دسمبر ۲۰۱۲

فہرست مضامین

لیبیا: قذافی کے بعد پہلا سال

ارشاد الرحمن | دسمبر ۲۰۱۲ | عالم اسلام

Responsive image Responsive image

لیبیا قریباً ۷۰ لاکھ نفوس پر مشتمل آبادی کا ملک ہے، لیکن قدرت نے اسے پٹرول کی   بے پناہ دولت سے مالامال کر رکھا ہے۔ دو ملین بیرل پٹرول کی یومیہ پیداوار ملکی معیشت کے لیے آسودہ اور خوش حال زندگی کی ضمانت فراہم کرتی ہے۔ چھوٹی سی آبادی کے لیے بے پناہ دولت کے اس قدر تی وسیلے کو اللہ تعالیٰ کی نعمت ِ غیرمترقبہ ہی کہا جاسکتا ہے مگر جس طرح ’تدبیر منزل‘ کے بغیر اُمورِخانہ بگڑ جاتے، اسی طرح’تدبیر مملکت‘ کے بغیر ’کارِجہاں بانی‘ بھی زوال آشنا ہوجاتا ہے۔

۲۰۱۱ء میں جن عرب ممالک میں حکومتوں کو عوامی سیلاب کے سامنے سر نگوں ہونا پڑا ان ممالک میں تین تین چار چار عشروں سے ایک ہی خاندان حکمرانی کے استحقاق پر قابض تھا۔ کسی ایک خاندان کا اُمورِ حکومت کو ۳۰، ۴۰ برس اپنے ہاتھ میں لیے رکھنا ا س ملک کے عوام کی نفسیات میں محرومی کے احساس کو شدید تر کرنے کے لیے کافی مدت ہے۔ لیبیا پر کرنل معمرالقذافی کا تسلط ۴۲برس پر محیط ہے۔ ۲۰۱۱ء میں ’عرب بہارِ انقلابات‘ کا ریلا اس آمرانہ تسلط کو توڑنے کا بھی باعث ہوا۔ ۱۷فروری ۲۰۱۱ء کو لیبیا میں بھی عوامی احتجاج اور مظاہروں کا آغاز ہوگیا۔ احتجاج کا یہ سلسلہ روزافزوں شدت اختیار کرتا گیا۔ حکومت نے اس احتجاج کو کچلنے کے لیے اپنی تمام طاقتوں کو آزمایا۔ بالآخر ناکامی کا منہ دیکھتے ہوئے کرنل قذافی دارالحکومت طرابلس کو چھوڑ کر ۳۶۰کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ’سرت‘ شہر میں روپوش ہوگیا۔یہ ۲۰؍اکتوبر ۲۰۱۱ء کا دن تھا جب سرت میں قذافی مظاہرین کے ہاتھوں زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ ۴۲برس بلاشرکت ِ غیرے لیبیا کا حکمران رہنے والا شخص جس بے بسی کے عالم میں عوام کے ہاتھوں مارا گیا، یہ ہرظالم و جابر حکمران کے لیے درسِ عبرت ہے۔ فروری سے اکتوبر تک عوامی احتجاج کو روکنے کے لیے لیبیا حکومت نے پورا زور صرف کیا اور آٹھ ماہ کے اس عرصے میں ۵۰ہزار سے زائد افراد کو اپنے اقتدار کی خاطر موت کی نیند سُلا دیا۔

عرب میڈیانے قذافی کے ۴۲سالہ دورِ حکومت کو ’خونیں دورِحکومت‘ کہا ہے۔ ایک راے کے مطابق قذافی کا دورِحکومت قتل و خون ریزی کا دور تھا۔ جو اُس کے خلاف آواز بلند کرتا اُسے معافی نہیں مل سکتی تھی بلکہ ایسی ہر آواز کا واحد علاج ’قتل‘ تھا،جیساکہ متعدد مواقع پر ہوا۔ لاکربی کا مشہور واقعہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس کے بعد لیبیا پر ۱۹۹۲ء میں ۱۰سال کے لیے عالمی پابندیاں عائد کی گئیں۔ جب بین الاقوامی تنہائی نے اسے مصالحت پر مجبور کردیا تو اس نے اپنے بیٹے سیف الاسلام کو نئے چہرے کے طور پر متعارف کرایا۔

