عصرِحاضر میں جہاں کہیں بھی تحریکِ اسلامی کو سیاسی محاذ پر کامیابی حاصل ہوئی ہے وہاں اللہ کے بندوں کے حقوق کی ادایگی ایک اہم عنصر رہا ہے۔ سب سے نمایاں مثال ترکی کی ہے۔ ۱۹۷۰ء سے ترکی میں تحریکی قیادت نے جس حکمت عملی کو اختیار کیا اسے ترکی کی حد تک محدود سمجھنا درست نہیں ہوگا۔ یہ حکمت عملی ایک عالم گیر دعوتی اصول کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسے جہاں بھی استعمال کیا جائے گا متوقع نتائج فطری طور پر وجود میں آئیں گے۔
ترکی میں تین عشروں پر محیط اس حکمت عملی کے جائزے سے کیا سبق ملتا ہے، ایک تفصیل طلب باب ہے، اور اس کے ہرمرحلے پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہرملک اور مقام کے حالات کسی اور مقام پر مکمل طور پر دہرائے نہیں جاسکتے لیکن جن امور کی حیثیت اصولوں کی ہو، وہ زمان و مکان کی قید سے آزاد ہوتے ہیں۔ پاکستان کے تناظر میں یہ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ترکی میں ۳۰سالہ حکمت عملی نے جو نتائج ظاہر کیے، ان میں سے کون سے پہلو پاکستان کے حالات سے مطابقت رکھتے ہیں، اور اس تقابل کے پیش نظر معمولی تبدیلی کے ساتھ اختیار کیے جاسکتے ہیں، اور کن پہلوئوں کو سمجھنے اور جاننے کے باوجود یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔
اس تقابل اور جائزے کے عمل سے گزرتے ہوئے ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ تحریکات عموماً اپنے روزمرہ کے سیاسی، تنظیمی اور معاشی حالات کی بنا پر ملکی اور مقامی مسائل میں اتنی اُلجھی رہتی ہیں کہ بعض اوقات طویل المیعاد اور مختصرالمیعاد حکمت عملی وضع کرنے، اس کی مناسبت سے انسانی قوت پیدا کرنے اور مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے حکمت عملی کی تنفیذ جیسے اہم اسٹرے ٹیجک مراحل نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔ یاد رہے کہ اس دوران خود احتسابی بھی ایک بنیادی شرط ہے اور خود احتسابی ہی قلیل اور طویل المیعاد منصوبہ بندی میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ اس تناظر میں ترکی کے ماڈل پر نظرڈالی جائے تو وہاں تحریک کی حکمت عملی کو ہم تین مراحل میں تقسیم کرسکتے ہیں۔
جدید ترکی کی تاریخ کا آغاز کمال ازم کے قیام (۱۹۲۳ئ-۱۹۳۸ئ) سے ہوتا ہے۔ اس عرصے میں اسلام کو ذاتی عبادات کے دائرے میں محدود کردیا گیا اور سرکاری نگرانی میں خطیب امام اسکول کے لیے ایسے امام تیار کرنے کا منصوبہ عمل میں لایا گیا جو حکومت کے فراہم کردہ فرمودات کو بطور خطبہ مسجد میں بیان کریں۔ دورِعثمانی خود ایک روبہ زوال معاشرہ تھا اور خلیفہ باوجود احترام کے حکومتی معاملات میں فیصلہ کن مقام نہیں رکھتا تھا۔ اس کے باوجود خلافت علاماتی طورپر اُمت مسلمہ کے اتحاد اور قوت کا مظہر تھی۔ کمال ازم نے ریاست کو مکمل طور پر مغربی لادینیت کے تصور پر قائم کیا اور مذہبی اثرات کو کم سے کم کرنے کے لیے مغربی تہذیب و ثقافت کی یلغار، رسم الخط کی تبدیلی، اذان کا عربی میں ممنوع کیا جانا، مغربی لباس کا اختیار کیا جانا، لباس میں حجاب پر پابندی اور روایتی ترکی ٹوپی کی جگہ انگریزی ہیٹ کو علاماتی طور پر رواج دے کر ملک کی ثقافت کو تبدیل کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔
یہی وہ زمانہ ہے جب بدیع الزماں سعید نورسی(۱۸۷۶ئ-۱۹۶۰ئ) نے اپنی تحریک کا آغاز کیا۔ قرآن کریم کے دروس کے ذریعے اور مختصر رسائل کی شکل میں اور بعض اوقات طویل خطوط کی شکل میں زیرحراست ہونے کے باوجود اپنے طلبہ تک پہنچائے، انھوں نے ان قرآنی رموز کی دستی نقول تیار کر کے جہاں جہاں ممکن ہوا اسے عام کرنے کی کوشش کی۔ استاذ سعید نورسی کی تحریک کمال ازم کے تمام سرکاری زور و قوت کے باوجود عوامی سطح پر پھیلتی رہی اور آخرکار اس دعوت کے اثرات ۷۰ کی عشرے میں ان کے انتقال کے ۱۰ سال بعد واضح ہوکر نظر آنے لگے۔
۷۰ کے عشرے کے آخری دور میں ترکی دو واضح انتہائوں میں گھرا نظر آتا ہے۔ ایک جانب دائیں بازو کے الٹرا نیشنلسٹ اور دوسری جانب انقلابی یا بائیں بازو کے اشتراکیت سے متاثر گروہ، مثلاً Neo-Markist Kurdish Worker Party یا PKK تھے۔ چنانچہ ۱۹۷۵ء اور ۱۹۸۰ء کے درمیان پانچ ہزار سے زائد افراد ملک میں بدامنی، دہشت گردی اور قتل و غارت میں زندگی کی نعمت سے محروم ہوئے اور ۱۹۸۰ء میں ترکی میں ایک خانہ جنگی کی سی کیفیت پیدا ہوگئی۔ تقابلی طور پر دیکھا جائے تو معاشی بدحالی، زر کی کساد بازاری، جرائم، بدامنی، بدعنوانی ، اقرباپروری، غرض ہر وہ خرابی جس کا رونا آج ہم پاکستان میں یا کل تک مصر، تیونس، عراق اور شام میں روتے رہے ہیں ان میں سے ہر خرابی بدرجۂ اتم ترکی میں موجود تھی۔ پھر کس جادو کی چھڑی نے ملک و قوم کی قسمت بدلی۔ یہ امر سنجیدہ، تنقیدی اور معروضی تجزیے کا محتاج ہے۔
