اخبار اُمت


مصری صدر محمد مرسی کے خلاف ساری دنیا میں پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ انھوں نے مزید اختیارات سمیٹ لیے، فرعون بننا چاہتے ہیں، دوسرا حسنی بن بیٹھے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ پہلے سے حاصل اختیارات سے بھی دست بردار ہورہے ہیں۔ اس وقت مصر میں ملکی تاریخ کا پہلا عوامی دستور وضع کیا جارہا ہے۔ مجوزہ دستور میں صدارتی نظام حکومت کے بجاے پارلیمانی نظام متعارف کروایا جارہا ہے۔ اب اصل اختیارات صدر مملکت نہیں منتخب پارلیمنٹ اور اس کے منتخب کردہ وزیراعظم کے پاس ہوں گے۔ یہ دستور سازی مصر میں ایک نئے جمہوری دور کا آغاز اور اہم کارنامہ ہوگا، مخالفین صدر مرسی کو یہ اعزاز لینے سے روکنا چاہتے ہیں۔ دستور سازی کے ان آخری مراحل میں ایک بار پھر حسنی مبارک کی باقیات کے ذریعے دستوری عدالت کو متحرک کیا جارہا تھا۔ نو منتخب قومی اسمبلی کو چند ہفتوں کے اندر اندر تحلیل کردینے والی اس عدالت کے جج باقاعدہ بیانات دینے لگ گئے کہ نئے دستور کا مسودہ اور پارلیمنٹ کی منتخب کردہ دستوری کمیٹی غیر قانونی ہے۔ ملک میں سنگین دستوری بحران پیدا کرنے کی سازش کے واضح ثبوت مل جانے پر، صدر نے ایک عبوری حکم جاری کرتے ہوئے ملک میں نیادستور نافذ ہوجانے تک استثنائی اختیارات حاصل کرلیے ہیں جنھیں کوئی عدالتی فیصلہ متاثر نہیں کرسکتا۔ دستور کی راہ میں رکاوٹوں اور سازشوں کا سدباب صدر مرسی کا اصل جرم ہے۔

انگریز سے آزادی کے بعد سے لے کر اب تک مصر میں عوام کی حقیقی مرضی سے کوئی دستور نہیں بن سکا۔ پہلے ۱۹۲۳ء کا دستور نافذ رہا جو بادشاہت کا محافظ تھا۔ ۱۹۵۲ء کے فوجی انقلاب کے بعد جنرل جمال عبدالناصر اور ان کی فوجی انقلابی کونسل نے دستوری فرامین جاری کیے۔ ۱۹۵۶ء میں شام اور مصر کی متحدہ ریاست کا دستور جاری کردیا گیا۔ ۱۹۷۱ء میں دوسرے ڈکٹیٹر انور السادات نے اپنی مرضی کا دستور جاری کردیا۔ تیسرے ڈکٹیٹر حسنی مبارک نے بھی اپنے ۳۰ سالہ دورِ اقتدار میں یہی دستور مسلط کیے رکھا، البتہ گاہے بگاہے ترامیم کرکے اپنے لیے پانچویں بار منتخب ہونے اور اپنے بعد صاحب زادے جمال مبارک کے اقتدار کی راہ بھی ہموار کی۔ حسنی مبارک کے ساتھ ہی ان ڈکٹیٹروں کا دستور بھی رخصت ہوگیا۔ ریفرنڈم کے ذریعے ۶۳ شقوں پر مشتمل ایک عبور ی دستور منظور کیا گیا جس میں پارلیمانی و صدارتی انتخابات کے علاوہ ملک کو مستقل دستور تشکیل دینے کا طریق کار بھی طے کردیا گیا۔ طے پایا کہ منتخب پارلیمنٹ کے دونوں ایوان ۱۰۰ ماہرین پر مشتمل دستوری کمیٹی کا انتخاب کریں گے اور یہ کمیٹی چھے ماہ کے اندر اندر دستوری مسودہ تیار کرکے پارلیمنٹ کو پیش کردے گی جس پر عوامی ریفرنڈم کے ذریعے قوم کی راے لیتے ہوئے، یہ جامع دستور نافذ کردیا جائے گا۔

مصر میں قومی اسمبلی کی طرح سینٹ کا بھی عام انتخابات کے ذریعے انتخاب ہوتا ہے۔ دونوں ایوانوں کا انتخاب مکمل ہوتے ہی دستوری کمیٹی منتخب (متعین نہیں) کرلی گئی اور اس نے فوراً دستور سازی کا کام شروع کردیا۔ جمہوریت، مساوات، حقوق اور آزادی کے دعوے داروں نے تعاون کرنے کے بجاے قدم قدم پر بے ڈھنگے اعتراضات کی رکاوٹیں کھڑی کرنا شروع کردیں۔ سارا میڈیا چیخنے لگا کہ چوں کہ پارلیمنٹ پر ایک ہی رنگ، یعنی اسلامی ذہن چھایا ہوا ہے، اس لیے دستوری کمیٹی پوری قوم کی ترجمان نہیں ہوسکتی۔ ’’تنگ نظر اسلام پسندوں‘‘ نے نہ صرف دیگر پارٹیوں بلکہ عیسائیوں سمیت دیگر طبقات کو بھی، اس دستوری کمیٹی میں منتخب کرکے سارے پروپیگنڈے کی قلعی کھول دی۔ اس کے باوجود مختلف ارکان کمیٹی سے استعفے دینے کا اعلان کروایا گیا۔ بدقسمتی سے ان اعلانات کرنے والوں میں کئی دینی ذہن رکھنے والے اور خود جامعہ الازہر بھی شریک ہوگئی۔  کمیٹی نے اپنا کام پھر بھی جاری رکھا تو اکثر اعلان کرنے والے بھی واپس آگئے۔

مجوزہ دستور کی ایک ایک شق پر احتجاج و اعتراضات کی آندھیاں چلائی گئیں، لیکن بالآخر دستور کا ابتدائی مسودہ تیار ہوگیا۔ اب ایک ذیلی کمیٹی اس کی خواندگی کررہی ہے۔ ۱۰ دسمبر کو دستوری مسودہ تیار کرنے کے لیے مقررہ چھے ماہ کی مدت مکمل ہوجائے گی، لیکن ارکان کمیٹی کے بقول انھیں ابھی اس کے لیے کچھ مزید مہلت درکار ہے۔ اسی دوران میں دستوری عدالت کی تلوار سر پر لٹکا دی گئی۔ سازشی عناصر کی ویڈیوز اور دستاویزات نے ثابت کردیا کہ خدشات و خطرات حقیقت بن سکتے ہیں۔ جس طرح صدارتی انتخاب سے صرف ۱۲گھنٹے قبل نو منتخب قومی اسمبلی کو بلاجواز تحلیل کردیا گیاتھا، اب چھے ماہ کی ان تھک جدوجہد کے اختتام پر، صدر کے سامنے دستوری مسودہ لانے سے پہلے پہلے دستوری کمیٹی ہی کو تحلیل کیا جارہا تھا۔ صدر محمد مرسی نے سازشوں کا بروقت سدباب کرتے ہوئے، ایک عبوری حکم کے ذریعے دستور نافذ ہونے تک استثنائی اختیارات حاصل کرلیے۔    اب ان کے کسی فیصلے کو کوئی عدالتی فیصلہ متاثر نہیں کرسکتا لیکن جیسے ہی دستور نافذ ہوجائے گا،      یہ استثنائی اختیارات بھی ختم ہوجائیں گے۔ حالیہ صدارتی آرڈی ننس کا ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ کوئی عدالت اس دوران سینٹ یا دستوری کمیٹی کو تحلیل نہیں کرسکے گی۔

صدر کے حالیہ آرڈی ننس میں دوسری اہم بات صدر حسنی مبارک اور اس کے ساتھیوں کے خلاف مقدمۂ قتل کی تحقیقات و سماعت کا دوبارہ شروع کیا جانا ہے۔ حسنی مبارک کے ۳۰ سالہ جابرانہ دور میں تو جو مظالم ہوئے سو ہوئے، اس کے خلاف صرف تین ہفتے کی احتجاجی تحریک کے دوران میں تقریباً ساڑھے نوسو افراد کو شہید کردیا گیا تھا۔ کئی ماہ کی عدالتی تحقیقات کے بعدسیکڑوں افراد کے ان قاتلوں میں سے کسی کو بھی قرار واقعی سزا نہیں دی گئی۔ اس بے انصافی کی ایک اہم وجہ حسنی مبارک کا اپنا نامزد کردہ اٹارنی جنرل عبد المجید محمود بھی تھا۔ جو نہ صرف قتل کے ان مقدمات بلکہ     اپنے سابق آقاؤں کی کرپشن کے خلاف لاتعداد مقدمات کی راہ کھوٹی کرنے کی ایک اہم کڑی تھا۔ بعض افراد نے جب اس کی شخصیت کو بے نقاب کیا تو اس نے خود دھمکی آمیز فون کرکے انھیں   بلیک میل کرنے کی کوشش کی۔حسنی مبارک اور ہم نواؤں کے اپنی اصل سزا سے بچ نکلنے کے بعد سے عبدالمجید کے خلاف شہدا اور زخمیوں کے ورثا میں بھی اشتعال پایا جاتا تھا۔ صدر مرسی نے اب اس کی جگہ اچھی شہرت کے حامل ایک جج جسٹس طلعت ابراہیم کو نیا اٹارنی جنرل مقرر کردیا ہے۔

ان فیصلوں کو بنیاد بنا کر امریکی وزارت خارجہ اور یورپی یونین سے لے کر مصر کی تمام سیکولر طاقتوں نے صدر مرسی اور ان کی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔ اپنے خلاف تحریک کو کچلنے کے لیے حسنی مبارک کا اصل ہتھیار پیشہ ور غنڈوں کا ایک لشکر تھا۔ اچانک انھی جرائم پیشہ عناصر کو دوبارہ میدان میں اتار دیا گیا ہے۔ انھوں نے مختلف شہروں میں اخوان کے دفاتر نذر آتش کرنا شروع کردیے ہیں۔ دمنہور شہر میں اخوان کے دفتر پر حملہ کرتے ہوئے ایک کارکن اسلام مسعود کو شہید کردیا گیا ہے۔ ججوں کی ایک تنظیم سے عدالتوں کے بائی کاٹ کا اعلان کروادیا گیا ہے اور میدان التحریر میں کچھ لوگ خیمہ زن ہوگئے ہیں، کہ صدارتی حکم نامہ منسوخ کیا جائے۔

اعتراض اور احتجاج سیاسی عمل کا لازمی جزو ہے۔ قانون و اخلاق کے دائرے میں رہ کر احتجاج، نہ صرف ایک مسلمہ حق ہے بلکہ اس سے فیصلوں اور آرا میں تواز ن پیدا ہوتا ہے۔ لیکن اگر مقصد صرف تباہی اور سازشیں کرنا ہی رہ جائے تو پھر نتیجہ سب کے لیے ہلاکت ہے۔ اخوان نے متشدد مخالفین کے مقابلے میں صبر و حکمت کا راستہ اختیار کیا ہے۔ صدر مرسی نے ایک طرف تو تمام سیاسی طاقتوں اور عدلیہ کے ذمہ داران سے ملاقاتیں شروع کردی ہیں اور دوسری طرف قانونی ماہرین کو معاملے کے تمام پہلوؤں پر نظر ثانی کا کہا ہے۔ اگرچہ تقریباً تمام عالمی اور مقامی ذرائع ابلاغ  اخوان کے مدمقابل کھڑے ہیں، لیکن عوام کے جذبات و موقف کے اظہار کے لیے اخوان نے بھی ملین مارچ منعقد کرنے کا اعلان کیا۔ ان بڑے عوامی مظاہروں میں اخوان نے تصادم سے بچتے ہوئے، پہلے تو میدان التحریر سمیت ان تمام جگہوں سے دور جاکر اپنے پروگرام کرنے کا اعلان کیا کہ جہاں فتنہ   ُجو عناصر عوام کو باہم متصادم کرسکتے ہیں اور پھر عوامی قوت کا اپنا مظاہرہ ملتوی کردیا ۔ مصر کے کئی سیاسی رہنماؤں اور تجزیہ نگاروں نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ چونکہ مخالفین کی سب کوششوں کے باوجود اخوان اپنے قدم مضبوط کرتے جارہے ہیں اس لیے اب ان کی آخری کوشش ملک میں انتشار اور خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کرنا ہے۔ لیکن اب تک کے واقعات ثابت کررہے ہیں کہ مخالفین کی تمام سازشیں خود انھی کے خلاف جاتی ہیں۔ رب ذو الجلال کا ارشاد بار بار اپنی حقانیت منوا رہاہے کہ وَ لَا یَحِیْقُ الْمَکْرُ السَّیِّیُٔ اِلَّا بِاَھْلِہٖ ط  (الفاطر۳۵: ۴۳)، ’’حالاں کہ بُری چالیں اپنے چلنے والوں ہی کو لے بیٹھتی ہیں‘‘۔

دوسری طرف اخوان کی حکمت عملی دیکھیے:

حسنی مبارک کے جانے کے بعد اخوان نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ انتخابات میں تمام نشستوں پر اُمیدوار کھڑے نہیں کریں گے۔ فوجی جنتا کے اشارے پر اخوان کی بعض حلیف جماعتوں نے اپنے اُمیدواروں کے کاغذات واپس لے لیے اور اخوان کو سب نشستوں پر کاغذات جمع کروانا پڑے، وگرنہ سب کے سب کاغذات مسترد ہوجاتے۔ اللہ نے انھیں دونوں ایوانوں میں اکثریت دے دی۔ lاخوان نے پہلے دن سے فیصلہ و اعلان کیا تھا کہ وہ اپنا صدارتی اُمیدوار نہیں لائیں گے۔ کاغذاتِ نامزدگی داخل کرنے کی مدت ختم ہو نے کو تھی کہ سابق نظام کی باقیات نے حسنی مبارک کے دست راست عمر سلیمان یا احمد شفیق کو صدر بنانے کا فیصلہ کرتے ہوئے، دونوں کو میدان میں اُتار دیا۔ اخوان کی مجلس شوریٰ نے بھی کئی روز کی طویل مشاورت کے بعد، چند ووٹوں کے فرق سے اکثریت راے کے ذریعے اپنا فیصلہ تبدیل کردیا۔ اللہ نے اسی فیصلے میں برکت دی وگرنہ آج اسمبلی تحلیل ہونے کے ساتھ ساتھ ایوانِ صدر میں بھی کوئی دوسرا حسنی مبارک بیٹھا ہوتا۔

  • صدر مرسی کو صدارت کا عہدہ سنبھالے ابھی چند ہفتے ہی گزرے تھے کہ اسرائیلی سرحد پر بیٹھے مصری فوجیوں پر عین افطار کے دوران حملہ کردیا گیا۔ یہ کارروائی نومنتخب حکومت کو بحران سے دوچار کرنے کے علاوہ اُمور مملکت میں فوج کا عمل دخل بڑھانے کا ذریعہ بننا تھی، لیکن گھن زدہ قیادت سمیت ۷۰ فوجی افسروں سے خلاصی کی بنیاد بن گئی۔
  • صدارتی انتخاب سے چند گھنٹے قبل نوزائیدہ قومی اسمبلی کا سر قلم کرتے ہوئے عوام کو صدارتی انتخاب چھوڑ کر سڑکوں پر گھسیٹ لانے اور اپنی مرضی کے صدارتی نتائج لانے کی کوشش کی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے کئی مخالف اُمیدواروں اور ان کے حامیوں کو بھی صدر مرسی کی حمایت پر یکسو کردیا۔

اب ایک بار پھر سیاسی بحران عروج پر ہے۔ حالیہ بحران کی ایک خاص بات اس کا وقت بھی ہے۔ اس سے ایک ہی روز قبل غزہ کے خلاف اسرائیل کی تازہ جارحیت اختتام پزیر ہوئی تھی۔ اسے خود فلسطینیوں کی اکثر شرائط قبول کرتے ہوئے جنگ بندی کرنا پڑی تھی۔ اس لڑائی میں دوباتوں نے اسرائیل کو سب سے زیادہ پریشان کیا۔ ایک تو یہ کہ جس فلسطینی تحریک مزاحمت کا آغاز ۱۹۸۸ء میں پتھروں اور غلیلوں سے ہوا تھا اور جس نے فروری ۲۰۰۲ء میں پہلی بار خود ساختہ میزائل (قسام ۱) چلایا تھا، ۲۰۱۲ء میں اس کے تیار کردہ میزائل اسرائیل کے قلب تل ابیب تک جاپہنچے۔ اگر امریکا کا فراہم کردہ خود کار میزائلوں کا دفاعی نظام جسے ’فولادی ڈھال‘ کا نام دیا گیا ہے، جو حملہ آور میزائل کو فضا ہی میں تباہ کردیتا ہے، نہ ہوتا تو اب تک یقیناً ہزاروں اسرائیلی تہ خاک جاچکے ہوتے۔ اسرائیلیوں کے لیے دوسری تلخ اور صدمہ خیز حقیقت یہ تھی کہ گذشتہ جنگ میں مصری حکومت مکمل طور پر اس کی پشتیبان تھی، غزہ کے خلاف جنگ کا اعلان ہی قاہرہ میں بیٹھ کر کیا گیا تھا، لیکن اس بار مصری حکومت پوری قوت کی ساتھ فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑی تھی۔ وزیراعظم ہشام قندیل، عین جنگ کے درمیان غزہ جاپہنچے اور واضح اعلان کیا کہ مصر اپنے بھائیوں کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔ یہ درست ہے کہ اگلے ہی روز اسرائیل نے بم باری کرکے اس وزیراعظم ہاؤس کو راکھ کا ڈھیر بنادیا، جہاں چند گھنٹے قبل مصر اور  غزہ کے وزراے اعظم نے اکٹھے اعلان یک جہتی کیا تھا، لیکن تمام اسرائیلی تجزیہ نگار متفق ہیں کہ مصر کے تعاون کے بغیر اور مصر میں اخوان کی حکومت کے ہوتے ہوئے اسرائیل کا مستقبل محفوظ نہیں ہے۔

اس بار صدر مرسی کا راستہ روکنے کے لیے دستوری عدالت کے علاوہ ایڈمنسٹریٹو عدالت بھی میدان میں ہے۔ اس نے صدارتی حکم کے خلاف درخواست منظور کرتے ہوئے ۴ دسمبر کی تاریخ، سماعت کے لیے طے کی ہے، لیکن اس پورے منظر نامے کے باوجود، اللہ کی نصرت پر یقین رکھنے والے یکسو ہو کر پکار رہے ہیں    ؎

تندیٔ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب

یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے

جنوبی فلپائن کے مورو مسلمان برس ہا برس کی قربانیوں کے بعد وسیع تر خودمختاری کی منزل کے حصول میں سرخرو ہوچکے ہیں۔ حکومت ِ فلپائن اور مورو اسلامک لبریشن فرنٹ کے درمیان گذشتہ ۱۶برس سے جاری مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوئے۔ وسط اکتوبر میں طے پانے والے معاہدے سے جزائر منڈانائو، سولو کے مسلمان نہ صرف خودمختاری حاصل کرلیں گے بلکہ ۲۰۱۵ء میں ایک آزاد مسلم ریاست بھی وجود میں آجائے گی جس پر رومن کیتھولک فلپائن کی حکومت کو کسی طرح کا اختیار حاصل نہ ہوگا۔ بنگسامورو مسلمانوں کی زندگی میں یہ معاہدہ ایک اہم تاریخی دستاویز اور سنگ ِ میل کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

اس معاہدے کو ’فریم ورک معاہدہ براے حتمی قیامِ امن‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس وسیع تر خودمختاری کے حصول کے بعد مسلح جنگ جو منیلا حکومت کے خلاف چھاپہ مار کارروائیاں بند کردیں گے۔ اندازہ یہ ہے کہ آزادی کی منزل اور مسلم ریاست کے قیام کی جدوجہد میں ڈیڑھ لاکھ مورو مسلمان جامِ شہادت نوش کرچکے ہیں۔ بنگسامورو وطن کا تنازعہ ایشیا کے قدیم اور پیچیدہ تنازعات میں شمار کیا جاتا رہا ہے۔ نئے عالمی نظام کے علَم برداروں نے صرف اپنے موضوعات اس قدر اُچھالے ہیں کہ مسلمانوں کے مسائل پس منظر ہی میں رہتے ہیں۔ تاہم اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل، حکومت امریکا و روس اور اسلامی ممالک نے اس معاہدے کا اس لیے خیرمقدم کیا ہے کہ اس سے نہ صرف ایشیا میں امن قائم ہوگا بلکہ فلپائن کی حکومت بھی اپنے عوام کے لیے دائمی امن و سکون کے قیام کو یقینی بناسکتی ہے۔ مورو اسلامک لبریشن فرنٹ کے ۱۲ہزار مسلح مجاہدین سروں پر کفن باندھ کر میدانِ عمل میں ڈٹے رہے اور گذشتہ ۵۰برس میں منڈانائو، سولو، سلاوان کے مسلمانوں نے جس قسم کے اقتصادی، معاشرتی، سیاسی اور مذہبی بائیکاٹ کا سامنا کیا ہے اور نسل در نسل جس قدر قربانیاں دی ہیں وہ ایک الگ تاریخ ہے جس کو مرتب کیا جانا چاہیے۔

۱۵؍اکتوبر ۲۰۱۲ء کو اس معاہدے پر دستخط ہوچکے ہیں۔ مورو اسلامک لبریشن فرنٹ (جو عرصۂ دراز سے آزاد اسلامی حکومت کے قیام کے لیے سیاسی و مسلح جدوجہد کر رہی ہے) کے مصالحت کار مھاگر اقبال اور حکومت فلپائن کے مصالحت کار ماروک لیونن نے منیلا کے صدارتی محل میں اس تاریخی دستاویز پر دستخط کیے۔ فلپائن کے صدر بینگِینو اکینوسوم، ملایشیا کے وزیراعظم نجیب رزّاق اور مورو اسلامک لبریشن فرنٹ کے پُرعزم مجاہد قائد حاجی مراد دستخطوں کی تقریب میں موجود تھے۔ فرنٹ کے سربراہ اور حکومت ِ فلپائن نے ملایشیا کی حکومت کا خصوصی شکریہ ادا کیا ہے جنھوں نے اس دیرپا مسئلے کے حل کے لیے مصالحت کار نامزد کیے اور ۱۶برس کی محنت آخرکار رنگ لے آئی۔

یہ وسیع تر حقوق اور وسیع تر خودمختاری کا معاہدہ ہے۔ او آئی سی کو میانمار (برما) میں روہنگیا مسلمانوں کی حالت کا معائنہ کرنے کے لیے دفتر کھولنے کی اجازت نہ مل سکی، تاہم اُس کے سیکرٹری جنرل نے بھی جنوبی فلپائن میں بنگسامورو کی ریاست کے قیام کا خیرمقدم کیا۔اس معاہدے کو   رُوبہ عمل لانے کے لیے حکومت،فوج، پولیس، بنک، بلدیہ، ایکسچینج اور دیگر اہم اداروں کی تشکیل کے لیے درجنوں کمیشن تشکیل دے دیے گئے ہیں جس میں دونوں جانب سے نامزد نمایندے شامل کردیے گئے ہیں۔ جس وقت دستخط کی تقریب منعقد ہورہی تھی اُسی وقت ہزاروں مورو مسلمان اپنے قصبوں، شہروں اور دیہاتوں میں نعرئہ تکبیر بلند کر رہے تھے۔ خواتین نے بڑے بڑے جلوسوں کی صورت میں اپنی مسرت اور استعمار سے نجات کے آغاز کا خیرمقدم کیا اور میڈیا میں اسے شہ سرخیوں کے ساتھ جگہ دی گئی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کئی ایسے نکات ہیں  جن پر فریقین میں اختلاف ہوسکتا ہے، تاہم مجموعی طور پر قابض فلپائن اور زیرتسلط مورو مسلمان کی حتمی آزادی کے لیے ٹھوس اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔

وسیع تر خودمختاری کی حامل ریاست کا نام بنگسامورو [مورو مسلمانوں کا گھر] ہوگا۔ ۱۳صفحات پر مشتمل دستاویز میں واضح طور پر تحریر کیا گیا ہے کہ مسلح مورو مجاہدین بتدریج مسلم پولیس فورس میں مدغم ہو جائیں گے۔ ۱۵؍ افراد پر مشتمل عبوری کمیشن تشکیل دیا جائے گا جو دستور تشکیل دے گا۔

مورو اسلامک لبریشن فرنٹ کے سربراہ حاجی مُراد نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ زیرتسلط مورو مسلمانوں کی اَن گنت قربانیاں رنگ لائی ہیں۔ مورو مسلمان اپنے وطن، اپنی شناخت،اپنے دستور اور اپنی روایات کے مطابق زندگی بسر کرسکیں گے۔ تمام مسلح، نیم مسلح دستے، تعمیرِنوکی جدوجہد میں شریک ہوجائیں گے۔ اس نئی خودمختار ریاست میں پانچ صوبے شامل ہیں۔ باسلان، کوٹاباٹو، دواؤڈیل سور، سلطان قدرت، تاوی، سولو، واوی، دِیولوگ اور دیتیان کے علاقے ان پانچ صوبوں میں شامل ہیں۔ ۱۹۹۶ء میں حکومت ِ فلپائن نے مورو لبریشن فرنٹ سے معاہدے کے بعد اس علاقے کو خودمختار قرار دینے کا اعلان کیا تھا، بوجوہ اس پر عمل درآمد نہ ہوسکا ۔ ۲۰۰۸ء میں ہونے والا ایک اور معاہدہ بھی مسلمانانِ بنگسامورو کے لیے نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکا تھا۔

مورو لبریشن فرنٹ کا ، جو گذشتہ برسوں میں حکومت سے معاہدے کرتا رہا ہے، کہنا ہے کہ حکومت ِ فلپائن پر شدید دبائو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے ورنہ فلپائن کی حکومت کسی وقت بھی پینترا بدل سکتی ہے۔ ابھی خودمختار ریاست کا اعلان ہوا ہے اور مغربی طاقتوں نے وہاں القاعدہ ایجنٹوں کی موجودگی کا تذکرہ شروع کردیا ہے۔ یاد رہے دونوں بڑی تنظیموں میں داخلی اختلافات کے باوجود خلافت ِ راشدہ کی طرز پر ریاست کے قیام پر کوئی اختلاف نہیں۔

مسلمان یہاں سیکڑوں برس سے آباد ہیں اور ۱۵۷۰ء میں اس علاقے پر پُرتگیزیوں نے قبضہ کیا تھا۔ یہ علاقے قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں اور ہمسایہ ملک ملایشیا کی طرح یہاں کے مسلمان بھی اسلامی روایات پر نسل در نسل عمل پیرا چلے آرہے ہیں۔ اُمید کی جاتی ہے کہ یہاں جلد ہی ایسی حکومت قائم ہوجائے گی جودین اسلام کے حقیقی نفاذ کا عزم رکھتی ہے۔ مورو اسلامک فرنٹ کے اوّلین چیئرمین اُستاذ سلامات ہاشم کے عالمی اسلامی تحریکات سے گہرے مراسم تھے۔ سابق امیرجماعت اسلامی میاں طفیل محمد مرحوم کی دعوت پر وہ کئی بار پاکستان تشریف لائے تھے۔ 

سونے، چاندی، تانبے، زرخیز زرعی زمین، چاول، کپاس، گنا، گوشت اور سیکڑوں میل پھیلی ہوئی سمندری پٹی کے ساتھ بے حدوحساب مچھلی و سمندری خوراک کی دستیابی اس سے ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے اور آزادی کے ساتھ تعمیروترقی کی راہ طے کرنے میں مددگار ثابت ہوگی۔