۲۰؍اکتوبر ۲۰۱۱ء کو قذافی قتل ہوا اور ۲۳؍اکتوبر ۲۰۱۱ء کو ’قومی مجلس‘ (عبوری مجلس) نے لیبیا کی ’کامل آزادی‘ کا اعلان کردیا۔ ۳۱؍اکتوبر ۲۰۱۱ء کو ایک علمی شخصیت عبدالرحیم الکیب کو نگران حکومت کا صدر منتخب کیا گیا۔ ۲۲نومبر کو عبدالرحیم الکیب نے اپنی حکومت کی تشکیل کا اعلان کیا۔ عبوری مجلس نے آٹھ ماہ کے اندر ’دستوری مجلس‘ کے انتخاب کرانا تھے جو آٹھ ماہ کے اندر تو نہ ہوسکے البتہ معمولی تاخیر کے ساتھ نوماہ کے اندر ۷جولائی۲۰۱۲ء کو ہوئے۔

۷جولائی ۲۰۱۲ء کا دن لیبیا کے عوام کے لیے تاریخ کے پہلے عام انتخابات کا دن تھا۔ اس انتخاب میں لیبیا کی اس قیادت کا خاص کردار رہا جو ایک عرصے سے بیرونِ ملک جلاوطنی کے دن گزار رہی تھی۔ اگرچہ یہ جلاوطنی خوداختیاری تھی مگر لیبیا کے داخلی حالات سے ان لوگوں کے    عدم اطمینان اور حکومت کے جابرانہ سلوک کی بنا پر اختیار کی گئی تھی۔ ملک کی اسلامی اور لبرل جماعتوں نے ان انتخابات میں حصہ لیا۔ اسلامی قوتوں نے اپنی اپنی جماعتوں کے نام سے انتخاب میں شرکت کی، جب کہ لبرل جماعتیں ایک قومی الائنس کے تحت اس انتخاب میں داخل ہوئیں۔ اگرچہ یہ چھوٹے چھوٹے گروپ تھے مگر ۶۰گروپوں کے اس الائنس نے لیبیا کے انتخابات کی کایاپلٹ دی۔ اخوان المسلمون نے حزب العدالۃ والبناء (تعمیر و انصاف پارٹی) کے نام سے یہ انتخابات لڑے۔ دیگر جماعتیں بھی مختلف ناموں سے شریکِ انتخاب تھیں مگر قابلِ ذکر قرار نہ پاسکیں۔ البتہ آزاد اُمیدواروں نے مجموعی طور پر ان انتخابات میں میدان جیتا۔ ’قومی جماعتوں کے الائنس‘ کی قیادت عبوری مجلس کے سابق وزیراعظم محمود جبریل نے کی۔ اسی الائنس نے بحیثیت پارٹی سب سے زیادہ ۳۹ نشستیں حاصل کیں۔اخوان کی تعمیروانصاف پارٹی کو ۱۷نشستیں ملیں اور آزاد اُمیدواروں کو ۱۲۰، نشستوں پر کامیابی ملی۔ ان آزاد اُمیدواروں میں بھی کثرت لبرل ارکان کی ہے۔ اسلامی اور لبرل ناموں کی تقسیم کے اعتبار سے لیبیا کے اسلام پسند یااسلامی شناخت اور امتیاز رکھنے والے اُمیدوار دوسرے نمبر پر آئے اور لبرل شناخت کے حامل پہلے نمبر پر۔