اس ٹکرائو میں نیشنل سالویشن پارٹی (NSP) جو اسلامی رجحانات کی حامل تھی کسی بھی تشدد کی کارروائی میں ملوث نہیں ہوئی۔ ۶ستمبر ۱۹۸۰ء کو ’القدس بچائو‘ کے لیے پُرامن اور انتہائی منظم مظاہرے اور جلوس کا اہتمام کیا اور اس موقع پر ترکی میں شریعت کے نفاذ کا مطالبہ بھی کیا۔ ان کا نعرہ تھا:’’شریعت آئے گی، سفاکیت جائے گی‘‘، ’’حاکمیت صرف اللہ کی ہے‘‘، ’’ہمارا دستور قرآن ہے‘‘، ’’سیکولرزم لادینیت ہے‘‘، ’’ہم ایک غیرطبقاتی اسلامی معاشرہ چاہتے ہیں‘‘۔
اس ریلی میں انھوں نے روایت سے ہٹ کر ترکی کا قومی ترانا گانا بھی پسند نہیں کیا۔ اس تحریک کی قیادت ڈاکٹر نجم الدین اربکان مرحوم نے کی۔ مظاہرے میں شامل لاکھوں افراد نے یک زبان ہوکر ان کی حمایت میں نعرے لگائے اور کہا:ہمیں حکم دیں اور ہم جان دیں گے وغیرہ۔ یہ گویا فوج اور سیکولرزم کے خلاف اعلانِ جہاد تھا اور ا س تاریخ سے ترکی کی جدید تاریخ کا دھارا ایک نیا رُخ اختیار کرگیا۔
اس کا ردعمل جلد ہی سامنے آیا اور ۳۰؍اکتوبر ۱۹۸۰ء کو چیف آف جنرل اسٹاف جنرل ایورن نے اپنے خطاب میں آگاہ کیا کہ ہر اُس کوشش کو جو ترکی کے سیکولرنظام کو نقصان پہنچانے کے لیے ہوگی، قوت سے کچل دیا جائے گا۔ فوج میں گھس کر انتشار کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ فوج کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کی سالمیت اور وحدت کے لیے اپنے اختیارات استعمال کرے اور جو اقدامات ضروری ہوں قومی ضرورت کے طور پر ان میں کمی نہ کرے۔ چنانچہ فوج نے اعلان کیا کہ اُس نے ملک کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے ۔ یہ دور ۱۹۸۰ء سے ۱۹۸۳ء تک رہا۔ اس فوجی انقلاب میں ساڑھے چھے لاکھ افراد کو گرفتار کیا گیا۔ ۱۶ لاکھ افراد پر مقدمات قائم کیے گئے۔ ۵۱۷؍افراد کو سزاے موت سنائی گئی اور ۴۹؍افراد کو پھانسی دی گئی۔۱۴ ہزار افراد کی ترکی شہریت ختم کی گئی اور ۶۶۷ تنظیموں اور مؤسسات کو خلافِ قانون قرار دیا گیا۔ ان زمینی حقائق کو ذہن میں رکھتے ہوئے غور کرنے کی ضرورت یہ ہے کہ قرآن کریم جس آزمایش اور امتحان کی بات کرتا ہے اس کی ایک جھلک یہاں تو موجود ہے لیکن کیا ابھی تک ایسی کوئی آزمایش تحریک کو پیش آئی ہے؟ گو، یہ ضروری نہیں کہ ہرتحریک اتنی سخت آزمایش سے لازماً گزرے۔
چونکہ NSP کسی تشدد یا عسکری سرگرمی میں ملوث نہ تھی اس لیے فوج نے اسے اپنے لیے خطرہ تصور نہیں کیا۔ فوج نے اپنی زیادہ توجہ بائیں بازو کی جماعتوں پر رکھی جو اشتراکی فکر سے متاثر تھیں۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ ترکی میں ۵۰، ۶۰ اور ۷۰ کے عشرے میں اشتراکی رجحانات نمایاں تھے۔ ان حالات میں فوج کا اسلامی فکر رکھنے والی جماعتوں کو گوارا کرنا اور اشتراکیت کے قلع قمع کے لیے انھیں اپنے سے قریب لانا ایک فطری عمل تھا۔ بالکل یہی شکل مصر میں انورسادات کے زمانے میں پیش آئی اور دیگر مسلم ممالک کے فوجی اور غیرفوجی آمروں نے ہمیشہ اسی حکمت عملی کو اختیار کیا۔ اشتراکیوں کے خلاف فوج کے اقدامات سے بظاہر اسلام پسند بھی مطمئن تھے، لیکن مسئلے کا حل فوج اور اسلامی رجحان والے افراد کا اشتراکِ عمل نہیں تھا، بلکہ اس کے نتیجے میں ایک معاشرتی تحریک (social movement)کا برپا ہونا تھا جو آگے چل کر سیاسی تبدیلی کا باعث بنی۔ یہ دوسرے دور کا آغاز تھا جس میں تحریک ایک معاشرتی تحریک کی شکل اختیار کرگئی۔
یہ معاشرتی یا سوشل موومنٹ جن بنیادوں پر قائم ہوئی ان میں نورسی تحریک سے متاثر حضرات کے اخوتی حلقے (brotherhoods)، تعلیمی میدان میں اسکولوں کا قیام، آزاد اوقاف کے ذریعے معاشرتی بھلائی کے کام اور روحانی پہلو پر توجہ تھی۔ اس دوران ترکی نیشنلزم کی تحریک میں Pan-Turkism کے تصور میں اسلام کو بھی بطور ایک عنصر شامل کیا گیا تاکہ اشتراکی فکر کی مخالفت کے لیے ایک زیادہ مضبوط فکر اُبھر سکے۔ علمی اور فکری سطح پر بعض مفکرین نے ترک قومیت کے حوالے سے یہ تصور پیش کیا کہ یہ قومیت، سُنّی اسلام اور اپنے مخصوص معاشرتی ثقافتی خصوصاً فنِ تعمیر و طریق بودوباش سے مل کر بنی ہے۔ یہ بات بھی کہی گئی کہ ترک وہ مسلمان ہے جو ترکی زبان بولتا ہے۔ گویا اس دور میں ترک قوم نے اپنی شخصیت کی تلاش شروع کی اور یہ سمجھنا چاہا کہ ان کے ترک ہونے کا مطلب کیا ہے۔ اس کش مکش اور پاکستان میں پائی جانے والی سرگرم اور غالب سیکولر ابلاغ عامہ کے جتھے کی قائداعظم کو اور پاکستان کو سیکولر پیش کرنے میں مماثلت پائی جاتی ہے۔ یہ پہلو بطور جملہ معترضہ قابلِ غور ہے کہ سیکولر ابلاغ عامہ بالخصوص الیکٹرانک میڈیا جو منفی تصور عوام اور نوجوانوں میں پھیلا رہا ہے اس کا مثبت جواب کس حد تک دیا جارہا ہے۔ اس فکر کو سیاسی محاذ پر آگے بڑھانے میں ڈاکٹر نجم الدین اربکان نے غیرمعمولی اہم کردار ادا کیا اور اب یہ بات زبان زدعام ہونے لگی کہ اسلام اور ترک قومیت کو الگ نہیں کیا جاسکتا۔اس کا اظہار Turk Ocaklari سے وابستہ افراد نے اپنے بیانات میں خاص طور پر کیا۔ اس گروہ کے صدر Suleyman Yalcin کے الفاظ میں: ’’ترک قوم کے زندگی، وجود اور کردار کے سرچشمے ترک تصور اور اسلامی عبادات اور تصورِجہاں دونوں پر مبنی ہیں‘‘۔(بحوالہ The Mobilization of Political Islam in Turkey, ، Banu Eligur، کیمبرج، کیمبرج یونی ورسٹی پریس، ۲۰۱۰، ص ۱۰۰)
