ترکی مسلم دنیا کا وہ ملک ہے، جس کی حدود بیک وقت یورپ اور ایشیا دونوں براعظموں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ ترکی کی آبادی تقریباً ساڑھے سات کروڑ ہے۔ ترکی میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی ۲۰۰۲ء سے اب تک برسرِ اقتدار ہے۔ طیب اردوگان پہلے وزیراعظم تھے، اب صدر ہیں۔ اس وقت احمد داؤد اوغلو ملک کے وزیراعظم ہیں۔ اس پارٹی کو مغربی قوتوں اور ان کے ہم نوا عناصر کی طرف سے ’اسلامسٹ‘ (اسلام پسند) کہا جاتا ہے۔ ان کے نزدیک ترکی میں ’اسلامسٹ‘ پارٹی کا برسرِ اقتدار آنا خطرناک ہے۔ اسی وجہ سے امریکا اور مغربی و سیکولر قوتیں اس حکومت سے ناخوش ہیں۔ جسٹس پارٹی کا اعلان ہے کہ وہ ترکی کے سیکولر دستور کو جمہوری طریقے سے تبدیل کرے گی۔ اس کے لیے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے۔ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی قیادت پُرامید ہے کہ وہ اس منزل کو سر کر لے گی۔ اس وقت پارلیمان میں ان کے ۳۱۷؍ارکان ہیں، جب کہ دستور میں ترمیم کے لیے ۳۷۶؍ ارکان کی ضرورت ہے۔
یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ترکی میں سیکولر عناصر ہوں یا نام نہاد مذہبی طبقہ، دونوں جسٹس پارٹی کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہوئے ہیں۔ جب جون۲۰۱۵ء کے انتخابات میں جسٹس پارٹی اکثریت حاصل نہ کرسکی تو انگریزی روزنامہ زمان اور حریت جو دونوں فتح اللہ گولن کی تنظیم کے تحت نکلتے ہیں، خوب پروپیگنڈا کرنے لگے۔ ایک نعرہ انھوں نے متعارف کروایا ’’۵۲فی صد ووٹ حاصل کرنے والے صدر کو سزاے موت‘‘۔ یہ نعرہ صدر محمدمرسی کی سزاے موت کے تناظر میں گھڑا گیا۔ واضح رہے کہ طیب اردوگان نے بھی پارلیمانی انتخابات سے قبل صدارتی انتخابات میں ۵۲ فی صد ووٹ حاصل کرکے الیکشن جیتا تھا۔ اسی طرح نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ نے بھی اردوگان کے خلاف کافی زہر اُگلا۔ نیویارک ٹائمز نے ۲۲مئی ۲۰۱۵ء کو اداریے کا عنوان رکھا: "Dark Clouds Over Turkey"(ترکی سیاہ بادلوں کی زد میں) جب کہ واشنگٹن پوسٹ نے ایک اداریے کا عنوان دیا "The Sultan Emperor Erdogan Rule" (اردوگان کا دورِ حکومت، سلطانی شہنشاہیت )۔
جون۲۰۱۵ء میں انتخابات ہوئے تو حکمران جسٹس پارٹی کو ۴۰ فی صد اور ۵۵۰ کے ایوان میں صرف۲۵۸ نشستیں ملیں۔ دوسری پارٹیوں کے ساتھ مل کر حکومت سازی کی کاوشیں ہوئیں مگر بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ آخرکار دستوری تقاضے کے تحت صدرِ مملکت نے نئے انتخابات کا اعلان کردیا۔ لہٰذا نومبر۲۰۱۵ء کے انتخابات میں جسٹس پارٹی نے ۳۱۷ نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے واضح اکثریت ثابت کر دی۔ ووٹوں کا تناسب ۵ئ۴۹فی صد ہوگیا۔ صدرِ مملکت کے اس فیصلے پر بہت تنقید کی گئی اور ان پر آمریت اور بادشاہت کی پھبتیاں بھی کسی گئیں۔ ترک دستور کے مطابق یہ کوئی انہونی بات نہیں تھی۔ صدر کے اختیارات میں شامل ہے کہ ایسے تعطل کی صورت میں، جب کہ بڑی پارٹی دوسری پارٹیوں کے اشتراک سے اکثریت حاصل نہ کر پائے تو وہ نئے انتخابات کا اعلان کرسکتے ہیں یا دوسرے نمبر پر آنے والی پارٹی کو حکومت سازی کا موقع دے سکتے ہیں۔ اس سے قبل بھی یہ روایت ترکی میں موجود رہی ہے۔ چنانچہ ایسے چھے مواقع (۱۹۵۷ئ، ۱۹۸۷ئ، ۱۹۹۱ئ، ۱۹۹۵ئ، ۱۹۹۹ء اور ۲۰۰۲ء ) ہیں جب صدر نے یہ حق استعمال کیا اور انتخاب قبل از وقت کروائے گئے۔
ماضی میں ترک فوج نے بار بار بغاوت کرکے منتخب حکومتوں کو برطرف کیا اور پاکستان کی طرح ملک میں مارشل لا لگا دیا۔ سیاسی قیادت کو بغیر کسی جرم کے پھانسی بھی لگایا گیا۔ ۱۹۶۱ء میں وزیراعظم عدنان مندریس کو شقی القلب جنرل گُرسل نے تختۂ دار پر لٹکا دیا ۔ طیب اردوگان نے برسرِاقتدار آکر بڑی حکمت کے ساتھ فوج کی اس باغیانہ روش کو کنٹرول کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط اور فوجی مداخلت کے امکانات کم ہوگئے ہیں۔ موجودہ ترک حکومت کو امریکا اور اس کے حواری اچھی نظر سے نہیں دیکھتے، حالانکہ ترکی ناٹو کا رکن بھی ہے۔ اس کی وجوہات بالکل واضح ہیں کہ ترک حکومت پوری دنیا میں امت مسلمہ کے مسائل پر جرأت مندانہ مؤقف اختیار کرتی اور ظلم کے خلاف کھل کر کھڑی ہوجاتی ہے۔ غزہ کی حمایت میں جانے والا فلوٹیلا اور اس کے نتیجے میں اسرائیل کی غنڈا گردی اب تک لوگوں کو یاد ہے۔ اہلِ غزہ اپنے ترک بھائیوں کے اس جرأت مندانہ اقدام اور قربانیوں پر آج بھی ان کی تحسین کرتے ہیں۔
۲۰مارچ ۲۰۰۳ء کو امریکا نے عراق پر حملہ کیا تو ترکی سے اپنی فوج کی نقل و حرکت کے لیے زمینی راستہ مانگا، جس سے ترک حکومت نے انکار کر دیا۔ امریکا نے ۱۰؍ ارب ڈالر امداد کی بھی پیش کش کی، جو مصلحت پسندوں کے نزدیک اس زمانے میں ترکی کی بیمار معیشت کے لیے نسخۂ شفا تھا۔ جسٹس پارٹی کی غیرت مند قیادت نے اس پیش کش کو ٹھکرا دیا۔ امریکا نے ہوائی راستہ مانگا تو حکومت نے اس سے بھی معذرت کردی۔ کوئی مسلمان ملک آج کے دور میں ایسی جرأت مندانہ مثال مشکل ہی سے قائم کرسکا ہے۔
رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان جان کربی (John Kirby) نے ایک بیان داغا ہے، جس میں ترکی میں علیحدگی پسند کردش ورکرز پارٹی اور ترک حکومت کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا ہے۔ یہ پارٹی علیحدگی پسند اور دہشت گرد سمجھی جاتی ہے۔ ترکی میں داعش کی طرح یہ بھی آئے دن دھماکے کرتی رہتی ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ وہ ترکی کے جنوب مشرقی علاقے کو علیحدہ کرکے اپنی حکومت قائم کرے گی۔ ۱۸فروری کو ۲۴گھنٹوں میں ترکی کی سرزمین پر دہشت گردی کے چار خطرناک واقعات ہوئے۔ انقرہ میں ہونے والے دھماکے میں ۲۸؍افراد موقع پر جاں بحق ہوگئے۔ اس کی ذمہ داری کرد علیحدگی پسندوں نے قبول کرلی۔ امریکی ترجمان کی اس ناروا مداخلت کے جواب میں ترک وزارتِ خارجہ کے ترجمان تانجو بالجیس (Tanju Bilgic)نے سخت ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کی یہ مداخلت ناروا ہے اور انقرہ امریکی حکومت کی طرف سے علیحدگی پسند اور دہشت گرد تنظیم کو منتخب دستوری حکومت کے برابر درجہ دینے پر سراپا احتجاج ہے۔ (ڈان ۱۶فروری۲۰۱۶ئ)۔یہ عجیب سوے اتفاق ہے کہ روس اور امریکا دونوں بیک وقت ترکی کے خلاف اپنے اپنے انداز میں سازشیں کررہے ہیں۔ بہرحال یہ تو حقیقت ہے کہ الکفر ملۃ واحدۃ ۔
شام میں بشار الاسد کی نصیری اور آمرانہ حکومت نے اہلِ شام کو جس بدترین ظلم کا شکار بنایا ہے، اس پر بھی ترکی نے اسلامی اخوت اور غیرتِ مومنانہ کا مظاہرہ کیا ہے۔ مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ دینا اور ظالم کا ہاتھ روکنے کی عملی کاوشیں ترک حکومت کا بہت بڑا اور انسان دوستی پر مبنی مظاہرہ ہے۔ ترکی کی یہ جہودِ مسعودہ روس کو ایک آنکھ نہیں بھاتیں۔ روس شام پر مسلط ظالم حکمران کا پشت پناہ ہے اور اپنی عسکری قوت بشار مخالف تحریک کو کچلنے کے لیے بڑی بے دردی سے استعمال کررہا ہے۔ اسی سلسلے میں ایک روسی طیارہ ۲۴ نومبر۲۰۱۵ء کو ترکی کی حدود میں غیر قانونی طور پر داخل ہوا۔ ترک فوج نے اپنا حقِ دفاع استعمال کرتے ہوئے یہ طیارہ مار گرایا۔ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے ترکی کو سخت دھمکی دی اور ترک حکومت سے اس ’گستاخی‘ پر فی الفور معذرت اور معافی مانگنے کے لیے دباؤ ڈالا۔ ترک حکومت نے دیگر مسلمان ملکوں کی روش سے ہٹ کر پوری جرأت کے ساتھ جواب دیا کہ انھوں نے کوئی جارحیت نہیں کی، جس پر معافی مانگیں۔ اپنی فضائی حدود کی حفاظت ان کا بنیادی حق ہے اور روس نے ان حدود کو پامال کرکے خود ایسی حرکت کی ہے، جس پر اسے معذرت کرنی چاہیے۔
روس کا صدر پیوٹن بہت رعونت پسند حکمران ہے۔ اس نے چند دنوں کی خاموشی کے بعد ایک بار پھر دھمکی آمیز لہجہ اختیار کیا ہے۔ اس کے جواب میں ترک وزیراعظم احمد داؤد اوغلو نے ۱۵فروری کو یوکرائن کے دارالحکومت کیو(Kiev)میں پریس کانفرنس کے دوران بہت جرأت مندی کے ساتھ کہا ہے کہ: ’’روس ،شام میں بالکل کھلی دہشت گردی کر رہا ہے۔ وہ نہ تو داعش کے ٹھکانوں پر حملہ کرتا ہے اور نہ اسے اس کی فکر ہی ہے۔ اس کے حملے عام آبادیوں پر شام کے پُرامن شہریوں کی ہلاکت کا باعث ہیں۔ عام شہری بے چارے ایک جانب روسی اور نصیری بمباری کا شکار ہیں اور دوسری جانب دہشت گرد بھی انھی کا قتلِ عام کر رہے ہیں۔ ان حالات کے پیشِ نظر ہم نے شام سے ملحق اپنی سرحدوں کو مظلوموں کی مدد اور سہولت کے لیے کھول دیا ہے۔ ہر چند کہ مہاجرین کا بوجھ ہمارے لیے بڑا مسئلہ ہے، لیکن انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ہم نے یہ اقدام کیا ہے۔ روس کو اس علاقے میں فوجی چڑھائی اور قتل و غارت گری کا کوئی حق نہیں۔ ترکی مظلوم شامی عوام کی حمایت جاری رکھے گا، جو ظالم بشارالاسد سے نجات کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں‘‘۔ (ڈان ۱۶فروری ۲۰۱۶ئ)
ترکی کے معروضی حالات پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ اس مسلمان ملک میں سیکولر طبقے کی قوت ختم نہیں ہوئی، البتہ اس کا زور پہلے کے مقابلے میں کافی ٹوٹا ہے۔ اس صورت حال سے مغرب اور کفر کی تمام طاقتیں پریشان ہیں۔ ترکی کے خلاف ہر طرح کی سازشیں زوروں پر ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ ترکی کی معیشت تباہ و برباد ہوجائے گی۔ اسی طرح ترکی کے امن و امان کو تباہ کرنے کے لیے بھی کئی عناصر غیر مرئی قوتوں کی اشیرباد اور پشت پناہی سے ترکی میں ، بالخصوص بڑے شہروں کے اندر دھماکے کر رہے ہیں۔ کردوں کا مسئلہ بلاشبہہ کافی پرانا ہے، مگر کرد پارٹی انتخابات میں حصہ لے کر پارلیمان میں نمایندگی حاصل کرچکی ہے۔پھر بھی علیحدگی پسند عناصر ترکی کی حدود میں موجود ہیں۔ ان کو پڑوس سے بھی شہ ملتی ہے اور عالمی دہشت گرد امریکا بھی اس کوشش میں ہے کہ موجودہ حکومت کو غیر مستحکم کیا جائے۔ جسٹس پارٹی کے برسرِ اقتدار آنے سے پہلے اس صدی کے آغاز میں ترک کرنسی (لیرا) بالکل بے وقعت ہوگئی تھی۔ عام آدمی کے لیے روٹی کا حصول بھی جوے شیر لانے کے مترادف تھا۔ کوڑیوں سے ہلکی کرنسی کی وجہ سے ترکی کی معیشت دنیا کے کمزور ترین ممالک میں شمار ہونے لگی تھی۔ موجودہ حکومت کا یہ عظیم کارنامہ ہے کہ اس نے اپنی معیشت کو سنبھالا دیا۔ غیرضروری اخراجات ختم کیے، کرپشن اور بدعنوانی کے ناسور پر قابو پایا، منصوبہ بندی ٹھیک انداز میں کی اور امورِ خارجہ ، بیرونی تجارت اور ملکی صنعت کو نئے سرے سے منظم کیا۔ اس کے نتیجے میں ایک لیرا آدھے امریکی ڈالر کے برابر ہوگیا۔ بعد میں پھر ترکی کے خلاف جب گھیرا تنگ کیا گیا تو عالمی تجزیہ نگاروں نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اب لیرا پھر پہلی پوزیشن پر چلا جائے گا۔
ترکی کے خلاف کی جانے والی سازشوں کے نتیجے میں یقینا ترکی کی کرنسی نیچے تو آئی ہے، مگر اب دوبارہ سنبھل گئی ہے اور اس میں مسلسل بہتری آرہی ہے۔ پاکستانی کرنسی کے مقابلے میں ایک لیرے کی قیمت ۶۸ئ۳۵روپے ہے۔ ترکی کی فی کس سالانہ آمدنی ۹۱ئ۸۸۷۱ امریکی ڈالر ہے۔ صرف موازنے کے لیے عرض ہے کہ پاکستان کی فی کس سالانہ آمدنی ۶ئ۱۳۱۶؍ امریکی ڈالر ہے۔ گویا اب بھی ترکی کی معیشت اپنے خلاف ہونے والی سازشوں کا کامیابی سے مقابلہ کر رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکمران اپنی ذمہ داریاں بطریق احسن ادا کر رہے ہیں۔ شام ہو یا فلسطین، ترک حکمران بالکل یکسوئی کے ساتھ مظلوموں کے حق میں آواز اٹھا رہے ہیں۔ مصر میں جنرل سیسی کی ناجائز حکومت کو اگر کسی نے آئینہ دکھایا ہے تو وہ صرف ترکی ہے۔ اس وجہ سے سعودی عرب جو شاہ عبداللہ کے زمانے میں جنرل سیسی کا پرزور حامی تھا، ترکی سے ناراض ہوگیا۔ شاہ سلمان کے برسر اقتدار آنے کے بعد حالات کچھ تبدیل ہوئے ہیں اور اس وقت ترکی سعودی عرب کے ساتھ مل کر فوجی مشقیں کر رہا ہے۔ آج بھی ترکی نے مصر کے بارے میں اپنا مؤقف تبدیل نہیں کیا۔ وہ کھلم کھلا صدر مرسی کو مصر کا قانونی سربراہ تسلیم کرتا ہے۔ اسی طرح بنگلہ دیش میں مظالم کے خلاف سفارتی سطح پر چند مسلمان ممالک نے جو آواز اٹھائی ہے، اس میں سب سے توانا آواز ترکی ہی کی ہے۔ ظاہر ہے کہ ان حالات میں اسرائیل، امریکا اور ان کے حواری ترکی کو خطرے کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ملک کے اندر ایک مضبوط مذہبی تحریک ہے جس کی جڑیں ترکی کی حدود کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی اپنے تعلیمی نیٹ ورک کی وجہ سے خاصی مضبوط ہیں۔ یہ خود کو غیر سیاسی کہتے ہیں، مگر سیاست میں ان کا عمل دخل خاصا ہے۔ کتنا المیہ ہے کہ ان کا وزن اُس قوت کے پلڑے میں پڑنے کے بجاے جسے سارا عالم کفر ’اسلامسٹ‘ ہونے کے طعنے دیتا ہے، یہ مذہبی طبقہ لا دینوں کی حمایت کرتا ہے، تاکہ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی اقتدار سے باہر ہوجائے۔
ان حالات میں ترک حکومت بڑی حکمت اور جرأت کے ساتھ اندرونی اور بیرونی ہر محاذ پر مثبت پیش رفت کر رہی ہے۔ عرب بہار کے بعد جس طرح عرب ملکوں میں ابھرنے والی اسلامی تحریکوں کی کامیابی شیطانی قوتوں کے ہاتھوں ناکامی میں بدلی گئی، ترکی کے بارے میں بھی اسلام دشمن یہی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ دیکھیے اللہ کو کیا منظور ہوتا ہے۔ آج کا ترکی اس ترکی سے بالکل مختلف ہے، جو خلافت کے آخری دنوں میں یورپ کا مردِ بیمار کہلاتا تھا۔ اس دور میں خلافت کی بساط لپیٹ دی گئی۔ خلافت کے خاتمے اور سیکولر دستور کے نفاذ سے ترک قوم کا امتیازی مقام زوال پذیر ہوا۔ اس کے باوجود ترکوں کا عالمِ اسلام میں ایک بھرم اور تاریخ میں ان کے یادگار کارناموں کی وجہ سے اُمت ِ مسلمہ میں عزت قائم رہی۔ اب عالمِ کفر پھر سازشوں میں مصروف ہے اور مختلف عناصر کو مختلف لبادوں میں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ اس میں نام نہاد مذہبیت کا رنگ بھی ہے اور سیکولرازم، لبرل ازم اور قومیت پرستی کی چھاپ بھی۔ تاہم، پچھلے طویل عرصے کے دوران پُلوں کے نیچے سے کافی پانی بہہ چکا ہے، اب دوبارہ اسی ڈرامے کو دہرانے کی کوشش ہو رہی ہے، جو ان شاء اللہ ناکام ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے: ’’وہ اپنی خفیہ تدبیریں کرنے لگے، جواب میں اللہ نے بھی اپنی خفیہ تدبیر کی اور ایسی تدبیروں میں اللہ سب سے بڑھ کر ہے‘‘ (اٰل عمرٰن۳:۵۴)۔ ان شاء اللہ ترکی میں پھر کسی مصطفی کمال کے آنے کا امکان بہت کم ہے۔
بنگلہ دیش میں اسلام اور دو قومی نظریے کے خلاف بھارتی جارحیت کا تسلسل جاری ہے۔ اہلِ نظر اس معاملے میں یکسو ہیں کہ: ’’ڈھاکا حکومت کا اصل اقتدار نئی دہلی میں ہے۔ ڈھاکا میں تو صرف دکھانے کے لیے مقامی چہرہ ہے‘‘۔ اعلیٰ سول اور فوجی افسران کی ترقیاں، حتیٰ کہ وزارتوں: داخلہ، خارجہ اور منصوبہ سازی کے قلم دانوں کی تقسیم اور غیرملکی معاہدوں کی ترتیب تک کے معاملات بھارتی: داخلہ، خارجہ اور منصوبہ سازی ڈویژن کے اشارئہ ابرو کے تحت ہوتے ہیں۔
بنگلہ دیش کے منظرنامے پر چھائے خون کے دھبوں کی جھلک گذشتہ ۲۰روز کی چند خبروں، اطلاعات و تاثرات کی شکل میں دیکھی جاسکتی ہے:
ویکلی ہالی ڈے ڈھاکا نے عوامی لیگی حکومت کو ہوش کے ناخن لینے کی دہائی دیتے ہوئے اداریے میں لکھا ہے: ’’حکومت تہذیب اور قانون کی سب حدوں کو پھلانگ رہی ہے۔ اسے بیگم خالدہ ضیا کے اس انتباہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی حرکتوں پر نظرثانی کرنی چاہیے کہ: ’’بنگلہ دیش کی فوج اور بیوروکریسی، عوامی لیگ کے کارکنوں کا ٹولہ نہیں ہے۔ خود انھیں بھی قانون، ضابطے اور شائستگی کا خیال رکھنا چاہیے‘‘ (۱۸ دسمبر ۲۰۱۵ئ)۔یہ بیان معاملات کی سنگینی کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔
دوسری طرف خالدہ ضیا نے ڈھاکا میں خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’جنوری ۲۰۱۴ء کے جعلی انتخابات کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرکے عوامی لیگ نے ملک کو قتل گاہ میں تبدیل کر دیا ہے۔ سیاسی کارکن زندگی گزارنے کے حق سے محروم ہیں۔ درندگی کے اس اقتدار سے نجات کے لیے قوم کے تمام طبقوں کو یک زبان اور یک جان ہونا پڑے گا‘‘۔ (پروتھم آلو، ڈھاکا، ۱۰دسمبر۲۰۱۵ئ)
ڈاکٹر شفیق الرحمن ، قائم مقام سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے حالات کی سنگینی کی طرف متوجہ کرتے ہوئے ۲۶نومبر کو عالمی ذرائع ابلاغ کے نام خط میں لکھا ہے: ’’حکمران ٹولہ جمہوری اور سیاسی سطح پر جماعت اسلامی کا مقابلہ کرنے کے بجاے اوچھے، ظالمانہ اور مسلسل غیرقانونی ہتھکنڈوں پر اُتر آیا ہے،جس کا بدترین مظاہرہ تو عدل کے نام پر جعلی ٹریبونل بناکر من مانے مقدمے اور من پسند فیصلے لے کر کیا جا رہا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر کے کارکنوں کو سفاکانہ انداز سے قتل کیا جا رہا ہے۔ دن دہاڑے کارکنوں کو پکڑ کر غائب کیا جارہا ہے، وحشیانہ تشدد کر کے زندگی بھر کے لیے ناکارہ بنایا جا رہا ہے یا انھیں بغیر قانونی چالانوں یا پھر جعلی مقدموں کی دھونس سے جیلوں میںٹھونسا اور حبس بے جا میں رکھا جارہا ہے‘‘۔
ڈاکٹر شفیق الرحمن نے لکھا ہے: ’’بنگلہ دیش کے اقتدار پر قابض گروہ کے اس انسانیت سوز کردار کی یہ داستان قدم قدم پر ثبت دکھائی دیتی ہے۔ اس حکومت نے مائوں کی گودیں اُجاڑ دی ہیں، عورتوں کے سہاگ لوٹ لیے ہیں، بچوں کے سروں سے ان کے باپوں کا سایہ چھین لیا ہے اور والدین کے جوان بیٹوں کو اپاہج کر دیا ہے یا پھر قبروں کا رزق بنا دیا ہے۔ ان دکھیاروں کے سینے پھٹ رہے ہیں، مظلوموں کے آنسوئوں کا سمندر رواں ہے اور آہوں کے طوفان آسمان تک پہنچ رہے ہیں، مگر سنگ دل حکومت لمحے بھر کے لیے بھی اپنے وحشی اہل کاروں اور غنڈوں کو لگام دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ہم اہلِ اقتدار پر واضح کرتے ہیں کہ ’’جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت کو قتل اور کارکنوں کو ظالمانہ قیدوبند اور درندگی پر مبنی تشدد کر کے بھی جماعت اسلامی کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ ایسی حکومت کے برسرِاقتدار رہنے کا کوئی انسانی اور اخلاقی جواز نہیں ہے جس کے کارندے اور فیصلہ ساز عدل اور انسانیت کی تمام حدوں کو توڑ چکے ہیں۔(جماعت ویب، روزنامہ سنگرام ،ڈھاکا، ۲۶نومبر ۲۰۱۵ئ)
یہ خبرونظر چیخ چیخ کر حالات کی سنگینی کو ظاہر کر رہے ہیں، مگر افسوس کہ اس صورتِ حال پر مسلم دنیا سے کوئی مؤثر آواز سنائی نہیں دے رہی۔ صدافسوس کہ دنیا کی مقتدر قوتیں اور عالمی ذرائع ابلاغ رسمی بیان بازی کے بعد خاموشی سادھے ہوئے ہیں۔اس الم ناک منظرنامے کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ غالباً بنگلہ دیش میں موت کا سکوت ہے اور عوامی لیگ کو یک طرفہ کارروائیاں کرنے میں کچھ بھی روک ٹوک نہیں۔ حکومتی سطح پر یقینا یہی معاملہ ہے ، لیکن جماعت اسلامی اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے کارکنان سرفروشی اور استقامت سے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں، جن کو بہ یک وقت بنگلہ دیشی حکومت اور بھارتی ریشہ دوانیوں سے پنجہ آزمائی کرنا پڑ رہی ہے۔ ان شاء اللہ یہ جدوجہد رنگ لاکر رہے گی۔ اس لیے کہ آمریت بظاہر کتنی ہی مضبوط ہو بالآخر اپنے تمام تر جبر کے باوجود مٹ کر رہتی ہے۔ یہی تاریخ کا سبق ہے!
