دسمبر ۲۰۱۲

فہرست مضامین

جنسی بے راہ روی: ایک چیلنج

ڈاکٹر محمد آفتاب خان | دسمبر ۲۰۱۲ | مغرب اور اسلام

Responsive image Responsive image

ریاض اختر

موجودہ زمانے میں فحاشی اور جنسی بے راہ روی کے جس طوفان نے تمام دنیا کواپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ،اب وہ ہمارے دروازے پر ہی دستک نہیں دے رہا بلکہ ہمارے گھروں کے اندر بھی داخل ہو چکا ہے۔ ٹی وی، ڈش،انٹرنیٹ اور دیگر مخرب اخلاق پرنٹ میڈیا کے ذریعے ہماری نوجوان نسل جس انداز میں اُس کا اثر قبول کر رہی ہے، اُس کے پیشِ نظر یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ    ہم بھی یورپ اور امریکا کے نقشِ قدم پر نہایت تیزی کے ساتھ چلے جارہے ہیں،جس پر وہ عیسائی مذہبی رہنمائوں کی غلط تعلیمات و نظریات کے نتیجے میں آج سے ایک ڈیڑھ صدی قبل رواں دواں ہوئے تھے۔ امریکا اور یورپ اس جنسی بے راہروی کی وجہ سے بن بیاہی مائوں، طلاقوں کی بھرمار،خاندانی نظام کی تباہی اور جنسی امراض بالخصوص ایڈز کی وجہ سے تباہی کے دھانے پر کھڑے ہیں۔ کیا مسلمان ممالک بھی اُنھی نتائج سے دوچار ہونا چاہتے ہیں؟یہ اور اس قسم کے چند سوالات ہیں جنھوں نے اس ملک کے سوچنے سمجھنے والے طبقے کو پریشان کیا ہوا ہے۔ اس کا علاج ایک طرف امریکا، یورپ اور اقوامِ متحدہ کی جانب سے مختلف غیر سرکاری تنظیموں کے ایک جال ہم رنگِ زمیں کے ذریعے مسلمان ممالک کو اُسی رنگ میں رنگنے کے لیے کوششوں سے ہو رہا ہے۔ تاہم اس کا دوسرا یقینی اور قابلِ اعتماد حل وہ ہے جو ہمیں قرآن اور اسلامی تعلیمات کے ذریعے دیا گیا تھا،    جسے نظرانداز کرنے اور بھلانے سے ہم آج اس دوراہے پر کھڑے ہیں۔ زیر نظر مضمون میں     اس موضوع کے مختلف پہلوئوں پر گفتگو کی گئی ہے۔

موجودہ زمانے میںجنس اور جنسیت کے بارے میں ایک متوازن اور معتدل نقطۂ نظر  پیش کرنے کی ضرورت طویل عرصے سے محسوس کی جارہی تھی۔ خاص طور پر ہماری وہ نسل جو آج کل کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں زیر تعلیم ہے، جہاں مخلوط تعلیم کی بنا پر وہ ہر وقت آپس میں ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے ہیں۔ وہ ایک کلاس روم میں پڑھتے ہیں، ایک جگہ لائبریری، لیبارٹری میں کام کرتے ہیں اور تعلیمی اداروں سے باہر ہوٹل، پارکوں اور دیگر تفریحی مقامات پر بھی انھیں میل جول کے مواقع حاصل ہیں۔ انھیں باربار یہ ضرورت پیش آتی ہے کہ وہ یہ جانیں کہ اسلام کا اس حوالے سے کیا نقطۂ نظر ہے اور ایک دوسرے کے ساتھ باہمی تعلقات رکھنے میں انھیں اسلام کے کن قوانین اور حدودوقیود کا خیال رکھنا چاہیے۔

