ایک قدیم حکایت اس طرح بیان کی جاتی ہے کہ ۳۰۰ فٹ اُونچی ایک پہاڑی کی چوٹی پر ایک خانقاہ تھی، جہاں ایک سال خوردہ پرانی رسّی کی مدد سے زائرین کو ایک ٹوکری میں بٹھاکر اُوپر کھینچ لیا جاتا تھا۔ ظاہر ہے کہ مسافر جب اس شکستہ رسّی کو دیکھتے تھے اور پھر نیچے کی گہرائی پر ان کی نظر جاتی تھی، تو ان پر سخت خوف کی حالت طاری ہوتی تھی کہ اس وقت زندگی سے زیادہ موت قریب دکھائی دیتی تھی۔ایک دن ایک زائر نے جب وہ واپسی کے لیے ٹوکری میں قدم رکھنے والا تھا، خانقاہ کے راہب سے پوچھا کہ آپ کو اس رسّی کو تبدیل کرنے کی توفیق کتنے کتنے عرصے کے بعد ہوتی ہے؟ راہب نے سادہ لوحی سے، غیرجذباتی انداز میں جواب دیاکہ جب ایک رسّی ٹوٹ جاتی ہے۔
اس حکایت سے قارئین کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوگا کہ اس خانقاہ کے راہبوں نے رسّی کے تبدیل کرنے کا جو طریقہ اختیار کر رکھاتھا وہ نہایت نامناسب، احتیاط کے خلاف بلکہ احمقانہ تھا، اور اس میں سخت خطرہ مضمر تھا۔ لیکن جس طرح یہ طریقہ خطرناک تھا اسی طرح وہ لوگ بھی پُرخطر زندگی گزار رہے ہیں جو ایک نازک دھاگے کے بَل پر سفر زندگی طے کر رہے ہیں جو لائق اعتبار نہیں اور جس کے ٹوٹنے کا ہر وقت خطرہ ہے۔یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اکثر لوگ خراب صحت، معمولی صحت،یا گزارے کے لائق صحت کو اپنی تقدیر سمجھ کر قبول کرلیتے ہیں۔ حالانکہ اس کے برخلاف ان کو تنومند اور مضبوط صحت کا مالک ہونا چاہیے تاکہ رشتۂ زندگی آسانی سے ٹوٹ نہ جائے۔
ہرشخص کے لیے اس بات میں واضح اشارات ہیں کہ ابھی وقت باقی ہے کہ اپنے طرزِزندگی پر ایک سیرحاصل نظر ڈالی جائے اور ان رخنوں کو پُر کیا جائے جن سے تمام کی تمام عمارتِ زندگی کو سخت خطرہ لاحق ہوگیاہے۔ ہمیشہ یہ خیال رکھنا چاہیے کہ ہم اپنے جہازِ زندگی کو اس طرح اور اس حد تک استعمال نہ کریں کہ وہ بالکل ہی شکستہ اور ریختہ ہوجائے اور ہم اپنے جسم کی مشین کی وقت سے قبل مرمت کرا لیں۔ جو لوگ اپنی اُس وقت خبر لیتے ہیں، جب کہ ان کی صحت بالکل برباد ہوگئی ہوتی ہے، تو وہ نہ صرف یہ کہ اپنے لیے باعث ِ خرابی بن رہے ہوتے ہیں بلکہ اپنے گھروالوں کے لیے بھی مصیبت کا سامان پیدا کررہے ہوتے ہیں۔ اس سبب سے یہ انتہائی ضروری امر ہے کہ ہرشخص اپنی قوتوں کو مجتمع کرے تاکہ بوقت ضرورت کام آئے۔
اپنی صحت کو مناسب حالت میں برقرار رکھنا ہرفرد کا فرضِ اولین ہے اور اس غرض سے اچھی عادات کو اختیار کرنا چاہیے۔ اچھی عاداتِ صحت میں یہ ضروری ہے کہ ناشتہ اچھی طرح کیا جائے، روزانہ مناسب ورزش کی جائے، رات کو مناسب وقت کے لیے نیند لی جائے اور دن میں سستانے کے لیے وقت نکالنا بھی ضروری ہے۔ جو لوگ ان احتیاطوں پر عمل پیرا ہوں گے، وہ نہ صرف اپنے رشتۂ حیات کو مضبوط کریں گے بلکہ شاہراہِ زندگی کو زیادہ سبک روی سے طے کریںگے اور زیادہ عرصہ اس کارگاہِ حیات میں رہیں گے۔
