دسمبر ۲۰۱۲

فہرست مضامین

تفسیر روح القرآنo ___ ایک تعارف

مولانا عبد المالک | دسمبر ۲۰۱۲ | مطالعہ کتاب

Responsive image Responsive image

 قرآن پاک کی تفسیر کا سلسلہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے شروع ہوا اور کسی انقطاع کے بغیر تسلسل کے ساتھ پندرہ صدیوں سے جاری ہے ۔ اب تک مختلف زبانوں ، مختلف ملکوں اور مختلف النوع اتنی تفسیر یں وجود میں آچکی ہیں کہ ان کا شمار ممکن نہیں ہے۔ یہ قرآن پاک کی شان لاینقضی عجائبہ(ترمذی)(اس کے عجائب ختم نہ ہوں گے) کا تقاضا ہے ۔ چنانچہ ہر تفسیر میں نئے نئے نکات سامنے آتے رہتے ہیں اور کوئی تفسیر دوسری تفسیر سے مستغنی کر دینے والی نہیں ہے ۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ سے لے کر شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ ، حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ، شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی ، مفتی اعظم پاکستان مولانا محمد شفیعؒ اور دیگر جلیل القدر علما و مفسرین عظام نے گراںقدر علمی ، فقہی اور روحانی نکات پر مشتمل تفاسیر پیش کیں جو اہل علم کے ہاں مقبول ہوئیں اور ان سے استفادہ سے تفسیری سلسلے کو بڑھنے اورپھیلنے میں مدد ملی۔ دورِ حاضر میں مفکر اسلام سید ابوالاعلیٰ مودودیؓ کی تفسیر تفہیم القرآن اور شہید اسلام سیدقطب کی تفسیر فی ظلال القرآن کے ذریعہ قرآن پاک کا فہم و شعور علما و مشایخ کے دائرے سے نکل کر عوام تک پہنچ گیا ۔ ان تفاسیر کے ذریعے بڑی تعداد میں عوام اور جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں نے قرآن پاک سے فیض حاصل کیا۔ لیکن لاینقضی عجائبہ کے فرمانِ رسولؐکی صداقت کے ظہور کا سلسلہ جاری و ساری ہے ۔

ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی صاحب بھی ان خوش قسمت ہستیوں میں شامل ہیں جنھیں تفسیر قرآن کی فضلیت حاصل کرنے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ ان کی زندگی قرآن پاک میں غورو فکر ، تفسیر ی ذخیرے کے مطالعے اور دروس قرآن دینے میں گزری جواب کتابی شکل میں مرتب ہو کر سامنے آگئے ہیں۔ یہ دروس ڈاکٹر صاحب نے طلبا، اساتذہ، مختلف طبقات سے وابستہ افراد کے سامنے دیے اورپھر بذریعہ املا ان کی کتابت کروائی اور کتابی شکل میں مرتب کروایا ۔ اس تفسیر کے مقام و مرتبے کو جاننے کے لیے ضروری ہے کہ تفسیر کی شرائط کو جانا جائے اور ان شرائط کی روشنی میں اس کا جائزہ لیا جائے ۔

 ذیل میں ہم تفسیر قرآن کی شرائط کا اجمالا تذکرہ کرتے ہیں:

۱-قرآن و سنت عربی زبان میں نازل ہوئے ہیں۔ اس لیے مفسر کے لیے ضروری ہے کہ وہ عربی زبان ، اس کی باریکیوں ، اس کے اصناف و انواع ، اس کے محاسن سے پوری طرح واقف ہو۔ وہ عربی زبان کی باریکیوں ، خوبیوں ،اشاروں ، کنایوں اور استعاروں سے جس قدر زیادہ واقف ہو گا، اسی قدر تفسیر کا حق ادا کر سکے گا۔

۲- قرآن پاک کی ایک دعوت اور اس کا ایک مشن ہے۔ اس کے لیے نبیؐ نے ایک تحریک برپاکی۔ اس تحریک کے مختلف ادوار تھے ۔ ہر دور میں قرآن پاک کا ایک حصہ نازل ہوا۔ ۸۵مکّی سورتیں ہیں اور ۲۹ مدنی سورتیں ۔ ان سورتوں کے نزول کے وقت نبیؐ اور آپؐ کی جماعت جس مرحلے میں تھی، اس مرحلے کو سمجھنا ضروری ہے ۔ ان مراحل کو شان نزول سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ اس طرح بعض آیات کی خصوصی شان نزول بھی ہوتی ہیں ۔ تفسیر کو سمجھنے کے لیے ان کا سمجھنا ضروری ہے۔

