۱۱نومبر ۲۰۱۲ء کو اسلام آباد کے کنونشن سنٹر میں ایک تاریخ ساز اجتماع ہوا۔ ملّی یک جہتی کونسل کے سربراہ قاضی حسین احمد کی دعوت پر ملک و بیرونِ ملک کی اسلامی تحریکوں کے نمایندگان، علماے کرام، مشائخ عظام جمع ہوئے تاکہ اُمت کو جو مسائل درپیش ہیں، ان سے نبردآزما ہونے کے لیے مل جل کر کوئی راہ نکالی جائے۔ اللہ تعالیٰ کا بے حد شکر ہے کہ ہر مکتب ِ فکر کے علما بڑی تعداد میں جمع ہوئے اور انھوں نے ایک آٹھ نکاتی لائحہ عمل پر اتفاق کیا۔ یہ آٹھ نکاتی اعلامیہ پیش کیا جارہا ہے:
یہ کانفرنس اس امر کا اعلان کرتی ہے کہ اُمت مسلمہ کی اصلی شناخت اسلام اور صرف اسلام ہے اور یہی ہماری وحدت کی بنیاد اور دنیا اور آخرت میں ہماری کامیابی کی ضامن ہے: اِنَّ ھٰذِہٖٓ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّ اَنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْنِ o (الانبیاء ۲۱:۹۲) ’’یہ تمھاری امت حقیقت میں ایک ہی امت ہے اور میں تمھارا رب ہوں پس تم میری ہی عبادت کرو‘‘۔اور یہ امت ایک پیغام اور مشن کی علَم بردار امت ہے جو خود بھی انصاف اورا عتدال پر قائم ہے اور دنیا میں بھی انصاف اور اعتدال قائم کرنے پر مامور ہے: وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا ط (البقرہ۲:۱۴۳)’’اور اس طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک اُمت ِو سط بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسولؐ تم پر گواہ ہو‘‘۔
اس عظیم مشن کو انجام دینے کا جو منہج اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے مقرر فرمایا ہے وہ ملت کا اتحاد اور ایمان اور دنیا کے تمام انسانوں کو خیر کی طرف دعوت، نیکی کے حکم اور بدی کے خلاف جدوجہد سے عبارت ہے :وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا (اٰل عمرٰن۳:۱۰۳) ’’سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو ار تفرقہ میں نہ پڑو ‘‘۔اور وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِط وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَo (اٰل عمرٰن۳:۱۰۴) ’’تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرورہونے چاہیے جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں، اور برائیوں سے روکتے رہیں۔ جولوگ یہ کام کریں گے وہیں فلاح پائیں گے‘‘۔
اس کانفرنس کے تمام شرکا قرآن کی دی ہوئی اس راہِ عمل سے مکمل وفاداری کے ساتھ امت کے تمام مسالک، مذاہب اور نقطہ ہاے نظر سے وابستہ افراد کو دعوت دیتے ہیں کہ مشترکات کی بنیاد پر بنیان مرصوص بن کر اسلام کی سربلندی اور اُمت مسلمہ کو موجودہ درپیش مسائل اور چیلنجوں سے نکالنے کے لیے تعاون، اعتمادِ باہمی اور مخلصانہ رواداری کے ساتھ زندگی کے ہر شعبے اور میدان میں اور دنیا کے ہر حصے میں مل جل کر جدوجہد کریں۔
آج مسلمان عالمی آبادی کا ایک چوتھائی حصہ ہونے،۵۷آزاد ممالک میں اختیارات کے حامل ہونے، اور اپنی سرزمین پر اللہ کی رحمت سے بیش بہا مادی اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود دنیا کی بڑی طاقتوں کے لیے نرم نوالابنے ہوئے ہیںاور عملاً غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ آج اسلام اور مسلمانوں کو علمی اور عملی ہر سطح پر سب وشتم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔اسلام کی تعلیمات کو مسخ کرنے اور نبی برحق محسن انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر رکیک حملوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے، مسلمانوں کے وسائل پر بیرونی قوتوں کا قبضہ ہے اوریاوہ ان کو اپنے مفاد میں استعمال کر رہی ہیں، اور مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ معیشت، معاشرت، تجارت ، تعلیم سائنس وٹکنالوجی ہر میدان میں دوسروں کے دست نگر ہیں۔
اس پر مستزاد مسلمانوں میںباہمی کش مکش اور ان کو بانٹنے اور آپس میں لڑانے اور دست و گریبان کرنے کی سازشیں عروج پر ہیں،اور بد قسمتی سے ان سازشوں میں غیروں کے ساتھ خود اپنوں کا کردار بھی ان مصائب کا ذمہ دار ہے جو حالات کے بگاڑ اور فساد کے فروغ کا ذریعہ بنا ہوا ہے ۔
ان حالات میں یہ کانفرنس دنیا بھر کے مسلمانوں اور اُن کی ہر سطح کی قیادت کو دعوت دیتی ہے کہ ہم فروعی اور ذیلی اختلافات سے بالا ہو کر اپنے مشترک مشن کے حصول اور دشمنوں کی ریشہ دوانیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے متحد اور منظم ہو جائیں۔یہ وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ اس کے لیے یہ کانفرنس مندرجہ ذیل اصولوں اور اہداف پر مکمل اتفاق اور ان کے مطابق کام کرنے کے عزائم کا اظہار کرتی ہے :