۲۴رمضان المبارک ۱۴۳۳ھ (۱۲؍اگست ۲۰۱۲ئ) مصر کی تاریخ کا ایک یادگار دن تھا۔  یہ دن مسلح مصری افواج کو اس کی آئینی ذمہ داری یاد دلانے اور عوامی جمہوری قوت کو اس کا استحقاق عطا کیے جانے کا دن تھا۔ اس روز تاریخِ مصر کے پہلے نومنتخب صدر ڈاکٹر محمد مُرسی نے مصر کے وزیردفاع فوجی سپریم کونسل کے سربراہ، حسین طنطاوی کو برطرف کرنے کے ساتھ مسلح افواج کی قیادت کے اندر دیگر بہت سی تبدیلیوں اور عدلیہ و فوج کے تیار کردہ اس دستور کو کالعدم قرار دیا جس میں منتخب صدر کے بیش تر اختیارات سلب کرلیے گئے تھے اور قانونی اتھارٹی پر قبضہ کرلیا گیاتھا۔

ان صدارتی اعلانات کے ذریعے پہلی بار مصر منتخب صدر کی حکمرانی میں آیا، اور ۶۰برس بعد فوج سیاست سے بے دخل ہوکر اپنی اصل ذمہ داری، یعنی ملکی سرحدوں کی حفاظت کی طرف واپس لوٹا دی گئی۔ تجزیہ نگاروں نے کہا کہ ان صدارتی اعلانات کے ذریعے ملک کے اندر سیاسی استحکام ہوا، حکومتی اداروں کا استحقاق بحال ہوگیا، اور ملک ایک نئے دور کی طرف گامزن ہوگیا۔ ۲۵جنوری ۲۰۱۱ء سے شروع ہونے والے انقلابِ مصر کا سفر اس روز کافی حد تک اپنے معنی و مفہوم کو واضح کرنے میں کامیاب ہوا۔ یہی وہ اُمنگ اور آرزو تھی جو مصری قوم کے دل میں پونے دو سال سے مسلسل بیدار رہی اور اس روز اس کو اپنی تعبیر مل گئی۔

ایوانِ صدر کے اس مرحلے تک پہنچنے کے دوران میں چہ میگوئیوں، افواہوں، سازشوں اور اندرونی خلفشار کا ایک طویل سلسلہ ہے جس میں ہر اُس عنصر نے اپنا حصہ ڈالا جو سابق نظامِ حکومت کا کل پرزہ رہ چکا تھا یا موجودہ حکومتی ڈھانچے سے خوف زدہ تھا۔ قولی اور عملی، ہردوسطح پر کوشش کی گئی  کہ نومنتخب جمہوری اسمبلی کو بے دست و پا کردیا جائے، تاکہ انھیں ایوانِ اقتدار سے بے دخل کرنے میں آسانی ہو۔ بھرپور عوامی قوت اور مضبوط دینی سیاسی تحریک نے اس منصوبے کو ناکام بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ لیکن جمہوری صدر کے جرأت مندانہ فیصلوں کی توقع شاید خود اخوان المسلمون کو  بھی نہ تھی۔ اخوان اس تناظر میں بظاہر خاموش دکھائی دیے مگر اپنی رفتار، مزاج اور ضرورت کے مطابق اپنے کام میں مصروف رہے۔ ملکی عوامی حلقوں اور بیرونی سیاسی تجزیہ نگاروں کی طرف سے بے شمار سوالات سامنے آئے۔ ذرائع ابلاغ نے تو حد ہی کردی۔ اخوان خاموش اور صدر مُرسی مرکزنگاہ تھے، اور وہ تنِ تنہا سابقہ نظام سے پنجہ آزما ہونے کے لیے میدان میں موجود تھے۔

صدر مُرسی کے فیصلوں اور مسلح افواج کے اندر کی گئی تبدیلیوں پر اخوان کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر محمود حسین نے ہفت روزہ المجتمع (شمارہ ۲۰۱۶، ۱۸؍اگست ۲۰۱۲ئ)سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان فیصلوں میں ہماری مشاورت شامل نہیں لیکن مصر کے عوام ان فیصلوں کے منتظر تھے خصوصاً مسلح افواج کی ذمہ داری کے حوالے سے کہ اُس کی اصل ذمہ داری ملکی سرحدوں کی حفاظت ہے نہ کہ سیاست میں دخل انداز ہونے کی۔ اخوان کا خیال ہے کہ قوم چاہتی تھی کہ نومنتخب صدر کو اختیارات کسی کمی بیشی کے بغیر مکمل طور پر ملیں۔ اس لیے کہ فوجی کونسل آخری مرحلے میں حکومتی ڈھانچے میں اپنی شمولیت پر بضد تھی۔ وہ دستور سے بھی بالاتر حیثیت رکھنے کی متمنی تھی۔ مگر قوم کو یہ بات منظور نہیں تھی اور اس نے اپنی بیش تر سرگرمیوں کے ذریعے اس عسکری مداخلت کو مسترد کردیا۔  صدر کے اعلانات سے یقینی طور پر یہ مداخلت رُک گئی اور چونکہ عوامی دبائو تمام ملکی پارٹیوں کی طرف سے بہت شدید تھا، اس لیے فوج نے اپنی خفت مٹانے کے لیے یہ بیان بھی جاری کیا کہ یہ اعلانات اور فیصلے فوج کی مشاورت سے ہوئے ہیں۔ قوم، صدر کے خلاف شرم ناک میڈیا مہم، دستوری عدالت کے اعلانِ دستور اور فوجی سپریم کونسل کی من مانیوں کو دیکھ رہی تھی اور سمجھتی تھی کہ یہ سب کچھ منتخب اداروں کو ناکام بنانے، صدر جمہوریہ کو اپنی حکمرانی قائم کرنے پر قدرت نہ رکھنے کا تاثر دینے کے لیے کیا جارہا ہے۔ اس تناظر میں بلاشبہہ صدر مُرسی کے ان تاریخی فیصلوں نے معاملات کو اُن کے اصل مقامات کی طرف لوٹا دیا ہے۔

سابق نظام کے حمایتیوں کو ان اعلانات میں ڈکٹیٹرشپ کی بو آنے لگی اور انھوں نے کہا: ان فیصلوں سے تو قانونی اور تنفیذی اختیار پورے کا پورا صدر کے ہاتھ میں چلا گیا اور یوں یہ ایک نئی ڈکٹیٹرشپ قائم ہوگئی، جو اخوان کے ہاتھ میں ہے۔ اخوان کے سیکرٹری جنرل نے اس کا بہت  صحیح جواب دیا کہ ’’صدر نے اسمبلی کو تحلیل نہیں کیا، اور نہ اس کے اختیارات سلب کیے ہیں۔ یہ کام تو دستوری عدالت نے کیا تھا جس نے پہلے تین چوتھائی اسمبلی کو تحلیل کیا پھر پوری اسمبلی کو تحلیل کر کے اس کے تمام اختیارات سلب کرلیے، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اس عدالت نے ’مکمل دستوری اعلان‘ کے ذریعے منتخب اسمبلی کی قانونی اتھارٹی کو سپریم فوجی کونسل کی طرف منتقل کردیا تھا جو کہ منتخب نہیں ہے۔ اخوان کا خیال ہے کہ ایسی صورت حال میں نئے دستور کی جلد سے جلد تیاری ملک کے لیے بہتر ہوگی اور اس کی منظوری اور نفاذ قومی راے لیے بغیر نہیں ہونا چاہیے۔ عدالتی، تنفیذی اور قانونی اختیارات کو اُن کے اصل مقام کی طرف لوٹانے کا اس سے بہتر اور محفوظ راستہ کوئی نہیں‘‘۔

صدارتی فیصلوں کے اجرا سے بہت پہلے امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن نے مصر کا دورہ کیا اور مسلح افواج کے سربراہوں سے ملاقات کی اور یہ مطالبہ بھی کیا کہ وہ حکمرانی کا اختیار منتخب صدر کے حوالے کر دیں۔ بعض لوگوں نے ہیلری کلنٹن کے اس بیان سے اندازہ لگایا کہ اخوان اور امریکا کے درمیان تعلق کی برف پگھل گئی ہے اور بین الاقوامی طور پر مصری فوج دبائو کا شکار ہے۔ اس پر اخوان کا ردعمل تھا کہ ’’دوسرے انتخابی مرحلے میں بعض بین الاقوامی طاقتوں نے فوجی سپریم کونسل پر دبائو ڈالا کہ انتخاب کے حقیقی نتائج ظاہر کیے جائیں۔ لیکن یہ دبائو اخوان کی محبت یا اُن کی مدد کی غرض سے نہیں تھا بلکہ خوف یہ لاحق تھا کہ کہیں دوبارہ میدانِ تحریر نہ بھر جائے۔ اس کے ساتھ ہی ان ممالک نے اپنے مفادات کے حصول کی بھی کوشش کی ہے۔ اب تک تو ان ممالک کی کوششیں   التوا کے منصوبے کا حصہ رہی ہیں۔ صدرِ جمہوریہ کو ناکام کرنے کے لیے پوری قوت سے دبائو ڈالا جارہا ہے۔ دراصل اس صدر اور اسلامی نظام کی کامیابی تو ان ممالک کے مفادات میں نہیں ہوسکتی ۔ رہا ہیلری کلنٹن کا دورۂ مصر، تو وہ رسمی تھا مگر کچھ دیکھنے، سننے اور معلوم کرنے کے لیے تھا‘‘۔

اخوان المسلمون مصر کی ویب سائٹ ’اخوان آن لائن‘ پر جاری کیے گئے ایک جائزے کے مطابق صدر مُرسی نے محکمہ اوقاف کی تطہیر کا عمل بھی انجام دیا ہے اور وزارتِ اوقاف کے نو ذمہ داروں کو اُن کے عہدوں سے ہٹا دیا۔ صدر نے مختلف اور متعدد اداروں میں کلیدی عہدوں پر فائز شخصیات کو اُن کے عہدوں سے ہٹا دیا ہے جن کے بارے میں ایوانِ صدر کو یقین ہوا کہ یہ سابق نظام کی بحالی  کے لیے کوشاں اور موجودہ حکومتی ڈھانچے کے کام میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔

صدر مُرسی نے ان وسیع تبدیلیوں کے ساتھ صدارتی مجلس مشاورت کا بھی اعلان کردیا ہے اور ثابت کیا کہ حکومت پر صرف ایک فرد اور جماعت کا اختیار نہیں ہے بلکہ ملک کے تمام باشندے اپنی اہلیت و صلاحیت کے مطابق اس میں اپنا اپنا کردار ادا کریں گے۔ صدر نے داخلی و خارجی اُمور میں معاونت کے لیے چار افراد کو اپنے معاونین مقرر کیا ہے جن میں سے صرف ایک کا تعلق اخوان سے ہے، دیگر تین میں سے ایک سلفی جماعت حزب النور سے ہے، ایک خاتون معتدل اسلامی سیاسی فکر رکھتی ہیں اور ایک قبطی دانش ور ہیں جو ۲۵ جنوری ۲۰۱۱ء کے انقلاب کے بعد پہلے قبطی ہیں جو قاہرہ کے نائب گورنر کے منصب پر بھی فائز رہ چکے ہیں۔ ۱۷؍افراد کی مجلسِ مشاورت میں  مختلف شعبوں کے ماہر اور مختلف دینی سیاسی جماعتوں کے اہم افراد کو شامل کیا گیاہے۔ بیش تر افراد    علمی پس منظر اور تجربہ رکھتے ہیں۔ اس مجلس میں اسلامی، سیاسی اور لبرل جماعتوں کو نمایندگی دی گئی ہے۔ نائب صدر ایک آزاد رکن کو منتخب کیا گیا ہے۔ اسی طرح وزیراعظم بھی کسی جماعت سے تعلق نہیں رکھتا۔ مصری اور عالمی میڈیا نے صدارتی مہم کے دوران اخوان کا تعارف ایک سخت گیر، تشددپسند اور منتقم مزاج مذہبی جماعت کے طور پر کرایا تھا۔ ملکی اور عالمی حلقوں میں یہ تاثر گہرا کردیا گیا تھا کہ ڈاکٹر مُرسی کی کامیابی کی صورت میں ملک پر اخوان کی ڈکٹیٹرشپ قائم ہوجائے گی اور غیراسلامی و غیر دینی جماعتوں کی آزادی چھن جائے گی۔ اس مجلس مشاورت سے ظاہر ہوتا ہے کہ مصر پر کسی ایک جماعت کی حکومت نہیں بلکہ پوری قوم اس میں حصہ دار ہے۔

صدر مُرسی نے پورے اعتماد اور جرأت کے ساتھ اُمورِ سلطنت انجام دینے کا آغاز کیا ہے۔ داخلی اور خارجی دونوں حوالوں سے اُن کی کارکردگی پر عمومی نظر ڈالی جائے تو اب تک وہ اپنی ذمہ داریوں کی ادایگی میں کامیابی اور بہتری کی طرف بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں۔ عالمی سطح پر تعلقات کی ازسرنو بحالی مصر کے لیے ایک اہم اور مشکل مرحلہ تھا لیکن صدر مُرسی نے اس مرحلے کو بھی بڑی حکمت کے ساتھ اپنے معمول کا حصہ بنا لیا ہے۔ وہ اپنی صدارت کے کم و بیش دومہینوںمیں سعودی عرب، ایتھوپیا، چین، اٹلی اور ایران کے سفر کرچکے ہیں۔ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی بحالی اور خطے میں عرب ممالک کے مثبت اور قائدانہ کردارادا کرنے کے حوالے سے اُن کا سفر بہت سی توقعات کا مرکز بنا ہے۔ چین کے ساتھ اقتصادی معاہدوں نے بھی مصر کی معیشت کو سنبھالا دینے کی اُمید بندھائی ہے۔ اس کے ساتھ ہی صدر مُرسی نے علاقائی امن کی بحالی کو ممکن بنانے کے لیے چین پر زور دیا ہے کہ شامی صدر بشارالاسد کی عسکری و سیاسی مدد بند کی جائے۔ اس دورے میں مصر اور چین کے درمیان معاشی، سیاحتی اور تکنیکی شعبوں میں آٹھ معاہدات طے پائے ہیں۔ چین نے ناقابلِ واپسی ۴۵۰ یوان بجلی اور ماحولیاتی شعبوں میں مشترکہ منصوبے شروع کرنے کے لیے دیے ہیں۔ اسی طرح ۳۰۰ پولیس گاڑیاں بھی فراہم کی ہیں۔

ایران میں منعقدہ غیروابستہ ممالک کی کانفرنس میں شرکت کے دوران صدر مصر نے یہ بھی واضح کیا کہ مصر شام کی حکومت کے خلاف شامی قوم کے ساتھ کھڑا ہے۔ صدر مُرسی نے اس موقع پر مشرقِ وسطیٰ کو تباہ کن اسلحے سے پاک کرنے کے لیے اسرائیل سے معاہدے کا مطالبہ کیا۔ انھوں نے سلامتی کونسل کو بھی اپنا کردار ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی۔

صدر مُرسی نے ۳۵ نئے سفیر بھی مختلف ممالک میں تعینات کردیے ہیں۔ ان سفرا کو پابند  کیا گیا ہے کہ وہ بیرونِ ملک مصری قیادت کے احترام اور مصری کمیونٹی کے دفاع اور اُن کے وقارکے حصول کو یقینی بنائیں گے۔ خود صدرمُرسی نے ملکی سرحدوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے اُس وقت جرأت مندانہ اقدام کیا جب رفح کے مقام پر فلسطین و مصر کی سرحد پر اسرائیل نے جارحیت کی۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی رُو سے جو امریکا نے انورالسادات کے عہد میں کرایا تھا مصری فوج سینا کی اس سرحد پر اپنی کارروائی نہیں کرسکتی۔ صدر مُرسی نے رفح کے حادثے کے بعد فوج کو حکم دیا کہ ’نسر آپریشن‘ کے ذریعے سرحد سینا کو کھول دیا جائے۔ اس اقدام کے بعد صدر مُرسی نے ایک ارب مصری پونڈ کی خطیر رقم کے ذریعے اور سرحدی اُمور و مشکلات کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی قائم کرکے اس سرحد اور سویز کی آبی گزرگاہ پر ترقیاتی کاموں کو تیز کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔

ان بڑے فیصلوں کے ساتھ صدر مصر نے ملک کے داخلی امور کو حل کرنے کی طرف بھی خصوصی توجہ دی ہے۔ صدارتی انتخابی مہم کے دوران اخوان کے اُمیدوار کے طور پر ڈاکٹر مُرسی نے قوم کو جو منشور دیا تھا اس میں اپنی حکومت کے پہلے ۱۰۰ روز میں پانی، بجلی، صفائی، ٹرانسپورٹ اور غربت کے مسائل حل کرنے اور امن کی بحالی کا وعدہ کیا تھا۔ ان مسائل کے سلسلے میں انھوں نے ۴۱ہزار کسانوں کے ڈیڑھ ارب مصری پونڈ کے قرضے معاف کردیے ہیں۔ ملازمین اور کم آمدنی والے افراد کی تنخواہوں میں ۱۵ فی صد اضافہ کردیا ہے۔ غربت کے خاتمے کے لیے سوشل قرضوں کی رقم ۲۰۰ مصری پونڈ تھی اس کو بڑھا کر ۳۰۰ کردیا گیا ہے۔ قاہرہ جسے مرکزی شہر کے وسط میں   پھیری دار دکان داروں نے گراں فروشی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ صدر نے قاہرہ اور دیگر شہروں میں ۶کروڑ کی خطیر رقم خرچ کر کے عوام کو سستی اشیاے ضرورت فراہم کرنے کے لیے’ ایک روزہ بازار‘ لگانے کا اہتمام کیا ہے۔غربت مصر کا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ صدر نے بڑے اضلاع میں ’روٹی پلانٹ‘ کی کارکردگی کو بھی مزید بہتر کرنے کا حکم دیا ہے اور روٹی کی فراہمی کا دورانیہ بڑھا دیا ہے جو پہلے  ظہر تک تھا اب عصر تک کردیا گیا ہے۔ بڑے اضلاع میں جمبو روٹی پلانٹ بھی لگادیے گئے ہیں۔ اس ایک پلانٹ کی پیداوار روزانہ ۱۰لاکھ چپاتی تک ہوتی ہے۔ آیندہ اسی رفتار سے اس کارکردگی کو مصر کے تمام شہروں اور دیہاتوں میں پھیلانے کا عزم کیا گیا ہے۔ملک کے اندر تمام اضلاع میں عوام کی شکایات سننے اور حل کرنے کے لیے ’دیوان المظالم‘ قائم کردیے گئے ہیں۔ ملک کے داخلی امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے صدر نے وزیراعظم ڈاکٹر ہشام قندیل کو ہدایت کی ہے کہ شہریوں کے  عزت و وقار کا خیال رکھتے ہوئے اُن جرائم پیشہ افراد کو گرفتار کیا جائے جو راہزنی اور لُوٹ مار کی غرض سے متحرک ہیں۔ وزیراعظم کی قیادت میں امن فورسز نے ایسے بڑے بڑے آپریشن کیے ہیں جن کا مقصد ملکی امن و امان کی بحالی اور شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے۔

سیاسی قیدیوں کے اُمور کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی قائم کی گئی اور دورانِ انقلاب گرفتار کر کے پابند سلاسل کیے گئے بے گناہ افراد کی رہائی کا حکم بھی صدر نے جاری کیا۔ اسی طرح میڈیا کی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے ان صحافیوں کو بھی رہا کردیا گیا جن پر غلط معلومات شائع کرنے کا الزام تھا۔ شعبۂ صحافت سے وابستہ افراد نے صدر کے اس فیصلے کو بہت سراہا ۔ اس صدارتی اقدام سے صحافیوں کا ۱۰ برس سے جاری یہ مطالبہ بھی پورا ہوگیا کہ ’احتیاطی گرفتاری‘کا سلسلہ ختم کیا جائے۔ صحافتی آزادی کو پابند کرنے کے لیے سابق نظامِ حکومت نے یہ حربہ اختیار کیا تھا۔

موجودہ حکومتی کارکردگی میں رکاوٹیں ڈالنے کا سلسلہ بھی جاری ہے اور باقیات مبارک کا ایک گروہ نوجوانوں پر مشتمل ہے جو ملکی امن و امان کو تباہ کرنے کے لیے اپنی اچانک کارروائیاں کرتا ہے۔ ان لوگوں کا نشانہ ہسپتال ہیں۔ صدر نے ایک سو ہسپتالوں کی سیکورٹی کی ذمہ داری ملٹری پولیس کو دی ہے اور ایک سو مزید ہسپتال وزارتِ داخلہ کے ذریعے محفوظ رکھنے کا انتظام کیا ہے۔

مصر بجلی کے بحران سے بھی دوچار ہے۔ سابق دورِ حکمرانی کا یہ ’تحفہ‘ بھی موجودہ حکومت کے حصے میں آیا ہے۔ البتہ دمیاط پاور اسٹیشن کے افتتاح سے اس میں کچھ بہتری آئی ہے۔ گذشتہ اگست کے نصف میں اس اسٹیشن کا آغاز ہوا ہے اور ستمبر کے اختتام تک اس مشکل پر قابو پالینے کا صدر نے وعدہ کیا ہے۔ اسی طرح گیس کے بحران پر قابو پالینے کا مسئلہ ہے۔ وزارتِ داخلہ کو    اس مسئلے کو حل کرنے کا ہدف بھی دیا گیا ہے۔ اُمید ہے کہ یہ بھی جلد حل ہوجائے گا۔

صدر مُرسی نے ’صاف ستھرا ملک‘ کے نام سے ایک مہم کا آغاز کیا ہے جس کے تحت تمام اضلاع میں صفائی کے بڑے بڑے منصوبے شروع کیے گئے ہیں۔ صدر اور وزیراعظم اس کام کی خصوصی نگرانی کی غرض سے اچانک دورے بھی کررہے ہیں۔

انتخابی مہم کے دوران صدر نے صحرا کی کاشت کاری اور نیل کے کناروں پر نئے شہر آباد کرکے رہایش کے مسائل پر قابو پانے کا بھی اعلان کیا تھا۔ صدر نے ا س منصوبے کے آغاز پر کام کے لیے ماہر زوالوجی ڈاکٹر خالد عودہ کے پیش کردہ خاکے سے اتفاق کرلیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت ۳ لاکھ ایکڑ رقبہ قابلِ کاشت بنایا جارہا ہے، جس میں کھجور اور زیتون کے درخت لگائے جائیں گے۔ مویشیوں کی پیداوار بھی ہدف میں شامل ہے۔ شمسی اور ہوائی ذریعے سے بجلی پیدا کی جائے گی۔ غرض یہ کہ ایک مکمل شہرآباد کیا جائے گا۔ یہ منصوبہ اندازاً پانچ برس میں مکمل ہوگا۔

ڈاکٹر محمد مُرسی صدرِ مصر بننے کے بعد بھی اسی عوامی جمہوری اور اسلامی کردار کا مظاہرہ کر رہے ہیں جس کا اظہار اُن کے منصب صدارت پر پہنچنے سے پہلے ہوتا رہا۔ انھوں نے ایوانِ صدر کے عملے کے لیے قصرِ صدارت کی بہترین جگہ کو ادایگیِ نماز کے لیے مسجد میں تبدیل کردیا ہے۔  ایوانِ صدر کے سیکورٹی گارڈ، باورچیوں اور مزدوروں کو اجتماعی طور پر کھانا کھانے کی آزادی بھی حاصل ہوگئی ہے۔

صدرِ مصر کی سادگی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ سعودی عرب میں منعقدہ کانفرنس میں شرکت کے لیے اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ گئے تو خصوصی طیارہ استعمال نہیں کیا ،بلکہ اپنے تمام افرادِ خانہ کی ٹکٹ کا خرچ انھوں نے خود برداشت کیا اور عمومی فلائٹ کے ذریعے سعودی عرب پہنچے۔

ڈاکٹر محمد مُرسی نے یہ حکم بھی جاری کررکھا ہے کہ سڑک پر اُن کی آمدورفت کے وقت ٹریفک کو معطل نہ کیا جائے۔ انھوں نے قصرِصدارت میں رہایش بھی اختیار نہیں کی بلکہ اپنے گھر کو قیام گاہ بنائے رکھا ہے اور ایوانِ صدارت کو صرف کام کے لیے مخصوص رکھا ہے۔ صدرِ مصر نے اپنی نمودونمایش کو بھی روک دیا ہے۔ انھوں نے کسی دفتر میں اپنی تصویر یا مبارک باد کا پیغام آویزاں کرنے سے منع کر دیا اور ان فضولیات پر خرچ ہونے والی رقم کو قومی خزانے میں جمع کرنے کی اپیل کی۔ اس عمل سے کئی ملین رقم جمع ہوگئی ہے۔ انھوں نے ایوانِ صدارت کے محافظین کو ہدایت کی ہے کہ کسی شہید کے خاندان کو کسی بھی وقت ملاقات سے منع نہ کیا جائے۔ ایوانِ صدر کے دروازے ورثاے شہید کے لیے ہروقت کھلے ہیں۔

اِنقلابِ مصر کا سفر ابھی جاری ہے۔ سیاسی استبداد اور جمہوری قوت کے درمیان برپا معرکہ نئی سے نئی صورت اختیار کر رہا ہے۔ فوج اور عدلیہ کا گٹھ جوڑ صاف بتاتا ہے کہ انھیں یہ عوامی انقلاب کسی صورت برداشت نہیں۔ اُن کی پوری کوشش ہے کہ وہ اس انقلاب کا راستہ روکنے کے لیے ہرحربہ آزما دیکھیں۔

 صدارتی انتخاب کے دوران میڈیا کا اسلامی قوتوں کے خلاف زہر اُگلنا اور اُن کی یک جہتی کو پارہ پارہ کرنے کے لیے شرم ناک ہتھکنڈے استعمال کرنا روزانہ کا معمول تھا۔ فوج عدلیہ کی اور عدلیہ فوج کی معاون و مددگار ہے اور دونوں مل کر حسنی مبارک کے ۳۰سالہ دورِاستبداد کو واپس لوٹانے کی ناکام کوشش میں مصروف ہیں۔ مبارک کے کارندے اور ایجنٹ ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ ہرجگہ اور ہرفورم پر جھوٹے دعووں اور بے بنیاد نعروں کے ساتھ اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ان جھوٹے نعروں میں ایک نعرہ قانون کی حکمرانی کا تحفظ اور عدلیہ کے احکام کا نفاذ ہے۔ وہ اسے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ اُن کا ہدف محض پارلیمنٹ کی تحلیل اور صدر کا محاصرہ نہیں ہے، بلکہ وہ اس انقلاب کو مکمل طور پر ناکام کرکے حسنی مبارک کا دور واپس لانا چاہتے ہیں جس میں نظام وہی ہو، مگر چہروں کی تبدیلی کے ذریعے فریب اور مکاری کو حق ثابت کیا جاسکے۔ ان عناصر کی کوششوں سے یوں لگتا ہے کہ انھیں اسلام پسندوں کی ’جنت‘ سے زیادہ مبارک کی ’جہنم ‘پسند ہے۔ انھیں عدلیہ کے احکام کے احترام کی آڑ میں پوری قوم کو مسل کر رکھ دینا، قطعاً  بُرا محسوس نہیں ہوگا۔ عدلیہ کے انھی احکام نے تو کروڑوں عوام کی منتخب کردہ پارلیمنٹ کا خون     کیا ہے۔ ایک کروڑ ۳۰لاکھ انسانوں کے منتخب صدر کی ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں۔ وہ   آزادیِ راے کی آڑ میں ہرنقص اور کمزوری صدر کے سر تھوپنے سے گریز نہیں کرتے۔

اس انقلاب نے تمام فرقوں اور مستقبل کے دشمنوں کو ایک کیمپ میں یک جا کردیا ہے۔ ان سب کا مشترکہ مفاد اسلامی قوت کا راستہ روکنا اور اسے منظر عام پر آنے سے روکنا ہے۔انھیں اس بات کی ذرا پروا نہیں کہ اس پارلیمنٹ اور صدر کو بھرپور عوامی تائید اور حمایت حاصل ہے۔ انھیں تو صرف اسلامی قوت کی لہر کو روکنا ہے اور اس قوت میں بھی سب سے زیادہ انھیں اخوان المسلمون سے خطرہ ہے۔