انتخابی نتائج کی یہ صورت حال نہ صرف روایتی تجزیہ نگاروں کے لیے حیرت انگیز تھی بلکہ خود اسلامی قوتوں کے لیے بھی اس میں اپنی حکمت عملی پر سوچ بچار کرنے کا درس موجود تھا۔ انتخابات میں قوم کے مزاج اور تہذیب و کلچر کا ضرور دخل ہوتا ہے مگر جہاں ۴۰، ۴۰ برس سے لوگوں نے ایک کے سوا کسی دوسرے کا نام حکمران کے طور پر سنا ہی نہ ہو وہاں ا س مزاج اور کلچر کے اُوپر انحصار کرکے مطلوبہ نتائی کی توقع رکھنا خام فکری کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ خلوص اور دیانت داری کے ساتھ صلاحیت اور اہلیت بھی ضروری ہے اور ان کے ساتھ حکمت عملی بھی ناگزیر ہے۔

اسلامی قوتوں کے مقابلے میں لبرل قوتوں کی کامیابی تجزیہ نگاروں کے مطابق متعدد وجوہات کی بنا پر سامنے آئی۔ لیبیا کے ایک سیاسی تجزیہ نگار عصام محمد الزبیر کے مطابق لبرل الائنس کی عبوری مجلس کے سابق وزیراعظم محمود جبریل الائنس کا سربراہ تھا اور وہ قذافی کے خلاف مزاحمت کے دوران بین الاقوامی طور پر معروف ہوچکا تھا۔ ملک کے اندر بھی عوام اس کی شخصیت سے متعارف تھے۔ اس بنا پر اس نے ۶۰ گروپوں کا الائنس بنانے میں نہ صرف کامیابی حاصل کی بلکہ سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہا۔

دوسرا سبب ایک اور تجزیہ نگار کے نزدیک یہ تھا کہ لبرل گروپ اپنی اعتدال پسندی اور  دین داری دونوں اعتبار سے عوام کے لیے اسلامی جماعتوں کی نسبت زیادہ قابلِ قبول رہے۔ اسلامی جماعتوں کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ ان کے ہاں شدت پسندی زیادہ ہے۔ انتخابات سے قبل احتجاج کے دوران ان جماعتوں کے بارے میں پروان چڑھنے والی اس راے نے ان جماعتوں کو بعض اُن نشستوں سے بھی محروم کردیا جہاں فضا مکمل طور پر ان کے حق میں خیال کی جاتی تھی،بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ ان حلقوں کو اسلامی جماعتوں کے ووٹروں کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔

ایک سبب یہ بتایا گیا ہے کہ اسلامی جماعتیں اپنی گہری جڑیں رکھنے کے باوجود اس بنا پر  کم نشستیں حاصل کرپائیں کہ یہ غیرمتحد تھیں۔ یہ اسلامی شناخت رکھنے کے باوجود چھے جماعتوں میں تقسیم تھیں، جب کہ محمود جبریل کے الائنس نے لبرل لیبل کے باوجود ۶۰گروپوں کو متحد کر رکھا تھا۔ (الجزیرہ نیٹ، ۱۰ جولائی ۲۰۱۲ئ)

ان انتخابات کے نتیجے میں بننے والی پارلیمان کو دستوری طور پر ملک کا نظامِ حکومت منتقل ہونا تھا جو اس سے پہلے انقلاب کے نتیجے میں قائم ہونے والی ’قومی مجلس‘ کے پاس تھا۔ ۸؍اگست ۲۰۱۲ء کو قومی مجلس نے اس انتقالِ اقتدار کا مرحلہ بھی طے کرا دیا۔ پُرامن انتقالِ اقتدار کا یہ عمل ۴۲برس کے آمرانہ دورِ حکومت کے بعد پہلی مرتبہ انجام پایا۔ ایک باقاعدہ تقریب میں مجلس اور پارلیمان کے ذمہ داروں، ارکان اور سربراہوں کی موجودگی میں یہ مرحلہ لیبیاکے عوام نے ٹیلی وژن اسکرین پر براہِ راست مشاہدہ کیا۔ قومی مجلس کے سربراہ مصطفی عبدالجلیل نے پارلیمان کے ۲۰۰؍ارکان میں عمر کے اعتبار سے سینیر ترین رکن محمدعلی سلیم کو چارج باقاعدہ طور پر سپرد کیا۔ اختیار لینے اور حوالے کرنے کی دستاویزات پر دونوں اطراف سے دستخط کیے گئے۔ مصطفی عبدالجلیل نے جھنڈا پارلیمان کے صدر محمدعلی سلیم کے حوالے کیا اور دونوں سربراہو ں نے حسب ذیل تحریر پر دستخط کیے:

