۲۴رمضان المبارک ۱۴۳۳ھ (۱۲؍اگست ۲۰۱۲ئ) مصر کی تاریخ کا ایک یادگار دن تھا۔ یہ دن مسلح مصری افواج کو اس کی آئینی ذمہ داری یاد دلانے اور عوامی جمہوری قوت کو اس کا استحقاق عطا کیے جانے کا دن تھا۔ اس روز تاریخِ مصر کے پہلے نومنتخب صدر ڈاکٹر محمد مُرسی نے مصر کے وزیردفاع فوجی سپریم کونسل کے سربراہ، حسین طنطاوی کو برطرف کرنے کے ساتھ مسلح افواج کی قیادت کے اندر دیگر بہت سی تبدیلیوں اور عدلیہ و فوج کے تیار کردہ اس دستور کو کالعدم قرار دیا جس میں منتخب صدر کے بیش تر اختیارات سلب کرلیے گئے تھے اور قانونی اتھارٹی پر قبضہ کرلیا گیاتھا۔
ان صدارتی اعلانات کے ذریعے پہلی بار مصر منتخب صدر کی حکمرانی میں آیا، اور ۶۰برس بعد فوج سیاست سے بے دخل ہوکر اپنی اصل ذمہ داری، یعنی ملکی سرحدوں کی حفاظت کی طرف واپس لوٹا دی گئی۔ تجزیہ نگاروں نے کہا کہ ان صدارتی اعلانات کے ذریعے ملک کے اندر سیاسی استحکام ہوا، حکومتی اداروں کا استحقاق بحال ہوگیا، اور ملک ایک نئے دور کی طرف گامزن ہوگیا۔ ۲۵جنوری ۲۰۱۱ء سے شروع ہونے والے انقلابِ مصر کا سفر اس روز کافی حد تک اپنے معنی و مفہوم کو واضح کرنے میں کامیاب ہوا۔ یہی وہ اُمنگ اور آرزو تھی جو مصری قوم کے دل میں پونے دو سال سے مسلسل بیدار رہی اور اس روز اس کو اپنی تعبیر مل گئی۔
ایوانِ صدر کے اس مرحلے تک پہنچنے کے دوران میں چہ میگوئیوں، افواہوں، سازشوں اور اندرونی خلفشار کا ایک طویل سلسلہ ہے جس میں ہر اُس عنصر نے اپنا حصہ ڈالا جو سابق نظامِ حکومت کا کل پرزہ رہ چکا تھا یا موجودہ حکومتی ڈھانچے سے خوف زدہ تھا۔ قولی اور عملی، ہردوسطح پر کوشش کی گئی کہ نومنتخب جمہوری اسمبلی کو بے دست و پا کردیا جائے، تاکہ انھیں ایوانِ اقتدار سے بے دخل کرنے میں آسانی ہو۔ بھرپور عوامی قوت اور مضبوط دینی سیاسی تحریک نے اس منصوبے کو ناکام بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ لیکن جمہوری صدر کے جرأت مندانہ فیصلوں کی توقع شاید خود اخوان المسلمون کو بھی نہ تھی۔ اخوان اس تناظر میں بظاہر خاموش دکھائی دیے مگر اپنی رفتار، مزاج اور ضرورت کے مطابق اپنے کام میں مصروف رہے۔ ملکی عوامی حلقوں اور بیرونی سیاسی تجزیہ نگاروں کی طرف سے بے شمار سوالات سامنے آئے۔ ذرائع ابلاغ نے تو حد ہی کردی۔ اخوان خاموش اور صدر مُرسی مرکزنگاہ تھے، اور وہ تنِ تنہا سابقہ نظام سے پنجہ آزما ہونے کے لیے میدان میں موجود تھے۔
صدر مُرسی کے فیصلوں اور مسلح افواج کے اندر کی گئی تبدیلیوں پر اخوان کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر محمود حسین نے ہفت روزہ المجتمع (شمارہ ۲۰۱۶، ۱۸؍اگست ۲۰۱۲ئ)سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان فیصلوں میں ہماری مشاورت شامل نہیں لیکن مصر کے عوام ان فیصلوں کے منتظر تھے خصوصاً مسلح افواج کی ذمہ داری کے حوالے سے کہ اُس کی اصل ذمہ داری ملکی سرحدوں کی حفاظت ہے نہ کہ سیاست میں دخل انداز ہونے کی۔ اخوان کا خیال ہے کہ قوم چاہتی تھی کہ نومنتخب صدر کو اختیارات کسی کمی بیشی کے بغیر مکمل طور پر ملیں۔ اس لیے کہ فوجی کونسل آخری مرحلے میں حکومتی ڈھانچے میں اپنی شمولیت پر بضد تھی۔ وہ دستور سے بھی بالاتر حیثیت رکھنے کی متمنی تھی۔ مگر قوم کو یہ بات منظور نہیں تھی اور اس نے اپنی بیش تر سرگرمیوں کے ذریعے اس عسکری مداخلت کو مسترد کردیا۔ صدر کے اعلانات سے یقینی طور پر یہ مداخلت رُک گئی اور چونکہ عوامی دبائو تمام ملکی پارٹیوں کی طرف سے بہت شدید تھا، اس لیے فوج نے اپنی خفت مٹانے کے لیے یہ بیان بھی جاری کیا کہ یہ اعلانات اور فیصلے فوج کی مشاورت سے ہوئے ہیں۔ قوم، صدر کے خلاف شرم ناک میڈیا مہم، دستوری عدالت کے اعلانِ دستور اور فوجی سپریم کونسل کی من مانیوں کو دیکھ رہی تھی اور سمجھتی تھی کہ یہ سب کچھ منتخب اداروں کو ناکام بنانے، صدر جمہوریہ کو اپنی حکمرانی قائم کرنے پر قدرت نہ رکھنے کا تاثر دینے کے لیے کیا جارہا ہے۔ اس تناظر میں بلاشبہہ صدر مُرسی کے ان تاریخی فیصلوں نے معاملات کو اُن کے اصل مقامات کی طرف لوٹا دیا ہے۔
سابق نظام کے حمایتیوں کو ان اعلانات میں ڈکٹیٹرشپ کی بو آنے لگی اور انھوں نے کہا: ان فیصلوں سے تو قانونی اور تنفیذی اختیار پورے کا پورا صدر کے ہاتھ میں چلا گیا اور یوں یہ ایک نئی ڈکٹیٹرشپ قائم ہوگئی، جو اخوان کے ہاتھ میں ہے۔ اخوان کے سیکرٹری جنرل نے اس کا بہت صحیح جواب دیا کہ ’’صدر نے اسمبلی کو تحلیل نہیں کیا، اور نہ اس کے اختیارات سلب کیے ہیں۔ یہ کام تو دستوری عدالت نے کیا تھا جس نے پہلے تین چوتھائی اسمبلی کو تحلیل کیا پھر پوری اسمبلی کو تحلیل کر کے اس کے تمام اختیارات سلب کرلیے، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اس عدالت نے ’مکمل دستوری اعلان‘ کے ذریعے منتخب اسمبلی کی قانونی اتھارٹی کو سپریم فوجی کونسل کی طرف منتقل کردیا تھا جو کہ منتخب نہیں ہے۔ اخوان کا خیال ہے کہ ایسی صورت حال میں نئے دستور کی جلد سے جلد تیاری ملک کے لیے بہتر ہوگی اور اس کی منظوری اور نفاذ قومی راے لیے بغیر نہیں ہونا چاہیے۔ عدالتی، تنفیذی اور قانونی اختیارات کو اُن کے اصل مقام کی طرف لوٹانے کا اس سے بہتر اور محفوظ راستہ کوئی نہیں‘‘۔
صدارتی فیصلوں کے اجرا سے بہت پہلے امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن نے مصر کا دورہ کیا اور مسلح افواج کے سربراہوں سے ملاقات کی اور یہ مطالبہ بھی کیا کہ وہ حکمرانی کا اختیار منتخب صدر کے حوالے کر دیں۔ بعض لوگوں نے ہیلری کلنٹن کے اس بیان سے اندازہ لگایا کہ اخوان اور امریکا کے درمیان تعلق کی برف پگھل گئی ہے اور بین الاقوامی طور پر مصری فوج دبائو کا شکار ہے۔ اس پر اخوان کا ردعمل تھا کہ ’’دوسرے انتخابی مرحلے میں بعض بین الاقوامی طاقتوں نے فوجی سپریم کونسل پر دبائو ڈالا کہ انتخاب کے حقیقی نتائج ظاہر کیے جائیں۔ لیکن یہ دبائو اخوان کی محبت یا اُن کی مدد کی غرض سے نہیں تھا بلکہ خوف یہ لاحق تھا کہ کہیں دوبارہ میدانِ تحریر نہ بھر جائے۔ اس کے ساتھ ہی ان ممالک نے اپنے مفادات کے حصول کی بھی کوشش کی ہے۔ اب تک تو ان ممالک کی کوششیں التوا کے منصوبے کا حصہ رہی ہیں۔ صدرِ جمہوریہ کو ناکام کرنے کے لیے پوری قوت سے دبائو ڈالا جارہا ہے۔ دراصل اس صدر اور اسلامی نظام کی کامیابی تو ان ممالک کے مفادات میں نہیں ہوسکتی ۔ رہا ہیلری کلنٹن کا دورۂ مصر، تو وہ رسمی تھا مگر کچھ دیکھنے، سننے اور معلوم کرنے کے لیے تھا‘‘۔
اخوان المسلمون مصر کی ویب سائٹ ’اخوان آن لائن‘ پر جاری کیے گئے ایک جائزے کے مطابق صدر مُرسی نے محکمہ اوقاف کی تطہیر کا عمل بھی انجام دیا ہے اور وزارتِ اوقاف کے نو ذمہ داروں کو اُن کے عہدوں سے ہٹا دیا۔ صدر نے مختلف اور متعدد اداروں میں کلیدی عہدوں پر فائز شخصیات کو اُن کے عہدوں سے ہٹا دیا ہے جن کے بارے میں ایوانِ صدر کو یقین ہوا کہ یہ سابق نظام کی بحالی کے لیے کوشاں اور موجودہ حکومتی ڈھانچے کے کام میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔
صدر مُرسی نے ان وسیع تبدیلیوں کے ساتھ صدارتی مجلس مشاورت کا بھی اعلان کردیا ہے اور ثابت کیا کہ حکومت پر صرف ایک فرد اور جماعت کا اختیار نہیں ہے بلکہ ملک کے تمام باشندے اپنی اہلیت و صلاحیت کے مطابق اس میں اپنا اپنا کردار ادا کریں گے۔ صدر نے داخلی و خارجی اُمور میں معاونت کے لیے چار افراد کو اپنے معاونین مقرر کیا ہے جن میں سے صرف ایک کا تعلق اخوان سے ہے، دیگر تین میں سے ایک سلفی جماعت حزب النور سے ہے، ایک خاتون معتدل اسلامی سیاسی فکر رکھتی ہیں اور ایک قبطی دانش ور ہیں جو ۲۵ جنوری ۲۰۱۱ء کے انقلاب کے بعد پہلے قبطی ہیں جو قاہرہ کے نائب گورنر کے منصب پر بھی فائز رہ چکے ہیں۔ ۱۷؍افراد کی مجلسِ مشاورت میں مختلف شعبوں کے ماہر اور مختلف دینی سیاسی جماعتوں کے اہم افراد کو شامل کیا گیاہے۔ بیش تر افراد علمی پس منظر اور تجربہ رکھتے ہیں۔ اس مجلس میں اسلامی، سیاسی اور لبرل جماعتوں کو نمایندگی دی گئی ہے۔ نائب صدر ایک آزاد رکن کو منتخب کیا گیا ہے۔ اسی طرح وزیراعظم بھی کسی جماعت سے تعلق نہیں رکھتا۔ مصری اور عالمی میڈیا نے صدارتی مہم کے دوران اخوان کا تعارف ایک سخت گیر، تشددپسند اور منتقم مزاج مذہبی جماعت کے طور پر کرایا تھا۔ ملکی اور عالمی حلقوں میں یہ تاثر گہرا کردیا گیا تھا کہ ڈاکٹر مُرسی کی کامیابی کی صورت میں ملک پر اخوان کی ڈکٹیٹرشپ قائم ہوجائے گی اور غیراسلامی و غیر دینی جماعتوں کی آزادی چھن جائے گی۔ اس مجلس مشاورت سے ظاہر ہوتا ہے کہ مصر پر کسی ایک جماعت کی حکومت نہیں بلکہ پوری قوم اس میں حصہ دار ہے۔