آج سے چالیس پچاس سال قبل تو شاید یہ معلومات صرف ان مسلمانوں کے لیے ضروری تھیں جو تعلیم کے حصول، کاروبار یا بسلسلۂ ملازمت امریکا اور یورپ کے ممالک میں قیام پذیر ہوتے تھے۔ تاہم گذشتہ دو تین عشروں میں تو یہ سوال ایک حقیقت کے طور پر سامنے آ گیا ہے کہ اس سے صرفِ نظر کرنا کسی ہوش مند فرد کے لیے کسی صورت بھی مناسب نہیں۔ اگرکسی کے دل میں موجودہ نوجوان نسل کے بارے میں ’معصوم‘ہونے کا خیال ہے تو یہ خود فریبی ہے اور حقائق سے کورچشمی کی دلیل ہے۔

پاکستان میں نوجوان نسل جس تیزی کے ساتھ بگاڑ کا شکا ر ہو رہی ہے ، اس کے اندازہ اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں سے باآسانی لگایا جا سکتا ہے۔گذشتہ دنوں راولپنڈی کے ایک سکول کی تین طالبات اور تین طلبہ کے سکول سے غائب ہو جانے اور پھر دو تین دن کے بعد پشاور کے ایک ہوٹل سے برآمدہونے کا واقعہ جس خطرناک رجحان کی نشان دہی کر رہا ہے وہ ہماری آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہونا چاہیے۔یہ صورتِ حال تو یوں سامنے آئی کہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں دو تین دن تک گھروں سے غائب رہے، وگرنہ صبح جا کر شام تک یونی ورسٹی، کالج اور ہوٹلوں میں وقت گزار کر شام کو واپس آنے والے بچوں کا تو شمار ہی نہیں کیا جا سکتا!

اس ضمن میں جنرل (ر) عبدالقیوم لکھتے ہیں کہ: ’’مغرب کا نعرہ ’آزادی‘وہ آزادی ہے جس کو ساری مہذب دنیا مادر پدرآزادی کہتی ہے۔ اس آزادی کا مطلب یہ بھی ہے کہ آپ کی جواں سال بیٹیاں یا بیٹے بے شک بغیر شادی کے اپنے جوڑے چن لیں، حتیٰ کہ ناجائز بچے بھی پیدا کرلیں تو  ماں باپ کو یہ حق نہیں کہ وہ ان سے کوئی سوال بھی کر سکیں۔بدقسمتی سے اب پاکستانی معاشرے میں بھی بے حیائی عام ہوتی جارہی ہے۔ کیبل پر انتہائی واہیات پروگرام دیکھ کر اب ٹیلی ویژن پر شرم وحیا سے عاری اشتہار بھی مہذب لگنے لگے ہیں۔ موبائل ٹیلی فون ، انٹرنیٹ اور کیبل نیٹ ورک کے  غلط استعمال سے ہماری نوجوان نسل تباہ ہو رہی ہے‘‘۔(نواے وقت، ۱۱مئی ۲۰۱۲ئ)

اس پس منظر میں ہمیں اس سوال پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا اسلام نے انسانی زندگی کے اس اہم ترین شعبے (جنسیت)کے بارے میں کوئی رہنمائی دی ہے یا دیگر مذاہب کی طرح اس بارے میں انسان کومادرپدر آزاد چھوڑ دیاگیا ہے؟