عبوری مجلس دستوری اختیارات ملکی قیادت قومی پارلیمان کے سپرد کرتی ہے اور اسی تاریخی لمحے سے پارلیمان لیبی قوم کی واحد دستوری نمایندہ قرار پاگئی ہے۔ لیبیا کی آزادی، امن و سلامتی اور وحدتِ اراضی کی نگہبان اب یہی پارلیمان ہے۔

مصطفی عبدالجلیل نے ’لیبیا کی تاریخ میں انتقالِ اقتدار کا پہلا عمل‘ کے عنوان سے خطاب بھی کیا۔ انھوں نے کہا کہ یہ اہلِ لیبیا کے لیے تاریخی لمحہ ہے۔ میں انتقالِ اقتدار کے اس عمل کے دوران میں ہونے والی غلطیوں کا اعتراف کرتا ہوں۔ بعض اہم امور میں ہم سے تاخیر ہوگئی اور ہم چاہتے ہیں کہ پارلیمان ان اُمور کو نبٹانے میں کامیاب ہو۔ ان اُمور میں امن و امان کا قیام، ملک سے اسلحہ اکٹھا کرنا اور اندرون و بیرونِ ملک شہریوں کے علاج پر توجہ دینا اہم ہیں۔ ہم ان اُمور کے  حل کے لیے کوئی طریقہ تجویز نہیں کرتے اگرچہ ہم نے عبوری مجلس میں ان کے بارے میں بہت سے فیصلے کیے، تجاویز منظور کیں۔

مصطفی عبدالجلیل نے کہا: عبوری مجلس اپنے آپ کو پارلیمان کی حکمرانی کے تحت کسی بھی معاملے میں اپنا تعاون پیش کرنے کے لیے حاضر ہے۔ ہم اپنے ان بھائیوں کے لیے بہترین مددگار ثابت ہوں گے جنھوں نے ہم سے یہ جھنڈا حاصل کیا ہے۔ کیونکہ لیبیا کا مفاد ہمارے لیے اہم ہے اور انقلاب کی کامیابی ہم سب کا ہدف ہے۔ پارلیمان انقلاب کے جس میدان میں بھی چاہے ہم اُس کے وفادار ثابت ہوں گے۔

مصطفی عبدالجلیل کرنل قذافی کے دور میں عدلیہ کی سپریم کونسل کے رکن تھے۔ انھوں نے اس کونسل سے اور عبوری مجلس کی رکنیت سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا ہے۔ انتقالِ اقتدار کی یہ تقریب قریباً پون گھنٹا جاری رہی۔ اس میں نومنتخب اسمبلی کے ارکان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اپنے صدر اور نائب صدر کے انتخاب کے لیے اجلاس بلائیں۔ (الجزیرہ نیٹ ۹؍اگست ۲۰۱۲ئ)