۳-قرآن وسنت ایک نظام ہے جسے نبیؐ نے اپنے دور میں عملاً نافذ فرمایا اور اس کے بعد کے ادوار میں نافذ رہا۔ قرآن پاک کو سمجھنے کے لیے اس نظام اور اس پر تعامل کو سمجھنا ضروری ہے ۔ قرآن پاک پر عمل کو جو شکل اور صورت نبی کریمؐ ، صحابہ کرام ؓ ، تابعین ، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین اور سلف صالحین نے دی ، اسے نظر انداز کر کے محض لغت کی بنیاد پر تفسیر گمراہی کا سبب بن سکتی ہے ۔ جن لوگوں نے ایسا کیا ہے انھوں نے تفسیر کے بجاے تحریف کا ارتکاب کیا ہے ۔

۴-فصیح عربی زبان کی بنیاد پر ایسی تفسیر کی جاسکتی ہے جو قرآن و سنت ،اجماع صحابہ و سلف صالحین کے تعامل سے متصادم نہ ہو ۔

۵-عقل سلیم کے ذریعے بھی تفسیر کی جاسکتی ہے، جب کہ وہ قرآن وسنت ، اجماع صحابہ و تابعین و سلف صالحین سے ثابت شدہ امور سے متصادم نہ ہو۔

محترم ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی صاحب عربی زبان ، اردوا دب میں بھی مہارتِ تامہ رکھتے ہیں۔ تحریک اور دعوت کے مختلف مراحل اور تاریخ اسلام میں بھی بصیرت رکھتے ہیں۔ اسلام کو ایک نظام کی حیثیت سے انھوں نے اچھی طرح سمجھا ہے اور شریعت اسلامیہ میں گہرائی کے حامل ہیں ۔  تعامل اُمت ،تفسیری اور فقہی ذخیرے پر بھی عبور رکھتے ہیں اور ایک مفسر میں جو خوبیاں اور کمالات ہونے چاہییں، جن کا اجمالی ذکر درج بالا سطور میں ہوا ہے، وہ بھی ان میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں ۔

تفسیر روح القرآن کے امتیازات کے ضمن میں اس کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس کا اسلوب عام تفاسیر سے مختلف ہے ۔ عام تفاسیر مفسر کی تحریر کا نتیجہ ہوتی ہیں اور یہ دروس دراصل ڈاکٹرصاحب کی اِملا کا نتیجہ ہے ۔یہ ان کے دروس ہیں جو انھوں نے ہفتہ وار محافل میں پڑھے لکھے شائقین   علوم قرآنیہ کے سامنے پیش کیے ہیں ۔ ان میں علما، پروفیسر ، دانش ور ، صحافی ، تاجر ، وکلا، کالجوں،   یونی ورسٹیوں اور مدارس کے طلبا ، کارکنان تحریک اسلامی اور عامۃ المسلمین ان کے مخاطب ہیں اور بڑی تعداد میں ذو ق وشوق کے ساتھ حاضر ہوتے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب انھیں اپنے علم اور ولولہ انگیز خطابت کے شہ پاروں سے فیض پہنچاتے ہیں ۔ ایک بلند پایہ خطیب کی خطابت ، جب کہ وہ قرآنی علوم سے دلوں اور دماغوں کو منور کر رہی ہو، کی اثر انگیزی کا آپ اندازہ کر سکتے ہیں ۔ قرآن پاک کی زبان خطابت کی زبان ہے ۔ اس کی تفسیر بھی خطیبانہ انداز میں ہو تو ظاہر ہے کہ قرآن پاک کے اثر کو اس تفسیر سے زیادہ کر دے گی جو خطابت کے انداز کے بجاے تحریر کے انداز میں ہو گی ۔ ان دروس کا اثر پڑھنے والے پر اس طرح ہوتا ہے جس طرح ایک سامع پر خطیب کے خطبے سے ہوتا ہے۔

دوسرا امتیاز یہ ہے کہ قرآن پاک ایسی کتاب ہے جو معاشرے کے لیے ایک غذا اور دوا  کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اگر اس کتاب کے ذریعے مسلمان معاشرے کو روحانی غذا نہ دی جائے اور کفارو منافقین کا علاج نہ کیا جائے تو اس کتاب کو اس کا حقیقی اور واقعی مقام نہیں دیاجاسکتا ۔    ڈاکٹر صاحب اس کتاب کو معاشرے پر منطبق کرتے ہیں اور اس میں اہل ایمان کے لیے جو غذا اور کفار و منافقین کے لیے جو دوا ہے اسے پوری طرح واضح کرتے ہیں ۔ مغرب اوراہل مغرب کے لیے اس میں جو پیغام ہے اسے واضح کرتے ہیں ۔ اہل ایمان کو ان کے شرسے باخبر کر کے اس سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں ۔ تفسیری نوٹس ہر جگہ اس بات کے گواہ ہیں ۔