صدر مُرسی نے پورے اعتماد اور جرأت کے ساتھ اُمورِ سلطنت انجام دینے کا آغاز کیا ہے۔ داخلی اور خارجی دونوں حوالوں سے اُن کی کارکردگی پر عمومی نظر ڈالی جائے تو اب تک وہ اپنی ذمہ داریوں کی ادایگی میں کامیابی اور بہتری کی طرف بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں۔ عالمی سطح پر تعلقات کی ازسرنو بحالی مصر کے لیے ایک اہم اور مشکل مرحلہ تھا لیکن صدر مُرسی نے اس مرحلے کو بھی بڑی حکمت کے ساتھ اپنے معمول کا حصہ بنا لیا ہے۔ وہ اپنی صدارت کے کم و بیش دومہینوںمیں سعودی عرب، ایتھوپیا، چین، اٹلی اور ایران کے سفر کرچکے ہیں۔ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی بحالی اور خطے میں عرب ممالک کے مثبت اور قائدانہ کردارادا کرنے کے حوالے سے اُن کا سفر بہت سی توقعات کا مرکز بنا ہے۔ چین کے ساتھ اقتصادی معاہدوں نے بھی مصر کی معیشت کو سنبھالا دینے کی اُمید بندھائی ہے۔ اس کے ساتھ ہی صدر مُرسی نے علاقائی امن کی بحالی کو ممکن بنانے کے لیے چین پر زور دیا ہے کہ شامی صدر بشارالاسد کی عسکری و سیاسی مدد بند کی جائے۔ اس دورے میں مصر اور چین کے درمیان معاشی، سیاحتی اور تکنیکی شعبوں میں آٹھ معاہدات طے پائے ہیں۔ چین نے ناقابلِ واپسی ۴۵۰ یوان بجلی اور ماحولیاتی شعبوں میں مشترکہ منصوبے شروع کرنے کے لیے دیے ہیں۔ اسی طرح ۳۰۰ پولیس گاڑیاں بھی فراہم کی ہیں۔
ایران میں منعقدہ غیروابستہ ممالک کی کانفرنس میں شرکت کے دوران صدر مصر نے یہ بھی واضح کیا کہ مصر شام کی حکومت کے خلاف شامی قوم کے ساتھ کھڑا ہے۔ صدر مُرسی نے اس موقع پر مشرقِ وسطیٰ کو تباہ کن اسلحے سے پاک کرنے کے لیے اسرائیل سے معاہدے کا مطالبہ کیا۔ انھوں نے سلامتی کونسل کو بھی اپنا کردار ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی۔
صدر مُرسی نے ۳۵ نئے سفیر بھی مختلف ممالک میں تعینات کردیے ہیں۔ ان سفرا کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ بیرونِ ملک مصری قیادت کے احترام اور مصری کمیونٹی کے دفاع اور اُن کے وقارکے حصول کو یقینی بنائیں گے۔ خود صدرمُرسی نے ملکی سرحدوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے اُس وقت جرأت مندانہ اقدام کیا جب رفح کے مقام پر فلسطین و مصر کی سرحد پر اسرائیل نے جارحیت کی۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی رُو سے جو امریکا نے انورالسادات کے عہد میں کرایا تھا مصری فوج سینا کی اس سرحد پر اپنی کارروائی نہیں کرسکتی۔ صدر مُرسی نے رفح کے حادثے کے بعد فوج کو حکم دیا کہ ’نسر آپریشن‘ کے ذریعے سرحد سینا کو کھول دیا جائے۔ اس اقدام کے بعد صدر مُرسی نے ایک ارب مصری پونڈ کی خطیر رقم کے ذریعے اور سرحدی اُمور و مشکلات کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی قائم کرکے اس سرحد اور سویز کی آبی گزرگاہ پر ترقیاتی کاموں کو تیز کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔
ان بڑے فیصلوں کے ساتھ صدر مصر نے ملک کے داخلی امور کو حل کرنے کی طرف بھی خصوصی توجہ دی ہے۔ صدارتی انتخابی مہم کے دوران اخوان کے اُمیدوار کے طور پر ڈاکٹر مُرسی نے قوم کو جو منشور دیا تھا اس میں اپنی حکومت کے پہلے ۱۰۰ روز میں پانی، بجلی، صفائی، ٹرانسپورٹ اور غربت کے مسائل حل کرنے اور امن کی بحالی کا وعدہ کیا تھا۔ ان مسائل کے سلسلے میں انھوں نے ۴۱ہزار کسانوں کے ڈیڑھ ارب مصری پونڈ کے قرضے معاف کردیے ہیں۔ ملازمین اور کم آمدنی والے افراد کی تنخواہوں میں ۱۵ فی صد اضافہ کردیا ہے۔ غربت کے خاتمے کے لیے سوشل قرضوں کی رقم ۲۰۰ مصری پونڈ تھی اس کو بڑھا کر ۳۰۰ کردیا گیا ہے۔ قاہرہ جسے مرکزی شہر کے وسط میں پھیری دار دکان داروں نے گراں فروشی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ صدر نے قاہرہ اور دیگر شہروں میں ۶کروڑ کی خطیر رقم خرچ کر کے عوام کو سستی اشیاے ضرورت فراہم کرنے کے لیے’ ایک روزہ بازار‘ لگانے کا اہتمام کیا ہے۔غربت مصر کا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ صدر نے بڑے اضلاع میں ’روٹی پلانٹ‘ کی کارکردگی کو بھی مزید بہتر کرنے کا حکم دیا ہے اور روٹی کی فراہمی کا دورانیہ بڑھا دیا ہے جو پہلے ظہر تک تھا اب عصر تک کردیا گیا ہے۔ بڑے اضلاع میں جمبو روٹی پلانٹ بھی لگادیے گئے ہیں۔ اس ایک پلانٹ کی پیداوار روزانہ ۱۰لاکھ چپاتی تک ہوتی ہے۔ آیندہ اسی رفتار سے اس کارکردگی کو مصر کے تمام شہروں اور دیہاتوں میں پھیلانے کا عزم کیا گیا ہے۔ملک کے اندر تمام اضلاع میں عوام کی شکایات سننے اور حل کرنے کے لیے ’دیوان المظالم‘ قائم کردیے گئے ہیں۔ ملک کے داخلی امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے صدر نے وزیراعظم ڈاکٹر ہشام قندیل کو ہدایت کی ہے کہ شہریوں کے عزت و وقار کا خیال رکھتے ہوئے اُن جرائم پیشہ افراد کو گرفتار کیا جائے جو راہزنی اور لُوٹ مار کی غرض سے متحرک ہیں۔ وزیراعظم کی قیادت میں امن فورسز نے ایسے بڑے بڑے آپریشن کیے ہیں جن کا مقصد ملکی امن و امان کی بحالی اور شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے۔
سیاسی قیدیوں کے اُمور کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی قائم کی گئی اور دورانِ انقلاب گرفتار کر کے پابند سلاسل کیے گئے بے گناہ افراد کی رہائی کا حکم بھی صدر نے جاری کیا۔ اسی طرح میڈیا کی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے ان صحافیوں کو بھی رہا کردیا گیا جن پر غلط معلومات شائع کرنے کا الزام تھا۔ شعبۂ صحافت سے وابستہ افراد نے صدر کے اس فیصلے کو بہت سراہا ۔ اس صدارتی اقدام سے صحافیوں کا ۱۰ برس سے جاری یہ مطالبہ بھی پورا ہوگیا کہ ’احتیاطی گرفتاری‘کا سلسلہ ختم کیا جائے۔ صحافتی آزادی کو پابند کرنے کے لیے سابق نظامِ حکومت نے یہ حربہ اختیار کیا تھا۔
موجودہ حکومتی کارکردگی میں رکاوٹیں ڈالنے کا سلسلہ بھی جاری ہے اور باقیات مبارک کا ایک گروہ نوجوانوں پر مشتمل ہے جو ملکی امن و امان کو تباہ کرنے کے لیے اپنی اچانک کارروائیاں کرتا ہے۔ ان لوگوں کا نشانہ ہسپتال ہیں۔ صدر نے ایک سو ہسپتالوں کی سیکورٹی کی ذمہ داری ملٹری پولیس کو دی ہے اور ایک سو مزید ہسپتال وزارتِ داخلہ کے ذریعے محفوظ رکھنے کا انتظام کیا ہے۔
