رسول کریمؐ نے ایک بار فرمایا تھا کہ میں راگ راگنی کو مٹانے کے لیے مبعوث ہوا ہوں۔ مگر آج کل نعت خوانی کے ساتھ موسیقی بھی دھڑادھڑ چل رہی ہے۔ نعت کو گانے کے انداز اور سنگیت کے ساتھ پڑھنا دونوں باتیں ذکرِرسولؐ کے ادب کے خلاف اور نبی کریمؐ کی شان میں گستاخی کے مترادف ہیں۔ اسی طرح نعت خوانی کے مقابلوں میں تالیاں بجانے کا رجحان بھی سامنے آیا ہے۔ یہ حرکتیں شانِ رسولؐ میں بے ادبی کے سوا کچھ نہیں!
اس ماہ کے سرورق پر بہت رنگینی چھائی ہوئی ہے، یہاں تک کہ ترجمان القرآن کے نقطے تک مختلف رنگوں کے ہیں۔ اللہ! اللہ! ترجمان کی پیدایش ۱۹۳۲ء کی ہے اور اب اسّی (۸۰) کے پیٹے میں ہے۔ جوانی تو سادگی سے گزری، اب اس عمر میں یہ بھڑکیلے لباس کچھ اچھے نہیں معلوم ہوتے۔ اس شمارے کی جان ’’سوشلزم نمبرپر سید مودودی کا تبصرہ ۱۹۶۸ئ‘‘ ہے۔ بہت عرصے کے بعد سیدصاحب کی اس طرح کی تحریر پڑھنے کو ملی۔ اس کے دو جملے تو یوں سمجھیں کہ قیامت ہی ڈھا گئے: ۱-آپ کی محنت قابلِ داد اور طباعت کے معاملے میں شدید تساہل قابلِ فریاد ہے۔ ۲- اشاعت کے لیے دیتے وقت پورے مضمون کی تصحیح کردیجیے، مگر تصحیح اپنے قلمِ خاص سے کرنے کے بجاے کسی صاف نویس سے کرایئے تاکہ کاتب غریب فتنے میں نہ پڑے۔
پروفیسر خورشید احمد کے ’اشارات‘ (ستمبر ۲۰۱۲ئ) محض اداریہ نہیں بلکہ پاکستان کی موجودہ سیاسی مقتدرہ اور امریکا کے تعلقات (افسوس ناک) پر ایک تحقیقی رپورٹ ہیں۔ اسی طرح انصارعباسی صاحب نے میڈیا کی برہنگی کا جس طرح پردہ چاک کیا ہے ، اس پر وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ کاش! ہمارے علما اور ہماری مقتدرہ اس کا نوٹس لے۔
آنسہ عائشہ نصرت کا لکھا ہوا مضمون بعنوان ’’پردہ قید نہیں، آزادی ہے‘‘ (ستمبر۲۰۱۲ئ) ایک منفرد، مدلل اور اس موضوع پر اب تک شائع ہونے والی تحریروں میں سب سے مؤثر تحریر ہے۔ ایک نوعمر خاتون کے قلم سے انگریزی زبان میں لکھے جانے والے مضمون کا امریکا کے معروف روزنامے نیویارک ٹائمز میں جگہ پانا جس کے اداراتی عملے سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی تھی کہ وہ پردے کے حق میں ایک مشرقی لڑکی کی انگریزی میں لکھی ہوئی کسی تحریر کو چھاپنا تو ایک طرف، پڑھنے کا روادار ہوسکتا ، اس بات کا ثبوت ہے کہ مضمون نگار کو دلیل سے اپنی بات منوانے کا ملکہ حاصل ہے۔ یقینا عائشہ نصرت ایک نابغہ روزگار خاتون ہیں۔ زندگی میں کوئی اعلیٰ مقام ان کا منتظر ہے۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ!
مشرقی پاکستان کے گورنر شہاب الدین کا واقعہ (ستمبر ۲۰۱۲ئ) تاریخ اسلام کا ایک درخشندہ باب ہے۔ کاش! ہماری زندگی کے ہر دائرے کے صاحبانِ اختیار اسے اپنے لیے نمونہ بنائیں۔ مسلمان تو ہے ہی وہی جو اتنا ایمان دار اور دیانت دار ہو! اللہ ان کی قبر کو اپنے نور سے بھردے اور ہمارے اندر پیروی کا جذبہ پیدا کردے۔
’آیاتِ سجدہ‘ (اگست ۲۰۱۲ئ) ڈاکٹر محمد اقبال خلیل کا مضمون فہم قرآن کے حوالے سے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ خصوصاً شانِ نزول کے بیان نے اس مضمون کو ایک نئی خصوصیت عطا کردی ہے۔