلوؤں میں ہم آزاد ہیں کہ جس طرح چاہیں اپنی مرضی سے یا معاشرے میں مروجہ رسم و رواج کے مطابق عمل کریں جو اسلامی تعلیمات اور اسوہ رسولؐ سے کوسوں دُور ہی نہیں بلکہ متصادم بھی ہیں۔اس جگہ اس امر کی وضاحت بہت ضروری ہے کہ اسلام دنیا کے معروف معنوں میں کوئی مذہب نہیں بلکہ زندگی گزارنے کا طریقہ کار ہے جس نے مسلمانوں کو زندگی کے تمام انفرادی اور اجتماعی معاملات کے لیے واضح ہدایات دی ہیں۔اسی طرح اس میں حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لے کر قیامت تک کے انسانوں کے لیے ان کی جنسی زندگی کے لیے بھی ہدایت و رہنمائی کا اہتمام کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر محمد آفتاب خان پروفیسر ہیں اور اس موضوع پر کئی کتب کے مصنف ہیں، جب کہ ریاض اختر سابق جائنٹ سیکرٹری حکومت پاکستان اور جینڈر ڈویژن کے انچارج رہے ہیں۔
سوال: ۱-سیکولرزم کے غلبے میں دنیا سمٹ کر رہ گئی ہے۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں خدا اور خدا کے قانون کو نہیں مانتے اور آہستہ آہستہ کسی بھی مذہب کو نہ ماننے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ فیشن، خوراک، چیزوں کے برانڈ، ہر چیز ہی اب ایک کلچر کی صورت اختیار کرگئی ہے۔ مسلمانوں نے بھی بالخصوص جو ملک سے باہر رہتے ہیں، اس کلچر کو اختیار کررکھا ہے (حرام کے عنصر کو نکال کر)۔ چونکہ اس کلچر کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس لیے زیراستعمال چیزوں میں ہم بھی وہی برانڈ استعمال کرتے ہیں جو یہاں (بیرونِ ملک) لوگ کر رہے ہوتے ہیں، اور پردے ہی میں سہی مگر فیشن کے مطابق کپڑے پہنتے ہیں۔ اسلام میں دوسرے مذاہب اور اقوام کی مشابہت اور نقالی سے منع کیا گیا ہے۔ کیا ہمارا عصرِحاضر کے مطابق (حرام و حلال کا خیال رکھتے ہوئے) اس طرزِزندگی کو اختیار کرنا جائز ہے؟
۲- سالگرہ کو لوگ کسی قوم کی نقالی کے بجاے گلوبل کلچر کا حصہ سمجھتے ہیں، اور ساتھ میں یہ بھی کہتے ہیں کہ ہماری نیت کسی قوم کی تقلید کی نہیں بلکہ بس اپنے بچے کی خوشی یا محض مل جل کر بیٹھنا ہے۔ ایسی صورت میں اگر کوئی سالگرہ کی دعوت پر بلائے تو کیا مجھ پر اُس کا یہ حق ہے کہ میں سنت کے مطابق اِس کی دعوت کو قبول کروں یا بھلے طریقے سے معذرت کی جاسکتی ہے؟علما سالگرہ کو بدعت قرار دیتے ہیں۔ یہ بدعت کس طرح ہے؟ کوئی بھی شخص سالگرہ کی تقریب دینی رسم سمجھ کر تو نہیں کرتا ہے۔ میں ذاتی طور پر اسے مناسب نہیں سمجھتی اور مجھے لگتا ہے کہ اس سے خواہ مخواہ دوستوں اور رشتہ داروں پر سماجی دبائو آجاتا ہے لیکن پھر بھی لوگ بلاتے ہیں۔ اس معاملے میں کس قدر سخت رویے کی گنجایش ہے۔
۳-عورتوں کے بال کٹوانے پر رہنمائی فرمایئے؟ برعظیم پاک و ہند کے علما اس کو درست نہیں سمجھتے لیکن دوسری طرف شیخ عبدالعزیز بن بازؒ کا اس کے جواز میں فتویٰ موجود ہے۔ براہ مہربانی رہنمائی فرمایئے کہ اگر کوئی عورت شرعی پردہ کرتی ہو لیکن صرف اپنی یا اپنے شوہر کی خوشی کے لیے اپنے بالوں کو کٹوائے تو کیا یہ جائز ہوگا یا دوسروں پر بُرے اثرات مرتب ہونے کا خدشہ ہے؟
بالوں کو رنگوانے کے متعلق بھی وضاحت فرما دیجیے کہ آیا صرف اپنے یا شوہر کے شوق کی خاطر بالوں کو رنگوایا یا بلیچ کروایا جاسکتا ہے، جب کہ عورت شرعی پردے کا خیال رکھتی ہو؟ کیا ہم کسی ایسی کارکن یا داعی کے محاسبے کا حق رکھتے ہیں؟
۴- مغرب میں جن جوتوں میں چمڑے کا استعمال ہوتا ہے بالعموم وہ خنزیر کی کھال کے ہوتے ہیں اور شرعی اعتبار سے ایسے جوتوں کا استعمال حرام قرار دیا گیا ہے۔ اس صورت حال میں اچھے جوتوں کی خریداری بہت مشکل ہوجاتی ہے، بالخصوص ملک سے باہر رہتے ہوئے۔ سوال یہ ہے کہ کوئی کتنا اس بات کا مکلف ہے کہ وہ خریداری سے پہلے اس بات کی تحقیق کرے کہ اس میں کون سا چمڑا استعمال کیا گیا ہے؟
جواب: آپ کے سوالات پڑھ کر اس بات پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ لادینیت کے دور میں بھی اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی عنایت سے ایسے افراد دنیا کے ہرگوشے میں پھیلے ہوئے ہیں جنھیں معاشرتی معاملات میں حلال و حرام کی فکر ہے اور جو عصرِحاضر میں تمام مشکلات و مصائب کے باوجود اپنے رب کو خوش کرنے اور صرف اس کی رضا کے حصول کے لیے اپنے رہن سہن اور رسومات کو شریعت کے مطابق دیکھنا چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسی نیک روحوں میں مزید اضافہ فرمائے اور دنیا میں جہاں کہیں بھی ایسے صالح افراد پائے جاتے ہیں انھیں اسلام کی صحیح تصویر عملاً پیش کرنے کی توفیق دے،آمین!