جنسیت:ایک طائرانہ تاریخی جائزہ

تاریخِ انسانی کے طویل دورمیں جنسیت کے حوالے سے انسان دو انتہائوں کے درمیان ہچکولے کھاتا نظر آتا ہے۔ایک انتہا یہ ہے کہ انسان پر اس حوالے سے کوئی قانونی ، اخلاقی، معاشرتی یا مذہبی پابندی عائد نہیں۔ وہ جب ، جہاں اور جس کے ساتھ چاہے اس جبلت کی تسکین کر سکتاہے، اور مرد پر بلخصوص اس کے نتائج کے بارے میں کسی قسم کی کوئی پابندی بھی عائد نہیںہوتی۔اسے مغرب کے موجودہ زمانے کی اصطلاح میں مادرپدرآزاد جنسی آزادی (Free Sex)کہتے ہیں۔ تاہم، یہ انوکھااور جدید تصور نہیں۔ قرآن کریم نے مصر کے ہزاروں سالہ پرانے جاہلی معاشرے میں انفرادی اور اجتماعی سطح پر (Group Sex)کی تصویر کشی سورۂ یوسف (۱۲:۲۳-۳۰) میں کر دی ہے۔ انسانی زندگی میں جنسی رویے کی دوسری انتہا جس کا ذکر بھی قرآن کریم نے سورۂ حدید  (۵۷:۲۷) میں کر دیا ہے، وہ راہبانہ تصور ہے جس کا تعلق اس فطری جبلت کو ختم کرنے کے لیے دنیوی علائق کو تیاگ دینے اور لنگوٹ کس کر جنگلوں ، پہاڑوں میں زندگی بسر کرنے سے ہے۔ عیسائیت میں اس تصور کو فروغ دینے کا بانی سینٹ پال تھا، جس کے بعد متعدد کلیسائی رہنمائوںنے نہ صرف اس کی تلقین کی بلکہ اس پر عمل پیرا بھی ہوئے۔ تاریخِ انسانی ان راہبوں کے گھنائونے اور انسانیت کش حالات سے بھری ہوئی ہے جس کے تحت شادی (نکاح) کے ذریعے میاں بیوی کے درمیان تعلقات کو بھی بنظرتحسین نہیں دیکھا گیا۔

اٹھارھویںصدی عیسوی یورپ کی عورتوں کے لیے بالخصوص اور تمام دنیا کی عورتوں کے لیے بالعموم ایک ایسی ’بدقسمت صدی‘ ثابت ہوئی جس کے مسائل اور آلام ومصائب سے انسانیت آج تک بلبلا رہی ہے اور نہ معلوم کتنے عرصے تک اُسے اس کے برے اثرات کا سامنا کرنا پڑے۔ ۱۷۶۰ء کی دہائی سے شروع ہونے والے صنعتی انقلاب کی وجہ سے دیہاتوںسے شہروںکی جانب آبادی کے بہائو (urbanization) کے نتیجے میںیورپ کے بڑے بڑے شہر تو آباد ہوگئے لیکن اس کی وجہ سے یورپین خاندانی اور معاشرتی ڈھانچا زیروزبر ہو گیا۔ بعدازاں جنگ عظیم اوّل اور دوم کی  وجہ سے مردوعورت کے تناسب میں ایک ایسا تفاوت پیدا ہو گیا جس کے نتیجے میں جنسی وصنفی انارکی کا ایک طوفان بے محابہ اٹھ کھڑا ہوا۔ عورتوں کو اپنے خاندان کے وجو دکو برقرار رکھنے کے لیے نہایت قلیل معاوضے پر طویل دورانیے کے لیے کام کرنا پڑا۔ سرمایہ دار نے ان کی محنت کا ہی استحصال نہیںکیا بلکہ ان کی عزت و عصمت کا بھی سودا کر لیا۔

صنعتی انقلاب کے تلخ پھل جو کام کی زیادتی ، کم تنخواہ، عزتِ نفس کے مجروح ہونے اور عصمت و عفت کے لٹ جانے کی شکل میںظاہر ہوئے، ان کی وجہ سے یورپین عورت اس امر پر مجبور ہوگئی کہ وہ شادی کے بندھن سے چھٹکارا حاصل کرے ۔ کیونکہ وہ یک و تنہا بیمار یامعذور خاوند اور بچوں کے خاندانی نظام کو چلانے کی سکت نہیں رکھتی تھی۔ علاوہ ازیں، صنعتی ترقی نے لوگوں کو جہاں سہولیات اور آسایشات مہیا کیں، وہیں ان کی زندگیوں میں تلخیاں بھی بھر دیں۔ ا ب گھر میں ان تمام سہولیات کی فراہمی کے لیے عورت کو بھی اتنا ہی کام کرنا پڑا جتنا قبل ازیں مرد کیا کرتا تھا اور یہیں سے خاندانی نظام میں توڑ پھوڑ شروع ہوئی۔

