اکتوبر ۲۰۱۲

فہرست مضامین

کتاب نما

| اکتوبر ۲۰۱۲ | کتاب نما

Responsive image Responsive image

الصَّارم المسلول علٰی شَاتِم الرَّسول،شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ، ترجمہ: پروفیسر غلام احمد حریری، تحقیق و نظرثانی:حافظ شاہد محمود۔ ناشر: مکتبہ قدوسیہ، رحمان مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردوبازار، لاہور۔ فون: ۳۷۳۵۱۱۲۴-۰۴۲۔ صفحات: ۷۴۸۔ قیمت:درج نہیں۔

اس کتاب کی اہمیت اور ثقاہت کے لیے امام ابن تیمیہؒ کا نام گرامی ہی کافی ہے۔ امام  ابن تیمیہؒ چھٹی صدی ہجری کے معروف و مشہور عالمِ دین ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب کی بنیاد یہ عنوان ہے کہ ’’رسول کریمؐ کی توہین کا مرتکب (خواہ مسلم ہو یا کافر) واجب القتل ہے‘‘۔ کتاب کے وجود میں آنے کی تحریک آپ کے دور کا یہ واقعہ ہے، جو رجب ۶۹۳ھ میں وقوع پذیر ہوا کہ ایک عساف نامی نصرانی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں نازیبا کلمات کہے۔ امام ابن تیمیہؒ اس حوالے سے رقم طراز ہیں کہ: ’’یہ الم ناک سانحہ اس امر کا موجب ہوا کہ مَیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین و تحقیر کرنے والے کے لیے جو سزا مقرر ہے اس کو ضبطِ تحریر میں لائوں خواہ اس کا ارتکاب کرنے والا  مسلم کہلاتا ہو یا کافر، نیز اس کے تمام متعلقات و توابع کو شرعی احکام و دلائل کی روشنی میں بیان کروں، اور وہ ذکر و بیان اس قابل ہو کہ اس پر بھروسا کیا جاسکے۔ اس کے ساتھ ساتھ علما کے ان اقوال کا تذکرہ کروں جو میرے ذہن میں محفوظ ہیں اور ان کے اسباب و علل بھی ذکر کروں‘‘۔ (ص ۳۸)

اس کتاب میں دوسرا مسئلہ توہینِ رسولؐ کے حوالے سے ہی یہ بیان ہوا ہے کہ توہین کرنے والا شخص اگر ذمّی ہو تو بھی اسے قتل کیا جائے، نہ اس پر احسان کرنا جائز ہے اور نہ فدیہ لینا روا ہے۔ ایک اور متعلقہ مسئلہ یہ بھی بیان ہوا ہے کہ ’’کیا اِس کی توبہ قبول ہے یا نہیں‘‘ اور یہ مسئلہ بھی بیان ہوا ہے کہ سَبّ (گالی دینا) کی تعریف کیا ہے؟ کون سی چیز سَبّ ہے اور کون سی نہیں ہے اور یہ کہ سَبّ اور کفر میں کیا فرق ہے؟ امام صاحب نے اصحابِ شافعی میں سے ابوبکر فارسی کا قول نقل کیا ہے کہ ’’اس امر پر مسلمانوں کا اجماع ہے کہ جو شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دے اس کی  حدِشرعی قتل ہے‘‘۔ اسی طرح قاضی عیاض نے فرمایا ہے کہ ’’اس بات پر اُمت کا اجماع ہوا ہے کہ اگر مسلمانوں میں سے کوئی شخص رسول کریمؐ کی توہین کرتا ہے یا آپؐ کو گالی نکالے تو اُسے قتل کیا جائے۔ اسی طرح دوسرے علما نے بھی رسولِ اکرمؐ کی توہین کرنے والے کے واجب القتل ہونے اور کافر ہونے کے بارے میں اجماع نقل کیا ہے‘‘۔ (ص ۳۹)