ایران اور النصرۃ فرنٹ کے درمیان لبنان سے متصل شام کے ضلع الزبدانی کے مستقبل کے بارے میں استنبول میں ہونے والی بات چیت سے کئی غورطلب پہلو سامنے آئے:
۱- یہ معاملہ ایران کے ساتھ آسٹریا میں ۵+۱ کے ’معاہدئہ وی آنا‘ پر دستخط کے فوراً بعد ہوا ہے۔ جس کے بعض خفیہ پہلو بھی ہیں جن کا اعلان تو نہیں ہوا مگر ان پر عمل شروع ہوچکا ہے۔
۲- یہ عمل ضلع الزبدانی کے علاقے سے سُنّی مسلم آبادی کے انخلا اور ان کی جگہ شیعہ آبادی کو بسانے سے شروع ہو رہا ہے جو مبینہ طور پر ایک شیعہ ریاست کا جز ہوگا۔ یہ ریاست بحرروم کے مشرقی دھانے پر ہوگی اور جو لازقیہ سے شروع ہو کر الزبدانی پر سے گزرتی ہوئی لبنان کے شیعی اکثریتی علاقے البقاع تک جائے گی۔
۳- ترکی کا کرد علاقے میں PKK (کردستان ورکرز پارٹی) پر اچانک ہلّہ بول دینا ، جس کی کامیابی کے لیے ترکی نے کوبانی تک عراقی کردوں کو پہنچایا، تاکہ داعش کو کوبانی سے نکالا جاسکے۔ ترکی کے موقف میں یہ تبدیلی اس لیے ہوئی کہ صدر طیب اردگان کو احساس ہوگیا کہ عراقی کردستان کے ساتھ اب ترکی کردستان بھی بنے گا، جس میں صرف ایرانی کردستان کو شامل کرنا باقی رہے گا۔ اس طرح ایک آزاد کرد ریاست وجود میں آجانے کا امکان پیدا ہوسکتا ہے۔ عراق میں ’فضائی سروس کی ممانعت‘ (نوفلائی زون) کا علاقہ، عراقی کردستان کی شکل میں ظاہر ہوسکتا ہے، کیوںکہ امریکا اس کو اپنی مدد کے ذریعے اسی طرف دھکیل رہا ہے۔ اس طرح شیعہ ریاست کی حدود وسیع تر کرکے عراقی سُنّی ریاست سے جوڑ ا جانا پیش نظر ہے۔یہ امریکی وزیرخارجہ کونڈا لیزارائس کے منصوبے میں ایک اہم پیش رفت کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔ مارچ ۲۰۰۳ء میں عراق پر امریکی حملے کے بعد، اس وقت اپنا منصوبہ بنا رہی تھیں جب بش انتظامیہ ایران سے بات چیت شروع کر رہی تھی۔
۴- عراقی کردستان بننے کا مطلب جنوبی عراق کی شیعہ آبادی اور علاقے میں ایک اور شیعہ ریاست وجود میں لانا پیش نظر ہے اور عراقی کرد اور عراقی شیعہ آبادی کے درمیان ایک سُنّی ریاست وجود میں لانے کا منصوبہ ہے۔
۵- نئی شیعہ ریاست جنوب میں کویت، الخبر، الدمام اور ظہران کے تیل کے ذخائر والے علاقوں اور بحرین اور شاید قطر پر بھی بنانا پیش نظر ہے۔
انھوں نے ایران کو خلیج کے مشرقی دہانے سے اُٹھا کر خلیج کے مغربی دھانے سلفی عرب تک پہنچا دیا ہے۔ غالباً یہ ایرانی کردستان کا خراج ہو، مگر یہ عربوں کے پہلو میں ایک زہریلا کانٹا ہوگا جس کو استعماری طاقتیں عرب ایران تعلقات کو کشیدہ بنانے کے لیے ہمیشہ استعمال کرتی رہیں گی۔ یہ استعماری طاقتوں کا پرانا حربہ ہے، جس کے ذریعے وہ کشیدگی پیدا کرکے اپنے ہتھیار فروخت کرنا چاہتی ہیں۔ اس پس منظر میں ایران اور عربوں کو اس طرف سے بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔
۶- وہابستان کے نام سے امریکا ایک نئی ریاست بنانے میں دل چسپی ظاہر کرتا دکھائی دیتا ہے۔ یہ شاید پٹرول، کپاس اور ساحلِ سمندر سے محروم ہوگی۔
۷- گذشتہ کچھ عرصہ امریکا نے یمن کو متحد رکھا تھا مگر جدید نقشے کے مطابق نہ صرف امریکا، برطانیہ حوثیوں اور علی صالح کو عبدربہ ھادی کے برابر کا درجہ دینے پر تلے ہوئے ہیں بلکہ اقوامِ متحدہ بھی امریکا، برطانیہ اور حوثیوں کے ساتھ علی الاعلان ہوگئی ہے۔
سوال یہ ہے کہ مستقبل قریب میں کویت یا عمان میں منعقد ہونے والی بات چیت میں دائمی جنگ بندی کا جو شوشہ چھوڑا جا رہا ہے، اس کا اصل مقصد شمالی یمن میں زیدی ریاست کا قیام تو نہیں ہے؟ یہ اندیشہ لفظ ’دائمی جنگ بندی‘ سے پیدا ہو رہا ہے، جس کا مطلب بات چیت کو طول دینا اور وقتی سرحدوں کو دائمی سرحدوں میں بدلنا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایران اور ۵+۱ نے مل جل کر نہ صرف نقشے پر اتفاق کرلیا ہے بلکہ اس کو نافذ کرکے اس کے سیاسی، بین الاقوامی ماحول کو قابلِ قبول بنانے کے لیے، روس اور چین کے ساتھ بھی مشاورت کی جارہی ہے۔
باخبر حلقے کہتے ہیں کہ یہ ہے وہ اصل راز جو ساڑھے بارہ برس پر محیط اس بات چیت میں چھپا ہوا تھا، جو ایران اور ۵+۱ کے درمیان ہوتی رہی۔ عالمِ اسلام میں شاید اس بات کو تسلیم کرنا مشکل ہو کہ اسرائیل اب اُردن کے ساتھ اپنی حدود کو آخری حدود تسلیم کرنے پرراضی ہوگیا ہے۔ گویا اب نیل سے فرات تک اسرائیل کا خواب انتہاپسند نیتن یاہو کے ہاتھوں دفن کیا جا رہاہے جیساکہ نیل سے شروع ہونے والے اسرائیل کو انتہاپسند مناحیم بیگن اور انتہاپسند گولڈامایئر نے دفن کیا تھا۔
یہ اعلان نیتن یاہو کے ہاتھوں اُردن کی سرحد سے لے کر ۲۹کلومیٹر طویل دیوار بنانے کے اعلان میں پوشیدہ ہے۔ یہ سب جمہوری ملک ہیں۔ اس لیے ان کے منصوبے اور ارادے کسی نہ کسی طریقے سے اور کسی نہ کسی وجہ سے اخبارات اور ٹی وی پر آجاتے ہیں۔ ان پر سنجیدگی کے ساتھ بحث مباحثہ کئی کئی برس ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ یہ داخلی اور خارجی پالیسی کا جزو بن جاتے ہیں اور ان کو نافذ کرنے کی کوششیں شروع ہوجاتی ہیں۔
عالمِ اسلام چونکہتعلیمی لحاظ سے پس ماندہ ہے، پھر سطحیت اور آسان کوشی اس امر کو دیمک کی طرح کھائے جارہی ہے۔غیراخلاقی، غیرقانونی ریاست اسرائیل کا وجود ’کھلی‘ اور ’علی الاعلان‘ سازش کا نتیجہ ہے۔ شرقِ اوسط کی تقسیم سابق امریکی وزیرخارجہ کونڈالیزا رائس کے منصوبے کے تحت کرنے کی فضا بنائی جارہی ہے۔ ’شرقِ اوسط جدید‘ کی اصطلاح اسی خاتون نے ایک پریس کانفرنس کے دوران، جو تل ابیب میں جون ۲۰۰۶ء میں منعقد ہوئی استعمال کی تھی۔ پھر نومبر ۲۰۰۶ء میں گلوبل ریسرچ میں یہ تذکرہ شائع ہوا۔ اس میں ’جدید شرقِ اوسط‘ کا نقشہ بھی شائع کیا گیا تھا۔
اسی موضوع پر ایک تبصرہ رابن رائٹ کا نیویارک کے سنڈے ریویو میں ۲۹ستمبر ۲۰۱۳ء کو شائع ہوا۔اس میں ایک نقشہ بھی شائع ہوا ہے جس میں پانچ عرب ملکوں کو ۱۴ بنا دیا گیا ہے۔ مگر اس میں یمن کو دو حصوں میں ،جب کہ سعودی عرب کو پانچ حصوں میں تقسیم کرکے دکھایا گیا ہے۔
امریکی حکومت کے منصوبہ ساز اس سُنّی ریاست کو شامی کردستان اور مجوزہ شامی ریاست کی صورت میں دیکھنا چاہتے ہیں جس طرح یمن زیدی اور شافعی یمنیوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ اس وقت مارب میں سعودی، اماراتی، بحرینی، قطری فوجیں جمع ہیں مگر حرکت پذیر نہیں ہیں، جب کہ لحج کے سرحدی شہر کرش تک سعودی اتحاد کی فوجیں پہنچ کر رُک گئی ہیں اور تعز کو حوثی اور علی عبداللہ صالح کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
اسی طرح کئی عرب مقتدر حلقوں کی طرف سے الجزیرہ ٹی وی پر اعتراف کیاجا رہا ہے کہ: ’’اسرائیل نے غزہ اور اُردن کے مغربی دہانے میں رہنے والے فلسطینیوں کے ساتھ مل جل کر رہنے کا فیصلہ کرلیا ہے‘‘۔ یہ مغالطہ آرائی بھی اسی بڑے منصوبے کے لیے ذہنوں کو تیار کرنے کا پروپیگنڈا ہے۔ سازش کا رنگ بھرنے کے لیے یہ نقشہ طویل وقت چاہتا ہے، مگر ہوا کا رُخ یہی ہے۔ مستقبل کے امریکی نقشوں میں اسرائیل کی موجودہ حدودبتائی گئی ہیں۔ امریکی آقائوں کے اس فیصلے یا سوچ میں ڈیموکریٹ اور ری پبلکن دونوں برابر کے شریک ہیں۔
مسئلہ صرف یہ ہے کہ کیا مسلم دنیا کی سیاسی، فوجی، فکری، تعلیمی، مذہبی اور ابلاغیاتی قیادت، امریکی سامراجیوں کی مرضی و منشا کو پورا کرنے میں مددگار بننا چاہتی ہے، یا دُوراندیشی اور سمجھ داری سے اس سازش کے تار و پود بکھیرنا چاہتی ہے؟
۲۸ستمبر۲۰۱۵ء کو قندوز پر طالبان کا قبضہ ایک طویل منصوبہ بندی کا نتیجہ تھا ۔ یہ ۲۰۰۱ء کے بعد ان کی ایک بڑی جنگی کامیابی تھی ۔ قندوز افغانستان کے شمال میں ملک کا پانچواں بڑا شہر ہے جس کی آبادی ۵ئ۳ لاکھ ہے ۔ اگر چہ یہ قبضہ عارضی تھا اور محض چند روز تک محدود رہا، لیکن اس نے واشنگٹن میں پینٹاگان کے بزرجمہروں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ۔ عالمی نشریاتی اداروں نے اس کو ایک بڑی خبر کے طور پر نمایاں طور پر پیش کیا۔ سی این این کے بین الاقوامی تبصرہ نگار نک روبرٹسن نے اس کو طالبان کے لیے ایک بڑا انعام قرار دیا۔ افغانستان میں امریکی اور ناٹو افواج کے تدریجی انخلا کے بعد ماہ جنوری میں صدر باراک اوباما نے امریکی پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے کانگریس سے اپنے کلیدی خطاب میں کہا تھا کہ: ’’اب ہم خود افغانستان کا گشت کرنے کے بجاے افغان سیکیورٹی فورس کو استعمال کریں گے، جن کی ہم نے خوب تربیت کی ہے‘‘۔ لیکن قندوز کی حد تک افغان فوج یہ ذمہ داری پورا نہ کر سکی، جب کہ شہر سے محض تین کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایئرپورٹ پر ہزاروں کی تعداد میں لڑاکا امریکی فوج موجود تھی ۔نک روبرٹسن نے طالبان کی جنگی حکمت عملی بتاتے ہوئے کہا کہ وہ اس سال ماہ اپریل سے اس کا م پر لگے ہوئے تھے اور عید کی چھٹیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شہر میں آہستہ آہستہ داخل ہوئے اور بڑا حملہ کر دیا۔
افغانستان کی وزارت داخلہ کے ترجمان صدیق صدیقی نے سب سے پہلے دنیا کو یہ خبر سنائی کہ: ’’طالبان نے ۱۰مختلف اطراف سے شہر پر حملہ کیا اور گو رنر ہائوس اور پولیس ہیڈ کوارٹرپر پیرکی صبح ہی قبضہ کر لیا تھا۔ افغان آرمی کے جنرل مراد علی نے الزام لگایا کہ ان میں غیر ملکی ازبک بھی شامل تھے۔ افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ٹویٹر اکائونٹ میں لکھا کہ: ’’طالبان قندوز میں افغان آرمی کا صفایا کر رہے ہیں۔ عام شہریوں سے کہا کہ وہ اپنے گھروں تک محدود رہیں‘‘۔
l طالبان کی حکمت عملی: طالبان شمالی افغانستان کے کمانڈر حاجی قادر نے جن کا تعلق شمالی صوبے بدخشان سے ہے دعویٰ کیا کہ ہم نے گذشتہ سال ہی یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ جنوب کے بجاے شمال کی طرف جنگ پر توجہ دی جائے گی ۔ اس لیے ہم نے چار شمالی صوبوں پر قبضے کا منصوبہ بنایا ہے ۔ واقعی ایسا لگتا ہے کہ قندوز پر قبضہ ایک طویل حکمت عملی کا حصہ ہے ۔ کیونکہ جب افغان آرمی نے قبضہ چھڑانے کے لیے نقل و حرکت شروع کی تو اس کو جگہ جگہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ قندوز کی جانب رواں افغان فوجی کانوائے بغلان صوبے میں رکاوٹوں اور حملوں کی وجہ سے مشکلات سے دوچار ہوئے۔ سڑک پر پتھر اور ریت کی بوریاں رکھ دی گئی تھیں۔ طالبان نے صرف قندوز شہر پر قبضہ نہیں کیا بلکہ قندوز صوبے کے ایک اہم ضلع چارد رہ پر بھی قبضہ کیا جہاں سے افغانستان کی ایک اہم شاہراہ گزرتی ہے، جو مزار شریف کو قندوز سے ملاتی ہے۔
قندوز شہر پر طالبان کا قبضہ عارضی تھا اورصرف تین دن تک رہا ۔ اس دوران طالبان شہراور بازار کے اہم مقامات پر موجود رہے ۔ ان کے جھنڈے عمارتوں پر لہراتے رہے اور وہ گھر گھر تلاشی لیتے رہے ۔ جمعرات کے دن افغان حکومت نے اعلان کیا کہ وہ شہر میں واپس داخل ہو چکی ہے اور اس نے طالبان کو وہاں سے نکال دیا ہے ۔ اس دوران ہزاروں لوگ قندوز سے نکل گئے۔ انھوں نے ایئر پورٹ کا رخ کیا، جہاں سیکیورٹی فورسز بڑی تعداد میں موجود تھیں ۔ شہر کی بجلی کاٹ دی گئی تھی ۔ مقامی ٹی وی ا سٹیشن اور ریڈیو کی نشریات بند ہو گئیں تھیں۔ طالبان کی قابض فوجوں نے ایسے افراد کی فہرستیں تیار کیں، جو ان کو مطلوب تھے اور ان کی تلاش میں وہ گھروں پر چھاپے مارتے رہے۔ طالبان لائوڈ سپیکر وں پر دکان داروں کو ہدایات دیتے رہے کہ وہ دکانیں کھول دیں۔
طالبان نے قندوز کے اس عارضی قبضے سے کیا حاصل کیا ؟ ان کے کیا اہداف تھے اور وہ اس کے حصول میں کس حد تک کامیاب ہوئے ؟
ایک مقصد تو بڑا واضح طور پر نظر آیا کہ انھوں نے قندوز جیل میں بند اپنے ۶۰۰ساتھیوں کو چھڑا لیا جو کافی عرصے سے وہاں قید تھے۔دوسرا بڑا فائدہ ان کو بھاری تعداد میں اسلحے کی صورت میں ہوا جو انھوں نے سیکڑوں گاڑیوں میں ڈال کر اپنے ٹھکانوں کو روانہ کیا ۔ ان میں وہ بکتر بند امریکی ساختہ گاڑیاں بھی بڑی تعداد میں شامل تھی جو افغان آرمی اور پولیس کے زیر استعمال رہتی ہیں۔ مال غنیمت میں ۱۵۰ گاڑیوں کے علاوہ بھاری مشین گنوں، مارٹر توپوں ،کلاشنکوف رائفلوں اور بارودی مواد کے بڑے ذخیرے طالبان کے ہاتھ لگے۔ تیسری ا ہم چیز جو طالبان کے ہاتھ آئی وہ بھاری رقوم اور غیر ملکی کرنسی ہے، جو قندوز شہر کے بنکوں اور خزانے میں موجود تھی۔ افغان آرمی نے جب قندوز پر دوبار قبضہ کیا تو انھوں نے ۲۰۰طالبان مجاہدین کو مارنے کا دعویٰ کیا لیکن طالبان اپنا نقصان بہت کم بتاتے ہیں۔
قندوز ہسپتال بین الاقوامی نوبل انعام یافتہ ادارہ Médecins Sans Frontières International (MSF) چلاتی ہے۔ سرحدی پابندیوں سے آزاد طبی امداد کا یہ ادارہ بنیادی طور پر فرانسیسی این جی او ہے۔ کئی یورپی ملکوں میں اس کی شاخیں قائم ہیں جو پوری دنیا میں شورش زدہ علاقوں میں کام کرتی ہے ۔ قندوز ہسپتال شمالی افغانستان میں اہم ترین طبی مرکز تھا جس سے کئی صوبوں کے عوام استفادہ کرتے ہیں۔ اس جنگ کے دوران بھی انھوں نے اپنی خدمات جاری رکھیںاور زخمی شہریوں ، بچوں ،عورتوں کو طبی امداد بہم پہنچاتے رہے ۔ ہسپتال میں عملے کی تعداد ۲۰۰تھی۔ امریکی حکام نے بعد میں یہ وضاحت پیش کی کہ ہم سے افغان آرمی نے درخواست کی تھی کہ ہسپتال کے احاطے میں طالبان چھپے ہوئے ہیں، اس کو ہدف بنایا جائے ۔ چنانچہ ہم نے فضائی کارروائی کی ۔ لیکن یہ معذرت بذات خود ایک بڑے جرم کا اعتراف ہے کہ یہ کارروائی سوچ سمجھ کر کی گئی اور اس دوران ہسپتال انتظامیہ بھی افغان حکومت سے اپیل کرتی رہی کہ میڈیکل عملے کے ارکان اور مریض مر رہے ہیں،لیکن پھر بھی حملہ جاری رہا ۔ یہ سفاکانہ حملہ مسلّمہ بین الاقوامی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی اور جنگی جرم ہے جس کا ارتکاب امریکی افواج نے کیا۔ امریکی صدر نے رسماً دوحرفی معذرت پیش کی۔ ایم ایس ایف نے احتجاجاً اپنی خدمات واپس لے لی ہیں۔
قندوز میں افغان آرمی کی شکست کابل حکومت کے لیے لمحۂ فکریہ ہے ۔ اس نے امریکی معاونت سے ملک میں ایک اتحادی سیاسی حکومت تو بنالی ہے لیکن وہ افغانستان کو ایک مؤثر اور مضبوط قیادت فراہم کرنے میں کامیاب نظر نہیں آتی۔ طالبان کی اٹھان اور ان کی جنگی حکمت عملی کے مقابلے میں کابل کی افواج کی کمزوریاں اس حکومت کے لیے بہت بڑا چیلنج ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں افغان فوج اور پولیس کی موجودگی میں ایک بڑے شہر پر قبضہ اس کے لیے ایک بڑا تازیانہ ہے، اور ملک میں حکومت کی گرفت کمزور ہونے کے امکان کو بڑھاتا ہے ۔