مذکورہ اجلاس کے اگلے روز نومنتخب ارکان اسمبلی نے قذافی حکومت کے تاریخی مخالف محمدالمقریف کو اسمبلی کا صدر منتخب کیا۔ محمدالمقریف سیاسی اتحاد جبھۃ الوطنیۃ للانقاذ کی قیادت کر رہے تھے جو جلاوطنی کے دوران قائم ہوا اور ایسی بہت سی شخصیات اس سے وابستہ رہیں جو قذافی حکومت کے خلاف تھیں۔ محمدالمقریف کو اسمبلی سے ۱۱۳ ووٹ حاصل ہوئے اور ان کے مدمقابل  علی زیدان محمد کو ۸۵ ووٹ ملے۔ علی زیدان محمد بھی قذافی نظامِ حکومت کے پرانے مخالف اور   آزاد رکن اسمبلی اور لبرل رجحانات کی حامل شخصیت ہیں۔ محمدالمقریف ۱۹۴۰ء میں پیدا ہوئے۔ قذافی حکومت میں سفارتی خدمات انجام دیں مگر جلد ہی اس سے لاتعلق ہوکر جلاوطن ہوگئے۔ وزیراعظم کا انتخاب، نئی حکومت کی تشکیل، قوانین کا اجرا، نئے دستور کی تیاری اور مکمل پارلیمانی انتخابات کے مراحل طے کرانا محمد المقریف کی ذمہ داری ہوگی۔

انتخابِ صدر کے بعد انتخابِ وزیراعظم کا مرحلہ شروع ہوا۔ ۱۲ستمبر ۲۰۱۲ء کو لبرل الائنس کے سربراہ محمود جبریل اور اسلامی شناخت کے حامل مصطفی ابوشاقور کے درمیان وزارتِ عظمیٰ کے لیے مقابلہ ہوا اور شاقور دو ووٹوں سے یہ انتخاب جیت گئے۔ لیکن ووٹوں کا یہ معمولی فرق اُن کی حکومت تشکیل دینے میں بہت بڑی رکاوٹ بنا رہا۔ دو بار انھیں تشکیل حکومت کا موقع دیا گیا مگر وہ اسمبلی سے اعتماد حاصل نہ کرسکے اور بالآخر اس عہدے سے انھیں ہٹنا پڑا۔

مصطفی ابوشاقور کے انتخاب اور بعدازاں ناکامی کے قریباً ایک ماہ بعد نئے وزیراعظم کا انتخاب عمل میں آیا اور صدارتی انتخاب میں حصہ لینے والے دوسرے امیدوار علی زیدان محمد     لبرل الائنس کی جانب سے محمود جبریل کی قیادت میں سامنے آئے۔ اسلامی جماعتوں کے نمایندے کے طور پر محمدالہاشمی الحراری نے حصہ لیا۔ علی زیدان محمد کو ۹۳ووٹ اور الحراری کو ۸۵ ووٹ ملے۔   یوں علی زیدان محمد وزیراعظم لیبیا منتخب ہوگئے۔ تیسرے اُمیدوار عبدالحمید نعمی اسمبلی کے ۴۰ارکان کی طرف سے تائید حاصل کرنے میں ہی ناکام رہے، لہٰذا مقابلے سے باہر ہوگئے اور چوتھے اُمیدوار ابراہیم دباشی اجلاس میں شریک ہی نہ ہوئے۔

وزیراعظم علی زیدان محمد کا تعلق لیبیا کے ضلع جفرہ کے شہر ودّان سے ہے۔ ۱۹۵۰ء میں پیداہوئے۔ بھارت کی جواہر لعل نہرو یونی ورسٹی دہلی سے بین الاقوامی تعلقات میں ایم اے کیا۔ ۱۹۷۵ئ-۱۹۸۲ء لیبیا کی وزارتِ خارجہ کے ڈپلومیٹک ونگ میں کام کیا۔ اس دوران دو سال کے لیے بھارت میں سفارت خانۂ لیبیا میں رہے۔ ۱۹۹۴ء سے تاحال ہیومن ڈویلپمنٹ کی جرمن ایجنسی کے صدر ہیں۔ ۱۹۸۲ء سے ۱۹۹۲ء تک لیبیا کے جبھۃ الوطنیۃ للانقاذ کے رکن رہے۔    انسانی حقوق کی تنظیم الرابطۃ اللیبیۃ کے ۱۹۸۹ء سے باقاعدہ ترجمان ہیں۔ انقلاب کے بعد عبوری مجلس کی طرف سے یورپ خاص طور پر فرانس میں نمایندے مقرر کیے گئے۔

