سوال: ۱-سیکولرزم کے غلبے میں دنیا سمٹ کر رہ گئی ہے۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں خدا اور خدا کے قانون کو نہیں مانتے اور آہستہ آہستہ کسی بھی مذہب کو نہ ماننے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ فیشن، خوراک، چیزوں کے برانڈ، ہر چیز ہی اب ایک کلچر کی صورت اختیار کرگئی ہے۔ مسلمانوں نے بھی بالخصوص جو ملک سے باہر رہتے ہیں، اس کلچر کو اختیار کررکھا ہے (حرام کے عنصر کو نکال کر)۔ چونکہ اس کلچر کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس لیے زیراستعمال چیزوں میں ہم بھی وہی برانڈ استعمال کرتے ہیں جو یہاں (بیرونِ ملک) لوگ کر رہے ہوتے ہیں، اور پردے ہی میں سہی مگر فیشن کے مطابق کپڑے پہنتے ہیں۔ اسلام میں دوسرے مذاہب اور اقوام کی مشابہت اور نقالی سے منع کیا گیا ہے۔ کیا ہمارا عصرِحاضر کے مطابق (حرام و حلال کا خیال رکھتے ہوئے) اس طرزِزندگی کو اختیار کرنا جائز ہے؟
۲- سالگرہ کو لوگ کسی قوم کی نقالی کے بجاے گلوبل کلچر کا حصہ سمجھتے ہیں، اور ساتھ میں یہ بھی کہتے ہیں کہ ہماری نیت کسی قوم کی تقلید کی نہیں بلکہ بس اپنے بچے کی خوشی یا محض مل جل کر بیٹھنا ہے۔ ایسی صورت میں اگر کوئی سالگرہ کی دعوت پر بلائے تو کیا مجھ پر اُس کا یہ حق ہے کہ میں سنت کے مطابق اِس کی دعوت کو قبول کروں یا بھلے طریقے سے معذرت کی جاسکتی ہے؟علما سالگرہ کو بدعت قرار دیتے ہیں۔ یہ بدعت کس طرح ہے؟ کوئی بھی شخص سالگرہ کی تقریب دینی رسم سمجھ کر تو نہیں کرتا ہے۔ میں ذاتی طور پر اسے مناسب نہیں سمجھتی اور مجھے لگتا ہے کہ اس سے خواہ مخواہ دوستوں اور رشتہ داروں پر سماجی دبائو آجاتا ہے لیکن پھر بھی لوگ بلاتے ہیں۔ اس معاملے میں کس قدر سخت رویے کی گنجایش ہے۔
۳-عورتوں کے بال کٹوانے پر رہنمائی فرمایئے؟ برعظیم پاک و ہند کے علما اس کو درست نہیں سمجھتے لیکن دوسری طرف شیخ عبدالعزیز بن بازؒ کا اس کے جواز میں فتویٰ موجود ہے۔ براہ مہربانی رہنمائی فرمایئے کہ اگر کوئی عورت شرعی پردہ کرتی ہو لیکن صرف اپنی یا اپنے شوہر کی خوشی کے لیے اپنے بالوں کو کٹوائے تو کیا یہ جائز ہوگا یا دوسروں پر بُرے اثرات مرتب ہونے کا خدشہ ہے؟
بالوں کو رنگوانے کے متعلق بھی وضاحت فرما دیجیے کہ آیا صرف اپنے یا شوہر کے شوق کی خاطر بالوں کو رنگوایا یا بلیچ کروایا جاسکتا ہے، جب کہ عورت شرعی پردے کا خیال رکھتی ہو؟ کیا ہم کسی ایسی کارکن یا داعی کے محاسبے کا حق رکھتے ہیں؟