عصرحاضر میں نائن الیون کے واقعے کے بعد دنیا میں یہ تبدیلی آئی ہے کہ اسلام کے خلاف سَبّ و شتم بڑھ رہی ہے۔ خصوصاً اہلِ مغرب اور غیرمسلموں میں یہ بات عام ہوئی ہے۔ یہ سب سوچی سمجھی سازش ہے کہ پیغمبرؐ اسلام کے گستاخانہ خاکے اور فلمیں بنائی جارہی ہیں اور آپؐ کی شخصیت اور سیرت پر بے سروپا اور سبّ و شتم سے بھرپور کتب شائع ہورہی ہیں۔ ان حالات میں امام صاحب کی یہ کتاب انتہائی اہم ہے۔ (شہزادالحسن چشتی)


معاشی مسائل اور قرآنی تعلیمات، مرتبین: اوصاف احمد، عبدالعظیم اصلاحی۔ ناشر: ادارہ علوم القرآن، پوسٹ بکس ۹۹، شبلی باغ روڈ، علی گڑھ، بھارت۔ صفحات: ۲۵۶۔ قیمت: ۱۶۰روپے بھارتی۔

قرآن پاک بنیادی طور پر ایک نظامِ زندگی کے اصول انسان کو دیتا ہے۔ ان اصولوں پر چل کر انسانوں کی انفرادی و اجتماعی زندگی کامیابی سے ہم کنار ہوسکتی ہے۔ قرآن پاک میں جہاں ایمانیات کی مضبوطی کی تعلیمات ہیں، وہیں قرآنِ پاک کا ایک بڑا حصہ معاملات کے بارے میں اصولی ہدایات سے انسان کو نوازتا ہے۔ ان معاملات میں بھی ایک بڑا حصہ معاشی معاملات سے متعلق ہے۔

علی گڑھ میں قائم ادارہ علوم القرآن نے انھی تعلیمات کی تفہیم کے لیے ایک سیمی نار نومبر ۲۰۱۰ء میں منعقد کیا۔ جہاں پیش کیے گئے مقالات کو کتابی صورت میں معاشی مسائل اور قرآنی تعلیمات کے عنوان سے ادارہ نے شائع کیا ہے۔ اس سیمی نار میں معروف اسلامی معاشیات دان جناب اوصاف احمد نے اپنا کلیدی خطبہ پیش کیا، جب کہ عبدالعظیم اصلاحی نے ’قرآنی معاشیات پر ادبیات کا ایک مختصر جائزہ‘پیش کیا۔ جناب نسیم ظہیراصلاحی نے ’قرآنی نظامِ معیشت کی بعض خصوصیات‘ کے عنوان سے قرآنی نظامِ معیشت کا دیگر نظام ہاے معیشت سے تقابل کرکے بتایا کہ قرآنی نظام دوسرے نظاموں سے کیونکر مختلف ہے۔ محمدعمر اسلم اصلاحی نے سورۂ بقرہ کے حوالے سے چند اہم معاشی تعلیمات کو اپنے مقالے کا موضوع بنایا۔ محی الدین غازی نے ’فساد فی الارض کا مالی اور معاشی پہلو قرآنِ مجید کی روشنی میں‘ پیش کیا۔ شاہ محمد وسیم کا موضوع ’قرآنی معاشرہ، معیشت اور تجارت: ایک مختصر خاکہ‘ تھا۔ جناب محمد یاسین مظہرصدیقی کے مقالے کا عنوان: ’اسلام میں ربا کی تحریم، مختلف جہات کا تنقیدی تجزیہ‘ تھا۔ قرآنِ مجید میں افزایش دولت کا تصور، ایک جائزہ‘ ابوسفیان اصلاحی کے مقالے کا عنوان تھا۔ محمد رضی الاسلام نے ’اسلامی نظامِ معیشت میں عورت کے حصہ‘ کے موضوع پر بحث کی۔ عنایت اللہ سبحانی نے ’نظام المیراث فی القرآن‘ کے موضوع پر    عربی میں مقالہ پیش کیا۔ اس سیمی نار میں اُردو، عربی اور انگریزی میں مقالات پیش کیے گئے۔     اپنے موضوعات کے حوالے سے یہ مقالات وقیع بھی ہیں اور متنوع بھی۔ (میاں محمد اکرم)


تلاش، اللہ: ماورا کا تعین، عکسی مفتی، ناشر: الفیصل، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۵۳۱۔ قیمت: ۱۲۰۰ روپے۔

