دسمبر ۲۰۱۲

فہرست مضامین

مدیر کے نام

| دسمبر ۲۰۱۲ | مدیر کے نام

Responsive image Responsive image

محمد ابراہیم ، اسکردو

’حکومت کی کارکردگی اور آنے والے انتخابات‘ (اکتوبر ۲۰۱۲ئ)، متوقع قومی انتخابات کے پیش نظر اہم تحریر ہے۔ امیرجماعت سید منور حسن صاحب نے جہاں انتخابات کی اہمیت اور قوم کو اپنی حالت کے بدلنے کے اہم موقع کو سوچ سمجھ کر استعمال کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے، وہاں موجودہ حکومت کی محاذ آرائی اور تصادم کی سیاست، اہم ملکی مسائل بالخصوص بلوچستان اور کراچی کی تشویش ناک صورت حال اور ناٹوسپلائی کا ملک دشمن فیصلہ اور دیگر مسائل کا تذکرہ کرتے ہوئے حکومت کی کارکردگی کا مختصراً جائزہ بھی لیا ہے اور قوم کے لیے لائحہ عمل پیش کیا ہے۔ انتخابی مہم کے پیش نظر اس تحریر کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔


عبدالرشید عراقی ، سوہدرہ ، گوجرانوالہ

’شام: اسدخاندان کا مجرمانہ دورِ حکومت‘ (نومبر ۲۰۱۲ئ) پڑھ کر بڑی اذیت ہوئی۔ اس خاندان کے ظلم و ستم کی داستان پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوگئے کہ اپنے اقتدار کی خاطر اس ظالم خاندان نے شامی عوام پر   ظلم و ستم کی انتہا کردی ہے۔حافظ الاسد ایک ظالم اور سفاک حکمران تھا اور اس کا بیٹا اپنے ظالم اور سفاک باپ سے آگے بڑھ گیا ہے اور ہنوز اس کا ظلم وستم شامی عوام پر جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ کی لاٹھی بے آواز ہے۔       اِنَّ بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِیْدٌ، ان شاء اللہ وہ دن دُور نہیں جب ظالم حکمران کو اپنے کیے کی سزا ملے گی اور    شامی عوام اپنے صبروتحمل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی رحمت کے مستحق ٹھیریں گے۔ اسلامی میڈیاکو ظالم حکمران کے خلاف آواز اُٹھانی چاہیے۔


محمد صادق کھوکھر ،لسٹر، برطانیہ

’اقبال اور سیکولرازم‘ (نومبر۲۰۱۲ئ) او رعلامہ محمد اسد کی تحریر ’ہم کیوں پاکستان بنانا چاہتے ہیں؟‘  (اگست، ستمبر۲۰۱۲ئ) بہت پسند آئے۔ چراغِ راہ کے سوشلزم نمبر پر تبصرہ (ستمبر ۲۰۱۲ئ) بہت اچھا تھا اور یہ جملہ بھی خوب تھا کہ: ’’آپ کی محنت قابلِ داد اور طباعت کے معاملے میں شدید تساہل قابلِ فریاد ہے‘‘۔ براہِ کرم محمداسد کی مزید تحریر شائع کریں، نیز محترمہ مریم جمیلہ پر بھی کسی کو لکھنا چاہیے۔ یہ دونوں شخصیات نومسلم تھیں۔ دونوں نے اسلام کی خاطر اپنے وطن چھوڑ کر پاکستان ہجرت کی لیکن ہم نے انھیں کوئی اہمیت نہیں دی۔ بیرونِ ملک ان پر کتب اور مضامین لکھے جاتے ہیں لیکن ہمیں کچھ خبر ہی نہیں۔