۴- مغرب میں جن جوتوں میں چمڑے کا استعمال ہوتا ہے بالعموم وہ خنزیر کی کھال کے ہوتے ہیں اور شرعی اعتبار سے ایسے جوتوں کا استعمال حرام قرار دیا گیا ہے۔ اس صورت حال میں اچھے جوتوں کی خریداری بہت مشکل ہوجاتی ہے، بالخصوص ملک سے باہر رہتے ہوئے۔ سوال یہ ہے کہ کوئی کتنا اس بات کا مکلف ہے کہ وہ خریداری سے پہلے اس بات کی تحقیق کرے کہ اس میں کون سا چمڑا استعمال کیا گیا ہے؟
جواب: آپ کے سوالات پڑھ کر اس بات پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ لادینیت کے دور میں بھی اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی عنایت سے ایسے افراد دنیا کے ہرگوشے میں پھیلے ہوئے ہیں جنھیں معاشرتی معاملات میں حلال و حرام کی فکر ہے اور جو عصرِحاضر میں تمام مشکلات و مصائب کے باوجود اپنے رب کو خوش کرنے اور صرف اس کی رضا کے حصول کے لیے اپنے رہن سہن اور رسومات کو شریعت کے مطابق دیکھنا چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسی نیک روحوں میں مزید اضافہ فرمائے اور دنیا میں جہاں کہیں بھی ایسے صالح افراد پائے جاتے ہیں انھیں اسلام کی صحیح تصویر عملاً پیش کرنے کی توفیق دے،آمین!
سوالات میں جہاں تک نظری طور پر بعض معامات کے درست یا نادرست ہونے کا تعلق ہے، اس میں یہ بات سامنے رکھیے کہ اسلام تمام انسانوں اور تمام ادوار کے لیے آیا ہے۔ اس لیے یہ لباس، غذا اور معاشرتی تعلقات کے عالم گیر اصول دیتا ہے۔ یہ کسی مقامی ثقافت، رسوم و رواج اور عرف کا غلام نہیں ہے۔ رسومات ہوں یا کسی دور کا کوئی طرزِعمل، ان سب کو قرآن و سنت کے ابدی اصولوں پر جانچ کر دیکھنا ہوگا کہ وہ کہاں تک ان اصولوں سے مطابقت رکھتے ہیں۔
اسلامی کلچر عربی یاعجمی روایات کا نام نہیں ہے۔ اسلام کا مقصد عربوں اور عجمیوں دونوں کو مسلمان بنانا ہے۔ مسلمانوں کو عرب یا عجمی بنانا نہیں ہے۔ وہ تمام طریقے جو جاہلیت کے تھے اور جو ان کی پہچان تھے اور جسے عربیت [عروبہ] کہا جاتا تھا، ان کو خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پائوں تلے روندا اور صرف کلمۃ اللہ کے اعلیٰ ہونے کا اعلان اپنے آخری خطبے میں (حج کے موقع پر) فرما کر اسلامی ثقافت ، فکر اور کلچر کی بنیاد توحیدِ خالص پر قائم فرمائی۔ قرآن کریم نے تبرجات الجاہلیہ کو رد کرتے ہوئے ہر اس عمل کو رد کیا جو اللہ اور رسولؐ کی معصیت کی طرف لے جانے والا ہو۔
یہ بات درست نہیں ہے کہ کلچر سیکولر ہو یا مغربی یا مشرقی، اس کا تعلق مذہب کے ساتھ نہیں ہے۔ کلچر یا ثقافت دراصل دینی عقائد و تعلیمات کا ایک عکس ہوتا ہے۔ اس لیے جو لوگ شرک پر یقین رکھتے ہیں، ان کا کلچر مشرکانہ ہوگا، اور جو توحید کو مانتے ہیں ان کا کلچر توحیدی ہوگا (یہ مضمون الگ تفصیلی بحث کا مستحق ہے۔ اس لیے ہم اسے نامکمل چھوڑتے ہوئے اصل سوال کی طرف آتے ہیں)۔