ا س تفسیر کے مطالعے سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو قرآن پاک اور اس کے علوم و فنون پر مکمل عبور حاصل ہے ۔ انھیں صرف ونحو ، معانی بلاغت ، اصول فقہ ، لغت عربیہ ، اصولِ تفسیر،  احادیث نبویہؐ، آثار صحابہ و تابعین ، اقوال ائمہ مجتہدین ، قدیم و جدید علم کلام ، قدیم وجدید مفسرین کے تفسیری ذخیرے ، تاریخ و قصص ، مستشرقین وملحدین کے لٹریچر ، منکرین سنت اور قادیانیت کے شکوک و شبہات اور ان کی تردید پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ انھیں مضامین قرآن ، التذکیر باٰلاء اللہ ، التذکیر  بایام اللہ، التذکیر بالموت وبما بعد الموت ، علم المخاصمہ ، علم الاحکام پر مکمل دسترس حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور جلالی وجمالی شانوں کو جدید سائنسی معلومات کی روشنی میں اس قدر شرح و بسط سے اور ایسے انداز سے پیش کرتے ہیں کہ انسان اس کی لذت سے سرشار ہو کر ان کے مطالعے میں اس طرح مستغرق ہوجاتا ہے کہ مضمون دل و دماغ میں اُتر جاتا ہے ۔

ڈاکٹر صاحب عالم ہیں تو ایسے کہ تبحر علمی ان کی تقریر و تحریر سے نمایا ں ہوتا ہے ۔ ادیب ہیں تو ایسے کہ ادب ان کی لونڈی نظر آتا ہے۔ خطیب ہیں تو ایسے کہ ان کی شعلہ بیانی آدمی کو    مسحور کردیتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں ذہانت و فطانت اور حافظے کی نعمتوں سے نہایت وافر مقدار میں مالامال کیا ہے ۔ حافظ العلوم مولانا معین الدین خٹک رحمۃ اللہ علیہ کا حافظہ ضرب المثل تھا ، انھیں چلتا پھرتا ٹیپ ریکارڈ کہاجاتا تھا ۔ لیکن ڈاکٹر صاحب کی تفسیر سے اندازہ ہوا کہ ان کا حافظہ بھی مثالی ہے۔ انھیں عربی ادب کی طرح اردو ادب پر بھی عبور حاصل ہے ۔ اُردو زبان کے محاورے اور شعرا کے ہزاروں شعرازبر مستحضر ہیں ۔ موقع و محل کی مناسبت سے اشعار کے ذریعے کلام کو مدلل اور  مزین کرنا ان کا کمال ہے ۔ ہر مضمون کی تشریح اس طرح کرتے ہیں کہ قاری اسے اچھی طرح ذہن نشین کرلے ۔ ایسے انداز سے دلیل پیش کرتے ہیں کہ بات دل میں اتر جائے ۔ عقلی دلائل کی تفہیم کے ساتھ نقلی دلائل کا انبار لگا دیتے ہیں ۔ قدیم و جدید تفاسیر سے نقول پیش کرتے ہیں ۔ منکرین سنت اور مستشرقین کو مسکت جواب دیتے ہیں۔بلاشبہہ ان کے دروس علم اور معلومات کا خزانہ ہیں جو دریا کی سی روانی کے ساتھ بہتا چلا جاتا ہے ۔یہ تفسیر علما ، طلبہ ، طالبات ، مبلغین اور اسلامی تحریک کے کارکنان کے لیے بے مثال تحفہ ہے ۔ وہ اس سے بھر پوراستفادہ کر کے اپنے علم میں اضافہ کریں اور قرآن پاک کے علوم کی اشاعت کے ذریعے اسلامی انقلاب برپا کردیں۔

 

oتفسیر روح القرآن (۱۲جلدیں)،مؤلف: ڈاکٹر مولانا محمد اسلم صدیقی ۔ ناشر: ادارہ ھدًی للناس، ۳۴۳-مہران بلاک، علامہ اقبال ٹائون، لاہور۔ فون: ۳۵۴۲۶۸۰۰-۰۴۲۔ صفحات: ۷۷۶۷۔  قیمت: ۸۵۰۰ روپے۔