پاکستان آج جس خوف ناک صورت حال سے گزر رہا ہے، اس کا تعلق سیاسی، معاشی، عسکری اور ہردائرے میں بحران سے ہے جو انتہائی حدوں کو چھو رہا ہے۔ ملک کو بچانے، اس کی آزادی، عزت اور اسٹرے ٹیجک مفادات کے تحفظ کی ذمہ داری پوری قوم پر عائد ہوتی ہے۔ تمام سیاسی اور دینی قوتوں کا فرض ہے کہ ملک کی بقا ، استحکام اور نظریاتی بازیافت کے لیے عوامی جدوجہد کریں۔ ان حالات میں جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ نے مسئلے کے تمام پہلوئوں کا جائزہ لے کر اور حالات کا تجزیہ کرکے، اس دلدل سے نکلنے کی راہ ، ایک جامع قرار داد کی شکل میں پیش کی ہے جو اس کے ۱۹ تا ۲۱جنوری ۲۰۱۲ء کو منعقدہ اجلاس میں منظور کی گئی۔ قوم کی رہنمائی اور اس کے سوچنے سمجھنے والے عناصر کو دعوت فکروعمل دینے کے لیے یہ قرارداد ہم بطور ’اشارات‘ پیش کررہے ہیں۔(مدیر)
مرکزی مجلس شوریٰ جماعت اسلامی پاکستان کا یہ اجلاس پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں کی مخلوط حکومت کے تحت مملکت خدادادپاکستان کی بدترین سیاسی صورت حال پر گہری تشویش کااظہار کرتاہے ۔ملکی زندگی زرداری ،گیلانی حکومت کی بدعنوانیوں،انتہائی ناقص کارکردگی، قومی مفادات سے مسلسل رُوگردانی،مشرف دور کی غلامانہ پالیسیوں کے تسلسل اور غربت ،مہنگائی، بے روزگاری اور توانائی کے بحرانوں سے بدحال تھی اور تبدیلی کے لیے عوامی دبائو روز افزوں تھا،کہ حکومت نے اداروں کے تصادم کا فتنہ ایک گمبھیر شکل میں ملک اور قوم پر مسلط کردینے کا ناپاک کھیل شروع کردیاہے۔
مہمند ایجنسی کی سلالہ چیک پوسٹ پر ناٹو حملے اور اس کے نتیجے میں پاک فوج کے افسروں سمیت ۲۴ جوانوں کی شہادت نے ثابت کردیا تھا کہ جماعت اسلامی پاکستان نے گذشتہ ۱۰برسوں سے اُمت مسلمہ کے خلاف امریکی دہشت گردی کے بارے میں جو مؤقف اختیار کیا تھا وہ بالکل درست تھا اور پرویز مشرف اور اس کے بعد زرداری اور گیلانی کی پالیسیاں بالکل غلط ثابت ہوچکی ہیں۔ ہمارے لیے ہمارے فوجیوں کا خون بھی نہایت عزیز ہے۔ لیکن ڈرون حملوں میں قبائل کے جو ہزاروں افراد شہید ہوئے ہیںجن میں ہمارے معصوم بچے ،بوڑھے اور خواتین بھی شامل ہیں، ان کا غم بھی ہم نہیں بھلا سکتے، اور امریکا کی خاطر ہماری فوج کا اپنی سرزمین پر آپریشن بھی قابل مذمت ہے۔گذشتہ ۱۰ برسوں سے شمسی ائیربیس کا امریکا کے حوالے کیا جانا ملک اور قوم سے غداری کے مترادف ہے۔ صرف اس کا خالی کرناکافی نہیں ۔ پسنی و دالبندین ،خالد بیس، شہبازائیربیس ،غازی کمپائونڈ سے بھی امریکا کو فی الفور بے دخل کیا جائے اور ناٹو سپلائی لائن کی مستقل طور پر بندش کے فیصلے پر استقامت کا مظاہرہ کیا جائے، اور امریکا کی اس جنگ سے نکل آنے اور باعزت اور قومی مفادات کے مطابق سفارتی اور تجارتی تعلقات کی تشکیلِ جدید کا اہتمام کیاجائے۔
جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ کا یہ اجلاس پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں کی مخلوط حکومت کی اب تک کی کارکردگی پر اپنی اور پاکستانی عوام کی شدید بے اطمینانی کا اظہار کرتا ہے، اور اس امر کا برملا اعلان کرتاہے کہ عوام نے ۱۸فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے ذریعے جو موقع اس قیادت کو دیاتھا اس نے اسے بڑی بے دردی اور ناقابل فہم بے تدبیری سے ضائع کردیا ہے۔ جس کے نتیجے میں ملک تیزی سے بگاڑ، حکمرانی کے مکمل فقدان ،سیاسی افراتفری، معاشی تباہی، اخلاقی اور تہذیبی انتشار،نظریاتی ژولیدہ فکری ،اداروں کے تصادم اور بیرونی قوتوں کی پاکستان کے معاملات میں مداخلت کی بھیانک تصویر پیش کررہا ہے ۔ ملک و قوم کی آزادی ، خودمختاری اور عزت و غیرت معرض خطر میں ہیں اور عوام میں ہر سطح پر مایوسی اور بے چینی بڑھ رہی ہے جو خدانخواستہ کبھی بھی آتش فشاں کی طرح پھٹ کر پورے نظام کو تہہ و بالا کرسکتی ہے ۔ زرداری، گیلانی حکومت کی اب تک کی کارکردگی کا اگر معروضی جائزہ لیا جائے تو صاف نظر آتاہے کہ یہ حکومت ہماری تاریخ کی ناکام ترین حکومت ہے۔
پاکستانی عوام نے مشرف کی آمریت اور ملک کے معاملات میں امریکی مداخلت سے نجات حاصل کرنے کے لیے انتخابات میں مشرف دور کی پوری قیادت کو رد کرکے متبادل سیاسی پارٹیوں کو یہ مینڈیٹ دیاتھاکہ مل جل کر آمرانہ دور کی داخلی، خارجہ اور معاشی پالیسیوں کو تبدیل کریں اورر ملک کو اس دلدل سے نکالیں جس میں اسے جھونک دیا گیا تھا۔ لیکن پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں کی حکومت نے تبدیلی کے بجاے انھی تباہ کن پالیسیوں کے تسلسل بلکہ ان میں مزید بگاڑ کا راستہ اختیار کیاہے جس کے نتیجے میں وہ ملک اور قوم کو تباہی اور خانہ جنگی کی آگ میں دھکیل رہی ہے۔ اب اس میں بھی کوئی شک نہیں رہاکہ پیپلزپارٹی کی قیادت مشرف سے این آر او کا کالا قانون جاری کروا کر امریکا اور برطانیہ سے ضمانت حاصل کرکے برسراقتدار آئی تھی اوران کی اصل دل چسپی خود اپنے ماضی کے کرپشن کے جرائم پر گرفت سے بچنا اورامریکا کے دیے ہوئے ایجنڈے کو آگے بڑھاناہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف کا احتساب کرکے اسے سزا دلانے کے بجاے اسے سلامی دے کر ایوان صدر سے رخصت اور ملک سے فرار کا موقع دیا گیا، اور عوام کے مطالبے اور عدالتِ عظمیٰ کے فیصلوں کے علی الرغم اسے مکمل تحفظ فراہم کیاگیاہے اوراس کی جاری کردہ داخلی اور خارجہ پالیسیوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔
۲۰۰۸ء کے انتخابات کا دوسرا مرکزی موضوع امریکا کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی شرکت اور اس کے تباہ کن نتائج تھا ۔ عوام نے پہلے دن سے مشرف کی غلامانہ اور بزدلانہ پالیسی کو ردکردیاتھا اور ۱۰سال کے تجربے نے یہ ثابت کردیا کہ ہر اعتبار سے یہ پالیسی یکسر ناکام رہی ہے۔ ملک کا امن وامان تباہ ہوگیا ہے ، جو علاقے پُرامن تھے وہ دہشت گردی کی زد میں ہیں ، فوج اور عوام میں دُوری بڑھی ہے، اور دشمنوں کو دہشت گردی کی آڑ میں ملک میں تباہی مچانے کے مواقع ملے ہیں۔ سیاسی اعتبار سے ملک امریکا کی کالونی بن گیاہے اور معاشی اعتبار سے اس غریب قوم کو محض امریکا اور عالمی ساہوکاری اداروں کی اس خوشنودی کے لیے، جو حاصل بھی نہیں ہوئی اور نہیں ہوسکتی ہے، کھربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑاہے۔ موجودہ حکومت امریکا کے ڈومور (Do More)کے مطالبات کی اس دلدل میں مزید دھنستی جا رہی ہے، اور جب امریکا اور ناٹو اقوام افغانستان سے نکلنے اورر طالبان سے مذاکرات اور شراکت اقتدار کے معاملات طے کرنے میں مصروف ہیں، حکومت ہمیں اس لڑائی اوراس کے نتیجے میںاندرون ملک رونما ہونے والی تباہی کے طوفان میں مزید جھونکنے کے راستے پر گامزن ہے ۔ہمارے لیے معقول راستہ اب ایک ہی ہے اور وہ امریکا کی اس جنگ سے نکلنا، اور ناٹو اور امریکی افواج کی راہداری کی سہولت کا مکمل اور مستقل خاتمہ ہے۔
انتخابات کے موقع پر تیسرا بڑا مسئلہ پرویزمشرف کی غیر آئینی طور پر معزول کی گئی عدلیہ کی بحالی اوراس کی مکمل آزادی تھا۔ لیکن حکومت نے اپنے سارے وعدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پورا ایک سال نہ صرف یہ کہ عدلیہ کی بحالی کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا بلکہ عدالت عظمیٰ کے اہم ترین فیصلوں اوراحکامات کی کھلی خلاف ورزی ، عدلیہ کی تحقیر و تضحیک اور عدالت اور انتظامیہ میں تصادم کا نقشۂ جنگ تیار کیا جا رہاہے۔ این آر او کے فیصلے پر کھلی حکم عدولی کے بعد اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ وزیراعظم کو سپریم کورٹ میں پیش ہو کر توہین عدالت کے نوٹس کا جواب دینا پڑگیاہے۔فاضل عدالتوں نے انسانی حقوق کے تحفظ ، کرپشن کے خاتمے، قانون اور ضوابط کی خلاف ورزیوں پر گرفت ، میرٹ سے ہٹ کر تقرریوں اور تبادلوں کو لگام دینے کے لیے جو بھی اقدام کیے تھے، حکومت اور اس کے کارندوں اور خصوصیت سے ایوان صدر سے متعلق افراد نے اسے ناکام کرنے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے ۔ جس قابل پولیس افسر کو عدالت نے تفتیش کے لیے مقرر کیا ، اسے اس کام کے لیے فراہم نہیں کیاگیا، اور جس نااہل افسر کو عدالت نے سزا دی اس کو چشم زدن میں صدر صاحب نے معاف کردیا، اور ایک سے ایک بدنام شخص کواہم ترین مناصب پر فائز کرکے دستور اور عدلیہ کے احکام کی دھجیاں بکھیر دیں۔ حکومت کی طرف سے عدلیہ کے خلاف یہ یک طرفہ جنگ جاری ہے اور وزارتِ قانون اور وزارتِ داخلہ اس محاذ آرائی میں پیش پیش ہیں۔ یہ سب انتہائی افسوس ناک ہے۔
بلوچستان میں ہزاروں لاپتا افراد کا کوئی سراغ نہیں مل رہا ۔ ٹارگٹ کلنگ کا بازار اب بھی گرم ہے، جب کہ ان بے گناہ مقتولین کے قاتل اب تک گرفتار نہیں کیے گئے۔ آغاز حقوق بلوچستان کے اعلان کوقریباً تین سال ہوگئے ہیں مگر اس کاآغاز ہی نہیں ہوسکا اور ستم ظریفی یہ ہے کہ بلوچستان کے گورنر اور وزیراعلیٰ دونوں شکایات کا بازارگرم کیے ہوئے ہیں، جیسے ان کا تعلق حزب اقتدار سے نہیں حزب اختلاف سے ہے۔ دہشت گردی کا شکار ہونے والے عام آدمی کے ورثاء کو ۳،۴ لاکھ اور سرکاری اہل کار کے ورثا کو ۲۰ لاکھ روپے معاوضہ دینے کی حکومتی پالیسی پر چیف جسٹس آف پاکستان کا تبصرہ معنی خیز ہے کہ ’کیا عام آدمی کا خون اہلکار کے خون سے سستاہے‘۔
امریکا کی پالیسیوں کی اطاعت نے جو محکومی کی شکل اختیار کرچکی تھی، اس کے نتیجے میں صاف نظر آ رہاہے کہ افغانستان میں امریکی جنگ کی معاونت ہو یاان کے مطالبے پر پاکستان میں اپنے ہی شہریوں کے خلاف فوج کشی ، ملک میں امریکا اور اس کی ایجنسیوں کی کارگزاریوں یا معاشی امور اور پالیسی پر اس کی گرفت اتنی بڑھ گئی ہے اور اس کے نتیجے میں اس حکومت کی پالیسیوں اور امریکا کی فرماں برداریوں نے جو شکل اختیار کرلی ہے اس نے ملک کو ایک طفیلی ریاست بنادیا ہے اور امریکا کے مطالبات ہیں کہ کم ہونے کو نہیں آتے ۔ ڈرون حملوں میںگذشتہ تین برسوںمیں کئی گنا اضافہ ہوگیا۔جس کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہ افراد ہلاک اور زخمی ہوچکے تھے۔ اس سلسلے میں ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت کی مجرمانہ غفلت نے ایسے حالات تک پیدا کردیے تھے کہ امریکی اور ناٹو کے فوجی بھی بار بار پاکستان کی سرزمین پر کھلے بندوں فوجی آپریشن کررہے ہیں اور پاکستان کی حاکمیت اور خود مختاری کو دیدہ دلیری کے ساتھ پامال کررہے ہیں۔ نیز ٹریننگ کے نام پر امریکا کے اثرات فوج اور دوسرے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر بڑھتے جا رہے ہیں، اور اس سب کے باوجود امریکی تھنک ٹینکس ، میڈیا اور پارلیمانی کمیٹیوں کے ارکان کھل کر پاکستان کی حکومت ، فوج اور اس کے اداروں پر دوغلی پالیسی اور دھوکا دہی کے بہتان لگاتے رہے ہیں اور پاکستان کے امیج کو داغدار کرنے اور اپنی مزید تابع داری کے لیے بلیک میل کرتے رہے ہیں ۔ ڈرون حملے کچھ عرصہ بند رہنے کے بعد اب پھر شروع ہوگئے ہیں۔
ملک و قوم کی آزادی اور عزت کی حفاظت میں حکومت کی اس ناکامی سے عوام میں بددلی ، غصہ اور امریکا اور حکومت دونوں کے خلاف نفرت کے جذبات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ اس صورت حال کامزید جاری رہنا ملک کے مستقبل کے لیے نہایت خطرناک ہے ۔
بھارت کے معاملے میں بھی حکومت کا رویہ قومی وقار اورملکی مفادات سے ہم آہنگ نہیں ۔ تجارت کے لیے بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینا مسئلہ کشمیر سے عملاً انحراف ، مظلوم کشمیریوں کے لہو پر نمک پاشی اور جدوجہد آزادی کشمیر کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے۔ تجارت اور اعتمادسازی کے نام پر اصل اور بنیادی مسائل سے غفلت ایک مجرمانہ فعل ہے ۔ کشمیر اور پانی کا مسئلہ ہمارے کور ایشوز ہیں اور ان کے مستقل اور منصفانہ حل کے بغیر بھارت سے تعلقات درست نہیںہوسکتے۔ حال ہی میں سیکرٹری خارجہ کی سطح کے مذاکرات ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ بھارتی وزیرخارجہ کا کشمیر کے بارے میں بیان روایتی ضد اور ہٹ دھرمی کا آئینہ دار ہے، نیز بلوچستان اورفاٹا میں بھارت کی کارروائیاں اور خود افغانستان میں اس کی خلافِ پاکستان سرگرمیاں ناقابل برداشت ہیں۔ لیکن حکومت نے ان تمام امور کے سلسلے میں جو بزدلانہ پالیسی اختیار کی ہے وہ پاکستان کے تزویراتی (strategic) مفادات کے خلاف اور عوام کی امنگوں کے منافی ہے ۔
دستور میں اٹھارھویں اور انیسویں ترامیم کے باوجود حالات میں کوئی قابل ذکر بہتری رونما نہیں ہو رہی ۔ زرداری صاحب عملاً اسی طرح حکومت کے چیف ایگزیکٹو کا کردار ادا کرتے رہے ہیں جس طرح پرویز مشرف کررہا تھا اور آج بھی ایوان صدر اقتدار کا سرچشمہ اور سازشوں کا گہوارہ بنا ہواہے۔ اقتدار سنبھالتے ہی واضح اعلان کے باوجود فاٹا کے حقوق اور وہاں کے عوام کو فرنٹیر کرائمز ریگولیشن کے سامراجی قانون سے نجات ،اس علاقے میں دستور کے دیے ہوئے حقوق دینے اور نظامِ عدل کے اجرا کے بجاے حال ہی میں صدارتی ریگولیشن کے ذریعے مالاکنڈ ڈویژن میں ڈی سی او کو اور فاٹا میں پولیٹیکل ایجنٹ کو پھانسی کی سزا دینے کے اختیارات تفویض کردیے گئے ہیں۔ یہ انصاف کے خون کے مترادف ہے۔
ملک میں لاقانونیت اپنی انتہا کو پہنچ گئی ہے ۔ کسی جگہ بھی عام شہریوں کو جان ، مال او رآبرو کی حفاظت حاصل نہیں۔ قتل وغارت گری کا بازار گرم ہے ۔ دہشت گردی کے واقعات کو روکنے میں حکومت اور اس کی ایجنسیاں بالکل ناکام رہی ہیں۔ کراچی جیسے شہر میںگذشتہ ایک سال میں ۲ہزار سے زیادہ افرا د کو نشانہ بنا کر موت کے گھاٹ اتار ا گیاہے۔ بالخصوص گذشتہ سال ماہ جولائی ، اگست میں کراچی میں بے گناہ افراد کا بہیمانہ اور شرم ناک قتل عام ہوا ہے، مگر ایک بھی قاتل کو سزا نہیں ملی۔ کراچی میں ۱۲مئی ،۱۲ربیع الاول، ۹؍اپریل اور ۱۰محرم الحرام کے مجرموں پر کوئی گرفت نہیں کی گئی، اور سندھ میں تقریباً چار سال تک برسراقتدار تینوں جماعتیں ایک دوسرے پر انگشت نمائی اور الزام تراشیاں کرتی رہی ہیں ۔
کراچی میں ٹارگٹ کلنگ ،بھتہ خوری ،ٹارچر سیلوں ،نوگو ایریاز اور بوری بندلاشوں کے معاملات پر سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کے بعد عوام کو توقع تھی کہ کراچی میں امن عامہ کے مسائل پر سپریم کورٹ کوئی واضح ، دوٹوک ،پایدار ،حقیقی اور مستقل حل پیش کرے گی ۔ لیکن بد قسمتی سے سپریم کورٹ نے مسائل کی نشان دہی کرنے کے بعد حل کی ذمہ داری انھی حکمرانوں پر ڈال دی ہے کہ جن کی وجہ سے مسائل پیدا ہوئے ہیںاور جن کو خود سپریم کورٹ نے ناکام قرار دیاہے۔ جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ سپریم کورٹ سے اپیل کرتی ہے کہ وہ اپنے فیصلے کے مطابق براہِ راست نگرانی کو مزید فعال و با مقصد بنائے تاکہ کراچی میں وقتی نہیں بلکہ حقیقی امن قائم ہوسکے ۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے اصل مجرموں اور اس جرم کے معاونین کو کیفر کردار تک پہنچانے میں اس حکومت نے جو انھی کے خون کی بدولت اقتدار میں آئی، کوئی مؤثر کارروائی نہیں کی ہے ۔ اس دعوے کے باوجود کہ اصل مجرموں کو صدر صاحب جانتے ہیں، ان کے خلاف کوئی اقدام نہیں ہوا۔ حتیٰ کہ اقوام متحدہ کے کمیشن کی رپورٹ پر بھی عمل درآمد نہیں ہوا اور دو تین ہفتے میں اس رپورٹ پر کارروائی کے وعدوں کے باوجود کوئی قابل ذکراور نتیجہ خیز کارروائی نہیں ہوئی ۔ معلوم ہوتا ہے کہ مجرموں کو تحفظ فراہم کیا جا رہاہے ۔نیز اس حادثے کے موقع پر پیپلز پارٹی کے اپنے سیکورٹی کے نظام کی ناکامی کے جولوگ ذمہ دار ہیں اور جن پر کمیشن کی رپورٹ میںبھی واضح اشارے کیے گئے ہیں، وہ بھی صدر صاحب کے سایے میں محفوظ ہیں ۔
معاشی اعتبار سے گذشتہ چار برسوں میں ملک میںجو بگاڑ رونما ہوا ہے اس نے ماضی کے سارے ریکارڈ توڑ دیے ہیں ۔معاشی پالیسی سازی امریکا او رعالمی اداروں کی گرفت میں رہی ہے۔ یہ حکومت چار سال میں چار وزیرخزانہ ،چاروزارت خزانہ کے سیکرٹری اور اسٹیٹ بنک کے تین گورنرلگاچکی ہے لیکن آج تک کوئی مربوط معاشی پالیسی وجودمیں نہیں آسکی۔ قرضوں کا بار ناقابل برداشت ہوگیا ہے اور آج پاکستان میں اندرونی اور بیرونی قرضوں کا حجم ۱۲۰کھرب روپے سے متجاوزہو گیاہے اور صرف سالانہ سود اور ادایگی قرض کے لیے ۹سو ارب روپے سے بھی زیادہ اداکرنے پڑ رہے ہیں ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ آج غریب عوام کے منہ سے روٹی کا نوالہ چھین کر ساہو کاروں کو دیاجا رہاہے اور ان قرضوں کی ادایگی کے لیے نئے قرض لینے پڑ رہے ہیں جس کی بھاری قیمت موجودہ اور آیندہ نسلوں کوادا کرنا ہوگی ۔
مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے ۔ بے روزگاری بے تحاشا بڑ ھ رہی ہے ۔ غربت میں روز افزوں اضافہ ہورہاہے اور بھوک اور افلاس کی وجہ سے اموات اورگھر کے کئی افرادکی خودکشی کی نوبت آگئی ہے جس کی ہماری تاریخ میں کوئی مثال نہیں ۔ خود فیڈرل بور ڈ آف ریونیو (FBR) کے سربراہ نے کچھ عرصہ پہلے واضح اعتراف کیا تھا کہ ملکی معیشت دیوالیہ ہونے کے خطرے سے دوچار ہے اور مطالبہ کیاگیا کہ حکومت کے قرض لینے پر فوری پابندی لاگو کی جائے۔سپریم کورٹ نے اربوں روپے کے قرضے مختلف بنکوں کی طرف سے معاف کرنے کے از خودنوٹس لینے کے مقدمے کی سماعت کے دوران میں سٹیٹ بنک کے وکیل نے بتایاتھا کہ ۱۹۷۱ء سے لے کر دسمبر۲۰۰۹ء تک ۵۰ہزار سے زائد افراد کے ۲۵۶؍ارب روپے کے قرضے معاف کرائے گئے اور گذشتہ دو برسوں کے دوران ۵۰؍ارب روپے کے قرضے نجی بنکوں نے معاف کیے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ نجی بنک کیسے قرض معا ف کرسکتے ہیں۔ ہم دیکھیں گے کہ آیا من مانے طریقے سے تو قرضے معاف نہیں کیے گئے ہیں۔ فاضل عدالت نے غیر قانونی طور پر معاف کیے گئے قرضوں کی رقوم وصول کرنے کے عزم کا اظہاران الفاظ میں کیاہے کہ ’’قومی دولت کو واپس لانے کے لیے عدالت کسی حد تک بھی جاسکتی ہے‘‘۔ موجودہ عالمی دبائو کے تناظرمیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ۱۹۷؍ارب ڈالر کی بیرون ملک جمع لوٹی ہوئی دولت اور سیاست دانوں کے سوئٹزرلینڈ، اسپین اور دوسرے بیرون ملک بنکوں میں جمع رقوم کوملک کے اندربلاتاخیر لانے کے لیے واضح قانون سازی اور ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔
حکومت کے ہر شعبے اور زندگی کے ہر میدان میں کرپشن اور بدعنوانی میںبے تحاشا اضافہ ہو رہاہے۔ ورلڈ بنک اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹوں کے مطابق کرپشن میں ان چاربرسوں میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے۔ احتساب کا نظام ناپیداور احتساب کے قانون کا مسودہ چار سال سے قومی اسمبلی میں پھنسا ہوا ہے اورصرف اس لیے کہ حکومت اسے کرپشن کے تحفظ کا قانون بنانے پر تلی ہوئی ہے، کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی ۔سروسز میں تقرریوں ، تبادلوں اور ترقیوں میں میرٹ کا خون کیا جارہاہے اور سپریم کورٹ کے فیصلوں اور تادیبی اقدام کی سفارش کے باوجود کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی ہے ۔ ہر سطح پر سیاسی بنیادوں پر تقرریاں کی جارہی ہیں اور قومی ملکیت میں اہم ترین ادارے بشمول اسٹیل مل ،پی آئی اے ،واپڈا ، ریلوے ،نیشنل انشورنس کارپوریشن اور ٹریڈنگ کارپوریشن، خزانے پر بوجھ بن گئے ہیں اور ۴۰۰؍ارب روپے عوام کے منہ سے چھین کر ان سفید ہاتھیوں کی نذر کیے گئے ہیں ۔ پبلک سیکٹر ارباب اقتدار کی سیاسی مداخلت ، اقربا پروری اور دل پسند نااہل افراد کی تقرریوں کی وجہ سے تباہ ہوچکاہے ۔
ملک میں توانائی کابحران اپنی انتہا کو پہنچ گیاہے۔ عوام بجلی ، گیس اور پانی جیسی بنیادی ضرورت سے محروم ہوگئے ہیں ۔اس کے باوجود یکم جنوری سے گیس کی قیمت میں ۱۴ فی صداضافہ اورتیل کی قیمتوں میں بھی اضافہ کرلیاگیاہے۔ یہ ظالمانہ فیصلہ ہے۔ اس کے خلاف بھرپور احتجاج کیا جائے گا۔ گیس اور بجلی کی لوڈشیڈنگ بدترین صورت اختیار کرچکی ہے ۔ ہزاروں صنعتیں بند ہو چکی ہیں اور زراعت جس پر ۶۰،۷۰ فی صد آبادی کا انحصار ہے ایک بحران کے بعد دوسرے سنگین تر بحران کا شکار ہے۔ راولپنڈی ،اسلام آباد ، لاہور اور کئی دوسرے شہروں میں گھروں کے چولھے ٹھنڈے ہوجانے سے جو بدترین احتجاجی مظاہرے ہوئے وہ بھی حکومت کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ثابت نہیں ہوئے،بلکہ نام نہاد عوامی حکومت نے ملک بھر کے عوام کے مطالبے پر توانائی کے بحران کو ختم کرنے کے لیے کچھ بھی نہیںکیا ہے۔
جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ پوری دیانت سے محسوس کرتی ہے کہ موجودہ حکومت بُری طرح ناکام ہوچکی ہے، اور اس کی داخلی اور خارجی پالیسیوں کے نتیجے میں عوام بے پناہ مصائب و مشکلات کا شکار ہیں اور ملک شدید بحران میں مبتلا ہے ۔ جماعت اسلامی پاکستان حالات کی اصلاح، رابطہ عوام مہم کے ذریعے عوام کی بیداری اور امریکا کی غلامی سے نجات کے لیے سرگرم عمل ہے، اوررابطہ عوام مہم کے سلسلے میں راولپنڈی ،اسلام آباد،پشاور ، لاہوراور کراچی کے عوامی جلسوں میں عوام کی بھرپور شرکت اور پذیرائی سے ثابت ہواہے کہ عوام موجودہ حکومت سے بے زار ہیںاور ان کی نگاہ میں ایک صاف ستھری جرأت مند اور باصلاحیت اسلامی قیادت ہی مسائل کا حل ہے۔ جماعت اسلامی ملک کی تمام سیاسی اور دینی قوتوں کومخلصانہ دعوت دیتی ہے کہ اپنی آزادی اور خودمختاری کی بازیافت ،ملک میں حقیقی امن وامان کے قیام،معاشی حالات کی اصلاح اور عوام کو انصاف اور چین کی زندگی کے حصول کی جدوجہد کے لیے پوری طرح کمر بستہ ہوجائیںتاکہ یہ قوم دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی کی راہ پر آگے بڑھ سکے۔ وطن عزیز پاکستان ملت اسلامیہ پاک و ہند نے بڑی قربانیاں دے کر حاصل کیا ہے اور اس کے ۱۸ کرو ڑ انسان اپنی آزادی ، عزت اور حقوق کی حفاظت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے ۔ ہم سب کا فرض ہے کہ پاکستان جو اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت اور ایک مقدس امانت ہے، اس کی حفاظت اور اسلامی اور جمہوری بنیادوں پر اس کی ترقی اور استحکام کے لیے میدان میں اُتریں اور مؤثر اور پرامن آئینی اور جمہوری جدوجہد کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی رضا ،قومی مقاصد کے حصول اور ملک اور اس کے عوام کو موجودہ بحرانوں سے نجات دلانے کے لیے اپنی ذمہ داری ادا کریں ۔
مرکزی مجلس شوریٰ محسوس کرتی ہے کہ وزیراعظم پاکستان نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کے دوران سانحۂ ایبٹ آباد پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ ہم سے میمو کے بارے میں پوچھنے والے بتائیں کہ چھے برسوں سے اُسامہ بن لادن کس کے ویزے پر یہاں تھا، اپنے ملک کے اداروں کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے کی کوشش ہے۔ ان کا یہ بیان بحیثیت وزیراعظم کے اٹھائے گئے اپنے حلف کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔
اجلاس محسوس کرتاہے کہ پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں کی عدلیہ اور فوج سے مسلسل محاذ آرائی اور دھمکیاں اداروں میں ٹکرائوکا باعث بنیں گی۔ اس طرح پیپلز پارٹی ایک بار پھر سیاسی شہادت کی کوشش کررہی ہے۔
اجلاس مطالبہ کرتاہے کہ حکومت عوام کے مسائل حل کرنے کے جو کام چار برسوں میں نہ کرسکی اب مزیدچندمہینوں میں کیا کرے گی، اس لیے ایک غیر جانب دار عبوری انتظامیہ اور ایک بااختیار الیکشن کمیشن کی زیر نگرانی الیکشن کا اعلان کیا جائے تاکہ قوم اپنے مسائل کے حل کے لیے نئی قیادت کا انتخاب کرسکے۔
