نام نہاد عدالتی کارروائی کا ڈراما ختم ہوا اور عظیم مفسر قرآن سید قطب کو ناکردہ گناہ کے جرم میں پھانسی کی سزا سنا دی گئی۔ سزا پر عمل درآمد بھی حتمی تھا، لیکن ظالم آخری لمحے بھی اپنے قدموں میں جھکانا اور اسلامی تحریک کے خلاف مزید سازشیں تیار کرنا چاہتے تھے۔ سیدصاحب سے کہا گیا: ’’اگر اعترافِ جرم کرلو اور معافی مانگ لو تو یہ سارا عذاب انعامات میں بدل جائے گا‘‘۔ مفسرِقرآن نے دوٹوک جواب دیا: ’’میری جو انگلی ہرنماز میں اللہ کی وحدانیت کی گواہی دیتی ہے وہ ایسا ایک حرف بھی لکھنے کو تیار نہیں جس سے ڈکٹیٹرکی حکمرانی تسلیم کرنے کا عندیہ ملتا ہو‘‘۔ کہا گیا: ’’تو پھر موت کے لیے تیار ہوجائو‘‘۔ جواب ملا: ’’الحمدللہ… میں نے شہادت حاصل کرنے کے لیے ہی تو گذشتہ ۱۵برس جدوجہد کی ہے‘‘۔
’’فوجی جیل کے سربراہ حمزہ البسیونی نے مجھے اپنے دفتر بلایا اور پھانسی کا حکم نامہ اور اس پر صدرِمملکت کی مہرتصدیق دکھاتے ہوئے کہا: ’’اگر تمھارا بھائی حکومت کی بات مان لے تو یہ یقینی موت اب بھی ٹل سکتی ہے‘‘۔ کچھ توقف کے بعد مزید کہا: ’’تمھارے بھائی کی موت صرف تمھارے لیے نہیں، پورے مصر کے لیے بہت بڑا نقصان ہوگی۔ میں تو تصور بھی نہیں کرسکتا کہ ہم چند گھنٹوں بعد اس جیسی شخصیت کھو دیں گے۔ ہم کسی بھی طرح، کسی بھی حیلے وسیلے سے تمھارے بھائی جیسی عظیم ہستی کو بچانا چاہتے ہیں… دیکھو اس کے چند الفاظ اسے یقینی موت سے بچا سکتے ہیں… اور اسے یہ الفاظ لکھنے پر صرف اور صرف تم آمادہ کرسکتی ہو… بنیادی طور پر مجھے یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے، لیکن میں جانتا ہوں کہ اسے تمھارے علاوہ کوئی دوسرا قائل نہیں کرسکتا… بس چند الفاظ ہیں اور سارا معاملہ طے ہوجائے گا… اسے صرف یہ لکھنا ہے کہ ’’یہ تحریک (اخوان) کسی بیرونی طاقت سے منسلک تھی‘‘۔ بس اتنا لکھنے سے بات ختم ہوجائے گی اور سید قطب کو خرابیِ صحت کی بنا پر رہا کردیا جائے گا۔
میں نے جواب دیا: ’’لیکن تم بھی جانتے ہو اور خود جمال عبدالناصر بھی جانتا ہے کہ اخوان کسی بیرونی طاقت سے وابستہ نہیں ہیں‘‘۔
حمزہ البسیونی نے جواب دیا: ’’بالکل، مَیں جانتا ہوں، بلکہ ہم سب جانتے ہیں کہ مصر میں صرف آپ لوگوں کی تحریک ہی ہے جو خالصۃ للّٰہ اپنے دین کی خاطر کوشاں ہے۔ آپ لوگ مصر کے بہترین لوگ ہیں، ہم تو بس سید قطب کو پھانسی سے بچانے کے لیے ان سے یہ لکھوانا چاہتے ہیں‘‘۔
یہ کہتے ہوئے اور میری کسی بات کا انتظار کیے بغیر، وہ اپنے نائب صفوت الروبی سے مخاطب ہوا: ’’صفوت! اسے اس کے بھائی کے پاس لے جائو‘‘۔