اس صورت حال میں ماضی کے حکمران ٹولے میں شامل بعض اہم شخصیات کا باہم متحد ہوجانا اُن کی ’مبارک دوستی‘ کی مثال ہے۔ انھوں نے اس مقصد کے لیے ایک ’تیسری قوت‘ کے نام سے میڈیا میں پروپیگنڈا شروع کر رکھا ہے۔ اس تیسری قوت کی رہنمائی کل تک منتشر رہنے والے لبرل افراد، نجیب ساویرس، سیکولر شناخت رکھنے والا رفعت سعید، اسامہ غزالی حرب، محمدابوحامد جو لبنان میں صہیونیت کے ایجنٹ سمیرجعجع کا شاگرد ہے، کر رہے ہیں۔ اس گروہ میں لبرل امریکی سعدالدین ابراہیم اور حمدین صباحی بھی شامل ہیں جنھوں نے ناصر کے استبداد کو عوام پر مسلط کیے رکھا۔ حمدین صباحی کے علاوہ یہ سب لوگ صدارتی انتخاب میں احمد شفیق کے حمایتی تھے جو حسنی مبارک کا نمایندہ تھا۔

حسنی مبارک کے دو بیٹوں علا اور جمال کے خلاف قومی خزانے کی لُوٹ مار کے جرم میں ایک مقدمہ چل رہا ہے۔ اس مقدمے کی پہلی سماعت میں ماہرقانون دان ڈاکٹر یحیٰ الجمل کا موجود ہونا معنی خیز تھا۔ یہ یحیٰ الجمل جمال عبدالناصر کے روحانی فرزندوں میں شامل ہوتا ہے۔ باقیاتِ ناصر کی صورت میں اسی گروہ نے عسکری مجلس کے لیے دستوری مسوّدہ تیار کیا تھا جس میں صدرِ جمہوریہ مصر ڈاکٹر محمد مرسی کے اختیارات سے اُن کو محروم کرنے کا حکم ہے۔ یحییٰ الجمل کا اس مقدمے میں کویل فریدالدیب کے پہلو میں بیٹھنا حیرت انگیز ہے۔ یہ وہی مقدمہ ہے جس میں معروف مصنف حسنین ہیکل کے صاحب زادے حسن محمد بھی مبارک کے بیٹوں کے ساتھ مقدمے میں ملوث کیے گئے ہیں۔

یہ ایک مثال ہے۔ اس کے علاوہ درجنوں معاملات ایسے ہیں جن میں وہ تمام قوتیں   یک جا اور متحد دکھائی دیتی ہیں جو کل تک حسنی مبارک کا نمک کھایا کرتی تھیں۔ آج انھیں اسلام سے اس قدر خوف محسوس ہورہا ہے کہ یہ اسلام پسندوں کو ہرقیمت پر منظر سے ہٹانے کے لیے سرگرداں ہیں۔ سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے تمام ذرائع، وسائل، مہارتیں اور دبائو میڈیا، عدلیہ، سیاست اور معیشت میں دستوری عدالت کے پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کے اقدام کے دفاع میں صرف کر رہے ہیں، جب کہ یہ فیصلہ بذاتِ خود ایک مختلف فیہ فیصلہ ہے۔ آج یہ لوگ خود کو مہذب اور جمہوری باور کرا رہے ہیں اور قانون کی حکمرانی کے دعویدار ہیں، جب کہ قانون ان سے ماورا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ لوگ حسنی مبارک کی ۳۰سالہ ظالمانہ حکمرانی میں کہاں تھے؟ اُس دوران میں بے شمار عدالتی فیصلے ایسے تھے جو بے گناہوں کی بے گناہی کو ثابت کر رہے تھے مگر حکومت نے اُن کو پائوں تلے روند کر رکھ دیا تھا۔ اُس وقت تو اِن لوگوں کی کوئی آواز قانون اور دستور کی حکمرانی کے سلسلے میں سنائی نہ دی۔ لیکن آج اُن کا یہ ’حق‘ ہے کہ وہ قانون کی حکمرانی کا دفاع کریں جو کل نہیں تھا، لہٰذا وہ کیوں خاموش رہیں۔ یہ صورت حال بتاتی ہے کہ حسنی مبارک آج بھی اس معرکے کی قیادت کر رہا ہے اور اس میں شامل ہر فرد اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے کیونکہ یہ جنگ موت و حیات کی جنگ ہے۔ نوشتۂ دیوار یہ بتاتا ہے کہ باطل کے یہ حواری اور حمایتی بالآخر موت کے گھاٹ اُتر کررہیں گے کیوں کہ مصری قوم کو اپنی شناخت، اپنے حقِ انتخاب و اختیار کے حصول سے پیچھے ہٹنا ہرگز قبول نہیں ہے۔ اتنی بڑی تبدیلی بھی یہ بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی اور منشا بھی یہی ہے کہ مصر اپنی شناخت کی طرف واپس لوٹ جائے اور اس کی قوم اپنی آزاد مرضی سے زندگی گزار سکے۔

صدر جمہوریہ مصر ڈاکٹر محمد مُرسی کے انتخاب پر اسرائیل کے صدر بنیامین نیتن یاہو نے کہا تھا کہ اسرائیل مصر میں جاری جمہوری سفر کو اہم سمجھتا ہے اور اس کے نتائج کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ دراصل نیتن یاہو کا یہ بیان ڈپلومیٹک تھا۔ وہ اسرائیل کو پہنچنے والے اس زخم اور ڈاکٹر مُرسی کے انتخاب کے خلاف دیے گئے منفی بیانات سے توجہ ہٹانا چاہتا تھا۔ صدرِ مصر کے انتخاب سے دو روز قبل اسرائیل کے ایک فوجی افسر نے کہا تھا کہ اسرائیل امن و آزادی کو جمہوریت پر ترجیح دیتا ہے۔

اسرائیل اور حسنی مبارک حکومت کے درمیان تعلقات دوستانہ ہی نہ تھے، بلکہ حسنی مبارک اسرائیل کا وفادار دوست تھا۔ اس نے اسرائیل کے لیے اپنی وفاداری کا امریکا کو مکمل طور پر یقین دلارکھا تھا لیکن انقلاب کے دوران اس وقت مبارک کو بہت بڑے صدمے سے دوچار ہونا پڑا  جب اُس نے اپنے اسرائیلی دوست اور اسرائیل کے سابق وزیردفاع بنیامین الیعازر سے ملاقات کر کے درخواست کی کہ وہ وہائٹ ہائوس کو میرے دفاع اور بقا کے لیے آمادہ کرے، مگر انقلاب نے اس بات کے تمام دروازے بند کردیے تھے اور ہرامکان کا خاتمہ کردیا تھا، لہٰذا مبارک کو بوجھل دل کے ساتھ قصرِصدارت چھوڑنا پڑا۔

احمدشفیق جو صدارتی انتخاب میں ڈاکٹر مُرسی کے مدمقابل مبارک کا نمایندہ تھا، نیتن یاہو نے اس کے خلاف بیان بازی سے اپنی کابینہ کو منع کر رکھا تھا، مگر اسرائیل ڈاکٹر مُرسی کی صورت میں صدرِ مصر کی موجودگی سے بننے والی اسٹرے ٹیجک حکمت عملی کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کرسکتا تھا، لہٰذا ایک کے بعد دوسرا بیان اسرائیل کی طرف سے داغا جاتا رہا اور بالآخر نیتن یاہو نے خود ہی کہہ ڈالا کہ وہ احمد شفیق کو ترجیح دیتے ہیں۔

صدارتی انتخاب کے نتائج کے اعلان کا مرحلہ کچھ طویل ہوگیا لیکن حتمی خبر یہی آئی کہ ڈاکٹر محمد مُرسی مصر کے صدر منتخب ہوگئے ہیں۔ اس کے بعد اسرائیلی حکومت کے لیے لازمی ہوگیا کہ وہ جنوبی سرحدوں کے حوالے سے نئی حکمت عملی کی روشنی میں معاملے کو دیکھے اور اس حکمت عملی کے منطقی نکات یہ تھے:

۱- مصر کو علاقے میں قائدانہ کردار کی حیثیت حاصل ہے ۔ وہ عرب دنیا میں سب سے بڑا ملک ہونے کے ناتے سب سے زیادہ سیاسی اثرات کا حامل ہے۔

۲- ڈاکٹر مُرسی کا ایوانِ صدر میں پہنچنا اسلامی تحریک کے سیاست میں داخلے اور مصری عربی رُخ متعین کرنے کی صورت ِ حال کو بدل دے گا۔

۳- اخوان المسلمون اور فلسطین کی بہت بڑی تحریکِ مزاحمت’حماس‘ کے درمیان تال میل کا موجود ہونا۔

۴- ڈاکٹر مُرسی کا صدرِ مصر منتخب ہونے کا مطلب مصر کا اپنے تاریخی وجود کی طرف واپسی کا سفر شروع کرنا ہے۔

۵- مصری قوم کا کیمپ ڈیوڈ معاہدے کو برابری کی سطح پر نہ ماننا اور مسئلۂ فلسطین کی          حمایت و پشت پناہی مستقلاً جاری رکھنا۔

۶- مصری قوم اسرائیل سے اپنا ایک تاریخی حساب بھی چکانا چاہتی ہے جس کی وہ منتظر ہے۔

۷- بغاوت کا انقلاب میں بدل کر کامیاب ہو جانا اور انتخابات کے مرحلے تک پہنچ جانا مصر کو عالمِ عرب کے بعض ممالک کی سیاسی و داخلی معاملات میں پہلے سے زیادہ نمایاں حیثیت عطا کردے گا۔

یہ وہ نکات تھے جو صدر مُرسی کی کامیابی نے اسرائیل کی صہیونی سلطنت کے سامنے لارکھے اور اس نے اِن کے اُوپر عملاً سوچنا شروع کردیا۔اسرائیل کے ادارہ براے مطالعات قومی سلامتی نے ’محمدمُرسی کے انتخاب کی اسٹرے ٹیجک جہات‘ کے عنوان سے ایک رپورٹ میں جو اہم نکتہ بیان کیا ہے وہ صدر مُرسی کا اسرائیل کے ساتھ پہلے سے موجود معاہدے کو بدل دینے کا خدشہ ہے۔  اس معاہدے کی رُو سے مصری فوج سینا کی حدود میں داخل اور فوجی کارروائی نہیںکرسکتی۔ یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ یہ اقدام واشنگٹن کے لیے خطرے کی گھنٹی بن جائے گا۔ خاص طور پر اس اعتبار سے    کہ وہ مصر و اسرائیل کے درمیان ’امن معاہدے‘ کا نگران ہے، اور وہ تیسرا فریق ہے جس نے اس  ’امن معاہدے‘ پر دستخط کے وقت انورالسادات کے دور میں معاہدے کی پابندی کرانے کا تہیہ کیا تھا۔ یہ جائزہ رپورٹ اسرائیلی حکومت کے اس مطالبے پر اختتام پذیر ہوتی ہے کہ اُن سیاسی امور سے دُور رہا جائے جن کو صدر مُرسی اُٹھائیں۔ اسرائیل کے خارجی امور کے ذمہ داروں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ مصر کی طرف سے اس امن معاہدے کو کسی بھی طرح سے چھیڑے جانے کے ہرعمل کی عالمی سطح پر مخالفت کریں۔

مصر میں ایک کش مکش جاری ہے۔ ایک طرف انقلاب مخالف قوتیں یک جا ہوکر سابقہ نظام کو بحال کرنے کے لیے کوشاں ہیں، اور دوسری طرف عالمی قوتیں اور اسرائیل اخوان المسلمون کی کامیابی کی صورت میں عالمِ عرب میں اس انقلابی تبدیلی کے اثرات و نتائج سے خائف ہیں اور سازشوں میں مصروف ہیں۔ ان حالات میں اخوان المسلمون کا اصل امتحان یہ ہے کہ وہ اس چیلنج کا سامنا کس طرح کرتی ہے!

برمی مسلمانوں کا بے رحمانہ قتل عام اور بے بسی کی زندگی، ایک پتھر دل انسان کو بھی گہرے دکھ میں مبتلا کر دیتی ہے۔ بدھ مت کے پیروئوں کے اکثریتی ملک برما (میانمار) میں درندگی کے اس کھیل نے بدھ مت کی اُس بناوٹی اور افسانوی اصلیت کی قلعی کھول کے رکھ دی ہے کہ:    ’’بدھ مت تو امن کا گیت اور صلح کا مذہب ہے‘‘۔

۳جون ۲۰۱۲ء کو برپا ہونے والے اس خونیں طوفان میں بدھ بھکشووں کی درندگی نے ہزاروں مسلمانوں کو ذبح کر دیا، بچ جانے والوں کو زخمی، بے گھر کیا اور ان کے گھروں کوآگ لگا دی۔ بے بس عورتوں کو جنسی درندگی کا نشانہ بنایا، بہت سوں کو زندہ جلا دیا اور بچ رہنے والوں کو  دھکیل کر سمندر کی لہروں کے سپرد ہونے پر مجبور کیا گیا۔ یہ سب کچھ آج کے اس ترقی یافتہ دور اور فعال ومتحرک میڈیا کی آنکھوں کے سامنے کیا گیا ہے۔

میانمار کی فوجی حکومت بظاہر اس منظرنامے میں تماشائی دکھائی دیتی ہے، لیکن حکومت اور انتظامیہ کی ہرحرکت یہ بتاتی ہے کہ وہ براہِ راست اس قتل عام اور درندگی کے کھیل میں برابر کی شریکِ کار ہے۔ برمی بدھ لیڈروں اور عبادت گزاری کے نام پر فارغ بدھ بھکشوئوں کے دل میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی دبی چنگاری نے آناً فاناً، غیظ و غضب کی آگ میں تبدیل ہوکر پورے اراکان کواپنی لپیٹ میں ہی نہیں لیا، بلکہ اس کو بڑھانے کے لیے وہاں مسلسل فضا بنائی گئی ہے۔ ۱۴جولائی کو برمی صدر تھین سین نے برملا اعلان کیا: ’’روہنگیا مسلمانوں کو لازماً، میانمار سے نکالا اور اقوامِ متحدہ کے کیمپوں میں دھکیلا جائے گا۔ اس مسئلے کا واحد حل یہی ہے‘‘۔ (تہران ٹائمز، ۱۵ جولائی ۲۰۱۲ئ)

اس قتل عام پر منافقانہ سنگ دلی کا رویہ اُس خاتون نے بھی اختیار کیا ہے، جسے لوگ آنگ سان سو کوئی کے نام سے جانتے ہیں، جو اپنے ملک میں فوجی حکمرانوں پر انسانی حقوق کی پامالی کا  مقدمہ پیش کرتے ہوئے ایک بے نیام تلوار قرار دی جاتی ہے، مگر مظلوم مسلمانوں سے ہمدردی کے لیے اس کے پاس دو بول تک نہیں۔ اسے اس بات سے کوئی غرض ہے اور نہ کوئی پریشانی کہ فوجی حکمران، فسادی بدھوں کے سرپرست ہیں۔ بلکہ نوبیل انعام یافتہ آنگ سان بھی برمی مسلمانوں کو برما کا شہری تسلیم نہیںکرتی۔ اس نے لندن اسکول آف اکنامکس (LSE) میں، جون ۲۰۱۲ء کو خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’روہنگیا مسلمانوں کو برما کا شہری نہیں تسلیم کیا جانا چاہیے‘‘۔ پھر ڈائوننگ سٹریٹ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اس مسئلے پر ایک حرف نہ کہا، لیکن جب صحافیوں نے سوال اُٹھایا تو صرف اتنا کہا: ’’اس نسلی فساد کا دانش مندی سے جائزہ لینا چاہیے‘‘۔

برما (میانمار) کے شمال مغربی صوبے کا نام ’اراکان‘ ہے۔ یہاں رہنے والے مسلمانوں کو ’روحنگیا‘کہا جاتا ہے۔ ’روحنگ‘ اصطلاح، لفظ ’رحم‘ (ہمدردی) سے پھوٹی ہے۔ روحنگی مسلمانوں کی یہاں آبادی کا آغاز آٹھویں صدی عیسوی میں ہوا، جب عرب تاجر اور ملاح، چین جاتے ہوئے یہاں رُکے۔ اُن کے حُسنِ سلوک اور قابلِ رحم جذبے سے متاثر ہوکر مقامی لوگوں نے انھیں مسلمان کے نام سے یاد کرنے سے زیادہ ’رحم کرنے والے‘ لوگوں سے پہچانا اور پکارا۔ اس طرح نہ صرف یہاں کے لوگوں میں اسلام پھیلنا شروع ہوا، بلکہ مسلمانوں کے نام کے ساتھ ’روحنگ‘ اور ’روحنگیا‘ کا لاحقہ بھی منسلک ہوگیا۔ اتنی صدیاں گزرنے کے بعد اُن عربوں کے یہاں کوئی آثار نہیں، لیکن ’روحنگی‘ زبان عربی رسم الخط میں بھی لکھے جانے کی گنجایش اس تعلق کی ایک یادگار ضرور ہے۔ عجب بات ہے کہ جب یہاں کے لوگ ایمان کی دولت سے فیض یاب ہوئے، تو یہی دولت ان کے حقِ زندگی کے خلاف قتل کا جواز بھی بنا ئی گئی۔ اراکانی مسلمانوں میں، چین کے صوبے ’یونان‘ کے علاوہ ہندستان اور کچھ بنگالی النسل مسلمان بھی موجود ہیں۔ ان کی آبادی ۱۰لاکھ سے زیادہ ہے اور اقوام متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق: ’’روہنگی مسلمان دنیا کی مظلوم ترین اقلیتوں میں شمار ہوتے ہیں‘‘۔

برمی مسلمانوں کے خلاف فرقہ پرست بدھوں کی یلغار کے آثار، گذشتہ صدی کے دوسرے عشرے سے نمایاں ہونے شروع ہوئے، جو تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد فسادات کی صورت میں پھوٹتے رہے ہیں۔ گذشتہ ۳۵برس کے دوران میں جو بڑے واقعات ہوئے، ان میں: ۱۹۷۸ء میں ۲لاکھ برمی مسلمانوں کو بنگلہ دیش دھکیل دیا گیا۔ پھر ۱۹۹۲ء میں ڈھائی لاکھ کو ملک بدر کیا گیا۔ افسوس ناک یہ صورت ہے کہ ان تباہ حال مسلمانوں کو بنگلہ دیش جیسا مسلمان ملک بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اور جو لوگ جان بچاکر تھائی لینڈ کی طرف گئے، انھیں تھائی ساحلی پولیس نے فائرنگ کرکے چھوٹی کشتیوں میں، کھلے سمندر میں ڈوبنے کے لیے چھوڑ دیا۔ ۱۶مارچ ۱۹۹۷ء کو ڈیڑھ ہزار بدھ بھکشوئوں کا ایک جلوس مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز نعرے بلند کرتا سڑکوں پر نکل آیا، جس نے سب سے پہلے مسجدوں پر حملہ کرکے آگ لگائی، پھر مسلمانوں کی دکانوں کو لُوٹ مار کے بعد نذرِ آتش کیا، اور گھروں کو آگ لگا دی۔ لائبریریوں میں قرآن کریم کے نسخے چُن چُن کر جلائے گئے اور بعدازاں تمام کتابوں پر تیل چھڑک کر جلا دیا گیا۔ کینگ ڈن اور منڈالے کے شہر اس سے بُری طرح متاثر ہوئے۔ ۱۵ مئی ۲۰۰۱ء کو ٹااونگو شہر میں بھکشوئوں نے مسلمانوں کے خلاف ہزاروں پمفلٹ تقسیم کیے، اور سورج غروب ہونے سے پہلے مسلمانوں کو گھیر گھیر کر جلایا، مارا اور لُوٹا گیا، جب کہ عورتوں کی بے حُرمتی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔

۳جون ۲۰۱۲ء سے اُٹھنے والی حالیہ خونیں یلغار کو اسی تناظر میں  دیکھنا چاہیے، جس میں وہاں کی حکومت، حزبِ اختلاف، میڈیا اور فوج پوری طرح شریکِ کار ہیں۔ الم ناک پہلو یہ ہے کہ :l۲۸ہزار سے زیادہ مسلمان موت کے گھاٹ اُتارے گئے ہیں۔

  •  جن مظلوموں نے جان بچا کر بنگلہ دیش کے ساحلوں پر جانے کی کوشش کی، انھیں بنگلہ دیشی ساحلی پولیس نے پہلے تو خشکی پر قدم ہی نہیں رکھنے دیا، لیکن پھر مجبور ہوکر چند گھنٹے کے لیے ساحل پر اُترنے دیا اور بعدازاں انھی کشتیوں میں دوبارہ کھلے سمندر میں دھکیل دیا۔
  • اس وقت ہزاروں برمی مسلمان ان کشتیوں پر پانی، خوراک اور سایے سے محروم اور بیماریوں کا شکار ہیں۔
  • ۶۶ ہزار سے زیادہ پناہ گزینوں کو کیمپوں اور کشتیوں میں خوراک، پانی اور ادویات کی فوری ضرورت ہے۔
  • دنیا بھر کا میڈیا اس المیے سے عملاً نظر چرائے ہوئے ہے، اور مسلم دنیا کا میڈیا بھی اس سفاکی میں برابر لاتعلقی برت رہا ہے۔
  • اسلامی کانفرنس تنظیم اور مسلم دنیا خصوصاً عرب ممالک کی لاتعلقی سے یہاں کے مسلمانوں کے دل چھلنی ہیں۔

کہنے کو تو یہ ایک لفظ تھا لیکن مصر میں یہ ایک مکمل پیغام اور ایک قومی تحریک بن گیا۔ فُلُول، یعنی شکست خوردہ اور فاسد ٹولے کی باقیات۔ اس وقت مصر میں کسی شخص یا گروہ کے لیے فُلُول  کا لیبل لگ جانے سے زیادہ معیوب اور باعثِ عار بات شاید کوئی نہ ہو۔پارلیمانی اور صدارتی انتخابات میں اس ایک لفظ نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ لَا لِلْفُلُول کا نعرہ اس قدر زباں زد عام ہوگیا کہ   اگر کہیں صرف ’لا‘ ہی لکھا ہوتا تو لوگ سمجھ جاتے کہ ڈکٹیٹر کی باقیات کو مسترد کیا جارہا ہے۔  ۲۴جون ۲۰۱۲ء کو مصری تاریخ کے پہلے حقیقی صدارتی انتخاب کے نتائج کا اعلان ہورہا تھا تو ملک کے ہر شہر اور قصبے کی طرح قاہرہ کے تاریخی میدان التحریر میں بھی لاکھوں لوگ جمع تھے اور پورے میدان میں ایک بڑے بینر پر صرف ’لا‘ ہی پڑھا جارہا تھا۔ کئی جملوں پر لکھی پوری عبارت پڑھنے کا تکلف کیے بغیر ہی ’لا‘ پورا پیغام واضح کررہا تھا۔

 مصری تاریخ میں یہ پہلے صدارتی انتخاب تھے کہ جس کے نتائج انتخاب سے پہلے ہی معلوم نہ تھے۔ مصر ہی نہیں اکثر عرب انتخابات میں حکمران ۹ئ۹۹ فی صدووٹ لے کر کامیاب ہوا کرتے تھے۔ عوامی انقلابات نے لوگوں کو پہلی بار اپنی آزاد مرضی سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے دیا۔    یہ حقیقت ہر مخلص اور بے تعصب مسلمان کے لیے باعث طمانیت ہے کہ ان پہلے آزادانہ انتخابات میں عوام کی اکثریت نے اسلامی تحریک پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔

الاخوان المسلمون مصر کے اُمیدوار ڈاکٹر محمد مرسی کی بحیثیت صدر مملکت جیت، خطے میں دیگر تمام کامیابیوں کا تاج ثابت ہوئی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یقینا پورے مشرق وسطیٰ میں مصر کی مرکزی حیثیت ہے۔ مصر میں فی الحال تمام تر اختیارات صدر مملکت کے پاس ہیں۔دوسری اہم وجہ یہ بنی کہ اخوان کے صدارتی اُمیدوار کو شکست سے دوچار کرنے کے لیے اندرون ملک مخالفین سے زیادہ مصر کے تمام بیرونی دشمن بے تاب تھے۔

صدارتی انتخاب کے پہلے مرحلے میں ۱۳ اُمیدوار تھے۔ حسنی مبارک کا آخری وزیراعظم اور ۱۰سال تک اس کا وزیر ہوا بازی رہنے والا لیفٹیننٹ جنرل احمد شفیق وہ اکلوتا اُمیدوار تھا جس پر انتخابی مہم کے دوران ملک کے اکثر اضلاع میں عملاً جوتوں کی بارش ہوئی۔حتیٰ کہ وہ جب اپنا ووٹ ڈالنے آئے تو اپنے آبائی پولنگ سٹیشن کے باہر بھی ’ پُرجوش ‘جوتا باری کا سامنا کرنا پڑا۔ اُمیدواروں میں اگرچہ طویل عرصے تک حسنی مبارک کا وزیر خارجہ اور پھر عرب لیگ کا سیکریٹری جنرل رہنے والا عمروموسیٰ بھی تھا۔ ایک سابق انٹیلی جنس چیف حسام خیر اللہ بھی تھا۔ ناصری ذہن کا سرخیل حمدِین صبَّاحی اور بائیں بازو کے کئی دیگر اُمیدوار بھی تھے، لیکن ۱۳ اُمیدواروں میں سب سے زیادہ عوامی نفرت کا سامنا جنرل شفیق ہی کو کرنا پڑا۔ اس سب کچھ کے باوجود جب پہلے مرحلے کے نتائج آئے تو جنرل صاحب سب سے زیادہ ووٹ لینے والوں میں دوسرے نمبر پر تھے۔ اس کا مطلب تھا کہ دوسرے مرحلے میں مقابلہ ان کے اور پہلے نمبر پر آنے والے اخوان کے اُمیدوار ڈاکٹر محمدمُرسی کے مابین ہوگا۔ دوسرے مرحلے میں ۵۰ فی صد  ووٹ حاصل کرنے کی شرط بھی نہیں ہے اور اگر فلول کا لیبل سجائے جنرل صاحب، ایک ووٹ بھی زیادہ لے گئے تو وہ مصر کے آیندہ صدر ہوں گے۔

لیفٹیننٹ جنرل احمد شفیق کا دوسرے نمبر پر آجانا، جہاں سب کے لیے باعث حیرت تھا وہیں مصر کے ازلی دشمن ’اسرائیل‘ کے لیے یہ اُمید کی اہم نوید تھی۔ اسرائیلی ذمہ داران حسنی مبارک کے دور کو اسرائیل کے لیے ’اہم ترین اسٹرے ٹیجک خزانہ‘ قرار دیتے ہیں۔ احمد شفیق کا نام دوسرے مرحلے میں آگیا تو اسرائیلی فوج کے سابق سربراہ اور حالیہ نائب وزیراعظم نے بیان دیا کہ ’’اسرائیل کے اہم ترین اسٹرے ٹیجک خزانے کی واپسی کی اُمیدیں جوان ہوگئی ہیں‘‘۔ سابق ملٹری انٹیلی جنس چیف عاموس یادلین گویا ہوئے: ’’ سقوطِ مبارک کے بعد اسرائیل کے گردو نواح میں سب سے بڑی تبدیلی یہ آسکتی تھی کہ ترکی یا ایران جیسی کسی علاقائی طاقت کے ساتھ مل کر مصر کوئی اسرائیل دشمن بلاک نہ تشکیل دے دے۔ احمد شفیق کی جیت کی صورت میں ایسا ہر امکا ن ختم کیا جاسکتاہے ‘‘ - اعلیٰ تعلیم کے اسرائیلی وزیر گدعون ساعر نے کہا: ’’مبارک نظام کے اہم رکن جنرل شفیق کی جیت سے عالمِ عرب کی اجتماعی سوچ پر بہت اہم اثرات مرتب ہوں گے۔اس جیت سے ان عرب حکومتوں کے خلاف عوامی انقلاب کی خواہش دم توڑ جائے گی کہ جن کا باقی رہنا ہمارے اسٹرے ٹیجک مفادات کا ضامن ہے‘‘- سابق وزیر دفاع بنیامین الیعازر جو حسنی مبارک کے قریبی احباب میں شمار ہوتا تھا نے تبصرہ کیا: ’’شفیق کی جیت کا مطلب ہے کہ مصر اسرائیل کے ساتھ اپنا گیس سپلائی کا معاہدہ منسوخ نہیں کرے گا۔ امریکا جنرل شفیق کو بآسانی قائل کرلے گا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اشتراک عمل جاری رکھے‘‘۔ اسرائیلی وزیر خارجہ لیبرمین کا تبصرہ تھا ’’مبارک کے بغیر مصر ہمارے لیے کسی ایٹمی خطرے سے بھی بڑا خطرہ تھا۔ ہمیں اس صورتِ حال کا سامنا کرنے کے لیے کم از کم چار بریگیڈ فوج مصری سرحدوں پر کھڑی کرنا پڑے گی۔ اب یہ خطرہ ٹلنے کی اُمید ہے‘‘۔واضح رہے کہ اسرائیلی دفاعی تجزیہ نگاروں نے انقلاب مصر کے اثرات سے نمٹنے کے لیے فوجی اخراجات میں ۳۰؍ ارب ڈالر اضافے کا اندازہ لگایا ہے، جس سے ملک بڑے اقتصادی بحران سے دوچار ہو جائے گا۔

