جماعت اسلامی از اول تا آخر ایک دینی و فکری تحریک ہے جس کی عمارت اس کی تنظیم اور تربیتی نظام پر کھڑی ہے۔ اقامت دین کی تحریک ہونے کی وجہ سے بدرجۂ اولیٰ یہ اس کی ذمہ داری قرارپاتی ہے کہ جو لوگ اس کے ساتھ چل رہے ہیں، ان کے تزکیۂ نفس کے لیے اور زندگی کے تمام گوشوں کو روشن اور منور رکھنے اور انھیں اندھیروں سے بچانے کے لیے ان کی تربیت کاخصوصی اہتمام و انتظام کرے۔ انبیاے کرام ؑکا مشن بھی اصلاً تزکیۂ نفس ہی تھا اور اسلامی تحریکیں معاشرے کے اندر جو انقلاب لانا چاہتی ہیں اس کا مقصود بھی یہی ہے۔اگرچہ اجتماعی دائرے کا انقلاب زندگی کے تمام دائروں پر محیط ہوتاہے لیکن یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک فرد کی اصلاح ، اور اس کے اندر انقلابیت، یعنی ایثارو قربانی اور اپنے آپ کی نفی کرتے ہوئے معاشرے کا اثبات کرنے کی صلاحیت موجود نہ ہو۔ اسلامی تحریکیں معاشرے کے اندر نئے انسان اور رویے پیدا کرتی ہیں، پرانے انسانوں کے ہیولے سے نئے انسان جنم لیتے ہیں،اور ان نئے انسانوں سے ایک نیا معاشرہ ترتیب و تشکیل پاتا ہے۔
پرانے انسان سے نئے انسان کیسے وجود میں آتے ہیں؟ اس کی سب سے بہترین مثال تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے کردار سے سامنے آتی ہے۔ حضرت عمرفاروق ؓ کے قبول اسلام کا واقعہ تو مشہور و معروف ہے کہ کس طرح گھر سے نعوذباللہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے ارادے سے نکلتے ہیں مگر آیات قرآنی کی تلاوت سنتے ہی دل کی دنیا تبدیل ہو جاتی ہے۔ اسی طرح حضرت عمرو بن العاصؓ فرماتے ہیں کہ میری زندگی کے دو ادوار ہیں۔ ایک وہ دورکہ جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کانام تک سننا بھی گوارا نہ تھا، اور حضوؐرکا نام سننا بھی طبیعت پر بوجھ تھا،کبھی کبھی جس کو اتارنے کو دل چاہتا تھا، جب کہ دوسرا دور وہ ہے کہ جس میں میری محبوب ترین ہستی اگر کوئی تھی تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی تھی۔ آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر نشست میں شریک ہوتا تھا اور قدرے فاصلے پر بیٹھتا تھا ۔ کبھی آپؐ کو آنکھ بھر کے دیکھا نہ جی بھر کے، اس لیے کہ نگاہیں آپؐ کے چہرے پر ٹھیرتی ہی نہ تھیں ۔ اگر کوئی مجھ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ مبارک کے بارے میںپوچھے تو میںنہیں بتاسکتا۔ ایک اور صحابیِ رسولؐ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں حالت ِجاہلیت میںقریش کو کوستا تھا کہ انھوں نے آپؐ کے لیے سب آزمایشیں تو کھڑی کیں لیکن جوکام کرناتھا وہ توکیا ہی نہیں، چنانچہ اپنے گھر سے ا س ارادے سے نکلا کہ آپؐ پر حملہ آور ہوجاؤں۔ گھر سے نکلا تودیکھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم طواف میں مصروف ہیں۔ بس موقعے کو غنیمت جانا اورخود بھی طواف میں شریک ہوگیا اور اس انتظار میں رہا کہ مناسب موقع اور وقت ہاتھ آئے توآپؐ پر وار کروں ۔اسی اثنا میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو آواز دے کر اپنے پاس بلایا۔ قریب پہنچا تو دریافت کیا کہ تمھارا کیا ارادہ ہے؟ یہ سنتے ہی میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی کہ شاید آپؐ کومعلوم ہوگیا ہے کہ میں کس ارادے سے آیا ہوں؟ لیکن اس کے باوجود میں نے عرض کیا کہ طواف کر رہاہوں، اور کوئی دوسراارادہ نہیں ہے۔ یہ سن کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور اپنا دایاں ہاتھ میرے سینے پر رکھا اور ابھی ہاتھ آپؐ نے اٹھایا نہ تھا کہ دل و دماغ کے تمام بندھن کھل گئے اور اسلام کی سیدھی اور شفاف شاہراہ مجھے نظر آنے لگی۔ لمحوں میں تزکیے کی وہ کیفیت حاصل ہو گئی جو ناقابل یقین ہے۔
اس طرح کے کئی دوسرے واقعات اس بات کا پتا دیتے ہیںکہ معاشرے میں ہمیشہ ایسے انسان موجود رہیں گے جو لمحوں کے اندر اپنا پورا تزکیہ کرنے کی صلاحیت سے آراستہ و پیراستہ ہوں گے۔ معاشرے کے اندر جولوگ دعوت دین کا فریضہ انجام دیتے ہیں، یہ بات ان کے پیش نظر رہنی چاہیے کہ میدانِ دعوت میںایسے لوگ بھی ملیں گے جن پر آپ برسہا برس کام کریں گے مگر وہ آپ کا ساتھ نہ دیں گے، اور ایسے لوگ بھی ملیں گے جو لمحوں کے اندراس راہ کے راہی بن جائیں گے۔
انسان اضدادکے مجموعے کا نام ہے۔ نیکی کے جذبات کا ایک سمندر ہے جو اس کے اندر پنہاں ہے اوربدی کا ایک طوفان ہے جو اس کے اندر پناہ لیے ہوئے ہے۔ وہی انسان ہے جو نہایت خونخوار ہے اور انتقام لینے پر آئے تو سیکڑوں لوگوں کو لقمۂ اجل بنادیتا ہے، اور وہی انسان ہے جو انسانوں کی ہمدردی میں بڑے بڑے دریا اور سمندر عبور کرلیتا ہے۔ ایک ہی انسان کے اندر کئی کئی انسان موجود ہیں۔ ایک ہی انسان کئی کئی کشتیوں میں سوار، کئی کئی منزلوں کی طرف گامزن اور رواں دواں ہے ۔ان تضادات کو رفع کرنا، اسے یکسوئی اور طمانیت کی دولت سے مالا مال کرنا، اور اپنے رب سے رجوع کرنے کی دعوت دینا، فی الحقیقت تربیت ہے، تزکیۂ نفس ہے، تعمیر سیرت ہے، کردار سازی ہے ۔ اسلامی تحریکیں اپنی معیت میں چلنے والے انسانوں کی زندگی تبدیل کرنے کے لیے اس طرح کوشاں ہوتی ہیں کہ واقعی ان کی سیرت و کردار ، رویے، طور طریقے ،ذہن و فکر کے سانچے ،نکتہ ہاے نظراور زاویہ ہاے نگاہ بدل جاتے ہیں اور ایک نیا انسان وجود میں آجاتا ہے ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طریقے سے لوگوں کومخاطب کیا، ساتھ ملایا ، ہم نوا بنایا، وہ ہمارے لیے تو لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ کے مصداق بہترین نمونہ ہے مگرقرآن پاک کا بھی بڑا اہم رول ہے۔ اسی لیے یزکیہم سے پہلے تلاوتِ آیات کی بات آئی ہے۔ تلاوتِ آیات کا بلاشبہہ یہ مفہوم بھی ہے کہ قرآن پاک کو خوش الحانی کے ساتھ پڑھا اور حفظ کیا جائے، لیکن تلاوتِ آیات وہ مطلوب ہے جو دل کے اندر اُتر جائے اور جس کے نتیجے میں عقائد کی اصلاح ہو، رویے تبدیل ہوں، اعمال کے اندر تبدیلی واقع ہو، اور زندگی اور اس کی ترجیحات بدل جائیں۔ جس قرآن کو پڑھنے کے نتیجے میں آدمی نہ بدلے اور’ خود بدلتے نہیں، قرآں کو بدل دیتے ہیں‘ کا عنوان بن جائے، ظاہر ہے کہ وہ تزکیہ اور تربیت کی تعریف میں نہیں آتا۔ قرآن پاک کے ساتھ ایک خاص قسم کے شغف کی ضرورت ہے جس کی مثال حضورنبی اکرمؐ کے اسوے میں موجود ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓروایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مسجد میں تشریف لائے، منبر پر تشریف فرماہوئے ، اور فرمایاعبداللہ مجھے قرآن سناؤ۔ میں قدرے حیران ہوا اورسوال کیا کہ حضوؐر قرآن پاک تو آپؐ پر نازل ہوا ہے، آپؐ کے ذریعے سے ہم تک پہنچا ہے ، آپؐ سے ہم نے سنا اور سمجھا ہے، میںبھلاآپؐ کوکیا قرآن سناؤں گا؟آپؐ نے فرمایا کہ نہیں عبداللہ! آج تو یہ جی چاہتا ہے کہ کوئی سنائے، اور میں سنوں۔حضرت عبداللہ بن مسعودؓنے سورۃالنساء کی تلاو ت شرو ع کی، جب اس آیت پر پہنچے کہ فَکَیْفَ اِذَاجِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍم بِشَھِیْدٍ وَّ جِئْنَا بِکَ عَلٰی ھٰٓؤُلَآئِ شَھِیْدًاo (النساء۴:۴۱) ’’پھر سوچو کہ اس وقت یہ کیا کریں گے جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور ان لوگوں پر تمھیں گواہ کی حیثیت سے کھڑا کریں گے‘‘، تواسی دوران میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کواندازہ ہوا کہ جیسے آپؐ ہاتھ کے اشارے سے روک رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ عبداللہ ٹھیر جائو۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓنے سراُٹھا کردیکھا تو نبی اکرمؐ زارو قطار رو رہے ہیں ، اور جواب دہی کے احساس سے ریش مبارک اور آنکھیں آنسوؤں سے تر ہیں ۔
ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ نبی اکرمؐ تہجد کے وقت حالتِ قیام میں تھے، جب سورۂ ابراہیم کی اس آیت پر پہنچے: رَبِّ اِنَّھُنَّ اَضْلَلْنَ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ ج فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّہٗ مِنِّیْ وَمَنْ عَصَانِیْ فَاِنَّکَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ o(ابراھیم ۱۴:۳۶) ’’پروردگار ان بتوں نے بہتوں کو گمراہی میں ڈالا ہے (ممکن ہے کہ میری اولاد کو بھی یہ گمراہ کر دیں، لہٰذا ان میں سے جو) میرے طریقے پر چلے وہ میرا ہے اور جو میرے خلاف طریقہ اختیار کرے تو یقینا تُو درگزر کرنے والا مہربان ہے‘‘، تواس آیت پر رک گئے اور پڑھتے جاتے تھے، روتے جاتے تھے تاآںکہ اللہ تعالیٰ نے جبریل ؑامین کو بھیجا ۔ انھوں نے آکر سوال کیا کہ کیا ماجرا ہے ؟ آپؐ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم ؑ نے تو اپنی اُمت کے لیے سب کچھ مانگ لیا،جو گناہ گار ہیں، ان کو مغفرت کے حوالے کر دیا جو اطاعت شعار ہیں ان کے لیے وعدے کا ذکر کیا ہے۔ان کی دعا کو پڑھتا ہوں تو اپنی امت کا خیال اور احساس مجھے ستاتا اور ڈراتا ہے۔ حضرت جبریل ؑواپس جاتے ہیں اور پھریہ خوش خبری لے کر واپس آتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپؐ کو بھی اپنی امت کے حوالے سے حضرت ابراہیم ؑ کی طرح مطمئن اور خوش کر دے گا۔ نبی اکرمؐ کے اسوے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن پاک سے شغف کا معنی اورمفہوم کیا ہے؟ اس سے تعلق کیسے جوڑا جائے، کیسے بڑھایااور برقرار رکھا جائے؟ آیات کے مفہوم سے کس طرح آشنا ہوا جائے، اور ان کے اندر جو حکم پنہاں ہے، اپنے آپ کو اس کا مصداق کیسیبنایاجائے۔
اسی طرح قرآن مجید نے ہدایت کی ہے کہ انقلاب ِامامت جیسے عظیم کام کی انجام دہی کے لیے ضروری ہے کہ صبر اور نماز سے مدد حاصل کی جائے، وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ (البقرہ۲:۴۵)۔ اسلامی تحریک کا ہر کارکن نماز کے ساتھ ایسا رشتہ استوار کرے کہ جس کے نتیجے میں نماز باجماعت پڑھنے کی ویسی حرص پیدا ہو جائے جیسے دولت و شہرت اور دنیاکی حرص ہوتی ہے اور انسان اس کے لیے پاگل ہو کر ہر جائز و ناجائزاورصحیح و غلط کام کر گزرتاہے ۔ نماز باجماعت پڑھنے کی حرص پیدا ہوگی تو طبیعتوں کے اندرسے اضمحلال دُور ہوگا، سکینت اور سکون کی کیفیت پیدا ہوگی اور ایک نیا انسان وجود میں آئے گا۔اسی طرح صبرکا معاملہ ہے۔اپنی پوری زندگی میںحق کواپنانا اور جسم و جان کو اس پر لگا دینا صبر ہے۔ حق کے معاملے میں اگرآدمی خود کسی الجھاؤ میں مبتلاہوجائے اور’ کہیں ایسا نہ ہوجائے کہیں ویسا نہ ہوجائے‘ کی گردان کرنے لگے تو وہ خود بھی کمزور پڑجاتا ہے اوراپنے اردگرد فضا کوبھی مسموم کرتا ہے۔
جماعت اسلامی بنیادی طور پر ایک فکری اور علمی تحریک ہے ۔ جو لوگ اس تحریک کے افکار و نظریات سے واقف نہیں ہیں، اس کے لٹریچر، بنیادی اصولوں اور قواعد و ضوابط سے آگاہ نہیں ہیں، وہ اس میں کچھ عرصے کے لیے فعال اور متحرک تورہ سکتے ہیں لیکن دیر تک اور دُور تک اس کے ساتھ چلنے کی صلاحیت اپنے اندر پیدا نہیں کرسکتے۔مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ کے مطابق جب لوگ مطالعے کے بغیر معاشرے میں متحرک دکھائی دیتے ہیںتو ان کے پاس بالآخر کہنے کے لیے کوئی مواد یا لوازمہ باقی نہیں رہ جاتا۔ اگر وہ مطالعے سے اپنا رشتہ توڑ لیتے ہیں تو جس طرح کنویں سے رفتہ رفتہ پانی کے بجاے کیچڑ نکلنے لگتا ہے، بلا مطالعہ انسان بھی اس کیفیت سے دوچار ہونے لگتے ہیں۔ ایک علمی تحریک سے وابستہ لوگ اگر مطالعے سے دُور ہوجائیں گے اور اپنے رویوں کے اندر اس کی کوئی اہمیت و مقام نہیں پائیں گے، تو ڈر ہے کہ وہ پھرایک ایسے مقام پر کھڑے ہوں گے کہ جہاں اپنی تحریک کی صحیح اور مؤثر ترجمانی نہ کرسکیں گے، اورنہ اس کو بیان کرسکیں گے کہ ہماری تحریک کیا ہے؟
جماعت اسلامی کے ہر ذمہ دار اور کارکن کے بارے میں حسن ظن کی بنیاد پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ وہ مطالعے کا خوگر ہوتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دنیا تیزی سے تبدیل ہورہی ہے، معاشرے سے پرانی اقدار رخصت ہوتی جارہی ہیں اورنئی اقدار جنم لے رہی ہیں ۔ایسے عالم میں لوگوں کو مطالعے کی طرف متوجہ کرنا فی الحقیقت ایک مشکل کام ہے۔ اگر انسان مطالعے کا خوگر ہو جائے تو اس کے نتیجے میں ہر رطب و یابس پڑھ جاتا ہے، جو رسالہ ہاتھ آیا اس کو چٹ کر لیا، جو مضمون دیکھا اس پر اول تا آخر نظر ڈال لی۔ پڑھتے پڑھتے بالآخرانسان کے اندر ایک ذوق بھی پیدا ہونے لگتا ہے کہ وہ کوئی کتاب اٹھاتاہے، کوئی رسالہ اس کے ہاتھ آتا ہے تو چند لمحوں کے اندرورق گردانی اور اس کی سرخیاں دیکھ کر اندازہ کر لیتا ہے کہ یہ میرے کام کی چیزہے یا نہیں۔میں جن مقاصد، زندگی کے جس نصب العین، اور معاشرے کو تبدیل کرنے کے لیے جو زادِراہ جمع کررہاہوں اس میں یہ مفید اور معاون ہے یانہیں ۔ اگر مفید ہوتا ہے تو وہ اس سے پورا فائدہ اٹھاتا ہے، اور جب دیکھتا ہے کہ اس کے لیے نفع بخش نہیں ہے تو اس کو چھوڑدیتاہے۔ اس کے نتیجے میں صرف انھی چیزوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے جواس کی کارکردگی میں بہتری اور جوش و خروش اور وابستگی میں بڑھوتری کا ذریعہ بنے۔
جماعتی مجالس میں اب غیر فعال کارکن کا ذکر ہونے لگا ہے، اورکہیں کہیں ارکان کے بارے میں بھی یہی کہا جانے لگا ہے۔ غیر فعال بھی اور کارکن بھی، حالانکہ کارکن تو نام ہی میدان کے اندر موجود متحرک، فعال اور بیدار شخصیت کا ہے۔ یہ متضاد اصطلاح اس لیے سنائی دیتی ہے کہ بہت سے لوگ ہنگامی طور پر بہت کام کرتے ہیں جس کی قدر کرنی چاہیے،اور بعض اوقات وہ معمول کے کارکن سے زیادہ حصہ بٹاتے ہیں اور بڑے پیمانے پر پرجوش اور متحرک دکھائی دیتے ہیںاور کچھ کرگزرنے کی صلاحیت سے آراستہ و پیراستہ ہوتے ہیں۔ لیکن اگر ایسے غیر فعال کا رکنوں کی ایک فہرست بنائی جائے جنھوں نے ہنگامی طور پر بہت کام کیا مگر جماعت اسلامی ان کے جسم و جان اور ان کی سوچ و فکر کے اندراُتار ی نہ جا سکی، تو اس کی بڑی وجہ یہی نظر آئے گی کہ وہ بنیادی لٹریچر جو فی الحقیقت جماعت اسلامی جیسی انقلابی تحریک کی اساس ہے، اس کے مطالعے کی طرف ان کی طبیعت کو مائل نہ کیا جا سکا اور وہ اس فکر کو حرزِ جاں نہ بنا سکے جو جماعت اسلامی کی بنیاد ہے۔
جماعت اسلامی کی تنظیم میںضلع سب سے اہم اکائی ہے۔ اس کی فعالیت ،سرگرم اور پُرجوش ہونا پورے ملک کے اندر جماعت کی تنظیم کا متحرک ہونا شمار ہوتا ہے ۔اس کی اچھائیاں اور خوبیاں پورے ملک کے اندر جماعت کی اچھائیاں اور خوبیاں تصور کی جاتی ہیں، اوراس کی کمزوری اور کوتاہی پوری جماعت کی کمزوری اور کوتاہی کے مترادف ہے۔ اضلاع کی اس اہمیت کے پیش نظر وہاں سب سے اہم کام مناسب اور سرگرم ٹیم بنانا ہے۔ جب کوئی فرد ذمہ داری کا بار اٹھاتا ہے، تو اسے اپنا ہاتھ بٹانے ، اپنی صلاحیت کی کمی کو دُور کرنے، اور اپنے بعض معاملات کو زیادہ بہتر طریقے سے انجام دینے کے لیے ایک ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسے یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ کس فرد میںکیا صلاحیت اور کیا استعداد ہے، اورکس طریقے سے وہ تنظیم اور جماعت کے کام آسکتاہے اور معاملات میں دل چسپی لے کر ہاتھ بٹاسکتا ہے۔ لیکن ٹیم کے نام پرگروہ بنا لینا، اپنے ہم نواو ہم خیال اکٹھے کر لینا، ایسے لوگوں کو جمع کرلینا جوہاں میں ہاں ملاتے ہوں،درست نہیں ہے جس سے بچنا اولیٰ ہے۔ انسانوں کی تنظیم اور اکائی میں ہمیشہ اس بات کی گنجایش رہی ہے کہ اس حوالے سے کوئی کمزوری اپنا راستہ بنالے لیکن اگر ذمہ داران جماعت اپنے رویوں پر از سر نو غورکریں اور تنظیم کواس حوالے سے صاف اور روشن بنادیں، تو پھر لوگوں کے لیے کام کرنا آسان اور سہل بھی ہوجائے گا اوران کے ذوق و شوق میں بھی اضافہ ہوگا، نیز بہترین صلاحیت کے حامل ساتھی قیادت کی ذمہ داریاں ادا کرسکیں گے۔
بطور تنظیم، جماعت اسلامی کی ایک کمزوری حالیہ انتخابات میں ایک دفعہ پھر ظاہر ہوئی ہے۔ جماعت کے پاس کارکنان اوراس کے جلو میں چلنے والے لوگوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ فہم قرآن کے اجتماعات میں ۵۰،۶۰ ہزار لوگ آتے ہیں اور بڑے شوق سے جماعت کی دعوت اور ذمہ داران کی گفتگو سنتے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں جہاں خواتین کے ووٹ دینے نہ دینے کی بحث ہوتی ہے اور جہاں لوگ عورتوں کو گھروں سے باہر نہیںجانے دیتے، وہاں فہم قرآن کے اجتماعات میں ہزارہا ہزار خواتین شامل ہوتی ہیں،اوررات کے وقت بھی شریک ہوتی ہیں اور دن کو بھی، کیونکہ لوگ اس کو ثواب اور دین کاکام سمجھتے ہیں۔ جماعت نے ہزارہا ہزار بلکہ لاکھوں لوگوں کو پورے ملک کے اندرفہم قرآن کے حوالے سے جمع کیاہے۔ یہی معاملہ الخدمت فائونڈیشن کا ہے کہ ہم لاکھوں لوگوں تک الخدمت کے ذریعے پہنچے ہیں اور بلا تفریق مسلک و مذہب اور زبان، ان کی خدمت کی ہے۔ان دونوں صورتوں میں رجوع کرنے والوں کو ووٹ کی صورت میں تبدیل نہیں کیا جا سکا۔یہ اگر ووٹر نہیں بن سکے تو اس میں ان کے بجاے تنظیم اور اس کے کارکنوں کی کمزوری کا دخل ہے۔
یہ بات قابل غور ہے کہ اجتماعات میں لاکھوں لوگ شریک ہوتے ہیں ، جماعت اور اس کی قیادت سے عقیدت کا اظہار کرتے ہیں مگر ووٹر نہیں بن پاتے ۔ انتخابات سے پہلے کے تین مہینوں میں جماعت نے جگہ جگہ بڑے بڑے جلسے کیے، ان میںحاضری کی کوئی کمی نہیں ہوتی تھی۔لیکن وقت اور حالات نے بتایاکہ ان جلسوں میں آنے والے لوگ جنھوں نے اپناوقت اور پیسہ صرف کرکے ہمارا موقف سنا، مقررین اور انتخابی نمایندوں کودیکھا ، اس پر قائل نہ ہو سکے کہ ووٹ بھی ہمیں دیں۔اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ رابطۂ عوام میں تسلسل نہیںہے ۔ ایک رابطے کے ذریعے لوگ اجتماعات میں آجاتے ہیں،سیلاب و زلزلہ زدہ علاقوں میں ہماری خدمات سے فائدہ اٹھاتے ہیں، تعلیم و صحت اور معاشرتی فلاح و بہبود کے کاموں میں ہم سے مستفید ہوتے ہیں،مگر جماعت کا کارکن انھیں اس درجہ ہم نوا نہیں بنا پاتا کہ بالآخر وہ ہمارا ووٹر بھی بن جائے۔ نچلی سطح تک اس موضوع کو زیر بحث لانا چاہیے کہ ہماری تعریف کرنے والے اورمعاشرے میں ہمارے ہم نوا لوگوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ ہمارے موقف سے اتفاق کرنے والے بھی بہت بڑی تعداد میں ہیں اور ہمیں پسند کرنے اور ہمارے حق میں دعائیں کرنے والے بھی کم نہیں ہیں، اگر یہ سب لوگ ووٹر بن جائیں تو وہ انقلاب جو بہت دُور نظر آتا ہے بہت پہلے برپاہوسکتا ہے۔
آنے والے بلدیاتی انتخابات پھر اس کا موقع فراہم کرنے والے ہیں کہ جماعت اسلامی کی تنظیم اور کارکن بہتر حکمت عملی کے ساتھ میدان میں آئے اور اس حمایت کو سیاسی قوت میں بدلنے کی بھرپور کوشش کرے۔ سیاسی و بلدیاتی دائرے کے اندر فعال ہونا کئی حوالوں سے جماعت کی بھی ضرورت ہے اور عوام کی بھی۔اس میں کم سے کم کامیابی پیش نظر رہنی چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ جہاں پانچ سیٹوں میں سے ہمیں ایک سیٹ مل سکتی ہے وہاں دو کی کوشش نہ کریں، ورنہ وہ ایک بھی ہاتھ سے جاسکتی ہے اور ماضی میں اس طرح کے تجربات سے ہم گزر چکے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات میں سب سے اہم رول اضلاع کا ہے۔ صوبوں کا رول اس میں ثانوی ہے کیونکہ ان کو معلوم نہیں کہ کس جگہ پر کیا حالات ہیں ۔ اضلاع کو یہ بات بہتر طور پرمعلوم ہے کہ کون کون سے مقامات ایسے ہیں جہاں انھیں زیادہ توجہ دینی چاہیے۔
بلدیاتی انتخاب ایک بہترین موقع ہے کہ نوجوان قیادت کو سامنے لایا جائے۔یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ نوجوان زیادہ متحرک اور پرجوش ہوتے ہیںاور کم و قت میں زیادہ کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایسے ہی نوجوان تحریکوں کے لیے سرمایہ ہوتے ہیں۔ نظم جماعت کو بلدیاتی انتخابات میںایسے نوجوانوں کو سامنے لانا چاہیے ، ان کے مشوروں اور تجاویز سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور انھیں ضروری آزادیِ عمل دینی چاہیے تاکہ وہ تحریک کے لیے بہترین نتائج دے سکیں۔ اس تناظر میں یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ نوجوانوں کا سب سے بڑا اورمنظم گروہ جماعت اسلامی کے ساتھ ہے۔ ان کا تعلق اسلامی جمعیت طلبہ سے ہو، جمعیت طلبہ عربیہ سے ہو، شباب ملی سے ہو یا کسی بھی دوسری برادرتنظیم سے۔ یہ نوجوان اس ملک کے اندر انقلاب برپا کرنا چاہتے ہیں۔ قرآن و سنت کی بالادستی اور شریعت کا نفاذ، حکومت الٰہیہ کا قیام اور زندگی کے تمام دائروں میں اسلام کے احکامات اور اس کی ہدایات پر عمل کرنا چاہتے ہیں۔ان کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ بحیثیت ذمہ دار اور کارکن یہ کوشش کی جانی چاہیے کہ نوجوانوں کو بامقصد بنائیں، زندگی کے نصب العین کے لیے جدوجہد کرنے کا عنوان ان کے دل و دماغ میں سجائیں اور زندگی اس ملک میں جن راہوں سے گزر رہی ہے، جتنے بڑے پیمانے پر دہشت گردی ہے ، حکمرانوں کے اللے تللے، لوٹ مار اور کرپشن کے کلچر کا سامنا ہے، اس کا مقابلہ نوجوانوں کی طاقت اور صلاحیت سے ہی ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ نوجوانوں کو متحرک، فعال اور بیدار کر کے جدوجہد کاخوگر بنایا جائے۔
ویسے تو بالعموم لیکن بلدیاتی انتخابات کے پیش نظر بالخصوص ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے جماعت سے وابستہ ہر فرد کو کم از کم ملک کے سب سے بڑے صوبے کی حد تک حکمران جماعت کا منشور اپنی جیب میں رکھنا چاہیے تاکہ لوگوں کوبتایا جا سکے کہ انھوں نے اپنے منشور میں لکھا یہ تھا کہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے ،کہا یہ تھا کہ کشکول توڑ دیا ہے ،اور اپنی شرائط پر قرضہ لیں گے لیکن کام اپنے منشور سے بالکل مختلف کر رہے ہیں۔جس پارٹی کو یقین ہوکہ وہ الیکشن جیت رہی ہے تووہ اچھے ہوم ورک کے ساتھ سامنے آتی ہے۔ مسلم لیگ ن کویہ معلوم تھا کہ الیکشن جیتتے ہی اسے بجٹ لانا پڑے گا اور اگر تیاری نہ ہوئی تو ٹیکسوں کی بھرمار کرنی پڑے گی۔حکومت کی پانچ ماہ کی کارکردگی سے واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ یا تو وہ منشور ہاتھی کے دانت کی مانند تھا جن کا معاملہ اس پہ ہوتا ہے کہ دکھانے کے اور کھانے کے اور ، یا دعوے کے مطابق ان کے پاس کوئی ٹیم نہیں تھی جو اس پر عمل درآمد کے لیے سوچ بچار کرتی اور کام کر کے لوگوں کو مشکلات سے بچاتی۔ آئی ایم ایف کی شرائط پر قرض لینے کا مطلب ہی یہ ہے کہ بجلی و گیس کی قیمتیں بڑھتی چلی جائیں، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہواور قومی ادارے نجکاری کا شکار ہوتے چلے جائیں۔ اس تناظر میں مسلم لیگ ن کے منشور کے حوالے سے جماعت اسلامی کے ہر ذمہ دار اور کارکن کا اچھا ہوم ورک ہونا چاہیے۔ مناظرے یا جھگڑے کی کیفیت نہ ہو لیکن یہ بات فیلڈ میںبہ تکرار، بصداصرار اور ایک بار نہیں سوبار کہنی چاہیے کہ انھوں نے عوام سے جو وعدے کیے تھے، انھیں پورا نہیں کیا ہے۔
وقت نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ الیکشن سے احتساب نہیں ہوتا۔ بعض لوگ یہ کہہ کر اپنا دامن چھڑا لیتے ہیں کہ انتخاب ہی سب سے بڑا احتساب اور فیصلہ کن امر ہے، مگرمشاہدہ یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں جو آتا ہے وہ چوروں کے بادشاہ، علی بابا کا رُوپ دھار لیتا ہے اور چالیس چوروں پر سوار ہوکر حکمرانی کرتا ہے۔ عوام الناس کو یہ بتانا چاہیے کہ چوروں کو ووٹ دے کر قسمت نہیں سنور سکتی، مستقبل تابناک اور روشن نہیں ہوسکتا، حالات میں کوئی بہتری پیدا نہیں ہوسکتی۔چوروں کو ووٹ دے کر اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ چوروں کے ہاتھ کاٹے جائیں گے اورکرپٹ لوگوں کو ووٹ دے کر اگر کوئی سمجھتا ہے کہ کرپشن کا خاتمہ ہوجائے گا، تو اسے بسم اللہ کے اس گنبد سے باہر نکلنا چاہیے۔ ان بنیادی حقائق کی روشنی میں ہرصوبے میں وہاں کے حالات کے مطابق انتخابی حکمت عملی اور ووٹر کو مخاطب کرنے کے لیے صحیح بیان تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ ملکی، صوبائی اور مقامی تمام حالات اور ضرورتوں کو سامنے رکھ کر ہمیں اپنی انتخابی مہم کو مرتب اور منظم کرنا ہوگا۔