اس بات کی طرف اشارہ ضروری ہے کہ ہمارا جسم بہ نسبت دیگر مشینوں کے، زیادہ پیچیدہ، زیادہ نازک اور زیادہ قیمتی ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ ہم ہردم چوکنا رہیں اور یہ دیکھتے رہیں کہ کوئی شے ہمارے جسم کو اور ہماری صحت کو تباہ تو نہیں کر رہی اور کیا ہماری دفاعی صلاحیتوں کو کم کرر ہی ہے؟ ہمیں ان اشاروں کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے جو ہمیں یہ بتائیں کہ ہماری صحت ایسی نہیں ہے، جیسی کہ ہونی چاہیے۔ اگر آپ کو اپنی صحت کے متعلق شبہہ ہے تو آپ کو چاہیے کہ اپنے طرزِزندگی پر نظرثانی کریں اور اس میں مناسب تبدیلیاں کریں اور یہ بھی سوچیں کہ کہیں آپ کو طبی مشورے کی ضرورت تو نہیں ہے۔
کسی کا دل چسپ لیکن صحیح قول ہے کہ اچانک ہونے والے امراض خداداد ہوتے ہیں لیکن مزمن اور کہنہ یا دائمی بیماریاں ہمارا اپنا قصور ہیں اور ان کی سب سے بڑی وجہ علمِ صحت سے ناشناسی ہے۔ روایتی طور پر پڑھے لکھے لوگ بھی معلوماتِ صحت سے کس قدر بیگانہ ہیں،اس کا ہلکا سا اندازہ حالیہ امریکی تحقیق سے ہوسکتا ہے، جہاں ایک مطالعے میں نصف سے زیادہ مدرسہ فوقانی کے طلبہ کا یہ خیال تھا کہ مچھلی کھانا مقوی دماغ ہے اور تین چوتھائی لوگوں کے خیال میں حیاتین، قوت کا سرچشمہ ہیں حالانکہ ان میں سے کوئی بھی بات صحیح نہیں ہے۔
یہ تو پڑھے لکھے امریکا کا ذکر تھا، اور اس بات سے یہ حقیقت واضح ہوکر سامنے آتی ہے کہ دنیا کے اکثر ممالک میں لوگوں کو اپنی صحت کے متعلق کوئی خا ص علم نہیں ہے۔ اُن کو بھی نہیں جو اپنے آپ کو تعلیم یافتہ سمجھتے ہیں۔ جس خطۂ ارضی میں ہم قیام پذیر ہیں وہاں توہمات، غلط عقائد اور لاعلمی کی وجہ سے حالات کچھ زیادہ ہی ابتر ہیں۔ جن لوگوں کو تھوڑی بہت معلومات حاصل ہیں، ان کی اکثریت بوجوہ ان پر عمل کرنے سے قاصر ہے۔ یہ اکثر لوگوں کو معلوم ہے کہ وزن کو مناسب رکھنا اور ورزش کرنا قرارِ صحت کے لیے ضروری ہے لیکن کتنے لوگ اس پر عمل پیرا ہیں، حالانکہ اچھی عادتیں ایک بار ڈال لی جائیں تو ان پر باعمل رہنا عادتِ ثانیہ بن سکتا ہے اور اکثر اوقات دل چسپ بھی۔
بے عمل لوگوں کی طرف سے جو عذر لنگ عموماً پیش کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ اب ان کی عادتیں راسخ ہوگئی ہیں، اور اب ان کو ترک کرنا مشکل ہے کہ جبل گردد، جبلت بر نہ گردد۔ لیکن اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہ عادتیں خود ہماری اپنی مصنوعی طریقے پر ڈالی ہوئی ہیں، جن کے ہم خود بعد میں تابع ہوکے رہ جاتے ہیں اور پھر یہ بھی تمیز نہیں رہتی کہ صحیح عادت کیا ہے اور غلط کیا، بقول اقبال ؎
اپنی حکمت کے خم و پیچ میں اُلجھا ایسا
آج تک فیصلۂ نفع و ضرر کر نہ سکا
یہ ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ صحت افزا طرزِ زندگی کو بہ جبر نافذ نہیں کیا جاسکتا اور نہ کوئی قانون و آئین لوگوں کو تندرستی کے راستے پر ڈال سکتا ہے۔اصل بات صحت مند عادتیں ڈالنا ہے جن کی ترغیب ابتداے عمر ہی سے دی جائے۔ اس بات کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے کہ ۱۰ لاکھ شفاخانے بھی ایک آدمی کو تندرست نہیں رکھ سکتے۔ کیونکہ امراض کا علاج الگ بات ہے اور کسی کی تندرستی بحال رکھنا دوسری بات، اور مؤخرالذکر کیفیت کے حصول کے لیے مختلف سازوسامان کی ضرورت ہے اور شفاخانوں کے لیے دوسرے آلات کی۔ علاج امراض کے لیے بے شمار ادویہ موجود ہیں لیکن اپنے آپ کو تندرست رکھنے کا صرف ایک طریقہ ہے کہ اپنے جسم کا صحیح استعمال کیجیے۔ سوے ہضم کا علاج یہ نہیں کہ مانع تیزاب ادویہ حلق میں انڈیلی جائیں یا جراحی معدہ کا سوچاجائے، بلکہ اس کا حل یہ ہے کہ کھانے پینے کے متعلق صحیح طور و طریق کو جانا جائے اور پھر ان کو اختیار کیا جائے۔