 لبنان سے شائع ہونے والے مؤقر ہفت روزہ الأمان نے اسرائیلی ذمہ داران کے  درج بالا تبصروں کا تفصیلی جائزہ لیا ہے ان بیانات میں ’’اسرائیلی قومی سلامتی کے تحقیقاتی ادارے کے رکن جنرل (ر) رون ٹیرا کا یہ فرمان بھی شامل ہے کہ ’’مبارک دور نے اسرائیل کو مثالی اسٹرے ٹیجک شراکت عطا کی۔ اس شراکت داری کی بنیاد پر ہم ۲۰۰۶ء میں لبنان پر اور ۲۰۰۸ء غزہ پر   حملہ آور ہوسکے۔ اگر مصری انتخابات میں مبارک کے ساتھیوں کے بجاے کوئی،نیشنلسٹ، اسلامسٹ، حتیٰ کہ کوئی لبرل شخص بھی برسر اقتدار آگیا تو اس کا مطلب ہے کہ عرب ملکوں پر حملے کی اسرائیلی صلاحیت انتہائی کمزور ہوجائے گی‘‘۔

ان تمام بیانات اور تبصروں کے مطالعے کے بعد اب اندازہ لگائیے کہ جنرل شفیق کو کامیاب کروانے کے لیے کیا کیا پاپڑ نہ بیلے گئے ہوں گے۔ غریب اور اَن پڑھ ووٹروںکے ووٹ خریدنے کے لیے اندرونی اور بیرونی خزانوں کے منہ کھل گئے۔ تمام سرکاری اور پرائیویٹ ٹی وی چینل اور اخبارات نے اخوان کے خلاف پروپیگنڈے کی شدید ترین یلغار کردی۔ اخوان کی طرف سے یہ شکایت بھی سامنے آئی کہ جنرل شفیق کے حق میں فوج، پولیس اور مختلف ایجنسیوں کے تقریباً ۱۵ لاکھ ان افراد کے ووٹ بھی ڈلوائے گئے جنھیں ووٹ کا حق نہیں تھا۔

اخوان سے ان کی جیت چھیننے کے لیے جو دیگر ناپاک ، مہیب اور خطر ناک اقدامات اٹھائے گئے ان میںایک سرفہرست اقدام یہ تھا کہ پولنگ سے صرف ڈیڑھ دن پہلے، یعنی ۱۴ جون کی شام، چند ماہ پہلے منتخب ہونے والی قومی اسمبلی توڑنے کا اعلان کردیا گیا۔ گویا ہر سیاسی کارکن اور ووٹر کو پیغام دیا گیا کہ اخوان کو اقتدار میں آنے سے روکنے کے لیے ہمیں جس آخری حد تک بھی جانا پڑا، ہم اس سے دریغ نہیں کریں گے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ ووٹ ضائع نہ کرو، اخوان کواقتدار میں آنے کی اجازت کسی صورت نہ ملے گی۔ اسی دوران میں ایک اہم اقدام یہ اٹھایا گیا کہ حسنی مبارک اور اس کے ساتھیوں کے خلاف گذشتہ تقریبا ڈیڑھ برس سے سنے جانے والے مقدمے کا فیصلہ اچانک ۲ جون کو سنادیا گیا۔ ۳۰سال سے سیاہ و سفید کے مالک حکمران کو عمر قید کی سزا سنادی گئی۔ اس مرحلے پر فیصلہ سنانے کا ایک مقصدیہ بھی تھا کہ حسنی مبارک کے خلاف پائی جانے والی گہری عوامی  نفرت کو تسکین پہنچاتے ہوئے ،اسے فوجی کونسل اور اس کے نمایندہ سمجھے جانے والے صدارتی اُمیدوار کے حق میں ہموار کیا جائے۔

صرف قرآن کریم کا فرمان ہی ازلی و ابدی سچی حقیقت ہے کہ لَا یَحِیْقُ الْمَکْرُالسَّیِّیُٔ اِلَّا بِاَھْلِہٖ ط (الفاطر۳۵:۴۳ ) ’’حالانکہ بُری چالیں اپنے چلنے والوں ہی کو لے بیٹھتی ہیں‘‘۔   یہ تمام حکومتی چالیں بھی چلنے والوں کی گردن کا پھندا بن گئیں۔ اگر ڈاکٹر محمد مرسی کے مقابل    جنرل شفیق کے بجاے کوئی بھی اور اُمیدوار ہوتا،تو عوام کی اتنی اکثریت کبھی اخوان کے اُمیدوار کے گرد اکٹھی نہ ہوپاتی۔ جنرل شفیق کو سامنے دیکھ کر ابوالفتوح جیسے مضبوط اُمیدوار کو بھی مجبوراً اور  علانیہ طور پر ڈاکٹر مرسی کی حمایت کرنا پڑی اور بڑی تعداد میں حمدین صباحی کے ووٹرز بھی ان کے ساتھ آگئے۔ اگرچہ خود حمدین نے دوسرے مرحلے کا بائی کاٹ کرنے کی اپیل کرتے ہوئے عملاً جنرل شفیق کو فائدہ پہنچایا۔ اس دوران ایک دل چسپ اشتہار سب کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ اخوان کے اُمیدوار کی جہازی سائز تصویر تھی اور اس پر لکھا تھا:أنا مش اخوان، ہأدعم دکتور مرسی، ’’میں اخوانی نہیں لیکن میں ڈاکٹرمرسی کو ووٹ دوں گا‘‘۔ اسی طرح حسنی مبارک کو سزا دینے کا ’اعزاز‘ بھی عوام کی نظر میں عبوری حکومت کا جرم ٹھیرا۔ فیصلہ سنتے ہی وسیع و عریض کمرۂ عدالت میں بیٹھے سیکڑوں وکلا اور شہداء کے ورثا نے نعرہ لگایا: الشعب یرید تغییر القضائ، عوام عدلیہ کی تبدیلی چاہتی ہے۔ اور پھر ملک بھر میں دوبارہ مظاہرے شروع ہوگئے کہ سیکڑوں افراد کے قاتل  حسنی مبارک کوبا سہولت عمر قیدنہیں، پھانسی دو۔

رہا اسمبلی توڑنے کا فیصلہ تو اگرچہ یہ ایک انتہائی گھناؤنا جرم تھا لیکن اس نے بھی عوام کو مایوس کرنے اور اخوان کا ساتھ چھوڑ دینے پر آمادہ کرنے کے بجاے انھیںاس بات پر یکسو کردیا کہ اگر عوامی فیصلے کی حفاظت کرنا ہے تو باقیات کو مسترد کرنا ہوگا۔ اسمبلی تحلیل کرنے کا پورا فیصلہ ہی  مکمل طور پر بے بنیاد اور مضحکہ خیز ہے۔ قومی اسمبلی یعنی ’مجلس الشعب‘ کے انتخاب کے لیے ضابطہ کار، عسکری کونسل اور سیاسی پارٹیوں کی باہمی مشاورت اور اتفاق راے سے طے پایا تھا۔ اس متفق علیہ ضابطے کے مطابق ۴۹۸سیٹوں پر مشتمل ایوان کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ دو تہائی سیٹیں  متناسب نمایندگی کی بنیاد پر سیاسی جماعتوں کے لیے رکھی گئیں اور ایک تہائی براہِ راست انفرادی اُمیدواروں کے لیے۔ ووٹنگ تین مرحلوںمیںہوئی، ہر مرحلے کے دو اَدوار تھے۔ اس طرح کاغذات نامزدگی داخل کروانے، انتخابی مہم چلانے اور ووٹنگ مکمل ہونے کا عمل کئی ماہ جاری رہا۔ پھر ارکان اسمبلی کی باقاعدہ حلف برداری ہوئی اور دستور سازی کا عمل شروع ہوگیا۔ لیکن اچانک دستوری عدالت میں ایک اعتراض داخل کیا گیا، کہ انفرادی نشستوں پر اُمیدواروں نے پارٹیوں کی طرف سے نہیں آزاد حیثیت سے انتخاب لڑنا تھا۔ اور پھر پولنگ سے عین ڈیڑھ دن قبل،۳/۱ ارکان کی رکنیت منسوخ کرتے ہوئے نومنتخب اسمبلی تحلیل کرنے کی بنیاد رکھ دی گئی۔ واضح رہے کہ چیف الیکشن کمشنر فاروق سلطان ہی دستوری عدالت کے سربراہ بھی ہیں۔ بالفرض اگر کچھ ارکان کا انتخاب واقعی خلاف ضابطہ تھا، تب بھی صرف ان ارکان کا انتخاب دوبارہ کروایا جاسکتا تھا۔ کروڑوں عوام کے ووٹ، اربوں روپے کے اخراجات اور پوری قوم کے کئی ماہ، یعنی کروڑوں گھنٹے صرف کرکے منتخب ہونے والی پہلی حقیقی اسمبلی تحلیل کرنے کا جواز بدنیتی کے سوا کیا ہوسکتا ہے۔ یہ امر بھی اہم ہے کہ ساری بحث صرف قومی اسمبلی کے ایک تہائی ارکان کے بارے میں تھی، لیکن بات پوری پارلیمنٹ تحلیل کرنے کی پھیلائی جاتی رہی حالانکہ ۲۷۰؍ارکان پر مشتمل، عام انتخابات کے ذریعے منتخب ہونے والی مجلس شوریٰ (یعنی سینٹ) جوں کی توں موجود، بحال اور فعال ہے اور اس میں بھی اکثریت اخوان اور حزب النور ہی کی ہے۔

اخوان نے اس نازک موقع پر انتہائی صبر و حکمت کا ثبوت دیا۔ ’پارلیمنٹ‘ تحلیل کردینے کی خبر پوری قوم پر بجلی بن کر گری۔ ممکن تھا کہ لوگ فوری طور پر اس فیصلے کے خلاف میدان میں آجائیں۔ فوج انھیں کچلنے کے لیے قوت استعمال کرے اورپھر ان فسادات کی آڑ میں صدارتی انتخاب کا پورا عمل ہی لپیٹ دیا جائے۔ اخوان نے دستوری عدالت کا فیصلہ آنے کے چند گھنٹے بعد اپنے موقف کا اعلان کرتے ہوئے ایک اصولی اعلان کیا کہ اس وقت کسی دستوری شق میں کسی بھی فرد یا ادارے کے پاس اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار ہی نہیں ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا کہ ہماری ساری توجہ صدارتی انتخاب پر مرکوز رہنی چاہیے۔ لوگ میدان تحریر کی طرف ملین مارچ کرنے کے بجاے، پولنگ سٹیشنوںکی طرف لانگ مارچ کریں اور ووٹ کا حق استعمال کریں۔ پھر جیسے ہی ووٹنگ کا عمل تکمیل کو پہنچا اور پورے ملک کے پولنگ سٹیشنوں سے نتائج کی سرکاری دستاویزات جاری ہوگئیں، تو میدان التحریر سمیت ملک کے کونے کونے میں بڑے مظاہرے شروع ہوگئے کہ ہم اسمبلی تحلیل کرنے کا فیصلہ مسترد کرتے ہیں۔

 گنتی کے پہلے روز ہی نتائج واضح ہوگئے تھے، متعدد بار جیل جانے والے ڈاکٹرمحمد مرسی تقریباً ۱۰ لاکھ ووٹوں کی اکثریت سے ایک کروڑ ۳۲ لاکھ ۳۰ہزار ایک سو ۳۱ووٹ (۷۳ئ۵۱)لے کر جیت گئے تھے۔ لیکن اچانک جنرل شفیق نے دعویٰ شروع کردیا کہ وہ ۵۲ فی صد ووٹ لے کر جیتے ہیں اور اصل نتیجہ سرکاری نتیجہ ہو گا۔ سرکاری نتائج ۲۱ جون کو آنا تھے، لیکن عین آخری لمحے چیف الیکشن کمشنرنے عذر پیش کیا کہ بہت بڑی تعداد میں ووٹوں پر اعتراضات سامنے آگئے ہیں،اور ان اعتراضات کی تحقیق کرنے کے لیے ہمیں مزید وقت چاہیے۔ ’’فلول‘‘ کے دعوے اور سرکاری نتائج میں تاخیر سے عوام پھر شکوک و شبہات کا شکار ہوگئے۔ الجزائر کے انتخابات یاد آنے لگے اور انقلاب کے ثمرات ضائع ہوتے دکھائی دینے لگے، تو عوام مزید جوش و جذبے سے میدان التحریر میں      جمع ہونے لگے۔ ۱۸ جون سے کئی شہروں میں دھرنے شروع ہوگئے۔ ۲۴جون کی شام تک نتائج کے انتظار نے، شرکا کی تعداد بلامبالغہ کئی ملین تک پہنچا دی۔

بالآخرڈاکٹر مرسی کی کامیابی کا اعلان ہوا،اور مصر ہی میں نہیں، پورے خطے میں مسرت کی لہر دوڑ گئی ۔ میدان التحریر میں نعروں کے ساتھ ہی ساتھ شرکا نے عید کی تکبیرات شروع کردیں۔ اللّٰہ اکبر ۔۔اللّٰہ اکبر۔ لا الٰہ الا اللّٰہ و اللّٰہ اکبر..... ان کا کہنا تھا کہ یہ عید الدیمقراطیۃ ،  ’’عید جمہوریت ہے‘‘۔خوشی کے ان تمام جذبات سے اہم بات یہ ہے کہ ان شرکا نے اپنا یہ دھرنا تب تک جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے کہ جب تک نومنتخب اسمبلی بحال کرنے اور فوجی کونسل کے بلاحدود اختیارات ختم کرنے کا اعلان نہیں کیا جاتا۔

 واضح رہے کہ صدارتی انتخابات کے اسی ہنگامے میں، فوجی عبوری کونسل کے سربراہ فیلڈمارشل محمد حسین طنطاوی نے ایک ’ضمنی دستوری اعلان‘ جاری کرتے ہوئے صدر مملکت کے اکثر اختیارات یا تو خود حاصل کرلیے ہیں یا انھیں فوجی مرضی سے مشروط کر دیا ہے۔اس اعلان کے مطابق فوجی عبوری کونسل کو اسمبلی کی عدم موجودگی میں مقننہ اور انتظامیہ کے اختیارات دے دیے گئے ہیں۔کونسل کو ہرطرح کے احتساب سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا ہے۔ اسے فوجی افسروں کے تقرر و ترقی کے اختیارات دے دیے گئے ہیں۔اسمبلی کی منتخب کردہ دستور ساز کمیٹی کے بجاے نئی کمیٹی مقرر کرنے اور اس کی سفارشات آجانے کے ۱۵روز کے اندر اندر ان پر عوامی ریفرنڈم کرواتے ہوئے ملک کا نیادستور بنا دینے کے لیے روڈمیپ دے دیا گیا ہے۔بندوق کے زور پر بننے والے   عبوری کونسل کے سربراہ کو براہ راست عوام کے ووٹ سے منتخب ہونے والے صدر مملکت کے برابر  حقوق و اختیاردیتے ہوئے،کسی بھی دستوری شق پر اعتراض کرنے اور اسے واپس پارلیمنٹ بھجوانے کا حق دے دیا گیا ہے ۔ اور پارلیمنٹ کے اصرار کرنے کی صورت میں اس شق کو دستوری عدالت کو بھجوانے کا حکم جاری کیا گیاہے۔

اس وقت میدانوں میں بیٹھے لاکھوں عوام اس دستوری اعلان کی منسوخی اور اسمبلی کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔اگر فوجی کونسل ملک کو پھر سے تباہی کے گڑھے میں پھینک دینے پر مصر نہ ہوئی، تو اسے بالآخر عوام کے مطالبات تسلیم کرنا ہوں گے۔ عوام کے لیے قوت واعتماد کا اصل سہارا    رب ذوالجلال کی ذات ہے۔ا سی ذات نے ڈاکٹر مرسی کو جیل کی کوٹھڑی سے نکال کر ایوانِ صدر میں پہنچادیا ہے۔نومنتخب صدر نے کامیابی کے بعد قوم سے اپنے پہلے خطاب میں حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کے خلیفہ منتخب ہونے کے موقع پر کہے جانے والے یہ الفاظ متعدد بار دہرائے: ـ’’لوگو مجھے تمھارا ذمہ دار مقرر کیا گیا ہے حالانکہ میںتم سے بہتر نہیںہوں ۔ لوگو! میں اللہ کی اطاعت کروں تو تم میری بات مانو اور اگر میں اللہ کی نافرمانی کروں تو ہرگز میری اطاعت نہ کرو‘‘ ۔انھوں نے قومی اوربین الاقوامی امور پر دوٹوک موقف واضح کرتے ہوئے کہا :’’ میں کسی ایک فرد یا گروہ کا نہیں پوری مصری قوم کا نمایندہ ہوں، تم سب میرے لیے برابر ہو۔میرے حامی ،میرے مخالف،مسلم ،مسیحی، سب میرے لیے یکساں ہیں۔

ڈاکٹر مرسی کی پوری تحریک کا شعار تھا: النہضۃ ارادۃ الشعب، نہضت عوام کا فیصلہ ہے۔ ساتھ ہی لکھا تھا: مصر کی تعمیرو ترقی،اسلامی تعلیمات کے مطابق ۔واضح رہے کہ وہ حافظ قرآن بھی ہیں اور عالمی یونی ورسٹیوں سے انجینیرنگ میں ڈاکٹریٹ بھی کی ہوئی ہے۔ علاقائی اور بین الاقوامی قوتوں سے مخاطب ہوتے ہوئے انھوں نے کہا کہ: ’’ ہم سب سے برابری اور انصاف کی بنیاد پر باہمی تعلقات مستحکم کریں گے۔ قومی مفادات کی روشنی میں بین الاقوامی معاہدوں کی پاس داری کریں گے۔ پھر دوٹوک انداز میںکہا: ’’ہم کسی ملک کے اندرونی معاملات میںمداخلت نہیں کریں گے ، لیکن کسی کو بھی اپنے ملک کے اندرونی معاملات میںمداخلت کی اجازت نہیں دیں گے ‘‘۔ انھوں نے اپنی تقریر کااختتام کرتے ہوئے کہا:’’ میرے عزیز ہم وطنو! میں تمھارے معاملے میں اور اپنے وطن کے معاملے میں اللہ رب العزت سے کبھی خیانت نہیں کروں گا‘‘۔تقریر ختم ہونے کے چند منٹ بعد صدر محمد مرسی کے بیٹے عبد اللہ محمد مرسی نے فیس بُک پر پیغام لکھتے ہوئے کہا : ’’ بابا! یقینا ہم صرف  اللہ کی اطاعت میں آپ کی اطاعت کریں گے، اللہ کی نافرمانی ہوئی تو آپ کی نہیں اپنے رب کی اطاعت کریں گے‘‘۔

جب بیٹا بھی باپ اور صدر مملکت کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت سے مشروط کر دے، توپھر رب ذوالجلال کی رحمتیں اورنصرت بھی یقینا شامل حال ہوتی ہیں ۔ وہی تو ہے جو اقتدار دیتا اورچھینتا ہے ، عزت دیتا یا ذلت کے گڑھوں میںپھینک دیتا ہے ( قُلِ اللّٰھُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآئُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآئُ وَ تُعِزُّ مَنْ تَشَآئُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَآئُ ط بِیَدِکَ الْخَیْرُ ط  اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ  ۔ اٰلِ عمران۳:۲۶)

اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن جنوبی افریقہ کی طرف سے ان کے سالانہ کنونشن میں شرکت کا دعوت نامہ کافی دن پہلے مل چکا تھا۔ کنونشن سے قبل کئی ایک دیگر پروگرام بھی منتظمین نے طے کررکھے تھے۔۱۴؍اپریل کوجوہانس برگ پہنچا ۔ ۳۰؍اپریل کو تین دن کے لیے جوہانس برگ سے نیروبی گیا۔ یہ تین دن صبح شام مصروفیت میں گزرے۔ اسلامک فاؤنڈیشن، ینگ مسلم ایسوسی ایشن اور دیگر اسلامی تنظیموں نے کئی پروگرام مرتب کررکھے تھے۔ ۴ مئی کو واپس جوہانس برگ پہنچا۔  ایک دو پروگرام جو رہتے تھے، بالخصوص پریٹوریا میں اسلامک سرکل کے اجتماع میں حاضر ی دی۔  نیروبی کا قیام مختصر مگر بہت دل چسپ تھا، تاہم اس کے بارے میں کچھ کہنے کی یہاں گنجایش نہیں۔ ان سطور میں انتہائی اختصار کے ساتھ جنوبی افریقہ کے کچھ احوال پیش خدمت ہیں۔

براعظم افریقہ کا سب سے طاقت ور اور موثر ملک جنوبی افریقہ ہے۔ سفید فام اقلیت سے ۱۹۹۴ء میں آز ادی کے بعد اس کا سرکاری نام بھی ری پبلک آف ساؤتھ افریقہ ہے۔ یہاں برطانوی سامراج کئی صدیوں تک مسلط رہا۔آج سے ایک صدی قبل مقامی سفید فام لوگوں نے جن کا مجموعی آبادی میں تناسب ۲۰سے ۲۵فی صد تھا، یک طرفہ طور پر برطانوی سامراج سے علیحدہ ہوکر اپنی حکومت کا اعلان کردیا۔ کم وبیش ایک صدی تک ان لوگوں نے مقامی آبادی پر نسلی امتیاز کی پالیسیوں کے ذریعے بے انتہا مظالم ڈھائے۔ سب سے زیادہ آبادی مقامی افریقی لوگوں کی تھی، دوسرے نمبر پر سفید فام، تیسرے نمبر پر مخلوط نسل جن کو کلرڈ کہا جاتا ہے، اور سب سے چھوٹی اقلیت ایشیائی آبادی پر مشتمل تھی جس میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ یہ مسلمان ہندستان، ملائیشیا اور انڈونیشیا کے علاقوں سے مختلف وجوہات کی بنا پر وہاں منتقل ہوئے تھے۔ افریقی بلکہ غیر سفید فام تمام آبادی، ہر قسم کے بنیادی حقوق سے محروم تھی۔ ان کی حیثیت غلاموں سے بھی بدتر تھی۔

 بیسیویں صدی کے آغاز ہی سے آزادی کے لیے لوگوں نے خفیہ طو رپر جدوجہد شروع کردی تھی۔ اس صدی کے پانچویں عشرے میں باقاعدہ تحریک آزادی نے اپنا وجود قائم کیا اور خود کو منوایا۔ نیلسن منڈیلا قومی وحدت کی علامت بن کر ابھرا اور تمام مظلوم طبقات اس کے پیچھے  کھڑے ہوگئے۔ منڈیلا کو بے انتہا اذیتوں سے گزرنا پڑا۔ کم وبیش ۲۸ برس جیل کی سلاخوں کے  پیچھے رہا۔ وہ خطرناک ترین ’دہشت گرد‘ قرار پایا۔ نسلی امتیاز کی بنیاد پر قائم نظام حکومت نے  تحریک آزادی کے کارکنان کو بری طرح کچلا، مگر طلبہ جب اس تحریک میں شامل ہوئے تو تحریک نے زور پکڑ لیا۔ طویل جدوجہد کے بعد پوری دنیا کی توجہ بھی اس مظلوم خطے کی طرف مبذول ہوئی۔ آخر اقلیتی حکمرانوں کے ساتھ تحریک آزادی کے کئی معاہدوں کے بعد جن میں عالمی اداروں نے بھی کردار ادا کیا، ۱۹۹۴ء کے انتخابات میں افریقن نیشنل کانگریس، نیلسن منڈیلا کی قیادت میں بھاری اکثریت سے جیت گئی اور آزادی کا سورج طلوع ہوا۔

 نیلسن منڈیلا باباے قوم اور انتہائی مقبول شخصیت ہے۔ چار چار سال کی دو میقات صدارتی محل میں گزارنے کے بعد پوری قوم کے مطالبے کے باوجود اس نے جارج واشنگٹن کی طرح تیسری مرتبہ انتخابات میں حصہ لینے سے انکار کردیا۔ اس کے نائب مسٹر مبیکی تھابو نے بھی اسی روایت کو قائم رکھا۔ اس وقت تیسرا صدر مسٹر زوما برسراقتدار ہے۔ یہ اس کی پہلی میقات ہے۔ ملک میں کثیر الجماعتی جمہوریت ہے۔انتخابات باقاعدگی سے ہوتے ہیں، سفید فام پارٹی بھی انتخابات میں حصہ لیتی ہے اور پارلیمان میں موجود ہے۔ میدانِ سیاست میں حکمران پارٹی افریقن نیشنل کانگریس کے سامنے کوئی بڑا چیلنج نہیں مگر مختلف افریقی گروپوں نے اپنی اپنی پارٹیاں قائم کررکھی ہیں جو آہستہ آہستہ زور پکڑ رہی ہیں۔ مسلمانوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے کچھ زیادہ ہی حصہ امور مملکت میں حاصل ہے۔ یہ بجا طور پر تحریک آزادی میں ان کی شرکت کا صلہ ہے۔ حلال فوڈ اور گوشت بھی مجلس علما کے دوگروپوں کے سرٹیفکیٹ سے فراہم کیا جاتا ہے۔

جنوبی افریقہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ افریقہ میں سب سے مضبوط اقتصادی حالت اسی کی ہے، جب کہ پوری دنیا میں معاشی میدان میں اس کا ۲۸واں نمبر ہے۔ سفید فام آبادی میں یہودی خاصی تعداد میں ہیں اور دنیا کے مال دار ترین لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ذرائع آمدنی میں زراعت، معدنیات، بالخصوص سونا اور ہیرے، صنعت، اور سیاحت اہم شعبے ہیں۔ مسلمانوں کی آبادی اڑھائی سے تین فی صد ہے۔ مسلمان بڑے شہروں میں مقیم ہیں اور مالی لحاظ سے خوش حال ہیں۔ مقامی آبادی میں دعوت اسلام کے بڑے مواقع ہیں۔ مسلمانوں نے اس میدان میں آزادیِ اظہار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے منظم منصوبہ بندی کرکے کوئی کام نہیں کیا۔ الحمدللہ اب کچھ پیش رفت شروع ہوئی ہے۔ مسلمانوں میں جمعیت العلما اور تبلیغی جماعت کافی منظم اور مؤثر ہیں۔ ان کا بہت مضبوط نیٹ ورک پورے ملک میں موجود ہے۔ یہاں کی مساجد بہت خوب صورت اور صاف ستھری ہیں۔ مدارس میں بھی بچوں کو اچھی اور معیاری تعلیم دی جاتی ہے۔ ہندی الاصل مسلمانوں کی مساجد میں تمام سہولیات کے باجود عمومی طور پر خواتین کے لیے پروگراموں میں شرکت کی گنجایش نہیں ہوتی۔ اس مرتبہ البتہ یہ تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے کہ بعض مساجد کے ساتھ خواتین کے لیے بھی نماز اور اجتماعات کا اہتمام کیا جارہا ہے، یہ بہت خوش آیند ہے۔