جماعت اسلامی نے زمام کار کی تبدیلی کے لیے جمہوریت اور انتخاب کا راستہ اختیار کیا ہے۔ جمہوریت کے حوالے سے عمومی طور پر دنیا بھر میں ایک قاعدہ کلیہ اور اصول بیان کیا جاتا ہے کہ جمہوریت کو چلانے کے لیے سیکولرازم اتنا ہی ضروری ہے جتنا خود جمہوریت۔ اگر سیکولرازم نہ ہو تو جمہوریت ناکام ہوجاتی ہے۔ اس لیے کہ جمہوریت کا اپناکوئی مذہب نہیں ہے کہ اکثریت تو مذہب نہیں ہواکرتی۔ اسی حوالے سے ہمارے ہاں بھی یہ بات کہی جارہی ہے کہ فیصلہ سازی شریعت کے بجاے اکثریت کے حوالے کر دی گئی ہے۔پاکستان کے تناظر میں یہ ایک بڑامغالطہ ہے۔ اسی لیے مثال دینی پڑتی ہے کہ شراب کی حرمت اوراس پر پابندی کے خلاف اگر اکثریت فیصلہ کرتی ہے توہم اسلامی جمہوریت کے قائل ہیں، اس کو تسلیم نہیں کریںگے۔ لیکن اس کو دوسرے طریقے سے بھی سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ جماعت اسلامی کی حیثیت پہلے دن سے اسٹریٹ پاور کے حوالے سے جانی جاتی ہے۔ جن چیلنجوں کا مقابلہ کیا گیا اور اہداف کا حصول ممکن ہو پایا ، اور مختلف حوالوں سے پارلیمنٹ نے جو فیصلے کیے، مثلاً قرار داد مقاصداورختم نبوت، تو اس کے پیچھے ایک تحریک اور سٹریٹ پاور تھی،اوراس میں جماعت اسلامی پیش پیش تھی۔ اگر نظام مصطفیؐ کی تحریک کو لوگ سب سے مضبوط اور بڑی تحریک قرار دیتے ہیں تو اصلاً وہ اسٹریٹ پاور تھی جس نے اس کو یہاں تک پہنچایا۔ پاکستان قومی اتحاد کاقیام نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نہیں تھا۔ اس کے ابتدایئے، تمہید اور اہداف میں کہیں نظام مصطفیؐ کا ذکر نہیں ملے گالیکن کیونکہ عوامی سطح پر ایک بڑی تحریک تھی اور جماعت اسلامی ، اس کا کارکن اور اس کی تنظیم اس میں پیش پیش تھی تو وہ نظامِ مصطفی ؐؐ کی تحریک بن گئی۔اور کسی کے اندراتنا دم خم نہیں تھا کہ وہ سوال کر سکے کہ یہ نظامِ مصطفیؐ کہاں سے آگیا۔
ہم جمہوریت اس لیے چاہتے ہیں کہ حق کو حق اور باطل کو باطل کہہ سکیں۔ آنے والے دنوں میں یہ مسائل پھردرپیش ہوں گے۔ جولوگ کہتے ہیں کہ سیکولرازم کے بغیر جمہوریت اور حکومت نہیں چلتی، وہ نت نئے مسائل سامنے لاتے رہتے ہیں۔ جیسے آج کل یہ بات بہت زیر بحث ہے اور کچھ عرصے تک اسمبلیوں کے اندر آجائے گی کہ سزاے موت کوختم کردیا جائے۔ ظاہر ہے کہ یہ بات خلافِ شریعت ہے۔ جماعت اسلامی کا کارکن اس کو شریعت کے نقطۂ نظر سے میدان عمل میں لے کر آئے کہ ہمیں کسی کو مارنے سے دل چسپی نہیں ہے لیکن شریعت کی سزائوں کا تحفظ مطلوب ہے، تو بالکل ایک دینی تحریک اُٹھ کھڑی ہوگی اور پھر اس میں سزاے موت کا معاملہ ہی نہیں بلکہ پورا دینی ایجنڈا شامل ہوجائے گا۔
شریعت اور جمہوریت کے تعلق کی نسبت سے ایک بنیادی بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ پاکستان کی آبادی کا ۹۵ فی صدی مسلمان ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت پر ایمان رکھتا ہے اور اسے اپنی زندگی کے قانون اور ضابطے کی حیثیت سے تسلیم کرتا ہے، اور پاکستان کا دستور اس بنیاد پر قائم ہے کہ ریاست اور معاشرہ دونوں کے لیے اسلام رہنما اصول کی حیثیت رکھتا ہے اور قانون سازی کا منبع قرآن و سنت ہیں۔ شریعت کوئی باہرسے لائی جانے والی چیز نہیں بلکہ جمہور کا اصل منشا اور مقصود اور ان کے دل کی آواز ہے۔ اور یہی چیز اسلامی جمہوریت کو سیکولر جمہوریت سے ممتاز کرتی ہے کہ جمہور نے ریاستی نظامِ کار کے لیے اپنی آزاد راے سے اپنے ایمان اور جذبات کے مطابق جو دستوری فریم ورک بنا دیا ہے، اب قانون سازی اسی فریم ورک کے مطابق ہوگی اور یہی حقیقی جمہوریت کی اصل روح ہے۔ ان میں کوئی تضاد یا تناقض نہیں۔ سیکولر لابی جمہوریت کے نام پر جمہور کے اصل عقائد، احساسات، خواہشات اور تمنائوں کے برعکس ایک درآمد شدہ نظام اقدار ان پر مسلط کرنا چاہتی ہے۔ اور اگر اس کے لیے پارلیمنٹ کے ادارے کو بھی دستور کی واضح دفعات اور دستور کی اسپرٹ کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی جائے تو پھر جمہور کے لیے اپنے مقاصد اور احساسات کو مؤثر بنانے کے لیے اسٹریٹ پاور کا ہتھیار ہے، جو دنیابھر میں جمہوریت کا ایک اہم ستون تسلیم کیا جاتا ہے۔
یہ بھی جمہوریت ہی کا ایک خوش گوار پہلو ہے اور ہمارے نزدیک اس کی قبولیت کی ایک اہم وجہ بھی یہ ہے کہ اس سے ایک آزادی میسر آتی ہے اور حق کو حق کہنے اور باطل کو باطل کہنے کے عنوانات کہکشاں کی طرح دُورتک سجے نظرآتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس اعتبار سے اس کی قدر کی جانی چاہیے۔ الحمدللہ جماعت اسلامی کے پاس وہ اسٹریٹ پاور موجود ہے جو معاملات میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکتی ہے اور اس حقیقت کو ہمارے مخالف بھی تسلیم کرتے ہیں۔ یہ سٹریٹ پاور اسے برادرتنظیموں سے بھی میسرآتی ہے اور جب عوام کے مسائل سامنے آتے ہیںتوجماعت اسلامی کے نہایت بزرگ اور ضعیف کارکن بھی جو ان ہوجاتے ہیںاور جوانوں سے زیادہ تحرک اور جوش و سرگرمی کامظاہرہ کرتے ہیں۔ نیز وہ عوام بھی اس میں متحرک ہوجاتے ہیں جو الیکشن کے وقت چاہے برادریوں اور روایتی سیاسی وفاداریوں کی گرفت میں ہوں لیکن اہم قومی ایشوز پر دل کی بات کہنے اوراس کے لیے کٹ مرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔
گذشتہ دنوں لاہور میں منعقد ہونے والی اسلامی تحریکوں کی دو روزہ عالمی کانفرنس کے حوالے سے یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ تحریکات کی قیادت میں اس اعتبار سے مکمل طور پر یکسوئی پائی گئی کہ اپنے اہداف تک پہنچنے کے لیے اسلامی تحریکوں کو پُرامن جدوجہد کرنی چاہیے اور اس کے لیے جمہوری راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ اس حوالے سے شریعت کے تقاضوں کو پورا کرنا چاہیے۔ کسی پر کوئی چیز تھوپ دی جائے تو وہ الگ بات ہے لیکن پر امن جدوجہد اور اپنی دعوت کی بنیاد پردل و دماغ مسخر کرکے لوگوں کو اپنا ہم نوا بنانا،انھیں اپنے جلو میں لے کر چلنا اور پھر اس کے مطابق ضروریات کو پورا کرنا چاہیے۔ کانفرنس میں ایسے لوگ بھی موجود تھے جنھوں نے اپنے سیکڑوں اور ہزاروں ساتھیوں کی لاشیں اٹھائی ہیں اور اپنی آنکھوںسے جوانوں کا خون بہتے اور بوڑھوں،عورتوں اور بچوں پر ظلم ہوتے دیکھا ہے لیکن انھوں نے بھی یہ بات کہی کہ اسلامی تحریکوں کا راستہ پُر امن ہے۔
نہ شریعت بندوق کی نالی کے ذریعے قائم ہوتی ہے اور نہ امن۔ ریاست کے لیے قوت کے استعمال کا ایک مقام اور حق ہے لیکن یہ اختیار بھی حق اور ضابطے کا پابند ہے۔ لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قرآن کا واضح حکم ہے اور یہی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ اور تاریخ کا سبق ہی یہ ہے کہ جو تبدیلی بندوق کے ذریعے آتی ہے، اسے باقی رکھنے کے لیے بھی بندوق ہی کی کارفرمائی ضروری ہوتی ہے اور اس طرح انسانی معاشرہ اور ریاست بندوق کے اسیر ہوکر رہ جاتے ہیں۔ یہ انسانی معاشرے کے لیے ہدایت اور اصلاح کے اس راستے کی ضد ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبیؐ کے ذریعے انسانیت کی ابدی ہدایت کے لیے ہمیں دیا ہے اور بات بھی بہت واضح ہے۔ ہماری دعوت اور تحریک پُرامن اس لیے ہے کہ جن کے پاس پیغام ہو، وہ پُرامن ذرائع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ اسلام کی دعوت مقبول ہے اورقرآن و سنت پر مبنی پروگرام لوگوں کے دل کی آواز ہے۔ اگر اسلامی تحریکیں اپنے اندر، لوگوں کے دلوں پر دستک دینے کی صلاحیت پیدا کریں، اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرکے لوگوں کو اپنا ہم نوابنانے کی کوشش کریں، اور اپنے کردار سے یہ ثابت کریں کہ وہ قرآن و سنت کی فرماںروائی اور عدل و انصاف کے نظام کا نفاذ چاہتی ہیں،تو عوام الناس ان کا ساتھ دیں گے۔
نائن الیون کے بعد اہل مغرب ، مغربی تہذیب اور اس کے سرمایہ دارانہ نظام نے اسلام کو فنا کے گھاٹ اتارنے، اس کی قیادت کو چارج شیٹ کرنے اور پوری دنیاکی نگاہ میں اخلاقی طور پر اس کو گرانے اور سیاسی طور پر اس کا پوسٹ مارٹم کرنے کی جو کوشش کی ہے، اس سے اسلامی تحریکوں کو نقصان پہنچا ہے (اگر اسے نقصان کہا جائے جو اخوان کو مصر میں ہوا ہے یا افغانستان میںہوا)۔لیکن اگر بیلنس شیٹ بنائی جائے تواس نقصان کے مقابلے میں فائدہ زیادہ ہوا ہے۔ اخوان المسلمون سے لوگوں نے براء ت کاعلان نہیں کیا کہ آیندہ اس پلیٹ فارم پر نہیں آئیں گے ، بلکہ وہ جوق در جوق آ رہے ہیں، آگے بڑھ رہے ہیں اور اخوان نے پوری قیادت کے پابند سلاسل ہونے اور تنظیم پر پابندی لگنے کے باوجود تحرک اور مسلسل احتجاج کی ایک نظیر قائم کی ہے۔
یہی معاملہ بنگلہ دیش کا ہے جہاں پھانسیوں کی سزائیں سن کر لوگوں کے اندربے چینی اور اضطراب پیدا ہوا ہے،مگر جہاں جہاں اسلامی چھاترو شبر ہڑتال کی اپیل کرتی ہے وہاں مکمل ہڑتال ہوتی ہے۔ ہزاروں افراد کے پابند سلاسل کیے جانے کے باوجود گرفتاریوں کے لیے ہر جگہ درجنوں لوگ اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں۔ یہ قوت کہاں سے آئی ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ مسلسل جدوجہد ، مقصد کے ساتھ وابستگی اور اس کے لیے پیروں کو غبار آلود کرنے کا نتیجہ ہے۔ چار دانگ عالم میں بنگلہ دیش جماعت کوئی اتنی جانی پہچانی اور لوگوں کے درمیان اتنی مقبول نہیں تھی جتنی اب ہوئی ہے۔ پھانسیوں کی سزا ئیں ہوں یاجیلوں میں جانے کا معاملہ ہو، یا زخموں سے چور لوگ ہسپتالوں کے اندر موجود ہوں، ان تمام نقصانات کے باوجود یہ تحریکیں آگے بڑھی ہیں۔ ان کا راستہ روکنے کے لیے مغرب اور اس کے گماشتوں نے جتنے ہتھکنڈے استعمال کیے وہ سارے ناکارہ ہوگئے ہیں۔ وہ سارے اوزار اور ہتھیار فرسودہ قرارپائے ہیں جو اسلامی تحریکوں کو ذبح کرنے کے لیے استعمال کیے گئے۔
مغرب کی تازہ حکمت عملی یہ ہے کہ اسلامی تحریکوں کو تشدد کی طرف دھکیلا جائے اور اس بات کو ممکن بنایاجائے کہ وہ ردعمل کاشکار ہو کر انتقامی کارروائیوں کی طرف چل پڑیں۔اشتعال، غصے اور جھنجھلاہٹ کے عالم میں ان کے کارکنان سڑکوں پر آ کرمعاشرے کا نقصان کریں تاکہ اس کے نتیجے میں ان پرگرفت کرنا اورہاتھ ڈالنا آسان ہوجائے اور عوام اور ان کے درمیان بھی بے اعتمادی پیدا ہو جس کے نتیجے میں وہ عوامی تائید سے محروم ہوجائیں۔چاروں طرف سے مسلمانوں کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہے، ان کا جینا دوبھر کیاجارہا ہے،ان سے سارے حقوق چھینے جا رہے ہیں، دیوار کے ساتھ لگاکربند گلی کا اسیر بنایا جارہا ہے، تاکہ وہ اپنا نام ہی بھول جائیںاور اپنی شناخت ہی گم کربیٹھیں ۔ کل وہ بنیاد پرست تھے، پھرمتشدد قرار پائے، اور پھر دہشت گرد ، اب کوئی اور بھی مرحلہ آجائے گا۔ بین الاقوامی سطح پر یہ بات توطے کر لی گئی ہے کہ دہشت گردی عالمی مسئلہ ہے لیکن دہشت گرد ہونے کے لیے مسلمان ہونا ضروری ہے ۔ اگر مسلمان نہیں ہے تووہ دہشت گرد نہیں ہے۔ سارے رویے اور ساری کوششیں اس کی غمازی کرتی ہیں۔ امریکا میں کئی واقعات ایسے ہوئے ہیں کہ ایک آدمی نے درجنوںلوگوں کوقتل کردیا، لیکن کبھی ایسے آدمی کودہشت گرد نہیں کہاگیا۔ اگر وہ امریکی ہے، ان کا ہم مذہب اورہم پیالہ و ہم نوالہ ہے، توکہا جاتا ہے کہ وہ نفسیاتی مریض تھا اور ردعمل میں اس نے یہ کیا،اور پھر ایک دو دن کے بعد ہی وہ خبر غائب بھی ہوجاتی ہے۔ اور اگر ایسا کرنے والا مسلمان ہے تو پہلے ہی لمحے سے بات یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ دہشت گرد نے یہ کام کیا ہے، اور پھر تبصروں اور تجزیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
اسلامی تحریکوں میں ایک بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے اور یہ خود ان تحریکات کی کامیابی کی علامت ہے ۔اسی طرح خواتین کی بھی ایک بہت بڑی تعداد ہے جو دعوت کے ابلاغ کے لیے ہر وقت بے چین اور مضطرب رہتی ہے۔ جوانوں کی جوانی اورخواتین کے قوت و طاقت سے سرشار جذبوں اور رویوں کی قدر کرتے ہوئے انھیں یہ بتانا ضروری ہے کہ اسلامی تحریکوں کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ پُرامن راستہ اپنائیں۔ دعوت و تبلیغ اور دل و دماغ کو اپیل اور مسخرکر کے اپنی قوت میں اضافہ کریں اور اپنے حالات بہتر بنانے کی کوشش کریں ۔وہ تحریکیں جوپرامن راستوں کو اپناتی ہیں، قاعدے ضابطے کا اپنے آپ کوپابند بناتی ہیں وہ دیر تک اور دُور تک چلنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ بقاکے لیے تحریکوں کا پُرامن رہنا ضروری ہے۔ تشدد کا راستہ اپنانے سے مقاصد دم توڑ دیتے ہیں اور فنا کے گھاٹ اُترجاتے ہیں، اور تحریکوں کے اندر غیر مطلوب چیزیں در آتی ہیں ۔
امریکا اور مغرب کے موجودہ ہتھکنڈے ایک ہاری ہوئی جنگ جیتنے کے حیلے بہانے ہیں ، وہ جنگ جو میدان جنگ کے اندرافغانستان میں ہاری گئی ہے،وہ جنگ جو تہذیب وتمدن ، معاشرت اور خاندانی نظام اور اخلاقیات کے دائرے میں الحمدللہ مسلمانوں نے بڑی حد تک جیتی ہے، اس فتح کو چھین لینے اور اس کو فراموش کردینے کی تمام تدبیریں کی جا رہی ہیں۔ یہ ہمارے شوق کی بات نہیں کہ امریکا کو للکارا جائے اور اسے دیس نکالا دینے کی بات کی جائے۔ ہمیں امریکا سے کسی خاص سطح پرکوئی دشمنی بھی نہیں ہے اور امریکا میں بسنے والے کروڑوںلوگوں سے بھی کوئی اختلاف نہیں ہے ۔مگر ہمارے تہذیب و تمدن سے انکار ،اور اپنے رویوں اوراقدامات پر غیر ضروری اصرار کے ذریعے مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک وہ کرتے آئے ہیں اور آج بھی کر رہے ہیں، ہمیں دراصل اس سے اختلاف ہے۔ حالات سے اسی واقفیت کے نتیجے میں جماعت اسلامی اپنی پالیسیاں بناتی اور ’گوامریکا گو‘ تحریک چلاتی ہے جو دراصل ایک نظریاتی اور تہذیبی کش مکش کی علامت ہے۔
اس تناظر میں جماعت کے ذمہ داران اور کارکنان کو غورو فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ اگلے سال کے اوائل میں امریکی فوجوں کو افغانستان سے جانا ہے(اگرچہ امریکا یہ اعلان کر رہا ہے کہ اس کی چند ہزار فوج افغان قیادت کے تحفظ کے لیے تربیت کے نام پر افغانستان میں رہے گی)۔ امریکا کے جانے کے بعدجو بھی امریکا کی پسند کے حکمرانوں کا تحفظ کرے گا، اس کا حشر اس سے بھی زیادہ برا ہوگا جتنا امریکا کے ہوتے ہوئے ہوا ہے۔اس بات کی اہمیت کو سمجھنا اور عوام الناس تک پہنچانا چاہیے کہ خطے پر امریکی اور ناٹو فورسز کا قبضہ صرف اس لیے نہیں ہے کہ اس خطے کے وسائل پر نظر رکھی جائے،اور ان کو بالآخرامریکی خواہش کے مطابق قابو میں لایا جائے، بلکہ یہ خطہ پوری دنیا میں سب سے اہم خطہ ہے کیونکہ یہاں امریکا کے نئے عالمی نظام کی سب سے زیادہ مزاحمت ہے۔یہاں پاکستان، ایران اور افغانستان موجود ہیں، اور متحرک اسلامی تحریکیں موجود ہیں۔ یہاں چین ہے، مزاحمت کرتی ہوئی وسطی ایشیا کی ریاستیں ہیں۔
ایران کے حوالے سے یہاں ایک بات محض افہام و تفہیم کے لیے کہنی ضروری ہے اور اسی بنیاد پر ہم اپنے ارباب حل و عقد سے یہ بات کہتے ہیں کہ امریکا کی اہمیت کے پیش نظرہم اس سے لڑائی نہیں لڑنا چاہتے،اس کی دشمنی نہیں مول لینا چاہتے،لیکن اس پوری پالیسی پر نظرثانی کرنا وقت کا تقاضا ہے۔ امریکا کے ساتھ ہمارے تعلقات کی نوعیت کیا ہونی چاہیے؟ ایران کی صورت میں ایک مثال ہمارے سامنے موجود ہے۔ پچھلے ۱۲ سال میں عراق اور افغانستان کے بارے میں امریکا اور ایران کی پالیسیاں ایک جیسی ہیں،اگرچہ ابھی یہ طے کرنا مشکل ہے کہ اس میں زیادہ فائدہ کس کو ہوا ہے؟عراق میں سنی حکومت کے بدلے میں شیعہ حکومت قائم ہوگئی ہے۔ افغانستان میں ایک دیوبندی یا مذہبی حکومت تھی، اس حکومت کو ہٹا یا گیا تو ایران کے مقاصد پورے ہوئے۔ گویا ایران اور امریکا نے یہ بتائے بغیر کہ دونوں ایک دوسرے سے تعاون کر رہے ہیں، اپنی خارجہ پالیسی کو اس طریقے سے ترتیب و تشکیل دیا کہ ایک نے دوسرے کو فائدہ پہنچایا اوردونوں نے اپنے دشمن کو نقصان پہنچایا ۔ پاکستان کو بھی امریکا کے ساتھ اپنے فوائد سمیٹنے،اہداف حاصل کرنے اور اپنی ترجیحات کے مطابق معاملات طے کرنے کے لیے ایک نئی خارجہ پالیسی وضع کرنے کی ضرورت ہے ۔ آزاد خارجہ پالیسی وہی ہوتی ہے جو قومی مقاصد کی آبیاری کرے اورملک و ملت کے لیے سودمند ثابت ہو۔ پاکستان ابھی تک اس خطے میں اس خارجہ پالیسی پر عمل کر رہا ہے جو دراصل امریکی مفادات کی نگران ہے اور امریکی ترجیحات کے مطابق کام کرتی ہے۔
یہ بات درست ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے حکومت نے آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی ہے۔ اس کا مشترکہ اعلامیہ سامنے آیا ہے اور اتفاق راے سے فیصلے ہوئے ہیں لیکن اس میں بنیادی بات یہی ہے کہ دہشت گردی کا آغاز تو ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے ہوا ہے۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جس جنگ کا حصے دار بنا ہواہے اور ضرورت سے زیادہ جس میں دل چسپی لے رہاہے، اگرماضی کی طرح ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں پاکستان کا یہ کردار جاری رہتا ہے، امریکا کے ساتھ انٹیلی جنس شیئر کرتے ہیں، ڈرون حملوں کو برداشت کرتے ہیں جو وار آن ٹیرر کاہی ایک عکس ہیں۔ اس کے لیے امریکا کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کی جاتی ہے ، حساس ائیرپورٹ اس کے حوالے کیے جاتے ہیں، انٹیلی جنس شیئر کی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پہلے ڈرون حملے پاکستان کی سرزمین سے ہوتے تھے، اب باہر سے ہو رہے ہیں، مگر یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کسی معاونت کے بغیر یہ حملے باہر سے ہوسکیں۔ باہر بیٹھ کر یہ اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ کہاں حملہ کرناہے جب تک کہ مقامی طور پر انٹیلی جنس فراہم نہ کی جائے۔دہشت گردی کے اس مسئلے کو آل پارٹیز کانفرنس جس حدتک ایڈریس کرسکتی تھی اس نے کیا ہے اور یہ بات کہنے کی کوشش کی ہے کہ ڈرون حملے ختم کیے جائیں اور ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے جان چھڑائی جائے۔ اگر یہ دونوں کام نہیں ہوپاتے بلکہ ایک کام نہیں ہوپاتا تو دوسرا بھی نہیں ہوگا اور دوسرا نہیں ہوگا تو دہشت گردی کی ایک فضا موجودرہے گی۔
اس مسئلے کو اس تناظر میں بھی دیکھنا چاہیے کہ مغربی قوتوں اور بھارت کا اس پر اتفاق ہے کہ پاکستان میں انارکی و اشتعال کی فضاپیدا کر کے ایک ناکام ریاست کی صورت پیدا کی جائے، اورانتشار کویہاں تک پہنچادیاجائے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرا م کے غلط اور غیر ذمہ دار ہاتھوں میں جانے کا واویلا کر کے اسے بین الاقوامی کنڑول میں لینے کی کوشش کی جائے ۔ملک بھر میں جگہ جگہ جوحملے ہو رہے ہیں، ممکن نہیں ہے کہ سارے مقامی لوگ ہی کررہے ہوں ۔خودآئی ایس آئی اور ایف سی کے عہدیدار اور موجودہ و سابق حکمران یہ بیانات دے چکے ہیں کہ افغانستان میں بیٹھ کر بھارت،بلوچستان میں پیسہ اورہتھیار کی تقسیم کے ذریعے پاکستان کو غیر مستحکم کر رہا ہے ۔
بھارت کے حوالے سے خارجہ پالیسی میں ایک نئی اپروچ اختیار کرنے کی ضرورت تھی لیکن حکومت اس حوالے سے بھی قومی توقعات پر پورا نہیں اتری ہے۔ میاں نوازشریف بھارت کو پسندیدہ ترین ملک کا درجہ دینے کے لیے بے چین اور مضطرب ہیں ۔ بھارت کے ساتھ دوستی کے بیانات دے کر اپنے دل و دماغ کی تشفی کرتے اور کشمیریوں کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہیں ۔ بھارت سے دوستی کا راگ الاپنا کشمیریوں کے ساتھ دشمنی کا اعلان کرنے کے مترداف ہے۔ حکمرانوں کی بھارت کے ساتھ وارفتگی کا یہ عالم اس کے باوجود ہے کہ پسندیدہ ترین ملک کا درجہ دینے اور تجارت کے نتیجے میں پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ بھارت کی سرحد افغانستان سے نہیں ملتی اور جو کارروائی وہ سرحد کے ہونے سے کرسکتا ہے اس سے محروم ہے، یہ درجہ ملنے کے بعد پاکستان کے اندراس کی دخل اندازی میں اضافہ ہوجائے گا۔ وہ افغانستان میں بیٹھ کر افغانستان کو بھی کنٹرول کرنا چاہے گا اور چین کوبھی اس کی حدود میں رکھنے کے منصوبے پر عمل کرے گا۔
بھارتی صدر، وزیراعظم اورفوجی جرنیل مسلسل یہ کہہ رہے ہیں کہ بھارت کے اندر دہشت گردی آسمان سے نہیں ٹپکتی بلکہ پاکستان سے آتی ہے۔ حکومت ِ پاکستان نے اس طرح کے الزامات پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ کوئی یاد نہیں دلاتا کہ بھارت دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو دہشت گردی کے اندر خود کفیل ہے اور اسے باہر سے کسی دہشت گرد یا دہشت گردی کی ضرورت نہیں ہے۔ بھارت میںدرجنوں علیحدگی کی مسلح تحریکیں چل رہی ہیںجوپوری کی پوری ٹرین اغوا کر لیتی ہیں۔ ایسے واقعات جن میں انگلی پاکستان کی طرف اٹھائی جاتی ہے، ان کے بارے میں بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ وہ ساراان کا اپنا کیا دھرا ہے، چاہے وہ سمجھوتا ایکسپریس کا معاملہ ہو یا بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کا۔ خود ان کے اپنے لوگ گواہی دیتے ہیں کہ پاکستان کو مورد الزام ٹھیرانے اور اس پردہشت گردی کا ملبہ گرانے کے لیے یہ کام ہم نے کیا ہے۔ پاکستان کو مذاکرات کی میز پر یہ بات کرنی چاہیے کہ دہشت گردی بھارت کے اندربھی بھارت ہی سے ہوتی ہے اورپاکستان بھی اس کی ریاستی دہشت گردی کا شکار ہے۔ جہاں ایک وزیراعلیٰ اور مستقبل میں وزارت عظمیٰ کا دعوے دارمسلمانوں کا قتل عام کرتا ہے، وہاں دہشت گردوں کی کمی نہیں ہے۔ دنیا بھر میں اقلیتیں اتنی غیر محفوظ نہیں ہیں جتنی بھارت میں ہیں، چاہے وہ پارسی اور عیسائی ہوں یا سکھ اور مسلمان۔ وہ تہہ تیغ کیے جاتے ہیں، مستقبل سے نااُمید اور مایوس کیے جاتے ہیں اور زندگی کے تمام دائروں کے اندر دیوار سے لگائے جاتے ہیں۔
بھارت کے ساتھ اس کی زبان میں بات کرنے کے بجاے میاں نوازشریف اور حکومت پاکستان نے بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ سے ملاقات کے لیے منت سماجت کا رویہ اختیار کیا، جس کی وجہ سے من موہن سنگھ کوبرتری و بالادستی حاصل رہی ہے ۔ اس نے نہ صرف تمام ایشوز پر بھارتی مؤقف کو مضبوطی سے پیش کیابلکہ کھل کر کہا کہ کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ ہے۔ میاں نواز شریف بالعموم یہ بات کہتے ہیں کہ اٹل بہاری واجپائی کی پاکستان آمد پرجو معاہدہ ہوا تھا، وہیں سے بات دوبارہ شروع کی جائے گی۔ اس کو انھوں نے ملاقات سے پہلے بھی دہرایا مگرمنموہن سنگھ نے اسے بالکل درخور اعتنا نہ سمجھا۔ میاں صاحب کی جنرل اسمبلی کی تقریر بھی تضادسے بھرپور تھی۔ انھوں نے ایک طرف یہ کہا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر حل ہونا چاہیے، وہاں یہ بھی کہا کہ واجپائی کے ساتھ جو معاہدہ ہوا تھا، مذاکراتی عمل کا آغاز وہیں سے کیا جائے گا حالانکہ واجپائی کے ساتھ معاہدے میں اقوام متحدہ کے کردار اور اس کی قراردادوں کا سرے سے کوئی ذکرہی نہیں تھا، بلکہ مسئلہ کشمیر کوشملہ معاہدے کے مطابق دونوں فریقوں کے درمیان بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی بات کی گئی تھی۔ آیندہ دنوں میں یہ تضاد ایک بڑاعنوان بننے جا رہا ہے۔ اوریہ ایک ایسا سیاسی ایشوہے جس کے لیے لوگوں کو متحرک اور بڑے پیمانے پر یکجا اور جمع کیا جا سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف جماعت کی سیاسی اور قومی پالیسی کوواضح کرنے کا موقع ملے گا بلکہ حکومت بھی دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور ہوگی۔
ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے جماعت سے وابستہ ہر فرد کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ گاہے کوئی ایک نکتہ ایک بڑی سیاسی تحریک میں بدل جاتا ہے۔ وہ نکتے جو تحریک بن کر اُبھرتے ہیں اور بڑے پیمانے پر لوگوں کو اپیل کرتے ہیں ، انھیں اپنے د ل ودماغ میں تازہ رکھنا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ یہ کام جماعت اسلامی کے کارکن ہی کو کرنا ہے۔ کوئی اور پارٹی ایسی نہیں ہے جس کے پاس ایسی اسٹریٹ پاور ہو جو یہ کام کرسکے، جس کے پاس سیاسی فہم ، دُور اندیشی اور فہم و فراست ہو،اوراتنی سیاسی بصیرت و بصارت ہو کہ دُور کی بات سوچ کر لوگوں کواس پر مجتمع کر سکے۔ جماعت کے ذمہ داران اور کارکنان کو ان ایشوز پر آپس میں بات کرتے رہنا چاہیے تاکہ جب کچھ کرنے اور میدان میں نکلنے کا عنوان سجے تو ہمارے لیے کوئی گتھی ایسی نہ ہو جو سلجھائی نہ جاسکے اور کوئی گرہ ایسی نہ ہو جس کو کھولا نہ جاسکے، بلکہ تمام چیزیں ہمارے سامنے دو اور دو دوچار کی طرح واضح ہونی چاہییں۔
مختلف قومی و بین الاقوامی ایشوز پر واضح، دو ٹوک اور جرأت مندانہ کردار ہی جماعت اسلامی کو عوام کی نظروں میں قابل اعتماد بنائے گا۔ جماعت اسلامی کے ہر سطح کے ذمہ داراور کارکن کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ الیکشن کے ذریعے کامیاب ہونے کی حکمت عملی کا آغاز نئے انتخابات کے بگل بجنے اور برسرِاقتدار حکمران طبقے کی شکست و ریخت سے بہت پہلے دینی، سماجی، رفاہی اور سیاسی دائروں میں عوامی اُمنگوں اور آرزوئوں کا ترجمان بننے سے ہوگا۔ جماعت اسلامی ایک وسیع البنیاد ایجنڈے کے ساتھ زندگی کے لگ بھگ تمام دائروں میں نہ صرف موجود بلکہ متحرک ہے۔ انفرادی طور پر ہمارے پاس ہردائرے میں انسانی اور عوامی خدمت کی اچھی مثالیں موجود ہیں۔ ضرورت ایک شاہ ضرب (master stroke)کی ہے جو ان تمام کاموں کو آپس میں مربوط کرکے بالآخرایک مکمل سیاسی تبدیلی کی صورت میں جلوہ گر ہوگی۔ ان شاء اللہ!