علی زیدان محمد بھارت میں بطور سفارت کار تعیناتی کے دوران قذافی نظامِ حکومت سے الگ ہوئے اور لیبیا حکومت مخالف اتحاد میں شامل ہوگئے جو بیرونِ ملک شخصیات نے جبھۃ الوطنیۃ للانقاذ کے نام سے قائم کیا تھا۔ زیدان کو قذافی نظامِ حکومت کا ’ریڈیکل مخالف‘ کہا جاتا ہے۔ کیونکہ انھوں نے اس وقت بھی حکومت کے ساتھ مکالمے اور سودے بازی سے انکار کیا جب سیف الاسلام قذافی بعض بڑی مخالف شخصیات کو بھی اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوگیا تھا۔

۷جولائی ۲۰۱۲ء کے انتخابات میں اگرچہ مجموعی طور پر لبرل اُمیدواروں کی کامیابی کا تناسب اُونچا رہا مگر اس کے باوجود وزیراعظم کے انتخاب میں ان کو بھی بڑے فرق کے ساتھ کامیابی نہیں ملی۔ زیدان صرف آٹھ ووٹ زیادہ لے کر محمدالحراری کے مقابلے میں وزیراعظم بنے ہیں۔ ملکی صورت حال کی ابتری اور نظامِ حکومت کو استحکام دینے کے لیے اب تمام پارلیمانی قوتیں وزیراعظم زیدان کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہیں۔ اخوان المسلمون کے سیاسی گروپ العدالۃ والبناء کے سربراہ محمد صوان نے علی زیدان کے لیے اچھے جذبات کا اظہار کیا۔ علی زیدان کے انتخاب کو بھی تجزیہ نگاروں نے کسی ٹھوس کامیابی سے تعبیر نہیں کیا۔ کہا گیا ہے کہ زیدان کی کامیابی کا سبب یہ ہے کہ پارلیمان میں کوئی جماعت ایسی نہیں جس کے پاس کوئی منشور اور واضح فکر ہو۔ بیش تر آزاد اُمیدواروں کا مقصد مناصب کا حصول ہے جس کی بنا پر انھوں نے علی زیدان کے حق میں ووٹ دیا۔ یہ سیاسی لوگوں کے درمیان سودے بازی کا نتیجہ ہے۔ زیدان کو اسمبلی کا متفقہ وزیراعظم قرار نہیں دیا جاسکتا۔

وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد زیدان نے اپنے پہلے بیان میں کہا کہ وہ لیبیا میں امن کی بحالی پر خصوصی تو جہ دیں گے۔ اُن کے خیال میں ’’تمام مشکلات جن سے لیبیا دوچار ہے وہ     امن کے مسائل سے ہی جنم لیتی ہیں‘‘۔ انھوں نے کہا کہ مسائل کے حل کی خاطر حکومت خود کو  ہنگامی حالت میں تصور کرے گی اور وہ اخوان المسلمون کی آرا و تجاویز کو خوش آمدید کہیں گے۔ زیدان نے کہا: ہر قانونی تعبیر کا مصدر و منبع اسلام ہوگا اور ہر وہ چیز ناقابلِ قبول ہوگی جو شریعت سے متصادم ہوگی۔(الجزیرہ نیٹ، ۱۵؍اکتوبر ۲۰۱۲ئ)

قذافی نظامِ حکومت سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد علی زیدان محمد نے ۲۰۱۱ء کے انقلاب تک جرمنی کو اپنا مستقر بنائے رکھا۔ قذافی دور میں سیاست دانوں کے پاس دو ہی اختیار تھے: وہ لیبیا میں رہ کر اہم مناصب پر فائز رہیں یا طویل جلاوطنی کی زندگی کو قبول کرلیں۔ ان کے لیے پہلی صورت کو اختیار کرنا ممکن نہیں تھا کیونکہ جن افراد کے اُوپر حکومت کو شک گزرتا اُن کی اس نظام میں جگہ   نہ ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ انقلاب کی بیش تر قیادت بیرونِ ملک مقیم رہی۔