سوالات میں جہاں تک نظری طور پر بعض معامات کے درست یا نادرست ہونے کا تعلق ہے، اس میں یہ بات سامنے رکھیے کہ اسلام تمام انسانوں اور تمام ادوار کے لیے آیا ہے۔ اس لیے یہ لباس، غذا اور معاشرتی تعلقات کے عالم گیر اصول دیتا ہے۔ یہ کسی مقامی ثقافت، رسوم و رواج اور عرف کا غلام نہیں ہے۔ رسومات ہوں یا کسی دور کا کوئی طرزِعمل، ان سب کو قرآن و سنت کے ابدی اصولوں پر جانچ کر دیکھنا ہوگا کہ وہ کہاں تک ان اصولوں سے مطابقت رکھتے ہیں۔
اسلامی کلچر عربی یاعجمی روایات کا نام نہیں ہے۔ اسلام کا مقصد عربوں اور عجمیوں دونوں کو مسلمان بنانا ہے۔ مسلمانوں کو عرب یا عجمی بنانا نہیں ہے۔ وہ تمام طریقے جو جاہلیت کے تھے اور جو ان کی پہچان تھے اور جسے عربیت [عروبہ] کہا جاتا تھا، ان کو خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پائوں تلے روندا اور صرف کلمۃ اللہ کے اعلیٰ ہونے کا اعلان اپنے آخری خطبے میں (حج کے موقع پر) فرما کر اسلامی ثقافت ، فکر اور کلچر کی بنیاد توحیدِ خالص پر قائم فرمائی۔ قرآن کریم نے تبرجات الجاہلیہ کو رد کرتے ہوئے ہر اس عمل کو رد کیا جو اللہ اور رسولؐ کی معصیت کی طرف لے جانے والا ہو۔
یہ بات درست نہیں ہے کہ کلچر سیکولر ہو یا مغربی یا مشرقی، اس کا تعلق مذہب کے ساتھ نہیں ہے۔ کلچر یا ثقافت دراصل دینی عقائد و تعلیمات کا ایک عکس ہوتا ہے۔ اس لیے جو لوگ شرک پر یقین رکھتے ہیں، ان کا کلچر مشرکانہ ہوگا، اور جو توحید کو مانتے ہیں ان کا کلچر توحیدی ہوگا (یہ مضمون الگ تفصیلی بحث کا مستحق ہے۔ اس لیے ہم اسے نامکمل چھوڑتے ہوئے اصل سوال کی طرف آتے ہیں)۔
مخصوص برانڈ کی چیز کے استعمال میں مشابہت کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا کیونکہ کوئی بھی برانڈ کسی خاص طبقے کی اجارہ داری یا پہچان نہیں ہے۔ ایک یہودی ہو یا دہریہ، یا ایک مخلص مومن، جو بھی اس کی مطلوبہ قیمت ادا کرے گا وہ اسے استعمال کرسکتا ہے۔ اس لیے اسے مشابہت سے خلط ملط کرنا درست نہیں ہوگا۔ ہاں، اگر کوئی شے ایک خاص فرقہ یا مذہبی گروہ سے وابستہ ہے اور اسے استعمال کیا جائے تو مشابہت کی تعریف میں آئے گا، مثلاً صلیب یا چھے کونوں والے تارے کا استعمال۔
جہاں تک کسی ایسی تقریب میں جانے کا تعلق ہے جہاں فواحش و منکرات [ناچ گانا، عریانی، حرام مشروب کا استعمال] کیا جارہا ہو، تو واضح ہے ایسا کرنا اسلام کے منافی ہے، لیکن اگر کسی سالگرہ کی تقریب میں آپ کو مدعو کیا گیا اور آپ شرکت سے انکار کریں تو قطع رحمی ہوگی۔ اگر یہ بھی معلوم ہو کہ وہاں ناچ گانا یا شراب کا استعمال نہیں ہورہا، تو صلہ رحمی کے پیش نظر وہاں جاکر نصیحت کی بات پہنچانا اور گفتگو میں اس طرف متوجہ کرنا کہ اس قسم کی تقاریب میں اسراف نہ ہو، غیرمسلموں کی نقل نہ کی جائے، وہ چیزیں نہ ہوں جن سے دوسروں کی نقالی ثابت ہوتی ہو ، ایک دعوتی عمل کی شکل اختیار کرسکتا ہے۔ دین کے حوالے سے یہ بات سمجھ لیجیے کہ یہ مثبت اور تعمیری فکر کی تعلیم دیتا ہے محض منہیات کا نام نہیں ہے۔ جن باتوں سے منع کیا گیا ہے وہ محدود ہیں جن کو کرنے کی طرف اُبھارا گیا ہے وہ لاتعداد ہیں۔ یہ بھی ہے کہ راستے میں چلتے ہوئے ایک کانٹا یا پتھر جو لوگوں کو تکلیف پہنچاسکتا ہے اسے دُور کردیا جائے۔ اگر خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم عکاظ کے میلے میں جاکر دعوتِ اسلامی پیش فرماتے ہیں تو کسی ایسی تقریب میں، وہ سالگرہ کی ہو یا نکاح کی جس میں فحاشی و عریانی اور منکرات کا امکان بظاہر نہ ہو،جانا شریعت کے منافی کیسے ہوسکتا ہے۔
سالگرہ کے بارے میں آپ کی ذاتی راے کا پورا احترام کرتے ہوئے آپ کا رویہ یہ ہونا چاہیے کہ چاہے ذاتی طور پر نہ آپ سالگرہ منائیں نہ اسے درست سمجھیں، لیکن اگر ایسے موقع کو آپ دعوت کے لیے استعمال کرسکتی ہیں تو کیا ایسے موقع کو ضائع کرنا شریعت کا مقصود ہے؟