۱-اللہ کی طرف رجوع اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن کو مضبوطی سے تھامنے اور دین حق کے پیغامِ عدل و رحمت کے علمبردار بنیں، اسلام کی تعلیمات اُن کی اصلی شکل میں دعوت اور تبلیغ اور اشاعت عام کا اہتمام کریں اور اس کے ساتھ ہر سطح پر سارے وسائل اس مقصد کے لیے استعمال کریں اور معاشرے کی دینی تربیت ہو ، اسلام کے عدل اجتماعی کا نظام ہماری سرزمین پر جاری و ساری ہو اور دنیا کے سامنے اسلام کا صحیح نمونہ پیش کیا جاسکے، اپنے گھر کی منہج نبویؐ کے مطابق اصلاح ہماری اولین ذمہ داری ہے۔ دشمنانِ اسلام کی ریشہ دوانیوں کا مقابلہ کرنا اور اس مقصد کے لیے اُمت مسلمہ میں اجتماعی قوت کو بروے کار لانا وقت کی ضرورت اور مخالفین کے مقابلے کا صحیح راستہ ہے۔ اسلامی اقدار اور تعلیمات کا معاشرے اور انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہردائرے میں عملی نفاذ اور بالادستی کی جدوجہد ہمارا اصل فرض ہے ۔
۲-اختلافات اور بگاڑ کو دور کرنے کے لیے ایک اہم ضرورت یہ ہے کہ تمام مکاتب فکر نظم مملکت اور نفاذ شریعت کے لیے ایک بنیاد پر متفق ہوں ۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے ہم ۳۱سر کردہ علما کے ۲۲نکات کو بنیاد بنانے پر متفق ہیں،اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کی بنیاد پر زندگی کے ہر شعبے کی اصلاح کے داعی ہیں۔
۳-نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و حرمت ہمارے ایمان کی بنیاد ہے اور آ پؐ کی کسی طرح کی توہین کے مرتکب فرد کے شرعاً قانوناً موت کی سزا کا مستحق ہونے پر ہم متفق ہیں۔ اس لیے توہین رسالتؐ کے ملکی قانون میں ہم ہر ترمیم کو مسترد کریں گے اور متفق اور متحد ہوکر اس کی مخالفت کریں گے۔ عظمت اہل بیت اطہار و امام مہدی ؓ، عظمت ازواج مطہراتؓ اور عظمت صحابہ کرامؓ و خلفاے راشدین رضوان اللہ علیم اجمعین ایمان کا جز ہے۔ ان کی تکفیر کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہے اور ان کی توہین و تنقیص حرام اور قابل مذمت و تعزیر جرم ہے۔ ایسی ہر تقریر و تحریر سے گریز و اجتناب کیا جائے گا جو کسی بھی مکتب فکر کی دل آزاری اور اشتعال کا باعث بن سکتی ہے۔ شرانگیز اور دل آزار کتابوں، پمفلٹوں اور تحریروں کی اشاعت، تقسیم و ترسیل نہیں کی جائے گی۔ تمام مسالک کے اکابرین کا احترام کیا جائے گا۔
۴-ہم ملک میں مذہب کے نام پر دہشت گردی اور قتل و غارت گری کو اسلام کے خلاف سمجھنے، اس کی پر زور مذمت کرنے اور اس سے اظہار برأت کرنے پر متفق ہیں۔
۵- باہمی تنازعات کو افہام و تفہیم اور تحمل ورواداری کی بنیاد پر طے کیا جائے گا۔عالم اسلام میں جہاں باہمی انتشار جنگ و جدال اور کش مکش ہے اُسے مذاکرات اور ثالثی کے ذریعے حل کیا جائے اور قوت کے استعمال کو یکسر ختم کرنے کے لیے مؤثر کارروائی کی جائے۔ تمام مسلمان ممالک اور ان کی سیاسی اور دینی قیادتیں اس سلسلے میں ایک مؤثر کردار ادا کریں۔نیز مسلمانوں کی اجتماعی تنظیم او آئی سی (Organization of Islamic Cooperation- OIC) اس سلسلے میں متحرک اور مؤثر ہو۔
۶- اقوامِ عالم میں اُمت مسلمہ کے جذبات اور احساسات کی ترجمانی مؤثر انداز میں کی جائے۔ مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے آواز اُٹھانا اور جارحیت کے مقابلے میں اُمت مسلمہ کا دفاع کرناہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ امن عالم کے قیام اور ضروری ترجیحی بنیادوں پر فلسطین، افغانستان، کشمیر اور برما کے مسلمانوں کی مبنی برحق جدوجہدکی تائید اور مدد کی جائے۔ عالمی راے عامہ کی تائید اور مسلمانوں کے تمام وسائل کے استعمال کے لیے جدوجہد کو اولین اہمیت دی جائے۔
۷-افغانستان سے امریکی اور ناٹو افواج کا جلد از جلد انخلا عالمی امن کے لیے ضروری ہے۔ ہمارا ہدف افغانستان کے مسئلے کا وہ حل ہے جو وہاں کے عوام کی خواہش کے مطابق ہو اور ان کے اپنے مشورے اور قومی مفاہمت کی بنیاد پر کیا جائے۔ نیز عالم اسلام میں جہاں بھی بیرونی افواج کا عمل دخل ہے اُسے ختم کیا جائے۔
ہم عہد کرتے ہیں ان اصولوں اور اہداف کو اپنی ساری جدوجہد کا محور بنائیں گے اور مسلم ممالک کی قیادت،مسلم عوام اوردینی و سیاسی جماعتوں کواس جدوجہد میں اپنا کردار ادا کرنے کی دعوت دیں گے۔