دسمبر ۲۰۱۲

فہرست مضامین

کتاب نما

| دسمبر ۲۰۱۲ | کتاب نما

Responsive image Responsive image

 

ارمغانِ علامہ علاء الدین صدیقی، مرتبہ: پروفیسر ڈاکٹر جمیلہ شوکت۔ ناشر: شعبہ علوم اسلامیہ، جامعہ پنجاب، لاہور۔ جولائی ۲۰۱۲ئ۔ صفحات: ۱۳۵۸+۳۳۔ قیمت: ۴۴۰ روپے۔

علم و ادب، تدریس و تربیت اور تحقیق و تصنیف کے شناور، زندگی بھر ان راستوں پر     سفر کرتے کرتے اس دنیا سے پردہ کر کے اور دوسری زندگی میں اللہ تعالیٰ کے حضور پیش    ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح کچھ ایسے خاوران ہوتے ہیں کہ ان گھاٹیوں کو عبور بھی کر رہے ہوتے ہیں اور پکے ہوئے پھل کی مانند ہمارے ارد گرد موجود ہوتے ہیں۔ ایسے عالموں، فاضلوں اور محسنوں کی علمی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے ’ارمغانِ علمی‘ کی ایک شان دار روایت کو پروان چڑھانے میں بالخصوص پنجاب یونی ورسٹی کے شعبۂ اُردو نے پیش رفت کی اور اب اس یونی ورسٹی کے ادارۂ علوم اسلامیہ نے بھی اس راستے پر ایک قدم بڑھایا ہے۔

زیرنظر ارمغان، جامعہ کے سابق وائس چانسلر علامہ علاء الدین صدیقی (۱۹۰۷ئ- ۱۹۷۷ئ) کی خدماتِ جلیلہ کے اعتراف میں مرتب کی گئی ہے، جو مختلف علما کے ۱۷ مقالات کے علاوہ    علامہ مرحوم کے تین انگریزی مضامین پر مشتمل ہے۔ مضامین کی پیش کش میں مطالعۂ تقابل ادیان کا رنگ غالب ہے۔

سبھی مضامین علمی چاشنی اور ٹھوس معلومات کی سوغات لیے ہوئے ہیں، تاہم ان میں نمایاں ترین مقالہ پروفیسر ڈاکٹر سفیراختر برعظیم [پاک و ہند] میں مطالعۂ مذاہب (ص ۳۱-۶۷) کے حسنِ فکرونظر کا نتیجہ ہے۔ مقالات کے موضوعات میں اتنا تنوع اور مباحث میں اتنی وسعت ہے کہ ایک مختصر تبصرہ ان کا احاطہ نہیں کرسکتا۔ چند مقالات کے عنوانات سے ارمغان کے مزاج کا اندازہ ہوجائے گا:

  • مطالعہ مذاہب کا مغربی منہاج، ڈاکٹر عبدالقیوم
  • محمد سلمان منصور پوری اور مطالعہ مذاہب، ساجد اسداللہ
  • قرآن اور دیگر کتب سماوی کی حفاظت، پروفیسر حافظ محمود اختر
  • زبور میں مذکور ابدی ممدوح الامم، عبدالستار غوری
  • سیدنا یعقوب ؑ کی آپؐ کے بارے میں    پیش گوئی، احسان الرحمن غوری
  • مذاہب عالم کی کتبِ مقدسہ میں صحابہؓ کا تذکرہ ، عثمان احمد
  • اسلام: فکراقبال کی روشنی میں ، ڈاکٹر سید محمد اکرم شاہ
  • مولانا محمد ادریس کاندھلوی: تقابل ادیان میں خدمات، محمد سعد صدیقی
  • مولانا رحمت اللہ کیرانوی اور مطالعہ مسیحیت، محمد عبداللہ صالح
  • بہائیت اور اس کا نظامِ عبادت، ڈاکٹر جمیلہ شوکت
  • تقابلِ ادیان میں مولانا ثناء اللہ امرتسری کی خدمات، محمد اسرائیل فاروقی، محمد شہباز حسن،
  • مولانا عبدالشکور لکھنوی: معروف مبلغ، عاصم نعیم
  • یکساں اخلاقی   نصب العین اور بین المذاہب ہم آہنگی، زاہدمنیرعامر۔ علامہ علاء الدین صدیقی مرحوم کے تین انگریزی مقالات حضرت ابراہیم ؑ، رسول کریمؐ اور اسلام کے بارے میں ہیں۔