جمعیت العلما اور تبلیغی جماعت کے بعد مسلمانوں کی دوسری بڑی تنظیم اسلامی میڈیکل ایسوسی ایشن ہے۔ یہ تنظیم بھی آزادی سے قبل قائم ہوئی تھی اور اس نے فلاحی کاموں کے علاوہ تعلیمی اور دعوتی میدان میں بھی اب قدم رکھ دیا ہے۔ یہ ایسوسی ایشن مسلمان ڈاکٹروں کی عالمی تنظیم فیما (فیڈریشن آف اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشنز) کی بھی ممبر ہے۔ اس فیڈریشن میں عمومی طور پر فلسطین، اردن، ترکی، پاکستان، ملائیشیا اور جنوبی افریقہ کے ڈاکٹر زیادہ فعال اور منظم ہیں۔ اس کے موجودہ صدر اردن سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر محمد احمد مشعل ہیں۔ پاکستان کے ڈاکٹر تنویرالحسن زبیری اور ڈاکٹر حفیظ الرحمان بھی اس کے مرکزی ذمہ داران میں شامل ہیں۔ جنوبی افریقہ کے جسمانی لحاظ سے معذور مگر انتہائی فعال اور باہمت ڈاکٹر اشرف جی دار بھی فیڈریشن کی مرکزی مجلس میں شامل ہیں۔

ایک خوش آیند بات یہ ہے کہ جنوبی افریقہ کے مسلمان ہی نہیں عام افریقی اور حکومت  بھی فلسطینیوں کے ساتھ بہت زیادہ یک جہتی و ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔ انھیں معلوم ہے کہ  نسلی امتیاز کی پالیسی نے ان کو کس قدر اذیت پہنچائی تھی۔ وہ صہیونیوں کے شدید مخالف ہیں۔ اسی طرح یہاں کے مسلمان طالبانِ افغانستان کے حامی اور امریکا و ناٹو کے سخت خلاف ہیں۔ مسئلہ کشمیر سے یہاں کوئی خاص دل چسپی نہیں پائی جاتی اور اس کی وجوہ ہیں۔

 اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن ساؤتھ افریقہ گذشتہ ۳۰ برس سے باقاعدگی کے ساتھ اپنا سالانہ کنونشن منعقد کرتی ہے۔ یہ مختلف شہروں میں ہوتا رہتا ہے۔ اس کی کل حاضری عموماً ۴۰۰،۵۰۰ کے لگ بھگ ہوتی ہے۔ غیرڈاکٹر شرکا جو ڈاکٹروں کے اہل خانہ میں سے ہوتے ہیں، بھی شریک محفل ہوتے ہیں۔ یوں تعداد کافی زیادہ ہوجاتی ہے۔ مجھے کئی مرتبہ اس سالانہ کنونشن میں شرکت کی دعوت ملتی رہی، مگر میں اس میں دو مرتبہ ہی شریک ہوسکا۔ پہلی بار ۱۹۹۷ء میں اور دوسری مرتبہ اس سال ماہِ اپریل میں۔ ڈاکٹر حضرات تین دن کے سالانہ کنونشن میں بہت سلیقے اور ترتیب کے ساتھ اپنا پروگرام مرتب کرتے ہیں۔ بعض پروگرام اکٹھے ایک ہال میں ہوتے ہیں، جب کہ کئی ایک پروگرام تین چار مختلف ہالوں میں شرکا کو تقسیم کرکے متنوع موضوعات پر منظم کیے جاتے ہیں۔ ان پروگراموں کی جامعیت یہ ہے کہ ان میں دروس قرآن وحدیث بھی ہوتے ہیں اور مختلف اسلامی موضوعات پر ڈاکٹر اور دیگر حضرات کے لیکچر بھی رکھے جاتے ہیں۔ ساتھ ساتھ میڈیکل کے تمام شعبوں کے متعلق ماہرین کے نہایت اعلیٰ علمی و تکنیکی لیکچر ہوتے ہیں۔ ہر پروگرام کے بعد سوال وجواب کا دل چسپ سلسلہ بھی چلتا ہے۔ نماز باجماعت کا مثالی اہتمام ہوتا ہے۔

پاکستان سے تعلق رکھنے والے احباب ڈاکٹروں، پروفیسروں، تاجر، صنعت کار اور محنت مزدوری کرنے والے طبقات پر مشتمل ہیں۔ پاکستانی آبادی ایک لاکھ کے لگ بھگ ہے جو پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہے۔ بیش تر لوگ یہاں کا پاسپورٹ حاصل کرچکے ہیں۔ یہاں تحریکی احباب نے اپنا ایک نظم قائم کیا ہے جو آہستہ آہستہ منظم ہورہا ہے۔ اس کا نام اسلامک سرکل آف ساؤتھ افریقہ ہے۔ ۱۷،۱۸ مقامات پر اس کے وابستگان کسی نہ کسی صورت میں خود کو حلقے کی صورت دینے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ ہر مقام کے ذمہ داران سے رپورٹ لی جاتی ہے۔ مرکزی دفتر جوہانس برگ میں ہے۔ اس وقت ڈاکٹر سید شبیرحسین صدر، ڈاکٹر فیاض حمید سیکرٹری اور ڈاکٹر طاہر مسعود خازن ہیں۔ خواتین میں بھی کام منظم ہورہا ہے۔ میرے لیے آئی ایم اے کی دعوت میں کشش اس وجہ سے تھی کہ اپنے تحریکی احباب کے کام کی کارکردگی، جس کا بیج ۱۵برس پہلے ڈالا گیا تھا،دیکھنے کا موقع مل جائے گا۔ الحمدللہ میڈیکل ایسوسی ایشن کے کنونشن کے علاوہ آئی ایم اے کے پروگراموں کے تحت کیپ ٹاؤن، ڈربن، کلارک سٹاپ، پولک وین (پرانا نام پیٹرزبرگ) وغیرہ میں جانے اور ڈاکٹروں کے ساتھ تبادلۂ خیالات کا موقع ملا۔ گذشتہ سال برادرم اظہر اقبال کو دو مرتبہ یہاں آنے کا موقع ملا اور انھوں نے کام کو منظم کرنے میں مقامی ساتھیوں کا بھرپور ساتھ دیا۔ ان مقامات پر کوئی پاکستانی ڈاکٹر تو نہیں تھا، البتہ ہندی الاصل برادران وخواہران ہر جگہ پروگراموں میں   شریک ہوتے رہے۔ ان مقامات پر جہاں کہیں مساجد میں پروگرام ہوئے وہاں پاکستانی احباب نے بھی شرکت کی۔اسلامک سرکل آف ساؤتھ افریقہ کے تحت دو بڑے پروگرام ہوئے۔ ایک جوہانس برگ میں جس میں گردونواح سے مختلف صوبوں اور شہروں سے احباب نے شرکت کی۔ دوسرا بڑا پروگرام گراہمز ٹاؤن میں تھا، اس میں اس علاقے کے گردونواح سے بیش تر صوبوں اور شہروں سے لوگ آئے تھے۔ ہر دو مقامات پر خواتین بھی شامل تھیں۔ ان کے علاوہ کنگ ولیمز ٹائون اور کوئینز ٹائون میں بھی پروگرام کیے گئے۔

اسلامک سرکل کے پروگرام اردو میں ہوتے تھے، جب کہ اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن اور مساجد کے تمام پروگرام انگریزی میں۔ ہرجگہ یہ بات زیر غور آئی کہ مقامی آبادی میں کام کیسے کیا جائے؟ اس وقت مجموعی طو رپر اس ملک میں بہت امن وسکون ہے مگر چونکہ مقامی آبادی معاشی لحاظ سے محرومی کا شکار ہے، اس لیے وہ اپنی اس کیفیت اور حالت زار کو بہت محسوس کرتے ہیں۔ آزادی ملنے اور سیاہ فام آبادی کی اپنی حکومت قائم ہونے کے باوجود ابھی تک عام افریقی شہری معاشی و تعلیمی میدان میں بہت پیچھے ہے۔ کبھی کبھار ردعمل میں کچھ باتیں خاموش سمندر کی سطح پر آجاتی ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر ان لوگوں کی اخلاقی اور ذہنی تربیت اور معاشی وسماجی ارتقا کا اہتمام نہ ہوا تو کسی وقت بھی یہ لاوا پھٹ سکتا ہے۔ مسلمانوں نے ایسے کئی تعلیمی ادارے قائم کیے ہیں جن میں مقامی آبادی کے وہ بچے جن کے والدین کا پتا نہیں، یا جن کی مائیں ہیں اور باپ نامعلوم، یا    جن کے والدین بہت ہی غربت کا شکار ہونے کی وجہ سے اپنے بچوں کی تعلیم کا اہتمام نہیں کرسکتے، ان اداروں میں داخل کیے جاتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے ان بچوں کے لیے ان اداروں میں   آنے کے بعد رہایش، خوراک، لباس اور تعلیم کی مکمل ذمہ داری اسلامی تنظیمیں اپنے ذمے لے لیتی ہیں۔ ان کے والدین اور مقامی آبادی اس بات سے کوئی اختلاف نہیں رکھتی کہ انھیں مسلمان بنالیا جائے۔ مجھے ڈربن کے علاقے میں ایک چھوٹی دیہاتی آبادی انچانگا میں،وہاں کے اسلامک سنٹر جانے کا اتفاق ہوا۔ ایک صاحب ِخیر میڈیکل ڈاکٹر جناب غلام حسین تتلہ اس کے روح رواں ہیں۔ سیکڑوں ایکڑ پر مشتمل رقبے پر اس مرکز کی عمارات بھی بہت قابل دید ہیں۔ کچھ کلاسوں میں جاکر ۵ سے ۱۰سال کی عمر کے بچے بچیوں کو دیکھنے کا موقع ملا تو طبیعت خوش ہوگئی۔ ان سب نے اتنی خوش الحانی کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت اور شش کلمات پڑھ کر سنائے کہ بے ساختہ میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ان کا لہجہ بھی بہت اچھا تھا، مخارج بھی درست اور لحنِ بلالی تو تھا ہی!

اس طرح کے مراکز جگہ جگہ قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ الحمدللہ تمام باعمل مسلمان اس ضرورت کا احساس وادراک رکھتے ہیں۔ دوردراز کی افریقی آبادیوں میں آئی ایم اے کی موبائل ڈسپنسریاں بھی فعال دیکھیں۔ ایک دیہاتی علاقے میں ۳۰، ۴۰ خواتین، بوڑھوں اور بچوں کو بہت صاف ستھری جگہ پر بٹھانے کی سہولت کے ساتھ ڈسپنسری کو برسرِعمل دیکھا، تو اُن مخیر حضرات کے لیے جو مالی ایثار کر رہے ہیں اور اُن رضاکاروں کے لیے جو میدان عمل میں سرگرم ہیں، دل سے دعائیں نکلیں۔ خوش آیند بات یہ ہے کہ جن لوگوں کی خدمت کی جارہی ہے وہ اس پر ممنون احسان ہیں، ورنہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ خدمت کرنے والوں کو تحسین کے بجاے شک و شبہے کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ پاکستان میں ہمیں اس کا تجربہ ہوتا رہتا ہے۔ ڈاکٹر شبیر حسین اور کئی دیگر مسلمان ڈاکٹر آنکھوں میں موتیے کے بلامعاوضہ آپریشن کرنے کے لیے کیمپ لگاتے رہتے ہیں۔ پاکستان سے بھی اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کے ڈاکٹر ان کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ ایک کیمپ میں ۹۰کے قریب شفایافتہ مریضوں کے درمیان تقسیم تحائف کی محفل میں مجھے بھی جانے کا اتفاق ہوا۔ یہاں اسلام کاتعارف بھی کرایا گیا۔ تمام مریض انتہائی خوش اور ڈاکٹر شبیر اور ان کی ٹیم کے لیے رطب اللسان تھے۔ دیگر تحائف کے علاوہ انھیں قرآن مجید اور رسالہ دینیات کے انگریزی ترجمے دیے گئے۔   یہ بڑا بنیادی کام ہے مگر ذاتی روابط اور اسلام کی عملی تعلیم و تربیت اس سے اگلی اور اصل ذمہ داری ہے۔

عینی شاہد بیان نہ کرتے، تصاویر او رویڈیو نہ دکھا دیتے تو یقین نہ آتا۔ آپ خود ہی دیکھ کر بتادیجیے کہ کیا اشرف المخلوقات ایسا کرسکتا ہے؟ یہ کپڑے پر بنی بشار الاسد کی جہازی سائز کی ایک تصویر ہے ، جسے بیچ میدان کے زمین پر بچھا دیا گیا ہے، اس کے چاروں کناروں پر اس کے درجنوں حامی اور فوجی اس تصویر کے سامنے سجدے میں پڑے ہیں اور درو دیوار پر لکھا ہے:لا الٰہ الا بشار۔ ایک اور منظر میں گھنی داڑھی والے ایک باریش نوجوان پر تشدد کیا جارہا ہے۔ لاٹھیوں، ٹھوکروں اور تھپڑوں کی بارش ہورہی ہے اور ایک سورما، زمین پر گرے اس نوجوان کی گردن پر اس طرح پاؤںجمائے کھڑا ہے کہ سنت نبوی مکمل طور پر جوتے کے نیچے روندی جارہی ہے، اس عالم میں نوجوان کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ کہے: بالروح بالدم نفدیک یا بشار،’’میرا جسم و جان تم پر فدا یا بشار‘‘۔ اس طرف دیکھیں یہ ایک طویل قطار ہے۔ یہ صرف بچوں کی لاشوں کی قطارہے اور ان سب کو گولیاں مار کر نہیں، باقاعدہ گردنیں کاٹ کر ذبح کیا گیا ہے۔ اور یہ دیکھیں یہ ایک لمبی کھائی ہے، لیکن یہ کھائی نہیں ایک اجتماعی قبر ہے، جس میں درجنوں لاشیں دفن کی جارہی ہیں___ آخر کون کون سا منظر دیکھیں گے، نہ دیکھنے کا یارا ہے اور نہ بیان کرنے کا حوصلہ!

یہ کوئی ایک آدھ دن کی بات نہیں، ۱۵ مارچ ۲۰۱۱ئسے لے کر آج تک گزرنے والا ہر لمحہ، مسلمان شامی عوام کے لیے قیامت کا لمحہ ہے۔ گھر، مسجدیں، بازار اور انسان، اور تواور باغات، مویشی، کھیت اور کھلیان کچھ بھی اور کہیں بھی محفوظ نہیں ہے۔ لیکن ۴۹ برس کی ڈکٹیٹر شپ کے بعد یہ پہلا موقع آیا ہے کہ قتل و غارت کے نتیجے میں لوگ خوف زدہ ہوکر نہیں بیٹھ گئے۔ پہلی بار عوام نے خوف کی فصیلوں کو ریزہ ریزہ کردیا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر اب ان تمام قربانیوں کو رائیگاں جانے دیا گیا، تو پھروہ کبھی ایک آزاد شہری کی حیثیت سے سانس نہ لے سکیں گے۔

شام کے موجودہ حالات کا جائزہ لینے سے پہلے آئیے ذرا گذشتہ صدی کا سرسری جائزہ لیں۔ ۹مئی ۱۹۱۶ء کو ہونے والے سایکس پیکو معاہدے کے تحت پورے مشرق وسطیٰ کو ٹکڑیوں میں بانٹ دیا گیا۔ ۳۰ستمبر ۱۹۱۸ء کو آخری عثمانی افواج بھی شام سے نکل گئیں۔ فرانس قابض ہوگیا۔ اپریل ۱۹۴۶ء میں فرانسیسی استعمار سے بھی نجات مل گئی۔ اپریل ۱۹۴۷ء میں وہاں بعث پارٹی کی باقاعدہ تاسیس عمل میں آئی۔ اسی سال ملک میں انتخابات ہوئے تو بعث پارٹی کے بانی میشل عفلق اور صلاح بیطار جیسے اس کے تمام لیڈر ناکام ہوگئے۔

۳۰مارچ ۱۹۴۹ء کو حسنی الزعیم کی سربراہی میں فوجی انقلاب آگیا، پورے عالم عرب میں یہ پہلا انقلاب تھا۔ پھر ایک کے بعد دوسرا سفاک خود کو قوم کا محبوب ترین لیڈر ثابت کرنے پر    تلا رہا۔ حسنی الزعیم کو ہی دیکھ لیجیے۔اگست ۱۹۴۹ء میں ۹۹ئ۹۹ فی صد ووٹ حاصل کرلینے والے بزعم خود ’ہر دل عزیز‘ لیڈر کا اگلے ہی مہینے نہ صرف تختہ اُلٹ گیا، بلکہ اسے پھانسی پر لٹکادیا گیا۔ ۱۵نومبر ۴۹ء کو دوبارہ عام انتخابات ہوئے، حکمران پیپلز پارٹی نے اکثریت حاصل کی۔ ان انتخابات کی خاص بات یہ ہے کہ ان میں الاخوان المسلمون کو چار نشستیں حاصل ہوئیں جن میں  شام میں اخوان کے بانی مصطفی السباعی بھی شامل تھے، جب کہ بعث پارٹی کا صرف ایک رکن منتخب ہوا۔ اسی ایک سال کے اندر اندر دسمبر ۴۹ء میں وہاں تیسرا انقلاب آگیا۔

۱۹۵۲ء میں الاخوان المسلمون سمیت اکثر سیاسی جماعتوں کو کالعدم قرار دے دیا گیا اور پھر مسلسل کئی انقلابات کے بعد ملک سے بعث پارٹی کے علاوہ باقی تمام جماعتوں اور مذاہب و ادیان کا ناطقہ بند کردیا گیا۔ ۱۹۶۳ء میں بعثی انقلاب نے اقتدار سنبھالا، حافظ الاسد اس کا اہم حصہ تھا۔ ۱۹۶۶ء میں اس نے مزید اختیارات کے لیے پارٹی قیادت کے خلاف بغاوت کردی، خود وزیردفاع بن بیٹھا، اور پھرنومبر ۱۹۷۰ء میں ایک اور انقلاب کے ذریعے مکمل اقتدار سنبھال لیا۔ وہ دن اور  آج کا دن، اسد خاندان کا اصرار ہے کہ شامی عوام سانس بھی اس کی مرضی اور اجازت سے لیں۔

حافظ الاسد کی سفاکیت اور اسلام دشمنی کا اندازہ لگانے کے لیے چند جھلکیاں ملاحظہ کرلیجیے:

  • جون ۱۹۷۹ء میں کسی فوجی افسر نے چند علوی فوجی افسروں پر فائرنگ کر دی۔     حافظ الاسد نے اس اندرونی شورش کا سارا الزام اخوان کے سر تھوپتے ہوئے، ایک ہی واقعے میں جسر الشغور نامی شہر میں ۹۷؍افراد شہید اور کئی گھر زمین بوس کردیے۔
  •  ۲۱ جون ۱۹۸۰ء کو ملک میں ایک انوکھا قانون نافذ کردیا گیا جس کے تحت اخوان سے وابستگی کی سزا پھانسی قرار دی گئی۔ آج تک یہ شق نمبر ۴۹ قانون کا فعال حصہ ہے۔
  •  ۲۵ جون ۱۹۸۰ء کو ایک سفارتی تقریب میں حافظ الاسد پر قاتلانہ حملہ ہوا، اس کی تمام تر ذمہ داری بھی اخوان پر ڈال دی گئی۔ ان کے خلاف ظالمانہ کارروائیوں میں مزید اضافہ ہوگیا۔ ۲۷جون کوتَدْمُْرْ جیل میں قید اخوان کے ایک ہزار سیاسی قیدیوں کو اندھا دھند فائرنگ کرکے شہید کردیا گیا۔ نہ کوئی مقدمہ نہ عدالت، نہ منصف نہ گواہ، بس ایک الزام اور قصہ تمام۔
  •  ۲۵جولائی کو حلب شہرکے اتوار بازار میں پولیس فائرنگ کے ذریعے ۱۹۰ بے گناہ افراد کو شہید کردیا گیا۔ حلب کے بارے میں عمومی تأثر تھا کہ یہاں اخوان کی تائید نمایاں ہے۔
  •  ۱۹ دسمبر ۱۹۸۰ء کو تَدْمُْرجیل میں ایک اور قتل عام ہوا۔ اس بار وہ خواتین نشانہبنیں جنھیں ان کے شوہر، باپ بیٹے یا بھائی کے نہ ملنے پر گھروں سے اٹھا کر جیل میں بند کردیا گیا تھا۔ ۱۲۰ خواتین لقمۂ اجل بن گئیں۔ یقینا ان سے روز حشر پوچھا جائے گا: بِاَیِّ ذَنْبٍم    قُتِلَتْ(التکویر۸۱:۹ ) ْ’’یہ کس گناہ کی پاداش میں قتل کردی گئی؟‘‘
  •  ۲ فروری ۱۹۸۲ء تو پوری مسلم دنیا کی حالیہ تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے۔ اس دن حافظ الاسد کے حکم پر اس کے بھائی رفعت الاسد نے اپنی سربراہی میں قائم خصوصی سیکورٹی فورس کی مدد سے ’حماہ‘ نامی شہر کا محاصرہ کرلیا۔ اور پھر ۲۷ روز تک اس پر ٹینکوں، توپوں اور جنگی جہازوں سے بمباری کی جاتی رہی۔ ۳۵ سے ۴۰ ہزار بے گناہ افراد موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ پورا شہر مقبرہ بن گیا کہ لاشیں اٹھانے والا بھی کوئی نہ رہاتھا۔ ’حماہ‘ کا جرم بھی صرف یہ تھا کہ یہ اخوان کا گڑھ تھا۔

مکافات عمل ملاحظہ ہو کہ دو سال بعد حافظ الاسد بیمار ہوا تو اسی رفعت الاسد نے اپنی اسی سیکورٹی فورس کے ذریعے بھائی کا تختہ الٹنے کی کوشش کی جو ناکام رہی۔ رفعت کو فرار ہوکر یورپ میں پناہ لینا پڑی، اس کی خصوصی فوج ختم کردی گئی۔

اس خاندان کے دور جرائم کی تفصیل بہت طویل ہے۔ لیکن صرف ڈیڑھ دو سال کے عرصے میں ہونے والے درج بالا چند واقعات ۴۹ برس پر محیط درندگی کی ہلکی سی جھلک دکھا رہے ہیں۔ اس قتل عام کے علاوہ اسد خاندان کا اصل ہدف اور اولین ترجیح ملک میں بعث ازم کی جڑیں گہری کرنا تھی۔ یہ نظریہ عرب قومیت اور اشتراکیت کا ملغوبہ ہے۔ بعث ازم کو (نعوذ باللہ) اللہ اور اس کے رسولؐ سے بھی بالاتر درجہ دے دیا گیا تھا۔ حافظ الاسد کا ایک شاعر ہرزہ سرائی کرتا ہے:

آمَنْتُ بِالْبَعْثِ رَبًا لَا شَرِیْکَ لَہٗ

وَبِالْعُرُوبَۃِ دِیْنًا مَالَہٗ ثَانِی

(میں بعث ازم کے رب لا شریک ہونے، اور عرب ازم کے لاثانی دین ہونے پر ایمان لایا)۔ بعث پارٹی کا شعار ہے: أمۃ عربیۃ واحدۃ ذات رسالۃ خالدہ ،’’ ابدی پیغام رکھنے والی عرب اُمت واحدہ‘‘۔ پورے ملک کا نظام اسی بعثی مرکز و محور کے گرد گھومتا ہے۔ دستور کی دفعہ ۸ کے مطابق’’ بعث پارٹی ریاست اور معاشرے کی اکلوتی رہنما پارٹی ہے‘‘۔ کسی دوسرے کو پارٹی بنانے کی اجازت نہیں ۔ دستور کی دفعہ ۸۳ کے مطابق صدارتی انتخاب کا طریق کار یہ بتایا گیا ہے کہ ’’بعث پارٹی کے علاقائی ذمہ داران کسی ایک شخص کو صدارتی اُمیدوار نامزد کریں گے، پھر وہی صاحب خود عوامی ریفرنڈم منعقد کرواتے ہوئے منتخب صدر کہلائیں گے‘‘۔

جبر پر مبنی تدبیریں دوام دے سکتیں توفرعون کا اقتدار اور قارون کی دولت کبھی ختم نہ ہوتی۔ ظلم کا نظام بظاہربہت محکم لیکن حقیقتاً بہت بودا ہوتا ہے، بالآخر ظالم ہی کی گردن ناپتا ہے: وَ لَا یَحِیْقُ الْمَکْرُالسَّیِّیُٔ اِلَّا بِاَھْلِہٖ(الفاطر ۳۵:۴۳)،’’بُری چال بالآخر چلنے والے ہی کے گلے پڑتی ہے‘‘۔ زین العابدین، حسنی، قذافی اور علی عبداللہ صالح پر بھی یہی حقیقت صادق آئی۔گذشتہ ۱۴ماہ میں بشارحکومت نے بھی عوامی تحریک کچلنے کی بھرپور کوششیں کیں، لیکن تحریک ختم ہونے کے بجاے مضبوط سے مضبوط تر ہوئی۔ یہ ۱۹۸۲ء نہیں ہے کہ پورا شہر تہ تیغ کردیں اور ذرائع ابلاغ کو قریب تک نہ پھٹکنے دیں۔ ۲۰۱۲ء کی عوامی تحریک کا اصل ہتھیار کیمرا، موبائل فون اور انٹرنیٹ ہے۔ پل پل کی خبر سیٹلائٹ فون کے ذریعے دنیا کے سامنے آجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہادتوں کی تعداد ’صرف‘ جی ہاں صرف ۱۵ ہزار افراد سے زائد ہے۔ ذرائع ابلاغ نہ ہوتے تو اقتدار کی خاطر پوری قوم بھی موت کی نذر کرنا پڑتی، تو سفاک بعثی نظام دریغ نہ کرتا۔

شامی عوام کی اصل بدقسمتی یہ نہیں کہ ان پر ایک درندہ نظامِ حکومت مسلط ہے، ان کے بقول ان کی اصل محرومی یہ ہے کہ ان کے بھائیوں نے انھیں تنہا چھوڑ دیا ہے۔ الاخوان المسلمون کے سربراہ محمد ریاض شقفہ کے بقول انھوں نے پہلے دن سے اپنی تحریک کو پُرامن رکھنے پر زور دیا ہے۔ لاکھوں عوام کا ۹۵ فی صد غیر مسلح ہے اور عوامی طاقت کے ذریعے ہی تبدیلی لاناچاہتا ہے۔ سفاک حکمران روز اول سے طاقت استعمال کررہا ہے۔ اب ایک طرف ٹینک اور وحشیانہ بمباری ہے اور دوسری جانب خالی ہاتھ عوام۔ یہ درست ہے کہ بے تیغ عوام کو آتش و آہن شکست نہیں دے سکا، لیکن ا ب معاملات فیصلہ کن موڑ تک آن پہنچے ہیں۔ شامی فوج کی ایک بہت بڑی تعداد بشار کا ساتھ چھوڑ کر ’الجیش الحر‘ آزاد فوج کے نام سے منظم ہوچکی ہے، لیکن ان کی اکثریت بھی ہتھیاروں کے بغیر ہے۔ مسلم دنیا کسی عملی مدد سے عاجز ہے۔ رہا امریکا اور عالمی برادری تو اس کے بیانات اور اجلاس تو بہت ہیں لیکن اس کے اہداف کی فہرست میں کہیں یہ بات نہیں ہے کہ عوام کو بچانا اور ان کی مدد کرنا ہے۔ اسرائیل کا پڑوسی ہونے کی وجہ سے ان کا اصل ہدف یہ ہے کہ بشار کے بعد بھی وہاں اپنی گرفت کیسے مضبوط کی جائے۔ ان کی حکمت عملی یہ ہے کہ قتل عام کو طول ملے یہاں تک کہ بشار کے بجاے بذات خود شیطان بھی آجائے تو شامی عوام اسے قبول کرلیں۔ ایک کے بعد دوسرے اجلاس اور مسلسل وفود ارسال کرنے کا نتیجہ مزید خوں ریزی کی صورت میں ہی نکل رہاہے۔ لاکھوں ڈالر کے خرچ اور ابلاغی طوفان کے بعد سیکورٹی کونسل نے ۲۱؍اپریل کو ۳۰۰ غیر مسلح فوجی مبصرین بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ نگران تین مہینے تک اس امر کا جائزہ لیں گے کہ بشار انتظامیہ نے عوام کو کچلنے کے لیے کہیں بھاری اسلحہ تو استعمال نہیں کیا۔ گویا مزید تین مہینے تک تباہ و برباد کرنے کا لائسنس دے دیا گیا۔ اقوام متحدہ کے اسی طرح کے نگران ۱۹۴۸ء سے کشمیری عوام کے ’تحفظ‘ کا فریضہ بھی سر انجام دے رہے ہیں۔

