دسمبر ۲۰۱۲

فہرست مضامین

غزہ میں اسرائیل کی جارحیت اور مسئلہ فلسطین

پروفیسر خورشید احمد | دسمبر ۲۰۱۲ | اشارات

Responsive image Responsive image

بسم اللہ الرحمن الرحیم

جہاں یہ ایک حقیقت ہے کہ تاریخِ انسانی کا ہر باب ظلم، ناانصافی اور خوں آشامی کی دل خراش داستانوں سے بھرا پڑا ہے، وہیں یہ بھی ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ ظلم کی بالادستی کو کبھی     دوام حاصل نہیں ہوسکا۔ جب بھی مظلوم اور ستم زدہ انسانوں نے ظلم اور محکومی کی زنجیریں توڑ کر غاصب آقائوں کے نظام کو چیلنج کیا ہے، اور مزاحمت اور مقابلے کا راستہ اختیار کیا ہے تو بالآخر وہ ظلم کے نظام کو پاش پاش کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں، چاہے اس جدوجہد میں کتنا بھی وقت کیوں نہ لگا ہو۔ اس کے برعکس اگر ظلم کے نظام کو چیلنج نہ کیا جائے یا اس سے سمجھوتا کرنے کی حکمت عملی اختیار کی جائے، تو پھر ظلم کی رات طویل اور تاریک سے تاریک تر ہوتی جاتی ہے، اِلاَّ یہ کہ اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہو اور تاریخ ایک نئی کروٹ لے لے۔

زندگی حق و باطل کے درمیان کش مکش ہی سے عبارت ہے۔ ظلم، ناانصافی اور حق تلفی کرنے والی قوتیں بظاہر کتنی ہی قوی کیوں نہ ہوں، بالآخر حق اور انصاف کو غلبہ حاصل ہوتا ہے بشرطیکہ صبر، استقامت اور حکمت کے ساتھ اس کے مقابلے کے لیے جدوجہد کی جائے اور غالب نظام کی کمر توڑنے کے لیے مؤثر تدابیر اختیار کی جائیں۔ پھر چشم تاریخ بار بار یہ منظر دیکھتی ہے کہ جَآئَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا ،’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا، اور باطل تو بلاشبہہ مٹنے والا ہے‘‘(بنی اسرائیل ۱۷:۸۱)۔ تاریخ نے یہ منظر بھی بار باردیکھا ہے کہ حق کے غلبے   کے لیے مظلوموں کی جدوجہد مادی اور عسکری قوت کی قاہری اور طرح طرح کے منفی ہتھکنڈوں کے باوجود بھی رُونما ہوجاتی ہے جس کی طرف خود اللہ تعالیٰ نے متوجہ کیا ہے کہ کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃً بِاِذْنِ اللّٰہِط وَاللّٰہُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَo (البقرہ ۲:۲۴۹)، ’’بارہا ایسا ہوا ہے  کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا ہے ۔ اللہ صبر کرنے والوں کا ساتھی ہے‘‘۔ شرط اللہ پر بھروسا، مقصد کی حقانیت اور صداقت اور جدوجہد میں صبر اور استقامت ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو پھر ظلم کی تاریک رات کبھی ختم نہ ہو، اور جو ظالم اور غاصب ایک بار غالب آجائے پھر اس سے نجات کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔ اس حکمت ِربانی کا یہ جلوہ تاریخ کے ہر دور میں دیکھا جاسکتا ہے کہ:

وَ تِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِج وَ لِیَعْلَمَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ یَتَّخِذَ مِنْکُمْ شُھَدَآئَ ط وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ o(اٰل عمرٰن۳:۱۴۰) یہ تو زمانے کے نشیب و فراز ہیں جنھیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں۔ تم پر یہ وقت  اس لیے لایا گیا کہ اللہ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم میں سچے مومن کون ہیں، اور ان لوگوں کو چھانٹ لینا چاہتا تھا جو واقعی (راستی کے) گواہ ہوں، کیونکہ ظالم لوگ اللہ کو پسند نہیں ہیں۔

الحمدللہ، تاریخ کے اس تاب ناک عمل کا نظارہ ہم اپنی مختصر زندگیوں میں باربار کر رہے ہیں۔ عالمی اُفق ہو یا مسلم دنیا کے دروبست، غالب اور غاصب قوتوں کے ایوانوں میں ہلچل ہے اور ایک کے بعد دوسرا بت گر رہا ہے۔ عرب دنیا نئی کش مکش اور مثبت تبدیلیوں کی رزم گاہ بنی ہوئی ہے۔ جنھیں اپنی قوت کے ناقابلِ تسخیر ہونے کا دعویٰ تھا، ان پر قوت کے محدود ہونے کی حقیقت کا انکشاف ہو رہا ہے۔ جو مدمقابل کو تہس نہس کردینے، صفحۂ ہستی سے مٹادینے اور مدمقابل کو پتھر کے دور میں پھینک دینے کے دعوے کرتے تھے، وہ جنگ بندی اور ایک دوسرے کی سرحدوں کو پامال  نہ کرنے کی زبان استعمال کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔

امریکا کی مکمل تائید اور شہ پر اسرائیل نے جس زعم اور رعونت کے ساتھ غزہ پر تازہ یورش کی تھی اور آگ اور خون کی بارش کا آغاز کیا تھا، آٹھ دن تباہی مچانے کے بعد خود اس کی اور اس کے سرپرستوں کی کوششوں کے نتیجے میں ایک ایسا معاہدہ وجود میں آیا ہے، جس کے بڑے دُور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ اگر معاملات کو حکمت اور جرأت سے آگے بڑھایا جائے تو ایک نیا نظام وجود میں آسکتا ہے جس کے نتیجے میں شرقِ اوسط کو ایک نئی جہت دی جاسکتی ہے۔

۱۴نومبر ۲۰۱۲ء کو اسرائیل نے غزہ پر ایک بڑا حملہ کیا۔ چشم زدن میں ۸۰ سے زائد میزائل اور تباہ کن بم داغے گئے اور حماس کے ایک اہم ترین کمانڈر اور سیاسی اعتبار سے دوسری بڑی شخصیت احمدجعبری  کو شہید کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ F-16 کے ذریعے غزہ پر تابڑتوڑ حملوں کا سلسلہ شروع ہوگیا جو آٹھ دن تک جاری رہا۔ اس اثنا میں اسرائیل نے ۱۵۰۰ اہداف کو نشانہ بنایا۔ اسرائیل نے پہلے جو جنگ مسلط کی تھی اور جو ۲۲دن جاری رہی تھی، اس کے مقابلے میں، خود اسرائیلی وزیراعظم کے بقول، جس بارودی قوت کو استعمال کیا گیا وہ اس سے دس گنا زیادہ تھی۔ ایک بین الاقوامی تحقیق کی روشنی میں حماس نے جو جوابی کارروائی راکٹ اور میزائل کے ذریعے کی ہے، اسرائیلی قوت کا استعمال اس سے ایک ہزار گنا زیادہ تھا۔