مرکزی مجلس شوریٰ کا یہ اجلاس یہ بھی واضح کرتاہے کہ حکومت کی ناکامی کا بہانہ بنا کر اگر کسی غیر جمہوری، غیرآئینی شب خون مارنے کی کوشش کی گئی تو اسے کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔ مجلس شوریٰ کی نظر میں ایسا ہر اقدام ملک و قوم کے بے پناہ مصائب میں اضافے کا ذریعہ بنے گا۔ مرکزی مجلس شوریٰ ملک کی تمام سیاسی قوتوں اور اور تمام قومی اداروں پر واضح کرتی ہے کہ ہرسیاسی بحران کا حل آئین پاکستان میں موجود ہے ۔ اس لیے صرف آئینی راستوں کو اختیار کیا جائے ۔ موجودہ حکومت کی کرپشن اور ہرلحاظ سے ناکامی کی بنا پر اس حکومت سے جلد ازجلد نجات حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
جنرل محمدضیاء الحق کے دورِ اقتدار (۱۹۷۷ئ-۱۹۸۸ئ)میں نجی شعبۂ تعلیم کو پوری قوت سے قدم جمانے کے لیے راستہ دیا گیا۔ اگلے قدم کے طور پر جنرل پرویز مشرف کے زمانۂ اقتدار (۱۹۹۹ئ-۲۰۰۸ئ)میں ذرائع ابلاغ اور بالخصوص برقی ذرائع ابلاغ (الیکٹرانک میڈیا) کو ایک طوفان کی سی تیزی کے ساتھ معاشرے کے قلب و دماغ اور فکروثقافت کو مسخر کرنے کے مواقع عطا کیے گئے۔ یہ دونوں کام کسی مناسب نظم وضبط کی ضرورت کو بالاے طاق رکھتے ہوئے کیے گئے۔ ان کے لیے نہ کوئی ضابطۂ کار مرتب ہوا اور نہ کوئی ضابطۂ اخلاق وضع کیا گیا۔ پھر جس نے اس آزادی سے جو حیثیت اختیار کرلی، وہ اسے چھوڑنے اور دوسری کوئی بات سننے کے لیے روادار نہ ٹھیرا۔ نجی شعبۂ تعلیم نے قوم کی کس انداز سے خدمت کی اور کس پہلو سے تخریبِ فکروتہذیب کا زہر پھیلایا ہے؟ سرکاری شعبے نے کیا خدمت کی اور کس حوالے سے بربادی کے کھیل میں آگے بڑھ کر معاونت کی؟ ذرائع ابلاغ نے کردار، ایمان، تاریخ، طرزِحیات اور تہذیب و ثقافت کو کیا چرکے لگائے اور کس حد تک ان سب کو مسخ کیا؟بلکہ ان کا مُثلہ کیا؟___ یہ سوالات اس تحریر میں زیربحث نہیں ہیں۔ زیربحث یہ امر ہے کہ آج ہمارے نجی تعلیمی ادارے کس کلچر کو فروغ دیتے ہوئے ہمیں کس موڑ پہ لے آئے ہیں؟
جیساکہ عرض کیا ہے ضیاء الحق کے دورِحکومت میں جب نجی تعلیمی اداروں کو کام کرنے کے لیے کھلی چھوٹ دی گئی، تو پہلے ہی ایک دو سال کے دوران ان میں سے اکثر بڑے شہروں کے تعلیمی اداروں نے بطورِ فخر ہماری تہذیبی روایات و اقدار کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے ٹیلی ویژن یا فلمی اداکاروں یا اداکارائوں کو اپنی تقریبات میں بلاکر مہمانِ خصوصی کا اعزاز بخشا۔ گویا بچوں کو بتایا گیا کہ یہ ہیں آپ کے رول ماڈل۔ مزیدبرآں بعض اداروں نے موسیقی کی تربیت دینے کے لیے پرائمری کے بچوں کو ہدف بنانے کا راستہ اختیار کیا۔ پھر یہ سلسلہ بڑھتے بڑھتے یہاں پہنچا کہ مخلوط تعلیم کے اداروں نے اپنا دائرہ اسکول سے اعلیٰ تعلیم تک پھیلا دیا اور ذرائع ابلاغ کے تعاون سے بعض نجی تعلیمی اداروں نے بلاانقطاع موسیقی کے سالانہ پروگرام ترتیب دینے شروع کیے۔ والدین نے اس بات پر غور کیے بغیر کہ یہ عمل اندر ہی اندر کیا طوفان مچارہا ہے؟ اپنے ضمیر کو تھپک تھپک کر سلا دیا۔ شاید اس لیے کہ اس سوال کی جانب توجہ دینے کا مطلب ’دقیانوسیت‘ اور ’ملائیت‘ کی پھبتی کا نشانہ بننا ہے، اس لیے چاروں طرف خاموشی کی سی فضا نظر آتی تھی مگر اس صورتِ حال کا نتیجہ، ۹ اور ۱۰ جنوری ۲۰۱۲ء کی درمیانی شب قذافی اسٹیڈیم لاہور سے متصل الحمرا کلچرل کمپلیکس میں ایک نہایت الم ناک سانحے کی صورت میں سامنے آیا۔ اس دردناک حادثے کی رپورٹنگ مختلف اخبارات نے مختلف زاویوں سے کی تھی، اس لیے یہ تفصیل اخبارات ہی کی زبانی ملاحظہ کیجیے:
یہ تو تھیں مختلف اخبارات میں اس حادثے کی رپورٹیں۔ اب دو تین اداریے ملاحظہ کیجیے (یاد رہے انگریزی اخبارات نے اس واقعے پر کوئی ادارتی سطر لکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی):
اس افسوس ناک واقعے پر اخبارات ہی کے صفحوں سے اتنا لوازمہ نقل کرنے کا ایک واضح مقصد یہ ہے کہ آزادیِ اظہار اور ریاست کا چوتھا یا پانچواں ستون قرار دینے والے ذرائع ابلاغ پر اس پہلو سے بھی نظر ڈالنی چاہیے کہ وہ کس انداز سے مچھر چھانتے اور کس کاریگری سے اُونٹ نگل جاتے ہیں۔ دیکھیے، کم و بیش سبھی اخبارات نے اس نجی گروپ آف کالجز کا نام شائع کرنے سے اجتناب برتاہے۔ البتہ ایک انگریزی اور ایک اُردو اخبار نے لکھ دیا کہ یہ ’پنجاب گروپ آف کالجز‘کے زیراہتمام میوزک شو تھا، اور متاثرین اس کی طالبات تھیں۔
ایسے واقعات آنکھیں کھولنے کے لیے رونما ہوتے ہیں، مگر مفلس کی آہ کی طرح یہ ناشنیدہ ہی رہتے ہیں اور اکثر و بیش تر فنا کے گھاٹ اُتر جاتے ہیں۔ بہرحال نقّارخانے میں طوطی کی آواز کہیں، کسی درجے میں سنی جاسکے اور اس پر کسی روک ٹوک کے بارے میں سوچنا ہی شروع کر دیا جائے تو غنیمت ہوگا۔۲۴جنوری کو پنجاب اسمبلی میں تعلیمی اداروں میں میوزک پروگراموں کے خلاف متفقہ قرارداد کی منظوری اور پھر میڈیا کی جوابی یلغار کے جواب میں حکومت پنجاب کی پسپائی، پھر ۲۵جنوری کو قرارداد کی واپسی میں عبرت کا پیغام پوشیدہ ہے۔
۱۱ جنوری ۲۰۱۲ء کو ’انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل‘ ڈھاکہ نے پروفیسر غلام اعظم کی ضمانت کی درخواست خارج کردی اور انھیں گرفتار کر کے جیل بھجوادیا ۔ ٹریبونل کے سامنے پیش ہونے سے پہلے انھوںنے قوم کے نام اپناایک تحریری پیغام ،اپنے معاونِ خصوصی جناب نظم الحق کے سپردکرتے ہوئے کہا کہ اگر مجھے گرفتار کرلیا جائے تو میرا یہ پیغام پریس کے ذریعے قوم تک پہنچا دیاجائے۔(ترجمہ: ایس اے جہاں/ ابن حیدر)
۲۰۰۹ء میں بنگلہ دیش میں جو حکومت برسراقتدار آئی ہے، وہ خوفِ خدا رکھنے والے اہلِ ایمان کے سخت خلاف ہے۔ اسی لیے وہ بنگلہ دیش میں اسلامی جماعتوںکو کالعدم کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ اس گھنائونے مقصد کے حصول کے لیے، ۱۹۷۳ء میں طے پا نے والے معاملات کوپھر زندہ کیاجارہا ہے۔ جماعت اسلامی کے سرکردہ رہنمائوں کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ نام نہاد ’انٹرنیشنل ٹریبونل ‘کے ذریعے ،ایک خودساختہ’ جنگل کے قانون ‘کے تحت انھیں کڑی سزا ئیںدینے کی سازش کی جارہی ہے۔ اسی قانون کے تحت ایک تفتیشی ادارہ بنایا گیا، جس نے میرے خلاف بھی ۶۲الزامات تیار کیے ہیں۔ مجھے اندازہ ہے کہ جیل بھیجنے کے بعد میرے خلاف یک طرفہ جھوٹے پروپیگنڈا کا طومار باندھا جائے گاجب اپنی بات عوام تک پہنچانے کا کوئی ذریعہ میرے پاس نہیں رہے گا۔ اس لیے میں نے پیغام لکھ دیا ہے تا کہ گرفتار ہونے سے پہلے میں اپنا موقف اپنے ہم وطنوں کے سامنے پیش کردوں ۔ حال ہی میں یہاں کے کئی ٹیلی ویژن چینلوں نے میرا انٹرویو نشر کیا ہے، لیکن میں اس کے علاوہ بھی کچھ کہنے کی ضرورت محسوس کرتا ہوں۔
نومبر۲۰۱۱ء میں ،میں ۸۹سال کی عمر کو پہنچ گیا تھا اور اب میں ۹۰سال کے پیٹے میں ہوں۔ بڑھاپا سوبیماریوں کو ساتھ لاتاہے اور میرے دائیں پاؤں اوربائیں گھٹنے میں مسلسل تکلیف رہتی ہے۔ اس مرض پر قابو پانے کے لیے مجھے دن میں دو مرتبہ exerciseکرنا پڑتی ہے جس کے لیے میں کسی دوسرے فرد کا سہارا لینے پر مجبور ہوتاہوں ۔ میں اکیلا چل پھر بھی نہیں سکتا لہٰذا میں دائیں ہاتھ میں بیساکھی کا سہارالے کر اور اپنا بایاں ہاتھ کسی کے کندھے پر رکھ کر نماز کے لیے مسجد جاتاہوں۔اس حالت میں غیر ضروری طور پر کہیں آ جابھی نہیں سکتا۔ پھربلڈ پریشر اور دیگر متعدد بیماریوں کے حوالے سے مجھے روزانہ کئی بار باقاعدگی سے دوائیاں لینی پڑتی ہیں۔ اس حال میں بھی حکومت مجھے جیل بھیج رہی ہے ۔ میں اس سے پہلے چار بار جیل جا چکاہوں۔ مجھے جیل یا موت سے کوئی خوف نہیں ۔ الحمد للہ میں اللہ تعالیٰ کے سواکسی سے ڈرتا نہیں ۔ میںشہید ہونے کی تمنّا لے کر ہی اسلامی تحریک میں شامل ہوا تھا۔اب اگر اس جھوٹے مقدمے میں مجھے پھانسی پر بھی لٹکا دیا گیا تو مجھے شہادت کا درجہ ملے گا ،جو یقینا میرے لیے خوش قسمتی کا باعث ہوگا۔ اس عمر رسیدگی اور بیماریوں کی بھرمار کے ساتھ ،جیل میں میرا و قت کس طرح گزرے گا ، اس کو میں اپنے اللہ پر چھوڑتا ہوں۔ آپ لوگوں کو یاد ہوگاکہ ۱۱ برس پہلے یعنی۲۰۰۰ء میں رضا کارانہ طور پر جماعت اسلامی کے امیر کی ذمہ داری سے از خود فراغت لینے کے بعد میں نے کبھی کوئی سیاسی بیان نہیں دیا ۔ لیکن گذشتہ کچھ دنوں سے میرے خلاف میڈیا میںجو جھوٹا ،بے بنیاد اور من گھڑت پروپیگنڈا کیا جارہاہے، میں سمجھتاہوں کہ اس سلسلے میں سچائی کو سامنے لانے کے لیے مجھے کچھ کہنا چاہیے۔
میں پیدایشی لحاظ سے اس ملک کا باشندہ ہوں ۔۱۹۲۲ء میں ،لکشمی بازار ڈھاکہ میں اپنے ننھیال میں پیدا ہوا۔ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کا امتحان بھی ڈھاکہ ہی کے تعلیمی اداروں سے پاس کیا، اور پھر ڈھاکہ یونی ورسٹی سے بی اے اور ایم اے (سیاسیات) مکمل کیا اور طلبہ سیاست میں حصہ لینا شروع کیا۔۱۹۴۷ اور ۱۹۴۹ء میں لگا تاردوبار میں ڈھاکہ یونی ورسٹی کی سٹوڈنٹ یونین کا جنرل سیکرٹری منتخب ہوا۔ میں فضل الحق مسلم ہال کی سٹوڈنٹس یونین کا سیکرٹری جنرل بھی رہا۔ نومبر۱۹۴۸ء میں بنگلہ زبان کو بھی پاکستان کی قومی زبان کا درجہ دلانے کامیمورنڈم ،میں نے خود اس وقت کے وزیراعظم پاکستان نواب زادہ لیاقت علی خاں کو پیش کیا تھا۔اسی تحریک کی قیادت کرنے کی وجہ سے ۱۹۵۲ء اور۱۹۵۵ء میں دودفعہ گرفتارہوا اور جیل کاٹی۔میں نے ۱۹۵۴میں،جماعت اسلامی میں شمولیت اختیارکی اوریوںمیری سیاسی زندگی کاباقاعدہ آغازہوا۔
۱۹۴۷ء سے لے کر ۱۹۷۰ء تک ہندستان نے ہمارے ساتھ جو توسیع پسندانہ رویّہ روا رکھا، اس سے ہمیں یہ پورا یقین ہوگیاتھاکہ اگر مشرقی پاکستان، بھارت کی مدد سے بنگلہ دیش بنتاہے تو اس کی حیثیت بھارت کی ایک طفیلی ریاست سے زیادہ نہ ہوگی ۔ اس خدشے کے تحت بائیں بازو کے کچھ لوگ ، دائیں بازو کی تمام جماعتیں اور شخصیات ، علیحدگی کی اس تحریک میں شامل نہیں ہوئیں۔ اگر یہاں بھارت کی مداخلت نہ ہوتی توشاید ہمیں اس تحریک میں شریک ہونے پر کوئی اعتراض نہ ہوتا۔ اس وقت مشرقی پاکستان میں جو بھارت مخالف جماعتیں تھیں ان سب نے مل کر نور الامین کی رہایش گاہ پر، حالات کے جائزے کے لیے ایک اجلاس منعقد کیا ۔ طویل تبادلۂ خیالات کے بعد طے پایا کہ جنرل ٹکا خان کے ساتھ ملاقات کرکے فوجی کارروائیوں کو رکوایا جائے تاکہ بے سہارا اور مظلوم لوگوںکی داد رسی ہو سکے۔ اس مشاورت کی روشنی میں،ہم سات آٹھ افرادکا ایک وفد لے کر جنرل ٹکاخان سے ملے ۔ اس وفد میں، پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی (PDP)کے نورالامین، جماعت اسلامی کی طرف سے راقم، نظام اسلام پارٹی کے مولوی فرید احمد، مسلم لیگ کی طرف سے خواجہ خیر الدین اور کسان مزدور عوامی پارٹی (KSP)کی طرف سے ایس ایم سلیمان شامل تھے۔ آج اسی میٹنگ کی تصویر کو عوامی لیگ میرے خلاف پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کررہی ہے جو اس وقت پریس کو جاری کی گئی تھی۔ اُن کاکہنا ہے کہ تصویر بھی بولتی ہے ؟اگر ایسا ہی ہے تو پھرخودشیخ مجیب کے ساتھ مولانا مودودیؒ اور میری جو میٹنگ ہوئی تھی اس کی تصویر بھی تو موجودہے۔ ہماری اس میٹنگ میں شیخ مجیب کے ساتھ کیا گفتگو ہوئی ؟وہ شاید ان لوگوں کو معلوم بھی نہ ہو۔ جنرل ٹکا خان کے ساتھ ہماری تصویر کو ہتھیار بنا کرہمارے خلاف جو ایک جھوٹا پروپیگنڈا کیا جارہا ہے اس میں دراصل کوئی جان نہیں ہے ۔ہم نے اس وقت عوامی جذبات کی بالکل صحیح نمایندگی کی تھی ۔
۱۹۷۱ء میں جن سیاسی لیڈروں نے اپنے اصولی موقف کی بنا پر ، بھارت میں پناہ نہیںلی، انھوںنے اس مشکل گھڑی میں مشرقی پاکستان ہی میں رہ کر اپنے آپ کو عوام کی خدمت میں کھپادیا۔ عوام کے منتخب نمایندے جب عوام کو بے یارو مدد گارچھوڑ کر بھارت چلے گئے تو ہم لوگ ہی عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے کام کرتے رہے۔ میں نے۱۴؍اگست ۱۹۷۱ء کو ڈھاکہ یونی ورسٹی کے کارجن ہال میں منعقدہ ایک میٹنگ میں فوجی آپریشن پر سخت تنقید کی اور فوری طور پر اس کو روکنے کا مطالبہ کیا۔ اس طرح ’ڈھاکہ بیت المکرم ‘(نیشنل مسجد آف بنگلہ دیش ) کے سامنے بھی ایک جلسے میں، مَیں نے اس بات کو دہرایا تھا۔ لیکن میری یہ بات پریس میں چھپنے نہیں دی گئی، کیونکہ اس وقت اس طرح کی خبروں پر پابندی لگی ہوئی تھی ۔
اس وقت جن لوگوں کے خلاف کسی قسم کے جرم کے الزامات بھی نہیں لگائے گئے تھے اور وہ گرفتار بھی نہیں کیے گئے تھے حکومت آج ۴۰برس گزرنے کے بعد ان بے گناہ لوگوں کو جنگی مجرم ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہے۔
اکتوبر۲۰۰۱ء میں ملک کے آٹھویں عام انتخابات منعقد ہوئے ۔۳۰۰کی پارلیمنٹ میں عوامی لیگ کو ۵۸ اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کو۱۹۷سیٹیں ملیں۔ بی این پی کی اس کامیابی کا راز جماعت اسلامی اور دوسری دوچھوٹی پارٹیوں کا اس سے اتحاد تھا ۔ اس اتحاد کی وجہ سے بی این پی کو ۲۰فی صد زیادہ ووٹ ملے۔اس الیکشن کے نتائج دیکھ کر عوامی لیگ کو اندازہ ہوگیا تھاکہ اگر جماعت اسلامی کو ختم نہ کیا گیا تو مستقبل میں اُن کے لیے اقتدار تک پہنچنا ایک خواب بن کر رہ جائے گا۔ عوامی لیگ نے جماعت اسلامی کے خلاف جنگی جرائم کے الزامات لگانا اور جھوٹاپروپیگنڈا کرنا شروع کردیا۔ بنگلہ دیش بننے کے بعد جن لوگوں پر محض پاکستان کا ساتھ دینے کا الزام تھا ،اب وہی لوگ جنگی مجرم قرار دیے جانے لگے ۔ ۲۰۰۱ء سے پہلے عوامی لیگ نے کبھی بھی جماعت اسلامی کے لوگوں کو جنگی مجرم نہیں کہا لیکن ۱۹۷۳ء میں پاکستان کے آرمی افسروں اور دیگر فوجی عہدے داروںکے خلاف ٹرائل کرنے کے لیے جو قانون بنایاگیا تھا، اب اسی کوجماعت اسلامی کے خلاف استعمال کیا جارہاہے ۔ سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ عوامی لیگ ۱۹۷۱ء اور ۱۹۹۶ء میں دو دفعہ برسراقتدار آئی، اس دوران بھی عوامی لیگ نے جماعت اسلامی کی قیادت کو نہ تو جنگی مجرم قرار دیا اور نہ ان کے خلاف کوئی مقدمہ ہی بنایا ۔ عوامی لیگ کے اس اقتدار کا دورانیہ ساڑھے آٹھ سال بنتاہے۔ اس طویل دورانیے کے اقتدار میںبھی جماعت اسلامی کے خلاف جنگی جرائم کا الزام کیوں نہ لگایا گیا؟ کیا عوامی لیگ کے پاس اس کا کوئی جواب ہے؟
بغاوت کے اس مقدمے کو جس کالے قانون کے تحت آگے بڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے، انٹرنیشنل لائیرزایسوسی ایشن کے مطابق اس میں ۱۷کمزوریاں پائی گئی ہیں۔’سونار گائوں ہوٹل ڈھاکہ‘ میں وکلا کی اس تنظیم کی جوکانفرنس ہوئی ہے، اس میں بزرگ قانون دان جسٹس ٹی ایچ خان نے کہا تھا:’’ یہ قانون سراسرجنگل کا قانون ہے ۔ جس طرح کسی جانور کو باندھ کر ذبح کیا جاتاہے، اس قانون کے تحت ملزمان کے ساتھ یہی سلوک کیا جائے گا۔ انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کے نام کے ساتھ ’انٹرنیشنل‘ کا لفظ ہی ایک کھلا مذاق ہے کیونکہ اس کا کسی انٹرنیشنل معیار کے ساتھ دور دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے‘‘ ۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی وزیراعظم شیخ حسینہ کو خط لکھ کر متوجہ کیا ہے کہ اس قانون میں ترمیم کرکے اس کو حقیقی طور پر انٹرنیشنل معیار پر لایا جائے لیکن شیخ حسینہ حکومت نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی ۔ کیونکہ اگر اس ٹریبونل کے قوانین کو انٹرنیشنل معیار کے مطابق بنایا جائے تو جماعت اسلامی کے کسی لیڈر کو کوئی سز ا نہیں دی جاسکے گی، کوئی جرم ثابت ہی نہیں کیا جا سکے گا، اور جماعت کے ذمہ داران میں سے کوئی مجرم ہی قرار نہیں پائے گا۔
۱۳۔اکتوبر۲۰۱۰ء ’سونارگائوں ہوٹل ڈھاکہ ‘میں بنگلہ دیش سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن نے بھی ایک سیمی نار کا اہتمام کیاتھا۔ اس سیمی نار سے خطاب کرتے ہو ئے، انگلینڈ کے مشہور قانون دان اسٹیفن نے، جو انٹرنیشنل کرائمز کورٹ یوگوسلاویہ اور روانڈا کے وکیل بھی رہے ہیں،کہاتھاکہ جس قانون کے تحت یہ مقدمہ چلایا جارہاہے وہ بنگلہ دیش کے دستور اور انٹرنیشنل قانون کے سراسر خلاف ہے ، لہٰذا انٹرنیشنل کمیونٹی اس کو غیر جانب دارانہ تسلیم نہیں کرے گی ۔ انھوںنے مزید کہاکہ جنگی جرائم کے مقدمے کو انٹرنیشنل معیار کے مطابق کرنے کے لیے شفاف دلائل درکار ہوں گے۔ انھوںنے یہ بھی کہاکہ اس مقدمے کے ججوں کے تقرر میں فریقین کی رضا مندی شامل ہونا لازمی ہے اوران ججوں کا عالمی معیار کا ہونا بھی ضروری ہے۔ انھوںنے کہاکہ انٹرنیشنل قانون میں اس بات کو بالکل واضح کیاگیاہے کہ کسی شخص کو ایسے جرم کی سزا نہیں دی جاسکتی کہ جس کی نشان دہی قانون کے مطابق اس وقت نہ کی گئی ہو،جب کہ یہ جرم سرزد ہوا تھا۔
بنگلہ دیش میں بہارتی کردار:بنگلہ دیش بنانے میں ،بھارت نے جو کردار اداکیا ، اس میں بھارت کے نقطۂ نظر سے بھارتی فوج کے کردار کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ بھارت خود بھی اس بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتاہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ بنگلہ دیش کی آزادی کا حصول بھارت کا مرہونِ منت ہے۔ اس سلسلے میں بھارت کا کہناہے کہ ۱۶۔دسمبر۱۹۷۱ء کو پاکستانی فوج نے بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈالے تھے ، بنگالیوں کے سامنے نہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ خود ’بنگلہ دیش فریڈم فائٹرز‘ کی اعلیٰ قیادت جنرل عثمانی کو بھی ہتھیار ڈالنے کی تقریب میں آنے سے روک دیا گیا۔اسے وہاں پہنچنے ہی نہیں دیا گیا ۔ تقریباً ایک لاکھ جنگی قیدیوں کو بنگلہ دیش میں رکھنے کے بجاے بھارت میں لے جا کر رکھاگیااور پاکستانی فوج کا اسلحہ اور دیگر جنگی سازو سامان انڈین آرمی لوٹ کر لے گئی ۔ حالانکہ یہ سب کچھ پاکستان اوربعد ازاںبنگلہ دیش کا اثاثہ تھا ۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ بھارت نے پورے ملک میں لوٹ مار کی۔ بنگلہ دیش ریلوے کا سامان لوٹ کر اسے کھوکھلا کردیا۔ یہاں تک کہ ڈھاکہ یونی ورسٹی کے ہالوں (Halls) کا سامان تک بھارت نے لوٹ لیا۔ اصل میں بھارت ۱۹۷۱ء کی جنگ میں ،بنگلہ دیش کی آزادی کے لیے نہیں کودا تھا، بلکہ مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان کو الگ کرکے ،اپنے سب سے بڑے دشمن پاکستان کو کمزور اور بنگلہ دیش کو اپنا غلام بنانے کے لیے لپکاتھا۔ گذشتہ ۶۵ سال کا بھارتی رویّہ اس حقیقت کا ثبوت ہے۔
آپ ذرا غور کریں اور دیکھیں کہ ہم بھارت کے اس سامراجی کردار کے بارے میں جن خدشات کا اظہار۱۹۷۱ء میں مسلسل کر رہے تھے--- کیا وہ آج حقیقت بن کر سب کی آنکھوں کے سامنے نہیں آگئے ہیں؟گذشتہ ۴۰ برس میں بھارت نے بار بار ثابت کیا ہے کہ وہ ہمارا دوست نہیں، دشمن ہے۔ اپنے دعوے کے مطابق بھارت اگر ہماری آزادی کاحامی ہوتا تو چٹا گانگ Hill Trackکے لوگوں کو بنگلہ دیش کے خلاف نہ اُکستا۔انھیں بھارت لے جا کر عسکری تربیت نہ دیتا اور پھر مسلح کرکے بنگلہ دیش کے خلاف استعمال نہ کرتا۔ اسی طرح بھارت اگر ہمارا دوست ہوتا تو پانی کے معاملے میں ہمارے ساتھ انصاف کرتا، لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ بھارت کی آبی پالیسی اتنی ظالمانہ اور خودغرضانہ ہے کہ اس کی وجہ سے بنگلہ دیش ایک ریگستان بنتا جارہاہے۔ وہ اگر ہمارا ہمدرد ہوتا تو بارشوں کے موسم میں اپنے دریائوں کے پانی کو بنگلہ دیش کی طرف کھول کر ہماری فصلوں ،مویشیوں اور زمینوں کو غارت نہ کرتا، قیمتی انسانی جانوں کو ضائع نہ کرتا۔ یہ ہمارا کیسا دوست ہے ! ہر روز انڈین بارڈر سیکورٹی فورس ،بنگلہ دیش کے لوگوں کو جانوروں کی طرح گولیوں کا نشانہ بناتی ہے۔ لیکن بھارت نواز شیخ حسینہ حکومت ،بھارت کے اس وحشیانہ عمل کے خلاف حرفِ شکایت تک زبان پر نہیں لاتی ۔ اس کے برعکس اسے بنگلہ دیشی بری ،بحری اور فضائی راستوں سے سازو سامان کی رسد کی سہولیات فراہم کررکھی ہیں۔ اس کے علاوہ بھارت کو چٹا گانگ اور منگلہ بندرگاہ کے استعمال کی اجازت دی ہوئی ہے۔ اپنا سب کچھ بھارت کے سپرد کر دینے کے بعد بھی کیا بنگلہ دیش کی آزادی اور خودمختاری محفوظ رہ سکتی ہے۔؟یہ وہ حقائق ہیں جن کی بنیاد پر بنگلہ دیش کے محب وطن لوگ بھارت کو اپنا دوست نہیں سمجھتے ۔ منصفانہ طور پر اگر عوامی راے معلوم کی جائے تو عوام کی بھاری اکثریت بھارت کے خلاف ہے۔بنگلہ دیش کے تقریباً چاروں جانب بھارت ہے۔ اگر بنگلہ دیش پر جارحانہ حملے کا امکان اور خطرہ صرف اور صرف بھارت ہی کی طرف سے ہے۔ افسوس کامقام ہے کہ بھارت تو ہمارا دوست نہیں ،لیکن شیخ حسینہ حکومت کا رویّہ بھارت کے حق میں عاشقانہ ہے۔ بھارت کے اس حریفانہ رویّے کی عملی مزاحمت تو کجا ،زبانی مذمت بھی نہیں کرتی ۔ بنگلہ دیش پر قبضہ جمانے کے لیے جو جو سہولیات درکارہیں ،شیخ حسینہ حکومت نے وہ ساری کی ساری بھارت کی جھولی میں ڈال دی ہیں ۔ اس کی نظیر دنیا میں شاید ہی کہیں اور ملے ۔ ہماری حکومت کو اپنے ملک و قوم کے مفاد سے زیادہ بھارتی مفاد عزیز ہے۔
۱۹۴۰ء کے عشرے میں جب دوسری جنگ عظیم برپا ہوئی تھی اس وقت برطانوی حکومت نے یہ اعلان کیا تھاکہ جنگ ختم ہوتے ہی ہندستان کو آزاد کر دیا جائے گا ۔ مسٹر گاندھی اور مسٹر نہر و نے انڈین کانگریس کی طرف سے اعلان کیا کہ انڈین نیشنلزم اور سیکولر ڈیموکریسی کی بنیاد پر ہندستان ایک ریاست ہے۔ بھارت میں جتنے بھی مذاہب کے ماننے والے لوگ ہیں وہ سب ہندستانی ہیں اور ایک قوم ہیں۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ نہیں، ہندستان کے مسلمان ایک الگ قوم اور ہندو دوسری قوم ہیں ۔ قائد اعظم کی اس بات پر جن لوگوں نے لبیک کہاتھا ان میں بنگال سے حسین شہید سہروردی اور مسلم لیگ کے سرگرم کارکن شیخ مجیب الرحمن بھی شامل تھے۔ ان لوگوں کا موقف یہ تھاکہ ہندستان کی۴۰کروڑ آبادی میں سے ۱۰کروڑ مسلمان اگرانگریزوں کی غلامی سے نکل کر باقی ۳۰کروڑ ہندوئوں کی غلامی میںچلے جائیں گے توآخر مسلمانوں کو ہندستان کی آزادی کا کیا فائدہ پہنچے گا۔
آخرکار مسلم نیشنلزم کی بنیاد پر مسلم اکثریتی علاقوں کو ساتھ ملا کر،علیحدہ ’پاکستان‘ کے نام سے ایک مسلم ریاست قائم کرلی گئی۔ ۱۹۴۶ء کے انتخابات میں پاکستان کے حق میں ۱۰کروڑ مسلمانوں کے ووٹ دینے کے باعث ۱۹۴۷ء میں پاکستان آزاد ہوا۔ لیکن بد قسمتی سے پاکستان قائم ہونے کے بعد ، پاکستان کو اس کی اسلامی نظریاتی بنیادوں سے ہٹادیا گیا۔ اس سے مختلف علاقوں میں نا انصافی کے سبب محرومی پروان چڑھی ۔ مشرقی پاکستان بھی اسی محرومی کا شکار ہوا۔ ایسی ہی ناانصافیوں اور محرومیوں کے باعث علیحدگی پسند تحریکیں وجو دمیں آتی ہیں ۔ یہی اسباب بنگلہ دیش کی آزادی کی تحریک کی وجہ بنے اور ایک خوں ریزلڑائی کے بعد ،مشرقی پاکستان ،مغربی پاکستان سے علیحدہ ہو کر بنگلہ دیش کی شکل میں آزاد ہوگیا۔ اس بات کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ گذشتہ ۶۵سال میں بھارت نے خود بھارتی مسلمانوں کے ساتھ جو ظلم و جبر روا رکھا ہوا ہے اگر پاکستان نہ ہوتاتو بنگلہ دیش کے مسلمانوں کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوتا۔ پاکستان بننے ہی کی وجہ سے مشرقی پاکستان میں زندگی کے ہر شعبے میں بے مثال ترقی ہوئی ۔ ۱۹۴۷ء میں اگر پاکستان نہ بنتا تو بنگلہ دیش میں جو ترقی ہم آج دیکھ رہے ہیں یہ کبھی نہ ہوتی ۔