دہشت گردی کی جس آگ میں ملک گذشتہ ۱۲سال سے جل رہا ہے اور جس آگ کی تپش بڑھتی ہی جارہی ہے، اس سے نجات ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ بدقسمتی سے یہ مسئلہ مختلف وجوہ سے پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ خود دہشت گردی کی نوعیت کو سمجھنے میں بڑا ذہنی انتشار ہے جسے بیرونی طاقتوں اور خصوصیت سے امریکا کے کردار اور مفادات نے اور بھی اُلجھا دیا ہے۔
ملک میں برپا دہشت گردی کے ایک بڑے حصے کا تعلق امریکا کی افغانستان میں برپا نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اس میں پاکستان کی جونیئر پارٹنر کے طور پر شرکت سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مسئلے کے عسکری اور سیاسی پہلوئوں کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا اور امریکا کے افغانستان سے انخلا اور مسئلے کے سیاسی حل کے بغیر عسکریت کے خاتمے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ لیکن وہ دہشت گردی جس کی لپیٹ میں اس وقت پورا ملک آچکا ہے، اس میں کچھ دوسرے عناصر اور قوتیں بھی شریک ہیں اور ان میں علیحدگی پسند تحریکوں، علاقائی مفادات کا کھیل کھیلنے والی قوتوں، مذہبی اور مسلکی منافرت پھیلانے والے عناصر، بیرونی قوتوں کے ہاتھوں میں کھیلنے والے تخریب کاروں اور پیشہ ور مجرموں، سب کا کردار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک ہمہ جہتی حکمت عملی کی ضرورت ہے جس کی چھتری تلے ہرہرنوعیت کی دہشت گردی کا اس انداز میں مقابلہ کیا جاسکے جس کا وہ تقاضا کرتی ہے اور جس کے نتیجے میں بالآخر امن و امان بحال ہوسکے۔
ان حالات میں ۹ستمبر ۲۰۱۳ء کی کُل جماعتی کانفرنس نے متفقہ طور پر جو رہنمائی فراہم کی ہے، وہ بڑی حقیقت پسندانہ ہے مگر حکومت نے اس پر عمل درآمد کرنے کے لیے آج تک کوئی مؤثر کارروائی نہیں کی ہے، جب کہ مخالف قوتیں اس کے شروع ہونے سے پہلے ہی سبوتاژ کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔ ایک طرف امریکا اور اس کے گماشتوں کا کردار ہے جو فکری اور عملی، دونوں محاذوں پر سیاسی عمل کو پٹڑی سے اُتارنے (de-rail کرنے) میں مصروف ہیں تو دوسری طرف کچھ عسکریت پسند گروہ بھی حالات کو بگاڑنے کے لیے بڑی چابک دستی کے ساتھ تباہ کاریوں اور خون خرابے میں سرگرم ہیں۔ ادھر حکومت کا یہ حال ہے کہ وہ اس خطرناک کھیل کا مقابلہ کرنے کے لیے پورے شعور اور زمینی حالات کے اِدراک کے ساتھ ایک فعال پالیسی اختیار کرنے کے بجاے گومگو کی کیفیت میں مبتلا ہے اور ہمت اور حکمت دونوں کا مظاہرہ کرنے سے قاصر ہے۔
ان حالات میں ایک طرف وزیراعظم صاحب امریکا تشریف لے گئے ہیں اور دوسری طرف ان کی حکومت نے ۱۵ دن کے اندر دو آرڈی ننس نافذ فرمائے ہیں جن میں سے ایک کے ذریعے ۱۹۷۹ء کے دہشت گردی کے خلاف قانون میں بنیادی تبدیلیاں کی گئی ہیں، اور دوسرے نئے آرڈی ننس کا عنوان ہے: تحفظ پاکستان (Protection of Pakistan) آرڈی ننس ۲۰۱۳ء۔ اس کا ہدف حکومت کی رٹ قائم کرنا اور ان عناصر کی سرکوبی کرنا ہے جن کو ملک دشمن تصور کیا جائے۔
دہشت گردی کے حوالے سے جو بھی قوانین ملک میں رائج ہیں، ان پر ضرورت کے مطابق نظرثانی کوئی معیوب شے نہیں بلکہ کچھ حالات میں مطلوب بھی ہے لیکن تین چیزیں ایسی ہیں جو تشویش کا باعث ہیں اور بڑے بڑے سوالیہ نشان اُٹھا رہی ہیں:
۱- ان قوانین کے نفاذ کا وقت ۔
۲- دستور اور جمہوری روایات کے مطابق پارلیمنٹ کے ذریعے قانون سازی کا راستہ ترک کرکے ۱۵ دن میں تابڑتوڑ دو آرڈی ننسوں کے ذریعے ان کا نفاذ۔
۳- ان قوانین میں دستور میں طے کردہ اصولوں اور حدود کی نزاکتوں کو نظرانداز کرکے انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے افراد اور اداروں کے لیے ایسے بے قید اختیارات کا حصول جو بنیادی حقوق اور دستور کی دفعہ ۱۰ (الف) میں ضمانت دیے ہوئے due process of law (ضروری قانونی عمل) کے حق سے ہم آہنگ نہیں۔ان تینوں نکات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ۱۰؍اکتوبر اور ۲۰؍اکتوبر ۲۰۱۳ء کو نافذ کیے جانے والے دونوں آرڈی ننسوں میں جو اختیارات حاصل کیے گئے ہیں اور نظامِ عدل اور قانون کا جو نقشہ ان کے تحت بنتا ہے، اسے سمجھ لیا جائے۔
تحفظ پاکستان آرڈی ننس کے تحت رنگ، نسل، قومیت یا مذہب سے قطع نظر خوف و ہراس پھیلانے اور دہشت گردی کے مرتکب یا اس کا قصد کرنے والے افراد کو ریاست کا دشمن قرار دیا گیا ہے۔ ایسے افراد کو محض سرکاری اطلاعات کی بنیاد پر گرفتار کیا جاسکتا ہے اور تین مہینے تک قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تحویل میں رکھا جاسکتا ہے۔ اس آرڈی ننس کے تحت دہشت گردی کے واقعات کی تحقیقات میں سیکورٹی اور قانون نافذ کرنے والے دیگر ادارے تعاون کرسکیں گے اور گمان غالب کی بنیاد پر بھی کارروائی ہوسکے گی، نیز قانون نافذ کرنے والے افراد کو وارنٹ کے بغیر تلاشی اور ہرمقام تک رسائی کا اختیار حاصل ہوگا، اور مزاحمت کی شکل میں یا اس کے خدشے کی صورت میں بھی قوت کے استعمال کا استحقاق ہوگا۔ پھر جن پر جرم ثابت ہو، ان کو کڑی سزا دی جاسکے گی جو کم از کم ۱۰سال قید پر مشتمل ہوگی۔ سنگین مجرموں کے لیے خصوصی جیلیں بنیں گی۔ مخصوص جرائم کے مقدمات کے جلد اندراج اور فوری تحقیقات کے لیے الگ تھانے ہوں گے اور آرڈی ننس کی دفعہ۳۷کے تحت ان مقدمات کی سماعت کے لیے خصوصی وفاقی عدالتیں تک قائم کی جائیں گی۔ اس سب پر مستزاد یہ کہ سول اور فوجی اہل کاروں کو اپنے فرائض کی بجاآوری میں آئینی اور قانونی تحفظ حاصل ہوگا اور احتساب اور نگرانی کا کوئی نظام اس نئے قانون کا حصہ نہیں ہے۔
تحفظ پاکستان آرڈی ننس سے ۱۰ دن پہلے جو آرڈی ننس اینٹی ٹیررزم ایکٹ میں بنیادی ترامیم کے لیے نافذ کیا گیا تھا اس کے تحت گواہوں کو اور عدلیہ کو خصوصی تحفظ فراہم کیا گیا ہے اور نئی ٹکنالوجی کو تفتیش کے لیے استعمال کرنے کا دروازہ کھول دیا گیا ہے جس میں وڈیوٹیپس اور فرانزک شواہد کو بطور شہادت استعمال کرنا شامل ہے۔ اسی طرح وڈیو لنکس کے ذریعے مقدمات کی سماعت کی گنجایش پیدا کردی گئی ہے اور حکومت کو یہ اختیار بھی دے دیا گیا ہے کہ وہ ملک کے کسی بھی علاقے میں درج دہشت گردی کے کسی بھی مقدمے کو ملک کی کسی بھی عدالت میں منتقل کرسکتی ہے۔
ان قوانین کے تحت ان تمام قانون نافذ کرنے والے افراد اور اداروں کو جس کا تعلق رینجرز، فرنٹیئرکور ، فرنٹیئر کانسٹیبلری یا کسی بھی دوسرے ادارے سے ہو، ان کو پولیس کے مکمل اختیارات حاصل ہوں گے اور وہ بھتہ خوری، اغوا براے تاوان، دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ ہی نہیں، خوف و ہراس پھیلانے والے عناصر کو بھی اپنی گرفت میں لے سکیں گے۔
بلاشبہہ دہشت گردی اور اس کی مختلف شکلوں سے نبٹنے کے لیے قانون کا مؤثر ہونا اور قانون نافذ کرنے والوں، گواہی دینے والوں اور عدلیہ کو معقول اور قرارواقعی تحفظ حاصل ہونا چاہیے۔ لیکن جتنا یہ پہلو اہم ہے اتنا ہی اہم یہ پہلو بھی ہے کہ تمام انسانوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ اور قانون کے تحت مکمل انصاف کے حصول کو یقینی بنایا جائے اور قانون کے غلط استعمال کے ہردروازے کو بند کردیا جائے۔ دہشت گردی کسی بھی شکل میں ایک گھنائونا جرم ہے، لیکن دہشت گردی اور خوف و ہراس پھیلانے کے نام پر ایک بھی معصوم انسان کا نشانہ بنایا جانا بھی اتنا ہی گھنائونا جرم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مناسب checks & balance کے بغیر اورہر کسی کے لیے قانون کے اندر جواب دہی (accountability) کے مؤثر نظام کے بغیر معاشرے میں نہ عدل قائم ہوسکتا ہے اور نہ امن و امان اور عزت اور جان و مال کا تحفظ یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ ان دونوں پہلوئوں میں توازن ضروری ہے۔
یہ ضرورت اس وجہ سے اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ ہمارے ملک میں مسلسل بگاڑ کے باعث جس طرح عوام کے ایک حصے میں جرم کے رجحانات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، اسی طرح یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جن افراد اور اداروں پر قانون نافذ کرنے کی ذمہ داری ہے، ان میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو شتربے مہار بن گئے ہیں اور کرپشن اور ظلم و زیادتی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ یہ ایک تکلیف دہ امر ہے کہ عوام دونوں طرف سے پس رہے ہیں___ مجرموں کا بھی وہ نشانہ ہیں اور پولیس اور قانون نافذ کرنے والے افراد میں ایسے لوگ خاصی تعداد میں موجود ہیں جو آلۂ ظلم بن گئے ہیں اور عملاً اپنے کو قانون سے بالا تصور کرتے ہیں بلکہ ان کا زعم ہے کہ وہ خود ہی قانون ہیں___ معاذاللہ!
یہی وجہ ہے کہ جس قسم کے غیرمعمولی وسیع اختیارات ان آرڈی ننسوں میں سرکاری اہل کاروں کو دیے گئے ہیں، ان پر بہت سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح خصوصی وفاقی عدالتوں کے قیام کا جو تصور ان میں دیا گیا ہے، اور وفاقی نظام میں نئے پولیس اسٹیشنوں اور خصوصی جیلوں کے قیام کی بات کی گئی ہے، وہ اپنے اندر بڑے دُوررس مضمرات رکھتی ہے۔ اس کے نتیجے میں دو متوازی نظام ہاے عدل کے قائم ہونے کا خطرہ ہے جو دستور کے واضح ڈھانچے سے متصادم ہوگا، اور جس کی کوشش اس سے پہلے بارھویں ترمیم کی شکل میں میاں نواز شریف کے پہلے دورِحکومت میں کی گئی تھی مگر پارلیمنٹ اور عدالت دونوں نے اسے رد کردیا تھا۔
اس تلخ تجربے کے باوجود اس نئے آرڈی ننس کے ذریعے ایک ایسی تجویز کو کتابِ قانون میں داخل کرنا جس کے دُور رس منفی اثرات ہوں، حکمت اور عدل دونوں کے تقاضوں پر پورا نہیں اُترتا۔ انسداد دہشت گردی قانون کے تحت انسداد دہشت گردی کی عدالتیں موجود ہیں۔ اگر ان کی تعداد کم ہے تو انھیں بڑھایا جاسکتا ہے۔ اگر ان میں کچھ دوسری اصلاحات کی ضرورت ہے تو وہ بھی اس قانون کے دائرے میں ہی کی جاسکتی ہیں۔ لیکن ایک طرف صوبائی قانون کے تحت انسدادِ دہشت گردی کی عدالتیں ہوں اور دوسری طرف وفاقی عدالتیں ہوں اور فیڈریشن کو یہ اختیار بھی ہو کہ جس مقدمے کو جس عدالت اور جس صوبے سے جہاں چاہے منتقل کردے، اس میں بڑے خطرات پوشیدہ ہیں۔ ہماری نگاہ میں یہ دروازہ کھولنا محلِ نظر ہے۔
ان دونوں آرڈی ننسوں کو دستور کی متعلقہ دفعات اور عدل و انصاف اور ہرفرد کے بنیادی حقوق اور حق دفاع کی دستوری ضمانتوں کی میزان پر پرکھنا ہوگا۔ نیز فیڈریشن کے مسلّمہ اصولوں اور خصوصیت سے اٹھارھویں ترمیم کے بعد جو نقشہ مرکز اورصوبوں کے اختیارات کا بنا ہے، اس کسوٹی پر بھی ان کو پرکھنا ہوگا۔ جلدبازی میں اور دہشت گردی کا ہوّا دکھاکر ایسی قانون سازی جو بنیادی حقوق سے متصادم ہو، جمہوریت اور اسلام دونوں کے مقاصد اور مزاج سے متصادم ہوگی۔
تحفظ پاکستان آرڈی ننس میں دہشت گردی کو قانون کے ذریعے ختم کرنے اور فوج داری قانون کے ذریعے اس کا مقابلہ کرکے معروف راستے سے ہٹ کر جارج بش اور امریکی انتظامیہ کے وضع کردہ War Paradigm (بہ مثل جنگ)کو بھی پہلی مرتبہ پاکستان کی کتابِ قانون میں داخل کرنے کی کوشش کی گئی ہے جسے کسی شکل میں بھی قبول نہیں کیا جاسکتا۔ دہشت گردی ایک جرم ہے اور ایک جرم ہی کی حیثیت سے اس کا قلع قمع کیا جانا چاہیے۔ اسے جنگ قرار دے کر انتظامیہ کے لیے شتربے مہار بن جانے کے مواقع فراہم کرنا بے حد خطرناک ہے، اور امریکا نے جو کچھ گذشتہ ۱۲برسوں میں کیا ہے اس کی موجودگی میں یہ کوشش کہ ہماری کتابِ قانون میں بھی یہ تصور جگہ پالے، بے حد خطرناک اور ناقابلِ قبول ہے۔ اس آرڈی ننس میں جس طرح دہشت گردی کو Waging of war against Pakistan کے انداز میں پیش کیا گیا ہے، وہ اپنے اندر بہت دُوررس مضمرات رکھتا ہے۔ اسی طرح قوت کے استعمال کے لیے ہونے والے جرم کے معقول خدشے (reasonable apprehension of a scheduled offence)کو کافی قرار دے دیا گیا ہے۔ قوت کے استعمال کا یہ اختیار بھی ماضی کے تجربات کی روشنی میں اپنے اندر بڑے خدشات لیے ہوئے ہے۔ بلاشبہہ خاطرخواہ تنبیہہ (sufficient warning) کی بات بھی کہی گئی ہے لیکن محض خدشے کی بنیاد پر قوت کا ایسا استعمال جس میں جان ضائع ہوجائے، ایک ایسا اختیار ہے جس کے غلط استعمال کا بڑا خطرہ ہے اور جو ظلم و زیادتی کا راستہ کھولنے کا باعث ہوسکتا ہے جیساکہ ’مقابلہ میں مارے جانے‘ کے نام پر ماضی میں ہوتا رہا ہے۔
اسی طرح جہاں جرم کے ثبوت کے لیے نئی ٹکنالوجی کا استعمال مفید ہوسکتا ہے، وہیں یہ پہلو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے کہ سرکاری اداروں کو یہ اختیار نہیں دیا جاسکتا کہ وہ معاشرے کے تمام افراد کی نجی زندگی (privacy) کو مجروح کرنے کے حربے استعمال کریں اور ٹیلی فون اور ای میل میں مداخلت کریں جس کے نتیجے میں ایک مہذب معاشرہ ایک پولیس اسٹیٹ بن جاتا ہے۔ فرد کی آزادی ایک سراب بن جاتی ہے اور چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال ہوتا ہے، اس سلسلے میں گذشتہ ۱۲برسوں میں امریکا نے جس طرح خود اپنے شہریوں اور دنیا کے دوسرے انسانوں، اداروں اور حکومتوں کے ڈھکے اور چھپے سب ہی معاملات تک پر جاسوسی کے ذرائع سے رسائی حاصل کی ہے اس نے خود مغربی دنیا میں تہلکہ مچا دیا ہے۔ وکی لیکس اور اب سنوڈین کے ذریعے جو معلومات سامنے آئی ہیں اس سے پتا چلتا ہے کہ امریکی خفیہ ایجنسیوں نے دوست اور دشمن، سب ہی کی نجی زندگی کو پامال کیا ہے، اور دوسروں کے گھروں ہی تک رسائی نہیں حاصل کی ہے بلکہ حکومتوں کے پالیسی سازی کے اداروں کو بھی اپنی الیکٹرانک مداخلت کا نشانہ بنایا ہے جس پر امریکا کے قریب ترین دوست ملک بھی چیخ اُٹھے ہیں۔ ان دونوں آرڈی ننسوں میں شہادت کے لیے جن چیزوں کو معتبر کہا گیا ہے اس سے یہاں بھی ایک غلامانہ ریاست (servilliance state) کے قیام کا خطرہ پیدا ہوسکتا ہے۔ جدید ٹکنالوجی سے فائدہ اُٹھانا ضروری ہے لیکن اس باب میں صحیح حدود کا تعین بھی ضروری ہے جس کا کوئی اشارہ ان قوانین میں نظر نہیں آتا۔
ہم حکومت، پارلیمنٹ کے ارکان، وکلابرادری اور خصوصیت سے انسانی حقوق کی علَم بردار تنظیموں کو دعوت دیتے ہیں کہ ان قوانین پر انسانی حقوق اور عدل اور قانون کی حکمرانی کے مسلّمہ اصولوں کی روشنی میں غور کریں اور محض طالبان دشمنی کے جذبے میں قانون میں ایسی چیزوں کو دَر آنے کا موقع نہ دیں جو معاشرے کی بنیادوں کو ہلا دیں، اور جو ریاست کے اداروں کو حقوق کی پامالی کے لیے کھلی چھٹی دے دیں۔ یاد رہے کہ آج نشانہ جو بھی ہو، کل ہم میں سے ہر ایک بھی نشانے پر آسکتا ہے۔ اس وقت تو ہمارے وہ دوست جو اپنے آپ کو لبرل کہتے ہیں بڑے جوش سے کہہ رہے ہیں کہ ’’طالبان کو مارو اور بھسم کردو‘‘ لیکن ریاست کو مضبوط کرنے(strengthening of the State) کے نام پر جو اختیارات ان اداروں کو آج آپ دے رہے ہیں، کل وہ کس کس کے خلاف اور کہاں کہاں استعمال ہوسکتے ہیں، اس سے خدارا صرفِ نظر نہ کریں۔
ہم یہ بھی سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ان دونوں قوانین کو آرڈی ننس کے ذریعے ملک پر مسلط کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ ۱۱مئی کے انتخابات کے بعد قومی اسمبلی کے چار اجلاس ہوچکے ہیں۔ قانون سازی کے باب میں موجودہ اسمبلی کی اب تک کی کارکردگی صفر رہی ہے۔ ان چار ماہ میں اسمبلی میں صرف تین سرکاری بل قانون سازی کے لیے تجویز کیے گئے ہیں، جب کہ حکومت کے تین کے مقابلے میں چار پرائیویٹ بل غور کے لیے پیش کیے گئے ہیں۔ گو ابھی تک سرکاری یا غیرسرکاری کوئی ایک بھی بل کتابِ قانون کا حصہ نہیں بن سکا ہے۔ توقع ہے کہ ایک ہفتے میں قومی اسمبلی کا اجلاس ہونے والا ہے۔ ایسی کیا عجلت تھی کہ دو ہفتے کے عرصے میں دو آرڈی ننس جاری کردیے گئے اور ایک ہفتہ مزید انتظار نہیں کیا گیا کہ اسمبلی ان قوانین پر پوری طرح غوروخوض کرلیتی، کمیٹیوں میں ان پر تفصیلی بحث ہوسکتی۔ پریس اور پبلک دونوں ہی کے لوگ ان قوانین کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے اور اس طرح افہام و تفہیم اور بحث و مشاورت کے نتیجے میں پارلیمنٹ اور سول سوسائٹی کے تعاون سے مناسب قانون سازی کی جاسکتی۔
ماضی میں ہم سب نے بشمول مسلم لیگ (ن) آرڈی ننس کے ذریعے قانون سازی کی مخالفت کی ہے۔ اٹھارھویں ترمیم میں آرڈی ننس کی تجدید کے بارے میں کچھ پابندیاں بھی اس طریقِ قانون سازی کو مشکل بنانے کے لیے عائد کی گئی ہیں۔ لیکن ان تمام باتوں کو نظرانداز کر کے اس ناپسندیدہ طریقے کو جس کا جواز صرف حقیقی ایمرجنسی میں ہی ہوسکتا ہے ، اختیار کیا گیا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ تحفظ پاکستان آرڈی ننس میں تو یہ عجیب و غریب تضاد بھی موجود ہے کہ ایک طرف اسے فوری طور پر اور پورے ملک میں آرڈی ننس کے ذریعے نافذ کیا گیا ہے اور دوسری طرف اس کے عملی نفاذ کے معاملے کو کھلا چھوڑ دیاگیا ہے جس کے معنی ہی یہ ہیں کہ ایسی کوئی فوری ایمرجنسی نہیں تھی کہ اسے اسمبلی سے بالا ہی بالا نافذ کردیا جائے۔ ملاحظہ ہو دفعہ ۳، جس میں صاف لکھا ہے کہ:’’یہ ایسی تاریخ یا تاریخوں سے نافذالعمل ہوگا جو وفاقی حکومت اس بارے میں طے کرے، نیز اس آرڈی ننس کی مختلف شقوں کے نفاذ کے لیے مختلف تاریخیں بھی مقرر کی جاسکتی ہیں‘‘۔
اختیارات تو لے لیے گئے ہیں لیکن نفاذ کو ابھی معلق رکھا گیا ہے، گویا ان کے استعمال کی کوئی فوری ضرورت نہیں تھی۔ اس وقت جلدی میں پارلیمنٹ میں بحث کے بغیر غیرمعمولی اختیار لے لیا گیا ہے اور اب یہ مرکزی حکومت کی صواب دید ہے کہ اس کو جب اور جتنا نافذ کرنا ہو، کرسکے۔ اگر فوراً ہی اسے نافذ نہیں کیا جارہا تو پھر ایسی جلدی کیا تھی کہ اسمبلی کو نظرانداز (bypass) کیا جائے اور جو قانون اسمبلی کے ذریعے چند ہفتوں میں منظور کرایا جاسکتا ہے وہ اُوپر سے مسلط کردیا جائے۔
جیساکہ ہم نے شروع میں اشارہ کیا کہ ایک پہلو ان قوانین کے نفاذ کے وقت کا بھی ہے۔ ایک طرف آپ مذاکرات کی بات کر رہے ہیں اور دوسری طرف آپ جنگ کے اعلان کی تیاریاں کررہے ہیں اور تلواریں سونت کر اکڑفوں کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔اسے انگریزی محاورے میں blowing hot and cold in the same breathکہتے ہیں جو کبھی بھی اچھی حکمت عملی نہیں ہوتی۔
آخیر میں ہم ایک بنیادی بات کی طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے ملک میں اصل مسئلہ قانون کی موجودگی کا نہیں، قانون کے احترام اور اس کے عملی نفاذ کا ہے۔ دہشت گردی کے مقابلے کے لیے ۱۹۹۷ء سے قانون موجود ہے جس میں ایک درجن سے زیادہ ترامیم ہوچکی ہیں اور مزید بھی ہوسکتی ہیں، لیکن عملاً اس پر اور دوسرے قوانین پر عمل نہیں ہورہا۔ پھر قانون نافذ کرنے والے ادارے اور افراد اپنی صلاحیت کار کے اعتبار سے وقت کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لائق نہیں ہیں۔ سروسز میں کرپشن نے گھر کرلیا ہے اور سیاسی بنیادوں پر تقرریوں نے ان کی وفاداری، ساکھ اور کارکردگی ہر ایک کو تباہ کردیا ہے۔ ٹکنالوجی اور ٹریننگ دونوں کے اعتبار سے وہ بہت خام ہیں اور وقت کے تقاضوں کو پورا کرنے سے قاصر ہیں۔ حکومتوں کا اپنا رویہ بھی صاف ستھرا (above board) نہیں۔ وہ دستور، قانون اور قومی مفاد کے مقابلے میں ذاتی اور گروہی مفادات کو فوقیت دیتے ہیں۔ پولیس میں ہزاروں کی تعداد میں سیاسی بنیادوں پر یا رشوت لے کر تقرریاں ہوئی ہیں اور ہربرسرِاقتدار پارٹی نے اپنے اپنے دور میں بہتی گنگا میں خوب خوب ہاتھ دھوئے ہیں۔ اسی طرح مالی وسائل اور بجٹ کا مسئلہ بھی ہے۔ اگر پولیس تفتیش، جیلوں اور عدالتوں کا ایک نیا ملک گیر نیٹ ورک پیش نظر ہے تو اس کے لیے مالی وسائل کہاں سے آئیں گے؟اگر ان تمام پہلوئوں کو نظرانداز کردیا جائے اور قانون پر قانون بنائے جائیں تو اس سے تبدیلی اور خیر کی توقع عبث ہے۔اتنے اہم مسئلے پر جلدبازی سے کچھ حاصل نہیں۔ پارلیمنٹ اور میڈیا دونوں ان تمام اُمور پر کھل کر بحث کریں۔ وکلابرادری اور سیاسی اور سول سوسائٹی کو اپنی راے کے اظہار کا موقع دیا جائے اور اس طرح وسیع تر قومی مشاورت سے ان نازک اُمور پر مناسب قانون سازی کی جائے۔ مسائل کو حل کرنے کے لیے ہمارے حکمرانوں کو اپنے طور طریقے بدلنا ہوں گے اور وہ راستہ اختیار کرنا ہوگا جو حقیقی مشاورت پر مبنی ہو۔ اس میں سب کے لیے خیر ہے۔ وما علینا الا البلاغ۔
اس کائنات کے خالق نے انسان کو اپنا خلیفہ بنانے کا اعلان کیا تو ملائکہ نے عرض کیا: ’’اے اللہ کیا تو دنیا میں ایک ایسی مخلوق کو آباد کرنا اور اپنا خلیفہ بنانا چاہتا ہے جو وہاں فساد پھیلائے گا اور خون ریزی کرے گا‘‘۔ اس کے جواب میں اللہ نے فرمایا: ’’میں وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے‘‘۔ اللہ نے انسان کو اس کرہ ارضی پر آباد کر دیا۔ اتفاق کی بات ہے کہ انسانوں کے درمیان پہلی موت قتل کے نتیجے میں واقع ہوئی۔ آدمؑ کے ایک بیٹے قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو ناحق قتل کردیا۔
’’اور ذرا انھیں آدمؑ کے دو بیٹوں کا قصہ بھی بے کم و کاست سنا دو۔ جب ان دونوں نے قربانی کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول کی گئی اور دوسرے کی نہ کی گئی۔ اس نے کہا ’’میں تجھے مار ڈالوں گا‘‘۔ اس نے جواب دیا ’’اللہ تو متقیوں ہی کی نذریں قبول کرتا ہے۔ اگر تو مجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ اٹھائے گا تو میں تجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ نہ اٹھائوں گا۔ میں اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ میرا اور اپنا گناہ تو ہی سمیٹ لے اور دوزخی بن کر رہے۔ ظالموں کے ظلم کا یہی ٹھیک بدلہ ہے‘‘۔ آخر کار اس کے نفس نے اپنے بھائی کا قتل اس کے لیے آسان کر دیا اور وہ اسے مار کر ان لوگوں میں شامل ہوگیا جو نقصان اٹھانے والے ہیں‘‘۔ (المائدہ ۵: ۲۷ تا ۳۰)
اللہ نے ارشاد فرمایا کہ جو کوئی کسی ایک انسان کو ناحق قتل کرتا ہے تو گویا وہ پوری انسانیت کا قاتل ہوتا ہے اور جو ایک جان کو بچاتا ہے وہ پوری انسانیت کو بچانے کا انعام حاصل کر لیتا ہے۔ اس قانون کو انہی آیات کے بعد اللہ تعالیٰ نے انبیائے بنی اسرائیل کو دی گئی شریعت کے تناظر میں یوں بیان فرمایا: ’’تورات میں ہم نے یہودیوں پر یہ حکم لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت، اور تمام زخموں کے لیے برابر کا بدلہ۔ پھر جو قصاص کا صدقہ کر دے تو وہ اس کے لیے کفارہ ہے۔ اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں‘‘۔ (المائدہ ۵: ۴۵)
قرآن مجید میں قصاص کو انسانی زندگی کی حفاظت کا ضامن قرار دیا گیا ہے۔ ارشاد باری ہے: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمھارے لیے قتل کے مقدموں میں قصاص کا حکم لکھ دیا گیا ہے۔ آزاد آدمی نے قتل کیا ہو تو اس آزاد ہی سے بدلہ لیا جائے، غلام قاتل ہو تو وہ غلام ہی قتل کیا جائے، اور عورت اس جرم کی مرتکب ہو تو اس عورت ہی سے قصاص لیا جائے۔ ہاں اگر کسی قاتل کے ساتھ اس کا بھائی کچھ نرمی کرنے کے لیے تیار ہو تو معروف طریقے کے مطابق خون بہا کا تصفیہ ہونا چاہیے اور قاتل کو لازم ہے کہ راستی کے ساتھ خوں بہا ادا کرے۔ یہ تمھارے رب کی طرف سے تخفیف اور رحمت ہے۔ اس پر بھی جو زیادتی کرے، اس کے لیے درد ناک سزا ہے‘‘۔ (البقرہ ۲: ۱۷۸ - ۱۷۹)