پیشِ نظر کتاب عکسی مفتی کی انگریزی تصنیف Allah: Measuring the Intangible کا اُردو ترجمہ ہے۔ ترجمہ کار ڈاکٹر نجیبہ عارف (استاد، بین الاقوامی یونی ورسٹی،     اسلام آباد) کہتی ہیں کہ ’’اللہ سے مَیں نے بار بار پوچھا   ُتو کیا ہے، کہاں ہے، میری سمجھ میں کیوں نہیں آتا؟… اللہ نے بالآخر مجھے اس نیم جانی سے رہا کرنے کا فیصلہ کرلیا… عکسی مفتی سے     یہ کتاب لکھواکر مجھے بھیجی ہے کہ جا پڑھ لے…‘‘ (ص ۱۱)

مصنف کہتے ہیں کہ: ’’سائنس کو علم کے تمام ذرائع پر برتری حاصل رہی ہے… یہ ’اجماع‘ کا نام ہے، یہ ’سچائی‘ کی تجربی میزان ہے (ص ۳۱)۔ اور ’’اللہ ایک ماورائی حقیقت ہے۔ نادیدہ اور ناقابلِ بیان___ صرف ایک باطنی تجربہ۔ ہم وجدانی طور پر اُسے سمجھتے ہیں، مگر عقلی طریقے سے اس کی وضاحت نہیں کرسکتے… اللہ کو ان مظاہر کے ذریعے بیان کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے ایکس ریز کا تجزیہ کرنا یا روشنی کی غیرمرئی لہروں کو مرئی رنگوں کی مدد سے بیان کرنے کی کوشش کرنا… (ص ۴۲)۔ ان کے خیال میں مغرب میں خدا بے زاری اور الحاد کا سبب، کلیسائی خدا کا  وہ تصور تھا، جس میں اسے ایک سخت گیر اور جابر باپ کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ مغرب میں اس سے چھٹکارے کے طور پر بے لگام آزادی اور اس کے ردعمل میں مشرق میں مذہبی انتہاپسندی کو فروغ ملا۔ ان کے خیال میں ’’سائنس، دراصل خود آگاہی کا نام ہے، یا یوں کہیے کہ سائنس دراصل    ’خدا آگاہی‘ کا نام ہے۔ ان دونوں جملوں میں کوئی تضاد نہیں کیوں کہ خودی خدا کا جزو ہے۔ یہ الگ بات کہ بہت چھوٹا سا جزو، جیسے ایک ایٹم ایک شمسی نظام کا جزو ہوتا ہے۔ زمینی عناصر سے بناہوتا ہے اور وہی خواص رکھتا ہے‘‘۔ (ص ۷۹)

اپنے سائنسی پس منظر کے باوجود ان کے بعض بیانات مبہم اور بعض حقیقت سے دُور   نظر آتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ ’’آئن سٹائن نے تحقیق کے دوران دو مختلف قوتیں، یعنی کششِ ثقل (gravity ) اور برقی مقناطیسیت (electromagnetism) دریافت کیں…‘‘ (ص ۶۴)۔ ایک طرف تو وہ یہ کہتے ہیں کہ سائنس کی بنیاد اخلاقی سوالات پر قائم ہے، اور سائنس کی اخلاق سے عاری ہونے کی باتیں اٹھارھویں صدی کی شعبدہ بازی ہے‘‘ اور دوسری طرف ’’لُولی لنگڑی سائنس‘‘ کے توازن کی تلاش بھی کرتے نظر آتے ہیں اور انھیں سائنسی ترقی، محرومیت کی خبر دیتی ہے۔ ’’ہماری سائنس، حقیقت کی اعلیٰ سطح پر مزید ترقی کرنے سے قاصر نظر آتی ہے‘‘۔ (ص ۸۰-۸۱)