بنگلہ دیش اس وقت شدید بحران سے گزر رہاہے۔ قوم کے جو اہم مسائل ہیں اگر ان پر اتفاق واتحاد نہ ہو تو قوم کی ترقی نا ممکن ہوتی ہے۔ اس لیے میں تمام پارٹیوں اور تمام گروہوں کو یہ کہنا ضروری سمجھتاہوں کہ سب مل کر بنگلہ دیش کو ان بحرانوں سے نکالنے کی کوشش کریں ۔ بحران کے اس دور میں انتشار نہیں، اتحاد چاہیے۔ اگر ہم صحیح معنوں میں کامیابی چاہتے ہیں تو ہمیں پیچھے مڑکر دیکھنے کے بجاے آگے کی طرف دیکھنا اور بڑھنا چاہیے۔ میری دعاہے کہ موجودہ حکومت اور مستقبل میں جو لوگ اس ملک کی باگ ڈور سنبھالیں گے وہ اپنے اندر اتحاد پیدا کریں ،ملکی ترقی کے لیے کام کریں اور بنگلہ دیش کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنائیں۔ میں یہ بھی دعا کرتاہوں کہ حکمران طبقہ اپنے پارٹی اور ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر ،باہمی حسد و بغض سے چھٹکارا پا کر،ملک و قوم کی بھلائی اور بہتری کے لیے کام کرے۔’’قانون سب کے لیے ایک‘‘،کا ماٹو اپنا کر سماجی انصاف قائم کرنے کے لیے قانونی دائرے میں رہتے ہوئے جو بھی جدو جہد ہو سکتی ہے وہ ضرور کریں اسی طرح سماجی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے جدوجہد جاری رکھیں ۔ بزرگوں ، غریبوں اور یتیموں کا خاص خیال رکھا جائے۔ آپ لوگوں کو یہ ذمہ داری بھی ادا کرنا ہوگی کہ اس ملک کے لوگ جدید ،اعلیٰ تعلیم یافتہ اور محب وطن کی حیثیت سے پروان چڑھیں ۔
میں یہ بات ایک دفعہ پھر واضح الفاظ میں بیان کرنا چاہتاہوں کہ میں نے کبھی بھی انسانیت کے خلاف کوئی کام نہیں کیا۔ معاشرے کے ایک خاص گروہ کے لوگ جو اندھا بن کر اور خودغرضانہ سوچ کے تحت ، مجھے سیاسی اور سماجی طور پر نیچا دکھانے کے لیے، گذشتہ ۴۰سال سے گھنائونا پروپیگنڈا پھیلا رہے ہیں، ان کا مقصد سادہ لوح عوام کے دل میں میرے خلاف نفرت پیدا کرکے سیاسی فائدہ سمیٹنا ہے۔ انسانیت کے خلاف ،اگر میں سرگرم رہا ہوتا تو اس لمبے عرصے میں کسی نہ کسی عدالت میں میرے خلاف کوئی مقدمہ ضرور درج ہوتا۔ ۱۹۷۳ء میںشیخ مجیب حکومت نے غیرقانونی طور پر میری شہریت ضبط کی ۔ لیکن ۱۹۹۴ء میں سپریم کورٹ کے فل بنچ نے اپنے متفقہ فیصلے کے ذریعے میرا یہ حق مجھے واپس دلایا کیونکہ میرے خلاف لگائے گئے تمام الزامات جھوٹ ثابت ہوئے تھے ۔ عجیب تماشا یہ ہے کہ اب نئے سرے سے انھی پرانے الزامات کو دہرایا جارہاہے ۔
میں پہلے بھی کہہ چکاہوں کہ میں جیل ،ظلم ،اذیت اور موت سے نہیں ڈرتا ۔ موت اٹل ہے۔ اس سے فرار ممکن نہیں ۔ ہر ایک کو ، ایک نہ ایک دن اس دنیا سے رخصت ہونا ہی ہوتاہے۔ میرا اللہ پر ایمان ، آخرت پر یقین ہے اور میں تقدیر کو بھی مانتاہوں ۔ میرا یہ بھی ایمان ہے کہ مشیّت الٰہی کے خلاف کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اللہ اپنے بندوں کے بارے میں جو بھی فیصلے کرتاہے وہ یقینا کسی نہ کسی حکمت پر مبنی ہوتے ہیں، لہٰذا مجھے موت کی دھمکیوں کی بالکل پروا نہیں۔ مجھے اپنے آپ پر اعتماد ہے کہ میں نے ہمیشہ عوام کے مفاد کے لیے کام کیا ہے۔ کبھی بھی ان کے مفادات کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا ۔ ایسا لگ رہاہے اور جس انداز سے یہ عدالتی کارروائی چلائی جارہی ہے، اس سے صاف ظاہر ہے کہ انتہائی فیصلہ پہلے ہی سے کر لیا گیا ہے اور اب محض الزام تراشی کے ذریعے اس کے حق میں فضا تیار کی جا رہی ہے۔ اپنی ۵۰ سالہ سیاسی زندگی میں ، میں نے ملک میں بہت سارے سفر کیے ہیں ۔ میں عوام ہی میں رہاہوں ۔ میں نے اپنے اخلاق سے لوگوں کو اسلام کی طرف مائل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس لیے مجھے معلوم ہے کہ یہ حکومت میرے خلاف جو بھی الزام لگا رہی ہے عوام اس کو کبھی بھی تسلیم نہیں کریں گے۔ اگر یہ لوگ مجھے پھانسی بھی دیتے ہیں ، جو ان کی خواہش ہے ، تو بھی ہمارے عوام ، مجھے اللہ کی راہ کا ایک سپاہی سمجھیں گے۔
آخر میں ، میں یہ کہنا چاہتاہوں کہ اس ملک کے باشندوں کی دنیا اور آخرت کی بھلائی کے لیے، میں نے اپنی پوری زندگی کھپا دی ۔ میں نے کسی خودستائی اور خودنمائی سے اپنے آپ کو ہمیشہ بالاتر رکھاہے۔میں اس ملک کی سیاسی تاریخ میں واحد سیاست دان ہوں جس نے مکمل سرگرم زندگی گزارنے کے باوجود ،جماعت اسلامی کی امارت سے از خود فراغت لینے کی مثال قائم کی ۔ میں نے خدمت ِخلق کا صلہ نہ دنیا میں کسی سے مانگاہے اور نہ کبھی مانگوں گا۔ میں ہمیشہ اس بات پر ڈٹا رہا ہوں کہ میرے لیے میرا اللہ ہی کافی ہے ۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ میں نے اس قوم کی بھلائی کے لیے جو کچھ سوچا تھا اور جس کے حصول کے لیے سرتوڑکوشش بھی کی ہے ،نہ معلوم میں اس کو دیکھ بھی پائوں گا، یا نہیں۔ میں یہ دعا کرتاہوں کہ اس ملک اور اس کے عوام کی اللہ تعالیٰ حفاظت کرے اور بنگلہ دیش کی آزادی ، استحکام اور خود مختاری کو محفوظ رکھے۔ اللہ تعالیٰ اس ملک کے لوگوں کو اس دنیا میں شر سے بچائے اور آخرت میں سرخ روئی عطا فرمائے (آمین)۔ میں اپنے عزیز اہلِ وطن سے اس دعا کی اپیل کرتاہوں کہ اللہ تعالیٰ میرے نیک اعمال قبول فرمائے اور میری خطائوں سے درگزر فرمائے اور آخرت میں کامیابی سے ہم کنار کرے۔ (اب میں جماعت اسلامی کا کسی سطح کا بھی ذمہ دار نہیں ہوں، لہٰذا میرا یہ بیان میرا ذاتی بیان ہے ۔ اس کا جماعت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔)
یہ بات خاص طور پر قابلِ ذکر ہے کہ مسلمانوں کی طرف سے یہودیوں اور عیسائیوں کی مقدس شخصیتوں اور ان کی الہامی تعلیمات پر کبھی دل آزار تنقید نہیں کی گئی۔ مسلمان حضرت موسیٰ و ہارون علیہم السلام اور تمام انبیاے بنی اسرائیل اور حضرت عیسٰی اور یحییٰ علیہم السلام کو خدا کا پیغمبر مانتے ہیں، اور ان پر ایمان لانا ویسا ہی ضروری سمجھتے ہیں جیسا حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا۔ وہ تورات اور زبور و انجیل کو بھی خدا کی کتاب مانتے ہیں اور قرآن کے ساتھ تمام آسمانی کتابوں پر ایمان لانا ان کا بنیادی عقیدہ ہے۔ وہ حضرت مریم علیہا السلام کو اتنا ہی مقدس و محترم مانتے ہیں، جتنا اپنی اُمہات المومنینؓ کو۔ ان کی طرف سے یہودیوں اور عیسائیوں کے بزرگوں کی توہین کا سرے سے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن یہودیوں اور عیسائیوں کے معاملے میں صورتِ حال اس کے برعکس ہے۔ وہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب اور ازواج کو نہ صرف یہ کہ بزرگ نہیں مانتے، بلکہ وہ ان کی صداقت پر، ان کی سیرت و کردار پر، اور ان کے اخلاق پر حملے کرنے سے باز نہیں رہتے۔ ان کی طرف سے مسلمانوں کے جذبات پر مسلسل دست درازیاں ہوتی رہی ہیں۔ اس لیے درحقیقت یہ ایک طرفہ لڑائی ہے جسے حملہ آور فریق ہی ختم کرسکتا ہے۔ اور یہ جاننے کے لیے نفسیات کے کسی بڑے علم کی ضرورت نہیں ہے کہ اس کے جاری رہتے ہوئے کسی خیرسگالی کے نشوونما پانے کا کوئی تصور نہیں کیا جاسکتا۔
مسلمانوں کے لیے صرف یہی ایک وجۂ شکایت نہیں ہے، بلکہ وہ بڑے افسوس اور رنج کے ساتھ یہ دیکھتے ہیں کہ بالعموم اہلِ مغرب کا رویّہ ان کے مذہب، تہذیب اور تاریخ کے متعلق غیرہمدردانہ ہی نہیں،بلکہ ایجاباً مخاصمانہ ہے۔ وہ علمی تنقید کی حدود سے اکثر تجاوز کرجاتے ہیں اور ہمیں black paint کرنے کی کوشش میں ایسی باتیں کرتے ہیں جنھیں ناروا داری کہنا معاملے کو بہت ہلکا بنانے کا ہم معنی ہوگا۔ ایسی مثالیں بہ کثرت پیش کی جاسکتی ہیں.... کہ انھوں نے ہم کو دانستہ misrepresent کیا ہے اور بالکل جھوٹ اور بے اصل باتیں تک ہماری طرف منسوب کرنے میں تامل نہیں کیا ہے۔ ان کا مستقل رویّہ یہ رہا ہے کہ ہمارے دین یا ہمارے ہیروز کی زندگی یا ہماری تاریخ میں جس بات کو بھی دو معنی پہنانے کی گنجایش ہو، اسے وہ بُرے ہی معنی پہنانے اور اس کا تاریک رُخ ہی اختیار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ مسلسل عناد کا رویّہ ظاہر ہے کہ اپنا بُرا ردعمل پیدا کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔
اسی عناد کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ ....اسلام کے تجدید و احیا کی ہرکوشش کا استقبال مغرب میں ایک شدید احساسِ خطر کے ساتھ کیا جاتا ہے، اور مسلمان ملکوں میں اسلام سے انحراف، بلکہ اس کے خلاف بغاوت کی ہراطلاع ان کے لیے خوش خبری کا حکم رکھتی ہے۔ ان کے نزدیک مسلمانوں میں سے وہ سب لوگ انتہائی تعریف اور حوصلہ افزائی کے مستحق ہیں جو مسلمان ملکوں میں اسلام کی اصلی بنیادوں پر زندگی کی ’تعمیرجدید‘ اور ’ترقی‘ کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ بھی اسلام سے عناد ہی کا ایک شاخسانہ ہے اور اس معاملے میں اہلِ مغرب خود اپنی اقدار (values) اور اپنے ہی اصولوں کا لحاظ بھی ضروری نہیں سمجھتے۔ ایک مسلمان ملک میں کوئی ’ایثارپسند‘ حکمران گروہ اگر کسی اسلامی تحریک کو کچلنے کے لیے رواداری، جمہوریت اور عدل و انصاف کے سارے تقاضوں کو بھی پامال کرگزرے تو صرف یہ ایک بات کہ یہ سب کچھ اسلام کے revival کو روکنے کے لیے کیا جارہا ہے، اس بات کے لیے کافی ہوتی ہے کہ مغرب سے اس پر تحسین و آفریں کی صدائیں بلند ہوں۔
ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ مغربی دوست ایک مرتبہ پھر سوچ لیں کہ یہ طرزِعمل بجاے خود کہاں تک حق بجانب ہے، اور اس سے وہ کس اچھے نتیجے کی توقع رکھتے ہیں۔ (مغرب اور اسلام از پروفیسر خورشیداحمد کا دیباچہ، بحوالہ تذکرہ سید مودودیؒ-۲، ص ۷۱۵-۷۱۶)
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبۃ اللہ کے پاس کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔ دوسری طرف قریش کی ایک جماعت مجلس جمائے بیٹھی تھی کہ اس دوران میں ایک کہنے والے نے کہا کہ دیکھتے نہیں ہو اس کو جو ہمیںکھا کر نماز پڑھ رہا ہے۔ تم میں سے کون اُٹھے گا اور فلاں آدمی کی اُونٹنی کا اوجھ لے آئے جس میں گوبر، خون اور دیگر چیزیں بھری ہوئی ہیں، اور انتظار کرے کہ یہ سجدہ میں جائے اور پھر اس اوجھ کو اس کے دونوں شانوں کے بیچ میں رکھ دے تاکہ یہ اُٹھ نہ سکے۔ چنانچہ ان کا سب سے بڑا بدبخت شخص (عقبہ بن ابی معیط) اُٹھا اور اُونٹ کا اوجھ لے کر آگیا اور جب آپؐ سجدے میں گئے تو آپؐ کے دونوں شانوں کے بیچ میں رکھ دیا جس کے نتیجے میں آپؐ سجدے سے نہ اُٹھ سکے۔ اس حالت کو دیکھ کر کفارِ قریش ہنسنے لگے اور ایک دوسرے پر گرنے لگے، اور آپؐ کے ساتھ تمسخر کرکے مزے لیتے رہے۔ تب ایک شخص حضرت فاطمہؓ کی طرف دوڑا جو اس وقت نابالغ بچی تھیں (وہ شخص عبداللہ بن مسعود ہی تھے) انھیں جاکر صورت حال بیان کی۔ وہ دوڑتی ہوئی آئیں اور اس اوجھ کو آپؐ کے کندھوں سے گرا یا۔ پھر کفارِ قریش کی طرف متوجہ ہوئیں اور انھیں سخت سُست کہا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہوئے تو آپؐ نے کفارِ قریش کے خلاف بددُعا فرمائی۔ آپؐ نے فرمایا: اَللّٰھُمَّ عَلَیْک بِقُریشٍ، ’’اے اللہ! قریش کو پکڑ، اے اللہ! قریش کو اپنی گرفت میں لے، اے اللہ! قریش کو پکڑ‘‘۔ اس کے بعد ایک ایک کا نام لے کر ان کے خلاف بددُعا فرمائی۔ فرمایا: اے اللہ! عمرو بن ہشام (ابوجہل) ،عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، امیہ بن خلف، عقبہ بن ابی معیط اور عمارہ بن ولید کو پکڑ۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیںکہ میں نے ان سب کو بدر میں ہلاک ہوتے دیکھا۔ انھیں کھینچ کر ایک کنوئیں کی طرف لے جایا گیا اور ان سب کو اس میں ڈال دیا گیا۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو خطاب کر کے فرمایا: اس کنوئیں والوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت مسلط ہوگئی۔ (بخاری، کتاب الصلوٰۃ)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر مکہ میں جو آزمایشیں آئیں، اس کا ایک نمونہ اس حدیث میں پیش کیا گیا ہے۔ دونوں منظر آپ کے سامنے ہیں۔ ایک یہ منظر کہ کفارِ قریش نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا پہنچاکر خوشی منارہے ہیں اور آپ کا مذاق اُڑا رہے ہیں، اور دوسرا منظر یہ کہ ان کی لاشیں بدر کے کنوئیں میں پڑی ہیں اور ان پر لعنت مسلط ہے۔یہ دونوں مناظر اہلِ ایمان کو درس دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمایشیں آتی ہیں لیکن انجامِ کار اہلِ حق کی کامیابی ہوتا ہے۔ دنیا میں کامیابی اور خوشی ایک طرف اور آخرت کا ثواب جنت کی شکل میں دوسری طرف، تب جدوجہد اور بندگیِ رب میں سُستی کا کیا جواز ہے؟
o
حضرت عبداللہ بن ابی قتادہؓ اپنے والد حضرت ابی قتادہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک رات جنگ سے واپس ہوئے۔ رات کے آخری حصے میں پہنچے تو بعض صحابہ کرامؓنے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! اگر آپ رات کے اس آخری حصے میں پڑائو کردیں تو بہت اچھا ہوگا۔ آپؐ نے فرمایا: ایسی صورت میں مجھے ڈر ہے کہ تم نماز کے وقت سو جائو گے۔ اس پر حضرت بلالؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میں آپ لوگوں کو بیدار کردوں گا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑائو کرنے کا حکم دے دیا، چنانچہ لوگوں نے پڑائو کرلیا اور حضرت بلالؓ مشرقی اُفق کی طرف رُخ کر کے اپنی اُونٹنی کے کجاوے کے ساتھ ٹیک لگاکر بیٹھ گئے۔ تمام لوگ سو گئے اور حضرت بلالؓ پر بھی نیند کا غلبہ ہوگیا اور وہ بھی سو گئے۔ لوگ سوئے رہے حتیٰ کہ سورج نکل آیا تو سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے۔ آپؐ کے بعد حضرت بلالؓ اور دوسرے صحابہؓ بھی بیدار ہوگئے۔ آپؐ نے حضرت بلالؓسے پوچھا: بلالؓ! کہاں گئی تمھاری بات؟ حضرت بلالؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! آج جس قدر نیند کا غلبہ ہوا، اتنا غلبہ مجھ پر کبھی نہ ہوا تھا۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کو تسلی دی اور فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمھاری روحوں کو جب چاہا قبض کرلیا اور جب چاہا تمھاری طرف لوٹا دیا (یعنی جب چاہا سلا دیا اور جب چاہا بیدار کر دیا)، یعنی ایسی صورت میں جب نیند کا غلبہ ہوجائے تو پھر نماز کے قضا ہوجانے کا گناہ نہیں ہوتا۔ اس کے بعد آپ ؐ نے فرمایا: بلالؓ! کھڑے ہوجائو اور اذان دو۔ پھر آپؐ نے اور صحابہ کرامؓ نے وضو کیا اور سورج بلند ہوگیا اور چمکنے لگا تو آپؐ نے نماز باجماعت ادا فرمائی۔ (بخاری)
غلبۂ نیند کی وجہ سے نماز کا قضا ہو جانا تقویٰ اور نیکی کے خلاف نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے جلیل القدر صحابہ کرام ؓسے بھی غلبۂ نیند کی وجہ سے نماز فوت ہوگئی، اور رات کو پڑائو کی وجہ سے دو تین مرتبہ ایسے واقعات رونما ہوئے جن کا تذکرہ احادیث میں آتا ہے۔ تقویٰ اور طہارت و تزکیہ کے انتہائی بلندمقام پر فائز ہو نے کے باوجود نبی بھی انسانی عوارض سے متصف ہوتا ہے۔ وہ سوتا ہے، اسے بھوک پیاس بھی لگتی ہے اور بیماری بھی لاحق ہوتی ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر اور دیگر مواقع پر سونے سے منع فرمایا کہ کہیں سونے کی وجہ سے نماز قضا نہ ہوجائے لیکن آپ کو حضرت بلالؓ نے اطمینان دلا دیا کہ میں جگانے کا انتظام کردوں گا۔ تب آپؐ نے سونے کی اجازت دے دی۔ اس سے فقہا نے یہ مسئلہ نکالا ہے کہ اگر نماز کا وقت قریب ہو تو پھر نیند سے احتراز کرنا چاہیے مگر ایسی صورت میں نیند کی جاسکتی ہے جب نماز کے وقت اُٹھانے کا انتظام کیا جائے۔ اس سے نماز کے بروقت اور باجماعت پڑھنے کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے، نیز اس حدیث سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ صبح کی نماز قضا ہوجائے تو اس وقت ادا کی جائے جب سورج بلند ہوجائے اور چمکنے لگے۔ اس کی مزید وضاحت اس حدیث سے ہوتی ہے جو حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب سورج کا کنارہ طلوع ہوجائے تو نماز کو مؤخر کرو یہاں تک کہ سورج بلند ہوجائے، اور سورج کا کنارہ غائب ہوجائے تو نماز کو مؤخر کرو یہاں تک کہ وہ غروب ہوجائے۔
o
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں دنیا و آخرت، دونوں جہانوں میں، ہرمومن کے ساتھ زیادہ شفقت رکھتا ہوں۔ پھر آپؐ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ وَ اَزْوَاجُہٗٓ اُمَّھٰتُھُمْط (احزاب ۳۳:۶) ’’بلاشبہہ نبیؐ تو ایمان والوں کے لیے ان کی اپنی ذات پر مقدم ہے، اور نبیؐ کی بیویاں ان کی مائیں ہیں‘‘۔ پھر آپؐ نے فرمایا: جو فوت ہوگیا اور اس نے مال چھوڑا تو اس کے وارث اس کے قرابت دار ہوں گے جو بھی ہوں۔ اور جو شخص قرض اور چھوٹے بچے چھوڑ کر فوت ہوجائے تو وہ میرے پاس آئے، مَیں اس کا ذمہ دار ہوں۔ (بخاری)
یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت کی ایک مثال ہے کہ آپؐ نے فرمایا: جس کا کوئی وارث اور کفیل نہیں ہے، اس کا مَیں کفیل ہوں۔ اسی بنا پر اسلامی حکومت ایسے تمام ضعیف لوگوں کی کفیل ہوتی ہے جن کا کوئی کفیل نہ ہو۔ ایک فلاحی اور رفاہی ریاست کا تصور اسلام نے دیا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور اسوئہ حسنہ کا عکس ہے۔
o
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتا ہے، اس حال میں کہ گُوز مارتا ہے۔ جب اذان ختم ہوجاتی ہے تو واپس آجاتا ہے۔ جب اقامت کہی جاتی ہے تو پھر پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتا ہے۔ جب اقامت ختم ہوجاتی ہے تو واپس آجاتا ہے اور آدمی اور اس کے نفس کے درمیان حائل ہوجاتا ہے (وسوسہ اندازی شروع کر دیتا ہے)، اور انسان کو وہ چیزیں یاد دلاتا ہے جو اسے یاد نہیں ہوتیں۔ یہاں تک کہ انسان بھول جاتا ہے کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں۔ (بخاری، باب فضل التاذین)
اذان میں چار مرتبہ اللہ تعالیٰ کی کبریائی ، دو مرتبہ اللہ تعالیٰ کی توحید ، دو مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اعلان ہوتا ہے، نیز نماز کے لیے بلاوا اور پھر پورے دین کی طرف بلاوا ہوتا ہے۔ اس کے بعد دو مرتبہ پھر اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا اور توحید باری تعالیٰ کا اعلان ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی کبریائی اور توحید و رسالت کا اعلان اور نماز اور پوری دنیا کی طرف بلاوا شیطان کو خوف زدہ کردیتا ہے، وہ بھاگ کھڑا ہوتا ہے اور اس وقت واپس آتا ہے جب اذان ختم ہوجاتی ہے۔ اس سے اذان کی فضیلت واضح ہوتی ہے۔ محدثین نے اس حدیث کو باب فضل التاذین میں ذکر کیا ہے۔ اس حدیث سے اہلِ ایمان کو حوصلہ ملتا ہے کہ ان کے پاس وہ کلمات اور دعوت ہے جو شیطان کو خوف زدہ کردینے والی ہے، شیطان کو بھگا دینے والی ہے، اس لیے انھیں مطمئن ہونا چاہیے کہ شیطان ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا بلکہ خود خوف زدہ ہوکر بھاگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بھی ارشاد فرمایا ہے: اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْھِمْ سُلْطٰنٌ (الحجر۱۵:۴۲) ’’یقینا میرے بندوں پر تیرا تسلط نہیں ہوگا‘‘۔ البتہ وہ وسوسہ اندازی کا کام کرے گا اور نماز کو خراب کرنے کی کوشش کرے گا۔ لہٰذا اہلِ ایمان کو چاہیے کہ اپنی عبادات اور نماز میں اللہ تعالیٰ کی طرف پوری طرح رجوع کریں اور وسوسوں کا شکار نہ ہوں۔
فلسفے کا دائرہ ہمیشہ فکر کا دائرہ ہے۔ فلسفی کو عملی زندگی اور تاریخ کے مدّوجزر سے براہِ راست واسطہ نہیں ہوتا۔ وہ واقعات و احوال سے نتائج تو نکالتا ہے لیکن واقعات و احوال کا رُخ بدلنے کے لیے کسی عملی جدوجہد میں حصہ نہیں لیتا۔ مذہب (مروجہ محدود معنوں میں) ذرا سا آگے بڑھتا ہے، وہ کچھ اعتقادات دینے کے ساتھ ساتھ فرد کو تمدّن سے الگ کر کے اسے ایک اخلاقی تعلیم بھی دیتا ہے۔ لیکن مذہب کا راستہ نظامِ اجتماعی سے باہر باہر ہوکے گزرتا ہے اور وہ نہ سیاسی ہیئت سے کوئی تعرض کرتا ہے، نہ معاشرے کے ادارات میں کوئی جامع تبدیلی چاہتا ہے، اور نہ وقت کی قیادت کو چیلنج کرتا ہے۔
مذہب کی دعوت ہمیشہ وعظ کے اسلوب پر ہوتی ہے۔ واعظ نے نرم و شیریں انداز سے کچھ نصیحتیں کیں اور اپنا رستہ لیا۔ اسے نہ اس کی فکر کہ اس کے مخاطب حالات کے کس قفس میں گرفتار ہیں، نہ اس کی پروا کہ کون سے طبقے اور عناصر کن اقدامات اور سرگرمیوں سے لوگوں کے ذہن و کردار کو کس رُخ پر لے جارہے ہیں، نہ اس طرف توجہ کہ روزمرہ حالات و واقعات کی رُو کیا اثرات چھوڑ رہی ہے، نہ یہی کاوش کہ میرے وعظ کے حق میں اور اس سے خلاف کیا کیا افکارونظریات کس کس جانب سے کتنا اثر ڈال رہے ہیں، نہ یہ پیشِ نظر کہ میرے مذہبی سانچے میں ڈھلنے والے متقی ترین افراد کیسے نظامِ تمدن کے پُرزے بنے ہوئے ہیں۔ کوئی اجتماعی نصب العین نہیں ہوتا۔ تبدیلی کا کوئی منصوبہ نہیں ہوتا۔ کسی سیاسی اور قائدانہ بصیرت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ زندگی کے ایک چھوٹے سے خانے میں جزوی نیکی پیدا کرنے کے لیے جو کچھ بن آیا کردیا اور بقیہ وسیع دائرے میں بدی اپنا جھنڈا اطمینان سے لہراتی رہے۔ کسی اللہ والے کو اس سے کیا مطلب!
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نہ تو ایک فلسفی تھے کہ محض چند اُونچے اور گہرے خیالات دے دیتے، اور واقعاتی احوال سے تعرض نہ کرتے، اور نہ ایک واعظ تھے جو اجتماعی فساد سے آنکھیں بند کر کے محض فرد کو مخاطب بناتے اور ٹھنڈے اور میٹھے وعظ سنایا کرتے اور نتائج پر سرے سے سوچا ہی نہ کرتے۔ انسانیت کے اس محسن نے پورے تمدنی شعور کے ساتھ حیاتِ انسانی کی کامل تبدیلی پیشِ نظر رکھی۔ ان قوتوں اور عناصر کو پہچانا جو نظامِ حیات پر حاوی تھیں۔ اس قیادت کو زیرنظر رکھا جو جاہلی تمدن کی گاڑی چلا رہی تھی۔ اسے دلائل کے ساتھ دعوت بھی دی، اس پر تنقید بھی کی اور اسے چیلنج بھی کیا۔ تاریخ کے دھارے پر نگاہ رکھی۔ حالات و واقعات کی ایک ایک لہر پر توجہ دی۔ ہرواقعے کو قائدانہ بصیرت اور سیاسی شعور کے ساتھی دیکھا کہ وہ کس پہلو سے اصلاح کی مہم کے لیے مفید ہے اور کس پہلو سے خلاف جاتاہے۔ معاشرے کے جملہ عناصر پر توجہ رکھی کہ دعوت کے لیے کس موقع پر کس سے کیا اُمیدیں کی جاسکتی ہیں۔ اپنی قوت اور رفتار کو حریفوں کی قوت و رفتار کے مقابل میں ملحوظ رکھا۔ ہراقدام کے لیے صحیح ترین وقت کا انتظار صبر سے کیا اور جب موزوں گھڑی آگئی تو جرأت سے قدم اُٹھا دیا۔ راے عام کے ہرمدّوجزر کا کامل فہم حاصل کیا اور مخالفین کے ہرپروپیگنڈے کا مقابلہ کرکے ان کے اثرات کو توڑا۔ شعر اور خطابت کے مخالفانہ محاذ قائم ہوئے تو ان کے جواب میں اپنے شعرا اور خطیبوں کو کھڑا کیا۔ اپنے اصولوں کی کڑی پابندی کی مگر آنکھیں بند کرکے نہیں، بلکہ احوال و ظروف کو دیکھا، وقت کی مصلحتوں کو سمجھا اور حکیمانہ نقطۂ نگاہ اختیار کیا۔ جہاں قدم آگے بڑھانے کا موقع ملا ، آگے بڑھایا۔ آگے بڑھنا جب موزوں نہ دیکھا تو قدم روک لیا۔ دو بلائیں سامنے آگئیں تو ایک سے بچ کر دوسری کا مقابلہ کیا۔ جنگی کارروائی کی ضرورت پڑی تو دریغ نہیں کیا۔ مصالحت کی راہ ملی تو دستِ صلح بڑھا دیا۔ اور پھر کمال یہ کہ اس ساری جدوجہد میں خداپرستی کی روح اور اخلاقی اقدار کا نہ صرف تحفظ کیا، بلکہ ان کو مسلسل نشوونما دی۔ اس پورے نقشۂ کار اور اس پورے طریق کار کو اگر قرآن اور سیرتِ پاک کے اوراق سے اخذ کر کے سامنے رکھیے تو وہ فرق بیّن طور پر معلوم ہوجائے گا جو مذہب اور دین میں، وعظ اور انقلابی دعوت میں، انفرادی تزکیے اور تمدنی تحریک میں ہوتا ہے۔
حضوؐر نے چونکہ ایک مکمل دین کو برپا کرنے کے لیے تحریک برپا کی تھی، اس لیے آپؐ نے ایک ایک کرکے سلیم الفطرت افراد کو تلاش کیا۔ پھر جس کے سینے میں بھی کلمۂ حق کی شمع روشن ہوگئی اسے ایک تنظیم میں پرو دیا۔ اس کی تربیت کی، اسے اپنے ساتھ کش مکش کی بھٹی میں ڈالا اور پھر جس مرحلے میں جتنی منظم قوت حاصل تھی، اُسے اپنی قیادت کے تحت جاہلی نظام کے خلاف معرکہ آرا کیا، فکری میدان میں بھی، سیاسی میدان میں بھی___ اور بالآخر جنگ کے میدان میں بھی!