اب قاتل کے بارے میں حکم یہی ہے کہ مقتول کے ورثا اسے قصاص میں قتل کرانا چاہیں تو اسے قتل کر دیا جائے گا۔ کوئی حکمران یا مجلس قانون ساز، اس بارے میں شریعت اسلامیہ کے فیصلے کو تبدیل کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔ البتہ ورثا کا یہ حق ثابت ہے کہ وہ بغیر کسی خون بہا کے محض اللہ کی خاطر بھی معاف کرسکتے ہیں، یا خون بہا وصول کرکے جان بخشی کرسکتے ہیں اور اگر ان میں سے کوئی آپشن بھی وہ نہ اپنائیں تو قاتل کو مقتول کے بدلے میں قتل کر دیا جائے گا۔ بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس قانون میں خون بہانے کا راستہ کھلا رکھا گیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس پر عمل درآمد کے نتیجے میں خون ریزی کا لامتناہی سلسلہ رک جاتا ہے۔ اگر قاتل ورثاے مقتول کی رضا کے بغیر قصاص سے بچ نکلے تو فطری طور پر متاثرہ فریق کے دل میں انتقام کا جذبہ پروان چڑھتا ہے اور پھر قتل مقاتلے کا غیرمطلوب اور تباہ کن دروازہ کھل جاتا ہے۔ جو خون ریزی ایک مجرم کو سزا دینے کی صورت میں رُک سکتی تھی وہ معاشرے میں قتل مقاتلے اور خون ریزی کا متعدی مرض یوں پھیلاتی ہے کہ بسا اوقات بیسیوں اور سیکڑوں قیمتی جانیں دونوں طرف سے اس کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں اس کی مثالیں سیکڑوں نہیں ہزاروں میں موجود ہیں۔
اگر کسی معاشرے میں لاقانونیت اور بدامنی کا دور دورہ ہو اور پھر قانون قصاص بھی معطل یا منسوخ کر دیا جائے تو قاتل جری ہو جاتے ہیں اور معصوم شہری موت کا ترنوالہ بنتے چلے جاتے ہیں۔ آج یہی چیز ہم اپنے معاشرے میں دیکھ رہے ہیں۔ جن معاشروں میں قانون قصاص اپنی پوری روح کے ساتھ نافذ ہے وہاں اِکا دُکا خون ریزی تو ہوسکتی ہے مگر تھوک کے حساب سے قتل کی وارداتیں ہرگز پروان نہیں چڑھ سکتیں۔ دنیا کے تمام ممالک اور تمام اقوام کے درمیان یہ قانون موجود رہا ہے اور اس پر عمل صدیوں سے ہوتا چلا آیا ہے کیوں کہ آسمانی شرائع میں اس کے احکام کے علاوہ خود انسانی فطرت اس کا تقاضا کرتی ہے کہ یہی انصاف اور امن کا راستہ ہے۔
اب یہ الٹی گنگا پچھلی صدی سے مغرب کی بے خدا تہذیب میں چل نکلی کہ مظلوم سے ہمدردی کے بجاے ظالم سے ہمدردی کے جذبات انگیخت کیے جائیں۔ اس کے لیے مغرب کے دانش وروں سے بلکہ نظام ہاے حکومت اور این جی اوز سے لے کر سرکاری ادارے اور پوری ریاستی مشینری تک اس کام میں جُت گئی کہ اپنے اس نظریہ باطل کو حق ثابت کریں اور پوری دنیا کو باور کرائیں کہ قاتل کا خون مباح نہیں۔ پھر یہ بتایا جائے کہ آخر مقتول کا خون کیوں اور کس اصول و ضابطے کے تحت مباح قرار پا سکتا ہے؟ اس کا کوئی اخلاقی و انسانی اور عقلی و منطقی جواز آج تک ثابت نہیں کیا جا سکا۔ یہ عجیب تہذیب اور ناقابل فہم روشن خیالی ہے کہ مظلوم کے بجاے ظالم سے ہمدردی اور قاتل کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ یہ تہذیب نہیں بلکہ یہ تو وحشیانہ پن اور سنگ دلی کی بدترین مثال ہے۔ پھر یہی نہیں کہ ان ممالک نے اپنے ہاں یہ ظالمانہ روش رائج کر دی ہے بلکہ وہ پوری دنیا کو اس پر مجبور کر رہے ہیں کہ وہ بھی اسے اپنائیں۔ اگر نہ اپنائیں تو ان پر ہر طرح کا دبائو ڈالا جائے اور اس ظالمانہ قانون کو مسترد کرنے کی صورت میں اس پورے معاشرے کو نشانہ انتقام بنایا جائے۔
یورپین یونین کے ممالک مالی امداد کے لیے اب تیسری دنیا کے ممالک پر یہ شرط بھی عائد کر رہے ہیں کہ وہ اپنے ملک سے قانونِ قصاص ختم کریں اور سزاے موت کو منسوخ کر دیں۔ تجارتی دبائو کے حربے بھی استعمال ہو رہے ہیں۔ دنیا کے بیش تر ممالک نے وقت کی اس رو اور پروپیگنڈے کے اس طوفان کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں اور وہاں سزاے موت منسوخ ہوچکی ہے۔ اس کے باوجود دنیا کے سب سے بڑی آبادی کے تمام مشرقی و مغربی ممالک میں اب تک سزاے موت کا قانون نافذ العمل ہے۔ ان ممالک میں چین، بھارت، امریکا، انڈونیشیا، اور جاپان شامل ہیں۔ دنیا کا اہم اور واحد ایٹمی مسلمان ملک پاکستان عجیب منافقت اور مخمصے کا شکار ہے۔ قانونِ قصاص ملک میں اب تک موجود ہے مگر اسے منسوخ کرنے کے عزائم سامنے آرہے ہیں۔ گذشتہ چھے سات سالوں سے یہ معطل ہے۔ یہ طرزِ عمل انصاف کے اصولوں کے بھی منافی ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ قرآن کے واضح حکم اور نص صریح کی بھی خلاف ورزی ہے جو اکبر الکبائر میں شمار ہوتا ہے۔ حضور نبی اکرمؐ نے فتح مکہ کے موقع پر جو اہم ہدایات ارشاد فرمائی تھیں ان میں ایک یہ حکم تھا کہ اگر کوئی شخص ناحق قتل کر دیا جائے تو مقتول کے ولی (ورثا) کو یہ حق ہے کہ وہ قاتل سے خون بہا وصول کرکے اسے معاف کر دیں یا اپنے مقتول کے بدلے میں اسے قتل کرنے کا مطالبہ کریں۔ (بحوالہ مسلم، حدیث نمبر ۲۴۹۳ روایت حضرت ابوہریرہؓ)۔ پاکستان کے حکمرانوں کو سوچنا چاہیے کہ اللہ اور اس کے رسول کے احکام سے سرتابی بلکہ بغاوت کرکے وہ کس انجام سے دوچار ہوں گے۔
اسلام کا ہر حکم پوری انسانیت کے لیے پیغام حیات ہے۔ اس میں عدل و انصاف بھی ہے اور مکمل مساوات انسانی اور غیر جانبداری کی بھی ضمانت دی گئی ہے۔ اس قانون کے ہوتے ہوئے کوئی کمزور محض اپنے وسائل کی کمی کی وجہ سے انصاف سے محروم نہیں کیا جا سکتا اور کوئی طاقت ور اپنے ذرائع و وسائل اور اثر و رسوخ کی بدولت انصاف کا گلا نہیں گھونٹ سکتا۔ اگر کسی بڑے نے جرم کیا ہے تو وہ اس کے بدلے میں ماخوذ ہوگا، چھوٹے نے کیا ہے تو وہی جوابدہ ہوگا۔ عورت اور مرد دونوں اس اصولِ انصاف کے سامنے یکساں مسئول ہیں۔ ارشاد باری پہلے گزر چکا ہے کہ: الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنْثٰی بِالْأُنْثٰی۔
نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں بالکل واضح احکام دیے ہیں۔ اسلام میں کسی انسان کا خون خواہ وہ کافر ہو یا مسلم مباح نہیں جب تک کہ اس نے کوئی ایسا جرم نہ کیا ہو جس پر قرآن و حدیث میں سزاے موت کا حکم دیا گیا ہو۔ علماے حق نے اس موضوع پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ خون کے مباح ہونے کی اسلام میں پانچ شرائط یا پانچ جرائم ہیں، جن کا تذکرہ آگے آ رہا ہے۔ ان میں سے جس جرم کا بھی ارتکاب کیا گیا ہو، جرم ثابت ہونے پر اس کی سزا موت ہے۔ اللہ نے حکم دیا ہے کہ قتل کا ہرگز ارتکاب نہ کیا جائے سواے حق کے ساتھ۔
’’قتل نفس کا ارتکاب نہ کرو جسے اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ۔ اور جو شخص مظلومانہ قتل کیا گیا ہو اس کے ولی کو ہم نے قصاص کے مطالبے کا حق عطا کیا ہے، پس چاہیے کہ وہ قتل میں حد سے نہ گزرے، اس کی مدد کی جائے گی‘‘۔ (بنی اسرائیل ۱۷: ۳۳)
مولانا مودودی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’(بعد میں) اسلامی قانون نے قتل بالحق کو صرف پانچ صورتوں میں محدود کر دیا: ایک قتل عمد کے مجرم سے قصاص، دوسرے دین حق کے راستے میں مزاحمت کرنے والوں سے جنگ۔ تیسرے اسلامی نظام حکومت کو الٹنے کی سعی کرنے والوں کو سزا۔ چوتھے شادی شدہ مرد یا عورت کو ارتکابِ زنا کی سزا۔ پانچویں ارتداد کی سزا۔ صرف یہی پانچ صورتیں ہیں جن میں انسانی جان کی حرمت مرتفع ہو جاتی ہے اور اسے قتل کرنا جائز ہو جاتا ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج۲، بنی اسرائیل حاشیہ ۳۴)
اسی طرح مقتول کے وارث یا ولی کو بھی حکم دیا گیا ہے کہ وہ حد سے تجاوز نہ کرے۔
’’اصل الفاظ ہیں ’’اس کے ولی کو ہم نے سلطان عطا کیا ہے‘‘۔ سلطان سے مراد یہاں ’’حجت‘‘ ہے جس کی بنا پر وہ قصاص کا مطالبہ کرسکتا ہے۔ اس سے اسلامی قانونی کا یہ اصول نکلتا ہے کہ قتل کے مقدمے میں اصل مدعی حکومت نہیں بلکہ اولیائے مقتول ہیں، اور وہ قاتل کو معاف کرنے اور قصاص کے بجاے خون بہا لینے پر راضی ہو سکتے ہیں‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج۲، بنی اسرائیل حاشیہ ۳۵)
مقتول کا خاندان اور ورثا خود سے انتقام اور قصاص پر عمل نہیں کرسکتے۔ یہ ریاست اور اس کے نظام عدالت کی ذمہ داری ہے۔ مولانا مودودی تحریر فرماتے ہیں: ’’قتل میں حد سے گزرنے کی متعدد صورتیں ہوسکتی ہیں اور وہ سب ممنوع ہیں۔ مثلاً جوش انتقام میں مجرم کے علاوہ دوسروں کو قتل کرنا، یا مجرم کو عذاب دے دے کر مارنا، یا مار دینے کے بعد اس کی لاش پر غصہ نکالنا، یا خوں بہا لینے کے بعد پھر اسے قتل کرنا وغیرہ۔
چونکہ [ان آیات کے نزول] تک اسلامی حکومت قائم نہ ہوئی تھی اس لیے اس بات کو نہیں کھولا گیا کہ اس کی مدد کون کرے گا۔ بعد میں جب اسلامی حکومت قائم ہوگئی تو یہ طے کر دیا گیا کہ اس کی مدد کرنا اس کے قبیلے یا اس کے حلیفوں کا کام نہیں بلکہ اسلامی حکومت اور اس کے نظامِ عدالت کا کام ہے۔ کوئی شخص یا گروہ بطور خود قتل کا انتقام لینے کا مجاز نہیں ہے بلکہ یہ منصب اسلامی حکومت کا ہے کہ حصولِ انصاف کے لیے اس سے مدد مانگی جائے‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج۲، بنی اسرائیل حاشیہ ۳۶-۳۷)
قانونِ قصاص کے خلاف جتنا بھی واویلا کیا جائے، یہ حقیقت ہے کہ ۵۸ ممالک میں آج بھی سزاے موت کا قانون موجود ہے۔ ۹۷ ممالک نے اسے قانوناً یا عملاً ختم کر دیا ہے۔ ۳۵ ممالک ایسے ہیں کہ وہاں سزاے موت کے خاتمے کا کوئی قانون منظور نہیں ہوا مگر سزاے موت پر عمل بھی دس بارہ سال سے کبھی نہیں ہوا۔ یوں عملاً یہ ان ممالک میں شمار ہوتے ہیں جہاں سزاے موت نہیں ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اعداد و شمار کے مطابق ۱۴۰ ممالک میں سزاے موت کا عمل ختم ہوچکا ہے۔ ان میں یورپین یونین کے تمام ممالک جن کی تعداد ۴۷ ہے شامل ہیں۔ ترکی واحد مسلمان ملک ہے جو ان میں شامل ہے۔ دیگر تمام مسلم ممالک میں سزاے موت یا قصاص کا قانون موجود ہے، گو پاکستان میں بھی تقریباً چھے سال سے اس پر عمل درآمد رکا ہوا ہے۔
میاں نواز شریف صاحب نے اپنے پیش رو حکمرانوں کی طرح مغرب کی مرعوبیت سے خوف زدہ ہوکر اس قرآنی و نبوی قانون کو تعطل کا شکار بنا رکھا ہے۔ آبادی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ۶۰ فی صد سے زائد عالمی آبادی کے خطوں میں یہ قانون اب تک لاگو ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل، یواین او اور دیگر این جی اوز جن کا ضمیر مغرب کی تہذیب سے اٹھا ہے۔ اس سزا کے خلاف اپنی مہم تیز سے تیز تر کرتے چلے جا رہے ہیں اور نہ ماننے والوں پر پابندیاں لگانے کی باتیں بھی ہو رہی ہیں مگر امریکا اور چین جیسے ویٹو پاور رکھنے والے ممالک اور آبادی و وسائل کے لحاظ سے انتہائی طاقت ور اقوام اس کے حق میں نہیں۔ اقوام متحدہ نے جنرل اسمبلی اور سیکورٹی کونسل میں ۲۰۰۷ء، ۲۰۰۸ء اور پھر ۲۰۱۰ء میں سزاے موت کے خاتمے کے لیے قرارداد منظور کیں مگر ان کو بڑی قوتوں نے ویٹو کردیا۔ یہ عجیب بات ہے کہ ایمنسٹی جو عدل و انصاف کی علَم بردار بنتی ہے، قاتل اور مجرم کی پشت پناہ بنی کھڑی ہے اور مظلوم کے زخموں پر نمک ہی نہیں مرچیں بھی چھڑک رہی ہے۔ آخر ان اداروں کی ایسے معاملات میں ان پالیسیوں کی موجودگی کیا اخلاقی حیثیت باقی رہ جاتی ہے۔
جہاں تک مسلمان ممالک اور بالخصوص اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی ریاست پاکستان کا تعلق ہے تو حکمرانوں، پالیسی سازوں اور تمام اہلِ وطن کی خدمت میں ہم نبیِ مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد پیش کرنا چاہتے ہیں۔ ’’حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی پاکؐ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص خطا اور بھول چوک یا نشانہ بازی میں مارا گیا یا کوڑا لگنے سے قتل ہوگیا تو اس کی دیت قتل خطا والی ہے۔ اور جو عمداً قتل کیا گیا تو قاتل سے اس کا قصاص لیا جائے گا۔ اگر کوئی اس میں رکاوٹ بنتا ہے تو اس پر اللہ کی، اس کے فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی لعنت ہے‘‘۔ (بحوالہ سنن ابی داؤد، کتاب الدیات حدیث ۳۹۹۶ ، ابن ماجہ، کتاب الدیات، حدیث ۲۶۳۱)
پاکستان کے حکمرانو، خدا کے لیے سوچو! اللہ اور اس کے فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت کی وعید کچھ کم نہیں۔ کاش! اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان کا دعویٰ کرنے والوں کی آنکھوں سے پٹی اتر جائے!
دوسرے تمام معاملات سے بڑھ کر جو چیز ہمارے لیے اہمیت رکھتی ہے وہ ہماری قوم کی دینی حالت ہے۔ اس حالت کا جب ہم جائزہ لے کر دیکھتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ دینی حیثیت سے ہم مسلسل انحطاط کی طرف جارہے ہیں اور پاکستان بننے کے بعد یہ رفتارِانحطاط کم ہونے کے بجاے کچھ اور زیادہ تیز ہوگئی ہے۔ یہ ہمارے نزدیک خطرہ نمبر۱ ہے۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہماری آبادی کا بڑا حصہ___ بہت بڑا حصہ ___ احکامِ الٰہی سے بُعد رکھتا ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے ملک میں علانیہ خدا کے احکام کی خلاف ورزی ہورہی ہے اور ایسے نازک وقت میں بھی لوگ اُس سے باز نہیں آتے، جب کہ ہم اپنے آپ کو چاروں طرف سے خطرات میں گھِرا ہوا پاتے ہیں اور خدا سے نصرت مانگ رہے ہوتے ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے ملک میں فرنگیت اور فسق و فجور کی رَو بڑھتی چلی جارہی ہے اور آج وہ کچھ ہو رہا ہے جو انگریز کے زمانے میں بھی نہ ہوتا تھا۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسلام آج بھی اسی طرح بے بس ہے جس طرح انگریز کے زمانے میں تھا، بلکہ اِس کے اُصول اور قوانین اور احکام اُس وقت سے کچھ زیادہ پامال کیے جارہے ہیں، جرأت اور جسارت کے ساتھ کیے جارہے ہیں، کھلم کھلا کیے جارہے ہیں، بڑے پیمانے پر کیے جارہے ہیں۔ ان کے خلاف چلنے کی علانیہ تبلیغ ہورہی ہے اور عوام الناس کو ان کے خلاف چلانے کی منظم کوششیں کی جارہی ہیں۔
اِس کے سب سے زیادہ افسوس ناک پہلو دو ہیں۔ ایک یہ کہ سرکاری ملازمتوں سے، فوج اور سول دونوں قسم کی ملازمتوں سے،اُن لوگوں کو چُن چُن کر نکالا جارہا ہے جن کے اندر ایمان اور دین داری کی کچھ بھی رمق پائی جاتی ہے۔ اس طرح حکومت کی مشینری روز بروز اسلامی رُجحانات رکھنے والے عناصر سے خالی ہوتی جارہی ہے اور اُس پر کمیونسٹ اور دوسرے مخالف ِ دین عناصر قابض ہوتے چلے جارہے ہیں۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ فرنگیت کی اِس تبلیغ اور اس کو رواج دینے کی اِس منظم کوشش کا نشانہ خاص طور پر ہماری عورتیں بنائی جارہی ہیں۔ زور لگایا جارہا ہے کہ اسلامی تہذیب و اخلاق کے اُس آخری حصار کو بھی توڑدیا جائے جہاں ہر طرف سے پسپا ہوکر اُس نے پناہ لی تھی۔ طرح طرح سے تدبیریں کی جارہی ہیں کہ اس گہوارے کو بھی گندا کر کے رکھ دیا جائے جہاں ایک مسلمان بچہ سب سے پہلے آنکھ کھولتا ہے اور جہاں اسے مذہب، اخلاق، آدمیت اور اجتماعی برتائو کا پہلا سبق ملتا ہے۔
یہ سب کچھ اُن مقاصد کے بالکل خلاف ہے جن کا نام لے کر پاکستان مانگا گیا تھا اور جن کے اظہار و اعلان ہی کے طفیل اللہ تعالیٰ نے یہ ملک ہمیں بخشا تھا۔ کہا یہ گیا تھا کہ ہمیں ایک خطۂ زمین اس لیے درکار ہے کہ اس میں ہم مسلمان کی سی زندگی بسر کرسکیں، اسلام کو پھر سے زندہ اور تازہ کرسکیں، اور اسلام کی بنیادوں پر خود اپنے ایک تمدّن اور اپنی ایک تہذیب کی عمارت اُٹھاسکیں۔ مگر جب خدا نے وہ خطہ دے دیا تو اب کیا یہ جارہا ہے کہ اسلام کے رہے سہے آثار بھی مٹائے جارہے ہیں اور اُس تہذیب و اخلاق و تمدّن کی عمارت مکمل کی جارہی ہے جس کی ِنیو یہاں انگریز رکھ گیا تھا۔
اس صورتِ حال کو ہم جس وجہ سے خطرہ نمبر۱ سمجھتے ہیں وہ یہ ہے کہ یہ صریح طور پر خدا کے غضب کو دعوت دینے کے ہم معنی ہے۔ ہم ہرگز یہ توقع نہیں کرسکتے کہ اپنے رب کی کھلی کھلی نافرمانیاں کرکے ہم اس کی رحمت اور نصرت کے مستحق بن سکیں گے۔
اس میں خطرے کایہ پہلو بھی ہے کہ پاکستان کے عناصر ترکیبی میں نسل، زبان، جغرافیہ، کوئی چیز بھی مشترک نہیں ہے۔ صرف ایک دین ہے جس نے اِن عناصر کو جوڑکر ایک ملّت بنایا ہے۔ دین کی جڑیں یہاں جتنی مضبوط ہوں گی اتنا ہی پاکستان مضبوط ہوگا، اور وہ جتنی کمزور ہوں گی اتنا ہی پاکستان کمزور ہوگا۔
اس میں خطرے کا پہلو یہ بھی ہے کہ یہ کیفیت ہمارے ہاں جتنی زیادہ بڑھے گی، ہماری قوم میں منافقت، اور عقیدہ و عمل کے تضاد کی بیماری بڑھتی چلی جائے گی۔ یہ ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے اندر اسلامی احکام کی خلاف ورزی پھیلا دینا جس قدر آسان ہے ، ان کے دلوں سے اسلامی عقائد کو نکال پھینکنا اتنا آسان نہیں ہے۔ اب اگر صورتِ حال یہ ہو کہ مسلمان عقیدتاً فرض کو فرض، حلال کو حلال اور حرام کو حرام ہی سمجھتے رہیں مگر ان میں روز بروز ایسے افراد کی تعداد بڑھتی چلی جائے جو فرض کو فرض جانتے ہوئے ادا نہ کریں، حکم کو حکم مانتے ہوئے اس کی تعمیل نہ کریں، اور حرام کو حرام سمجھتے ہوئے اس میں خفیہ اور علانیہ مبتلا ہوں، تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ ہم اپنی آبادی کو روزبروز زیادہ منافق بنارہے ہیں، اس کے کیرکٹر کی بنیادیں ڈھیلی کررہے ہیں، اس کے اندر سے فرض شناسی اور پابندیِ قانون کی جڑیں کاٹ رہے ہیں، اور اس کو یہ تربیت دے رہے ہیں کہ وہ اپنے اعتقاد کے خلاف عمل کرنے کی خُوگر ہوجائے۔ کیا کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ یہ تپ دق کی بیماری جو ہماری مذہبی زندگی میں پھیلائی جارہی ہے، صرف مذہب کے دائرے تک ہی محدود رہ جائے گی؟ ہماری پوری قومی عمارت کو کھوکھلا کرکے نہ رکھ دے گی؟ جو مسلمان خدا اور رسولؐ کے ساتھ مخلص نہ رہے اُس سے آپ کیا توقع رکھتے ہیں کہ وہ قوم، وطن ، ریاست اورکسی دوسری چیز کے لیے مخلص ثابت ہوسکے گا؟
اس میں خطرے کا یہ پہلو بھی ہے کہ غیراسلامی اخلاق و اطوار کو رواج دینے کی کوششیں جتنی زیادہ بڑھ رہی ہیں، ملک کے دین پسند عناصر میں اُن کے مقابلے اور مزاحمت کا جذبہ بھی اتنا ہی زیادہ بڑھتا جارہا ہے، اور اس چیز نے ملک کو صریح طور پر دو کیمپوں میں بانٹ دیا ہے۔ ایک اسلامی کیمپ اور دوسرا غیراسلامی کیمپ۔ غور کرنے کی بات ہے کہ یہ وقت ،جب کہ ہماری نئی مملکت ابھی ابھی قائم ہوئی ہے آیا اس بات کا متقاضی تھا کہ ہم اس کی تعمیروترقی میں مل جل کر اپنی ساری قومی طاقت صرف کردیتے، یا اس بات کا کہ ہم دو کیمپوں میں بٹ کر اپنی طاقتیں آپس کی کش مکش میں صَرف کرتے؟ کچھ سوچیے کہ یہ کش مکش ہمیں کدھر لے جارہی ہے اور آخر کہاں پہنچا کر چھوڑے گی؟
ملک کے تمام طبقے کیرکٹر کے بودے پن اور بے ضمیری میں مبتلا ہیں۔ اخلاقی خرابیاں ایک وبا کی طرح پھیل رہی ہیں۔ تمام اخلاقی حدود توڑ کر رکھ دی گئی ہیں اور عام طور پر لوگوں کے دلوں سے یہ احساس مٹتا جارہا ہے کہ اخلاق بھی کوئی چیز ہے جس کے تقاضوں کا کچھ لحاظ آدمی کو کرنا چاہیے۔ عوام ہوں یا تعلیم یافتہ حضرات، سرکاری افسر اور اہل کار ہوں یا سیاسی لیڈر اور پارٹیوں کے کارکن، اخبارنویس ہوں یا اہلِ قلم، تاجر ہوں یا اہلِ حرفہ، زمین دار ہوں یا کسان، جس طبقے کو دیکھیے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اخلاقی ذمہ داریوں کو بھول چکا ہے اور کسی ایسی حد سے واقف نہیں رہا ہے جس پر وہ اپنی اغراض و خواہشات کے پیچھے دوڑتے ہوئے رُک جائے۔ ہرشخص اپنا مطلب حاصل کرنے کے لیے ہر بدتر سے بدتر ذریعہ اختیار کرنے پر تُلا ہواہے۔ حرام اور حلال کی تمیز اُٹھ چکی ہے۔ گناہ اور ثواب کا احساس مٹ گیا ہے۔ بُرائی اور بھلائی کے فرق سے نگاہیں بند کرلی گئی ہیں۔ لوگوں کے ضمیر نے ان کے ذاتی مفاد کے آگے سپرڈال دی ہے۔ فرائض کو لوگ بھول چکے ہیں اور حقوق سب کو یاد ہیں۔ جھوٹ اور فریب اور چال بازی کام نکالنے کے مقبول ترین ہتھیار بن گئے ہیں۔ رشوت اور خیانت اور حرام خوری کے دوسرے ذرائع شیرمادر کی طرح حلال ہوگئے ہیں۔ مال والوں کے مال ضمیروں اور عصمتوں اور شرافتوں کے خریدنے میں صَرف ہورہے ہیں اور بیچنے والے دھڑلّے سے اخلاق کے وہ سارے جوہر بیچ رہے ہیں جو اُن کی نگاہ میں روپے سے کم قیمت رکھتے ہیں۔
مَیں اِس کو اِس ملک کے لیے خطرۂ عظیم سمجھتا ہوں۔ کیرکٹر ہی وہ اصل طاقت ہے جس کے بل پر کوئی قوم زندہ رہ سکتی ہے اور ترقی کرسکتی ہے۔ اگر اس طاقت سے ہم محروم ہو جائیں، اگر ہمارے اخلاق کی جان نکل جائے اور ہم بالکل حدود سے ناآشنا ہوکر رہ جائیں، تو ترقی کرنا تو درکنار ہم ایک آزاد قوم کی حیثیت سے زندہ بھی نہیں رہ سکتے۔ (رُوداد جماعت اسلامی، ششم، ص ۶۱-۶۶)
آخر وہ کیا چیز تھی جس نے ہمارے جدامجد حضرت آدم علیہ السلام کو راحت، خوشی اور مسرت کے ابدی مقام جنت سے رنج و غم اور مصیبت کے گھر (یعنی دنیا) میں لاڈالا؟ آخر وہ کون سا قدم تھا جسے اُٹھانے کے بعد، ابلیس کو آسمانی بادشاہت سے نکال پھینکا گیا اور راندہ درگاہ اور لعنت و ملامت کے قابل بنا دیا گیا۔ اس کے ظاہر و باطن کو مسخ کرڈالا گیا۔ وہ جنت میں تھا لیکن دہکتی ہوئی آگ اُس کا مقدر بنی۔ وہ جو تسبیح و تقدیس اور وحدانیت کے وظیفے کو حرزِجاں بنائے ہوئے تھا، اب کفروشرک، مکروفریب، دروغ گوئی اور فحاشی اُس کی فطرت ثانیہ بنی۔
آخر کیا وجہ تھی کہ عاد کی قوم پر ایسی آندھی بھیجی گئی جس نے اس قوم کے ایک ایک قدآور اور بلندوبالا فرد کو کھجور کے لمبے تنے کی طرح مُردہ اور بے حس و حرکت کر کے زمین پر ڈال دیا۔ ان کی آبادی، کھیت و کھلیان، چوپائے اور مویشی غرض ایک ایک چیز فنا کے گھاٹ اُتار دیے گئے۔ وہ کون سا جرم تھا جس کی پاداش میں ثمود کی قوم پر ایسی چیخ اور چنگھاڑ مسلط کی گئی جس کی تیز آواز نے ان کے دل، سینے اور پیٹ کو چیر کر رکھ دیا۔ اسی طرح وہ کیا غلیظ حرکات تھیں جن کے اصرار پر قوم لوطؑ کی بستیوں کو اتنا اُونچا اُٹھایا گیا کہ آسمان کی بلندی پر قدسیوں نے ان بستیوں کے کتوں کی آوازیں سنیں، پھر اُس بستی کو اُلٹ کر انھیں اندھا کر دیا گیا۔ آسمان سے ان پر پتھروں کی مسلسل بارش ہوتی رہی، اور ایک ایک متنفس ہلاک کردیا گیا۔ وہ کون سی چیز تھی جس کی وجہ سے شعیب علیہ السلام کی قوم پر سائبان کی شکل میں بادلوں کا عذاب نازل کیا گیا۔ اَبر کی یہ چھتری جب ان کے اُوپر تن جاتی تو اس کے اندر سے آگ کے شعلے نمودار ہوتے اور دہکتے ہوئے انگاروں کی بارش ہوتی۔ اسی طرح آخر وہ کیا چیز تھی جس نے فرعون اور اس کی قوم کو دریا میں ڈبو دیا، جس نے قارون کو اس کے گھربار اور اہل و عیال سمیت زمین میں دھنسا دیا۔ آخر وہ کون سی چیز تھی جس کی پاداش میں بنی اسرائیل پر ان سے زیادہ سخت گیر قوموں کو مسلط کیا گیا۔ انھوں نے مردوں کو تہِ تیغ کیا، بچوں اور عورتوں کو غلام اور کنیز بنایا، گھربار کو آگ لگا دی اور مال و دولت کو لوٹ لیا۔ آخر کیوں ان مجرم قوموں پر طرح طرح کی سزائوں کو نافذ کیا گیا، کبھی وہ موت کے گھاٹ اُتارے گئے، کبھی قیدوبند میں مبتلا ہوئے۔ ان کے گھر اُجاڑے گئے اور بستیاں ویران کی گئیں، کبھی ظالم بادشاہ ان پر مسلط کیے گئے۔ کبھی ان کی صورتیں بندر اور سور کی بنا دی گئیں۔ بے شک وہ چیز، وہ جرم، وہ غلیظ حرکات اور عمل صرف اور صرف اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی میں اختیار کیے گئے گناہوں پر اصرار تھا۔ جس کے نتیجے میں ماضی میں لاتعداد افراد اور قوموں کو عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔
احادیث میں بھی اللہ تعالیٰ کے اس قاعدے کی وضاحت کی گئی ہے۔ حضرت اُم سلمہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب میری اُمت میں گناہوں کی کثرت ہوگی تو اللہ ان پر اپنا ہمہ گیر عذاب مسلط کرے گا۔ میں (اُم سلمہؓ) نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ان دنوں ان کے اندر نیک لوگ نہیں ہوں گے؟ آپؐ نے فرمایا: کیوں نہیں۔ میں نے عرض کیا تو ان کے ساتھ کس قسم کا برتائو ہوگا؟ فرمایا: عام لوگوں کو جو مصیبت پہنچے گی وہ لوگ بھی اس کا شکار ہوں گے۔ پھر انجامِ کار اللہ کی مغفرت اور اس کی خوشنودی ان کا ٹھکانا ہوگی۔ (مسنداحمد)