مُلّا محمد عمر کے دوسال پہلے انتقال کی خبر نے بھی طالبان کی کمزور ی میں اضافہ کیا اور اب داعش افغان نوجوانوں کو جگہ جگہ بھرتی کر رہی ہے۔ بعض مقامات پر طالبان تحریک سے مڈبھیڑ بھی ہو رہی ہے ۔غالباً طالبان کی نئی جنگی حکمت عملی اور مہم جوئی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ زیادہ بڑی سرگرمیاں دکھا کر افغانستان میں جہاد سے منسلک عنصر کو اپنے سے جوڑ کر رکھنا چاہتی ہے ۔ اس طرح وہ نہ صرف افغانستان میں اپنی پوزیشن برقرا ر رکھنا چاہتے ہیںبلکہ غیر ملکی افواج کے مکمل انخلا اور امریکی دل چسپی کی کمی کی صورت میں ملکی اقتدار پر قبضے کی اپنی خواہش کو بھی پورا کرنا چاہتے ہیں۔
پاکستان اور چین کی کوششوں سے افغان حکومت اور طالبان کے نمایندوں کے درمیان مذاکرات کا جو سلسلہ شروع ہو اتھا، بدقسمتی سے اس کے دوبارہ احیا کے امکانات معدوم ہو تے جارہے ہیں۔ افغان حکومت واضح طور پر پاکستان مخالف جذبات کی اسیر نظر آتی ہے ۔اس میں یقینا بھارتی لابی کا بھی کردار ہو گا جو افغانستان کے معاملات میں پاکستان اور چین کی شرکت نہیں چاہتی۔ تاہم کابل کی قیادت کو یقینا یہ بات سمجھنی ہو گی کہ پاکستان سے دُوری او ربگاڑ پیداکر کے وہ پاکستا ن سے زیادہ اپنے مفادات کو نقصان پہنچا رہی ہے، جس کے دور رس نتائج ہو ںگے۔ بلاشبہہ طالبان تحریک اس وقت اتنی قوت نہیں رکھتی کہ وہ بڑے شہروں پر مستقل قبضہ کر سکے، لیکن وہ ایک مستقل مزاحمتی تحریک کی حیثیت سے بھی اگر اپنی حیثیت بر قرار رکھتی ہے تو پھر افغانستان میں امن و سلامتی کا قیام محض ایک خواب ہی رہے گا۔
مصر میں فوجی انقلاب کے بعد سے اب تک ہزاروں کی تعداد میں اخوان اور دیگر شہریوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں بند کیا جاچکا ہے۔ ڈاکٹر محمد مرسی سمیت اخوان کی مرکزی قیادت کے بیش تر افراد سزاے موت کے مستحق ٹھیرا دیے گئے ہیں۔ اسلامی دنیا کا شاید یہ واحد واقعہ ہو کہ اصلاحِ معاشرہ اور دعوتِ دین کے لیے کوشاں کسی پُرامن سیاسی تنظیم کو اپنی تاریخ کے مختلف اَدوار میں وقت کی آمر اور غاصب حکومت کے ہاتھوں تیسری بار اپنی اعلیٰ قیادت سے محرومی کا صدمہ برداشت کرنا پڑا ہو۔ فوجی انقلاب کے ہاتھوں ہزاروں کارکن اور شہری وحشیانہ کارروائیوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں اور متعدد صحافیوں نے جیلوں میں بند ان بے گناہ اور معصوم شہریوں کی صورت حال اور اعداد و شمار بیان کیے ہیں، وہ مختصراً یہاں پیش کیے جا رہے ہیں:
اس فوجی انقلاب کے دو برس پورے ہونے پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے ایک مشترکہ رپورٹ جاری کی۔ اس رپورٹ کو اِعدام وطن (پورے ملک کے لیے پھانسی) کا عنوان دیا گیا اور کہا گیا کہ فوجی انقلاب کے دوسال پورے ہونے تک ۱۱۶۳ قیدیوں کو سزاے موت سنائی جاچکی ہے۔ ان میں سے سات کی سزا پر عمل درآمد بھی کردیا گیا۔ ۴۹۶ کی نظرثانی کی اپیل منظور کرلی گئی اور اُن کی سزاے موت دیگر سزائوں میں بدل دی گئی۔ ۲۴۷ کی اپیل کے نتیجے میں اُن کی سزاے موت ختم ہوگئی اور ۴۱۳ بدستور سزاے موت کے منتظر ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بنیادی طور پر سزاے موت پانے والوں کی یہ تعداد ۱۶۹۳ تھی جو پھانسی کا حکم جاری کرنے کے لیے مفتی اعظم کے پاس بھجوائی گئی تھی۔ البتہ بعد میں اسے کم کر کے ۱۱۶۳ پر لایا گیا جن کے ’مجرموں‘ کو سزاے موت کے پروانے جاری کیے گئے ہیں اُن پر ایک کالعدم جماعت سے تعلق کا الزام تھا۔
سزاے موت کا حکم سننے والوں میں سرفہرست اخوان کی مرکزی قیادت اور معزول کیے گئے منتخب صدر ڈاکٹر محمد مرسی ہیں۔ مرشدعام ڈاکٹر محمد بدیع کو پانچ بار سزاے موت سنائی گئی ہے۔ تحلیل شدہ پارلیمان کے صدر محمد سعد الکتاتنی، حزب الحریۃ والعدالۃ کے رہنما محمد بلتاجی، معروف مقرر اور داعی صفوت حجازی اور اخوانی قیادت کی ایک بڑی تعداد اس فہرست میں شامل ہے۔
سزاے موت کا حکم پانے والوں میں شمالی مصر کا ضلع مُنیا سب سے آگے ہے۔ اس سے تعلق رکھنے والے سزاے موت کے قیدی ۱۲۱۱ ہیں۔ اسی طرح ضلع الجیزہ کے ۲۳۳، اور قاہرہ کے ۱۷۸ ہیں۔ سزاے موت کے احکام پر مہر تصدیق کے لیے مفتی اعظم مصر کو پیش کیے گئے ان ناموں میں زندگی کے مختلف شعبوں اور پیشوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔ مساجد کے ائمہ اور خطیب، یونی ورسٹیوں کے اساتذہ اور محققین، طلبہ، صحافیوں، انجینیروں، ڈاکٹروں اور مزدوروں کے علاوہ خواتین خانہ بھی شامل ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق ۲۶۸؍افراد تو جیلوں اور تفتیشی مراکز کے اندر ہی یا تو طبی امداد نہ مل سکنے پر یا تعذیب و تشدد کی بنا پر موت کے منہ میں چلے گئے۔ اُن افراد کی تعداد اس کے علاوہ ہے جن کو مظاہروں کے دوران یا دھرنوں کے دوران جبرو تشدد کے ذریعے بھگانے کے عمل میں ہی موت کی نیند سُلا دیا گیا۔ کچھ ایسے بھی تھے جو دورانِ گرفتاری بے پناہ تشدد کے باعث زندگی ہار بیٹھے۔ ان لوگوں کی تعداد ۱۴۰۶ ہے مگر اس میں رابعہ اور نہضہ کے میدانوں میں دھرنے دینے والوں کی تعداد شامل نہیں ہے جن کو ملٹری فورسز نے نمازِ فجر کے وقت عین حالت ِ نماز میں گولیوں سے بھون ڈالا تھا اور وہ بھی ماہِ مقدس و ماہِ رحمت رمضان المبارک کے ایسے لمحات میں جب عادی مجرموں اور انتہائی خطرناک مجرموں کے لیے رب کی عام معافی کا اعلان ہو رہا ہوتا ہے۔ رابعہ اور نہضہ کے شہدا کی تعداد ۵ہزار سے زائد بتائی گئی ہے۔
طلبہ کی ایک تنظیم کے اعداد و شمار کے مطابق جو یونی ورسٹیوں کے طلبہ کی آزادی و حقوق کے لیے کوشاں ہے، ۳جولائی ۲۰۱۳ء کے فوجی انقلاب سے ۱۱فروری ۲۰۱۵ء کے عرصے میں ماوراے قانون ہلاک کیے گئے طلبہ کی تعداد ۲۲۸ ہے۔ ان میں چھے طالبات بھی ہیں۔ ۱۶۴ کو ’ناگزیر وجوہ‘ کی بنا پر لاپتا رکھا گیا ہے۔ فروری ۲۰۱۵ء تک گرفتار شدہ طلبہ و طالبات کی تعداد ۳ہزار ۲سو۴۲ ہے۔ ان میں سے ۱۸۹۸ طلبہ و طالبات بدستور گرفتار ہیں۔ ان میں سے ۱۶۰ کو جبری طور پر اعترافِ جرم کرانے کے دوران بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ انسانی حقوق کی ایک تنظیم کے کارکن کا کہنا ہے کہ یہ تو وہ تعداد ہے جو پرانے اعداد و شمار کے مطابق ہے۔ اصل اور موجودہ تعداد تو اس سے بہت زیادہ ہے۔ بیش تر اضلاع میں روزانہ نئی گرفتاریاں عمل میں آتی ہیں۔ اس طرح یہ تعداد ۶۰ ہزار کے قریب پہنچ جاتی ہے۔ البتہ کچھ لوگوں کی رہائی بھی عمل میں آئی ہے مگر اُس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ کمی روزانہ کی بنیاد پر کی جانے والی گرفتاریوں سے پوری ہوجاتی ہے۔
اس کارکن کا کہنا ہے کہ ان گرفتار شدہ افراد کے لیے اپیل کرنے والے وکیلوں کو بھی پکڑ لیا جاتا ہے اور مختلف قسم کے مقدمات میں دھر لیا جاتا ہے۔ ایسے وکلا کی تعداد ۳ہزار تک پہنچ گئی ہے، اور مزید ۲۸۰ کے بارے میں گرفتاری اور پیشی کے احکام جاری کیے جاچکے ہیں۔ یہ صورتِ حال اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ اس وقت مصر کے اندر عدلیہ کی کوئی بنیاد باقی نہیں ہے۔
جیلوں کے اندر بند اِن قیدیوں کی صورت حال کو اُن کے اہلِ خانہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں ذرائع ابلاغ پربیان کرتی رہتی ہیں۔ پرنٹ میڈیا میں بھی قیدیوں کے مصائب و آلام اور تعذیب و تشدد کے علاوہ مختلف امراض میں مبتلا افراد کی صورتِ حال سے متعلق رپورٹیں شائع ہوتی ہیں مگر حکومت پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔
جنوبی قاہرہ میں واقع کئی جیلوں کا مجموعہ عقرب جیل ہے۔ یہ جیل قیدیوں کے لیے کڑی حراست کے اعتبار سے بہت بُری شہرت رکھتی ہے۔ یہ اپنے قیام کے ۲۵ سال سے خوف ناک تعذیب و تشدد کی روایات کے باعث منفرد تاریخ کی حامل ہے۔ اخوان کے نائب مرشدعام خیرت الشاطر اسی عقرب جیل میں قید ہیں۔ ان کی بیٹی عائشہ کا کہنا ہے کہ وہ دل کے مریض ہیں مگر انھیں ہفتوں دوا نہیں ملتی اور وہ بغیر دوا کے بیماری کے رحم و کرم پر زندگی گزار رہے ہیں۔
گذشتہ رمضان کے دوران قیدیوں کو قرآنِ پاک کے نسخوں سے بھی محروم کردیا گیا تاکہ وہ تلاوتِ قرآن نہ کرسکیں۔ جیل کی بیرکوں کی بجلی بند کردی گئی تاکہ انھیں دورانِ روزہ کوئی آسانی نہ پہنچ پائے۔ اُن کی کلائی گھڑیاں چھین لی گئیں تاکہ اُنھیں سحری و افطاری کے اوقات معلوم نہ ہوسکیں۔ پانی کی فراہمی بند رکھی گئی تاکہ وہ نماز کے لیے وضو نہ کرسکیں۔
قاہرہ کے ایک صحافی کا کہنا ہے کہ ۲۰۱۳ء کے فوجی انقلاب کے بعد مصر کی جیلیں اجتماعی قبروں کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ یہاں بدترین ذہنی و بدنی تعذیب اور غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ انسانی حقوق کی ملکی اور عالمی تنظیمیں انسانی حقوق کی اس پامالی کو نہ بند کراسکی ہیں اور نہ کم ہی کرانے میں کامیاب ہوسکی ہیں۔ مرکز براے انسانی حقوق کی تعظیم کے ایک محقق احمد مفرح کا کہنا ہے کہ سیکڑوں لوگ جو طبی امداد کی عدم فراہمی اور غیرمعمولی تشدد کے باعث موت سے دوچار ہوگئے اُن میں اخوان کی مرکزی قیادت کے لوگ بھی شامل ہیں۔ ان میں نمایاں نام قومی اسمبلی کی کمیٹی براے قومی دفاع و سلامتی کے ذمہ دار فرید اسماعیل کا ہے۔ فرید اسماعیل حالیہ مئی کے مہینے میں قاہرہ کی عقرب جیل کے ہسپتال میں جگر کے مرض میں مبتلا رہ کر داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ ضلع دمیاط سے رکن قومی اسمبلی محمد الفلاحجی بھی اسی طرح کی صورتِ حال سے دوچار ہوکر وفات پاگئے۔ گذشتہ برس نومبر میں عین شمس یونی ورسٹی میں امراضِ جلدکے استاد ڈاکٹر طارق الغندور زیادہ خون بہہ جانے کے باعث انتقال کرگئے۔ ۹؍اگست ۲۰۱۵ء کو الجماعۃ الاسلامیۃ اسلامی مصر کی مجلس شوریٰ کے صدر عصام دربالہ شدید حراست کی جیل ’طرۃ‘ سے ہسپتال منتقل کیے جانے کے دوران دم توڑ گئے۔ اسی سال ۲۸؍اگست کو اخوان کے ایک رہنما خالد زہران وفات پاگئے جو تین برس سے جیل کی عقوبتیں برداشت کرتے رہے۔ جب ان کی حالت نازک ہوگئی تو ہسپتال لے جایا گیا مگر تب علاج کا وقت گزر چکا تھا۔ امن فورسز کے تشدد اور تعذیب کے نتیجے میں کئی وکلا بھی جاں بحق ہوگئے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ کفرالشیخ ضلع کے سابق گورنر سعدالحسینی اپنی نازک صحت کی بنا پر ہروقت موت کے خطرے سے دوچار رہتے ہیں۔ اُن کی حالت یہ ہے کہ انھیں ویل چیئر پر بٹھا کر عدالت میں پیش کیا جاتا ہے۔ اسی طرح مرسی حکومت کے وزیر براے اُمورِ نوجواناں اُسامہ یاسین اور حزب الحریۃ والعدالۃ کے صدر ڈاکٹر محمدا لبلتاخی کی صحت کا مسئلہ ہے۔
مرکز براے تعظیم انسانی حقوق کی رپورٹ کہتی ہے کہ ۵۰۰ قیدی ایسے ہیں جن کی نازک صحت کا تقاضا ہے کہ انھیں فوری علاج کی سہولت فراہم کی جائے۔ ان میں سے کثیرتعداد جان لیوا حالت سے دوچار ہے۔ سماجی حقوق کی تنظیموں نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں محکمہ پولیس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ آزاد تنظیموں کے ذریعے قیدیوں کا طبی معائنہ کرائیں۔ انھی تنظیموں کے کارکنان کا کہنا ہے کہ اٹارنی جنرل کا دفتر ان حقوق کی پامالی کا کوئی نوٹس نہیں لے رہا۔
گرفتاریوں اور قیدوبند کی ان صعوبتوں میں سب سے زیادہ تکلیف دہ امر ہے کہ سیکڑوں بچیوں کو بھی جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے بند کر رکھا ہے۔ مصر میں بچیوں کی گرفتاری اور اسیری سرخ لائن تصور کی جاتی رہی ہے مگر فوجی انقلاب نے اس سرخ لائن کو بھی پامال کر کے آگے بڑھنے کی روش جاری رکھی ہوئی ہے۔ ان قیدی بچیوں میں جامعہ ازہر کی طالبات کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ اس لیے کہ یونی ورسٹی کے صدر اُسامہ العبد نے کئی بار امن فورسز کو یونی ورسٹی میں چھاپہ مارنے اور طالبات کو گرفتار کر نے کی اجازت دی۔
قیدی خواتین میں ۵۰ برس سے زائد عمر کی خواتین بھی شامل ہیں۔ سامیہ شنن کو کرداسہ کے حادثات کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا مگر بعدازاں اُن پر پولیس اہل کاروں کے قتل کا الزام عائد کرکے انھیں سزاے موت سنا دی گئی۔ کہا گیا ہے کہ ان کے بیٹے کی گرفتاری کے لیے انھیں پکڑا گیا تھا مگر پھر کرداسہ کے حادثات میں ملوث کردیا گیا۔[ماخذ: aljazeera.net]
تحریک طالبان افغانستان کے رہنما مُلّا محمد عمر کے انتقال کی خبر ایک بڑا واقعہ ہے۔ ان کے بہی خواہوںکے لیے یہ خبر یقینا ایک بہت بڑا دھچکا ہے۔ ان کی رحلت کب، کہاں اور کیسے واقع ہوئی؟ اس حوالے سے اطلاعات میں نہ صرف کافی ابہام پایا جاتا ہے بلکہ کچھ تضاد بھی نظر آتاہے۔
مُلّامحمد عمر نے ان حالات میں تحریک طالبان کی بنیاد رکھی تھی، جب افغان مجاہدین، سوویت یونین کو شکست دینے کے بعد افغانستان میں ایک مضبوط مرکزی حکومت کے قیام میں ناکام ہوکر خانہ جنگی پر اتر آئے تھے ۔طالبان اس شدید بدامنی اور افراتفری کو جواز بناتے ہوئے مختصر مدت میں نہ صرف افغانستان کی مقبول ترین عسکری قوت کا روپ دھار گئے بلکہ کابل سمیت پورے افغانستان کے تین چوتھائی حصے پر اپنا قبضہ جمانے میں بھی کامیاب ہوگئے تھے۔ اس کے نتیجے میں قیامِ امن اورلوگوں کو ان کی دہلیز پر فوری انصاف کی فراہمی ایسے کارنامے تھے جس نے طالبان حکومت کے استحکام میں بنیادی کردار اداکیا۔ مُلّا محمد عمر اور ان کی حکومت کو منظر سے ہٹانے کے لیے امریکا کو ۴۸ ممالک کی ڈیڑھ لاکھ مسلح افواج اور دنیا کی جدید ترین جنگی ٹکنالوجی کاسہارا لینا پڑا۔ پھر امریکا نے مُلّاعمر کے سر کی قیمت ایک کروڑ ڈالر مقرر کردی۔ یہ مُلّاعمر کی شخصیت کا کمال تھا کہ جب امریکا نے اکتوبر ۲۰۰۱ء میں طالبان حکومت کا اپنی اندھی طاقت کے زور سے خاتمہ کیا، تو وہ مختصر عرصے میں طالبان کی منتشر صفوں کو امریکا کے خلاف ایک بھرپور اور منظم تحریک کی شکل دینے میں کامیاب ہوگئے۔