جو لوگ حضوؐر کے گرد جمع ہوئے، ان کو آپؐ نے صوفی اور درویش نہیں بنایا، راہبوں اور جوگیوں کے نقشے پر نہیں ڈھالا، بدی سے بھاگنے اور غالب قوتوں سے خوف کھانے اور دولت و اقتدار سے مرعوب ہونے والی ذہنیت انھیں نہیں دی۔ وہ لوگ بھولے بھالے اور معذورانہ شان کے زہّاد نہیں تھے۔ وہ جر.ّی اور بے باک، باشعور اور بصیرت مند، خوددار اور غیور، ذہین اور زیرک، فعّال اور متحرک، پیش رُو اور تیزگام تھے۔ وہ پادریوں اور سادھوئوں کے سے انداز نہیں رکھتے تھے بلکہ کارفرما بننے کی صلاحیتوں سے آراستہ تھے۔
بہترین فطرت کے لوگ بہترین تربیت پاکر، بہترین تنظیمی رشتے سے بندھ کر اور بہترین قیادت کے ہاتھوں میں جاکر ایک ناقابلِ شکست قوت بن گئے۔ یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں نے ایک چھوٹی سی اقلیت میں ہونے کے باوجود سارے عرب کی عظیم ترین اکثریت کو اپنے سایے میں لے لیا۔ جب مکّہ میں جماعت اسلامی کی تعداد ۴۰ تھی، تو مکّہ اور اردگرد کی آبادیوں میں اس تعداد نے ایک ہمہ وقتی مدّوجزر پیدا کر دیا اور پھر برسوں تک گھرگھر اور کوچہ کوچہ اگر کوئی موضوعِ گفتگو تھا تو وہ حضوؐر کی دعوتِ اسلامی تھی۔ مدینہ میں جاکر ابھی تحریکِ اسلامی کے علَم برداروں کی تعداد چند سو سے زیادہ نہ تھی کہ غیرمسلم اکثریت کے علی الرغم اسلامی ریاست کی ِ نیو ڈال دی گئی۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور حضوؐر کی جماعت کا طرز یہ نہیں تھا کہ پہلے سارا عربی معاشرہ اسلام قبول کرلے، یا اس کی اکثریت کی اصلاح ہوجائے تو پھر جاکر نظامِ اجتماعی کی تاسیس کی جائے۔ نہ نقطۂ نظر یہ تھا کہ بس دعوت دیتے رہو، خیالات و اعتقادات کی اصلاح کرتے رہو، بالآخر ایک صالح نظام خودبخود برپا ہوجائے گا، یا بطورِ انعام اللہ تعالیٰ حق کو غلبہ دے دیں گے۔ وہاں تاریخ کی یہ حقیقت سامنے تھی، کہ عوام کی بھاری اکثریت حالت ِ جمود میں پڑی رہتی ہے، اور معاشرے کا ایک قلیل عنصر فعّال ہوتا ہے جس میں سے ایک حصہ اصلاح یا انقلاب کی دعوت کا علَم بردار بنتا ہے اور ایک حصہ مزاحمت کرتا ہے۔ اصل بازی اسی فعّال عناصر کی دونوں صفوں کے درمیان ہوتی ہے، اور اس کا جب فیصلہ ہوجاتا ہے تو پھر عوام خودبخود حرکت میں آتے ہیں۔ یہاں یہ شعور پوری طرح کارفرما تھا کہ عوام کے راستے میں جب تک ایک فاسد قیادت حائل رہتی ہے اور ان کی زندگیوں کو بگاڑنے کی مہم جاری رکھتی ہے، یا کم از کم ان کو جمود میں ڈالے رکھتی ہے، وہ نہ کسی دعوت کو بڑے پیمانے پر قبول کرسکتے ہیں، نہ اپنی عملی زندگیوں میں تبدیلی لاسکتے ہیں۔ خود دعوت پر لبیک کہنے والوں کے لیے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ فاسد قیادت کے بنائے ہوئے گندے ماحول میں اپنی زندگی کو حدِّکمال تک سنوار سکیں، بلکہ اُلٹا اگر تبدیلی برپا ہونے میں بہت زیادہ تاخیر ہو تو بسااوقات، اُس مقام کو برقرار رکھنا بھی کٹھن ہوجاتا ہے، جس پر داعیانِ حق لمبی محنت سے پہنچتے ہیں۔ کیونکہ مخالف حالات پیچھے دھکیلنے کے لیے پورا زور صرف کر رہے ہوتے ہیں۔ پس کسی اجتماعی تحریک کے لیے راہِ عمل یہی ہوتی ہے کہ وہ معاشرے کے فعّال عنصر میں سے سلیم الفطرت افراد کو چھانٹ کر جتنی زیادہ سے زیادہ قوت جمع کرسکتی ہو، اسے کش مکش میں ڈال کر مقابل کی قیادت کا محاذ توڑدے۔
تاریخ گواہ ہے کہ تمام انقلابات فعّال اقلیتوں کے ہاتھوں واقع ہوئے ہیں۔ معاشرے کے فعّال عنصر میں سے تعمیرواصلاح کی دعوت چونکہ نسبتاً زیادہ سلیم الفطرت افراد کو کھینچتی ہے، ان میں ایک مثبت جذبہ بیدار کرتی ہے، اور اُن کی تربیت کرکے ان کی اخلاقی قوت کو بڑھا دیتی ہے۔ اس لیے مقابل میں رہ جانے والا طبقہ اثرواقتدار، مال و جاہ اور کسی قدر عددی کثرت رکھنے کے باوجود مقابلے میں زک اُٹھاتا ہے۔ معرکۂ بدر اس کا ایک نمایاں ثبوت ہے۔ پس جب حضوؐر کے گرد عرب معاشرے کے فعّال عنصر میں سے سلیم الفطرت افراد کی اتنی تعداد جمع ہوگئی کہ وہ اخلاقی قوت سے سرشار ہوکر جاہلی قیادت اور اس کے حامیوں کا مقابلہ کرسکے، تو حضوؐر نے اپنے سیاسی نصب العین کی طرف کوئی ضروری قدم اُٹھانے میں ذرا بھی تامل نہیں کیا۔
فتح مکہ کا اصل مفہوم یہی ہے کہ اس موقع پر جاہلی قیادت کا پوری طرح خاتمہ ہو گیا اور اس رکاوٹ کے ہٹتے ہی عوام صدیوں پرانے [غلامی کے] جوئے سے آزاد ہوکر دعوتِ حق کو لبیک کہنے کے لیے ازخود آگے بڑھنے لگے۔
تاریخ میں کوئی ایک مثال بھی ایسی موجود نہیں ہے کہ فاسد قیادت کے زیرسایہ کوئی نظامِ فلاح پنپ سکا ہو اور بغیر سیاسی کش مکش کے محض وعظ و تبلیغ اور انفرادی اصلاح کے کام سے اجتماعی انقلاب نمودار ہوگیا ہو۔ ورنہ گذشتہ ۱۳ صدیوں میں خلافت ِ راشدہ کے بعد وعظ و ارشاد، تبلیغ و تذکیر، تعلیم و تزکیہ کے عنوان سے عظیم الشان مساعی، مساجد، مدارس اور خانقاہوں کے ادارات کے تحت عمل میں آتی رہی ہیں، اور آج بھی علما و صوفیہ، اصحابِ درس اور اربابِ تصانیف زبان و قلم سے جتنا کام کررہے ہیں، اس کی وسعت حیران کن ہے۔ لیکن اس کے باوجود نہ اس حدِ مطلوب تک افراد کا تزکیہ ہوسکا ہے اور نہ کبھی معاشرے کی اتنی اصلاح ہوسکی ہے جس کے نتیجے میں اجتماعی نظام بدل جائے اور محمد رسول اللہ کا انقلاب دوبارہ رونما ہوسکے۔ صاف ظاہر ہے کہ طرزِفکر اور نقشۂ کار اور نظریۂ انقلاب میں کوئی بڑا جھول ہے۔ وہ جھول یہی ہے کہ قیادت کی تبدیلی کے لیے سیاسی کش مکش کیے بغیر افراد کو نظامِ تمدّن سے منقطع کر کے دعوت کا مخاطب بنایا جاتا رہا ہے۔
لوگ جب یہ کہتے ہیں کہ دین کی اقامت اور اسلامی نظام کا برپا ہوجانا تو اصل مطلوب نہ تھا، اور یہ محض انعامِ خداوندی کے طور پر یکایک بیچ میں آنمودار ہوا، تو وہ حضوؐر کے کارنامے اور آپؐ کی جدوجہد کی سخت ناقدری کرتے ہیں اور حضوؐر کی قائدانہ بصیرت اور سیاسی عظمت پر غبار ڈال دیتے ہیں۔
ذرا غور کیجیے کہ اس ہستیؐ نے کتنی تگ و دو کرکے مدینہ کے مختلف عناصر کو چند ماہ کے اندر اندر دستوری معاہدے کے تحت جمع کیا۔ کس عرق ریزی سے اردگرد کے قبائل سے حلیفانہ تعلقات قائم کیے۔ کس مہارت سے مٹھی بھر مسلمانوں کے بل پر ایک مضبوط فوجی نظام اور طلایہ گردی کا سلسلہ قائم کیا۔ کس کاوش سے قریش کی تجارتی شاہراہ کی ناکہ بندی کرلی۔ کس عزیمت کے ساتھ قریش کے خنجربرّاں کا مقابلہ کیا۔ کس زیرکی سے یہود اور منافقین کی سازشوں کی کاٹ کی۔ کس مہارت سے حدیبیہ کا معاہدہ کیا۔ کس ہمت سے یہود کے مراکزِ فتنہ کی بیخ کنی کی۔ کس بیدار مغزی کے ساتھ بے شمار شرپسند قبائل کی علاقائی شورشوں کی سرکوبی کی۔ اس سارے کام میں قائدانہ بصیرت، سیاسی مہارت اور مضبوط حکمت عملی کے جو حیرت ناک شواہد پھیلے ہوئے ہیں، ان سے لوگ کس طرح صرفِ نظر کرلیتے ہیں۔ یہ کہنا کہ یہ سب کچھ خدا کا انعام تھا بالکل ٹھیک ہے لیکن اس معنی میں کہ ہربھلائی خدا کا عطیہ و انعام ہوتی ہے۔ تاہم انسانوں کو کوئی انعام ملتا جبھی ہے کہ وہ اس کے لیے ضروری محنت عقل و بصیرت کے ساتھ کردکھائیں۔ اقامت ِدین کو خدا کا انعام کہہ کر اگر کوئی شخص رسولِؐ خدا کی جدوجہد، جاں فشانی ، حکمت و بصیرت اور سیاسی شعور کی نفی کرنا چاہتا ہے توو ہ بڑا ظلم کرتا ہے۔
بدقسمتی سے حضوؐر کے کارنامے کا سیاسی پہلو اتنا اوجھل رہ گیا ہے کہ آج حضوؐر کی دعوت اور نصب العین کے صحیح تصور کا اِدراک مشکل ہوگیا ہے۔ اس پہلو کو جب تک پوری سیرت میں سامنے نہ رکھا جائے، وہ فرق سمجھ میں آہی نہیں سکتا، جو محدود مذہبیت اور دین کے وسیع تصور میں ہے۔ حضوؐر پورا دین لائے تھے۔ حق کی بنیادوں پر ساری زندگی کا نظام قائم کرنے آئے تھے۔ خدا کے قوانین کو عملاً جاری کرنے آئے تھے۔ اس لیے ہمیں یہ شعور ہونا چاہیے کہ حضوؐر جامع اور وسیع معنوں میں تمدنی اصلاح اور انسانیت کی تعمیرنو کی تحریک چلانے آئے تھے، اور اس تحریک کو چلانے کے لیے بہترین قائدانہ بصیرت اور اعلیٰ درجے کے سیاسی شعور سے آپؐ کی ہستی مالامال تھی۔ جس طرح کسی اور پہلو میں حضوؐر کا کوئی ہم سر نہیں ہوسکتا، اسی طرح سیاسی قیادت کی شان میں بھی آپؐ کا کوئی ہم سر نہیں ہے۔ جس طرح آپؐ زندگی کے ہرمعاملے میں اسوہ و نمونہ ہیں، اسی طرح سیاسی جدوجہد کے لیے بھی آپؐ ہی کی ذات ہمیشہ کے لیے اسوہ و نمونہ ہے۔
حضوؐر کا کارنامہ یہ ہے کہ آپؐ نے نیکی کی دعوت دی، نیکی کے غلبے کے لیے جدوجہد کی، اور ایک مکمل نظام قائم کر دیا۔ یہ کام مذہب کے محدود تصور کے دائرے میں سما نہیں سکتا۔ یہ دین تھا، یہ تحریک تھی!(محسنِ انسانیتؐ، ص ۳۹-۴۴)
قیادت، منصب اور عہدے کی خواہش، تمنا اور آرزو موجودہ دور کا نیا فتنہ ہے۔ عمومی چلن یہ ہے کہ اقتدار، وزارت، صدارت، عہدے اور مناصب کے لیے کوشش، دوڑ دھوپ، گروپ بندی، نجویٰ، سازشیں عام بات ہوگئی ہیں، حتیٰ کہ آج کا انسان عہدے اور منصب کے لیے اُصول و اخلاق کی تمام حدوں کو پار کرنے لگا ہے۔
قیادت و سیادت پر کسی کو فائز کرنے کے مختلف طریقے رائج ہیں۔ کہیں نامزدگی ہے، کہیں الیکشن ہے، اور کہیں نسل در نسل اقتدار کی منتقلی ہوتی ہے لیکن قیادت و منصب حاصل کرنے کا شوق، خواہش، آرزو، تمنا، ہر جگہ نظر آتا ہے۔ ملک، قوم، علاقہ، سیاسی یا سماجی تفریق کے بغیر یہ چیز عام ہے، کیونکہ قیادت و منصب، عزت وشہرت، نام وَری، آرام و آسایش، دنیاوی چکاچوند، رعب و دبدبہ کے حصول کا آسان ذریعہ بن گیا ہے۔ قیادت و منصب کے دعوے دار عموماً اپنی اس خواہش کے پیچھے قوم و ملت کی خدمت و سربلندی، ملک کی ترقی، تنظیم کا استحکام اور بعض وقت دین کی خدمت کا بھی دعویٰ کرتے ہیں، لیکن مشاہدہ بتلاتا ہے کہ حصولِ مقصد کے بعد وہ اپنے پوشیدہ مقاصد کے لیے سرگرم ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ دنیاوی جاہ و عظمت، شہرت و عزت و نام وَری، اشتہار بازی، آرام و آسایش کی تمنا اور اقربا پروری ان کی روز مرہ سرگرمیوں میں بہ آسانی نظر آتی ہے۔ اس کے برعکس الحمدللہ اسلامی تحریکات اس مرض اور اس ذہنیت سے دُور ہیں، تاہم اگر کہیں اس کے آثار پاے جاتے ہون تو ان کے سدباب کی فکر کی جانی چاہیے۔
دین اسلام کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ اسلام نے عہدہ و منصب کے سلسلے میں بھی اپنے ماننے والوں کو واضح رہنمائی کی ہے۔ چنانچہ سب سے پہلی چیز یہ سکھلائی گئی کہ کوئی بھی فرد اپنے اندر عہدہ یا منصب کی آرزو یا تمنا نہ رکھے۔ نبی کریمؐ کا ارشاد ہے: ’’کبھی امارت کی طلب نہ کرو۔ اگر تمھیں مانگنے سے ملے تو تم نفس کے پھندوں میں پھنس جائو گے اور اگر بے طلب ملے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمھاری مدد ہوگی‘‘۔ آپؐ نے فرمایا: ’’ایک زمانہ آئے گا کہ تم لوگ امارت و سرداری کی تمنا کرو گے حالانکہ یہ قیامت کے دن ندامت کا سبب ہوگی‘‘(بخاری)۔ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ نے ایک اور حدیث روایت کی ہے کہ ان کے ساتھ آئے ہوئے اشعریوں میں سے دو اشخاص نے نبی کریمؐ سے عہدہ طلب کیا تو آپؐ نے فرمایا: ہم اس شخص کو جو عہدے کا طلب گار ہو، کام اورعہدے کی ذمہ داریاں سپرد نہیں کرتے‘‘۔ مذکورہ احادیث کی روشنی میں جب مسلم معاشرے کا جائزہ لیں تو پتا چلے گا کہ مذکورہ ہدایات سے گویا کہ لوگوں نے منہ پھیر لیا ہے۔ چنانچہ مختلف انداز، طور طریقے اور رنگ ڈھنگ علانیہ اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ کس شخص میں عہدہ اور منصب کی خواہش انگڑائیاں لے رہی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی نے اپنے دستور میں واضح طور پر یہ ہدایت دی ہے کہ عہدے کے خواہش مند افراد کا کسی بھی فورم کے لیے انتخاب نہ کیا جائے۔ دوسری اہم چیز جو اسلام اپنے ماننے والوں کو اس سلسلے میں سکھاتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ عہدہ یا منصب کے لیے کیسے انتخاب کریں۔
اُمت مسلمہ میں علما اور حکمرانوں کو خاص اہمیت حاصل ہے کیوں کہ جب تک یہ اسلام پر ثابت قدم رہیں گے اور اسلام پر کاربند رہیںگے تو ساری اُمت بھی اسلام پر چلے گی اور اسلام کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے گی۔ جس قوم کے حکمران درست نہیں ہوتے وہ قوم بھی درست نہیں ہوتی۔ اسی طرح کسی تحریک اور جماعت کے استحکام، فروغ اور پھیلائو کا دارومدار بھی اس جماعت کے سربراہ پر منحصر ہوتا ہے۔ کوئی جنگ محض فوجیوں کی کثرت اور وسائل کی فراوانی کی بنیاد پر نہیں جیتی جاتی بلکہ فوج کے سربراہ کی قابلیت، ذہانت، چابک دستی، دانش مندی اور احساسِ ذمہ داری کے سہارے جیتی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دو گروہ ہیں، اگر وہ درست ہوں تو اُمت درست ہے اور اگر وہ بگڑ جائیں تو اُمت بگڑ جائے: حکمران اور علما‘‘۔
اخوان المسلمون کے مشہور رہنما محمد الغزالی نے قیادت و منصب کے متعلق بڑی جامع باتیں ارشاد فرمائی ہیں: ’’ہماری تاریخ اسلام میں پھیلنے والی بدترین خصلت قیادت سے محبت اور امارت کی حرص ہے، جب کہ اسلام نے اس سے سختی سے ڈرایا ہے اور اُمت کو صاف حکم دیا ہے کہ جو شخص اس کی خواہش رکھتا ہو، اس کا لالچ اسے جدوجہد پر آمادہ کرتا ہو، اور وہ اس مرتبے پر پہنچنے کے لیے تمام ممکن ذرائع و وسائل استعمال کرتا ہو، یہ عہدہ اور منصب کبھی اس کے حوالے نہ کیا جائے۔ لیکن ہمارے یہاں ایسے افراد کی کمی نہ تھی جو قیادت سے عشق رکھتے تھے تاکہ سوسائٹی پر اپنی چودھراہٹ مسلط کر سکیں، ان میں ایسے افراد کم تھے جو اپنے اندر قیادت اور رہنمائی کی صلاحیت اور صفات کے حامل تھے، بلکہ بیش تر اپنی ذات کو نمایاں کرنے اور دوسروں سے آگے بڑھ جانے کی خواہش کے مریض تھے۔ نیک بخت قومیں اپنی قیادت کی باگ ڈور ان لوگوں کے ہاتھوں میں دیتی ہیں جو کسی ذمہ داری کو لیتے ہوئے قلق اور اضطراب میں مبتلا ہوجاتے ہیں، اور دولت و ثروت سمیٹنے اور دوسروں پر برتری جمانے کے عزائم ان کے اندر دب چکے ہوتے ہیں۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ اسلامی تاریخ کو ایسے افراد اور خاندانوں ہی نے ریزہ ریزہ کیا جو حکومت کو واسطہ بنا کر اقتدار اور عیش و عشرت پر قابض ہوجانا چاہتے تھے۔ تباہی ہے ایسی اُمت کے لیے جس نے اپنی زمامِ کار بدترین لوگوں کے حوالے کی اور اِس خدائی فرمان سے سرکشی کا اظہار کیا: ’’بے شک اللہ انھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں (عہدے اور مناصب) اہل لوگوں کے سپرد کرو‘‘۔
عہدہ اور منصب کی طلب یقینا ایک فتنہ ہے لیکن اس سے بڑی خرابی یہ ہے کہ کسی ملک، قوم، جماعت اور گروہ کی سربراہی کے لیے لوگ عہدہ اور منصب کے طلب گاروں یا نااہلوں کے حق میں راے دیں یا ان کی تائید کریں۔ اپنے مفادات کے لیے، دوستی یا تعلق کی بنا پر احسان کی قیمت کے طور پر یا کسی اور غرض یا وجہ سے اہل، قابل، باصلاحیت اور موزوں افراد کے مقابلے میں کمزور، نااہل یا غیرموزوں افراد کے حق میں راے دینا یا ان کے حق میں فیصلہ کرنا یا ان کا تقرر کرنا صریح طور پر حکمِ الٰہی کی خلاف ورزی ہے۔ بعض لوگ اپنی راے کا استعمال یوں ہی بے سمجھے بوجھے یا عدم سنجیدگی کے عالم میں کردیتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر غیر موزوں افراد مختلف عہدوں اور مناصب پر براجمان ہوجاتے ہیں۔ یہ بھی ہدایت الٰہی سے صرفِ نظر کرنے کے مماثل ہے۔ بسااوقات لوگ راے کا استعمال کرتے ہوئے دوسروں کے مشوروں کو بلاسوچے سمجھے قبول کرلیتے ہیں اور جس منصب کے لیے انھیں راے دینا ہے اس منصب کے لیے ضروری صفات کو ملحوظ نہیں رکھتے۔ ایسے میں نااہل لوگوں کا انتخاب ہونے کا امکان رہتا ہے جس کی وجہ سے بعد میں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح کے رویے سے بچنا بھی نہایت ضروری ہے۔ تحریک اور تنظیم کے فروغ اور استحکام کی فکر کرنا اور انتخاب کے موقع پر عدم سنجیدگی کا رویہ اختیار کرنا بجاے خود توجہ طلب ہے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: جب امانتیں ضائع کی جانے لگیں تو قیامت کا انتظار کرو۔ (پوچھا گیا) یارسولؐ اللہ، امانت کا ضائع ہونا کیسے ہوگا؟ فرمایا: ’’جب کام نااہل کے سپرد کیا جانے لگے تو قیامت کا انتظار کرو‘‘۔ (بخاری)
فی زمانہ تنظیموں، اداروں، انجمنوں اور سوسائٹیوں کے عہدے اور منصب، نام و نمود، مختلف فوائد و مراعات، عیش و سرور کا ذریعہ بن گئے ہیں جس کی وجہ سے عہدوں اور مناصب کی طلب اور لالچ میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ تنظیم در تنظیم اور فورم در فورم کا لامتناہی سلسلہ ہر طرف نظر آتا ہے۔ بدقسمتی سے دین و ملّت کی خدمت کے دعوے دار اور تقویٰ و پرہیزگاری کے پیکر بھی اس کیفیت سے محفوظ نہیں رہ سکے، حالانکہ اللہ کے آخری رسول نے قیادت و منصب پر فائز افراد کو ان کی ذمہ داریوں کے تئیں واضح احکام بیان فرمائے ہیں اور وعیدیں سنائی ہیں:
اسلام میں قیادت و سیادت کا مقام دین کے قیام، اعلاے کلمۃ اللہ، اللہ کی سرزمین پر اللہ کے احکام و فرائض نافذ کرنے اور اہلِ حاجات کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے متعین کیا گیا ہے۔ حضرت عمر بن خطابؓ نے فرمایا: ’’سربراہ کی ناسمجھی اور جذباتی اور بے سمجھے بوجھے کام کرنے سے زیادہ نقصان دہ اور ناپسندیدہ کوئی دوسری نادانی نہیں ہے۔ ایک حاکم کی عیش کوشی سے زیادہ اللہ کو کسی اور کی عیش کوشی اور جہالت ناپسند نہیں‘‘۔ جو لوگ قیادت و منصب پر فائز ہوتے ہیں، ان کے مشیروں اور معاونین کے کردار کی بھی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ اگر وہ رضاے الٰہی کو اوڑھنا و بچھونا بناتے ہیں تو وہ اہلِ منصب کی صحیح رہنمائی کرسکتے ہیں اور حق و ناحق اور صحیح و غلط کا بروقت اظہار کرسکتے ہیں، جس سے اہلِ منصب اور قیادت پر مامور افراد بھی حق و انصاف پر قائم رہ سکتے ہیں اور دنیاوی خرابیوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں، ورنہ وہ عیش و عشرت کے اسیر دُنیا کی چکاچوند سے متاثر، مفادات کے غلام اقربا پروری کے پروردہ بن جاتے ہیں۔ چنانچہ حضرت کعب بن عجرۃ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم نو آدمی بیٹھے ہوئے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا: ’’دیکھو! میرے بعد ایسے امرا آئیں گے کہ جو ان کی جھوٹی باتوں کو سچ کہے گا اور ان کے ظلم کرنے میں مدد کرے گا، نہ اس کا مجھ سے کوئی تعلق ہے اور نہ میرا اس سے کوئی تعلق۔ قیامت کے دن وہ میرے حوض پر بھی نہ آسکے گا‘‘۔ (نسائی)
وہ لوگ جو قوم و ملت کی قیادت کا دعویٰ کرتے ہیں، ملک و قوم کی رہنمائی کرنے کے متمنی ہیں اور قیادت و منصب کے حامل ہیں، چاہے ان کا دائرہ کار محدود ہی کیوں نہ ہو، انھیں مندرجہ بالا احادیث مبارکہ کی روشنی میں اپنے قول و فعل کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اگر وہ اپنے، اقربا و احباب کی پسند، منفعت، مفاد اور فائدے کی خاطر اور زمانہ اور زمانہ پرستوں سے متاثر ہوکر زندگی گزاریں گے تو کبھی بھی فلاح نہیں پاسکتے۔ فلاح و کامیابی اور خوشنودی رب کا راز تو رضاے الٰہی، مرضی الٰہی اور ہدایتِ رسولؐ و شریعت کی بے چوں و چرا پابندی ہی میں مضمر ہے۔ (حیدرآباد، بھارت)
وحی متلو.ّ اور غیر متلو.ّ ، یعنی قرآن و سنت، فقہ اسلامی کے بنیادی مآخذ ہیں۔ ان کے بعد اجتہاد کا درجہ ہے جس پر اگر باہمی اتفاق ہوجائے تو اجماع قرار پاتا ہے اور مصادر نقلیہ (قرآن و سنت و اجماع) میں وحی کے بعد اس کی حجیت اور اہمیت مسلّمہ ہے۔ اجتہاد اگر اجماع کا درجہ نہ پاسکے تو وہ انفرادی راے کے درجے میںہوگا اور عامی کے لیے عمل کے سلسلے میں اس کے حجت ہونے پر اکثر اہل علم متفق ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ائمہ اربعہ اور دیگر فقہاے مجتہدین کی اجتہادی آرا ایک وقیع سرمایے کی حیثیت رکھتی ہیں جس سے ہر دور میں اُمت نے استفادہ کیا ہے اور دینی مسائل میں بجاطور پر رہنمائی حاصل کی ہے۔ علماے محققین ابتدا ہی سے اس بارے میں اعتدال و توازن کی راہ اپنانے پر زور دیتے آئے ہیں کہ اگر فقہی مذاہب کی کوئی راے ایسی ہو جو نصِ صریح سے ٹکراتی نظر آتی ہو تو ترجیح بہرحال نص ہی کو دی جائے گی۔ بحث و تحقیق کی یہ ایک وسیع جولان گاہ ہے جس میں اہلِ نظر کی عمدہ کاوشیں ہم دست ہیں۔ اس بنیادی اصول کو سامنے رکھتے ہوئے ان سطور میں عورتوں کی باجماعت نماز کا ایک سرسری جائزہ لینا مقصود ہے۔
حنفی فقہ کی کتب میں عورتوں کی جماعت کو بالعموم مکروہ بتایا گیا ہے۔ چنانچہ ہدایہ کی ایک عربی عبارت کا ترجمہ یوں ہے: ’’صرف عورتوں کی الگ جماعت مکروہ ہے، اس لیے کہ وہ ایک حرام و ممنوع امر کے ارتکاب سے خالی نہیں ہوسکتی اور وہ ہے : ان کی امام کا صف کے درمیان کھڑا ہونا، جیسے اس صورت میں ہوتا ہے جب لباس سے محروم لوگ باجماعت نماز ادا کریں، لیکن اگر عورتیں نماز باجماعت ہی ادا کرنا چاہیں تو (عورت) امام کو ان کے درمیان میں کھڑا ہونا چاہیے، اس لیے کہ حضرت عائشہؓ نے ایسا ہی کیا تھا، مگر ان کا یہ فعل ابتداے اسلام پر محمول کیا گیا ہے (لہٰذا اس سے عورتوں کی جماعت کے جواز کے حق میں استدلال نہیں کیا جاسکتا)‘‘۔
در مختار میں اس سے ذرا آگے بڑھ کر عورتوں کی جماعت کے مکروہ تحریمی ہونے کی صراحت کی گئی ہے، اگرچہ وہ تراویح کی جماعت ہی ہو۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ احناف کے نزدیک عورت کی امامت مکروہ ہے، البتہ اگر وہ باجماعت نماز ادا کر ہی لیں تو وہ ادا ہو جائے گی۔
برعظیم پاک و ہند کے حنفی مفتی حضرات کا رجحان بھی اسی طرف ہے، اور وہ احناف کے روایتی نقطۂ نظر کی پیروی میں عورتوں کی امامت کو مکروہ قرار دیتے ہیں اور ملک کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی بچیوں کی تحفیظ القرآن کی درس گاہوں کے باوجود نماز تراویح وغیرہ میں حافظات کی امامت کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں (برعظیم کے نام وَر حنفی محقق مولانا عبدالحی لکھنوی کوالبتہ ایک استثنا قرار دیا جاسکتا ہے جنھوں نے اس بارے میں الگ رسالہ تحریر کیاہے جس میں احناف کے دلائل کاردّ کرکے عورتوں کی جماعت کے جواز کو ثابت کیا ہے)۔
احناف کی راے سے بھی زیادہ متشدّد انہ راے مالکی فقہاکی ہے جو عورت کی امامت کو فرائض یا نوافل، دونوں طرح کی نمازوں میں سرے سے درست نہیں سمجھتے۔ البتہ شافعی فقہاکے نزدیک اور حنابلہ کے ایک قول کے مطابق عورت کا عورتوں کی امامت کرانا، نہ صرف درست، بلکہ مستحب ہے۔
ان کی دلیل یہ ہے کہ حضرت عائشہؓ اور حضرت ام سلمہؓ کے بارے میں صحیح روایات سے ثابت ہے کہ انھوں نے فرائض و نوافل میں عورتوں کی امامت کی۔ اس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری صحابیہ ام ورقہؓ بنت نوفل سے فرمایا تھا کہ وہ اپنے محلّے کی عورتوں کی امامت کرلیاکریں۔ آپ ؐنے اس کے لیے ایک بوڑھے مؤذن کا تقرر بھی فرمایا تھا۔ حضرت عائشہؓ ، حضرت اُم سلمہؓ اور حضرت ام ورقہؓ کی امامت کی احادیث و آثار سنن ابی داؤد، مستدرک حاکم، بیہقی،دارقطنی، مصنف عبدالرزاق، مصنف ابن ابی شیبہ، امام محمد کی کتاب الآثار اور دیگر کتب حدیث میں روایت ہوئے ہیں۔ دیگر ناقدین احادیث کے علاوہ ابن حزم، نووی، زیلعی اور ابن حجر وغیرہ جیسے محققین نے ان کی صحت کو تسلیم کیا ہے۔ اس لیے ان صحابیات کا امامت کرانا کسی شک و شبہے سے بالاتر ہے۔سعودی عرب اور مصر کی فتویٰ کونسلوں کے علاوہ موجودہ دور کے نام وَر عرب علمانے بھی عورتوں کی امامت کے جواز کا فتویٰ دیا ہے۔ ان میں شیخ ابن باز ، شیخ صالح المنجد، شیخ یوسف القرضاوی اور دیگر حضرات شامل ہیں۔