حضرت حسن کی ایک مرسل روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ اُمت اس وقت تک اللہ کے ہاتھ کے نیچے اور اس کے جوارِ رحمت میں ہوگی، جب تک اس اُمت کے امرا اپنے علما کی موافقت اور ان کی اعانت کریں گے۔ اُمت کے صالحین، فاسقوں اور فاجروں کو صالح اور نیک بنائیں گے اور اچھے لوگ ، بُروں کی اہانت اور تذلیل نہیں کریں گے اور جب وہ غلط عمل کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے اُوپر سے اپنا ہاتھ اُٹھا لے گا۔ پھر ان کے اُوپر انھی میں سے سرکش لوگوں کو مسلط کرے گا، جو انھیں بدترین عذاب دیں گے اور اللہ تعالیٰ انھیں فقروفاقہ میں مبتلا کرے گا۔
حضرت عبداللہ بن عمر بن خطابؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی مہاجرین کی دس کی جماعت میں، مَیں دسواں آدمی تھا۔ (ہم بیٹھے تھے کہ) اتنے میں رسولؐ اللہ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’پانچ قسم کی عادتوں سے میں اللہ کی پناہ اور حفاظت چاہتا ہوں، ایسا نہ ہو تم اس کا شکار ہوجائو:
۱- جو قوم کھلم کھلا بُرائی اور بے حیائی کرے گی، اللہ انھیں بھوک اور طاعون میں اس طرح مبتلا کرے گا کہ اس سے پہلے کبھی کوئی اس طرح مبتلا نہیں ہوا ہوگا۔
۲- اور جو ناپ تول میں کمی کرے گا اللہ تعالیٰ انھیں قحط سالی، سخت محنت، مشقت اور ظالم بادشاہوں کے ظلم و ستم میں مبتلا کرے گا۔
۳- اور جو قوم اپنے مال کی زکوٰۃ نہیں دے گی، اللہ تعالیٰ انھیں بارش کے قطروں سے محروم کردے گا اور اگر ان کے مویشی نہ ہوتے تو پانی کی ایک بوند بھی ان پر نہ برستی۔
۴- جو قوم عہدشکنی کرے گی اللہ ان پر اجنبیوں کو مسلط کرے گا جو ان سے ایک ایک چیز چھین لیں گے۔
۵- اور جب کسی قوم کے حکمران اور امام، اللہ کی کتاب کے مطابق عمل نہیں کریں گے تو اللہ انھیں آپس میں سخت لڑائی اور جھگڑوں میں مبتلا کردے گا۔ (ابن ماجہ)
اللہ کے نافرمان، فاجر اور بدکار لوگوں کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ وہ نیکی اور بدی کے نتائج کو یکساں ثابت کردیں۔ اچھے اور بُرے افراد میں تفریق اور تمیز ختم کردیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے، وہ گناہ گاروں اور نیکوکاروں کے بارے میں دعویٰ کرتے رہتے ہیں کہ نیک اور بد دونوں ایک جیسی زندگی گزارتے ہیں۔ اس لیے مرنے کے بعد بھی یکساں سلوک کے مستحق ٹھیریں گے، حالانکہ یہ غیرعقلی، غیرسائنسی دعویٰ محض ان کے بے بنیادگمانوں پر مبنی ہے۔ کیونکہ اسلام کے مطابق مصیبت اور گناہوں کے انسانی جسم اور روح پر نہایت مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ گناہوںکا بُرا اثر انسانی دل اور جسم پر یکساں پڑتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ کثرتِ گناہ کے نتیجے میں ہونے والے دنیا اور آخرت میں ہمہ گیر نقصانات کا اندازہ اللہ رب العزت کی ذات کے سوا کوئی اور نہیں لگا سکتا۔ یہاں قرآن و سنت کی فکر کی روشنی میں گناہ کے انسانی زندگی پر مضر اثرات بیان کیے جارہے ہیں:
امام شافعیؒ کا ارشاد ہے کہ ’’میں نے (اپنے استاد) وکیع سے اپنے خراب حافظے کی شکایت کی۔ انھوں نے نصیحت کی کہ معصیت اور گناہ کو چھوڑ دو۔ جان لو کہ علم اللہ کا فضل اور اس کا کرم ہے، اور اللہ کا فضل و کرم کسی نافرمان کو نہیں دیا جاتا‘‘۔
وَ لَوْ اَنَّ اَھْلَ الْقُرٰٓی اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْھِمْ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآئِ وَ الْاَرْضِ(اعراف ۷:۹۶) اور اگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لاتے اور پرہیزگار بن جاتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔
اطاعت اور معصیت کی اپنی پختہ ہیئت، صورت، کیفیت اور صلاحیت ہوتی ہے۔ اس لیے جو نیکی کرتا ہے اگر وہ نیکی کرنا چھوڑ دے تو اس کے دل میں تنگی اور درشتی پیدا ہوتی ہے۔ اُسے زمین کشادہ ہونے کے باوجود تنگ دکھائی دینے لگتی ہے اور دلی طور پر اسے احساس ہوتا ہے کہ اس کی حالت ماہیِ بے آب کی سی ہے جو اس وقت تک تڑپتی اور مضطرب رہتی ہے جب تک کہ لوٹ کر پھر پانی میں نہ چلی جائے۔ اس کے برخلاف اگر عادی مجرم (گناہ گار) تائب ہوکر اطاعت کی زندگی گزارنا چاہتا ہے تو دل میں عجیب سی گھٹن محسوس کرتا ہے۔ اس کا سینہ جلتا ہے اور راستے بند نظر آتے ہیں اور یہ کیفیت اُس وقت تک برقرار رہتی ہے جب تک وہ لوٹ کر پھر بُرائی نہ کرے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر فاسق و فاجر لوگ گناہِ بے لذت کے طور پر برائیوں کا ارتکاب کرتے چلے جاتے ہیں۔ بعض اوقات ان کے دل میں بُرائی کے لیے کوئی خاص داعیہ اور طلب بھی نہیں ہوتی اس کے باوجود وہ بُرائی کرتے ہیں۔ اس لیے کسی عربی شاعر نے کہا ہے:
دَکَاس شربت علی لذۃٍ
وَاخُرٰی نداؤت منھا بھَا
(شراب کا ایک پیالہ تو میں نے لذت کے حصول کے لیے پیا (اس سے جو درد اُٹھا) اس کے علاج کے لیے دوا کے طور پر دوسرا پیالہ پیا)
گناھوں کو حقیر سمجہنا:کثرتِ گناہ سے انسان کے دل میں گناہ کا احساس باقی نہیں رہتا۔ گناہ اس کی نظر میں حقیر اور معمولی ہوجاتا ہے۔ یہ علامت حددرجہ خطرناک اور ہلاکت خیز ہے۔ کیونکہ بندے کی نظر میں گناہ کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو، اللہ کی نظر میں وہ بہت بڑا ہے۔ بخاری میں ابن مسعودؓ سے یہ روایت مذکور ہے: ’’مومن جب اپنے گناہوں پر نظر ڈالتا ہے تو اسے محسوس ہوتا ہے جیسے وہ کسی اُونچے پہاڑ کی گہری کھائی میں کھڑا ہے، اور ڈرتا ہے کہ کہیں یہ پہاڑ اس کے سر پر نہ آگرے، اور فاسق و فاجر جب اپنے گناہوں پر نظر ڈالتا ہے تو اسے ایسا لگتا ہے جیسے اس کے ناک پر مکھی بیٹھی ہو اور یوں کرنے (ہاتھ ہلانے) سے مکھی اُڑ کر چلی جاتی ہو‘‘۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حقیر گناہوں سے بچتے رہو، کیونکہ یہ گناہ جب جمع ہوجاتے ہیں تو آدمی کو ہلاک کردیتے ہیں۔ جیسے ایک قوم نے کسی چٹیل میدان میں پڑائو ڈالا۔ اتنے میں کھانے کا وقت ہوجاتا ہے۔ تب ایک شخص جاکر لکڑی لے آتا ہے، دوسرا جاتا ہے وہ بھی کہیں سے لکڑی لے آتا ہے، یہاں تک کہ ڈھیر ساری لکڑیاں جمع ہوجاتی ہیں۔ پھر اس کا الائو بنتا ہے اور وہ لوگ اس کے اُوپر کھانے کی چیزیں رکھ کر پکاتے ہیں۔(مسند احمد)
اس حدیث میں اللہ کے رسولؐ نے اُس غیرت کے بارے میں بیان فرمایا ہے جو انسان کو قبائح سے کراہت اور نفرت دلاتی ہے۔ اس کے ساتھ معافی کی پسندیدگی کو یک جا کیا ہے، جو کمالِ عدل، کمالِ رحمت اور کمالِ احسان کا مظہر ہے۔ اور یہ سمجھایا گیا ہے کہ گناہوں سے جتنا زیادہ تعلق ہوگا اُتنی ہی آدمی کے دل سے غیرت نکلتی جائے گی اور وہ خود اپنے حق میں، اپنے گھر والوں اور عام لوگوں کے حق میں بے حس اور بے غیرت ہوتا جائے گا۔ اس لیے جب غیرت کا مادہ مضمحل اور کمزور ہوتا ہے تو ازخود یا کسی اور طرف سے اُسے کوئی بُرائی محسوس نہیں ہوتی۔ جب کسی شخص کی حالت یہاں تک پہنچ جاتی ہے تو اس کی ہلاکت میں کوئی کسر باقی نہیں رہ جاتی۔ اس لیے بیش تر گناہ گار بُرائی کو بُرائی نہیں سمجھتے۔ فحش کاری اور دوسروں پر مظالم کو اچھا سمجھتے ہیں۔ وہ دوسروں کو اس کو اپنانے کے لیے رغبت دلاتے ہیں اور اس کا پرچار کرتے ہیں۔
من کل شی اذا فیعتہ عوض
وما من اللّٰہ ان فیعتہ عوض
( گم کردہ ہر چیز کا کوئی نہ کوئی عوض ہوسکتا ہے لیکن اگر تم اللہ کو گم کردو گے تو اس کے عوض دوسرا نہیں پائو گے)
یہ اس لیے کہ جو نعمت وہ کسی قوم کو عطا کرتا ہے اسے نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنی حالت نہ بدل ڈالے: اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْط (الرعد ۱۳:۱۱) ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی‘‘۔
کسی عرب شاعر نے خوب کہا ہے:
اذا کنت فی نعمتۃ فارعھا
فان الذنوب تزیل النعم
(جب تو کسی نعمت میں ہو تو اس کی رعایت کر، اس لیے کہ گناہ نعمتوں کو زائل کردیتا ہے)
وحطھا بطاعۃ رب العباد
قرب العباد سریع النعیم
(بندوں کے پروردگار کی اطاعت کر کے اپنے گناہوں کو مٹا، کیونکہ پروردگار بہت جلد بدلہ دینے والا ہے)
اس سے زیادہ بدترین تلخ اور بھیانک حقیقت یہ ہے کہ جب اس کا آخری وقت آتا ہے اور مالکِ حقیقی سے ملاقات ناگزیر ہوجاتی ہے، تو اس گھڑی ، اس کی زبان اور دل ساتھ چھوڑ دیتے ہیں اور مرتے ہوئے کلمۂ شہادت نصیب نہیں ہوتا۔ چنانچہ بسترِ مرگ پر ایڑیاں رگڑنے والے بہتوں کو لوگوں نے دیکھا ہے کہ آس پاس بیٹھنے والوں نے جب انھیں کلمے کی تلقین کرنی چاہی اور لاالٰہ الا اللہ پڑھانا چاہا تو وہ پہلا کلمہ نہیں پڑھ پاتے۔ پس کوئی شخص خاتمہ بالخیر کی آرزو نہیں کرسکتا جس کا دل پراگندا ہو، جو اللہ سے کوسوں دُور جا پڑا ہو، اور اُس کی یاد سے غافل ہو، خواہشاتِ نفس کا غلام ہو، شہوت کے ہاتھوں بے بس ہو۔ اللہ کی یاد آئے تو اس کی زبان کانٹا بن جائے اور عبادت اور بندگی کا وقت آئے تو ہاتھ پائوں ٹھٹھر کر اس کے قابو میں نہ رہیں۔
پس گناہ چھوٹا ہو یا بڑا، اس سے بچنا اور دُور رہنا سب کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ گناہوں سے بچنا اور نیکیوں کو اختیار کرنا ہی تقویٰ ہے۔ نیز گناہ اور معصیت حددرجہ مضر چیز ہے، البتہ مضر اور بُرے اثرات کے درجے الگ الگ ہیں۔ یوں بھی دنیا اور آخرت میں پھیلی ہوئی ہربُرائی اور بگاڑ کی تہہ میں گناہ اور معصیت کے بُرے اثرات ہی کارفرما ہوتے ہیں۔ (ماخوذ: الفوائد، ابن قیم)
ترجمہ: محمد ظہیرالدین بھٹی
میں اپنے ایک دوست کے والد کی بیمار پُرسی کے لیے ہسپتال گیا۔ مریض کی عمر ۶۰برس سے زائد تھی۔ اس کا رنگ اُڑا ہوا تھا، خون کی کمی تھی اور پورا جسم اس بات کا ثبوت تھا کہ مریض کی تکلیف شدید ہے اور بیماری انتہائی دردناک۔ چنانچہ میں نے اللہ سے دعا کی کہ وہ اسے صبروثابت قدمی دے، ایمان و عافیت اور شفا دے۔ پھرمیں نے پوچھا: حاجی صاحب، آپ کیسے ہیں؟ انھوں نے جواب دیا: بیٹا، الحمدللہ! مجھے بہت نعمتیں ملی ہیں۔ اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے ان نعمتوں پر شکر کرنے کی توفیق دے۔ مریض نے جب یہ جواب دیا تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی اور رضا جھلک رہی تھی۔ میں نے پوچھا: آپ کب سے یہاں ہیں؟ انھوں نے جواب دیا: میرے بیٹے، ایک ماہ سے۔ میں نے مریض کے کمرے سے باہر نکل کر اپنے دوست سے پوچھا: آپ کے والد کو کیا کیا تکالیف ہیں؟ دوست نے مجھے اپنے والد کی تمام بیماریاں گن کر بتائیں تو میں سوچنے لگا کہ اگر یہ بیماری کسی اُونٹ کو لگ جائے تو وہ بھی اسے برداشت نہ کرسکے۔
میں عیادت کر کے باہر آیا تو مجھے محسوس ہوا کہ مجھ پر میرے رب کی بے شمار نعمتیں ہیں۔ مجھے اپنی اس شدید کوتاہی کے احساس نے بے تاب کردیا جو میں نے ان نعمتوں کا شکر ادا کرنے میں کی تھی۔ یہ آدمی کئی تکلیفوں میں مبتلا تھا۔ اس کے باوجود سچی رضا کے ساتھ اپنے پروردگار کا شکر ادا کر رہا تھا۔ اب مجھے احساس ہوا کہ اپنے ایمان کو بڑھانے کے لیے مجھے مزید عبرت حاصل کرنا چاہیے۔ چنانچہ میں نے یہ طے کیا کہ میں مریضوں کی عیادت کے لیے اس ہسپتال میں گھوموں گا تاکہ عبرت و نصیحت حاصل کرکے اپنے ایمان میں اضافہ کروں اور اپنے جذبۂ ہمدردی و غم خواری کو بڑھائوں۔
میں ایک اور مریض سے ملا، بیماری نے اسے نڈھال کردیا تھا۔میں نے پہلے تو مریض کی صحت یابی کے لیے دعا کی، پھر اس کے تیماردار سے پوچھا کہ مریض کو کیا بیماری درپیش ہے؟ اس نے بتایا کہ اس کی آنتوں میں بندش ہے۔ مریض چونکہ ۷۰برس سے تجاوز کرچکاہے نیز اسے ایسی بیماریاں بھی لاحق ہیں کہ آپریشن اس کے لیے خطرناک ہے۔ اس لیے ڈاکٹروں نے کوشش کی کہ آپریشن کے بغیر ہی وہ تندرست ہوجائے مگر بالآخر وہ آپریشن کرنے پر مجبور ہوگئے۔
میں تیسرے مریض کے پاس سے گزرا، اس کے دونوں ہاتھ اور پنڈلیاں شَل ہوچکی تھیں۔ وہ قضاے حاجت کے لیے واش روم جانا چاہتا تھا۔ اس نے اپنے خدمت گزاروں سے مدد طلب کی۔ سب نے اُسے اُٹھا کر کرسی پر رکھا، پھر اس کی بیوی اسے لیے واش روم میں چلی گئی۔ میں نے اسے دیکھا تو رو پڑا، اس کے لیے دعا کی اور اپنی اس کوتاہی پر نادم ہوا کہ جو میں نے اپنے پروردگار کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے میں کی۔ میں کافی دیر تک سوچتا رہا کہ اس آدمی کو ہربار قضاے حاجت کے وقت، یا وضو و غسل کرنے کے لیے کس قدر زحمت اُٹھانا پڑتی ہے۔ پھر میں نے اس نعمت پر غور کیا جو ہاتھوں اور پنڈلیوں کی صورت میں مجھے میسر ہے۔ ہاتھ پائوں کی قدروقیمت کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب انسان ان سے محروم ہوجائے یا ان کے نہ ہونے کا تصور کرے۔
مجھے ایک دوست نے بتایا کہ وہ ایک ایسے مریض سے ملا جو مکمل طور پر اپاہج تھا اور صرف اپنے سر کو ہلاسکتا تھا۔ جب اِس نے اُسے دیکھا تو بہت ترس آیا، پوچھا: آپ کی تمنا کیا ہے؟ وہ بولا: میری عمر ۵۰برس سے زیادہ ہوچکی ہے۔ میں گذشتہ پانچ برسوں سے بسترعلالت پر ہوں۔ میری تمنا یہ نہیں ہے کہ میں چلوں پھروں، اپنے بچوں کو دیکھوں اور عام انسانوں کی طرح زندگی گزاروں۔ میری صرف یہ تمنا ہے کہ میں اس قابل ہوجائوں کہ اللہ کے حضور رکوع و سجود کرسکوں۔
ایک ڈاکٹر بیان کرتا ہے کہ میں انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں ایک مریض کے پاس پہنچا جو بہت زیادہ بوڑھا تھا۔ مریض کے چہرے پر نُور پھیلا ہوا تھا۔ اس کے دل کا آپریشن ہوا تھا۔ اس دوران خون بہنے کی وجہ سے دماغ کے کچھ حصوں میں خون رُک گیا تھا، لہٰذا مریض مکمل طور پر بے ہوش ہوگیا۔ اسے مصنوعی تنفس سے سانس دیا جارہا تھا۔ مریض کے بیٹے سے میں نے پوچھا کہ اس کے والد کا پیشہ کیا تھا؟ اس نے بتایا کہ وہ ایک مسجد میں مؤذن تھے ۔ میں مریض کے نزدیک ہوا، اس کے ہاتھ اور سر کو حرکت دینے کی کوشش کی، اس سے بات کی مگر اس نے جواب نہ دیا۔ اس کے بیٹے نے اپنے باپ کو اہلِ خانہ کے حوالے سے خوش کن خبریں سنانا شروع کیں مگر اس کے والد نے حرکت نہ کی۔
اب بیٹا بولا: اباجی، مسجد آپ کی منتظر ہے۔ لوگ آپ کے بارے میں پوچھتے ہیں، وہ نمازوں کے لیے آپ کی اذان کی آواز سننے کے لیے بے تاب ہیں۔ اس مسجد میں اب کوئی شخص باقاعدہ اذان نہیں دیتا، بلکہ مسجد میں موجود کوئی بھی آدمی اذان دے دیتا ہے۔ یہ لوگ اذان دینے میں غلطیاں بھی کرتے ہیں۔ بیٹے نے جب مسجد اور اذان کا تذکرہ کیا تو اب اس کی سانس بہتر ہونے لگی۔ اس کے بعد بیٹے نے اپنے باپ کو کچھ ایسی خوش کن اطلاعات سنانا شروع کیں جن کا تعلق دنیوی معاملات سے تھا تو سانسوں کی رفتار کم ہونے لگی۔ اب اس نے ایک بار پھر مسجد اور اذان کا تذکرہ کیا تو مصنوعی تنفس کی مشین پر سانس کی رفتار بہتر ہوگئی۔ ڈاکٹر کہتا ہے، میں نے جب یہ دیکھا تو بڑے میاں کے کان کے قریب پہنچ کر میں نے اذان دی۔ اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر اشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ… میں نے اذان مکمل کی اور پھر یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اذان کے ساتھ ساتھ سانسوں کی تعداد بڑھتی رہی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا: یہ لوگ بیمارنہیں ہیں، بیمار تو ہم ہیں۔ ان لوگوں کے بارے میں تو رب العزت فرماتا ہے: ’’یہ لوگ ان گھروں میں پائے جاتے ہیں جنھیں بلند کرنے کا، اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ نے اذن دیا ہے۔ ان میں ایسے لوگ صبح و شام اس کی تسبیح کرتے ہیں جنھیں تجارت اور خریدوفروخت اللہ کی یاد سے اور اقامت ِ نماز و اداے زکوٰۃ سے غافل نہیں کردیتی۔ وہ اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں دل اُلٹنے اور دیدے پتھرا جانے کی نوبت آجائے گی، (اور وہ یہ سب کچھ اس لیے کرتے ہیں) تاکہ اللہ اُن کے بہترین اعمال کی جزا ان کو دے اور مزید اپنے فضل سے نوازے۔ اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب دیتا ہے‘‘۔(النور۲۴: ۳۶-۳۸)
ڈاکٹر صاحب نے درست کہا کہ واقعی ہم لوگ بیمار ہیں، حالانکہ ہمارے بدن تندرست ہیں۔ ہمارے دلوں کو علاج کی ضرورت ہے۔ہم لوگ جو مرضوں اور روگوں سے محفوظ ہیں، اپنے خالق، پروردگاراور رازق کی نعمتوں کے مزے اُڑا رہے ہیں، مگر ہمارا مرض یہ ہے کہ ہمیں ان نعمتوں کا شعور نہیں اور نہ ہم ان نعمتوں پر اپنے رب کا شکر ہی ادا کرتے ہیں جیساکہ شکر ادا کرنے کا حق ہے، بلکہ افسوس کہ ہم اُلٹا ان نعمتوں کے عطا کرنے والے کی نافرمانی کرتے ہیں۔
کیا آپ کو یہ احساس نہیں کہ کل آپ نے اپنے پروردگار کے حضور کھڑا ہونا ہے۔ پھر وہ آپ سے ان نعمتوں کی بابت دریافت فرمائے گا اور آپ کی نافرمانی اور گناہوں میں بڑھتے چلے جانے کا سبب پوچھے گا۔ اے اپنے پروردگار کی نعمتوں کے مزے لوٹنے والے! تمھیں یہ خوف نہیں آتا کہ تمھارے گناہ تمھیں ہلاک کردیں گے؟ کیا تم بھی کبھی نوحؑ، عاد ؑ، ثمود ؑ، لوطؑ اور شعیب ؑکی قوموں کے انجام کے بارے میں نہیں سوچا؟ کیا تم نے کبھی فرعون اور اس کی قوم کے انجام اور دیگر تباہ ہونے والوں کے انجام پر غور نہیں کیا؟ اپنے گناہوں کے بارے میں سوچو، پھر فیصلہ کرلو۔ دُوراندیشی کے ساتھ کہ تم گناہوں اور نافرمانیوں کو ترک کردو گے۔ اپنے پروردگار کی فرماں برداری کرو گے اور اس کی نعمتوں پر اس کا شکر بجا لائو گے۔ آپ اس بارے میں اللہ کے نبیوں کی پیروی کیجیے کہ ان پر مصائب و آلام بھی سب سے بڑھ کر آئے۔ پھر بھی وہ سب سے بڑھ کر شکرگزار تھے۔ دیکھیے سیدنا ابراہیم ؑکس قدر شکرگزار تھے کہ اللہ تعالیٰ ان کی اس خوبی کی گواہی دیتا ہے: ’’واقعہ یہ ہے کہ ابراہیم ؑاپنی ذات سے ایک پوری اُمت تھا، اللہ کا مطیع فرمان اور یک سُو۔ وہ کبھی مشرک نہ تھا۔ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والا تھا۔ اللہ نے اس کو منتخب کرلیا اور سیدھا راستہ دکھایا‘‘۔(النحل ۱۶:۱۲۰-۱۲۱)
اللہ نے شکر اور نعمتوں کے باقی رہنے اور زیادہ ہونے کو باہم مربوط کیا ہے، چنانچہ فرمایا: ’’ہماری طرف سے ایک نعمت۔ یہ جزا دیتے ہیں ہم ہر اس شخص کو جو شکرگزار ہوتا ہے‘‘ (القمر ۵۴:۳۵)۔ نیز فرمایا: ’’اور یاد رکھو، تمھارے رب نے خبردار کردیا تھا کہ اگر شکرگزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا‘‘ (ابراھیم ۱۴:۷)۔اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم کے بہت سے مقامات پر یہ واضح فرما دیا ہے کہ اس کے بندوں میں سے شکر کرنے والے تھوڑے ہیں۔ لہٰذا ہمیں محتاط رہنا چاہیے کہ کہیں ہم بھی ناشکروں کی اکثریت میں شامل نہ ہوجائیں۔
بیماری کے دوران شکرو رضا کی نعمت خاص طور پر عظیم ہے۔ اس سے شکرگزار کو اطمینان، سکون اور نفسیاتی راحت نصیب ہوتی ہے، جس کا کوئی نعمت مقابلہ نہیں کرسکتی۔ اس سے جسم کو قوتِ مدافعت نصیب ہوتی ہے، جس سے مریض کی شفایابی میں مدد ملتی ہے۔ شکرگزاری کا سب سے بڑا پھل اللہ کی رضامندی ہے۔ اس سے انسان مطمئن زندگی گزارتا ہے اور آخرت میں اپنے پروردگار کی طرف سے اس شکر ورضا پر اجروثواب کا حق دار ٹھیرتا ہے۔(المجتمع، کویت، جولائی ۲۰۱۲ء)
انٹر نیٹ کی ایجاد نے ابلاغ کی دنیا میں تہلکہ مچادیا ہے۔ اب دنیا عملاً گلوبل ولیج (عالمی گائوں) میں تبدیل ہوگئی ہے۔ دنیا کے کسی بھی کونے میں رونما ہونے والا واقعہ اب منٹوں نہیں، سیکنڈوں میں عوام تک پہنچ جاتا ہے۔ برقی ابلاغ کی نئی جہتوں نے دعوتِ دین کا کام کرنے والوں کے لیے آسانی پیدا کردی ہے۔ دعوت کے ابلاغ کے لیے ان گنت ذرائع بہم پہنچادیے ہیں۔ انھی ذرائع میں مؤثر ذریعہ فیس بک، ٹیوٹر اور دیگر سماجی رابطے کی ویب سائٹس ہیں، جنھیں ’سوشل میڈیا‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کی تعداد ۸۰لاکھ ہے جو مسلسل بڑھ رہی ہے اور اندازہ ہے کہ ۲۰۱۴ء میں یہ تعداد ایک کروڑ تک پہنچ جائے گی۔ پاکستان میں ۱۸ سے ۳۵ سال کی عمر کے ووٹر ۴ کروڑ کی تعداد میں موجود ہیں،جب کہ سوشل میڈیا استعمال کرنے والے ۱۸ سے ۳۵ سال کی عمر کے افراد کی تعداد ۵۰ لاکھ ہے۔ گویا یہ ۵۰ لاکھ نوجوان ایسے ہیں جو سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہیں۔ دعوت ِ دین کی اشاعت میں اگر انھی افراد کو ہدف بنالیا جائے تو اندازہ کیجیے ملک کی آبادی کی کتنی بڑی تعداد ہماری دعوت سے آگاہ ہوسکتی ہے۔
انٹر نیٹ کی دنیا میں جو کام سوشل میڈیا کررہا ہے، جماعت اسلامی کا کام بھی بنیادی طور پر یہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں دنیا میں بھیجا بھی اسی مقصد کے لیے ہے اور خود جماعت اسلامی بھی اسی مقصد کے لیے بنائی گئی ہے کہ لوگوں تک دین کی دعوت پہنچائیں۔ اگر بڑی تعداد میں لوگ ہمارے کارکن نہ بن سکیں، کم ازکم ہر فرد تک ہماری بات تو پہنچی ہوئی ہو۔ لوگوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ہم کون ہیں اور کیا چاہتے ہیں؟
تحریک سے وابستہ وہ افراد جو سوشل میڈیا استعمال کر تے ہیں، ان کا پہلا ہدف یہ ہونا چاہیے کہ وہ ۸۰ لاکھ افراد جو سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہیں، ان میں سے ہر فرد جماعت اسلامی کے نام اور دعوت سے واقف ہو۔ سوشل میڈیا پر جماعت اسلامی کا مثبت تاثر (امیج) پیش کیا جائے۔ اس وقت عام آدمی کے سامنے جماعت اسلامی کے بارے میں تصور یہ ہے کہ یہ ایک ایسی جماعت ہے جو اسلام کا نعرہ لگاتی ہے، اسلام کا نفاذ چاہتی ہے، امریکا کی مخالف ہے۔لوگوں کا خیال ہے کہ یہ بس اچھے اور ایمان دار لوگوں کی ایک جماعت ہے۔ اس تناظر میں ایک ایسا تاثر لے کر آنا چاہیے کہ جس کے نتیجے میں لوگوں کے سامنے ہماری یہ تصویر ابھرے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو عوام کے مسائل حل کرسکتے ہیںبلکہ ان کے علاوہ کوئی حل کر ہی نہیں سکتا۔ یہ وہ تاثر ہے جو سوشل میڈیا کے ذریعے ذہنوں میں آسانی کے ساتھ راسخ کیا جاسکتا ہے۔
سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کو یہ پیغام دینے کی ضرورت ہے کہ جماعت اسلامی ہی کے پاس پاکستان کے مسائل کا حل ہے۔ نہ صرف حل ہے بلکہ اس کے پاس وہ قیادت موجود ہے جو ان مسائل کو حل کرسکتی ہے جو دوسری کسی جماعت کے پاس نہیں ہے۔ جس طرح ہماری دعوت ہے جس میں ہم لٹریچر بھی تقسیم کرتے ہیں، درس قرآن بھی دیتے ہیں، آخرت کی طرف بلاتے ہیں اور بندگیِ رب کی دعوت دیتے ہیں، اسی طرح ہماری ایک سیاسی دعوت ہے۔ ہم یہ بات کہنا چاہتے ہیں کہ اس ملک کے اندر جتنے مسائل ہیں، انھیں جماعت اسلامی کے علاوہ کوئی حل نہیں کرسکتا۔ دیگر پارٹیوں میں نہ یہ صلاحیت ہے کہ وہ کرپشن ختم کرسکیں، نہ ان کی یہ ساکھ ہے، نہ وہ اس کام کو پہلے کرسکے ہیں اور نہ آیندہ ان سے اس کی توقع رکھی جاسکتی ہے۔ یہی ہماری سیاسی دعوت ہے جسے عوام تک پہنچنا چاہیے۔ یہ دعوت جب لوگوں تک پہنچے گی اور لوگ ہماری بات سے اتفاق کریں گے تو اس کے نتیجے میں سوچ میں تبدیلی آئے گی۔
اس پیغام کو ہمیں سوشل میڈیا کے ذریعے بھرپور طریقے سے پھیلانا چاہیے۔ الحمدللہ اس مقصد کے لیے ہمارے پاس ڈیٹا اور لوازمہ موجود ہے۔ ہم سوشل میڈیا پر یہ پیغام دے سکتے ہیں کہ پاکستان میں جب کبھی جماعت اسلامی کے نمایندوں کو خدمت کا موقع ملا، انھوں نے اپنے آپ کو منوایا ہے۔ اس کے لیے کراچی کی مثال دی جاسکتی ہے جہاں عبدالستار افغانی صاحب دو بار میئر منتخب ہوئے اور انھوں نے خدمت کی لازوال داستان چھوڑی۔ نعمت اللہ خان کی نظامت کے سنہرے دور کا تذکرہ اعدادوشمار اور تصاویر کی صورت میں ہوسکتا ہے۔ اسی طرح خیبرپختونخوا میں ہمارے ارکانِ اسمبلی نے جو خدمات انجام دیں اور حکومت میں رہ کر جو خدمت کی۔ ان سے بھی بڑھ کر الخدمت ہے۔ یہ مثال دی جاسکتی ہے کہ جماعت اسلامی اقتدار میں نہ ہوکر بھی ’الخدمت‘ کے ذریعے جو خدمات انجام دیتی ہے، پاکستان کی کسی سیاسی ومذہبی جماعت سے اس کا تقابل نہیں کیا جاسکتا۔ تعلیم کے میدان کے بارے میں لوگوں کو متوجہ کیا جاسکتا ہے۔ صحت کے حوالے سے ڈسپنسریاں، ہسپتال، زلزلہ و آفات کے مواقع پر جماعت اسلامی کے ڈاکٹروں کی مفت او رفی سبیل اللہ خدمات کا تذکرہ کیا جاسکتا ہے۔
