حضرت معاذ بن جبلؓ سے روایت ہے، میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! مجھے ایسا عمل بتلا دیجیے جو مجھے جنت میں داخل کردے، اور دوزخ سے دُور کردے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو نے ایک عظیم چیز کے بارے میں سوال کیا ہے، لیکن یہ اس آدمی کے لیے آسان ہے جس کے لیے اللہ آسان کردے۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اور بیت اللہ شریف کا حج کرو۔
اس کے بعد آپؐ نے فرمایا: کیا میں تمھیں خیر کے دروازے نہ بتلا دوں؟ روزہ ڈھال ہے اور صدقہ خطا کو اس طرح بجھا دیتا ہے جس طرح پانی آگ کو۔ اور آدمی کی نماز آدھی رات کو بھلائیاں سمیٹنے کا ذریعہ ہے۔ پھر آپؐ نے تہجدگزاروں کی شان میں، قرآن پاک کی یہ آیت تلاوت فرمائی: تَتَجَافٰی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا وَّ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَo فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ جَزَآئًم بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ o (السجدہ ۳۲:۱۶-۱۷) ’’اُن کی پیٹھیں بستروں سے الگ رہتی ہیں، اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں،اور جو کچھ رزق ہم نے اُنھیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ پھر جیسا کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان اُن کے اعمال کی جزا میں اُن کے لیے چھپا رکھا گیا ہے‘‘۔
پھر آپؐ نے فرمایا: کیا میں تمھیں اس دین کی بنیاد، ستون اور بلندترین چوٹی نہ بتلائوں؟ اس دین کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے، اور ستون نماز ہے اور بلند ترین چوٹی جہاد ہے۔
پھر فرمایا: کیا میں تمھیں ان تمام چیزوں کا محور نہ بتلا دوں؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبیؐ! کیوں نہیں؟ آپؐ نے اپنی زبان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اسے روک کر رکھو۔ میں نے عرض کیا: کیا ہم سے ان باتوں پر مواخذہ ہوگا جنھیں ہم زبان سے نکالتے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: معاذ! تجھے تیری ماں گم کردے، لوگوں کو جہنم میں اوندھے منہ اور کون سی چیز داخل کرتی ہے سواے زبان کی کاٹی ہوئی فصل کے۔ (احمد، ترمذی، ابن ماجہ، مشکوٰۃ، کتاب الایمان)
صحابہ کرامؓ پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے وہ علمی حقائق آشکارا ہوئے جو کسی بڑی سے بڑی یونی ورسٹی میں پہنچ کر کسی کو حاصل نہیں ہوسکے۔ وہ حقائق جو انسان کو اس کے مقصد حیات سے روشناس کردیں، جو اسے آسانی کے ساتھ منزل سے ہمکنار کردیں، جنت میں پہنچا دیں اور دوزخ سے دُور کردیں۔ صحابہ کرامؓ نبی اکرمؐ کی بابرکت مجالس میں بیٹھتے اور اپنے دامن کو اسی قسم کے علمی جواہر اور فیوض سے بھرتے۔ حضرت معاذ بن جبلؓ کو اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی صحبت میں رہ کر بڑے علم سے نوازا تھا لیکن صحابہ کرامؓ کو آپؐ کی مجالس سے جو علمی جذبہ اور شوق ملا تھا اس کی کوئی انتہا نہ تھی۔ ان کی علمی پیاس بڑھتی رہتی تھی اور وہ آپؐ کے چشمۂ علم سے سیراب ہوتے رہتے تھے۔ اسی جذبے سے حضرت معاذ بن جبلؓ نے عرض کیا: مجھے ایسا عمل بتلا دیجیے جو مجھے جنت سے قریب اور دوزخ سے دُور کردے۔ تب نبی اکرمؐ نے فرمایا: آپ نے بہت عظیم اور مشکل کام کے بارے میں سوال کیا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کی توفیق سے مشکل سے مشکل کام بھی آسان ہوجاتا ہے۔ یہ مشکل کام اللہ تعالیٰ کی بندگی اور حکمرانی قائم کرنے کا کام ہے۔ شیطان اور شیطانی قوتوں کو شکست دے کر اللہ تعالیٰ کی غلامی اور بندگی اختیار کرنا، اس کی پوجا اور پرستش کرنا، اسی سے اپنی حاجات اور مشکلات کا سوال کرنا، اس کے ساتھ ان کاموں میں کسی کو شریک نہ کرنا، پھر ارکانِ خمسہ کے ذریعے اپنے ایمان کو بڑھانا اور قوی کردینا، کیونکہ ایمانی قوت کے بغیر آدمی کا جنت کے راستے پر چلنا اور دوزخ کے کاموں سے دُور رہنا بڑا مشکل ہے۔ اس کے بعد آپؐ نے ابوابِ خیر، دین کی اساس، اس کا ستون، اس کی بلند ترین چوٹی اور زبان کے شر سے حفاظت کے نکات بیان فرما کر گویا سمندر کو کوزے میں بند کردیا۔ اور حضرت معاذ بن جبلؓ اور ان کی وساطت سے اُمت کے سامنے نیکی کی شاہراہ کو پوری طرح روشن کردیا۔ آج بھی ہم اپنے مسائل اور مشکلات کے حل کے لیے اسی جامع نسخۂ کیمیا کو استعمال کرکے کامیابی سے ہم کنار ہوسکتے ہیں۔
o
حضرت عبادۃ بن صامتؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پانچ نمازیں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر فرض کی ہیں۔ جس نے ان کا وضو اچھی طرح کیا اور انھیں اپنے وقت پر ادا کیا اور ان کے رکوع اور سجود کو اچھی طرح ادا کیا، اللہ تعالیٰ کا اس کے ساتھ عہد ہے کہ اسے بخش دے اور جس نے ایسا نہ کیا تو اللہ تعالیٰ چاہے گا تو اسے بخش دے گا اور چاہے گا تو اسے عذاب دے گا۔ (احمد، ابوداؤد)
ایسی نماز آدمی کو تمام نیک کاموں کے کرنے اور تمام برائیوں سے بچنے کے قابل بنادیتی ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ نیکی کی راہ پر آسانی کے ساتھ چلنے کے لیے اس طرح کی نمازوں کا اہتمام کریں۔ مساجد کو آباد کریں ، وقت پر پہنچنے کے لیے دنیاوی مشاغل کو چھوڑ دیں۔ ایک اسلامی معاشرے کی خصوصیت ہے کہ اس میں مساجد آباد اور فحاشی اور عریانی کے مراکز غیرآباد ہوتے ہیں۔ اس قسم کی نماز کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِط (العنکبوت۲۹:۴۵)’’یقینا نماز بے حیائی اور بُرے کاموں سے روکتی ہے‘‘۔ اگر آج معاشرے میں برائیاں زور و شور سے پروان چڑھ رہی ہیں اور نیکیاں مرجھا رہی ہیں، تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ ہماری نمازوں میں خشوع و خضوع اور توجہ الی اللہ اور پابندی اور اہتمام میں کمی ہے۔
o
حضرت عمرؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب مؤذن اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر کہے تم بھی اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبرکہو اور جب اشھد ان لا لٰہ الا اللّٰہ کہے تو تم بھی اشھد ان لا لٰہ الا اللّٰہ کہو اور جب اشھد ان محمداً رسول اللّٰہ کہے تو تم بھی اشھد ان محمداً رسول اللّٰہ کہو اور جب حی علی الصلٰوۃ کہے اور تم لاحول ولاقوۃ الا باللّٰہ کہو اور جب وہ حی علی الفلاح کہے تو تم بھی لاحول ولاقوۃ الا باللّٰہ کہو اور جب وہ اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر کہے اور تم بھی اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر کہو، اور جب لا الٰہ اِلَّا اللّٰہ کہے اور تم بھی لا الٰہ اِلَّا اللّٰہ صدقِ دل سے کہو تو تم سیدھے جنت میں داخل ہوجائو گے۔ (مسلم)