اسماے الٰہی کے ضمن میں حضرت ابوہریرہؓ کے حوالے سے امام ترمذی کے روایت کردہ  اللہ تعالیٰ کے ۹۹ نام اور ان کے معانی اور مفہوم بیان کرنے کے بعد یہ کہا گیا ہے کہ ’’یہی علم… مخفی اسما کا علم ہی دراصل وہ طاقت تھی جو اللہ نے آدم کو اپنے نائب، اپنے معاون تخلیق کار کی حیثیت سے عطا کی تھی اور اپنی سلطنت کی تمام مخلوق کو آدم کے سامنے سجدہ کرنے کی اجازت [کذا] دی تھی‘‘(ص ۱۰۴)۔ لیکن یہ فراموش شدہ علم ابھی تک اسرار کی دُھند میں لپٹا ہوا ہے‘‘۔ یہ اسما بار بار دُہرائے جاتے ہیں اور اس طرح ایک ’چکّر‘ کے تصور کو پیش کرتے ہیں۔ بعض قدیم مذاہب میں حقیقت مطلق کو ایک چکّر (wheel) کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ مگر گردش کے لیے ایک مرکز کی ضرورت ہوتی ہے اور ہرمذہب میں یہ مرکز اللہ کی ذات ہے۔ ’’خدا، رُوح ہے اور انسان مادہ‘‘.... خدا اور انسان، رُوح اور مادہ، خالق اور مخلوق، ایک ہی تسلسل کے مختلف پہلو ہیں.... جیسے مادہ اور توانائی ایک ہی حقیقت کے مختلف پہلو ہیں‘‘۔ (ص ۳۰۱-۳۰۲)

’’خدا کی بھوک: On Eating God‘‘ (ص ۳۱۱) کے سلسلے میں وہ کہتے ہیں کہ جس طرح ہمارے جسمانی وجود کو ایک متوازن غذا کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح روحانی نشوونما کے لیے اللہ کے ذکر، اس کی صفات کو اپنے اندر سمو لینا انسان کی روحانی پرورش کے لیے ضروری ہے۔ اللہ کو خود میں سمو لینے، اس کی صفات کو اپنا لینے، اُسے اپنے اندر جذب کرلینے کا یہ صوفیانہ تصور ہے۔ جیسے ایک بڑے پیڑے کو ایک دم نہیں کھا سکتے، بلکہ تھوڑا تھوڑا کتر کر چکھتے ہیں، اسی طرح ’’اللہ بھی جو انسان کی روحانی غذا ہے، اس کلیے سے مستثنیٰ نہیں۔ ایک دم بہت بڑی روحانی خوراک بھی روحانی بدہضمی کا باعث بن جاتی ہے، اور انسان کو مریض بنا دیتی ہے.... صوفی خدا کو تھوڑا تھوڑا چکھتا رہتا ہے‘‘ (ص ۳۱۳)۔ وہ مثبت اور منفی کے اصول کو ’تنترا‘ اور ہندو دیولامائی جنسی آثار و نقوش کا غماز بتاتے ہیں، جو بقول ان کے تمام مذاہب میں مروج اور جاری و ساری ہے، اور مختلف جہتوں سے حرکت و سکون، ظاہر و باطن، مادہ و روح اور ’حی و میّت‘ کی اشکال اختیار کرتا رہتا ہے۔ اس سلسلے میں قدیم و جدید سائنس دانوں کے کئی اقتباسات بھی پیش کرتے ہیں، اور اس نتیجے تک پہنچتے ہیں کہ ’چوں کہ اللہ، انسان کے وجود کا سبب، اس کی علّت ہے، اور اس کی ذات کا جوہر اس کا عطر ہے، اس لیے اللہ کی اطاعت، خود اپنی ہی اطاعت کے مترادف ہے‘‘ (ص ۴۵۱)۔ شاید منصور کا ’اناالحق‘ اس کا اظہار ہے۔ ’’اللہ، الجامع‘‘ ہے، یعنی وہ ہر چیز کو اکٹھا کردیتا ہے۔ وہ کُلیّت ہے، جو ہرشے کو آپس میں جوڑدیتی ہے۔ اللہ سب سے آخری امتزاج (synthesis) ہے۔ کُل ہے، جو جزو کو معنویت عطا کرتا ہے… اللہ کو اس کی جامعیت میں سمجھنے کی کوشش ہی سائنس اور انسانیات [انسیات]، ایمان اور استدلال کے درمیان موجود یہ خلیج پاٹ سکتی ہے… اللہ… وہ یکتا آئیڈیل ہے جو پوری بنی نوع انسان کو تمام اختلافات اور انحرافات سے بالاتر ہوکر ایک وحدت میں جوڑ دیتا ہے۔ یہ کُل (whole)کی ایک بے مثال خصوصیت ہے، جو اس کے اجزا (parts) میں نہیں ملتی۔ جیساکہ امریکی ماہر طبیعیات اور فلسفی فریجوف کیپرا (Fritjof Capra) نے کہا ہے کہ شکر کا  ذائقہ نہ تو کاربن میں ملتا ہے، نہ ہائیڈروجن میں نہ آکسیجن کے ایٹموں میں۔ حالانکہ یہی شکر کے   اجزا ہیں۔ یہ ذائقہ تو صرف شکر ہی میں مل سکتا ہے، جو ان سب کا مجموعہ ، ان سب کا کُل ہے‘‘ (ص۴۵۶)___یہ ہے اللہ کا ذائقہ چکھنے کی دعوت اور ماورا کا تعین! (عبدالقدیر سلیم)