اس فکر کے حامل افراد Turkish Hearths کے نام سے مشہور ہوئے اور ان کے نمایندہ Yalcin نے واضح طور پر اپنے بیانات میں بغیر کسی معذرت پسندانہ رویے کے اسلامی تصورات کا اظہار کیا، اور اشتراکیت اور سرمایہ داری دونوں کو تنقید کا ہدف بناتے ہوئے اسلام کو بطور حل پیش کیا۔
اس فکر کے علَم بردار مفکرین نے مغربی ثقافتی سامراجیت، سیاسی بازی گری، تیزی کے ساتھ مغربی مادہ پرستی، اور نتیجتاً ترک اسلامی ثقافت و معاشرت کے فضا میں تحلیل ہونے کی سنگین صورتِ حال کو علمی سطح پر اور عوامی زبان میں پیش کرنا شروع کیا۔ Yalcin کا کہنا تھا کہ When Truks lose their faith in Islam, they disappear ۔ اس قسم کے مؤثر جملوں کو زبان زدعام کرنے کی کوشش کی گئی۔ ان کی ایک مثال یہ ہے:
ترک نسلیت اور اسلام کو الگ نہیں کیا جاسکتا۔ ایک ترک کا مسلمان ہونا لازمی ہے۔ اس لیے اسے بطور ایک ترک کے سوچنا چاہیے اور بطور مسلمان کے بودوباش اختیار کرنی چاہیے۔
اس تحریک نے ۱۹۸۲ء کے دستور کے بننے میں اہم کردار ادا کیا۔ ملک گیر پیمانے پر اسلامی فکر رکھنے والے دانش وروں اور فوج کے اپنی مجبوری اور ضرورت کی بنا پر اسلامی فکر رکھنے والے افراد کو اپنے سے قریب رکھنے کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ فوجی رہنما بھی اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے اپنے بعض بیانات میں یہ کہنے پر مجبور ہوگئے، مثلاً:’’ہمارے مذہب میں کوئی فرقہ بندی نہیں ہے۔ ہم سب ایک اللہ پر ایمان رکھتے ہیں، ہمارا ایک رسولؐ ہے، ہم سب ایک ہی قرآن پڑھتے ہیں۔ پھر یہ تقسیم کس لیے؟‘‘
یقین کے ساتھ یہ کہنا تو مشکل ہے کہ فوجی حکمرانوں کی زبان جس بات کا اظہار کر رہی تھی وہ کہاں تک ان کے دل کی آواز تھی لیکن قومی سطح پر اسلامی فکر کے مطالبے نے انھیں لازمی طور پر ایسے الفاظ استعمال کرنے پر مجبور کیا جو بعد میں اسلامی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوئے۔ یہاں یہ بات ذہن میں رکھیں کہ نہ صرف مصر بلکہ خود پاکستان کے فوجی حکمران بشمول ضیاء الحق اور پرویزمشرف کے اسلام کے حوالے اور ترک فوجی آمروں کے اسلام کے حوالے میں غیرمعمولی مماثلت نظر آتی ہے۔ چنانچہ ترکی میں تعلیمی اصلاحات کا اعلان کرتے وقت اور لوگوں کو بچوں کو اسکول بھیجنے کی تلقین کرتے وقت جنرل ایوران نے جو زبان استعمال کی وہ انتہائی قابلِ غور ہے:
اللہ تعالیٰ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم دونوں ہم کو یہ حکم دیتے ہیں ۔محمدؐ ایک حدیث میں فرماتے ہیں: سائنس مسلمانوں کے لیے فرض ہے۔کیا کوئی ناخواندہ صاحب ِعلم ہوسکتا ہے، اس لیے ہمیں سب سے پہلے خواندہ ہونا چاہیے۔
اصل نکتہ جس کی طرف یہ جادو سر پر چڑھ کر اشارہ کرتا ہے وہ ایک جانب فوج کا اپنی ضرورت کے پیش نظر اسلام کا حوالہ استعمال کرنا ہے تو دوسری طرف تحریکِ اسلامی کے دانش وروں کا اس Turkish-Islamic synthesisکو اپنی حکمت عملی میں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا ہے۔ گویا اگر جزوی طور پر ہی سہی، اشتراکیت کے خطرے کے خلاف معروف طاغوتی نمایندوں سے مصلحت عامہ اور سیاست شرعیہ کی بنا پر کوئی رسم و راہ رکھی گئی تو اس سے کون سے اہداف کا حصول مقصود تھا۔ بالعموم تحریک جو آئیڈیلزم اپنے کارکنوں، خصوصاً گرم خون رکھنے والی نسل کے دل و دماغ میں اُتارتی ہے اس کا شعار یہی ہوتا ہے کہ قرآن ہمارا دستور، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے قائد، اور شہادت ہماری تمنا ہے۔ اس کلمۂ حق سے سرشار نوجوان فوری تبدیلی اور طاغوتی قوتوں کو اپنے پائوں کے نیچے کچلنے کے لیے بے تاب ہوتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ جس دین کے قیام کے لیے انبیاے کرام ؑ اور صحابہ کرام اجمعینؓ نے اپنی قوتیں، وسائل اور جانیں صَرف کیں، اس میں حکمت، مصلحت عامہ اور سیاست شرعیہ بنیادی دعوتی اصول ہیں۔ یہ وہ اصول ہیں جن کو نظرانداز کرکے حضرت یوسف ؑ مصر میں تبدیلی نہیں لاسکتے تھے۔
تحریکی قیادت اور کارکنوں کو ہمیشہ یہ بات سامنے رکھنی چاہیے کہ مداہنت اور حکمت عملی دومختلف چیزیں ہیں۔ آخری فیصلہ کن بات نیت، طریق کار کی شفافیت اور باہمی مشاورت کے بعد عزم الامور میں مضمر ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا صداقت سے بھرپور فرمان ہے کہ اُمت گمراہی پر مجتمع نہیں ہوگی۔ اس لیے اگر تحریک میں مشاورت، تنقید، تجزیہ و تحلیل کے بعد ایک پالیسی مصلحت عامہ کے شرعی اصول کی بنا پر طے پاجائے تو پھر چند نوجوانوں یا کسی بھی گروہ کا تنہا اپنی عقل کے فیصلے پر قائم رہنا دین کی حکمت سے عدم آگاہی ہے(یہ اہم بنیادی فکری بحث مزید تفصیل کی محتاج ہے جس کا یہ مقام ہے نہ موقع)۔