بال کـٹوانا اور رنگوانـا: بال کٹوانے پر اگر شیخ عبدالعزیز بن باز مرحوم نے اور شیخ یوسف القرضاوی نے فتویٰ دیا ہے تو میری معلومات کی حد تک اس کی واضح دلیل اس اصول میں ہے جس میں ایک بڑی بُرائی سے بچنے کے لیے کم تر کا اختیار کرنا مصلحت دینی ہے ۔ اگر ایک شوہر اور اس کی بیوی یہ سمجھتے ہیں کہ بیوی کے بال ترشے ہوئے ہوں تو ذاتی پسند و ناپسند سے قطع نظر اسے ممنوع نہیں کہا جاسکتا۔ جس بات کی ممانعت ہے وہ بالوں میں بال جوڑنے کی ہے بالوں کو کاٹنے کی نہیں۔
دوسری جانب یہ بات کہ اس طرح مرد اور عورت کا تشخص ختم ہوجاتا ہے اس وقت قوی ہے جب ایک مسلمان خاتون بال کٹوا کر سر کھول کر بازاروں میں پھر رہی ہو۔ اگر ایک بیوی اپنے شوہر کی خواہش کی بناپر بال تراش کر [وہ جس طرح کے بھی ہوں] اس کے سامنے آتی ہے اور جب باہر جاتی ہے تو اس کا سر اور تمام جسم ڈھکا ہوا ہے تو اس میں معاشرے کو کیا خطرہ ہے؟ کیا وہ معاشرے میں مشابہت کی تشہیر کر رہی ہے؟ ہاں، اگر کوئی عورت بال کٹوا کر سر کھول کر سب کے سامنے پھرتی ہے تو مشابہت سے زیادہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی شریعت کی مخالفت ہے جس کا مطالبہ یہ ہے کہ وہ حجاب، یعنی سر ڈھانک کر باہر نکلے۔ شرعی پردے کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث نے قیامت تک کے لیے متعین کردیا جس میں آپؐ سیدہ عائشہؓ کو ہدایت فرماتے ہیں کہ جب ایک مسلمان بچی بالغ ہوجائے تو چہرے اور ہاتھ کے سوا تمام جسم ڈھکا ہوا ہو۔ اس میں بالوں کی سیٹنگ کہیں آس پاس نہیں آتی کیونکہ جب سر مکمل طور پر ڈھک گیا تو حجاب کے اندر بال لمبے ہوں یا چھوٹے، اس سے کسی کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔
بال رنگوانے کے بارے میں یہ بات حدیث سے ثابت ہے کہ مہندی یا حنا کے استعمال کی کوئی ممانعت نہیں کی گئی۔ اس پر قیاس کرتے ہوئے اگر ایک خاتون اپنے بالوں کو اس لیے رنگین کرتی ہے کہ اس کا شوہر اسے پسند کرتا ہے تو اس کی مثال وہی ہے جو اس سے قبل بالوں کی تراش کے بارے میں عرض کی گئی۔ آپ نے یہاں بھی شرعی پردے کا ذکر کیا ہے۔ جب تک ایک خاتون چہرے اور ہاتھ کے سوا تمام جسم ڈھانکے ہوئے ہے، وہ بہت سے کام اس وقت تک کرسکتی ہے جب تک اس کام کی ممانعت ثابت نہ ہوجائے۔ شریعت کا اصول ہے اصلاً ہرفعل مباح ہے جب تک اس کی حُرمت ثابت نہ ہو۔یہاں پر یاد رکھیے اسلام میں حلال و حرام واضح ہیں لیکن بعض چیزیں انسان کی فطرت کا مطالبہ ہیں۔ ایک خاتون کی خوب صورتی کے اجزا میں اس کے بالوں کا لمبا ہونا مسلم دنیا میں ہی نہیں، قدیم ترین تہذیبوں کا حصہ رہا ہے لیکن اس بنا پر شدت کے ساتھ ایک موقف اختیار کرلینا بھی دین کی حکمت، مصلحت اور بصیرت سے مطابقت نہیں رکھتا۔
جہاں تک تعلق محاسبے کا ہے وہ تو کسی بھی ایسے موضوع پر کیا جاسکتا ہے جو آپ کے نزدیک معاشرتی یا تحریکی حقوق سے تعلق رکھتا ہو۔ اگر جس کا محاسبہ کیا جا رہا ہے وہ آپ کو اپنے جواب سے مطمئن کردے کہ آپ کا احتساب غلط تھا، تو آپ کو کشادگیِ قلب کے ساتھ اپنی غلطی کو مان لینا چاہیے۔ احتساب جب تک کیا جاتا رہے گا اُمت مسلمہ ان شاء اللہ صراط مستقیم پر رہے گی۔
علم و ادب، تدریس و تربیت اور تحقیق و تصنیف کے شناور، زندگی بھر ان راستوں پر سفر کرتے کرتے اس دنیا سے پردہ کر کے اور دوسری زندگی میں اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح کچھ ایسے خاوران ہوتے ہیں کہ ان گھاٹیوں کو عبور بھی کر رہے ہوتے ہیں اور پکے ہوئے پھل کی مانند ہمارے ارد گرد موجود ہوتے ہیں۔ ایسے عالموں، فاضلوں اور محسنوں کی علمی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے ’ارمغانِ علمی‘ کی ایک شان دار روایت کو پروان چڑھانے میں بالخصوص پنجاب یونی ورسٹی کے شعبۂ اُردو نے پیش رفت کی اور اب اس یونی ورسٹی کے ادارۂ علوم اسلامیہ نے بھی اس راستے پر ایک قدم بڑھایا ہے۔
