اخبار اُمت


 ۱۴ جنوری ۲۰۱۱ء کو زبردست عوامی احتجاجات نے برادر مسلمان ملک تیونس پرتین دہائیوں سے مسلط سابق صدر زین العابدین بن علی کو اقتدارچھوڑ کرملک سے فرار ہونے پر مجبور کر دیاتھا۔ اسی سال۲۱۷رکنی دستورساز اسمبلی کے لیے انتخابات ہوئے۔ یہ ملکی تاریخ کے پہلے کثیر الجماعتی انتخابات تھے، اس سے پہلے صرف صدر مملکت اور ان کی پارٹی ہی انتخابات’لڑنے اور جیتنے‘ کی اہل تھی۔   ان انتخابات میںراشد الغنوشی کی سربراہی میں اسلامی تحریک ’ تحریک نہضت‘دوسری تمام پارٹیوں سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی لیکن ۵۰ فی صد نشستوں کے نہ ہونے کی وجہ سے نہضت کی قیادت میںمخلوط حکومت تشکیل پائی۔

پہلی منتخب حکومت کے سامنے متعدد بحرانات اور پیچیدہ قسم کے مسائل تھے جن سے نپٹنے کے لیے دو چار سال ہرگز کافی نہ تھے۔ملک میں جبر سے آزاد نئے سیاسی ماحول کا آغازہی نہیں، سیکولر اور بے دین قوتوں کا اسلام سے خوف بھی ایک مسئلہ تھا۔ بورقیبہ اور بن علی کی حکومتوں کی طرف سے ملک کو اسلامی تشخص سے محروم کرنے اور فرانسیسی اور مغربی تہذیب کو رواج دینے کے لیے کئی دہائیوںپر محیط کوششوں کے اثرات کو مٹانا انتہائی کٹھن اور محنت طلب کام تھا۔نصف صدی سے زائد عرصے سے ملک میں صرف طاقت، خوف اور ظلم کاراج تھا۔ حکمران طبقہ ہرقانون سے بالاتر تھا۔ اب، جب کہ ایک جمہوری حکومت عوام کو نصیب ہوئی تو ایک طرف عوام کو آزادیِ اظہار راے کا موقع ملا، تو دوسری جانب نو منتخب حکومت نے بھی خود کو قانون کا پابند بناتے ہوئے طے کر لیا کہ      وہ ضابطے اور قانون سے ہٹ کر کوئی کام نہیں کرے گی۔ انقلاب کے بعد عموماً حکومتیں کمزور ہوا کرتی ہیں۔ یہی حال نہضت کی قیادت میں مخلوط حکومت کا تھا۔ایک طرف ۵۰ سالہ آمریت کی باقیات کا احتساب مطلوب تھا اور دوسری طرف متعصب سیکولر سیاسی پارٹیوں کی دشمنی کا سامنا تھا۔ اچانک اُٹھ کھڑے ہونے والے مسلح گروہوں کو کنٹرول کرنے کے لیے بھی انتہائی حکمت، صبر وتحمل اور جہدمسلسل کی ضرورت تھی۔ حکمرانوں کے ظلم وستم سے تنگ عوام نے بھی جلد بازی سے کام لیتے ہوئے فوری طور پر ہر قسم کے مسائل کے خاتمے کے مطالبات شروع کر دیے تھے۔

لیکن ان سب مسائل کے باوجود اپنے دور حکومت میںنہضت کی قیادت نے داخلی اور خارجی مسائل اور سازشوں کے مقابلے میں انتہائی عقل مندی، تدبر، سیاسی بصیرت اور طویل المدت حکمت عملی کامظاہرہ کیا۔ آنے والے مہ وسال ثابت کریں گے کہ تحریک نہضت کی یہ صابرانہ و حکیمانہ پالیسی سب تحریکات اسلامیہ کے لیے مشعل راہ ہے۔

تحریک نہضت نے ملک کے سیکولر اور لادین عناصر سمیت پوری قوم کو ساتھ لے کر چلنے، وسیع تر ملکی مفاد میں تنگ نظری اور اَنا پرستی کو ترک کرتے ہوئے مخاصمت اور تصادم کے بجاے وسعت قلبی اور مفاہمت کی پالیسی اختیار کی۔ ہرچیلنج ، سازش اور اشتعال انگیزی کا مقابلہ تحمل، رواداری اور نرم گوئی سے کیا۔راشد غنوشی کی قیادت میں نہضت نے عملی طور پر ثابت کر دیا کہ وہ جمہوریت کے حقیقی علَم بردار ہیں۔وہ ایک ایسی اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لیے کوشاں ہیں جہاں تمام شہریوں کومساوی بنیادی انسانی حقوق میسر ہوں۔تمام شعبہ ہاے زندگی میں ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے۔ہر فرد اور پارٹی کو ملک کی خدمت کے لیے برابر مواقع میسر ہوں،اور کسی کی حق تلفی نہ ہو۔ متعدد عرب ممالک سے ڈکٹیٹرشپ کے خاتمے کے چارسال بعد آج ان ممالک میں سے تیونس وہ واحد ملک ہے ، جہاں جمہوری اقدار قدرے مضبوط نظر آتی ہیں۔انتہائی کٹھن اور دشوار مراحل سے گزرتے ہوئے دوبرس کی سخت محنت کے نتیجے میں ۲۶جنوری ۲۰۱۴ء کونیا آئین منظور ہوا۔ اور ۲۶؍اکتوبر۲۰۱۴ء کو پارلیمانی انتخابات کے موقعے پر عوام نے پہلی مرتبہ پوری آزادی کے ساتھ اظہار راے کا حق استعمال کیا۔جس کے نتیجے میں ملک پُرامن انتقالِ اقتدار کے حتمی مراحل کی جانب گام زن ہے۔

واضح بیرونی مداخلت، نیز اسلامی تحریکات سے کھلی دشمنی کا مظاہرہ کرنے والے بعض  عرب ممالک کی طرف سے نہضت کے خلاف اربوں ڈالر جھونک دیے جانے کے باوجود حالیہ پارلیمانی انتخابات کا مرحلہ خوش اسلوبی سے طے پایا۔اگرچہ سرکاری نتائج کے مطابق سابق وزیراعظم اور صدر بورقیبہ کے دور میں اہم عہدوں پر رہنے والے الباجی قائد السبسی کی سربراہی میںسیکولر پارٹی ’نداے تیونس‘ ۸۶سیٹیں حاصل کر کے پہلے نمبر پر رہی لیکن وہ مختلف النوع، مختلف الخیال گروہوں کا ایک مجموعہ ہے جسے صرف ’نہضت‘ دشمنی میں اکٹھا کیا گیا ہے۔ تحریک نہضت ۶۹نشستوں پر کامیاب ہو کر دوسرے نمبر پر آئی ہے۔یکسو اورمضبوط نظریاتی بنیادوں والی جماعت کی حیثیت سے تحریک نہضت ہی نومنتخب ایوان کی اصل قوت ثابت ہوگی۔ نہضت چاہے تو جوڑ توڑ کی سیاست کرکے اب بھی کوئی کمزور حکومت قائم کرسکتی ہے، لیکن اس کی تمام تر توجہ حصولِ اقتدار نہیں، مستحکم اور آزاد ملکی نظام کی تشکیل و استحکام پر مرکوز ہے۔حالیہ پارلیمانی انتخابات اس لحاظ سے بھی اہمیت کے حامل تھے کہ ان کے نتیجے میں ملک میں عبوری سیاسی مرحلے کا اختتام ہوا، اوراس لحاظ سے بھی بہت اہمیت کے حامل تھے کہ یہ انقلاب کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان ایک اعصاب شکن سیاسی معرکہ تھا ۔

تحریک نہضت کی قیادت نے کھلے دل سے نتائج کو تسلیم کرتے ہوئے نداے تیونس کے سربراہ الباجی قائد السبسی کو مبارک باد دی ہے، ساتھ ہی ملک کے وسیع تر مفاد میں قومی حکومت تشکیل دینے کا مشورہ بھی دیاہے۔ تیونس کے قانون کے مطابق حکومت کی تشکیل کی ذمہ داری اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی کو سونپی جاتی ہے ، لیکن ۵۰فی صد نشستوں پر کامیاب نہ ہوپانے کے باعث سب سے بڑی پارٹی نداے تیونس کو بھی مخلوط حکومت ہی تشکیل دینا پڑے گی۔نداے تیونس کی قیادت نے کہا تھا کہ ۲۳نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات کے بعد ہی ان کی پارٹی فیصلہ کرے گی کہ کس کے ساتھ مل کر حکومت بنائی جائے۔اہم بات یہ ہے کہ نہضت کے پاس بھی اتنی نشستیں ہیں کہ اس کے بغیرکوئی بھی بل پاس نہیں ہوسکے گا۔

پارلیمانی انتخابات کے بعدایک اہم مرحلہ۲۳نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات تھے۔ نہضت نے صدارتی انتخابات میں حصہ نہ لینے کا اعلان تو بہت پہلے کر دیا تھا۔ انتخابات سے پہلے انھوں نے کسی متعین صدارتی امیدوار کی حمایت نہ کرنے کا فیصلہ بھی کر لیا۔ انھو ں نے اپنے ووٹرز کو اختیار دیا کہ وہ جسے زیادہ اہل سمجھیں اسے ووٹ دیں۔ میدان میں ۲۵صدارتی امیدوار تھے لیکن اصل مقابلہ دو بڑے امیدواروں : نداے تیونس کے سربراہ الباجی قائد السبسی اور موجودہ صدر منصف المرزوقی کے درمیان رہا۔ السبسی نے۴۶ء۳۹ فی صد اور منصف المرزوقی نے۴۳ء۳۳ فی صد ووٹ حاصل کیے۔ باقی امیدوار بہت نیچے تھے۔ اب دونوں بڑے اُمیدواروں کے مابین ۲۸دسمبر کو دوبارہ مقابلہ ہوگا۔ ووٹ تقسیم سے بچیں گے تو امید ہے کہ زیادہ فائدہ صدر منصف کو حاصل ہوگا۔ نہضت بھی شاید کسی نہ کسی صورت اس کی واضح تائید کر دے۔ لیکن تحریک نہضت کا فیصلہ ہے کہ   فی الحال وہ خود اقتدار میں نہیں آئے گی۔ معاشرے کے ایک ایک فرد کے سامنے اپنی دعوت پیش کرے گی۔ نو منتخب حکومت کی کارکردگی بھی بہت جلد اپنا چہرہ عوام کو دکھا دے گی اور ان شاء اللہ  جلد یا بدیر تیونس کے حالیہ سیاسی نقشے پر خیر غالب ہوکر رہے گا۔واضح رہے کہ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے منصف المرزوقی صرف تحریک نہضت کی تائید و حمایت کی بدولت ہی گذشتہ تین برس سے منصب صدارت پر فائز تھے۔ نتائج سے واضح ہوتا ہے کہ اعلان نہ کرنے کے باوجود تحریک نہضت کے اکثریتی ووٹ منصف المرزوقی کے پلڑے میں پڑے، جب کہ انقلاب کے مخالفین، متشدد سیکولر اور سابق صدر زین العابدین کے دور میں اہم حکومتی عہدے داروں کی تمام تر تائید نداے تیونس کو حاصل ہوئی۔

پارلیمانی انتخابات کے بعد ہی سے ذرائع ابلاغ پر تیونس کے مستقبل کے بارے میں مختلف تبصرے کیے جا رہے ہیں لیکن ایک اہم سوال یہ ہے کہ انقلاب کے بعد انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والی اسلامی تحریک ۲۰۱۴ء کے انتخابات میں آخر کیوں دوسرے نمبر پر آگئی؟اس کے جواب میں مخالفین اپنا پورا زوریہ ثابت کرنے پر لگا رہے ہیں کہ ’سیاسی اسلام‘  ناکام ہوگیا۔ آج کے دور میں اسلام کا نظام نہیں چل سکتا۔ اسلام عصر حاضر کے گمبھیرمسائل کا حل نہیں  دے سکتا، لیکن یہ حقیقت بھی سب پر آشکار ہے کہ وہ تمام عالمی اور علاقائی طاقتیں تحریک نہضت کے خلاف مکمل طور پر میدان میں تھیں جنھوں نے اس سے قبل مصر میں منتخب حکومت اور عوامی راے کو کچل ڈالا۔ یہ سب قوتیں مصر کی طرح تیونس میں خون کے دریا تو نہیں بہا سکیں لیکن دولت، ذرائع ابلاغ اور معاشرے کے طاقت ور افراد کے بل بوتے پر انھوں نے سب اسلام دشمنوں کو یک جا کردیا۔

گذشتہ نصف صدی سے زائد عرصے تک ملک میں آمریت اور فوجی ظلم وستم کا راج رہا۔ حکمرانوں نے اپنے خلاف آواز اٹھانے والے ہر فرد اور تحریک کو کچل کر رکھ دیا۔بڑے بڑے علما اوراسلامی فکر کے علَم برداروں کو بیڑیاں ڈال کر جیلوں میں بند کر دیا گیا۔معاشرے میںفکری، اخلاقی ، معاشی او ر معاشرتی زوال کو فروغ دیا۔۲۰۱۱ء کے انقلاب کے بعد مختصر عرصے میںقوم کو اپنا مکمل ہم نوا بنانا نہضت کے لیے ممکن نہ تھا۔ ملک میں بنیادی آزادیاں اور جمہوریت بحال کرنا بھی ایک بہت بڑا چیلنج تھا جس کے لیے دسیوں سالوں کی محنت درکار تھی ۔ الحمد للہ تین سال کے عرصے میںعوام کو ایک متفقہ آئین اورآزادی مہیا کرنا نہضت کی ایک بڑی کامیابی ہے۔بعض لوگوں کی راے ہے کہ نہضت کے دوسرے نمبر پرآنے سے ایک طرف ملک میں انقلاب دَر انقلاب کا خطرہ ٹل گیا ہے کیونکہ جن سے خطرہ تھا وہی اب حکومت میں ہیں۔ دوسری طرف تحریک نہضت کو اپوزیشن میں رہ کر حکومتی غلطیوں سے سیکھنے اور اسے ان سے روکنے کا موقع ملے گا۔ اپنی تنظیم نو اور دعوت کو پھیلانے کا وقت ملے گا۔سماجی اور دعوتی سرگرمیوں پر پوری توجہ دینے کی فرصت ملے گی، اور    ان شاء اللہ آیندہ انتخابات کو ہدف بنا کر مزید آگے بڑھنے کا موقع ملے گا۔ گویا تحریک نہضت اکثریت حاصل نہ کر کے بھی کامیاب رہی۔

 افغانستان کے نئے صدر اشرف غنی نے سب سے پہلے جس ملک کا غیر ملکی دورہ کیا وہ چین تھا اور اس کے بعدپاکستان آئے ۔ اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ اس لیے کہ اشرف غنی صاحب انتخابات سے پہلے اور بعد میں بھی جس فراست اورعملیت پسندی کا مظاہرہ کررہے ہیں اس کا تقاضا یہی تھا کہ ہندستان سے پہلے اس پڑوسی ملک میں آئیں جو ان کے ملک میں غلط یا صحیح سب سے زیادہ موضوع بحث رہتاہے ۔

ڈاکٹر اشرف غنی نے کرسیِ صدارت سنبھالتے ہی ایسے اقدامات کیے جس سے ان کے مصالحانہ رویے اور عملیت پسندی کا اظہار ہوتا ہے ۔ ایک زیرک سیاستدان کی خوبی یہی ہوتی ہے کہ وہ موقعے کا انتظار کرتا ہے اور موقع ملتے ہی فیصلے کرنے سے دریغ نہیں کرتا ۔ چنانچہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ سے مصالحت کرنے کے فوراًبعد انھوں نے امریکا کے ساتھ دوطرفہ معاہدے پر دستخط کرنے میں دیر نہیں لگائی جس کا عرصے سے امریکی حکومت کو انتظار تھا ۔ لیکن یہ مصالحانہ رویہ صرف طاقت ور حریفوں کے ساتھ تھا ۔ حکومتی اداروں اور اہلکاروں پر انھوں نے فوراًہی گرفت مضبوط کی۔ کابل میں موجود سرکاروں شعبوں پر چھاپے مارنے کا سلسلہ شروع کیا اور چند ہی دنوں میں ان کی کایا پلٹ گئی۔ اب آپ کو طورخم بارڈر عبور کرتے ہی ایک مختلف کلچر نظر آئے گا۔ سرکاری افسر ہویا ملازم، کام پر لگ گیا ۔ وہ خود دن میں۱۸گھنٹے کام کررہے ہیں اور اپنے اسٹاف کے آرام سے بیٹھ رہنے کے روادار نہیں۔

پاکستان کا دورہ اور پاکستان کے ساتھ افغانستان کے جملہ معاملات طے کرنا ہی ان کی ترجیحات میں شامل تھا۔ اس لیے پہلی فرصت میں ایک بھاری بھر کم وفد کے ساتھ دورے پر آئے۔    افغان صحافتی حلقوں نے ۱۳۰؍افراد پر مشتمل وفد کے حجم پر اعتراض کیا لیکن وہ جو کہتے ہیں نا کہ  He means business، یعنی وہ پاکستان سے کچھ چاہتاہے ۔ ہوسکتاہے کہ پہلے دورے میں وہ متنازع اُمور نہ چھیڑیں، تاہم روزمرہ کے معاملات پر وہ سنجیدگی سے بات کرنا چاہتے تھے ۔ ظاہر ہے پاکستان کی اہمیت افغانستان کے لیے ہر دوسرے ملک سے سوا ہے ۔ اگر طورخم پھاٹک چندگھنٹوں کے لیے بند ہوجاتا ہے تو کابل کے بازار میں ملک پیک کی قیمت بڑھ جاتی ہے اور  کرنسی مارکیٹ مندی پڑجاتی ہے ۔ صدر کے وفد میں چیف آف اسٹاف جنرل شیرمحمدکریمی، وزیردفاع بسم اللہ محمدی اوروزیر خزانہ عمرزخی خیل سمیت سینیرافغان دفاعی حکام بھی شامل تھے۔

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا پروگرام تھا کہ ہر سطح پر پاکستانی اور افغانی قیادت کو باہم مربوط کیا جائے، ذہنی دُوری ختم کی جائے اور قربت پید اکی جائے ۔وہ پاکستان سے فوری طور پر کوئی مراعات لینے کے موڈ میں نہیں تھے بلکہ تعلقات بنانے آئے تھے ۔ اعتماد سازی کا عمل چاہتے تھے۔ کرزئی حکومت کا المیہ یہ تھا کہ وہ پاکستان مخالف رجحانات کی اسیربن گئی تھی اور گاہے بہ گاہے  اس کا اظہار بھی ہوتا تھا ۔ اس کا افغانستان کوکوئی فائدہ نہ ہوا بلکہ دونوں پڑوسی ممالک میں دُوریاں پیدا ہوئیں جس کا فائدہ ہندستان نے اٹھایا اور اس کا اثر ورسوخ غیر معمولی حدتک بڑھ گیا ۔ اب ایسا بھی نہیں کہ ڈاکٹر اشرف غنی پاکستان سے تعلقات بنانے کی قیمت پر بھارت سے بگاڑ پیدا کریں گے۔ ان کی عملیت پسندی کا تقاضایہ ہے کہ وہ ہر ایک فریق سے اس کی اپنی حیثیت کے مطابق معاملہ کریں۔ کوئی بھی کابل حکومت پاکستان سے تعلقات بگاڑکر افغانستان میں ترقی اور امن وسلامتی کا خواب نہیں دیکھ سکتی ۔

ڈاکٹر اشرف غنی نے صدر پاکستان ممنون حسین اور وزیر اعظم میاں نوازشریف سے ملاقاتوں میں طالبان کا ایشواس طرح نہیں اٹھا یا جس طرح اس سے پہلے افغان حکومتیں اٹھاتی رہی ہیں۔ اگر وہ ایسا کرتے بھی تو اس کا جواب دینا پاکستا نی قیادت کے لیے زیادہ مشکل نہیں تھا ۔ البتہ ہوسکتا ہے کہ یہ محض اتفاق ہو کہ امریکی انتظامیہ نے نئی افغان حکومت کے سربراہ کے دورۂ پاکستان سے محض ۱۰دن پہلے ایک خفیہ پرانی رپورٹ نشرکردی جس میں حسب سابق پاکستانی جاسوسی اداروں پر افغانستان میں حکومت مخالف گروہوں کی پشت پناہی کا الزام لگایا گیا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ اس رپورٹ کا مقصد پاکستانی حکومت کو دبائو میں لانا ہو تاکہ وہ ڈاکٹر اشرف غنی کے مطالبات بآسانی تسلیم کرے ۔ حالانکہ پاکستانی قوم سب سے زیادہ اس کی متمنی ہے کہ افغانستان میں امن وامان قائم ہو اور  ایک منتخب نمایندہ حکومت ملک میں سیاسی استحکام پیدا کرے ،متحارب افغان گروہوںمیں مصالحت ہوجائے اور پاکستان میں موجود افغان مہاجر آبادی اپنے ملک واپس جاسکے۔

افغان صدارتی دورے کی ایک اہم پیش رفت پاکستان مسلح افواج کی قیادت سے اس کا براہ راست مکالمہ ہے ۔ اس سے پہلے پاکستان کے سالار جنرل راحیل شریف نے کابل کا ایک روزہ دورہ کیا ۔ یہ ایک ایسا خیرسگالی دورہ تھا جس کی عرصے سے ضرورت تھی۔ اس کی حیثیت محض علامتی نہ تھی بلکہ پاکستانی اور افغانی فوج کے درمیان تعلقات کی بحالی ایک زمینی حقیقت ہے۔

جنرل راحیل شریف نے اس دورے میں افغان فوج کوتربیت کی سہولتیں پہنچانے کی  پیش کش بھی کی تھی ۔ پاک آرمی دنیا میں عسکری اور پیشہ ورانہ صلاحیت کے لحاظ سے ایک اعلیٰ مقام رکھتی ہے ۔ ایبٹ آباد کی کاکول اکیڈمی دنیا میں عسکری تربیت کا ایک منفرد ادارہ ہے۔ اس لیے افغان آرمی کے افسران کے لیے اس کے دروازے کھولنا ایک اہم پیش رفت ہے ۔ اب تک افغان آرمی کی تربیت کاکام مغربی افواج کے ماہرین نے سرانجام دیا ہے ۔ بھارت نے بھی اس میں   اپنا حصہ ڈالا ہے اور کئی سطح پر افغان عسکری اہلکار وہاں تربیتی کورسز میں شرکت کررہے ہیں ، جب کہ زیادہ قریب پاکستان ادارے اس ’ثواب‘ سے محروم رہے ہیں ۔ حالیہ دورے میں افغان صدر نے اس پیش کش کو قبول کرنے کا اعلان کیا ہے جس کے لیے تفصیلات بعد میں طے کی جائیں گی ۔ انھوں نے جی ایچ کیو جاکر پاکستانی کمانڈر انچیف سے ملاقات کی اور یادگارِ شہدا پر پھول بھی چڑھائے ۔

افغان صدر کے سہ روزہ دورے کے اختتام پر جو اعلامیہ جاری کیا گیا ہے اس میں پاکستان اور افغانستان کے دوطرفہ تجارت کو بڑھانے اور تعلقات کو فروغ دینے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے ۔ وزیر اعظم پاکستان اور صدر افغانستان نے مشترکہ پریس کانفر نس سے خطاب بھی کیا ۔ میاں نواز شریف نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں امن عمل کے لیے افغان طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے اشرف غنی کے پروگرام کاحامی ہے ۔ یادرہے کہ ڈاکٹر اشرف غنی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران باربار افغان طالبان کے ساتھ با معنیٰ مذاکرات کا ارادہ ظاہر کیا تھا اور اب بھی ایسا کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ مشیرخارجہ سرتاج عزیزنے بھی اس کی وضاحت کرتے ہوئے میڈیا کو بتایا کہ پاکستان افغانستان میں امن کے قیام میں اپنا کردار اداکرنا چاہتا ہے لیکن مسلح افغان گروہوں کے ساتھ اس کے تعلقات اب اس درجے کے نہیں کہ وہ ان پر کوئی دبائو ڈال سکے۔

پاکستان اور افغانستان نے باہمی تجارت کے ایک معاہدے پر دستخط کیے جسکی تفصیلات کے لیے ماہِ دسمبر میں باقاعدہ مذاکرات کیے جائیں گے۔جن اہم تجارتی منصوبوں پر گفتگو ہوئی اس میں وسط ایشیائی ممالک سے بجلی اور گیس کے ترسیل کے معاہدے اور کاسا1000اور تاپی بھی شامل ہیں جو بین الممالک اور علاقائی تجارتی منصوبے ہیں ۔ ایک اور اہم منصوبہ پاکستان سے ریل کی پٹڑی کو افغانستان اورپھر وسط ایشیائی ممالک تک توسیع دینے کا منصوبہ ہے جو بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ گرم سمندروں سے پاکستان کے ذریعے مواصلاتی رابطے ان ممالک کے لیے بہت اہم ہے۔ یہ اس خطے کا پورا نقشہ بدل سکتے ہیں ۔ چین بھی ان رابطوں میں دل چسپی رکھتاہے۔ اس لیے کراچی کے بعد گوادر کی بندرگاہ پاکستان کے لیے بے پناہ تزویراتی اہمیت کی حامل ہے ۔

میاں نواز شریف نے افغان صدر کو خوش آمدید کہتے ہوئے دوجملے ایسے کہے جو اس تعلق کی گہرائی کو ظاہر کرتے ہیں جو دونوں ممالک کے درمیان موجود ہے ۔ انھوں نے کہا کہ ہم اشرف غنی کو ان کے دوسرے گھر پاکستان میں خوش آمدید کہتے ہیں۔ اور یہ کہ افغانستان کے دوست ہمارے دوست، جب کہ اس کے دشمن ہمارے دشمن ہیں۔ اشرف غنی نے جواب میں کہا کہ ماضی کو بھول کر مستقبل پر نظر رکھنی چاہیے ۔ انھوں نے تجارت سے متعلق حالیہ سمجھوتے کے بارے میں کہا کہ ۱۳سال کا سفر تین دن میں طے ہوا۔ گویا دونوں ممالک کی باہمی تجارت میں جورکاوٹیں ہیں ان کو دور کرلیا گیا ہے ۔ انھوں نے وزیراعظم پاکستان کو دورۂ افغانستان کی دعوت بھی دی ۔

