تبدیلی قدرت کا قانون ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ ترقی اور تشکیلِ نو کا عمل اُمید اور تبدیلی کی جدوجہد ہی سے عبارت ہے، لیکن تبدیلی براے تبدیلی سے زیادہ مہمل کوئی چیز نہیں ہوسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ تبدیلی خیر اور صلاح کا باعث صرف اس وقت ہوتی ہے جب اس کی سمت اور منزل کا صحیح صحیح تعین کیا جائے اور بروقت ساری توجہ اصل مقصد کے حصول پر مرکوز کی جائے۔ اگر یہ نہ ہو تو صرف چہرے بدلنے سے حالات میں تبدیلی واقع نہیں ہوتی بلکہ تبدیلی کا عمل ترقی کے بجاے تنزل اور مزید بگاڑ پر منتج ہوتا ہے۔ اس کا تجربہ پچھلے چندبرسوں میں پاکستان اور امریکا دونوں میں ہوا ہے۔ قوم مشرف کے آمرانہ اور نظریاتی، سیاسی اور تہذیبی اعتبار سے تباہ کن دَور سے نجات چاہتی تھی، اور فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں اس نے مشرف اور اس کے ساتھیوں کو اُٹھا پھینکا اور تبدیلی کی اُمید دلانے والوں کو منصب اقتدار اسے نوازا لیکن ’’اے بسا آرزو کہ خاک شدہ‘‘۔ پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں کی حکومت نے پرویز مشرف ہی کی پالیسیوں کو مزید بگاڑ کے ساتھ جاری رکھا۔ امریکا کی غلامی کی زنجیروں کو اور بھی مضبوط کردیا۔ معیشت کی چولیں ہلا دیں اور اپنے چارسالہ دورِحکمرانی میں پاکستان کو بیک وقت تین تباہ کن بحرانوں کی دلدل میں دھکیل دیا: ۱-خراب حکمرانی ۲-نااہلیت ۳- بدعنوانی (کرپشن)۔
قوم آج پھر تبدیلی کی بات کر رہی ہے اور سیاسی فضا میں ہرسمت سے اس کا شور بلند ہورہا ہے لیکن یہی وہ مقام ہے جہاں ٹھیر کر اس بات کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ تبدیلی، ایک اور دھوکا اور سراب نہ بن جائے، اور یہ اس وقت ممکن ہے جب ٹھیک ٹھیک اس امر کا تعین کرلیا جائے کہ کون سی تبدیلی مطلوب ہے۔ اس کی سمت ،منزلِ مقصود اور نقشۂ کار طے کرنا اولین ضرورت ہے۔
دوسری تازہ مثال خود امریکا کی ہے۔ اوباما صاحب تبدیلی کے نعرے پر برسرِاقتدار آئے تھے اور امریکا کے تمام ہی راے عامہ کے جائزے یہ خبردے رہے تھے کہ امریکی عوام بش کے دور کی پالیسیوں سے نالاں ہیں اور سیاسی زندگی میں ایک نیا ورق پلٹنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ لیکن پہلے ہی سال میں ان کے سارے بلندبانگ دعووں کے باوجود، یہ بات واضح ہوگئی کہ اوباما صاحب بھی اسی طرح امریکی مقتدرہ (establishment) اور مقتدر اداروں اور مخصوص مقاصد پیش نظر رکھنے والے گروہوں کے اسیر ہیں جس طرح بش تھا۔ چنانچہ اس کے اقتدار کے تین سال، کسی تبدیلی کے نہیں بلکہ تسلسل اور بگاڑ میں اضافے اور ملکی اور بین الاقوامی دونوں محاذوں پر امریکا کی ناکامی کے سال ثابت ہوئے ہیں۔
ان دونوں مثالوں کی روشنی میں اس امر کی ضرورت اور بھی بڑھ گئی ہے کہ پاکستان کے عوام ۲۰۱۲ء میں اپنے مستقبل کے لیے جس تبدیلی کے لیے سرگرمِ عمل ہیں، اس کے خدوخال اس جدوجہد کے آغاز ہی میں بالکل واضح ہونے چاہییں، اور قوم سیاسی قیادت کو اس کسوٹی پر پرکھے جس سے معلوم ہوسکے کہ مطلوبہ تبدیلی کے لیے کس پر اعتماد کیا جاسکتا ہے اور وہ کون سے کھوٹے سکّے ہیں جن سے نجات مطلوب و مقصود ہے۔