زیرنظر ارمغان، جامعہ کے سابق وائس چانسلر علامہ علاء الدین صدیقی (۱۹۰۷ئ- ۱۹۷۷ئ) کی خدماتِ جلیلہ کے اعتراف میں مرتب کی گئی ہے، جو مختلف علما کے ۱۷ مقالات کے علاوہ علامہ مرحوم کے تین انگریزی مضامین پر مشتمل ہے۔ مضامین کی پیش کش میں مطالعۂ تقابل ادیان کا رنگ غالب ہے۔
سبھی مضامین علمی چاشنی اور ٹھوس معلومات کی سوغات لیے ہوئے ہیں، تاہم ان میں نمایاں ترین مقالہ پروفیسر ڈاکٹر سفیراختر برعظیم [پاک و ہند] میں مطالعۂ مذاہب (ص ۳۱-۶۷) کے حسنِ فکرونظر کا نتیجہ ہے۔ مقالات کے موضوعات میں اتنا تنوع اور مباحث میں اتنی وسعت ہے کہ ایک مختصر تبصرہ ان کا احاطہ نہیں کرسکتا۔ چند مقالات کے عنوانات سے ارمغان کے مزاج کا اندازہ ہوجائے گا:
پروفیسر ڈاکٹر جمیلہ شوکت نے فی الحقیقت بڑی محنت سے اس گلدستۂ معلومات کو مرتب کیا ہے۔ اس پیش کش میں سلیقہ بھی ہے اور حُسنِ ترتیب بھی۔ ادارہ علومِ اسلامیہ اس نیکی پر مبارک باد کا مستحق ہے۔ (سلیم منصور خالد)
تقریباً ۵۵برس پہلے، مولانا مودودی کے پہلے سفرِحج اور اُردن، فلسطین اور شام کے دورے کی روداد پہلے روزنامہ تسنیم اور پھر کتابی شکل میں مولانا مودودی کا دورۂ مشرق وسطـٰی کے نام سے شائع ہوئی تھی۔ یہ کتاب تقریباً نایاب کے درجے میں تھی۔ سلیم منصور خالد صاحب نے اسے دریافت اور بازیافت کرکے ازسرِنو مرتب کیا اور نہایت معلومات افزا حواشی و تعلیقات اور اشاریے کے ساتھ زیرنظر کتاب کی شکل میں شائع کیا ہے۔ سلسلۂ مطالعاتِ مودودی میں اس کتاب کو ایک اعتبار سے بنیادی ماخذ کی حیثیت حاصل ہوگی۔
جون ۱۹۵۶ء کے اس سفر میں مولانا نے سب سے پہلے دمشق کی مؤتمر اسلامی میں شرکت کی تھی، بعد میں جملہ مندوبین اُردن گئے جہاں اس وقت کے حکمران شاہ حسین نے مندوبین کی دعوت کی۔ عمان سے مولانا بیت المقدس اور فلسطین گئے۔ وہاں سے دمشق پہنچ کر بذریعہ ہوائی جہاز جدہ پہنچے، اور فریضۂ حج ادا کرکے واپس پاکستان آگئے۔ تقریباً ڈیڑھ ماہ کے اس سفر کی روداد میں مولانا نے اپنے مشاہدات کے ساتھ ساتھ عرب ممالک اور وہاں کے سیاسی، علمی اور دینی طبقوں اورجماعتوں کے اکابر سے ملاقاتوں اور گفتگوئوں کا ذکر کیا ہے۔ اس تذکرے میں بہت سی مفید تجاویز بھی شامل ہیں۔ عرب ممالک کے بارے میں یہ تاریخی اور معلومات افزا روداد پڑھنے کے لائق ہے۔ اندازہ ہوتا ہے کہ یہودیوں کی قوت اور مسلمانوں کے ضعف، اسی طرح یہودیوں کی ترقی و عروج اور مسلمانوں کے زوال اور پستی و پس ماندگی کی وجوہ کیا ہیں؟ انتظاماتِ حج کے سلسلے میں سعودی حکومت کی خدمات کے اعتراف کے ساتھ ساتھ مولانا نے بہت سے اصلاح طلب پہلوئوں کی نشان دہی بھی کی ہے۔ مجموعی حیثیت سے سعودی عرب کے عام حالات پر تبصرہ کیا ہے اور اس کی صنعتی اور زرعی ترقی کے لیے تجاویز بھی پیش کی ہیں۔
بقول مرتب: ’’اس میں مقصدیت کا عنصر غالب ہے۔ عام سفر ناموں کی طرح کام و دہن، سیروسیاحت اور حیرت و استعجاب کے قصوں کے بجاے حکمت، فکرمندی،دُوراندیشی اور رہنمائی کے واضح اشارات موجود ہیں‘‘۔ کتاب کی ظاہری پیش کش میں سلیقہ اور نفاست نمایاں ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)
۲۰؍ابواب او ر۱۲ ضمیموں پر مشتمل ڈھاکہ یونی ورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور انگریزی کے معروف ادیب ڈاکٹر سید سجاد حسین کی یادوں پر مشتمل کتاب The Wastes of Timeکا ترجمہ شکست آرزو سقوطِ ڈھاکہ کے منظر اور پس منظر کا بہترین تجزیہ ہے۔ ڈاکٹر سید سجاد حسین ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے قیام پاکستان کی جدوجہد میں فعال کردار ادا کیا، بطور طالب علم بھی اور بطور استاد بھی۔ نظریہ پاکستان کی آب یاری کے لیے دی ایسٹ پاکستان سوسائٹی قائم کی اور ایک پندرہ روزہ سیاسی مجلہ پاکستان جاری کیا۔ انھوں نے دو قومی نظریے کی ترویج کے لیے بطور صحافی بھی کام کیا اور روزنامہ آزاد کلکتہ اور کامریڈ میں مضامین بھی لکھتے رہے۔
