اکتوبر ۲۰۱۲

فہرست مضامین

کچھ تفہیم القرآن کی جدید کاری کے بارے میں

وحید الدین سلیم | اکتوبر ۲۰۱۲ | عالم اسلام

Responsive image Responsive image

’تفہیم القرآن ، مقاصد و اہداف‘ کے عنوان پر حامد عبدالرحمن الکاف صاحب کا ایک مضمون مئی کے ترجمان میں شائع ہوا ہے۔ اس ضمن میں پہلی بات یہ عرض ہے کہ تفہیم القرآن حقیقتاً اہداف و مقاصدِ قرآن کی تفسیر ہے۔ اس کے اپنے کوئی اہداف نہیں ہیں۔ آخر میں مضمون نگار نے تفہیم القرآن کی زبان کو مستقبل کی اُردو میں ڈھالتے رہنے کا جو مشورہ دیا ہے، وہ اخلاص پر مبنی ہونے کے باوجود قابلِ عمل نہیں ہے، اور اگر اس پر عمل کیا گیا تو تفہیم القرآن اپنی سند اور حوالے کی علمی حیثیت کھو دے گی اور کوئی نیا عالم حوالے کی ضرورت پر مولانا مودودی علیہ الرحمہ کے الفاظ میں سند واعتبار کے لیے استعمال نہ کرسکے گا۔ اس موقع پر ہم کو یہ دیکھنا چاہیے کہ تفہیم القرآن کی زبان و اظہار کے سانچے کے متعلق مولاناؒ نے کیا لکھا ہے؟ نئے ترجمے کی ضرورت پر مولانا نے  بڑی فاضلانہ بحث کرتے ہوئے اپنا پیمانۂ اظہار یہ بتایا ہے کہ: ’’اسلوبِ بیان میں ترجمہ پن نہ ہو،   عربی مُبین کی ترجمانی اُردوے مبین میں ہو، تقریر کا ربط فطری طریقے سے تحریر کی زبان میں ظاہر ہو، اور کلامِ الٰہی کا مطلب و مدعا صاف صاف واضح ہونے کے ساتھ اس کا شاہانہ وقار اور زورِ بیان بھی جہاں تک بس چلے ترجمانی میں منعکس ہوجائے‘‘۔(’عرضِ مترجم‘ ۴؍اپریل ۱۹۷۱ئ)

مولانا مودودی کی زبان آج جن لوگوں کو مشکل معلوم ہوتی ہے، اُنھوں نے اُردو کو ادب کے درجے تک حاصل نہیں کیا ہے۔ وہ اُردو میں اپنی لیاقت بڑھائیں ورنہ صرف تفہیم القرآن ہی نہیں دیگر مفسرین کی زبان اور اُردو شاعری و ادب کو کیسے پڑھ سکیں گے؟ تمام ذخائر علم، تفسیر، حدیث، فقہ، علمِ کلام اور تاریخ وغیرہ تک کیسے رسائی حاصل کرسکیں گے۔ ہماری جدید نسل کو اُردو کو اعلیٰ معیار تک پڑھانے کی ضرورت اس لیے ہے کہ وہ بزرگوں کے چھوڑے ہوئے علمی ورثے تک رسائی حاصل کر سکے۔

اب رہا تفہیم القرآن کے عالمی زبانوں میں تراجم کا مسئلہ تو اس پر توجہ کی ضرورت ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ اس کو انگریزی زبان میں بہ تمام و کمال منتقل کرنے کا فریضہ پروفیسر ظفراسحاق انصاری اسلام آباد ادا کر رہے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن کی عمر و توانائی میں برکت عطافرمائے۔ یہ عظیم پراجیکٹ مکمل ہوجائے۔ مولانا مودودی کے ترجمۂ قرآن کا کام تو اُنھوں نے مکمل کردیا ہے اور تفہیم کے تراجم بھی شائع ہو رہے ہیں جن سے دنیا کا بڑا حصہ مستفید ہورہا ہے اور آیندہ اس کا ایک دائرۂ اثرقائم ہوجائے گا۔ تفہیم کی عربی زبان میں منتقلی میں بڑی تاخیر ہوگئی اور آج عالمِ عرب کو اس کی بڑی ضرورت ہے۔ میں نے بارہا مولانا خلیل احمد حامدیؒ کو توجہ دلائی وہ خود ہی اس کام کو انجام دینا چاہتے تھے لیکن اُن کے حادثۂ وفات نے مشکل پیدا کردی۔ اب بھی معارفِ اسلامی لاہور اس پراجیکٹ پر متوجہ ہو تو بہت اچھا ہوگا۔ فارسی زبان میں بھی اس تفسیر کو منتقل کیا جانا چاہیے۔فارسی دنیا میں بھی اسلامی بیداری آرہی ہے۔ اب ایسی تفسیر کی بڑی ضرورت ہے۔

تفہیم القرآن ہی کیا مولانا مودودی کا سارا تحریکی لٹریچر تفسیرِقرآن ہے اور اسی بنا پر نگارشاتِ مودودیؒ کو دوام حاصل ہوا۔ آج تفہیم کا ایک ایک صفحہ نہیں، ایک ایک سطر اور اس کے ایک ایک لفظ کے تحفظ کا اہتمام کیا جانا چاہیے تاکہ حفاظت ِ متن ہوسکے۔ تفہیم القرآن کا ایک ایک تفسیری نوٹ نہایت قیمتی مواد پر مشتمل ہے اور اس کی زبان بھی ایسی نپی تُلی ہے کہ اس کی تلخیص کی گنجایش نظر نہیں آتی، تاہم مولاناؒ نے ترجمے سے استفادہ کرنے والوں کے لیے ترجمانی کا ایک علیحدہ ایڈیشن چھاپ دیا تھا۔ اُس موقع پرمولانا ؒ نے مشہور اسکالر ڈاکٹر ابوالخیر کشفی کے جواب میں لکھے گئے ایک خط میں یہ واضح کردیا تھا کہ ’’تفہیم القرآنکی تلخیص مَیں نے خود کردی ہے جس میں متن اور ترجمے کے ساتھ بہت مختصر تشریح ہے۔ پوری کتاب ایک جلد میں آگئی ہے اور طباعت کے لیے دے دی گئی ہے‘‘۔ ( بنام:ڈاکٹرابوالخیر کشفی، فکرونظر ، اسلام آباد،۳مارچ ۱۹۷۴ئ، ص۳۹۵)

تفہیم القرآنایک انقلابی تفسیر کے ساتھ ساتھ علم و ادب کا شاہکاربھی ہے، چنانچہ دنیا کی تمام اسلامی دانش گاہوں میں اس کو شاملِ نصاب کیا جانا چاہیے۔

 

مضمون نگار ایک تحقیقی ادارے اسلامک سروس آف انڈیا ، حیدرآباد، بھارت سے وابستہ ہیں۔