 ان آٹھ دنوں میں غزہ میں ۱۶۳؍افراد شہید ہوئے، جن میں سے دوتہائی بچے اور خواتین تھیں۔ زخمی ہونے والوں کی تعداد ایک ہزار سے متجاوز ہے اور ان میں بھی بچوں اور خواتین کا تناسب یہی ہے۔ اسرائیل نے فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا ہے ، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ تین چوتھائی سے زیادہ اہداف سول اور غیرسرکاری مقامات تھے، جن میں عام مکانات، باغات، بازار، پُل، سرکاری، نجی اور اقوام متحدہ کے فیصلوں کے تحت چلنے والے اسکول، ہسپتال، سڑکیں، راہداری کی سرنگیں اور خوراک کے ذخیرے سرفہرست ہیں۔ سرکاری عمارتوں میں بھی نشانہ بننے والی عمارتوں میں وزیراعظم کے دفاتر، تعلیم اور ثقافت کی وزارت کی عمارتیں اور پولیس اسٹیشن نمایاں ہیں۔ مغربی میڈیا نے انسانی اور مادی نقصانات کا تذکرہ اگر کیا بھی ہے تو سرسری طور پر، ان کی  ساری توجہ اسرائیل کے لوگوں کے حفاظتی بنکرز میں پناہ لینے اور خوف پر مرکوز رہی ہے، جب کہ فلسطین کے گوشت پوست کے انسانوں، معصوم بچوں اور عفت مآب خواتین کا خون، ان کے زخم اور مادی نقصانات اس لائق بھی نہ سمجھے گئے کہ ان کا کھل کر تذکرہ کیا جاتا، حالانکہ اسرائیل اور غزہ کے لوگوں کے جانی نقصان کا تناسب ۱:۳۱ اور مالی نقصان کا تناسب ۱:۱۰۰ تھا۔

اسرائیل کا دفاع، دعوے کی حقیقت

اسرائیل اور اس کے پشتی بان امریکا اور مغربی ممالک کی طرف سے ایک بار پھر وہی گھسی پٹی بات دہرائی گئی ہے کہ: ’’اسرائیل نے یہ سب کچھ اپنے دفاع میں کیا‘‘۔ ساتھ ہی یہ کہا گیا ہے کہ  حالیہ تنازع کی شروعات بھی فلسطینیوں ہی کی طرف سے ہوئی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کی یہ کارروائی بڑے سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے اور اس کے ناقابلِ تردید ثبوت سامنے آگئے ہیں۔ کمانڈر احمد جعبری کو نشانہ بنانے کی تیاریاں کئی ماہ سے ہورہی تھیں۔ اسی طرح یہ اسرائیل کی مستقل حکمت عملی ہے کہ وقفے وقفے کے بعد غزہ اور مغربی کنارے کے علاقوں میں بڑے پیمانے پر فوجی کارروائیاں کرے اور اس طرح وہ فلسطینی عوام کی مزاحمتی تحریک میں پیدا ہونے والی قوت کو وقفے وقفے سے کچل دے۔ فلسطینیوں کو اتنا زخم خوردہ کردیا جائے کہ وہ آزادی کی جدوجہد تو کیا، اس کا خواب دیکھنا بھی چھوڑ دیں اور مکمل اطاعت اور محکومی کی زندگی پر قانع ہوجائیں۔

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اپنے اس تجزیے کی تائید میں ہم چند عالمی مبصرین کی راے بھی پیش کردیں، تاکہ یہ بات سامنے آسکے کہ اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکا کا پروپیگنڈا خواہ کتنا ہی زورآور کیوں نہ ہو، وہ سب کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونک سکتا:

لندن کے اخبار دی گارڈین کا بیت المقدس کا نمایندہ ہیریٹ شیروڈ اخبار کی ۱۴نومبر ۲۰۱۲ء کی اشاعت میں غزہ سے جانے والے اِکا دکا راکٹوں کا حوالہ دے کر صاف الفاظ میں لکھتا ہے کہ: ’’کئی مہینوں سے آپریشن پِلر آف ڈیفنس (Pillar of Defence) کی توقع کی جارہی تھی‘‘۔

واضح رہے کہ یہ رپورٹ اس دن کئی گھنٹے پہلے نشر کی گئی جس دن بڑے حملے کا آغاز ہوا اور کمانڈر احمد جعبری کو شہید کیا گیا۔ اسرائیلی دانش ور اور سابق رکن پارلیمنٹ یوری ایونری  اخبار  کاؤنٹر پنچ  (۱۶-۱۸ نومبر ۲۰۱۲ء ) میں لکھتا ہے:

اس کا آغاز کس طرح ہوا؟ یہ ایک احمقانہ سوال ہے۔

غزہ کی پٹی پر تنازعات کا ’آغاز‘ نہیں ہوتا۔ یہ دراصل واقعات کی ایک مسلسل زنجیر ہے۔ ہر ایک کے بارے میں یہ دعویٰ ہوتا ہے کہ یہ کسی سابق اقدام کا ردعمل ہے یا اس کے ردعمل میں کیا جا رہا ہے۔ عمل کے بعد ردعمل آتا ہے۔ اس کے بعد جوابی حملہ، اور اس کے بعد ایک اور غیرضروری جنگ،Another superfluous war  ۔

دی گارڈین لندن کا ایک اور مشہور کالم نگار سیوماس ملن اس راز کو، اگر اسے راز کہا جائے تو بالکل فاش کردیتا ہے کہ اسرائیل اور اس کے دعوے دھوکے اور چوری اور سینہ زوری کی مثال ہیں:

مغرب کے سیاست دانوں اور میڈیا نے غزہ پر اسرائیل کے حملے پر جس طرح زعم و ادعا پر مبنی انداز اختیار کیا ہے، اس سے آپ کو ایسا محسوس ہوگا کہ اسرائیل کو ایک بیرونی طاقت کے بغیر اُکسائے حملے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مغرب کے بیش تر میڈیا نے اسرائیل کے اس دعوے کو تسلیم کیا اور آگے بڑھایا ہے کہ اس کا حملہ حماس کے راکٹ حملوں کی محض جوابی کارروائی ہے۔ بی بی سی اس طرح بات کرتا ہے جیسے کہ پرانی نفرتوں کی بنیاد پر  آپس کا جھگڑا ہو۔

حقیقت یہ ہے کہ گذشتہ ایک مہینے کے واقعات کے تسلسل کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل نے جنگ کو بڑھانے کے لیے خرطوم میں ایک اسلحہ ساز فیکٹری پر حملے سے لے کر جس کے بارے میں کہا گیا کہ یہ حماس کو اسلحہ فراہم کرتی ہے، گذشتہ اکتوبر میں ۱۵ فلسطینی مجاہدین کو قتل کرنے، نومبر کے شروع میں ایک ذہنی طور پر معذور فلسطینی کو قتل کرنے، اسرائیل کے ایک حملے میں ایک ۱۳سالہ بچے کوقتل کرنے، اور حماس کے لیڈر احمد جعبری کو پچھلے بدھ کو عارضی صلح کے لیے مذاکرات کے عین موقع پر قتل کرنے تک ایک کے بعد ایک اقدام کرکے جنگ کو آگے بڑھایا ہے۔

اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کو کافی تحرک ملا کہ وہ خون ریزی کا ایک نیا دور شروع کردیں۔ اسرائیلی انتخابات کے سامنے ہونے کا تقاضا تھا (فلسطین پر اسرائیلی حملے اسرائیلی انتخابات سے پہلے کی ایک کارروائی ہیں) کہ مصر کے نئے اخوان المسلمون کے صدر محمد مرسی کو جانچا جائے، اور حماس پر دبائو ڈالا جائے کہ وہ دوسرے فلسطینی گوریلا گروپوں کو جھکا دے، اور ایران سے کسی مقابلے سے قبل میزائل کو تباہ کردیا جائے، اور ساتھ ہی یہ بھی پیش نظر تھا کہ Iron Dome کے میزائل شکن نظام کو آزمایا جائے۔

حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کو اس طرح پیش کرنا کہ وہ مظلوم ہے اور اسے سرحدوں سے باہر کے حملے کی صورت میں اپنے دفاع کا ہرحق حاصل ہے، حقائق کو بُری طرح مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ اسرائیل مغربی کنارے اور غزہ پر ناجائز قبضہ کیے ہوئے ہے، جہاں کی آبادی کا بیش تر حصہ ان مہاجروں کے خاندانوں پر مشتمل ہے جو ۱۹۴۸ء میں فلسطین سے نکالے گئے تھے۔ اس لیے اہلِ غزہ مقبوضہ لوگ ہیں اور مزاحمت کرنے کا استحقاق رکھتے ہیں بشمول فوجی مزاحمت کے(لیکن شہریوں کو ہدف نہ بنائیں)، جب کہ اسرائیل ایک قابض قوت ہے جو واپس ہونے کی پابند ہے، نہ کہ جن سرحدات پر اس کا کنٹرول ہے ان کا دفاع کرے اور محض فوجی طاقت کے بل پر سامراجی اقتدار کو مستحکم کرے۔

سیوماس ملن نے جن اسباب کی طرف اشارہ کیا ہے، ان کی مطابقت اس امر کی یاددہانی سے بڑھ جاتی ہے، کہ یہ حملے اسرائیل کی مستقل حکمت عملی کا حصہ ہیں اور امریکی صدارتی انتخابات اور اسرائیل کے اپنے انتخابات کے ہرموقعے پر ایسا ہی خونیں ڈراما رچایا جاتا ہے۔ دسمبر۲۰۰۸ئ- جنوری ۲۰۰۹ء کا اسرائیلی آپریشن امریکی صدارتی انتخابات اور صدارت سنبھالنے کے دوران ہوا، اور حالیہ آپریشن، امریکی صدارتی انتخاب کے چند دن بعد۔ خود اسرائیل کے انتخابات ۲۲ جنوری ۲۰۱۳ء کو طے ہیں اور نیتن یاہو اور اس کے دائیں بازو کے اتحادی اور فلسطینیوں کے سب سے بڑے دشمن لیبرمین کا مشترکہ منصوبہ تھا کہ انتخاب سے پہلے غزہ کی تحریکِ مزاحمت کی کمر توڑ دیں اور انتخابات کے بعد ایران پر حملے کے لیے اپنی پشت کو محفوظ کرنے کا سامان بھی کرلیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی مقصود تھا اور سچ ہے کہ اللہ کی تدبیر ہی ہمیشہ غالب رہتی ہے: وَمَکَرُوْا وَ مَکَرَ اللّٰہُ ط وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ o اٰل عمرٰن ۳:۵۴)، ’’اور وہ خفیہ تدبیریں کرنے لگے، جواب میں اللہ نے بھی اپنی خفیہ تدبیر کی۔ اور ایسی تدبیروں میں اللہ سب سے بڑھ کر ہے‘‘۔

جارحیت کا اصل ھدف

اس جنگ سے ان تمام مقاصد کے ساتھ جن کا اُوپر ذکر کیا گیا ہے، اسرائیل کا اصل مقصد فلسطین کی تحریکِ آزادی کی اصل قوت حماس کو عسکری، مادی، سیاسی اور اخلاقی اعتبار سے تباہ کرنا تھا۔ فلسطینی حریت پسند تحریک ’الفتح‘ کو گذشتہ ۴۰برس میں اسرائیل نے قوت اور ڈپلومیسی، عسکریت اور سیاسی رشوت،خوف اور لالچ کا ہرحربہ استعمال کرکے غیرمؤثر کردیا۔ پہلا وار اپنے حلیفوں کے ذریعے اُردن میں ۱۹۷۰ء میں کیا گیا۔ پھر تحریکِ مزاحمت کے دوسرے بڑے مرکز لبنان میں ۱۹۸۲ء میں تصادم کا خونیں ڈراما رچا کر وہاں سے بے دخل کیا گیا۔ تیونس میں بھی کھلی کھلی جارحیت کے ذریعے ضرب پر ضرب لگائی گئی اور بالآخر ہرطرف سے دائرہ تنگ کرکے اوسلو معاہدے اور کیمپ ڈیوڈ کے ڈرامے (۱۹۷۸ئ) کے ذریعے فلسطینی لیڈر یاسرعرفات اور ’تحریک آزادی فلسطین‘  (PLO) کو امن اور دو ریاستی نظام کے چکر میں ڈال دیا اور تحریکِ آزادیِ فلسطین کو کچھ دیے بغیر اپنے دونوں بنیادی مطالبے منوائے، یعنی اسرائیل کو تسلیم کرانا اور جہاد اور مزاحمت کے راستے کو خیرباد کہہ کر نام نہاد سفارت کاری اور مذاکرات پر مکمل انحصار۔

 اسرائیل کی عیارانہ حکمت عملی کا نتیجہ سب نے دیکھ لیا کہ اوسلو معاہدے میں پانچ سال کے اندر مستقل انتظامات کا لالچ دیا گیا تھا، لیکن ۲۰سال کے بعد صورت یہ ہے کہ ارضِ فلسطین کے صرف ۲۲فی صد کاجو وعدہ فلسطینیوں سے کیا گیا تھا، اس پر اسرائیلی تسلط اسی طرح موجود ہے جس طرح ۱۹۶۷ء کے بعد قائم ہوا تھا۔ اس ۲۲ فی صد کے نصف سے زیادہ علاقے پر اسرائیلی آبادکار قابض ہیں اور یہ ۶لاکھ مسلح آبادکار جنوبی افریقہ کے ماڈل کی طرح نسلی امتیاز کی بنیاد پر  (apartheid)  ریاست قائم کیے ہوئے ہیں۔ تمام سڑکیں ان کے پاس ہیں، سیکورٹی کا نظام ان کے ہاتھ میں ہے، فوج اور کرنسی ان کی ہے۔ محصول وہ وصول کرتے ہیں اور نام نہاد فلسطینی اتھارٹی کو کچھ خیرات دے دیتے ہیں اور ان کی ہرنقل و حرکت پر اسرائیل کا مکمل کنٹرول ہے۔ غزہ کے چند سو مربع کلومیٹر کا جو علاقہ حماس کی جرأت اور حکمت کی وجہ سے فلسطینیوں کے پاس ہے، اس کی حیثیت بھی کرئہ ارض پر سب سے بڑے کھلے قیدخانے کی سی ہے اور یہ بھی ایک کرشمہ ہے کہ اسرائیل کی ساری ناکہ بندیوں کے باوجود ۱۷لاکھ اہلِ ایمان اس محاذ کو سنبھالے ہوئے ہیں، گویا   ع