اب رہا یہ سوال کہ علماے احناف نے جو راے اختیار کی ہے اور اس کے لیے جو استدلال کیا ہے، اس کا کیا جواب ہے؟ خوش قسمتی سے اس کا شافی اور مسکت جواب خود ایک حنفی عالم شارح ہدایہ ، علامہ بدر الدین عینی (م:۸۵۵ھ) کی البنایہ شرح الہدایہ میں ملتا ہے۔ علامہ عینی کی شخصیت اور ان کی تالیفات خاص طور پر بخاری اور ہدایہ کی شروح کا جو مقام ہے، اس سے تمام حنفی اہلِ علم بخوبی واقف ہیں، لہٰذا آپ کی راے کو سطحی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ علامہ عینی نے عورت کی امامت کے جواز پر وارد ہونے والے تمام اعتراضات کا جائزہ لیا ہے اور تشفی بخش جوابات دیے ہیں۔
درج بالا دلائل جواز اور امام عینی کے استدلال اور مانعین کے دلائل کے رد کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ عورت کا عورتوں کی امامت کرانا نہ صرف جائز بلکہ استحباب کا درجہ رکھتا ہے۔
آج کل ’مذاہب کے درمیان مکالمہ‘ (dialogue) کا خاص چرچا ہے۔ اس کا مقصد یہ بیان کیا جاتا ہے کہ مذاہب کے درمیان قربت بڑھے، غلط فہمیوں کا ازالہ ہو، ان کے درمیان جو اختلافات ہیں وہ دُور ہوں اور وہ ایک دوسرے سے قریب آئیں۔ اس سلسلے میں مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان تبادلۂ خیال ہو رہا ہے۔ مذاکرے اور سیمی نار ہورہے ہیں اور بھی مختلف سطحوں سے کوشش ہو رہی ہے۔ اس تگ و دو کے پیچھے جو ذہن کارفرما ہے وہ یہ ہے کہ مذاہب کے درمیان اختلافات حقیقی نہیں ہیں، سب کی اصل ایک ہے، سب روح کی تسکین اور اپنے خالق و معبود کی رضا چاہتے ہیں۔ انسانوں کی بھلائی اور خیرخواہی ان میں سے ہرایک کے پیش نظر ہے۔ ظلم و زیادتی اور جبروتشدد کو سب ہی غلط باور کرتے ہیں اور ہر ایک کے ساتھ عدل و انصاف کا رویہ اختیار کرنا چاہتے ہیں، ان کے درمیان بناے اختلاف کم ہے اور اتحاد کی بنیادیں زیادہ ہیں۔ یہ بات جب بڑھتی ہے تو وحدتِ ادیان کے تصور تک پہنچتی ہے کہ منزل سب کی ایک ہے، البتہ راہیں جدا ہیں۔ اسی کی تبلیغ و اشاعت کے لیے یہ کوششیں ہورہی ہیں۔ یہ ایک مہمل اور بے بنیاد تصور ہے۔ جو لوگ وحدتِ ادیان کی بات کرتے ہیں وہ ان کی بنیادی تعلیمات سے صرفِ نظر کر رہے ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ مذاہب کے درمیان اختلافات ہیں اور بنیادی اختلافات ہیں، اس لیے ان کو ایک زمرے میں نہیں رکھا جاسکتا۔ یہ فرق اسلام اور دوسرے مذاہب کے مطالعے سے سمجھا جاسکتا ہے۔
اس معاملے میں اسلام کا موقف یہ ہے کہ اسلام ہی ہمیشہ سے اللہ کا دین رہا ہے، اسی کی تعلیم ہر دور میں ہر پیغمبر نے دی، لیکن ان کی تعلیم اصل شکل میں باقی نہیں رہی، زمانہ گزرنے کے ساتھ ان میں تحریف ہوتی چلی گئی۔ اللہ کا یہی دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر آخری بار نازل ہوا۔ آپ سلسلۂ رسالت کی آخری کڑی ہیں۔ آپؐ پر جوکتاب نازل ہوئی وہ قرآن مجید ہے اور وہ پوری طرح محفوظ ہے۔ آپؐ کی سیرت اور قول و عمل سے اس کی تشریح ہوتی ہے۔ اب دنیا و آخرت کی فوز وفلاح اسی کتاب سے وابستہ ہے، اس کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ یہ باتیں قرآن مجید میں بڑی وضاحت کے ساتھ کہی گئی ہیں۔ ارشاد ہے:
قُلْ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَا (الاعراف ۷:۱۵۸) (اے پیغمبرؐ!) کہہ دو کہ اے لوگو! بے شک میں تم سب کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔
وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا وَّلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ o (السبا۳۴: ۲۸) ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لیے ’بشیر و نذیر‘ بنا کر بھیجا ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔
مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَ لٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِـیّٖنَ وَ کَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمًا o (احزاب ۳۳:۴۰) محمد (ـصلی اللہ علیہ وسلم) تمھارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، مگر وہ اللہ کے رسول ہیں اور ’خاتم النبیین‘ ہیں اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔
دنیا کے تمام انسانوں کو آپ پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی اور کہا گیا کہ اسی میں ’خیر‘ ہے۔ کفر کا راستہ اختیار کر کے انسان اللہ کو نقصان نہیں پہنچا سکتا، خود ہی نقصان میں رہے گا:
یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآئَ کُمُ الرَّسُوْلُ بِالْحَقِّ مِنْ رَّبِّکُمْ فَاٰمِنُوْا خَیْرًا لَّکُمْط وَ اِنْ تَکْفُرُوْا فَاِنَّ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِط وَکَانَ اللّٰہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًا o (النساء ۴:۱۷۰) اے لوگو! تمھارے پاس رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) تمھارے رب کی طرف سے حق لے کر آگیا ہے۔ پس تم (اس پر) ایمان لے آئو، اسی میں تمھارے لیے خیر ہے لیکن اگر کفر کرو گے تو (یاد رکھو) کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ سب اللہ ہی کا ہے اور اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔
مذہب کے اساسی عقائد کا انسان کی پوری زندگی پر اثر پڑتا ہے۔ اس سے پورا نظامِ عمل اور طریقۂ حیات وجود میں آتا ہے۔ ہر مذہب کی عبادات اس کے عقیدے کی تابع ہوتی ہیں۔ عقیدے کی بنیاد پر تہذیب ومعاشرت وجود میں آتی ہے۔اسی کے تحت شادی بیاہ، پیدایش اور موت تک کے رسوم انجام پاتے ہیں۔ کاروبار اور لین دین کے طریقے اور مختلف افراد اور طبقات کے حقوق و فرائض طے ہوتے ہیں۔ اسی طرح مذہب عقیدہ کے ساتھ اس سے ہم آہنگ اخلاقیات اور قانون بھی رکھتا ہے۔ اسے اس کا ’نظام شریعت‘ کہا جاسکتا ہے۔ اسی سے اس کی انفرادیت قائم ہوتی ہے اور وہ پہچانا جاتا ہے۔
قرآن مجید کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کواصولِ دین کے ساتھ حسبِ حال اور حسبِ ضرورت شریعت اور قانون بھی دیا تھا۔ اس نے مختلف مواقع پر توریت اور انجیل کے بعض قوانین کا ذکر بھی کیا ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیے گئے تھے اور جن کی پابندی کا ان سے عہد لیا گیاتھا۔ اس نے بعض دوسرے پیغمبروں کی شریعتوں کا بھی حوالہ دیا ہے۔ یہ شریعتیں اپنے وقت اور ماحول کے لیے تھیں۔ آخری رسول اور آخری شریعت کے آنے کے بعد وہ منسوخ ہوگئیں۔ مذاہب کے ماننے والوں کو وہ نجی زندگی میں اپنی شریعت پر عمل کی اجازت دیتا ہے، لیکن اپنے دائرۂ اختیار میں آخری شریعت کو نافذ کرتا ہے:
ثُمَّ جَعَلْنٰکَ عَلٰی شَرِیعَۃٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْھَا وَلاَ تَتَّبِعْ اَہْوَآئَ الَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَo (الجاثیہ۴۵:۱۸) (اے نبیؐ!) ہم نے آپ کو دین کے معاملے میں ایک شریعت دے دی۔ اب آپ اس کی اتباع کریں اور ان لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہ چلیں جو جانتے نہیں ہیں۔
مذاکرہ یا مباحثہ دو مقاصد کے تحت ہوتا ہے۔ ایک مقصد ہے حق و صداقت کی تلاش، بحث و تمحیص کے ذریعے ’حق‘ کو جاننے کی کوشش۔ دوسرا مقصد یہ ہے کہ نظریات اور عقائد کی صحت و عدم صحت سے بحث نہ کی جائے، بلکہ یہ دیکھا جائے کہ وہ کون سی مشترک اقدار ہیں جن پر سب کو اتفاق ہوسکتا ہے۔ اسلام اس مجادلہ کا قائل نہیں ہے۔ وہ ایک دعوت ہے اور بحث و مباحثے کے ذریعے اس کی حقانیت واضح کرنا چاہتا ہے۔
اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَ جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ ط اِنَّ رَبَّکَ ھُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِہٖ وَھُوَ اَعْلَمُ بِالْمُھْتَدِیْنَo (النحل۱۶:۱۲۵) اے نبیؐ، اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ، اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقہ پر جو بہترین ہو۔ تمھارا رب ہی زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اور کون راہِ راست پر ہے۔
اس آیت میں صاف الفاظ میں اللہ کے راستے کی طرف بلانے، یا یوں کہا جاسکتا ہے کہ اسلام کی دعوت کا حکم ہے۔ اس کے لیے حکمت اور موعظہ حسنہ کے ساتھ ’ جدال احسن‘ کا طریقہ تجویز کیا گیا ہے۔ ’ حکمت‘ یہ ہے کہ عقلی دلائل کے ذریعے اللہ کے دین کی دعوت دی جائے۔ موعظۂ حسنہ میں تذکیر اور وعظ و نصیحت کا پہلو ہے۔ ’ جدال بہ طریق احسن‘ یہ ہے کہ بہتر طریقے سے گفتگو ہو، شکوک و شبہات رفع کیے جائیں اور اس کے موقف کو بہتر طریقے سے سمجھا جائے۔
مشرکینِ عرب سے اسلام کا اختلاف بنیادی عقائد میں تھا۔ اسلام توحید کا علم بردار ہے۔ کائنات او رانسان کے بارے میں اس کا نقطۂ نظر اسی عقیدۂ توحید سے نکلتا ہے۔ مشرکین عرب کے ہاں خدا کا تصور تھا، لیکن وہ آلودۂ شرک تھا۔ وہ اسلام کے تصور توحید کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ اسلام وحی و رسالت کا قائل ہے، مشرکین کے لیے یہ تصور اجنبی سا ہو کر رہ گیاتھا، وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو ماننے کے لیے آمادہ نہ تھے۔ اسلام کا ایک بنیادی عقیدہ آخرت اور جزاے عمل کا ہے، لیکن وہ حیات بعد الموت کو کسی طرح قبول نہیں کررہے تھے اور خدا کے قانونِ عدل کے مقابلے میں انھیں اپنے معبودان باطل کی سفارش پر تکیہ تھا۔
اس ماحول میں اسلام نے شرک کی ہر پہلو سے تردید کی اور ثابت کیا کہ اس کی کوئی مضبوط بنیاد نہیں ہے۔ یہ انسان کی عقل اور اس کی نفسیات کے خلاف ہے۔ اس کے نتائج دنیا میں بھی تباہ کن ہیں اور آخرت میں بھی ہلاکت کا باعث ہوں گے۔ مشرکین عرب سے اس نے جس طرح گفتگو کی اس کی ایک چھوٹی سی مثال یہاں پیش کی جارہی ہے:
ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا رَّجُلًا فِیْہِ شُرَکَآئُ مُتَشٰکِسُونَ وَرَجُلًا سَلَمًا لِّرَجُلٍ ط ہَلْ یَسْتَوِیٰنِ مَثَــلًا ط اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ بَلْ اَکْثَرُھُمْ لاَ یَعْلَمُوْنَ o (الزمر ۳۹:۲۹) اللہ ایک مثال دیتا ہے۔ ایک شخص تو وہ ہے جس کے مالک ہونے میں بہت سے کج خُلق آقا شریک ہیں جو اُسے اپنی اپنی طرف کھینچتے ہیں اور دوسرا شخص پورا کا پورا ایک ہی آقا کاغلام ہے ۔ کیا اِن دونوں کا حال یکساں ہوسکتا ہے؟ ___ الحمدللہ ، مگر اکثر لوگ نادانی میں پڑے ہوئے ہیں۔
قرآن مجید نے اپنے موقف پر تاریخ سے استدلال کیا۔ اس نے کہا: دنیا میں اللہ تعالیٰ کے جتنے رسول آئے سب نے توحید کی تعلیم دی اور شرک کی تردید کی، رسالت اور آخرت پر ایمان کی دعوت دی، اس کے انکار کے نتائج سے آگاہ کیا۔ مشرک قوموں نے ان کی سخت مخالفت کی اور ان کے ساتھ بدترین سلوک کیا، لیکن انھوں نے صبر و ثبات کے ساتھ اسے برداشت کیا۔ اللہ کے ان رسولوں کی اس سلسلے میں اپنی قوموں اور ان کے سرداروں سے جو گفتگوئیں ہوئیں اور جو مباحثے اور مکالمے ہوئے وہ بھی اس نے تفصیل سے پیش کیے۔ یہ مباحثے ’جدال احسن‘ کا بہترین نمونہ ہیں۔ یہ تلاش حقیقت کے لیے نہیں، بلکہ اثبات حق کے لیے تھے۔
مشرکین عرب کا حضرت ابراہیم علیہ السلام سے نسلی تعلق تھا ۔ حضرت ابراہیم ؑ کی اولاد اور خانۂ کعبہ کے محافظ ہونے کی وجہ سے سارے عرب میں ان کو عزت اوروقار حاصل تھا۔ قرآن مجید نے بتایا کہ حضرت ابراہیم ؑ توحید کے علم بردار تھے، اسی کی دعوت لے کر وہ اُٹھے تھے۔ان کی مشرک قوم نے ان کی بدترین مخالفت کی اور دہکتی آگ میں انھیں ڈال دیا، لیکن اللہ نے انھیں صحیح سالم نکال لیا۔ انھوں نے اپنے وطن سے ہجرت کی اور مکہ میںخانۂ کعبہ کی تعمیر کی، اسے اللہ واحد کی عبادت کا مرکز قراردیا، جسے تم نے بت خانہ بنا رکھا ہے۔ تم ان کی اولاد ہو، پھر بھی دعوتِ توحید کی مخالفت کررہے ہو۔ حضرت ابراہیم ؑ نے وقت کے بادشاہ، اپنے باپ اور اپنی قوم سے جو گفتگو یا مباحثے کیے ، قرآن مجید نے اسے بڑی وضاحت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اس طرح اس ’جدال احسن‘ کی راہ دکھائی ہے جس کی اس نے اجازت دی ہے۔
وَ لَا تُجَادِلُوْٓا اَھْلَ الْکِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْھُمْ وَ قُوْلُوْٓا اٰمَنَّا بِالَّذِیْٓ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ وَ اِلٰھُنَا وَ اِلٰھُکُمْ وَاحِدٌ وَّ نَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ o (العنکبوت ۲۹: ۴۶) تم اہل کتاب سے مجادلہ نہ کرو، مگر مہذب طریقے سے، لیکن ان میں سے جو ظلم کی راہ اختیار کریں ان سے بحث سے اجتناب کرو اور کہو کہ ہم ایمان رکھتے ہیں ان (تعلیمات) پر جو ہم پر نازل ہوئی ہیں اور ان پر بھی جو تم پر نازل ہوئیں۔ ہمارا اور تمھارا معبود ایک ہے، ہم اسی کے فرماں بردار ہیں۔
اہل کتاب اصولی طور پر توحید، وحی و رسالت، آخرت اور وہاں کی جزا و سزا کے قائل تھے۔ اس سلسلے میں ان کے اور مسلمانوں کے عقائد میں اشتراک تھا، لیکن ایک دوسرے پہلو سے ان کے درمیان فرق پایا جاتا تھا۔ وہ توحید کے قائل ہونے کے باوجود گرفتارِ شرک ہوگئے تھے۔ وحی و رسالت پر ایمان کے دعویٰ کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو تسلیم نہیں کررہے تھے۔
اس آیت میں اہل کتاب سے مجادلے کی اجازت کے ساتھ اس کی بنیادیں بھی فراہم کردی گئی ہیں۔ وہ بنیادیں ہیں اللہ کے تمام رسولوں اور ان کی تعلیمات پر ایمان۔ اس میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور آپؐ کی تعلیمات بھی شامل ہیں۔ مسلمانوں کا یہی موقف ہے کہ وہ تمام رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں،ان کے درمیان فرق نہیں کرتے۔ اسی طرح تمھارا اور ہمارا خدا ایک ہی ہے، اس لیے اس کے احکام کی اطاعت ہم سب کے لیے لازم ہے۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے ہم اس کے مطیعِ فرمان ہیں۔اس کے ہر حکم کو دل و جان سے قبول کرتے اور اس کی اطاعت کرتے ہیں۔ اس میں اس بات کی ہدایت بھی ہے کہ اگر وہ اس کے لیے آمادہ نہیں ہیں تو تم اپنے ایمان و اسلام کااعلان کرکے الگ ہوجاؤ۔
قرآن مجید میں متعدد مقامات پر میثاق بنی اسرائیل کا ذکر ہے اور بتایاگیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے عہد لیا تھا کہ وہ اللہ و احد کی عبادت کریں گے، ان کی زندگیوں میں نماز اورزکوٰۃ کا اہتمام ہوگا، اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کریں گے، والدین، رشتہ داروں اور معاشرے کے کم زور افراد ، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک کریں گے( اعلیٰ اخلاق کا ثبوت دیں گے)۔ گفتگو میں بدزبانی اور تلخ کلامی کا مظاہرہ نہ کریں گے( کسی کی دل آزاری نہ کریں گے)۔ ناحق کسی کا خون نہیں بہائیں گے، کسی کو اس کے گھر سے بے گھر نہیں کریں گے ، اللہ کے رسولوں پر ایمان لائیں گے اور ان کی نصرت و حمایت کریںگے۔ (البقرہ ۲: ۸۳-۸۴، المائدہ ۵:۱۲)
قرآن مجید نے بتایاکہ بنی اسرائیل نے اس عہد و پیمان کی پابندی نہیں کی۔ قدم قدم پر اس کی مخالفت کرتے رہے۔ اس عہد کا لازمی تقاضا تھا کہ وہ اللہ کے رسولوں پر ایمان لاتے، مگر انھوں نے ان میں سے چند ایک کو مانا اور دوسروں کوماننے سے انکار کردیا۔ ان کے ہاتھ بعض رسولوں کے قتل تک سے رنگین رہے ہیں۔ (اٰل عمران۳: ۱۸۱-۱۸۲۔ النسائ۴: ۱۵۷)
ان سے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے اور ان کی نصرت و حمایت کا بھی عہد لیا گیا تھا، لیکن انھوں نے صاف کہہ دیا کہ ہم اپنے پیغمبروں کے علاوہ کسی دوسرے پیغمبر کو نہیں مانیں گے۔ یہی نہیں، آپؐ سے عداوت ان کے سینوں میں پرورش پاتی رہی اور انھوں نے آپؐ کی مخالفت میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ (البقرہ ۲: ۹۱، اٰل عمران ۳ :۸۱)
یہود و نصاریٰ حضرت ابراہیم ؑ کو اپنا پیشوا اور مقتدیٰ مانتے اور ان سے اپنا دینی رشتہ جوڑتے تھے۔ قرآن مجید نے بہت تفصیل سے حضرت ابراہیم ؑ کی تعلیم پیش کی اور بتایا کہ وہ ’مسلم حنیف ‘تھے اور ہر طرف سے کٹ کر اللہ واحد کی عبادت کرتے تھے۔ان کی زندگی ہر شائبۂ شرک سے پاک تھی۔ وہ خدا ے واحد کی عبادت و اطاعت کا پیغام لے کر اٹھے تھے اور زندگی بھر اسی کے لیے جدوجہد کی اور بے مثال قربانیاں دیں۔ آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اسی دعوت کو لے کر اٹھے ہیں ، اس لیے وہ ان کے قریب ہیں۔ حضرت ابراہیم ؑ سے تمھارا تعلق روایتی او ران کا تعلق حقیقی ہے:
مَا کَانَ اِبْرٰھِیْمُ یَھُوْدِیًّا وَّ لَا نَصْرَانِیًّا وَّ لٰکِنْ کَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًاط وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ o اِنَّ اَوْلَی النَّاسِ بِاِبْرٰھِیْمَ لَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ وَ ھٰذَا النَّبِیُّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ط وَ اللّٰہُ وَلِیُّ الْمُؤْمِنِیْنَ o (اٰل عمرٰن۳: ۶۷-۶۸)
ابراہیم ؑنہ یہودی تھا نہ عیسائی، بلکہ وہ تو ایک مسلم یکسو تھا اور وہ ہرگز مشرکوں میں سے نہ تھا۔ ابراہیم ؑسے نسبت رکھنے کا سب سے زیادہ حق اگر کسی کو پہنچتا ہے تو اُن لوگوں کو پہنچتا ہے جنھوں نے اس کی پیروی کی اور اب یہ نبیؐ اور اس کے ماننے والے اِس نسبت کے زیادہ حق دار ہیں۔ اللہ صرف اُنھی کا حامی و مددگار ہے جو ایمان رکھتے ہوں۔
اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ جو لوگ آسمانی مذاہب کے ماننے والے ہیں انھیں ان کی حقیقی تعلیمات سے روشناس کرایاجائے اور ان کے تقاضوں کی طرف انھیںتوجہ دلائی جائے اور دین حق ان پر واضح کیا ہے۔ یہ قرآنی طریقہ ہے۔ اس سے دعوت کی راہیں کھلتی ہیں۔ اسی پس منظر میں حسب ذیل آیت کو بھی دیکھنا چاہیے:
قُلْ یٰٓـاَھْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآئٍ بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰہَ وَ لَا نُشْرِکَ بِہٖ شَیْئًا وَّ لَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ ط فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْھَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ o (اٰل عمرٰن۳: ۶۴) اے نبیؐ! کہو اے اہلِ کتاب، آئو ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے، یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرائیں، اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنالے۔ اس دعوت کو قبول کرنے سے اگر وہ منہ موڑیں تو صاف کہہ دو کہ گواہ رہو، ہم تو مسلم (صرف خدا کی بندگی و اطاعت کرنے والے) ہیں۔
اس آیت کو اس بات کی دلیل سمجھا جاتا ہے کہ مذاہب کے درمیان جو اقدار مشترک ہیں ان کی دعوت دی جائے۔ بناے اختلاف سے تعرض نہ کیا جائے، ہر ایک کو اس کے طریقہ پر عمل کی اجازت ہو، اس کے درست یا نا درست ہونے سے بحث نہ کی جائے۔ اسے مذاہب کے سلسلے میں ’رواداری‘ یا عدم تعصب جو بھی کہا جائے، اسلامی نقطۂ نظر نہیں کہا جاسکتا۔ یہ اس سلسلے کی اسلامی تعلیمات او راس کے دعوتی مشن کے خلاف ہے۔ اس سے قطع نظر خود آیت سے اس کی تردید ہوتی ہے۔ اس میں اہل کتاب کے غلط طرز عمل پر تنقید کی گئی ہے اور انھیں اسلام کی دعوت دی گئی ہے۔
اس میں اہل کتاب کو ’ کلمہ سوائ‘ کی دعوت دی گئی ہے۔ یہ ’ کلمہ سوائ‘ توحید ہے، جو اہلِ کتاب اور مسلمانوں کے درمیان مشترک ہے اور جو تمام مذہبی کتابوں کی بنیاد ہے۔ لیکن توحید کے قائل ہوتے ہوئے بھی یہود نے حضرت عزیر کو ابن اللہ قرار دیا ۔ ہوسکتا ہے ان میں سے ایک طبقے کا یہ عقیدہ ہو، لیکن یہود نے اس سے اپنی برأ ت ظاہر نہیں کی۔ اسی طرح نصاریٰ نے تثلیث کی راہ اختیار کی، جو توحید کے سراسر خلاف ہے۔
توحید کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ خداے واحد کی عبادت ہو اور کسی دوسرے کو خدائی کا مقام نہ دیا جائے ، جب تمھیں اس سے انکار نہیں ہے تو تمھاری عبادت شرک سے پاک ہونی چاہیے۔
اللہ واحد پر ایمان کے بعد اس کا کوئی جواز نہیں ہے کہ کسی دوسرے کو اپنا رب اور فرماں روا تسلیم کیا جائے ۔ اللہ تعالیٰ قانون دینے والا ہے اور اسی کے قانون کو بالادستی حاصل ہے، لیکن تم نے اپنے احبار و رہبان کو قانون سازی کا حق دے رکھا ہے۔ وہ جس چیز کو حلال کہیں وہ تمھارے نزدیک حلال ہے اور جسے حرام قرار دیں وہ تمھارے لیے حرام ہے۔ اس طرح تم نے احبار و رہبان کو ارباب کا مقام دے رکھا ہے (التوبۃ ۹:۳۱)اپنے اس غلط رویّے کو ترک کرکے تمھیں خداے واحدکے احکام کی اتباع کرنی چاہیے۔ اگر تم اس کے لیے تیار نہیں ہو تو گواہ رہو کہ ہم اللہ کے فرماں بردار اور اس کے احکام کے تابع ہیں۔یہ در حقیقت اسلام کی دعوت ہے۔ ہرقل (شاہ روم) کو آپ نے جو مکتوب اسلام کی دعوت قبول کرنے کے لیے لکھا تھا اس میں اسی آیت کا حوالہ تھا۔ (قرطبی، الجامع لاحکام القرآن:ج۲، جزء ۴،ص۶۸)
حقیقت یہ ہے کہ مذاہب کے اختلافات فروعی نہیں اصولی ہیں، انھیں ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے لیے کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہوسکتی، لیکن اس کے باوجود بعض سماجی اور اجتماعی مسائل کے حل کے لیے اہل مذاہب ہی نہیں، بلکہ تمام سماجی اور سیاسی گروہ مل جل کر کوشش کرسکتے ہیں۔
آج دنیا کے بیش تر ممالک میں مخلوط آبادیاں ہیں۔ ان کے درمیان مذہبی عقائد، مادی افکار و نظریات، تہذیب و معاشرت کا اختلاف ہے اور کہیں مادری زبان کا فرق بھی پایا جاتا ہے۔ اس کے باوجود وہ ایک تکثیری سماج کا حصہ ہیں۔ اس پہلو سے ان کے مشترک مسائل بھی ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کی ضرورت ہے کہ ملک میں امن وامان ہو، فکر و عمل کی آزادی ہو،ملک کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لیے کام کے مواقع حاصل ہوں، انسانی حقوق کی پامالی نہ ہو، عدل و انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں، سب کے ساتھ مساوی سلوک کیا جائے، غربت اور جہالت ختم ہو، طبی سہولتیں حاصل ہوں، صفائی ستھرائی کا اہتمام ہو اور فضائی آلودگی پر قابو پایا جائے۔ اس نوعیت کے اور بھی مسائل ہوسکتے ہیں۔ اس طرح کے مسائل پر قابو پانے کے لیے معاشرے میں بیداری لانے، ان کے حق میں فضا بنانے اور بسا اوقات قانونی جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح ان مسائل کا تعلق حکومت سے بھی ہے، اس کے لیے اسے متوجہ کرنا اور اس پر اثر انداز ہونا پڑتا ہے، اس کے لیے تکثیری معاشرے مشترکہ جدوجہد کا تقاضا کرتے ہیں۔ اسی سے بہتر نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے۔
موجودہ مادہ پرست تہذیب نے اباحیت کو اس قدر فروغ دیا ہے کہ انسان اپنی جنسی خواہش کی تکمیل کے لیے کوئی بھی بندش گوارا نہیں کرنا چاہتا۔ ہر طرف بے حیائی اور عریانی کی فضا ہے، بدکاری عام ہورہی ہے اور نشہ آور چیزوں کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں خاندان انتشار اور تباہی کا شکار ہورہے ہیں اور طرح طرح کے امراض پھیل رہے ہیں۔ دنیا کا کوئی بھی مذہب بے حیائی، زنا اور منشیات کے استعمال کو صحیح نہیں سمجھتا۔ اس کے خاتمے کے لیے مشترک کوشش ہونی چاہیے۔
مذاہب کے درمیان ایک قدر مشترک اخلاقیات ہے۔ صداقت اور راست گوئی، عفت و عصمت، دیانت و امانت، باہم اُلفت و محبت ، رشتوں کا احترام، غریبوں، ناداروں، مریضوں اور معذروں کے ساتھ ہم دردی اور ان کی خبر گیری، تعصب او ر نفرت سے اجتناب، کسی کے حق پر دست درازی اورظلم و زیادتی کا خاتمہ، اس طرح کی اخلاقیات کی اہمیت تمام مذاہب تسلیم کرتے ہیں اور ان کے مخالف رویّے کو صحیح نہیں سمجھتے۔ اس کے لیے کہیں کہیں کوشش بھی ہوتی ہے۔ اسلام معاشرے میں اخلاق کو فروغ دینا چاہتا ہے، اس کے لیے اس کا اپنا ایک طریقہ اور لائحۂ عمل بھی ہے، لیکن اس کے ساتھ اخلاق کو عام کرنے کی جو کوشش ہو اس میں وہ اپنے اصول کے تحت شریک ہوسکتا ہے اور اس کے لیے مشترکہ جدوجہد بھی کرسکتاہے۔