پروفیسر ڈاکٹر جمیلہ شوکت نے فی الحقیقت بڑی محنت سے اس گلدستۂ معلومات کو مرتب کیا ہے۔ اس پیش کش میں سلیقہ بھی ہے اور حُسنِ ترتیب بھی۔ ادارہ علومِ اسلامیہ اس نیکی پر مبارک باد کا مستحق ہے۔ (سلیم منصور خالد)


سفرِعرب اور حج بیت اللہ، سیدابوالاعلیٰ مودودی۔ ناشر: منشورات، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون: ۵۴۳۴۹۰۹-۰۴۲۔ صفحات:۱۶۸۔ قیمت: ۱۹۵ روپے۔

تقریباً ۵۵برس پہلے، مولانا مودودی کے پہلے سفرِحج اور اُردن، فلسطین اور شام کے دورے کی روداد پہلے روزنامہ تسنیم اور پھر کتابی شکل میں مولانا مودودی کا دورۂ مشرق وسطـٰی کے نام سے شائع ہوئی تھی۔ یہ کتاب تقریباً نایاب کے درجے میں تھی۔ سلیم منصور خالد صاحب نے اسے دریافت اور بازیافت کرکے ازسرِنو مرتب کیا اور نہایت معلومات افزا حواشی و تعلیقات اور اشاریے کے ساتھ زیرنظر کتاب کی شکل میں شائع کیا ہے۔ سلسلۂ مطالعاتِ مودودی میں اس کتاب کو ایک اعتبار سے بنیادی ماخذ کی حیثیت حاصل ہوگی۔

جون ۱۹۵۶ء کے اس سفر میں مولانا نے سب سے پہلے دمشق کی مؤتمر اسلامی میں شرکت کی تھی، بعد میں جملہ مندوبین اُردن گئے جہاں اس وقت کے حکمران شاہ حسین نے مندوبین کی دعوت کی۔ عمان سے مولانا بیت المقدس اور فلسطین گئے۔ وہاں سے دمشق پہنچ کر بذریعہ ہوائی جہاز جدہ پہنچے، اور فریضۂ حج ادا کرکے واپس پاکستان آگئے۔ تقریباً ڈیڑھ ماہ کے اس سفر کی روداد میں مولانا نے اپنے مشاہدات کے ساتھ ساتھ عرب ممالک اور وہاں کے سیاسی، علمی اور دینی طبقوں اورجماعتوں کے اکابر سے ملاقاتوں اور گفتگوئوں کا ذکر کیا ہے۔ اس تذکرے میں بہت سی مفید تجاویز بھی شامل ہیں۔ عرب ممالک کے بارے میں یہ تاریخی اور معلومات افزا روداد پڑھنے کے لائق ہے۔ اندازہ ہوتا ہے کہ یہودیوں کی قوت اور مسلمانوں کے ضعف، اسی طرح یہودیوں کی  ترقی و عروج اور مسلمانوں کے زوال اور پستی و پس ماندگی کی وجوہ کیا ہیں؟ انتظاماتِ حج کے سلسلے میں سعودی حکومت کی خدمات کے اعتراف کے ساتھ ساتھ مولانا نے بہت سے اصلاح طلب پہلوئوں کی نشان دہی بھی کی ہے۔ مجموعی حیثیت سے سعودی عرب کے عام حالات پر تبصرہ کیا ہے اور اس کی صنعتی اور زرعی ترقی کے لیے تجاویز بھی پیش کی ہیں۔

 بقول مرتب: ’’اس میں مقصدیت کا عنصر غالب ہے۔ عام سفر ناموں کی طرح     کام و دہن، سیروسیاحت اور حیرت و استعجاب کے قصوں کے بجاے حکمت، فکرمندی،دُوراندیشی اور رہنمائی کے واضح اشارات موجود ہیں‘‘۔ کتاب کی ظاہری پیش کش میں سلیقہ اور نفاست  نمایاں ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)