اس زمانے میں بھی طبی مسائل کو صرف اس طرح حل نہیں کیا جاسکتا کہ ہسپتال پر ہسپتال کھولے جائیں، یا تیر بہ ہدف بدیسی ادویہ درآمد کرتے جائیں، یا محیرالعقول جراحی قلب کے کارناموں پر سر دُھنیں اور اس قسم کی جراحی کے اپنے ملک میں فروغ کے لیے غیرملکی جراحوں کو اپنے ملک میں مدعو کرتے رہیں، بلکہ مسئلہ صحت کاحل اور ہماری نجات اس بات میں مضمر ہے کہ معلومات ِ صحت کو حاصل کریں، عام کریں اور پھر اس پر صحیح طور پر کاربند رہیں۔
ازمنۂ قدیم میں غالباً صحت مند رہنا اس قدر دشوار نہیں تھا جس قدر آج ہوگیا ہے کہ اس زمانے میں اگر آدمی وبائی اور عفونتی امراض سے بچ جاتا تھا، تو صحت مندانہ طرزِ زندگی آپ سے آپ حاصل ہوجاتی تھی، اور اس کے لیے کوئی خاص تگ و دو نہیں کرنی پڑتی تھی کہ غذا میں اس قدر ملاوٹ نہیں تھی اور جدید مصنوعی غذائوں کے بجاے قدرتی غذائیں بآسانی دستیاب تھیں۔ طویل فاصلے پیدل چلنا عام طریقۂ زندگی تھا۔ ماحول اس قدر دھواں دھار اور کثیف نہیں تھا، جس قدر آج ہے اور دن بہ دن ہوتا جا رہا ہے۔ اِس زمانے میں جب دیہات سے شہروں کی طرف آبادی کی قطار اندر قطار یلغار ہے اور مصنوعی شہری زندگی عام ہوتی جاتی ہے اور عام اندازہ یہ ہے کہ تمام دنیا میں اس صدی کے آخر تک ۸۰ فی صد آبادی شہروں میں آبسے گی تو ’مہذب طرزِزندگی‘ کے مسائل اور بڑھ جائیں گے۔ اس بات کی ضرورت جس قدر آج ہے، کبھی بھی اس قدر اشد نہیں تھی کہ تعلیمِ صحت کو عام کیا جائے تاکہ نئی مشکلات کا کچھ نہ کچھ ازالہ ہوسکے اور گزرگاہِ عافیت مل سکے۔
جلد یا بدیر ہم سب کے لیے ایک ’یومِ حساب‘ آنے والا ہے، جب ہم اس بات پر مجبور ہوں گے کہ اپنی عادتوں کا جائزہ لیں کہ وہ صحت افزا ہیں کہ نہیں، تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ صحت و تندرستی کے لحاظ سے ہماری حیثیت کیا ہے۔ آج بھی اور کل بھی اس بات کا اندازہ لگائیں کہ ہم آنے والے زمانے کو اعتماد اور درستی تن کے ساتھ خوش آمدید کہہ سکیںگے یا حالت اس کے برعکس ہوگی کہ ابھی گزری ہوئی شب کا خمار باقی ہے، جس کے زیراثر ہم تھکے ہوئے، مُردہ اور بدحال ہیں۔ کیا ہم ہروقت نزلہ اور زکام میں مبتلا رہتے ہیں اور مستقل چھینکتے رہتے ہیں، اور کھانسی ہے کہ ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتی؟ کیا ہمارے جوڑوں کا درد اور دکھن مستقل روگ بن گئے ہیں؟ یا ہم عمر سے پہلے بوڑھے ہوکر تھکے تھکے رہتے ہیں؟
آپ کے لیے صحیح مشورہ یہ ہے کہ ایک گوشے میں چپ چاپ بیٹھ جائیں اور اپنے طرزِزندگی پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں اور اپنا محاسبہ کریں اور یہ دیکھیں کہ آپ نے بے احتیاطیوں سے اپنی صحت کو تو خود دائو پر نہیں لگا دیا ہے اور خود ہی تو ڈنڈی نہیں مار رہے ہیں کیونکہ اس میں سراسر گھاٹا آپ ہی کا ہے۔ اس کے بعد آپ کو یہ سوچنا ہے کہ آپ اپنے طرزِ زندگی میں تبدیلیاں لاکر اپنے آپ کو کس طرح بہتر بنا سکتے ہیں۔ جن سوالوں کے لیے آپ خود اپنے سامنے جواب دہ ہیں ان میں سے چند یہ ہیں:
یہ سوال معمولی ہیں لیکن یہ سب جواب اور فرصت چاہتے ہیں۔ جس قدر جلد اس ضمن میں آپ اپنا جائزہ لیںگے وہ آپ کے لیے بہتر ہوگا۔