دینی مدارس، روایت اور تجدید، علما کی نظر میں، ڈاکٹر ممتاز احمد۔ ناشر: اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ، اسلام آباد۔ تقسیم کنندہ: ایمل مطبوعات نمبر۱۲، سیکنڈفلور، مجاہدپلازا، بلیوایریا، اسلام آباد۔ صفحات: ۲۰۶۔ قیمت: ۵۹۰ روپے۔

تقریباً ۴۰سال ہونے کو آئے ہیں۔ ڈاکٹر ممتاز احمد (ڈائرکٹر ، اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ) نے ڈاکٹریٹ کی تحقیق کے لیے برعظیم میں دینی تعلیم اور دینی مدارس کا موضوع منتخب کیا ۔ انھوں نے تحقیقی کام کے لیے شکاگو (امریکا) جانے سے پہلے لوازمہ جمع کرنا شروع کیا اور اس ضمن میں دینی مدارس کے علماے کرام سے کچھ مصاحبے (انٹرویو) کیے۔ تحقیق مکمل ہونے پر انھیں ڈگری ملی۔ برعظیم بلکہ جنوبی ایشیا کے پورے خطے میں دینی تعلیم اور دینی اداروں کے موضوع پر ڈاکٹر ممتاز احمد ایک سند (اتھارٹی) مانے جاتے ہیں۔ اسی لیے امریکا میں اُن کے طویل قیام کے زمانے میں بہت سے سرکاری اور غیرسرکاری اداروں، بلکہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے بھی ان کی تحقیق سے فائدہ اُٹھایا۔

زیرنظر کتاب میں مصاحبوں کو تاریخی ریکارڈ کے لیے شائع کیا گیا ہے۔ ۱۶علما میں ہرخیال اور مختلف مکاتب ِ فکر کے علما شامل ہیں۔سید ابوبکر غزنوی، جمیل احمد تھانوی، محمد ایوب جان بنوری، محمد حسین نعیمی، گلزار احمد مظاہری، ملک غلام علی، عبدالحق (اکوڑہ خٹک)، محمد ناظم ندوی، احمد سعید (سرگودھا)، مفتی محمد یوسف اور مولانا عبدالرحیم (پشاور)، چودھری نذیراحمد اور خان محمد (ملتان) وغیرہ۔ ایک تازہ ترین زاہد الراشدی کا انٹرویو بھی شامل ہے۔

ان مصاحبوں میں رائج الوقت دینی تعلیم کا دفاع کیا گیا ہے لیکن علما نے بعض اُمور میں کمی رہ جانے کا اعتراف بھی کیا ہے۔ ڈاکٹر ممتاز احمد نے ان مصاحبوں کے زمانے میں علما کے بارے میں جو تاثر قائم کیا، وہ بہت مثبت ہے اور ایک طرح سے علما کے لیے یہ ڈاکٹر ممتاز احمد کا خراجِ تحسین ہے۔ وہ افسوس کرتے ہیں کہ ’’اولیا اللہ کی صفت رکھنے والے وہ علما کہاں‘‘۔ (ص ۹)

کتابت، طباعت، کاغذ، کاغذی جلد، سرورق، ہرچیز خوب صورت اور دل کو بھانے والی ہے مگر قیمت ہوش اڑانے والی اور پریشان کن حد تک زیادہ ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)