ترکی کی اسلام پسند قوتوں نے اس Turkish-Islamic synthesis کا بروقت اور بربناے حکمت عملی استعمال کرکے دیگر تحریکات کے لیے ایک لمحۂ فکریہ فراہم کیا ہے۔ حکمت عملی اور اسٹرے ٹیجی کے نقطۂ نظر سے اس بات کی ضرورت ہے کہ اپنے وژن، مشن، اسٹرے ٹیجی اور وقت کے میقات کے تعین میں بے لاگ طور پر، اور پہلے سے قائم کیے ہوئے تحفظات و خدشات سے آزاد ہوکر، غور کیا جائے، چاہے اس میں ہمیں اپنے بعض سیاسی اور تنظیمی فیصلوں کی غلطی کا اعتراف کرنا پڑے۔ آخر حضرت علیؓ کے اُس قول کا اور کیا مفہوم ہوگا کہ انسان کے ارادوں کی ناکامی اللہ تعالیٰ کی قدرتِ عظمت و علم کے اعلیٰ ترین ہونے کی دلیل ہے۔ہر انسانی حکمت عملی اپنے تمام تر کمال کے باوجود ایک محدود انسانی فکر پر مبنی ہوتی ہے اور ہمیشہ دوبارہ غور کرنے اور تبدیل کرنے کی مستحق ہوتی ہے۔
Hearths سے وابستہ ترک دانش ور اس فضا کی تیاری میں مصروفِ عمل رہے۔ چنانچہ ۹مئی تا ۱۰مئی ۱۹۸۱ء کو انقرہ میں ’قومی تعلیم اور دینی تعلیم‘ کے موضوع پر ایک سیمی نار منعقد کیا گیا اور یہ مطالبہ کیا گیا کہ دینی تعلیم کو لازمی مضمون کی حیثیت سے سیکنڈری اور ہائی اسکولوں میں پڑھایا جائے۔ اس سیمی نار میں جن حضرات نے شرکت کی ان میں مذہبی امور کے شعبے کے ڈائرکٹر طیارالکنولچ، نیکاتی اور ترگت اوزال جو اس وقت نائب وزیراعظم تھے اور بعد میں وزیراعظم بنے اور صالح تگ جو معروف مذہبی اسکالر اور مرمرا یونی ورسٹی کے الٰہیات کے ڈین تھے، شامل تھے۔ اس سیمی نار میں اور دیگر مواقع پر یہ بات ذہن نشین کرائی گئی کہ نوجوان نسل ترکی کی وفادار نہیں ہوگی جب تک دینی تعلیم نہ دی جائے۔ مزید یہ کہ ترکی کی لادینیت اور مذہبی تعلیم دیے جانے میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ اس علمی بحث میں برسرِاقتدار جماعت نے دینی تعلیم کی مخالفت کی اور اس بات پر زور دیا کہ جو اخلاقی تعلیم دی جارہی ہے وہ کافی ہے۔
اس مقام پر یہ اشارہ کرنا ضروری ہے کہ مشرف کے دور میں تعلیمی اصلاحات کے زیرعنوان پاکستان سے اسلامی رجحانات اور پاکستانیات کو خارج کرنے کے لیے جو غیرسرکاری تنظیموں کے افراد پر ماہرین کی کمیٹیوں نے، مثلاًA.H. Nayyar اور Ahmed Salim کی رپورٹ The Subtle Subvirsion: The State Curricular and Tenthly in Pakistan (اسلام آباد، مارچ ۲۰۰۳ئ) وغیرہ کے نتیجے میں نصابی کتب سے قرآنی آیات اور اسلامی حوالوں کو نکالا گیا۔ یہ ایک عالمی طور پر آزمودہ حکمت عملی کا دھرایا جانا تھا۔ اسی طرح انگریزی کے لازمی مضمون کے طور پر پہلی جماعت سے پڑھائے جانے، ایک بڑے صوبے میں تو تدریس کی زبان کے طور پر اسے نہایت بھونڈے انداز میں قوم پر مسلط کرنے میں بھی اصل محرک پاکستان کی نظریاتی بنیاد اور اُردو کے بین الصوبائی اتحاد کے کردار کو مجروح کرنا مقصود ہے۔ ترکی میں تحریکی دانش وروں نے جو حکمت عملی وضع کی اس میں ترکی کے سیکولر ماضی اور حال کو دوبارہ اسلام کی طرف لانے کی فکر کارفرما تھی۔
ملک گیر فکری اور علمی بحث کے نتیجے میں جنرل ایوران جو فوجی حکومت کے سربراہ تھے ایک دینی تعلیمی مشاورتی کمیشن بنانے پر مجبور ہوئے۔ گو، کمال ازم کے زیراثر ۱۹۳۰ء میں مذہبی تعلیم کو محض ایک اختیاری مضمون قرار دیا گیا تھا اور ۱۹۳۷ء میں سیکنڈری اسکول کے نصاب سے خارج کردیا گیا تھا، اور ۱۹۳۱ء میں ابتدائی تعلیم اور ۱۹۳۸ء میں گائوں کے ابتدائی اسکولوں سے بھی خارج کردیا گیا تھا۔
۸۰ کے عشرے میں ہونے والی ان بنیادی تبدیلوں نے اسلامی فکر کے احیا اور تعلیم کے میدان میں یہ گنجایش پیدا کی کہ پرائیویٹ تعلیم میں دینی تعلیم کو بلاروک ٹوک پڑھایا جاسکے۔ ادھر تعلیمی کمیشن نے بھی تجویز کردیا کہ مذہبی تعلیم کو لازمی قرار دے دیا جائے۔ یہاں پر یاد رہے کہ ان اقدامات کے پس منظر میں PKK جو کرد سوشلسٹ فکر کی حامی تنظیم تھی، اس کے نظریاتی سطح پر رد کرنے کا جذبہ بھی کارفرما تھا۔
۱۹۸۲ء میں قومی ثقافتی رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا کہ ترک قومیت کے عناصر ترکیبی میں اسلام شامل ہے۔ اس لیے مغرب کی نقالی اور مذہب سے دُوری ترکی کے مفاد کے منافی ہے۔ ۱۹۸۲ء کے دستور کی دفعہ۲۴ میں تعلیم کے حوالے سے یہ بات کہی گئی کہ: ’’مذہبی ثقافت اور اخلاقیات کی تعلیم پرائمری اور ثانوی کے نصاب میں شامل ہوگی‘‘۔
گو، دستور کی دفعہ۲ میں ترکی کو ایک سیکولر ریاست قرار دیا گیا تھا۔ اس صورت حال کو ہم یوں بھی بیان کرسکتے ہیں کہ ترکی کے خصوصی حالات میں سیکولرزم کی علَم بردار فوج نے ملک کے دفاع اور سوشلسٹ خطرے کے مقابلے کے لیے ضروری سمجھاکہ اسلامی فکر کے حامل افراد کا تعاون حاصل کرے۔ دوسری جانب دینی فکر رکھنے والے افراد کو سانس لینے کا موقع ملا تو انھوں نے بھی اس موقع کو نہ صرف غنیمت جانا بلکہ ایک طویل المیعاد حکمت عملی کے ذریعے اس موقعے کو اسلامی احیا کے لیے استعمال کرنا چاہا جسے Turkish-Islamic synthesis سے تعبیر کیا گیا ہے۔