افغان صدر نے دورۂ پاکستان کے دوران جن قومی رہنمائوں کو شرفِ ملاقات بخشا ان میں نیشنل عوامی پارٹی کے صدر اسفندیار ولی اور ان کے ہمراہ افراسیاب خٹک ، پختونخوا ملّی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خا ن اچکزئی اور قومی وطن پارٹی کے صدر جناب آفتاب خان شیر پائو قابل ذکر ہیں ۔ جو سب کے سب پختون قوم پرست لیڈر شمار کیے جاتے ہیں ۔ ان کے علاوہ پیپلز پارٹی کے رہنمائوں میں اعتزاز احسن ، فیصل کریم کنڈی ، فرحت اللہ بابر اور شیریں رحمن صاحبہ نے بھی ان سے ملاقات کی ۔ کسی بھی دینی یا مذہبی پارٹی کے سربراہ سے ان کی ملاقات نہ ہوئی ۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کی بہت ساری جہتوں میں ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ یہ دونوں ان ۱۳ممالک کی فہرست میں شامل ہیں جن کو دنیا میں سب سے زیادہ امریکی مالی تعاون حاصل ہے۔امریکی بالادستی عسکری اور معاشی دونوں میدانوں میں فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے۔ امریکی چھتری تلے ان ممالک کی قیادت کے لیے ایسے فیصلے کرنا جو مستقبل میں ان کی معاشی وسیاسی آزادی کا سبب بنیں ناممکن نہیں تو مشکل ضرو ر ہیں۔ پھر بھی قیادت کا استحکام اور تسلسل اس منزل کی طرف سفر جاری رکھ سکتا ہے ۔

آخر میں ڈاکٹر اشرف غنی کے بارے میں ایک افواہ جو کابل کے ٹیکسی ڈرائیوروں میں عام ہے سنتے جائیے ۔ ڈاکٹر اشرف غنی اچھا آدمی ہے، محنت کررہاہے لیکن وہ ایک ایسی جان لیوا بیماری میں مبتلاہے جس کی وجہ سے اس کے پاس وقت بہت کم ہے ۔

۲۳ سے ۲۵؍اکتوبر ۲۰۱۴ء تک سوڈان کے دارالحکومت میں حکمران جماعت ’قومی کانگریس‘ کا اجتماعِ عام منعقد ہوا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ ۱۵برس قبل اس سے الگ ہوکر اپنی نئی جماعت بنالینے والے اس کے بانی سربراہ جناب ڈاکٹر حسن الترابی بھی نہ صرف اجتماع میں شریک ہوئے بلکہ انھوں نے اس سے خطاب بھی کیا۔ انھوں نے اپنی گفتگو میں جب کہا کہ نہ تو یہ پارٹی، اس کا نظام،     اس کے اہداف و مقاصد میرے لیے نئے ہیں اور نہ آپ میں سے اکثر شرکا ہی ، تو پورے اجتماع میں آنسوئوں اور نعروں کا ملاپ دکھائی دیا۔ ۱۵برس کی دُوری اور اختلافات کے بعد اکثر شرکا کے لیے یہ پہلا موقع تھا کہ وہ ۸۲سالہ ترابی صاحب کو براہِ راست دیکھ اور سن پارہے تھے۔ ترابی صاحب نے بھی اس عرصے کا اکثر حصہ یا تو جیل میں گزارا یا پھر حکومت اور حکومتی جماعت کی شدید مخالفت میں۔

حالیہ اجتماعِ عام کی سب سے اہم اور خوش کن حقیقت یہی تھی کہ نہ صرف ترابی صاحب بلکہ اِکا دکا کے علاوہ باقی تمام پارٹیوں کے مابین ایک قومی یک جہتی کی فضا قائم ہوچکی ہے۔ گذشتہ جنوری میں شروع ہونے والے اس قومی مذاکراتی عمل کا سہرا، صدر عمرالبشیر اور ان کے ساتھیوں کے سرجاتا ہے۔ اس دوران کُل جماعتی اور دو جماعتی مذاکرات کے کئی دور ہوچکے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اُمید کی جاسکتی ہے کہ مختلف اُمورپر اختلافات رکھنے کے باوجود اب تمام جماعتوں کے مابین تعاون اور مثبت و تعمیری اپوزیشن کا ایک نیا دور شروع ہوسکے گا۔ اس وقت صرف ایک مؤثر جماعت نے خود کو اس عمل سے خارج رکھا ہوا ہے اور وہ ہے سابق وزیراعظم صادق المہدی صاحب کی جماعت ’حزب الامۃ‘۔ خود صادق المہدی صاحب ناراض ہوکر قاہرہ جابیٹھے ہیں۔ جنرل سیسی کے زیرسایہ جابیٹھنا بذاتِ خود ایک پوری کہانی بیان کرتا ہے۔

حکمران جماعت ’المؤتمر الوطنی‘یا قومی کانگریس،تحریکِ اسلامی سوڈان کا سیاسی بازو ہے۔ تحریک اسلامی کی دعوتی و تربیتی سرگرمیاں الحرکۃ الاسلامیۃ کے نام سے ہی جاری ہیں۔ المؤتمرالوطنی میں شرکت و شمولیت نسبتاً آسان عمل ہے۔ تقریباً پونے چار کروڑ کی آبادی میں اس کے ارکان کی تعداد اس وقت تقریباً پونے سات لاکھ ہے۔ پارٹی دستور کے مطابق ہرپانچ سال بعد اس کا    تین روزہ اجتماع عام ہوتا ہے۔ اسی میں خفیہ راے دہی کے ذریعے پارٹی کے صدر اور ۴۰۰ رکنی مجلس شوریٰ کا انتخاب عمل میں آتا ہے۔ تین روزہ اجتماع عام بنیادی طور پر نمایندگان کا اجتماع ہوتا ہے۔ اس سے پہلے تقریباً چھے ماہ کے دوران بنیادی یونٹس کے ۱۸ہزار اجتماع عام ہوتے ہیں۔ ان میں نمایندگان منتخب ہونے والے ارکان۱۲ہزار مقامی اجتماعات منعقد کرتے ہیں، پھر ۱۰۷ ضلعی اجتماع عام ہوتے ہیں، اور بعدازاں ۱۸ صوبائی اجتماع مرکزی اجتماع عام کے لیے نمایندگان کا انتخاب کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ سات اجتماع شعبہ جاتی بھی ہوتے ہیں جن میں خواتین، نوجوان، مزدور، کسان اپنے نمایندگان منتخب کرتے ہیں۔ اس طرح بالآخر ۶ہزار نمایندگان کا یہ اجتماع عام حتمی صورت اختیار کرجاتا ہے۔

حالیہ اجتماع عام کا ایک اہم ترین فیصلہ نئی مجلس شوریٰ ، پارٹی سربراہ کے انتخاب کے علاوہ  اپریل ۲۰۱۵ء میں ہونے والے ملک کے صدارتی انتخاب کے لیے اپنا نمایندہ منتخب کرنا بھی تھا۔ یہ کوئی سنی سنائی یا ذرائع ابلاغ کی بات نہیں بلکہ بعض معاملات میں صدر عمرالبشیر سے اختلاف رکھنے والے اہم پارٹی رہنمائوں نے بھی بتایا کہ صدر عمرالبشیر کسی صورت آیندہ صدارتی اُمیدوار نہیں بننا چاہتے تھے۔ انھوں نے جماعت کی مجلس شوریٰ کے سامنے حتمی معذرت کردی تھی۔   شوریٰ نے بھی ان کی بات پر پوری سنجیدگی سے غور کیا، لیکن پھر اس نتیجے تک پہنچی کہ موجودہ علاقائی، بین الاقوامی اور ملکی حالات میں ان کی معذرت قبول نہیں کی جاسکتی۔ خفیہ راے دہی ہوئی اور مجلس شوریٰ نے عمرحسن البشیرہی کو آیندہ صدارتی اُمیدوار قرار دیا۔ شوریٰ کا فیصلہ آنے کے بعد بعض مقامی ذرائع ابلاغ اور بالخصوص علاقائی ذرائع ابلاغ نے اس فیصلے پر کڑی تنقید شروع کر دی۔ پارٹی کے اندر سنگین اختلافات کی خبریں چلانا اور یہ کہنا شروع کر دیا کہ اجتماع عام کے دوران جماعت ۱۵برس بعد ایک بار پھر تقسیم ہوجائے گی۔ خود صدر عمرالبشیر نے تین روزہ اجتماع کے اختتامی خطاب میں ان خبروں اور پروپیگنڈے کا ذکر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’بعض دوستوں نے ہمیں یہاں تک مشورہ دیا کہ آپ اجتماعِ عام منسوخ کردیں۔ اجتماع ہوا تو اختلافات پھوٹ پڑیں گے اور شوریٰ کے فیصلوں سے بغاوت کردی جائے گی۔ لیکن اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے اختلافات کی آرزو رکھنے والوں کی خواہش کے برعکس ہم پہلے سے بھی زیادہ یکسو ہوکر جارہے ہیں‘‘۔ ان کے خطاب سے قبل کانفرنس سیکرٹریٹ کی جانب سے نتائج کا اعلان کیا گیا کہ خفیہ راے دہی کے ذریعے ۹۳ فی صد نمایندگان نے صدرعمرالبشیر ہی کو پارٹی کا آیندہ سربراہ اور صدارتی اُمیدوار منتخب کیا ہے۔

صدربشیر کو اپنے دورِ اقتدار میں سنگین خطرات اور چیلنجوں کاسامنا رہا ہے۔ خود پارٹی کے بانی صدر اور اصل فکری رہنما ڈاکٹر حسن الترابی سے اختلافات اب بھی سنگین تر ہیں۔ جنوبی سوڈان میں ۲۲سال تک جاری رہنے والی خانہ جنگی تقریباً تمام ملکی وسائل ہڑپ کرتی رہی۔ کئی بار دیگر پڑوسی ممالک کی طرف سے فوج کشی کروائی گئی۔ عرب اور مسلم ممالک نے قطع تعلق بلکہ محاصرہ کیے رکھا۔ جنوبی شورش سے نجات کے لیے دوبارہ ریفرنڈم کرواتے ہوئے غالب اکثریت کی راے کے مطابق جنوب کو الگ کردیا، تو کچھ ہی عرصے بعد مغربی علاقے دارفور میں بغاوت اور پڑوسی ممالک سے براہِ راست مداخلت کروا دی گئی۔ چین کی مدد سے طویل جدوجہد کے بعد ملک میں پٹرول دریافت کیا گیا تھا، لیکن جنوبی علیحدگی کے بعد پٹرول کے سب کنویں انھیں دینا پڑے۔ اقتصادی حالت جو قدرے سنبھلنے لگی تھی، ایک بار پھر ڈھلوان پر آگئی۔ بین الاقوامی عدالتوں میں سوڈان اور اس کے صدر پر جنگی جرائم کے مقدمات قائم کردیے گئے۔ عمرالبشیر کو مجرم قرار دے دیا گیا۔ دھمکی دی گئی کہ کسی بھی بین الاقوامی سفر کے دوران انھیں گرفتار کرلیا جائے گا۔ امریکا اور اس کے حواریوں نے کڑی اقتصادی پابندیاں عائد کردیں، جو آج بھی جاری ہیں۔ کئی عالمی بنک سوڈان کے ساتھ  کوئی مالی معاملات نہیں کرسکتے۔ متعدد بار فوج کے اندر سے بغاوت کروانے کی کوشش کی گئی۔ دہشت گردوں کو پناہ دینے اور الشفا نامی ادویات بنانے کے کارخانے میں کیمیائی ہتھیار بنانے کا الزام لگا کر خود امریکا حملہ آور ہوگیا۔ لیکن ایسے خطرات اور الزامات کے باوجود المؤتمر الوطنی اور عمرالبشیر کا تعمیری سفر جاری رہا۔

اقتدار و اختیار کے ایوانوں میں آنے اور ملک کے سیاہ و سفید کا مالک ہونے کے باوجود بھی اگر کوئی شخص کرپشن کی ایک پائی کے قریب بھی نہ پھٹکے، چہار جانب اشارۂ ابرو کے منتظر رہنے والے جان نثار ساتھیوں کے جلو میں رہنے کے باوجود، دل و دماغ میں تکبرکا خناس اپنی جگہ نہ بناسکے، تو ایسا شخص یقینا آج کا ولی اللہ کہلانے کا حق دار ہے۔ عمرالبشیر ہی نہیں، ان کی جماعت کی   غالب اکثریت نے خود کو ان دونوں آزمایشوں میں سرخرو ثابت کیا ہے۔ ویسے تو سوڈانی معاشرہ دیگر تمام عرب ملکوں کی نسبت انتہائی ملنسار، متواضع، بے تکلف اور باہم مربوط معاشرہ ہے، لیکن بالخصوص حکومتی ذمہ داران ہرشخص کی دسترس میں اور تقریباً ہرپروٹوکول سے بے نیاز ہیں۔ اب بھی صدرعمرالبشیر ہی نہیں، ان کے کئی قریبی اور اہم ذمہ داران نے بذاتِ خود وزارتیں اور مناصب چھوڑنے کا اعلان کیا ہے۔ ڈاکٹر حسن الترابی کے بعد جماعت کے فکری رہنما سمجھے جانے والے  علی عثمان طٰہٰ طویل عرصے سے ملک کے نائب صدر اول تھے، خود انھوں نے اصرار کرکے اپنا عہدہ چھوڑ دیا ہے۔ تفصیلی ملاقات میں اس پارٹی اجلاس کا حال سنا رہے تھے جس میں انھوں نے عہدہ چھوڑنے کا اعلان کیا۔ کہنے لگے کہ صدرالبشیر نے جب مجلس کو میرے فیصلے سے آگاہ کیا، تو دیر تک میرے بارے میں بہت جذباتی انداز میں کلمات خیروتحسین کہتے رہے۔ ان کی بات مکمل ہوئی تو ایک خاتون رکن کھڑی ہوکر کہنے لگیں: برادرم صدرصاحب! (صدر البشیر کو اسی طرح مخاطب کیا جاتاہے: الاخ الرئیس) آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں اگر اسی طرح ہے، تو پھر بھلا الشیخ علی کو جانے ہی کیوں دیا؟ پوری مجلس زعفران زار ہوگئی اور صدرصاحب نے کہا: یہ بات خود الشیخ علی ہی سے پوچھیں۔

مناصب کو امانت و امتحان سمجھے جانے کی یہ ایمانی روح، ربِ ذوالجلال کی طرف سے تحریکِ اسلامی کے کارکنان کے لیے ایک عظیم انعام ہے۔ اجتماعِ عام کے اختتامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے خود صدرالبشیر کا جملہ بھی ملاحظہ کیجیے: اَلْمَنَاصِبُ فِی أَعْیُنِنَا أَمَانَۃٌ وَ اِنَّھَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ خِزْیٌ وَنَدَامَۃ ’’ہماری نگاہ میں عہدے اور مناصب ایک امانت ہیں اور یہ عہدے قیامت کے روز رُسوائی اور ندامت کا باعث بن سکتے ہیں‘‘۔ یہ جملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادِمبارک ہی سے ماخوذ ہے جس کے آخر میں آپؐ نے ارشاد فرمایا تھا: اِلَّا مَنْ اَخَذَھَا بِحَقِّھَا وَأَدَّی الَّذِی عَلَیْہِ فِیْھَا (یہ عہدے روزِ قیامت رُسوائی اور ندامت ہیں) الا یہ کہ ان پر فائز ذمہ داران ان مناصب کا حق اور ان کے مکمل تقاضے پورے کریں۔

اندازہ یہی ہے کہ اپریل ۲۰۱۵ء میں ہونے والے انتخابات میں عمرحسن البشیر دوبارہ صدر منتخب ہوجائیں گے۔خود ان کی طرف سے کی جانے والی دستوری ترمیم کے بعد اب یہ ان کی آخری ٹرم ہوگی۔ پارٹی اور ملکی دستور میں انھوں نے ترمیم کروا دی ہے کہ کوئی بھی صدر دو بار سے زیادہ منتخب نہیں ہوسکے گا۔ لیکن اصل سوال سوڈان کو درپیش خطرات و مسائل کا ہے۔ یہ اللہ کا شکر ہے کہ ہر دور میں اُس کی نصرت اپنے اِن مخلص بندوں کے شاملِ حال رہی ہے ۔ ایک اہم ذمہ دار بتا رہے تھے کہ جنوبی سوڈان کا پٹرول چلے جانے کے بعد اللہ نے ملک میں برکتوں کے کئی نئے دروازے کھول دیے ہیں۔ زمین سونا اُگلنے لگی ہے، فصلیں کئی گنا زیادہ پیداوار دینے لگی ہیں۔ اصل سونا بھی بڑی مقدار میں دریافت ہوا ہے۔ عام لوگ تھوڑی سی کھدائی کے بعدسونا نکال رہے ہیں۔    صرف گذشتہ برس میں ریاست نے اپنے عوام سے ۱۲؍ارب ڈالر کا سونا خریدا ہے۔ ان کے بقول:  ہمیں رزق کے بارے میں کبھی بھی پریشانی نہیں ہوئی۔ ہمیں یقین ہے کہ ہمیں صرف اخلاص کے ساتھ درست راستے پر چلنا اور کوشش کرنا ہے، رزق کا مالک تو رب العالمین ہے جس نے اپنی ایک صفت ’’الرزاق‘‘ بتائی ہے اور اپنی ساری مخلوق کے رزق کا ذمہ لیا ہے۔

اجتماعِ عام کے دوسرے روز شام کے سیشن میں بیرونِ ملک سے آئے مہمانوں کا خطاب تھا۔ اس میں ۴۵ ممالک سے درجنوں ذمہ داران شریک تھے۔ چین، شمالی کوریا، مراکش اور موریطانیہ کے اعلیٰ سطحی سرکاری وفد بھی شریک تھے۔ کئی اسلامی تحریکات کے ذمہ داران بھی شریک تھے۔ اکثر نے اپنے ملکی حالات کے علاوہ تحریکی صورت حال سے بھی آگاہ کیا۔ تیونس میں انقلاب کے بعد ۲۶؍اکتوبرکو ہونے والے پہلے عام انتخابات سب کی توجہ اور دُعائیں حاصل کر رہے تھے۔ افریقی ممالک سے آنے والے مہمان زیادہ تھے۔ سوڈانی ذمہ داران کے مطابق اپنے اکثر    عرب احباب کی بے رُخی کے باعث ہم نے بھی اپنی توجہ افریقی ممالک پر مرکوز کردی ہے۔ ساتھ ساتھ عرب ممالک سے بھی ریاستی تعلقات بحال و مستحکم کرنے کی سعی جاری ہے۔ اسی ماہ صدربشیرنے سعودی عرب اور مصر کا دورہ کیا ہے اور اُمید ہے کہ بہتر نتائج حاصل ہوں گے۔

مجھے بھی اس سیشن میں گفتگو کا موقع دیا گیا تو کشمیر، پاکستان، جماعت، تحریکی فکر اور دیگر اُمور کے علاوہ بنگلہ دیش کا تفصیلی ذکر کیا۔ پروفیسر غلام اعظم اور دیگر قائدین کی گرفتاری کا بتایا۔ الحمدللہ شرکا نے جواب میں انتہائی گرم جوشی اور محبت کا اظہار کیا۔ اس سیشن سے واپس آتے ہی  بنگلہ دیش سے محترم پروفیسر صاحب کی حالت نازک ہونے اور پھر دنیا کے دکھوں سے ان کے  آزاد ہوجانے کی اطلاع ملی۔ کمرے میں اکیلے بیٹھے بے اختیار آنسو اور دعائیں اُمڈ آئیں۔ اپنے سوڈانی میزبانوں کے علاوہ دنیابھر کی تحریکوں سے روابط کا آغاز کردیا۔ بدقسمتی سے اگلے روز جمعہ تھا اور اکثر عرب ممالک میں سفارت خانے بند تھے وگرنہ ہماری بھرپور کوشش اور خواہش تھی کہ نمازِجنازہ میں تحریکاتِ اسلامی کی نمایندگی ہوسکے۔

تقریباً ہر ملک میں مرحوم کے لیے نمازِ جمعہ کے بعد غائبانہ نمازِ جنازہ کا اعلان کیا گیا۔ خرطوم کے اجتماعِ عام میں موریطانیہ سے آئے ہوئے عالمِ ربانی علامہ محمدالحسن الدد نے نمازِ جنازہ پڑھائی، جب کہ تحریکِ اسلامی سوڈان کے سربراہ الزبیر الحسن نے نماز سے قبل پروفیسر صاحب کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ مجھے خرطوم کی مرکزی جامع مسجد جانے کا حکم ملا۔ خطبۂ جمعہ میں معروف اسکالر ڈاکٹر عصام البشیر نے بھی مرحوم کو خراجِ تحسین پیش کیا اور پھر غائبانہ نمازِ جنازہ کے بعد مجھے بنگلہ دیش کے بارے میں اظہارِ خیال کا کہا گیا۔ مسجد میں کئی مسلم سفرا سمیت عوام کی بڑی تعداد تھی۔ نمازِ جنازہ کے بعد تعزیت کا سلسلہ جاری رہا۔باقی دو روز کا قیامِ سوڈان بھی عملاً پروفیسرصاحب کے ذکرخیر ، اس سلسلے میں بیرونی احباب سے روابط اور تعزیتی کلمات ہی کے لیے وقف ہوگیا۔ سب اس پر متفق تھے کہ ڈھاکہ میں پروفیسر غلام اعظم صاحب کی نمازِ جنازہ اور دنیابھر میں غائبانہ نماز ان کی مظلومیت و براء ت اور ظالم حسینہ واجد حکومت کے جرائم کے خلاف واضح  عوامی ریفرنڈم ہے۔ کئی احباب نے امام ابن تیمیہؒ کا یہ جملہ یاد دلایا کہ ’’ہم میں سے کون غلطی پر ہے اور کون حق پر؟ اس بات کا فیصلہ ہمارے جنازے کریں گے‘‘۔ سوڈانی عوام نے بھی اس موقعے پر اپنا فیصلہ شہیدِ زندان پروفیسر غلام اعظم صاحب کے حق میں دیا ہے۔

۲۰۱۴ء میں افغانستان کے صدارتی انتخابات کا تنازع بالآخر حل کر لیا گیا ہے اورایک معاہدے کے تحت دو صدارتی امیدواروں ڈاکٹراشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے درمیان شراکت اقتدار کا معاہدہ طے پانے کے بعد نئے صدر نے حلف اٹھالیا۔ اس طرح حامدکرزئی کے طویل دور صدارت کا ۱۰سالہ خاتمہ اور اس کے جانشین کے تعین کا مسئلہ حل ہو گیا ہے ۔ نئے صدر نے حلف اٹھانے کے بعد اگلے روز امریکا کے ساتھ اس دو طرفہ معاہدے پر دستخط کر دیے جس کا امریکی حکومت کو ایک طویل عرصے سے انتظار تھا اور اس کے لیے اس کو بہت سے پاپڑ بیلنے پڑے، کیونکہ سابق صدرحامد کرزئی نے اس معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا ۔ اس معاہدے کی رو سے اب امریکی صدر باراک اوباما اپنی اعلان کردہ پالیسی کے مطابق افغانستان سے امریکی افواج دسمبر ۲۰۱۴ء تک نکال سکیں گے اور نسبتاً طویل عرصے تک اپنی افواج کا ایک حصہ افغانستان میں بر قرار رکھیں گے ۔

ان دونوں معاہدوں کا ایک تفصیلی جائزہ لینے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم ان چند اہم عوامل کا تذکرہ کریں جو موجودہ دور میں افغانستان کی عالمی سطح پر اہمیت اور واحد سوپر پاور امریکا کے   اس کے بارے میں جاری رویے کی عکاسی کرتے ہیں ۔ ۱۹۷۹ء میں روس نے افغانستان پر    فوج کشی کی اور پھر ایک دہائی تک وہ دنیا کے اس غریب ترین ملک میں کمیونسٹ نظام نافذ کرنے کے لیے کوشاں رہا ۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اس نے پورے افغانستان کو بمباری سے     تباہ و برباد کیا۔ سابق سوویت یونین کی اس جارحیت کے نتیجے میں ۱۵لاکھ افغان جاں بحق ہوئے ہیں، ۵۰لاکھ سے زائد افغان شہر ی پڑوسی ممالک پاکستان اور ایران میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ پوری دنیا نے اس جارحیت کی مذمت کی اور بالآخر افغان مجاہدین کی لازوال قربانیوں اور عالمی طاقتوں کی کوششوں سے وہ افغانستان سے نکلنے پر مجبور ہوا۔ نائن الیون کے واقعے کے بعد۲۰۰۱ء میں امریکا اپنے تمام اتحادیوں اور لائو شکر سمیت افغانستان پر چڑھ دوڑا اور طاقت کے بے تحاشا استعمال کے بعد یہاں کی اسلامی امارت کو ختم کرنے اور اپنی مرضی کی حکومت بنانے میں کامیاب ہوا ۔

 گذشتہ ایک دہائی میں امریکی حکومت نے اربوں ڈالر خرچ کر کے افغانستان میں اپنی مرضی کا جمہوری نظام قائم کرنے کی کوشش کی ۔ صدارتی ،پارلیمانی ، صوبائی ہر سطح پر انتخابات ہوتے رہے لیکن وہ اپنے مقصد میں کس حد تک کامیاب ہوا، اس کی ہلکی سی جھلک آپ ۲۰۱۴ء کے انتخابات کے نتائج میں دیکھ سکتے ہیں۔ جب ناکام ہونے والے صدارتی امیدوار ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے دوسرے مرحلے کے نتائج ماننے سے انکار کر دیا اور بڑے پیمانے پر دھاندلی کا الزام لگایا، تو اس کے بعد دوبارہ گنتی کا اہتمام ہو اجس کو ’ووٹ آڈٹ‘کا نام دیا گیا۔ عالمی مبصرین کی موجودگی میں دونوں صدارتی امیدواران کے نمایندوں کے سامنے ووٹوںکی دوبارہ گنتی کی گئی اور جعلی ووٹوں کو مسترد کیا گیا، تو آخر میں کسی بھی حتمی نتیجے کا اعلان تک نہ کیا جا سکا۔گویا پورا انتخابی عمل جو کئی مہینوں پر محیط تھا اور جس پر کروڑوں ڈالر خرچ کیے گئے تھے، بے نتیجہ رہا اور امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی کوششوں سے دونوں سیاسی شخصیات کے درمیان ایک معاہدے کے نتیجے میں نئی کابل حکومت وجود میں آئی ۔ اب آئیں ڈاکٹر اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ کے درمیان طے پانے والے اس معاہدے کا قدرے تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں۔