عورت گھر سے باہر نکلی تو دنیا کے تقاضے مختلف پائے۔اب اس کے سامنے دو راستے تھے: ایک تو یہ کہ گھر واپس لوٹ جائے، مگر اس صورت میں سہولیات اور آسایشات سے محرومی نظر آتی تھی۔ دوسری راہ اس سے بالکل متضاد تھی کہ وہ مرد کے ساتھ مسابقانہ اصول کے تحت اپنی نسوانیت کو خیر باد کہتے ہوئے شرم و حیا کو بھی بالاے طاق رکھے اور ’ہل من مزید‘ کی آس میں مرد کی ہوس کا شکار ہوتی رہے۔یہ راہ جنسی بے راہ روی کے اس میدان تک لے گئی جہاں عورت اب ماں، بہن ، بیوی یا بیٹی نہیں رہی تھی بلکہ جنسی کشش اور دعوت کا نمونہ بن گئی۔ انھی حالات میں اس کے اندر پیدا ہونے والی سوچ نے ایک ردعمل کو جنم دیاجو بتدریج بڑھتا ہوا احتجاجی مظاہروں، جلسے جلوسوں اور تشہیری مہم کے ذریعے اس قدر طاقت ور ہو گیا کہ نتیجتاً عورتوں کو مردوں کے برابر معاوضے کا حق مل گیا۔

بات یہیں تک رک جاتی تو گوارا تھا۔عورت گھر سے باہر نکلی، کام اور معاوضے کا حق تسلیم کیا گیا،ہر سطح پر برابری ملنے لگی تو بالآخر معاملہ نسوانی تحریکوں (فیمینزم) کے ایک چونکا دینے والے مرحلے میں داخل ہو گیا۔عورتوں نے شادی کے ادارے ہی کو چیلنج کر دیا۔ ان کے خیال میں شادی اور خاندان کا ادارہ عورت کو محکوم بنانے کی ’مردانہ سازش ‘ تھی۔اس ’سازش‘ کے خلاف ’جنگ‘ یوں جیتی جا سکتی تھی کہ عورت بیوی اور ماں بننے کے لیے’خود مختارانہ فیصلے ‘کرنے کی اہل ہو۔یوں سمجھیے کہ گیند اب ایک ڈھلوان سڑک پر تھی جو آگے ہی آگے چلی جا رہی تھی۔عورتوں نے جنس کے فطری تقاضے کی تسکین کے لیے ازدواجی حدود یکسر مسترد کر دیں اور ایک نیا نعرہ بلند ہوا کہ ’’عورت کا جسم اس کی اپنی ملکیت ہے جس پر کسی دوسرے کا کوئی اختیار نہیں ‘‘۔ مردوں کے لیے یہ امر خوش کن تھا۔عورت اور مرد ، دونوں اپنے اپنے گمان میں مسرور اور مطمئن ہو گئے ۔لیکن اس کی کس قدر قیمت طبقۂ نسواں اور انسانیت کو ادا کرنی پڑی اس کا ابھی تک مکمل شعور انسان کو نہیں ہوسکا۔