وزیراعظم لیبیا علی زیدان کو بھی تشکیل حکومت کے لیے دو ہفتے کی مہلت دی گئی۔ انھوں نے اکتوبر کے آخری دنوں میں ۳۲؍افراد پر مشتمل حکومت کا خاکہ صدر کو بھجوایا جس میں آزاد، اسلامی اور لبرل جماعتوں کے افراد کو شاملِ حکومت کیا گیا تھا۔دوخواتین ارکان بھی حکومت میں شامل ہیں۔ اس حکومت میں اہم وزارتوں پر آزاد ارکان کو فائز کیا گیا ہے۔ خارجہ، بین الاقوامی تعلقات، مالیات، عدل و انصاف، داخلہ اوردفاع کی وزارتیں آزادارکان کے سپرد کی گئی ہیں۔  ان ۳۲؍افراد میں تین ارکان وزیراعظم کے ساتھ ہوںگے، ۲۷ وزیر ہیں۔دو وزراے مملکت ہیں جن میں ایک پارلیمان اور دوسرا دورانِ انقلاب زخمی ہونے والوں کے مسائل سے متعلق ہوگا۔

۳۱؍اکتوبر کو صدر پارلیمنٹ محمدالمقریف نے زیدان حکومت کے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیابی کا اعلان کیا۔ مقریف کے مطابق حکومت نے ۱۰۵ ووٹ حاصل کیے، جب کہ ۹ووٹ حکومت کے خلاف رہے اور ۱۸ ووٹ خاموش رہے۔ ۲۰۰؍ ارکان پر مشتمل اسمبلی کے ۲۰ سے زائد ارکان فریضۂ حج کی ادایگی کے باعث غیرحاضر تھے اور قریباً اتنی ہی تعدادپارلیمانی امور کے سلسلے میں برطانیہ اور کینیڈا میں تھی۔

واشنگٹن پوسٹ نے زیدان کی حکومت کو کمزور قرار دیا ہے۔ اخبار کے مطابق طرابلس سے صرف ۱۰۰ میل کے فاصلے پر واقع شہر بنی ولیدمیں انقلاب کے حامیوں اور سابق نظامِ حکومت  کے طرف داروں کے درمیان اب تک تصادم جاری ہے جس سے حکومت کی کمزور گرفت ظاہر ہوتی ہے۔ بنی ولید قذافی حکومت کے حامیوں کا آخری گڑھ ہے، جو انقلاب پسندوں سے مکمل طور پر فتح نہیں ہوسکا۔

انسانی حقوق کی تنظیمیں اور ماہرین قانو ن کے مطابق لیبیا میں مسلح تنازعات کا سبب قانون کی حکمرانی کاعدم نفاذ ہے۔ چونکہ عبوری مجلس کو قریباً ایک سال تو انتقالِ اقتدار کا مرحلہ طے کرنے میں لگ گیا اور چار ماہ نئی حکومت کی تشکیل میں گزر گئے۔ وزیرعدل نے کہا ہے کہ ہم فوت شدگان کو تو زندہ نہیں کرسکتے البتہ قانون کی حکمرانی کو عام کرنا ہمارے بس میں ہے۔ ہمارے لیے یہ ممکن ہے کہ ہم دونوں اطراف کے جانی نقصانات اُٹھانے والوں کو معاوضے دے دیں اور ہمارے اختیار میں یہ ہے کہ ہم لیبیا کی تعمیرنو کو ممکن بنائیں۔(الجزیرہ نیٹ، ۱۳ نومبر ۲۰۱۲ئ)