شکست آرزو،ڈاکٹر سید سجاد حسین۔ ناشر:اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی، ۳۵-ڈی، بلاک ۵، فیڈرل بی ایریا کراچی، ۷۵۹۵۰۔فون: ۳۶۳۴۹۸۴۰-۰۲۱۔ صفحات:۳۵۲۔قیمت :درج نہیں

۲۰؍ابواب او ر۱۲ ضمیموں پر مشتمل ڈھاکہ یونی ورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور انگریزی کے معروف ادیب ڈاکٹر سید سجاد حسین کی یادوں پر مشتمل کتاب The Wastes of Timeکا ترجمہ شکست آرزو  سقوطِ ڈھاکہ کے منظر اور پس منظر کا بہترین تجزیہ ہے۔ ڈاکٹر سید سجاد حسین ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے قیام پاکستان کی جدوجہد میں فعال کردار ادا کیا، بطور طالب علم بھی اور بطور استاد بھی۔ نظریہ پاکستان کی آب یاری کے لیے دی ایسٹ پاکستان سوسائٹی قائم کی اور ایک پندرہ روزہ سیاسی مجلہ پاکستان  جاری کیا۔ انھوں نے دو قومی نظریے کی ترویج کے لیے بطور صحافی بھی کام کیا اور روزنامہ آزاد کلکتہ اور کامریڈ میں مضامین بھی لکھتے رہے۔

زیر نظر کتاب میں دو قومی نظریے کے لیے جدوجہد اور بنگال میں تحریک پاکستان کے قائدین اور سیاست دانوں کے کردار‘ قیام پاکستان کے بعد کے ۲۴سالوں پرمحیط ان کی کمزوریوں اور نظریہ پاکستان سے وابستگی کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔

کتاب مصنف کی یادداشتوں پر مبنی ہے جو انھوں نے ۱۹۷۳ء میں قلم بند کی تھیں۔ ابتدائی ابواب میں انھوں نے اپنے ساتھ روا رکھے گئے ظالمانہ سلوک، گھر سے گرفتاری، تشدد اور جیل میں گزرے ایام، وہاں موجود اہل کاروں کے رویے، اردو بولنے والوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں، تشدد، قتل و غارت اور لوٹ مار کی تفصیلات بیان کی ہیں۔ جیل میں موجود اپنے ’باغی‘ ساتھیوں کی ذہنی کیفیات، سیاسی افکار اور نظریہ پاکستان کے بارے ان کے جذبات و محسوسات پر نہایت    شرح و بسط سے بحث کی ہے۔ ان ساتھیوں میں متحدہ پاکستان کے آخری اسپیکر فضل القادر چودھری،  عبدالصبور خان اور خواجہ خیر الدین سابق ڈپٹی سپیکر اے ٹی ایم عبدالمتین اور روزنامہ سنگرام کے ایڈیٹر اخترفاروق قابل ذکر ہیں۔ فاضل مصنف نے چار باب اس موضوع پر لکھے ہیں اور ہرشخصیت پر تفصیلی بحث کی ہے۔

مصنف کے خیال میں ڈھاکہ یونی ورسٹی کے طلبا کے علاوہ عام بنگال کے دیہاتی افراد کو زبان کے معاملے سے کوئی خاص دل چسپی نہ تھی۔ ہندوئوں کے زیر اثر بنگلہ قوم پرست عناصر نے اس مسئلے کو ابھارا اور دو قومی نظریے پر یقین رکھنے والے ان لوگوں کی کمزوری اور معذرت خواہانہ رویوںکو بے نقاب کیا۔ مرکزی حکومتوں کی عدم دل چسپی اور نظر انداز کیے جانے والے اقدامات نے اس کو مہمیز دی، کیوں کہ بنگالی سیاست کے اہم ترین سیاسی کردار، یعنی خواجہ ناظم الدین، حتیٰ کہ حسن شہید سہروردی بنگلہ زبان سے واقف تک نہ تھے۔