۸۰ کے عشرے میں ایک اور عنصر ترکی کی معاشی پالیسی کا سامنے آیا۔ ترگت اوزال کی معاشی پالیسی کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ انھوں نے ملک کے باہر سے ان افراد کو ترکی میں اپنے مالی وسائل کو معیشت میں لگانے کی دعوت دی جو اسلامی رجحان بھی رکھتے تھے۔ چنانچہ سعودی شہزادہ محمدالفیصل، کویتی فنانس ہائوس اور سعودی ارب پتی شیخ صالح کامل نے بڑے پیمانے پر ترکی میں تجارتی منصوبوں میں سرمایہ کاری کی۔ ۱۹۸۳ء میں دانش ور اور علمی حلقے Hearths کی کوششوں سے دورِ عثمانی کی ثقافتی علامات، مثلاً محمدالفاتح کے زمانے میں استعمال ہونے والا فوجی نغمے اور مقامی ترک زبانوں کے احیا کی کوشش بھی کی گئی۔ ساتھ ساتھ یہ بات بھی دہرائی گئی کہ شہریوں کی روحانی ضرورت کو پورا کرنا بھی ریاست کی ذمہ داری ہے۔
۱۹۸۰ء کے فوجی انقلاب سے قبل نجم الدین اربکان مرحوم نے واضح طور پر ترکی میں بے چینی اور بدامنی کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ بات کہی تھی کہ اس بدامنی کا اصل سبب تعلیم میں روحانی اور اسلامی پہلو کا نہ ہونا ہے۔ چنانچہ ۱۹۸۳ء میں رفاہ پارٹی ( Welfare Party)نے اپنے منشور میں اس بات کو شامل کیا کہ دینی تعلیم کو لازمی کیا جائے۔
۶نومبر ۱۹۸۳ء کو ہونے والے عام انتخابات میں فوج نے رفاہ پارٹی کو حصہ لینے کا موقع نہیں دیا اور صرف تین سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی۔ ان میں نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی (NDP) جس کی سربراہی ریٹائرڈ جنر ل ترگت سونالپ کر رہے تھے۔ Populistپارٹی (PP) جس کی سربراہی ایک سابقہ سرکاری افسر Necdit Calp کر رہے تھے۔ ترگت اوزال نے ۱۹۸۳ء میں Motherland Party (MP) قائم کی اور اس کی پہچان روایت پرست آزد معیشت اور سوشل جمہوریت کو قرار دیا۔ چونکہ ویلفیئر پارٹی یا رفاہ پارٹی کو انتخاب میں شرکت کی اجازت نہ تھی اس لیے رفاہ کے بہت سے افراد نے اوزال کی پارٹی میں شرکت کی۔ اوزال نے صوفی نقشبندی سلسلے کی حمایت بھی حاصل کرلی اور اس طرح ۱۹۸۳ء سے ۱۹۹۱ء تک اوزال کی وطن پارٹی برسرِاقتدار رہی۔
یہی وہ دور ہے جس میں اسلامی عناصر نے معاشرتی فلاح کے کاموں اور شہری انتظامیہ میں اثرورسوخ حاصل کیا۔ ترکی میں اسلام پسند حضرات کا اُوپر آنا محض ان کے اسلام پسند ہونے کی بناپر نہیں تھا۔ جن لوگوں نے استنبول، انقرہ اور دیگر مقامات پر شہریوں کی سہولیات فراہم کیں اور دیانت داری سے کام کیا، ان کا کام ان کی حمایت کا سبب بنا۔ تحریکِ اسلامی کے لیے قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ سیاسی حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے ایسے لمحے کی تلاش میں رہنا چاہیے جب وہ سیاسی سفینے پر سوار ہوسکے اور سیاسی توازن پیدا کرنے کے لیے اس کے وجود کو بخوشی تسلیم کیا جائے۔ MP میں کثرت سے اسلام پسندوں کی شمولیت نے پارٹی کی پالیسی پر گہرا اثر ڈالا۔ اوزال کے دور میں ترکی میں اسلامی احیا اور عثمانی ثقافت کو جدید دور میں متعارف کرانے کے لیے مثبت اقدامات کیے گئے۔ نصابِ تعلیم میں تبدیلیاں کی گئیں لیکن فوج کو ہاتھ نہیں لگایا گیا۔ اوزال نے دستوری عدالت (Constitutional Court) ، اعلیٰ تعلیمی بورڈ، یونی ورسٹیوں کے صدور کے لیے دینی رجحان والے افراد کا تقرر کیا اور سرکاری دفاتر میں بھی ایسے افراد کو داخل کیا جو دینی فکر کے حامل تھے۔ امام خطیب مدارس کو مراعات دی گئیں اور دورِعثمانی کے بہت سے اوقاف کو کھل کر کام کرنے کا موقع دیا گیا۔ یہ معاشرتی تبدیلی آگے ہونے والی سیاسی تبدیلی کا پیش خیمہ بنی۔
۸۰ء کے وسط میں ویلفیئرپارٹی یا رفاہ پارٹی نے ایک عالم گیر ایجنڈا بنایا جو جمہوریت کے فروغ، انسانی حقوق اور آزادی اور ’سیاسی شناخت‘پر مبنی تھا۔ ڈاکٹر اربکان نے حالات، سیاسی ضرورت اور عالمی سطح پر اپنی بات کے ابلاغ کے لیے وہ زبان استعمال کی جو مغرب بھی سمجھ سکے۔ یہ نہ اصولوں پر سمجھوتا تھا، نہ دبنا تھا اور نہ مداہنت تھی بلکہ خالصتاً سیاسی اور دعوتی حکمت عملی تھی۔ چنانچہ انھوں نے ۱۹۸۷ء کے سیاسی انتخابات کی مہم میں جمہوریت Democratization (یعنی حقیقتاً عقیدے پر عمل کرنے کی آزادی اور اسلامی فکر کو کھل کر پیش کرنے کے حق) کو اپنے سیاسی لٹریچر میں نمایاں مقام دیا۔ اس میں بغیر کسی تصریح کے سر پر اسکارف باندھنے کا حق بھی شامل تھا لیکن اس کے لیے جو سیاسی زبان استعمال کی گئی وہ اُس سے مختلف تھی جو روایتی طور پر علما استعمال کرتے ہیں۔ یہ یاد رہے کہ ڈاکٹر اربکان انجینیرنگ میں پی ایچ ڈی تھے لیکن ان کی دینی ثقافت کے پیش نظر انھیں ہمیشہ خوجہ، جو ترکی میں عالم کے لیے استعمال ہوتا ہے، کہہ کر خطاب کیا گیا۔
