جماعت اسلامی برعظیم ہندوپاک میں وہ پہلی جماعت ہے جس نے تعمیر کا وقت آنے سے پہلے ہی معاشرے کے اِن دونوں عناصر [اہلِ دنیا و اہلِ دین] کو خالص اسلامی اصولوں پر جمع کرنے اور ان کے درمیان وسیع ہوتی ہوئی خلیج پر پُل بنانے کی قابلِ ذکر خدمت انجام دی ہے۔ یہ جماعت چونکہ اوّل روز سے ایک اسلامی معاشرے اور اسلامی ریاست کی تعمیر کا منصوبہ لے کے اُٹھی تھی اور اسی کے لیے ملّت کی فکری و عملی طاقتوں کو منظم کر رہی تھی، اس لیے ناگزیر تھا کہ یہ معاشرے کے دونوں ہی طرح کے عناصر میں نفوذ کرے اور دونوں کو ایک صف میں جمع کردے۔ خوش قسمتی سے اسے داعیِ اوّل ملا تو ایسا کہ جس نے دونوں طرف کے سرچشمہ ہاے علوم سے بھی استفادہ کیا تھا اور دونوں عناصر کوقریب سے سمجھابھی تھا۔ چنانچہ وہ بالفاظِ خویش ’بیچ کی راس کا ایک آدمی‘ تھا۔ پھر اس کی آواز پر دونوں طرف سے جو لوگ آگے بڑھے ان کی کچھ تو فکری ساخت ایسی تھی اور کچھ ان کی تربیت اس طرح ہوتی گئی کہ ان کی مجموعی قوت قوم کے مذہبی اور جدید عنصر کو باہم قریب تر لانے کا ایک مؤثر ذریعہ بن گئی۔
جماعت اسلامی نے اسلام کی خالص اور بے آمیز دعوت کو پیش کرنے کے لیے ایک ایسی زبان، ایک ایسا طرزِاستدلال، ایک ایسی تکنیک اختیار کی جو اپنی روح کے اعتبار سے براہِ راست قرآن کے عین مطابق تھی اور دوسری طرف وہ جدید عنصر کے ذہن سے اقرب بھی تھی۔ اُس نے اپنی دعوت کے لیے خطابت، صحافت اور لٹریچر میں بالکل نئے راستے نکال لیے۔ اُس نے مذہبی عنصر اور جدید عنصر دونوں کو اپنے لیے یکساں مخاطب سمجھ کر جو آواز بلند کی،اس طرح بلند کی کہ وہ دونوں کے لیے قابلِ فہم اور مؤثر ہو۔ اُس نے دونوں طرف کی اصطلاحات کو متقابلاً استعمال کرکے دونوں ہی طبقوں کے لیے ان کو قابلِ فہم بنادیا۔ اُس نے ایک طرف دین کو تمام ٹیکنیکل بحثوں سے الگ کر کے ایک نظامِ زندگی کی حیثیت سے نتھار کر سامنے رکھ دیا اور دوسری طرف جدید ترین مسائل اور زمانے کے آخری تقاضوں کو زیربحث لاکر یہ واضح کردیا کہ یہ مسائل اور تقاضے ایسے نہیں ہیں کہ اسلام کے اصول ان کا سامنا نہ کرسکیں۔ چنانچہ اس کی دعوت نے دونوں طرف یکساں قلوب کو فتح کیا ہے۔ (’اشارات‘ ، نعیم صدیقی ، ترجمان القرآن، جلد ۳۹، عدد ۳، ربیع الاول ۱۳۷۲ھ،دسمبر ۱۹۵۲ئ، ص ۲-۳)