مصنف نے جداگانہ انتخاب کا بھی تذکرہ کیا ہے جس کی بنیاد مسلم لیگ کے مطالبے پر رکھی گئی تھی۔ نظریاتی لحاظ سے ناپختہ مسلم لیگی سیاست دانوں نے خود ہی جداگانہ طرز انتخاب کو ختم کرکے دو قومی نظریے کو عملاً غلط ثابت کر دیا، اور حسین شہید سہروردی ہی جداگانہ انتخاب کے خلاف کھڑے ہو گئے اور مخلوط طرز انتخاب کو رواج دے دیا گیا۔

کتاب کے آخر میں ۱۲مختلف ضمیمے بھی شامل کیے گئے ہیں، جن میں قراردادِ لاہور سے بنگال کی تاریخ اور تحریک آزادی پاکستان کے اہم سنگ ہاے میل زیر بحث لائے گئے ہیں۔ (عرفان بھٹی)


ہندستان کے عہدِ ماضی میں مسلمان حکمرانوں کی مذہبی رواداری، سید صباح الدین عبدالرحمن۔ ناشر: عباد پبلشرز، لاہور۔ ملنے کا پتا: مکتبہ اسلامیہ بالمقابل رحمن مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۲۴۴۹۷۳-۰۴۲۔صفحات: ۶۷۱۔ قیمت: ندارد۔

 مصنف کا دعویٰ ہے کہ کسی معاشرے میں موانست اور یگانگت و یک جہتی پیدا کرنے میں سب سے بڑا کردار حکمرانوں کا ہوتا ہے۔ اگر وہ فراخ دلی اور انسان دوستی کا ثبوت دیں تو رواداری کو تقویت ملتی ہے۔ اسی طرح اگر متعصب اہلِ قلم یا مذہبی راہ نما یا سیاسی کارکن، تاریخ کو مسخ کیے   بغیر، ایسے واقعات کو منظرعام پر لائیں جو مذہبی رواداری کو تقویت دیتے ہیں تو معاشرے سے  نفرت و عداوت کے جذبات، اگر کلّی طور پر ختم نہیں، تو کم ضرور کیے جاسکتے ہیں۔

مسلمانوں نے برعظیم پاک و ہند پر صدیوں حکومت کی ہے۔ ہندو اور مسلمان صدیوں ساتھ ساتھ رہے۔ یہ مسلم حکمرانوں کی مذہبی رواداری ہی کا اعجاز تھا کہ معاشرہ بالعموم پُرامن رہا۔ کتاب میں عربوں کی سندھ میں آمد اور سوا تین سو سال تک کے عہدِحکمرانی میں حکمران طبقے کے دیگر مذاہب کے لوگوں سے نیک سلوک اور رواداری کے واقعات بیان کیے گئے ہیں۔ محمود غزنوی نے غزنی میں ہندوئوں کے لیے محلہ آباد کیا اور سکّوں پر ایک طرف کی عبارت سنسکرت میں کندہ کرائی۔ غزنوی نے ہندو لشکری فوج میں شامل کیے اور ان ہندو سرداروںکو عہدے دے کر ان پر اعتماد کیا۔ اسی حصے میں شہاب الدین غوری، علاء الدین خلجی اور محمد تغلق کے عدل و انصاف اور حُسنِ سلوک  کے واقعات درج ہیں۔ مغل بادشاہوں کے عدل و انصاف اور دیگر مذاہب کے مذہبی پیشوائوں  سے عزت و توقیر کے سلوک کی مثالیں پیش کی گئی ہیں۔ مثلاً ہمایوں نے مہاراجا سانگا کی بیوہ کے بیٹوں کو مفتوحہ علاقے واپس کردیے کہ وہ ہمایوںکی راکھی بند بہن بن گئی تھی۔ اکبر نے         ہندو راجے نہ صرف نورتنوں میں شامل کیے بلکہ انھیں بڑے بڑے عہدے دیے اور جاگیریں بخشیں۔ عہد عالم گیری میں بہت سے ہندو منصب دار تھے۔ مزید برآں برہمن خاندانوں کو اور ہندو پجاریوں کو بھی جاگیریں عطا کی گئیں۔ کتاب میں مسلم حکمرانوں کے فراخ دلانہ رویوں پر مشتمل سیکڑوں واقعات درج ہیں۔ دراصل یہ سب کچھ اس پختہ کردار کا نتیجہ ہے جو اسلامی تعلیم و تربیت کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)