مصر میں انتخابات کے پہلے دور کے نتائج نے مغربی سیاسی تجزیہ نگاروں، مسلم دنیا کے لادین عناصر، اسرائیل اور اُس کے پشت پناہ ممالک کو ان زمینی حقائق سے روشناس کردیا ہے جن کو دیکھنے اور ان کا اعتراف کرنے کے لیے وہ تیار نہ تھے۔ تقریباً ۶۰برس سے مصر پر مسلط لادین عناصر اپنی تمام تر سیاسی حکمت ِعملی، عارضی فوجی کونسل کی حمایت اور مغربی ممالک کی ’نیک خواہشات‘ کے باوجود ہرمحاذ پر ناکام رہے۔ اس کے مقابلے میں ۶۰برس سے جبروتشدد اور ظلم واستحصال کا نشانہ بننے والی تحریکِ اسلامی کے سیاسی محاذ کو عوام الناس کی بھاری اکثریت نے، ان مقامات پر بھی جو قدرے اباحیت پسند شمار کیے جاتے ہیں اور جہاں پر شہری آبادیاں بظاہر دینی معاملات میں کچھ زیادہ روشن خیال شمار کی جاتی ہیں، کامیابی سے ہم کنار کیا۔ نہ صرف تحریکِ اسلامی کو بلکہ غلو کی طرف مائل سلفی اُمیدواروں کو بھی قابلِ ذکر نمایندگی حاصل ہوئی۔
انتخاب کے تینوں مراحل کے نتائج اب آگئے ہیں۔ سرکاری اعلان کے مطابق حزب الحریہ والعدالہ (Freedom & Justice Party) کو جو اخوان المسلمون کا سیاسی محاذ ہے، کُل ووٹوں کا ۴۶ فی صد حاصل ہوا ہے، اور اس طرح ۴۹۸ کے ایوان میں ان کو الحمدللہ ۲۳۰ نشستیں حاصل ہوچکی ہیں اور ۹ کی مزید توقع ہے (یہ ان ۱۸ نشستوں کے سلسلے میں ہیں جن کا انتخاب دوبارہ ہو رہا ہے)۔ سلفی تحریک کے سیاسی محاذ حزب اللہ کو ۲۳ فی صد ووٹ اور ۱۱۳ نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ اسلام پسند قوتوں کو دو تہائی ووٹ (۶۹ فی صد) کی تائید حاصل ہے۔
یہ تناسب نہ صرف مصر کے لادین عناصر بلکہ خود یورپ اور امریکا کے دانش وروں کے لیے ناقابلِ یقین تصور کیا جارہا تھا۔ اسرائیل جو کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد سے مصر کو عملاً اپنا حلیف سمجھتا رہا ہے، اسلامی عناصر کے اُوپر آنے سے سخت مضطرب ہے کیونکہ تحریکِ اسلامی کا فلسطین کی آزادی پر موقف ۱۹۴۸ء سے آج تک اسرائیل کی آنکھ کا سب سے بڑا کانٹا رہا ہے۔ مصر میں تحریکِ اسلامی کے سیاسی محاذ کا وجود میں آنا اور ایک مناسب سیاسی حکمت ِعملی کا وضع کیا جانا دیگر تحریکاتِ اسلامی کے لیے ایک لمحۂ فکریہ فراہم کر رہا ہے۔
یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ تحریکاتِ اسلامی کا اصل مشن اور مقصد حاکمیت ِالٰہی کے قیام کے ذریعے تمام انسانوں کے لیے ایک ہمہ جہتی نظامِ عدل کا قیام ہے۔ یہ نظام دلوں کی تائید اور انفرادی، خاندانی اور اجتماعی زندگی کے تمام اداروں کی کارکردگی کے ساتھ خود سیاسی قوت کے تعمیری استعمال سے وجود میں آتا ہے۔ دعوت و اصلاح کا عمل جہاں فرد اور ْخاندان کی اصلاح کرتا ہے وہیں معاشی، معاشرتی، قانونی اور سیاسی محاذ پر بھی اللہ تعالیٰ کی ہدایات پر عملی طور پر شریعت کے کُلی نظام کے نفاذ کو یکساں اہمیت دیتا ہے۔ سیاسی حکمت ِعملی اس کُلی عمل کا ایک لازمی عنصر ہے۔
۸۳برس تک مسلسل جدوجہد کرنے، سخت آزمایشوں اور ابتلا سے گزرنے اور تقریباً ۵۸برس تک جابرانہ حکومتوں کے کالے قانون کے زیراثر غیرقانونی قرار دیے جانے کے باوجود مصر میں تحریکِ اسلامی کا اُبھرنا، جہاں دعوت کی صداقت کی دلیل ہے وہاں قرآن کریم کی اُس پیش گوئی کی عملی تعبیر بھی ہے کہ جو لوگ ہماری راہ میں جہاد کریں گے ہم انھیں اعلیٰ انعامات سے نوازیں گے۔ یہ جہاد فکری، اخلاقی، معاشرتی ، سیاسی بھی اور ضرورت پڑنے پر عسکری بھی۔ البتہ تحریکاتِ اسلامی کو سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ کسی مرحلے میں جہاد کے کس پہلو پر زیادہ توجہ دی جائے۔
بالکل اسی طرح اخوان کی تصویر (image) کو مشرق و مغرب میں عسکریت پسند، تشددپسند ، انتہا پسند مشہور کر کے مسخ کرنے کی کوشش کی گئی۔ اخوان المسلمون کے سوچنے سمجھنے والے افراد نے اس تاثر کی اصلاح کے لیے نہ تو مداہنت اختیار کی،نہ جہاد پر کسی معذرت کا اظہار کیا اور نہ اپنی سرگرمیوں کو صرف عقائد و عبادات تک محدود کرنے پر غور کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے عصرِحاضر کے مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے اصل مشن ’’اللہ ہماری غایت ہے، رسولؐ ہمارے قائد و رہنما ہیں، اور جہاد ہمارا راستہ ہے‘‘ سے انحراف کیے بغیر اپنی تربیتی اور تنظیمی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ایک آزاد سیاسی محاذ کو قائم کیا، جو مقامی اور ملکی مسائل پر عوام کے تعاون سے حل کرنے کے لیے جدوجہد کرے۔ اس حکمت ِعملی سے ایک جانب اخوان کے حلقۂ اثر میں وسعت پیدا ہوئی، تو دوسری جانب نیا خون اور نئے چہرے ملک میں اصلاح کے عمل کی خواہش کے ساتھ سامنے آئے، اور نوجوان آبادی کو خصوصاً اپنے آپ کو منظم کر کے قیادت کا فرض ادا کرنے کی تربیت ملی۔
ملکی مسائل میں غربت کا خاتمہ، معاشی اور سماجی ترقی کا حصول، دولت کی منصفانہ تقسیم، روزگار، صاف پانی کی فراہمی، زمینوں کی عادلانہ تقسیم، خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد وہ مسائل تھے جن پر زیادہ توجہ دی گئی۔ اس کے مقابلے میں وہ مسائل جو کہ بنیادی ہیں لیکن جن سے عوام کی سوچ پر زیادہ اثر نہیں پڑتا، مرکزِ توجہ نہیں بنائے گئے۔ اخوان کے حوالے سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ وہ امریکااور اسرائیل کو شدت سے ناپسند کرتے ہیں لیکن سیاسی حکمت ِعملی میں ان کا زیادہ زور جمہوری روایت کا احیا، خواتین کے حقوق کی فراہمی اور معاشی ترقی کے منصوبوں پر رہا۔
حصولِ مقصد کے لیے حکمتِ عملی بنانے کا مطلب یہ نہیں لیا جاسکتا کہ جو ترجیحات ۵۰،۶۰برس پہلے طے کی گئی تھیں، ان سے سرموانحراف نہ کیا جائے، بلکہ وقت اور ضرورت کے لحاظ سے حکمت ِعملی وضع کرنا خود شریعت کا مطالبہ ہے۔ بلاشبہہ مقاصد اور اخلاقی اور روحانی اقدار کے فریم ورک میں نئے حالات کی روشنی میں مسائل کے نئے حل کی تلاش شریعت کا ایک مسلّمہ اصول ہے اور اس کے نتیجے میں تبدیلیِ حالت کی بنا پر حکم میں تبدیلی شرعی اصولوں کے مطابق کی جاتی ہے۔ اس لیے اخوان المسلمون کا اپنے دعوتی اور تربیتی نظام کے ساتھ بطور تحریک اسلامی قائم رہنا اور ایک سیاسی محاذ کا بنانا شریعت کے اصولوں سے مطابقت رکھتا ہے۔
ترکی میں بھی تحریکِ اسلامی نے اپنا تاثر ایک معاشی اصلاح، اور یورپی یونین میں شمولیت کی خواہش مند رفاہِ عامہ کے کاموں کو اہمیت دینے والی جماعت کے طور پر پیش کیا جس کے نتیجے میں بہت سے ذہنوں سے وہ خدشات جو مغرب کے منفی پروپیگنڈے سے پیدا کیے گئے تھے، آہستہ آہستہ دُور ہوئے۔ ترکی پر اس جملۂ معترضہ سے قطع نظر صرف اس جانب اشارہ کرنا مقصود ہے کہ بعض اوقات تحریکاتِ اسلامی کو اپنے مقصد، منزل، طریق کار پر پورے اعتماد کے ساتھ ایسی حکمت ِعملی اختیار کرنی پڑتی ہے جو حصولِ مقصد کے لیے مباح اور ترجیحات میں تبدیلی کی متقاضی ہو۔
مصر میں تحریکِ اسلامی نے اپنے نظم اور نظامِ تربیت کو برقرار رکھتے ہوئے جو حکمت ِعملی اختیار کی ہے وہ دیگر تحریکات کے لیے غوروفکر کا ایک اہم پہلو نمایاں کرتی ہے۔ تاہم یہ ضروری نہیں کہ جو حکمت ِعملی کسی ایک مقام پر کامیاب ہو، بعینہٖ وہی حکمت ِعملی کہیں اور بھی اختیار کی جائے۔ ہاں، اگر زمینی حقائق کا تجزیہ یہ بتائے کہ اس حکمت ِعملی سے حصولِ مقصد میں آسانی ہوگی تو محض اس بنا پر کہ چونکہ وہ حکمت ِعملی کسی اور مقام پر کارگررہی،لہٰذا اس کے اختیار کرنے سے احتراز کیا جائے، مناسب نہیں۔نیز ضروری نہیں کہ ایک مقام کے تجربات کو من و عن دوسری جگہوں پر اختیار کیا جائے۔ مختلف اجزا اور پہلوئوں میں انتخاب اور ترمیم و تصحیح (modification) کا عمل بھی جذب و انجذاب کے اس وسیع ترعمل کا حصہ ہے۔
مصر کی تحریک اسلامی کے سربراہوں سے جب یہ کہا گیا کہ وہ مصر میں ترکی ماڈل کیوں نہ اختیار کریں، تو ان کا جواب یہی تھا کہ ہم اپنا ماڈل خود تعمیر کرنا پسند کریں گے۔ ہمارے خیال میں یہ ایک تحریکی ضرورت ہے کہ تحریکاتِ اسلامی کی قیادت ایسے معاملات میں کھلے ذہن کے ساتھ غوروفکر کرے اور ایک دوسرے کے تجربات و مسائل سے آگاہی اور استفادہ کرے۔
اوّلاً، گذشتہ ۸۳برس کے عرصے میں اقامت ِدین کی جدوجہد میں نظامِ تربیت کے ذریعے ایسے افراد کی تیاری جو اپنے مقصدحیات کے لیے ہرقربانی دینے کے لیے تیار ہوں اور جن کا تعلق زندگی کے ہرشعبے سے ہو۔ چنانچہ ڈاکٹر، انجینیر، اساتذہ، تاجر، قانونی ماہرین اور کسان، ہرہرطبقے میں دعوت کے نفوذ کے ذریعے زندگی کے ہر شعبے کے لیے متبادل قیادت اور ایک ایسی افرادی قوت کی تیاری جو تبدیلی کی صلاحیت رکھتی ہو،اخوان کی حکمت ِعملی کا حصہ رہی۔
ثانیاً، نوجوان نسل میں اسلامی فکر کا احیا اور جمہوری عمل کے ذریعے تبدیلی کی حکمت ِعملی۔ اس غرض کے لیے دعوت کے دائرۂ اثر کو وسیع کرنے کے ساتھ عوام تک یہ پیغام پہنچایا گیا کہ اس جماعت کے افراد ایمان داری، حق پرستی اور مستقل مزاجی اور اعتماد کے ساتھ بغیر کسی ذاتی مفاد کے ملک میں امن، عدل، تعلیم اور معاشی خوش حالی چاہتے ہیں۔ اخوان کے دفاعی اور تعلیمی ادارے اور اجتماعی زندگی میں، syndicates میں ان کی مؤثر کارکردگی نے قوم میں یہ اعتماد پیدا کیا کہ ان کے ذریعے دیانت دار اور اہلیت کی حامل قیادت برسرکار آسکتی ہے۔یہی وہ عنصر ہے جو اخوان کے سیاسی محاذ کے طور پر حالیہ واقعات میں اُبھر کر سامنے آیا اور جس پر مصری عوام نے اپنے اعتماد کا اظہار کیا۔
ثالثاً، تحریک اور اس کے سیاسی محاذ میں قریبی ربط کے باوجود ایک فاصلہ رکھنا تاکہ عملی معاملات میں اصولوں سے انحراف نہ ہو، اور سیاسی مہم میں پیش آنے والے بعض معاملات میں سیاسی محاذ کو رکاوٹ بھی پیش نہ آئے۔ یہ احتیاط اور توازن غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو پھر تحریک کے مرکز قوت پر اس کے دیگر اعضا میں عدم تعاون کی شکل پیدا ہوجاتی ہے۔
اس پورے عرصے میں اخوان المسلمون نے اپنی امریکا مخالف پالیسی میں کوئی نرمی اختیار نہیں کی، لیکن اپنے دروازے امریکا کے اہلِ فکر کے لیے بند بھی نہیں کیے۔ یہ کرنا اس لیے ضروری تھا کہ عالمی سطح پر اخوان کے بارے میں جو تاثر پہلے ہی سے قائم کرلیا گیا تھا، اس میں ان کا غیرجمہوری اور تشدد پسند ہونا مرکزی حیثیت رکھتا تھا، اور تحریک کے نئے تشخص میں یہ بات بنیادی حیثیت رکھتی تھی کہ وہ جمہوری ذرائع سے اسلام کی عظمت چاہتی ہے۔ اس پس منظر میں اخوان کی مذاکراتی (dialogue)پالیسی کو بہتر سمجھا جاسکتا ہے۔
بظاہر تین مسائل غور طلب ہیں: کیا اپنے اصولی موقف کے ساتھ تحریکِ اسلامی نے داخلی مسائل پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ایسی حکمت ِعملی وضع کی جو عوام میں اُمید اور ان کے مسائل کے حل کے امکانات کو روشن کرسکے؟ امریکا کی مخالفت اور ملک کی سلامتی اور خودمختاری کی حفاظت کے لیے ملک میں اس کے عمل دخل کو ختم کرنے کی جدوجہد، وقت کی ایک اہم ضرورت ہے، لیکن ضروری ہے کہ ان اُمور کے ساتھ قوم کو پوری قوت سے ان اُمور پر مرکوز کیا جائے جن کا تعلق ایک عام آدمی کی زندگی سے ہے۔ ایک مزدور اور کسان اور تاجر جن مسائل کا سامنا روزانہ کرتا ہے، ان کا تعلق اس کی معاشی بدحالی، انرجی کی قلت، قیمتوں میں ہوش ربا اضافے، غربت، عدمِ مساوات، تعلیم اور صحت سے محرومی، بنیادی حقوق کی پامالی اور عدم تحفظ کے شدید احساس سے ہے۔
دوسرا اہم مسئلہ سیاسی معاملات میں ابلاغِ عامہ کا مؤثر استعمال ہے۔ پاکستان ہویا کوئی اور ملک، آج سیاسی جنگ دراصل ابلاغی جنگ ہے۔ جب تک ایک سیاسی جماعت کو ابلاغِ عامہ میں مرکزی مقام حاصل نہ ہو، اپنی تمام تر تنظیمی، افرادی اور اخلاقی قوت کے باوجود وہ عوام کی نگاہ میں ایک سیاسی جماعت تو رہتی ہے لیکن جیتنے والی جماعت کی شکل اختیار نہیں کرپاتی۔ ابلاغی جہاد کو جب تک مرکزیت حاصل نہیں ہوگی علمی و فکری اور سیاسی و رفاہی کام کے اثرات معاشرے میں ظاہر نہیں ہوسکتے۔ نیز ابلاغ کے میدان میں جو انقلابی تبدیلیاں گذشتہ تین چار عشروں میں ہوئی ہیں اور جن میں پرنٹ میڈیا کے ساتھ الیکٹرانک میڈیا اور پھر سوشل میڈیا نے غیرمعمولی اہمیت حاصل کرلی ہے، ان سب کا مؤثر استعمال ہماری جدوجہد کی کامیابی کے لیے ازبس ضروری ہے۔
تیسرا اہم مسئلہ عوامی سطح پر متعین طور پر ایسے مقامات کا انتخاب جہاں پر تحریک سے وابستہ افراد نے سماجی اور فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہو، اور ان مقامات سے ایسے بااثر افراد کا منتخب کرنا جن کی ساکھ ایک ایمان دار شخص کی ہو، اور لوگ ان پر اعتماد کرتے ہوں، کو سیاسی محاذ پر متعارف کرانا اور ان سے مسلسل رابطے کے ذریعے ان کی نظریاتی رہنمائی کرتے رہنا بھی ضروری ہے۔
اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ راے عامہ کے آزادانہ جائزے ( polls) کے ذریعے عوامی رجحانات کا اندازہ کرنے کے بعد حکمت ِعملی وضع کی جائے۔ گو، تحریکی ذرائع سے ملنے والا فیڈبیک بھی اہمیت رکھتا ہے، لیکن آزاد ذرائع سے آنے والی معلومات بعض اوقات غیرمتوقع طور پر اہم اور فیصلہ کن ہوتی ہیں۔ سیاسی حکمت ِعملی اور اس کے نفاذ کے مدارج کو واضح اور متعین ہونا چاہیے تاکہ تمام عناصر یک جا ہوں اور متوقع اہداف کے حصول میں آسانی پیدا ہوسکے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے مخلص بندوں سے وعدہ فرمایا ہے کہ اگر وہ اس کے راستے پر صرف اس کی رضا کے حصول کے لیے حکمت اور موعظۂ حسنہ کے ساتھ آگے بڑھیں گے تو وہ غیبی قوتوں کے ذریعے ان کی مدد کرے گا۔ بلاشبہہ اس کی نصرت کے بغیر کوئی حکمت ِعملی کامیاب نہیں ہوسکتی۔
اِِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ o نَحْنُ اَوْلِیٰٓؤُکُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَشْتَہِیْٓ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَدَّعُوْنo (حم السجدہ ۴۱:۳۰-۳۱) جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے، یقینا اُن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ ’’نہ ڈرو، نہ غم کرو، اور خوش ہوجائو اُس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ ہم اِس دنیا کی زندگی میں بھی تمھارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی۔ وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمھیں ملے گا اور ہرچیز جس کی تم تمنّا کرو گے وہ تمھاری ہوگی، یہ ہے سامانِ ضیافت اُس ہستی کی طرف سے جو غفور اور رحیم ہے‘‘۔
میرا خاندانی نام بھولا ناتھ ہے۔ میرے والد کا نام کیدار ناتھ تھا۔ میں ۱۹۵۰ء میں پلہری گاؤں ضلع باندہ (یوپی) میں پیدا ہوا اور گریجویشن ببیرو ضلع باندہ سے کی۔ دوران تعلیم جن دنوں میںہاسٹل میں رہتا تھا، میرا ایک کمرے کا ساتھی تبارک حسین ایک مسلمان طالب علم تھا۔ تبارک حسین سے ملنے ہردولی گاؤں کے جماعت اسلامی کے ایک رکن اشرف حسین صاحب آتے جاتے تھے۔ مجھے بھی انھی کے ذریعے اسلامی عقائد خصوصاً توحید، رسالت و آخرت کے بارے میں واقفیت حاصل ہوئی۔ شرک کو تو میں پہلے ہی سے ناپسند کرتا تھا اور بت پرستی سے مجھے کوئی دل چسپی نہ تھی، اس لیے تبادلۂ خیال کے نتیجے میں میں اسلام کے عقائد اور تعلیمات سے کافی متاثر ہوا۔
اسی دوران میں علاقے میں ایک سنسنی خیز واقعہ پیش آیا، جس سے مجھے اسلام کی طرف پیش قدمی کے سلسلے میں فیصلہ کرنے میں آسانی ہوئی۔ علاقے کا بڑھئی برادری کا ایک ہندو نوجوان ممبئی سے ایک مسلمان لڑکی کو اپنے گاؤں لے آیا۔ وہ گاؤں اصلاً ٹھاکروں کا تھا۔ ہر قسم کے دباؤ کے باوجود گاؤں والے لڑکی کو واپس کرنے پر تیار نہ ہوئے۔ کافی تناؤ والے ماحول میں اشرف حسین صاحب نے کسی طرح لڑکی او رپھر لڑکے سے ربط قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ انھوں نے لڑکے کو سمجھایا کہ تمھارے گاؤں کے ٹھاکر تمھیں جان سے مارنے کے بعد تمھاری بیوی کو ہتھیا لیں گے، اس لیے دنیا و آخرت میں مسئلے کا حل یہ ہے کہ تم اسلام قبول کر لو۔ یہ بات اس نوجوان کی سمجھ میں آگئی۔ بہرحال وہ اس کو اس گاؤں سے نکال کر فتح پور، یوپی لے گئے۔ وہاں لڑکے نے اسلام قبول کیا اور پھر اسے ککرالہ ضلع بدایوں بھیج دیا، جہاں کی اسلامی درس گاہ میں دونوں میاں بیوی تدریسی خدمات انجام دینے لگے۔ بعد میں لڑکے نے ممبئی میں اپنی سسرال سے بھی تعلقات بہتر کرلیے اور پھر وہ دونوں ممبئی منتقل ہو گئے۔
فرقہ وارانہ، جذباتی اور بظاہر لاینحل حساس مسئلے کو جس خوب صورتی سے اشرف حسین صاحب نے حل کیا، اس سے میں کافی متاثر ہوا۔ اسی دوران میں نے اسلام کے بارے میں مطالعہ اور تبادلۂ خیال جاری رکھا۔ گریجویشن کا امتحان دینے کے بعد اشرف صاحب نے مجھے لکھنؤ لے جانے کا پروگرام بنایا ، چنانچہ ۱۹۷۱ء میں تبارک حسین اور اسلام سے متاثر چند دوسرے ہندو ساتھیوں کے ساتھ میں لکھنؤ جماعت اسلامی کے دفتر پہنچا۔ وہاں امیر حلقہ جناب سید حامد حسین مرحوم، عبد الغفار ندویؒ اور حبیب اللہ ندویؒ سے میری ملاقات ہوئی۔ جماعت کے دفتر میں ہونے والے درسِ قرآن میں ہم لوگ شریک ہوتے رہے۔ میں نے نماز بھی وہیں سیکھی۔ اشرف صاحب کی معیت میں ہم نے مولانا ابوالحسن علی ندویؒ سے ملاقا ت کی۔ انھوں نے ہمیں دوپہر کے کھانے کی دعوت دی اور پھر کچھ کتابیں مطالعے کے لیے دیں۔ مئی ۱۹۷۱ء میں اتر پردیش حلقہ لکھنؤ کے دفتر میں مولوی حبیب اللہ ندویؒ کے ہاتھ پر میں نے اسلام قبول کیا اور میرا نام عبدالرحمن رکھا گیا۔
لکھنؤ چند روز رہنے کے بعد میں وطن آ گیا۔ گھر پر سب سے پہلے مسئلہ یہ پیش آیا کہ نماز کیسے اداکی جائے؟ ایک دو وقت کی نمازیں توگاؤں سے باہر تالاب کے کنارے پڑھیں، لیکن پھر ذہن میں آیا کہ ہندی میں نماز کی کتاب والدہ کو سنائی جائے۔ کتاب سنانے کے ساتھ میں نے والدہ کا ذہن اس طرح بنایا کہ ایشور (خدا) کی عبادت اس طرح کی جائے تو کیا حرج ہے؟ والدہ نے کہا کہ کوئی حرج نہیں ہے۔ اس طرح گھر پر میں نے نماز پڑھنا شروع کر دی۔ ایک دن مجھے نماز پڑھتے والد صاحب نے دیکھ لیا۔ چونکہ ان کا اکلوتا چہیتا بیٹا تھا۔ اس لیے گھر کا ماحول مکدر نہ ہوا۔
اسی دوران اشرف صاحب نے مجھے جماعت اسلامی بریلی کے اجتماع میں شرکت کی دعوت دی۔ وہیں میری ملاقات سید حامد علی علیہ الرحمہ سے ہوئی۔ انھوں نے اسی دوران مجھے سید حامد علی کے ہمراہ تعلیم و تربیت کے لیے ان کے وطن میران پور کٹرہ، ضلع شاہجہان پور (یوپی) بھیجنے کا فیصلہ ہوا۔ سید حامد علی کے زیرتربیت رہنے کے علاوہ میں وہاں کی درس گاہ اسلامی میں ہندی، حساب اور انگریزی پڑھانے لگا۔ سید حامد علی کی ہدایت پر میں نے اُردو لکھی۔ الحمدللہ ۱۸ دنوں کے اندر اردو پڑھنے کی اتنی استعداد ہو گئی کہ میں نے ماہ نامہ نور اور الحسنات پڑھنا شروع کر دیا۔
کچھ عرصے کے بعد میں وطن گیا، اور والدین کو اپنے قبول اسلام کے فیصلے سے آگاہ کیا۔ والدین نے مجھے برا بھلا تو نہ کہا، البتہ انھیں میرے قبولیت اسلام سے بہت زیادہ دکھ ہوا۔ تدریس میں گریجویشن کے بعد مجھے ٹیچر کی سرکاری نوکری ملنے کے وسیع امکانات تھے، لیکن میں نے یہ تہیہ کرلیا کہ میں سرکاری نوکری نہیں کروں گا۔ والدین نے کافی کوشش کی کہ میں اپنے دونوں فیصلے بدل دوں۔ لیکن میں نے سختی کے ساتھ انکار کر دیا۔ گھر سے جب رخصت ہونے لگا تو والدہ زار و قطار رو رہی تھیں لیکن الحمد للہ، اللہ نے مجھے استقامت دی، اور میں وطن سے کٹرہ واپس آ گیا۔ کچھ روز بعد والدہ کا خط آیا: ’’ٹیچر کی حیثیت سے تمھار انتخاب ہوچکا ہے اور تقررنامہ بھی موصول ہو چکا ہے‘‘۔ میں نے جواب میں پھر اس فیصلے کو دہرایا کہ مجھے سرکاری ملازمت نہیں کرنی۔
بچپن ہی میں میری شادی ہو گئی تھی، لیکن چونکہ لڑکی کی عمر بہت کم تھی، اس لیے باضابطہ رخصتی نہیں ہوئی تھی۔ میرے سسرال والوں نے قبولِ اسلام پر نہایت برہمی کا اظہار کیا۔ میں نے ان پر یہ بات واضح کر دی کہ اگر لڑکی اسلام قبول کر لیتی ہے، تبھی میں اسے اپنے ساتھ رکھوں گا، ورنہ نہیں۔ سسرال اور بیوی اس معاملے میں آمادہ نہ ہوئے۔ اس طرح میری شادی کا معاملہ ختم ہوگیا۔
میں مولانا سید حامد علی کے گھر رہتا رہا۔ مولانا صاحب ، ان کی اہلیہ اور ان کے بچے سب مجھے اپنے گھر ہی کا ایک فرد سمجھتے تھے۔ الحمد للہ، گھر میں مجھے اپنائیت کا ماحول ملا اور غیریت کا قطعاً احساس نہ ہوا۔ میں نے سید حامد علی سے کہا کہ میں آپ کو ابو اور امی کو امی کہتا ہوں، اس لیے نام بھی اپنے بچوں (خالد حامدی، راشد حامدی) کی طرح رکھ دیجیے، اس طرح اس وقت سے عبد الرحمن سے بدل کر میرا نام عابد حامدی قرار پایا۔
۱۹۷۲ء میں مَیں نے مولانا سید حامد علی سے اصرار کر کے جامعۃ الفلاح ، بلریا گنج ضلع اعظم گڑھ (یوپی) جا کر پڑھنے کے لیے کہا، جہاں انھوں نے اپنے بڑے صاحب زادے خالد حامدی اور اپنے زیر تربیت دوسرے نو مسلم بھائیوں کو حصول تعلیم کے لیے بھیجا ہوا تھا۔ چنانچہ میں جامعۃ الفلاح پہنچا اور تقریباً پانچ سال وہاں رہا۔ صرف عالمیت کا امتحان بعض وجوہ سے نہیں دے پایا۔ ۱۹۷۸ء میں وہاں سے دہلی کے قریب غازی آباد (یوپی) منتقل ہو گیا۔ سید حامد علی بھی دہلی منتقل ہوچکے تھے۔ آٹھ نو مہینے مولوی نسیم غازی صاحب کے یہاں رہا، جو جامعۃ الفلاح سے عالمیت کرکے اپنے وطن غازی آباد (یوپی) آ چکے تھے۔ پھر مراد نگر ضلع غازی آباد میں درس گاہ کھولنے کا پروگرام بنایا، تو وہاں میں نے تدریس کا کام شروع کیا۔ اسی دوران پانجی ضلع باغپت (یوپی) میں درس گاہ شروع ہوئی تو وہاں منتقل ہوکر تدریس کے فرائض انجام دینے لگا۔
میری شادی کی بات چیت متعدد مقامات پر چلی، لیکن مسلمانوں میں ذات پات کے رجحان کی موجودگی کی وجہ سے کامیابی نہ ہو پائی۔ بٹراڑہ ضلع مظفر نگر (یوپی) سے ایک دوشیزہ ریکھا اسلام قبول کر کے فاطمہ ہو چکی تھیں۔ یہ دہلی میں مولانا سید حامد علی کے یہاں بھی کچھ دن رہیں۔ انھی سے میرا نکاح مارچ ۱۹۸۲ء میں ہوا۔ الحمد للہ، میرے ان سے دولڑکے اور لڑکی ہے۔ یہ سب تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ میں اپنی اہلیہ کے ساتھ بعض مصالح کے تحت ککرالہ ضلع بدایوں (یوپی) منتقل ہو گیا۔ پھر مراد نگر پھر غازی آباد آ گیا، جہاں میں ایک عرصے سے بنارس گلاسز پرائیویٹ لمیٹڈ میں ملازمت کر رہا ہوں۔ والدین سے میرا گہرا ربط رہا اور ان کے پاس آتا جاتا رہا۔ انتقال سے کچھ عرصہ قبل والدصاحب میرے پاس آگئے تھے اور انھوں نے برضا و رغبت اسلام قبول کر لیا تھا۔ ان کا نام محمد حامد رکھا گیا تھا۔ والد کے انتقال کے بعد والدہ بھی میرے پاس آ گئیں۔ الحمد للہ انتقال سے قبل انھوں نے بھی اسلام قبول کر لیا تھا۔ ان کا نام رضیہ بیگم رکھا گیا تھا۔
اسلام میں وحدانیت کے بعد میرے لیے سب سے متاثر کن نماز میں مساوات اور کھانے پینے میں مسلمانوں کا اجتماعی طور طریقہ ہے، جو مجھے بے حد پسند آیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں آپس میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے۔ نمازیں سب ایک ساتھ پڑھتے ہیں اور کھانا بھی سب ایک ساتھ کھاتے ہیں، لیکن اس کے علاوہ عام مسلمانوں میں اسلام سے کافی دوری پائی جاتی ہے۔ ان کا رویہ، ان کا سلوک اور ان کے معاملا ت میں غیر اسلامی عناصر کی اچھی خاصی آمیزش ہے، جس کی وجہ سے ایک غیر مسلم کے اسلام کی طرف بڑھتے قدم رک جاتے ہیں، بلکہ بسااوقات نو مسلم کے مرتد ہو جانے کا خدشہ بھی ہوتا ہے۔ اس لیے میری مسلمانوں سے درخواست ہے کہ وہ اپنی زندگی میں اسلام کا صحیح نمونہ پیش کرنے کی کوشش کریں تاکہ اسلام کا پیغام تیزی سے عام ہو اور اسلام قبول کرنے والے اسلام کوبے دھڑک قبول کریں۔