اٹھارھویں صدی میں چرچ اور سائنس کے درمیان جو جنگ لڑی گئی اس میں چرچ کے غیر عقلی اور غیرمنطقی طرزِ عمل سے اس کا دائرہ ِعمل یورپ کی سوشل زندگی اور بالآخر ریاست کے  دائرۂ کارسے بالکل علیٰحدہ ہوگیا۔انقلابِ فرانس اور مارٹن لوتھر کے ذریعے الحادی نظام کو جڑ پکڑنے کا موقع ملا اور یوں چرچ نے خود اپنے آپ کو ویٹی کن سٹی (روم) کی چاردیواری تک محدود کر لیا۔مزید برآںعیسائیت کو دیگرتمام الہامی مذاہب کے برابر گردانتے ہوئے یورپی مفکرین نے تمام مذاہب بشمول اسلام کو بھی خدا اور انسان کے درمیان ایک پرائیویٹ تعلق کی حد تک محدود کرنے کا پرچار شروع کیا، جس سے موجودہ زمانے کے مسلمان بھی اس تصور کے قائل ہو گئے، اور یوں دین ودنیا کی دوئی کا تصور جڑ پکڑتاچلا گیا جس کے نتائج ِبد سے آج انسانیت کراہ رہی ہے۔

موجودہ زمانے میںعورتوں کی عزت و احترام کے کھو جانے کی وجہ سے عورت ، مردوں کے ہاتھوں جنسی شہوت اور لذت کے حصول کا ذریعہ بن کر رہ گئی ہے۔یورپ ،امریکا اور بھارت  کی عریاں فلم ساز صنعت (Pornographic Industry) اس کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے۔  ان حالات میں ہر اس عورت سے، قطع نظر اس سے کہ اس کا تعلق مشرق سے ہے یا مغرب سے ، وہ مسلم ہے یا غیرمسلم،وہ امیر ہے یا غریب لیکن جو تہذیبِ جدید کی دوڑ میں شریک ہونے کی خواہش مند ہے، اس سے ایک سوال پوچھنے کو جی چاہتاہے کہ کیا اس کی زندگی کا آئیڈیل صرف ایک پلے گرل (Play Girl) بننا ہی رہ گیا ہے کسی پلے بوائے(Play Boy)کے ہاتھوں ؟

انسانی زندگی میں جنسیت کی اھمیت و ضرورت

جنسیت کا موضوع ،انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے دونوں پہلوئوں پر حاوی ہے۔یہ ایک ایسا موضوع ہے جس کی حدود اخلاق،تہذیب و ثقافت سے ملتی ہیں،اور قانون کے علاوہ معاشرتی آداب اور طور طریقوں سے بھی۔اگرچہ جنسیت ایک انسانی جبلت ہے، تاہم نکاح کے نتیجے میں بچوں کی پیدایش کے ذریعے انسانی معاشرے کی بقا اور ترقی کا انحصار بھی اس امر پر ہے کہ اس جبلت کو کس طرح ایک ضابطے کے تحت رکھا جائے۔ اس کا اظہار کس طریق پر ہونا چاہیے اوراس سے کس حد تک استفادہ یا اجتناب کرنا ضروری ہے۔ تاریخ ِ انسانی سے یہ سبق ملتا ہے کہ جب اور جس جگہ جنسیت اس قدر عام ہو جاتی ہے جیسا کہ امریکا اور دیگر مغربی ممالک میں، تو بلاشبہہ وہاں معاشرے اور قوم کو اس کی بہت بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔یونان، روم، ہندستان، نیز قدیم مصری تہذیبوں کا خاتمہ اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ ان ممالک میں انصاف  کم یاب، طبقاتی تفریق ایک حقیقت، اوربے لگام جنسیت عام ہو گئی تھی ۔ پھر قانونِ الٰہی کے مطابق وہ اقوام بالآخر نیست ونابود ہوگئیں۔ایک انسان اس امر کا اندازہ نہیں کر سکتا کہ ان قوموں سے قدرت نے کس قدر سخت انتقام لیا، اور اس طرح کی خوف ناک سزا کسی قوم کو اس وقت ہی ملتی ہے جب وہ جنسیت کے بارے میں مادرپدر آزاد رویہ اختیار کر لیتی ہے۔یہاں اس امر کی صراحت شاید ضروری ہو کہ دنیا بھر میں جہاں جہاں جنسی جذبے کی تسکین بے محابہ انداز میں کی جارہی ہے، وہاں خاندانی نظام تلپٹ ہو کر رہ گیا ہے۔ایسے حالات میں خاندان کا ادارہ جس کے ذریعے مستقبل کی نسل کی پرورش کا فریضہ سر انجام دیا جاتاہے قائم نہیں رہتا۔