مولانا فتح محمد: حیات و خدمات ، [مرتب: پروفیسر ظفرحجازی]۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور- ۵۴۷۹۰۔فون: ۳۵۴۳۲۴۷۶-۰۴۲۔ صفحات: ۲۵۵۔ قیمت: ۲۲۵ روپے۔

یہ سیدابوالاعلیٰ مودودی کا خلوص تھا جسے اللہ نے قبول کرتے ہوئے ان کی تحریر کو ایسی تاثیر بخشی اور ان کی پکار کو ایسا دل کش بنا دیا کہ لوگ ان کی دعوت کی طرف، جو دراصل دین اور اقامت ِ دین کی دعوت تھی، کھنچے چلے آئے۔ کیسے کیسے لوگ تھے جنھیں اللہ نے توفیق بخشی تو وہ جماعت اسلامی میں آشامل ہوئے۔ مولانا فتح محمد صاحب نے ۲۱سال کی عمر میں ۱۹۴۴ء میں جماعت اسلامی کی رکنیت کا حلف اُٹھایا اور پوری زندگی نہایت خلوص، عزم و یقین اور تن من دھن کی لگن سے اس کٹھن راستے کے نشیب و فراز طے کرتے ہوئے ۲۰۰۸ء میں اپنے رب سے جاملے۔

ان کے سفرزندگی کا زیرنظر گل دستہ ان کے احباب، اہل و عیال ، دُور و نزدیک کے ساتھیوں اور تحریکی دوستوں کی محبت بھری تحریروں سے سجایا گیا ہے۔ مولانا مرحوم بلا کے محنتی اور جفاکش انسان تھے۔ اوائل میں دُوردراز کے دیہاتوں اور قصبوں تک دعوت پہنچانے کے لیے سائیکل پر دورے  کیا کرتے تھے۔ سادہ مزاج تھے، کم اخراجات میں گزارا کرتے بلکہ دوسروں کو بھی یہی تلقین کرتے۔ شب و روز کا کوئی لمحہ خالی نہ جانے دیتے۔ ۱۹۴۱ء میں میٹرک کیا تھا اور پھر حصولِ تعلیم کی جو دُھن ذہن میں سمائی ہوئی تھی اس کے نتیجے میں ایم اے اسلامیات اور ایم اے عربی کی اسناد حاصل کیں۔ ۲۰۰۵ء میں کمپیوٹر کورس کرکے گویا انھوں نے مہد سے لحد تک حصولِ علم کو اپنا کردکھایا۔ خدمتِ خلق ان کا شعار تھا اور ہمہ وقت دوسروں کی مدد کرنے اور ان کے کام آنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ عجز وانکسار کا پیکر تھے۔ مولانا عبدالمالک کے بقول: ’’وہ اخلاقِ حسنہ کا بہترین نمونہ تھے‘‘۔ یہ ساری تفصیل زیرنظر کتاب سے پتا چلتی ہے۔

ص ۱۸ پر بتایا گیا کہ مولانا کو چودھری غلام جیلانی نے نائب امیر صوبہ مقرر کیا مگر ص ۱۶۱ پر خود مولانا فتح محمد کہتے ہیں: مجھے سید اسعد گیلانی نے نائب امیر بنایا۔ مرتب کو تحقیق کر کے وضاحت کر دینی چاہیے تھی۔ بایں ہمہ کتاب پڑھتے ہوئے ایک ہی نقش اُبھرتا ہے کہ ’’ایسے ہوتے ہیں   دینِ اسلام کے خدمت گزار‘‘۔ (ر- ہ )


