یہ بات مجھے بڑی عجیب معلوم ہوتی ہے کہ اس مملکت کے قیام کے چار ساڑھے چار سال بعد آج تک ہمارے ہاں یہی مسئلہ زیربحث ہے کہ تعلیم کو کس طرح اسلامی سانچوں میں ڈھالا جائے۔ یہ کام تو مملکت کے قیام کے بعد سب سے پہلے کرنے کا تھا۔ ظاہر بات ہے کہ دنیا میں کوئی مملکت بھی اس وقت تک نہیں چل سکتی جب تک کہ وہ اپنے چلانے والوں کو تربیت دینے کا اور ان کو اپنے مقصد اور اپنے مدعا کے مطابق تیار کرنے کا انتظام نہ کرے۔ اس لحاظ سے حقیقت میں تعلیم کا مسئلہ ایک مملکت کے لیے بنیادی مسائل میں سے ہے، اور یہ ایسی چیز تھی کہ ملک کے قیام کے بعد اس کے سربراہ کاروں کو سب سے پہلے اس کی فکر ہونی چاہیے تھی۔ لیکن ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ چار ساڑھے چار سال کے بعد بھی کوئی آثار ہمیں ایسے نظر نہیں آتے کہ کسی نے نظامِ تعلیم کو اسلامی سانچوں میں ڈھالنے کے متعلق کچھ بھی سوچا ہو۔ عملی اقدامات تو درکنار، ہمیں سوچنے کے آثار بھی نظر نہیں آتے۔
بہرحال اب، جب کہ صورتِ حال یہ ہے تو ضرورت اس بات کی ہے کہ کچھ لوگ آگے بڑھیں اور بڑھ کر ان کو بتائیں کہ ہمارا موجودہ نظامِ تعلیم کس حد تک، کس طرح اور کس کس حیثیت سے ہمارے اُس مقصد کی ضد پڑ رہا ہے جس کے لیے ہماری یہ مملکت قائم ہوئی ہے، اور اس کے ساتھ ان کو یہ بھی بتائیں کہ اگر نظامِ تعلیم کو اس مقصد کے مطابق ڈھالنا ہے تو کس طرح ڈھالا جائے،اس کی عملی صورت کیا ہے اور اس کا نقشہ کیا ہونا چاہیے۔ اسی خدمت کو انجام دینے کے لیے مَیں آپ کے سامنے حاضر ہوا ہوں اور دوسرے جو لوگ بھی اس طرح کی فکر رکھنے والے ہیں ان سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ بھی اس فرض کو انجام دیں۔(’اسلامی نظامِ تعلیم‘سیدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد ۳۹، عدد ۱، محرم ۱۳۷۲ھ، اکتوبر ۱۹۵۲ئ، ص ۵۴)