زیر نظر کتاب میں دو قومی نظریے کے لیے جدوجہد اور بنگال میں تحریک پاکستان کے قائدین اور سیاست دانوں کے کردار‘ قیام پاکستان کے بعد کے ۲۴سالوں پرمحیط ان کی کمزوریوں اور نظریہ پاکستان سے وابستگی کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
کتاب مصنف کی یادداشتوں پر مبنی ہے جو انھوں نے ۱۹۷۳ء میں قلم بند کی تھیں۔ ابتدائی ابواب میں انھوں نے اپنے ساتھ روا رکھے گئے ظالمانہ سلوک، گھر سے گرفتاری، تشدد اور جیل میں گزرے ایام، وہاں موجود اہل کاروں کے رویے، اردو بولنے والوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں، تشدد، قتل و غارت اور لوٹ مار کی تفصیلات بیان کی ہیں۔ جیل میں موجود اپنے ’باغی‘ ساتھیوں کی ذہنی کیفیات، سیاسی افکار اور نظریہ پاکستان کے بارے ان کے جذبات و محسوسات پر نہایت شرح و بسط سے بحث کی ہے۔ ان ساتھیوں میں متحدہ پاکستان کے آخری اسپیکر فضل القادر چودھری، عبدالصبور خان اور خواجہ خیر الدین سابق ڈپٹی سپیکر اے ٹی ایم عبدالمتین اور روزنامہ سنگرام کے ایڈیٹر اخترفاروق قابل ذکر ہیں۔ فاضل مصنف نے چار باب اس موضوع پر لکھے ہیں اور ہرشخصیت پر تفصیلی بحث کی ہے۔
مصنف کے خیال میں ڈھاکہ یونی ورسٹی کے طلبا کے علاوہ عام بنگال کے دیہاتی افراد کو زبان کے معاملے سے کوئی خاص دل چسپی نہ تھی۔ ہندوئوں کے زیر اثر بنگلہ قوم پرست عناصر نے اس مسئلے کو ابھارا اور دو قومی نظریے پر یقین رکھنے والے ان لوگوں کی کمزوری اور معذرت خواہانہ رویوںکو بے نقاب کیا۔ مرکزی حکومتوں کی عدم دل چسپی اور نظر انداز کیے جانے والے اقدامات نے اس کو مہمیز دی، کیوں کہ بنگالی سیاست کے اہم ترین سیاسی کردار، یعنی خواجہ ناظم الدین، حتیٰ کہ حسن شہید سہروردی بنگلہ زبان سے واقف تک نہ تھے۔
مصنف نے جداگانہ انتخاب کا بھی تذکرہ کیا ہے جس کی بنیاد مسلم لیگ کے مطالبے پر رکھی گئی تھی۔ نظریاتی لحاظ سے ناپختہ مسلم لیگی سیاست دانوں نے خود ہی جداگانہ طرز انتخاب کو ختم کرکے دو قومی نظریے کو عملاً غلط ثابت کر دیا، اور حسین شہید سہروردی ہی جداگانہ انتخاب کے خلاف کھڑے ہو گئے اور مخلوط طرز انتخاب کو رواج دے دیا گیا۔
کتاب کے آخر میں ۱۲مختلف ضمیمے بھی شامل کیے گئے ہیں، جن میں قراردادِ لاہور سے بنگال کی تاریخ اور تحریک آزادی پاکستان کے اہم سنگ ہاے میل زیر بحث لائے گئے ہیں۔ (عرفان بھٹی)
مصنف کا دعویٰ ہے کہ کسی معاشرے میں موانست اور یگانگت و یک جہتی پیدا کرنے میں سب سے بڑا کردار حکمرانوں کا ہوتا ہے۔ اگر وہ فراخ دلی اور انسان دوستی کا ثبوت دیں تو رواداری کو تقویت ملتی ہے۔ اسی طرح اگر متعصب اہلِ قلم یا مذہبی راہ نما یا سیاسی کارکن، تاریخ کو مسخ کیے بغیر، ایسے واقعات کو منظرعام پر لائیں جو مذہبی رواداری کو تقویت دیتے ہیں تو معاشرے سے نفرت و عداوت کے جذبات، اگر کلّی طور پر ختم نہیں، تو کم ضرور کیے جاسکتے ہیں۔
مسلمانوں نے برعظیم پاک و ہند پر صدیوں حکومت کی ہے۔ ہندو اور مسلمان صدیوں ساتھ ساتھ رہے۔ یہ مسلم حکمرانوں کی مذہبی رواداری ہی کا اعجاز تھا کہ معاشرہ بالعموم پُرامن رہا۔ کتاب میں عربوں کی سندھ میں آمد اور سوا تین سو سال تک کے عہدِحکمرانی میں حکمران طبقے کے دیگر مذاہب کے لوگوں سے نیک سلوک اور رواداری کے واقعات بیان کیے گئے ہیں۔ محمود غزنوی نے غزنی میں ہندوئوں کے لیے محلہ آباد کیا اور سکّوں پر ایک طرف کی عبارت سنسکرت میں کندہ کرائی۔ غزنوی نے ہندو لشکری فوج میں شامل کیے اور ان ہندو سرداروںکو عہدے دے کر ان پر اعتماد کیا۔ اسی حصے میں شہاب الدین غوری، علاء الدین خلجی اور محمد تغلق کے عدل و انصاف اور حُسنِ سلوک کے واقعات درج ہیں۔ مغل بادشاہوں کے عدل و انصاف اور دیگر مذاہب کے مذہبی پیشوائوں سے عزت و توقیر کے سلوک کی مثالیں پیش کی گئی ہیں۔ مثلاً ہمایوں نے مہاراجا سانگا کی بیوہ کے بیٹوں کو مفتوحہ علاقے واپس کردیے کہ وہ ہمایوںکی راکھی بند بہن بن گئی تھی۔ اکبر نے ہندو راجے نہ صرف نورتنوں میں شامل کیے بلکہ انھیں بڑے بڑے عہدے دیے اور جاگیریں بخشیں۔ عہد عالم گیری میں بہت سے ہندو منصب دار تھے۔ مزید برآں برہمن خاندانوں کو اور ہندو پجاریوں کو بھی جاگیریں عطا کی گئیں۔ کتاب میں مسلم حکمرانوں کے فراخ دلانہ رویوں پر مشتمل سیکڑوں واقعات درج ہیں۔ دراصل یہ سب کچھ اس پختہ کردار کا نتیجہ ہے جو اسلامی تعلیم و تربیت کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)