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے موجودہ حالات کے پیشِ نظر یہ خیال کہ وہ ایک بہت بڑے حادثے سے دوچار ہونے والے ہیں، بعید ازقیاس نہیں___ اگرچہ ان ممالک کے نوجوان طبقے میں عیسائیت کے خلاف جو جذبہ بغاوت پیدا ہو گیا ہے وہ صحیح نہیں۔ تاہم، اس مقالے کے آغاز میں جن چند واقعات کا تذکرہ کیا گیا ہے، کیا وہ واضح کرنے کے لیے کافی نہیں کہ پاکستان میں بھی حالات ان ممالک سے بہت زیادہ مختلف نہیں۔بدقسمتی سے یہاں مذہبی لیڈر حضرات نے معاشرے کے مختلف طبقوں کو، جس میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں سرفہرست ہیں،جنسی جذبے کی اہمیت اور انسانی زندگی میں اس کے جائزاور صحیح استفادے کے بارے میں بتانے سے مجرمانہ حدتک تساہل و تغافل برتا ہے ۔اس ضمن میں زیادہ تر لٹریچر تعزیروں اور عذابوں کی تکرار پر مشتمل ہے، جسے آج کا تعلیم یافتہ اور بالخصوص مغربی تعلیم سے متاثر پاکستانی نوجوان طبقہ آسانی سے قبول کرنے کو تیار نہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اسے منطقی اور سماجی حالات کو مد ِ نظر رکھ کر سوچنے سمجھنے کا خوگر بنایا جائے کہ جسے وہ محض دو افراد کے درمیان وقتی لذت کوشی اور فطری جذبے کی تسکین کا نام دیتے ہیں، حقیقت میں اس کے اثرات نہایت ضرر رساں اور خوف ناک ہو سکتے ہیں۔ انسانی زندگی میں نکاح یا بیاہ کی ضرورت ،خاندانی نظام کے قیام ، بچوں کی تربیت، نیز میاں بیوی کے درمیان محبت و مودت پر مبنی تعلیمات اور خاندانوں کے درمیان اتفاق و اتحاد کے مثبت نتائج سے انھیںآگاہ نہیں کیا جاتا۔ جب تک کہ موجودہ روش کے نتیجے میں گھریلو تشدد ،بچوں کی تربیت پر مضرت رساں اثرات،   طلاق اور اس سے متعلقہ نفسیاتی ، معاشی اور معاشرتی مسائل کی طرف ان کی توجہ نہیں دلائی جاتی، محض پند و نصائح پر مشتمل چند لمحوں کی گفتگو کسی طور بھی مطلوبہ نتائج کی حامل نہیں ہو سکتی۔جنسی ہیجانات کی وجہ سے مسلم سوسائٹی میں سخت خلفشاربرپاہے ، جو ہر آنے والے لمحے میں بڑھتا ہی جا رہا ہے ۔اس بارے میں اسلامی رہنمائی تو موجود ہے مگر اس موضوع کو ’شجرممنوعہ‘ بنا دیا گیا ہے۔   اسلامی تعلیمات پر مبنی مناسب لٹریچر کی عدم موجودگی، یا کم دستیابی کے نتیجے میں نوجوان طبقہ مجبوراً     یہ معلومات ٹی وی، ڈش اور انٹر نیٹ سے حاصل کررہا ہے، اور چونکہ ان ذرائع سے جو معلومات حاصل ہوتی ہیں، ان میںلذتیت کا پہلو بہت نمایاں ہو تا ہے، اس کی وجہ سے نوجوان طبقہ اسی ایک پہلو پر عمل کر تاہے۔ یوں معاشرے میں بہت سے اخلاقی اور معاشرتی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔

اسلام میں انسان کی جسمانی، روحانی،عقلی اور جذباتی احساسات کی تمام تر ضروریا ت کو پیش ِنظر رکھا گیاہے۔ قرآن کریم نے زندگی کا کوئی ایسا پہلو نہیں چھوڑا جو انسانی زندگی کی کامیابی کے لیے ضروری نہ ہو ۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو صحت و جوانی کے ساتھ ساتھ جنسی داعیہ بھی دیا ہے،   لہٰذا اس کو ختم کر نا یا اس سے جائز طریق پر استفادہ نہ کرنا منشاے الٰہی نہیں ہو سکتا۔اسلام کے نزدیک کوئی ایسا کام جو انسانی زندگی میں انتہائی دنیوی سمجھا جاتا ہو اگر احکامِ خداوندی کے مطابق کیا جائے تو وہ ایک روحانی اور مذہبی عمل بن جاتاہے، حتیٰ کہ میاں بیوی کے درمیان تعلق بھی ایک باعثِ ثواب عمل بن جاتا ہے ۔یہ اسلام کا ایک طرۂ امتیاز ہے کہ اس نے انسانی زندگی کے تمام پہلوئوں کو اس طرح باہم سمو دیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔

درجِ بالا گفتگو سے اب ہم اس مرحلے پر پہنچ گئے ہیں جہاں ایک شخص کے ذہن میں یہ سوال ابھرتاہے کہ آخر وہ کون سی تعلیمات ہیں جو اسلام نے ایک مسلمان کو اپنی جنسی زندگی کی رہنمائی کے لیے دی ہیں؟بہت سے لوگوں کو اکثر اوقات اس بات پر ہی اچنبھا محسوس ہوتا ہے کہ کیا  اس موضوع پر بھی قرآن کریم جیسی الہامی کتاب میں کوئی رہنمائی دی گئی ہے؟۔صدیوں تک ہندووں کے ساتھ رہنے کا یہ نتیجہ نکلا کہ اسلام کو بھی ایک مذہب ہی سمجھا گیا جس کے معنی صرف عبادت (پوجا پاٹ) کے لیے چند ظاہری رسوم کی پیروی کرنا ہے۔ مغربی تعلیم و تہذیب کے زیرِاثر یہ بات ہمارے ذہنوں میں راسخ ہو گئی کہ دنیاوی معاملات ازقسم شادی بیاہ ، لین دین، سیاست، اخلاق اور زندگی کے دیگر مختلف پہلوؤں میں ہم آزاد ہیں کہ جس طرح چاہیں اپنی مرضی سے یا معاشرے میں مروجہ رسم و رواج کے مطابق عمل کریں جو اسلامی تعلیمات اور اسوہ رسولؐ سے کوسوں دُور ہی نہیں بلکہ متصادم بھی ہیں۔اس جگہ اس امر کی وضاحت بہت ضروری ہے کہ اسلام دنیا کے معروف معنوں میں کوئی مذہب نہیں بلکہ زندگی گزارنے کا طریقہ کار ہے جس نے مسلمانوں کو زندگی کے تمام انفرادی اور اجتماعی معاملات کے لیے واضح ہدایات دی ہیں۔اسی طرح اس میں حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لے کر قیامت تک کے انسانوں کے لیے ان کی جنسی زندگی کے لیے بھی ہدایت و رہنمائی کا اہتمام کیا گیا ہے۔

 

ڈاکٹر محمد آفتاب خان پروفیسر ہیں اور اس موضوع پر کئی کتب کے مصنف ہیں، جب کہ ریاض اختر سابق جائنٹ سیکرٹری حکومت پاکستان اور جینڈر ڈویژن کے انچارج رہے ہیں۔