پہلا معاہدہ

۲۰ستمبر ۲۰۱۴ء کو طے پانے والے اس معاہدے کا عنوان ہے: ’’قومی اتحادی حکومت کی تشکیل کے لیے دو انتخابی ٹیموں کے درمیان طے پانے والا معاہدہ‘‘۔ اس معاہدے کا آغاز اللہ کے بابرکت نام سے کیا گیا اور اس میں اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ اس کے ذریعے صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کا ایک قانونی حل طے کیا جائے گا ۔ اس معاہدے میں کہا گیا ہے کہ ہمارا محبوب وطن افغانستان جس نازک دور سے گزر رہا ہے، اس کا تقاضا ہے کہ یہاں ایک مضبوط آئینی حکومت کا قیام عمل میں آئے جو سیاسی استحکام اور اجتماعی سوچ کی حامل ہو ۔

موجودہ دور کی نزاکتوں کے پیش نظر ضروری ہے کہ ایک ایسی وسیع البنیاد قومی فکر پیدا کی جائے جو سیاسی اصلاحات اور بنیادی تبدیلیوں کو انگیز کر سکے ۔ قوم کی واضح اکثریت کی نمایندگی کرتے ہوئے دوسرے مرحلے کی انتخابی ٹیمیں اپنی قومی اور اخلاقی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے ایک قومی وحدانی حکومت قائم کر رہی ہیں ۔ اس معاہدے کے تین بنیادی نکات درج ذیل ہیں:

  1. اسلامی جمہوریہ افغانستان کے آئین کو تسلیم کیا جائے گا اور اس کے فراہم کردہ اصولوں ، جہاد کے مقاصد کے حصول اور افغان عوام کی جدوجہد کے پیش نظر ایک قومی و اصلاحی پروگرام بنایا جائے گا۔
  2.  سیاسی مفاہمت کے نتیجے میں قومی حکومت کا قیام ، صدارتی فرمان کے ذریعے چیف ایگزیکٹو کے عہدے کی تخلیق، لویہ جرگہ کا انعقاد جس میں ایگزیکٹو وزیر اعظم کے منصب کا قیام، اہم حکومتی عہدوں کی تعیناتی ،اتفاق راے اور میرٹ اور انتخابی اصلاحات کو عمل میں لایا جائے گا۔
  3. جس طرح دونوں پارٹیوں نے باہمی اتفاق سے الیکشن آڈٹ کا کام مکمل کیا اسی طرح سیاسی محاذ پر بھی دونوں مل کر کام کریں گے ۔ اس کے لیے مشترکہ کمیشن مقرر کیا جائے گا جو مل کر تمام معاملات طے کرے گا۔

بعد میں اس معاہدے پر دونوں صدارتی امیدواروں ڈاکٹر محمد اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے اپنے دستخط ثبت کیے ۔ معاہدے کے گواہ کے طور پر افغانستان میں امریکی سفیر جیمزبی کننگھم اور اقوام متحدہ کے نمایندے جان کیوبس نے بھی دستخط کیے۔

معاہدے میں بین الاقوامی برادری کا شکریہ ادا کیا گیا ہے جس نے سیاسی اور تکنیکی معاونت فراہم کی، اور متعلقہ پارٹیوں کو یقین دہانی کرائی کہ وہ اس معاہدے پر عمل درآمد اور قومی حکومت کے قیام کی حمایت کرتے رہیں گے ۔

اس معاہدے کے بعد ۲۹ستمبر کو ڈاکٹر اشرف غنی نے افغان صدارتی محل (ارگ)میں ہونے والی ایک بڑی تقریب میں نئے افغان صدر کی حیثیت سے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا ۔ اس موقعے پر جنرل عبدالرشید دوستم اور سرور دانش نے نائب صدور کی حیثیت سے حلف اٹھایا ، جب کہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے چیف ایگزیکٹو (CEO)کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ یہ وہ منصب ہے جو خاص ان کے لیے نئے معاہدے میں تخلیق کیا گیا ہے ۔ تقریب حلف برداری میں صدر پاکستان ممنون حسین، عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی خان، پشتون خوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی، قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیر پاؤ اور اسماعیلی فرقے کے روحانی پیشوا پرنس کریم آغا خان کے علاوہ متعدد ممالک کے سربراہان اور نمایندوں نے شرکت کی۔ نئی حکومت کو اب کابینہ سازی کا مرحلہ درپیش ہے جس کے لیے دونوں گروپوں کے ممکنہ امیدوار کابل میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں اور زبردست جوڑ توڑ کا سلسلہ جاری ہے ۔

دوسرا معاہدہ

دوسرا معاہدہ جو ریاست ہاے متحدہ امریکا اور اسلامی جمہوریہ افغانستان کے درمیان طے پایا وہ باہمی دفاع اور سلامتی کے لیے تعاون کا معاہد ہ ہے جس پر حلف اٹھانے کے بعد اگلے ہی روز ڈاکٹر اشرف غنی احمدزئی نے دستخط کیے ۔ یہ وہ معاہدہ تھا جس کی امریکی حکومت کو بہت جلدی تھی اور عرصۂ دراز سے وہ اس موقعے کے انتظار میں تھے ۔ چنانچہ کوئی وقت ضائع کیے بغیر نئی کابل انتظامیہ کے سربراہ سے دستخط کروا لیے گئے ۔

معاہدے کے مندرجات سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکیوں نے اس کو خاصی عرق ریزی سے تیار کیا ہے ۔ اس کی ۲۶دفعات ہیں ۔ جس میں تفصیل سے ان تمام معاملات و تنازعات کا احاطہ کیا گیا ہے جو تادیر افغانستان میں امریکی افواج کے قیام سے پیدا ہو سکتے ہیں ۔ اس معاہدے کے جواز کے طور پر جو حوالے دیے گئے ہیں، ان میں ۲مئی ۲۰۱۴ء کو افغانستان اور امریکا کے درمیان ہونے والے اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ معاہدہ ، ۲۱مئی ۲۰۱۴ء کو شکاگو میں سربراہان مملکت کانفرنس کا اعلامیہ، اور ۲۰۱۳ء میں افغانستان کے لویہ جرگہ کی قرار داد شامل ہیں۔ اس کا اصل مقصد افغانستان کی سا لمیت، آزادی ،جغرافیائی سرحدوں اور قومی وحدت کی حفاظت ہے ۔ معاہدے کی تمہید میں باربار افغانستان کے داخلی امور میں عدم مداخلت کے اصول کو دہرایا گیا ہے ۔ معاہدے میں اس عزم کا اظہار کیا گیا ہے کہ اس ملک کو القاعدہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے پناہ گاہ نہیں بننے دیا جائے گا۔ پڑوسی ممالک کے خدشات کے پیش نظر اس عزم کا بھی اعادہ کیا گیا ہے کہ افغانستان میں موجود امریکی اڈے اور افواج ان کے خلاف بہر صورت استعمال نہیں کی جائیں گی ۔

معاہدے کی ۲۶ دفعات کے عنوانات حسب ذیل ہیں: اصلاحات کی تشریح ، مقصد اور دائرہ اختیار ، قوانین ، افغانستان کی دفاعی صلاحیت کی ترقی اور استحکام ، دفاع اور سلامتی کے لیے باہمی تعاون کا طریقۂ کار ، بیرونی جارحیت کا سد باب ، طے شدہ سہولتوں اور اڈوں کا استعمال ، جایداد کی ملکیت ، اسلحہ اور آلات کی اسٹوریج اور استعمال ، جہازوں ،کشتیوں اور گاڑیوں کی نقل و حرکت ، ٹھیکہ داری کے ضابطے ، اشیا ے صرف اور مواصلات ، افرادِ کار کی قانونی پوزیشن ، اسلحہ اور یونیفارم کا استعمال ، ملک میں آنے اورجانے کے ضابطے ، درآمدات و برآمدات ، محصولات ، ڈرائیونگ اور پیشہ ورانہ لائسنس کا اجرا ، موٹر گاڑیوں کے لائسنس ، ضروری خدمات، مثلاً ڈاک ، بینکاری وغیرہ ، زرمبادلہ ، قانونی دعوے ، ضمیمے ، تنازعات اور معاہدے ، مشترکہ کمیشن اور معاہدے کی تاریخ نفاذ اور خاتمے کا طریقہ۔ گویا کوشش کی گئی ہے کہ جزئیات میں جا کر امریکی مفادات اور کارروائیوں کو قانونی جواز فراہم کیا جا سکے۔

اس معاہدے کے تحت ہر ہر معاملے میں امریکی مفاد کو ترجیح دی گئی ہے اور پھر بھی دعویٰ  کیا جا رہا ہے کہ افغان امور میں عدم مداخلت اس معاہدے کا سب سے اہم نکتہ ہے ۔ یہ معاہدہ   یکم جنوری ۲۰۱۵ء سے لاگو ہو گا اور اس کی مدتِ کار کا کوئی تعین نہیں کیا گیا ہے، یعنی خاتمے کی کوئی تاریخ نہیں دی گئی۔ صرف یہ کہا گیا ہے کہ اگر کوئی ایک پارٹی اس کو ختم کرنا چاہے تو اس کے لیے      اس دوسری پارٹی کو دوسال کا تحریر ی نوٹس دینا پڑے گا۔ اس معاہدے کے تحت امریکی افواج کو درج ذیل مقامات اور شہروں میں اپنے اڈے قائم کرنے یا برقرار رکھنے کی اجازت ہو گی: کابل ، بگرام ، مزار شریف ، ہرات ، قندہار ، شوراب (ہلمند )،گردیز ، جلال آباد اور شین ڈھنڈ۔ اس کے علاوہ بھی اگر کسی اور مقام پر امریکی فوج چاہے تو اپنی موجودگی رکھ سکے گی، صرف وزارت دفاع سے اس کی اجازت لینی ہو گی ۔

جن مقامات کے ذریعے امریکی افواج افغانستان میں داخل یا خارج ہو سکیں گی ان میں بگرام کا ہوائی اڈا ،کابل کا بین الاقوامی ہوائی اڈا ، قندہار ، شین ڈھنڈ ، ہرات ، مزارشریف اور شوراب کے فضائی مستقر ، زمینی راستے طورخم ، سپین بولدک ، طور غنڈی (ہرات )،ہیرتان بندر (بلخ )اور شیرخان بندر (قندوز) شامل ہیں۔ اس میں ایک عجیب بات یہ ہے کہ جن پڑوسی ممالک سے امریکی افواج گزر کر افغانستان میں داخل ہوں گی آیا ان سے کوئی معاہدہ کیا گیا ہے یا اجازت لی گئی ہے یا نہیں، جس میں پاکستان بھی شامل ہے ، واضح نہیں۔

اس معاہدے میں جس انداز سے افغانستان میں امریکی فوجی کارروائیوں کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے اس پر اب تک عالمی ادارے اور حقوق انسانی کے دعوے دار خاموش ہیں ۔ بین الاقوامی ضابطوں میں اس کی کس قدر گنجایش ہے، اس پر بھی کوئی بات نہیں کر رہا ہے ۔ اس کے اخلاقی پہلوئوں پر بھی کوئی آواز بلند نہیں ہو رہی ہے ۔ ایک عجیب سی خاموشی ہے ۔ اس پر کسی حکومت نے اب تک اپنا احتجاج ریکارڈ نہیں کروایا ۔اس پرکوئی بھی نہیں بول رہا ہے،   حتیٰ کہ افغانستان کے دو اہم اور بڑے پڑوسی اور حریف ممالک روس اور چین کے علاوہ امریکا مخالف ایران بھی اس معاہدے پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہے ہیں ۔ یورپین یونین ، او آئی سی ، اقوام متحدہ کے ادارے ، انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس ، ہیومن رائٹس کمیشن، سب کے سب خاموش ہیں ، جیسے ان سب کے لب سی دیے گئے ہوں۔

امریکا کے اتحادیوں کے ساتھ ساتھ بھارت نے بھی اس معاہدے کا نہ صرف خیر مقدم کیا ہے بلکہ اسے افغانستان کے استحکام اور امن و سلامتی کے لیے ناگزیر بھی قرار دیا ہے ۔ حیرت ہے کہ پاکستا ن جس پر افغانستان میںمداخلت اور طالبان کی تحریک مزاحمت کی پشتیبانی کا الزام تسلسل کے ساتھ لگتا رہا ہے، اس کی جانب سے اس نام نہاد دو طرفہ معاہدے کو سراہا گیا ہے ۔ یہاں یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ جس معاہدے کی تحسین بھارت کی جانب سے کی جا رہی ہے اسے پاکستان کے مفاد میں کیونکر قرار دیا جا سکتا ہے ۔ کیا یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ ہے کہ اس خطے میں ڈیورنڈ لائین کے آرپار لگی آگ کا واحد ذمہ دار امریکا ہے؟ کیا امریکا افغانستان میں اپنی کھلی جارحیت اور پاکستان مخالف عسکریت پسندوں کی پشتیبانی کے الزامات سے خود کو بری الذمہ قرار دے سکتا ہے؟  یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ امریکا جب تک اس خطے میںموجودرہے گا تب تک یہاں نہ تو امن کی خواہش پوری ہو سکتی ہے اور نہ یہ خطہ ہی ترقی اور خوش حالی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے ۔ افغان امریکا دو طرفہ سیکیورٹی معاہدے کا حکومت پاکستان کی جانب سے خیر مقدم تو شاید پاکستانی حکمرانوں کی مجبوری ہو گی لیکن اس کا ایک قابل افسوس پہلو یہ ہے کہ حکومت کے ساتھ ساتھ پاکستان کے کسی بھی سیاسی اور مذہبی راہنما کو بھی اس یک طرفہ معاہدے پر لب کشائی کی ہمت نہیں ہوئی، جن میں نام نہاد قوم پرست راہنمائوں سے لے کر مذہبی راہنما تک شامل ہیں ۔

تاہم، امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے خیبر ایجنسی کے اپنے حالیہ دورے کے موقعے پر پاک افغان بارڈر پر واقع سرحدی علاقے لنڈی کوتل میں ایک بڑے جلسۂ عام سے خطاب کے دوران افغان امریکا سیکیورٹی معاہدے کو مسترد کرتے ہوئے اس پر جن تحفظات کا اظہار کیا ہے،  اس کا افغانستان کو ایک آزاد اور خودمختار ملک کی حیثیت سے دیکھنے والوں کی غالب اکثریت نے زبردست خیر مقدم کیا ہے ۔ واضح رہے کہ سراج الحق صاحب نے مذکورہ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان کے صدر ڈاکٹر اشرف غنی کے طالبان اور حکمت یار گروپ کے ساتھ مذاکرات کو اچھی نظر سے دیکھتے ہیں، البتہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کو ٹھیرانے کے معاہدے پر تشویش ہے۔ انھوں نے کہا کہ افغانستان میں امریکی اور ناٹو افواج کی موجودگی میں تمام ہمسایہ ممالک کے خلاف سازشیں ہوں گی اور اس سے ہمسایہ ممالک میں بے چینی برقرار رہے گی۔ انھوں نے امریکی افواج کی دسمبر۲۰۱۴ء کے بعد افغانستان میں موجودگی کے نتیجے میں ہمسایہ ممالک کی جس بے چینی کا ذکر کیا ہے عملاً تو یہ بات افغانستان کے ہر پڑوسی ملک کے دل کی آواز ہے، لیکن چونکہ یہ ممالک اپنی کمزوریوں اور سیاسی مجبوریوں، نیز بین الاقوامی پابندیوں کی وجہ سے افغان امریکا معاہدے پر کھل کر کچھ کہنے سے معذور ہیں، اس لیے عام تاثر یہی ہے کہ اس معاہدے پر ان کی خاموشی کو جس ظاہری رضامندی سے تعبیر کیا جا رہا ہے، وہ دراصل ان ممالک کی ’دیکھو اور انتظار کرو‘ پالیسی کا مظہر ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ افغانستان کے پڑوسی ممالک نے گذشتہ ۱۳ سالہ خاموشی کے باوجود امریکا کی اپنے پڑوس میں موجودگی کو نہ تو دل سے قبول کیا ہے اور نہ وہ اس موجود گی کو آیندہ ہی ٹھنڈے پیٹوں برداشت کریں گے۔ وہ ایسا کیوں نہیں کریں گے اس کی حقیقت سے ہرکوئی بخوبی واقف ہے ۔

علاقائی اور عالمی تبدیلیوں نے ترکی کو ایک فیصلہ کن موڑ پر لاکھڑا کیا ہے۔ اُس کے لیے  علاقائی اور عالمی سیاست میں کردار ادا کرنے کا انحصار کئی باتوں پر ہے:

  1. امریکا اور یورپی یونین کے تعلقات ترکی کے ساتھ کیا رُخ اورنوعیت اختیار کریں گے؟ امریکا کی نسبت یورپی یونین کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھنا ترکی کی ترجیحات میں شامل ہے، لیکن اس کے باوجود امریکا کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
  2. عرب ریاستیں عالمی جغرافیائی سیاست میں کلیدی اہمیت رکھتی ہیں۔ اُنھیں محض تیل اور گیس کے چشمے سمجھ کر اُن کا سیاسی کردار متعین نہیں کیا جاسکتا، بلکہ یہ عرب ممالک دنیا بھر کے نہایت اہم بحری محلِ وقوع پر واقع ہیں اور ترکی کو یہاں نفوذ کی بہرحال ضرورت ہے۔ اسی طرح اس خطے کے اندر ایران کا کردار بھی اہمیت رکھتا ہے جس نے گذشتہ ۳۰سال کے دوران متعدد ممالک، تحریکات اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ اپنے روابط کا ایک گہرا نظام قائم کرلیا ہے۔ اس صورت حال میں ترکی   اپنا یہ کردار عالمی طاقتوں کے ساتھ تصادم مول لے کر ادا نہیں کرنا چاہتا۔ قفقاز میں روسی اثرونفوذ  قائم ہے۔ البانیا اور بوسنیا میں وسطی یورپ کے ممالک اپنے اثرات رکھتے ہیں۔ لہٰذا ترکی عالمِ عرب کو اپنا ہدف بنائے بغیر کچھ نہیں کرسکتا۔
  3. حالیہ عرب انقلابات نے سیاسی اعتبار سے ترکی کے کردار کو ایک نمونے کے طور پر خطے میں اہم بنا دیا ہے۔ عرب علاقائی صورت حال نے ترکی کو یہ موقع بھی فراہم کردیا ہے کہ وہ ایک تیسرے اور درمیانے فریق کی حیثیت سے عرب ممالک کے داخلی اختلافات کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔
  4. اقتصادی لحاظ سے ترکی سرمایہ کاری کو عرب ممالک میں خسارے سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ ۲۰۱۱ء کے ابتدائی تین ماہ کے دوران ترکی برآمدات مصر اور یمن میں ۲۴ فی صد، تیونس میں ۲۰فی صد، لیبیا میں ۴۳ فی صداور شام میں ۵ فی صد کم ہوگئی تھیں۔ لیبیا اور شام کے حالات زیادہ خراب ہونے کی بنا پر اس شرح میں مزید کمی ہوگی۔

عرب انقلابات کے دوران اور بعد میں عرب ممالک کے حوالے سے ترکی نے کئی اہم مواقع پر اپنے موقف میں تبدیلی کی۔ خصوصاً لیبیا اور شام کے حوالے سے ترکی نے موقف بدلا اور یہ اپنی جگہ ضروری تھا۔ عرب بہار کے دوران ترکی کو داخلی طور پر کچھ انتشار و انارکی کی صورت حال سے سابقہ رہا۔ اس بنا پر ترکی اور دیگر علاقائی ممالک کے مابین تعلقات میں تعطل بھی رہا۔خصوصاً شام، عراق اور ایران کے ساتھ تعلقات سخت کشیدہ ہوچکے تھے۔

مستقبل میں ترکی کے علاقائی کردار کو کئی حوالوں سے دیکھا جاسکتا ہے:

  1. ترکی کردار میں بھتری اور پیش رفت: اس کا انحصار ان اُمور پر ہے کہ  اردگان حکومت کو علاقائی سیاست میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے قومی تائید حاصل رہے۔ کرد مسئلے کو پُرامن طریقے سے حل کرنے کے لیے داخلی اصلاحات کی تکمیل کا مکمل موقع ملے اور اس میں کامیابی حاصل ہوجائے۔ ترک خارجہ سیاست عمومی امریکی سیاست کے ساتھ اتفاق کرتی رہے۔ امریکا، یورپ اور عالمِ عرب کو ایران کے کردار کو متوازن رکھنے کے لیے ترکی کے کردار کی ضرورت برقرار رہے۔
  2. علاقائی منظرنامے میں ترکی کردار کا خاتمہ: یہ امکان رد نہیں کیا جاسکتا۔ کُردوں سے مصالحت میں اردگان حکومت کی ناکامی اس میں اہم عامل ہوگی۔ موجودہ ترکی کا علاقائی کردار ختم ہوجانے میں سیکولر اور اسلامی طاقتوں کے تصادم کو بھی دخل حاصل ہوگا۔ ایک عامل یہ بھی ہے کہ مشرق و مغرب کے درمیان مفاہمت پیدا کرنے میں ترکی خود کو ایک پُل کے طور پر     پیش کرنے میں ناکام رہے۔

مذکورہ امکانات و خدشات کو پیش نظر رکھ کر دیکھا جائے تو گذشتہ چند مہینوں میں ترکی نے بعض اہم کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں اور بعض مواقع پر اپنے موقف میں حیرت انگیز لچک بھی دکھائی ہے۔ امریکا ’داعش‘ کے معاملے میں ترکی سے حمایت اور سرگرم تعاون کا خواہاں ہے، جب کہ ترکی   ’داعش‘ سے پہلے آمربشارالاسد کے خلاف کارروائی چاہتا ہے۔ امریکا چاہتا ہے کہ ترکی اپنے جنوب میں موجود فضائی اڈے سے امریکا کو فضائی کارروائیوں کی اجازت دے بلکہ وہ ترک فضائیہ کو بھی استعمال کرنا چاہتا ہے۔ امریکا نے ترکی سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ شام اور عراق میں مجاہدین کے داخلے پر پابندی سخت کرے اور ان کی مالی مدد بھی بند کی جائے۔

ترکی صدر اور وزیراعظم دونوں کی ترجیحات امریکا سے مختلف ہیں۔ وہ شام کی مقامی جنگ کو اپنے ملک میں داخل ہوتے نہیں دیکھ سکتے۔ وہ اس معاملے میں حق بجانب بھی ہیں کہ ترکی اس وقت ۱۶لاکھ شامی مہاجرین کو پناہ دیے ہوئے ہے۔ شامی شہر کوبانی سے گذشتہ ہفتے ایک لاکھ ۶۰ہزار مزید شامی کُرد خانہ جنگی کی وجہ سے ترکی میں داخل ہوگئے ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ترکی میں کُردوں کی ہنگامہ آرائی اور لڑائی، شام کے دارالحکومت دمشق کی مرہون منت ہے۔ ترکی حکومتی ذرائع نے کہا ہے کہ کچھ لوگ ہم سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ ہم ’کُرد ورکر پارٹی‘ یا ’داعش‘ میں سے کسی ایک کو قبول کرلیں، مگر ترکی حکومت داعش کو بھی اسی طرح دیکھتی ہے جس طرح ’کُردورکر پارٹی‘ کو۔

اس صورت حال نے امریکی مطالبات میں کچھ شدت پیدا کردی ہے اور ترکی پر زور دیا ہے کہ وہ داعش کے خلاف جنگ میں کردار ادا کرے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ترک صدر اردگان نے خطے کے مسائل پر جان دار موقف اپنایا۔ داعش کے خلاف جنگ کے بجاے شامی آمر بشارالاسد کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ مصری فوج کے سابق سربراہ اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور نام نہاد صدرسیسی کے خلاف احتجاج کیا کہ اسے اقوامِ متحدہ کی اسمبلی میں شرکت کا حق حاصل نہیں۔ یہ ایک آمراور غیرجمہوری سربراہِ مملکت ہے۔ سیکرٹری جنرل اقوامِ متحدہ بان کی مون کی طرف سے ناشتے کی دعوت ٹھکرا دی کہ: ’’جس دعوت میں مصری آمر جنرل عبدالفتاح سیسی ہوگا مَیں وہاں نہیںجائوں گا‘‘۔

رجب طیب اردگان کی توانا آواز اور جرأت مندانہ اظہار راے کو برطانوی روزنامہ گارڈین نے یوں بیان کیا ہے: امریکی نائب صدر جوبائیڈن نے ہارورڈ یونی ورسٹی میں اپنے خطاب کے دوران ترکی پر الزام عائد کیا کہ وہ شام اور عراق میں سرکردہ سُنّی جماعت داعش کی حمایت کر رہا ہے۔ طیب اردگان نے امریکی نائب صدر سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے اس بیان پر معذرت کرے اس پر امریکی نائب صدر کو معذرت کرنا پڑی۔ ان حالات کے باوجود ابھی ترک امریکا تعلقات  اس قدر کمزور نہیں ہوئے جس قدر ۲۰۰۳ء میں ہوگئے تھے۔ جب ترکی نے امریکی افواج کو       اپنی سرزمین سے عراق پر حملے کی اجازت نہیں دی تھی۔ داعش کے خلاف برسرِپیکار شام کی کُرد جمہوری پارٹی کو امریکا نے اسلحہ فراہم کرنا شروع کیا تو ترکی نے سخت احتجاج کیا، مگر دوسرے ہی روز یہ خبر آگئی کہ ترکی ان کُردوں کو اپنی حدود سے گزر کر کوبانی کے معرکے میں شریک ہونے کی اجازت دینے پر رضامند ہوگیا ہے۔

چند سال قبل یمن جانا ہوا۔ یمنی تحریک اسلامی التجمع الیمنی للإصلاح کے ذمہ داران نمازِ مغرب کے لیے دار الحکومت صنعاء کے قلب میں واقع ایک تاریخی مسجد لے گئے۔ نماز میں حاضری غیر معمولی محسوس ہوئی۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ حاضری معمول کے مطابق ہے، ہمیں زیادہ اس لیے لگ رہی تھی کہ یمن میں ’زیدی‘ فرقے سے تعلق رکھنے والے شیعہ اور اہلسنت اکٹھے باجماعت نمازِ مغرب ادا کرتے ہیں۔ شافعی عقیدہ رکھنے والے اہل سنت حضرات سنتیں اور نوافل  ادا کرکے چلے جاتے ہیں، جب کہ زیدی حضرات کے مطابق نمازِ عشاء کا وقت مغرب سے آدھ گھنٹے بعد ہوتا ہے، وہ وہیں انتظار کرتے ہیں اور عشاء باجماعت ادا کرکے جاتے ہیں۔ مزید تقریباً ایک گھنٹے بعد انھی مساجد میں اہل سنت آبادی کے لیے باقاعدہ اذان اور نماز عشاء ہوتی ہے۔ یہی رواداری اور اخوت رکھنے والا یمن، گذشتہ کئی سال سے ’زیدی‘ عقیدہ رکھنے والے حُوثی قبائل اور ریاست کے مابین باقاعدہ جنگوں کا شکار ہوچکاہے۔