جماعت اسلامی پاکستان نے اس سلسلے میں اپنا نہایت واضح اور مفصل منشور سال کے آغاز ہی میں قوم کے سامنے پیش کر دیا ہے اور اس میں تبدیلی کے لیے جس نمونے کا تعین کیا ہے وہ مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست ہے جس کی صورت گری خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے خلفاے راشدین کے ہاتھوں ہوئی اور جس نے تاریخِ انسانی کے رُخ کو موڑ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری پوری تاریخ گواہ ہے کہ ہرزمانے کے اور پوری دنیا کے مسلمانوں کی دلی خواہش ہے کہ ان کا اجتماعی نظام خلافت ِ راشدہ کے نمونے پر قائم ہو۔ وہ خلفاے اربعہ کے دور کو تاریخِ انسانی کا مثالی دور سمجھتے ہیں اور ماضی میں بھی برابر اس بات کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ اس نمونے کو رنگ و بو کی دنیا میں دوبارہ زندہ و قائم کریں۔ اُمت مسلمہ کے قلب و نظر کو کبھی کسی ایسی تحریک نے اپیل نہیں کیا، جو خلافت ِ راشدہ کے مقابلے میں کوئی دوسرا معیار اور نمونہ پیش کرے۔ دوست اور دشمن سب اس بات کے معترف ہیں کہ اسلام کا وہ مثالی دور ہی ہمیشہ مسلمانوں کی توجہ کا مرکز اور ان کا حقیقی مطلوب و مقصود رہا ہے اور اس کے احیا کے لیے مسلمان ہرزمانے اور ہرملک میں جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ ان کی پکار ہمیشہ یہی رہی ہے کہ ع
یہ اعلان مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکنوں کا پیامبر ہے اور ان کے حقیقی جذبات و احساسات کا آئینہ دار ہے۔ مسلمان دل سے چاہتے ہیں کہ خلافت ِ راشدہ کے دور کا احیا ہو اور ان کی یہ خواہش اس لیے ہے کہ وہ دور انسانی تاریخ کا بہترین دور تھا۔ نیز خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دور کو آنے والوں کے لیے معیاری دور قرار دیا ہے اور اس کے اتباع کی دعوت دی ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے: ’’پس تمھارا فرض ہے کہ میری سنت کو اختیار کرو اور اس پر مضبوطی سے جمے رہو اور اس کو دانتوں سے پکڑ لو… خبردار! ان باتوں کے قریب نہ پھٹکنا جو میرے طریقے اور خلفاے راشدین کے طریقے سے ہٹ کر نئی ایجاد کرلی جائیں‘‘۔
حضوؐر کا یہی ارشاد ہے جس کی تعمیل میں مسلمان ہمیشہ احیاے خلافت راشدہ کی جدوجہد کرتے رہے ہیں اور آج بھی ملت ِ اسلامیہ کے سامنے یہی نصب العین ہے لیکن خلافت ِ راشدہ کے احیا کے معنی کسی خاص دورِ تاریخ کو، اپنے تمام جزوی مظاہر اور تکنیک کے ساتھ دوبارہ زندہ کرنا نہیں ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ انفرادی اور اجتماعی زندگی کی شیرازہ بندی کے جو اصول، اقدار اور ضابطے اس زمانے میں اختیار کیے گئے، انھی کو ازسرِنو قائم کیا جائے۔ اس لیے کہ وہ اصول ابدی صداقت رکھتے ہیں اور ہر دور اور ہر زمانے میں معاشرے کی قلب ماہیت اسی طریقے پر کرسکتے ہیں جس پر اس سے پہلے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے اربعہ کے زمانے میں کرچکے ہیں۔ خلافت راشدہ کے قیام کے معنی انھی اصولوں کا قیام ہے۔