یہ وہ پیغام ہے جو لوگوں کے پاس جانا چاہیے، لیکن اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہمارے کچھ افراد لوازمہ اور مواد اکٹھا کرنے پر توجہ دیں۔ ہم ایسا لوازمہ ترتیب دیں جس کے ذریعے ہم لوگوں کے دلوں پر دستک دے سکیں۔ جس کے ذریعے لوگوں کو یہ بات پتا چلے کہ ہم لوگوں کے مسائل کے حل کے لیے بات کررہے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم سلوگن تیار کریں، کارٹون بنائیں، مختصر فلمیں بنائیں یا اشتہارات بنائیں۔ یہ ہمارے کرنے کاکام ہے کہ ہم اپنی دعوت کو زندہ مسائل کے حل کے ساتھ جوڑیں اور اسے پھراپنی دعوت کے طورپر لوگوں کے سامنے پیش کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھیں کہ جو لوگ سوشل میڈیا استعمال کررہے ہیں، ان تک ہمارا یہ پیغام جا بھی رہا ہے یا نہیں؟ اگر جارہا ہے تو اس کے کچھ مثبت اثرات بھی سامنے آرہے ہیں کہ نہیں! یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ کسی بھی کام کے ساتھ اس کا فیڈ بیک لینا انتہائی مفید ہوتا ہے۔
اس وقت ’بلاگ‘ بھی سوشل میڈیا کا ایک اہم ٹول ہے۔ دعوت پہنچانے کے لیے فیس بک پر پوسٹنگ کے ساتھ ساتھ ہمیں بلاگ پر بھی کام کرنا چاہیے۔ بلاگ پر چھوٹے چھوٹے مضامین کے ذریعے اپنا پیغام عام کیا جاسکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر یہ ایک اوپن فیلڈ ہے جس پر اگر ہم کام کریں تو آیندہ چار پانچ سالو ںمیں اس میدان میں ہم چھاسکتے ہیں۔ ایسا نظر آتا ہے کہ چند سال بعد دعوت کے ابلاغ کا یہ ایک مؤثر ذریعہ ہوگا۔ یہی بلاگ رائٹر امیج بلڈنگ کا کام کریں گے۔ ان بلاگز کے ذریعے سے ہم علاقے اور شہروں کے مسائل اُجاگر کریں۔ اس کے ذریعے ہم یہ ثابت کرسکیں گے کہ ہمارے معاشرے کو جن معاشرتی مسائل کا سامنا ہے، ان معاشرتی مسائل کا حل بھی جماعت اسلامی کے پاس ہے۔ اس مقصد کے لیے پاکستان میں سو ڈیڑھ سو افراد ایسے ہوں جن میں لکھنے کی صلاحیت ہو اور وہ بلاگرز کے طورپر سامنے آئیں۔ ان کو تربیت دی جائے اور وہ لکھنا شروع کریں اور سال چھے مہینے کے اندر وہ اپنی آن لائن کتابیں لکھیں جو کسی خاص موضوع کا احاطہ کررہی ہوں۔ اس وقت بے شمار موضوعات ہیں۔ ہمارے معاشرے میں خودکشی ہے، نشہ ہے، ملاوٹ ہے، تھانہ کلچر ہے، لڑائی جھگڑا ہے، طلاقوں کا رجحان ہے اور دیگر مسائل ہیں۔ ان تمام ایشوز کو ہدف بنانے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے لکھنے اور لوگوں میں شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ چاہے وہ کہانی ہو، افسانہ کی صورت ہو، ناول یا شارٹ فلم کی اسٹوری ہو… دعوت کے لیے ان تمام اصناف کو استعمال کیا جاسکتا ہے اور انھیں اپنی دعوت کا ایک حصہ سمجھا جائے۔
یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ہم لوگوں تک صرف دعوت پہنچانا نہیں چاہتے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانا چاہتے ہیں۔ توجہ کے حصول کے لیے اس وقت سوشل میڈیا ایک اہم ذریعہ ہے، کیونکہ بقیہ ذرائع سے ہم صرف یک طرفہ دعوت پہنچاتے ہیں۔ آپ ٹی وی پر کوئی پروگرام کریں یا بل بورڈز لگائیں، بینرز لگائیں یا ہینڈ بل تقسیم کریں لیکن سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کے ساتھ تبادلۂ خیال کیا جاسکتا ہے۔ ان کے سوالات کا جواب دے سکتے ہیں۔ ان کے نقطۂ نظر کو سمجھا جاسکتا ہے۔
یہ بات سمجھنی چاہیے کہ دعوت پھیلانے کے لیے engagement بنیادی چیز ہے۔ کروڑوں لوگوں تک آپ پملفٹس بانٹ دیجیے، ہینڈ بلز تقسیم کیجیے، تقریریں کرلیجیے، لوگ آپ کی دعوت سے مطمئن نہیں ہوں گے جب تک کہ آپ لوگوں کو اپنے ساتھ شامل نہیں کریں گے، ان سے تبادلۂ خیال اور گفتگو نہیں کریں گے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جو سب سے مضبوط میڈیم ہے وہ word of mouthہے۔ باہمی گفتگو کے ذریعے لوگ متاثر ہوتے ہیں اور ساتھ دینے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ اس تناظر میں اگر ہم صرف ۸۰ لاکھ لوگوں تک اپنا پیغام پہنچادیں تو اس کے نتیجے میں آپ لوگوں کو تبدیل نہیں کرسکتے لیکن آپ اگر ۱۵ سے ۲۰ لاکھ لوگوں سے گفتگو اور تعلق بنانے میں کامیابی حاصل کرلیتے ہیں تو یہ دعوت کے لیے ایک بڑی کامیابی ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ دعوت نے لوگوں کی توجہ حاصل کرلی ہے۔
سوشل میڈیا پر اصل کامیابی لوگوں کی گفتگوکا موضوع بن جانا ہے اور یہ مختلف صورتوں میں ہوگا۔ چاہے وہ اچھے طریقے سے بحث ومباحثہ ہو، باہمی تبادلۂ خیال ہو۔ ہمارا ہدف یہ ہونا چاہیے کہ جن ۸۰ لاکھ لوگوں تک ہم رسائی حاصل کریں، ان میں سے ۴۰-۵۰ فی صد ایسے ہوں جنھیں ہم اپنے ساتھ تعلق پیدا کرنے اور ان کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوں۔ اگر ہم اس میں کامیاب ہوگئے تویقین جانیے اس میں سے ۸ سے۱۰ لاکھ لوگوں کو آپ اپنا گرویدہ بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ جس طرح تحریک میں ہم کارکن سازی کرتے ہیں اسی طرح کوشش کرنی چاہیے کہ سوشل میڈیا پر بھی لاکھ دو لاکھ لوگ ہمارے کارکن بن جائیں۔ وہ ہمارے سوشل میڈیا کے کارکن ہوں۔
اس وقت پاکستان میں سب سے زیادہ اثر و نفوذ الیکٹرانک میڈیا کا ہے۔ پاکستان میں ۴-۵ کروڑ افراد ایسے ہیں جو روزانہ ٹی وی دیکھتے ہیں، مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ الیکٹرانک میڈیا اگر کسی سے ڈرتا ہے تو وہ سوشل میڈیا ہے۔ اس لیے سوشل میڈیا ایک ایسا آلہ ہے جس کے ذریعے ہم الیکٹرانک میڈیا پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ اس کا بارہا تجربہ بھی کیا جاچکا ہے۔ جب عالمی یوم حجاب کا موقع آیا تو سوشل میڈیا نے اس پر بھرپور مہم چلائی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ الیکٹرانک میڈیا کو حجاب پر پروگرام کرنا پڑا۔ ۱۲ سے ۱۵ پروگرامات حجاب کے موضوع پر ہوئے۔ اسے ہم آیندہ رجحان ساز کے طورپر بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ کراچی میں انتخابی فہرستوں کی تیاری میں ہونے والی دھاندلیوں کو بھی سوشل میڈیا کے ذریعے نمایاں کیا گیا جس کے نتیجے میں الیکشن کمیشن کو نوٹس لینا پڑا۔ یہ سوشل میڈیا نے ہی بتایا کہ ایک گھر میں سو ووٹ ہیں تو دوسرے گھر میں ۲۰۰اورکہیں ۵۰۰ ووٹ۔ بالآخر الیکٹرانک میڈیا اسے نشر کرنے پر مجبور ہوا اور الیکشن کمیشن کو بھی اس کا نوٹس لینا پڑا۔ برما میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کو بھی سوشل میڈیا نے اُجاگر کیا۔ اگر الیکٹرانک میڈیا پرکوئی چیز دوسرے رخ پر جارہی ہے تو سوشل میڈیا کے ذریعے اس کا رُخ بھی موڑا جاسکتا ہے، جیسے ملالہ کے مسئلے پر پورا الیکٹرانک میڈیا ایک سمت میں جارہا تھا، لیکن ہماری مہم کے نتیجے میں وہ پورے کا پورا ایشو دوسرا رخ اختیار کرگیا ۔ پاکستان میں اس وقت ۹۰فی صد لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ملالہ کا ایشو جعلی تھا جس میں کچھ نہ کچھ گڑ بڑ ہے۔
سوشل میڈیا میں وہ قوت ہے کہ وہ دریا کے دھارے اور اس کا رُخ موڑ سکتی ہے۔ طاہرالقادری کے ایشو کو جس طرح سوشل میڈیا نے ہائی لائٹ کیا اور اس کو بے نقاب کیا ہے، حالانکہ الیکٹرانک میڈیا اس مہم میں آگے آگے تھا، مگر سوشل میڈیا نے اس مہم کے غبارے سے ہوا نکال دی۔ اسی طرح سوشل میڈیا کے ذریعے بہت سارے اینکرز کو بھی discreditکیا جاسکا ہے۔ ایک مشہور اینکر کا کیس تو آیا ہی سوشل میڈیا پر تھا۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ہی ۱۶-۱۷ لاکھ لوگوں نے اس کو شیئر کیا جس کی وجہ سے اس مشہور اینکر کے شو کی حقیقت کھل گئی اور چیف جسٹس اور ملک ریاض کیس کی حقیقت کھل کر سامنے آئی۔
اس بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ جو صلاحیت سوشل میڈیا کے پاس ہے اس کو ہمیں سمجھنا چاہیے اور اس کو استعمال کرنا چاہیے۔ پاکستان کے یہ چینلوں انتہائی طاقت ور ہیں، ان کے خلاف لڑنے کا اور کوئی میدان نہیں ہے۔ اگر ہم سوشل میڈیا کے ذریعے اسے مجبور رکھیں تو یہ ہماری بڑی کامیابی ہوگی۔ اس کے ذریعے سے اینکر کو بھی اپنے جامے میں رکھا جاسکتا ہے۔ اس وقت الیکٹرانک میڈیا کی پوری تجارت Rating پر ہے۔ ہر چینل کو اس بات کی فکر رہتی ہے کہ اس کی ریٹنگ بڑھ جائے۔ لوگ وہ کام کرنا چاہتے ہیں کہ جس کے نتیجے میں ریٹنگ اوپر جائے۔ سوشل میڈیا میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ کسی کی ریٹنگ کو بڑھا اور گھٹاسکے ۔
سوشل میڈیا نے یہ بات بھی ثابت کی ہے کہ اس کے ذریعے اداروں کو متاثر کیا جاسکتا ہے، کیونکہ اس کی پہنچ سب تک ہے۔ اس کے ذریعے سے حکومت اور اس کی پالیسیوں پر اثر انداز ہوا جاسکتا ہے۔ بعض امور پر حکومت بالخصوص خاموش تھی، جیسے حرمت رسولؐ… الیکٹرانک میڈیا نے بھی اسے کوئی خاص اہمیت نہیں دی، لیکن سوشل میڈیا نے جب اسے اٹھایا تو حکومت نے قراردادیں منظور کیں۔ چھٹی کا اعلان کیا۔ برما کے بارے میں پہلے ہی عرض کیا جاچکا ہے کہ اس مسئلے کو نہ الیکٹرانک میڈیا نے اہمیت دی نہ پرنٹ میڈیا نے، لیکن سوشل میڈیا اس کو اتنے اچھے طریقے سے سامنے لایا کہ اس کے نتیجے میں ہلچل مچ گئی۔ پھر حکومت نے اس پر قرارداد منظور کی۔ وزیر خارجہ نے برما کے سفیر کو طلب کیا۔
یہ وہ ایشوز ہیں جن سے ہمیں پتا چلتا ہے اگر ہم کسی مسئلے کو بھرپور طریقے سے اٹھائیں تو حکومت بھی اس کے آگے مجبور ہوتی ہے۔ اسی طرح عدلیہ نے بھی سوشل میڈیا پر اٹھائے جانے والے کئی ایشوز کا نوٹس لیا ہے۔ شاہ رخ کیس کا اگر عدلیہ نے نوٹس لیا تو اس میں اہم کردار سوشل میڈیا کا تھا۔ گویا چیف جسٹس بھی سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ اسی طرح خروٹ آباد واقعہ بھی میڈیا پر کہیں نہیں تھا۔ سوشل میڈیا نے اس کو نشر کرنا شروع کیا۔ ویڈیو آنی شروع ہوئی۔ پوری کی پوری کہانی بدل گئی اور اس کے بعد وہ پاکستان کا نمبر ون ایشو بن گیا۔ اسی طرح کراچی میں رینجرز کی فائرنگ سے ایک نوجوان ہلاک ہوگیا تھا۔ اس کیس کو سوشل میڈیا نے اس پوزیشن پر پہنچایا کہ بالآخر رینجرز کے ڈی جی کو معطل کردیا گیا اور رینجرز اہلکار کو سزاے موت ہوئی۔ اگر وہ کیس سوشل میڈیا پر نہ آتا تو کبھی کسی کے خلاف کارروائی نہ ہوتی۔
ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ سوشل میڈیا ایک ’انٹرا ایکٹو میڈیم‘ ہے، یعنی ایسا میڈیم جو ایک دوسرے پر اثرانداز ہوسکتا ہے اور دو رویہ ترسیلِ معلومات کا اہل ہے۔ یہاں اس بات کی اہمیت نہیں ہے کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں بلکہ اس بات کی اہمیت ہے کہ دوسرے لوگ کیا کہہ رہے ہیں؟ عوامی راے کا آپ کو سوشل میڈیا کے ذریعے پتا چلے گا۔ سوشل میڈیا پر گھنٹہ دو گھنٹہ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ لوگ کیا سوچ رہے ہیں؟ وہ کن موضوعات پر بات کررہے ہیں؟ کیا ایشو چل رہا ہے؟ جب ہم سوشل میڈیا میں ’عوامی راے‘ کو دیکھیں گے، اس کے مطابق کام کرنے میں آسانی ہوگی۔ سوشل میڈیا ایک ہمہ جہتی ہتھیار ہے جس کو اگر بھرپور منصوبہ بندی کے ساتھ استعمال کیا جائے تو نہ صرف لوگوں کا ذہن تبدیل کیا جاسکتا ہے ، بلکہ جماعت اسلامی کی دعوت بھرپور طریقے سے لوگوں بالخصوص پڑھے لکھے، تعلیم یافتہ نوجوانوں تک پہنچائی جاسکتی ہے۔
زیر نظر تحقیقی کتاب تاریخی اور عہد حاضر دونوں اعتبار سے مسلم دشمن تعصبات پر ایک اچھی عالمانہ اور معلوماتی کاوش ہے۔ اس کے مصنفین نے صلیبی جنگوں کے زمانے (پانچویں سے گیارھویں صدی عیسوی ) سے آج تک مغرب میں مسلمانوں سے نفرت کی مختلف شکلوں کا تفصیلی جائزہ لیاہے۔ اس تحقیق میں مسلم مخالف جذبات کا مختلف جہتوں سے جائزہ لیا گیا ہے جس میں سیاسی، تعلقات عامہ، فلسفہ، تاریخ، قانون، سماجیات، ثقافت اور ادب شامل ہیں۔ یہ آج کے دور کے سیاسی مسائل اور تنازعات کا بھی گہرا ادراک فراہم کرتی ہے جن میں مسلم معاشرے میں عورت کا مقام، ’’حجاب‘‘کا تنازعہ، نام نہاد غیرت کے نام پر قتل، جبری شادیاں اوراسلام اور مسلمانوں کی نمایندگی میں میڈیا کا کردار؛ اس کے علاوہ آج کے دور کے خصوصی مسائل جن میں کثیر الثقافتی معاشرے اور ان میں مسلمانوں کا انضمام اورمغرب کی انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کی منظم اسلام مخالف مہمات شامل ہیں۔
یہ کتاب ۱۰؍ ابواب پر مشتمل ہے، جب کہ اشاریہ (ص ۲۱۶تا۲۲۲)بھی شاملِ اشاعت ہے۔ کتاب کا ہر باب ایک تحقیقی مقالے پر مبنی ہے اور مصنفین مغربی دنیا کی نامور یونی ورسٹیوںسے وابستہ افراد ہیں۔ ابواب کے عنوانات حسب ذیل ہیں: ’’برطانوی اور مسلمان، دور جدید کے ابتدائی عرصے میں : تعصب سے رواداری (کے نظریے) تک‘‘ (ص ۷-۲۵)، ’’ترک مخالف جنون اور بلقانی مسلمانوں کا خروج‘‘(ص ۲۶-۴۲)، ’’کیا دیواریں سن سکتی ہیں؟‘‘(ص ۴۳-۶۰)، ’’خواتین کی لاشوں پر صلیبی جنگ‘‘(ص ۶۱-۷۸)، ’’فرانس میں مسلمانوں کا حجاب اور اسرائیل میں فوجی وردی: شہریت بطور نقاب، ایک تقابلی جائزہ‘‘(ص ۷۹-۱۰۳)، ’’لی پانتوثانی: مغربی یورپ میں اسلام کے خلاف عصر حاضر کا سیاسی تحرک‘‘ (ص ۱۰۴-۱۲۵)، ردّ نسل پرستی (مسلمانوں کے تناظر میں)(ص ۱۲۶-۱۴۵)۔ ’’ ان کی اکثریت سے نجات پائیں‘‘: برطانوی اخبارات میں مسلمانوں کے حوالے سے انتخابی رپورٹنگ‘‘ (ص ۱۴۶-۱۶۸)، ’’برطانیہ اور فرانس میں مسلمان نسلی اور گروہی درجہ بندی میں کہاں کھڑے ہیں؟: (۱۹۸۸ء تا ۲۰۰۸ ء) عوامی راے پر مبنی سروے سے حاصل کیے گئے حقائق‘‘(ص ۱۶۹-۱۹۰)، ریاست ہاے متحدہ امریکا میں اسلاموفوبیا سے مقابلہ: مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے امریکی شہریوں میں شہری حقوق کے حوالے سے سوچ کی بیداری‘‘ (ص ۱۹۱-۲۱۵)
تعارفی باب ’’مغرب میں مسلم مخالف تعصب، ماضی اور حال ‘‘ میں مدیرہ ملیحہ ملک اس تحقیق کے مقاصد بیان کرتی ہیں: ’’آج کے مغرب میں مسلمانوں کو سمجھنا ناممکن ہے جب تک کہ ہمیں اس بات کا بہتر ادارک نہ ہو کہ ماضی میں ان کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھا گیا ہے(ص ۱ )۔‘‘ وہ اس بات پر بحث کرتی ہیں کہ مغرب میں مسلمانوں سے تعصب کی موجودہ شکلوں کو سمجھنے کے لیے اسے تاریخی تناظر میں دیکھا جاناضروری ہے ، خصوصاً قرون وسطیٰ میںکہ جب اس نفرت کا بیج بویا گیا۔
پہلے مقالے میں نبیل مطار نے سولھویں سے اٹھارھویں صدی عیسوی کے انگریزی ادب، تھیٹر، مصوری، سفارت کاری، کلچر اور سفریات میں مسلمانوں کے بیان کا تجزیہ کیا ہے۔ اس دور میں مغرب میں مسلمانوں کے بارے میں دو مختلف نظریات پروان چڑھے۔ پہلا نظریہ عموماً جانب دارانہ اور دقیانوسی تھا اور اس کے خالق اس دور کے مذہبی اور ادبی مصنفین تھے۔ تاہم دوسرا نظریہ کچھ کم معاندانہ اور بظاہر مثبت دکھائی دیتا تھا۔ یہ نظریہ مسلمانوں کے ساتھ براہ راست میل جول کے نتیجے میں پروان چڑھا اور اس کے خالق عموماً تاجر اور سفارت کار تھے جن کا ان مسلمانوں سے براہِ راست واسطہ پڑا جو تجارت کی غرض سے بحیرئہ روم میں سفر کرتے تھے یا سفارتی دوروں کے دوران لندن اور استنبول جیسے طاقت کے مراکز میں جاتے تھے۔ مصنف اس صورت حال کا تذکرہ یوں کرتا ہے: ’’منبر پر بیٹھا مبلغ چاہے محمد]صلی اللہ علیہ وسلم[ کی ذات پر کیچڑ اچھالے اور اسلام کا مذاق اڑائے، لیکن اس کے بعد پریوی کونسل کو (سفارتی )خطوط ملتے جن میں محمد[صلی اللہ علیہ وسلم] کے ماننے والوں سے تجارت کے وسیع امکانات، اسلامی دنیا میں موجود لامحدود وسائل اور بنیادی صنعتی ضروریات کا ذکر ہوتا۔ اس کے باوجود تخیل کی زرخیز دنیا میں تعصب زوروں پر رہا: اور اس سے بھی بڑھ کر طاقت کے ایوانوں میں۔۔۔‘‘(ص ۱۰)
دوسرے مقالے میں سلوبودان دراکولک نے سلاوی عیسائیوں کی مسلمانوں سے نفرت کی تاریخی اور سماجی وجوہ جاننے کی کوشش کی ہے جو ۹۰ کی دہائی میں بلقان سے مسلمانوں کے مکمل خاتمے کی کوشش کی وجہ بنی۔ان کا کہنا ہے کہ سلاوی عیسائی بلقانی مسلمانوں کوعثمانی ترک قرار دیتے تھے جو درحقیقت ان کے ہم نسل اور ہم زبان تھے۔ ’’ترک بیسویں صدی میںا یسے داخل ہوئے کہ انھیں عیسائیت کا قابل نفرت مذہبی اور نسلی دشمن قرار دے کر ان سے خوف کھایاجاتا تھا۔ ان احساسات نے ترک اور غیر ترک مسلمانوں کو تسلیم نہ کرنے کو رواج دیا اور ان لوگوں کے خاتمے کی سوچ نے جنم لیا جو ’ترک‘بن گئے اورعیسائیت، یورپ اور اپنے نسلی رشتے داروں کے ساتھ دھوکا کیا‘‘(ص ۴۰)۔ اس دعوے میں سیمیول ہن ٹنگٹن کے تہذیبوں کے تصادم (The Clash of Civilizations)کے نظریے کی بازگشت بھی سنائی دیتی ہے ،یعنی مذہب پر مبنی مختلف نظریات رکھنے والے افراد کے درمیان محاذآرائی لازم ہے۔
تیسرے مقالے میں گِل انیدجر دنیا کے بارے میں مغربی مسیحیت کے نظریے کی ساخت کا تجزیہ کرتے ہیں کہ مسیحیت ایک خصوصی کردارہے جو خود اور دوسروں (غیروں) کے درمیان دیوار کھڑی کرتا ہے اور اچھے اغیار اور بُرے اغیار کے درمیان بھی۔ ان دیواروں کے درمیان بھی اندرونی اور بیرونی دونوں اقسام کی نظریاتی کش مکش موجود ہے۔ ’’یہ دیواریں نام ور ہستیاں بھی ہوسکتی ہیں اور بسا اوقات محض افسانوی بھی۔ اس کے باوجود یہ عجیب قسم کے مخصوص اثرات رکھتی ہیں اورایسی عادات کو رواج دیتی ہیں جنھیں سمجھنے کے لیے تخیل کی مدد درکار ہو تی ہے، لیکن ان کے سماجی اور معاشرتی نتائج حقیقی ہوتے ہیں جہاں ’غیر‘محض خیالی وجود رکھتے ہیں‘‘(ص ۴۴)۔ اس تقسیم کی بنیاد دُہری مخالفت پر ہے اور مذہب، سیاست، یہود دشمنی اور اسلاموفوبیاکی بنیاد پر تقسیم عمل میں لائی گئی ہے۔
اگلے دو مقالوں میں سونیا فرنانڈس اور لورا بلسکی نے مسلمان کمیونٹی کو توجہ کا مرکز بنایا ہے اور لبرل ازم، سیکولرازم اور عمومی مساوات جیسے بنیادی مغربی نظریات پر سوالات اٹھائے ہیں۔ فرنانڈس نے مسلم مخالف تعصب کی تاریخ کا صلیبی جنگوں (۴۸۸ء-۶۹۰ء/۱۰۹۵ء-۱۲۹۱ء) سے سراغ لگانے کی کوشش کی ہے، جب اسلام اور اس کے ماننے والوں کو پردیسی اور اجنبی قرار دیا جاتا تھا، جب کہ اس کے مقابلے میں مغرب کو دانش اور تہذیب کا مرکز گردانا جاتا تھا۔ یہ رویے سیون سیون اور نائن الیون کے واقعات کے بعد معیار قرار پائے اور ’’دہشت گردی کی جنگ‘‘ مسلمانوں کو پس منظر سے نکال کر پیش منظر میں لے آئی۔ ان کاکہنا ہے کہ عورتوں کے حقوق کے حوالے سے تشویش کے ظاہری پردے کے پیچھے مسلم مخالف تعصب چھپا ہوا ہے(ص ۶۱)۔ ان کی گفتگو کا محور صنف کی بنیاد پر پیدا ہونے والے مسائل ہیں جن میں حجاب، نام نہاد جبری شادیاں اور غیرت کے نام پر قتل شامل ہیں،تاکہ وہ طور طریقے سامنے لائے جا سکیں جنھوں نے اسلامو فوبیا کو رواج دیا اور اسے بظاہر بالکل عمومی چیز بنا دیا۔ وہ کہتی ہیں: ’’عورتوں کے برابری کے حقوق جیسے معاملات کو اسلام مخالف صلیبی جنگوں کے لیے جواز بنانے جیسی اسلاموفوبیا پر مبنی روایات کے مسلسل استعمال کا نتیجہ غالب ’گورے‘ مغربی لبرل کلچر کے یہاں تشدد اور عدم مساوات جیسی روایات کی پردہ پوشی کی صورت میں نکلا۔‘‘ (ص ۷۶)۔ لورا بلسکی نے علامتی لباس پہننے کے حوالے سے دو متنازع کیس لیے۔ پہلے کیس میں فرانس میں سکول جانے والی مسلمان بچیوں پر اسکارف لینے پر پابندی عائد کردی گئی اور دوسرے کیس میں اسرائیل میں ایک فلسطینی پروفیسر نے یہودی طلبہ کو کلاس میں فوجی یونی فارم پہننے سے روک دیا۔ ان دونوں کیسوں کے نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے لورا اس رویے پر بحث کرتی ہیں جو شہریت کے لبادے میں چھپایا گیا ہے اور مطالبہ کرتی ہیں کہ شہریت کے اصول وضوابط دوبارہ طے کیے جائیں تاکہ جمہوری اور کثیر تمدنی معاشروں میں مساوات کو فروغ دیا جا سکے (ص ۱۰۳)۔
چھٹے مقالے میں ہینز جارج بٹزاور سوسی مرٹ کہتے ہیں کہ دائیں بازو کے وطن پرست انتہائی سیکولر یورپی معاشرے میں عیسائیت کی ان مستند اقداراور اصولوں کے فروغ اور دفاع کے لیے کوشاں ہیںجسے ان ممالک کا ورثہ اور تاریخ سمجھا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہی پارٹیاں نسلی اقلیتوں کے ہاں صنفی برابری اور عورتوں کے حقوق جیسی لبرل اقدار کے فروغ اور دفاع کا دعویٰ کرتی بھی نظر آتی ہیں(ص ۱۲۴)۔ دوسری جانب، ’’وہ اظہار راے کی آزادی، وسعت نظر، رواداری اوریک جہتی وغیرہ کو مرکزی اقدار قرار دے کر ان کی پاسداری اور فروغ کی بات کرتے ہیں،۔۔۔ان اقدار کی بنیاد پر یہ وطن پرست کچھ پابندیاں عائد کرنا چاہتے ہیں تاکہ نسلی اقلیتوں، خصوصاً مسلمانوں کو تمام شہری اور سماجی حقوق حاصل کرنے سے روکا جا سکے‘‘ (ص ۱۲۴)۔ مصنفین کے مطابق ان وطن پرست اور انتہائی دائیں بازو کے علَم برداروں نے بہت سارے ایسے نظریات، سفارشات اور مطالبات پیش کیے ہیں جو ’’بعد میں مسلمانوں کے مغربی اور یورپی معاشرے میں انضمام کے عمل میں رکاوٹ ڈالنے یا اس کو مکمل طور پر ختم کرنے پر منتج ہوئے‘‘ (ص ۱۱۵)۔
ساتویں مقالے میں ناصر میر اور طارق مودودبرطانوی لبرل سیاسی ایجنڈے کا مطالعہ کرتے ہیں جو مسلمانوں کو ان بنیادوں پر ایک ’نسلی گروہ‘ کے طور پر قبول نہیں کرتاجن بنیادوں پر یہودیوں اور سکھوںکو تسلیم کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے معاملے میں: ’’عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ کسی صنفی، نسلی یا جنسی شناخت کسی نسلی گروہ سے منسوب ہوتی ہے یا وہ پیدایشی ہوتی ہے، جب کہ مسلمان ہونا منتخب کردہ مذہبی عقائد پر منحصر ہے، اس لیے مسلمانوں کو ان دوسری قسموں کی شناخت رکھنے والوں کی نسبت کم قانونی تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے‘‘ (ص ۱۳۶)۔ مصنفین کے مطابق برطانوی لبرل اظہار راے کی آزادی کو، جسے عموماً مسلمانوں کا مذاق اڑانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، لبرل جمہوریتوں میں دانش ورانہ مباحث کی صحت کی ایک علامت قرار دیا جاتا ہے۔
آٹھویں مقالے میں جان ای رچرڈسن برطانیہ میں انتخابات کی رپورٹنگ کا جائزہ لیتے ہیں۔ اخباری خبریں مسلمانوں کو ایسے گروہ کے طور پر الگ کردیتی ہیںجس کا امکان ہے کہ وہ اپنے عقیدے اور نسلی وابستگی کی بنیاد پر ووٹ ڈالیں گے، نہ کہ سیاسی اور اخلاقی اقدار کی بنیاد پر۔ ڈیلی میل میں لکھا گیا: ’’نوجوان مسلمانوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ اپنی پیدایش کے ملک میں اپنی انفرادی ذمہ داری پر اپنے عقیدے سے وفادار ی کو فوقیت دیں۔ ان کی برین واشنگ کی جاتی ہے کہ وہ دنیا میں مسلمانوں پر کسی بھی وجہ سے آنے والی اُفتاد کو اپنی ذاتی تذلیل سمجھیں‘‘ (ص ۱۵۸)۔
نویں مقالے میں ایرک بیلیچ برطانیہ اور فرانس میں مسلم مخالف تعصب کی سطح کو ناپنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انھوں نے ۱۹۸۸ء سے ۲۰۰۸ء تک ہونے والے عوامی راے پر مبنی اہم جائزوں کی مدد سے مسلمانوں سے سلوک کا جائزہ لیا اور اس کا دوسرے مذاہب اور نسلی گروہوں سے تقابل بھی کیا۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ دونوں ممالک میں مسلمانوں کے ساتھ منفی رویوں میں گذشتہ ۲۰برس کے دوران اضافہ ہوا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ’’ایک گروہ کے حوالے سے پریشان کن مضبوط دلیل موجود ہے۔۔۔جو قومی مراتب میں تیزی سے نیچے کو جا رہا ہے۔۔۔اگر یہ رجحان مزید تحقیق سے ثابت ہوجاتا ہے تو یہ ’اسلاموفوبیا‘ کے نظریے کے لیے بہترین جواز ہو گا تاکہ سول سوسائٹی اور ریاستوں کو برطانیہ، فرانس اور دوسرے ممالک میں مسلم مخالف تعصب کے خلاف متحرک کیا جائے‘‘۔ (ص ۱۸۹، ۱۹۰)
آخری مقالے میں ایرک لوّ تجزیاتی انداز میں امریکا میں اسلاموفوبیا کو نسلی تناظر میں دیکھتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اسلاموفوبیا نہ صرف نسلی تعصب میں اضافے کا سبب ہے بلکہ یہی اس کی بنیاد بھی بنتا ہے۔۔۔کہ افراد کی ظاہری وضع قطع کیسی ہے‘‘ (ص ۱۹۲)۔ اس کا کہنا ہے کہ امریکا میں ’اسلاموفوبیا کے عروج‘کاتعلق ’’مشرق وسطیٰ میں رونما ہونے والے کئی واقعات سے ہے۔۔۔خصوصاً امریکا کی نام نہاد ’بدمعاش ریاستوں‘ کی پالیسی۔۔ فلسطین کے ساتھ تنازعے میں اسرائیل کے ساتھ مستقل و غیر مشروط تعاون اور مشرق وسطیٰ کے حوالے سے ’سٹراسی‘ اور نوقدامت پسندانہ سوچ اور نظریات‘‘ (ص ۲۰۳)۔