آج افغانستان کے طول وعرض میں امریکی اور ناٹو فورسز سمیت افغان سیکیورٹی فورسز کے خلاف جومنظم عسکری کارروائیاں ہورہی ہیں اور مختلف اضلاع سے طالبان کی فتوحات اورقبضوں کی جو خبریں آرہی ہیں، ان کے پیچھے جہاد کے بعد سب سے بڑا محرک اور عامل مُلّا محمد عمر کی قیادت رہی ہے۔ افغان قوم میں ان کی مقبولیت اور اثرپذیری کانتیجہ تھاکہ طالبان قیادت کو دوسال سے بھی زائد عرصے تک مُلّاعمر کے انتقال کی اہم ترین خبر کو صیغۂ راز میں رکھنا پڑا ۔ دوسال تک طالبان قیادت ان کی موت کو چھپانے پر اس لیے مجبور رہی کہ اس بات کا کامل یقین تھاکہ مُلّاعمر کے انتقال کی خبرسامنے آنے سے نہ صرف طالبان جنگجوئوں کے حوصلے پر منفی اثرپڑے گا، بلکہ ا س خبرسے امریکا اور دیگر طالبان دشمن قوتیں بھی ہرممکن فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گی۔ طالبان قیادت کے یہ خدشات مُلّاعمر کے انتقال کی تصدیق ہونے پر بعض طالبان گروپوں کی مخالفت اور تحفظات کی صورت میں سامنے آئے بھی ہیں۔
مُلّا محمد عمر مرحوم کے نائب مُلّا اختر منصور کے توسط سے یہ بات توسامنے آچکی ہے کہ انھوں نے مُلّاعمر کے انتقال کی خبر مبینہ طورپر ملا عمر کی وصیت کے مطابق جہاد کو جاری رکھنے کی حکمت کے تحت صیغہ راز میں رکھی تھی۔اس حد تک تو اخترمنصور کی بات پر یقین کا جواز اور گنجایش موجود ہے۔ لیکن جہاں تک مُلّامنصور کے امیر بننے اور ملا عمر کے انتقال کی تصدیق اور اعلان کے اوقات کاتعلق ہے تو اس حوالے سے مختلف سوالات کا اٹھنا ایک فطری امر ہے۔ یہ سوال کہ اچانک ایسے کون سے عوامل پیدا ہو گئے تھے جن کے باعث ملا عمر کے انتقال کی خبر کو صیغۂ راز میںمزید رکھنا ممکن نہیں رہا تھا ؟
اسی طرح یہ سوال بھی جواب طلب ہے کہ مُلّا عمر کے انتقال کی خبر طالبان افغان حکومت مذاکرات سے محض ایک دن قبل افشا کرنے کااصل پس منظر کیا ہے؟ان دونوں سوالات کے متعلق جتنے منہ اتنی باتیں کے مصداق طرح طرح کے جوابات اور چہ میگوئیاں سامنے آرہی ہیں۔ لیکن اس حوالے سے افغان معاملات پر گہری نظر رکھنے والے اور تحریک طالبان سمیت افغان حکومت اور پاکستان کے مقتدر اداروں تک رسائی رکھنے والے ماہرین اورتجزیہ کاروں کااستدلال ہے کہ مُلّاعمر کی وفات کی خبر کو مزید چھپا کر رکھنا ا س لیے ناممکن ہوگیاتھا کہ طالبان سمیت افغان حکومت کے بعض بارسوخ حلقوں کو یہ شک پڑگیاتھا کہ مُلّا محمد عمر زندہ نہیں رہے اور وفات پاچکے ہیں۔ ان کو یہ شک دو وجوہ کی بنا پرپڑا۔
اس کی پہلی اور فوری وجہ حالیہ عیدالفطر کے موقعے پر مُلّا محمد عمر کا امن مذاکرات کی حمایت پر مبنی پیغام کا سامنے آناتھا۔ واضح رہے کہ مُلّا محمد عمر شروع دن سے مذاکرات کی مخالفت کرتے رہے تھے اور انھوں نے عیدین پر جتنے بھی پیغامات جاری کیے تھے ان سب میں وہ طالبان کو جہاد جاری رکھنے اور مزاحمت کے راستے پر ثابت قدم رہنے کی تلقین کرتے رہے تھے۔ امن مذاکرات کی حمایت میں ان کابیان سامنے آنے سے طالبان کی صفوں میںان کے زندہ رہنے کے متعلق شکوک وشبہات نے شدت اختیار کی۔ اسی طرح ان شکوک وشبہات کو تقویت ملنے کی دوسری بڑی وجہ ڈھائی سال سے بھی زیادہ عرصے سے مُلّا محمد عمر کی آواز میں کسی آڈیو پیغام کاسامنے نہ آناتھا۔ جہاں تک مُلّاعمر کی وفات کی خبر امن مذاکرات کے دوسرے دور سے محض ایک دن قبل افشا کیے جانے کاتعلق ہے تو اس حوالے سے اس بات پر اتفاق راے پایاجاتاہے کہ ایساکرنا سب سے زیادہ خود طالبان اور بالخصوص نومنتخب امیر ملااختر منصورکے حق میں تھا۔اگرمذاکرات میں کسی ممکنہ پیش رفت کے بعد آگے جا کر یہ بات سامنے آجاتی کہ مُلّاعمر دوسال پہلے وفات پاچکے ہیں تو ایسی حالت میں مُلّااختر منصور سمیت کسی بھی طالبان رہنما کے لیے امن مذاکرات کے فیصلوں کو طالبان کمانڈروں اور جنگجوئوں سے منوانا تقریباً ناممکن ہوتا، لہٰذا اسی احساس نے انھیں یہ خبر جاری کرنے پر مجبور کیا۔
دوسری جانب ملامنصور کی امارت کے اعلان اوران کا اپنے پیروکاروں سے بیعت لینے پر بعض طالبان راہنمائوں کی طرف سے جو اعتراضات سامنے آئے ہیں، وہ اس لیے قابل فہم ہیں کہ ان کی امارت پر ان لوگوں نے اعتراض اٹھایاہے، جو ملامنصور کی امارت کے لیے منعقدہ رہبری شوریٰ کے فیصلے میں شریک نہیں تھے۔ ان میں سب سے نمایاں نام مُلّا محمد عمر کے برادرخورد مُلّاعبدالمنان کا سامنے آیاہے، جنھوں نے ملامنصور کی امارت کے اعلان کو مسترد کرتے ہوئے نئے امیر کے انتخاب کے لیے صرف رہبری شوریٰ پر انحصار کے بجاے تمام فیلڈ کمانڈروں، علماے کرام اور طالبان کی بااثر شخصیات کا مشترکہ اجلاس بلانے کامطالبہ کیاہے۔ جس کے جواب میں ملامنصورگروپ کاکہناہے کہ اس وقت کے حالات اور موجودہ حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس وقت پورے افغانستان کے حالات طالبان کے حق میں سازگار تھے اور انھیں کسی قسم کے سیکیورٹی خطرات لاحق نہیں تھے، جب کہ آج پوری طالبان قیادت کا اتنی بڑی تعداد میں ایک جگہ پرافغانستان کے اندر جمع ہوناتقریباً ناممکن ہے ۔
مُلّااختر منصور کی مخالفت میں طالبان کاجو گروپ سرگرم عمل ہے، وہ اپنی حمایت میں مُلّا محمد عمر کے ۲۶سالہ بڑے بیٹے مُلّا محمد یعقوب کو بھی استعمال کرنے کی حتی الوسع کوشش کررہاہے جس کی مخالفت ان کی کم عمری اورکم تجربے کی بنیاد پر کی جارہی ہے۔ تبدیل ہوتی ہوئی اس تمام صورت حال کانیانقشہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان پہلے سے طے شدہ مذاکرات کی منسوخی کے علاوہ طالبان کے نئے امیر مُلّا اختر منصور کاان مذاکرات سے انکار کرکے جہاد جاری رکھنے کے اعلان کی صور ت میں سامنے آیاہے۔اسی طرح قطر میں قائم طالبان کے سیاسی کمیشن اور قطر دفتر کے مذاکراتی ٹیم کے سربراہ طیب آغا اوران کی ٹیم کا مُلّا اختر منصور سے اختلافات کی بنیادپر مستعفی ہونے سے بھی جہاں امن مذاکرات کامستقبل مخدوش نظر آرہاہے، وہاں اس صورت حال کو تحریک طالبان کی صفوں کو منظم رکھنے کے لیے بھی نیک شگون قرار نہیں دیاجاسکتاہے۔
فیصلہ کن بات یہ ہے کہ اگر طالبان، امریکا اور افغان حکومت پراپنا دبائو برقراررکھ کر مُلّامحمدعمر کے مشن کی تکمیل چاہتے ہیں تو اس کے لیے تحریک طالبان کو پہنچنے والے نقصان کے ازالے اورمزید نقصان سے بچنے کے لیے نہ صرف اپنی صفوں میں اتحاداور اتفاق برقرار رکھنا ہوگا، بلکہ باہمی مشاورت اور اتفاق راے سے نئے امیر کے قضیے، نیز امن مذاکرات کے مستقبل کابھی کوئی متفقہ اور سب کے لیے قابل قبول حل تلاش کرنا ہوگا۔ بصورت دیگر طالبان مخالف قوتیں ان کو منتشر پا کر ان پر ٹوٹ پڑنے کے لیے ایسے تیار بیٹھی ہیں، جیسے دسترخوان پر ٹوٹ پڑنے کے لیے بھوکے تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔یہ موقع بلاشبہہ طالبان کی معاملہ فہمی،حسن تدبر اور ان کی بصیرت کا کڑا امتحان ہے جس کے لیے اُمت ِ مسلمہ کے تمام سنجیدہ و فہمیدہ لوگ فکرمند بھی ہیں اور دعاگو بھی۔
’’۹ مئی ۲۰۱۴ء کو ہماری نسبت طے ہوئی۔ شادی ہوئی تو میں نے پہلے ہی روز معاذ سے کہا کہ میں نے ایسے جیون ساتھی کے لیے دعا کی تھی جو مجھے اپنے ساتھ جنت لے جائے۔ انھوں نے وعدہ کیا کہ وہ مجھے جنت لے کر جائیں گے۔ شہادت سے کئی ہفتے قبل انھوں نے مجھے کہا کہ ہم دونوں روزانہ قرآن کریم کے ۱۰صفحات تلاوت کیا کریں گے، تاکہ اکٹھے ختم قرآن کیا کریں۔ شہادت کے روز بھی فجر کے وقت معاذ نے مجھے جگایا اور کہا کہ آج مجھے ایک آپریشن کے لیے بھیجا جارہا ہے۔ میں نے ابھی دو رکعت نماز شہادت بھی ادا کرلی ہے اور اللہ سے یہ دُعا بھی کی ہے کہ کسی بے گناہ مسلمان کا خون میرے سر نہ آئے‘‘۔ یہ الفاظ اُردنی ایئر فورس کے اس پائلٹ معاذ الکساسبہ کی بیوہ کے ہیں، جسے چند ماہ پہلے داعش نے آہنی پنجرے میں کھڑا کرکے، زنجیروں سے جکڑ کر زندہ جلا دیا تھا۔ جلانے کے اس پورے عمل کو فلمایا اور وسیع پیمانے پر پوری دنیا میں دکھایا گیا۔
عراق اور شام میں ’اسلامی ریاست‘ (داعش) کے قیام کا دعویٰ کرنے والے اپنے مخالفین کو قتل کرنے کے لیے آئے روز کوئی نہ کوئی نئی صورت ایجاد کرتے ہیں۔ جانوروں کی طرح ذبح کرنے کے واقعات تو اب ہزاروں میں ہیں۔ ان ذبح شدہ انسانوں کے سروں کی نمایش کرنا بھی اب معمول کی بات ہے۔ اس کے علاوہ کبھی کسی زندہ انسان کو بلند عمارت سے سر کے بل پھینک کر قتل کرنا، کسی کو پنجرے میں بند کر کے سمندر میں ڈبو دینا، کسی کی گردن کے ساتھ بارودی مواد باندھ کر اُڑا دینا… غرض یہ کہ ایک سے بڑھ کر ایک خوف ناک طریقہ ایجاد کیا جاتا ہے۔ پھر انتہائی مہارت سے اس کی فلم بنائی اور دنیا کے سامنے پیش کی جاتی ہے۔ اپنے زیرقبضہ علاقوں میں بڑے بڑے ابلاغیاتی مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ علاقے کے لوگوں کو وہاں آنے کا حکم دیا جاتا اور قتل و تعذیب کے سارے مناظر دیکھنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اصل بدقسمتی یہ ہے کہ مارنے والے بھی ’اللہ اکبر‘ کہہ رہے ہوتے ہیں اور قتل ہونے والے بھی، اکثر لوگ کلمۂ شہادت ادا کرتے ہوئے دنیا سے رخصت ہو رہے ہوتے ہیں۔ بعض غیرمسلموں کو بھی ہلاک کیا گیا ہے، لیکن ان کی تعداد ہزاروں میں سے چند درجن ہی بنتی ہے۔
مسلمانوں کو قتل کرنے سے پہلے ان کے مرتد ہونے کا اعلان کیا جاتا ہے۔ ارتداد کی وجہ اکثر وبیش تر ان کا بیعت سے انکار یا ’باطل نظام‘ کا حصہ دار اور دشمن کا ایجنٹ ہونا بتایا جاتا ہے۔ اب تو اس کام کے لیے اعلانِ عام کردیا گیا ہے۔ ایک ویڈیو پیغام میں داعش کا ایک نوجوان ہرمسلمان کو ترغیب دیتا ہے کہ:’’ اسلامی ریاست کے علاوہ تمام حکومتیں باطل پر مبنی ہیں۔ اس کے کارپردازان بالخصوص فوج اور پولیس کے ملازمین کو قتل کر کے ہمارے پاس آجائو ہم تمھیں پناہ دیں گے‘‘۔ اس طرح کے پیغامات سے متاثر ہوکر مختلف کارروائیاں کرنے والوں کی تعداد بھی اب کافی ہوچکی ہے۔ حالیہ عیدالفطر کے چاند کا اعلان ہونے کے چند گھنٹے بعد سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کی ایک چیک پوسٹ پر خودکش حملہ کیا گیا۔ حملے سے پہلے حملہ آور نے اپنے سگے ماموں راشد ابراہیم الصفیان کو قتل کر دیا کیونکہ وہ سعودی فوج میں اعلیٰ افسر تھا۔
افسوس کہ والا شب ِ عید اپنے سگے بھانجے کے ہاتھوں شہید ہوگیا۔ پھر گذشتہ آٹھ برس سے صہیونی فوجوں اور جنرل سیسی کے ہاتھوں محصور اہلِ غزہ کے خلاف اعلانِ جنگ میں کہا گیا ہے کہ ’’ہم عنقریب غزہ آرہے ہیں۔ اگر کسی نے مزاحمت کی تو وہاں خون کے دریا بہہ جائیںگے‘‘۔
ریاض شہر کے سابق الذکر واقعے کے بعد وہاں داعش یا دیگر مسلح تنظیموں سے تعلق کے شبہے میں ۵۰۰ کے قریب افراد گرفتار کرلیے گئے۔ اس واقعے کی خبر اسرائیلی اخبارات میں ملاحظہ کیجیے: ’’غزہ میں موجود داعش کے ذمہ داران نے خبردار کیا ہے کہ ہم ریاض میں ہونے والی گرفتاریوں کا بدلہ لیں گے‘‘۔ یہ خبر ۱۹جولائی کو شائع ہوئی اور ۲۰جولائی کی صبح غزہ میں حماس اور جہاد اسلامی کے ذمہ داروں کو نشانہ بناتے ہوئے پانچ بم دھماکے ہوگئے۔ ممکن ہے کہ یہ دھماکے داعش نے نہ کیے ہوں، لیکن ان کے بیان کے بعد ہرشخص کا ذہن سب سے پہلے ادھر ہی جاتا ہے۔
داعش کے بارے میں دنیا میں ہر طرف بہت کچھ لکھا جا رہا ہے۔ بظاہر ساری دنیا اس کی دشمن دکھائی دیتی ہے۔ امریکی سربراہی میں ۴۰ ممالک نے اس کے خلاف باقاعدہ جنگ شروع کررکھی ہے۔ ۵۵۰؍ارب ڈالر اس جنگ کا بجٹ رکھا گیا ہے، لیکن شام کے مختلف علاقوں پر قبضے کے بعد جنوری ۲۰۱۴ء میں اچانک عراق کے وسیع علاقوں پر قابض ہونے، اور اپنی ریاست کا اعلان کرنے سے لے کر اب تک اس کے علاقوں، افرادی قوت اور اسلحے میں اضافہ ہی ہوا ہے، کوئی کمی نہیں ہوئی۔ جدید ترین اسلحے اور گاڑیوں کی نمایش کئی کئی فرلانگ لمبے جلوسوں کی صورت میں کی جاتی ہے۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ایک ایک گاڑی اور ایک ایک جھونپڑی کو ڈرون حملوں سے اُڑا دینے والے امریکا کو دشمن کا یہ طویل جلوس اور نمایش کبھی دکھائی نہیں دیے۔
اس بارے میں، میں مزید حقائق تلاش کر رہا تھا کہ عراق سے الاخوان المسلمون کے ایک بزرگ اور مرکزی رہنما نے ہاتھ سے لکھا، اپنا تجزیہ مطالعے کے لیے ارسال کیا۔ اس تجزیے کے اہم نکات اور خلاصہ پیش خدمت ہے: ’’سوویت یونین کے خاتمے (اکتوبر ۱۹۱۷ئ- دسمبر ۱۹۹۱ئ) کے بعد امریکی پالیسی ساز اداروں کے لیے اپنا کوئی نیا دشمن ایجاد کرنا ضروری تھا۔ واشنگٹن نے ’اسلامی بنیاد پرستی‘ اور ’اسلامی دہشت گردی‘ کے نام پر دشمن ایجاد کرلیا۔ وسیع تر مشرق وسطیٰ کو جس میں افغانستان، پاکستان، ایران، خلیجی ریاستوں اور تمام اہم عرب ممالک سے لے کر ترکی تک سب ممالک شامل تھے، اس نئے دشمن کے خلاف جنگ میں ناکامی یا کامیابی کا اصل پیمانہ قرار پایا۔ بعض اہم ممالک میں عرب بہار اور اس کے نتیجے میں سیاسی اسلام (یعنی اسلامی تحریکوں) کی کامیابی سے امریکا کو اپنے مفادات خطرے میں پڑتے دکھائی دیے۔ گذشتہ صدی کے آغاز میں سایکس پیکو (۱۹۱۶ئ)، سان ریمو (۱۹۲۰ئ) اور لوزان (۱۹۲۳ئ) معاہدوں کے مطابق خطے کی تقسیم میں مزید ترمیم کا فیصلہ پہلے ہی کیا جاچکا تھا۔ اب اس نقشے میں رنگ بھرتے ہوئے تقسیم در تقسیم کا نیا مرحلہ شروع کر دیا گیا۔ اکتوبر ۲۰۰۱ء میں شروع کی جانے والی جنگ افغانستان ابھی عروج پر تھی کہ مارچ ۲۰۰۳ء میں عراق میں بھی فوجیں اُتار دی گئیں۔ تمام تر مذہبی اور نسلی فتنہ پردازیوں اور ۲۰۰۶ئ،۲۰۰۷ء میں بدترین خانہ جنگی کے بعد امریکا نے اس جنگ کو کسی منطقی نتیجے تک پہنچائے بغیر وہاں سے نکلنے کا اعلان کردیا۔ اس عرصے میں تمام عالمی رپورٹوں کے مطابق عراق دنیا کی ناکام ترین ریاستوں میں سرفہرست آگیا‘‘۔
عراقی رہنما مزید لکھتے ہیں: ’’داعش مختلف مواقع اور واقعات کی روشنی میں مسلسل توانا ہوتی چلی گئی۔ عراق میں امریکی فوجوں کی آمد کے بعد اصل مزاحمت وہاں کی اہلِ سنت آبادی کر رہی تھی۔ امریکا اور عراق کی شیعہ حکومتوں نے اہلِ سنت آبادی سے انتقام لینے کے لیے ’القاعدہ‘ کا نام استعمال کیا۔ لیکن پھر جب اہلِ سنت آبادی نے اکثر علاقوں سے ’القاعدہ‘ کا تقریباً صفایا کردیا تو اس موقعے پر مختلف فرضی کارروائیوں کے ذریعے اسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جانے لگا، مثلاً ابوغریب اور تکریت جیل سے قیدیوں کو رہا کروا کر لے جانا۔ پھر اچانک بغداد کے بعد عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل پر بآسانی داعش کا قبضہ ہوگیا۔ اتنا بآسانی کہ خود داعش کو بھی اس پر حیرت ہوئی۔ عراقی وزیراعظم نوری المالکی اور اس کی حکومت داعش کے اس قبضے کے ذریعے اہلِ سنت آبادی سے انتقام لینا چاہتے تھے۔ داعش نے کسی مزاحمت کے بغیر تین سے چار سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کرلیا۔ اہلِ سنت اکثریتی آبادی کے شہر انبار کے گورنر کا کہنا ہے کہ میں عراقی وزیردفاع، فضائیہ کے سربراہ اور فوجی آپریشنز کے انچارج سے رابطہ کر کے انھیں داعش کا راستہ روکنے اور کوئی کارروائی کرنے کا کہتا رہا، لیکن انھوں نے چپ سادھے رکھی۔ موصل شہر کے سیکورٹی چیف نے واضح طور پر کہہ دیا کہ داعش کے سامنے مزاحمت کیے بغیر پسپا ہوجانے اور اپنا اسلحہ وہیں چھوڑ جانے کا حکم براہِ راست عراقی وزیراعظم کی طرف سے ملا ہے‘‘۔ عراقی اخوان رہنما نے اس تجزیے میں مستقبل کی ممکنہ صورتوں پر بھی تفصیلی بات کی ہے جن سب کا نچوڑ یہی ہے کہ خطے میں یہ سب شروفساد ’منظم انتشار‘ نامی امریکی منصوبے کا حصہ ہے۔ طے شدہ اہداف اور ضروریات کے مطابق مختلف مہروں کو استعمال میں لایا جاتا رہے گا۔ ان کے خلاف جنگ بھی لڑی جائے گی اور انھیں باقی بھی رکھا جائے گا اور بالآخر پورے خطے کو مزید ٹکڑوں میں تقسیم کردیا جائے گا۔