لیبیا کے سیاست دانوں اور تجزیہ نگاروں کے مطابق علی زیدان کی کابینہ تمام سیاسی جماعتوں پر مشتمل ہونے کے باعث بہتر دورِ حکومت کا آغاز ہے کیونکہ علی زیدان نے اسلامی، لبرل اور قومی قوتوں کے درمیان سیاسی دُوری کو بہت حد تک کم کردیا ہے۔ گویا یہ اتحادی حکومت ہے۔ حزب العدالۃ والبناء کے ایک رکن ولیدماضی کا کہنا ہے کہ زیدان حکومت سیاسی اور جغرافیائی اعتبار سے خاصی حمایت حاصل کرچکی ہے اور یہ وسیع حلقے پر مشتمل حکومت ہے۔ ولید ماضی کے مطابق حکومت کو مطلوبہ حمایت حاصل ہے، لہٰذا وہ قومی اہداف کے حصول کے لیے واضح خطوط پر مشتمل پروگرام کے مطابق آگے بڑھے تاکہ عام شہری کا اعتماد بھی حکومت کے اداروں پر قائم ہوسکے۔

قذافی کے قتل کے ٹھیک ایک سال بعد نئی حکومت وجود میں آئی ہے۔ اس نئی حکومت اور تمام ارکانِ پارلیمنٹ کی کمزوریاں اور خامیاں اپنی جگہ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ۴۰برس کی طویل مدت کے بعد ان تمام سیاسی قوتوں کو پہلی بار حکومت کا تجربہ ہورہا ہے۔ لہٰذا وہ تمام مطالبے جو کسی تجربہ کار رواں نظامِ حکومت کی مشینری سے کیے جاسکتے ہیں اُن کی توقع اس نوآموز پارلیمنٹ سے رکھنا مناسب نہیں ہوگا۔ اس کے ساتھ انقلاب کے نتیجے میں پیدا ہونے والے وہ ملکی حالات بھی ہیںجن سے نبٹنا بڑی حکمت و دانش اور مہارت کا تقاضا کرتا ہے۔ عوام کو جمہوری قدروں اور قومی تعمیروترقی سے ہم آہنگ رویوں سے آشنا کرنے کی ضرورت ہوگی۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ملک بھر میں پھیلے ہوئے اسلحے کا ہے جو امن و امان کی غیریقینی صورتِ حال کا سب سے بڑا سبب ہے۔ دوسرا مسئلہ دستور کی تیاری کا ہے جس کے لیے حکومت کو دیگر داخلی مسائل سے فرصت ملنا ضروری ہے۔ اُمید کی جاسکتی ہے کہ موجودہ حکومت وسیع سطح پر متفقہ حکومت ہونے کے ناتے ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش میں بہت حد تک کامیاب ہوگی۔

اسلامی قوتوں کے لیے بھی یہ عرصہ اپنی حکمت عملی کو بہتر طور پر وضع کرنے اور مستقبل کے لائحۂ عمل کو ٹھوس بنیادوں پر تشکیل دینے کے لیے عبوری دور کی حیثیت رکھتا ہے۔ اخوان المسلمون جو حالیہ انتخابات میں بھی اپنی جداگانہ حیثیت کے اعتبار سے پہلے نمبر پر رہی ہے، اگر قومی الائنس میں شامل گروپ متحد نہ ہوتے تو نتائج میں سرفہرست اخوان ہوتے۔ ملکی تہذیب اور کلچر کو اسلامی بنیادوں پر قائم رکھنے اور ۴۰برس کے دوران کی گئی اپنی جدوجہد کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے اسلامی قوتوں کو بہرحال ایسی ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جو ان کے خواب کی تعبیر کو ممکن بناسکے۔

 

ادارتی دفتر کا نیا ای میل پتا

عالمی ترجمان القرآن کے ادارتی دفتر کے سابقہ ای میل پتے کے بجاے نئے پتے پر رابطہ کیجیے:

tarjumanq@gmail.com