سوال یہ ہے کہ وہ اصول کون سے ہیں؟ خلافت ِ راشدہ کے قیام کی بنیادیں کیا ہیں؟ اور اس دورِ تاریخ کی خصوصیات کیا کیا ہیں؟ اس لیے کہ اگر ہم خلافت ِ راشدہ کا احیا چاہتے ہیں تو ہمیں انھی اصولوں، انھی بنیادوں اور انھی اجتماعی خصوصیات کا احیا کرنا ہوگا۔
خلافت ِ راشدہ کی پہلی بنیاد یہ ہے کہ اس کا نظامِ حکومت شخصی نہیں، دستوری تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت دنیا کے تمام معلوم سیاسی نظام بادشاہی کی بنیاد پر قائم تھے یا شخصی آمریت کی۔ آپؐ نے جو نظامِ حکومت قائم کیا وہ شخصی بنیاد کے بجاے قانون کی بالادستی اور ایک معین دستور کی حکومت کی اساس پر تھا۔ اس میں نہ شہنشاہیت کی گنجایش تھی اور نہ آمریت کی، نہ خاندان پرستی تھی اور نہ شخصیت پرستی کی۔ حاکمیت کے اصل اختیارات اللہ تعالیٰ کو حاصل تھے اور اس کا عطا کردہ، قانون مملکت کا قانون تھا۔ امیر اور غریب اور اپنے اور پرائے سب اس قانون کے تابع تھے اور کوئی اس سے سرمو انحراف نہ کرسکتا تھا۔ یہی چیز ہے جس کا اظہار حضرت ابوبکرؓ نے اپنے پہلے خطبہ میں فرمایا ہے:’’لوگو! میں تم پر حاکم مقرر کیا گیا ہوں حالانکہ تم لوگوں میں سب سے بہتر نہیں ہوں۔ اگر میں فلاح و بہبود کے کام کروں تو میری امداد کرنا ورنہ اصلاح کردینا۔ میں خدا اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کروں تو میری اطاعت کرنا لیکن خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کروں تو کوئی اطاعت تم پر نہیں ہے‘‘۔
پھر حضرت اسامہ بن زیدؓ کے لشکر کو روانہ کرتے ہوئے آپؓ نے فرمایا: ’’میرا مقام صرف متبع کا ہے، میں بہرحال کو ئی نئی راہ نکالنے والا نہیں ہوں۔ پس اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ پر استوار ہوں تو میری پیروی کرنا اور اگر اس راہ سے ہٹ جائوں تو مجھے راہِ راست پر لے آنا‘‘۔
یہاں دستوری حکومت کا نقشہ پیش کیا جا رہا ہے۔ امیر جو کچھ چاہے وہ کرنے کے لیے آزاد نہیں ہے۔ وہ خود ایک قانون کا پابند ہے اور اس کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ اس قانون کو نافذ کرے۔ یہی قانون خود اس کے اُوپر بھی قائم ہوتا ہے اور یہی تمام مسلمانوں پر بھی۔ وہ لوگوں پر اپنی مرضی تھوپنے کا حق دار نہیں ہے۔ حضرت عمرؓ نے اس حقیقت کو اس طرح ادا کیا ہے:’’ایک حاکم کو سب سے زیادہ اہتمام کے ساتھ لوگوں کے اندر جو چیز دیکھنی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جو حقوق و فرائض ان پر عائد ہوتے ہیں ان کو وہ ادا کر رہے ہیں یا نہیں۔ ہمارا فرض صرف یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو جس اطاعت کا حکم دیا ہے اس کا حکم دیں، اور جس نافرمانی سے روکا ہے اس سے روکیں‘‘۔
امیر اپنی ذات میں مطاع نہیں ہوتا۔ اس کی اطاعت صرف اس لیے ہوتی ہے کہ وہ شریعت کو قائم کرنے والا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی ریاست کا بنیادی اصول ہے کہ اطاعت صرف معروف میں ہے منکر میں نہیں، اور یہ اصول شخصی حکومت کی جڑ کاٹ دیتا ہے۔
وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ (المائدہ ۵:۱)معاونت کرو نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں اور تعاون نہ کرو گناہ اور برائی کے کاموں میں۔
اسلامی حکومت کے اصحاب امر کی اطاعت واجب ہے جب تک کہ وہ خدا اور رسولؐ کی نافرمانی کا حکم نہ دیں۔ اور جب خدا اور رسولؐ کی نافرمانی کا حکم دیا جائے تو پھر نہ سننا ہے اور نہ ماننا ہے۔
پھر امیر اس قانون کو صرف اوروں ہی پر نافذ نہیں کرتا بلکہ خود اپنے اوپر بھی نافذ کرتا ہے اور خود بھی اس کی اس طرح اطاعت کرتا ہے جس طرح کہ دوسروں سے کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔
حضرت عمرؓ نے اس بات کو اس طرح بیان فرمایا ہے: ’’میں ایک عام مسلمان اور ایک کمزور بندہ ہوں۔ صرف اللہ تعالیٰ کی مدد کا مجھے بھروسا ہے۔ میں جس منصب پر مقرر کیا گیا ہوں ان شاء اللہ وہ میری طبیعت میں ذرّہ برابر بھی تغیر پیدا نہیں کرسکے گا۔ بزرگی اور بڑائی جتنی بھی ہے سب اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ بندوں کے لیے اس میں کوئی حصہ نہیں۔ تم میں سے کسی کو یہ کہنے کا موقع نہیں ملے گا کہ عمرخلیفہ بن کر کچھ سے کچھ ہوگیا۔ میں اپنی ذات سے بھی حق وصول کرلوں گا اور جس معاملے میں ضرورت ہوگی خود بڑھ کر صفائی پیش کروں گا۔ میں تمھارے اندر کا ایک آدمی ہوں، تمھاری بہبود مجھے عزیز ہے، تمھاری خفگی مجھ پر گراں ہے اور جو امانت میرے سپرد کی گئی ہے مجھے اس کی جواب دہی کرنی ہے‘‘۔
خلافت ِ راشدہ کی یہی دستوری نوعیت ہے جس کی وجہ سے امیر کو بیت المال پر بے قید تصرف کا اختیار نہیں۔ وہ اس کو استعمال کرنے کا تو مجاز ہے مگر اپنی ذاتی خواہشات کے مطابق نہیں بلکہ شریعت کے احکام کے مطابق۔ خلافت ِ راشدہ میں نہ امیرخود اپنے اُوپر بیت المال کی رقم کو بے محابا خرچ کرسکتا ہے اور نہ دوسروں کے اُوپر۔ اس اصول کو حضرت عمرؓ نے اس طرح بیان کیا ہے: ’’میں نے اپنے لیے اللہ کے اس مال کو یتیم کے مال کے درجے پر رکھا ہے۔ اگر میں اس سے مستغنی ہوں گا تو اس کے لینے سے احتراز کروں گا اور اگر حاجت مند ہوں گا تو دستور کے مطابق اس سے اپنی ضرورتیں پوری کروں گا‘‘۔
یہی حال حضرت علیؓ کا تھا جو بیت المال سے بے جا طور پر نہ خود ایک پیسہ لیتے تھے اور نہ کسی دوست اور رشتہ دار کو دیتے تھے، حتیٰ کہ انھوں نے یہ گوارا کرلیا کہ بہت سے لوگ خواہ ان سے کٹ کر دمشق کے اصحابِ اقتدار سے جاملیں لیکن یہ گوارا نہ کیا کہ کسی کو ایک پائی بھی بغیر حق دے دیں۔
خلافت ِ راشدہ کے دور میں اگر کوئی شخص بیت المال کی کوئی رقم غلط خرچ کرتا تھا تو اس پر سخت کارروائی کی جاتی تھی اور حضرت عمرؓ نے تو حضرت خالد بن ولیدؓ جیسے جرنیل تک کو ۱۰ہزار درہم غلط طور پر استعمال کرنے کے جرم میں معزول کردیا تھا۔