First Famous Facts of  Muslim World، [مسلم دنیا کے    اہم حقائق]تالیف: ڈاکٹر غنی لاکرم سبزواری، ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی۔ ناشر: لائبریری پروموشن بیورو، کراچی یونی ورسٹی، پوسٹ بکس ۸۹۴، کراچی۔ صفحات: ۱۲۲۔ قیمت: ۴۹۴ روپے۔

اس مختصر انگریزی کتاب کے دونوں قابل مؤلفین تجربہ کار لکھاری ہیں کہ ہر ایک نے ۱۰تحقیقی کتب تصنیف کی ہیں جو شائع ہوچکی ہیں۔ زیرتبصرہ کی ترتیب میں ۱۱اہلِ قلم نے مؤلفین کی معاونت کی ہے، اور تقریباً ۱۶؍اہم تحقیقی اداروں کی تحقیقات سے فائدہ لیا گیا ہے۔ اس سے کتاب کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ کتاب کو اللہ رب العزت کے نام معنون کیا گیا ہے۔ ابتداے اسلام سے دورِ جدید تک تقریباً ۱۴۳۳ سالوں کے دوران میں پیدا ہونے والی معروف اور نام وَر سیاسی، سماجی، ادبی، سائنسی، مذہبی اور دوسرے تمام شعبوں کی شخصیات اور اپنے اپنے میدانوں میں ان کے کارناموں کو مختصر مگر جامع انداز میں مرتب کیا گیا ہے۔ اسلام سے متعلق اہم مقامات، مثلاً مساجد، اہم کتب و دستاویزات پر بھی اس کتاب میں قابلِ قدر معلومات دی گئی ہیں۔ اسلامی دنیا کی اہم دینی و سیاسی جماعتوں کی بھی معلومات موجود ہیں جنھوں نے کوئی مؤثر کردار ادا کیا ہے۔  غرض کہ ۱۲۲ صفحات پر مشتمل یہ کتاب اسلامی دنیا کی ’مختصر انسائیکلوپیڈیا ‘ ہے۔

کتاب اسلام کے حوالے سے مگر اس میں ڈاکٹر عبدالسلام کا فوٹو اور معلومات دیکھ کر تعجب ہوا۔ غالباً مرتبین ان کو مسلمانوں میں شمار کرتے ہیں جو بنیادی غلطی ہے۔ اسی طرح سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ اور شیخ حسن البنا جیسے معروف و مشہور اسلامی اور انقلابی مفکرین کا دو حرفی ذکر علی الترتیب ’جماعت اسلامی‘ اور ’مسلم برادرہڈ‘ کے تحت ضرور نظر آتا ہے، جب کہ یہ ان کے مقام اور کام سے بہت فروتر بات ہے۔ مغربی افریقی ملک نائیجیریا کے عثمان ڈان فوڈیو کا ذکر بھی کہیں نہیں ملتا۔

کتاب کے صفحہ اوّل پر عباس ابن فرناس (۸۱۰-۸۸۷) پہلا مسلم سائنس دان جس نے چھے منٹ تک ہوا میں پرواز کی۔ ’اِندلسی، ستارہ شناس اور موجد‘ کے بارے میں پڑھ کر خوشی ہوتی ہے اور اعتماد بڑھتا ہے کہ سب سے پہلے جرأت مندانہ اور قابلِ تقلید تجربہ کیا تھا مگر اب ’’تھے تو وہ آبا ہی تمھارے مگر تم کیا ہو؟‘‘ (ش- ح- چ )