شامی عوام کی تباہی پر سب سے زیادہ مسرت صہیونی ریاست کو ہے۔ اس کا واضح اندازہ ۲۲؍ اپریل کے صہیونی روزنامہ یدیعوت احرونوت سے ہوتاہے ۔ وہ اپنے ادارتی نوٹ میںلکھتا ہے کہ شام میں کوئی خانہ جنگی نہیں، ایک دینی جنگ ہے۔ اس کے بقول ۱۳۰۰ سال پرانا شیعہ سنی جھگڑا جو عثمانی خلافت کی کئی صدیوںتک دبا رہا ،اب دوبارہ زندہ ہوگیا ہے۔ ایک فریق مشرق وسطیٰ کو شیعہ بنانا چاہتا ہے اور دوسرا ۸۵ فی صداہل سنت کو ان کا فطری مقام دلوانا چاہتا ہے۔ اس تمہید کے بعد اخبار یہ نتیجہ نکالتا ہے: ’’اب ہمارے لیے یہ بات سمجھنا آسان ہے کہ اسرائیل کے ساتھ ۱۰۰سال سے کم عرصے پر محیط جھگڑا، ساتویں صدی عیسوی سے جاری شیعہ سنی جھگڑے کی نسبت کس قدر ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔ گویا اب ہمارے سامنے صرف شام کاکوئی اندرونی نزاع نہیں، جیسا کہ بعض اسرائیلی سمجھتے ہیں بلکہ مشرق وسطیٰ کا ایک بڑا دینی انتشار ہے۔ اس تنازعے کا اسرائیل سے کوئی تعلق نہیں اور یہی سب سے اچھی بات ہے‘‘۔

اسد خاندان غلو کی حد کو پہنچے ہوئے علوی فرقے سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ کسی دینی نہیں بلکہ شخصی بتوں پر قائم بعثی ریاست کا بانی خاندان ہے۔ لیکن حالیہ تحریک میں ایران کی طرف سے بشارانتظامیہ کی ہمہ پہلو امداد نے پورے مسئلے کوفرقہ وارانہ رنگ دینے والوں کا کام آسان کردیا ہے۔ بشار اور اس کا باپ شاہِ ایران سے بد تر ڈکٹیٹر ہیں ۔ ایران کو اس کا ساتھ دینے کے بجاے مظلوم عوام کا ساتھ دینا چاہیے۔ خود ایران کے کئی اعلیٰ سطحی ذمہ داران بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیںلیکن بدقسمتی سے اس وقت عملاً بشار انتظامیہ کا سب سے بڑا مددگار ایران ہے اور اس کے بعد روس اور چین۔ یہ دونوں ملک اپنے اپنے اندرونی حالات کے تناظر میں عوامی تحریکات کا ساتھ نہیں دے رہے۔ تیونس اور مصر میں بھی ان کی پالیسی یہی تھی۔ لیکن کوئی صہیونی اور امریکی تجزیہ نگار  روس اور چین کی مدد کے باعث شام کی تحریک کو، کمیونزم یا سوشلزم کے خلاف تحریک نہیں کہہ رہا، کیونکہ وہ شیعہ سنی آگ بھڑکانا چاہتے ہیں۔ یہ طوفان اب عراق اور خلیج تک محدود نہیں رہا، شام اور پاکستان سمیت کئی ملکوں میں اسی جلتی پر تیل چھڑکا جارہا ہے۔ اس طوفان کو اسی صورت روکا جاسکتا ہے کہ اُمت کی توجہ اصل مسائل پر مرکوز رہے۔ اصل مسئلہ ظلم کا خاتمہ ، ڈکٹیٹر شپ سے نجات اور عوام کو ان کے حقوق دینا ہے۔ یہ قرآنی فیصلہ سب کے سامنے رہنا چاہیے کہ وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓا اَیَّ مُنقَلَبٍ یَّنقَلِبُوْنَ o(الشعراء ۲۶:۲۲۷)’’اور ظلم کرنے والوں کو عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ وہ کس انجام سے دوچار ہوتے ہیں‘‘۔

نائیجیریا براعظم افریقہ کے مغرب میں بحیرۂ اٹلانٹک کے طویل ساحل کے تقریباً وسط میں حبشی النسل قبائل کی ۹لاکھ ۲۳ہزار ۷سو۶۸ مربع کلومیٹر پر پھیلی ہوئی دنیا کی ساتویں بڑی آبادی پر مشتمل مملکت ہے۔ اس کا رقبہ اور آبادی، دونوں پاکستان کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ برطانوی قوم کی توسیع پسندی اور ہوس ملک گیری کے نتیجے میں یہ علاقہ بیسویں صدی کے شروع میں برطانوی کالونی قرار پایا، اور برطانوی حکومت نے ۱۹۱۴ء میں اس کے ۲۵۰ سے زائد قبائل پر نائیجیریا نام کا ملک برطانوی کالونی کی صورت میں تشکیل دیا۔ یہ سب قبائل اپنے عقائد، مذہب، روایات اور عادات و اطوار میں ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھے۔ اس مملکت کا شمالی علاقہ زیادہ تر صحارا کے ریگستان میں واقع ہے اور حوسا اور چند دوسرے قبائل پر مشتمل ہے۔اس علاقے کی   ۷۰فی صد آبادی مسلمان ہے، جب کہ بقیہ آبادی عیسائی ہے اور روایت پرستوں پر مشتمل ہے۔

نائیجیریا میں اسلام شمالی افریقہ کے مسلمان ممالک، مثلاً مراکش، الجزائر، لیبیا، تیونس، مصر وغیرہ اور مشرق سے سوڈان، صومالیہ، یمن، سعودی عرب کے راستے داخل ہوا۔ مغربی نائیجیریا میں زیادہ تر پروبا قبائل آباد ہیں اور ان کی اکثریت بھی مسلمان ہے۔ مشہور بندرگاہ لاگوس اسی علاقے کے ساحل پر واقع ہے، جو نائیجیریا کا پہلا دارالخلافہ تھا۔ مشرقی علاقہ بھی زیادہ تر سمندر کے کنارے واقع ہے۔ اس علاقے کی جانب سے برطانوی اپنے توسیع پسندانہ عزائم کے ساتھ داخل ہوئے تھے اور عیسائی مبلغین کا طائفہ اپنے ساتھ لائے تھے۔ اس علاقے میں اگبو اور دوسرے قبائل   رہتے تھے جن کی اکثریت کو ان مبلغین نے عیسائی بنا لیا۔ اسی لیے اس علاقے کے قبائل یا تو عیسائی ہیں اور جو عیسائی نہ بن سکے وہ اپنی روایت پرستی پر قائم رہے۔ اس علاقے کی ساحلی پٹی پٹرول سے مالامال ہے، اور یہاں سے دنیا کا بہترین پٹرول حاصل ہوتا ہے۔

بین الاقوامی حالات اور ملک میں اندرونی تحریکوں کے دبائو کے تحت برطانوی آبادکاروں کو اقتدار سے دست بردار ہونا پڑا۔ اس طرح ۱۹۶۰ء میں نائیجیریا آزاد ملک قرار پایا۔ آزادی کے فوراً بعد ملک فوجی انقلاب کی نذر ہوگیا۔ ایک عیسائی جنرل برونسی کی قیادت میں یہ خونیں ثابت ہوا۔ معروف سیاسی اور مذہبی رہنما قتل کردیے گئے جو زیادہ تر مسلمانوں پر مشتمل تھے۔ ان میں ابوبکر تفاوا بلیوا اور احمد بیلو قابلِ ذکر ہیں۔ اس کے نتیجے میں مسلمانوں اور عیسائیوں میں گہری خلیج پیدا ہوئی۔ کچھ عرصے بعد مسلمان اور عیسائی فوجی جرنیلوں پر مشتمل ایک نئی فوجی قیادت اُبھری۔

۱۹۶۷ء میں مشرقی نائیجیریا کے اگبوقبائل کے ایک عیسائی فوجی کرنل اجوکو نے مرکزی حکومت سے بغاوت کرکے اس علاقے کو بیافرا کے نام سے نئی حکومت بنا کر علیحدہ کرلیا۔ برطانیہ، فرانس، اور دوسری مغربی حکومتوں نے اس نئی حکومت کی مدد کی، کیونکہ اس علاقے میں دنیا کا بہترین پٹرول نکلتا ہے اور یہ عیسائی علاقہ ہے۔ مرکزی حکومت کی خفیہ مدد مصر، لیبیا اور سوڈان نے اس بغاوت کو فرو کرنے میں کی۔ بغاوت ناکام ہوئی مگر اس میں ۱۰لاکھ سے زائد افراد کام آئے۔ عجب ستم ظریفی ہے کہ باغی لیڈر کرنل ایمسکا اجوکو ،کو حال ہی میں (اوائل مارچ ۲۰۱۲ئ) نائیجیرین حکومت کی طرف سے عزت و احترام سے دفنایا گیا اور نائیجیریا کے صدر نے اس کے جنازے میں بذاتِ خود شرکت کی ہے۔

  • اسلام اور عیسائیت کی کش مکش: گذشتہ صدی کے آخیر میں نائیجیریا کے  تین علاقوں کو ۲۹ سے زیادہ ریاستوں میں تقسیم کردیا گیا۔ یہ تقسیم وہاں کے بڑے بڑے قبائل کی بنیاد پر کی گئی۔ اس کے باوجود جہاں جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں وہاں صدیوں سے انھوں نے عرب امارات کی طرح امارات قائم کی ہوئی ہیں۔ یہ امارات نائیجیریا کے سیاسی نظام کے تحت    اپنا اسلامی تشخص رکھتی ہیں۔ ’ناصرالاسلام‘ کے نام سے مسلمانوں کی ایک مذہبی جماعت ہے جو اسلام کی تبلیغ اور مسلمانوں کے مفاد کے لیے کام کرتی ہے۔ اس جماعت کی تصدیق کی بنیاد پر ایک مسلمان حج پر جاسکتا ہے اور سعودی حکومت حج پر جانے والوں کے لیے اس تصدیق نامے کو ضروری قرار دیتی ہے۔ اس لیے کہ قادیانیوں نے برطانوی دور سے نائیجیریا میں اپنے تعلیمی ادارے اور ہسپتال قائم کیے ہوئے ہیں اور زوروشور سے تبلیغ کا کام کرتے ہیں، اور مسلمانوں کو قادیانی بناتے ہیں۔ جب سے پاکستان نے ان کو غیرمسلم قرار دیا ہے اس وقت سے نائیجیریا سے حج پر جانے والے مسلمانوں کے لیے متذکرہ تصدیق نامہ ضروری قرار دیا گیا ہے۔ نائیجیریا میں بعض      صوفی سلسلوں کے اثرات بھی ہیں۔ ’ناصرالاسلام‘ کے دو اہم رہنما سراحمد بیلو اور تفاوا بلیوا پہلے فوجی انقلاب کے دوران میں شہید کردیے گئے تھے۔ یہ رہنما اتنے بااثر تھے کہ اپنے تبلیغی دوروں کے دوران میں ایک وقت میں ۱۰ہزار روایت پرست قبائل افراد کو مسلمان کرلیا کرتے تھے، اور یہی بات مقامی اور بین الاقوامی عیسائیت کے لیے ناقابلِ برداشت تھی۔ ہرسطح کا نائیجیرین مسلمان، گو بہت سی معاشرتی اور معاشی خرابیوں میں ملوث ہے، مگر نماز بڑی پابندی سے ادا کرتا ہے۔ مسلمانوں کی زندگیوں میں یہ انقلاب اڑھائی سال قبل ایک مسلمان مصلح عثمان ڈان فوڈیو کی طویل اور انقلابی جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ مسلمان بحیثیت مجموعی سیاسی سمجھ بوجھ اور عمدہ انتظامی صلاحیتوں کے باعث بڑے بااثر ہیں۔ گو، وہ جدید انگریزی تعلیم کی کمی کے باعث غیرتعلیم یافتہ سمجھے جاتے ہیں،   حالانکہ وہ اپنے دین اور قرآن کی تعلیم اور معاشرے کے نظم و نسق کے حوالے سے دوسروں سے بہت آگے ہیں۔ نائیجیریا میں قرآن کے حفاظ کی بڑی تعداد ملتی ہے۔ اس کے باوجود رمضان کے دوران ختم قرآن کا رواج کم ہے۔ قرآن پڑھنے پڑھانے اور قرأت کی محفلیں خوب ہوتی ہیں۔

برطانوی استعمار کے دوران عیسائیت نائیجیریا میں داخل ہوئی اور عیسائی مبلغین کی سرگرمیوں کے باعث مشرقی علاقوں کے قبائل نے عیسائیت اختیار کی۔ پھر برطانوی دور میں قائم کیے گئے تعلیمی اداروں کے ذریعے بھی عیسائیت کو فروغ ملا۔ ہر ادارے میں بائبل اور عیسائیت کی تعلیم لازم تھی۔ عالمی عیسائیت نے ۱۹۷۰ء کے عشرے میں براعظم افریقہ میں بڑے پیمانے پر عیسائیت کی تبلیغ اور عیسائی براعظم بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس پروگرام کے تحت بے شمار مبلغین مغربی ممالک اور امریکا سے لائے گئے۔ یہ تحریک ہزار جتن کے باوجود کامیاب نہ ہوسکی۔ دل چسپ مناظر یہ دیکھنے میں آئے کہ مشرقی افریقہ کے ملک کینیا کا صدر جو خود عیسائی مبلّغ تھا اور عیسائیت کی تبلیغ و توسیع کا ذمہ دار تھا، اس کے اپنے گھر کے افراد نے اسلام قبول کرلیا۔ اسی طرح نائیجیریا میں عیسائی بشپ کی اپنی بیٹی اموجہ سے مسلمان ہوگئی کہ اسے مسلمانوں میں شادی کے بندھن کے طریقے بڑے سادہ اور پُراثر نظر آئے۔

نائیجیریا میں اسلام اور عیسائیت ہمیشہ ایک دوسرے کے مقابل رہے۔ لہٰذا یہاں کچھ عرصے بعد کہیں نہ کہیں عیسائی مسلم فساد ضرور ہوتا ہے۔ دونوں طرف سے بڑی تعداد میں اموات ہوتی ہیں اور گرجا اور مساجد اور گھر جلائے اور مسمار کردیے جاتے ہیں۔ ایک جائزے کے مطابق ۱۹۹۹ء سے اب تک مذہبی اور سیاسی فسادات ۱۶ہزار انسانوں کو نگل چکے ہیں۔ صرف ۲۰۱۱ء میں شمالی نائیجیریا میں ۸۰۰؍افراد موت کے گھاٹ اُتارے گئے۔ اسی سال کے دوران میں بائوچی، بنوئے،نساروا اور ترابا ریاستوں میں ۱۲۰؍افراد فساد کی نذر ہوئے۔ یہ سب ریاستیں شمالی نائیجیریا کی ہیں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ یہ فسادات ہوتے کیوں ہیں؟ مشرقی اور جنوبی ریاستوں کے عیسائی افراد روزگار اور تجارت کی غرض سے شمالی نائیجیریا آتے ہیں اور یہیں مستقل سکونت اختیار کرنا اور قبضہ جمانا شروع کردیتے ہیں۔ عیسائیت اور اسلام کی بنیاد پر بُغض و عناد جو پہلے سے ہی ہے اور اس پر قبائلی عناد بھی۔ بس پھر کہیں سے شعلہ بھڑکتا ہے، علاقے کے باسی دوسرے علاقے کے واردین کو علاقہ چھوڑنے کو کہتے ہیں اور یہی فساد کی جڑ بن جاتا ہے۔ اس کے ردعمل میں عیسائی علاقوں میں بھی یہی صورت پیدا ہوتی ہے۔

  • بوکو حرام اور نائیجیریا: ’بوکوحرام‘ نام سے شمالی نائیجیریا میں مسلمان نوجوانوں کا   ایک گروپ گذشتہ کئی سال سے متحرک ہے۔ اس گروپ کا طریقۂ واردات لوگوں کو گولی کا نشانہ بنانا، بم پھینکنا، یا خودکش حملہ کرنا ہے۔ اس گروپ نے ۲۰۱۱ء میں ۴۲۵؍افراد کو شمالی نائیجیریا میں تہِ تیغ کیا۔ نومبر ۲۰۱۱ء میں ریاست میڈوگوری میں نصف درجن حملوں میں پولیس افسران، سیاست دانوں، اپنے مخالف مذہبی رہنمائوں اور قبائلی رہنمائوں کو موت کے گھاٹ اُتارا۔ ریاست یوبے کے مقام ڈماٹرو میں بم حملہ کرنے کی ذمہ داری قبول کی جس میں ۱۰۰؍افراد مارے گئے۔ پھر اسی سال، یعنی ۲۰۱۱ء میں اگست کے مہینے میں نائیجیریا کے دارالخلافہ ابوجا میں اقوامِ متحدہ کی عمارت پر خودکش بم حملہ کیا جہاں ۲۴؍افراد لقمۂ اجل بنے اور ۱۰۰؍افراد زخمی ہوئے۔ یہ اس گروپ کی اب تک کی کارستانی ہے۔ اس گروپ کے سرغنہ محمد یوسف اور اس کے بہت سے ساتھیوں کو ۲۰۰۹ء میں پانچ پولیس افسران اور تین اسسٹنٹ پولیس کمشنر نے عدالتی کارروائی اور انصاف کے بغیر تہِ تیغ کردیا اور آج تک ان افراد کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جاسکی۔

بوکوحرام گروپ خالص مقامی لوگوں پر مشتمل سمجھا جاتا ہے مگر اس کو کیا کہیے کہ اقوام متحدہ کے آفس کو نشانہ بنانے کے نتیجے میں اس گروہ کا تعلق القاعدہ سے تلاش کرلیا گیا ہے۔ یہ اس طرح ہوا کہ اس گروپ کے سات ممبران جو نائیجر (نائیجیریا کی ہمسایہ اسٹیٹ) سے گزر رہے تھے، جب گرفتار ہوئے تو ان کے قبضے سے ملنے والی بعض چیزوں کا تعلق القاعدہ سے پایا گیا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ ان لوگوں کو القاعدہ نے ’اسلامی مغرب‘ میں تربیت بھی دی تھی۔

’بوکوحرام‘ کی درج بالا سرگرمیوں کی وجوہات کے بارے میں ’ہیومن رائٹس واچ‘ کی رپورٹ ۲۰۱۱ء سے معلوم ہوتا ہے کہ:

  •  نائیجیریا کی حکومت اس کے افراد اور ادارے انتہا درجے کی کرپشن میں ملوث ہیں ، مثلاً ۲۰۰۳ء میں ۳۵قومی سطح کے سیاست دان ملوث پائے گئے۔ اسی طرح چار گورنر، قومی اسمبلی، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر اور ممبران بھی ملوث پائے گئے اور ایک مرکزی وزیر بھی۔ مگر ان کے خلاف سیاسی اثرات اور عدالتی نظام کی کمزوری کے باعث کوئی کارروائی نہیں ہوسکی۔
  • حکومت نائیجیریا نے آج تک ان پولیس اور ملٹری افسران کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی، جنھوں نے ملاکو اسٹیٹ میں مذہبی فسادات کے دوران میں ۱۳۰؍افراد کو گولیوں کا نشانہ بنایا اور نہ ان فوجیوں ہی کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی جنھوں نے بنوئے اسٹیٹ میں ۲۰۰۱ء میں ۲۰۰؍افراد کو موت کے گھاٹ اُتار دیا تھا ۔ اسی طرح فوج کے ان افراد کے خلاف بھی کارروائی نہ کی گئی جنھوں نے ہائلسہ ریاست میں ۱۹۹۹ء میں اوڈی نام کے ایک قصبہ کو تہس نہس کردیا تھا۔
  •  بڑے پیمانے پر سیاست دانوں، اور کاروباری شرفا کا ملکی کرنسی اور دولت کو اسمگل کرنا۔
  •  عوام میں انتہا درجے کی غربت ، غذا کی کمی اور اس کے نتیجے میں بیماریوں کے باعث لوگوں کی اموات ۔
  •  تیل پیدا کرنے والے علاقے میں تیل کی چوری اور حکومتی اداروں اور ذمہ داران کی بے حسی۔
  •  مذہبی اور قبائلی گروہوں میں آپس کی منافرت اور ایک دوسرے کے خلاف فسادات۔
  • چوری، ڈکیتی، اور قتل اور عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی___ ان حالات میں کسی بھی ملک میں مقامی ’بوکوحرام‘ کا پیدا ہوجانا کوئی اچنبھا نہیں۔

تیونس سے شروع ہونے والی بہار نے کئی عرب ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے مصر، لیبیا اور یمن میں بھی آمریت کا جنازہ نکل گیا۔ اب دیریا سویر شام کی باری ہے۔ اس بہارِ جاں فزا سے افریقہ کے دیگر ممالک بھی فیض یاب ہو رہے ہیں۔ مغربی افریقہ کا ملک سینیگال اس کی بہترین مثال ہے جہاں دارالحکومت ڈاکار اور دیگر شہروں میں عوام صدر عبد اللہ واد کے خلاف سر سے کفن باندھ کر میدان میں نکل آئے ہیں۔ سینیگال مغربی افریقہ کا ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ اس کا کُل رقبہ ایک لاکھ ۹۶ہزار ۷سو۲۳ مربع کلومیٹر، یعنی پاکستان کے رقبے کا ایک چوتھائی ہے، جب کہ آبادی ایک کروڑ ۲۳ لاکھ ہے، یعنی پاکستان کی آبادی کا پندرھواں حصہ۔   ملک معاشی لحاظ سے پاکستان سے بھی غریب ہے۔ فی کس آمدنی۱۶۰۰ ڈالر فی کس سالانہ ہے، جب کہ پاکستان کی تقریباً۲۱۰۰ڈالر فی کس سالانہ ہے۔ سینیگال کی آبادی ۹۶ فی صد  مسلمان ہے البتہ قدیم مذہبی رسومات اور روایاتِ بت پرستی بیش تر آبادی میں اسی طرح پائی جاتی ہیں،     جس طرح ہمارے ہاں ہندوانہ تہذیب اور رسوم و رواج کا چلن ہے۔

سینیگال نے ہم سے ۱۳ برس بعد، یعنی ۱۹۶۰ ء میں فرانسیسی استعمار سے آزادی حاصل کی۔ پانچ مقامی قبائلی زبانوں کے علاوہ فرانسیسی یہاں کی سرکاری زبان رہی ہے۔ اب عربی کی طرف  بھی بہت زیادہ رجحان ہے۔ افریقہ کا یہ ملک اس لحاظ سے دیگر بیش تر افریقی، لاطینی امریکی اور ایشیائی و عرب ممالک سے ممتاز و ممیز ہے کہ یہاں فوجی انقلابات کی کوئی روایت نہیں ملتی۔ یہاں کی فوج ہے بھی نہایت مختصر۔ سینیگال کے بحیثیت مجموعی اپنے ہمسایوں سے تعلقات اچھے ہی رہے ہیں البتہ اپنے پڑوسی ملک مالی کے ساتھ اس وقت کچھ تلخیاں پیدا ہوئی تھیں جب دونوں ممالک نے آزادی کے بعد آپس میں ایک وفاق قائم کیا، مگر چار ہی ماہ بعد یہ وفاق بکھر گیا اور دونوں ممالک نے ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کرلی۔ اس علیحدگی میں بھی نہ کوئی گولی چلی، نہ فسادات ہوئے۔ یوں ان افریقی ممالک نے مہذب ہونے کا ثبوت دیا۔ سینیگال کے پڑوس میں سبھی ممالک چھوٹے چھوٹے ہیں۔ ان میں گامبیا، ماریتانیہ، مالی، گِنی اور گِنی بسائو شامل ہیں۔ یہاں اسلام کی روشنی تقریباً اُسی دور میں پہنچی جب مسلمان شمال مغربی افریقہ سے ہسپانیہ کی طرف منتقل ہوئے۔

 سینیگال میں صحیح اسلامی تعلیم کا فقدان رہا ہے۔ اس کے باوجود شمال مغربی افریقہ کے عرب ممالک الجزائر، لیبیا، تیونس اور مراکش کے اسلامی جہاد کی وجہ سے یہاں بھی ایک محدود طبقے میں جہادی جذبات پروان چڑھے۔ سنوسی تحریک، عبدالقادر الجزائری اور عمرمختار سے محبت کرنے والا ایک مختصر حلقہ ڈاکار اور دیگر بڑے شہروں میں موجود ہے۔ تحریک ِآزادی میں بھی یہ لوگ    پیش پیش تھے، مگر فرانسیسی استعمار نے ان کو ہمیشہ زیرعتاب رکھا۔ بدقسمتی سے عیسائی مشنری اور قادیانی بھی یہاں اپنی سرگرمیاں فرانسیسی دور ہی سے جاری رکھے ہوئے ہیں اور بے پناہ وسائل رکھتے ہیں۔ تاہم، یہ بات باعث ِ اطمینان ہے کہ سینیگال کی آبادی نے عیسائیت یا قادیانیت کو قبول نہیں کیا۔

سینیگال میں اسلامی تحریک بالکل نئی اور قوت کے لحاظ سے ابھی بہت محدود ہے۔ تاہم، مصر اور سعودی عرب کی جامعات سے فارغ ہوکر آنے والے نوجوان عقائد و افکار کے لحاظ سے درست اسلامی سوچ کے حامل ہیں۔ انھوں نے اخوان المسلمون کی فکر سے متاثر ہوکر ۱۹۹۹ء میں ایک تنظیم کی بنیاد رکھی جس کا نام ’جماعت عبادالرحمن‘ ہے۔ اس کے سربراہ ایک ذہین اور تعلیم یافتہ مسلمان استاد احمد جاں ہیں۔ وہ مولانا مودودی کے مداح ہونے کے ساتھ تحریکِ اسلامی پاکستان سے بھی متعارف ہیں۔ والی سعودی عرب نے بھی اس ملک میں کافی کام کیا ہے اور ان کے موجودہ نمایندے استاد رجب مصری ہیں۔ اسلامی تحریک کے لیے ایسے قابل نوجوانوں کا وجود بساغنیمت ہے۔ ان کا کام محدود تھا مگر گذشتہ سال کی عرب بہار نے جب اسلامی بہار کا روپ دھارا تو ان کی جماعت کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہوا۔ ابھی وہ انتخابی معرکے میں اُترنے کے قابل نہیں مگر ان کے منظم کام کی وجہ سے تمام اپوزیشن پارٹیاں ان کی حمایت کے لیے کوشاں ہیں۔ انھوں نے فیصلہ کیا ہے کہ اسلام کی برتری اور جمہوریت کی حقیقی بحالی و تحفظ کی یقین دہانی کرانے والے صدارتی اُمیدوار کی حمایت کریں گے۔ طلبا میں ’طلبا عبادالرحمن‘ کے نام سے ان کی ملک گیر تنظیم موجود ہے جو فعال ہے اور مستقبل میں قوت میں اضافے کا باعث ہوگی۔ پاکستان سے اسلامی میڈیکل ایسوسی ایشن نے ڈاکٹر انتظاربٹ اور دیگر ماہرین امراضِ چشم اطبا کی نگرانی میں گذشتہ چند برسوں سے افریقہ کے  جن ممالک میں فری میڈیکل کیمپ لگائے ہیں ان میں سینیگال بھی قابلِ ذکر ہے۔ ان کیمپوں کی وجہ سے بھی عباد الرحمن تنظیم کو اخلاقی و عمومی حمایت حاصل ہوئی ہے۔ یہاں فرانس اور بھارت نے سونے کی کانوں اور کھاد کی فیکٹریوں کے ذریعے اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ پاکستان کا اس ملک کے ساتھ محض سفارت خانے کی حد تک تعلق ہے۔