مصر بجلی کے بحران سے بھی دوچار ہے۔ سابق دورِ حکمرانی کا یہ ’تحفہ‘ بھی موجودہ حکومت کے حصے میں آیا ہے۔ البتہ دمیاط پاور اسٹیشن کے افتتاح سے اس میں کچھ بہتری آئی ہے۔ گذشتہ اگست کے نصف میں اس اسٹیشن کا آغاز ہوا ہے اور ستمبر کے اختتام تک اس مشکل پر قابو پالینے کا صدر نے وعدہ کیا ہے۔ اسی طرح گیس کے بحران پر قابو پالینے کا مسئلہ ہے۔ وزارتِ داخلہ کو اس مسئلے کو حل کرنے کا ہدف بھی دیا گیا ہے۔ اُمید ہے کہ یہ بھی جلد حل ہوجائے گا۔
صدر مُرسی نے ’صاف ستھرا ملک‘ کے نام سے ایک مہم کا آغاز کیا ہے جس کے تحت تمام اضلاع میں صفائی کے بڑے بڑے منصوبے شروع کیے گئے ہیں۔ صدر اور وزیراعظم اس کام کی خصوصی نگرانی کی غرض سے اچانک دورے بھی کررہے ہیں۔
انتخابی مہم کے دوران صدر نے صحرا کی کاشت کاری اور نیل کے کناروں پر نئے شہر آباد کرکے رہایش کے مسائل پر قابو پانے کا بھی اعلان کیا تھا۔ صدر نے ا س منصوبے کے آغاز پر کام کے لیے ماہر زوالوجی ڈاکٹر خالد عودہ کے پیش کردہ خاکے سے اتفاق کرلیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت ۳ لاکھ ایکڑ رقبہ قابلِ کاشت بنایا جارہا ہے، جس میں کھجور اور زیتون کے درخت لگائے جائیں گے۔ مویشیوں کی پیداوار بھی ہدف میں شامل ہے۔ شمسی اور ہوائی ذریعے سے بجلی پیدا کی جائے گی۔ غرض یہ کہ ایک مکمل شہرآباد کیا جائے گا۔ یہ منصوبہ اندازاً پانچ برس میں مکمل ہوگا۔
ڈاکٹر محمد مُرسی صدرِ مصر بننے کے بعد بھی اسی عوامی جمہوری اور اسلامی کردار کا مظاہرہ کر رہے ہیں جس کا اظہار اُن کے منصب صدارت پر پہنچنے سے پہلے ہوتا رہا۔ انھوں نے ایوانِ صدر کے عملے کے لیے قصرِ صدارت کی بہترین جگہ کو ادایگیِ نماز کے لیے مسجد میں تبدیل کردیا ہے۔ ایوانِ صدر کے سیکورٹی گارڈ، باورچیوں اور مزدوروں کو اجتماعی طور پر کھانا کھانے کی آزادی بھی حاصل ہوگئی ہے۔
صدرِ مصر کی سادگی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ سعودی عرب میں منعقدہ کانفرنس میں شرکت کے لیے اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ گئے تو خصوصی طیارہ استعمال نہیں کیا ،بلکہ اپنے تمام افرادِ خانہ کی ٹکٹ کا خرچ انھوں نے خود برداشت کیا اور عمومی فلائٹ کے ذریعے سعودی عرب پہنچے۔
ڈاکٹر محمد مُرسی نے یہ حکم بھی جاری کررکھا ہے کہ سڑک پر اُن کی آمدورفت کے وقت ٹریفک کو معطل نہ کیا جائے۔ انھوں نے قصرِصدارت میں رہایش بھی اختیار نہیں کی بلکہ اپنے گھر کو قیام گاہ بنائے رکھا ہے اور ایوانِ صدارت کو صرف کام کے لیے مخصوص رکھا ہے۔ صدرِ مصر نے اپنی نمودونمایش کو بھی روک دیا ہے۔ انھوں نے کسی دفتر میں اپنی تصویر یا مبارک باد کا پیغام آویزاں کرنے سے منع کر دیا اور ان فضولیات پر خرچ ہونے والی رقم کو قومی خزانے میں جمع کرنے کی اپیل کی۔ اس عمل سے کئی ملین رقم جمع ہوگئی ہے۔ انھوں نے ایوانِ صدارت کے محافظین کو ہدایت کی ہے کہ کسی شہید کے خاندان کو کسی بھی وقت ملاقات سے منع نہ کیا جائے۔ ایوانِ صدر کے دروازے ورثاے شہید کے لیے ہروقت کھلے ہیں۔