اپنی ہمت ہے کہ ہم پھر بھی جیے جارہے ہیں

نومبر ۲۰۱۲ء کی فوج کشی اور فضائی جارحیت کا اصل مقصد حماس کی کمر توڑنا اور غزہ کو تہس نہس کرنا تھا، تاکہ بالآخر مغربی کنارے کو مدغم کرلیا جائے اور اس طرح فلسطین کے مسئلے کا ان کی نگاہ میں آخری حل (final solution) ہوجائے۔ اسرائیلی قیادت نے اپنے ان عزائم کا اظہار کھلے الفاظ میں کردیا تھا، اس کے لیے پوری تیاری تھی۔ امریکا کی پوری پوری اعانت اور شراکت داری تھی اور یہ سب کچھ اسی مجبور اور کمزور بستی کے لیے تھا، جسے پہلے ہی نہ صرف ایک جیل خانہ بنادیا گیا تھا، بلکہ ہرسہولت سے محروم کردیا گیا تھا اور آہستہ آہستہ موت کے شکنجے میں کَس دیا تھا۔ نوم چومسکی نے اسرائیلی حملے سے صرف ایک ماہ پہلے اسی غزہ میں چند دن گزار کر اس بستی کی حالت کی جو منظرکشی کی ہے، وہ نگاہ میں رکھنا ضروری ہے:

غزہ میں یہ معلوم کرنے میں ایک دن بھی نہیں لگتا کہ یہ احساس کیا جاسکے کہ زندہ بچ جانا کیسا ہوگا؟ جہاں۱۵ لاکھ انسان مسلسل وقت بے وقت کی اور اکثر ہولناک دہشت گردی کا شکار ہوں اور من مانی سزائیں زندگی کا ایسا معمول بن جائیں جن کا اس کے سوا کوئی مقصد نہ ہو کہ محکوم انسانوں کی تذلیل اور تحقیر کی جائے۔

غزہ کو نوم چومسکی نے the World's largest open air prison  (دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل) قرار دیا۔ (دی نیشن، ۱۵ نومبر ۲۰۱۲ئ)

غزہ پر حملے اور اس کو نیست و نابود کرنے کے اسرائیلی عزائم، امریکا اور دوسری مغربی قیادتوں کے اعلانات، ایک کھلی کتاب کی مانند ہیں۔امریکا میں اسرائیل کا سفیر مائیکل ڈورن، حماس کی یہ تصویر امریکا اور دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے:’’کھلی یہودیت دشمنی اور نسل کشی کے مذہب کی پابندی کی وجہ سے حماس کو کسی امن معاہدے پر آمادہ نہیں کیا جاسکتا، ہاں اسے جنگ سے روکا جاسکتا ہے‘‘ (ہیرالڈ ٹربیون، ۲۲نومبر۲۰۱۲ئ)۔موصوف نے یہ بھی کہا کہ: ’’ہمیں انھیں ختم کردینا چاہیے تاکہ ہم اعتدال پسندوں کے ساتھ بیٹھ سکیں اور امن کی گفتگو کرسکیں‘‘۔

اسرائیلی قیادت نے حماس کو ایک نہ بھولنے والا سبق سکھانے کے دعوے سے اس سال یلغار کا آغاز کیا اور اسرائیل کے وزیرداخلہ ایلی یشائی  نے اس عزم کا اظہار کیا کہ:غزہ کو ہمیں  قرونِ وسطیٰ تک واپس پہنچادینا چاہیے۔ایک دوسرے وزیر نے کہا: کہ ہم غزہ کو پتھرکے زمانے (stone age) میں پھینک دیں گے۔ سابق وزیراعظم ایرل شیرون کے صاحب زادے نے بھی حماس کو صفحۂ ہستی سے مٹادینے کے عزم کا اظہار کیا۔

 یہ تھے وہ اعلانات، جن کے ساتھ اسرائیل نے اس تازہ جنگ کا آغاز اکتوبر ۲۰۱۲ء میں سوڈان میں کارروائی کرکے کیا اور اسے نومبر کے دوسرے اور تیسرے ہفتے میں اپنے انجام تک پہنچانے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ امریکی صدر نے یہ کہہ کر اس کے لیے ہری جھنڈی دکھا دی تھی کہ:

ہم اسرائیل کے ا س حق کی مکمل تائید کرتے ہیں کہ اسے لوگوں کے گھروں، اور کام کرنے کی جگہوں پر، اور شہریوں کے امکانی قتل کے لیے گرنے والے میزائلوں سے دفاع کرنے کا حق حاصل ہے۔ ہم اسرائیل کے دفاع کے اس حق کی حمایت جاری رکھیں گے۔

امریکی صدر اوباما کے اس ارشاد میں قتل کی ایک نئی قسم کا اضافہ کردیا گیا ہے، یعنی potentially killing ۔ گویا قتل کیا جانا ضروری نہیں، جس اقدام میں صرف ہلاکت کا امکان بھی ہو تو وہ بھی جارحیت، یعنی فوج کشی اور دوسروں کی سرزمین پر بم باری کے لیے جواز فراہم کرتا ہے۔ اور یہ فرمانا اس صدر کا ہے، جس کی طے کردہ kill-list کے تعاقب میں ڈرون حملوں کے ذریعے ہزاروں معصوم افراد پاکستان، یمن اور صومالیہ میں شب و روز ہلاک کیے جارہے ہیں اور جن کو اپنے دفاع میں کوئی کارروائی کرنے کا یا جارح قوت پر ضرب لگانے کا دُوردُور تک بھی کوئی حق حاصل نہیں۔ یہی وہ فسطائی ذہن ہے جس کے ردعمل میں تشدد اور دہشت گردی جنم لیتی اور پروان چڑھتی ہے۔

صدراوباما جس اسرائیل کو ’خود دفاعی‘ کے نام پر قتل و غارت اور بڑے پیمانے پر نسل کشی اور تباہ کاری کی کھلی چھوٹ دے رہے ہیں، اس کی اصل حقیقت کیا ہے، یہ بھی بین الاقوامی قانون کے غیرجانب دار ماہرین کے الفاظ میں سُن لیں، تو امریکی اور یورپی قیادتوں کی حق پرستی، انسان دوستی اور اصولوں کی پاس داری کی قلعی کھل جاتی ہے:

بلاشبہہ جیسے جیسے غزہ کا حالیہ تصادم لامحالہ کم ہونا شروع ہوجائے گا، یہ بات کھل کر سامنے آتی جائے گی کہ اسرائیل کا غزہ میں اور اسی طرح مغربی کنارے پر بھی بڑے پیمانے پر افواج کو لانا، اور وہاں کے عوام کے خلاف بلاامتیاز اسلحے کا استعمال کرنا، یہ محض جنگی جرائم نہیں ہیں بلکہ یہ انسانیت کے خلاف جرائم ہیں، اور امن کے خلاف بھی۔ آخرکار اسرائیل کتنا ہی چاہے کہ مقبوضہ علاقوں میں اسے سیاسی، قانونی اور اخلاقی جواز حاصل ہو، اس کے اقدامات امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ ، شام کی حکومت کی اپنے لوگوں کے خلاف جنگ، یا دوسری ریاستوں کا اپنے شہریوں کے خلاف تشدد کا  ایک سوچے سمجھے نظام کے تحت استعمال، جیسے ہیں۔ اس کا تعین اس سے ہوگا کہ اس نے عالمی قانون کو عالمی تعبیرات کے مطابق تسلیم کیا ہے یا ان کی خلاف ورزی کی ہے۔ اسرائیل جتنے طویل عرصے تک فلسطینیوں کو بلاامتیاز اور بے خوف ہوکر قتل کرتا ہے، اور مغربی کنارے اور غزہ کے ناجائز اور پُرتشدد قبضے کو جتنا عرصہ برقرار رکھتا ہے، اور    ان پالیسیوں کو برقرار رکھتا ہے، اسی قدر اس کو ان پالیسیوں کے غیرقانونی ہونے کی بناپر ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا ہوگا۔

اسرائیلی قیادت کو اپنے نئے حفاظتی حصار پر بھی بہت ناز تھا، جسے امریکی سرمایہ اور مہارت کی مدد سے آہنی گنبد (Iron Dome) کے نام سے گذشتہ چار سال میں تیار کیا گیا تھا اور جس میں ایسا خودکار نظام نصب کیا گیا تھا کہ جو خود بخود، باہر سے اندر  آنے والے میزائل کی شناخت کرتا ہے اور پھرانھیں ناکارہ بنادیتا ہے۔

اس تمام سازوسامان اور تیاری کے ساتھ اسرائیل کو توقع تھی کہ وہ چند ہی دن میں حماس کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردے گا اور پھر اپنی شرائط پر جنگ بندی کا معاہدہ کر کے جس طرح پی ایل او اور الفتح کو اپنے قابو میں کیا تھا، اسی طرح حماس کو بھی زیرنگیں کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ پھر جنوری کے انتخابات جیت کر نیتن یاہو اور اس کے دست ِراست لیبرمین کے اس عظیم تر اسرائیل کے قیام کے منصوبے پر گامزن ہوجائیں گے جو صہیونیت کا اصل خواب ہے۔

حماس نے اللہ پر بھروسا کیا اور اپنی صفوں میں مکمل اتحاد اور دستیاب وسائل کے بہترین استعمال کے ذریعے اسرائیل کے ان تمام منصوبوں کو خاک میں ملا دیا۔ بلاشبہہ مجاہداکبر احمد جعبری نے جامِ شہادت نوش کیا اور ان آٹھ دنوں میں ۱۶۳ مجاہد اور معصوم جوان، بچے اور خواتین شہید ہوئے، ایک ہزار زخمی ہوئے اور اربوں ڈالر کا نقصان ہوا، لیکن حماس اور پوری غزہ کی آبادی کے عزم میں ذرا کمی اور ان کے پاے ثبات میں کوئی لغزش نہ آئی۔ بچے بچے کی زبان پر کلمۂ شہادت اور دلوں میں جہاد جاری رکھنے کا عزم اور ولولہ تھا۔۱۰ہزارسے زیادہ افراد بے گھر ہوئے، مگر دوسروں نے ان کے لیے اپنے گھروں کے دروازے کھول دیے۔

 میزائل کی جنگ معرکے میں ایک فیصلہ کن حیثیت رکھتی تھی۔ حماس کے مجاہدین نے وسائل اور ٹکنالوجی میں ہزار درجے سے بھی زیادہ کم تر ہونے کے باوجود، اینٹ کا جواب پتھر سے دیا اور لڑائی کو اسرائیل کے طول و عرض میں پھیلا دیا، حتیٰ کہ تل ابیب جو غزہ سے ۷۰کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، اس کو بھی اپنی زد میں لے لیا۔ بلاشبہہ اسرائیلی ہلاکتیں کم ہیں لیکن یہ واضح نہیں کہ اس کی وجہ حماس کے میزائلوں کا نشانے پر نہ لگنا ہے، یا پھر ارادی طور پر حماس کی حکمت عملی یہ رہی ہے کہ عام آبادی کو خوف و ہراس میں تو مبتلا کیا جائے، مگر سول ہلاکتوں سے اجتناب کیا جائے۔ ایک امریکی تجزیہ نگار جولیٹ کیین نے اپنے مضمون میں بڑے اہم سوال اُٹھائے ہیں، جنھیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا:

غزہ کی پٹی کی منتخب فلسطینی حکومت حماس کے لیے Iron Domeکی کامیابی اس سے کم مایوس کن تھی جیساکہ بظاہر نظر آیا۔ حماس نے یہ میزائل اس لیے نہیں چلائے تھے کہ اسرائیلیوں کو ماریں۔ اگر ان کا یہ مقصد ہوتا تو یہ ناکام ہوتے۔ دراصل اس کا مقصد اپنے دشمن اسرائیل کے مقابلے میں حماس کی مضبوطی دکھانا تھا۔ Iron Dome کی وجہ  سے شہری ہلاکتوں میں کمی ہوئی ہوگی لیکن اس سے ان راکٹوں کی تعداد میں کمی نہیں آئی جو حماس نے چھوڑے۔ حماس کے راکٹ لانچر اسرائیلیوں کو محض مارنے کے لیے نہیں تھے، بلکہ یہ ایک منقسم فلسطینی قیادت میں حماس کے مقام کو بڑھانے کے لیے تھے۔

اسرائیل کے لیے Iron Dome کی کامیابی اور جس اندیشے کے پیش نظر اسے استعمال کیا گیاتھا، یہ تھی کہ یہ  یقینی بنایا جائے کہ اسرائیل کی بڑی تعداد میں ہلاکتوں نے حکومت کو مجبور نہیں کیا کہ وہ غزہ میں ایک بڑی زمینی جنگ شروع کرے۔

امریکا کے لیے Iron Dome کا پیغام یہ نکلا کہ وہ مسائل جو براے تصفیہ ہیں اور جو اسرائیل اور فلسطین کو تقسیم کرتے ہیں، ان کا حل بات چیت کے ذریعے ہو۔