فقیر واصل واسطی ، لاہور

’جنسی تعلیم اسلامی اقدار کی تناظر میں‘(جون ۲۰۱۲ئ) بہت ہی اچھا لکھا۔ مگر اس میں بھی ڈاکٹرصاحب کی شانِ اجتہادی نمایاں ہے۔ دو مثالیں ملاحظہ ہوں۔ قرآن کریم جنسی جذبے کو حلال و حرام اور پاکیزگی اور نجاست کے تناظر میں بیان کرتا ہے تاکہ حصولِ لذت ایک اخلاقی ضابطے کے تحت ہو نہ کہ فکری اور جسمانی آوارگی کے ذریعے۔ چنانچہ عقیدۂ نکاح کو ایمان کی تکمیل اور انکارِ نکاح کو اُمت مسلمہ سے بغاوت کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے (ص ۶۴)۔ پتا نہیں یہ کسی آیت کا ترجمہ ہے یا حدیث کا، یا کوئی اجماعی قانون ہے؟ ایک اور جگہ وعن شبا بہ فیما ابلاہ سے درج ذیل نتیجہ اخذ کیا ہے۔ احادیث بار بار اس طرف متوجہ کرتی ہیں کہ یوم الحساب میں جو سوالات پوچھے جائیں گے، ان میں سے ایک کا تعلق جوانی سے ہے اور دوسرے کا     معاشی معاملات سے۔ گویا جنسی زندگی کا آغاز شادی کے بعد ہے، اس سے قبل نہیں (ص ۶۶)۔ ایک تو یہ کہ الفاظِ حدیث عام ہیں۔ دوسرے یہ کہ جوانی اور شادی میں کیا نسبتِ مساوات ہے؟


محمد اصغر ، پشاور

’اسلام کے اقتصادی نظام کے نفاذ کا پہلا قدم___ بیع سلم‘ (جون ۲۰۱۲ئ) میں نجی سطح پر سود کے خاتمے کے قانون (۲۰۰۷ئ) کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ اسی قانون کو صوبہ سرحد میں بھی نافذ کیا گیا تھا اور اے این پی کی موجودہ حکومت نے اسے غیرمؤثر کردیا ہے۔ (ص ۵۴)

ریکارڈ کی درستی کے لیے میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ راقم اُس ٹیم کا حصہ تھا جس نے پروفیسر خورشید احمد صاحب کی قیادت میں صوبہ سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت کے دوران معیشت سے سود کے خاتمے کی جدوجہد میں حصہ لیا تھا۔ ایم ایم اے کی صوبائی حکومت نے پنجاب اسمبلی کے مذکورہ بالا قانون کو اختیار /نافذ (adopt) نہیں کیا تھا بلکہ ایک الگ اور مربوط منصوبہ بندی کے تحت بنک آف خیبر ایکٹ کا ترمیمی بل ۲۰۰۴ء صوبائی اسمبلی سے منظور کروا کر بنک آف خیبر کی تمام سودی شاخوںکو اسلامی بنکاری کی برانچوں میں تبدیل کرنے کی راہ ہموار کی تھی۔ اس ایکٹ کا پنجاب اسمبلی کے منظورکردہ ایکٹ کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں۔ تاہم صوبائی معیشت کو اسلامیانے کے لیے ایک الگ کمیشن جسٹس  فدا محمد خان ، جج شریعہ کورٹ، سپریم کورٹ آف پاکستان کی صدارت میں قائم کیا گیا تھا جس کا راقم بھی رُکن تھا۔ اِس کمیشن نے بڑی محنت کے ساتھ رپورٹ مرتب کی کہ کس طرح صوبائی معیشت کو سود سے پاک کیا جاسکتا ہے۔ افسوس کہ کچھ بیوروکریٹک کوتاہیوں اور اعلیٰ سیاسی قیادت کی عدم دل چسپی کے باعث کمیشن کی سفارشات حتمی شکل اختیار نہ کرسکیں اور   ایم ایم اے کی حکومت کا دورانیہ مکمل ہوگیا۔

واضح رہے کہ اے این پی کی حکومت نے مکمل طور پر بنک آف خیبر کو دوبارہ سودی کاروبار میں تبدیل نہیں کیا بلکہ بنک کی پرانی سودی برانچوں کو اسلامی برانچیں بننے سے روکنے کے لیے بنک آف خیبرایکٹ میں دوبارہ ترمیم کر کے اللہ کے غضب کو دعوت دی ہے۔ لیکن اس کے باجود وہ بنک آف خیبر میں اسلامی برانچوں کو غیرمؤثر کرنے یا نقصان پہنچانے میں (کوشش کے باوجود) کامیاب نہ ہوسکے۔ لہٰذا ایم ایم اے دور کا کام محفوظ اور intact ہے اور ان شاء اللہ جب دوبارہ ہمیں اقتدار ملے گا تو اسلامی بنکاری اور اسلامی معیشت کے کام کا آغاز وہیں سے ہوگا جہاں اِسے اے این پی اور پیپلزپارٹی کی مخلوط صوبائی حکومت نے پھیلنے سے روکا ہے۔