سوال: اسلام میں حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی بھی بہت اہمیت ہے اور ہم مسلسل قرآن و حدیث میں اس کے حوالے سے احکامات پڑھتے رہتے ہیں۔ اس پر عمل نہ کرنے والوں کے لیے سخت وعیدیں بھی ہیں، بالخصوص صلہ رحمی، یعنی خاندان اور رشتہ داروں کے حوالے سے۔ اس ضمن میں چند عملی پہلو ہیں جو پریشان کن ہیں۔ آپ سے گزارش ہے کہ ان کا تسلی بخش جواب قرآن و حدیث کی روشنی میں دیں اور رہنمائی فرمائیں:
۱- اگر حقوق العباد سے مراد ہر ایک کو خوش کرنا ہے تو عملاً یہ بہت مشکل کام ہے۔ تمام کوشش کے باوجود بھی کچھ رشتے دار ایسے ہوتے ہیں کہ کسی نہ کسی بات پر آپ سے ناراض ہی رہتے ہیں یا ناراضی کا بہانہ ڈھونڈتے ہیں اور جھگڑا کرنے پر تُلے رہتے ہیں۔ اگر کسی بات پر خاموش رہا جائے تو ’گھُنے‘ اور جواب دیا جائے تو ’زبان دراز‘ سمجھتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ بڑے بہن بھائیوں کے ساتھ کس طرح کا رویہ اختیار کرنا چاہیے، جب کہ وہ ہمارے معاملات میں بھی اپنی مرضی کے مطابق فیصلہ کروانا چاہتے ہوں؟
۲-’خاندان‘ کو معاشرتی اکائی سمجھا جاتا ہے۔ اس خاندان سے مراد نکاح کے بعد میاں بیوی سے بننے والا خاندان ہے یا وسیع پیمانے پر مشترکہ خاندانی نظام؟ نیز مشترکہ خاندانی نظام کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
۳- اسلام میں ایک فرد کی پرائیویسی کا کیا تصور ہے؟
۴- اسلام میں مزاج کے اختلاف کی گنجایش ہے اور ہم سیرتِ صحابہؓ میں دیکھتے ہیں کہ مختلف مزاجوں کے افراد کس طرح سے ایک ہی چھتری کے نیچے جمع ہوگئے۔ سوال یہ ہے کہ اگر کوئی مزاج کے اختلاف کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہ ہو تو کوئی کتنا مکلف ہے کہ اپنے اخلاص کو ثابت کرنے کے لیے صفائیاں پیش کرے یا بس چپ کر کے اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کردے؟
جواب: بلاشبہہ حقوق العباد کی اہمیت ہے اور اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ شرک کو چھوڑتے ہوئے بقیہ تمام بے احتیاطیوں کو اللہ سبحانہٗ تعالیٰ اپنے حوالے سے معاف فرما سکتا ہے ، لیکن حقوق العباد کا تعلق چونکہ اس کے بندوں سے ہے اس لیے اپنے بندوں کا آقا و مالک ہونے کے باوجود وہ ان کے پامال کیے جانے کو اپنے دائرۂ اختیار سے خود خارج فرماتا ہے۔
حقوق العباد سے مراد وہ تمام حق ہیں جو قرآن و سنت سے ثابت ہیں، مثلاً جان، مال، عزت، شہرت کے تحفظ کا حق، کسی کے مال کو بغیر اس کی اجازت کے تصرف میں لانا، کسی کو اس کی موجودگی یا غیرموجودگی میں تضحیک کا نشانہ اس طرح بنانا کہ وہ اوروں کی نگاہ میں کم تر ہوجائے یا خود اسے اس سے تکلیف پہنچے۔ اس عمومی تعریف سے آگے بڑھتے ہوئے آپ نے خود جو تعریف متعین کی ہے وہ قابلِ غور ہے، یعنی ’’ہر ایک کو خوش کرنا‘‘۔ میری راے میں یہ کہنا درست نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا اور دوسروں کو راضی کرنے میں بنیادوں کو قرآن و حدیث نے واضح کردیا ہے، یعنی اللہ کی نافرمانی ہونے کی شکل میں کسی مخلوق کی فرماں برداری نہیں ہوگی۔ اگر شوہر، باپ، بھائی، ماں، بہن یا دیگر قریبی رشتہ داروں کو خوش کرنے میں اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام و ہدایات کی خلاف ورزی ہو تو ایسا کرنا جائز نہیں۔ ہاں، اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کے دائرے میں رہتے ہوئے ماں باپ کو شوہر کو یا بیوی کو خوش دیکھنے کے لیے کوئی کام کرنا عین شریعت کی پیروی ہے۔ یہاں یہ بات بھی سامنے رہے کہ جہاں تک ’خوش‘ کرنے کا تعلق ہے اسلام میں اس بات کی کوئی گنجایش نہیں ہے کہ خاتون تو ہر وقت شوہر، بھائی، ماں باپ کو خوش کرنے میں جان ہلکان کرتی رہے اور شوہر صرف ’خوش‘ ہوتا رہے۔ یہ عمل دونوں پر یکساں طور پر واقع ہوگا کیونکہ قرآن کریم نے دو ٹوک فیصلہ کردیا ہے کہ وَ لَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَ لِلرِّجَالِ عَلَیْھِنَّ دَرَجَۃٌ ط وَ اللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ (البقرہ ۲:۲۲۸) ،یعنی ’’عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں‘‘۔ یہ ایک معاشرتی نفسیاتی بھول ہے کہ عورت تو مرد کو ’خوش‘ کرنے کی پابند ہو لیکن مرد تمام حقوق سے آزاد!