دوسری بات جو کہی گئی وہ just order یا عادلانہ نظام سے متعلق تھی۔ کرپشن اور بدعنوانی کا خاتمہ، عوام کو روزگار، پانی، صحت اور دیگر ضروریات کی فراہمی، ملک میں قانون کی بالادستی جس میں دینی آزادی، بیرونی فکری اور مالی غلامی سے آزادی، ترکی میں مضبوط معاشی نظام کا قیام، عالمِ اسلام میں تجارتی تعلقات کو بجاے ڈالر پر مبنی حقیقت کے براہِ راست جنس کے بدلے جنس کی تجارت کا تصور، غرض ڈاکٹر اربکان نے اپنے سیاسی منشور میں ان مسائل کو مرکزی مقام دیا جو عوامی مسائل تھے، اور لوگوں کو یہ یقین ہوگیا کہ ’عادلانہ نظام‘ کا مطلب امریکا کو بُرا بھلا کہے بغیر امریکی اور مغربی غلامی سے نجات اور بنیادی ضروریات کی فراہمی ہے۔
اس سیاسی زبان نے رفاہ پارٹی کو عوامی جماعت بنا دیا۔ چنانچہ ۱۹۸۴ء میں صرف ۴ئ۴ فی صد ووٹ حاصل کرنے والی رفاہ پارٹی ۱۹۹۵ء میں ۴ئ۲۱ فی صد ووٹ حاصل کر کے ۱۵۸ نشستوں پر کامیاب ہوئی۔ اس عرصے میں ترکی کی معیشت کی کمزوری سے عوام پریشان تھے چنانچہ رفاہ پارٹی کے معاشی منصوبے نے اس کی کامیابی میں بنیادی کردار ادا کیا۔
تفصیلات میں جائے بغیر یہ بات ہمارے لیے قابلِ غور ہے کہ رفاہ پارٹی ہو یا عدالت پارٹی(J.P)، یا بعد میں وجود میں آنے والی جسٹس اور ڈویلپمنٹ پارٹی(JDP) یا عدالت و کلکینا پارٹی (AKP)، جب تک زمینی حقائق کے پیش نظر وہ سیاسی زبان جو عوام سمجھتے ہیں، جس میں لازمی طور پر نظریاتی تعلق کا کھلا اظہار ہو، لیکن عوامی مسائل کا معقول حل اور تبدیلی کے لیے پُرامیدی بلکہ یقین پایا جائے، حکمت عملی کے ایک لازمی حصے کے طور پر بھرپور اور مؤثر انداز میں استعمال نہیں کی جائے گی، تحریک کی دعوت عوام کے ذہن کو متاثر نہیں کرسکتی۔ انسانی نفسیات ہے کہ وہ ایک مضبوط اور فربہ گھوڑے کے مقابلے میں اس گھوڑے کو جو دوڑنے میں تیز ہو، ترجیح دیتی ہے۔ اس لیے عوام کا مطمئن کیا جانا اور یقین کا مستحکم کیا جانا سیاسی حکمت عملی میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔
ترکی کی صورت حال میں اسلام پسند جماعتیں وقت کے تقاضوں کے لحاظ سے خلافِ قانون قرار دی جاتی رہیں لیکن ہرقانونی یا دستوری عدالت کے حکم نامے کے بعدو ہ ایک نئے نام کے ساتھ دوبارہ اُبھر کر آتی رہیں۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ سیاسی حکمت عملی میں اگر ایک نام سے کام کرنا ممکن نہ ہو تو ایک تحریک اپنے تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے دوسرانام بھی اختیار کرسکتی ہیں۔ چنانچہ National Salvation Party (NSP) یا MSP ملّی سلامت پارٹی نے ۷۲-۱۹۸۰ء کام کیا اور ۱۹۸۰ء میں فوجی مداخلت کے بعد غیرقانونی قرار دے دی گئی۔ یہی ویلفیئر پارٹی کے عنوان سے ۸۳-۱۹۹۸ء تک کام کرتی رہی۔ اسے بھی خلافِ قانون قرار دے دیا گیا تو یہ Virtue Party، فضیلت پارٹی کے نام سے سرگرم ہوئی۔ چنانچہ ۱۹۹۸ئ-۲۰۰۹ء تک یہ عوام میں مصروفِ عمل رہی۔ جب اس پر بھی دستوری عدالت نے پابندی عائد کردی تو تحریکِ اسلامی دوحصوں میںتقسیم ہوگئی۔ جسٹس اور ترقی پسند جماعت جو ۲۰۰۹ء میں اردوگان اور عبداللہ گل کی قیادت میں عمل میں آئی اور استاذ اربکان کی فضیلت پارٹی سعادت پارٹی جو ۲۰۰۹ء میں الگ ہوگئی۔
جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (AKP) جو اس وقت بھی حکمران ہے اپنے منشور کے علاوہ جس میں تعلیم، بے روزگاری، صحت، تقسیمِ دولت، سوشل سیکورٹی ، صنعت کاری، قرض پر مبنی معاشی بوجھ سے نجات، شہری سہولتوں اور ماحولیات پر واضح سوچے سمجھے اور قابلِ عمل منشور کے ساتھ ساتھ اپنے ساتھ عوام کی خدمت کا ایک عملی نمونہ لے کر آئی۔ چنانچہ اردوگان اور ان کے ساتھیوں نے استنبول کی لوکل باڈی اور دیگر تین بڑے شہروں کی انتظامیہ میں اپنے دور میں جو کام کیے ان سے عوام میں یہ اعتماد پیدا ہوا کہ اگر یہ جماعت ملک گیر پیمانے پر کامیاب ہوگئی تو تبدیلی کا عمل واقعی ہوگا۔
۱۹۹۱ء میں ۵۶ فی صد آبادی نے انفرادی راے شمارے کے اندازوں میں اس بات کا اظہار کیا کہ عوامی فلاح کا کام ریاست کی ذمہ دری ہے۔ ۵۰ فی صد نے کہا کہ وہ سیاسی نظام پر یقین نہیں رکھتے اور ۴۲ فی صد نے کہا کہ وہ پارلیمنٹ پر اعتماد نہیں کرتے۔ ۹۱ فی صد نے فوج پر اعتماد کا اظہار کیا، جب کہ ۶۷ فی صد نے اسلامی جماعتوں پر اعتماد کا اظہار کیا۔ (ایضاً، بحوالہ سابقہ، ص۱۵۹)
طیب اردوگان نے استنبول کے صوبے سے سربراہ کی حیثیت سے بار بار اس بات کا اعلان کیا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی حمایت پر مکمل یقین رکھتے ہیں، وہی ہماری قوت ہے، یہی ہماری منزل ہے اور اس کے بعد عوام ہماری قوت ہیں۔
طیب اردوگان نے برسرِاقتدار آتے ہی جو اقدامات کیے ان میں استنبول کے صوبے میں پانی کی فراہمی، ماحولیاتی آلودگی کا خاتمہ، شہر کی صفائی اور کچرا صاف کرنا عوامی سفری سہولت کے لیے بسوں اور ٹرینوں کا نظام، عوامی شکایت کے وصول کیے جانے پر ۴۸گھنٹے میں اس پر عمل ، چھوٹے تاجروں کے لیے ایک مجلس مشاورت جو ان کی تکالیف کو دُور کرنے کے لیے تجاویز دے، شامل تھے۔ غرض ان تمام اقدامات نے عوام کو یہ یقین دلا دیا کہ واقعی یہ لوگ ہمارے مسائل کا حل کرسکتے ہیں، جب کہ دوسری سیاسی جماعتیں وعدے، دعوے اور منصوبے تو بناتی ہیں ، ملک میں کوئی قابلِ محسوس تبدیلی نہیں لاسکتیں۔ چنانچہ محتاجوں اور غریبوں کے لیے سہولتیں پیدا کی گئیں۔ ان کے لیے کم خرچ پر مکانات کی تعمیر اور مالی امداد فراہم کی گئی۔