حالیہ ۲۱ ستمبر ان جنگوں کا عروج تھا۔ اس روز ’عبد الملک الحُوثی‘ کی سرپرستی میں خلیجی ممالک کی ایک قدرے نئی مسلح تنظیم ’انصار اللہ‘ نے اپنے اسلحے کے بل بوتے پر دارالحکومت صنعاء کا انتظام و انصرام سنبھال لیا۔ عالم عرب کے عوام میں تشویش کی گہری لہر دوڑ گئی، اور کہا جارہاہے کہ آج سقوط یمن کا سانحہ ہوگیا۔ اسی شام قصر صدارت میں اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی جمال بنعمر (مشکوک ماضی رکھنے والا مراکش کا سابق سیاستدان) کی زیر نگرانی عبوری صدر عبد ربہ ھادی منصور، حوثی نمایندوں اور دیگر یمنی جماعتوں کے مابین ایک دستاویز پر دستخط ہوئے۔ اس دستاویز کو  اتفاقیۃ السلم والشراکۃ (معاہدہ امن و اشتراک) کا نام دیا گیا۔ اس معاہدے کے مطابق یمنی حکومت کا خاتمہ ہوگیا ہے، اور اب چند روز میں ایک ٹیکنو کریٹ حکومت قائم ہونا ہے جس کا وزیراعظم حُوثی ہوگا۔ حُوثیوں نے اگرچہ امن معاہدے پر دستخط کردیے ہیں، لیکن فوجی اور دفاعی امور سے متعلق دستاویز کو قبول نہیں کیا۔ دارالحکومت پر قبضے کے اگلے روز ۲۲ ستمبر کی شب زبردست آتش بازی اور فائرنگ کرتے ہوئے ’’انقلاب آزادی‘‘ کی کامیابی کا جشن منایا اور وزارت دفاع، داخلہ، فوجی مراکز سمیت دارالحکومت کے تمام حساس علاقوں پر اپنا قبضہ مستحکم کرلیا۔ اسی اثنا میں اہم فوجی چھاؤنیوں سے ٹینکوں، توپوں اور بکتربندگاڑیوں پر مشتمل بھاری اسلحہ اپنے قبضے میں لیتے ہوئے، شمال میں واقع اپنے فوجی ٹھکانوں میں منتقل کردیا۔ آگے بڑھنے سے پہلے، آئیے ذرا حُوثیوں اور زیدی فرقے کا تھوڑا سا مزید تعارف حاصل کرلیں۔

زیدی:

یہ اہم شیعہ فرقہ، حضرت زید بن علی زین العابدینؒ ]ولادت ۸۰ہجری- شہادت ۱۲۲ ہجری [ سے منسوب ہے۔زیدی اپنے عقائد کے اعتبار سے اہل سنت سے انتہائی قریب ہیں۔ حضرت ابوبکرصدیق، حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان غنی (رضی اللہ عنہم) کی خلافت کو درست تسلیم کرتے ہوئے یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ’افضل‘ کی موجودگی کے باوجود ’مفضول‘ کی امامت تسلیم کی جاسکتی ہے۔ تمام صحابہ کرامؓ کا احترام کرتے ہیں اور ان میں سے کسی پر تبرا بھیجنا گناہ سمجھتے ہیں۔ ۱۲۲ ہجری میں اہل کوفہ نے جناب زید بن علی زین العابدین کو اُموی خلیفہ ہشام بن عبد الملک کے خلاف خروج کے لیے قائل کرلیا، لیکن عین میدان میں یہ کہتے ہوئے تنہا چھوڑ گئے کہ آپ  ابوبکرؓ اور عمرؓ پر تبرا نہیں بھیجتے۔ آپ اپنے باقی ماندہ ۵۰۰ جاں نثاروں کے ہمراہ میدان میں اُترے اور پیشانی پر تیر لگنے سے شہید ہوگئے۔ آپ کی شہادت کے بعد آپ کے صاحبزادے جناب یحی بن زیدؒ اور پیروکار مختلف ممالک میں مقیم رہے اور بالآخر یمن میںمستقل سکونت اختیار کی۔ مختلف اَدوار میں اقتدار بھی قائم ہوا جس کی آخری کڑی عثمانی خلافت کے خلاف امام یحیٰ بن منصور کی بغاوت تھی۔ یہ آخری زیدی ریاست گذشتہ صدی میں ۱۹۶۲ء تک قائم رہی۔

یمن:

تقریباً ۲۸ہزار مربع کلومیٹر رقبے پر مشتمل جمہوریہ یمن، سعودی عرب کے جنوب اور سلطنت عمان کے مغرب میں واقع ہے۔ اڑھائی کروڑ پر نفوس مشتمل آبادی کا تقریباً ۵۰ فی صد خط غربت سے نیچے زندگی گزارتا ہے۔ اہم جغرافیائی اہمیت رکھتا ہے۔ سعودی عرب کی ڈیڑھ ہزار کلومیٹر  طویل سرحد یمن سے ملتی ہے۔ اس لیے سعودیہ کا وسیع جنوبی علاقہ اس سے براہِ راست متأثر ہوتا ہے۔ بحیرۂ احمر کی اہم گزرگاہ باب المندب بھی یمنی ساحل ہے۔ ملک کی ۸۵فی صد آبادی مختلف قبائل پر مشتمل ہے اور تقریباً ہر شخص مسلح ہے۔ آبادی کا ۷۰  فی صد اہل سنت (امام شافعی کے پیروکار)  ہیں اور ۳۰ فی صد زیدی شیعہ ہیں۔ براے نام تعداد میں اسماعیلی بھی ہیں۔۲۰۱۱ء  میں عالم عرب میں طویل آمریت کے خلاف اٹھنے والی عوامی تحریکوں کا اثر یمن بھی پہنچا اور علی عبد اللہ صالح کا ۳۳سالہ اقتدار ختم ہوا۔ نائب صدر عبدربہ ھادی منصور کی سربراہی میں ایک عبوری حکومت قائم ہوئی، جس میں الاصلاح تحریک (اخوان) سمیت تقریباً تمام پارٹیوں کو حصہ ملا۔ عبوری فارمولے کے مطابق ۲۰۱۵ء میں نئے دستور پر ریفرنڈم اور پھر عام انتخابات ہونا تھے، لیکن اب سارا نقشہ تبدیل ہوگیا ہے۔

’انصار اللّٰہ‘ تحریک اور حوثی:

شمالی یمن میں واقع زیدی اکثریت کے پہاڑی علاقے ’صعدہ‘ میں ایک مسلح دینی تحریک ’تحریک مؤمن نوجوانان‘ کے نام سے فعال تھی۔  ۱۹۹۲ء میں اسے ’انصار اللہ‘ کا نام دے دیا گیا۔ بانی کا نام حسین بدر الدین الحوثی تھا۔ انھی کی نسبت سے پوری تحریک کو حوثیوں کی تحریک کہا جاتا ہے۔ تحریک نے آغاز ہی سے اپنے مذہبی تشخص اور  مسلح تربیت پر زیادہ توجہ دی اور دعویٰ کیا کہ حکومت نے زیدیوں کے حقوق سلب کررکھے ہیں۔ ۲۰۰۴ء میں صدر علی عبد اللہ حکومت کے ساتھ ان کی باقاعدہ مسلح جھڑپیں شروع ہوگئیں۔ تحریک کا بانی حسین الحوثی ایک لڑائی میں مارا گیا تو اس کے بھائی عبدالملک حوثی نے سربراہی سنبھال لی، جو تاحال جاری ہے۔ ۲۰۱۰ء  تک یمنی حکومت اور انصار اللہ کے مابین چھے باقاعدہ جنگیں ہوئیں۔ ۲۰۰۹ء  میں ایک جنگ خود سعودی عرب سے بھی ہوگئی۔ اسی اثنا میں حوثیوں کے کئی ذمہ داران زیدی شیعہ سے اثنا عشری عقیدے کی طرف منتقل ہوگئے اور کئی حوالوں سے شدید تعصب کا شکار بھی۔

علی عبد اللہ صالح کی حکومت ختم ہونے کے بعد عبوری حکومت قائم ہوئی تو حوثی اس کا حصہ نہ بنے۔ البتہ جب حکومت نے ’’قومی مذاکرات‘‘ کے نام سے تمام سیاسی قوتوں سے مشاورت شروع کی تو حُوثی بھی اس میں شریک ہوئے۔ مذاکرات ابھی تکمیل کو نہ پہنچے تھے، کہ حُوثیوں نے پھر سے مسلح کارروائیاں شروع کردیں اور ایک ایک کرکے مختلف علاقوں پر اپنی بالادستی قائم کرتے ہوئے دار الحکومت صنعاء کے قریب آن پہنچے۔ مالی مشکلات کی شکار حکومت کو گذشتہ جولائی میں   وہ مشکل قدم بھی اٹھانا پڑا، جس کے بارے میں وہ شدید تردد کا شکار تھی۔ پٹرول اور اس کی مصنوعات کو دی گئی سرکاری سب سڈی کا ۵۰ فی صد ختم کردیا گیا۔ عسکری لحاظ سے مضبوط تر اور  فرقہ واریت کی بنیاد پر قائم جماعت نے موقع غنیمت جانا، اپنی تحریک کا فیصلہ کن اقدام اٹھاتے ہوئے تین مطالبات کا نعرہ لگادیا: ۱- حکومت مستعفی ہو اور ٹیکنو کریٹ حکومت بنائی جائے۔۲- سب سڈی ختم کرنے کا فیصلہ واپس لیا جائے ۳- قومی مذاکرات کی سفارشات پر عمل درآمد کیا جائے (حالانکہ اس کی سفارشات پر دستخط ہی نہیں ہوئے)۔ چند ہفتوں کی مزید فوجی کارروائیوں، وزیراعظم ہاؤس کے سامنے خوں ریز جھڑپوں، اور سیاسی مطالبات کی تشہیر کے بعد ۱۷؍ اگست کو دار الحکومت کے چاروں اطراف میں دھرنا دے دیا گیا۔ بالآخر یہی دھرنا اور خوں ریز جھڑپیں ۲۱ ستمبر کو دارالحکومت پر ’انصار اللہ‘ کے قبضے، حکومت کے خاتمے اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں ایک معاہدے پر منتج ہوا۔

تلخ حقائق، اثرات و نتائج

یہ امر اب ایک کھلا راز ہے کہ حُوثیوں کو پہلے روز سے ایران کی مکمل سرپرستی حاصل ہے۔ یمنی افواج سے چھے اور سعودی عرب سے ایک جنگ کے دوران اسے سمندری راستے سے ایرانی اسلحے کی مسلسل ترسیل جاری رہی اور اسے زیادہ چھپایا بھی نہیں گیا۔ ادھر سعودی عرب نے بھی اپنے گھوڑے صدر علی عبد اللہ صالح کی بھرپور پشتیبانی کی۔ یہ جاننے کے باوجود کہ ۳۳ سالہ بانجھ دورِاقتدار کے بعد، اسے یمنی عوام کی غالب اکثریت مسترد کرچکی ہے، اسی کو باقی رکھنے کی کوشش کی گئی۔ بالآخر جب وہ اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا تو سعودی عرب نے یمن کی جغرافیائی، تاریخی اور سیاسی اہمیت کے باوجود، وہاں وہ دل چسپی نہ لی جس کے حالات متقاضی تھے۔ خود علی عبداللہ صالح جس نے حوثیوں سے کئی جنگیں لڑی تھیں، موجودہ یمنی حکومت سے انتقام کی آگ میں جھلستے ہوئے حوثیوں کی حوصلہ افزائی کرنے لگا۔ فوج اور بیوروکریسی میں موجود اپنے سب نمک خواروں کو بھی یہی پالیسی اختیار کرنے کا کہا۔

یہ تلخ حقیقت یقینا اپنی جگہ درست ہے کہ حوثیوں نے دارالحکومت کو اسلحے، بیرونی سرپرستی اور اندرونی سازشوں کے بل بوتے پر زیر کیا ہے لیکن بعض اہم ترین حقائق اور بھی ہیں۔ مثلاً یہ کہ یمن کی عبوری حکومت میں مؤثر ترین عوامی حکومت وہاں کے ’اخوان‘ ہیں۔ مصر میں اخوان کی  منتخب حکومت کے خاتمے اور لیبیا میں اخوان کی ممکنہ کامیابی کو خانہ جنگی کی نذر کردینے کے بعد یمن سے بھی ان کا اقتدار ختم کرنا بعض عرب ممالک کے لیے تمام اہداف سے زیادہ اہم ہدف ٹھیرا۔ یمن میں نہ صرف الاصلاح (یعنی اخوان) کا اقتدار ختم کرنا اصل مقصود قرار پایا، بلکہ نقشہ یوں بنایا گیا کہ اپنی قیادت کے ایک اشارے پر جان تک قربان کرنے کے لیے تیار لاکھوں اخوانی کارکنان کو براہِ راست مسلح حُوثیوں کے سامنے لاکھڑا کیاجائے۔ دارالحکومت صنعاء سے پہلے جہاں جہاں حُوثیوں نے قبضہ کیا، وہاں الاصلاح کے ذمہ داران اور ان کے مختلف اداروں کو بالخصوص نشانہ بنایا گیا۔ دارالحکومت کا محاصرہ کیا گیا تو الاصلاح کے وزرا اور ذمہ داران کو دھمکیاں ہی نہیں دی گئیں، ان کے بعض نوجوان قائدین کو شہید بھی کردیا گیا۔ صنعاء میں قائم ان کی بین الاقوامی یونی ورسٹی (الایمان یونی ورسٹی) جہاں ہزاروں ملکی و غیر ملکی طلبہ زیر تعلیم تھے پر قبضے کی دھمکیاں دی گئیں۔ اور مختلف اطراف سے ایسے بیانات آنے لگے کہ حکومت ریاست اور فوج تو بہت کمزور ہوگئے ہیں، اب اگر یمن کو حوثی خطرے سے کوئی بچا سکتا ہے تو وہ ’الاصلاح‘ ہے۔ یہ مہم اتنی وسیع تر تھی کہ ہمیں پاکستان میں بھی اس طرح کے ایس ایم ایس موصول ہونے لگے کہ: ’’آج یمنی اسلامی تحریک کے فلاں ذمہ دار شہید کردیے گئے، الاصلاح کب تک ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہے گی؟‘‘ خدا کا شکر ہے کہ الاصلاح کسی اشتعال انگیز مہم کا شکار نہیں ہوئی۔ اس نے مسلسل یہی کہا کہ حکومت اور فوج کی ذمہ داریاں، ہم اپنے سر نہیں لیں گے۔ ہم کسی مسلح تصادم کا حصہ نہیں بنیں گے خواہ حوثی ہمارے گھروں پر ہی کیوں نہ قابض ہوجائیں۔ پھر جیسے ہی دارالحکومت پر چڑھائی شروع کی گئی تو حیرت انگیز طور پر کہیں کسی ریاستی ادارے فوج، پولیس، پیرا ملٹری فورسز نے حوثیوں کے سامنے مزاحمت نہ کی۔ منصوبہ بندی کرنے والوں کا مقصد یہ تھا کہ یمن جیسے مسلح معاشرے میں خانہ جنگی شروع کرواتے ہوئے، جہاں ایک طرف ایک مستقل شیعہ سنی تنازعہ کھڑا کردیا جائے وہیں سب سی بڑی عوامی قوت الاصلاح کو حوثیوں کے مہیب اسلحے کے ذریعے کچل دیا جائے۔ اگر ایسا نہ ہوسکے تب بھی انھیں حکومت سے تو بے دخل کر ہی دیا جائے۔ فی الوقت یہ دوسرا ہدف حاصل کیا جاچکا ہے۔

یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ یمن میں ’انصار اللہ‘ اور حوثیوں کا اقتدار بنیادی طور پر  ایران کا اقتدار ہے۔ ایرانی اخبارات ہی نہیں، ذمہ داران بھی اس کا کھلم کھلا اعلان کررہے ہیں۔ تہران سے منتخب رکن اسمبلی علی رضازاکانی کا یہ بیان عالم عرب میں بہت نمایاں ہورہا ہے کہ  ’’ایران اب چار عرب دارالحکومتوں پر اختیار رکھتا ہے۔ بغداد، دمشق، بیروت اور اب صنعاء‘‘۔ اگر یہ بیان حکومتی کارپردازان کے دل کی آواز سمجھا جائے، تو اس کا مطلب ہے کہ تمام خلیجی ریاستیں تین اطراف سے ایرانی گھیرے میں آگئی ہیں۔ بدقسمتی سے سیاسی نفوذ کی اس لڑائی پر فرقہ وارانہ تیل کی بارش بھی کی جارہی ہے۔ طرفین کے ذرائع ابلاغ اشتعال انگیز سرخیاں جمارہے ہیں: ’’انقلابیونِ یمن پاکسازی تکفیری ھا را آغاز کردند‘‘ (ایرانی روزنامہ کیہان)، یمنی انقلابیوں نے تکفیریوں کا صفایا شروع کردیا۔ ’’حوثیوں کی صفوی یلغار کو ناکام کرنا، یمن کا ہی نہیں، مکہ اور مدینہ کا دفاع ہے‘‘ (معروف کویتی دانشور ڈاکٹر عبداللہ نفیسی)۔

اگرچہ سرکاری سطح پر کئی عرب ممالک نے اقوام متحدہ کی سرپرستی میں ہونے والے امن معاہدے کی تائید کی ہے، لیکن عوامی سطح پر اسی معاہدے سے مزید شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں۔ سوشل میڈیا میں سوال اٹھائے جارہے ہیں کہ متعدد مسلم ممالک کی طرح یمن میں کوئی نامعلوم بم دھماکے نہیں، حوثی بھاری اسلحہ لیے پھرتے ہیں، لیکن کسی مغربی ملک کو ’دہشت گردی‘ یا ’’داعش‘‘ جیسے نام یاد نہیں آرہے۔ کسی مغربی ملک نے اپنے شہریوں کو وہاں سے نہیں نکالا۔ جامعہ الایمان ہی نہیں اس کے ہاسٹل میں مقیم طلبہ تک کا سامان لوٹ لیا گیا۔ لیکن قریب ہی واقع امریکی سفارتخانہ بلاخوف و خطر حسب معمول کام کرتا رہا۔ معاہدہء امن پر دستخط کرنے کے ۴۸گھنٹے بعد یمنی صدر عبدربہ کے اس بیان نے عوام کے ان شکوک شبہات کو زبان دی ہے کہ ’’یمن میں جو کچھ ہورہاہے وہ ایک خوف ناک عالمی سازش اور ملک کے اندر سے کئی عناصر کی خیانت کا نتیجہ ہے‘‘۔

یہ تحریر آپ تک پہنچنے تک یمن میں ٹیکنو کریٹس پر مشتمل ایک نئی عبوری حکومت تشکیل پاچکی ہوگی، لیکن لگتا ہے کہ خطے میں بڑی بڑی تبدیلیوں کا سلسلہ تھمنے کے بجاے، مزید تیز تر ہوجائے گا۔ یمن کی تبدیلی مشرق وسطیٰ کے باقی ممالک کی تبدیلیوں سے الگ نہیں دیکھی جاسکتی۔ عراق اور شام میں ’داعش‘ جیسے پراسرار دیو کے خلاف امریکی کارروائی شروع ہوگئی ہے۔ اس ڈرامے کا اصل راز اسی بات سے معلوم ہورہا ہے کہ امریکی افواج کی موجودگی میں چند روز کے اندر اندر عراق اور شام کے وسیع رقبے پر قبضہ کرلینے والی اس تحریک کے خلاف جنگ کے لیے، امریکی وزیر دفاع چک ہیگل (Chuck Hagel) نے پانچ سو پچاس ارب ڈالر کا تقاضا کیا ہے۔ یقین نہیں آرہا تو رقم دوبارہ پڑھ لیجیے، اتنی ہی رہے گی۔ صاحب بہادر نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ یہ جنگ تین سال تک جاری رہ سکتی ہے۔ کچھ دیگر ذرائع ۱۰ سال کی مدت بھی دے رہے ہیں۔ کیا یہ باعثِ حیرت نہیں کہ  گذشتہ تین سال میں ۳لاکھ سے زائد بے گناہ شامی عوام کے قتل پر تو خالی خولی بیانات، اور اب دومغویوں کے قتل کے بعد اتنی بڑی جنگ ...؟ قتل ہونے والے برطانوی شہری کے اہلِ خانہ نے تو ایک پریس کانفرنس میں یہ بھی بتایا ہے کہ ہم کئی بار اغواکاروں سے معاہدے کے قریب پہنچے لیکن برطانوی حکومت رکاوٹ بنتی رہی۔اکثر مسلمان ممالک اس جنگ کے ’بجٹ شریک‘ حصہ بن گئے ہیں۔ ترکی پر بھی مسلسل اور شدید دباؤ ڈالا جارہا ہے۔ اس نے کسی زمینی جنگ کا حصہ بننے سے انکار کیا، تو اس پر ’داعش‘ اور ’دہشت گردی‘ کی امداد کے الزامات عائد ہونا شروع ہوگئے ہیں۔

عرب ممالک سے شام کا جلاد بشار الاسد قبول کروانے کے لیے ایک پتّا یہ بھی پھینکا جارہا ہے کہ ’’یمن سے حوثیوں کااقتدار ختم کروانے کے بدلے، شام میں بشار کی تائید کرو‘‘۔ ۷۰ فی صد آبادی اور مسلح قبائل پر ویسے بھی حُوثی کتنی دیر تک مسلط رہ سکیں گے؟ لیکن یہ امر طے شدہ ہے کہ پورے خطے پر مسلط کیا جانے والا مسلح گروہوں کا منصوبہ تیزی سے پایۂ تکمیل کو پہنچایا جارہا ہے۔ اس نازک موقعے پر ہر صاحب خرد کو اپنی اپنی جگہ اس آگ کو بجھانے میں اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔ امریکی، اسرائیلی یا بھارتی استعمار کے خلاف جہاد پر پوری اُمت کا اجماع ہے۔مسلمانوں کو مسلمانوںکے خون کا پیاسا بنا دینے کے انوکھے فارمولے کا اکلوتا فائدہ ، صرف اور صرف امریکا اور صہیونی ریاست اور بے گناہ عوام کی گردنوں پر مسلط ظالم درندوں ہی کو پہنچے گا۔

’داعش‘ ہی کو دیکھ لیجیے، نام تو ریاست اسلامی رکھا ہے لیکن اب تک کی سب سے کامیاب کارروائی گذشتہ تین برس سے بشارالاسد کے خلاف برسرِپیکار مخلص مجاہدین ہی کے خلاف کی ہے۔ ’احرار الشام‘ کی مجلس شوریٰ کا خفیہ اجلاس شام کے اِدلب میں ایک زیرزمین خفیہ مقام پر ہورہا تھا کہ ان پر حملہ کر کے تحریک کے سربراہ سمیت مجلس شوریٰ کے ۴۵ مخلص ترین ارکان شہید کردیے۔ سیکڑوں ارب ڈالر کا بجٹ اور جنگ کی طویل مدت کا اعلان ہی بتا رہا ہے کہ اس کے خلاف جنگ کرنے والے ہی اسے باقی رکھیں گے۔

تین سال قبل لیبیا میں شروع ہونے والے انتفاضہ کے نتیجے میں قذافی حکومت کا خاتمہ ہوا اور دیگر عرب ممالک کی طرح یہاں بھی عبوری حکومت قائم ہوئی جس نے پُرامن انتقالِ اقتدار کا وعدہ پورا کیا، مگر بدقسمتی سے نئی حکومت کے قیام سے لے کر اب تک لیبیا میں انتشار و انارکی اور ہلاکت و تباہی کا دور دورہ ہے۔ اب تو صورت حال سنگین تر ہوگئی ہے۔ داخلی جنگ نے ملک کو تخریب سے دوچار کر رکھا ہے۔ کئی ناموں سے تنظیمیں موجود ہیں جو مسلح کارروائیوں میں شریک ہیں۔ قتل و غارت اور لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے۔ عبوری حکومت بھی اور منتخب حکومت بھی دونوں ملک کو اس صورت حال سے باہر نکالنے میں ناکام رہی ہیں۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ حکومت اور حکمرانی نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے۔ مسلح کارکن اور جماعتیں سمجھتی ہیں کہ انقلاب برپا کرنے والے صرف ہم ہیں۔ قذافی حکومت کا خاتمہ ہمارا کارنامہ ہے۔ لہٰذا اُس کی جگہ حکمرانی کا حق ہم ہی رکھتے ہیں۔ بہت سی مسلح تنظیموں کے قائدین ہتھیار چھوڑنے کے قائل نہیں ہیں۔ اسلحہ اُٹھانا اور اسے استعمال میں لانااُن کی عادت اور مزاج بن گیا ہے جس نے ملک کو ہلاکت و تباہی میں ڈال رکھا ہے۔