اس کتاب میں شامل مقالات کے مطالعے سے بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے، اور اسی قدر اہم معلومات فٹ نوٹ، گرافس، جدول، تصاویر اورشماریاتی معلومات میں بھی موجود ہیں۔ یہ کتاب آج کے مسلمان کو درپیش انتہائی اہم مسائل پر علمی تحقیق کا ایک شاہکار ہے۔اسے مسلم مخالف تعصبات کے خلاف کی جانے والی کاوشوں کے سلسلے کی اولین کوشش قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ کتاب مغربی کلچر کے علَم برداروں کے لیے ایک آئینہ ہے جو ان کی جانب سے اسلام کو بدنام کرنے اور مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے مذموم مقاصد کو عیاں کرتا ہے۔ یہ مجموعہ نہ صرف اسلام کے بارے میں عام غلط فہمیوں کے ازالے کا مقصد پورا کرتا ہے، بلکہ یہ مسلمان پالیسی سازوں، محققین، مدرسین، دانش وروں، ماہرین ادب اور طلبہ کے لیے مفید ذریعہ بھی ہے۔یہ کتاب ان افراد کے لیے بھی یکساں مفید ہے جو اسلام اور اسلامی اقدار کو عام کرنے کے لیے کوشاںہیں، جوبین المذاہب ہم آہنگی کے علَم بردار ہیں یا جومسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں۔ (ترجمہ: اویس احمد)۔ (بہ شکریہ سہ ماہی Insights، جلد۳، شمارہ۱، ۲۰۱۰ء، دعوہ اکیڈمی، اسلام آباد)
تحریک نہضت تیونس کے سربراہ الشیخ راشد الغنوشی دار الحکومت کے اہم میدان ’قصبہ‘ میں ملین مارچ سے خطاب کررہے تھے۔ جیسے ہی انھوں نے کہا کہ: ’’ہاں، اپوزیشن کو ہماری حکومت گرانے کا پورا حق حاصل ہے‘‘ تو چند لمحے کی حیرت کے بعد پورا مجمع نعروں سے گونج اُٹھا۔ شور تھما تو انھوں نے اپنا جملہ دہراتے ہوئے کہا: ’’ہاں، اپوزیشن کو ہماری حکومت گرانے کا پورا حق حاصل ہے لیکن دیکھو قرآن کیا فرماتا ہے۔ قرآن کہتا ہے: وَاْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ اَبْوَابِھَا (البقرہ ۲:۱۸۹) ’’گھروں میں ان کے دروازوں کے راستے آیا کرو‘‘۔ حکومت میں آنے کا دروازہ، انتخابات ہیں۔ ہم نے طویل جدوجہد اور لاتعداد قربانیوں کے بعد جابر ڈکٹیٹر سے نجات حاصل کی ۔ پھر انتخابات میں عوام نے ہم پر اظہار اعتماد کیا۔ اب بھی اگر کوئی تبدیلی چاہتا ہے، تو انتخابات ہی راستہ ہے۔ تیونسی عوام اب دوبارہ کسی مہم جو کو امن و آزادی کی یہ راہ کھوٹی نہیںکرنے دیں گے۔ مجمع ایک بار پھر پُرجوش نعروں سے گونج اٹھا۔
مصر میں جمہوریت پر فوجی ڈاکا زنی کے بعد اب تیونس میں بھی اپوزیشن کو ہلہ شیری دی جارہی ہے۔ عرب سرمایہ، مغربی سرپرستی میںسازشیں اور مار دھاڑ پر مبنی تحریک ایک ایسے وقت حکومت گرانے کی کوششیں کررہی ہے کہ جب ٹھیک دو سال قبل (۲۲؍ اکتوبر ۲۰۱۱ء) کو منتخب ہونے والی دستور ساز اسمبلی کی مدت ختم ہونے میں چند ماہ رہ گئے ہیں۔ یاد رہے کہ تیونسی عوام کو ۵۴سالہ ڈکٹیٹرشپ سے جنوری ۲۰۱۱ء میں نجات حاصل ہوئی تھی۔ اکتوبر ۲۰۱۱ء کو دستور ساز اسمبلی کے انتخابات میں اسلامی تحریک ’تحریک نہضت‘ سب سے بڑی پارٹی کی حیثیت سے منتخب ہوئی۔ اسے ۲۱۷ کے ایوان میں ۸۹ نشستیں حاصل ہوئیں۔ دوسرے نمبر پر آنے والی بائیں بازو کی پارٹی ’حزب المؤتمر‘ کو ۲۹، ایک تیسری پارٹی کو ۲۶ اور چوتھے نمبر پر آنے والی ’حزب التکتل‘ کو ۲۰ نشستیں ملیں۔ تحریک نہضت نے تنہا حکومت بنانے کے بجاے ایک قومی حکومت تشکیل دینے کی کوشش کی۔ اس میں کامیابی نہ ہونے پر بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے جلا وطن رہنما منصف المرزوقی کی ’حزب المؤتمر‘ اور چوتھے نمبر پر آنے والی پارٹی کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت تشکیل پائی۔ المرزوقی کو صدر مملکت اور التکتل کے سربراہ مصطفی بن جعفر کو اسپیکر بنادیا گیا۔ دستور ساز اسمبلی نے دستور وضع کرنا، اور حکومت نے کرپشن کے خاتمے اور عوامی مسائل حل کرنے کی کچھ نہ کچھ مساعی شروع کردیں۔ لیکن مصر کی طرح یہاں بھی اندرونی اور بیرونی خفیہ ہاتھوں نے مستقل اور مسلسل بحران کھڑے کیے۔ اب، جب کہ اسمبلی کی مدت میں تقریباً چھے ماہ کا عرصہ رہ گیا ہے، اور دستور کی ایک آدھ شق کے علاوہ باقی سب پر اتفاق راے ہوگیا ہے، اپوزیشن نے وہ تمام ہتھکنڈے آزمانا شروع کردیے ہیں، جن کا نتیجہ تباہی اور خوں ریزی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔
چند ماہ پہلے بائیں بازو کے ایک اپوزیشن لیڈر شکری بلعید کو قتل کرکے احتجاج کی آگ بھڑکا دی گئی۔ حکومت نے مذاکرات کیے۔ اپوزیشن کے مطالبات مانتے ہوئے اپنے وزیراعظم، وزراے داخلہ، خارجہ اور انصاف کو تبدیل کردیا۔ عوام کو اُمید ہوئی کہ بحران ختم ہوا، اب حکومت اصل کام پر توجہ دے سکے گی۔ آگ قدرے ٹھنڈی ہونے لگی تو ۲۵ جولائی کو ایک اور اپوزیشن لیڈر، رکن اسمبلی محمد البراہمی کو قتل کردیا گیا۔ ساتھ ہی تقریباً ۶۰؍ارکان پر مشتمل اپوزیشن نے اسمبلی کا بائیکاٹ کرتے ہوئے، اسمبلی کی عمارت کے باہر دھرنا دے دیا۔ ۲۱ سے ۲۴؍ اگست تک بھرپور عوامی احتجاج کی کال دی گئی۔ مطالبہ پھر یہی تھا کہ حکومت ختم کی جائے اور اسمبلی کالعدم قرار دی جائے۔ کچھ افرادملک کی انتظامی عدالت میں بھی چلے گئے کہ جس طرح مصر کی دستوری عدالت نے اسمبلی توڑی تھی، یہاں بھی توڑ دی جائے۔
تحریک نہضت اور حکومت نے صبر و حکمت سے کام لیتے ہوئے اپوزیشن کو پھر سے مذاکرات کی دعوت دی، اور یہ تجویز پیش کی کہ ملک میں جمہوریت کا سفر جاری رکھنے کے لیے اگراپوزیشن چاہے تواس کے مطالبات پرعوامی ریفرنڈم کروالیا جائے۔ لیکن بدقسمتی سے اپوزیشن نے انکار کردیا۔ شاید اس لیے کہ اسے عوام میں اپنی حیثیت بخوبی معلوم ہے؟ وہ چاہتی ہے کہ ریفرنڈم یا منصفانہ عام انتخابات کے بجاے مار دھاڑ، خون خرابے، ٹارگٹ کلنگ، نام نہاد عدالتوں، اندر و نی خفیہ ہاتھوں اور بیرونی آقاؤں کے سرمایے اور سرپرستی کے ذریعے منتخب حکومت ختم کردی جائے۔ پھر عبوری حکومت کے ذریعے اپنی مرضی کے انتخابات کروائے جائیں۔اس تناظر میں آیندہ چند ہفتے، تیونس کے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں بہت اہم کردار ادا کریں گے۔
اس نازک موڑ پر تحریک نہضت نے ایک بار پھر مذاکرات کا ڈول ڈالا۔ یہ تک تسلیم کرلیا کہ اگر حکومت گرانا ہی چاہتے ہو تو ہم خود حکومت چھوڑ دیتے ہیں۔ تمام پارٹیاں مل کر عبوری قومی حکومت تشکیل دے لیں، قومی الیکشن کمیشن تشکیل دے دیں اور فوری طور پر عام انتخابات کروالیں۔ حالیہ مذاکرات میں ایک طرف تحریک نہضت کی قیادت میں حکمران اتحاد ہے اور دوسری طرف مزدوروں اور حقوق انسانی کے نام پر قائم چار این جی اوز ہیں۔ بن علی کی باقیات اور بیرونی آقا انھی غیر سرکاری تنظیموں پر تکیہ کیے ہوئے ہیں۔ بدقسمتی سے ابھی تک ان عرب ممالک میں سیاسی جماعتیں مضبوط و منظم نہیں ہوسکیں۔ تیونس میں سیاسی جماعتیں بنانے کی آزادی دی جاچکی ہے لیکن سیاسی جماعتوں کی تشکیل مضحکہ خیز صورت اختیار کرچکی ہے۔ تقریباً اڑھائی سال کے عرصے میں ۱۴۰سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہوئیں۔ ان میں سے کوئی بھی حقیقی عوامی تائید نہیں رکھتی۔ میدان میں اگر کوئی حقیقی قوت باقی ہے، تو اللہ کی توفیق سے وہی اسلامی تحریکیں ہیں جنھیں نصف صدی تک کچلنے کی کوشش کی جاتی رہی۔ اپوزیشن نے مذاکرات کی میز پر تو حکومت سے اتفاق کرلیا۔ لیکن پھر اپنے اندرونی اختلافات کے باعث تاحال قومی حکومت اور قومی الیکشن کمیشن تشکیل نہیں دے سکیں۔ تحریک نہضت نے بھی اعلان کردیا ہے کہ حکومت ایک امانت ہے کسی اندرونی یا بیرونی دباؤ پر، مستقبل کا واضح نقشۂ کار طے کیے بغیر ملک کو مزید بحرانوں کا شکار نہیں ہونے دیں گے۔ ہاں، اگر امانت سنبھالنے کا متبادل انتظام ہوجائے، تو حکومت میں ایک دن زیادہ نہیں رہنا چاہیں گے۔
سازشی عناصر اب بھی باز نہیں آئے ،ایک بار پھر خوں ریزی کا سہارا لے رہے ہیں۔پہلے ایک چوکی پر حملہ کرکے چھے فوجی شہید کردیے گئے، پھر پولیس کے دو سپاہی شہید کردیے گئے۔ عیدالاضحی کے بعد قتل ہونے والے ان پولیس والوں کی نماز جنازہ ادا کرنے کے لیے صدر مملکت، وزیراعظم اورا سپیکر، یعنی حکومت کے تینوں ستون پولیس ہیڈ کوارٹر پہنچے، لیکن ان کے خلاف مسلسل ۲۰منٹ تک نعرہ بازی کرکے انھیں نماز جنازہ ادا کرنے سے روک دیا گیا۔ البتہ وزیر داخلہ نماز میں بھی شریک رہا اور تدفین میں بھی۔ واضح رہے کہ یہ وہی وزیر داخلہ ہیں جو شکری بلعید کے قتل کے بعد ہونے والے مظاہروں کے نتیجے میں لائے گئے تھے( نہ جانے اکثر مسلمان ممالک میں وزراے داخلہ پر ایک بڑا سوالیہ نشان کیوں لگ جاتا ہے) ۔ ماحول میں ابھی ان دو سپاہیوں اور اس کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کی حدت باقی تھی، اسی دوران حکومت اپوزیشن مذاکرات بھی چل رہے تھے، ۲۳ اکتوبر کی شام وزیراعظم علی العریض ان مذاکرات کے نتائج کا اعلان کرنے کے لیے پریس کانفرنس کرنے والے تھے کہ ہر طرف بریکنگ نیوز چلنے لگی: ’سیدی بوزید‘ میں چھے مزید پولیس والے قتل کردیے گئے۔ ’سیدی بوزید‘ ہی وہ قصبہ ہے جہاں بوعزیزی نامی نوجوان پر پولیس تشدد کے خلاف احتجاج ہوا، جو بعدازاں پوری عرب بہار کا نقطۂ آغاز بن گیا تھا۔یہ سب قتل و غارت تحریکِ نہضت کی حکومت کو ناکام بنانے اور گرانے کے لیے کی جارہی ہے۔ قاتلوں نے ثابت کرنا ہے کہ اسلامی تحریک ناکام ہوگئی ہے۔حکومت چلانا اس کے بس کی بات نہیں۔
لطف کی بات یہ ہے کہ صدر مرسی ہوں یا تیونسی حکومت، دونوں پر کسی طرح کے جرم کا الزام نہیں ہے۔ دونوں جمہوریت کا دوام و استحکام چاہتے ہیں۔ دونوں نے ملک میں کرپشن کے خاتمے اور تعمیروترقی کا آغاز کیا۔ دونوں نے خواتین اور اقلیتوں کو ان کا اعلیٰ مقام عطا کیا۔ تیونس میں تو ۴۹خواتین ارکانِ پارلیمنٹ میں سے ۴۳ کا تعلق تحریکِ نہضت سے ہے۔ دونوں نے ترجیحات کا درست تعین کرتے ہوئے جبروتشدد پر مشتمل پالیسیاں اپنانے کے بجاے اصلاح و سدھار کے دُور رس اقدامات پر توجہ دی۔ ایسا دستور اور قوانین وضع کیے کہ جن پر عمل درآمد ازخود ملک و قوم کو خوش حالی اور دوجہاں کی کامیابی سے ہم کنار کردیتا۔ اب یہی اخلاص و عمل ان کا قصور ثابت کیا جا رہا ہے۔ خود قتل و غارت اور فتنہ و فساد کے مرتکب ان پر ناکام و مفلوج ہونے کا الزام تھونپ رہے ہیں۔
مصر ہو یا تیونس، لیکن مخالفین کے یہ اوچھے ہتھکنڈے انھی پر اُلٹ رہے ہیں۔ مصر میں بھی تمام تر سروے رپورٹس بتا رہی ہیں کہ حکومت کے خاتمے کے بعد اخوان کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ مغربی اور صہیونی اخبارات تک بھی اعتراف کررہے ہیں کہ فوجی انقلاب ناکام ہوگیا۔ ہزاروں بے گناہ قتل کردیے جانے کے باوجود فوج مخالف مظاہرین کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ خونی جنرل سیسی کا تشخص سنوارنے اور اس کا اقتدار بچانے کے لیے ابلاغیاتی جنگ عروج پر ہے۔ جنرل سیسی کو صدارتی اُمیدوار بنانے کی مہم شروع کردی گئی ہے۔ نعرہ لگایا جارہا ہے: کَمِّلْ جَمِیْلَکَ، ’’اپنی حسن کارکردگی مکمل کیجیے‘‘، گویا شہریوں کا قتل کوئی احسان ہے۔ لیکن عوام نے اپنے لہجے میں جواب دیا ہے: اَلسَّیسِی بَیُہِیِّسْ، عَایِزْ یَبْقٰی رَیِّسْ،’’ سیسی پاگل پن کا شکار ہوگیا، صدر بننے کا خواب دیکھ رہا ہے‘‘۔ عوام ہی نہیں بیرونی دنیا سے بھی صدر مرسی کی تائید کے نئے زاویے سامنے آرہے ہیں۔ برازیل کی خاتون صدر ڈیلما روزیف نے انکشاف کیا ہے کہ مصر اور برازیل کے مابین ایسے کئی اہم ترین معاہدے طے پاچکے تھے کہ جن سے دونوں ملک اور ان کے عوام بے پناہ فوائد حاصل کرسکتے تھے۔ مصر اور برازیل ترکی کے تعاون سے کئی بڑے زرعی اور صنعتی منصوبوں کا آغاز کرنے والے تھے جن میں جدید ترین طیارے اور متوسط طبقے کے لیے گاڑیاں بنانے کے منصوبے بھی شامل تھے۔ یہی وجہ ہے کہ برازیل آج بھی صدر مرسی ہی کو مصر کا اصل اور حقیقی سربراہ قرار دیتا ہے۔ اس نے ۲۰۱۴ء میں برازیل میں ہونے والے فٹ بال ورلڈکپ کا افتتاح کرنے کی دعوت بھی حال ہی میں صدر محمد مرسی کے نام بھیجی ہے، جنرل سیسی یا اس کے کسی گماشتے کے نام نہیں۔
مصر میں فوجی انقلاب کا سامنا کرنے والی فقید المثال عوامی تحریک نے تیونس میں تبدیلی کی خواہاں طاقتوں کو بھی پریشان کردیا ہے۔ اس لیے بظاہر یہ لگتا ہے کہ وہ وہاں فی الحال مصر جیسے کسی ایسے فوجی انقلاب کا خطرہ مول نہیں لیں گی، جسے عوام مسترد کردیں اور تیونس بھی مصر کی طرح مسلسل انتشار کا شکار ہوجائے۔ تیونس میں کسی انتشار اور اسلامی تحریک کی قیادت میں عوامی احتجاجی تحریک سے یورپ بھی خوف زدہ ہے ۔کیونکہ بحیرۂ روم کے دوسرے کنارے پر واقع تمام یورپی ممالک، شمال مغربی افریقہ میں پیدا ہونے والی اضطراب کی ہر لہر سے براہِ راست متاثر ہوتے ہیں۔
یہاں یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ اگرچہ تیونس کی ڈکٹیٹر شپ مصری فرعونوں سے بھی بدتر تھی، لیکن وہاں کے عوام اور فوج مصری عوام اور فوج سے قدرے مختلف ہے۔ مصر میں ہمیشہ فوج ہی برسر اقتدار رہی ہے، جب کہ تیونس میں فوج نے کبھی بھی اقتدار نہیں سنبھالا۔ مصری عوام میں تعلیم کا تناسب ۷۱فی صد ہے اور ان میں سختی کا رجحان نسبتاً زیادہ پایا جاتا ہے۔ تیونس میں تعلیم کا تناسب ۸۱فی صد ہے اور عوام مجموعی طور پر مہذب اور شائستہ ہیں۔ مصر اور تیونس میں ایک اہم بنیادی فرق ان کا جغرافیائی محل وقوع بھی ہے۔ سرزمین فلسطین پر قابض صہیونی ریاست کا پڑوسی ہونا کسی خوفناک عذاب سے کم نہیں ہے۔ ناجائز صہیونی ریاست کے بانیوں نے اپنی خارجہ اور دفاعی پالیسی کی بنیاد ہی پڑوسی ممالک کو اپنا دست نگر اور کمزور رکھنا قرار دیا تھا۔ مشرق وسطیٰ کے کسی بھی ملک کا مستحکم اور مضبوط ہونا صہیونی ریاست میںخطرات کی گھنٹیاں بجا دیتا ہے۔
جنرل سیسی کے بدترین خونی انقلاب پر بغلیں بجانے والے صہیونی ذمہ داران، اخوان کی کامیابی کے پہلے روز ہی سے یہ جان چکے تھے کہ یہ بے نفس لوگ مصر کو ایک ناقابل شکست فلاحی ریاست بنادیں گے۔ اس لیے انھوں نے کئی ممالک کے ساتھ مل کر مصر سے جمہوریت کے خاتمے کی جدوجہد شروع کردی۔لیکن مصر میں جاری شان دار عوامی تحریک کے بعد، اسلام مخالف عناصر دوہری پریشانی کا شکار ہوگئے ہیں۔ اگراسلامی تحریکیں برسرِ اقتدار رہتی ہیں تو اس سے مسلم ممالک بھی مضبوط و مستحکم ہوتے ہیں اور اسلامی تحریکیں بھی۔ اور اگر عوام کی منتخب کردہ حکومتیں گرانے کے لیے مصر والا راستہ اختیار کرتے ہیں تو یہ کارگر ثابت نہیں ہورہا۔ اسلام مخالف عناصر کے لیے مثالی صورت حال تو مصر جیسا خونی فوجی انقلاب ،یا بشار جیسے درندے کے ہاتھوں ملک و قوم کی تباہی و بربادی ہی ہے، لیکن وہ ان تمام ہتھکنڈوں کے کڑوے پھل چکھ کر بدمزا بھی ہوچکے ہیں۔ یہ سازشی عناصر اپنی فتنہ جوئی تو کرتے ہی رہیں گے، لیکن حقائق کو بھی نظر انداز نہیں کرسکیں گے۔
عین ممکن ہے کہ تیونس میں تحریک نہضت کی حکومت آیندہ چند ہفتوں میں ختم ہوجائے ، لیکن بالآخروہاں بھی انتخابات ہونا ہیں۔ منصفانہ انتخابات جب بھی ہوئے وہاں ایک مستحکم اور خداخوف حکومت قائم ہونے کے امکانات روشن تر ہوں گے ان شاء اللہ۔ آیئے معروف امریکی دانش ور نوم چومسکی کے الفاظ بھی پڑھ لیجیے، انھوں نے یہ گفتگو امریکا کی کیلے فورنیا یونی ورسٹی میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کی: ’’اب تمام تر حالات و واقعات کا رخ ایک ہی جانب ہے اور وہ ہے مصر میں ایک جائز اور منتخب حکومت کی واپسی۔صدر مرسی کی واپسی ایک طے شدہ حقیقت ہے۔ اب تمام تر کوششوں اور مذاکرات کا اصل محور یہ ہے کہ قتل عام کرنے والے جرنیلوں میں سے کس کس کو اور کیسے بچایا جاسکتا ہے۔ مجھے میرے ذمہ دار امریکی دوست طعنہ دیتے ہیں کہ تم مرسی کو پسند کرتے ہو۔ میں جواب دیتا ہوں، ہاں میں ایک منتخب صدر کو پسند کرتا ہوں جس کے دامن پر کرپشن کا کوئی ادنیٰ سا داغ بھی نہیں۔ میں اخوانی نہیں ہوں بلکہ میں تو مسلمان بھی نہیں ہوں لیکن مجھے ان لوگوں سے نفرت ہے جن کے قول و فعل میں تضاد ہو۔ مجھے جنرل سیسی کے حامی اور معروف مصری صحافی حسنین ہیکل کا فون آیا کہ میں کس طرح اتنے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ صدرمرسی واپس آئیں گے؟ میں نے کہا کہ اخوان کو وزارت عظمیٰ تک کی پیش کش تو آپ لوگ اب بھی کررہے ہیں، جسے وہ مسترد کرتے ہوئے میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ پھر اس کے بعد کون سا عہدہ رہ جاتا ہے؟ میری نظر میں اس وقت مصر میں صدارت کا عہدہ خالی ہے اور ایک حقیقی منتخب صدر کی واپسی تک خالی رہے گا، خواہ فوج ہزاروں نہیں لاکھوں شہریوں کو بھی قتل کرڈالے۔ میں اس سے پہلے بھی کئی اُمور کے بارے میں اپنی راے دے چکا ہوں ، جو الحمدللہ درست ثابت ہوئی ۔ اب میںاسی ہال میں کہ جس میں صدر مرسی خود پڑھاتے رہے ہیں، کہہ رہا ہوں کہ مصری صدر محمدمرسی ایک لیڈر کی حیثیت سے واپس آئے گا اور مصر پہلے سے زیادہ مضبوط اور طاقت ور ملک کی حیثیت سے اُبھرے گا۔ ۱۰کروڑ آبادی کا ملک بچانے کے لیے، رابعہ میدان میں دی جانے والی اخوان کی قربانیاں، عوام کی طرف سے اداکی جانے والی آزادی کی قیمت ہے۔ عوام کی یہ تحریک بہرصورت کامیاب ہوگی اور اگر میری یہ بات غلط ثابت ہوئی توآپ مجھ سے میری اس بات کا حساب لے سکتے ہیں‘‘۔
مصر کے بارے میں، امریکی دانش ور کا تازہ خطاب پڑھتے ہوئے جرأت مند اور انصاف پسند تحریک نہضت کا ترانہ پوری قوت سے کانوں میں گونج رہا ہے، کہ جسے سب کارکنان بآواز بلند پڑھتے ہیں تو ہوائیں اور فضائیں بھی دم سادھ کر ہمہ تن گوش ہوجاتی ہیں:
فِی حِمَاکَ رَبَّنَا
فِیْ سَبِیْلِ دِیْنِنَا
لَا یَروعُنَا الْفَنَا
فَــتَوَلَّ نَـــصْرَنَا
وَاھْدِنَا اِلَی السَّنَنْ
تیری پناہ میں اے ہمارے پروردگار،تیرے دین کی خاطر نکلے ہیں۔ ہمیں فنا کا کوئی خوف نہیں، تو ہماری نصرت کا ذمہ لے لے۔ ہمیں راہ( فتوحات) دکھا۔
سوال: آج کل پلاٹوں یا مکانات کا کاروبار یا خرید وفروخت مختلف مقاصد کے لیے عروج پر ہے۔ لوگ اپنی سرمایہ کاری کے لیے پلاٹ یا مکان تجارت کی غرض سے خریدتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب رقم کی ضرورت ہوگی یا بھائو بڑھے گا تو پلاٹ یا مکان فروخت کردیں گے۔ اس طرح بروقت رقم مہیا ہوجائے گی۔
عام طور پر پلاٹ خریدنے کے کئی مقاصد ہوسکتے ہیں:
۲- زکوٰۃ بروقت ادا کردہ رقم پر ہوگی یا موجودہ مارکیٹ ریٹ پر ہوگی؟
۳- رقم کی ادایگی کئی قسطوں اورسالوں تک چلتی رہتی ہے۔ اس صورت میں زکوٰۃ صرف ادا کردہ رقم پر ہوگی یا بیع میں طے شدہ رقم پر ہوگی؟
۴- لوگ ادایگی زکوٰۃ سے بچنے کے لیے مختلف حیلے کرتے ہیں، جیسے کسی کے پاس چاندی اور سونے کے زیور ہیں تو ان میں سے ایک چیز اپنے صغیر بیٹے کے نام پر کردی اور دوسری اہلیہ کے نام پر رہنے دی۔ کیا اس شخص سے زکوٰۃ ساقط ہوجائے گی؟
۵- کسی کے پاس غیرملکی کرنسی ہے تو اس کی زکوٰۃ کیسے اور کس صورت میں ادا ہوگی؟
۶- بعض لوگ مکان خرید کر، پھر کرایے پر دیتے ہیں۔ کیا اس خرید کی ہوئی کُل پونجی پر یا کرایے کے لیے دی ہوئی رقم پر زکوٰۃ ہوگی؟
۷- پلاٹ یا پراپرٹی خریدنے کے وقت جو رقم طے ہوتی ہے اسے عام طور پر قرض سمجھا جاتا ہے۔ کیا اس مکان یا پلاٹ کی کُل رقم سے وہ قرض منہا کیا جائے گا یا جو رقم ادا کی گئی ہے صرف اس پر زکوٰۃ ہوگی؟
جواب: مال دار کو اللہ تعالیٰ نے جو مال دیا ہے اس میں زکوٰۃ کا مال بھی شامل ہوتا ہے، جو اللہ تعالیٰ فقرا اور مساکین اور مستحقین زکوٰۃ کو براہِ راست دینے کے بجاے مال داروں کے ذریعے دیتا ہے۔اس سے مال داروں کا امتحان مقصود ہے کہ وہ اللہ کا حق ادا کرتے ہیں یا نہیں۔ حق داروں کو حق ادا کرنے والوں کو آخرت میں اجر عطا فرماتے ہیں اور دنیا میں فقرا و مساکین اور مستحقینِ زکوٰۃ کا محبوب بناتے ہیں۔ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو اپنا محبوب بھی بناتے ہیں اور اہلِ ایمان اور خلقِ خدا کا بھی محبوب بنا دیتے ہیں، اور جو شخص مالِ زکوٰۃ ادا نہ کرے گا اور مستحقین کا حق ہڑپ کرے گا وہ دنیا اور آخرت دونوں میں ذلیل و خوار ہوگا۔ زکوٰۃ ادا کرنے سے مال پاک و صاف ہوتا ہے، زکوٰۃ دینے والے کے ایمان میں اضافہ اور برکت اور زندگی میں تزکیہ پیدا ہوتا ہے اور زکوٰۃ ادا نہ کرنے والے کا مال ناپاک اور اس کے اندر بخل کی بیماری پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ مال کی محبت میں اللہ اور اس کے رسولؐ اور دین کی محبت سے محروم ہوجاتا ہے اور پیسے گننے اور گن گن کر جمع کرنے میں مشغول رہتا ہے۔ پریشانی اور غم کی زندگی بسر کرتا ہے اور نیکیوں سے محروم رہتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آدمیوں کو قابلِ رشک قرار دیا ہے۔ ایک وہ جسے اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہو، پھر اسے نیکی کے کاموں میں صرف کرنے پر لگا دیا ہو، اور دوسرا وہ جسے قرآن و سنت کا علم دیا ہو اوروہ اس پر عمل کرتا ہو اور اس کی تعلیم دیتا ہو (بخاری)۔ آپؐ نے یہ بھی فرمایا: سخی اللہ کے قریب ہے، جنت کے قریب ہے، لوگوں کے قریب ہے، دوزخ سے دُور ہے، بخیل اللہ سے دُور ہے، جنت سے دُور ہے، لوگوں سے دُور ہے، آگ کے قریب ہے(ترمذی)۔ نیز فرمایا: دو خصلتیں مومن میں جمع نہیں ہوتیں: بخل اور بدخلقی(ترمذی)۔ایک اور روایت میں ہے : جنت میں چغل خور، فسادی اور بخیل اور احسان جتانے والے داخل نہ ہوں گے۔(ترمذی)
اس طرح زکوٰۃ نہ دینے والے کا مال قیامت کے روز اس پر وبال ہوگا۔ سوناچاندی اس کے گلے میں ہار بناکر سانپ کی شکل میں ڈالا جائے گا۔ وہ اسے دونوں باچھوں سے کاٹے گا اور کہے گا: انا مالک انا کنزک’’میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں‘‘۔ گائے، اُونٹ، بیل،بھینسا اور بکرے اور دنبوں کی زکوٰۃ نہ دی تو وہ اس کی گردن پر سوار ہوں گے اور اسے پائوں تلے روندیں گے۔ اگر کوئی شخص اپنے پلاٹوں کی زکوٰۃ نہ دے گا تو وہ پلاٹ اس کی گردن کا ہار بنیں گے اور وہ ان میں نیچے تک دھنستا چلا جائے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کسی کی زمین بالشت بھر بھی غصب کرے گا، سات زمینیں اس کی گردن کا طوق بنا دی جائیں گی۔ جو شخص پلاٹ کی زکوٰۃ نہیں دیتا وہ فقیر کے حصے کو غصب کرتا ہے تو یہ حصہ اس کی گردن کا طوق ہوگا اور اس کے ساتھ سات زمینیں اس کی گردن کا طوق بنیں گی۔ تب یہ کس قدر گھاٹے کا کام ہے، لہٰذا حیلوں بہانوں سے زکوٰۃ سے جان چھڑانا منافقانہ طرزِعمل ہے۔ اس سے جس قدر جلد ی توبہ کی جائے اسی قدر بہتر ہے۔
اب سوالات کے ترتیب وار جواب درج ہیں:
۱- جو پلاٹ سرمایہ کاری کے لیے خریدا جائے، خریدنے سے پہلے اس رقم کی زکوٰۃ ادا نہ کی ہو تو اس کی زکوٰۃ ادا کی جائے۔ پھر جب تک وہ فروخت نہیں ہوتا اس وقت تک سال بہ سال اس کی مارکیٹ ریٹ کے مطابق قیمت لگاکر اس کی زکوٰۃ ادا کی جائے۔ کیونکہ یہ مالِ تجارت ہے اور مالِ تجارت کی زکوٰۃ اسی طرح ادا کی جاتی ہے۔
۲- ذاتی مکان بنانے کے لیے پلاٹ خریدا جائے یا اپنی اولاد کے مکان کے لیے خریدا جائے تو ایسی صورت میں اس پر زکوٰۃ نہیں ہے کیونکہ یہ مالِ تجارت نہیں ہے۔
۳- کسی رفاہی کام کے لیے پلاٹ خریدا جائے، جیسے ہسپتال، اسکول، مدرسہ، مسجد، مسافرخانہ، فراہمی آب، یتیم خانہ یا معذور افراد کے لیے پلاٹ یا مکان خریدا جائے تو اس پر بھی زکوٰۃ نہیں ہے کیونکہ پلاٹ یا مکان تجارتی مقاصد کے لیے نہیں ہے۔
۴- زمین جو تجارتی مقاصد کے لیے ہو جب فروخت کی جائے تو اس وقت اس پر زکوٰۃ قیمت ِفروخت پر ہوگی صرف منافع پر نہیں۔ اسی طرح سال بہ سال اس کی قیمت لگاکر ہرسال اس کی زکوٰۃ ادا کی جائے گی جیسے کہ اس سے پہلے سوال نمبر ایک کے جواب میں بھی ذکر کیا گیا ہے۔