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے، کہ جب مؤذن اذن دے دے اور تم اسے سننے کے بعد اشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ واشھد ان محمداً عبدہٗ ورسولہ رضیت باللّٰہ ربًا وبالاسلام دینا و بمحمد نبیا ورسولًا کہو تو تمھارے سارے گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔ (مسلم)
اذان کے ذریعے ایک طرف مسلمانوں کو بلندآواز سے نماز کے لیے بلایا جاتا ہے۔ یہ بلاوا اس شان کے ساتھ ہوتا ہے کہ اس میں دین کی پوری دعوت بھی پیش کردی جاتی ہے۔ آغاز میں چار مرتبہ اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا اعلان کر کے تمام طاغوتوں کی کبریائی کا انکار کردیا جاتا ہے۔ پھر شہادتین کے ذریعے دو دو مرتبہ عقیدۂ توحید اور عقیدۂ رسالت کا اعلان کردیا جاتا ہے۔ پھر دو مرتبہ نماز کے لیے بلایا جاتا ہے اور پھر دومرتبہ ’فلاح‘ کامیابی کی طرف بلاوے کے عنوان کے ذریعے پورے دین کی طرف اور اس کی اقامت اور اس پر عمل کے لیے بلایا جاتا ہے۔ اس کے بعد پھر دو مرتبہ اللہ تعالیٰ کی کبریائی کے اعلان کا اعادہ کیا جاتا ہے اور ایک مرتبہ عقیدۂ توحید کا اعادہ کیا جاتا ہے۔ اذان کے ذریعے یہ بلاوا ایسا بلاوا ہے کہ اس سے بڑا بلاوا کوئی نہیں ہوسکتا، ایک مسلمان کو اس کا عقیدہ، نماز اور دین یاد دلایا جاتا ہے اور اس کے ذریعے اسے بلایا جاتا ہے۔ اس کے بعد کسی مسلمان کے لیے کوئی گنجایش نہیں رہ جاتی کہ وہ اذان کے بعد اپنے کاموں میں مشغول ہو اور مسجد میں نماز کے لیے نہ پہنچے۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو پھر اس کے معنی اس کے سوا کچھ نہیں کہ اسے اللہ تعالیٰ کی کبریائی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی کوئی پروا نہیں اور وہ اس وسیلے سے پکار کی بھی کوئی قدر و منزلت کرنے والا نہیں ہے۔
آج کے دور میں اس اذان کے ہوتے ہوئے مسلمان اگر اپنے دین اور اس کے تقاضوں کو بھولے ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے سامنے سربسجود ہونے کے بجاے غیراللہ کے سامنے جھکے ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے دین اور نظام کو قائم کرنے کے بجاے غیروں کے نظام کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ مسلمان اذان کو سنتے ہیں لیکن اسے سمجھتے نہیں، اسے سنتے ہیں لیکن اَن سنی کردیتے ہیں۔ یہ تو وہی روش ہے جسے یہودیوں نے اختیار کیا تھا۔ وہ کہتے تھے: سمعنا وعصینا، ہم نے سن تو لیا ہے لیکن ہم نافرمانی کریں گے۔ آج مسلمانوں کو اس اذان پر اللہ تعالیٰ کا شکرگزار ہونا چاہیے اور اپنے دین کی عظمت کے سامنے سرجھکا دینا چاہیے کہ اس اذان نے ان کے دین کے خلاصے کو محفوظ کردیا ہے، اوردنیا کی کسی قوم کے پاس اس اذان کے مقابلے کی کوئی چیز نہیں ہے جس طرح کہ دین اسلام اور قرآنِ پاک کے مقابلے کی کوئی چیز ان کے پاس نہیں ہے۔ کاش! مسلمان خوابِ غفلت سے بیدار ہوں۔
o
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص میری اس مسجد میں آئے، خیر کو سننے، جاننے اور تعلیم دینے کے لیے وہ مجاہد فی سبیل اللہ کی طرح ہے، اور جو کسی دوسری غرض سے آیا تو اس کی مثال ایسے شخص کی ہے جو دوسرے کے سامان کو دیکھنے کے لیے آئے۔ (بیہقی، ابن ماجہ)
مسجد نبویؐ اور دیگر مساجد میں حاضری کی غرض و غایت اس حدیث سے اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ مساجد میں نماز، اللہ تعالیٰ کے ذکر ، حصولِ علم اور تعلیم و تدریس کے لیے حاضری دیا کریں۔