انقلاب کے ایک سال بعد ۲۰۱۲ء کے انتخابات کے نتیجے میں علی زیدان محمد نے وزارتِ عظمیٰ سنبھالی۔ ستمبر ۲۰۱۲ء سے لے کر مارچ ۲۰۱۴ء تک علی زیدان اس منصب پر متمکن رہے مگر اس دوران وہ کوئی بھی قابلِ ذکر کامیابی حاصل نہ کرپائے۔ ان کے انتخاب کے موقعے پر ہی عالمی ذرائع ابلاغ کے تبصروں میں یہ بات موجود تھی کہ وہ ایک کمزور وزیراعظم ہوں گے۔ واقعتا ان کا دورِحکومت اس بات کا شاہد رہا۔ مارچ ۲۰۱۴ء میں تو ان کے اغوا کا حادثہ بھی سامنے آیا اور پھر وہ حکومت سے دستبردار ہوگئے۔ ان کے بعد عبداللہ الثنی نے وزارتِ عظمیٰ کا قلم دان سنبھالا۔ یہی انتخابات کا بھی زمانہ تھا۔ نئی حکومت کی تشکیل کے لیے انتخابات ہوئے مگر ان کو انتخابات کہنا بھی مذاق ہے۔ پانچ چھے فی صد کی شرح جن انتخابات میں رہی ہو اُس کے نتیجے میں کیسی حکومت تشکیل پائے گی اور اس کی قانونی حیثیت کیا ہوگی۔ خود اس حکومت کی طاقت اور اختیار کا عالم کیا ہوگا، اس کا اندازہ مشکل نہیں۔ بہرحال ان انتخابات میں عوام کی لاتعلقی اور عدم دل چسپی کااظہار بہت واضح رہا ، حتیٰ کہ نومنتخب ارکانِ اسمبلی کو بھی اسمبلی کے اجلاس اور تشکیل حکومت کے عمل سے خاص دل چسپی دکھائی نہیں دی۔ ۲۰۰کے ایوان میں ۹۳،۹۴ ممبران اسمبلی تشکیل حکومت کے لیے منعقدہ اجلاس میں شریک ہوئے۔ وزارتِ عظمیٰ کے اُمیدوار احمد معیتیق کو حاضر افراد میں سے ۸۳ کا ووٹ ملا۔ احمد معیتیق ارکانِ اسمبلی میں سب سے کم عمر ممبر تھے۔ ان کی کابینہ کی تشکیل کے چند ہی گھنٹے بعد ان کے گھر کا بھی محاصرہ کرلیا گیا اور فائرنگ کے نتیجے میں ایک شخص مارا گیا اور کچھ زخمی ہوئے۔ معیتیق محفوظ رہے۔ ادھر عبوری وزیراعظم عبداللہ الثنی نے چارج دینے سے انکار کر دیا اور دونوں افراد کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی شروع ہوگئی۔ معیتیق نوعمر اور نوتجربہ کار ہونے کے باعث انتہائی کمزور وزیراعظم تھے۔ غالباً فوج نے بھی عبداللہ الثنی کی حمایت کی جس کی بناپر وہ وزارتِ عظمیٰ چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھے۔ بالآخر عدالت ِ عظمیٰ کو مداخلت کرنا پڑی اور عدالت نے عبداللہ الثنی کو برقرار رکھتے ہوئے ایک مصالحتی کونسل کی تشکیل کا اعلان کیا جس کا مقصد حالات کو درست کرنا تھا۔ ستمبر میں عبداللہ الثنی کو بھی کابینہ کی تشکیل کا ہدف دیا گیا تو اس کے لیے پارلیمان کا اجلاس ہوا مگر وزارتوں پر ارکانِ اسمبلی کے اختلافات کے باعث اجلاس برخاست کردیا گیا۔ ارکانِ اسمبلی کا مطالبہ تھا کہ بحرانی حالات کے پیش نظر کابینہ کو مختصر سے مختصر رکھا جائے مگر وزیراعظم کے لیے یہ ممکن نہیں تھا۔

۲۲ستمبر کی شام کو طبرق شہر میں ہونے والے اجلاس میں عبداللہ الثنی کی حکومت کو اعتماد کا ووٹ مل گیا ۔ نوتشکیل شدہ حکومت کو اجلاس میں حاضر ۱۱۲؍ارکانِ اسمبلی میں سے ۱۱۰ نے ووٹ دیا۔ وزارتِ دفاع سمیت ۱۰ وزرا پر مشتمل کابینہ وجود میں آئی۔ وزارتِ دفاع کا قلم دان وزیراعظم الثنی نے اپنے پاس رکھا ہے اور تین ارکان بھی وزیراعظم کے مشیران کی حیثیت سے اُن کے ساتھ ہوں گے۔ وزیرخارجہ محمد الدایری ہیں اور وزارتِ داخلہ عمر السکنی کے حوالے کی گئی ہے۔

دوسری طرف المؤتمر الوطن (عبوری کونسل) نے بھی عمرالحاسی کی صدارت میں ’نگران حکومت‘ تشکیل دے رکھی ہے۔ الثنی اور الحاشی کے درمیان اس وقت نزاع موجود ہے۔ عبوری کونسل کے اجلاس طرابلس میں اور منتخب اسمبلی کے طبرق میں ہو رہے ہیں۔ الثنی کے طرف داروں کا کہنا ہے کہ عبوری کونسل اپنی میعاد پوری کرچکی ہے، جب کہ عبوری کونسل کا بیان ہے کہ نومنتخب ارکان کی اسمبلی نے جون میں اجلاس منعقد کر کے دستوری اعلان کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس بناپر انتقالِ اقتدار کا عمل اس اعلان کے مطابق انجام نہیں پاسکتا۔ عدالت نے اس دستوری نزاع پر اکتوبر کے شروع میں فیصلہ دینے کا کہا ہے۔

قذافی حکومت کے خاتمے (۲۰۱۱ء) سے لے کر اب تک لیبیا سیاسی اعتبار سے دو گروپوں میں تقسیم ہے، اور نیا ایوان بھی اسی چیز کی نمایندگی کرتا ہے جو جون کے انتخابات کے بعد بنا۔ الثنی کی حکومت لبرل گروپ کی نمایندہ ہے، جب کہ دوسرا گروپ اسلام پسندوں پر مشتمل ہے۔ انقلاب کے بعد سے اب تک عبوری اور منتخب حکومت میں سے کسی کے لیے بھی ممکن نہیں ہوسکا کہ وہ عملاً حکومت کرسکیں۔ زیدان حکومت کی بے بسی کے بعد اب عبداللہ الثنی کی بے چارگی کا عالم یہ ہے کہ دارالحکومت طرابلس میں اسمبلی کا اجلاس منعقد کرنا ان کے لیے ممکن نہیں ہوسکا۔ اُنھیں یہ اجلاس طبرق شہر میں بلانا پڑا۔ نومنتخب حکومت پر لبرل افراد کا غلبہ ہے اور دارالحکومت اسلام پسندوں کے قبضے میں ہے۔ایوانِ حکومت طرابلس پر صدرمملکت عمرالحاسی اور اس کے حامیوں کا تسلط ہے۔

۲۰۱۱ء میں قذافی حکومت کے خاتمے پر قائم ہونے والی عبوری حکومت اور پھر منتخب حکومتوں میں سے ہر حکومت اس قدر کمزور رہی کہ نہ ایوانِ حکومت مسلح تنظیموں کے حملوں سے محفوظ رہا نہ وزیراعظم کو تحفظ حاصل رہا۔ دومنتخب وزیراعظم علی زیدان اور احمد معیتیق کے ساتھ پیش آنے والے واقعات ، ان حکومتوں کی طاقت اور اختیار کی نشان دہی کرتے ہیں۔ اسلحہ ملک کے اندر جس قدر عام ہوچکا ہے اور مسلح تنظیمیں جس بڑی تعداد میں تشکیل پاچکی ہیں، اُن کی موجودگی میں ایسی کمزور حکومتوں اور نام نہاد انتخابات کا کوئی فائدہ نہیں۔ ملک کے اہم اور مرکزی ہوائی اڈے ان مسلح تنظیموں کے قبضے میں ہیں۔ دارالحکومت طرابلس پر ان کا تسلط ہے۔ اس وقت تین بڑے گروہ باہمی اور داخلی جنگ میں مصروف ہیں اور چوتھا مناسب وقت کے انتظار میں ہے۔ ان میں اسلام پسندوں کا گروہ ۲۰ سے زائد مسلح دستوں اور ملیشیائوں پر مشتمل ہے۔ ملکی اور غیرملکی تنظیمات کے قائدین   ان گروپوں کی قیادت کر رہے ہیں۔ القاعدہ اور اخوان پر ان کی قیادت کا الزام ہے۔ دارالحکومت کے مشرق میں واقع مصراتہ شہر ان کی قوت کا مرکز ہے۔ دارالحکومت پر بھی ان کا گہرا رسوخ قائم ہے۔ یہ اسلامی گروپ سابق بَری فوج کے سربراہ خلیفہ حفتر کی افواج سے بھی جنگ آزما ہیں۔ اسلام پسندوں کا یہ اتحاد طرابلس میں ’دروع‘ کے نام سے اور بن غازی و درنہ شہروں میں ’انصارالشریعہ‘ کے ناموں سے مسلح سرگرمیوں میں مصروف ہے۔

دوسرا اتحاد لبرل طاقتوں کا ہے۔ اس گروپ کا حکومت سے بھی رابطہ ہے اور یہ قعقاع اور الصواعق دستوں کے ناموں سے دارالحکومت طرابلس کے جنوب مغرب میں واقع شہر زنتان میں مصروف ہے۔ النصر دستہ بھی اسی اتحاد کا حصہ ہے۔

تیسرا مجموعہ ’الجیش الوطنی‘ ہے جس کی قیادت جنرل حفترکر رہا ہے۔ اس کا مرکز بن غازی کا جنوب مشرق ہے۔ یہ فضائیہ سے بھی کام لیتا ہے اور زمینی حملوں سے بھی ’متشدد اسلام پسندوں‘ کا قلع قمع کرنے میں مصروف ہے۔ اس گروپ کا ظہور اسی سال عین اس وقت ہوا جب مصری افواج کے سربراہ جنرل عبدالفتاح السیسی نے مصر کی منتخب حکومت کو ختم کرنے کے ٹھیک ایک سال بعد نام نہاد صدارتی انتخابات کا ڈراما رچایا۔لیبیا کے سیاسی منظرنامے پر اچانک لیبیا کا سابق فوجی سربراہ    خلیفہ حفتر نمودار ہوا اور اس نے اعلان کیا کہ ہم لیبیا کو متشدد اسلام پسند قوتوں اور اخوان المسلمون سے پاک کردیں گے۔حفترنے ملکی افواج کے ہزاروں سپاہیوں اور افسروں کو یک جا کیا اور رضاکاروں کو بھی ساتھ ملا لیا لیکن وہ اپنے مزعومہ مقاصد میں ابھی تک کامیاب نہیں ہوسکا اور کامیاب ہونا ممکن بھی نہیں ہے۔ یوں لگتا ہے کہ یہ سارا ڈراما مصری جنرل سیسی کو سہارا دینے کے لیے رچایا گیا تھا۔

چوتھا گروپ قبائلی طاقتوں کا ہے۔ یہ ورفلہ اور مقارحہ وغیرہ قبائل پر مشتمل ہے۔ یہ      نہ اسلامی طاقتوں کے ہم نوا ہے اور نہ حکومت کے حمایتی۔ یہ آغاز ہی سے غیر جانب دار چلے آرہے ہیں۔ البتہ وہ اپنے خلاف ہونے والی مسلح کارروائیوں سے بہت نقصان اُٹھا چکے ہیں۔ دراصل   یہ قبائل قذافی حکومت نواز تھے۔

اس وقت مسلح جدوجہد اور کارروائیوں میں مصروف اثرانگیز طاقتیں دروع، الصواعق و القعقاع، انصارالشریعۃ، دستہ ۱۷فروری، دستہ راف اللہ سحاتی، الجیش الوطنی اور قبائلی ملیشیا ہیں۔ الجزیرہ اور العرب کے تجزیہ نگار یاسرالزعاترہ کے مطابق لیبیا ایسا ملک ہے جہاں ہتھیار ڈالنے کی روایت کم ہے بلکہ ایسی جماعتیں موجود ہیں جو آسانی سے اپنے سر کسی جلاد کو پیش نہیں کرسکتیں۔ وہ آخری سانس تک لڑیں گے۔ رہی بات انتشار اور تشدد کی تو اس کا سب اقرار کرتے ہیں۔ لیکن مسلح کارروائیوں کے بعد متوقع کیفیت یہی ہونا تھی کہ تیل کی دولت سے مالا مال ملک کے بڑے قبائل اور خاندان خلیفہ حفتر کے ہم نوا بن جائیں اور وہ کچھ حاصل کرنے کی کوشش کریں جو وہ بیلٹ بکس کے ذریعے حاصل نہیں کرسکتے۔ مختصر یہ کہ کسی بھی طاقت کو منظر سے ہٹاکر جمہوریت کا عمل جڑ نہیں پکڑ سکتا۔ ملکی قوتوں کے مقابلے میں امریکا سے آنے والے خلیفہ حفتر کے پیش نظر کوئی بڑی سیاسی قوت تشکیل دینا نہیں ہے۔ سب جانتے ہیں کہ یہ بیرونی منصوبے ہیں جن کی تشکیل اور تکمیل کا فریضہ حفتر جیسے لوگ انجام دیتے ہیں۔ بیرونی قوتوں نے عرب بہار کو سبوتاژ کرنے کے لیے لاکھوں ڈالر صرف اس لیے خرچ کیے ہیں کہ یہ انقلاب کی چنگاری ان تک نہ پہنچ جائے۔

خلیفہ حفتر نے اعلان کیا تھا کہ لیبیا کو اسلام پسندوں خصوصاً اخوان المسلمون سے پاک کردیںگے۔ اس پر اخوان المسلمون لیبیا کے مراقب عام بشیرالکبتی نے کہا کہ ہم لیبیا قوم کا حصہ ہیں اور حفتر ایسی جماعت کے بارے میں بات کر رہے ہیں خود جس کے اپنے اُوپر تشدد اور   دہشت گردی روا رکھی گئی۔ اخوان کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ ایسی کارروائیوں میں ملوث ہو۔ لیبیا کے بحران کا حل ہمارے نزدیک تمام قوتوں کا مذاکرات اور مکالمے کی میز پر بیٹھنے میں مضمر ہے۔ جس قدر جلدی ہوسکے مذاکرات کا عمل شروع ہو۔ عبداللہ الثنی کی حکومت نے بھی اپنے ایک بیان میں یہی مطالبہ کیا کہ تمام قوتیں گفتگو کی میز پر آجائیں اور سیاسی مسائل کو اسلحے کی زبان سے حل کرنا چھوڑدیں۔ قانون اور عدالت کی طرف رجوع کریں۔

اقوامِ متحدہ، یورپی یونین اور ۱۳ممالک نے ۲۲ستمبر کو ایک اجلاس میں مطالبہ کیا کہ لیبیا کے اندر قتل و خونریزی کا سلسلہ بند کیا جائے اور کسی بھی غیرملکی مداخلت کی کوشش نہ کی جائے۔ اجلاس میں شریک ۱۳ممالک میں الجزائر، مصر، قطر، سعودی عرب،تیونس، امارات، ترکی، فرانس، جرمنی، اٹلی، ہسپانیہ، برطانیہ اور امریکا ہیں۔اجلاس کے اختتام پر جاری کیے گئے اعلامیے میں تمام جماعتوں اور طاقتوں کو تعمیری فکر کے ساتھ پُرامن سیاسی مذاکرات میں شرکت کے لیے کہا گیا۔ کسی بھی ایسے عمل سے باز رہنے کی تاکید کی گئی جس سے خطرے کی صورت حال پیدا ہونے کا خدشہ ہو۔ عالمی اور علاقائی سطح پر مسئلے کے حل کے لیے کاوشوں کو سراہا گیا۔ الجزائر ملک کے اندر جاری نزاع کے دونوں فریقوں کو گفتگو کی ضرورت پر زور دے گا اور اقوام متحدہ کا مشن ابتدائی بات چیت کو ستمبر کے آخر تک ممکن بنانے کی کوشش کرے گا۔

لیبیا کی اندرونی صورتِ حال کو معمول پر لانے کی غرض سے لیبیا میں موجود اقوامِ متحدہ کے مشن نے اپنی ویب سائٹ پر ۲۹ستمبر کو ہونے والے مذاکرات کے بارے میں کہا: ان مذاکرات کی بنیاد ان اُمور پر ہوگی کہ منتخب اداروں کی قانونی حیثیت کو مانا جائے، دستوری اعلان کا احترام کیا جائے، انسانی حقوق اور بین الاقوامی قانون کا لحاظ رکھا جائے اور دہشت گردی کو پوری قوت سے  رد کیا جائے۔ نومنتخب اسمبلی حکومت سے متعلقہ اُمور پر اتفاق راے پیدا کرے، اہم اُمور پر کوئی فیصلہ کرنے کے لیے اسمبلی ارکان کی دوتہائی اکثریت کی راے لی جائے۔ عبوری کونسل اور منتخب اسمبلی کے درمیان انتقالِ اقتدار کے عمل کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے تاریخ، مقام اور اقتدار کے انتقال کا طریق کار طے کیا جائے۔

اقوام متحدہ نے اہلِ لیبیا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سلامتی کونسل کی اگست میں پاس کی گئی قرارداد پر عمل کو یقینی بنائیں اور فوری اور مستقل جنگ بندی پر عمل کریں۔ اس بیان میں مسلح جماعتوں کے بڑے شہروں اور ہوائی اڈوں اور عام کارخانوں وغیرہ سے انخلا کا لائحہ عمل بھی طے کیا جائے گا۔ خدمت ِ انسانیت کی کاوشوں کا آغاز ممکن بنایا جائے گا۔کاش! اقوامِ متحدہ کے اس خیرخواہانہ بیان پر عمل ہوجائے اور لیبیا کے طول و عرض میں پھیلی مایوسی بدامنی اور خوف و ہراس کے سایے چھٹ جائیں۔

الشرق الاوسط کے مطابق لیبیا میں شروع ہونے والے انتفاضے کو پونے تین سال ہونے کو ہیں۔ اس انتفاضے کو نتیجہ خیز بنانے میں ’ناٹو‘ کا کردار کلیدی رہا۔ اگر یہ نہ ہوتا تو مظاہرین کے لیے قذافی حکومت کا خاتمہ ممکن نہ ہوسکتا۔ لیکن ناٹو نے اس وقت اس عمل میں حصہ کیوں لیا؟ اس لیے کہ یہ آگ پورے خطے میں نہ پھیل جائے، مگر اب ناٹو خاموش تماشائی ہے۔ پہلے کی طرح اب بھی ضروری ہے کہ ناٹو ملک کے اندر امن و امان اور مستحکم حکومت کے قیام میں اپنا کردار ادا کرے۔

۱۰؍اگست ۲۰۱۴ء کو ترکی میں منعقد ہونے والے صدارتی انتخابات میں وزیراعظم ترکی رجب طیب اردگان ملک کے صدر منتخب ہوئے۔ اب تک صدر کا انتخاب پارلیمنٹ کرتی رہی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے جب قوم نے براہِ راست اپنے ووٹ سے صدر کا انتخاب کیا ہے۔ رجب طیب اردگان کو پہلے ہی رائونڈ میں اپنے حریفوں پر فیصلہ کُن برتری حاصل ہوگئی اور دوسرے رائونڈ کی ضرورت پیش نہ آئی۔ ملکی دستور کی دفعہ۴ کے مطابق ملک کے صدارتی انتخابات میں اردگان کو مطلق اکثریت حاصل ہے۔ اردگان کو ۵۲ فی صد، اکم الدین احسان اوغلو کو ۳۸فی صد اور صلاح الدین دمیرطاش کو ۹ فی صد ووٹ حاصل ہوئے۔ عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق رجب طیب اردگان اس وقت اپنی سیاسی زندگی کے بلند ترین مقام پر پہنچ چکے ہیں۔ وہ ۲۰۰۳ء سے ملک کے وزیراعظم تھے۔ وہ ملک کے صدر بن کر صدر جمہوریہ کے اختیارات کا دائرہ وسیع کرنا چاہتے ہیں۔ ذرائع نے یہ تبصرہ بھی کیا ہے کہ اردگان اپنی زندگی کے جس اہم ترین ہدف تک پہنچنا چاہتے تھے وہاں پہنچ گئے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ صدارتی منصب کو اعزازی کے بجاے تنفیذی صورت عطا کی جائے۔

عالمی ذرائع ابلاغ میں بہت اہم خبر رساں اداروں کے تبصروں کے مطابق عراق، شام اور یوکرائن کے بحرانوں میں گھرے ہوئے اور مغرب کے نہایت اہم حلیف اور اتحادی ملک ترکی کا آیندہ صدر انتہائی اہمیت کے حامل کثیر جہتی سیاسی مقام پر کھڑا ہوگا۔ اگر مشرقِ وسطیٰ اور یورپ کے تناظر میں دیکھا جائے تو ترکی کے صدارتی انتخابات کو تبدیلی کا نقطۂ آغاز قرار دیا جاسکتا ہے۔ برطانوی اخبار دی گارڈین کے مطابق اردگان کی یہ نمایاں کامیابی اُس کی طاقت و اقتدار کو مزید مستحکم کرے گی۔ بیش تر تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ وزارتِ عظمیٰ کے پورے عرصے میں اردگان کے لیے یہ مشکل ترین سال تھاجو اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔

شخصیت، تجربے اور سیاسی بصیرت و قومی سطح پر حاصل شہرت و پذیرائی کے اعتبار سے تینوں صدارتی اُمیدواروں کی حیثیت میں بہت نمایاں فرق ہے۔ صلاح الدین دمیرطاش ۴۱سال کے ہیں، ملک کی بہت بڑی قبائلی برادری کُردوں کی حمایت انھیں حاصل تھی۔ اندازے سے بہت کم شرح ووٹ ان کے حصے میں آئی، یعنی ۹ فی صد۔ دوسرے صدارتی اُمیدوار او آئی سی کے سیکرٹری جنرل کے منصب پر رہنے کی وجہ سے عالمی شہرت و تعارف رکھتے تھے اور ملک کی ۱۳سیاسی جماعتوں کے متفقہ اُمیدوار تھے۔ اس تمام تر حمایت کے باوجود انھیں ۳۸فی صد ووٹ ملے۔ اردگان کے مقابلے میں لوگ انھیں ’باباجی‘ خیال کرتے ہیں۔ تنقید و تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ رجب طیب اردگان ۶۰سال کی عمر میں بھی پُرکشش شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ قوتِ کار اور حاضر دماغی کے اعتبارسے بہت اچھا تعارف رکھتے ہیں۔ حکومت میں ۱۲برس گزارنے کے بعد بھی وہ توانا عزم اور تعمیروترقی کے منصوبوں کو مزید آگے بڑھانے کے متمنی ہیں۔ ناقدین کے نزدیک اس کے باوجود وہ منصب ِ صدارت پر متمکن ہوکر ترکی کی سیاست کے نقشے میں کوئی تبدیلی نہیں لاسکیں گے۔ حامی انھیں ’فرزند اُمت‘ کا نام دیتے ہیں اور حریف انھیں مذاق سے ’سلطان‘ کہتے ہیں۔ بہرحال اردگان اپنے دونوں حریفوں کے مقابلے میں پوری قوم کا اعتماد حاصل کرنے میں واضح طور پر کامیاب رہے اور ۵۲ فی صد سے زائد ووٹ حاصل کر کے ملک کے پہلے جمہوری صدر منتخب ہوگئے۔ بعض ذرائع نے انھیں ترکی کی تاریخ کا مضبوط ترین لیڈر قرار دیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ بطور صدر وہ متعدد قومی اداروں میں اپنے پسندیدہ افراد کو متعین کرنے کا اختیار حاصل کرلیں گے۔

رجب طیب اردگان کی صدارتی انتخابات میں کامیابی، اُن کی اپنی قائم کردہ جماعت ’انصاف و ترقی پارٹی‘ کی مسلسل ۹ویں کامیابی ہے۔ ۱۹۲۳ء سے لے کر اب تک سیاسی منظرنامے پر کسی بھی جماعت کو ایسی برتری حاصل نہیں ہوسکی۔ انصاف و ترقی پارٹی تین بار عام انتخابات میں، تین بار بلدیاتی انتخابات میں، دو بار ریفرنڈم میں اور اب پہلے براہِ راست قومی صدارتی انتخابات میں کامیابی کی منزلیں طے کرچکی ہے۔

۱۲ سال سے انصاف و ترقی پارٹی سیاسی منظر پر نہ صرف موجود ہے بلکہ برسرِاقتدار ہے۔ پارٹی نے خارجی سطح پر عالمی تبصرہ و تجزیہ نگاروں کے لیے قابلِ توجہ ڈپلومیسی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ترکی نے علاقائی و عالمی مقام حاصل کرلیا ہے۔ اردگان کو عالمِ عرب اور عالمِ اسلام میں جو پذیرائی ملی ہے اس سے قبل کسی سیاسی رہنما کو حاصل نہیں ہوسکی۔ انصاف و ترقی پارٹی کے دورِ حکومت میں ترکی متعدد بار قابلِ ذکر اقتصادی کامیابیوں کی منزلیں طے کرچکا ہے۔ ایسی مملکت جو قرضوں اور بحرانوں کے بوجھ تلے دبی ہو، وہ قرضوں کے جان لیوا بوجھ سے باہر نکل آئے تو یہ عالمی سطح پر بے مثال کامیابی ہے۔ وزیراعظم رجب طیب اردگان نے صدارتی انتخاب میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اپنے خطاب میں کہا: ترکی عالمی مالیاتی فنڈ کا ۲۳ملین ڈالر کا مقروض تھا جن کی مکمل ادایگی کے بعد وہ مالیاتی فنڈ کے قرضوں سے نجات پاچکا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ترکی یہ عزم رکھتا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ کو ۵ملین ڈالر کا قرض دے کر وہ مقروض ملکوں کی صف سے نکل کر قرض دینے والا ملک بن جائے۔ عالمی طاقتوں کی ہدایات کے تابع رہنے کے بجاے عالمی سیاست میں برابر کے شریک کی حیثیت سے کردار ادا کرسکے۔

طیب اردگان ایسی شخصیت ہیں جس نے ترکی کے گلی کوچوں میں خود کو موضوع بحث بنالیا ہے۔ ان کے گرد جمع ترک محبت کرنے والے بھی ہیں اور نفرت کرنے والے بھی۔ ان کے عقیدت مند انھیں اتاترک ثانی سمجھتے ہیں۔ ان کے نقاد کہتے ہیں کہ وہ خطے کو تقسیم کرنے اور اس پر تسلط جمانے کے منصوبے کے آلۂ کار ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ عثمانی سلطنت کے شاہوں جیسا ’شاہ‘ بننا چاہتے ہیں لیکن ان کا یہ خواب اس لیے پورا نہیں ہوسکتا کہ اتاترک نے جو ریاست کا بانی ہے، دستور میں ایسی دفعہ شامل کر رکھی ہے جس کی بنیاد پر ریاست کا سیکولر رہنا ناگزیر ہے۔

اتاترک نے اس دفعہ کے فوراً بعد یہ دفعہ بھی شامل کی ہے کہ سیکولرزم کی اس دفعہ کو کسی بھی وقت اور کسی بھی ذریعے سے تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ چونکہ اردگان کے پیش نظر خلافت ِ عثمانیہ جیسی ریاست قائم کرنا ہے لہٰذا اس دفعہ کی موجودگی تک یہ نہیں ہوسکتا۔ ترکی دستور میں دینی جماعتوں کی تشکیل ممنوع ہے۔ انصاف و ترقی پارٹی دستاویزی اور کاغذی لحاظ سے سیکولر اور مزاج و طبیعت اور کردار کے اعتبار سے اسلامی ہے۔