مخصوص برانڈ کی چیز کے استعمال میں مشابہت کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا کیونکہ کوئی بھی برانڈ کسی خاص طبقے کی اجارہ داری یا پہچان نہیں ہے۔ ایک یہودی ہو یا دہریہ، یا ایک مخلص مومن، جو بھی اس کی مطلوبہ قیمت ادا کرے گا وہ اسے استعمال کرسکتا ہے۔ اس لیے اسے مشابہت سے خلط ملط کرنا درست نہیں ہوگا۔ ہاں، اگر کوئی شے ایک خاص فرقہ یا مذہبی گروہ سے وابستہ ہے اور اسے استعمال کیا جائے تو مشابہت کی تعریف میں آئے گا، مثلاً صلیب یا چھے کونوں والے تارے کا استعمال۔
جہاں تک کسی ایسی تقریب میں جانے کا تعلق ہے جہاں فواحش و منکرات [ناچ گانا، عریانی، حرام مشروب کا استعمال] کیا جارہا ہو، تو واضح ہے ایسا کرنا اسلام کے منافی ہے، لیکن اگر کسی سالگرہ کی تقریب میں آپ کو مدعو کیا گیا اور آپ شرکت سے انکار کریں تو قطع رحمی ہوگی۔ اگر یہ بھی معلوم ہو کہ وہاں ناچ گانا یا شراب کا استعمال نہیں ہورہا، تو صلہ رحمی کے پیش نظر وہاں جاکر نصیحت کی بات پہنچانا اور گفتگو میں اس طرف متوجہ کرنا کہ اس قسم کی تقاریب میں اسراف نہ ہو، غیرمسلموں کی نقل نہ کی جائے، وہ چیزیں نہ ہوں جن سے دوسروں کی نقالی ثابت ہوتی ہو ، ایک دعوتی عمل کی شکل اختیار کرسکتا ہے۔ دین کے حوالے سے یہ بات سمجھ لیجیے کہ یہ مثبت اور تعمیری فکر کی تعلیم دیتا ہے محض منہیات کا نام نہیں ہے۔ جن باتوں سے منع کیا گیا ہے وہ محدود ہیں جن کو کرنے کی طرف اُبھارا گیا ہے وہ لاتعداد ہیں۔ یہ بھی ہے کہ راستے میں چلتے ہوئے ایک کانٹا یا پتھر جو لوگوں کو تکلیف پہنچاسکتا ہے اسے دُور کردیا جائے۔ اگر خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم عکاظ کے میلے میں جاکر دعوتِ اسلامی پیش فرماتے ہیں تو کسی ایسی تقریب میں، وہ سالگرہ کی ہو یا نکاح کی جس میں فحاشی و عریانی اور منکرات کا امکان بظاہر نہ ہو،جانا شریعت کے منافی کیسے ہوسکتا ہے۔
سالگرہ کے بارے میں آپ کی ذاتی راے کا پورا احترام کرتے ہوئے آپ کا رویہ یہ ہونا چاہیے کہ چاہے ذاتی طور پر نہ آپ سالگرہ منائیں نہ اسے درست سمجھیں، لیکن اگر ایسے موقع کو آپ دعوت کے لیے استعمال کرسکتی ہیں تو کیا ایسے موقع کو ضائع کرنا شریعت کا مقصود ہے؟
بال کـٹوانا اور رنگوانـا: بال کٹوانے پر اگر شیخ عبدالعزیز بن باز مرحوم نے اور شیخ یوسف القرضاوی نے فتویٰ دیا ہے تو میری معلومات کی حد تک اس کی واضح دلیل اس اصول میں ہے جس میں ایک بڑی بُرائی سے بچنے کے لیے کم تر کا اختیار کرنا مصلحت دینی ہے ۔ اگر ایک شوہر اور اس کی بیوی یہ سمجھتے ہیں کہ بیوی کے بال ترشے ہوئے ہوں تو ذاتی پسند و ناپسند سے قطع نظر اسے ممنوع نہیں کہا جاسکتا۔ جس بات کی ممانعت ہے وہ بالوں میں بال جوڑنے کی ہے بالوں کو کاٹنے کی نہیں۔