شہروں میں اصلاح و بہتری کے لیے اور آبادی کے بڑھنے سے پیدا ہونے والے مسائل کے حل کے لیے کیے گئے فوری اقدامات نے طیب اردوگان کی حکومت اور پارٹی کو عوام میں غیرمعمولی طور پر مقبول بنا دیا۔ ۸۰ء اور ۹۷ء کے دوران شہری آبادی میں اضافہ ہوا اور وہ ۴۴ فی صد سے بڑھ کر ۶۰ فی صد ہوگئی۔ اس اضافے کی بنا پر سڑکیں، پانی، رہایش، صفائی، غرض ہرہرشعبے میں مسائل میں اضافہ ہوا۔ AKP نے ان مسائل کو حل کیا اور تین بڑے آبادی والے علاقوں استنبول، انقرہ اور ازمیر میں بے روزگاری کے خاتمے کے لیے اقدامات اور ملکی معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کے لیے پالیسی میں تبدیلی نے AKP کے سیاسی استحکام میں بنیادی کردار ادا کیا۔
AKP نے اپنی انتخابی حکمت عملی میں نوجوانوں اور خواتین کو شامل کر کے لاکھوں رضاکاروں کی ایسی فوج تیار کرلی جو خلوصِ نیت کے ساتھ ملک میں عدل و انصاف کے نظام کی جدوجہد میں سرگرمِ عمل ہوئی اور اس کے نتائج جلد سامنے آگئے۔
یہ سمجھنا درست نہیں ہوگا کہ اس عرصے میں سیکولر قوتیں خاموش رہیں لیکن چونکہ اسلام پسند افراد بیک وقت بیوروکریسی، طلبا، تاجر برادری، خواتین، دیہی علاقہ جات اور شہروں میں عوامی اور سیاسی سطح پر نفوذ کے نتیجے میں سرگرمِ عمل ہوگئے تھے اس لیے سیکولر جماعتوں کے اثرات میں نمایاں کمی ہوئی۔ اوزال کا اسلام پر غیرمتزلزل عقیدہ اور سیکولرزم کے بارے میں یہ تصور کہ اس کا جبری نفاذ حقوقِ انسانی کے منافی ہے، ترک نوجوانوں اور عوام الناس میں ان کی مقبولیت کا بڑا سبب بنا۔
۱۹۸۳ء سے ۱۹۹۰ء کے دوران ہرسال ۱۳۵ سے زائد قرآنی حلقہ جات کااضافہ ہوا۔ ۱۹۹۰ء میں قرآنی کورس کرانے والے تقریباً ۵ہزار حلقے سرگرمِ عمل تھے۔ ان حلقات میں تقریباً ۱۰لاکھ نوجوانوں نے قرآنی کورس کی تکمیل کی۔ امام خطیب اسکول سے فارغ ہونے والے طلبا کی تعداد ۱۹۷۵ء میں ۴۸ہزار۹سو تھی، جب کہ ۱۹۸۱ء تک یہ ۲لاکھ ایک ہزار۴ اور ۱۹۹۱ء میں ۳۰لاکھ۹ہزار ۵سو۵۳ تک پہنچ گئی۔ یہ لاکھوں تربیت یافتہ کارکن دیہات اور شہروں میں سیاسی شعور بیدار کرنے میں انتہائی مؤثر ثابت ہوئے۔
اپنے بچوں کو منشیات، تمباکو نوشی اور اخلاقی خرابیوں سے بچانے کے لیے بہت سے والدین نے امام خطیب اسکول میں داخلہ دلوایا، اور اس طرح یونی ورسٹیوں میں جب یہ بچے پہنچے تو ملک کی جامعات میں ایک واضح تبدیلی کا آغاز ہوا۔
بعد میں پیش آنے والے حالات کو اگر اس تناظر میں دیکھا جائے تو تحریکاتِ اسلامی کے لیے اس طویل سوچے سمجھے سفر میں غور کرنے کے لیے بہت سے پہلو نظر آتے ہیں۔ چند نمایاں نکات درج ذیل ہیں:
۱- تحریکِ اسلامی نے زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے تبدیلیِ زمان و مکان کے لحاظ سے طویل المیعاد حکمت عملی بنائی اور سیاسی مواقع کو ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ یہ بالکل فطری بات ہے کہ تحریکی آئیڈیل ازم مطالبہ کرتا ہے کہ اس کا ہر کارکن اعلیٰ ترین اخلاقی طرزِعمل کی مثال ہو اور کسی بھی معاملے میں خواہ سیاسی ہو یا انفرادی کسی لچک کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔ لیکن بنیادی تعمیر سیرت اور قرآن و سنت سے وابستگی پر کوئی سمجھوتا کیے بغیر حالات کی مناسبت سے تحریک کے سیاسی تعلقات اور وابستگیوں میں تبدیلی اور سیاسی پابندیوں سے نکلنے کے لیے کسی نئی جماعت کے قیام کو مناسب طور پر استعمال کیا گیا۔
۲- طویل حکمت عملی کے پیش نظر تعلیمی اداروں کا قیام اور موجود تعلیمی اداروں میں نوجوانوں میں نظریاتی کام کے ذریعے بیداری اور نظم کا قیام عمل میں لایا گیا۔ نتیجتاً اردوگان کی مہم میں ایک لاکھ سے زائد تربیت یافتہ کارکن ہمہ وقت سیاسی اور معاشرتی کاموں میں مصروف رہے ، جس کے بعد وہ نتائج سامنے آئے جن کی توقع تھی۔
۳- تحریک کا معاشرتی تبدیلی کے عمل میں براہِ راست متعلق ہونا تاکہ تاجر برادری اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے پیشہ ور افراد کا ایک ایسا منظم گروہ بن جائے جو اپنی خدمات اور products میں ایمان داری اور معاملات میں شفاف ہو۔ ان حضرات نے نہ صرف تجارت اور معیشت کو بلند کرنے میں بلکہ اپنے مالی ایثار سے تحریک کو کامیاب کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔
۴- مرکزی قیادت تک پہنچنے سے قبل شہری انتظامیہ کے ذریعے اپنی مثبت تصویر اور کارکردگی کی بناپر عوام کی حمایت کا حاصل کرنا۔ اس سلسلے میں شہر میں سڑکوں، ٹرانسپورٹ کے نظام، بجلی، پانی کی فراہمی، شہر میں صفائی، شہر کی خوب صورتی، معاشی طور پر کم تر افراد کو روزگار کی فراہمی، تحریک کی کامیابی کا ایک بڑا سبب بنا۔