امریکی دہشت گردی، تاریخ اور اثرات، میربابرمشتاق۔ ناشر: عثمانی پبلی کیشنز، ۸-اے، پاکستان ریلوے ہائوسنگ اسکیم، بلاک ۱۳-بی، گلشن اقبال، کراچی۔ فون: ۴۸۷۴۰۷۴-۰۳۶۴۔ صفحات: ۲۷۹۔ قیمت: ۳۳۰ روپے۔

اس کرئہ ارض پر امریکی عسکری یلغار اور سفارتی گرفت کو ہرباشعور انسان دیکھ اور محسوس کر رہا ہے۔ ایک طرف ’امن، تہذیب اور جمہوریت‘کے نعرے ہیں تو دوسری طرف قتل، تباہی، اور محکومی کی آندھی۔ ان دونوں رویوں کی سرپرستی امریکی ریاستی مشینری کی امتیازی پہچان ہے۔

زیرنظر کتاب میں میربابرمشتاق نے مذکورہ بالا المیے سے متعلق اپنے اور دیگر افراد کے ۳۵مضامین کو یک جا کردیا ہے اور انھیں دہشت گردی کا عنوان دیا ہے۔ یہ مضامین معلومات کی وسعت اور اختصار کی جامعیت لیے ہوئے ہیں۔ دہشت گردی کی تاریخ، امریکی دہشت گردی تاریخ کے آئینے میں، امریکا، پاکستان اور افغان جنگ، ویت نام اور عراق میں امریکی درندگی،  سی آئی اے کے سیاہ کرتوت اور امریکا کا مستقبل وغیرہ جیسے موضوعات زیربحث آئے ہیں۔ موضوع کی اہمیت کے پیش نظر مزید جامع تحقیقی مطالعے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔(س-م-خ)


تعارف کتب

  •  ماہنامہ مکالمہ بین المذاہب ، مدیر:مولانا عبدالرؤف فاروقی۔ پتا: مرکزتحقیق اسلامی، جامع مسجدخضرا، سمن آباد، لاہور۔ فون: ۴۷۳۱۳۴۷-۰۳۰۰۔صفحات:۲۰۸۔ قیمت: فی شمارہ ۳۰ روپے۔[عصرحاضر میں  مذہبی رواداری کے فروغ کے لیے ’مکالمہ بین المذاہب‘ پر بہت زور دیا جاتا ہے اور اس کی آڑ میں گمراہ کن نظریات بھی پھیلائے جاتے ہیں۔ مذکورہ مجلہ اپنی نوعیت کا واحد مجلہ ہے جو باطل مذاہب اور تحریکوں کے علمی تعاقب کے ساتھ ساتھ اسلام پر رکیک حملوں کا جواب علمی استدلال سے دیتا ہے۔ زیرنظر شمارے میں تقابل ادیان کے تحت یہودیت اور نصرانیت کا مختلف حوالوں سے مطالعہ پیش کیا گیا ہے، مثلاً الوہیت مسیح کا تصور اور غلط فہمیاں، بائبل میں تضادات ، کیا حضرت عیسٰی ؑکو سولی دی گئی؟ مفصل بحث۔ ’مسیحیت کا ظہور‘ کے عنوان سے مولانا مودودی کی تحریر بھی شاملِ اشاعت ہے۔ تقابل ادیان اور ملک میں مسیحی سرگرمیوں سے آگاہی کے لیے مفید مجلہ۔]
  • آخرت کے مناظر،عنایت علی خاں۔ ناشر: منشورات، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۴۹۰۹-۰۴۲۔ صفحات: ۴۸۔ قیمت: ۱۸ روپے۔ [پروفیسر عنایت علی خاں نے آخرت کے حوالے سے شیطانی بہکاووں کا تذکرہ اور جدید ذہن کے شبہات کا مدلل جواب دیتے ہوئے تصورِ آخرت جو دین کے بنیادی تصورات میں سے ہے، کا قرآن و حدیث کی روشنی میں اس طرح سے نقشہ کھینچا ہے کہ آخرت کا تصور انسان کے لیے جیتا جاگتا تصور بن جائے، اور ایک قابلِ تقلید حقیقت بن کر دنیوی اور اُخروی فلاح کا سبب ہو۔]