یہ سیدابوالاعلیٰ مودودی کا خلوص تھا جسے اللہ نے قبول کرتے ہوئے ان کی تحریر کو ایسی تاثیر بخشی اور ان کی پکار کو ایسا دل کش بنا دیا کہ لوگ ان کی دعوت کی طرف، جو دراصل دین اور اقامت ِ دین کی دعوت تھی، کھنچے چلے آئے۔ کیسے کیسے لوگ تھے جنھیں اللہ نے توفیق بخشی تو وہ جماعت اسلامی میں آشامل ہوئے۔ مولانا فتح محمد صاحب نے ۲۱سال کی عمر میں ۱۹۴۴ء میں جماعت اسلامی کی رکنیت کا حلف اُٹھایا اور پوری زندگی نہایت خلوص، عزم و یقین اور تن من دھن کی لگن سے اس کٹھن راستے کے نشیب و فراز طے کرتے ہوئے ۲۰۰۸ء میں اپنے رب سے جاملے۔
ان کے سفرزندگی کا زیرنظر گل دستہ ان کے احباب، اہل و عیال ، دُور و نزدیک کے ساتھیوں اور تحریکی دوستوں کی محبت بھری تحریروں سے سجایا گیا ہے۔ مولانا مرحوم بلا کے محنتی اور جفاکش انسان تھے۔ اوائل میں دُوردراز کے دیہاتوں اور قصبوں تک دعوت پہنچانے کے لیے سائیکل پر دورے کیا کرتے تھے۔ سادہ مزاج تھے، کم اخراجات میں گزارا کرتے بلکہ دوسروں کو بھی یہی تلقین کرتے۔ شب و روز کا کوئی لمحہ خالی نہ جانے دیتے۔ ۱۹۴۱ء میں میٹرک کیا تھا اور پھر حصولِ تعلیم کی جو دُھن ذہن میں سمائی ہوئی تھی اس کے نتیجے میں ایم اے اسلامیات اور ایم اے عربی کی اسناد حاصل کیں۔ ۲۰۰۵ء میں کمپیوٹر کورس کرکے گویا انھوں نے مہد سے لحد تک حصولِ علم کو اپنا کردکھایا۔ خدمتِ خلق ان کا شعار تھا اور ہمہ وقت دوسروں کی مدد کرنے اور ان کے کام آنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ عجز وانکسار کا پیکر تھے۔ مولانا عبدالمالک کے بقول: ’’وہ اخلاقِ حسنہ کا بہترین نمونہ تھے‘‘۔ یہ ساری تفصیل زیرنظر کتاب سے پتا چلتی ہے۔
ص ۱۸ پر بتایا گیا کہ مولانا کو چودھری غلام جیلانی نے نائب امیر صوبہ مقرر کیا مگر ص ۱۶۱ پر خود مولانا فتح محمد کہتے ہیں: مجھے سید اسعد گیلانی نے نائب امیر بنایا۔ مرتب کو تحقیق کر کے وضاحت کر دینی چاہیے تھی۔ بایں ہمہ کتاب پڑھتے ہوئے ایک ہی نقش اُبھرتا ہے کہ ’’ایسے ہوتے ہیں دینِ اسلام کے خدمت گزار‘‘۔ (ر- ہ )
اس کرئہ ارض پر امریکی عسکری یلغار اور سفارتی گرفت کو ہرباشعور انسان دیکھ اور محسوس کر رہا ہے۔ ایک طرف ’امن، تہذیب اور جمہوریت‘کے نعرے ہیں تو دوسری طرف قتل، تباہی، اور محکومی کی آندھی۔ ان دونوں رویوں کی سرپرستی امریکی ریاستی مشینری کی امتیازی پہچان ہے۔
زیرنظر کتاب میں میربابرمشتاق نے مذکورہ بالا المیے سے متعلق اپنے اور دیگر افراد کے ۳۵مضامین کو یک جا کردیا ہے اور انھیں دہشت گردی کا عنوان دیا ہے۔ یہ مضامین معلومات کی وسعت اور اختصار کی جامعیت لیے ہوئے ہیں۔ دہشت گردی کی تاریخ، امریکی دہشت گردی تاریخ کے آئینے میں، امریکا، پاکستان اور افغان جنگ، ویت نام اور عراق میں امریکی درندگی، سی آئی اے کے سیاہ کرتوت اور امریکا کا مستقبل وغیرہ جیسے موضوعات زیربحث آئے ہیں۔ موضوع کی اہمیت کے پیش نظر مزید جامع تحقیقی مطالعے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔(س-م-خ)