پے درپے تین قومی انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے یک جماعتی حکومت کی تشکیل کے باوجود یہ ممکن نہیں تھا کہ معاملہ ان کے ہاتھ میں آجاتا۔ ملک پر فوج کا تسلط قائم تھا اور وہ کسی وقت بھی ان کے خلاف بغاوت کرسکتی تھی۔ لہٰذا اردگان نے پہلے فوج کے اثرات و اختیارات کو محدود کیا، پھر عدلیہ کی اتھارٹی کا خاتمہ کیا جو اسلامی گروپوں کے سر پر لٹکتی تلوار تھی۔ اردگان نے یورپی یونین کے قوانین کے ساتھ انضمام کو غنیمت جانا تاکہ رفتہ رفتہ اُن قوانین کو تبدیل کیا جاسکے جو ان دونوں اداروں سے متعلق تھے۔

انصاف و ترقی پارٹی کے نائب صدر محمد علی شاہین نے دستوری تبدیلیوں کے حوالے سے  کہا کہ ایک مدت سے ہماری راے ہے کہ ۱۹۸۲ء کے دستور میں تبدیلی کی ضرورت ہے اور قوم کو نئے دستور کی ضرورت ہے۔ افسوس ہے کہ دستوری تبدیلیوں کے مسودے پر دوسال کی محنت کے باوجود پارلیمنٹ سے دستوری کمیٹی کا اتفاق نہیں ہوسکا۔ مگر اس کے باوجود ہم اپنی راے پر قائم ہیں اور اپنے مقاصد اور اہداف کو حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

۲۰۱۵ء میں منعقد ہونے والے قومی انتخابات میں پیش کیے جانے والے منشور میں ہمارا سب سے اہم وعدہ یہی ہوگا کہ نیا دستور اتفاق راے سے بنے گا۔ ہمارا یقین ہے کہ ملک کو ایسے دستور کی ضرورت ہے جس سے ملکی مشکلات و مسائل کا حل ممکن ہو، جو انسانی حقوق اور آزادیوں کا ضامن ہو اور ترکی کو ایک جدید ریاست بناسکے۔

رجب طیب اردگان نے بذاتِ خود ترکی کے اندر پارٹی قیادت کو یہ ہدف دیا ہے کہ وہ آیندہ پارلیمانی انتخابات میں اتنی غالب اکثریت حاصل کریں جس سے پارٹی کے لیے دستور میں  تبدیلی لانے کا عمل ممکن ہوسکے۔ انھوں نے یہ بات بھی واضح کی کہ آیندہ عام انتخابات میں پارٹی کی شرکت کا مقصد دستور میں تبدیلی کی خاطر زیادہ سے زیادہ اکثریت حاصل کرنا ہے۔ گذشتہ انتخابات میں اگرچہ پارٹی کو ۵۵۰ کے ایوان میں ۳۱۳ نشستیں حاصل تھیں لیکن وہ غالب اکثریت رکھنے کے باوجود دستور میں تبدیلی کے لیے مطلوبہ دوتہائی اکثریت نہیں رکھتی تھی۔

اردگان کی صدارتی کامیابی پر مخالفین کا اعتراض ہے کہ وہ ملک کو صدارتی نظام میں ڈھالنا چاہتے ہیں۔ اردگان نے اس راے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ میں کسی امتیاز کے بغیر ۷۷ملین ترک عوام کا صدر ہونے کا حلف اُٹھائوںگا۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم نے تاریخی اصلاحات اس لیے کی ہیں کہ ملک کے تمام شہری آزادیِ راے کا حق کسی خوف و خطر کے بغیر استعمال کرسکیں۔ اس کے برعکس اُن کے حریفوں کا خیال ہے کہ ترکی کو مغربی اقدار و روایات سے بہت دُور لے جارہے ہیں۔ اردگان کو درپیش چیلنجوں میں ایک بہت بڑا مسئلہ معروف دانش ور فتح اللہ گولن کی قابلِ اعتراض سرگرمیاں ہیں۔ ان کے بارے میں اردگان نے کہا کہ میرے منصب ِ صدارت سنبھالنے سے گولن سے کش مکش میں اضافہ ہوجائے گا۔ اُن کا کہنا ہے کہ گولن صرف اردگان اور اس کے خاندان اور ساتھیوں کے خلاف نہیں ہے بلکہ وہ ترکی اور ترک قوم کی آزادی کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔

انصاف و ترقی پارٹی کا کہنا ہے کہ سیاسی کش مکش اور چیز ہے اور تخریبی کش مکش دوسری چیز۔ فتح اللہ گولن کی پارٹی پر انصاف پارٹی کا الزام ہے کہ وہ قومی اداروں کے اندر انتشار و انارکی پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ ترکی ریاست کے خلاف مجرمانہ کارروائیوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔ ملک کی قومی اور وطنی سلامتی کے اہم رازوں کی جاسوسی کرتے پکڑے گئے ہیں۔ وہ ان معلومات اور سربستہ رازوں کو ترکی کے دشمنوں تک پہنچاتے ہیں۔ ابتدا میں جب وہ حکومت کے سیاسی طور پر مخالف رہے تو اُن سے بالکل تعرض نہیں کیا گیا۔ حتیٰ کہ وہ دستوری حقوق حاصل کیے بغیر سیاسی پلیٹ فارم پر اختلافی سیاست کرتے رہے۔ انھوں نے کوئی سیاسی جماعت رجسٹر نہیں کرائی تھی جس کے ذریعے وہ حکومت کی مخالفت کرسکتے۔ ان پر دوسرا الزام یہ ہے کہ انھوں نے ’مرمرہ‘ بحری جہاز کے مسئلے پر اسرائیلی حکومت کی تائید کی اور ترکی حکومت کو اُن ۹ شہدا کی شہادت کا ذمہ دار قرار دیا جنھوں نے غزہ میں فلسطینی قوم کے گرد اسرائیلی محاصرے کو توڑنے کی خاطر جامِ شہادت نوش کیا۔ یہی وہ موقع ہے جب ترکی حکومت نے اُن کا محاسبہ کرنا چاہا۔ تیسرا الزام یہ ہے کہ فتح اللہ گولن کی جماعت کے کارکن خفیہ طور پر قومی حکومتی اداروں میں جاسوسی نظام قائم کر کے عسکری اور سول حکومتی اداروں کی سلامتی کو خطرے سے دوچار کرنا چاہتے تھے۔ انھوں نے ترکی سلامتی کونسل کے اجلاسوں کی جاسوسی کی اور ان خفیہ معلومات کو عام کیا۔

ترکی داخلی اور خارجی دونوں سطحوں پر کئی مشکلات اور چیلنجوں سے دوچار ہے اور رجب طیب اردگان نے ان تمام مسائل و مشکلات کو نقطۂ نظر صفر پر لانے کا عزم ظاہر کیا تھا مگر ۱۲سال مسلسل اقتدار میں رہنے کے بعد بہت سے اُمور و معاملات سے پردہ اُٹھاتو وہ مشکل تر ہوتے گئے۔ داخلی سطح پر اردگان کو سیکولر قوتوں سے سابقہ ہے جو اپنے مقاصد اور اہداف سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہتیں، جب کہ اسلامی روحانیت ترکی کو اس کی تہذیب و ثقافت کی طرف لوٹانا چاہتی ہے۔ ملکی امن و امان کے قیام اور اس پر صرف ہونے والے قومی سرمایے کی شرح کو کم سے کم کرنا بھی بہت بڑا چیلنج ہے۔ شام، مصر، عراق وغیرہ کے مسائل ترکی حکومت اور معیشت پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں۔ ملک کے اندر قبائلی تحریکیں بھی ہنگاموں اور فسادات کو ہوا دینے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتیں۔ ان تمام اندرونی و بیرونی مسائل کے باوجود، انصاف و ترقی پارٹی کی بلدیاتی انتخابات اور صدارتی انتخابات میں نمایاں اور واضح تر کامیابی سے قومی رجحان اور میلان کا اندازہ ہوتا ہے۔ اُمید ہے کہ      قوم دستوری تبدیلیوں کو یقینی بنانے کے لیے انصاف و ترقی پارٹی کو ۲۰۱۵ء کے پارلیمانی انتخابات میں پہلے سے مضبوط تر عوامی مینڈیٹ دے کر پارلیمنٹ میں پہنچائے گی۔ غالب اُمید ہے کہ  رجب طیب اردگان بحیثیت صدر ریاست ان تمام اُمور و وسائل سے نبردآزما ہونے میں کامیاب ہوں گے۔ ان کا کامیاب ماضی اس بات کی شہادت فراہم کرتا ہے کہ وہ ایسی شخصیت ہیں جس کو معلوم ہے کہ اسے کیا کرنا ہے۔ وہ اپنے ایجنڈے پر پوری یک سوئی کے ساتھ کام کرتے ہیں۔

آیندہ انصاف و ترقی پارٹی اپنے اہداف حاصل کرنے میں کس حد تک کامیاب رہتی ہے، پارٹی مقبولیت سے تو اس کے امکانات روشن نظر آتے ہیں مگر ناقدین کا کہنا ہے کہ اردگان کے پارٹی سربراہ نہ رہنے کی وجہ سے اُن کی پارٹی پر گرفت کمزور ہوجائے گی۔ پارٹی کے بدخواہوں نے پارٹی کے اندر عبداللہ گل دھڑے کا وجود بھی دریافت کرلیا ہے۔ یہ اندازے اور افواہیں انصاف و ترقی پارٹی کا سفر کھوٹا کرنے کی سازشیں ہیں۔ اُمیدہے کہ پارٹی کے داخلی نظام میں ہونے والی تبدیلی پارٹی قیادت اور قومی حکومت کے لیے مزید تقویت کا باعث بنے گی۔ غالب امکان ہے کہ ترکی وزیرخارجہ احمد دائود اوغلو جو عالمی اُمور میں اردگان کے دست ِ راست کی حیثیت رکھتے ہیں اور پارٹی کے داخلی نظام میں بھی مضبوط شخصیت ہیں، پارٹی سربراہ بنا دیے جائیں اور وہی ملک کے وزیراعظم بھی ہوں۔ اس کے ساتھ سابق وزیرٹرانسپورٹ بن علی یلدریم بھی اس منصب کے اُمیدوار ہوسکتے ہیں۔

۲۰۱۴ء افغانستان کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ امریکی صدر اوباما کے اعلان کے مطابق دسمبر ۲۰۱۴ء میں امریکی و دیگر ناٹو افواج افغانستان سے واپس چلی جائیں گی، البتہ چند ہزار پر مشتمل لڑاکا فوج اور فضائیہ پانچ عسکری اڈوں پر باقی رہ جائیں گی۔ ملکی امن و امان قائم رکھنے کا سارا اختیار اور ذمہ داری افغان نیشنل فورس اور پولیس کے حوالے کر دی جائے گی اور غیر ملکی فوج کا کردار محدود ہوگا۔ تاہم طالبان کی واپسی کے خدشے کے پیش نظر امریکی فوج افغانستان میں ایک طویل عرصے کے لیے موجود رہے گی۔ امریکی فوج کی موجودگی کو قانونی شکل دینے کے لیے ضروری ہے کہ کابل میں افغان حکومت کے ساتھ امریکی حکومت کا ایک معاہدہ ہو۔ موجودہ صدر حامد کرزئی نے امریکی دبائو کے باوجود اس معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا ہے اور یہ کام آیندہ منتخب حکومت کے ذمے کر دیاگیا ہے کہ اگر وہ چاہے تو امریکیوں کے ساتھ اس معاہدے پر دستخط کر دے۔ لیکن امریکی پریشانی میں اس وقت تازہ اضافہ صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے نتائج کے معلق ہونے سے ہوا۔ افغان الیکشن کمیشن نے جب دوسرے مرحلے کے غیر حتمی نتائج کا اعلان کیا تو تمام بین الاقوامی مبصرین حیران رہ گئے کہ ڈاکٹر اشرف غنی نے ڈاکٹر عبد اللہ عبداللہ سے ۱۰لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کیے جو ایک حیران کن معاملہ تھا۔ اس لیے عبداللہ عبداللہ نے فوری رد عمل ظاہر کرتے ہوئے یہ نتائج ماننے سے انکار کر دیا اور احتجاجی تحریک چلانے اور متوازی حکومت بنانے کا اعلان کیا۔

پہلے مرحلے کے صدارتی انتخاب، جو اس سال ۲۰؍اپریل میں مکمل ہوئے تھے، کے نتائج کے مطابق اول نمبر پر ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ آئے تھے۔ انھوں نے ۴۵فی صد تقریباً ۳۰لاکھ ووٹ حاصل کیے تھے، جب کہ دوسرے نمبر پر ڈاکٹر اشرف غنی نے ۶ء۳۱فی صد، یعنی تقریباً ۲۱ لاکھ ووٹ لیے تھے جو عبداللہ عبداللہ سے ۹لاکھ کم تھے۔ زلمے رسول نے تیسری پوزیشن ۴ء۱۱،یعنی ساڑھے سات لاکھ ووٹ لیے۔

 پروفیسر عبدالرب رسول سیاف نے ۳ء۷فی صد، یعنی ۴لاکھ ۶۵ہزار ، انجینئر قطب الدین ہلال نے ۸ء۲فی صد، یعنی ایک لاکھ ۸۰ہزار، جب کہ چھٹے نمبر پر گل آغا شیرازی نے ۶ء۱فی صد، یعنی ایک لاکھ ووٹ لیے تھے۔ ان میں سے زلمے رسول ، استاد سیاف اور گل آغا شیرازی نے ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کی دوسرے مرحلے میں حمایت کا اعلان کیا تھا۔ اس لیے اس کی جیت یقینی    نظر آرہی تھی۔ لیکن دوسرے مرحلے میں پانسہ پلٹ گیا اور ابتدائی مرحلے کے نتائج ہی میں ڈاکٹر اشرف غنی سبقت لے گئے۔ انھوں نے غیر حتمی نتائج کے مطابق ۴۴لاکھ ۸۵ہزار ووٹ حاصل کیے، جب کہ عبداللہ عبداللہ نے ۳۴لاکھ ۶۱ہزار ووٹ لیے۔ اس طرح احمد زئی قبیلے سے تعلق رکھنے والے پختون اُمیدوار ڈاکٹر اشرف غنی بھاری اکثریت سے کامیاب نظر آئے ، جب کہ تاجک پس منظر کے حامل ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ شکست کھاگئے۔ لیکن انھوں نے اس شکست کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور بڑے پیمانے پر انتخابی دھاندلی کا الزام لگایا۔ مبصرین نتائج کی اس تبدیلی میں موجودہ صدر ڈاکٹر حامد کرزئی کا کردار تلاش کر رہے ہیں جس نے قسم کھائی تھی کہ عبداللہ کو عرق(صدارتی محل ) میں گھسنے نہیں دوں گا۔ اس نے پہلے مرحلے میں بھی ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو ہرانے کی ہر ممکن کو شش کی تھی۔ اس مقصد میں اس حد تک اس کو کامیابی ملی کہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ پہلے مرحلے میں ۵۰فی صد ووٹ حاصل کرنے کا ہدف حاصل نہ کر سکے، جب کہ وہ اس کے قریب پہنچ چکے تھے اور اگر اُمیدواروں کی تعداد کم ہو تی تو شاید وہ بہ آسانی یہ ہدف حاصل کر چکے ہوتے۔

کہا جاتا ہے کہ حامد کرزئی نے کئی اُمیدواروں کو کھڑا کروا کر یہ مقصد حاصل کیا۔ پھر دوسرے مرحلے میں براہ راست مقابلہ پختون اور تاجک اُمیدوار کا ہوا۔ قومی تعصبات نے اس مرحلے میں خوب رنگ جمایا اور رنگ و نسل کی بنیاد پر تقسیم نظرآئی۔ جن نتائج کا اعلان ہوا ہے اگر  ان کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ پختون اکثریت آبادی رکھنے والے صوبوں میں  ڈاکٹر اشرف غنی کو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے مقابلے میں بھاری اکثریت سے کامیابی نصیب ہوئی۔ اس نے کل ۱۸صوبوں میں الیکشن جیتا جن میں پکتیا ، پکتیکا ،خوست، ننگر ہار، کنٹر ، لغمان ، قندوز، ہلمند، زابل اور اورزگان جیسے پختون ولایتوں میں لاکھوں ووٹ حاصل کیے، جب کہ عبداللہ عبداللہ چند ہزار تک محدود رہے۔ سب سے دل چسپ نتیجہ صوبہ قندھار کا ہے جہاں سے عبداللہ عبداللہ کا آبائی تعلق ہے، وہاں ڈاکٹر اشرف غنی نے ۲لاکھ ۶۸ہزار ووٹ حاصل کیے، جب کہ ڈاکٹر عبداللہ کو صرف ۵۱ہزار ووٹ ملے۔ ڈاکٹر اشرف غنی کے ساتھ اول نائب صدر کے طور پر جنرل رشید دوستم اُمیدوار تھے جو ازبکوں کے نمایندہ اور مسلمہ رہنما مانے جاتے ہیں۔ اس لیے ان صوبوں میں بھی ڈاکٹر اشرف غنی کا پینل کامیاب ہوا جن میں جو زجان ، فریاب اور نمروز وغیرہ شامل ہیں، جب کہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو تاجک ووٹوں کی بھاری اکثریت ملی، جن کی آبادی افغانستان میں ۲۷فی صد تک سمجھی جاتی ہے۔ اسی طرح ہزارہ کے ووٹ بھی زیادہ ان کو ملے۔ جن صوبوں میں ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو واضح اکثریت ملی ان میں کپیسا، پروان ، غزنی ،بدخشان ، تخار ،بغلان ، سمنگان ، بلخ،ہرات، نمروز، بامیان ، پنجشیر ، ڈایکنڈی وغیرہ شامل ہیں۔ ان کی کل تعداد ۱۶ہے۔

مرکزی صوبے کابل میں ڈاکٹر اشرف غنی نے ۴لاکھ ۵۴ہزار ووٹ حاصل کیے، جب کہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے ۴لاکھ ۲۲ہزار ووٹ لیے، یعنی مقابلہ تقریباً برابر رہا۔ ڈاکٹر عبد اللہ عبداللہ نے انتخابی دھاندلیوں کے جو الزام لگائے اس میں جعلی ووٹ، ایک ووٹرکے ووٹ کا کئی بار استعمال اور مخصوص حلقوں اور پولنگ اسٹیشنوں پر یکطر فہ ووٹنگ وغیرہ شامل ہیں۔ لگتا یہ ہے کہ دونوں اُمیدواروں نے جہاں موقع ملا وہاں خوب دھاندلی کی۔ پہلے مرحلے میں پختون اکثریت کے کئی صوبوں میں طالبان کے خوف سے ووٹنگ کی شرح بہت کم تھی لیکن اس با ر وہاں لاکھوں ووٹ پول ہوئے۔ اس کی ایک وجہ طالبان کی ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ سے دشمنی بھی بتائی جاتی ہے لیکن وہ دونوں اُمیدواروں کو امریکی گماشتے تصور کرتے ہیں اور سرے سے پورے انتخابی عمل کو ماننے سے انکاری ہیں۔ اس لیے اس کا امکان کم ہے کہ انھوں نے عبداللہ عبداللہ کی مخالفت میں ڈاکٹر اشرف غنی کو ووٹ دینے کی حمایت کی ہوگی۔ ان صوبوں میں ووٹوں کے رجسٹریشن کی شرح بھی خاصی کم تھی۔ اس لیے دھاندلی کے امکانات کو تقویت ملتی ہے۔

تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے احتجاج کا امریکا نے سنجیدگی سے نوٹس لیا۔ اس سے پہلے ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں بھی ڈاکٹر عبداللہ نے حامد کرزئی پر بدترین دھاندلی کے الزامات لگائے تھے، بلکہ ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں دوسرے مرحلے میں وہ یہ کہہ کر انتخابات سے دستبردار ہو گئے تھے کہ حامد کرزئی کی موجودگی میں شفاف انتخابات ممکن ہی نہیں۔ اب حامد کرزئی کی جگہ ڈاکٹر اشرف غنی نے لے لی اور ایک بار پھر عبداللہ عبداللہ دھاندلی کا شکار ہو گئے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اس ماہ دو مرتبہ کابل کا دورہ کیا اور دونوں صدارتی اُمیدواران کا موقف سننے کے بعد ان کے درمیان مفاہمت کی کوشش کی اور اس میں وہ کامیاب رہے۔ دوسری بار کابل کے دورے میں وہ ان دونوں اُمیدواران کے درمیان ایک معاہدہ کرانے میں کامیاب ہوگئے۔ جس کاباقاعدہ میڈیا میں اعلان کیا گیا اور دونوں رہنمائوں نے اس پر اتفاق کیا کہ ایک ایسامصالحتی کمیشن بنایا جائے جو ایک قومی حکومت کا قیام ممکن بنائے۔ دونوں نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ دونوں طرف سے مقرر کردہ مبصرین کی موجودگی میں سارے ووٹ دوبارہ شمار کیے جائیں جس کو آڈٹ کا نام دیا گیا اور مشکوک ووٹوں کو گنتی سے نکال باہر کیا جائے۔ اس دوبارہ گنتی کے نتیجے میں جو اُمیدوار اکثریت حاصل کرے وہ صدر بن جائے گا اور دوسرا اُمیدوار اس کے ساتھ نائب صدر اول بنے گا۔ اس طرح ایک مخلوط حکومت کابل میں اقتدارسنبھالے گی۔ آزاد الیکشن کمیشن کے تحت ووٹوں کی دوبارہ گنتی اور آڈٹ کاکام شروع ہوگیا ہے۔دونوں جانب کے مقررکردہ مبصرین اس عمل میں شریک ہیں۔ یہ ایک مشکل اور صبر آزما کام ہے۔ اندازہ یہ ہے کہ اس عمل سے گزرنے کے بعد بھی ڈاکٹر اشرف غنی ہی کامیاب ٹھیریں گے کیونکہ ان کو۱۰لاکھ ووٹوں کی سبقت حاصل ہے۔ پہلے دو تین دن جو کام ہوا اس میں ۸۵ہزار ووٹوں کو مسترد کر دیا گیا لیکن اس میں   اگر زیادہ ووٹ ڈاکٹر اشرف غنی کے ضائع ہوئے تو ۳۰ہزار ووٹ عبداللہ کے بھی گئے۔ البتہ   ڈاکٹر اشرف غنی کو جو بڑی سبقت حاصل ہے، اس میں خاطر خواہ کمی واقع ہوگی۔

ڈاکٹر اشرف غنی احمد زئی بین الاقوامی شہرت کے حامل ماہر اقتصادیات ہیں۔ انھوں نے کولمبیا یونی ورسٹی امریکا سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے اور کئی امریکی یونی ورسٹیوں میں پڑھاتے رہے ہیں۔ ۱۹۹۱ء میں ورلڈ بنک میں ملازمت اختیار کی۔ اس دوران انھوں نے کئی ممالک بشمول چین اور روس میں خدمات سر انجام دیں اور اپنی ذہانت اور مہارت کا لوہا منوایا۔ ۲۰۰۱ء میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد وہ افغانستان واپس آئے اور حکومت میں شامل ہوئے۔ وہ شروع میں صدر حامد کرزئی کے مشیر خاص تھے اور بون معاہدے پر عملدرآمداور لویہ جرگہ کی تشکیل میں ان کا اہم کردار رہا۔ پھر وہ وزیر خزانہ بن گئے اور افغانستان کی معاشی ترقی ،نئی افغان کرنسی کے اجرا ،سالانہ بجٹ کی تیاری اور مالی ضابطوں کی پابندی میں نام کمایا۔ انھوں نے بین الاقوامی ڈونرز ایجنسیوں کا اعتماد حاصل کیا۔خود احتسابی اور کرپشن کے خلاف سخت کارروائیاں ان کی وجۂ شہرت ہیں۔ بعد میں انھوں نے کابل یونی ورسٹی میںایک ادارہ ’مؤثر ریاستی انسٹی ٹیوٹ‘قائم کیا جس نے بہت جلد عالمی شہرت حاصل کی۔ یہ ایک منفر د ادارہ تھا جو کمزور اقتصادی ممالک کو ترقی کے راستے پر گامزن کرنے کے لیے حکمت عملی بنانے میں مدد گار ثابت ہوا۔ دیہات کی سطح پر ترقی کا منصوبہ اور ویلج کونسل کا قیام بھی ان کے ذہن کی پیدوار ہیں۔ ۲۰۰۸ء کے الیکشن کے بعد وہ افغان کابینہ کا حصہ نہ بنے بلکہ انھوں نے پسند کیا کہ وہ کابل یونی ورسٹی کے چانسلر بنیں اور تعلیمی اداروں کو ترقی دیں۔ ڈاکٹر اشرف غنی کی بیوی کا تعلق لبنان کے ایک عیسائی گھرانے سے ہے۔ افغانستان کی معاشی ترقی میں ایک مستقل کردار ادر کرنے کے بعد وہ اب سیاسی میدان میں بھی اپنا لوہا منوانا چاہتے ہیں۔ وہ ایک عملی انسان ہیں اور سائنسی اور علمی خطوط پرملک کو چلانا چاہتے ہیں۔ افغانستان میں طالبان کے حوالے سے بھی ان کا موقف نرم ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ملک میں امن کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ ان کے ساتھ بامعنی مذاکرات کیے جائیں اور ان کو قومی دھارے میں شامل کیا جائے۔

ڈاکٹر اشرف غنی کے مقابلے میں ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ افغانستان کے ایک مسلمہ قومی رہنما ہیں۔ ان کے والد غلام محی الدین خان ، ظاہر شاہ کے دور حکومت میں سینیٹر تھے۔ انھوں نے ۱۹۷۷ء میں کابل یونی ورسٹی سے میڈیکل کی ڈگری حاصل کی اور پھر ماہر امراض چشم کی حیثیت سے   النورہسپتال کابل میں خدمات سر انجام دیں۔ ۱۹۸۴ء میں پاکستان ہجرت کی اور وادیِ پنج شیر میں کمانڈر احمد شاہ مسعود کے ساتھ روسیوں کے خلاف جہاد میں شامل ہوئے۔ ۱۹۹۲ء میں نجیب انتظامیہ کے خاتمے اور مجاہدین حکومت کے قیام کے بعد بھی وہ احمد شاہ مسعود کے ساتھ وزارت دفاع کی ترجمانی کرتے رہے۔ پھر وزیرخارجہ بنے اور عالمی سطح پر ان کی شہرت ہوئی۔ نائن الیون کے بعد وہ پھر وزارتِ خارجہ ہی کے نمایندے کے طور پر بون کانفرنس میں شامل ہوئے۔ صدر حامدکرزئی کے پہلے دور میں وہ بحیثیت وزیر خارجہ کا بینہ کے اہم رکن اور ترجمان تھے۔ ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں    وہ صدر حامد کرزئی کے مقابلے میں ایک مضبوط صدارتی اُمیدوار رہے اور دوسری پوزیشن حاصل کی۔