تعارف کتب

  • فہم سیرت، پروفیسر محمد سلیم۔ ناشر: ریجنل دعوہ سینٹر (سندھ) ، کراچی۔ پی ایس-۱/۵-کے ڈی اے اسکیم ۳۳، احسن آباد نزد گلشن معمار، کراچی۔ فون: ۳۶۸۸۱۸۶۲-۰۲۱ ۔ صفحات:۲۴۔ قیمت: درج نہیں۔[فہم سیرت رسولؐ مطالعہ سیرت کا ایک منفرد پہلو ہے۔ اس کے تحت واقعات سیرت کو زمانی ترتیب سے بیان کرنے کے ساتھ ساتھ واقعات میں پوشیدہ حکمت اور کارِ نبوت کے گہرے تعلق کو بیان کیا جاتا ہے۔ سیرت نگاروں کی اس پہلو پر کم توجہ رہی ہے۔ زیرنظر کتابچے میں اس کی اہمیت و ضرورت کے ساتھ ساتھ اسوہ رسولؐ کا مختصراً مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔]
  • تحقیق ___ تصورات اور تجربات، پروفیسر خورشیداحمد، ڈاکٹر سفیراختر، ڈاکٹر محمد عمر چھاپرا۔ ناشر: انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، مکان نمبر۱، گلی نمبر۸، ۳-/۶-F، اسلام آباد۔ فون: ۸۴۳۸۳۹۱-۰۵۱۔ صفحات: ۱۱۲۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔[تحقیق و جستجو انسانی زندگی کا خاصہ اور جوہر ہے اور قوموں کے عروج کا اہم تقاضا ۔ اس سفر کو جاری رکھنے کے لیے ایک طرف جہاں علمی و تحقیقی عمل کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے، وہاں میدانِ تحقیق میں نوآمیز اہلِ قلم اور تحقیق کاروں کی آمد بھی ناگزیر ہے۔انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز  میں علمی و فکری اور رہنما نشستوں کی رُوداد پر مبنی ادارے کی ایک کتاب تحقیق: تصورات اور تجربات کے عنوان سے سامنے آئی ہے۔ جس میں پروفیسر خورشیداحمد، ڈاکٹر سفیراختر اور ڈاکٹر عمرچھاپرا نے اسلامی تصورِ تحقیق، تحقیقی عمل میں سیاق و سباق کی اہمیت، تحقیق کا سفر، کتاب پر تبصرے کا فن اور عالمی مالیاتی بحران پر ایک نظر جیسے موضوعات پر گفتگو کی ہے۔]
  • اعترافِ ذنوب/اعترافِ قصور، مولانا شاہ وصی اللہ،مولانا قمرالزمان۔ ناشر: القاسم اکیڈمی، جامعہ ابوہریرہ، برانچ پوسٹ آفس خالق آباد، نوشہرہ۔ صفحات: ۳۸۴۔ قیمت:درج نہیں۔یہ دو کتابوں کا مجموعہ ہے۔ توبہ اور استغفار کے حوالے سے روایات، واقعات، حدیث اور قرآن سب ہی کچھ آگیا ہے۔ استغفار سے بارش کا ہونا، مال اور اولاد کا ہونا، اور باغات اور نہروں کا جاری ہونا تو خود سورئہ نوح کی مشہور آیت سے ثابت ہے۔ گناہ گاروں کے لیے یہ کتاب ایک تحفہ اور نعمت ہے (جو گناہ نہیں کرتا، وہ اس کتاب کو خواہ مخواہ نہ پڑھے)]۔
  • تنسیخ نکاح ،شگفتہ عمر۔ ناشر: ویمن ایڈ ٹرسٹ، مکان نمبر ۳۶، گلی نمبر۲، ۲/۱۰-جی، اسلام آباد۔ فون:  ۲۲۱۲۹۳۳-۰۵۱۔  صفحات: ۵۲۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔[قرآن عقد نکاح کو پختہ معاہدے سے تعبیر کرتا ہے، جب کہ طلاق کو جائز کاموں میں سب سے ناپسندیدہ عمل۔ تاہم بشری تقاضوں اور ناگزیر وجوہ کی بنا پر اگر نباہ ممکن نہ ہو تو احسان اور نیکی کے اصولوں کی پاس داری کرتے ہوئے اس معاہدے کو ختم بھی کیا جاسکتا ہے۔ دیگر مذاہب میں یا تو علیحدگی کی گنجایش نہیں ہے، یا اگر ہے توبہت مشکل اور ناقابلِ عمل۔ زیرتبصرہ کتاب میں اسلام کے قانونِ طلاق، طلاق کی مختلف صورتیں، تنسیخ نکاح کے موضوع پر ملکی قوانین اور عائلی قوانین کا شرعی نقطۂ نظر سے جائزہ لیا گیا ہے، اور شریعت سے متصادم دفعات کی نشان دہی بھی کی گئی ہے۔ اپنے موضوع پر جامع اور مختصر علمی کاوش!]