حماس کی حکمت عملی

اس پس منظر میں حماس کی حکمت عملی کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے، اور ساتھ ہی یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ اسرائیل اور امریکا کے ہراندازے کے برعکس حماس نے ساری بے سروسامانی کے باوجود اسرائیلی جارحیت کے ہرنہلے پر دہلے کی مار دی ہے۔ جس کا نتیجہ ہے کہ اسرائیل اور امریکا کے لیے کوئی اور چارہ نہیں رہا کہ جو تہس نہس کرنے کے دعوے سے میدان میں آئے تھے، اور جنھوں نے اپنی پونے دولاکھ مستقل فوج کی مدد کے لیے ۷۵ہزارریزرو بھی بلا لیے تھے، جنھوں نے   زمینی حملے کی پوری لام بندی کرنے اور اس کے واضح اعلان کے علی الرغم جو وزیردفاع ایہود بارک نے حملے کے دوسرے ہی دن کیا تھا کہ:’’ہم اس وقت تک نہیں رُکیںگے جب تک حماس     اپنے گھٹنوں کے بل نہ گر جائے اور جنگ بندی کی بھیک نہ مانگے‘‘، خود جنگ بندی کی بات کرے۔

اسی اسرائیل نے خود اپنے ہی حملے کے پانچویں دن جنگ بندی کی بات شروع کردی اور وہی صدر اوباما جو اقوامِ متحدہ کے سالانہ اجتماع کے موقع پر مصر کے صدر ڈاکٹر مرسی سے ملاقات کو تیار نہ تھے، انھیں دو دن میں چار بار ٹیلی فون کرتے ہیں۔ امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن کو مصر اور فلسطین بھیجتے ہیں اور آٹھویں دن ایک معاہدہ طے پاجاتا ہے، جس میں اسرائیل کا کوئی بڑا مطالبہ جگہ نہیں پاسکا۔ حماس کے دونوں مرکزی مطالبات کہ دونوں طرف سے بیک وقت ایک دوسرے کی سرحدات کی خلاف ورزی اور دراندازی بند ہو، محض یک طرفہ جنگ بندی جس کا مطالبہ اسرائیل کررہا تھا، اس کا کوئی سوال نہیں۔ دوسری بڑی اہم شرط یہ تھی کہ غزہ کا محاصرہ ختم کیا جائے اور انسانی اور مال برداری کی نقل و حرکت معمول پر لائی جائے اور اس طرح ۲۰۰۷ء کے اسرائیل کی طرف سے مسلط کردہ ناکہ بندی (blockade)  کو ختم کیا جائے۔ یہ دونوں مطالبات اس معاہدے کا حصہ ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ اس معاہدے کو بجاطور پر حماس کی فتح اور اسرائیل کے لیے باعث ِ ہزیمت قرار دیا جارہا ہے، جس کے بارے میں اس راے کا اظہار اب عالمی میڈیا میں کھلے بندوں اور اسرائیل کی حزبِ اختلاف کی طرف سے برملا کیا جارہا ہے۔ لیکن اس صورت حال کو سمجھنے کے لیے چند بنیادی باتوں کا اِدراک ضروری ہے:

بلاشبہہ فلسطینیوں کا جانی اور مالی نقصان زیادہ ہوا، لیکن اگر نقصان کے تناسب کا ۲۰۰۸-۲۰۰۹ء کی ۲۲روزہ جنگ سے کیا جائے تو بڑا فرق نظر آتا ہے۔ چارسال پہلے کے اسرائیلی آپریشن میں ۱۰۰ فلسطینیوں کی شہادت کے مقابلے میں صرف ایک اسرائیلی ہلاک ہوا تھا۔ اب یہ تناسب اس کا ایک تہائی ہے یعنی ۳۱ فلسطینیوں پر ایک اسرائیلی کی ہلاکت۔

اصل مقابلہ میزائلوں اور راکٹوں کی جنگ میں ہوا ہے۔ اسرائیل کا منصوبہ یہ تھا کہ جس طرح جون ۱۹۶۷ء کی جنگ میں اس نے پہلے ہی ہلے میں مصر کی پوری فضائیہ اور ہوائی حملے کی صلاحیت کا خاتمہ مصر کے ہوائی اڈوں پر ہی کردیا تھا، اسی طرح موجودہ فوج کشی کے پہلے دنوں میں حماس کی راکٹ اور میزائل چلانے کی صلاحیت کو ختم کردیا جائے گا ۔ اس نے حملے کے لیے دوسرا دن فیصلہ کن اقدام کے لیے رکھا۔ منصوبہ یہ تھا کہ پہلے دن کے حملے کے ردعمل میں حماس جو کارروائی کرے گی، اس سے اس کے راکٹ اور میزائل کے ٹھکانوں کی نشان دہی ہوجائے گی۔ دوسری خفیہ معلومات کی روشنی میں دوسرے دن حماس کی اقدامی صلاحیت کا خاتمہ کردیا جائے گا۔ نیز اربوں ڈالر خرچ کرکے اسرائیل نے جو آہنی حصار (Iron Dome) بنالیا ہے، اس کے ذریعے حماس کی جوابی کارروائی کو بے اثر کردیا جائے گا۔ ان کا اندازہ تھا کہ غزہ سے آنے والے میزائلوں اور راکٹوں کے ۸۵ سے ۹۰ فی صد میزائل یہ نظام تباہ کردے گا اور اس طرح دوسرے دن ہی سے فضا پر اسرائیل کی مکمل حکمرانی ہوگی اور غزہ اسرائیل کے سامنے سرنگوں ہوجائے گا۔ لیکن  ع  اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔

لندن اکانومسٹ نے ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کے علاوہ تین تحقیقی اداروں کی جمع کردہ معلومات کی روشنی میں جو تفصیلی نقشے شائع کیے ہیں، ان کے تجزیے سے یہ دل چسپ صورت حال سامنے آتی ہے کہ حماس نے ہر روز مقابلے کی قوت کا مظاہرہ کیا، حتیٰ کہ آخری دن بھی کسی کمزوری کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اس جنگ میں کامیابی اور ناکامی کا اصل معیار انسانی جانوں کی ہلاکت نہیں بلکہ اس جنگی ٹکنالوجی کے میدان میں مقابلہ ہے، جس نے اسرائیل کے تمام اندازوں کو غلط ثابت کردیااور وہ مجبور ہوا کہ نہ تو زمینی یلغار کرے جس میں اس کے لیے ہلاکتوں کا زیادہ خطرہ تھا بلکہ فضائی جنگ کو بھی روکے کہ یہ غیرمؤثر ہورہی تھی۔

اسرائیل اور حماس کے ایک دوسرے کے اہداف پر حملے (یومیہ صورتِ حال)