اس موقعے پر ایک صہیونی مضمون نگار عوفرہ بانجو کی تحریر بعنوان: ’کردستان اور داعش نئے علاقائی نقشہ گر‘ کا حوالہ بھی اہم ہے۔ لندن سے شائع ہونے والے عرب روزنامے’ العربی ۲۱‘ میں اس کا مکمل ترجمہ شائع ہوا ہے۔اس کی تحریر کا نچوڑ بھی یہی ہے کہ: ’’عراق اور شام اب کبھی ماضی کے عراق اور شام نہیں بن سکیں گے۔ اب بغداد حکومت، کردستان اور داعش کی ایک گنجلک تکون مستقبل کا نقشہ تشکیل دے گی‘‘۔ عوفرہ اس امرپر بھی اظہار اطمینان کرتا ہے کہ داعش اور اس کی شدت پسندی نے عراق، کردستان اور شام میں سیاسی اسلام (یعنی الاخوان المسلمون ) کے اثرونفوذ میں خاطر خواہ کمی کی ہے۔
اسرائیلی تجزیہ نگار کے مطابق کردستان کو موجودہ صورت حال میں جو اہم نقصان ہوا، وہ یہ ہے کہ اس کی آزادی (یعنی علیحدگی) کے لیے مجوزہ ریفرنڈم میں تاخیر ہو رہی ہے، لیکن اس کے مقابل اسے دو اہم فوائد ملے ہیں۔ ایک یہ کہ اسی ہنگامے کے دوران اس نے تیل کے ان اہم علاقوں پر قبضہ کرلیا ہے جو بغداد کسی صورت چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ دوسرا یہ کہ داعش کی سفاک شناخت کے مقابل کردستان ایک مہذب اور انسان دوست ریاست کی حیثیت سے اُبھرا ہے۔ داعش لوگوں کو غلام اور ان کی خواتین کو باندیاں بنارہا ہے اور کردستان لاکھوں مہاجرین کو پناہ دے رہا ہے۔
اسرائیلی تجزیہ نگار اس امر پر بھی اطمینان آمیز حیرت کا اظہار کرتا ہے کہ وہ بہت سے کام جو ملکوں کی باقاعدہ افواج انجام نہیں دے سکیں، مسلح ملیشیا انجام دے رہی ہیں۔ اس موضوع پر گذشتہ مارچ کے ماہنامہ المجتمع میں ایک مضمون شائع ہوا تھا کہ استعماری اور جارح افواج کس طرح اپنے مقبوضہ علاقوں میں خود وہیں سے ایسی عوامی تحریکیں کھڑی کرتی ہیں کہ جو اپنے ہم وطنوں اور ہم مذہب افراد کو دشمن افواج سے بھی زیادہ سفاکیت سے تہِ تیغ کرتی ہیں۔ فرانسیسی فاتح نپولین نے مصر پر قبضہ کیا تو ’یعقوب المصری‘ نامی غدارِ ملّت اور اس کی تحریک کی سرپرستی کی۔ الجزائر پر فرانسیسی قبضہ کرتے ہوئے ’الحرکیون‘ نامی تحریک شروع کروائی گئی۔ ۱۹۶۲ء میں الجزائر آزاد ہوا تو فرانسیسی جنرل ڈیگال نے ان کا ذکر کرتے ہوئے یہ ہتک آمیز جملہ کہا: ’’یہ لوگ تاریخ کا ایک کھلونا تھے، محض ایک کھلونا‘‘۔ ویت نام میں امریکیوں نے ’اسٹرے ٹیجک بستیوں‘ کے نام سے ۱۶ہزار خائن بستیاں تیار کیں۔
عراق اور شام ہی نہیں خطے کے کئی ممالک میں اس وقت یہی کھیل جاری ہے۔ بدقسمتی کی انتہا یہ ہے کہ مسلم ممالک میں ہرجگہ تقریباً ایک ہی نسخہ آزمایا جا رہا ہے اور ہم دیکھتے بھالتے دشمن کے بچھائے جال میں پھنستے چلے جاتے ہیں۔ ایسی فضا میں ہر ملک یا گروہ اپنے اپنے دشمنوں پر وہی لیبل لگانا شروع کر دیتا ہے جس کے خلاف راے عامہ تیار کی گئی ہو۔ اس وقت اخوان کو شام اور عراق میں داعش نے اپنی سنگین کارروائیوں کا نشانہ بنایا ہے لیکن جنرل سیسی، بشارالاسد اور حوثی قبائل سمیت بہت سے لوگ کمال بددیانتی سے اخوان ہی کو داعش کا سرپرست قرار دے رہے ہیں۔ عیدالفطر کے تین روز بعد ترکی کے سرحدی شہر سروج میں خودکش حملہ کرکے داعش نے۳۱شہری شہید کردیے اور دوسری طرف ترک صدر طیب ایردوان کے مخالفین انھیں مسلسل داعش کا مددگار قرار دے رہے ہیں۔دشمن ایجاد کرنے کی جو بات آغاز میںگزری، وہ طویل عرصے تک عالمِ اسلام میں اپنے زہرآلود پھل دیتی رہے گی۔ امریکا، اسرائیل اور آمر حکمرانوں کو اپنے لیے یہی صورت حال مثالی اور مطلوب دکھائی دیتی ہے۔ جابر حکمران چونکہ خود بھی ایک عارضی مہرہ ہوتے ہیں، اس لیے انھیں حتماً اور جلد اس ظلم کا انجام دیکھنا ہوگا، لیکن امریکا اور اسرائیل جو اس پوری فتنہ گری میں خود کو محفوظ و مامون سمجھ رہے ہیں، خود بھی یقینا اپنے انجام کو پہنچیں گے کہ یہی قانونِ فطرت ہے۔
عالمِ اسلام کے لیے اصل راہِ نجات قرآن کریم اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوئہ حسنہ ہے۔ آپؐ کی اُمت کو رب ذوالجلال نے اُمت ِ وسط، یعنی راہِ اعتدال پر چلنے والی اُمت قرار دیا ہے۔ کسی بھی انتہا کا شکار ہو جانا اس کے لیے موت کا پیغام ہے۔ آج اگر ایک طرف اسلام کی تمام بنیادی اصطلاحات: جہاد، اسلامی ریاست، اسلامی خلافت، امیرالمومنین، خلیفۃ المسلمین، حتیٰ کہ قرآن کریم اور رسولِؐ رحمت کو مذاق و استہزا کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، تو دوسری طرف جہاد، شریعت، اسلامی حدود اور قوانین کو اپنے ہرمخالف کا صفایاکردینے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ بزعم خود امیرالمومنین کی بیعت سے انکار کو ارتداد اور ہرمرتد کو قابلِ گردن زدنی قرار دیا جا رہا ہے۔خود یہ امر بھی انتہائی باعث ِ حیرت ہے کہ اس کے تمام تر ظلم و ستم کا اصل نشانہ خود مظلوم مسلمان ہی بنتے ہیں۔ شامی آمر بشارالاسد جیسا درندہ اور اس کی فوج ان سے محفوظ رہتی ہے، لیکن اس سفاک درندے سے برسرِپیکار مظلوم عوام اور ان کی مزاحمتی تحریک کو وہ چُن چُن کر موت کے گھاٹ اُتار دیتے ہیں۔ غزہ کے محصور و بے کس عوام کو دھمکیاں دے رہے ہیں، صہیونی ناجائز ریاست کے بارے میں کچھ نہیں فرماتے۔
انبیاے کرام ؑ کے بعد محترم ترین ہستیوں، یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں بھی کچھ لوگ راہِ اعتدال سے ہٹ کر ایسی ہی انتہا پسندی کا شکار ہوگئے تھے۔ اُمت انھیں ’خوارج‘ کے نام سے یاد کرتی ہے۔ وہ بھی اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ (یوسف ۱۲:۴۰)جیسی لازوال حقیقت سے روشنی حاصل کرنے کے بجاے، اپنے علاوہ سب کو مرتد قرار دینے جیسی ہلاکت کا شکار ہوگئے تھے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ کے الفاظ میں کلمۂ حق کہہ کر اس سے مراد باطل لیتے تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ: ’’ان کی تلاوت، ان کی نمازوں اور ان کے روزوں کے سامنے تمھیں اپنی تلاوت، اپنی نمازیں اور اپنے روزے کم تر دکھائی دینے لگیں گے۔ لیکن وہ ایسے لوگ ہوں گے کہ قرآنِ کریم ان کے حلق سے نیچے نہیں اُترا ہوگا۔ وہ دین سے یوں نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے‘‘۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے: ’’وہ اہلِ اسلام کو قتل کرتے اور اہلِ اوثان کو چھوڑ دیتے ہیں‘‘۔ بالآخر ان کی کج فہمی اور ’زعم تقویٰ‘ نے انھیں ایک ہی شب حضرت معاویہ ، حضرت علی اور حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہم جیسی جلیل القدر ہستیوں تک کو شہید کرنے پر آمادہ کر دیا۔
اُمت کی بدقسمتی یہ ہے کہ صدیوں پرانے اس فتنے کو جس کے پیچھے سراسر منافقین اور یہودیوں کی دسیسہ کاری شامل تھی، آج بھی اپنی تباہی کا ذریعہ بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ شیعہ سُنّی یا خوارج کی اصطلاحیں صرف کسی مخصوص گروہ ہی کا نام نہیں بلکہ ایک مخصوص ذہنیت اور طریق کار کا نام بھی ہے۔ آج کا عالمِ اسلام بُری طرح اس تقسیم کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ جلتی پر تیل کا کام نسلی، لسانی، علاقائی اور سیاسی تعصبات سے لیا جا رہا ہے۔ عراق اور شام کا خونی نقشہ اب یمن تک پھیل چکا ہے۔ القاعدہ کے بعد داعش اور بعض مغربی دستاویزات کے مطابق داعش کے بعد کوئی اور ایسی تنظیم سامنے لائی جانا ہے، جس کے سامنے داعش کا نام بھی ہلکا لگنے لگے۔ کاش! کہ ہم سب کسی نہ کسی تعصب کا شکار ہوکر خود کو دھوکا دینے کے بجاے صرف اور صرف حق و انصاف کا ساتھ دینے والے بن جائیں۔ ظلم کرنے والا خواہ بشارالاسد ہو یا جنرل سیسی، داعش ہو یا باغی حوثی قبائل، ہم میں سے کوئی ان کی حمایت یا دفاع نہ کرے۔ مظلوم خواہ کویت یا سعودی عرب کی کسی امام بارگاہ میں مارا جائے یا عراق و یمن کی کسی مسجد میں، اللہ ہمیں ہمیشہ اس مظلوم کے شانہ بشانہ کھڑا دیکھے۔ بے گناہ قیدی مصر کی جیلوں میں ہوں یا فلسطین، بنگلہ دیش، کشمیر،اراکان اور افغانستان کے زندان خانوں میں ہمیں ان کی آزادی کے لیے ہر دروازے پر دستک دینا ہوگی۔ ایسا نہ ہوا تو خدانخواستہ ایک روز سب ہی کو ایسے روزِ بد دیکھنا پڑ سکتے ہیں والعیاذ باللّٰہ۔
۷جون ۲۰۱۵ء کو ترکی میں ہونے والے انتخابات کئی حوالوں سے بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ اگرچہ حسب سابق حکمران جسٹس پارٹی(AKP) ہی سب سے بڑی پارٹی کی حیثیت سے سامنے آئی اور اسے ۵۵۰ میں سے ۲۵۸ نشستیں حاصل ہوئیں، لیکن یہ نشستیں تنہا حکومت بنانے کے لیے درکار تعداد سے ۱۶ نشستیں کم ہیں۔ دنیا بھر میں پھیلے مخالفین کے لیے بس یہی بات شادیانوں کا پیغام لائی ہے۔ وگرنہ پارلیمنٹ میں آنے والی باقی تین پارٹیاں اس سے کہیں پیچھے کھڑی ہیں۔ کمال اتاترک کی جماعت CHP صرف ۱۳۲، جب کہ ترک نیشنلسٹ(MHP)اور کرد نیشنلسٹ(HDP) صرف ۸۰،۸۰سیٹیں حاصل کرسکی ہیں۔ المیہ ملاحظہ کیجیے کہ حکومت سازی کے لیے درکار تعداد سے ۱۶نشستیں کم ہونے پر بغلیں بجانے والے جانتے ہیں کہ اس کامطلب ملک میں مخلوط حکومت کا قیام ہے۔
حالیہ نتائج آنے کے اگلے ہی روز سے ترکی میں سٹاک مارکیٹ بیٹھنا اور کرنسی کی قیمت کم ہونا شروع ہوگئی ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ ۲۰۰۲ء میں طیب اردوان کی پہلی بار جیت سے پہلے، ملک میں لوٹ مار کا جو طویل سفر جاری رہا، اس کا ایک اہم سبب یہ مخلوط حکومتیں ہی ہوتی تھیں۔ ترک تاریخ میں تقریباً ۶۰ مخلوط حکومتوں کا سارا عرصہ حکومت سازی کے لیے جوڑ توڑ اور کرپشن ہی میں ختم ہوجاتا۔ یہ طیب اردوان کی جسٹس پارٹی ہی تھی، جس نے ملک کو ان دونوںلعنتوں سے نجات دلائی اور ملک میں تعمیر و ترقی کا نیا سفر شروع ہوا۔ ترکی جہاں طیب حکومت آنے سے پہلے ترقی کی شرح منفی ۹تک گر چکی تھی، اب اسی ترکی میں ترقی کی شرح ۹ فی صد سے بھی آگے بڑھ رہی ہے۔ ترکی اب دنیا کے طاقت ور ترین ممالک کی صف میں جا کھڑا ہوا ہے۔ ایک بار وزیراعظم احمد داؤد اوغلو سے اس کا راز پوچھا گیا تو انھوں نے مختصر دو لفظی جواب دیا:’’امانت و دیانت‘‘۔ طیب اردوان اور ان کے استاد پروفیسر نجم الدین اربکان نے اللہ کی توفیق سے ہمیشہ امانت اور محنت ہی کے ذریعے کامیابیاں حاصل کیں۔
تکلیف دہ امر یہ ہے کہ کامیابی کی منزلیں طے کرتے ہوئے ترکی کو دوبارہ اسی سیاست کی دلدل میں دھنس جانے پر جہاں اسرائیلی اور صہیونی لابی نے جشن منایا، وہاں بعض مسلم ممالک کے حاکموں نے بھی خوب بغلیں بجائیں۔ ایران اور متعدد عرب ممالک سے لے کر یورپ اور امریکا کے اخبارات، تقریباً سب کی سرخیاں یکساں تھیں:’عثمانی خلافت کا خواب بکھر گیا‘۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اس وقت پورے عالم اسلام میں جہاں بھی کسی پر ظلم ڈھایا گیا طیب حکومت وہاں پہنچی۔ میانمار برما سے جان بچاکر نکلنے والے ہزاروں افراد کو پڑوسی مسلم ملک بنگلہ دیش نے تو گولیاں برساکر شہید کردیا یا واپس دھکیل دیا لیکن ترک بحری جہاز ان کی مدد کے لیے پہنچے۔ طیب اردوان اور وزیراعظم احمد داؤد اوغلو کئی ترک اداروں کو لے کر خود برما پہنچے اور زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کی۔ صومالیہ تقریباً نصف صدی سے خانہ جنگی اور قتل و غارت کا شکار ہے، وہاں نہ صرف ترک حکومت کی رفاہی سرگرمیاں عروج پر ہیں، بلکہ وہ وہاں مصالحتی کاوشوں کے علاوہ ان کی اقتصادی حالت بھی بہتر بنانے کی دوررس کوششیں کررہی ہے۔ بنگلہ دیش میں پھانسیوں پر چڑھائے جانے والے بے گناہ ہوں یا مصر میں منتخب حکومت کے خلاف برپا ہونے والا بدترین خونی فوجی انقلاب، صرف ترکی ہی ان کے خلاف سرکاری اور عوامی سطح پر صداے احتجاج بلند کررہا ہے۔
گذشتہ آٹھ برس سے محصور غزہ کے لیے فریڈم فلوٹیلا ترک تنظیمیں ہی لے کر نکلی تھیں، جس میں ۱۱شہری شہید ہوگئے۔ لیکن اس کے باوجود وہ اہل غزہ کی مسلسل پشتیبانی کررہے ہیں۔ اس وقت، یعنی دمِ تحریر ایک اور امدادی قافلہ یورپ سے روانہ ہو کر ترکی آرہا ہے، جہاں سے اس ماہ کے اختتام تک وہ دوبارہ غزہ جانے کی کوشش کریں گے۔شام کے ۴۰لاکھ مہاجرین ترکی میں پناہ گزیں ہیں۔ عالمی امدادی ادارے زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں کررہے۔ پورے کا پورا بوجھ ترکی پر آن پڑا ہے، اور وہ کوئی حرفِ شکایت زبان پر لائے بغیر ان کی مدد کررہاہے۔ عالمی اور علاقائی طاقتیں، ترکی کی مدد کے بجاے اس انتظار میں ہیں کہ ترکی کب اس مالی بوجھ سے گرجاتا ہے۔ لیکن طیب اردوان کاکہنا ہے کہ ہم سنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل درآمد کرتے ہوئے انصار و مہاجرین کے مابین مواخات کا یہ سفر جاری رکھیں گے۔
اخوت اور اسلامی یک جہتی کے ساتھ ساتھ طیب حکومت اپنے ملک اور قوم کی ترقی سے بھی قطعاً غافل نہیں۔ انتخابات سے دو روز بعد عالمی بنک کی رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ ملکی انفراسٹرکچر کی وسعت و ترقی کے لیے سرکاری اور نجی منصوبوں پر سرمایہ کاری کے لحاظ سے ۲۰۱۴ئمیں ترکی پوری دنیا میں دوسرے نمبر پر رہا ہے۔