اس جملۂ معترضہ سے قطع نظر یہ بات درست ہے کہ اسلام خاندان کو ایک بنیادی معاشرتی و تہذیبی اکائی قرار دیتا ہے۔ اگر اس اکائی کو خارج کردیا جائے تو معاشرہ اور تہذیب دونوں کی عمارت زمین بوس ہوجاتی ہے۔ مزید یہ بات بھی درست ہے کہ اسلام وسیع تر خاندان کو ایک اسلامی خاندان قرار دیتا ہے:
لَیْسَ عَلَی الْاَعْمٰی حَرَجٌ وَّلاَ عَلَی الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّلاَ عَلَی الْمَرِیْضِ حَرَجٌ وَّلاَ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَنْ تَاْکُلُوْا مِنْم بُیُوتِکُمْ اَوْ بُیُوْتِ اٰبَآئِکُمْ اَوْ بُیُوْتِ اُمَّہٰتِکُمْ اَوْ بُیُوْتِ اِِخْوَانِکُمْ اَوْ بُیُوْتِ اَخَوٰتِکُمْ اَوْ بُیُوْتِ اَعْمَامِکُمْ اَوْ بُیُوْتِ عَمّٰتِکُمْ اَوْ بُیُوْتِ اَخْوَالِکُمْ اَوْ بُیُوْتِ خٰلٰتِکُمْ اَوْ مَا مَلَکْتُمْ مَّفَاتِحَہٗٓ اَوْ صَدِیقِکُمْ ط لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَاْکُلُوْا جَمِیْعًا اَوْ اَشْتَاتًا ط فَاِِذَا دَخَلْتُمْ بُیُوْتًا فَسَلِّمُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ تَحِیَّۃً مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ مُبٰرَکَۃً طَیِّبَۃً ط کَذٰلِکَ یُبَـیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ o (النور ۲۴:۶۱) کوئی حرج نہیں اگر کوئی اندھا، یا لنگڑا، یا مریض (کسی کے گھر سے کھا لے) اور نہ تمھارے اُوپر اِس میں کوئی مضائقہ ہے کہ اپنے گھروں سے کھائو یا اپنے باپ دادا کے گھروں سے، یا اپنی ماں نانی کے گھروں سے، یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے، یا اپنی بہنوں کے گھروں سے، یا اپنے چچائوں کے گھروں سے، یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے، یا اپنے مامووں کے گھروں سے، یا اپنی خالائوں کے گھروں سے، یا اُن گھروں سے جن کی کنجیاں تمھاری سپردگی میں ہوں، یا اپنے دوستوں کے گھروں سے۔ اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ تم لوگ مل کر کھائو یا الگ الگ۔ البتہ جب گھروں میں داخل ہوا کرو تو اپنے لوگوں کو سلام کیا کرو، دُعاے خیر، اللہ کی طرف سے مقرر فرمائی ہوئی، بڑی بابرکت اور پاکیزہ۔ اس طرح اللہ تعالیٰ تمھارے سامنے آیات بیان کرتا ہے، توقع ہے کہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو گے۔
قرآن کریم جگہ جگہ رشتہ داروں کے حقوق کی ادایگی کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ چنانچہ سورئہ نحل میں فرمایا: ’’اللہ عدل اور احسان اور صلۂ رحمی کا حکم دیتا ہے اور بدی و بے حیائی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمھیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سبق لو (۱۶:۹۰)۔ اسی طرح رشتہ داروں کی طرف سے بدسلوکی اور ایسے رویے کی بنا پر جو ایک فرد کو ناگوار ہو، قطع تعلق کرنا یا ان کے حقوق سے ہاتھ روک لینے کو قرآن کریم نے صاف طور پر منع فرمایا ہے:
وَلاَ یَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃِ اَنْ یُّؤْتُوْٓا اُولِی الْقُرْبٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَالْمُہٰجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا ط اَلاَ تُحِبُّونَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَکُمْ ط وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ o (النور ۲۴:۲۲) ، تم میں سے جو لوگ صاحب ِ فضل اور صاحب ِ مقدرت ہیں وہ اِس بات کی قسم نہ کھابیٹھیں کہ اپنے رشتہ دار، مسکین اور مہاجر فی سبیل اللہ لوگوں کی مدد نہ کریں گے، اُنھیں معاف کردینا چاہیے اور درگزر کرنا چاہیے۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمھیں معاف کرے، اور اللہ کی صفت یہ ہے کہ وہ غفور اور رحیم ہے۔
سورئہ بقرہ میں قرابت کو توڑنے پر وعید آئی ہے: ’’جو اللہ کے اقرار کو مضبوط کرنے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور جس چیز (رشتہ قرابت) کے جوڑے رکھنے کا اللہ نے حکم دیا ہے اس کو توڑتے ہیں اور زمین میں خرابی کرتے ہیں، وہی لوگ نقصان اُٹھانے والے ہیں‘‘۔ (البقرہ ۲:۲۷)
مندرجہ بالا قرآنی آیات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اولاً خاندان اور خاندانی حقوق، یعنی مل جل کر کھانا کھانا، گھر میں داخل ہونا، ربط و تعلق کو برقرار رکھنا یہی خاندان کا مقصود ہے۔ اس سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ سب لوگ ایک چھت کے نیچے ہی رہیں بلکہ باپوں بھائیوں وغیرہ کے تذکرے سے یہ بات واضح ہوگئی کہ ان کے گھر الگ الگ ہوسکتے ہیں۔ ورنہ باپوں کے گھر، بھائی کے گھر، وغیرہ کا تذکرہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ یہ بات بھی سمجھا دی گئی کہ جو رشتے اللہ تعالیٰ نے مقرر کردیے ہیں، ان کو قطع کرنا اللہ کی حدود کا پامال کرنا ہے۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسلام کا تصورِ خاندان یہ نظر آتا ہے کہ اگر ایک شخص اپنے والدین کے گھر میں رہتا ہے، تو اسے اپنی بیوی کو اُس آزادی سے محروم کرنے کا حق نہ ہوگا جو اللہ نے اسے دی ہے، یعنی اپنے شوہر اور بچوں کے سامنے ساتر اور اچھے لباس میں آنا، گھر میں ایسی تنہائی کا پایا جانا جہاں میاں بیوی بلاکسی روک ٹوک کے جس طرح چاہیں ایک دوسرے کے ساتھ بے تکلفی سے پیش آسکیں۔
اسلام کا پرائیویسی کا تصور قرآن کریم نے واضح کردیا ہے، یعنی وہ اوقات جن میں گھر کے بچے ہوں یا ملازم، وہ بغیر اجازت اندر نہیں آسکتے۔ ایسے ہی شوہر اور بیوی کی آپس کی گفتگو میں بعض ایسے امور ہیں جو صرف بیوی یا شوہر کے علم میں ہوں اور کسی اور کو اس کا علم نہ ہو۔ حضور نبی کریمؐ کا ایک اُم المومنینؓ سے کسی بات کا ذکر کرنا اور ان کا اسے دوسری تک پہنچانا قرآن کریم سے ثابت ہے کہ اس کی اجازت نہیں۔ یہ بات کی امانت کی تعریف میں بھی آتا ہے۔
بڑے بھائی بہن ہوں یا چھوٹے، ہر ایک کے لیے اصول ایک ہے کہ اللہ کی نافرمانی میں ان میں سے کسی کی اطاعت نہیں۔ ہاں، اس دائرے میں رہتے ہوئے اگر انھیں کوئی تحفہ دینا، یا کوئی اچھی بات، کوئی نصیحت،کوئی بھلائی کا عمل کیا تو یہ مطلوب و مرغوب ہے۔ ان کی مرضی کے مطابق کوئی فیصلہ کرنا جو عدل، حق اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے منافی ہو، کسی بھی شکل میں نہیں کیا جاسکتا۔ انھیں سمجھانا اور یہ بتلانا کہ اس طرح کے فیصلے میں آپ کا اور خود ان کا خسارہ ہے، آپ پر فرض ہے۔