۲۱جنوری ۲۰۱۲ء کو حتمی نتائج کا اعلان ہوا اور انقلاب کی پہلی سالگرہ سے دو روز پہلے، ۲۳جنوری کو اسمبلی کا افتتاحی اجلاس ہوا۔ ۴۹۸ منتخب ارکان کے علاوہ ۱۰ نامزد کردہ کا اعلان کیا گیا، حلف برداری ہوئی اور پھر اسپیکر کا انتخاب عمل میں آیا۔ درست قرار دیے جانے والے ۴۹۶ ووٹوں میں سے اخوان کے اہم رہنما ڈاکٹر محمد سعد الکتاتنی ۳۹۹ ووٹ لے کر پہلی آزاد اسمبلی کے اسپیکر چُن لیے گئے۔ اللہ کی قدرت دیکھیے کہ گذشتہ سال ڈاکٹر سعد ’لیمان‘ جیل میں تھے اور آج پارلیمنٹ کے اسپیکر بنادیے گئے۔ دوسری جانب عین اسی روز، فرعون صفت سابقہ حکمران حسنی مبارک اپنے دونوں بیٹوں اور ظلم ڈھانے کے ذمہ دار وزیر داخلہ سمیت عدالت کے کٹہرے میں نشانِ عبرت بنا کھڑا تھا۔
ڈاکٹر سعد کی کامیابی کا اعلان ہوا تو وہ مبارک بادیں جمع کرتے ، اسپیکر کے لیے مخصوص نشست پر آئے اور حمدوثنا کے بعد یہ آیت پڑھی: قُلْ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَ بِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا ط ھُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَo (یونس ۱۰:۵۸)’’کہو کہ یہ اللہ کا فضل اور اس کی مہربانی ہے کہ یہ چیز اس نے بھیجی، اس پر تو لوگوں کو خوشی منانی چاہیے، یہ ان سب چیزوں سے بہتر ہے جنھیں لوگ سمیٹ رہے ہیں‘‘۔ ڈاکٹر محمد سعد اکتوبر۲۰۰۸ء میں مینارِ پاکستان پارک میں منعقد ہونے والے جماعت اسلامی کے اجتماعِ عام میں اخوان کی نمایندگی کرچکے ہیں۔ پاکستان اور اہلِ پاکستان سے خصوصی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ دھیما مزاج لیکن اپنے فرائض کی ادایگی کے لیے ہردم چوکنا و بیدار رہنے والے ڈاکٹر سعد کے انتخاب کو مصر کے ہرمخلص شخص نے تحسین کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ یوں جیسے عمارت کی پہلی مضبوط اینٹ، ٹھیک اپنی جگہ پر رکھ دی گئی ہو۔
اب ۲۹ جنوری سے مجلس شوریٰ، یعنی سینیٹ کے انتخاب شروع ہونا ہیں۔ یہ بھی تین مراحل میں اور عام انتخابات کے ذریعے مکمل ہوں گے۔ پھر دونوں ایوان مل کر ۱۰۰ رکنی دستوری کمیٹی منتخب کریں گے۔ کمیٹی زیادہ سے زیادہ چھے ماہ کے دوران دستور کا مسودہ تیار کرکے پارلیمنٹ میں پیش کرے گی اور دستور پیش ہونے کے ۱۵ روز کے اندر اندر اس پر عوامی ریفرنڈم کروایا جائے گا۔ اسی دوران صدارتی انتخابات کا اہم ترین مرحلہ بھی آئے گا۔ یہ بھی طے ہے کہ موجودہ عبوری صدر، جرنل حسین الطنطاوی کو یہ عہدہ بہرصورت ۳۰ جون سے پہلے پہلے نومنتخب صدر کے سپرد کرنا ہوگا۔ فوجی حکومت سے اس تاریخ کا اعلان کروانا بھی عوامی تحریک کی ایک بڑی کامیابی ہے۔آیندہ مراحل میں جو چند بڑے چیلنج درپیش ہیں ان میں سے ایک فوج کے کردار کا تعین بھی ہے۔ فوجی عبوری مجلس کی یقینا یہ کوشش ہوگی کہ ۱۰۰ رکنی دستوری کمیٹی اور اس کی سفارشات میں اس کا کردار بھرپور رہے۔ انتخابات کے دوران اس نے قومی مجلس مشاورت کی تشکیل بھی اسی نقطۂ نظر سے کی تھی لیکن اخوان کی طرف سے اس میں شرکت سے معذرت اور مجلس مشاورت کے خلاف ہونے والے عوامی مظاہروں کے بعد وہ خود ہی مرجھا کر رہ گئی تھی۔ اب اسمبلی وجود میں آجانے کے بعد اس کی حیثیت مزید کم ہوگئی ہے اور اس کے کئی ارکان مستعفی بھی ہو چکے ہیں۔
اخوان اور دیگر کئی جماعتیں یہ نہیں چاہتیں کہ فوج کے ساتھ خواہ مخواہ کا تصادم مول لیا جائے،لیکن وہ یقینا یہ بھی نہیں چاہتیں کہ اصل اقتدار و اختیار فوج ہی کے ہاتھ میں رہے۔ نومنتخب اسپیکر محمد سعد الکتاتنی نے اپنے افتتاحی خطاب میں شفاف انتخابات کی نگرانی کرنے والے ججوں کے علاوہ فوج کو بھی بھرپور خراج تحسین پیش کیا کہ اس نے وعدے کے مطابق، مقررہ وقت پر پہلے حقیقی اور شفاف انتخابات کروادیے۔ یار لوگوں نے اس بات کو فوج اور اخوان کے مابین گٹھ جوڑ قرار دینا شروع کردیا ہے۔ کچھ بزر جمہروں نے تو اخوان کو خود امریکا کے ساتھ ہی نتھی کردیا ہے، لیکن حقیقت یہی ہے کہ اخوان صرف اور صرف اللہ پر بھروسے اور عوام کی تائید سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ وہ کسی بھی گٹھ جوڑ اور سازش کو اللہ کے ساتھ بدعہدی اور شہدا کے خون سے غداری سمجھتے ہیں۔
ذرا ایک نظر اسرائیلی ذرائع ابلاغ کو بھی دیکھ لیجیے۔ اس الزام کی قلعی کھل جائے گی۔ وہاں ایک قیامت برپا ہے۔ حکومتی ذمہ داران، فوجی جرنیلوں اور دانش وروں سے لے کر عام شہری تک ہر کوئی واویلا کررہا ہے کہ اسرائیل کا مستقبل سنگین خطرے سے دوچار ہوگیا ہے۔ روزنامہ یدیعوت احرونوت اپنے ایک مضمون ’’مشرق وسطیٰ مسلمانوں کی جنت یہودیوں کا جہنم‘‘ کے عنوان سے لکھتا ہے: ’’تیونس میں اسلامسٹس ۴۰فی صد ووٹ لے گئے ہیں، مراکش میں تقریباً ۳۰فی صد، جب کہ مصر میں اخوان اور سلفی تحریک نے مل کر ۷۰فی صد ووٹ حاصل کرلیے ہیں۔ لیبیا میں قذافی کے قتل کے بعد اسلامی شریعت چاہنے والے اقتدارکے ایوانوں میں ہیں۔ شام کی عبوری قومی کونسل کے ۱۹؍ ارکان میں سے ۱۵ اسلامی ذہن رکھتے ہیں‘‘۔ پھر آگے چل کر لکھتا ہے: ’’سیکولرازم لیکن کرپشن سے بھرپور چھے دہائیوں کے بعد مشرق وسطیٰ اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ نظام میں ڈھل رہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اب یہ خطہ تمام یہودیوں اور بے دین عناصر کے لیے جہنم بن کر رہ جائے گا‘‘۔
یروشلم پوسٹ دھمکی آمیز لہجے میں لکھتا ہے:’’اسرائیلی فوج کے منصوبہ بندی کمیشن نے فوری طور پر نئے فوجی دستے ترتیب دینے کی سفارش کی ہے۔ جلد یا بدیر ہمیں یقینا مزید فوج کی ضرورت پڑے گی‘‘۔ وزیر اعظم اسحق رابن کا دست راست ایتن ہاپر لکھتا ہے: ’’اسرائیل کی سلامتی بلکہ اس کے وجود کو اس وقت تین بڑے خطرات لاحق ہیں اور وہ ہیں: عالم عرب میں انقلاب کی بہار، اسرائیل سے اس کا حقِ وجود سلب کرنے کی کوششیں، اور ڈیموگرافک (یعنی ہماری مخالف آبادی کے بڑھتے چلے جانے کا) خطرہ‘‘۔ مزید لکھتا ہے: ’’عرب ممالک میں ریڈیکل اسلامی طاقتیں اقتدار میں آرہی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل کے گرد ایسی طاقتوں کا حصار مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جائے گا جو اس کے وجود ہی کے خلاف ہیں‘‘ (روزنامہ معاریف، ۲۷ نومبر ۲۰۱۱ئ)۔ جنرل بنیامین الیعازر ۱۵نومبر اور پھر ۳دسمبر کو اسرائیلی سرکاری ریڈیو پر کہتا ہے: حالات تبدیل ہوگئے، مستقبل غیرواضح اور تاریک ہوچلا ہے‘‘۔اسرائیلی وزیر دفاع ایہود باراک بھی دہائی دیتا ہے: ’’مصری انتخابات کے نتائج انتہائی پریشان کن اور ہوش اڑا دینے والے ہیں‘‘۔ یہ اور اس طرح کے لاتعداد تبصرے اور تحریریں ہیں جو اسرائیل کی پریشان خیالی کا پرتو ہیں۔ اس کیفیت میں امریکا اسلامی تحریکات کی کامیابی کو کیسے دیکھتا ہوگا، اندازہ مشکل نہیں ہے۔ عالمِ عرب میں تبدیلی کا آغاز امریکا، اسرائیل اور ان کے حواریوں کے لیے ایک کڑوی حقیقت تھی۔ امریکا اگر ان تمام ممالک اور ان کے عوام سے دشمنی مول لے لیتا تو اس وقت عالمِ اسلام میں اس کے خلاف جتنی نفرت پائی جاتی ہے اس میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا۔ ظالم ڈکٹیٹروں کے خلاف غصے کا عوامی لاوا، امریکا کی رہی سہی ساکھ کو بھی راکھ بنا دیتا۔ عرب انقلابات کی حمایت میں بیان جاری کردینے کا مطلب کسی بھی صورت یہ نہیں ہے، کہ وہ عوام کی حقیقی نمایندہ منتخب حکومتوں کو دل سے قبول کرلے گا۔
تیونس ، مراکش اور مصر کی نومنتخب حکومتوں کے سامنے بیرونی خطرات ہی اصل آزمایش نہیں ہیں، اندرونی خطرات اس سے بھی زیادہ مہیب ہیں۔ بیرونی طاقتیں بھی مختلف اندرونی عناصر ہی کو آلۂ کار بناتی ہیں۔ امریکی وزارتِ خارجہ کھلم کھلا اعلان کرچکی ہے کہ وہ انتخابات کے دوران عالمِ عرب کی لبرل طاقتوں کی مدد کے لیے انھیں کروڑوں ڈالر دے چکی ہے۔ مصر کے نیم سرکاری اخبار الاہرام کے مطابق مصری پولیس نے ۳۰دسمبر کو سول سوسائٹی کے نام پر کام کرنے والی بعض تنظیموں کے دفاتر پر چھاپہ مارا، تو وہاں سے لاکھوں ڈالر اور اہم دستاویزات برآمد ہوئیں۔
l یمن: مصر کی طرح یمنی عوام کے لیے بھی جنوری ۲۰۱۲ء کا آخری عشرہ تاریخی لمحات لے کر آیا۔ ۲۲جنوری کو اس وقت عوام کو اپنے کانوں پر اعتبار نہ آیا جب جنرل علی عبداللہ صالح نے سرکاری ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ: ’’میں علاج کے لیے امریکا جا رہا ہوں۔ ۳۳سالہ اقتدار میں اگر مجھ سے کوئی غلطی ہوگئی ہو تو میں اس پر معذرت خواہ ہوں‘‘۔ علی عبداللہ بھی ڈکٹیٹر تھا، لیکن یمن کی قبائلی روایات کے باعث وہ عوام پر صرف ایک حد تک ہی ظلم ڈھا سکتا تھا۔ ہرشخص روایتی خنجر اور کلاشنکوف کے علاوہ مضبوط قبائلی حصار کا تحفظ رکھتا تھا، لیکن چال بازیوں اور کہہ مکرنیوں میں یمنی صدر نے سب کو مات دے دی ہے۔ گذشتہ تقریباً ۱۱ ماہ کی عوامی تحریک میں پوری قوم سڑکوں پر اُمڈ آئی تھی۔ صدر نے باربار مذاکرات کیے، معاہدے کیے، اعلانات کیے لیکن ہربار اپنا ہرعہدوپیمان شوقِ اقتدار کی نذر کر دیا۔ خطرناک قاتلانہ حملہ بھی ہوا، اہم حکومتی عہدے داران مارے گئے، خود بھی شدید زخمی ہوگیا، علاج کے لیے سعودیہ لے جایا گیا، کئی روزہ افواہ گرم رہی کہ دنیا سے چلا گیا لیکن موقع ملتے ہی جھلسے ہوئے چہرے کے ساتھ نمودار ہوکر کہا کہ میں بدستور صدر ہوں۔ پھر اعلان کیا کہ اقتدار چھوڑ رہا ہوں، لیکن رات کی تاریکی میں ایک روز خاموشی سے یمنی دارالحکومت صنعا کے ایئرپورٹ اور وہاں سے ہیلی کاپٹر میں سیدھا ایوانِ صدر میں جا اُترا۔ آمد اتنی خفیہ تھی کہ ایئرپورٹ اتھارٹی اور ذاتی محافظوں کو بھی چند لمحے پہلے اطلاع دی گئی۔
یمنی عوامی تحریک کو مصر، تیونس یا لیبیا و شام کی طرح بہت زیادہ میڈیا کوریج نہیں ملی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جتنے بڑے بڑے عوامی اجتماع یمن میں ہوئے ہیں، ان میں سے کسی بھی ملک میں نہیں ہوئے۔ ۱۱ ماہ کی تحریک کے دوران کوئی جمعہ ایسا نہیں تھا کہ جب ہربڑے شہر میں کئی کئی لاکھ لوگ جمع نہ ہوئے ہوں۔ ایک مارچ تو ایسا انوکھا تھا کہ لاکھوں افراد نے جنوبی شہر تعز سے دارالحکومت تک ۲۵۰کلومیٹر کا فاصلہ پیدل طے کیا۔ پانچ روزہ پیدل سفر کے دوران یہ کاررواں جہاں سے بھی گزرا مزید افراد شریک ہوتے گئے، لیکن ’مضبوط کرسی‘ کے جنون میں مبتلا صدر نے دارالحکومت کے باہر ہی شرکا کو کچلنے کی ناکام کوشش کی۔ ۱۲شہید اور ۳۰۰سے زائد افراد زخمی ہوئے لیکن عوام کو قصرِصدارت پہنچنا تھا، وہ بڑی تعداد میں پہنچ گئے۔ امریکا جانے سے پہلے علی عبداللہ نے اپنی آخری سیاسی جنگ اپنے اور اپنے اہلِ خانہ و رفقاے کار کے لیے استثنا حاصل کرنے کے لیے لڑی۔ وہ بضد رہا کہ اقتدار چھوڑنے کے بعد مجھ پر مظاہرین کو قتل کرنے سمیت کسی بھی طرح کا مقدمہ نہیں چلایا جائے گا۔ عوام نے یہ مطالبہ مسترد کر دیا لیکن صدر خود ہی اسمبلی سے قرارداد منظور کروا کے بزعمِ خود تمام مقدمات سے بَری ہوگیا۔ علی عبداللہ صالح سمیت کوئی حکمران اس سوال کا جواب نہیں دیتا کہ دامن اگر واقعی پاک ہے، تو عدالت سے کیوں گھبراتے ہو، اور اگر جرائم کیے ہیںتو کوئی عارضی استثنا ’اصل عدالت‘ اور اس کی سزا سے کیوں کر بچائے گا۔ وہ سزا تو خالدین فیھا کا اعلان بھی سناتی ہے۔
علی عبداللہ کے خلاف تحریک کے آغاز ہی سے مغربی تجزیہ نگاروں نے لکھنا شروع کردیا تھا کہ یمن میں تبدیلی آئی تو یہاں بھی اخوان المسلمون برسرِاقتدار آجائے گی۔ اب اتنی تبدیلی تو آگئی کہ ۳۳سال سے انا ولاغیری کا نعرہ لگانے والا رخصت ہوگیا۔ لیکن ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔ تیونس اور مصر کی صورت حال سے بچنے کے لیے ۲۱فروری کو صدارتی انتخابات کروانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ دو سال کے عہدصدارت کے بعد پارلیمانی اور صدارتی انتخابات ہوں گے۔ یمن میں اسلامی تحریک التجمع الیمنی للاصلاح کے نام سے سرگرم عمل ہے۔ دھن، دھونس اور دھاندلی کے بے شمار ہتھکنڈوں کے باوجود، الاصلاح پارلیمنٹ میں دوسرے نمبر پر آجاتی تھی۔ حالیہ وسیع تر عوامی تحریک کے دوران تو اس کا کردار مرکزی رہا۔ وہ نہ تو یہ دعویٰ کرتے ہیں اور نہ اس کے لیے کوشاں ہی ہیں کہ علی عبداللہ جیسا راندۂ درگاہ کردینے والا اقتدار انھیں مل جائے۔ البتہ ایک حقیقت نوشتۂ دیوار ہے کہ عوام کو ڈکٹیٹر سے نجات مل گئی اور اب عوام آزادانہ مرضی سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرسکیں گے۔ مراکش، تیونس اور مصر کی طرح یمن کے عوام بھی اپنا فیصلہ بہرصورت اسلام ہی کے حق میں دیں گے کہ یہی عالمِ عرب میں تبدیلیوں کا اصل عنوان ہے۔
l شام: عالمِ عرب میں جاری حالیہ تحریکوں میں اب شام کی عوامی تحریک رہ گئی ہے جو ڈکٹیٹر سے نجات کے لیے قربانیاں دے رہی ہے۔ نصف صدی سے حکمران اسد خاندان، دن رات قتلِ عام میں مصروف ہے۔ محتاط اعداد و شمار کے مطابق اب تک شہدا کی تعداد ساڑھے چھے ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔ لیکن شامی عوام میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ احتجاج کا دائرہ ایک کے بعد دوسرے شہر تک وسیع ہو رہا ہے۔ بشارالاسد اقتدار کی ناکام جنگ میں کسی بھی دشمن فوج سے زیادہ ظلم ڈھا رہا ہے۔ عرب لیگ نے شرماتے لجاتے ایک جائزہ وفد شام بھیجا، لیکن قتل عام ان کی موجودگی میں بھی جاری رہا۔ اب ایک اور وفد بھیجا جا رہا ہے۔ مظالم تو بشار بھی دیگر ڈکٹیٹر حکمرانوں کی طرح ڈھا رہا ہے، لیکن ایک بات میں اس کی ظالم افواج سب سے بازی لے گئی ہیں۔ وہ ظلم کے آخری ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے گرفتار شدہ شہریوں کو مجبور کرتی ہیں کہ وہ بشارالاسد کی تصویر کو سجدہ کریں۔ وہ انھیں بشار پر دل و جان نچھاور کردینے کا نعرہ لگانے پر مجبور کرتی ہیں۔ انھوں نے درودیوار پر یہ کفریہ نعرے لکھ دیے ہیں: لا الٰہ الا الوطن ولا رسول الا البعث، ’’وطن کے علاوہ کوئی معبود اور بعث پارٹی کے علاوہ کوئی رسول نہیں‘‘۔یہ تشدد اور نعرے اپنی تمام تر تصاویر اور وڈیوز کے ساتھ دنیا کے سامنے ہیں۔ دوسری طرف عوام کا نعرہ ہے: لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ، الشہید حبیب اللّٰہ، (شہید اللہ کا محبوب ہے)___ یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں کہ بالآخر غالب کس کلمے کو ہوکر رہنا ہے۔
_______________
سوال: مساجد میں پنج وقتہ نمازوں کی ادائی کے لیے بڑوں کے علاوہ بچے بھی آتے ہیں۔ یہ بچے ہرعمر کے ہوتے ہیں۔ کچھ بچے تو بہت چھوٹے ہوتے ہیں۔ دورانِ نماز بعض بچے شرارت کرتے ہیں، ان کے درمیان دھکم پیل، دوڑ بھاگ اور گفتگو ہوتی رہتی ہے، جس کی بناپر مسجد کے پُرسکون ماحول میں خلل واقع ہوتا ہے۔ نماز ختم ہونے کے بعد بعض لوگوں کی طرف سے بچوں پر ڈانٹ پھٹکار پڑتی ہے اور بسااوقات ان کی پٹائی بھی کردی جاتی ہے۔ اس رویّے سے اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں ان بچوں کے دلوں میں نماز اور مسجد سے دُوری نہ پیدا ہوجائے۔ ایک چیز یہ بھی دیکھنے میں آتی ہے کہ بچے پچھلی صفوں میں کھڑے ہوتے ہیں۔ نماز شروع ہونے کے بعد جو لوگ آتے ہیں وہ انھیں کھینچ کر اور پیچھے کردیتے ہیں۔ کچھ لوگ چھوٹے بچوں کو بڑوں کی صفوں میں اپنے ساتھ کھڑا کرلیتے ہیں۔ براہ کرم واضح فرمائیں کہ مساجد میں بچوں کی حاضری کے سلسلے میں شریعت کیا رہنمائی کرتی ہے؟ بچوں کو مساجد میں لانا بہتر ہے یا نہ لانا؟ کیا مسجد میں شرارت کرنے والے بچوں کے ساتھ ڈانٹ ڈپٹ کا رویہ مناسب ہے؟ نیز مسجد میں انھیں کہاں کھڑا کرنا چاہیے؟
جواب: مسجد اسلامی معاشرے کا نشانِ امتیاز ہیں۔ اسلام نے زندگی کے مختلف امور و معاملات کو اجتماعی طور سے انجام دینے کا جو حکم دیا ہے ، مساجد میں نماز باجماعت کی صورت میں اس کا عملی مظاہرہ ہوتا ہے۔ مساجد اللہ تعالیٰ کی عبادت کے مخصوص مقامات ہیں، اس لیے وہاں کے ماحول کو پُرسکون اور روح پرور بنائے رکھنا ضروری ہے۔ اسی بنا پر وہاں ایسے کام کرنے کی ممانعت کی گئی ہے جن سے سکون میں خلل آئے، شوروشغب ہو، لوگ اکٹھا ہوکر اِدھر اُدھر کی باتیں کریں اور نماز پڑھنے والے ڈسٹرب ہوں۔ اسی مصلحت سے مسجد میں خریدوفروخت کے کام ممنوع ہیں۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم مسجد میں کسی شخص کو خریدو فروخت کرتے دیکھو تو کہو: اللہ تعالیٰ تمھارے کاروبار میں نفع نہ کرے‘‘۔(جامع ترمذی، کتاب البیوع، باب النھی عن البیع فی المسجد، ۱۳۲۱)
اسی طرح مسجد میں گم شدہ چیزوں کا اعلان کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’جو شخص سنے کہ کوئی آدمی مسجد میں اپنی کسی گم شدہ چیز کا اعلان کر رہا ہے، وہ کہے: ’’اللہ کرے وہ چیز تمھیں واپس نہ ملے، کیوں کہ مسجدیں اس مقصد کے لیے نہیںبنائی گئی ہیں‘‘۔(مسلم، کتاب المساجد، باب النھی عن نشد الضالۃ فی المسجد، ۵۶۸، اسے ابودائود، ابن ماجہ، ابن خزیمہ، بیہقی اور ابوعوانہ نے بھی روایت کیا ہے)
ایک مرتبہ ایک شخص کا اُونٹ کھو گیا۔ اس نے مسجد میں ا س کا اعلان کردیا۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایسا کرنے سے منع کیا اور فرمایا: ’’مسجدیں تو مخصوص کام (عبادتِ الٰہی) کے لیے بنائی گئی ہیں‘‘۔(سنن ابن ماجہ، کتاب المساجد، باب النھی، عن انشاد السوال فی المسجد، ۷۶۵)
اس بنا پر ہر ایسے کام سے بچنا چاہیے جس سے نمازیوں کے سکون و انہماک میں خلل آئے، ان کا ذہن بٹے اور مسجد کا ماحول متاثر ہو۔دوسری جانب احادیث میں بچوں کی ابتداے عمر ہی سے دینی تربیت پر زور دیا گیا ہے۔ نماز کی فرضیت اگرچہ بلوغ کے بعد ہے، لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید فرمائی ہے کہ اس سے قبل ہی ان میں نماز کا شوق پیدا کیا جائے اور ان سے نماز پڑھوائی جائے۔ آپ ؐ کا ارشاد ہے:’’بچے سات سال کے ہوجائیں تو انھیں نماز کا حکم دو اور دس سال کے ہوجائیں (اور نماز نہ پڑھیں) تو انھیں مارو‘‘۔(سنن ابی داؤد، کتاب الصلاۃ، باب متی یؤمر الغلام بالصلاۃ،۴۹۵، سنن ترمذی:۴۰۷)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپؐ نے مختلف مواقع پر نماز پڑھی تو اپنے ساتھ بچوں کو شریک کیا۔ حضرت انسؓ،جن کی عمر ہجرتِ نبویؐ کے وقت دس سال تھی، بیان کرتے ہیں کہ رسولؐ اللہ نے ایک مرتبہ میرے گھر پر نماز پڑھی تو میں اور ایک دوسرا لڑکا آپؐ کے پیچھے کھڑے ہوئے اور ہم نے آپؐ کے ساتھ نماز پڑھی۔ (بخاری، کتاب الاذان، باب وضوء الصبیان: ۸۶۰۔ یہ حدیث مسلم، ابوداؤد، ترمذی، نسائی اور مسند احمد میں بھی مروی ہے)
بچوں کی دینی تربیت کے لیے ضروری ہے کہ انھیں قرآن کریم کی سورتیں یاد کرائی جائیں، نماز کے اوراد و کلمات حفظ کرائے جائیں، نماز پڑھنے کا طریقہ سکھایا جائے۔ گھر پر نماز پڑھی جائے تو انھیں شریکِ نماز کیا جائے اور انھیں اپنے ساتھ مسجد بھی لے جایا جائے، تاکہ وہ ابتداے عمر ہی سے مسجد کے آداب سے واقف ہوں اور انھیں باجماعت نماز ادا کرنے کی رغبت ہو۔ عہدِنبویؐ میں ہرعمر کے بچے مسجد نبویؐ میں جایا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسوں حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کی عمریں آپؐ کی وفات کے وقت سات آٹھ سال تھیں۔ متعدد روایات میں صراحت ہے کہ وہ نمازوں کے اوقات میں مسجد نبویؐ میں جایا کرتے تھے اور بسااوقات ان کی وجہ سے بہ ظاہر آپؐ کی نماز میں خلل واقع ہوتا تھا، لیکن کبھی آپؐ نے ان کی سرزنش نہیں فرمائی اور انھیں مسجد میں آنے سے نہیں روکا۔
حضرت ابوقتادہؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہوں تو چاہتا ہوں کہ نماز لمبی کروں، پھر کسی بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو اس ڈر سے نماز مختصر کردیتا ہوں کہ کہیں لمبی نماز اس کی ماں کے لیے تکلیف کا باعث نہ بن جائے‘‘۔
اُوپر جو کچھ تحریر کیا گیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ مسجد کے ماحول کو پُرسکون بنائے رکھنے کا اہتمام کرنا چاہیے اور اگرچہ بچوں کے مسجد میں آنے کی وجہ سے کچھ خلل واقع ہوتا ہے اور نمازیوں کا انہماک متاثر ہوتا ہے ، لیکن زیادہ بڑی مصلحت کی بنا پر اس خلل کو گوارا کرنا چاہیے۔ وہ مصلحت یہ ہے کہ ان کے اندر نماز کی ترغیب پیدا کی جائے اور انھیں اس کا عادی بنایا جائے۔
بعض حضرات بچوں کو مسجد میں لانے سے روکنے کے لیے ایک حدیث پیش کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’اپنی مسجدوں سے اپنے بچوں کو دُور رکھو‘‘(سنن ابن ماجہ باب یکرہ فی المساجد،۷۵۰)۔ لیکن یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ زوائد میں ہے کہ ’’اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ اس میں ایک راوی حارث بن نبہان ہے، جس کے ضعف پر ناقدینِ حدیث کا اتفاق ہے‘‘۔ عصرِحاضر کے مشہور محدث علامہ محمد ناصرالدین البانی ؒ نے بھی اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عہدنبویؐ میں نمازِ باجماعت میں پہلے مردوں کی صفیں ہوتی تھیں، پھر بچوں کی۔ حضرت ابومالک اشعریؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کو آگے کھڑا کرتے تھے اور ان کے پیچھے بچوں کو۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الصلاۃ، باب مقام الصبیان من الصف،۶۷۷۔اس روایت کو اس کے ایک راوی شہر بن خوشب کی وجہ سے ضعیف قراردیا گیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے ضعیف سنن ابی داؤد، للالبانی، روایت ۵۵۳)
بعض مواقع پر آپؐ نے نماز پڑھی اور وہاں صرف بچے ہوتے تو اگر ایک بچہ تھا تو آپؐ نے اسے اپنی دائیں جانب کھڑا کرلیا اور اگر دو بچے ہوئے تو انھیں اپنے پیچھے کھڑا کیا۔ اس سے یہ استنباط کیا جاسکتا ہے کہ بچوں کی صفیں مردوں کے پیچھے بنائی جانی چاہییں، البتہ وقت ِ ضرورت انھیں بڑوں کے ساتھ بھی، درمیان یا کنارے کھڑا کیاجاسکتا ہے۔ علامہ البانی ؒ سنن ابی داؤد کی درج بالا روایت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ’’بچوں کو مردوں کے پیچھے کھڑا کرنے کی کوئی دلیل اس حدیث کے علاوہ مجھے نہیں ملی، اور یہ حدیث ناقابلِ حجت ہے۔ اس لیے میں اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتاکہ بچے مردوں کے ساتھ کھڑے ہوں، جب کہ صف میں وسعت بھی ہو‘‘۔ (فقہ الحدیث، طبع دہلی، ۲۰۰۴ئ، ج۱، ص ۴۸۸، بہ حوالہ تَمَامُ المِنَّۃ ،ص ۲۸۴)
بچوں کے، بڑوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ ان میں سنجیدگی آئے گی اور وہ شرارتیں کم کریں گے۔ مناسب یہ ہے کہ جماعت کھڑی ہونے کے وقت بڑوں کے پیچھے بچوں کی صف بنائی جائے۔ پھر نماز شروع ہونے کے بعد جو بڑے لوگ جماعت میں شامل ہوں، وہ بچوں کو کھینچ کر پیچھے نہ کریں، بلکہ ان ہی کی صف میں شامل ہوجائیں۔
مسجد میں شرارت کرنے والے بچوں کے ساتھ ڈانٹ پھٹکار کرنے، یا ان کی پٹائی کرنے کا رویہ مناسب نہیں ہے۔ آج کے دور میں دین سے دُوری عام ہے۔ بچے خاصے بڑے ہوجاتے ہیں، پھر بھی نہ ان میں نماز پڑھنے کی رغبت پیدا ہوتی ہے، نہ ان کو نماز پڑھنے کا سلیقہ آتا ہے۔ جوبچے مسجد میں آتے ہیں،اندیشہ ہے کہ ان کے ساتھ اختیار کیا جانے والا درشت رویّہ کہیں انھیں مسجد اور نماز سے دُور نہ کردے۔ عموماً شرارت کرنے والے بچے دو چار ہی ہوتے ہیں، لیکن صف میں موجود تمام بچوں کو ڈانٹ سہنی پڑتی ہے۔ اس کے بجاے انھیں سمجھانے بجھانے کا رویّہ اپنانا چاہیے۔