ایک طرف ہر مظلوم کی مدد کے لیے لپکنے والا یہ غیرت مند ترکی ہے، اور دوسری طرف اپنے عوام پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑنے والے سفاک حکمران ہیں جو ملکی دولت کو شیر مادر کی طرح ڈکارتے جارہے ہیں۔ ۱۸ جون کو سوئٹزر لینڈ کے اسٹیٹ بنک کی رپورٹ ہی ملاحظہ کرلیجیے کہ صرف ۲۰۱۴ء کے دوران سوئٹزر لینڈ کے بنکوں میں اپنی دولت کے ڈھیر لگانے والوں کی دولت میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ بنگلہ دیش جیسے بھوک سے بلکتے ملک سے آنے والے سرمایے میں صرف ایک سال (۲۰۱۴ئ) کے دوران ۵۵ئ۳۶ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سارا پیسہ لوٹ مار ہی کا پیسہ ہوگا۔ بفرض محال لوٹ مار کا نہ بھی ہو تب بھی اس کا اصل مقام سوئٹزر لینڈ کے بنک نہیں،اپنے دیس کے مظلوم عوام ہونے چاہییں۔
لوٹ مار کرنے والے ان حکمرانوں کے مقابلے میں اور ترکی کو ۲۰۲۳ء تک دنیا کا کامیاب ترین ملک بنانے کا خواب دیکھنے والے اردوان میں یہی بنیادی فرق ہے کہ جس کے باعث ایک جہان ان کی دشمنی پر کمر بستہ ہے۔ طیب اردوان یا ان کی جماعت سے یقینا غلطیاں ہوئی ہیں اور مزید ہوسکتی ہیں، لیکن ان پر لگائے جانے والے الزامات میں بھی یقینا بہت مبالغہ آرائی ہے۔ طیب اردوان چند ماہ پیش تر ہی نئے صدارتی محل میں منتقل ہوئے ہیں۔ ان کے کئی بہی خواہ اس محل کی تعمیر کو اسراف سمجھ رہے ہیں۔ اگرچہ طیب اردوان کا کہنا یہ ہے کہ اس کے سیکڑوں کمروں میں علمی تحقیق کے درجنوں مراکز قائم کیے گئے ہیں اور یہ محل، ترقی یافتہ مضبوط ترکی کی علمی، فکری، تہذیبی اور تحقیقاتی ترقی کی ایک علامت بنے گا، لیکن یہ بات پوری طرح منتقل نہ ہوسکی۔
اگرچہ طیب اردوان اور ان کی ٹیم کی بنیادی صفت ہی کرپشن سے محفوظ رہنا ہے، تاہم ان پر کرپشن کے الزامات نے انھیں بعض مواقع پر مشتعل بھی کیا ہے۔ وہ کرپشن کے بے سروپا الزامات لگانے والے کئی صحافیوں کو بھی عدالت کے کٹہرے میں لائے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان پر صحافت دشمنی کے طعنے بھی کسے گئے ہیں۔ حالیہ نتائج کے بعد پورے نظام اور بالخصوص اپنے ساتھیوں کی کڑی نگرانی، جائزے اور خود احتسابی مستقبل کے کئی طوفانوں کا سدباب کرے گی۔
۲۴ جون کو طیب اردوان نے وزیراعظم احمد داؤد اوغلو کو باقاعدہ طور پر حکومت سازی کی دعوت دی ہے۔ اس کے ۴۵ روز کے اندر اندر انھیں دوسروں کے ساتھ مل کر یا پھر اقلیتی حکومت بنانا ہوگی۔ اقلیتی حکومت کا مطلب ہے کہ حکومت سازی کے لیے مطلوب مزید ۱۶ ووٹ انھیں مل جائیں لیکن وہ حکومت کا حصہ نہ بنیں۔ اگر ایسا بھی نہ ہوسکا تو پھر ملک میں دوبارہ انتخابات ہوں گے۔ بعض تجزیہ نگار تو بہرصورت آیندہ سال کو نئے انتخابات کا سال قرار دے رہے ہیں۔ حکومت اگر اپنی کمزوریوں کا خود جائزہ لے کر ان کی اصلاح کرنے میں کامیاب رہی تو یقینا آیندہ نتائج حالیہ سے مختلف اور بہتر ہوں گے۔
جسٹس پارٹی کی چند سیٹیں کم ہونے کی ایک بنیادی وجہ پہلی بار کسی کرد پارٹی کا پارلیمنٹ میں آنا ہے۔ کرد کئی عشروں سے ناانصافیوں کا موقف لیے مسلح کارروائیوں میںملوث ہوگئے تھے۔ اتاترک نے ان پر ترک قوم پرستی کے کئی طوق مسلط کررکھے تھے۔ بالآخر وہ سیاسی پارٹی کی حیثیت سے پارلیمنٹ میں آنے میں کامیاب رہے۔ پہلے کرد ووٹ کا تقریباً ۴۰ فی صد جسٹس پارٹی کو ملتا تھا، اس بار وہ سب کرد لہر میں بہ گیا۔ گویا جسٹس پارٹی نے سیاسی حکمت عملی سے کردوں میں اپنی اکثریت کی قربانی دے کر باغی مسلح عناصر کو پرامن سیاسی جدوجہد پر آمادہ کرلیا۔
کرد قوم پرستی کی لہر کتنی شدید ہے اس کا اندازہ اس واقعے سے لگایا جاسکتا ہے: جنرل پرویز مشرف کا زمانہ تھا کہ جب ایک روز ایک ترک خاتون پریشان حالت میں اپنی تین نوجوان بیٹیوں اور ایک بیٹے سمیت پاکستان آئی۔ وہ ایرانی سرحد عبور کرکے بلوچستان میں داخل ہوئی، اسلام اور اسلامی جماعت کے بارے میں دریافت کیا تو لوگوں نے انھیں جماعت اسلامی کے صوبائی دفتر پہنچا دیا۔ وہاں کے ساتھیوں نے ان کی بات سن کر ایک ذمہ دار کو ہمراہ بھیجا اور وہ انھیں لے کر مرکز جماعت اسلامی منصورہ لاہور آن پہنچا۔ ہم نے ان کی بپتا سنی تو معلوم ہوا کہ خاتون اور ان کی تینوں بیٹیاں حجاب، یعنی سر پر سکارف رکھنا چاہتی ہیں، لیکن ترک سیکولر قوانین میں اس کی گنجایش نہیں۔ حجاب کے حق میں ہونے والے ایک مظاہرے میں شرکت کے بعد ان تینوں پر ایسے جھوٹے مقدمات قائم کردیے گئے کہ جن کی سزا موت تک بھی ہوسکتی ہے۔ یہ خاندان جس کے سر پر کوئی مرد نہیں بچا، اپنی جان بچانے کے لیے پاکستان آیا ہے۔ محترم قاضی حسین احمد مرحوم و مغفور سے مشاورت و رہنمائی کے بعد ان کے پاکستان میں رہنے کے لیے انتظامات کردیے گئے۔ مختلف مشکلات و مسائل کے باوجود یہ خاندان تقریباً ڈیڑھ سال پاکستان رہا اور بالآخر ترکی واپس چلا گیا۔ واپس جاتے ہی ماں اور بچیاں گرفتار کرکے جیل بھیج دی گئیں۔ ایک بیٹی اسی دوران اللہ کو پیاری ہوگئی۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ کچھ عرصے بعد ماں اور باقی دونوں بیٹیاں رہا ہوگئیں اور اب خوش و خرم زندگی گزار رہی ہیں۔ طیب اردوان اب ان اور ان جیسی کروڑوں خواتین کے حجاب پر سے پابندیاں ختم کروانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
ان کی اس داستان کے کئی مزید پہلو بہت اہم ہیں، لیکن یہاں بتانا یہ مقصود ہے کہ ہماری یہ باحجاب بہن ہدی کایا حالیہ انتخابات میں رکن پارلیمنٹ بن گئی ہیں اور اصل خبر یہ ہے کہ وہ جسٹس پارٹی نہیں کرد نیشنلسٹ پارٹی کی طرف سے رکن بنی ہیں۔ یہ پارٹی یقینا اسلامی شناخت نہیں رکھتی لیکن اگر ہدی کایا جیسی مجاہد خاتون جو حجاب کی خاطر ہجرت اور اسیری تک برداشت کرتی رہی، جسٹس پارٹی کے بجاے کرد پارٹی میں چلی گئی ہے، تو خود ہی اندازہ لگا لیجیے کہ جسٹس پارٹی کی کم سیٹوں کے پیچھے شیطانی دنیا کے ابلاغیاتی نظام اور دولت کے ڈھیروں کے علاوہ بھی کون کون سے اندرونی عوامل اثر انداز ہوئے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر بلکہ باعث شکر ہے کہ وہی اسمبلی جہاں کبھی ایک باحجاب خاتون مروہ قاوقچی کے منتخب ہوجانے پر بھونچال آگیا تھا، اب وہاں ہدی کایا اور مروہ قاوقچی کی بہن روضہ قاوقچی جیسی ۱۹ خواتین اپنی اسلامی شناخت، یعنی باوقار حجاب کے ساتھ موجود ہیں۔
بنگلہ دیش، تھائی لینڈ، چین، لائوس، بھارت اور خلیج بنگال کے درمیان گھرا ہوا میانمار (برما) مسلم اقلیت کے ساتھ جو ظالمانہ و وحشیانہ سلوک روا رکھے ہوئے ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔
بُدھ دہشت گردوں (جنھیں حکومت کی سرپرستی حاصل ہے)نے مسلم رُوہنگیا آبادی کو دو ہی راستے فراہم کیے۔ یہاں سے فرار ہوجائو، ورنہ پوری آبادی کو جلاکر راکھ کردیا جائے گا۔ ۱۰۰، ۱۰۰؍ افراد پر مشتمل رُوہنگیا مسلمانوں کے قافلے چھوٹی کشتیوں پر بٹھا کر کھلے پانیوں میں نامعلوم منزل کی طرف دھکیل دیے گئے کہ یہاں سے نکل کر کہیں پناہ تلاش کرو یا سمندر میں ڈوب مرو۔
۱۳ سے ۱۵ لاکھ رُوہنگیا آبادی کے بارے میں اُن کا یہی دعویٰ ہے کہ یہ مسلم لوگ بنگال سے ترکِ وطن کرکے برما میں زبردستی آگئے تھے۔ یہ بنگالی غیرملکی ہیں، اجنبی ہیں، انھیں واپس جانا چاہیے، ان کی موجودگی غیرقانونی ہے۔
سابقہ فوجی بُدھ حکومت کی طرح موجودہ جمہوری حکومت بھی اراکانی رُوہنگیا مسلمانوں کو کسی قسم کے حقوق دینے کے لیے تیار نہیں۔ اگرچہ رُوہنگیا مسلمان یہاں ۵۰۰سال سے بھی زائد عرصے سے رہ رہے ہیں۔ اراکان کے نام سے اُن کی ریاست تھی۔ اراکانی ریاست کا نام بھی پانچ اراکینِ اسلام کی وجہ سے اراکان رکھا گیا تھا۔
مئی کے تیسرے ہفتے میں ملائیشیا کے ساحلی علاقوں سے کم و بیش ۱۳۵؍افراد کی لاشیں ملیں۔ اُنھیں بے سروسامانی ، بیماری اور غذائی قلت سے ہلاک ہونے والے رُوہنگیا شناخت کیا گیا۔ یہ حقیقت ہے کہ لاتعداد افراد ابھی سمندر میں موجود ہیں اور خدشہ ہے کہ ان کشتیوں کا پٹرول ختم ہوتے ہی یہ افراد غرق ہوجائیں گے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے حوالے سے رسائل و جرائد میں تصاویر بھی شائع ہوئیں۔ سیکڑوں رُوہنگیا مسلمان نوجوانوں کی کھلے سمندروں میں موجودگی کا پتا لگا۔ جب کہ انڈونیشیا، ملایشیا، تھائی لینڈ، آسٹریلیا، کمبوڈیا اور بنگلہ دیش کی سیکورٹی افواج ان کشتیوں کو ساحل تک پہنچنے ہی نہیں دیتیں، کجا یہ کہ ان کی جان بچائیں۔
خوراک کی عدم دستیابی، کشتیوں میں مسلسل موجودگی اور بدترین حالات کی وجہ سے ۵۰۰ سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ایک اہل کار نے خلیج بنگال سے ملحقہ ممالک سے اپیل کی کہ وہ سمندری قوانین کی پاس داری کرتے ہوئے کم از کم ان کی زندگی کو بچانے کی کوشش کریں اور ان کو عارضی قیام گاہیں فراہم کریں یا انسانی ہمدردی کی بنا پر جو کرسکتے ہوں کریں لیکن اس کا خاطرخواہ اثر نہ ہوا۔ تاہم تھائی لینڈکی حکومت نے فضائی ذرائع سے خوراک کی تقسیم کا معمولی سا سلسلہ شروع کیا لیکن خوراک اور پینے کے پانی کے حصول کے لیے چھیناجھپٹی کے دوران سمندر میں گرکر ہلاک ہونے والوں کی تعداد بھی دل دہلا دینے والی ہے۔ اس المیے کے بارے میں غور کے لیے انڈونیشیا، ملایشیا، تھائی لینڈ اور میانمار کے وزراے خارجہ کی میٹنگ ۲۱مئی کو طے کی گئی۔ مگر میانمار نے شرکت نہ کی اور موقف اختیار کیا کہ اس کانفرنس میں ’رُوہنگیا‘ کا لفظ استعمال کیا جارہا ہے۔ یاد رہے انتہاپسند بُدھ شہری اور سرکاری افراد اُس اجلاس میں شرکت ہی نہیں کرتے جہاں ’رُوہنگیا‘ لفظ استعمال ہو۔نوبل انعام یافتہ آن سان سوچی کی خاموشی بھی ناقابلِ فہم ہے۔
رُوہنگیا اپنے علاقے میں محدود رہتے ہیں۔ اُن کے علاقوں کے اردگرد بھاری فوج تعینات رہتی ہے۔ اپنے علاقے سے باہر نکلنا اُن کے لیے ممکن نہیں۔ کسی بھی وقت اُن پر مسلح دہشت گرد حملہ آور ہوجاتے ہیں۔ پولیس اور فوج اِن دہشت گردوں کی مددگار ہوتی ہے۔ کوئی ادارہ اُن کی آہ و بکا پر رپورٹ درج کرنے اور قانونی کارروائی کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ جبری مشقت کے ذریعے بھی وہ اراکانی مسلمانوں کو ختم کرنے یا سزا دینے پر عمل پیرا ہیں۔
۲۰۱۲ء میں بُدھ دہشت گردوں کے حملوں سے ڈیڑھ لاکھ افراد اپنے گھربار سے محروم کر دیے گئے تھے۔ ۸۰۰ ؍افراد ظالمانہ طریقے سے ہلاک کردیے گئے تھے۔ اُس وقت سے اب تک تنائو اور خوف کی کیفیت طاری ہے اور اسی دہشت کے نتیجے میں مسلمانوں کے لیے یہاں رہنا مشکل ترین بن کر رہ گیا ہے۔ ۲۰۱۲ء کے افسوس ناک واقعات کے بعد سے کشتیوں کے ذریعے جبری انخلا کہیے، فرار کہیے، یا انسانی اسمگلروں کا جال___ ایک لاکھ افراد میانمار چھوڑنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ اس سرگرمی میں بُدھ دہشت گرد بھی شامل ہیں جنھوں نے انسانی اسمگلروں کو قانونی تحفظ اور ایسی سہولتیں فراہم کر رکھی ہیں کہ وہ رُوہنگیا لوگوں کو اغوا کریں، قید کریں یا لالچ دیں اور انھیں کشتیوں میں بھر کر سمندر میں لے جائیں۔ رُوہنگیا قوم ’دُنیا کی انتہائی بے سہارا اور بے یارومددگار قوم‘ ہے۔ کشتیوں میں عموماً نوجوان کو سمگل ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے تاکہ مزاحمت کرنے والے باقی نہ رہیں اور بعد میں میانمار کی سرزمین پر بوڑھے لوگوں، عورتوں اور بچوں کا بآسانی صفایا کیا جاسکے۔ نوجوان مسلم لڑکیوں کی عصمت دری کی داستانیں اس کے علاوہ ہیں۔
نقشے پر دیکھا جائے تو میانمار راکھن صوبہ ( سابقہ اراکان ریاست) بھی بنگلہ دیش کے ساتھ جغرافیائی طور پر ملحق ہے۔ اس کی برما سے قربت سمندر کے ذریعے ہے۔ کئی ہزار اراکانی مسلمان گذشتہ برسوں سے بنگلہ دیش میں قیام پذیر ہیں۔ اُن کی داستانِ غم علیحدہ ہے۔ موجودہ المیے کے آغاز میں یہ خبریں بھی آئیں کہ کشتیوں میں سوار ہونے والے لوگوں میں بنگلہ دیش میں قیام پذیر رُوہنگیا بھی ہیں، تاہم بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد نے ساحلی پٹی پر تعینات سیکورٹی گارڈز کو یہ پیغام دینے کا موقع ضائع نہ کیا کہ ان کشتی سواروں میں سے کوئی بھی فرد بنگلہ دیش میں داخل نہ ہو۔ بنگلہ دیش کم از کم اُنھیں موت کے منہ میں جانے سے بچاسکتا ہے لیکن یہ کون سوچتا ہے۔ ۲۰۱۲ء میں بھی پناہ کے طلب گاروں کو بنگلہ دیشی حکومت نے ساحلی علاقوں پر نہ اُترنے دیا تھا۔ طوفانی لہروں کا مقابلہ کرنے والے کشتی والے دربدر انسانوں کا معاملہ بین الاقوامی برادری کے سامنے آیا تو امریکی صدر باراک اوباما نے صرف یہ بیان دینے پر اکتفا کیا کہ ’’برما کی حکومت کو چاہیے کہ وہ نسلی و لسانی بنیاد پر امتیاز ختم کرے‘‘۔ امریکا نے حسب معمول مسلمانوں کے قتلِ عام، بے دخلی ، نسلی تطہیر اور جلاوطنی کو برداشت کرلیا۔ گذشتہ ۵۰، ۶۰برس سے جو دہشت گردی میانمار کی حکومت مسلمانوں کے خلاف کر رہی ہے اُس کے خلاف امریکا ، روس اور چین نے کوئی بامعنی موقف اختیار نہیں کیا۔
میانمار کے اندر ایسے بُدھ بھکشو دندناتے رہے کہ جو اسلام کو اور مسلمانوں کا صفایا کرنے کی تعلیم دینے میں مصروف ہیں۔ چند بُدھ عبادت گاہوں سے باقاعدہ یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ اس سرزمین کو مسلم غیرملکیوں سے پاک کردو۔ ان کو زندگی سے محروم کردو۔ پیدایش اور موت کا اندراج، پاسپورٹ ، تعلیم، علاج، سفر، رہایش ایسے معاملات میں مسلمانوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ملازمت اور سرکاری اداروں میں عمل دخل کا سوال ہی نہیں۔ ان کے لیے زندہ رہنے کے لیے یہی راستہ چھوڑا گیا ہے کہ وہ باپ دادا کے نام بدھوں جیسے ظاہر کرکے بُدھ تہذیب اور کلچر کو اختیار کرلیں۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، نکاح چھوڑ دیں۔
پاکستان، بنگلہ دیش، سعودی عرب، انڈونیشیا، ملایشیا، برطانیہ سمیت دیگر ممالک میں چندہزار یا ایک لاکھ کے لگ بھگ جو اراکانی مسلمان موجود ہیں اُن کا مستقبل بھی محفوظ نہیں ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ وغیرہ نے مسئلے کو شدت سے اُٹھایا اور عالمی برادری کے سامنے اسے سمندروں میں تیرتے تابوت کی صورت میں پیش کیا۔ان تنظیموں کے نمایندوں نے جن الم ناک حالات کی نشان دہی کی وہ بیان سے باہر ہے۔
مادرِ وطن چھوڑ کر سمندروں میں زندگی اور ٹھکانے کی تلاش کرنے والے دربدر رُوہنگیا مسلمانوں کے حق میں ترکی کے علاوہ پاکستان میں بھی مختلف دینی تنظیموں نے مظاہرے کیے۔ حکومت پاکستان نے خصوصی کمیٹی بناکر اسلامی ممالک کی تنظیم سے بھی رابطہ کیا، اقوامِ متحدہ میں اس مسئلے کو اُٹھانے کا جائزہ لیا اور ۵۰لاکھ ڈالر کی امداد بھی مختص کی تاکہ اقوامِ متحدہ کے اداروں کے ذریعے اِن درماندہ لوگوں کی خوراک کا بندوبست کیا جاسکے۔