۵- تحریک کی امداد و رہنمائی کے لیے ایسے اداروں کا قیام جو ملکی اور بیرونی پالیسی سازی میں فنی رہنمائی فراہم کرسکیں۔ ان مشاورتی اور تجزیاتی اداروں (Think Tanks ) نے افرادی قوت اور ماہرین فراہم کیے اور حکومت کے حصول کے بعد مختلف شعبوں میں سربراہی کے کام انجام دینے میں مدد کی۔ کسی بھی تحریک میں جب تک اعلیٰ ذہنی اور انتظامی صلاحیت کے افراد نہ ہوں وہ اپنے منصوبوں کو عملی شکل نہیں دے سکتی۔
۶- عوامی سطح پر (grassroot level ) پر کام کے دوران اپنی نظریاتی تربیت کرتے رہنا تاکہ اقتدار ملنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کے خوف کی بنا پر کسی بدعنوانی، اقرباپروری اور جماعتی تعصبات کی وجہ سے کسی کے ساتھ ناانصافی اور غیرعادلانہ رویہ اختیار نہ کیاجاسکے۔
۷- جامعات اور سرکاری شعبوں میں اپنا اثرونفوذ پیدا کرنے کے لیے تربیت یافتہ نوجوانوں کو وہاں کام کرنے پر راغب کرنا اور اسلامی فلاحی اداروں کا نیٹ ورک قائم کرنا۔ اس روابط کے نظام نے شہری اور دیہاتی سطح پر متوسط اور اس سے کم تر طبقات کو تحریک سے وابستہ کردیا اور اس طرح عوامی طاقت میں اضافہ تحریک کی کامیابی کی راہ ہموار کرنے کا باعث بنا۔
۸- تحقیق اور مطالعہ و تجزیے کی بنیاد پر نئے معاشی راستے نکالنا تاکہ ایک جانب روزگار فراہم ہو اور دوسری جانب صنعتی ایجادات میں اضافہ ہو۔ یہ entropreneurship یا مسابقت کرتے ہوئے ایک کام کا کرنا کاروبار تک محدود نہیں رہا ،بلکہ اس نے دعوتی میدان میں نئے تجربات کی دعوت دی اور اس طرح تحریک نہ کبھی جمود کا شکار ہوئی اور نہ مایوسی اور بے دلی اس پر طاری ہوسکی۔
۹- ایک بڑا قابلِ غور پہلو مختلف دینی قوتوں کو ایک دوسرے سے الگ ہونے کے باوجود ایک دوسرے کی مخالفت سے اجتناب، باہمی رواداری کا اہتمام اور اپنے دائرے میں اپنے کام کو محدود رکھتے اور دوسرے کو بدنام کرنے یا اس پر طعن زنی سے بڑی حد تک گریز کرنا ہے۔
۱۰- ایک اور لیکن اہم پہلو یہ ہے کہ اسلامی قوتوں نے خود اپنے ذہن اور رویے اور اپنی عام ذہنی تصویرکشی (image) میں اپنے کو تنہا رہ جانے سے بچایا اور عوام میں سے ہونے اور عوام کے لیے ہونے کا احساس اور شعور پیدا کیا۔ اپنے وژن کو محکم اور اپنے تربیتی نظام کو مستحکم رکھا مگر اس کے ساتھ ساتھ پوری کمیونٹی اور قوم اور اس کے تمام ہی عناصر سے اپنے کو مربوط رکھا۔ ان کو اپنی سرگرمیوں میں خواہ ان کا تعلق معاشرتی اصلاح، تعلیم، دعوت اور نوجوانوں کی سرگرمیوں بشمول اسپورٹس ہوں یا یقینی طور پر سیاسی اور اجتماعی اصلاح کی کوششیں اور ان میں بھی لوکل باڈیز میں مضبوط کام اور اعلیٰ مثال کے قیام جو نمونہ بنا ، اُوپر کے دائروں میں کام اور عوامی اعتماد کے حصول کا ذریعہ بنا۔ دوسرے الفاظ میں نظری اور تربیتی، ہردواعتبار سے مرکزی اور اندرونی نظام کو مضبوط رکھتے ہوئے ایک وسعت پذیری (outer reach) کا شعوری اہتمام اور تحریک کے دائرۂ اثر کو مقامی سطح سے بڑھا کر قومی اور بین الاقوامی سطح تک پہنچانا اس دیرپا اور خاموش حکمت عملی کا ایک اہم پہلو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صرف ترکی ہی میں نہیں بلکہ پورے یورپ میں ترک آبادیاں اس عمل کا ایک مؤثر حصہ رہیں، اور جو تبدیلی ۲۰۰۰ء کے عشرے میں سامنے آئی اس کی پشت پر کم از کم ۴۰سال کی محنت، مناسب منصوبہ بندی اور اس پر مؤثر عمل کی لازوال جدوجہد کے نشانات دیکھے جاسکتے ہیں۔
ان تمام پہلوئوں سے زیادہ جو بات قابلِ غور ہے وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے خصوصی نصرت کی درخواست اور اپنی کمزوریوں پر مغفرت مانگتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی کے لیے ہرقربانی کے لیے تیار رہنا ہے۔ انسانی کوششیں کتنی ہی اعلیٰ کیوں نہ ہوں جب تک رب کریم کی خصوصی عنایت نہ ہو، کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوسکتی۔
ترکی کے تجربے کو تجزیاتی نظریے کے ساتھ دیکھنے کے بعد ہمیں اور دوسری اسلامی تحریکات اور تنظیموں کو کھلے ذہن کے ساتھ غور کرنا ہوگا کہ ہم اس تجربے کے کن کن پہلوئوں کو اپنے حالات کے پیش نظر مناسب تبدیلی کے ساتھ استعمال کرسکتے ہیں، اور کون سے پہلو ایسے ہیں جو ترکی کے حالات کی مخصوص ضرورت تھے۔ تحریک اسلامی کو اجتہاد کے اصول کو مسلسل استعمال کرنا ہوگا اور تحریکی قیادت کو اپنی سابقہ حکمت عملی کے دفاع کی جگہ نئے راستے نکالنے ہوں گے۔ مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے جو بات جماعت اسلامی کے سالانہ اجتماع میں تیزرو پہاڑی دریا اور راہ میں حائل پہاڑ کی مثال دے کر سمجھانی چاہی تھی اس پر عمل کرنا ہوگا، تاکہ مشکلات کے پہاڑ راستہ نہ روک سکیں اور نئے راستے منزل تک پہنچنے کے سفر کو کامیاب بناسکیں۔یہ بات دہرانے کی ضرورت نہیں کہ اس کام کے لیے خوداحتسابی، اپنے بعض فیصلوں پر نظرثانی کی ضرورت اور طویل المیعاد حکمت عملی کے نفاذ کے لیے صحیح افرادی قوت کی تیاری وہ بنیادی کام ہیں جن کے بغیر توقعات اور اُمیدیں عملی شکل نہیں اختیار کرسکتیں۔وما توفیقی الا باللّٰہ۔