موجودہ انتخابات میں وہ صلاح الدین ربانی، جو استاد برہان الدین ربانی کے صاحبزادے ہیں، کی قیادت میں جمعیت اسلامی افغانستان کی جانب سے صدارتی اُمیدوار تھے۔ انھوں نے اپنے ساتھ حزب اسلامی کے ایک مضبوط سیاسی دھڑے ارغندیوال گروپ کو ملا یا اور ان کے انجینیرمحمد خان کو نائب صدر اول کا اُمیدوار بنایا۔ اس کے علاوہ ہزارہ برادری کے استاد محقق کو  نائب صدر بنا کر انھوں نے ایک قومی قیادت کا تصور پیش کیا۔ جہادی پس منظر کے باوجود ان کی شہرت ایک لبرل اور قوم پرست رہنما کی ہے۔ وہ طالبان کے مخالف ہیں۔ بھارت اور روس سے ان کے اچھے تعلقات ہیں۔

ڈاکٹر اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کی مخلوط حکومت کا تصور بہت سارے افغانیوں کے لیے ناقابل فہم ہے۔ امریکی دبائو پر انھوں نے آپس میں معاہدہ تو کر لیا لیکن اس کے عملی تقاضے پورے کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ دونوں کیمپوں میں ایسے افراد موجود ہیں جو اس گٹھ جوڑ سے خوش نہیں۔ امریکیوں کو بھی موجودہ انتخابات سے جو توقعات وابستہ تھیں وہ پوری ہوتی نظر نہیں آرہیں۔ حامد کرزئی کا متبادل تلاش کرنا ان کے لیے درد سر بنتا جا رہا ہے۔ جان کیری جتنے بھی کابل کے دورے کریں ہر بار ان کو ایک نئی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ڈاکٹر اشرف غنی مسلسل بیان دے رہے ہیں کہ وہ ایک کمزور صدر بننا پسند نہیں کریں گے۔ بہر حال آنے والے دنوں میں افغانستان میں امریکیوں کے لیے مشکلات و مسائل میں اضافہ ہوگااور امریکی افواج کے انخلا کے پروگرام میں تاخیر کا باعث بن سکتے ہیں۔

مسلم دنیا یوں توبہت سے داخلی اور خارجی مسائل اور بحرانوں سے دوچارہے، لیکن ان میں سب سے زیادہ تکلیف دہ صورتِ حال وہ ہے، جس میں خود ہم وطن اور ہم نسل مسلمان ، اپنے ہی ہم وطنوں سے ظلم وتشددکارویہ اختیارکرتے ہیں، اور پھراس بہتے ہوئے خون اور تباہ کی جانے والی زندگیوں کواپنی قومی ترقی کا وسیلہ بتاتے ہیں۔ اس سفاکی اور شرمناکی کے لیے بے غیرتی اور غداری سے کم لفظ استعمال کرنا ممکن نہیں۔

عالم اسلام اور خصوصاً عالم عرب میں اسرائیل کے نام سے ایک ناجائز حکومت کے ہاتھوں امریکا ویورپ جو حیوانی کھیل کھیل رہے ہیں، اسی سے ملتاجلتاحیوانی اور غیرانسانی رویہ، ہندوقوم پرست ریاست ہندستان اپنائے ہوئے ہے۔ اس نے ایک جانب ۶۸برس سے کشمیرکے مسلمانوں کو محکوم بناکرظلم کے پہاڑتوڑے ہیں تودوسری جانب بنگلہ دیش کی مسلم ریاست کواپنی غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے کی کوشش کی ہے۔ اس سیاہ رات کے اندھیرے گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ بنگلہ دیش کے محبِ وطن، اسلام دوست اور مسلم قوم پرست بنگلہ دیشی اپنے ملک میں ایک عذاب سے گزررہے ہیں، جس کا ماسٹرمائنڈ بھارت ہے اور اس کے ایجنڈے کو بنگلہ دیش میں نافذ کرنے کا ذریعہ عوامی لیگ اور اس کی مددگارتنظیمیں ہیں۔

عوامی لیگ نے دسمبر۲۰۰۸ء میں اقتدارحاصل کرنے کے بعد سے بنگلہ دیش کی قومی سلامتی کو بھارتی مفادات کے سامنے سرنڈرکرنے کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں، جن کی بنگلہ دیش کے دُوراندیش اور اپنی قومی آزادی واسلامی تہذیبی تشخص کو تحفظ دینے والے افراد اور تنظیموں نے کھل کر مخالفت کی۔ جواب میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے زیر اثربنگلہ دیش کی متعدداین جی اوزاور عوامی لیگی حکومت نے بڑے پیمانے پر ریاستی مشینری کو استعمال کرکے ان آوازوں کو کچلنے کا راستہ اختیار کیاہے۔

حکومت نے سب سے پہلے بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے خلاف عدالتی ڈرامے کا آغازکیا۔ اُس کے بزرگ رہنماؤں اور فعال کارکنوں کو گرفتارکرکے نام نہاد ’انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل‘ (ICT) قائم کرکے مقدمات چلانے شروع کیے۔ اس خصوصی عدالت پر بنگلہ دیش کے قانونی حلقوں، راست فکر دانش وروں اور صحافتی تنظیموں نے زبردست احتجاج کیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ (HRW) اور دیگربین الاقوامی تنظیموں نے اس انتقامی ڈرامے کو مستردکردیا۔ مگر  عوامی لیگی حکومت نے پوری ڈھٹائی سے ، سزاے موت سنائے جانے والے فیصلوں کا نہ صرف اعلان کیا، بلکہ ۱۲دسمبر۲۰۱۳ء کو عبدالقادرمُلّا کو پھانسی دے بھی دی۔ اس عدالتی قتل عام پر دنیابھر نے برملا احتجاج کیا، لیکن یہ انتقامی عدالتی عمل رک نہیںسکا۔اس وقت بھی جماعت اسلامی اور بنگلہ دیشن نیشنلسٹ پارٹی (BNP)کے قائدین کو سزائیں سنائی جارہی ہیں، اور انھیں اپنے دفاع کے لیے آزادانہ طور پر بنیادی عدالتی سہولیات تک بھی میسر نہیں ہیں۔

یادرہے کہ اس نام نہاد عدالت (ICT) کے چیف جج مسٹرنظام کی شرمناک گفتگوکو ۲۰۱۲ء میں سکائپ سے ریکارڈکر کے اکانومسٹ  لندن اوربنگلہ دیش کے اخبارات نے شائع کرکے بتایاکہ یہ عدالت حکومت کی ہدایات پر فیصلے کررہی ہے نہ کہ قانون اور عدل کے مسلّمہ اصولوں کے مطابق۔

اسی طرح بنگلہ دیش میں اظہارراے کے ذرائع پر بری طرح پابندیاں عائد ہیں، جس کی چندمثالیںدیکھ کراندازہ ہوسکتا ہے کہ وہاں جبروظلم کاراج کس طرح اپنے شہریوں کی زندگی کو عذاب بنارہاہے۔ ۲۷؍اپریل ۲۰۱۰ء کو نجی شعبے میں سب سے بڑے ٹی وی نیٹ ورک ’چینل ون‘ کو اس لیے بندکردیاگیاکہ وہ حزب اختلاف کی خبریں نشرکرتا ہے۔ ۲۲؍اگست ۲۰۱۱ء کواطلاعاتی ترسیل کے سب سے مؤثرنجی ادارے ’شیرشا نیوز‘(Sheersha News) کوکام کرنے سے روک دیا، اور اس کا سبب بھی حزبِ اختلاف کی خبریں نشرکرنا تھا۔ ۱۶ فروری کوحکومت کی بھارت نواز پالیسیوں پرتنقیدکرنے والے’سوناربلاگ‘ کو بندکردیاگیا۔ ۱۱؍اپریل ۲۰۱۳ء کو بنگلہ دیش میں حزبِ اختلاف کے سب سے بڑے حامی اخبار اماردیش (Amar Desh) کے مدیرکواس بنا پر گرفتارکرکے تشددکانشانہ بنایاگیاکہ انھوں نے نام نہادعدالتی جج مسٹرنظام کی غیرقانونی اور غیراخلاقی گفتگوکو شائع کیا تھا، حالانکہ یہ گفتگو اکانومسٹ لندن بھی شائع کرچکاتھا۔ ۱۴؍اپریل۲۰۱۳ء کو حکومتی مسلح ایجنسیوںنے اسلامی قوتوں کے سب سے بڑے اور قدیم اخبار سنگرام کے دفاترپرحملہ کردیا۔

۵مئی ۲۰۱۳ء کو ’ڈی گنتا ٹیلی وژن‘ (Diganta TV) اور ’اسلامک ٹیلی ویژن‘ پر اس لیے پابندی عائد کردی کہ انھوں نے ’حفاظتِ اسلام‘ تنظیم کے پُرامن احتجاجی دھرنے کو کچلنے کے حکومتی قتلِ عام کی تصاویر دکھائی تھیں۔حفاظت اسلام نامی تنظیم‘ جو علما اور دینیطالب علموں پرمشتمل ہے، کے پُر امن احتجاج ۵مئی ۲۰۱۳ء کو ۱۰ہزار مسلح اہل کاروں کے ذریعے کچل دیاگیا۔ بیسیوں طالب علموں کی لاشوں کا آج تک نشان نہیں ملا۔صحافیوں کو ڈرانے، اخبارات کی اشاعت کو معطل کرنے اور میڈیا کی نشریات کوخراب کرنے کا کھیل پوری قوت سے جاری ہے۔ اس جارحیت پر۱۶قومی اخبارات کے ایڈیٹروں نے ایک مشترکہ بیان میں حکومتی کارروائیوں کی مذمت کی اور مطالبات پیش کیے، جنھیں بھارتی کٹھ پتلی حکومت نے مستردکردیا۔درحقیقت عوامی لیگ حکومت کی جڑ ڈھاکہ میں نہیں، نئی دہلی سے خوراک حاصل کرتی ہے۔

ایک غیرآئینی اور غیر اخلاقی حکومت کی سربراہ حسینہ واجد درحقیقت اپنے والد شیخ مجیب کی جابرانہ انتقامی پالیسیوں کاتسلسل ہے، جس نے فروری۱۹۷۵ء میںپورے بنگلہ دیش میں سیاسی پارٹیوںکوختم کرکے ایک پارٹی کی حکومت قائم کی تھی اور پھر۷جون ۱۹۷۵ء کودستورمیں چوتھی ترمیم کرکے ایک پارٹی اورایک اخبارکا کالاقانون نافذ کیا گیاتھا۔ ان اقدامات کے لیے اسے دہلی سرکارکی سرپرستی حاصل تھی۔ اسی طرح جولائی ۲۰۱۴ء میں مولانا مودودی کی کتب کو مساجد اور تعلیمی اداروں کی ۲۴ہزار لائبریریوں میں رکھنے پر پابندی لگا دی گئی۔پھر حسینہ واجد نے ۱۷؍اگست ۲۰۱۴ء کو دستور میں ۱۶ویں ترمیم کا مسودہ کابینہ سے منظور کرایاہے، جس کے نتیجے میں اعلیٰ عدلیہ ، عملاً   اس طرح حکومت کے رحم و کرم پر ہوگی کہ ججوں کا مواخذہ عدالتی کمیشن نہیں کرے گا بلکہ براہِ راست پارلیمنٹ ہی ججوں کی قسمت کا فیصلہ کیا کرے گی۔

بنگلہ دیش کوایک بڑے جیل کی شکل دے کرہزاروں سیاسی بلکہ سماجی کارکنوں تک کو جیلوں میں ٹھونسا جا چکاہے۔ بنگلہ دیش میں اس وقت ۶۲۹پولیس اسٹیشن ہیں جہاں پر صرف ۲۰۱۲ء میں ۲لاکھ ۲۹ہزار ۵سو ۸۵ افراد کو گرفتارکرکے مختلف اوقات میں تشددکانشانہ بنایاگیا۔ ۲۰۱۳ء میں یہ تعداد دگنا ہوگئی۔ جیلوں میںقیدبزرگوں ، لیڈروں اور کارکنوں کوقانونی ، طبی اور بنیادی سہولتیں تک میسرنہیں۔

جماعت اسلامی اور طالب علموں کی تنظیم اسلامی چھاتروشبر (اسلامی جمعیت طلبہ) کے ہزاروں کارکنوں کو جیلوں میں بند‘ سیکڑوں کارکنوں کو زخمی اور درجنوں کارکنوں کو گولی مار کر قتل کیاجاچکاہے، جب کہ سیکڑوں کارکن طالب علموں کو تعلیمی اداروں سے بے دخل کیاجاچکاہے۔

اسلامی چھاتروشبرکے کارکنوں پر تشددکے لیے RAB (ریپڈایکشن بٹالین)، بارڈرگارڈز بنگلہ دیش(BGB)، پولیس اورعوامی لیگ کے غنڈاعناصراورچھاترولیگ کے   دہشت گردوںکی مشترکہ ٹیم متحرک ہے۔ شبر کے جن سیکڑوں کارکنوںکوزخمی کیاگیاہے ان میں سے بہت سوں کو زندگی بھرمعذوربنانے کے لیے ‘ ان کی دونوں ٹانگوں پر قریب سے گولیاں مار کر اپاہج کردیاگیاہے، یاپھرکہنیوںمیں گولیاں مارکرہاتھوں سے معذورکردیاگیاہے۔ اس نوعیت کے خوف ناک تشدداورباقاعدہ اندازسے ظلم کی مثالیں عصرِ حاضر میں کہیں نہیں دیکھی گئیں۔ مگرافسوس ہے کہ دنیا میں اس کے خلاف آوازبلندنہیں ہورہی۔

گذشتہ برس ایک طالب علم دلاورحسین کو، جو اسلامی چھاتروشبرسے تعلق رکھتے ہیں، ڈھاکا سے گرفتار کرکے ۳۵۲ مقدمات میں ملوث کیا۔ ۴۵روز تک تشددکے دوران ان کے ہاتھ اور پاؤںکے ناخن جڑسے اکھاڑ لیے گئے اور اتنا تشددکیاکہ دلاور کے جسم کا آدھاحصہ مفلوج ہوگیاہے۔ یہ ایک مثال نہیں بلکہ ایسی بہت سی مثالیں ہیں کہ جنھیں بیان کرتے ہوئے روح کانپ اُٹھتی ہے۔

۲۰۱۴ء کے جون میں اسلامی چھاتری شنگھستا (اسلامی جمعیت طالبات) کی۳۲کارکنان کو بھی توہین آمیزطریقے سے گرفتارکرکے جیلوںمیں بندکردیاگیا۔

معلومات کے اس برق رفتارزمانے میں یہ سب کچھ ہورہاہے اور کوئی اس ظلم کا ہاتھ روکنے والانہیں۔ یہ سب کچھ بنیادی انسانی حقوق کی پامالی اور بے حرمتی ہے اور انسانی حقوق کا تعلق سرحدوں کی قید سے مشروط نہیں۔ اس لیے دنیا کے کونے کونے سے عوامی لیگی کٹھ پتلی حکومت کے اس ظلم کے خلاف آواز بلندہونی چاہیے۔ نام نہاد انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کو توڑاجائے۔ گرفتارشدگان کو رہاکیاجائے۔ جعلی انتخاب کی پیداوارحکومت کو برطرف کرکے نئے انتخابات کرائے جائیں اور بھارتی تسلط سے بنگلہ دیش کے عوام کو آزادی دلائی جائے۔

گذشتہ سات سال سے محصور غزہ ایک دفعہ پھر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کی وجہ سے آگ اور خون کی میں زد میں ہے۔ ان سطور کے لکھنے تک ۶۵۰فلسطینی شہید اور۴ ہزار سے زائد زخمی ہوگئے ہیں،جب کہ سیکڑوں گھر ، سکول ،رہایشی عمارتیںاور مساجد ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کردیے گئے ہیں۔ اسرائیلی وزیر دفاع گابی اشکنازی نے اعلان کیا ہے کہ غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجاکر  دم لیں گے۔ ۲۰۰۸ء اور ۲۰۱۲ء کے حملے کے برعکس اس دفعہ زمینی حملہ بھی کیا گیا ہے اور اسرائیلی افواج ٹینکوںاور بھاری اسلحے سمیت غزہ پر مختلف اطراف سے چڑھائی کرچکی ہیں۔یہ تو معلوم نہیں کہ ۷جولائی سے جاری آگ اور خون کا یہ کھیل مزید کتنے بے گناہوں کی جان لے گا، تاہم اس موقعے پر مسلم دنیابالخصوص عالم عرب کی خاموشی ایک بڑا سوالیہ نشان بن کر سامنے آئی ہے۔

حملے کے اسباب:

حالیہ حملے کے جواز کے لیے اسرائیل نے الزام عائد کیا ہے کہ حماس ۲۰۱۲ء کے امن معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی کرتی رہی ہے اور اسرائیلی آبادیوں کوغزہ سے اپنے راکٹوں سے نشانہ بنا تی رہی ہے۔اس کشیدگی میں اضافہ اس وقت ہوا جب۱۲ جون ۲۰۱۴ء کو اچانک تین اسرائیلی نوجوان غائب ہوگئے اور چند دن بعد سرحد کے قریب سے ان کی لاشیں ملیں۔ اسرائیل نے اس کا الزام براہ راست حماس پر لگا یا اور انتقامی کارروائی کا فیصلہ کیا۔ حماس نے اس الزام کی تردید کی اور کہا کہ اگر انھوں نے ان اسرائیلی لڑکوں کو پکڑا ہوتاتوانھیں قتل کرنے کے بجاے ان کے بدلے اپنے قیدی رہا کرواتے ، جیسا کہ اس نے جلعاد شالیط کے بدلے تقریباً ۱۳۰۰فلسطینی مرد وخواتین قیدیوں کو رہا کروایا تھا۔ اس کے باوجود اسرائیل نے بزدلانہ کارروائی کرتے ہوئے ایک ۱۴ سالہ فلسطینی بچے کو اغوا کرکے زندہ جلادیا اور رفح کی سرحد پر حماس کے چھے قائدین کو شہید کردیا اور بڑے پیمانے پر کارروائیوں کا آغاز کردیا۔وہائٹ ہاؤس نے بھی فوری طور پراسرائیل کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے اسرائیلی جنگی کارروائیوں کو حقِ دفاع قرار دے دیا۔ امریکی شہ ملتے ہی اسرائیل نے بمباری میں اضافہ کیا اورسرکاری عمارتوںسمیت عام آبادی کو نشانہ بنانا شروع کردیا۔

در اصل جب سے مصر میں فوجی انقلاب کے ذریعے اسرائیل کے حامی اقتدار میں آئے ہیں تب سے اسرائیل کے تیور بدلے ہوئے ہیں۔ حماس نے شروع ہی سے اس صورت حال کا ادراک کیا اور الفتح کے ساتھ مصالحت کرکے ایک دفعہ پھر مشترکہ قومی حکومت تشکیل دینے کا دانش مندانہ فیصلہ کیا ۔ مسلمانوں کو ہمیشہ سے تقسیم کرنے کی پالیسی پر گامزن امریکا واسرائیل کو منظور نہ تھا کہ دونوں دھڑے ایک ہوکر اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائیں۔یہی وجہ ہے کہ لڑکوں کی گم شدگی اور  قتل کا بہانہ بنا کر ا س نے غزہ پر چڑھائی کردی ۔

 بعض تجزیہ نگاروں نے لکھا ہے کہ چند سال قبل غزہ کی پٹی میں تیل اور گیس کے وسیع ذخائر دریافت ہوئے ہیں ،اسرائیل انھیں اپنی تحویل میں لینا چاہتا ہے۔ اس لیے وہ ہر قیمت پر غزہ کو اپنے کنٹرول میں لینا چاہتا ہے۔ برطانوی اخبار دی گارڈین نے اپنی ۹ جولائی ۲۰۱۴ء کی اشاعت میں معروف دفاعی تجزیہ نگار ڈاکٹر نفیز احمد کے حوالے سے لکھا ہے کہ ۲۰۲۰ء تک اسرائیل کا توانائی بحران شدت اختیار کرسکتا ہے جس کے پیش نظر اسرائیل فلسطینی ذخائر پر قبضے کو ضروری سمجھتا ہے ۔ غزہ کے ساحل کے قریب تقریبا ڈیڑھ کھرب کیوبک فٹ گیس کے ذخائر موجود ہیں۔اسی وجہ سے اسرائیل نے حماس کے خاتمے کے لیے غزہ پر جنگ مسلط کی ہے۔ معروف امریکی ماہرِ توانائی ڈاکٹر   گرے لفت نے امریکی جریدے جرنل آف انرجی سیکورٹی میں اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ اسرائیل ، مصر سے گیس کی مسلسل فراہمی کے باوجود آیندہ چند سالوں میں گیس کے شدید بحران کا سامنا کرے گا۔ اس لیے اس کی نظریں خطے میں موجود تیل اور گیس کے ذخائرپر لگی ہوئی ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ پہلے ہی دن سے غزہ اسرائیل کی نظروں میں خاردار کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے اور وہ ہر قیمت پر اسے باقی مقبوضہ فلسطین میں شامل کرنا چاہتا ہے، تاکہ وہاں مصر کے آمر سیسی کی طرح وفادار اور محمود عباس کی طرح کٹھ پتلی حکومت قائم کرکے جب چاہے فلسطینیوں کو وہاں سے نکال باہر کرے اور جب چاہے وہاں نئی یہودی آبادیاں قائم کرے۔

بین الاقوامی برادری کا رد عمل:

غزہ پر حملے کے اگلے ہی دن امریکی ترجمان نے اسرائیل کی مکمل حمایت اور حماس کی مذمت پر مشتمل بیان جاری کیا ۔ اقوام متحدہ نے دونوں اطراف کو معاملات مذاکرات کے ذریعے حل کرنے اور جنگ بندی کا مشورہ دیا۔ گویا کہ اسرائیل کی وحشیانہ بمباری اور حماس کی جانب سے چلائے گئے دفاعی میزائل برابر ہیں۔امریکی رد عمل کے آتے ہی مسلم دنیا جیسے چپ سادھ گئی اور گاجر مولی کی طرح کٹتے نہتے فلسطینیوں پر جاری وحشیانہ بمباری گویا انھیں نظر ہی نہ آرہی ہو۔

عرب ممالک پہلے تو خاموش تھے لیکن جب سوشل میڈیا پراسرائیلی بموں سے معصوم فلسطینی بچوںکے جسموں کے پرخچے اڑتے ہوئے دکھائے گئے اور ہر طرف سے عرب حکمرانوںکو بے حسی کے طعنے دیے جانے لگے، تو کاغذی کارروائی کے لیے عرب وزراے خارجہ کا اجلاس طلب کیا گیا، حملے کی مذمت کی گئی اورتصویری سیشن کرکے بات ختم کردی گئی۔ مصر نے البتہ جنگ بندی کی ایک تجویز پیش کی جو در اصل اسرائیلی تجویز تھی، سب نے اس کی حمایت کا اعلان کیا۔ اسرائیل نے بھی اسے تسلیم کیا لیکن معاملے کے اصل فریق حماس سے نہ تو کوئی رابطہ کیا گیا نہ مشاورت ، بلکہ حماس کے ترجمان کے مطابق انھیں صرف میڈیا کے ذریعے اس معاہدے کی خبریںملیں ۔اب جس جنگ بندی کے معاہدے کا حماس کو کچھ معلوم ہی نہ تھااسے قبول کرنے سے انکار پر مطعون کیا جا رہا ہے۔

 اس ضمن میں ما سوائے ترکی کے کسی مسلمان ملک سے سرکاری طور پرکوئی احتجاج یا مذمتی بیان سامنے نہیں آیا۔ترکی نے نہ صرف سخت احتجاج کیا بلکہ حملے بندنہ کرنے کی صورت میں سفارتی تعلقات ختم کرنے کی دھمکی بھی دی۔ ترک وزیر اعظم نے اس پورے معاملے میں مصر کے منافقانہ رویے کی سخت مذمت کرتے ہوئے فوجی حکمران جنرل سیسی کو ظالم آمر قرار دیا۔

جنگ بندی کی مصری تجویزاور حماس کا انکار:

عرب وزراے خارجہ کے اجلاس منعقدہ ۱۴ جولائی قاہرہ میں مصر نے جنگ بندی کی تجویز میں کہا کہ حماس اور اسرائیل کو فوری طور پر جنگ بندی کرنی چاہیے ۔ تجویز میں حماس سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ کسی قسم کے راکٹ اسرائیل کی طرف فائر نہ کرے۔ مصر نے غزہ اور اسرائیل کے مابین سرحد پر موجود تمام گزرگاہوں کو کھولنے کی بھی تجویز دی ، تاہم تجویز میں اپنی سرحد کو کھولنے کی کوئی پیش کش نہیں کی۔حماس اور دیگر جہادی تنظیموں نے اس تجویز کو مسترد کردیا ۔ القسام بریگیڈ نے اسے اسرائیلی بالادستی تسلیم کرنے کے مترادف قرار دیا ۔حماس نے موقف اختیار کیا کہ ہماری شرائط تسلیم کیے بغیر جنگ بندی قبول نہیں ہے ۔ اس تجویز میں ہمارے مطالبات کا ذکر ہے نہ ہمیں مشاورت کے بارے میں مطلع کیا گیا ہے۔عرب وزراے خارجہ کے اجلاس کے بعد جاری کردہ اعلامیے کی عبارت ایسے مرتب کی گئی جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ فریقین موجودہ صورت حال کے برابر ذمہ دار ہیں۔

حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ نے کہا کہ ہم جنگ بندی چاہتے ہیں۔ ہم ۲۰۱۲ء کے معاہدے کی طرف لوٹنا چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اسرائیل کی وحشیانہ بمباری بند ہو اور ہمارے عوام سُکھ کا سانس لیں لیکن ہمارا اصل مسئلہ سات سال سے جاری محاصرہ ہے جس سے ہماری قوم فاقوں کا شکار ہے اور ایک بڑی جیل میں قیدیوں کی سی زندگی گزار رہی ہے، جب کہ مصری تجویز میں اس کو یکسر نظر انداز کردیا گیا ہے۔ ۲۰۱۲ء کے امن معاہدے میں اسرائیل کو پابندکیاگیا تھا کہ وہ حماس کے قائدین اور دیگر مجاہدین کو ٹارگٹ نہیں کرے گا ،جب کہ موجودہ تجویز میں اسرائیل کواس کا پابند نہیں کیا گیاہے ۔گویا اسے کھلی چھٹی دے دی گئی ہے کہ جب چاہے اور جسے چاہے ٹارگٹ کرے۔ اس تجویز میں اسرائیل کو پابند کیا گیاہے کہ ضرورت کی اشیا لانے لے جانے کے لیے گزرگاہوں کو کھول دے ،تاہم اسے امن وامان کی صورت حال سے مشروط کیاگیا ہے۔گویا اسرائیل جب چاہے ان گزرگاہوں کو بند کردے۔