دوسری جانب یہ بات کہ اس طرح مرد اور عورت کا تشخص ختم ہوجاتا ہے اس وقت قوی ہے جب ایک مسلمان خاتون بال کٹوا کر سر کھول کر بازاروں میں پھر رہی ہو۔ اگر ایک بیوی اپنے شوہر کی خواہش کی بناپر بال تراش کر [وہ جس طرح کے بھی ہوں] اس کے سامنے آتی ہے اور جب باہر جاتی ہے تو اس کا سر اور تمام جسم ڈھکا ہوا ہے تو اس میں معاشرے کو کیا خطرہ ہے؟ کیا وہ معاشرے میں مشابہت کی تشہیر کر رہی ہے؟ ہاں، اگر کوئی عورت بال کٹوا کر سر کھول کر سب کے سامنے پھرتی ہے تو مشابہت سے زیادہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی شریعت کی مخالفت ہے جس کا مطالبہ یہ ہے کہ وہ حجاب، یعنی سر ڈھانک کر باہر نکلے۔ شرعی پردے کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث نے قیامت تک کے لیے متعین کردیا جس میں آپؐ سیدہ عائشہؓ کو ہدایت فرماتے ہیں کہ جب ایک مسلمان بچی بالغ ہوجائے تو چہرے اور ہاتھ کے سوا تمام جسم ڈھکا ہوا ہو۔ اس میں بالوں کی سیٹنگ کہیں آس پاس نہیں آتی کیونکہ جب سر مکمل طور پر ڈھک گیا تو حجاب کے اندر بال لمبے ہوں یا چھوٹے، اس سے کسی کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔
بال رنگوانے کے بارے میں یہ بات حدیث سے ثابت ہے کہ مہندی یا حنا کے استعمال کی کوئی ممانعت نہیں کی گئی۔ اس پر قیاس کرتے ہوئے اگر ایک خاتون اپنے بالوں کو اس لیے رنگین کرتی ہے کہ اس کا شوہر اسے پسند کرتا ہے تو اس کی مثال وہی ہے جو اس سے قبل بالوں کی تراش کے بارے میں عرض کی گئی۔ آپ نے یہاں بھی شرعی پردے کا ذکر کیا ہے۔ جب تک ایک خاتون چہرے اور ہاتھ کے سوا تمام جسم ڈھانکے ہوئے ہے، وہ بہت سے کام اس وقت تک کرسکتی ہے جب تک اس کام کی ممانعت ثابت نہ ہوجائے۔ شریعت کا اصول ہے اصلاً ہرفعل مباح ہے جب تک اس کی حُرمت ثابت نہ ہو۔یہاں پر یاد رکھیے اسلام میں حلال و حرام واضح ہیں لیکن بعض چیزیں انسان کی فطرت کا مطالبہ ہیں۔ ایک خاتون کی خوب صورتی کے اجزا میں اس کے بالوں کا لمبا ہونا مسلم دنیا میں ہی نہیں، قدیم ترین تہذیبوں کا حصہ رہا ہے لیکن اس بنا پر شدت کے ساتھ ایک موقف اختیار کرلینا بھی دین کی حکمت، مصلحت اور بصیرت سے مطابقت نہیں رکھتا۔
جہاں تک تعلق محاسبے کا ہے وہ تو کسی بھی ایسے موضوع پر کیا جاسکتا ہے جو آپ کے نزدیک معاشرتی یا تحریکی حقوق سے تعلق رکھتا ہو۔ اگر جس کا محاسبہ کیا جا رہا ہے وہ آپ کو اپنے جواب سے مطمئن کردے کہ آپ کا احتساب غلط تھا، تو آپ کو کشادگیِ قلب کے ساتھ اپنی غلطی کو مان لینا چاہیے۔ احتساب جب تک کیا جاتا رہے گا اُمت مسلمہ ان شاء اللہ صراط مستقیم پر رہے گی۔