آخر میں والدین سے بھی گزارش ہے کہ وہ اپنے بچوں کی دینی و اخلاقی تربیت کا خصوصی اہتمام کریں۔ دین کی بنیادی قدریں ابتدا ہی سے ان کے ذہن نشین کریں۔ مسجد کی کیا اہمیت ہے؟ نماز کیوں پڑھی جاتی ہے؟ نماز میں کیا پڑھنا چاہیے؟ اس کی ادائی میں کتنی سنجیدگی اور سکون ملحوظ رکھنا چاہیے، یہ باتیں بچوں کو سمجھائی جائیں۔ اس سے اُمید ہے کہ مسجدوں میں بچوں کی موجودگی سے وہ شوروہنگامہ اور اودھم نہیں ہوگا ، جس کا آئے دن مشاہدہ ہوتا رہتا ہے۔ (ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)
س: آج کل مختلف انبیاے کرام ؑحضرت عیسٰی ؑ، حضرت یوسف ؑ اور حضرت موسٰی ؑاور حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر فلمیں بنائی جارہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایک اداکار انبیاے کرام کے کردار پر مبنی فلم میں اداکاری کرتا ہے، کیا یہ جائز ہے؟ کیا مسلمانوں کو ایسی فلمیں دیکھنا چاہییں، یا نہیں؟
ج: انبیاے علیہم السلام کی فلمیں بنانا اور ان میں اداکار کا کردار ادا کرنا ناجائز اور حرام ہے۔ اس سے انبیاے علیہم السلام کی توہین ہوتی ہے۔ان کی اپنے پاس سے شبیہہ بنانا، یہ انبیاے علیہم السلام پر جھوٹ کے مترادف ہے اور ان کی توہین ہے۔ مسلمان اس قسم کی حرکت کو قبول اور برداشت نہیں کرتے۔ اس لیے جہاں کہیں یہ کام ہو رہا ہو، اس کی مزاحمت کرنا چاہیے اور اسے روکنا چاہیے۔(مولانا عبدالمالک)
خلع کے بعد نکاح
س: کچھ عرصہ قبل میرے بیٹے کی شادی ہوئی تھی مگر کچھ تنازعات پیدا ہوگئے جو تمام تر کوشش کے باوجود حل نہ ہوسکے۔ میرے بیٹے کی بیوی نے عدالت میں خلع کا مقدمہ دائر کر دیا۔ اس نے اپنا مہر چھوڑ دیا اور عدالت نے اس کو خلع دے دی۔ اب یہ دونوں دوبارہ نکاح کرنا چاہتے ہیں۔ کیا خلع کے بعد نکاحِ ثانی ہوسکتا ہے؟
ج: آپ کے بیٹے سے اس کی بیوی نے خلع بذریعہ عدالت لی۔ عدالت کی طرف سے جاری کردہ خلع کی ڈگری تنسیخِ نکاح کی ڈگری ہوتی ہے جو ایک طلاق بائن ہوتی ہے۔ اس کے بعد میاں بیوی راضی ہوں تو دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں لیکن دوبارہ نکاح میں نیا مہر مقرر کرنا ہوگا۔ اس لیے یہ دونوں اگر دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔ واللہ اعلم!(ع - م )
س: مختلف دینی و سماجی تنظیمیں سال بھر عطیات، خیرات، زکوٰۃ، صدقات و چرم قربانی کی شکل میں رقوم وصول کرتی ہیں اور پورے سال پر تقسیم کر کے اپنی رفاہی خدمات سرانجام دیتی ہیں۔ اس طرح یہ تمام رقوم ایک طویل عرصے تک سودی بنکوں کے کھاتوں میں رکھی رہتی ہیں۔ اگر ان رقوم کو اسلامی بنک یا مضاربہ کے نفع بخش کھاتوں میں رکھوادیا جائے توایک طرف ہم سودی بنکوں کے کاروبار کو بڑھانے میں مددگار نہیں ہوں گے اور دوسری طرف ان دینی و سماجی تنظیمات کو اپنے رفاہی مقاصد کے لیے نفع کی صورت میں کچھ مزید رقم مل جائے گی جس سے مخلوقِ خدا کی بہترانداز میں خدمت ہوسکے گی۔ کچھ لوگ اس کو خلافِ شرع تصور کرتے ہیں۔ آپ سے رہنمائی کی درخواست ہے۔
ج: رقوم حفاظت کے لیے غیرسودی بنکوں میں رکھی جاسکتی ہیں تاکہ وہ محفوظ رہیں اور جن مقاصد کے لیے جمع کی گئی ہیں اُن میں حسبِ ضرورت نکال کر خرچ کی جاسکیں۔ دفتر یاگھر میں رکھنے سے رقم کے ضائع ہونے کاخطرہ ہوتا ہے۔ کسی اسلامی بنک میں اس طرح کی رقوم کو بڑھانے کے لیے مضاربہ یا مشارکہ میں لگانا بھی جائز ہے، تاکہ اصل رقم سے بھی فقراا ور مساکین کی مدد کی جائے اور مزید منافع حاصل کرکے بھی ان کی مدد کی جائے۔ لیکن رقم کے ڈوب جانے کی صورت میں اس فرد، یا ادارے کو اپنے پاس سے تاوان دینا پڑے گا، جس نے بنک میں کاروبار میں رقم لگائی ہوگی۔ واللّٰہ اعلم! (ع- م)
قرآن کریم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب ِ اطہر پر اُتارا گیا۔ اس کلام کو تلاوت کرکے اسے پڑھنے کے طریقے کی تعلیم دی گئی۔ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا سے معلوم ہوا کہ حقِ تلاوت قرآن ٹھیرٹھیر کر پڑھنے ہی سے ادا ہوتا ہے۔ تلاوت میں تلفظ کی درست ادایگی، مخارجِ حروف، وقف ووصل کے قواعد کو پیش نظر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ یہ کتاب آدابِ تلاوت اور طریقۂ تلاوت پر ایک اچھا اضافہ ہے۔ مؤلف نے کتاب میں عام فہم علمی اسلوب اختیار کرکے تجوید کی شُدبُد رکھنے والوں کے لیے عمدہ مواد جمع کر دیا ہے۔
مخارج حروف، صفاتِ حروف، تجوید کے منفرد قواعد، علم وقف، علم رسم الخط، علم قراء ت کے ساتھ ساتھ تلاوت شروع اور ختم کرنے کا طریقۂ کار اور علومِ قرآن کے متعدد موضوعات کو ترتیب دے کر قاری کی دل چسپی کا سامان کر دیا ہے۔ تجویدی اصطلاحات کی لغوی و اصطلاحی تعریفات کو بڑی خوبی سے ابتدا میں پیش کر کے ہرسبق کی تفہیم کو آسان کر دیا گیا ہے۔ اگر کتاب کا سبقاً سبقاً مطالعہ کیا جائے تو عملی مثالوں سے مزین اسباق، قراء ت کا لطف دوبالا کرنے کا سبب ہوں گے۔
یہ کتاب جدید تعلیم یافتہ افراد کے ذوق قرآن کو بڑھانے والی ہے۔ ۱۰؍ ابواب پر مشتمل یہ کتاب تجوید کے ابواب کا احاطہ کرتی ہے۔ آخر میں رسول کریمؐ کے خطوط کا عکس، جامع قرآن حضرت عثمانؓ کے مصحف کا عکس، کوفی رسم الخط قرآن کا عکس، قرآنی خطاطی کے نمونے اور دیگر عربی خطاطی کے نمونوں کا اضافہ اچھی کاوش ہے۔ (طارق نور الٰہی)
مغرب نے کتابیات نگاری کے فن میں بہت ترقی کی ہے لیکن اس فن کے مسلم بنیاد گزاروں خصوصاً ابن ندیم (صاحب الفہرست) اور حاجی خلیفہ (صاحب ِ کشف الفنون) نے بھی ناقابلِ فراموش خدمات انجام دی ہیں اور مستشرقین ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہیں۔ اُردو محققین گذشتہ چار پانچ عشروں سے اس فن کی طرف متوجہ تو ہوئے ہیں، مگر ابھی تک ہمارے ہاں کتابیات نگاری کے سائنسی اصول و ضوابط واضح شکل میں مرتب و متعین نہیں ہوسکے۔ اُردو زبان میں سیرتِ نبویؐ نہایت ہی باثروت اور وسعت پذیر موضوع ہے۔ اس لیے اس موضوع پر کم و بیش چار پانچ کتابیات مرتب ہوچکی ہیں، جن کی ترتیب میں نام وَر اساتذہ اور تحقیق کاروں (پروفیسر سیّدافتخار حسین شاہ مرحوم، پروفیسر حفیظ تائب مرحوم، پروفیسر حافظ احمد یار مرحوم اور ڈاکٹر انورمحمود خالد )نے حصہ لیا ہے۔
زیرنظر کتابیات میں ۱۹۸۰ء اور ۲۰۰۹ء کے درمیانی عرصے میں شائع ہونے والی ۱۷۸۵ کتب ِ سیرت کے حوالے الف بائی ترتیب سے یک جا کیے گئے ہیں۔ ہرحوالہ: مصنف/ مرتب/ مترجم کے نام، کتاب کے نام، مقامِ اشاعت، ناشر، سنہ اشاعت اور تعدادِ صفحات پر مشتمل ہے۔ اگر فاضل کتابیات نگار دو ایک سطروں میں ہر کتاب کی نوعیت بھی واضح کردیتے تو قاری کو بہتر رہنمائی مل جاتی (جیسا اہتمام بعض سابقہ کتابیات میں ملتا ہے)۔ یہ اس لیے کہ صرف نام سے کتاب کی محتویات کا بسااوقات پتا نہیں چلتا۔ادبِ سیرت میں بعض کتابیں ایک محدود دَور سے متعلق ہیں، بعض آپؐ کی سیرت اور شخصیات کے کسی ایک پہلو یا کسی خاص زمانے کا احاطہ کرتی ہیں، بعض میں صرف حالات ہیں، بعض صرف فضائل پر مشتمل ہیں، بعض بچوں کے لیے ہیں اور بعض حوالوں سے گراں بار، اُونچے درجے کی تحقیق کا حاصل ہیں وغیرہ۔
حافظ گھانچی صاحب ایک جامع کتابیاتِ سیرت تیار کرنے کا عزمِ مبارک رکھتے ہیں۔ مختلف رسائل و جرائد کے سیرت و رسولؐ نمبروں کے حوالے، اسی طرح اُردو میں سیرت پر پہلی کتاب سے تاایں دم چھپنے والی کتابوں کے حوالے بھی اس موعودہ کتاب میں شامل ہوں گے۔ جامع کتابیات سیرت وضاحتی (annotated) ہونی چاہیے۔ ا س سے قدروقیمت اور افادیت کئی گنا بڑھ جائے گی۔ (رفیع الدین ہاشمی)
’رسولِؐ رحمت‘ کا موضوع غزوات و سرایا ہیں۔ اس سلسلۂ تحریر میں مؤلف کی یہ تیسری کاوش ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں ۱۹غزوات اور ۲۱ سرایا میں حصہ لیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں ہمیشہ شہادت کی آرزو کی اور فرمایا کہ جہاد قیامت تک جاری رہے گا۔ یہ کتاب سیرتِ پاک کے اس اہم پہلو کو سامنے لاتی ہے ، اور یہودیت کی تاریخ، ان کی احسان فراموشی، ایذا رسانی، صحرانوردی، مدینہ کے مختلف قبائل، بنوقینقاع، بنونضیر، بنوقریظہ، خیبر اور بعض مشرک قبائل کے تذکرے اور تفصیلی تعارف پر مشتمل ہے۔ اخلاق و عادات، ان کے معاہدات اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور جماعت صحابہؓ کے ساتھ ان کے رویوں کا بیان مستند حوالوں سے بیان کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگی حکمت عملی، طریق کار اور صلح و امن کے بارے میں سیرحاصل روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس دوران جن احکامات و مسائل کا ذکر آیا ہے، ان کے بارے میں بھی رہنمائی دی گئی ہے۔ کتاب کے کُل ۱۰؍ابواب ہیں۔
پیش لفظ محترم سید منور حسن اور تقریظ محترم مولانا عبدالمالک نے لکھی ہے۔ اس سے قبل یہ سلسلۂ مضامین قسط وار ہفت روزہ ایشیا میں جاری رہا ہے۔ (عمران ظہور غازی)
زیرنظر کتاب ۵۵؍ اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ درخشاں کی داستان ہے۔ یہ تذکرہ اصحابِ رسولؐ کی سوانح عمری کی طرز پر نہیں مرتب کیا گیا بلکہ مذکورہ صحابہ کرامؓ کے کارناموں اور زندگی کے روشن پہلوئوں کو موضوع بنایا گیا ہے۔ وہ لوگ جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ’رضی اللہ عنہم و رضو عنہ‘ فرما دیا، اُنھی لوگوں کے کردار کی عملی مثالیں اس کتاب میں درج ہیں۔ تذکرہ قصہ گوئی کے انداز میں ہے اور پڑھتے ہوئے قاری جذب و شوق میں ڈوب جاتا ہے۔
دراصل یہ عربی کتاب رجال حول الرّسول کا اُردو ترجمہ ہے لیکن بقول مترجم: اس میں حک و حذف اور ترمیم و اضافے سے کام لیا گیا ہے۔ اسی موضوع پر عبدالرحمن رافت پاشا کی کتاب صورٌ من حیاۃِ الصحابہ سے ان واقعات کا اضافہ بھی کیا گیا ہے جو پہلے اس میں موجود نہیں تھے۔ کتاب کی زبان سلیس، عام فہم اور رواں ہے، فصاحت و بلاغت کی اچھی مثال۔ جناب ارشاد الرحمن نے ترجمہ ایسی عمدگی اور مہارت سے کیا ہے کہ ان کی تحریر ترجمہ معلوم نہیں ہوتی، تخلیق کا گمان گزرتا ہے۔(قاسم محمود احمد)
اُمت مسلمہ کا فخر ہے کہ وہ علوم کی ترویج کے ساتھ ساتھ علوم کے ایجاد کرنے میں اپنا کوئی ثانی نہیںرکھتی۔ اس دعوے کی حقیقت اُس وقت آشکار ہوتی ہے جب علوم القرآن و علوم الحدیث میں مسلمانوں کے کارہاے نمایاں کا مطالعہ کیا جائے۔ ڈاکٹر محمد باقر خان خاکوانی کی یہ تصنیف علوم الحدیث میں مسلمانوں کے کارنامے کی ایک مختصر داستان ہے۔ پہلے تین ابواب میں تو اصطلاحات کو آسان کرکے روزمرہ کی زبان میں علوم الحدیث کا تعارف کروایا گیا ہے۔ چوتھا باب حضرت ابن حجر عسقلانی کے عظیم کارہاے نمایاں خصوصاً ’نخبۃ الفکر‘ کے تعارف پر مشتمل ہے۔ پانچویں باب میں حدیث کی اقسام پر سیرحاصل گفتگو کی گئی ہے۔ اگلے تین ابواب تاریخ علومِ حدیث سے متعلق ہیں اور آخری باب میں علوم الحدیث کی مزید تفصیل، یعنی علم جرح و تعدیل، علم مختلف الحدیث، علم علل الحدیث، علم غریب الحدیث اور علم ناسخ و منسوخ کو پیش کر کے طلبہ علوم الحدیث کی پیاس کو بجھانے کا اہتمام بڑی عمدگی سے کیا گیا ہے۔ بی ایس اور ایم ایس اسلامیات اور علوم الاحادیث میں دل چسپی رکھنے والے حضرات کے لیے مفید کاوش ہے۔ (قلبِ بشیر خاور بٹ)
انیسویں صدی میں برعظیم میں انگریزوں کی آمد خصوصاً ۱۸۵۷ء میں ان کے تسلط کے بعد، بعض علاقوں میں جدید تعلیم کا آغاز ہوا، مگر ابتدا میں انگریزوں نے طبقۂ اناث کے لیے کوئی سکول کالج قائم نہیں کیا، حتیٰ کہ مسلمانوں میں جدید انگریزی تعلیم کے سب سے بڑے علَم بردار سرسیّداحمد خاں کا رویّہ بھی تعلیمِ نسواں کی جانب عدمِ التفات ہی کا تھا۔ اس ماحول میں عطیہ فیضی کا اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان جانا، ایک اچنبھے سے کم نہ تھا۔ وہ تقریباً ایک سال تک لندن میں زیرتعلیم رہیں، پھر خرابیِ صحت کی وجہ سے واپس آگئیں۔
ان کا لندن کا زمانۂ قیام تقریباً ایک سال کا ہے۔ زیرنظر کتاب اِسی ایک برس کا روزنامچہ یا ڈائری ہے۔ انھوں نے حصولِ تعلیم کے ساتھ ساتھ اِس عرصے میں خوب خوب سیروسیاحت بلکہ سیرسپاٹا بھی کیا۔ طرح طرح کی دعوتوں، پارٹیوں، تقریبات اور جلسوں میں شریک ہوئیں۔ لندن کی قابلِ ذکر عمارتوں، کتب خانوں، عجائب گھروں اور باغات کا مشاہدہ کیا۔ علامہ عبداللہ یوسف علی کے لیکچروں میں شریک ہوتی رہیں۔ اپنے مشاہدات کے بیان میں وہ خواتین کے نئی نئی اقسام کے لباسوں اور زیورات کا ، اور گھروں کی اندرونی سجاوٹوں کا بڑے ذوق و شوق سے ذکر کرتی ہیں۔ وہ لندن کے ’عجائبات‘ اور نئی نئی چیزوں پر متعجب اور حیران ہوتی ہیں مگر اہلِ مغرب اور فرنگی تہذیب پر اظہارِ حیرت کے باوجود کئی جگہ یہ ضرور کہتی ہیں کہ خدا کرے یہ تہذیب اور اس طرح کے بے ہودہ لباس ہمارے ملک میں رائج نہ ہوں۔ لباس میں بھی وہ شائستگی کی قائل ہیں۔
اِس روزنامچے سے ایک صدی پہلے کے لندن کے حالات و کوائف اور ماحول کا پتا چلتا ہے۔ لیکن عطیہ فیضی کے لیے جو باتیں باعثِ تعجب تھیں، ایک صدی گزرجانے، فاصلے سمٹ جانے اور ذرائع ابلاغ میں انقلاب کی وجہ سے آج کے قاری کو ان میں اتنی دل چسپی محسوس نہیں ہوتی، البتہ اس روزنامچے کی تاریخی اہمیت ضرور ہے۔ روزنامچے کے دیباچہ نگار ڈاکٹر معین الدین عقیل کے خیال میں یہ اوّلین نسوانی سفر ناموں میں سے ایک ہے۔ اس اہم تاریخی ماخذ کو محمد یامین نے بڑی محنت سے مرتب کیا ہے اور متن پر تقریباً ۲۵ صفحات کے مفید حواشی کا بھی اضافہ کیا ہے۔ تاریخ، تعلیم، اقبالیات اور ایک حد تک ادب سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے قابلِ مطالعہ کتاب ہے۔ (ر-ہ)
آج فلسطینی مسلمان بدترین صہیونی مظالم کا شکار ہیں۔ معصوم بچے، بوڑھے، خواتین اور معذور بھی یہودیوں کی سفاکی، درندگی اور بدترین مظالم سے محفوظ نہیں۔ عالمی قوتوں کی جانب داری اور اُمت مسلمہ کی بے حسی اس پر مستزاد ہے۔ زیرنظر کتاب کا مقصد ظلم اور ظالم کو بے نقاب کرنا اور مظلوم کی حمایت اور دادرسی کے جذبے کو بیدار کرنا ہے۔
زیرنظر کتاب ارضِ فلسطین کے تاریخی، سیاسی اور جغرافیائی حقائق کے ساتھ ساتھ یہودیوں کی نسلی تفاخر، ان کے بدترین مذہبی تعصب، انتہاپسندی، توسیع پسندانہ اور جارحانہ عزائم اور فلسطینی مسلمانوں پر لرزہ خیز مظالم کی رپورٹوں اور تجزیوں پر مشتمل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عالمی امن کے نام نہاد علَم برداروں اور ٹھیکے داروں کے ساتھ ساتھ مسلمان حکمرانوں کے مایوس کُن اور شرم ناک کردار کو بھی بے نقاب کیا گیا ہے۔ فلسطینی تحریکِ انتفاضہ حماس کی جدوجہد پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے اور مسلمان مجاہدین مرد وزن کی لازوال قربانیاں بھی بیان کی گئی ہیں۔ اسرائیل کے انجام کے بارے میں جامع تجزیے اور اُمت مسلمہ کے لیے لائحہ عمل کی کمی کھٹکتی ہے۔ تاہم، مجموعی طور پر مفید کاوش ہے جو مسئلۂ فلسطین کی اہمیت اور فلسطینی مسلمانوں کی طویل اور تاریخ ساز جدوجہد کو اُجاگر کرنے میں معاون ثابت ہوگی۔ پروفیسر خورشیداحمدصاحب کے پیش لفظ سے کتاب کی افادیت مزید بڑھ گئی ہے۔ (حمیداللّٰہ خٹک)
۱۹۴۷ء میں برطانوی استعمار برعظیم پاک و ہند سے رخصت ہوا اور دو آزاد ریاستیں بھارت اور پاکستان کی صورت میں وجود میں آگئیں۔ برطانوی ہند کی تمام ریاستوں خصوصاً مشرقی پنجاب، دہلی، یوپی اور ملحقہ علاقوں سے لاکھوں لوگ مشرقی و مغربی پاکستان میں پناہ گزین ہوئے۔ اس مہاجرت کے دوران اندازہ ہے کہ ۷۵ لاکھ انسان جاں بحق ہوئے۔ جن خاندانوں کے افراد نے قربانی دی اُن کی دوسری اور تیسری نسل کو بھی، تڑپا دینے والے واقعات یاد ہیں۔ تقسیم کے موقع پر جس قدر خون بہایا گیا، اُن میں سے چند ہزار واقعات بھی اکٹھے کرلیے جائیں تو آنے والی نسلیں اُس ظلم وستم کو یاد رکھ سکیں گی جو ہندوئوں اور سکھوں نے نہتے مسلمانوں پر کیے۔ مظالم کی ہلکی سی جھلک علامہ شبیراحمدعثمانی، محمد حسن عسکری اور مصنف کے پیش لفظ میں جھلکتی ہے۔
ایم اسلم نے اِس انقلابِ عظیم اور عظیم الشان قربانی کی لازوال داستان کو ناول کی صورت میں مرتب کر دیا ہے۔ اِس ناول کی ایک ایک سطر سے حقیقت ٹپکتی ہے، محسوس یوں ہوتا ہے کہ ناول نگار نے ہجرت کے عمل کو نہ صرف بہ نظر غائر دیکھا بلکہ اُس کرب کو براہِ راست محسوس کیا جو بیٹی کے اُٹھا لیے جانے، بیٹے کے قتل کیے جانے اور پورے خاندان کو موت کے گھاٹ اُترتے ہوئے دیکھنے والے کو محسوس ہوتا ہے۔ اکیسویں صدی کا پاکستان، ۱۹۴۷ء کی تقسیم کو فراموش اور ۱۹۷۱ء کے سانحے کو کتابوں میں دفن کرچکا ہے اور ’پسندیدہ قوم‘ سے تعلقات بڑھانے کی جستجو میں سرگرمِ عمل ہے۔ ایم اسلم کا ناول، یقینا ہمیں اپنے ماضی سے جوڑے رکھے گا۔ اِس کی طبع اوّل کا تذکرہ نہیں ہے۔ اس ناول کو ہر نوجوان کی دست رس اور ہر لائبریری میں ہونا چاہیے۔ (محمد ایوب منیر)
میانمار (برما) کے ایک مسلم اکثریتی صوبہ ارکان کے مسلمان عرصۂ دراز سے حکومتی مظالم کے شکار ہیں اور انسانیت سوز مظالم سے تنگ آکر بنگلہ دیش ہجرت پر مجبور ہیں۔ مصنف کو مولانا تنویرالحق تھانوی کے ہمراہ انٹرنیشنل اسلامک کانفرنس میں شرکت کے لیے بنگلہ دیش کے سفر کا موقع ملا۔ انھوں نے ارکانی مہاجرین کے خستہ حال کیمپوں کا بھی دورہ کیا اور جس کسمپرسی کے عالم میں ارکانی مسلمان رہ رہے ہیں ان کا تذکرہ کیا ہے اور تصاویر بھی شائع کی ہیں۔ بنگلہ دیشی حکومت کا رویہ بھی مناسب نہیں۔ مصنف کے بقول: دیگر مسائل کے علاوہ ارکانی خواتین کو کیمپوں سے لے جاکر فروخت کردیا جاتا ہے۔ عیسائی تنظیمیں بھی سرگرم ہیں۔ اب تک ۲ہزار سے زائد ارکانی مہاجرین کو مغربی ممالک منتقل کیا جاچکا ہے۔ افسوس کہ مسلم ممالک اپنا کردار ادا نہیں کر رہے۔ اس کے علاوہ بنگلہ دیش سے متعلق بنیادی معلومات اور دینی مدارس کی تفصیل بھی دی گئی ہے۔ (امجد عباسی)
’نفاذِ اسلام میں حکمت‘ (جنوری ۲۰۱۲ئ) کا مطالعہ کرتے ہوئے جب میں ذرائع ابلاغ کی اصلاح پر پہنچا تو خیال آیا کہ آج کل ذرائع ابلاغ فحاشی، بے حیائی اور بداخلاقی پھیلانے میں آخری حدوں کو چھو رہے ہیں۔ اب کوئی آدمی فحاشی سے پاک خبرنامہ بھی نہیں دیکھ سکتا۔ ایسے میں فحاشی و بے حیائی کے خلاف منظم آواز اُٹھانے کی ضرورت ہے۔ ماضی کی طرح جماعت اسلامی کو عوامی دبائو کے ذریعے اس کے سدباب کے لیے بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔
’بھارت اور پسندیدہ ترین ملک‘ (دسمبر ۲۰۱۱ئ) میں اُن تمام امور کی وضاحت کی گئی ہے جو پاکستان کو نقصان پہنچانے اور اقتصادی و معاشی طور پر مفلوج کرنے کے لیے بھارت کر رہا ہے۔ دوسری طرف بھارت اپنے ملک میں مسلمانوں کو آج سے نہیں بلکہ ۶۴برس سے مسلسل مفلوج کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایسے ملک کو حکومت ِ پاکستان پسندیدہ ملک قرار دے رہی ہے جو سمجھ سے بالاتر ہے۔ ضروری ہے کہ پاکستان کی تمام اسلام دوست جماعتیں مل کر اس ملک دشمن فیصلے کا تدارک کریں۔
’چند اہم سماجی مسائل اور اسلام‘ میں بعض اہم معاشرتی مسائل پر اظہارِ خیال کیا گیا ہے، اور آج کل تو ایسے ایسے مسائل سامنے آرہے ہیں کہ جن کے پڑھنے سے طبیعت مکدّر ہوجاتی ہے اور نفرت کے جذبات اُبھرنے لگتے ہیں۔ درحقیقت ایسے مسائل کا پیدا ہونا اس وجہ سے ہے کہ غیرمسلموں کے نزدیک ان کو تہذیب اور حقوق کا نام دیا جا رہا ہے اور مسلمان اسلام سے دُوری کی وجہ سے ان کو اختیار کررہے ہیں۔ضروری ہے کہ مسلمان دین اسلام کی روشنی میں اپنے آپ کو ڈھالیں اور مغربی تہذیب کے بجاے اسلامی تہذیب کو اپنائیں۔
’قربانی، مسلمان کو مسلمان بناتی ہے‘ (دسمبر ۲۰۱۱ئ) قربانی کے موضوع پر خرم مراد مرحوم کی عمدہ تحریر ہے۔ قربانی کے جامع تصور کو سامنے لاتی ہے، اور غوروفکر اور عمل کے لیے نئی راہیں کھولتی ہے۔
’نوجوانوں کا عزم اور ہمارا مستقبل‘ (نومبر ۲۰۱۱ئ) پڑھ کر یوں محسوس ہوا کہ مایوسی کی تاریکیوں میں حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اُمتی روشن چراغ لے کر کھڑا ہوگیا۔ قابلِ رشک ہیں اللہ کے وہ بندے جو اپنا وقت اور اپنی صلاحیتیں اس کے پیغام کو پہنچانے میں خرچ کردیتے ہیں۔ اللّٰھم زد فزد۔
۱۲سال کی عمر سے میں ترجمان القرآن (اب عالمی ترجمان القرآن) سے واقف ہوں۔ والد مرحوم کے پاس یہ رسالہ پابندی سے ہر ماہ آیا کرتا تھا۔ آہستہ آہستہ میں نے بھی اس کا مطالعہ شروع کیا۔ اس کے ’اشارات‘ اور مضامین طویل ہونے کی وجہ سے مکمل نہیں پڑھ پاتا تھا۔ طالب علمی کا دور گزرا تو رسالے سے رغبت بڑھتی گئی۔ وہ ’اشارات‘ جو طویل لگتے تھے ان کو پڑھنے کی پیاس بڑھتی گئی۔ یہی ’اشارات‘ اب رسالے کی جان محسوس ہونے لگے۔ سیدابوالاعلیٰ مودودی، عبدالحمید صدیقی، نعیم صدیقی، خرم مراد اور اب پروفیسر خورشیداحمد نے ’اشارات‘ کے ذریعے اُن تمام مسائل پر جن سے قوم نبردآزما رہی ہے نہ صرف لکھا بلکہ پاکستان کے عوام کو بروقت حالات کی سنگینی سے آگاہ کیا ہے۔
الیکٹرانک میڈیا نے جدید معلومات کے حصول کا ایک آسان راستہ فراہم کیا ہے لیکن اپنے ساتھ بے حیائی اور اخلاق باختگی کا زہر بھی لے کر آیا ہے۔ اس کا دوسرا نقصان یہ ہوا کہ اب دیکھنے والے زیادہ ہیں اور پڑھنے والے کم ہورہے ہیں۔ اس کے باوجود ترجمان کی افادیت کم نہیں ہے۔ اس کی اشاعت کو بڑھانا اطلاعات کے میدان میں جہاد ہے۔ میڈیا کے زہر کو تریاق میں بدلنے کا یہ بہترین نسخہ ہے۔
رسالے کے بارے میں اپنی راے اور تاثرات ارسال کیجیے
tarjumanq@gmail.com
ویب سائٹ: www.tarjumanulquran.org
اشاریہ عالمی ترجمان القرآن
عالمی ترجمان القرآن کا اشاریہ (جنوری - دسمبر ۲۰۱۱ئ) دستیاب ہے۔ خط/ای میل کے ذریعے طلب کیا جاسکتا ہے۔ (ادارہ)
کیا انسانیت کی معراج بس یہی ہے جہاں اس تہذیب ِ الحاد نے لاکر ہم کو کھڑا کردیا ہے؟ اور کیا واقعی ہم بس اس بات پر مجبور ہیںکہ اسی تہذیب کی پیش کردہ تین تحریکوں [جمہوریت، سوشلزم، اور فاشزم] میں سے کسی ایک کو انتخاب کر کے لازماً اس کا دامن تھام لیں؟ اور کوئی نیا راستہ ہمارے لیے باقی نہیں ہے کہ ہم ان راستوں سے منہ موڑ کر اس طرف چل کھڑے ہوں؟ …
ہم اس سوال کا جواب نفی میں دیتے ہیں۔ ہم اس تہذیب کے پیدا کردہ حالات کو انسانیت کی معراج نہیں سمجھتے۔ ہم اس کی پیش کردہ تحریکوں کو حرفِ آخر نہیں مانتے۔ ہم اپنے آپ کو اس پر مجبور نہیں پاتے کہ بے چون و چرا ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرلیں۔ ہم تہذیب ِالحاد کی کسی ایک تحریک کو اختیار کرنے اور کسی دوسری تحریک کو ردّ کرنے کے بجاے اس پورے دورِ تہذیب کو ردّ کرتے ہیں۔ ہم ان تحریکوں کو ایک ہی خاندان قرار دیتے ہیں___ اور ایسا خاندان کہ جس کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ ’’ایں خانہ تمام آفتاب است!‘‘___ ہم ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جو یہ سمجھے ہیں کہ انسان اپنی ارتقا کی آخری منزل پر آچکا ہے اور تاریخ اس منزل پر آکھڑی ہوئی ہے جس سے آگے کوئی منزل نہیں۔ اور ہم ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جو الحاد کی کسی ایک تحریک کا جھنڈا اُٹھا کر اس کی کسی دوسری تحریک کے خلاف لڑکر سمجھتے ہیں کہ وہ کوئی بڑا جہاد لڑر ہے ہیں۔ ہم ان کے برخلاف یہ سمجھتے ہیں کہ تہذیب ِ الحاد انسان کو بدترین پستی کے مقام پر لے آئی ہے اور ہمار ا منصب یہ ہے کہ ہم اس پوری تہذیب، اس کی ساری اولاد اور اس کی ساری تحریکوں کے خلاف اعلانِ جنگ کریں۔ ہم اس پورے مجموعۂ تہذیب کو ردّ کرکے اس کے خلاف نئے اصولوں پر ایک نئی تہذیب اور اس دور کے خلاف ایک نئے دور کا جھنڈا اُٹھا رہے ہیں… ہم اس لمحے پر کھڑے ہوکر آج تہذیب ِ الحاد کے مقابلے میں تحریکِ اسلامی کو لے کر کھڑے ہوئے ہیں، اور یہ حقیر سی ابتدا اپنے سامنے ایک شان دار انتہا رکھتی ہے۔ (’اسلامی تحریک دوسری تحریکوں کے مقابل میں‘، نعیم صدیقی، ترجمان القرآن، جلد ۳۷، عدد ۵، جمادی الاول ۱۳۷۱ھ، فروری ۱۹۵۲ئ،ص ۳۳-۳۴)