سینیگال پر مختلف اوقات میں پرتگال، فرانس اور برطانیہ نے اپنے استعماری پنجے گاڑے مگر آخر میں ۱۸۴۰ء سے ۱۹۶۰ء تک یہ سرزمین فرانسیسی کالونی ہی رہی۔ یورپ اور امریکا میں افریقی آبادی کو غلام بنا کر فروخت کیا گیا تو اس کا سب سے بڑا اڈا بھی اسی ملک میں تھا۔ فرانس نے سینیگال کو آزادی دینے سے قبل اپنا ایک سدھایا ہوا شاگرد لیوپولڈ سیدار سینغور، کمال چابک دستی سے اس ملک پر مسلط کر دیا۔ موصوف خاندانی لحاظ سے مسلمان تھے مگر فرانسیسی تہذیب و ثقافت کے دل دادہ، فرنچ زبان کے شاعر اور آزاد ملک کی حکمرانی کے باوجود اس بات کے خواہش مند کہ انھیں فرانسیسی شہریت مل جائے۔ انھیں اس میں کامیابی نہ ہوسکی۔ ہاں، فرانس کی سرپرستی میں اس ملک پر ایک جماعتی نظام کے تحت اس نے ۲۰سال حکمرانی کی۔ اس عرصے میں اس نے جو قانون، جب چاہا اور جیسے چاہا بنایا اور پھر جب چاہا اسے تبدیل کر دیا۔ وہ سیاہ و سفید کا مالک تھا۔ سیکولرازم اور سوشلزم کا دل دادہ صدر سینغور ہر روز معاشی پالیسیاں بدلتا تھا۔ ملک کی معیشت تباہ ہو رہی تھی۔   اس دوران میں اس نے ایک مفید اور انقلابی کام بھی کر دکھایا۔ ۱۹۷۳ء میں اس نے دیگر چھے پڑوسی ممالک کے ساتھ مل کر ’مغربی افریقی معاشی کمیونٹی‘ کی بنیاد رکھی جس سے ان سب کو کم و بیش تجارتی فوائد حاصل ہوئے۔ سینیگال اقوام متحدہ ،او آئی سی اور افریقن یونین کا ممبر ہے۔

سینیگالی عوام بھی اپنے صدر سے تنگ آچکے تھے۔ عوامی پریشانی نے ابھی کوئی احتجاجی رنگ یا انقلابی لہر کا روپ نہیں اختیار کیا تھا کہ اپنے خلاف عوامی نفرت کا احساس کرتے ہوئے صدر سینغور نے اقتدار سے استعفا دے دیا۔ تیسری دنیا کے ممالک اور وہ بھی پس ماندہ افریقہ میں یہ مثال یکتا ہے۔ دراصل سینغور کے اقتدار سے ہاتھ اٹھانے کی وجہ اس کی معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں رونما ہونے والی اقتصادی ابتری اور عوام الناس کی شدید پریشانی اور غم و غصہ تھا۔ اس نے یہ شاطرانہ چال بھی چلی کہ اپنے نائب عبدہٗ ضیوف کو اقتدار سونپ دیا۔ ضیوف نے کسی حد تک عوام کے لیے سیاسی آزادی کا راستہ ہموار کیا مگر ہنوز ملکی سیاست یک جماعتی سیاسی پارٹی کے گرد ہی گھومتی رہی۔ نئے صدر نے معاشی صورتِ حال کو سنبھالا دینے کے لیے اپنے پیش رو کی قومیائی ہوئی بیش تر کمپنیوں اور اداروں کو پرائیویٹ سیکٹر میں منتقل کر دیا۔ ملک کے اندر خام لوہا اور فاسفیٹ کی اچھی خاصی مقدار موجود ہے، اسے ترقی دینے کی کوشش بھی کی گئی۔ کچھ عرصے کے بعد ضیوف نے کثیرالجماعتی سیاست کی اجازت دی۔ حکومت کے مخالفین نے اپنی سیاسی جماعت بنالی جس کے بعد کئی نئی جماعتیں بھی وجود میں آنے لگیں۔

ضیوف کے ۲۰سالہ دورِا قتدار کے بعد مارچ ۲۰۰۰ء میں صدارتی الیکشن ہوئے تو اپوزیشن کے نمایندے عبد اللہ واد نے ۶۰ فی صد ووٹ حاصل کرکے صدارتی الیکشن جیت لیا۔ ۲۰سال صدارتی منصب پر فائز رہنے کے بعد اپنی عبرت ناک شکست کو تسلیم کرتے ہوئے ضیوف نے بڑی خوش اسلوبی سے اقتدار نو منتخب صدر کے حوالے کر دیا۔ اب ملک کے اندر سیاسی آزاد یاں بھی تھیں اور مختلف پارٹیاں اپنے اپنے پروگرام کے تحت اپنے منشور بھی پیش کر رہی تھیں۔ عبد اللہ واد اگرچہ انتخاب کے ذریعے برسر اقتدار آیا مگر وہ اپنے اقتدار کو دوام دینے کے جنون میں مبتلا ہوگیا۔ اس نے جو اصلاحات کیں، اس کے نتیجے میں ملک بھر میں اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ ان اصلاحات میں سے ایک یہ تھی کہ عورتوں کو ووٹ کا حق دیا گیا نیز انھیں جایداد اور وراثت کا حق بھی قانون میں دے دیا گیا۔ اس عرصے میں عبد اللہ واد نے اپوزیشن کے دبائو پر دستور میں ایک ترمیم کی، جس کے تحت کوئی بھی صدر دو میقات سے زیادہ انتخاب میں حصہ نہیں لے سکتا۔

عبد اللہ واد ۲۰۰۱ء میں منتخب ہوا تھا، پھر ۲۰۰۷ء میں، اور اب ۲۰۱۲ء کے انتخابات کے لیے دوبارہ اُمیدوار بن گیا ہے۔ اپوزیشن نے اس پر شدید احتجاج کیا ہے۔ دستور میں ترمیم کے بعد دستور کی دفعہ ۲۷ اور ۱۰۴ واضح طور پر کسی بھی منتخب صدر کے لیے دو سے زیادہ مرتبہ صدارتی انتخاب لڑنا ممنوع قرار دیتی ہیں۔ عبد اللہ واد نے یہ مکرو حیلہ اختیار کیا ہے کہ اس کا پہلا انتخاب دستوری ترمیم سے قبل ہوگیا تھا، اس لیے اسے اس مرتبہ بھی انتخاب میں حصہ لینے پر کوئی دستوری قدغن نہیں ہے۔ حزبِ مخالف کی تمام پارٹیاں صدر کے خلاف میدان میں نکل آئی ہیں۔ دارالحکومت ڈاکار اور دیگر بڑے شہروں میں بڑے بڑے مظاہرے ہورہے ہیں اور کئی جگہ سرکاری عمارتوں کو توڑ پھوڑ کے ذریعے نقصان بھی پہنچایا گیا ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ عرب دنیا میں اٹھنے والی تحریکوں کے اثرات سینیگال میں بھی پہنچ گئے ہیں۔ حزبِ اختلاف کی ’’سوشلسٹ پارٹی آف سینیگال‘‘ کے صدارتی امیدوار عثمان تنور دیانگ نے ایک عوامی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عبد اللہ واد صدارت پر غاصبانہ اور غیر دستوری قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ دستور کی خلاف ورزی کرکے اس نے خود کو مجرم ثابت کر دیا ہے۔ اب عوامی غیظ و غضب سے بچنے کی ایک ہی صورت ہے کہ وہ دستور کی پابندی کرے۔

اس دوران میں عبد اللہ واد نے دستوری مجلس کے پانچ ارکان سے تصدیق کروالی ہے کہ اس کا یہ الیکشن تیسرا نہیں، دوسرا شمار ہوگا۔ اپوزیشن صدارتی امیدوار نے کہا کہ یہ ہزاروں کا مجمع جو فیصلہ دے رہا ہے، وہ درست ہے یا پانچ افراد کا فیصلہ درست تسلیم کیا جائے۔ اس موقع پر مجمع عام میں صدر عبد اللہ واد کے خلاف زبردست نعرے بازی کی گئی۔ ایک دوسرے صدارتی امیدوار  ابراہیم فال نے کہا: ’’صدر واد کے اس خود غرضانہ موقف کے نتیجے میں پورا ملک مستقل طور پر تشدد اور بدامنی کا شکار ہوجائے گا۔ اگر صدر نے اپنی حکومتی مشینری کے ذریعے پرتشدد راستہ اختیار کیا تو عوام اس سے زیادہ قوت کے ساتھ اس کا جواب دیں گے‘‘۔ سیاسی پارٹیوں کے علاوہ سول سوسائٹی کے تمام طبقے بھی صدر کی راے سے اختلاف کر رہے ہیں۔ ایک نوجوان سینیگالی آرٹسٹ یوسف اندور نے کہا کہ سینیگال کا ہر شخص آج سڑکوں پر نکل آیا ہے اور لوگوں کے چہروں سے واضح طور پر پڑھا جاسکتا ہے کہ وہ موجودہ صدر کی رخصتی تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ ایک معروف سیاسی تجزیہ نگار اور ماہرِ امور سینیگال مختار ولد سیداتی نے کہا: ’’سینیگال میں ذرائع ابلاغ کے ذریعے وہی جذبات پروان چڑھ رہے ہیں جو عالم عرب میں دیکھے گئے۔ گذشتہ کچھ عرصے سے عرب میڈیا بہت مقبول ہو رہا ہے۔ یہ بات ہر گز بعید نہیں کہ عرب دنیا میں رونما ہونے والا انقلاب ان تمام افریقی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لے جو عربی ثقافت سے متاثر ہیں اور اس لحاظ سے سینیگال بہت نمایاں ہے ‘‘۔

حسن البنا شہیدؒ اپنی ڈائری میں بچپن کی یادیں تازہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’گرمیوں کی چھٹیوں میں ہماری ایک سرگرمی یہ بھی ہوتی کہ ہم تین ساتھی ’محمودیہ‘ کے محلوں کو آپس میں تقسیم کرتے ہوئے، فجر کی نماز سے پہلے وہاں جاکر لوگوں کو جگایا کرتے۔ میں جب کسی مؤذن کو اذان کے لیے جگاتا تو ایک پُرکیف لذت محسوس کرتا۔ میں انھیں جگانے کے بعد اسی جادو اثر اور جذباتی کیفیت میں دریاے نیل کے کنارے جاکھڑا ہوتا۔ ’محمودیہ‘ کی مساجد قریب قریب واقع تھیں، جب اذانیں شروع ہوتیں تو مجھے محسوس ہوتا کہ گویا ایک ہی اذان، مختلف مؤذنوں کے گلے سے نکل کر فضا میں رَس گھول رہی ہے۔ ایسے میں میرا دل کہتا: ان سارے مؤذنوں کو مَیں نے جگایا ہے، اب اتنی  بڑی تعداد میں جو بھی نمازی جاگیں گے، ان کی عبادت میں، مَیں بھی برابر کا شریک ٹھیروں گا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد مجھے اپنے لطیف حصار میں لے لیتا: ’’جو شخص کسی کو بھلائی کی طرف بلاتا ہے تو اسے اپنی نیکی کا اجر بھی ملتا ہے اور اس شخص کی نیکی کا بھی جو اس کی وجہ سے نیکی پر عمل پیرا ہوا اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہتا ہے اور اس سے ان کے اجر میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں ہوتی۔ پھر اسی لذت و سعادت سے سرشار مَیں جب مسجد پہنچتا اور دیکھتا کہ ان تمام نمازیوں میں سے مَیں سب سے کم عمر ہوں، تو سراپا حمدوسپاس بن جاتا کہ تمام تر توفیق اسی کے ہاتھ میں ہے‘‘۔

 مذکرات الداعیۃ (داعی کی ڈائری) کے عنوان سے شائع اس کتاب کی یہ سطور امام حسن البنا کی شہادت کے ۶۳برس بعد بھی قاری کو اسی کیفیت سے آشنا کردیتی ہیں جو حسن البنا نامی بچہ محسوس کیا کرتا تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بشارت کہ: ’’یہ سلسلہ تاقیامت جاری رہنا ہے‘‘۔ آج ہرصاحب ِ ایمان کو تقویت فراہم کر رہا ہے۔ حسن البنا بچپن میں مؤذنوں کو جگاتے رہے اور ۴۳برس کی مختصر عمر ختم ہونے سے پہلے، پوری دنیا میں تکبیر بلند کرنے والی نسلوں کی فصلیں بوگئے۔ آج دنیا تغیر پذیر ہے، اور جہاں بھی تبدیلی کا آغاز ہوتا ہے سب تسلیم کرتے ہیں کہ بیداری کے پیچھے اصل ’اذان‘ اسلامی تحریک کے کارکنان کی ہے۔

  • تیونس، مصر اور مراکش کے بعد ۲فروری ۲۰۱۲ء کو کویت میں بھی انتخابات ہوئے ہیں۔ نتائج آئے تو سب نے کہا: اخوان جیت گئے، اسلامی پارٹیاں جیت گئیں۔ خلیج کی اس مال دار ترین ریاست میں گذشتہ تقریباً اڑھائی صدیوں سے آلِ صباح خاندان مقتدر ہے، لیکن خلیج میں سب سے پہلے، یعنی ۱۹۶۳ء میں انتخابی عمل بھی کویت ہی میں شروع ہوا۔ اگرچہ پارلیمنٹ کا کردار محدود ہوتا ہے، حکومت بنانے کا اختیار بھی امیرکویت ہی کو حاصل ہے، لیکن منتخب پارلیمنٹ نہ صرف عوام کے رجحانات کی عکاسی کرتی ہے بلکہ حکومتی کارکردگی پر بھی کڑی نگاہ رکھتی ہے۔ بدقسمتی سے کویتی اسمبلی اکثر اپنی عمر پوری نہیں کرپاتی۔ ابھی ۲۰۰۹ء میں انتخابات ہوئے تھے، اس سے پہلے بالترتیب ۲۰۰۸ئ، ۲۰۰۶ئ، ۲۰۰۳ئ، ۱۹۹۹ء اور ۱۹۹۶ء میں بھی انتخاب ہوئے، لیکن عرب انقلابات کے بعد حالیہ انتخابات کی اہمیت کئی حوالوں سے زیادہ تھی۔

 تیونس اور مصر کی عوامی تحریکوں کے بعد کویت میں بھی حکومتی کرپشن پر تنقید کی لَے بہت بلند ہوگئی اور نومبر ۲۰۱۱ء میں تو مظاہرین نے  اسمبلی ہائوس پر باقاعدہ دھاوا بول دیا۔ وزیراعظم کے خلاف مواخذے کی تحریک آگئی۔ اس تناظر میں امیرکویت نے اسمبلی توڑتے ہوئے نئے انتخاہات کروانے کے اعلان کردیا۔ کویت کی پارلیمانی تاریخ میں  پہلی بار ۵۰؍ارکان کے ایوان میں اسلام پسند ارکان کو ۳۴ نشستیں ملی ہیں۔ اخوان کی سیاسی پارٹی کا نام ’دستوری تحریک‘ ہے۔ اسے ۵۰ میں سے پانچ نشستیں ملیں (چار ان کے اپنے اور ایک حمایت یافتہ) اخوان، سلفی، تحریک، آزاد ارکان اور دیگر اسلامی گروپوںکو ملا کر دیکھیں تو انھیں ۲۲نشستیں ملی ہیں۔ سات شیعہ ارکان اسمبلی ان کے علاوہ ہیں۔ اس طرح اگر اسلام پسند ارکان اسمبلی مل کر اور مؤثر حکمت عملی سے فعال کردار ادا کریں تو مخصوص قبائلی اور خاندانی نظام کے باوجود، کویت میں ایک  نئی تاریخ رقم کی جارہی ہے۔ انتخابات میں اسلامی رجحانات رکھنے والے تجزیہ نگار بھی یہ لکھنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ حکومتی کرپشن کے مقابلے میں عوام کے پاس ایک ہی راہ بچتی ہے کہ وہ اسلامی قیادت منتخب کریں۔

  • نومنتخب ارکان اسمبلی کو بھی اپنی اس ذمہ داری کا بخوبی ادراک ہے۔ کویت کے ارکان اسمبلی ہی نہیں مصر، تیونس اور مراکش کی حکومتیں بھی اس آزمایش پر پورا اُترنے کی ہرممکن کوشش کررہی ہیں۔ حال ہی میں الاخوان المسلمون کے نائب مرشدعام جمعہ امین سے ملاقات ہوئی تو بتا رہے تھے کہ نومنتخب ارکان اسمبلی کے لیے پارلیمانی امور کے خصوصی ٹریننگ کورس شروع کردیے گئے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ اخوان کے نظم نے اسرہ جاتی نظام کے تحت خصوصی تربیت گاہوں کا بھی مستقل نظام بنادیا ہے۔ ان تربیت گاہوں میں کسی بھی اور موضوع کے بجاے تعلق باللہ میں اضافے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ بدقسمتی سے مختلف حلقوں کی طرف سے گاہے بگاہے ایسے اقدام و بیانات سامنے آجاتے ہیں کہ قوم کے حقیقی مسائل ان کی گرد میں کھو جاتے ہیں۔

۴فروری کو مصر کے بڑے شہر بورسعید (پورٹ سعید) میں دو مصری ٹیموں ’المصری فٹ بال کلب‘ اور ’الاھلی فٹ بال کلب‘ کے میچ کے دوران بھڑک اُٹھنے والے ہنگامے سے ۷۷؍افراد جاں بحق اور ڈیڑھ ہزار کے قریب لوگ زخمی ہوگئے۔ اس دوران انتظامیہ نے لڑائی کی آگ بجھانے کے بجاے اس پر مزید تیل چھڑکا، اسٹیڈیم کے دروازے بند کردیے گئے، روشنیاں بجھا دی گئیں، لوگوں کے پاس اچانک ہتھیار بھی آگئے۔ پارلیمنٹ نے فوری تحقیقات کے لیے کمیٹی بنادی، پتا چلا کہ خود وزارتِ داخلہ کے لوگ اس پوری خوں ریزی میں ملوث تھے۔ ہنگاموں کی اس آگ کو جلد ہی ملک کے دوسرے شہروں تک بھی پھیلا دیا گیا اور کئی روز تک ملک میں فسادات جاری رہے۔ کئی ہفتے گزرنے کے باوجود ابھی تک کسی ذمہ دار کو سزا نہیں دی گئی۔ اس دوران میں عبوری حکومت کے وزیرداخلہ میجر جرنل محمد ابراہیم کا بیان آیا بھی تو یہ کہ وزارتِ داخلہ کے قوانین کے مطابق پولیس والوں کی داڑھی رکھنے کی اجازت نہیں ہے، جو لوگ بھی اس قانون کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، ان کے خلاف کارروائی کریں گے۔ بیان کے بعد ایک اور بحث اور مناقشت شروع ہوگئی۔ اخوان کے ذمہ دار ڈاکٹر البلتاجی نے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جناب وزیرداخلہ! حیرت ہے، آپ کو غنڈا گردی اور جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کی تو کوئی فکر نہیں لیکن آپ نے داڑھی کی بنیاد پر معرکہ آرائی شروع کردی ہے۔ اصل کام پر توجہ دیں، قوم کو غیرضروری بحثوں میں نہ اُلجھائیں۔

مصر میں انتخابی عمل ابھی جاری ہے۔ قومی اسمبلی کے بعد اب مجلسِ شوریٰ (سینیٹ) کے انتخابات بھی مکمل ہوگئے ہیں۔ ۲۷۰ کے ایوان میں سے دوتہائی، یعنی ۱۸۰؍ارکان براہِ راست عام انتخابات کے ذریعے منتخب ہوئے ہیں، جب کہ باقی ۹۰؍ارکان آیندہ منتخب ہونے والا صدر    نامزد کرے گا۔ سینیٹ انتخابات کے باقاعدہ نتائج ابھی سامنے نہیں آئے، لیکن اندازہ یہی ہے کہ ایوانِ بالا میں بھی قومی اسمبلی کی طرح اخوان کی الحریۃ والعدالۃ (حریت و عدالت) پارٹی ہی سب سے بڑی پارٹی ہوگی اور اسے تقریباً اسمبلی جتنی نشستیں یہاں بھی مل جائیں گی۔ انتخابی عمل میں اب اہم ترین مرحلہ صدرمملکت کا انتخاب ہے۔ ۱۰مارچ سے کاغذات نامزدگی وصول کرنے کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ حسنی مبارک نے صدارتی اُمیدوار کی نامزدگی ہی جوے شیر نکال لانے کی طرح ناممکن بنا دی تھی۔ اُمیدوار کے لیے سب سے اہم شرط یہ قرار دی گئی تھی کہ اسے کم از کم ۲۵۰؍ارکانِ پارلیمنٹ نامزد کریں۔ واضح رہے کہ دسمبر ۲۰۱۰ء کے آخری انتخاب میں ’ہردل عزیز‘ حسنی مبارک کے علاوہ کسی پارٹی کو ایک بھی نشست نہیں حاصل ہوئی تھی، یعنی نہ ہوگا بانس نہ بجے گی بانسری۔ صدر مملکت چھے سال کے لیے منتخب ہوتا تھا اور وہ تاحیات اُمیدوار بن سکتا تھا۔ انقلاب کے بعد مارچ ۲۰۱۱ء میں ریفرنڈم کے ذریعے ۷۷ فی صد عوام کی تائید سے بننے والے عبوری دستور میں کسی بھی صدارتی اُمیدوار کے لیے کم از کم ۳۰؍ارکان اسمبلی کی تائید کافی ہے۔ صدرمملکت چارسال کے لیے منتخب ہوگا اور وہ مسلسل صرف دوبار منتخب ہوسکتا ہے۔ یہ شرط بھی رکھ دی گئی ہے کہ اس کے پاس مصری شہریت کے علاوہ کوئی دوسری شہریت نہ ہو۔ حسنی مبارک نے فردِ واحد کا اقتدار یقینی بنانے کے لیے کبھی اپنا کوئی نائب نہیں بنایا تھا، اب شرط لگادی گئی ہے کہ صدرِمملکت زیادہ سے زیادہ ۶۰روز میں اپنا نائب صدر متعین کردے گا۔

الاخوان المسلمون کے لیے اس وقت اپنا صدر مملکت منتخب کروانا انتہائی آسان ہے، لیکن ملک میں قومی وحدت کو یقینی بنانے کے لیے وہ اپنے اس اعلان پر مضبوطی سے جمے ہوئے ہیں کہ اخوانی صدر نہیں لائیں گے، قوم کے لیے قابلِ قبول کوئی بھی اچھا شہری ہمارا اُمیدوار ہوسکتا ہے۔ اسی طرح ان کا یہ بھی اعلان ہے کہ اگرچہ ہم اکیلے بھی بآسانی حکومت تشکیل دے سکتے ہیں لیکن حالیہ عبوری حکومت کی مدت (جون میں) ختم ہونے پر ہم سب کے ساتھ مل کر قومی حکومت تشکیل دیں گے۔ اسپیکراسمبلی کے انتخابات کے موقع پر بھی انھوں نے دیگر پارٹیوں کو ساتھ ملاتے ہوئے انھیں مختلف کمیٹیوں میں برابر کا حصہ دیا۔ کئی مواقع پر اخوان اور سلفی حضرات کے مابین اختلافات کھڑے کرنے کی کوششیں کی گئیں، لیکن اخوان کے کارکنان کا نعرہ ہے: السلفیۃ والاخوان اِید واحدۃ فی کل مکان، ’’اخوان اور سلفیت ہرجگہ یک مشت ہیں‘‘۔

اخوان کی اس پالیسی کا نتیجہ ہے کہ معاشرے میں ان کے بارے میں پھیلائے جانے والے خدشات اور خوف کے باوجود ہرطبقے سے ان کے حق میں آواز اُٹھ رہی ہے۔ اخوان کی جیت کے تناظر میں پروپیگنڈا کیا جا رہا تھا کہ یہ مولوی حضرات فن و ثقافت کے دشمن ہیں۔ جواباً ایک معروف قومی گلوکار شعبان عبدالرحیم (المعروف: الشعبولا) نے اپنا تازہ نغمہ پیش کیا: یامھاجم الاخوان ھتروح من ربک فین، ’’اخوان پر اعتراضات کرنے والو! اپنے رب سے بچ کر کہاں جائو گے‘‘۔ فین ملقوش فی الزھرۃ عیب  - قالوا أحمر الخدین، ’’انھیں پھول میں کوئی عیب نہ ملا تو کہنے لگے: اس کے گال سرخ کیوں ہیں؟‘‘۔ سبحان اللہ اُوپر تبدیلی آجائے تو نغمہ و لحن بھی اللہ کی یاد دلانے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔

اخوان کے ذمہ دار بتا رہے تھے کہ ہم لا صِدَام ، یعنی عدم تصادم کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ کسی سے بھی تصادم کے بجاے ، قوم کے تمام صالح افراد  سے تعاون چاہتے ہیں۔ اس وقت اسلام پسند عناصر کو ناکام بنانے کے لیے ہی نہیں، ملک ہی کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی کوششیں عروج پر ہیں۔ پوری قوم کو متحد کیے بغیرچارہ نہیں ہے۔ قاہرہ کے اِلیٹ اسٹڈیز سنٹر (Elite Studies Centre) کے سربراہ احمد فودہ لکھتے ہیں: ’’۸۰ کی دہائی کے آغاز میں امریکی وزارتِ دفاع پینٹاگون نے معروف صہیونی دانش ور برنارڈ لویئس کو ذمہ داری سونپی تھی کہ عالمِ اسلام کو مزید ٹکڑے کرنے کے لیے جامع منصوبہ تیار کرے۔ اس نے ایک مسودہ تیار کیا، جسے امریکی کانگریس نے ۱۹۸۳ء میں اپنے ایک خفیہ اجلاس کے دوران منظور کیا اور تب ہی سے اس پر عمل درآمدشروع ہے۔ احمد فودہ مزید لکھتے ہیں کہ حسنی مبارک کے دور میں مصر کو توڑنے کے لیے جتنا کام ہوا،      وہ ہماری پوری تاریخ میں نہیں ہوا۔ انھوں نے بتایا کہ ری پبلکن انسٹی ٹیوٹ میں انتخابی مہم کی انچارج مصری خاتون دولت عیسیٰ نے اس وقت اپنے عہدے سے استعفا دے دیا جب انھیں معلوم ہوا کہ انسٹی ٹیوٹ کے تمام بیرونی فنڈ براہِ راست امریکی کانگریس سے آتے ہیں، اور ادارے کی سرگرمیوں کا اصل ہدف یہ ہے کہ ۲۰۱۵ء تک مصر کو چار ٹکڑوں میں تقسیم کردیا جائے۔ احمد فودہ کا کہنا ہے کہ حسنی مبارک کے اقتدار کے بعد ملک میں مذہبی، علاقائی اور قبائلی بنیادوں پر جتنے بھی فسادات شروع کروائے گئے ہیں ان کے پیچھے ملک توڑنے کی یہی امریکی سازش کارفرما ہے۔

  • کانگریس میں بلوچستان کے حوالے سے آنے والی قرارداد کے تناظر میں اہلِ پاکستان کے لیے ان سازشوں کی حقیقت سمجھنا مشکل نہیں ہے۔ تقریباً ہرمسلم ملک میں انھی بیرونی سازشوں کے تانے بانے دکھائی دے رہے ہیں۔ حال ہی میں بنگلہ دیش کے محب ِ وطن دانش ور حضرات نے بھی قوم کے سامنے دہائی دی ہے کہ عوامی لیگ حکومت میں تمام حدیں پھلانگتا ہوا بھارتی اثرونفوذ  ملکی سلامتی کے لیے سمِ قاتل ہے۔ نمایاں بھارتی سیاست دان بالخصوص بی جے پی کے رہنما کھلم کھلا مطالبہ کرتے ہیں کہ ۱۹۴۷ء میں مشرقی پاکستان سے بھارت جانے والے ہندوئوں کو واپس بنگلہ دیش بھیجا جائے۔ ان کے لیے اور بنگلہ دیش کی دوسری ہندو آبادی کے لیے، بنگلہ دیش کے ۶۵ میں سے ۱۹؍اضلاع کو ایک آزاد ہندو ریاست کی حیثیت دی جائے۔ ظاہر ہے کہ ہرجانب سے ہندستان کی گرفت میں پھنسی اس ریاست کی آزاد حیثیت کچھ بھی نہ ہوگی، لیکن بنگلہ دیش کو بتدریج ہڑپ کرنے کا آغاز ہوجائے گا۔