امیرجماعت اسلامی جناب سراج الحق نے اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو خط کے ذریعے اس کا فریضہ یاد دلایا کہ برما کی حکومت پر دبائو ڈال کر ان مسلمانوں کو اپنے وطن بھیجا جائے اور اقوامِ عالم کی توجہ اس طرف بھی مبذول کرائی کہ جنوبی سوڈان، مشرقی تیمور کی طرح اراکانی مسلمان بھی انسان ہیں، ان کے بھی حقوق ہیں اور ان کو کم از کم زندہ رہنے اور اپنی ہی سرزمین پر سانس لینے کی اجازت تو دی جائے۔ اراکان مسلمانوںکو اپنی ہی سرزمین پر رہنے کا حق دیا جائے۔ وگرنہ میانمار پر اقتصادی پابندیاں لگائی جائیں۔
بنگلہ دیشی اقتدار پر قابض حسینہ واجد، انسانی لہو کے جام پر جام پی رہی ہے۔ ہزاروں علما، طلبہ، سیاسی کارکنوں کے خون کی ہولی کھیلنے کے ساتھ، جس نے گذشتہ عرصے کے دوران جماعت اسلامی کے مرکزی رہنمائوں عبدالقادرمُلّا اور محمد قمرالزماں کو پھانسی دی۔ اب اس عمل میں تیزی لارہی ہے۔ اس خونیں کھیل کے لیے نام نہاد ’عالمی جنگی جرائم‘ کا ٹریبونل قائم کیا، جسے دنیا کے کسی باضمیر فرد نے عدالت تسلیم نہیں کیا۔ اسی کے ذریعے بنگلہ دیش جماعت اسلامی کی لیڈرشپ کو تہہ تیغ کیا جارہا ہے۔
بھارت کی کٹھ پتلی بنگلہ دیشی حکومت کا اگلا ہدف، جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے سیکرٹری جنرل علی احسن محمد مجاہد ہیں، جنھیں مذکورہ ٹریبونل نے ۱۷جولائی ۲۰۱۳ء کو سزاے موت سنائی تھی۔ انھوں نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی۔ ۲۷مئی ۲۰۱۵ء کو سپریم کورٹ نے اپیلیٹ بنچ تشکیل دیا تاکہ درخواست کو سرسری سماعت کے بعد ٹھکانے لگایا جائے۔
۱۶جون کو چیف جسٹس سریندر کمار سنہا کی سربراہی میں اپیلیٹ بنچ نے، علی احسن مجاہد کی اپیل مسترد کرتے ہوئے سزاے موت کو بحال رکھا۔ سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران اٹارنی جنرل محبوب عالم نے سرکاری موقف پیش کیا، جب کہ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی)کے مشیراعلیٰ خوندکر محبوب حسین اور ایس ایم شاہ جہاں نے علی احسن صاحب کی وکالت کی۔
علی احسن کے بیٹے علی احمد مبرور نے کہا: ’’ہمیں سپریم کورٹ سے انصاف نہیں ملا، اور اس فیصلے کے ذریعے ایک بار پھر انصاف کا قتل ہوا ہے‘‘، جب کہ اٹارنی جنرل محبوب عالم کے بقول: ’’سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ جاری ہونے کے بعد سزاے موت کے فیصلے پرعمل درآمد کردیا جائے گا‘‘۔
جنگی جرائم کے مقدمات میں عالمی شہرت یافتہ قانون دان ٹوبی کیڈمین نے بنگلہ دیش کے نام نہاد ’انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل‘ کو عالمی عدالتی معیارات کے یکسر منافی قرار دیتے ہوئے کہا: ’’نہ اس ٹریبونل کے ارکان کی عدالتی تربیت ہے اور نہ وہ انٹرنیشنل کریمنل قانون کے ماہر ہیں‘‘۔ اسی طرح انسانی حقوق کی بہت سی عالمی تنظیموں: ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل، انٹرنیشنل سنٹر فار ٹرانزیشنل جسٹس نے بھی مقدمے کی سماعت ، کارروائی اور ٹریبونل کے وجود پر کھلے عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
فیصلے کے اعلان کے فوراً بعد علی احسن مجاہد کے سینیر وکیل خوندکر محبوب حسین نے اخباری نمایندوں کو بتایا: ’’ہمیں سپریم کورٹ کے فیصلے پر حیرت ہوئی ہے، خصوصاً اس صورت میں، جب کہ استغاثہ درست گواہیاں اور موزوں ثبوت پیش کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔ بہرحال ہم تفصیلی فیصلے کی کاپی موصول ہونے پر سپریم کورٹ میں نظرثانی کی اپیل دائر کریں گے‘‘۔
علی احسن مجاہد کے بڑے بھائی علی افضل محمد خالص (امیر جماعت اسلامی فریدپور) نے کہا: ’’میرے بھائی کو جھوٹی گواہیوں کی بنیاد پر سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا ہے، حالانکہ وہ اس مقدمے میں ہراعتبار سے بے گناہ ہیں۔ میرا خاندان اس فیصلے کو مسترد کرتا ہے، جو جھوٹ، جعل سازی، سازش اور غیراخلاقی بنیاد پر گھڑا گیا ہے۔ ہم اس سفاک حکومت اور اس کی ظالم عدلیہ کے اس غیراخلاقی، غیرقانونی اور غیرانسانی فیصلے کے خلاف اس دنیا میں احتجاج تک نہیں کریں گے اور صرف اللہ تعالیٰ سے انصاف چاہیں گے، اسی کا فیصلہ انصاف اور عبرت کا نمونہ ہوگا‘‘۔
جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے قائم مقام امیر مقبول احمد نے کہا: ’’اس جھوٹے، بے بنیاد اور انتقام پر مبنی مقدمے نے ایک بار پھر اس بے رحم حکومت کا چہرہ بے نقاب کردیا ہے، جو جماعت اسلامی کو ختم کرنے کے لیے ہرغیراخلاقی ہتھکنڈا استعمال کرنے پر تلی بیٹھی ہے۔ یہ حکومت علی احسن مجاہد جیسے سنجیدہ، بہادر اور دانش ور رہنما کے وجود کو ختم کرنے کے لیے ہرانتہائی سطح تک جانے کے لیے تیار دکھائی دیتی ہے‘‘۔
علی احسن مجاھد کا پیغام: سزاے موت کا فیصلہ سننے کے بعد علی احسن مجاہد صاحب نے حسب ذیل پیغام دیا ہے، جسے ان کے بیٹے علی احمد مبرور نے سوشل میڈیا پر جاری کیا ہے: ’’الحمدللہ، میں اس انتہائی سزا کے اعلان پر ذرّہ برابر پریشان نہیں ہوں، جسے حکومت نے اپنی بدترین دشمنی کی تسکین کے لیے سنایا ہے۔ میرے فاضل وکلاے کرام نے مقدمے کی پیروی قابلِ تحسین محنت سے کی ہے اور سپریم کورٹ کے بنچ کے سامنے اس سچائی کو پوری قوت اور مہارت سے پیش کیا ہے، جو میری بے گناہی کی دلیل ہے۔ میں یقین کامل رکھتا ہوں کہ میرے خلاف گھڑے گئے مجرمانہ الزامات کی سرے سے کوئی حقیقت نہیں ہے، کجا یہ کہ ان کی بنیاد پر کوئی سزا سنائی جائے۔ حکومتی استغاثہ الزامات ثابت کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔ اسی طرح اس مقدمے کے تفتیشی افسر تک نے اعتراف کیا ہے کہ ۱۹۷۱ء کی جنگ کے دوران میں، مَیں مذکورہ کسی بھی الزام یا جرم میں ملوث نہیں پایا گیا، مگر اس کے باوجود میں عدل سے محروم رکھا گیا ہوں۔
’’اس ماحول میں، مَیں جانتا ہوں کہ صرف میرا اللہ ہی میرا گواہ ہے۔ میں واشگاف لفظوں میں اعلان کرتا ہوں کہ مجھ پر عائد کردہ الزامات ۱۰۰ فی صد جھوٹے،جعلی اور بدنیتی پر مبنی ہیں۔ مجھے الزامات اور کردارکشی کی اس یلغار کا نشانہ صرف ایک بنیاد پر بنایا جا رہا ہے ، اور وہ یہ کہ میں تحریک اسلامی کا کارکن ہوں۔
’’میرے ہم وطنو! بنگلہ دیش میں روزانہ سیکڑوں لوگ قدرتی اسباب سے موت کا نشانہ بنتے ہیں۔ یہ اموات کسی نام نہاد عدالتی ڈرامے میں سنائی جانے والی سزاے موت سے نہیں ہوتیں۔ کب اور کہاں کس فرد نے موت کی آغوش میں جانا ہے، اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہے۔ کسی کو اختیار نہیں کہ وہ زندگی اور موت کے بارے میں ذاتِ باری کے فیصلے کو تبدیل کرے۔ اس صورت میں سزاے موت کا سنایا جانا میرے لیے کوئی وزن اور وقعت نہیں رکھتا۔ سو، مجھے اس خبر پر کوئی پریشانی نہیں کہ میرے لیے موت کی سزا تجویز کی گئی ہے۔
’’میرا ایمان ہے کہ ایک بے گناہ فرد کا قتل، تمام انسانیت کا قتل ہے۔ میں نے زندگی بھر کسی فرد کو نہ قتل کیا ہے اور نہ کسی ایسے گھنائونے فعل کا شریکِ جرم رہا ہوں۔ اسی طرح میں یہ بھی جانتا ہوں کہ حکومت نے باطنی نفرت اور سیاسی انتقام میں میرے خلاف جھوٹے اور بدنیتی پر مبنی الزامات کو ایک نام نہاد عدالت میں سزاے موت کا ذریعہ بنایا ہے۔ سن لیجیے، میں اپنی زندگی کے ہرلمحے میں، اللہ کے دین کی خدمت اور سربلندی کے لیے اپنی جان دینے کے لیے تیار تھا اور تیار ہوں۔ اللہ ہی میرا حامی و مددگار ہے___علی احسن مجاہد‘‘
نائیجیریا آبادی کے لحاظ سے براعظم افریقہ کا سب سے بڑا ملک ہے۔ اس کی آبادی ایک اندازے کے مطابق اس وقت ۱۷ کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ آخری مردم شماری ۲۰۰۶ء میں ہوئی تھی جس میں ۱۴ کروڑ سے زائد آبادی ریکارڈ کی گئی۔ رقبے کے لحاظ سے ۹لاکھ ۲۳ہزار ۷سو۶۸ مربع کلومیٹر کے ساتھ یہ افریقہ کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ صرف ایک ملک تنزانیہ کا رقبہ اس سے زیادہ ہے۔ دنیا میں اس کی آبادی پاکستان کے بعد ساتویں نمبر پر شمار ہوتی ہے۔ نائیجیریا قدرتی وسائل بالخصوص تیل کی دولت سے مالامال ہے، مگر بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان کی طرح بدعنوانی اور لوٹ کھسوٹ نے ملک کو بدحال کردیا ہے۔ اقوام متحدہ کے قائم کردہ معیار کے مطابق آدھی آبادی خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ یوں تو کم وبیش ۵۰ کے لگ بھگ قومیتی وقبائلی اکائیاں اور زبانیں اس ملک میں پائی جاتی ہیں۔ یوروبا اورہاؤسا دونوں برابر، یعنی ۲۱فی صد ہیں۔ تیسرے نمبر پریرایبوہے جو ۱۸سے ۱۹ فی صد تک شمار کی جاتی ہے۔ چوتھی بڑی اکائی فولا(Fula) ہے جو ۱۱فی صد ہے۔ اس طرح تقریباً ۷۱ فی صد ان چار قومیتوں اور زبانوں کا حصہ ہے۔ دیگر کوئی اکائی دو ہندسوں تک نہیں پہنچتی۔ یوں ۲۹فی صد قومیتی اور لسانی آبادی بہت سی اکائیوں میں تقسیم ہے۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ ہرریاستی اکائی ایوان بالا (سینیٹ) میں بڑی اکائیوں کے برابر نمایندگی رکھتی ہے۔
براعظم افریقہ کا یہ ملک تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک کا ایک اہم ممبر ہے۔ گذشتہ نصف صدی سے اس ملک میں بڑے عجیب وغریب قسم کے تجربات دہرائے جاتے رہے ہیں۔ آزادی ملنے کے بعد سیاست دانوں اور فوجی جرنیلوں بلکہ بعض اوقات فوج کے جونیئرافسروں اور جرنیلوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی مسلسل جاری رہی ہے۔ جمہوری حکومتوں کے مقابلے میں باوردی حکمرانوں کا پلہ بہرحال اب تک کی تاریخ میں بھاری رہا ہے۔ اب ۸؍اپریل ۲۰۱۵ء کے انتخابی نتائج کے مطابق ایک سابق جرنیل بندوق سے نہیں ووٹوں سے صدر منتخب ہوگیا ہے۔ گذشتہ چندبرسوں سے، باقاعدگی سے ایوان صدر اور پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے انتخابات ہورہے ہیں۔ اللہ کرے کہ یہ تسلسل قائم رہے اور نائیجیریا کے عوام سُکھ کا سانس لے سکیں۔ حالیہ انتخابات کافی حد تک منصفانہ بھی تھے اور غیرمتنازعہ بھی۔ اس سے قبل کبھی انتخابات پر مقامی اور عالمی سطح پر اس قدر اطمینان کا اظہار نہیں کیا گیا۔ اس موقعے پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ نائیجیریا کا کچھ مزید اور عمومی تعارف قارئین سے کرادیا جائے۔
نائیجیریا کی ایک عظیم تاریخ ہے۔ مغربی افریقہ کے اس علاقے میں دو صدیاں قبل ایک عظیم مجدد عثمان بن فودیوؒ نے شمالی علاقوں میں صحیح خطوط پر اسلامی خلافت قائم کی۔ ان کی ریاست کا نام سکوٹو خلافت تھا۔ کافی عرصے تک یہ خلافتی ریاست قائم رہی۔ بعد میں انگریزی استعمار نے نائیجیریا پر قبضہ کیا تو ۱۹۰۳ء میں یہ ریاست ختم کردی گئی۔ اس ریاست کے اثرات آج بھی شمالی نائیجیریا میں محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ انگریزوں نے کم وبیش ڈیڑھ صدی نائیجیریا پر حکومت کی۔ ۱۹۶۰ء میں نائیجیریا کی آزادی کا اعلان ہوا، جب کہ عملاً تین سال بعد یکم اکتوبر۱۹۶۳ء کو اس کو ایک مکمل آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کیا گیا اور اقوام متحدہ میں اس کی رکنیت منظور ہوئی۔ آزادی کے بعد نائیجیریا میں مسلسل فوجی انقلاب آتے رہے۔ نائیجیریا کو جمہوری انداز میں چلانے کے لیے کئی سیاسی تنظیموں نے جدوجہد کی، مگر ہر مرتبہ فوجی جرنیل اقتدار پر قابض ہوتے رہے۔ آزادی کے بعد نائیجیریا کے پہلے صدر آزیکیوے (Azikiwe) تھے۔ آزیکیوے کے بعد نوافور اوریزو (Nwafor Orizu) صدر منتخب ہوئے۔ وہ نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھتے تھے۔ جب وفاقی حکومت بنی تو سر ابوبکر تفاوا بلیوا وزیراعظم منتخب ہوئے۔ وہ ایک اچھی شہرت کے حامل سیاست دان تھے۔ ان کے ساتھ سراحمدوبیلوشمالی خطے کے وزیراعلیٰ تھے۔ نائیجیریااس زمانے میں وفاق کے تحت دوریاستوں یا صوبوں، شمالی اور جنوبی میں تقسیم کیا گیا تھا، جس طرح کبھی ہمارے ہاں مشرقی اور مغربی پاکستان تھے۔ شمالی خطہ مسلم اکثریت اور جنوبی غیرمسلم اکثریت کا حامل تھا۔
اس دور میں فوج نے سیاست دانوں پر ناروا دباؤ ڈالنا اور خود بلاجواز مراعات حاصل کرنا شروع کردیں۔ اس وقت کے صدر اوریزو نے فوج کے عزائم بھانپتے ہوئے مضبوط موقف اپنانے کے بجاے بزدلی دکھائی اور خود ہی حکومت فوج کے حوالے کردی۔ فوجیوں نے سمجھا کہ سرابوبکر اور سراحمدوبیلو ان کے راستے کی رکاوٹ ہوں گے۔ چنانچہ لیفٹیننٹ کرنل یعقوبو گوون نے ایک اور فوجی بغاوت کردی۔ فوج کے اعلیٰ افسران کو معطل کردیا اور وزیراعظم و وزیراعلیٰ کو شہید کردیا گیا۔ یہ ۱۹۶۶ء کی بات ہے۔ اس کے بعد نائیجیریا میں مختصر عرصے کے لیے سول حکومت وجود میں آئی، جس کے سربراہ مسلمان سیاست دان شیخو شغاری تھے۔ جمہوری حکومت کی کرپشن کو بہانہ بنا کر پھر فوج نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ اسی دوران نائیجیریا میں خانہ جنگی شروع ہوگئی اور نائیجیریا دوحصوں میں تقسیم ہوگیا۔ بیافرا کی ریاست وجود میں آئی۔ کچھ عرصے کے بعد نائیجیرین آبادی کو احساس ہوا کہ اس خانہ جنگی اور تفریق کے نتیجے میں نائیجیریا برباد ہوجائے گا۔
اسی دوران نائیجیریا کے مختلف علاقوں میں تیل کی دریافت ہوئی۔ ملک متحد تو ہوگیا، مگر فوجی انقلاب کی مصیبت ایسی شروع ہوئی کہ ایک فوجی آمر کو دوسرا فوجی آمر اقتدار سے محروم کرکے حکومت پر قابض ہوتا چلا گیا۔ ۱۹۶۶ء کے بعد ۱۹۷۹ئ، ۱۹۸۳ء اور ۱۹۹۸ء میں یکے بعد دیگرے چار فوجی بغاوتیں ہوئیں جو ناکام ہوتیں تو غداری قرار پاتیں، مگر کامیابی کے بعد انقلاب کہلائیں۔ یہ فوجی حکومتیں بھی نام نہاد انتخابات کا ڈھونگ رچاتی رہیں۔ فوجی آمروں میں مسلمان بھی تھے اور عیسائی بھی۔ لیکن مسلمان نسبتاً زیادہ تھے۔ ان مسلمان حکمرانوں میں خود موجودہ صدر محمد بخاری کا نام بھی آتا ہے۔ انھوں نے ۱۹۸۴ء میں فوجی جرنیل کے طور پر مسلمان سیاست دان شیخوشغاری کا تختہ الٹا تھا۔ بہت جلد ۱۹۸۵ء میں بخاری کے خلاف بغاوت ہوگئی اور جنرل ابراہیم بابا گیڈا برسرِاقتدار آگیا۔ دیگر جرنیلوں میں، جو وقتاً فوقتاً برسراقتدار آتے رہے، جنرل مرتضیٰ محمد، جنرل ثانی اباچہ اور جنرل عبدالسلام ابوبکرکے نام آتے ہیں۔ ۱۹۸۴ء میں محمدبخاری پہلی مرتبہ ۴۱سال کی عمر میں باوردی برسراقتدار آئے اور پھر اقتدار سے محرومی کے بعد بغیر وردی کے انتخابات کے ذریعے اقتدار تک پہنچنے کی ناکام کوشش کرتا رہے۔ بالآخر اب ۷۲سال کی عمر میں وہ ووٹ کے ذریعے ملک کا سربراہ منتخب ہونے میں کامیاب ہوگئے۔