میں بھائی جان کے پاس لے جائی گئی اور سلام دعا کے بعد ان لوگوں کا پیغام جوں کا توں پہنچا دیا۔ انھوں نے زبان سے کوئی لفظ ادا کیے بغیر نگاہیں میرے چہرے پر گاڑ دیں، جیسے پڑھنے کی کوشش کر رہے ہوں کہ کیا یہ صرف ان کا پیغام ہے یا میری راے بھی اس میں شامل ہے۔ الحمدللہ! میں نگاہوں کے اشارے سے انھیں یہ بتانے میں کامیاب ہوگئی کہ یہ میری راے نہیں، صرف ان کا پیغام ہے۔
اس پر بھائی جان گویا ہوئے: خدا کی قسم! اگر اس بات میں کوئی بھی صداقت ہوتی تو پوری روے زمین پر کوئی ایسی طاقت نہیں ہے جو مجھے یہ بات لکھنے سے روک سکتی۔ لیکن آپ جانتی ہیں کہ یہ سراسر ایک جھوٹا الزام ہے اور میں ہرگز… ہرگز جھوٹ نہیں کہہ سکتا۔
یہ جواب سن کر صفوت الروبی درمیان میں بولا: ’’تو گویا یہ تمھارا حتمی فیصلہ ہے؟ سیدصاحب نے جواب دیا: ’’ہاں، بالکل‘‘۔ صفوت یہ سن کر اُٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا: ’’اچھا ٹھیک ہے… پھر تمھاری مرضی‘‘۔ قدرے توقف کے بعد کہا: ’’چلو تم دونوں بہن بھائی تھوڑی دیر ملاقات کرلو‘‘۔
صفوت کے چلے جانے پر میں نے بھائی کو ساری بات بتائی کہ کس طرح انھوں نے پھانسی کا حکم نامہ دکھاتے ہوئے مجھے آپ کو قائل کرنے کے لیے بھیجا ہے۔ بھائی نے پھر پوچھا: کیا تم بھی ان کی اس بات سے اتفاق کرتی ہو۔ میں نے جواب دہرایا: نہیں۔ بھائی جان کہنے لگے: ’’زندگی کے فیصلے رب ذوالجلال کے ہاتھ میں ہیں۔ جو لوگ خود کو بھی کوئی نفع یا نقصان نہیں پہنچا سکتے، وہ میری مہلت حیات میں کوئی ادنیٰ کمی بیشی نہیں کرسکتے۔ ہرشے اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے اور اللہ نے ان ظالموں کو بھی گھیرے میں لے رکھا ہے۔
دونوں قیدی بہن بھائیوں کے درمیان یہ آخری ملاقات تھی۔ دونوں کی اس سے پہلی ملاقات بھی جیل ہی میں ہوئی تھی۔ اس کا ذکر مرحومہ زینب الغزالی نے اپنی کتاب روداد قفس میں یوں کیا ہے۔ واضح رہے کہ زینب الغزالی اور حمیدہ قطب ایک ہی کوٹھڑی میں قید تھیں: ’’سیدقطب اور ان کے دو ساتھیوں کو پھانسی کی سزا سنائے جانے کے پانچ روز بعد ہماری کوٹھڑی کے دروازے پر اچانک دستک ہوئی، دروازہ کھلا تو سید قطب بھائی اندر آئے۔ ان کے ساتھ جیل کے دو اعلیٰ افسر ابراہیم اور صفوت الروبی بھی تھے۔ ابراہیم تو انھیں ہمارے پاس چھوڑ کر چلا گیا لیکن صفوت وہیں رہا۔ ہم نے خیرمقدم کرتے ہوئے کہا: خوش آمدید۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ آپ تشریف لائے، آج تو ہم پر اللہ تعالیٰ کا خصوصی کرم ہوا۔ سیدقطب بیٹھ گئے اور زندگی کی حقیقت اور موت کے مقررہ وقت کے بارے میں گفتگو کرنے لگے: ’’موت و حیات کافیصلہ صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اس کے علاوہ کوئی طاقت اس میں مداخلت نہیں کرسکتی۔ ہم ہرصورت میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے فیصلے تسلیم کرنے کے پابند ہیں۔ ہمیں صرف اسی کے سامنے سرتسلیم خم کرنا ہے‘‘… ان کی یہ گفتگو سن کر صفوت غصے میں آگیا اور بھناتے، بڑبڑاتے ہماری ملاقات ختم کروا دی۔ امام قطب نے ایک نظر ہمیں دیکھا اور جاتے جاتے پھر دہرایا: ’’ہمیں کسی صورت صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا‘‘۔ بہن بھائیوں کے درمیان ہونے والی آخری ملاقات کی رات، ۲۹؍اگست ۱۹۶۶ء کی صبح سید قطب کو پھانسی دے دی گئی۔
حمیدہ چھے بہن بھائیوں میں سیدصاحب کی سب سے چھوٹی بہن تھیں۔ ۱۹۳۷ء میں پیدا ہوئیں۔ تعلیم کے دوران ہی ان کی کئی ادبی کاوشیں بھی شائع ہوئیں۔ بھائی اخوان سے وابستہ ہوا تو باقی پورا خاندان بھی تحریک سے وابستہ ہوگیا۔ حمیدہ نے اخوان کے رسالے الاخوان المسلمون میں کئی تحریریں لکھیں۔ ان کی ایک کتاب رات کے جنگل میں سفر بھی شائع ہوچکی ہے۔
۱۹۵۴ء میں اخوان پر ابتلا کے پہاڑ توڑے گئے تو وہ زینب الغزالی اور دیگرخواتین کے ساتھ مل کر گرفتارشدگان کے اہلِ خانہ کی دیکھ بھال میں لگ گئیں۔ حمیدہ اپنے اسیر بھائی سید قطب اور اخوان کی قیادت کے مابین رابطے کا ذریعہ بھی بنیں۔ سیدقطب کی شہرۂ آفاق کتاب معالم فی الطریق یعنی جادہ و منزل کا مسودہ بھی انھی کے ذریعے جیل سے باہر آسکا۔ سید قطب کی گرفتاری کے ان ۱۰ برسوں میں حمیدہ قطب نے ایک مخلص بہن اور مثالی کارکن کا فریضہ انجام دیا۔ دل کا شدید دورہ پڑنے پر سیدقطب کو مئی ۱۹۶۴ء میں رہا کردیا گیا لیکن ابھی تقریباً ایک سال ہی گزرا تھا کہ ۱۹۶۵ء میں انھیں پھر گرفتار کرلیا گیا۔اس بار صرف انھیں ہی نہیں، حمیدہ کو بھی قید کردیا گیا۔ جیل میں ان پر ناقابلِ بیان تشدد کیا گیا اور پھر ۱۰سال قیدبامشقت کی سزا سنا دی گئی لیکن پھرچھے سال چارماہ کی قید کے بعد ۱۹۷۲ء میں رہا کردی گئیں۔ حمیدہ پر چارالزامات عائد کیے گئے: lتم نے سید قطب اور زینب الغزالی کے مابین ہدایات اور معلومات کا تبادلہ کیا lتم نے جادہ و منزل کا مسودہ جیل سے باہر منتقل کیا l تم نے اخوان کے ذمہ داران یوسف ھواش اور علی عشماوی کے درمیان معلومات کا تبادلہ کیا lتم نے ۱۹۵۴ء سے ۱۹۶۴ء تک اسیرانِ تحریک کے خاندانوں کی مدد کی۔
سوے دار جانے والے بھائی کو کامل صبروثبات سے رخصت کرنے اور اس نازک موقع پر کسی طرح کی کمزوری کا اظہار نہ کرنے والی بہن نے ان سب الزامات کو قبول کیا اور بھائی کی شہادت کے بعد بھی پانچ سال سے زائد عرصہ جیل میں رہیں۔ گرفتاری کے وقت ان کی عمر۲۹برس تھی اور وہ ابھی غیرشادی شدہ تھیں۔
عظیم مفسر قرآن بھائی کی یہ عظیم مجاہد بہن ۱۳جولائی ۲۰۱۲ء بروز جمعہ قیدحیات سے بھی رہائی پاگئیں۔ یقینا شہیدبھائی نے جنت کی دہلیزوں پر استقبال کیا ہوگا۔ ع
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را