’حکومت کی کارکردگی اور آنے والے انتخابات‘ (اکتوبر ۲۰۱۲ئ)، متوقع قومی انتخابات کے پیش نظر اہم تحریر ہے۔ امیرجماعت سید منور حسن صاحب نے جہاں انتخابات کی اہمیت اور قوم کو اپنی حالت کے بدلنے کے اہم موقع کو سوچ سمجھ کر استعمال کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے، وہاں موجودہ حکومت کی محاذ آرائی اور تصادم کی سیاست، اہم ملکی مسائل بالخصوص بلوچستان اور کراچی کی تشویش ناک صورت حال اور ناٹوسپلائی کا ملک دشمن فیصلہ اور دیگر مسائل کا تذکرہ کرتے ہوئے حکومت کی کارکردگی کا مختصراً جائزہ بھی لیا ہے اور قوم کے لیے لائحہ عمل پیش کیا ہے۔ انتخابی مہم کے پیش نظر اس تحریر کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔
’شام: اسدخاندان کا مجرمانہ دورِ حکومت‘ (نومبر ۲۰۱۲ئ) پڑھ کر بڑی اذیت ہوئی۔ اس خاندان کے ظلم و ستم کی داستان پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوگئے کہ اپنے اقتدار کی خاطر اس ظالم خاندان نے شامی عوام پر ظلم و ستم کی انتہا کردی ہے۔حافظ الاسد ایک ظالم اور سفاک حکمران تھا اور اس کا بیٹا اپنے ظالم اور سفاک باپ سے آگے بڑھ گیا ہے اور ہنوز اس کا ظلم وستم شامی عوام پر جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ کی لاٹھی بے آواز ہے۔ اِنَّ بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِیْدٌ، ان شاء اللہ وہ دن دُور نہیں جب ظالم حکمران کو اپنے کیے کی سزا ملے گی اور شامی عوام اپنے صبروتحمل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی رحمت کے مستحق ٹھیریں گے۔ اسلامی میڈیاکو ظالم حکمران کے خلاف آواز اُٹھانی چاہیے۔
’اقبال اور سیکولرازم‘ (نومبر۲۰۱۲ئ) او رعلامہ محمد اسد کی تحریر ’ہم کیوں پاکستان بنانا چاہتے ہیں؟‘ (اگست، ستمبر۲۰۱۲ئ) بہت پسند آئے۔ چراغِ راہ کے سوشلزم نمبر پر تبصرہ (ستمبر ۲۰۱۲ئ) بہت اچھا تھا اور یہ جملہ بھی خوب تھا کہ: ’’آپ کی محنت قابلِ داد اور طباعت کے معاملے میں شدید تساہل قابلِ فریاد ہے‘‘۔ براہِ کرم محمداسد کی مزید تحریر شائع کریں، نیز محترمہ مریم جمیلہ پر بھی کسی کو لکھنا چاہیے۔ یہ دونوں شخصیات نومسلم تھیں۔ دونوں نے اسلام کی خاطر اپنے وطن چھوڑ کر پاکستان ہجرت کی لیکن ہم نے انھیں کوئی اہمیت نہیں دی۔ بیرونِ ملک ان پر کتب اور مضامین لکھے جاتے ہیں لیکن ہمیں کچھ خبر ہی نہیں۔
’جنسی تعلیم اسلامی اقدار کی تناظر میں‘(جون ۲۰۱۲ئ) بہت ہی اچھا لکھا۔ مگر اس میں بھی ڈاکٹرصاحب کی شانِ اجتہادی نمایاں ہے۔ دو مثالیں ملاحظہ ہوں۔ قرآن کریم جنسی جذبے کو حلال و حرام اور پاکیزگی اور نجاست کے تناظر میں بیان کرتا ہے تاکہ حصولِ لذت ایک اخلاقی ضابطے کے تحت ہو نہ کہ فکری اور جسمانی آوارگی کے ذریعے۔ چنانچہ عقیدۂ نکاح کو ایمان کی تکمیل اور انکارِ نکاح کو اُمت مسلمہ سے بغاوت کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے (ص ۶۴)۔ پتا نہیں یہ کسی آیت کا ترجمہ ہے یا حدیث کا، یا کوئی اجماعی قانون ہے؟ ایک اور جگہ وعن شبا بہ فیما ابلاہ سے درج ذیل نتیجہ اخذ کیا ہے۔ احادیث بار بار اس طرف متوجہ کرتی ہیں کہ یوم الحساب میں جو سوالات پوچھے جائیں گے، ان میں سے ایک کا تعلق جوانی سے ہے اور دوسرے کا معاشی معاملات سے۔ گویا جنسی زندگی کا آغاز شادی کے بعد ہے، اس سے قبل نہیں (ص ۶۶)۔ ایک تو یہ کہ الفاظِ حدیث عام ہیں۔ دوسرے یہ کہ جوانی اور شادی میں کیا نسبتِ مساوات ہے؟
’اسلام کے اقتصادی نظام کے نفاذ کا پہلا قدم___ بیع سلم‘ (جون ۲۰۱۲ئ) میں نجی سطح پر سود کے خاتمے کے قانون (۲۰۰۷ئ) کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ اسی قانون کو صوبہ سرحد میں بھی نافذ کیا گیا تھا اور اے این پی کی موجودہ حکومت نے اسے غیرمؤثر کردیا ہے۔ (ص ۵۴)