غزہ پر مسلط کی گئی اس جنگ میں اگر چہ سیکڑوں فلسطینی شہید اور ہزاروں زخمی ہوچکے ہیں ، لیکن پہلی بار حماس کی طرف سے داغے گئے ۱۰۰ فی صد مقامی ساخت کے میزائل تمام یہودی آبادیوں تک پہنچ رہے ہیں۔ پہلی بار خود اسرائیلی سرکاری ذرائع نے دو درجن سے زائد اسرائیلی فوجی جہنم رسید ہونے کا اعتراف کیا ہے ۔ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو دکھائی گئی ہے، جس میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو امریکی صدر کا فون سن رہا ہے ۔ فون کے دوران حماس کے راکٹوں کی آواز آئی اور وہ فون چھوڑ کر بھاگا۔شاروول نامی ایک یہودی فوجی حماس کے مجاہدین کے ہاتھ لگ گیاتو فلسطینی آبادی میں خوشیوں کے شادیانے بج گئے کہ جلعاد شالیط کی طرح اب مزید قیدی رہا ہوں گے۔

وَلَا تَھِنُوْا فِی ابْتِغَآئِ الْقَوْمِ ط اِنْ تَکُوْنُوْا تَاْلَمُوْنَ فَاِنَّھُمْ یَاْلَمُوْنَ کَمَا تَاْلَمُوْنَ ج وَ تَرْجُوْنَ مِنَ اللّٰہِ مَا لَا یَرْجُوْنَ ط ( النساء :۴:۱۰۴) اس گروہ کے تعاقب میں کمزوری نہ دکھاؤ- اگر تم تکلیف اٹھا رہے ہو تو تمھاری طرح وہ بھی تکلیف اٹھا رہے ہیںاور تم اللہ سے اس چیز کے امیدوار ہو جس کے وہ امیدوار نہیں ہیں۔

ایسا ہرگز نہیں ہے کہ نقصان صرف نہتے فلسطینیوں کا ہورہا ہے۔خود اسرائیل کے اندر یہودی اپنی حکومت کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں کہ خدا را غزہ پر بمباری بند کرو اور ہمیں سکون سے رہنے دو۔فتح ان شاء اللہ حق کی ہوگی اور شیخ احمد یاسین شہید کی پیشین گوئی سچ ثابت ہوگی۔ انھوں نے کہا تھا کہ الٹی گنتی شروع ہوگئی ہے اور ان شاء اللہ اس صدی کی تیسری دہائی اسرائیل کے مکمل خاتمے اور صفحۂ ہستی سے مٹ جانے کی دہائی ہوگی۔

غزہ کے نہتے اور معصوم عوام پر ظلم و سفاکیت کی یہ نئی مثال بھی ختم ہوجائے گی ، لیکن تاریخ بین الاقوامی برادری کی جانب داری ، او آئی سی اور عالم عرب کی بزدلانہ خاموشی کو کبھی معاف نہیں کرے گی ۔ مصر کا منافقانہ رویہ اور اسرائیل دوستی بھی کھل کر سامنے آگئی ہے اور ترک وزیر اعظم نے بجا طور اسے اسرائیل کے ساتھ اس وحشیانہ اور ظالمانہ کارروائی میں برابر کا شریک قرار دیا ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ اگر پوری امت یک جا ہوکر اسرائیل کی طرف پھونک بھی مارے تو وہاں ایک پتّا بھی نہیں رہے گا، لیکن افسوس کہ مسلم حکمران بزدلی اور بے حسی کی تمام حدیں عبور کرچکے ہیں۔ ان سے خیر کی امید تو نہیں پھر بھی ہماری تجویز ہے کہ فوری طور پر تمام مسلم ممالک کا ہنگامی سربراہی اجلاس بلایا جائے اور غزہ پر جارحیت کو رکوانے کے لیے واضح عملی اقدامات کا اعلان کیا جائے۔ اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ عالمی قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے ایسے سخت اقدامات کرے جن سے محصور اہل غزہ کے اجتماعی قتل کو روکا جا سکے۔مصرکو پابند کیا جائے کہ اہل غزہ کا بیرونی دنیا سے رابطے کا واحد راستہ رفح گیٹ وے کوفوری اور مستقل طورپر کھول دے ،تاکہ زخمیوں اور بیماروں کو مناسب علاج معالجے کے لیے مصر اور دیگر ممالک لے جایا جاسکے ۔ مسلمان ممالک بالخصوص عرب ممالک اسرائیل کے سرپرست اور اس جارحیت کی حمایت کرنے والے ممالک کے ساتھ تمام تجارتی معاہدوں خصوصاً تیل کے معاہدوں پرنظر ثانی کریں ۔اورمشترک دشمن کے مقابلے میں فلسطینی دھڑوں میں انتشار پیدا کرنے کے بجاے انھیں متحدکرنے کی سنجیدہ کوششیں کریں۔

۱۰ جون ۲۰۱۴ء کے بعد سرزمینِ عراق نے خطے کے تمام ممالک کی توجہ اپنی طرف مبذول کیے رکھی۔ ان ایام میں تنظیم الدولہ الاسلامیہ فی العراق والشام (داعش) نے ضلع نینویٰ کے انتظامی مرکز اور عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل پر قبضہ کرلیا جس کی آبادی ۱۰لاکھ نفوس سے زائد ہے۔ شمال مغربی بغداد میں ضلع صلاح الدین اور اس کے انتظامی مرکز تکریت، مغربی عراق کے ضلع انبار اور اس کے انتظامی مرکز رمادی پر اپنا تسلط قائم کرلیا۔ اس کے ساتھ پٹرول مہیا کرنے والے بیش تر علاقے پر بھی تنظیم نے کنٹرول حاصل کرلیا۔ یہ تمام کارروائی فلوجہ شہر کو مسلسل محاصرے میں رکھنے اور اس کے ہزاروں شہریوں کو ہجرت پر مجبور کیے رکھنے کے بعد عمل میں آئی۔ حالیہ چند مہینے امن و امان کی صورت حال کے اعتبار سے بہت خوف ناک گزرے۔ اس طرح حکومتی افواج کی پسپائی کے نتیجے میں دارالحکومت بغداد کی طرف رسائی کا راستہ تنظیم کے لیے آسان ہوتا نظر آرہا تھا۔      چند ہفتوں کے درمیان یہ عمل اس سُرعت سے مکمل ہوا کہ عراق کے ایک تہائی رقبے پر داعش نے اپنی اتھارٹی قائم کرلی، اور بغداد میں بھی اپنی کارروائیوں کا آغاز کردیا ہے۔

اس حیرت انگیز تیزرفتار کامیابی پر تنظیم کے ترجمان ابو محمد العدنانی کے اعلانِ قیامِ خلافت نے ہرشخص کو اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ انھوں نے حلب (شام) سے لے کر دیالی (عراق) تک خلافت ِاسلامیہ قائم کرنے کا اعلان کیا۔ ساتھ ہی تنظیم کے سربراہ ابوبکر البغدادی کے منصب ِ خلافت پر متمکن ہونے کا مژدہ بھی سنایا۔

داعش کا یہ اعلان بظاہر غیرمعمولی حد تک غیرمعقول ہے مگر جن حالات میں یہ اعلان سامنے آیا اس نے پورے عالمِ اسلام کی توجہ حاصل کرلی۔ اس میں شک نہیں کہ عراق اور شام دیگر عرب ممالک کی نسبت زیادہ ابتر سیاسی صورتِ حال سے گزررہے ہیں۔ بیرونی طاقتوں نے اپنے مفادات اور مقاصد کے حصول کے لیے ملک کے انسانی و مادی وسائل کو بے دریغ تباہ و برباد کیا ہے۔ ربع صدی قبل ایران کے ساتھ تصادم میں اس کی قوتوں کو ضائع کرنے کا کھیل کھیلا گیا اور بعدازاں صدام حسین کی ’انانیت‘ کو زیر کرنے اور خلیج میں اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی۔ ظلم و ستم اور جبروقہر کی یہ تاریخ نئے سے نئے باب رقم کرتی جارہی ہے، حتیٰ کہ انسانی حقوق کی پامالی اور فرقہ وارانہ تصادم نے انسانی زندگی کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ شیعہ سُنّی فسادات کو ہوا دینے کے لیے اس طرح کا اعلان جلتی پر تیل کا کام کرگیا۔ چونکہ داعش کے نام اور تذکرے کے ساتھ ہمیشہ سُنّی کا لفظ ضرور استعمال کیا گیا ہے، لہٰذا یہ بات اس خدشے کو حقیقت میں بدلتی نظر آئی کہ اس سے لازماً شیعہ سُنّی تصادم کو ہوا ملے گی۔ یہی وجہ ہے کہ عراق کے شیعہ مرجع آیت اللہ سیستانی نے بھی داعش کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا۔

اس اعلان کے بعد جس خوف ناک صورت حال کے پیدا ہونے کا خدشہ تھا اس کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے علماے اسلام کے عالمی اتحاد (الاتحاد العالمی لعلما المسلمین) نے اپنے فوری ردعمل کا اظہار کیا۔ اتحاد نے شرعی طور پر اس اعلان کا جائزہ لیا اور ایک جامع بیان جاری کیا جس میں کہا گیا: عالمی اتحاد براے علماے مسلمین نے ’الدولہ الاسلامیہ‘ نامی تنظیم کی طرف سے جاری کی گئی تصریحات کا بغور جائزہ لیا ہے۔ یہ تنظیم عراق کے اندر دیگر عراقی طاقتوں کے ساتھ ہی وجود میں آئی تھی اور مقصد عراق کے اہلِ سنت اور ملک کے مظلوم انسانوں کی مدافعت تھا۔ یہ بات باعث ِ مسرت تھی اور ہم نے اس جمعیت کو ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کی بناپر خوش آمدید کہا۔ مگر جلد ہی اس تنظیم کی دیگر تنظیموں اور ملکی قوتوں سے علیحدگی عمل میں آگئی اور انھوں نے ’اسلامی خلافت‘ کے قیام اور ’خلیفۃ المسلمین‘ کی نامزدگی کااعلان یہ کہتے ہوئے کیا کہ دنیا بھر کے مسلمان بھی اس خلیفہ کی بیعت کریں اور اس کا حکم مانیں۔ اتحاد ان تمام اُمور کو شرعی اور دنیوی کسی بھی معیار پر درست نہیں سمجھتا۔ اتحاد کے نزدیک اس کے نقصانات زیادہ اور فوائد کم ہیں۔ اس طرح کے   اُمور دیگر تنظیموں اور ملکوں کے سامنے انتشار و انارکی کا دروازہ کھول دیتے ہیں کہ ہر کوئی کھڑا ہو اور ازخود خلافت قائم کرنے کا اعلان کردے۔ اس طرح تو خلافت اسلامیہ کا مقدس مفہوم ہی داغ دار ہوکر رہ جائے گا۔ یہ بہت بڑا خطرہ ہے اور دشمن کے منصوبوں کے سوا یہ کسی کی خدمت نہیں۔

اتحاد نے یہ بھی کہا کہ خلافت ِ اسلامیہ کے معنی و مفہوم کو ایک ایسی تنظیم کے ساتھ جوڑنا جو لوگوں میں تشددپسند مشہور ہو، منفی ذہنیت کی حامل ہو، ایسا عمل کبھی بھی اسلام کی خدمت نہیں ہوسکتا۔

داعش کے موصل پر قبضے سے سیاسی وعسکری اور امن و سلامتی سے متعلق کئی سوالات کھڑے ہوگئے کہ داعش کن لوگوں پر مشتمل ہے اور عراق کے اتنے وسیع علاقے پر کیسے قابض ہوگئی ہے؟   یہ کیسے قائم ہوئی اور پروان چڑھی؟ اس کے حمایتی اور معاون کون ہیں اور اس کی حرکت کا راز کیا ہے؟ اسے مالی امداد کہاں سے ملتی ہے؟

داعش کی تشکیل کا سلسلہ عراق میں ابومصعب الزرقاوی اردنی کی قائم کردہ تنظیم ’التوحیدوالجہاد‘ سے ملتا ہے۔ ابومصعب کی یہ تنظیم ۲۰۰۴ء میں قائم ہوئی تھی۔ ۲۰۰۶ء میں زرقاوی نے القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کی بیعت کرلی۔ زرقاوی اسی سال امریکی افواج کے ایک حملے میں جاں بحق ہوگیا۔ اس کے بعد ابوحمزہ المہاجر تنظیم کا سربراہ مقرر ہوا اور ساتھ ہی ابوعمر البغدادی کی سربراہی میں تنظیم ’دولۃ العراق الاسلامیۃ‘ کی تشکیل بھی عمل میں آگئی۔ ۱۹؍اپریل ۲۰۱۰ء کو ابوعمر البغدادی اور ابوحمزہ المہاجر امریکی و عراقی افواج کے ہاتھوں مارے گئے۔ کوئی ۱۰ دن بعد تنظیم کی شوریٰ کا اجلاس ہوا جس میں ابوبکر البغدادی کو ان کا جانشین مقرر کیا گیا۔

داعش کی تشکیل ۲۰۱۳ء میں ہوئی۔ یہ عراقی تنظیم ’دولۃ العراق الاسلامیہ‘ اور شام میں مصروفِ عمل مسلح تنظیم ’جبھۃ النصرۃ‘ کے درمیان جنگی معرکہ برپا ہونے کے بعد قائم ہوئی۔ یہ جنگی سرگرمیاں ان کے درمیان موجودہ برس بھی جاری رہیںا ور بالآخر دونوں تنظیموں کا اتحاد ہوگیا اور نتیجتاً ’الدولۃ الاسلامیہ فی العراق والشام‘ قائم ہوئی۔

داعش کا سب سے پہلا قدم القاعدہ سے اپنے سابقہ تعلقات اور وفاداریوں سے دست کش ہوجانا تھا، خصوصاً ایمن الظواہری سے لاتعلق ہونا ضروری خیال کیا گیا کیونکہ اُن کی راے تنظیم کی سرگرمیاں صرف عراق تک محدود رکھنے کی تھی۔ داعش کی افرادی قوت کا اندازہ شام اور عراق دونوں ممالک میں ۱۲ سے ۱۵ ہزار تک بتایا جاتا ہے۔ تاہم اس بات میں شک نہیں کہ یہ خطے کی سب سے بڑی مسلح تنظیم ہے۔

ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں اور تجزیہ نگاروں کی آرا کے مطابق داعش کو مالی امداد فراہم کرنے والے ممالک کئی ایک ہیں۔ امریکا سمیت کئی مسلم ممالک بھی اس کی پشت پر کھڑے ہیں۔ یقینا سب کے مقاصد اپنے اپنے ہیں۔ ایک روسی تجزیہ نگار نے وائس آف رشیا میں لکھا ہے  کہ داعش کا امیر اور نامزد خلیفہ ۲۰۰۴ء میں امریکی افواج کے ہاتھوں گرفتار ہوا اور ’بوکا‘ چھائونی میں اُسے رکھا گیا۔ ۲۰۰۹ء میں امریکی صدر باراک اوباما کے دور میں اُسے رہا کیا گیا۔ اس رپورٹ کے مطابق بغدادی امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے ساتھ کسی نہ کسی شکل میں کام کرتا ہے۔ ’بوکا‘ چھائونی کے ایک سابق انسپکٹر نے بتایا کہ بغدادی کو یہاں سے عراقی افواج کے حوالے کیا گیا تھا جس نے اُسے رہا کردیا۔

ایک رپورٹ کے مطابق داعش نے موصل پر قبضے کے دوران ۴۰۰ ملین ڈالر اکٹھے کیے۔ یہ بھی کہا گیا کہ یہ شہریوں سے بھتہ بھی وصول کرتے ہیں۔ مالی اور اسلحی طور پر داعش دنیا کی امیرترین مسلح تنظیم ہے جس پر دہشت گردی کا الزام ہے۔

بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ امریکا اس وقت شامی حکومت کے خلاف مسلح مزاحمت میں اضافے کو پسند نہیں کرتا۔ دوسری طرف ایرانی سرگرمیوں کا بھی اُسے احساس ہے جو روس کے تعاون سے ہوتی ہیں اور یہ خلیجی دوست ممالک کے لیے باعث ِ تشویش ہیں۔ وہ ایک طرف عراق میں اپنے مقاصد کے تحفظ کے لیے داعش کے مقاصد کو تقویت دے رہا ہے۔ دوسری طرف یوکرائن میں بھی روس امریکا کش مکش جاری ہے جس سے عالمی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔

داعش کی مسلح سرگرمیوں کے بارے میں بیش تر تجزیہ نگاروں کی راے ہے کہ عراق میں جو کچھ ہوا ہے یہ نوری المالکی کی ظالمانہ و وحشیانہ سیاسی کارروائیوں کا ردعمل ہے جو اس نے اہلِ سنت کے خلاف روا رکھیں۔ سیاسی میدان کو اہلِ سنت کے لیے بالکل بند رکھا۔ اس مسئلے کے حل کے مواقع پیدا نہ ہونے دیے۔ سوال یہ ہے کہ داعش اُس وقت بھی موجود اور طاقت ور تھی لیکن اس نے دیگر تنظیموں کے ساتھ مل کر اہلِ سنت کے حقوق کی جدوجہد میں کیوں حصہ نہ لیا؟ ممکن ہے داعش کے قیام سے ایک بڑا خطرہ جنم دے کر عراق کے اہلِ سنت کی سیاسی جدوجہد کو کچلنا مقصود ہو۔

اس صورتِ حال کا بغور جائزہ لیا جائے تو کئی امکانات اور خدشات دکھائی دیتے ہیں:

 اس عمل سے عراق کی تقسیم کا ہدف حاصل کرنا بھی مقصود ہوسکتا ہے کہ عراق کو تین مملکتوں میں، یعنی شیعہ، سُنّی اور کرد ریاستوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ مئی میں منعقد ہونے والے انتخابات میں کُرد اور سُنّی نمایندوں کی طرف سے اس طرح کے مطالبات سامنے آچکے ہیں۔ مثال کے طور پر سوڈان کی تقسیم کو دیکھا جاسکتا ہے۔

دوسرا امکان یہ ہوسکتا ہے کہ ایک طرف شیعہ اور ایران کی طاقت کو کچلا جائے تو دوسری طرف سُنّی اور خلیج کی قوت کو توڑا جاسکے۔ ماضی میں ایران عراق تصادم اس کی مثال ہے۔ جب ان دونوں محاذوں پر خطے کے اندر انتشار و افتراق پیدا ہوجائے گا تو عالمی اہداف اور مقاصد کا حصول آسان تر ہوگا۔ نئے اتحادوں اور دوستیوں کے تناظر میں ایک نیا خطہ تشکیل دیا جائے گا۔ اس کی مثال بھی ماضی کے ’سائیکس -پیکو‘ معاہدے میں موجود ہے۔ لیکن اب معاہدے کے فریق یقینا مختلف ہوں گے۔ اس منظرنامے میں عراق کے سُنّی علاقے کو اُردن کے ساتھ جوڑ دیا جائے گا اور شیعہ علاقے کو کویت اور ایران کے ساتھ، جب کہ کرد علاقہ ترکی کے ساتھ، شامل ہوجائے گا۔   مگر اس تقسیم کو امریکا قبول نہیں کرے گا، لہٰذا اس کا راستہ روکنے کے لیے اقدامات کرنا اُس کی ضرورت ہے۔

داعش کی سرگرمیوں سے عراق و شام دونوں ممالک کے اندر ایسی دائمی کش مکش برپا کرنا بھی مقصود ہوسکتا ہے جو افغانستان اور صومالیہ جیسی صورت حال پیدا کیے رکھے کہ مسلح قوتیں مستقل تصادم میں مصروف رہیں۔

ایک امکان یہ ہوسکتا ہے کہ امریکا اگر اپنے مقاصد کو پورا ہوتا نہ دیکھے تو نہ چاہتے ہوئے بھی آخری چارئہ کار کے طور پر اپنی افواج کو عراق میں اُتار دے۔ یہ بھی اُسی وقت ہوسکتا ہے جب عراقی سیاسی و انتظامی صورت حال امریکی مہروں کے کنٹرول سے باہر نکل جائے اور ملک کا انتظامی اختیار متشدد اسلامی طاقتوں کے ہاتھ میں چلا جائے۔

گذشتہ ربع صدی کے دوران عراق میں جو کچھ پیش آیا ہے یہ اس ملک کی غیرمعمولی اسٹرے ٹیجک اہمیت کی بنا پر ہوا ہے۔ دشمنانِ اُمت نے اپنے استعماری اہداف کے حصول کے لیے کھربوں ڈالر یہاں صرف کیے ہیں۔ یہ ’سرمایہ کار‘ آسانی اور سہولت سے تو اپنے اہداف سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔ لہٰذا ممکن نہیں کہ اتنی بڑی عسکری تحریکیں ان قوتوں کی براہِ راست نگرانی اور مداخلت سے بچ جائیں۔ ادھر ایران نے اپنے مفادات کے لیے اور شام میں نفوذ حاصل کرنے کے لیے بے پناہ دولت اور وسائل خرچ کیے ہیں، حتیٰ کہ اس نے ان روابط اور تعلقات کی بھی قربانی دے دی ہے جو اس نے ربع صدی کے دوران اُمت کے ساتھ استوار کیے ہیں۔ اور یہ بات معلوم ہے کہ شام کی اسٹرے ٹیجک اہمیت ایران کے لیے عراق کے مقابلے میں بہت کم ہے۔

شام کے اندر مزاحمت کاروں کی قوت ایک لاکھ سے زائد ہے۔ وہ مسلسل د و سال سے اس حکومت کے خلاف سخت معرکے میں مصروف ہیں۔ ہرقسم کا اسلحہ استعمال کر رہے ہیں۔ مقامی چھائونیاں بھی بنا رکھی ہیں مگر وہ عراق کے اندر جاری مزاحمت کی نسبت آدھی کامیابی بھی حاصل نہیں کرپائے ، جب کہ عراق میں مزاحمت کاروں کی تعداد بہت تھوڑی ہے۔

گذشتہ ایام میں ارضِ عراق کے اندر جو کچھ واقع ہوا ہے یہ عراقی افواج کی پسپائی اور ہزیمت و شکست نہیں ہے بلکہ یہ سرنڈر ہے جو عراقی افواج کے اس سرنڈر سے کامل اور عجیب مشابہت رکھتا ہے جو اس نے امریکی حملے کے سامنے کیا تھا۔ افواج کے یونٹ اپنے کمانڈروں اور سالاروں سے الگ ہوگئے اور انھوں نے سویلین کے اندر چھپنے اور فوجی وردیاں اُتارنے کا مظاہرہ کیا۔ اب کئی سال بعد یہ معلوم ہوا ہے کہ یہ سرنڈر جنگ سے بہت پہلے طے ہوچکا تھا۔

حالیہ واقعات اور داعش کی پیش قدمیوں اور عراقی افواج کی پسپائی نے یقینا بہت سے شکوک و شبہات پیدا کردیے ہیں۔ صرف داعش ہی منظر پر موجود ہے۔ وہ تنہا اپنی عسکری و سیاسی کارروائیوں کی کامیاب منصوبہ بندی کرتی دکھائی دیتی ہے۔ یہ بات بطور خاص توجہ طلب ہے کہ مشکل میدانِ جنگ میں قصبات و شہروں کے اُوپر اس کا قبضہ، حتیٰ کہ بغداد اور نجف و کربلا جیسے مقدس شیعہ مقامات پر کنٹرول حاصل کرلینا، داعش کی عسکری و افرادی قوت اور جنگی حکمت عملی کے تناظر میں ممکن نہیں ہے۔ یہ بات تنظیم کے پیچھے خفیہ ہاتھ اور اس کے نام اور خود تنظیم کو استعمال کرنے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ ایک تجزیہ نگار نے اس کا سبب بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر بغداد ۲۰۱۳ء کے اوائل میں دیرالزور میں شامی تیل کے مسئلے پر اور شمالی کردوں کی آزادی کے قضیے پر امریکا سے مزید تعاون کرتا تو یہ ممکن تھا کہ امریکا مالکی سے منہ نہ پھیرتا اور اُسے زیادہ طویل وقت دے دیا جاتا۔

مارچ ۲۰۱۳ء میں امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے مطالبہ کیا کہ عراق شام کو اسلحی امداد دینا بند کرے۔ تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ اُس دوران امریکی اسلحہ عراق کے اندر داعش کو دیا جاتا رہا۔ ۲۲؍اپریل ۲۰۱۳ء کو وزراے خارجہ کے یورپی اتحاد کے ۲۷ ارکان نے اس قرارداد سے اتفاق کیا کہ شام کے جن علاقوں پر مزاحمتی تحریک کا قبضہ ہے وہاں سے آنے والے تیل کی برآمد پر پابندیاں ختم کردی جائیں۔ مقصد تحریکِ مزاحمت کی حربی جدوجہد کو مالی امداد کی فراہمی آسان بنانا تھا۔

چند ماہ سے ذرائع ابلاغ عراقی حالات و واقعات کی ایسی تصویر دکھاتے رہے ہیں جو حقائق کو ایک دوسرے ہی رنگ میں پیش کرتی ہے۔ داعش کا مسئلہ ایک بڑے خطرے کے طور پر پیش کرکے عراق کے اندر اہلِ سنت کی اصل اور حقیقی جدوجہد کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سُنّی مزاحمت کے حقیقی کرداروں سے اُن کا کردار چھین کر داعش کے کھاتے میں ڈال دیا گیا۔  زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ یہ حوادث و واقعات اُمت مسلمہ اور عراق کے دشمنوں کا کھیل ہے۔

یہاں اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ نقصان بہرحال اُمت مسلمہ ہی کا ہوگا۔ کوئی دینی حکومت کبھی ایسا امتیازی سلوک روا نہیں رکھ سکتی جس میں اپنے ہی دینی بھائیوں کے انسانی حقوق کی پامالی ہوتی ہو۔ عنانِ حکومت کسی سُنّی اکثریت کے ہاتھ میں ہو یا شیعہ اکثریت کے ہاتھ میں عدل و انصاف اورتحمل و برداشت اگر حکومت کا وتیرا نہیں، تو ایسی حکمرانی اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ حکومت جمہوریت کا ثمر ہو یا نظامِ خلافت کا، اس کے ناگزیر تقاضوں کو اگر پورا نہ کیا جائے تو نہ جمہوریت میں خیر ہوگی اور نہ خلافت کسی کے لیے باعث ِ کشش رہے گی۔