۵- زکوٰۃ منافع پر نہیں اس پوری قیمت پر ہوگی جو موجودہ مارکیٹ ریٹ کے مطابق ہو۔
۶- جب سودا ہوجاتا ہے تو پلاٹ یا مکان خریدار کے قبضے میں آجاتا ہے۔ زکوٰۃ ادا کرتے وقت مارکیٹ ریٹ کے مطابق رقم لگائی جائے گی اور جتنی رقم کی ادایگی باقی ہے وہ خریدار کے ذمے قرض ہے۔ اس کی کُل رقم سے منہا کر کے باقی رقم کی زکوٰۃ ادا کی جائے گی۔
۷- سقوطِ زکوٰۃ کے لیے حیلہ کیا جائے۔ سونے اور چاندی کے زیور میں کوئی بیٹے اور کوئی بیوی کے نام کردیا جائے۔ اگر حقیقتاً ملکیت تبدیل کردی اور دوبارہ اپنی ملک میں لانا پیش نظر نہیں ہے تو پھر زکوٰۃ ساقط ہوجائے گی۔ اگر محض دکھاوے کے لیے ایسا کیا گیا ہے، ملکیت تبدیل کرنا پیش نظر نہیں ہے تو پھر دنیا والوں کے نزدیک بے شک زکوٰۃ ساقط ہوجائے مگر عنداللہ زکوٰۃ ساقط نہ ہوگی اور زکوٰۃ ادا نہ کرنے کی وعید ایسے شخص کو بھی اپنی گرفت میں لے لے گی۔
۸- غیرملکی کرنسی کی زکوٰۃ غیرملکی کرنسی کی صورت میں بھی دی جاسکتی ہے کہ اس کا اڑھائی فی صد زکوٰۃ میں دے دے یا اس کی پاکستانی کرنسی میں مارکیٹ ریٹ لگاکر پاکستانی روپیہ میں اڑھائی فی صد زکوٰۃ دے دی جائے۔
۹- مکان خرید کر کرایے پر دیا جائے تو اس پر زکوٰۃ نہیں ہے بلکہ کرایے سے جو آمدن ہوتی ہے، سال بعد اسے نقد رقم جو آدمی کے پاس ہو اس میں شامل کر کے تمام رقم کی زکوٰۃ ادا کرنا ہوگی۔ کرایے کا مکان ذریعۂ پیداوار ہے اور ذرائع پیداوار پر زکوٰۃ نہیں ہے اِلا یہ کہ مالِ تجارت کے طور پر رکھا گیا ہو۔
۱۰- پراپرٹی خریدتے وقت جو رقم طے ہوئی ہے اس کے عوض خریدار پلاٹ کا مالک ہوگیا۔ اگر وہ پلاٹ کاروبار کے لیے ہے تو اس پورے پلاٹ کی مارکیٹ ریٹ کی قیمت پرزکوٰۃ عائد ہوگی اور جو رقم خریدار کے ذمے باقی ہے وہ اس میں سے منہا کردی جائے گی۔واللّٰہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)
اُردو زبان میں قرآنِ مجید کے جزوی تراجم دسویں صدی ہجری میں شروع ہوئے۔ چند سورتوں اور چند پاروں کے اُردو ترجمے کا سلسلہ ۱۷۹۰ء میں شاہ عبدالقادر دہلوی کے مکمل اُردو ترجمے موضح قرآن کی صورت اختیار کرگیا۔ اس کے بعد اُردو میں تقریباً ۴۰۰ تراجم ہوچکے ہیں۔
زیرنظر کتاب میں قرآنِ مجید کے آٹھ منتخب اُردو تراجم کے پارہ عم کی چند منتخب سورتوں کا تقابلی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ ان آٹھ تراجم و تفاسیر میں درج ذیل مترجمین و مفسرین کے تراجم دیے گئے ہیں: مولانا محمود حسن دیوبندی (۱۹۲۰ء)، مولانا احمد رضا خان بریلوی (۱۹۲۱ء)، مولانا ثناء اللہ امرتسری (۱۹۴۸ء)، مولانا عبدالماجد دریابادی (۱۹۷۷ء)، مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی (۱۹۷۹ء)، مولانا امین احسن اصلاحی (۱۹۹۷ء)، مولانا پیرمحمد کرم شاہ الازہری (۱۹۹۸ء)، مولانا ابومنصور (۱۹۹۹ء)۔
قرآنی تراجم کے تقابلی مطالعے میں معنویت، لُغویت، ادبیت اور تفسیری نکات کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ تیسویں پارے کی ۱۰منتخب آیات معنویت کے لحاظ سے تقابلی مطالعے کے لیے لی گئی ہیں۔ اسی طرح لُغویت کے لحاظ سے تقابل کی خاطر ۱۲ آیات لی گئی ہیں اور ادبیت کے نقطۂ نظر سے سات آیات کا تقابلی مطالعہ کیا گیا ہے۔ ایک آیت کا متن دے کر آٹھ مترجمین کا اُردو ترجمہ دیا گیا ہے۔ صرفی نحوی اور لغوی معانی کی بحث کے بعد آٹھوں تراجم میں بعض الفاظ پر بحث کے بعد ایک یا ایک سے زائد اُردو تراجم کی فوقیت بیان کی گئی ہے۔ مصنف نے اپنی تحقیق اور تنقیدی تجزیاتی راے پیش کرنے میں کسی مسلکی تنگ نظری کا ثبوت نہیں دیا۔ سورۃ الاعلیٰ کی آیت ۶ سَنُقْرِئُکَ فَلَاتَنْسٰٓی میں سَنُقْرِئُکَ کے اُردو ترجمے پر بحث ہوئی ہے۔ بعض مترجمین نے اس کا ترجمہ ’’ہم آپ کو پڑھائیں گے‘‘ کیا ہے۔ بعض نے تو ’تمھیں‘ تم کا لفظ ترجمے میں استعمال کیا ہے۔ مصنف نے لکھا ہے کہ ’آپ‘ اور ’تو‘، ’تم اور تمھیں‘ میں فرق ہے۔ بعض مترجمین نے ترجمے میں پڑھا دیا کریں گے (عبدالماجد دریابادی) ’ہم پڑھوا دیں گے تجھ کو‘ (سید مودودی) لکھا ہے۔ مصنف کی راے میں پیرمحمد کرم شاہ کا ترجمہ ’’ہم آپ کو پڑھائیں گے، پس آپ (اسے) نہ بھولیں گے‘‘ مقابلتاً بہتر ہے۔
اس تقابلی مطالعے سے خواہش اور کوشش یہ ہے کہ قرآنِ مجید کا بہتر سے بہتر ترجمہ ہوتا رہے۔ اس سے بہتر فہم حاصل ہوگا اور عملِ صالح بھی بہتر ہوگا۔ یہی ہدایت کا منشا ہے۔ مصنف کی یہ کاوش ان کی قرآنِ مجید سے غایت درجے کی محبت کی دلیل ہے۔ البتہ ہم چند اُمور کی طرف توجہ دلانا ضروری سمجھتے ہیں۔ مصنف نے مترجمین کے تعارف میں ۹۲ صفحات صرف کیے ہیں۔ ان میں متعدد مقامات پر بہت سی اغلاط ہیں۔ سب جگہ محمدعلی جوہر کا سنہ وفات ۱۹۳۱ء کے بجاے ۱۹۳۰ء لکھا گیا ہے (ص ۴۸، ۸۸)۔ اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اسلام آباد کے سابق ڈائرکٹر ظفرالحق انصاری نہیں (ص ۱۰۰) بلکہ ڈاکٹر ظفراسحاق انصاری ہیں۔ سیدمودودی نے مولانا عبدالسلام نیازی سے تعلیم ان کے گھر حاضر ہوکر حاصل کی نہ کہ مدرسہ عالیہ عربیہ فتح پوری دہلی میں وغیرہ۔
تقابلی مطالعے میں مصنف کا اسلوبِ بیان علمی اور تنقیدی ہے۔اس تحقیقی مقالے میں مترجمین کے سوانحی کوائف اور سنین کی اتنی غلطیوں کا راہ پاجانا تعجب انگیز ہے۔ (ظفرحجازی)
’دعوتِ دین‘ اور ’مخالفت ِ اعدا‘ لازم و ملزوم ہیں۔ انبیا ؑ کی تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی کسی رسول ؑاور نبی ؑ نے اللہ کے حکم پر اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کے دین سے متعارف کرانے کا آغاز کیا تو قوم کی اکثریت نے رسولؐ کی بات کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اس ذمہ داری کی انجام دہی پر بعض انبیا کو قتل بھی کردیا گیا اور بہت سے اپنی ہی قوموں کے ظلم و تشدد سے دوچار ہوتے رہے۔
دعوتِ نبویؐ اور مخالفتِ قریش کے عنوان سے مصنف نے موضوع کے دونوں پہلوئوں ’دعوت‘ اور ’مخالفت‘ کی نوعیت، اسباب، احوال اور تاریخ کو جامع انداز میں مرتب کیا ہے۔ اس موضوع پر مربوط مطالعے کی ضرورت و اہمیت کو بیان کرتے ہوئے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ مخالفت قریش کو سیرت نگاروں نے باقاعدہ موضوعِ مطالعہ نہیں بنایا۔ لہٰذا یہ مطالعہ سیرت النبیؐ کے ایک ایسے باب کے طور پر پیش کیا گیا ہے جس کا بیان سیرت کی پوری تاریخ پر غالب دکھائی دیتا ہے۔
مخالفت و عداوت قریش کا یہ دور اور عہد تاریخی طور پر دو مراحل پر مشتمل ہے۔ پہلے مرحلے کا آغاز بعثت ِ رسولؐ سے ہوتا ہے اور ہجرت مدینہ سے پہلے تک پوری شدت سے جاری رہتا ہے، یعنی عہدنبوت کا ابتدائی ۱۳سالہ مکی عہد (۶۱۰ء تا ۶۲۲ء) اس میں شامل ہے۔ سیرت نگاروں نے اس دورِ مخالفت کو زیادہ تفصیل سے بیان کیا ہے۔ (ص ۹)
مخالفت ِ قریش کا دوسرا دور ہجرتِ مدینہ کے فوراً بعد شروع ہوا اور فتح مکہ پر اختتام کو پہنچا۔ یہ پہلی تا ۸ہجری، یعنی آٹھ برس (۶۲۲ء تا ۶۳۰ء) پر محیط ہے۔ یہ دور عہدِ ماقبل سے زیادہ اہم ہے مگر کتب ِ سیرت میں اسے پہلے دور کی طرح اہمیت نہیں دی گئی اور اس کے بیان کو اس زاویے سے نہیں لیاگیا جس سے مخالفت و عداوت کی تاریخ کو بیان کرنے کی ضرورت تھی۔(ص۱۰)
مصنف کے بقول نام وَر سیرت نگاروں میں سے بیش تر نے مخالفت قریش پر بحث نہیں کی البتہ چند بڑے مصنفین کی کتب میں اس موضوع پر تفصیلی اظہار خیال ملتا ہے۔ مولانا شبلی نعمانی پہلے مصنف ہیں جنھوں نے مخالفت ِ قریش کے اسباب کو بطور عنوان لکھ کر ان پر بحث کی ہے۔ (ص ۱۲)
فتح مکہ کا پہلا واضح اور قطعی نتیجہ یہ نکلا کہ آغازِ رسالت اور اجراے تبلیغ سے لے کر فتح مکہ تک کی تقریباً ۲۱سالہ مخالفت و عداوت قریش کی تاریخ اپنے انجام کو پہنچی (ص ۳۶۵)۔ یہ کتاب دعوتِ نبویؐ اور مخالفت ِ قریش پر ایک مربوط، جان دار اورتحقیقی مطالعہ ہے۔ چھے ابواب میں موضوع کا احاطہ کرنا مصنف کے وسعت مطالعہ کا غماز ہے۔ ابواب کے حواشی بھی کم و بیش ابواب کی ضخامت کے برابر صفحات پر محیط ہیں۔ طویل حواشی اگر کسی طرح متنِ کتاب کا حصہ بن جاتے تو بہت مفید ہوتا۔ اسلوبِ بیان رواں دواں ہے مگر کہیں کہیں مرکبات کے استعمال میں تکلف محسوس ہوتا ہے۔ کتاب اگر مزید بڑے پوائنٹ میں اور بڑی تقطیع پر شائع ہو، پروف خوانی پر مزید توجہ دی جائے تو بہتر ہوگا۔ بہرحال یہ ٹھوس مطالعہ ایک ایسے موضوع پر پیش کیا گیا ہے جس کا دعوتِ دین اور تحریکِ اقامت ِ دین کے کارکنان سے گہرا تعلق ہے۔ مصنف نے آغازِ کتاب میں اپنے مطالعے کی ضرورت و افادیت کے ضمن میں جس راے کا اظہار کیا ہے وہ بہت حد تک درست ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ متقدم سیرت نگاروں کے پیش نظر موضوع کا الگ الگ مطالعہ نہیں تھا بلکہ وہ سوانح نگاری کی طرز پر سیرت کے پہلوئوں کو واضح کرتے رہے۔(ارشاد الرحمٰن)
ممتاز ماہر لسانیات، پروفیسر ڈاکٹر سید وقار احمد رضوی جامعہ کراچی سے نصف صدی کے عرصے کی وابستگی کے بعد اب تصنیف و تالیف کے میدان میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا رہے ہیں۔ ان کی تازہ تصنیف تاریخ ادب عربی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ عربی ادب کی تاریخ کسی بھی زبان کی تاریخ کی طرح، ایک بحر ناپیدا کنار ہے، جسے پانچ چھے سو صفحات میں سمیٹا نہیں جاسکتا۔ بنیادی طور پر مصنف نے یہ کتاب عربی ادب کے طلبہ کے استفادے کے لیے لکھی ہے جس کا مقصد عربی ادب کے متنوع موضوعات سے طلبہ کو روشناس کرانا ہے۔ بقول مصنف: ’’برعظیم پاک و ہند میں تاریخ ادبِ عربی پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔ حالانکہ سبع معلقات، متبنی، مقاماتِ حریری، درس نظامی میں پڑھائی جاتی رہی ہیں۔ جدید دانش گاہوں اور جامعات میں بھی عربی ادب پڑھایا جاتا ہے مگر اس پر مواد شاذونادر دستیاب رہا۔ عبدالرحمن طاہرسورتی کی کتاب تاریخ ادبِ عربی، احمد حسن زیات کی کتاب تاریخ آداب للغۃ العربیۃ کا اُردو ترجمہ ہے جو ۱۹۶۵ء کا ہے۔ ڈاکٹرعبدالحلیم ندوی کی کتاب عربی ادب کی تاریخ ۱۹۷۸ء میں چھپی۔ ان دونوں کتابوں سے پہلے ڈاکٹر زبیداحمد نے اپنی کتاب ادب العرب ۱۹۲۶ء میں لکھی جو ایک مفید کتاب ہے لیکن انھوں نے اپنی کتاب میں عربی اشعار اور عربی نثرپاروں کے اُردو تراجم نہیں دیے اور نہ اعراب لگائے، جب کہ مَیں نے اپنی اس کتاب میں عربی اشعار اور عربی نثرپاروں کے اُردو تراجم و معانی دیے ہیں جو مَیں نے خود کیے ہیں اور اشعار پر اعراب بھی لگائے ہیں‘‘۔(ص ۲۶-۲۷)
ڈاکٹر صاحب اس گراں قدر علمی خدمت پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔ تاہم طلبہ کے استفادے کے نقطۂ نظر سے عبدالرحمن طاہر سورتی کی تاریخ ادب عربی کی جو اگرچہ احمد حسن الزیات کی کتاب تاریخ آداب اللغۃ کا ترجمہ ہی سہی، افادیت اور اہمیت کم نہیں ہوتی۔ سورتی صاحب نے بھی عربی اشعار اور نثرپاروں کے خوب صورت تراجم پیش کیے ہیں جس کی وجہ سے وہ آج بھی جامعات اور مقابلے کے امتحانات کے لیے تجویز کی جاتی ہے۔ڈاکٹر صاحب کی یہ محنت سورتی صاحب کی کتاب کی جگہ لے سکے گی یا نہیں؟ اس کا فیصلہ مستقبل کرے گا۔
ڈاکٹر صاحب کی یہ کتاب سات ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب میں عربی زبان کا تہذیبی پس منظر، عربوں کے علوم، مجالس ادب و اسواق، شعرا کے طبقات وغیرہ کا ذکر ہے۔ باب دوم میں عربی ادب منظوم، قصص شاعری اور راویانِ شعر کا ذکر ہے۔ باب سوم میں جاہلی شاعری، سبع معلقات کے شعرا کے حالات اور نمونۂ کلام ہے۔ باب چہارم میں بعثت ِ نبویؐ کے اثرات، آپؐ کی فصاحت و بلاغت ، خلفاے راشدینؓ کی فصاحت و بلاغت اور ان کے خطبات کا تذکرہ ہے۔ باب پنجم میں دورِ اُموی میں اسلامی علوم کے ارتقا اور اُموی شعرا و خطبا کا تذکرہ ہے۔ چھٹا باب عصرعباسی کے ساتھ مخصوص ہے، جس میں مصنف نے عباسی شعرا کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے اس میں ڈاکٹر طہٰ حسین، احمد امین اور اندلس کے ادبا کو بھی شامل کردیا ہے۔ یہ جدت قدیم تواریخ ادب عربی میں نہیں ملتی۔
ساتواں باب کتاب کا آخری باب ہے جس میں عصرِجدید کی عربی نثرونظم سے بحث ہے۔ ڈاکٹر صاحب اس دور کا اختتام حافظ وشوقی پر کردیتے ہیں حالانکہ ادب المھجر ایک قابلِ ذکر عنوان ہے جس میں وہ شعرا شامل ہیں جو الرابطۃ القلمیۃ (Pen League) کے ممبر تھے۔ کتاب کے آخر میں ڈاکٹر صاحب نے خلیل مطران کا مختصر ذکر کیا ہے، مگر میخائل نعیمہ، نسیب عریضہ اور خلیل جبران کے تذکرے سے کتاب خالی ہے۔یہ شعرا شام، لبنان سے ہجرت کر کے بوسٹن جاکر آباد ہوئے اور الرابطۃ القلمیۃ کے تحت وہ ادب تخلیق کیا جس سے ایک دنیا متاثر ہوئی۔ اس وقت بھی خلیل جبران مغرب میں اپنی تخلیقات کے تراجم کے حوالے سے ایک جانا پہچانا نام ہے۔
یہ سوال بھی اہم ہے کہ ہم تاریخ ادب عربی کے تذکرے کا آغاز امرؤ القیس سے کرتے ہیں جس کی فحش گوئی اور عریاں نگاری کی وجہ سے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قائدھم الی النار، جہنم کی طرف ان (شعرا) کا سردار کا لقب دیا۔ لیکن عربی ادب کے نوبل انعام یافتہ نجیب محفوظ کا ذکر نہیں کرتے اگرچہ تنقیدی نقطۂ نظر ہی سے کیوں نہ ہو۔ یاد رہے ایک زمانے میں خورشید رضوی جامعہ پنجاب نے نجیب محفوظ پر تفصیلی مضمون لکھا تھا جو مجلہ فکرونظر میں چھپاتھا۔ ان سب تحفظات کے باوجود راقم محمد رابع حسنی ندوی ناظم ندوۃ العلما لکھنؤ کی اس راے سے متفق ہے کہ ’’عربی زبان و ادب سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے اس میں دل چسپی اور افادیت کا بڑا سامان ہے، اور اس کا مطالعہ کرنے والوں کو عربی زبان و ادب کی خوبیوں اور اس کے مختلف اَدوار و اقوام کے اسلوب و طرزِکلام سے واقفیت حاصل ہوگی۔(ڈاکٹر احسان الحق)
یہ چاروں کتابیں معروف اور مقبول ہیں اور محتاجِ تبصرہ نہیں۔ سب ہی ان کے مندرجات اور موضوع سے واقف ہیں۔ خطبات میں ارکانِ اسلام کا انقلاب آفریں تصور پیش کیا گیا ہے۔ محمدعربیؐ میں رسولؐ اللہ کی زندگی بطورِ داعیِ انقلاب سامنے آتی ہے۔ راہِ عمل احادیث کا مجموعہ ہے جو زندگی کے ہرپہلو کے بارے میں رہنمائی دیتی ہیں۔ آدابِ زندگی میں مصنف نے معاشرتی آداب دل نشیں انداز سے پیش کیے ہیں۔
ناشر نے ان چاروں کتابوں کو اعلیٰ معیار پر شائع کر کے ایک خوب صورت، جاذبِ نظر ہولڈر میں پیش کیا ہے۔ کتاب کیسی بھی کیوں نہ ہو، آج کے دور کی نفسیات کے مطابق پیش کش اعلیٰ نہ ہو تو نظروں میں نہیں آتی۔ ناشر نے اس انداز سے پیش کرکے ایک بڑے طبقے تک رسائی حاصل کی ہے جو اچھی اور خوب صورت کتابوں کا قدردان ہے اور خرچ بھی کرسکتا ہے۔ اُمید ہے کہ تجربہ کامیاب ہوگا۔ ناشر مولاناسیدابوالاعلیٰ اور دیگر مصنفین کی کتابیں اسی معیار پر پیش کریں گے۔ معیار کے لحاظ سے قیمت زیادہ نہیں، ہرکتاب کی ۵۰۰ روپے، کل ۲۰۰۰روپے۔ (مسلم سجاد)
۷۰ کے عشرے میں سن شعور کو پہنچنے والوں کے لیے سقوطِ ڈھاکہ سامنے کی بات نہیں ہے۔ اب تو ۴۰سال سے زائد گزرگئے ہیں، کئی نئی نسلیں جوان ہوچکی ہیں جو اس المیے کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں رکھتیں، اس لیے کہ ایک پالیسی کے تحت درسی کتب میں اس کا ذکر تک نہیں ہے۔
گذشتہ برس سے وہاں کی عوامی لیگی حکومت نے ایک نام نہاد عدالت کے ذریعے جماعت اسلامی کے رہنمائوں کو پھانسی اور طویل مدت کی سزائیں سنانے کے پروگرام کا آغاز کیا۔ ضرورت تھی کہ پاکستانیوں کو بتایا جائے کہ کیا ہوا کہ پاکستان کا بازو مشرقی پاکستان الگ ہوگیا اور آج وہاں کی حکومت پاکستان کے لیے لڑنے والوں کے ساتھ یہ سلوک کررہی ہے۔ ہماری حکومت نے تو اس پر کوئی مضبوط موقف اختیار نہیں کیا جو اخلاق، دستور اور ہر اصول کے تحت اسے اختیار کرنا چاہیے تھا۔ قومی اخبارات نے اپنے طور پر کچھ نہ کچھ اداے فرض کیا۔ ہفت روزہ ایشیا نے ’بنگلہ دیش: انصاف اور انسانیت کا قتل‘کے موضوع پر یہ اشاعت ِ خاص پیش کی ہے جس میں ۱۲قومی اخبارات کے اداریوں اور مضامین سے منتخب حصے جمع کر دیے ہیں۔ روزنامہ اُمت سے ۲۰حصے منتخب کیے گئے ہیں۔ انگریزی اخبارات کی ’غیرحاضری‘ محسوس ہوتی ہے۔ ایک الگ حصے، ’پس منظر‘ میں سات مقالے شامل ہیں جن میں سے خصوصاً پروفیسر غلام اعظم اور پروفیسر خورشید احمد کے، اس مسئلے کے تمام پہلوئوں کو واضح کرتے ہیں۔ آخری حصے میں ۲۰ تحریریں ’افکاروخیالات‘ کے تحت آج کے دور، اس دور کے بھی مضامین ، تاثرات ، سفرنامے، شاعری بھی انتخاب کرکے شامل کیے گئے ہیں۔
بنگلہ دیش میں جو کچھ ہو رہا ہے اسے سمجھنے کے لیے یہ دستاویز قابلِ قدر کاوش ہے۔ سلیم منصورخالد اور ادارہ ایشیا اشاعت پیش کرنے پر مبارک باد کا استحقاق رکھتے ہیں۔ اشاعت ِخاص کی غیرمعمولی اشاعت کا ایک فائدہ یہ بھی ہونا چاہیے کہ ملّی اور ملکی مسائل سے آگاہ رہنے کے لیے ہفت روزہ ایشیا کا باقاعدہ مطالعہ کیا جائے۔ (مسلم سجاد)
یہ تحریک اسلامی کے ان احباب کا دل نواز تذکرہ ہے جو ابتدائی دور میں سیدمودودی کی برپا کردہ جماعت اسلامی کے ساتھ وابستہ ہوئے۔ تمام زندگی فریضہ اقامت دین کی ادایگی کے لیے مصروفِ جدوجہد رہے۔ گویا ’وفاداری بشرط استواری اصل ایمان ہے‘ کا نمونہ اور مصداق بنے رہے۔ بے لوثی، اخلاص، صدق، راستی، استقامت، ثابت قدمی اور ایثار ان کی زندگی کا طرئہ امتیاز رہا۔
۴۰ سے زائد شخصیات کا یہ تذکرہ ، تعزیتی مضامین، عمدہ علمی نکات اور مولانا فتح محمد کے سوزِدل کے آئینہ دار ہیں۔ ان شخصیات کی جماعتی و تحریکی سرگرمیوں، اخلاص، للہیت، راہِ خدا میں استقامت کا ذکر ہے جن میں مولانا جان محمد عباسی، ڈاکٹر اسعد گیلانی، نعیم صدیقی، خرم مراد، رحیم بخش شاہین، مولانا صدرالدین اصلاحی، میاں طفیل محمد، عبدالغفار حسن، چودھری غلام جیلانی، فضل معبود، مولانا گلزار احمد مظاہری، مولانا گوہر رحمن، مولانا معین الدین خٹک، فخرالدین بٹ، راجا بشارت، ملک وزیرغازی وغیرہ کے تذکرے شامل ہیں۔
تحریکِ اسلامی کے کارکنان و قائدین کے لیے تحرک، روایات کو جاننے اور ابتدائی دور کے اکابرین و کارکنان کی شخصیت اور کردار کے بارے میں رہنمائی فراہم کرنے والی کتاب، جس سے کارکنانِ تحریک بے نیاز نہیں ہوسکتے۔(عمران ظہور غازی)
یہ خطبات دین کی تعلیمات کا خلاصہ ہیں۔قرآن و سنت کی تعلیم پر مبنی یہ خطبات ایمانیات، عبادات، اصلاح و تربیت اور اجتماعی زندگی سے متعلق اسلامی تعلیمات کا احاطہ کرتے ہیں۔ ڈاکٹر محمداسلم صدیقی، صاحب ِتفسیر روح القرآن ہیں، محتاجِ تعارف نہیں۔جامعہ پنجاب سے فراغت کے بعد مختلف مقامات پر دعوتی، دینی اور قرآنی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ خطبات کیا ہیں، معلومات کا خزینہ ہیں اور آیاتِ قرآنی، احادیث اور فکرانگیز ایمانی واقعات سے آراستہ ہیں۔ ان میں جابجا اقبال، اکبر، حالی، فیض اور مولانا ظفرعلی خان کے اشعار اس نسخے کی لَے بڑھاتے ہیں۔ موضوعات کا تنوع، زبان و بیان کی خوب صورتی اور معلومات کی فراوانی قاری کی توجہ مرتکز رکھتی ہے۔ چند اہم موضوعات: سورئہ فاتحہ سے متعلق چند حقائق، قرآنِ کریم کا چیلنج، حُب ِدنیا میں بے اعتدالی، تیسری طلاق کے احکام، انسانی بگاڑ کا اصل سبب اور حل۔ دروس دینے والے ہوں، خطباتِ جمعہ دینے والے یا دعوتِ دین کا کام کرنے والے ان خطبات سے فائدہ اُٹھائیں۔(عمران ظہورغازی)
’داعیات الی اللہ اور عصری تقاضے‘ (اکتوبر ۲۰۱۳ء) مؤثر اور جامع تحریر ہے، جس میں دعوت کے تمام پہلوئوں کو اُجاگر کیا گیا ہے۔ بلاشبہہ قرآن نے دعوت کے فریضے کو دو جہتی فریضہ قرار دیا ہے: اوّلاً امربالمعروف اور ثانیاً: نہی عن المنکر۔ لیکن دورِحاضرمیں بیش تر دینی جماعتیں و تحریکات دعوت کے میدان میں امربالمعروف کا فریضہ تو سرانجام دیتی نظر آتی ہیں مگر نہی عن المنکر کو نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ گویا دعوت یک رُخی بن کر رہ گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں دعوت کے جو اثرات نظر آنے چاہییں وہ نظر نہیں آتے۔ امربالمعروف ونہی عن المنکر دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ اصلاحِ معاشرہ کے لیے دونوں جہتوں سے دعوت عوام تک پہنچانا ضروری ہے۔
’میدانِ عرفات کا پیام‘ (اکتوبر ۲۰۱۳ء)، افشاں نوید کا ایسا پُرسوز مضمون ترجمان میں کم ہی دیکھنے کو ملاہوگا۔ اللہ کرے زورِ قلم اور !
مولانا محمد افضل خان منصوری ،سوات
’تحریک اسلامی کیا ہے؟‘ (ستمبر ۲۰۱۳ء) اسلامی تحریک کی اساس اور ارتقا پر مبنی تحریر جہاں تحریکی سفر کی داستان ہے وہاں رفقاے تحریک کے لیے روحانی و فکری غذا بھی ہے۔ ڈاکٹر محمد جاوید اصغر نے ’سیدمودودیؒ بطورِمترجم قرآن‘ کے عنوان سے ایک روح پرور تحریر پیش کی ہے جس میں مولانا مودودیؒ نے قرآنِ مجید کا جو حق ادا کیا ہے اس کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ یقینا یہ خدمت کارکنانِ جماعت کے لیے بالخصوص اور اُمت مسلمہ کے لیے ایک قیمتی اثاثے کی حیثیت رکھتی ہے۔ عارف الحق عارف کے احساسات کا ترجمان مضمون، ’مولانا مودودیؒ کی سحرانگیز شخصیت‘ بھی قابلِ ذکر ہے۔ اس سے مولانا مودودیؒ کے تذکرے کے ساتھ ساتھ قافلۂ حق کے سفر کی رُوداد بھی سامنے آتی ہے۔
’مصری فوج کے مظالم، اخوان کی جمہوری جدوجہد‘ (ستمبر ۲۰۱۳ء) پڑھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اللہ اخوان کو استقامت دے، آمین!
’کچھ حسن البناؒ کے بارے میں‘ (جون ۲۰۱۳ء) امام حسن البنا شہیدؒ کی بیٹی کا انٹرویو بہت پسند آیا۔ خاص طور پر خانگی معاملات، اولاد کی نگہداشت اور تربیت اور عوام الناس سے روابط کے پہلو ہر دور کی تحریکِ اسلامی کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔
پچھلی ایک صدی کے واقعات نے اس حقیقت کو ثابت کردیا ہے کہ بغیر کسی اخلاقی ضابطے کی پابندی کے سوسائٹی میں انصاف اور عدل قائم نہیں رہ سکتا۔ جب لوگوں کی زندگی کا منتہاے مقصود دنیوی فوائد و لذائذ سمیٹنا ہو تو پھر ان کی نظروں سے جائز و ناجائز کی تمیز بالکل اوجھل ہوجاتی ہے۔ انھیں اس بات کی کوئی فکر نہیں رہتی کہ اُن کے آمدنی کے ذرائع کن کن طریقوں سے سماج میں ظلم و ستم، بے حیائی اور بدمعاشی کو ترقی دے رہے ہیں۔ دولت کے پجاری کی حیثیت سے اُس کا نقطۂ نظر صرف یہی ہے کہ جس طرح بھی ممکن ہو اُسے زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنی چاہیے، خواہ اُس سے اُس کی قوم اور ملّت یا پوری انسانیت کو کتنا ہی نقصان پہنچے۔ اگر وہ یہ دیکھتا ہے کہ اُس کی آمدنی شراب کی فروخت، رقص و سُرود کی محفلیں سجانے اور فحش لٹریچر کی اشاعت اور اخلاق سوز تصویریں دکھانے سے بڑھتی ہے تو فوراً اپنا روپیہ ان کاموں میں کھپا دیتا ہے، اور قطعاً محسوس نہیں کرتا کہ اُس کی اِن حرکات سے سماج کو بحیثیت مجموعی کس قدر خسارہ برداشت کرنا پڑرہا ہے، کتنی عصمتیں لٹتی ہیں، کتنی عفتیں برباد ہوتی ہیں، کتنے نوجوان آوارگی کا شکار ہوتے ہیں اور کتنے افراد مجرم بنتے ہیں۔
یہی نہیں، بلکہ سرمایہ کاری کا رُخ فواحش کی طرف موڑ دینے سے ضروریاتِ زندگی کم یاب بلکہ نایاب ہوجاتی ہیں۔ عوام گندم کے ایک ایک دانے کے لیے ترستے ہیں، انھیں موسمی ضروریات کے لیے تو کیا اپنا ستر تک چھپانے کے لیے کپڑا نہیں ملتا۔ اُن کے بچے دودھ کے ایک ایک قطرے کے لیے بلکتے ہیں اور اُس کے برعکس دوسری طرف سرمایہ داروں کی دولت پرستی اور نفع اندوزی کے طفیل انسانوں کا ایک قلیل طبقہ رفیع الشان محلات میں رہ کر اپنا سارا وقت عیش و تنعم میں بسر کرتا ہے۔ وہ دل جو خوفِ خدا سے خالی ہوں، جن کے اندر احساسِ جواب دہی ناپید ہو وہ اتنے بے حس ہوتے ہیں کہ لوگوں کے بڑے سے بڑے مصائب اُن کے اندر معمولی سے معمولی ارتعاش بھی پیدا نہیں کرسکتے۔(’انسانیت کی تعمیر نو اور اسلام‘ ، عبدالحمید صدیقی، ترجمان القرآن،جلد۴۱، عدد۲، صفر ۱۳۷۳ھ، نومبر ۱۹۵۳ء، ص ۴۹-۵۰)