ریکارڈ کی درستی کے لیے میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ راقم اُس ٹیم کا حصہ تھا جس نے پروفیسر خورشید احمد صاحب کی قیادت میں صوبہ سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت کے دوران معیشت سے سود کے خاتمے کی جدوجہد میں حصہ لیا تھا۔ ایم ایم اے کی صوبائی حکومت نے پنجاب اسمبلی کے مذکورہ بالا قانون کو اختیار /نافذ (adopt) نہیں کیا تھا بلکہ ایک الگ اور مربوط منصوبہ بندی کے تحت بنک آف خیبر ایکٹ کا ترمیمی بل ۲۰۰۴ء صوبائی اسمبلی سے منظور کروا کر بنک آف خیبر کی تمام سودی شاخوںکو اسلامی بنکاری کی برانچوں میں تبدیل کرنے کی راہ ہموار کی تھی۔ اس ایکٹ کا پنجاب اسمبلی کے منظورکردہ ایکٹ کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں۔ تاہم صوبائی معیشت کو اسلامیانے کے لیے ایک الگ کمیشن جسٹس فدا محمد خان ، جج شریعہ کورٹ، سپریم کورٹ آف پاکستان کی صدارت میں قائم کیا گیا تھا جس کا راقم بھی رُکن تھا۔ اِس کمیشن نے بڑی محنت کے ساتھ رپورٹ مرتب کی کہ کس طرح صوبائی معیشت کو سود سے پاک کیا جاسکتا ہے۔ افسوس کہ کچھ بیوروکریٹک کوتاہیوں اور اعلیٰ سیاسی قیادت کی عدم دل چسپی کے باعث کمیشن کی سفارشات حتمی شکل اختیار نہ کرسکیں اور ایم ایم اے کی حکومت کا دورانیہ مکمل ہوگیا۔
واضح رہے کہ اے این پی کی حکومت نے مکمل طور پر بنک آف خیبر کو دوبارہ سودی کاروبار میں تبدیل نہیں کیا بلکہ بنک کی پرانی سودی برانچوں کو اسلامی برانچیں بننے سے روکنے کے لیے بنک آف خیبرایکٹ میں دوبارہ ترمیم کر کے اللہ کے غضب کو دعوت دی ہے۔ لیکن اس کے باجود وہ بنک آف خیبر میں اسلامی برانچوں کو غیرمؤثر کرنے یا نقصان پہنچانے میں (کوشش کے باوجود) کامیاب نہ ہوسکے۔ لہٰذا ایم ایم اے دور کا کام محفوظ اور intact ہے اور ان شاء اللہ جب دوبارہ ہمیں اقتدار ملے گا تو اسلامی بنکاری اور اسلامی معیشت کے کام کا آغاز وہیں سے ہوگا جہاں اِسے اے این پی اور پیپلزپارٹی کی مخلوط صوبائی حکومت نے پھیلنے سے روکا ہے۔
جماعت اسلامی برعظیم ہندوپاک میں وہ پہلی جماعت ہے جس نے تعمیر کا وقت آنے سے پہلے ہی معاشرے کے اِن دونوں عناصر [اہلِ دنیا و اہلِ دین] کو خالص اسلامی اصولوں پر جمع کرنے اور ان کے درمیان وسیع ہوتی ہوئی خلیج پر پُل بنانے کی قابلِ ذکر خدمت انجام دی ہے۔ یہ جماعت چونکہ اوّل روز سے ایک اسلامی معاشرے اور اسلامی ریاست کی تعمیر کا منصوبہ لے کے اُٹھی تھی اور اسی کے لیے ملّت کی فکری و عملی طاقتوں کو منظم کر رہی تھی، اس لیے ناگزیر تھا کہ یہ معاشرے کے دونوں ہی طرح کے عناصر میں نفوذ کرے اور دونوں کو ایک صف میں جمع کردے۔ خوش قسمتی سے اسے داعیِ اوّل ملا تو ایسا کہ جس نے دونوں طرف کے سرچشمہ ہاے علوم سے بھی استفادہ کیا تھا اور دونوں عناصر کوقریب سے سمجھابھی تھا۔ چنانچہ وہ بالفاظِ خویش ’بیچ کی راس کا ایک آدمی‘ تھا۔ پھر اس کی آواز پر دونوں طرف سے جو لوگ آگے بڑھے ان کی کچھ تو فکری ساخت ایسی تھی اور کچھ ان کی تربیت اس طرح ہوتی گئی کہ ان کی مجموعی قوت قوم کے مذہبی اور جدید عنصر کو باہم قریب تر لانے کا ایک مؤثر ذریعہ بن گئی۔
جماعت اسلامی نے اسلام کی خالص اور بے آمیز دعوت کو پیش کرنے کے لیے ایک ایسی زبان، ایک ایسا طرزِاستدلال، ایک ایسی تکنیک اختیار کی جو اپنی روح کے اعتبار سے براہِ راست قرآن کے عین مطابق تھی اور دوسری طرف وہ جدید عنصر کے ذہن سے اقرب بھی تھی۔ اُس نے اپنی دعوت کے لیے خطابت، صحافت اور لٹریچر میں بالکل نئے راستے نکال لیے۔ اُس نے مذہبی عنصر اور جدید عنصر دونوں کو اپنے لیے یکساں مخاطب سمجھ کر جو آواز بلند کی،اس طرح بلند کی کہ وہ دونوں کے لیے قابلِ فہم اور مؤثر ہو۔ اُس نے دونوں طرف کی اصطلاحات کو متقابلاً استعمال کرکے دونوں ہی طبقوں کے لیے ان کو قابلِ فہم بنادیا۔ اُس نے ایک طرف دین کو تمام ٹیکنیکل بحثوں سے الگ کر کے ایک نظامِ زندگی کی حیثیت سے نتھار کر سامنے رکھ دیا اور دوسری طرف جدید ترین مسائل اور زمانے کے آخری تقاضوں کو زیربحث لاکر یہ واضح کردیا کہ یہ مسائل اور تقاضے ایسے نہیں ہیں کہ اسلام کے اصول ان کا سامنا نہ کرسکیں۔ چنانچہ اس کی دعوت نے دونوں طرف یکساں قلوب کو فتح کیا ہے۔ (’اشارات‘ ، نعیم صدیقی ، ترجمان القرآن، جلد ۳۹، عدد ۳، ربیع الاول ۱۳۷۲ھ،دسمبر ۱۹۵۲ئ، ص ۲-۳)