۱۴ نومبر ۲۰۱۲ء

۱۵ نومبر ۲۰۱۲ء

۱۶ نومبر ۲۰۱۲ء

۱۷ نومبر ۲۰۱۲ء

۱۸ نومبر ۲۰۱۲ء

۱۹نومبر ۲۰۱۲ء

۲۰ نومبر ۲۰۱۲ء

۲۱ نومبر ۲۰۱۲ء

۲۲ نومبر ۲۰۱۲ء

اسرائیل کے حماس پر حملے

۱۰۰

۲۷۰

۳۲۰

۳۰۰

۱۳۰

۸۰

۱۰۰

۲۰۰

x

حماس کے اسرائیل پر حملے

۸۰

۳۱۰

۲۳۰

۲۳۵

۱۶۰

۱۴۰

۲۱۵

۱۲۰

x

حماس کے وہ حملے جنھیں اسرائیل نے ناکارہ بنادیا

۴۰

۱۴۰

۱۲۰

۹۰

۶۰

۶۵

۶۵

۲۰

x

حماس کے وہ حملے جنھیں اسرائیل کے دفاعی حصار نے متاثر نہیں کیا

۴۰

۱۷۰

۱۱۰

۱۴۵

۱۰۰

۷۵

۱۵۰

۱۰۰

x

اس آٹھ یوم کی جنگ میں اسرائیل کی ہزیمت اور امریکا کی شرمندگی کو سمجھنے کے لیے مندرجہ بالا جدول میں دی گئی معلومات کا تجزیہ ضروری ہے:

۱- اسرائیل کو توقع تھی کہ وہ پہلے ہی دو دن میں حماس کو مفلوج کردے گا، لیکن حماس نے کسی اعلیٰ صلاحیت کے جدید ترین حفاظتی حصار کے بغیر اپنی اقدامی اور دفاعی صلاحیت کو محفوظ رکھا ، اور پہلے دن اسرائیل کے ۱۰۰ حملوں کے جواب میں۸۰، دوسرے دن ۲۷۰ کے جواب میں۳۱۰، اور آخری دن ۲۰۰ کے جواب میں ۱۲۰ حملے کرکے اپنی صلاحیت کا لوہا منوا لیا اور اسرائیل اور امریکا کو ششدر کردیا۔

۲- اسرائیل کے نہایت ترقی یافتہ (sophisticated) اور مہنگے حفاظتی حصار کے باوجود حماس کے تقریباً ۵۰ فی صد میزائل اور راکٹ اس نظام کی گرفت سے بچتے ہوئے اپنا کام دکھانے اور ٹھکانے پر پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔

۳- یہ بات درست ہے کہ تباہی مچانے والے بارود کی مقدار اور صلاحیت کے میدان میں اسرائیل اور حماس کے میزائلوں میں بڑا فرق ہے۔ یہ دعویٰ اسرائیل کی عسکری اور سیاسی قیادت نے کیا ہے کہ اسرائیل کی تباہ کرنے کی صلاحیت ایک ہزار گنا زیادہ تھی۔ اس اعتبار سے جو اصل تباہی ہوئی ہے وہ اسرائیل کے منصوبے کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ لیکن یہ حقیقت کہ وسائل اور صلاحیت کے اس عظیم فرق کے باوجود حماس نے آخری دم تک مقابلہ کیا اور جنگ بندی کے آخری لمحات تک اپنے میزائل برساتا رہا، جو اس کے مقابلے کی صلاحیت کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے، اور اس سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ آیندہ کے لیے اس میں اپنی صلاحیت کو ترقی دینے اور اسرائیل کا بھرپور مقابلہ کرنے کی استعداد موجود ہے۔

۴- اسرائیل کا خیال تھا کہ حماس کے میزائل اور راکٹ ۱۵ سے ۳۰کلومیٹر سے آگے نہیں جاسکتے، لیکن الحمدللہ، حماس نے اسرائیل کی آخری حدود تک اپنی پہنچ کا ثبوت دے کر اسرائیل اور امریکا کو انگشت بدنداں کردیا۔ تل ابیب، بیت المقدس اور تیسرے بڑے شہر بیرشیوا (Beersheva) کے قرب و جوار میں ہی نہیں، بلکہ اسرائیل کے نو ایٹمی تنصیبات کے مرکز ڈایمونا (Dimona) تک حماس کے میزائل پہنچے ہیں، اور یہ وہ حقیقت ہے جس نے اسرائیل کو اپنے پورے نقشۂ جنگ پر نظرثانی پر مجبور کردیا ہے۔

۵- بلاشبہہ میزائل اور راکٹ ٹکنالوجی کے حصول میں حماس نے دوسرے مسلمان ممالک خصوصیت سے ایران سے فائدہ اُٹھایا ہے اور اس کا برملا اعتراف بھی کیا ہے ۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حماس نے میزائل اور راکٹ دونوں کو بنانے اور انھیں ہدف پرداغنے کی صلاحیت مقامی طور پر حاصل کرلی ہے۔ اسرائیل اور امریکا کی تمام پابندیوں کے باوجود نہ صرف باہر سے اجزا حاصل کیے ہیں، بلکہ ان اجزا کو اندرونِ غزہ جمع کرنے (assemble) اور مؤثر طور پر کام میں لانے کا (operationalize ) نظام قائم کیا ہے، اور اسے اسرائیل کی خفیہ نگرانی اور تباہ کن جارحانہ صلاحیت سے محفوظ رکھا ہے۔ اگر مغربی نامہ نگاروں کی یہ روایت صحیح ہے کہ اسرائیل کی فوجی قیادت نے اعتراف کیا ہے کہ جو میزائل اورراکٹ اسرائیل پر داغے گئے ہیں، ان میں سے کم از کم ایک بڑی تعداد غزہ ہی میں بنائی گئی ہے، تو اس پر اللہ کے شکر کے ساتھ حماس کی سیاسی اور عسکری قیادت کو ہدیۂ تبریک پیش کرنا اعترافِ نعمت کا ہی ایک رُخ ہے۔

اگر اسرائیل اور حماس کی اس فضائی جنگ کی حکمت عملی کا ملٹری سائنس اور انٹرنیشنل ہیومینٹیرین لا کی زبان میں موازنہ کیا جائے تو اسرائیل کے میزائل اور F-16 سے آگ اور خون کی بارش ہمہ گیر تباہی کی، جسے Weapons of Mass Destruction کہا جاتا ہے، قبیح ترین شکل ہے۔ اسرائیل نے ان تباہ کن ہتھیاروں کا بے دریغ اور بے محابا استعمال کیا ہے۔ اس کے برعکس حماس نے جو حکمت عملی اختیار کی ہے اس میں اہتمام کیا گیا ہے کہ دشمن کی صفوں میں بھی جاں کا ضیاع نہ ہونے کے برابر ہو، البتہ اسی کے ذریعے مقابلے کی قوت کو جنگ بندی اور مذاکرات کے  ذریعے مسائل کے حل کی طرف لایا جاسکے۔ یہی وہ چیز ہے جسے اصل  سدِّجارحیت (deterrance)  کہا جاتا ہے۔