مزاجوں کا فرق ایک فطری بات ہے اور یہ اُمہات المومنینؓ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین سب میں پایا جاتا ہے۔ آخر ایک اُم المومنینؓ کو لمبے ہاتھ والی کیوں کہا گیا، ایک صحابی کو حیا میں دوسروں سے زیادہ کیوں سمجھا گیا۔ کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ دوسروں میں حیا نہیں تھی؟ قطعاً نہیں۔ حیا تو ایمان کا بڑا حصہ ہے۔ اس لیے حضرت عثمانؓ کے مزاج اور دیگر صحابہؓ کے مزاج میں فرق تھا، ورنہ ہرصحابی حیا کا مجسمہ تھا۔
اس فطری فرق کا مطلب یہ ہوا کہ جب قرآن یہ کہتا ہے کہ اہلِ ایمان کو کاظمین الغیظ اور رحما بینھم ہونا چاہیے تو وہ ان مزاجوں کے اختلاف کی بنا پر ہی یہ بات کہتا ہے ،اور چاہتا ہے کہ اس فطری اختلاف کے باوجود ان کا مجموعی طرزِعمل وہی ہو جو عالمِ انسانیت کے لیے بھیجے گئے، کامل ترین اسوئہ حسنہ رکھنے والے انسانؐ کا تھا۔ چونکہ آئیڈیل اور نمونہ آپؐ کی ذات ہے، اس لیے مزاجوں کے فرق کے باوجود جب ایک مومن یا مومنہ دوسروں کو مسکراتے چہرے سے دیکھے، دوسرے کی غلطی پر عفو و درگزر کرے، دوسرے کی جانب سے تکلیف پہنچنے پر کشادگی ٔ قلب کے ساتھ اس کے حقوق کو پورا کرے، اور صرف اس لیے ایسا کرے کہ اس سے رب خوش ہوگا، تو پھر ایسے فرد کے لیے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مغفرت، کامیابی اور آخرت میں اعلیٰ مقامات کا وعدہ فرمایا ہے۔
وہ مشہور حدیث سامنے رکھیے جس میں آپؐ فرماتے ہیں: ’’وہ شخص جو بدلے میں رشتہ داروں کا لحاظ کرتا ہے، وہ مکمل درجے کی صلہ رحمی کرنے والا نہیں ہے‘‘۔ (بخاری، عن ابن عمرؓ)۔ گویا اگر کسی کی بھلائی کے بدلے میں ہم نے بھلائی کردی تو یہ صلہ رحمی نہیں۔ صلہ رحمی تو وہ ہے کہ ایک طرف سے تکالیف ہورہی ہوں اور دوسری جانب سے عنایات و لطف و کرم کا معاملہ ہو۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اے اللہ کے رسولؐ! میرے کچھ رشتہ دار ہیں جن کے حقوق مَیں ادا کرتا ہوں اور وہ میرے حقوق ادا نہیں کرتے ہیں۔ میں ان کے ساتھ حُسنِ سلوک کرتا ہوں اور وہ میرے ساتھ بدسلوکی کرتے ہیں۔ میں ان کے ساتھ حلم و بُردباری سے پیش آتا ہوں اور وہ جہالت برتتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: اگر تو ایسا ہی ہے جیسا تو کہتا ہے تو گویا تو ان کے چہروں پر سیاہی پھیر رہا ہے۔ اللہ ان کے مقابلے میں ہمیشہ تیرا مددگار رہے گا جب تک تو اس حالت پر قائم رہے گا‘‘۔ (مسلم)
اس حدیث اور حضرت ابوبکرؓ کے سیدہ عائشہؓ پر بہتان لگانے والے رشتہ دار کے طرزِعمل سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ اسلام قطع رحمی کو پسند نہیں کرتا، اور صلہ رحمی کا مطلب ہی یہ ہے کہ جو آپ کے حقوق ادا نہ کرے آپ اُس کے حقوق میں کمی نہ کریں۔ (ڈاکٹر انیس احمد)