موجودہ انتخابات میں صدر گڈلک جوناتھن اور ان کی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کو شکست ہوگئی ہے۔ جوناتھن ملک کے چودھویں سربراہِ ریاست تھے۔ جنرل محمدبخاری کی پارٹی آل پروگیسو کانگریس فتح یاب ہوگئی ہے۔ غیرملکی مبصرین نے ان انتخابات کو منصفانہ اور غیرجانب دارانہ تسلیم کرلیا ہے۔ صدارتی انتخابات میں محمدبخاری کو پہلی بار کامیابی ملی ہے۔ اس سے قبل وہ تین مرتبہ انتخابات میں قسمت آزما چکے تھے، مگر ہرمرتبہ شکست کھاتے رہے ہیں۔ جیتنے والے مسلم صدر محمدبخاری کو ایک کروڑ ۵۴ لاکھ ووٹ ملے، جب کہ ہارنے والے امیدوا سابق صدر گڈلک جوناتھن نے جوعیسائی ہیں، بھی ایک کروڑ ۲۹لاکھ ووٹ لیے۔ دونوں امیدواروں نے اپنے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر انتخاب میں حصہ لیا تھا۔ نائیجیریا کی ۳۶ریاستیں اور ایک وفاقی اکائی، دارالحکومت ابوجا ہے۔ پچھلے پارلیمان میں گڈلک کی پارٹی کو واضح اکثریت حاصل تھی۔ اب صورتِ حال اس کے برعکس ہے۔
نائیجیریا کی وفاقی پارلیمان میں سینیٹ اور وفاقی اسمبلی شامل ہیں۔ سینیٹ میں ۱۰۹ نشستیں ہیں، جن میں سے ایک نشست وفاقی ایریا کی ہے اور باقی نشستیں ۳۶ ریاستوں کے درمیان برابری کی بنیاد پر تقسیم ہیں۔ ہرریاست کے سینیٹ میں تین نمایندے ہوتے ہیں۔ وفاقی اسمبلی کی کل ۳۶۰نشستیں ہیں، جو تمام ریاستوں میں ان کی آبادی کے تناسب سے تقسیم کی گئی ہیں۔ سابق صدر کی پارٹی کو پچھلی پارلیمان میں واضح اکثریت حاصل تھی، یعنی سینیٹ میں ۹۶ اور قومی اسمبلی میں ۲۲۳؍ارکان۔ اس کے مقابلے میں اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد کو اسمبلی کی ۹۶ اور سینیٹ کی ۲۷نشستیں حاصل تھیں۔ نئے انتخابات کے بعد جنرل محمد بخاری کی آل پروگریسو کانگریس کو اسمبلی میں ۳۶۰ کے ایوان میں ۲۲۵نشستوں پر کامیابی ہوئی، جب کہ سابق صدر جوناتھن کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی ۱۲۵نشستیں حاصل کرپائی۔ ۱۰نشستوں پر دیگر چھوٹی پارٹیوں کے امیدوار جیت گئے۔ سینیٹ میں ۱۰۹کے ہاؤس میں بخاری کی پارٹی نے ۶۰نشستیں جیتیں، جب کہ جوناتھن بھی ۴۹نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوگیا۔ صدر کے انتخاب کے لیے ضروری ہے کہ وہ عام ووٹوں کے علاوہ ریاستوں کی اکثریت میں بھی برتری حاصل کرے۔ اگر اس کے ووٹ زیادہ ہوں، مگر ریاستوں میں سے اکثر میں وہ نہ جیتا ہو تو انتخاب دوبارہ ہوتا ہے۔ ریاستوں کے حجم میں بہت بڑا تفاوت ہے۔ صدرمحمدبخاری کو نہ صرف ووٹوں میں برتری حاصل ہے ، بلکہ اکثر ریاستوں میں بھی راے دہندگان کی واضح اکثریت نے ان کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔ پارلیمان اور سینیٹ کے انتخابات کے نتائج ابھی مکمل نہیں ہوئے، لیکن جیتنے والے صدر کی پارٹی کو اس میں بھی واضح اکثریت مل جائے گی۔
نائیجیریا میں گذشتہ کئی برسوں سے انتہاپسند مسلم تنظیم بوکوحرام نے بہت سی پُرتشدد کارروائیاں کی ہیں۔ ملک کی آبادی اس صورت حال سے سخت پریشان ونالاں ہے۔ اعداد وشمار کے مطابق ۱۲سے ۱۵ ہزار لوگ اب تک پُرتشدد کارروائیوں میں مارے جاچکے ہیں۔ بے شمار لوگ انتہاپسندوں نے یرغمال بنا رکھے ہیں۔ یہ تنظیم یوں تو مقامی ہے، مگر خود کو القاعدہ کے قریب بلکہ اسی کی شاخ سمجھتی ہے۔ عام آبادی، بالخصوص شمالی اور مشرقی علاقوں میں، اس انتہاپسندی کی وجہ سے خود کو غیرمحفوظ تصور کرتی ہے۔ امن وامان کی بحالی اور تخریب کاری کا خاتمہ موجودہ انتخابات میں امیدواروں کے منشور میں اہمیت کا حامل رہا۔ جنرل محمد بخاری نے گڈلک کے مقابلے میں اعلان کررکھا تھا کہ اگر وہ انتخاب جیت گئے تو دہشت گردوں سے ملک کو پاک کردیں گے۔ دیگر عوامل کے علاوہ اس نعرے کا اس کی کامیابی میں نمایاں کردار ہے۔ محمد بخاری نے واضح طور پر اعلان کیا تھا کہ وہ برسرِاقتدار آکر تخریب کاروں اور دہشت گردوں سے کوئی نرمی نہیں برتیں گے بلکہ آہنی ہاتھوں سے نمٹیں گے۔ اس نے یہ بھی اعلان کیا کہ بدعنوانی کا خاتمہ کیا جائے گا اور ملک کی لوٹی ہوئی دولت بیرونی بنکوں سے واپس وطن لائی جائے گی۔ یہ دونوں کام خاصے مشکل ہیں اور تمام مبصرین یہ تجزیہ کررہے ہیں کہ نومنتخب صدر اور ان کی حکومت کے لیے اس مشکل صورت حال سے عہدہ برآ ہونا آسان نہیں ہوگا۔
دریں اثنا سابق صدر گڈلک جوناتھن نے اپنی شکست کو خوش دلی سے تسلیم کیا ہے اور نومنتخب صدر کو ملک وقوم کے مفاد کی خاطر اپنے تعاون کا یقین دلایا ہے۔ جواب میں نومنتخب صدر نے بھی سابق صدر کے ساتھ خیرسگالی اور انھیں پورا احترام دینے کا عندیہ دیا ہے۔ اب مبصرین اور تجزیہ کار تبصرے کررہے ہیں کہ آیا نئی حکومت اپنے وعدوں کے مطابق کچھ مثبت اور نتیجہ خیز کام کرسکے گی یا ایک بار پھر فوج کے برسراقتدار آنے کا راستہ کھل جائے گا۔ اللہ کرے کہ صدر محمد بخاری ملک وقوم کے لیے کچھ اچھے کام کرسکیں تاکہ افریقہ کا یہ سب سے بڑا ملک امن وامان کا گہوارہ بن سکے۔
بنگلہ دیش ملت ِ اسلامیہ سے وابستہ اور مسلم قومیت کے جذبے سے سرشار لوگوں کا وطن ہے۔ ان کے آباواجداد نے کبھی غلامی کی زنجیروں کو قبول نہیں کیا۔ ہزار سالہ مسلم دورِحکومت میں بھی یہ لوگ خودمختاری اور خودداری کا حوالہ بنے رہے۔ پھر انگریزوں سے آزادی اور برہمنی سامراج سے چھٹکارا پانے کے لیے ان کی قربانیوں اور جدوجہد کا کوئی مقابلہ نہیں۔ مگر اس سب کے باوجود تاریخ کا یہ تکلیف دہ سوال ہے کہ :
گذشتہ ۴۰برسوں سے یہی مظلوم بنگلہ دیشی، برہمنی آلۂ کار عوامی لیگ کے پھندے میں کیوں پھڑپھڑا رہے ہیں؟
اس سوال کا جواب بنگلہ دیشی اور غیربنگلہ دیشی ماہرین تاریخ و سماجیات پر قرض ہے۔ تاہم، اس وقت رنج و اَلم کا معاملہ آج کے لہورنگ بنگلہ دیش سے وابستہ ہے۔
۵ جنوری ۲۰۱۴ء بنگلہ دیش ہی نہیں بلکہ جمہوریت سے وابستہ ملکوں کے لیے بھی ایک شرم ناک دن کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس روز عوامی لیگ کی حکومت نے یک طرفہ انتخابی یلغار کرکے پوری پارلیمنٹ پر قبضہ جمالیا تھا۔ اس قبضے کو پہلے پہل یورپی یونین اور امریکا تک نے مسترد کیا، مگر آہستہ آہستہ حسینہ واجد کی سربراہی میں قابض ٹولے سے معاملات طے کرنے شروع کر دیے اور عوامی لیگ نے بھی بھارت کو زیادہ سے زیادہ مراعات دینے کے لیے اُوپر تلے فیصلے شروع کر دیے۔ بھارتی مفادات کے تحفظ اور بنگلہ دیشی مفادات کی نفی پر مبنی اس ’لوٹ سیل‘ پر محب ِ وطن حلقے چیخ اُٹھے۔
جماعت اسلامی اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP ) کے ساتھ مزید ۱۸پارٹیوں نے اس عوامی لیگی قبضہ گروپ کے خلاف ۵جنوری ۲۰۱۵ء کو ’یومِ قتلِ جمہوریت‘قرار دے کر تحریک چلانے کا اعلان کیا۔ غاصب حکومت نے اس احتجاج کو کچلتے ہوئے ۲۰۰ سے زیادہ افراد کو قتل اور ۱۵ہزار سے زیادہ افراد کو گرفتار کرلیا۔ بنگلہ دیش کے طول و عرض میں عوام نے جوش و خروش سے حکومتی اقدامات کے خلاف نفرت کا اظہار کیا۔ ریل کی پٹڑیوں، قومی شاہرائوں اور دریائی آبی راستوں پر آمدورفت کو معطل کر دیا۔ حزبِ اختلاف کا یہ احتجاج ۵جنوری ۲۰۱۴ء سے اب تک جاری ہے۔ اس دوران حکومت نے نہ صرف طالب علموں اور مزدوروں کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا، بلکہ بزرگوں، مریضوں اور چھوٹے بچوں تک کو خون میں نہلادیا۔
صرف مارچ کے دوران جماعت اسلامی اور بی این پی کے ۵۰ سے زائد کارکنوں کو مختلف شہروں (چٹاگانگ، رنگ پور،جیسور، سلہٹ، میمن سنگھ، فینی، ڈھاکہ وغیرہ) میں چھرا گھونپ کر ہلاک کیا گیا ہے۔ اس نوعیت کی کارروائی عوامی لیگ کے کارکنوں نے کی، جن میں سے بیش تر کی نشان دہی گواہوں نے کی، مگر پولیس انھیں پکڑنے یا مقدمہ دائرکرنے سے انکار کرتی چلی آرہی ہے۔ اس سے عوامی لیگ اور پولیس کی ملی بھگت بے نقاب ہوجاتی ہے، اور عوام میں عدم تحفظ کے احساس اور خوف کی فضا دیکھی جاسکتی ہے۔
۱۷ مارچ کو آدھی رات کے وقت گورنمنٹ کالج چٹاگانگ اور گورنمنٹ محمد محسن کالج چٹاگانگ سے اسلامی چھاتروشبر (اسلامی جمعیت طلبہ بنگلہ دیش) کے ۸۰ کارکنوں کو بلاوجہ اُٹھا کر تھانوں میں بند کردیا گیا۔ جب پولیس طلبہ کے ہاسٹلوں پر دھاوا بول رہی تھی تو چھاترو لیگ، یعنی عوامی لیگ کی حامی اسٹوڈنٹس لیگ کے مقامی کارکن پولیس کو نشان دہی کرکے شبر کے کارکنوں کو گرفتار ہی نہیں کرا رہے تھے بلکہ دھکے دیتے ہوئے گھسیٹ بھی رہے تھے۔ اس طرح کے دل دوز واقعات آج کے بنگلہ دیش میں روز کا معمول بن چکے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ (HRW) ایشیا کے ڈائرکٹر براڈ ایڈم نے مطالبہ کیا ہے کہ: ’’مارچ ۲۰۱۵ء میں بی این پی کے ترجمان اور مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل صلاح الدین احمد(جو وزیر بھی رہے) کے حکومتی کارندوں کے ہاتھوں اغوا کی غیر جانب دارانہ تحقیقات کرائی جائیں‘‘۔ یاد رہے کہ ۱۰مارچ کی رات صلاح الدین کے ہمسایے کے مطابق سادہ کپڑوں میں پولیس کے کارندے ان کی قیام گاہ پر آئے۔ انھوں نے چندگھنٹوں کی پوچھ گچھ کا وعدہ کرکے انھیں ساتھ لیا، اور بعد میں انکار کردیا کہ ہمیں کوئی علم نہیں کہ وہ کہاں ہیں۔ یہ کوئی ایک واقعہ نہیں ہے، بلکہ اس طرح سیاسی کارکنوں کو غائب کرنے کے بے شمار واقعات شہر شہر میں دُہرائے جارہے ہیں۔ اس عمل کا سب سے زیادہ نشانہ اسلامی چھاترو شبر کے کارکنوں کو بنایا جا رہا ہے، جن میں سے بعض کی لاشیں ندی نالوں اور جوہڑوں میں تیرتی پائی گئی ہیں، یا پھر اُن کی ٹانگوں پر گولیاں مار کر انھیں اپاہج بنادیا گیا ہے۔ یہ وہ وحشیانہ تکنیک ہے جو بھارت میں راشٹریہ سوامی سیوک سنگھ (RSS) اپناتی ہے۔
اپریل کا مہینہ اس اعتبار سے بڑی نزاکت رکھتا ہے کہ اس ماہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے چوٹی کے رہنمائوں کو سزاے موت دینے کے لیے عوامی لیگی حکومت آخری ڈراما رچانے جارہی ہے۔
مئی ۲۰۱۳ء میں جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما محمد قمرالزماں کو جھوٹے مقدمے میں سزاے موت سنائی گئی۔ ان کی طرف سے کی گئی نظرثانی کی اپیل کو ایک جج نے منظور اور تین نے مسترد کیا، اور ۱۹فروری کو نام نہاد کرائمز ٹربیونل نے سزاے موت کے وارنٹ پر دستخط کیے۔ اب یکم اپریل سے قمرالزماں کی حتمی اپیل کی سماعت شروع ہورہی ہے۔ امکان یہی ہے کہ یہ بھی مسترد کی جائے گی۔ اسی طرح ٹریبونل کی جانب سے سزاے موت کے خلاف امیرجماعت اسلامی مطیع الرحمن نظامی کی سپریم کورٹ میں اپیل کی سماعت بھی ۳۰ مارچ سے ہورہی ہے، جب کہ ۱۸فروری کو جماعت اسلامی کے مرکزی نائب امیر مولانا عبدالسبحان کو ٹریبونل نے سزاے موت سنائی ہے۔ عبدالسبحان صاحب نے ۱۸مارچ کو اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی ہے۔ یہ اپیل ۸۹ صفحات، ۹۲ دلائل اور ۱۱۸۲ صفحات کے دستاویزی ثبوتوں پر مشتمل ہے۔
یاد رہے جماعت کے دو اور مرکزی رہنمائوں: میرقاسم علی کو اکتوبر ۲۰۱۴ء میں اور اظہرالاسلام کو ۳۰دسمبر ۲۰۱۴ء کو ٹریبونل نے سزاے موت سنائی ہے۔ عدل کے نام پر عدل کے قتل اور انسانیت کی تذلیل کا یہ کھیل بنگلہ دیش کی عدالتوں میں مسلسل کھیلا جا رہا ہے، جب کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کی نام نہاد سول سوسائٹی اس باب میں چپ سادھے ہوئے ہے۔
جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے قائم مقام سیکرٹری جنرل ڈاکٹر شفیق الرحمن نے اس صورتِ حال کو چند لفظوں میں بیان کردیا ہے کہ: ’’بنگلہ دیش سخت بے یقینی، انتشار، حکومتی جبر اور عوامی لیگی فسطائیت کا شکار ہے۔ ۱۶کروڑ عوام کا ملک بدترین غلامی کے دور سے گزر رہا ہے۔ لوگ اپنے جائز جذبات کا اظہار کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ حکومتی پشت پناہی میں تشدد کی لہر نے ہرغیرت مند شخص کو اپنے نشانے پر لے رکھا ہے۔ روزانہ بڑے پیمانے پر گرفتاریوں، تشدد، قتل اور سیاسی بنیادوں پر جبری اغوا کی خبریں روزناموں کے صفحۂ اوّل پر اس کربلا کی تصویر پیش کرتی ہیں۔ وہ ملک جس میں حسینہ واجد کی غیرنمایندہ، غیراخلاقی اور غیرقانونی حکومت نے عوامی حقِ حکمرانی غصب کر رکھا ہے، اس کے حالات کو درست سمت دینے کا واحد حل یہ ہے کہ حسینہ واجد ٹولے کو عوام کا خون چُوسنے اور خون بہانے کے بجاے برطرف کیا جائے اور ایک عبوری حکومت کے تحت آزادانہ، منصفانہ اور کھلے عام عوامی شرکت یقینی بنانے والے انتخابات کرائے جائیں۔ اسی طریقے سے اس بحران سے نکلا جاسکتا ہے‘‘۔
بنگلہ دیش میں اس وقت عوام کی اکثریت اپنے آپ کو ہندستانی شکنجے سے باہر نکال کر خودمختاری اور مسلم تشخص کے تحفظ کے لیے کوشاں ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی اور جماعت اسلامی کو اپنے مقاصد کے حصول کی قیادت پر دیکھتے ہیں۔ مگر دوسری جانب بھارت، اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے، عوامی لیگ کی پشت پناہی میں کسی بھی انتہا تک جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حسینہ واجد نے پولیس کو احکامات دیے ہیں کہ: ’’اپوزیشن کی تحریک کچلنے کے لیے آپ جس انتہا تک بھی جائیں، اس کی ذمہ داری میں قبول کروں گی، آپ بے خوف انھیں کچل دیں‘‘۔ یہ احکامات کوئی خفیہ سرکلر نہیں، بلکہ حسینہ کے روزانہ کے بیانات میں دیکھے جاسکتے ہیں۔
اس تحریر کے ابتدا میں یہ سوال اُٹھایا گیا تھا کہ حریت اور خودداری کا یہ خطۂ مسلم بنگال، جس نے ہندو کی غلامی کو قبول نہیں کیا تھا، گذشتہ ۴۰برس سے کیوں غلامی اور خودکشی کی زنجیروں پر جھول رہا ہے؟ اس سوال کا جواب کچھ پیچیدہ نہیں۔ جب کسی قوم، ملک یا قبیلے کے اپنے لوگ، دشمن کا آلۂ کار بننے کو تیار ہوجائیں اور پھر انھیں دشمن سے بھرپور کمک بھی مل جائے، تو شب ِ غم طویل تر ہوجایا کرتی ہے۔ شیخ عبداللہ نے جموں وکشمیر میں جواہر لال نہرو کے دست ِ شر انگیز پر بیعت کر کے جموں و کشمیر کو بھارتی غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہے، تو بنگال کے شیخ مجیب نے نہرو کی بیٹی اندراگاندھی کے قدموں کو چھو کر مسلم بنگال کو بھارتی مفادات کی چراگاہ بنادیا ہے۔ جب اپنے، دوسروں کے وفادار بنتے ہیں تو ان کے لیے انسانی جان اور قومی غیرت کچھ معنی نہیں رکھتی اور ان بدقسمت قوموں کو صبحِ آزادی کا نظارہ کرنے کے لیے طویل عرصے تک قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