اسی طرح بنگلہ دیش کا ۱۱/۱ علاقہ چٹاگانگ پہاڑی سلسلے پر مشتمل ہے، جہاں مقامی قبائل اور بنگالی آبادی نصف نصف تناسب رکھتی ہے۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین اور متعدد مغربی غیرسرکاری تنظیمیں یہ مہم بھی چلا رہی ہیں کہ بھارت کی دو ریاستوں منی پور اور میزورام کے علاوہ بنگلہ دیش کے اس ۱۱/۱ علاقے کو بھی ایک الگ ملک کی حیثیت دی جائے۔ اسرائیل کی طرف سے انکشاف کیا گیا ہے کہ بنگلہ دیش کے یہ مقامی قبائل بنیادی طور پر یہودی تھے۔ دوسری طرف دونوں ہندستانی ریاستوں میں بھی ۵۰ہزار یہودی رہتے ہیں، جن کی اکثریت اسرائیلی پاسپورٹ رکھتی ہے۔ اسرائیل نے بنگلہ دیش کی قبائلی آبادی کو بھی دھڑادھڑ اسرائیلی دورے کروانا شروع کردیے ہیں۔ بنگلہ دیشی دانش وروں کے مطابق منصوبہ یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کے قلب میں پیوست صہیونی ریاست کی طرح جنوب مغربی ایشیا میں بھی ایک صہیونی ریاست کاخنجر گھونپ دیا جائے۔ انڈونیشیا      سے مشرقی تیمور اور سوڈان سے جنوبی سوڈان کو کاٹ پھینکنے کی مہم سرانجام دینے والے لارڈ ابورر (Lord Abburir) کو چٹاگانگ ہل ٹریکٹس کمیشن (Chitagong Hill Tracts Commission) کا سربراہ بناکر میدان میں اُتار دیا گیا ہے۔ بنگلہ دیشی حکومت کو بھی ان ساری سازشوں کا ادراک تو یقینا ہوگا، لیکن مکمل بھارت نوازی نے آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے۔

اب ایک طرف یہ ساری سازشیں ہیں اور دوسری طرف عالمِ عرب سے آنے والی خوش گوار بہار کے جھونکے۔ یمن میں بھی ۳۳سال کے بعد پہلی بار ایسے صدارتی انتخاب ہوئے کہ جس میں سابق صدر علی عبداللہ شریک نہیں تھا۔ عبدہ منصور ہادی سب کا مشترک اُمیدوار تھا۔ اخوان نے بھی بھرپور ساتھ دیا اور اب سابقہ ڈکٹیٹر کے اقتدار کا حتمی خاتمہ ہوگیا۔ یہ تمام تبدیلیاں دشمن کے تمام منصوبوں کے علی الرغم اور لاتعداد قربانیوں کے بعد وقوع پذیر ہورہی ہیں۔ اہلِ ایمان کو یقینِ کامل ہے کہ ان شاء اللہ جیت حق ہی کو ملنا ہے۔ بیرونی دشمن بھی نامراد ہوگا اور اندرونِ ملک ان کے غلام بھی۔

چلتے چلتے یہ خوش گوار خبر بھی سن لیجیے کہ ۱۰فروری کو سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو میں سیدابوالاعلیٰ مودودی کی تفہیم القرآن کے سنہالی زبان میں ترجمے کی پُروقار تقریب منعقد ہوئی۔ سری لنکن وزیراعظم تقریب کے مہمانِ خصوصی تھے اور امیرجماعت اسلامی سری لنکا رشید حج الاکبر صدرمجلس۔ عرب انقلابات کے بعد دنیا اسلام اور اسلامی تحریک کو نئی روح سے سمجھنا چاہتی ہے۔ تفہیم القرآن کا سنہالی ترجمہ اس سلسلے کی اہم کڑی ثابت ہوگا، ان شاء اللہ۔ اس تقریب کی اطلاع سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانِ مبارک کی مٹھاس پھر عود کرآئی کہ:’’جو شخص کسی کو بھلائی کی طرف بلاتا ہے تو اسے اپنی نیکی کا اجر بھی ملتا ہے اور اس شخص کی نیکی کا بھی کہ جو اس کی وجہ سے نیکی پر عمل پیرا ہوا، اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہتا ہے اور اس سے ان کے اجر میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں ہوتی‘‘۔ امام حسن البنا شہید اور سیدابوالاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ اور ان جیسے لاتعداد بزرگوں کی تاقیامت جاری رہنے والی نیکیوں کا ذکر کرتے ہوئے آیئے ہم بھی سوچیں، بلکہ فیصلہ کریں کہ ہمیں پیچھے کیا چھوڑنا ہے۔

  •  مصر: ۵۵ روز جاری رہنے والے طویل انتخابی عمل کے بعد ۲۱ جنوری ۲۰۱۲ء کو    حتمی نتائج آئے تو اخوان المسلمون کو ۴۹۸ میں سے ۲۳۵، یعنی ۱۲ئ۴۷فی صد نشستیں حاصل ہوئیں۔ اسے ایک کروڑ ایک لاکھ ۳۸ ہزار ووٹ ملے۔ دوسرے نمبر پر آنے والے تین جماعتی سلفی اتحاد ’حزب النور‘ کو۱۲۳ نشستیں ملیں، جب کہ دیگر پارٹیاں اس سے بھی پیچھے تھیں۔ اخوان نے پہلے دومرحلوں میں ہی اپنی اس قوت کا اندازہ کرلیا تھا۔ ذمہ داریوں کے حوالے سے مشاورت میں ایک راے یہ آئی کہ یہ سنہری موقع ہے، لہٰذا اب ہمیں صدر مملکت بھی اپنا لانا چاہیے، وزیر اعظم اور اسپیکر بھی اور تمام اہم وزرا بھی۔ لیکن طویل غوروخوض کے بعد اعلان کیا گیا کہ ہم نہ تو صدارت کے لیے اپنا  کوئی اُمیدوار لائیں گے اور نہ وزارتِ عظمیٰ کے لیے، البتہ اسپیکر ہم اپنا لائیں گے۔ اعتراض کرنے والے تو اس اعلان کو منفی رنگ دے رہے ہیں۔ کوئی اسے راہِ فرار کہہ رہا ہے اور کوئی فوج سے گٹھ جوڑ، لیکن اخوان یکسو ہیں کہ ہمیں بہرصورت اپنی ترجیحات کو پیش نظر رکھنا ہے۔ ٹھیک ہے کہ تاریخی کامیابی حاصل کرلینے کے بعد سب مناصب حاصل کیے جاسکتے ہیں لیکن اس دستور ساز اسمبلی کا اصل فریضہ ملک کو ایک جامع اور تمام بنیادی حقوق کا ضامن پہلا دستور دینا ہے، اس لیے ہماری تمام تر توجہ اسی پر مرکوز رہنا چاہیے۔ انقلاب کے بعد امیرجماعت اسلامی سیدمنور حسن کی قیادت میں مصر جانے والے وفد کو مرشد عام ڈاکٹر محمد بدیع بتا رہے تھے: ملک طویل عرصے تک ظالم اور کرپٹ ڈکٹیٹرشپ کے پنجوں میں جکڑا رہا۔ ہمارا معاشرہ اسلامی نظام کی برکات سے پوری طرح آگاہ ہی نہیں ہے۔ ہماری کوشش اور حکمت عملی یہ ہوگی کہ آیندہ انتخاب میں پارلیمنٹ کے اندر زیادہ سے زیادہ قوت حاصل کریں، حکومت سازی میں بھی اپنا بھرپور کردار ادا کریں، لیکن فی الحال اپنی ساری توجہ معاشرے کو بابرکت اسلامی نظام سے متعارف کروانے اور ملک کے لیے جامع دستور وضع کرنے پر مرکوز رکھیں۔

۲۱جنوری ۲۰۱۲ء کو حتمی نتائج کا اعلان ہوا اور انقلاب کی پہلی سالگرہ سے دو روز پہلے، ۲۳جنوری کو اسمبلی کا افتتاحی اجلاس ہوا۔ ۴۹۸ منتخب ارکان کے علاوہ ۱۰ نامزد کردہ کا اعلان کیا گیا، حلف برداری ہوئی اور پھر اسپیکر کا انتخاب عمل میں آیا۔ درست قرار دیے جانے والے ۴۹۶ ووٹوں میں سے اخوان کے اہم رہنما ڈاکٹر محمد سعد الکتاتنی ۳۹۹  ووٹ لے کر پہلی آزاد اسمبلی کے اسپیکر   چُن لیے گئے۔ اللہ کی قدرت دیکھیے کہ گذشتہ سال ڈاکٹر سعد ’لیمان‘ جیل میں تھے اور آج  پارلیمنٹ کے اسپیکر بنادیے گئے۔ دوسری جانب عین اسی روز، فرعون صفت سابقہ حکمران حسنی مبارک اپنے دونوں بیٹوں اور ظلم ڈھانے کے ذمہ دار وزیر داخلہ سمیت عدالت کے کٹہرے میں نشانِ عبرت بنا کھڑا تھا۔
 ڈاکٹر سعد کی کامیابی کا اعلان ہوا تو وہ مبارک بادیں جمع کرتے ، اسپیکر کے لیے مخصوص نشست پر آئے اور حمدوثنا کے بعد یہ آیت پڑھی: قُلْ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَ بِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا ط ھُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَo (یونس ۱۰:۵۸)’’کہو کہ یہ اللہ کا فضل اور اس کی مہربانی ہے کہ یہ چیز اس نے بھیجی، اس پر تو لوگوں کو خوشی منانی چاہیے، یہ ان سب چیزوں سے بہتر ہے جنھیں لوگ سمیٹ رہے ہیں‘‘۔ ڈاکٹر محمد سعد اکتوبر۲۰۰۸ء میں مینارِ پاکستان پارک میں    منعقد ہونے والے جماعت اسلامی کے اجتماعِ عام میں اخوان کی نمایندگی کرچکے ہیں۔ پاکستان اور اہلِ پاکستان سے خصوصی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ دھیما مزاج لیکن اپنے فرائض کی ادایگی کے لیے ہردم چوکنا و بیدار رہنے والے ڈاکٹر سعد کے انتخاب کو مصر کے ہرمخلص شخص نے تحسین کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ یوں جیسے عمارت کی پہلی مضبوط اینٹ، ٹھیک اپنی جگہ پر رکھ دی گئی ہو۔
اب ۲۹ جنوری سے مجلس شوریٰ، یعنی سینیٹ کے انتخاب شروع ہونا ہیں۔ یہ بھی تین مراحل میں اور عام انتخابات کے ذریعے مکمل ہوں گے۔ پھر دونوں ایوان مل کر ۱۰۰ رکنی دستوری کمیٹی منتخب کریں گے۔ کمیٹی زیادہ سے زیادہ چھے ماہ کے دوران دستور کا مسودہ تیار کرکے پارلیمنٹ میں پیش کرے گی اور دستور پیش ہونے کے ۱۵ روز کے اندر اندر اس پر عوامی ریفرنڈم کروایا جائے گا۔ اسی دوران صدارتی انتخابات کا اہم ترین مرحلہ بھی آئے گا۔ یہ بھی طے ہے کہ موجودہ عبوری صدر،  جرنل حسین الطنطاوی کو یہ عہدہ بہرصورت ۳۰ جون سے پہلے پہلے نومنتخب صدر کے سپرد کرنا ہوگا۔ فوجی حکومت سے اس تاریخ کا اعلان کروانا بھی عوامی تحریک کی ایک بڑی کامیابی ہے۔آیندہ مراحل میں جو چند بڑے چیلنج درپیش ہیں ان میں سے ایک فوج کے کردار کا تعین بھی ہے۔  فوجی عبوری مجلس کی یقینا یہ کوشش ہوگی کہ ۱۰۰ رکنی دستوری کمیٹی اور اس کی سفارشات میں اس کا کردار بھرپور رہے۔ انتخابات کے دوران اس نے قومی مجلس مشاورت کی تشکیل بھی اسی نقطۂ نظر سے کی تھی لیکن اخوان کی طرف سے اس میں شرکت سے معذرت اور مجلس مشاورت کے خلاف ہونے والے عوامی مظاہروں کے بعد وہ خود ہی مرجھا کر رہ گئی تھی۔ اب اسمبلی وجود میں آجانے کے بعد اس کی حیثیت مزید کم ہوگئی ہے اور اس کے کئی ارکان مستعفی بھی ہو چکے ہیں۔
اخوان اور دیگر کئی جماعتیں یہ نہیں چاہتیں کہ فوج کے ساتھ خواہ مخواہ کا تصادم مول لیا جائے،لیکن وہ یقینا یہ بھی نہیں چاہتیں کہ اصل اقتدار و اختیار فوج ہی کے ہاتھ میں رہے۔ نومنتخب اسپیکر محمد سعد الکتاتنی نے اپنے افتتاحی خطاب میں شفاف انتخابات کی نگرانی کرنے والے ججوں کے علاوہ فوج کو بھی بھرپور خراج تحسین پیش کیا کہ اس نے وعدے کے مطابق، مقررہ وقت پر پہلے  حقیقی اور شفاف انتخابات کروادیے۔  یار لوگوں نے اس بات کو فوج اور اخوان کے مابین گٹھ جوڑ قرار دینا شروع کردیا ہے۔ کچھ بزر جمہروں نے تو اخوان کو خود امریکا کے ساتھ ہی نتھی کردیا ہے، لیکن حقیقت یہی ہے کہ اخوان صرف اور صرف اللہ پر بھروسے اور عوام کی تائید سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ وہ کسی بھی گٹھ جوڑ اور سازش کو اللہ کے ساتھ بدعہدی اور شہدا کے خون سے غداری سمجھتے ہیں۔
ذرا ایک نظر اسرائیلی ذرائع ابلاغ کو بھی دیکھ لیجیے۔ اس الزام کی قلعی کھل جائے گی۔  وہاں ایک قیامت برپا ہے۔ حکومتی ذمہ داران، فوجی جرنیلوں اور دانش وروں سے لے کر عام  شہری تک ہر کوئی واویلا کررہا ہے کہ اسرائیل کا مستقبل سنگین خطرے سے دوچار ہوگیا ہے۔  روزنامہ یدیعوت احرونوت اپنے ایک مضمون ’’مشرق وسطیٰ مسلمانوں کی جنت یہودیوں کا جہنم‘‘ کے عنوان سے لکھتا ہے: ’’تیونس میں اسلامسٹس ۴۰فی صد  ووٹ لے گئے ہیں، مراکش میں تقریباً ۳۰فی صد، جب کہ مصر میں اخوان اور سلفی تحریک نے مل کر ۷۰فی صد  ووٹ حاصل کرلیے ہیں۔ لیبیا میں قذافی کے قتل کے بعد اسلامی شریعت چاہنے والے اقتدارکے ایوانوں میں ہیں۔ شام کی عبوری قومی کونسل کے ۱۹؍ ارکان میں سے ۱۵ اسلامی ذہن رکھتے ہیں‘‘۔ پھر آگے چل کر لکھتا ہے: ’’سیکولرازم لیکن کرپشن سے بھرپور چھے دہائیوں کے بعد مشرق وسطیٰ اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ نظام میں ڈھل رہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اب یہ خطہ تمام یہودیوں اور بے دین عناصر کے لیے جہنم بن کر رہ جائے گا‘‘۔
 یروشلم پوسٹ دھمکی آمیز لہجے میں لکھتا ہے:’’اسرائیلی فوج کے منصوبہ بندی کمیشن نے فوری طور پر نئے فوجی دستے ترتیب دینے کی سفارش کی ہے۔ جلد یا بدیر ہمیں یقینا مزید فوج کی ضرورت پڑے گی‘‘۔  وزیر اعظم اسحق رابن کا دست راست ایتن ہاپر لکھتا ہے: ’’اسرائیل کی سلامتی بلکہ اس کے وجود کو اس وقت تین بڑے خطرات لاحق ہیں اور وہ ہیں: عالم عرب میں انقلاب کی بہار، اسرائیل سے اس کا حقِ وجود سلب کرنے کی کوششیں، اور ڈیموگرافک (یعنی ہماری مخالف آبادی کے بڑھتے چلے جانے کا) خطرہ‘‘۔ مزید لکھتا ہے: ’’عرب ممالک میں ریڈیکل اسلامی طاقتیں اقتدار میں آرہی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل کے گرد ایسی طاقتوں کا حصار مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جائے گا جو اس کے وجود ہی کے خلاف ہیں‘‘ (روزنامہ معاریف، ۲۷ نومبر ۲۰۱۱ئ)۔ جنرل بنیامین الیعازر ۱۵نومبر اور پھر ۳دسمبر کو اسرائیلی سرکاری ریڈیو پر کہتا ہے: حالات تبدیل ہوگئے، مستقبل غیرواضح اور تاریک ہوچلا ہے‘‘۔اسرائیلی وزیر دفاع ایہود باراک بھی دہائی دیتا ہے: ’’مصری انتخابات کے نتائج انتہائی پریشان کن اور ہوش اڑا دینے والے ہیں‘‘۔ یہ اور اس طرح کے لاتعداد تبصرے اور تحریریں ہیں جو اسرائیل کی پریشان خیالی کا پرتو ہیں۔ اس کیفیت میں امریکا اسلامی تحریکات کی کامیابی کو کیسے دیکھتا ہوگا، اندازہ مشکل نہیں ہے۔ عالمِ عرب میں تبدیلی کا آغاز امریکا، اسرائیل اور ان کے حواریوں کے لیے ایک کڑوی حقیقت تھی۔ امریکا اگر ان تمام ممالک اور ان کے عوام سے دشمنی مول لے لیتا تو اس وقت عالمِ اسلام میں اس کے خلاف جتنی نفرت پائی جاتی ہے اس میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا۔ ظالم ڈکٹیٹروں کے خلاف غصے کا عوامی لاوا، امریکا کی رہی سہی ساکھ کو بھی راکھ بنا دیتا۔ عرب انقلابات کی حمایت میں بیان جاری کردینے کا مطلب کسی بھی صورت یہ نہیں ہے، کہ وہ عوام کی حقیقی نمایندہ منتخب حکومتوں کو دل سے قبول کرلے گا۔ 
تیونس ، مراکش اور مصر کی نومنتخب حکومتوں کے سامنے بیرونی خطرات ہی اصل آزمایش نہیں ہیں، اندرونی خطرات اس سے بھی زیادہ مہیب ہیں۔ بیرونی طاقتیں بھی مختلف اندرونی عناصر ہی کو آلۂ کار بناتی ہیں۔ امریکی وزارتِ خارجہ کھلم کھلا اعلان کرچکی ہے کہ وہ انتخابات کے دوران عالمِ عرب کی لبرل طاقتوں کی مدد کے لیے انھیں کروڑوں ڈالر دے چکی ہے۔ مصر کے نیم سرکاری اخبار الاہرام کے مطابق مصری پولیس نے ۳۰دسمبر کو سول سوسائٹی کے نام پر کام کرنے والی بعض تنظیموں کے دفاتر پر چھاپہ مارا، تو وہاں سے لاکھوں ڈالر اور اہم دستاویزات برآمد ہوئیں۔
l یمن: مصر کی طرح یمنی عوام کے لیے بھی جنوری ۲۰۱۲ء کا آخری عشرہ تاریخی لمحات لے کر آیا۔ ۲۲جنوری کو اس وقت عوام کو اپنے کانوں پر اعتبار نہ آیا جب جنرل علی عبداللہ صالح نے سرکاری ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ: ’’میں علاج کے لیے امریکا جا رہا ہوں۔ ۳۳سالہ اقتدار میں اگر مجھ سے کوئی غلطی ہوگئی ہو تو میں اس پر معذرت خواہ ہوں‘‘۔ علی عبداللہ بھی ڈکٹیٹر تھا، لیکن یمن کی قبائلی روایات کے باعث وہ عوام پر صرف ایک حد تک ہی ظلم ڈھا سکتا تھا۔ ہرشخص روایتی خنجر اور کلاشنکوف کے علاوہ مضبوط قبائلی حصار کا تحفظ رکھتا تھا، لیکن چال بازیوں اور کہہ مکرنیوں میں یمنی صدر نے سب کو مات دے دی ہے۔ گذشتہ تقریباً ۱۱ ماہ کی عوامی تحریک میں پوری قوم سڑکوں پر اُمڈ آئی تھی۔ صدر نے باربار مذاکرات کیے، معاہدے کیے، اعلانات کیے لیکن ہربار اپنا ہرعہدوپیمان شوقِ اقتدار کی نذر کر دیا۔ خطرناک قاتلانہ حملہ بھی ہوا، اہم حکومتی عہدے داران مارے گئے، خود بھی شدید زخمی ہوگیا، علاج کے لیے سعودیہ لے جایا گیا، کئی روزہ افواہ گرم رہی کہ دنیا سے چلا گیا لیکن موقع ملتے ہی جھلسے ہوئے چہرے کے ساتھ نمودار ہوکر کہا کہ میں بدستور صدر ہوں۔ پھر اعلان کیا کہ اقتدار چھوڑ رہا ہوں، لیکن رات کی تاریکی میں ایک روز خاموشی سے یمنی دارالحکومت صنعا کے ایئرپورٹ اور وہاں سے ہیلی کاپٹر میں سیدھا ایوانِ صدر میں جا اُترا۔ آمد اتنی خفیہ تھی کہ ایئرپورٹ اتھارٹی اور ذاتی محافظوں کو بھی چند لمحے پہلے اطلاع دی گئی۔
یمنی عوامی تحریک کو مصر، تیونس یا لیبیا و شام کی طرح بہت زیادہ میڈیا کوریج نہیں ملی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جتنے بڑے بڑے عوامی اجتماع یمن میں ہوئے ہیں، ان میں سے کسی بھی ملک میں نہیں ہوئے۔ ۱۱ ماہ کی تحریک کے دوران کوئی جمعہ ایسا نہیں تھا کہ جب ہربڑے شہر میں کئی کئی لاکھ لوگ جمع نہ ہوئے ہوں۔ ایک مارچ تو ایسا انوکھا تھا کہ لاکھوں افراد نے جنوبی شہر تعز سے دارالحکومت تک ۲۵۰کلومیٹر کا فاصلہ پیدل طے کیا۔ پانچ روزہ پیدل سفر کے دوران یہ کاررواں جہاں سے بھی گزرا مزید افراد شریک ہوتے گئے، لیکن ’مضبوط کرسی‘ کے جنون میں مبتلا صدر نے دارالحکومت کے باہر ہی شرکا کو کچلنے کی ناکام کوشش کی۔ ۱۲شہید اور ۳۰۰سے زائد افراد زخمی ہوئے لیکن عوام کو قصرِصدارت پہنچنا تھا، وہ بڑی تعداد میں پہنچ گئے۔ امریکا جانے سے پہلے علی عبداللہ نے اپنی آخری سیاسی جنگ اپنے اور اپنے اہلِ خانہ و رفقاے کار کے لیے استثنا حاصل کرنے کے لیے لڑی۔ وہ بضد رہا کہ اقتدار چھوڑنے کے بعد مجھ پر مظاہرین کو قتل کرنے سمیت کسی بھی طرح کا مقدمہ نہیں چلایا جائے گا۔ عوام نے یہ مطالبہ مسترد کر دیا لیکن صدر خود ہی اسمبلی سے قرارداد منظور کروا کے بزعمِ خود تمام مقدمات سے بَری ہوگیا۔ علی عبداللہ صالح سمیت کوئی حکمران اس سوال کا جواب نہیں دیتا کہ دامن اگر واقعی پاک ہے، تو عدالت سے کیوں گھبراتے ہو، اور اگر جرائم کیے ہیںتو کوئی عارضی استثنا ’اصل عدالت‘ اور اس کی سزا سے کیوں کر بچائے گا۔ وہ سزا تو خالدین فیھا کا اعلان بھی  سناتی ہے۔
علی عبداللہ کے خلاف تحریک کے آغاز ہی سے مغربی تجزیہ نگاروں نے لکھنا شروع کردیا تھا کہ یمن میں تبدیلی آئی تو یہاں بھی اخوان المسلمون برسرِاقتدار آجائے گی۔ اب اتنی تبدیلی تو آگئی کہ ۳۳سال سے انا ولاغیری کا نعرہ لگانے والا رخصت ہوگیا۔ لیکن ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔ تیونس اور مصر کی صورت حال سے بچنے کے لیے ۲۱فروری کو صدارتی انتخابات کروانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ دو سال کے عہدصدارت کے بعد پارلیمانی اور صدارتی انتخابات ہوں گے۔ یمن میں اسلامی تحریک التجمع الیمنی للاصلاح کے نام سے سرگرم عمل ہے۔ دھن، دھونس اور دھاندلی کے بے شمار ہتھکنڈوں کے باوجود، الاصلاح پارلیمنٹ میں دوسرے نمبر پر آجاتی تھی۔ حالیہ وسیع تر عوامی تحریک کے دوران تو اس کا کردار مرکزی رہا۔ وہ نہ تو یہ دعویٰ کرتے ہیں اور نہ  اس کے لیے کوشاں ہی ہیں کہ علی عبداللہ جیسا راندۂ درگاہ کردینے والا اقتدار انھیں مل جائے۔   البتہ ایک حقیقت نوشتۂ دیوار ہے کہ عوام کو ڈکٹیٹر سے نجات مل گئی اور اب عوام آزادانہ مرضی سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرسکیں گے۔ مراکش، تیونس اور مصر کی طرح یمن کے عوام بھی اپنا فیصلہ بہرصورت اسلام ہی کے حق میں دیں گے کہ یہی عالمِ عرب میں تبدیلیوں کا اصل عنوان ہے۔
l شام: عالمِ عرب میں جاری حالیہ تحریکوں میں اب شام کی عوامی تحریک رہ گئی ہے جو ڈکٹیٹر سے نجات کے لیے قربانیاں دے رہی ہے۔ نصف صدی سے حکمران اسد خاندان، دن رات قتلِ عام میں مصروف ہے۔ محتاط اعداد و شمار کے مطابق اب تک شہدا کی تعداد ساڑھے چھے ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔ لیکن شامی عوام میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ احتجاج کا دائرہ ایک کے بعد دوسرے شہر تک وسیع ہو رہا ہے۔ بشارالاسد اقتدار کی ناکام جنگ میں کسی بھی دشمن فوج سے زیادہ ظلم ڈھا رہا ہے۔ عرب لیگ نے شرماتے لجاتے ایک جائزہ وفد شام بھیجا، لیکن قتل عام ان کی موجودگی میں بھی جاری رہا۔ اب ایک اور وفد بھیجا جا رہا ہے۔ مظالم تو بشار بھی دیگر ڈکٹیٹر حکمرانوں کی طرح ڈھا رہا ہے، لیکن ایک بات میں اس کی ظالم افواج سب سے بازی لے گئی ہیں۔ وہ ظلم کے آخری ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے گرفتار شدہ شہریوں کو مجبور کرتی ہیں کہ وہ بشارالاسد کی تصویر کو سجدہ کریں۔ وہ انھیں بشار پر دل و جان نچھاور کردینے کا نعرہ لگانے پر مجبور کرتی ہیں۔ انھوں نے درودیوار پر یہ کفریہ نعرے لکھ دیے ہیں: لا الٰہ الا الوطن ولا رسول الا البعث، ’’وطن کے علاوہ کوئی معبود اور بعث پارٹی کے علاوہ کوئی رسول نہیں‘‘۔یہ تشدد اور نعرے اپنی تمام تر تصاویر اور وڈیوز کے ساتھ دنیا کے سامنے ہیں۔ دوسری طرف عوام کا نعرہ ہے: لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ، الشہید حبیب اللّٰہ، (شہید اللہ کا محبوب ہے)___ یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں کہ بالآخر غالب کس کلمے کو ہوکر رہنا ہے۔
_______________