اسرائیل کی ھزیمت ، حماس کی بالادستی

یہ ہے وہ اصل جنگی منظرنامہ جو اسرائیل اور امریکا کو جنگ بندی اور اس معاہدے تک لایا جو ۲۱ نومبر کو طے پایا اور ۲۲ نومبر سے اس پر عمل شروع ہوا۔ اس معاہدے کے تجزیے اور اس کے ان اثرات پر بھی تفصیل سے گفتگو کرنے کی ضرورت ہے، جو اس سے متوقع ہیں۔ فی الحال اس حقیقت کے اعتراف پر بات کو مکمل کرتے ہیں کہ بلاشبہہ حماس اور اہلِ غزہ نے جانوں اور قربانیوں کا نذرانہ کہیں زیادہ ادا کیا، لیکن اسرائیل اور اس کی پشت پر امریکا کی قوت کو چیلنج کرکے اور بے سروسامانی کے باوجود انھیں جنگ بندی کی طرف آنے اور ناکہ بندی کو ختم اور راہداری کھولنے پر مجبور کر دیا ہے جوبڑی کامیابی ہے۔ اس نے نقشۂ جنگ ہی نہیں، سیاسی بساط کو بھی بدل دیا ہے۔ اب اس کا اعتراف دوست اور دشمن سب کر رہے ہیں۔ لندن دی اکانومسٹ نے اسرائیلی وزیردفاع ایہودبارک کے ایک مشیر کے یہ الفاظ نقل کیے ہیں کہ:’’حماس نے جنگی میدان میں شکست اور سیاسی میدان میں فتح حاصل کی‘‘۔

لندن کا اخبار دی گارڈین جنگ بندی کے معاہدے کے بعد ادارتی کالم میں حالات کی یوں تصویرکشی کرتا ہے:

اسرائیل کی انتخابی مہم کو نہ دیکھا جائے تو غزہ پر فضائی بم باری کے آخری آٹھ دنوں کو کسی حکمت عملی کی کامیابی قرار دینا مشکل ہے۔ اسرائیل کے دفاعی انتظامی نقطۂ نظر سے یہ ایک خوشی کے لمحے سے شروع ہوا ___ فلسطینی کمانڈر احمد جعبری کی کار پر حملے سے___ اور حماس اور دو دوسرے فوجی گروپوں کو ناکام بنانے پر جنھوں نے تل ابیب پر باربار راکٹ پھینکے، جو کہ حزب اللہ نے بھی دوسری لبنانی جنگ کے عروج پر نہیں کیا تھا،اور بسوں پر بم باری کی حکمت عملی کی طرف واپسی سے روکنا۔ اگر بدھ کی رات ہونے والا معاہدہ قائم رہتا ہے تو حماس مکمل واپسی کے بعد بھی جنگ بندی نہیں کررہی۔

نیتن یاہو کا دعویٰ ہے کہ اس نے حماس کو ناکارہ کردیا ہے، اور زمینی حملے کے بارے میں تنبیہات کو وزن دینے سے اس نے اپنے لیے مغربی حمایت کو مضبوط بنالیا ہے۔ لیکن اس کی یہ قیمت ادا کی کہ عرب دنیا میں حماس کا مقام بلند ہوگیا۔ اس نے تنظیم کے ساتھ وہ کیا ہے جو اس نے خالدمشعل کے ساتھ کیا تھا۔ جب اس نے زہر سے اس کے قتل کا حکم جاری کیا تھا اور پھر اُردن کو تریاق فراہم کرنے پر مجبور ہوا تھا۔ اس کے نتیجے میں مشعل کے قدکاٹھ میں اضافہ ہوا۔ اسی طرح حماس بھی پی ایل او کی قیادت کے مقابلے میں آگے بڑھنے کی بہتر پوزیشن میں آگئی ہے۔ کیا اسرائیلی وزیراعظم یہی چاہتا تھا یا اسے طاقت کی قوت کے استعمال کا اب احساس ہوا ہے؟ نیتن یاہو کو طاقت سے حماس کو ختم کرنے کے بجاے شاید ان سے گفتگو کرنا چاہیے۔

ایک مغربی سفارت کار نے اسرائیل کی عسکری بالادستی کو tactical کامیابی ضرور قرار   دیا ہے لیکن ساتھ ہی آٹھ روزہ جنگ کے حاصل کو حماس کے لیے اسٹرے ٹیجک جیت قرار دیا ہے، اور خود اسرائیل کے اخبارات نے فوج کے عام سپاہیوں کا یہ احساس ریکارڈ کیا ہے کہ: Bibi (Benjamin Natan Yahu) is a loser.   (ایکسپریس ٹربیون، ۲۴نومبر ۲۰۱۲ئ)

اسرائیلی راے عامہ کے جائزوں سے بھی یہ حقیقت سامنے آرہی ہے کہ اسرائیل کی ۷۰ فی صد آبادی اس جنگ بندی کے معاہدے پر ناخوش ہے، جب کہ صرف ۲۴فی صد نے اس کی تائید کی ہے۔

بحیثیت مجموعی عالمی سیاست پر نظررکھنے والوں کا احساس ہے کہ فلسطین کے مسئلے کا فوجی حل، جو اسرائیل اور خود امریکا کی حکمت عملی تھا، اس کی کامیابی کے امکانات کم سے کم تر ہورہے ہیں اور اس کی جگہ افہام و تفہیم کے ذریعے کسی سیاسی حل کی ضرور ت کا احساس روزافزوں ہے۔

پہلو اور بھی بہت سے ہیں جن پر غوروفکر اور مباحثے کی ضرورت ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ اس طرف اشارہ کررہی ہے کہ ایک بڑے شر میں سے بھی کسی نہ کسی صورت میں خیر کے رُونما ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ بلاشبہہ ابھی کش مکش اور جدوجہد کے بے شمار مراحل درپیش ہیں۔ راستہ کٹھن اور دشوار گزار ہے۔ ہرلمحہ آنکھیں کھلی رکھنے اور معاملات کا ہرپہلو سے  جائزہ لے کر مقصد سے وفاداری اور حقیقت پسندی کے ساتھ حکمت عملی طے کرنے کی ضرورت جتنی پہلے تھی، اب اس سے کچھ زیادہ ہی ہے۔

صاف نظر آرہاہے کہ ان شاء اللہ اب امریکا کی محکومی اور امریکی سامراجیت کے زیراثر مفادات کی سیاست کا باب ختم ہونے جارہا ہے۔ شہدا کے خون اور مظلوموں کی تمنائوں اور قربانیوں کا یہی تقاضا ہے، تو دوسری طرف یہی ایمان، آزادی اور عزت کا راستہ ہے۔ اب جن نئے امکانات کی راہیں کھل رہی ہیں ان سے پورا پورا فائدہ اُٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ اُمت مسلمہ کے    سلگتے ہوئے مسائل کو حل کیا جائے اور اتحاد اور خودانحصاری کی بنیاد پر تعمیرنو کی سعی و جہد ہوسکے۔  اللہ تعالیٰ اُمت مسلمہ اور اس کی قیادت کی رہنمائی فرمائے، اور ہم سب کو درست اور بروقت فیصلے کرنے اور صحیح راستے پر چلنے کی توفیق سے نوازے۔ آمین!