یہ ساری بحث ہمیں اس نتیجے پر پہنچاتی ہے کہ خلافت ِ راشدہ کی پہلی بنیاد یہ تھی کہ حکومت شخصی نہیں دستوری ہے، اور دستورعمل کی حیثیت خدا کی نازل کردہ شریعت کو حاصل ہے جس کی اطاعت امیرومامور سب کو کرنی ہے اور جس کی اطاعت سے انحراف کے بعد کوئی طاقت باقی نہیں رہتی ہے۔ اس اصول نے آمریت کے خطرے کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا، اور قانون کی حکمرانی کے اس دور کا آغا ز کیا جس کا اصول یہ تھا کہ ’’خدا کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمدؐبھی چوری کرے تو اس کا بھی ہاتھ قلم کردیا جائے گا‘‘۔
شورائی اور جمھوری نظام
خلافت ِ راشدہ کی دوسری بنیاد یہ تھی کہ اس کا پورا نظام شورائی اور جمہوری تھا۔ اسلام میں شوریٰ کی بڑی اہمیت ہے۔ اللہ تعالیٰ خود نبی اکرمؐ سے فرماتا ہے:
وَ شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ (اٰل عمران ۳:۱۵۹) اور معاملات میں ان سے مشورہ کیا کرو۔
اور ملّت کے نظامِ اجتماعی کے متعلق قرآن کی واضح ہدایت یہ ہے کہ: وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ(الشورٰی ۴۲:۳۸) ان کے معاملات باہم مشورے سے طے ہوتے ہیں۔
ا- خلیفہ کا انتخاب باہم مشورے سے ہوتا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ کو ثقیفہ بنوساعدہ میں باہم مشاورت کے بعد منتخب کیا گیا۔ حضرت عمرؓ کی تجویز پر تمام مسلمانوں نے حضرت ابوبکرصدیقؓ کو برضا و رغبت اپنا خلیفہ چُنا اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ حضرت عمرؓ کو نامزد کرنے سے پہلے حضرت ابوبکرؓ نے تمام صحابہ ؓ سے مشورہ کیا اور حضرت عمرؓ نے بیعت ِ عام کے بعد اپنے منصب کو سنبھالا۔ حضرت عثمانؓ کے انتخاب میں بھی مدینہ کے ایک ایک فرد سے مشورہ کیا گیا اور مسلمانوں کی راے سے آپ خلیفہ منتخب ہوئے۔ حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد جب حضرت علیؓ کو خلیفہ بنانے کی تجویز دی گئی تو حضرت علیؓ نے صاف کہا: میری بیعت خفیہ طریقے سے نہیں ہوسکتی۔ یہ مسلمانوں کی مرضی سے ہوسکتی ہے۔ آپؓ نے اسی موقع پر اسلام کے نظامِ انتخاب کو ان الفاظ میں بیان فرمایا: ’’تمھیں ایسا کرنے کا (یعنی کسی کو خلیفہ بنانے) کا اختیار نہیں ہے۔یہ تو اہلِ شوریٰ اور اہلِ بدر کا کام ہے جس کو اہلِ شوریٰ اور اہلِ بدر خلیفہ بنانا چاہیں گے، وہی خلیفہ ہوگا۔ پس ہم جمع ہوں گے اور اس معاملے پر غور کریں گے‘‘۔
اس طرح خلافت ِ راشدہ کے دور کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں خلافت ایک انتخابی منصب تھا اور مسلمان اپنی آزاد مرضی سے اپنے میں سے بہترین شخص کو اس کام کے لیے منتخب کرتے تھے۔ کسی شخص کے لیے یہ جائز نہ تھا کہ وہ اُوپر سے اُمت پر مسلط ہوجائے۔ جب مسلمانوں میں قیصروکسریٰ کے اس مکروہ طریقے کا آغاز ہوگیا تو خلافت راشدہ ختم ہوگئی اور ملوکیت کا دور شروع ہوگیا!
ب- خلافت ِ راشدہ میں عمال اور گورنر بھی متعلقہ صوبوں کے لوگوں کے مشوروں سے مقرر کیے جاتے تھے اور اگر کسی مقام کے لوگ کسی شخص کو ناپسند کرتے تھے تو اسے تبدیل کردیا جاتا تھا۔
ج- حکومت کے سارے معاملات باہم مشورے سے طے ہوتے تھے۔ امیر تمام اہم معاملات میں پالیسی بنانے سے پہلے ارباب حل و عقد سے مشورہ کرتا تھا اور ان کے مشورے سے جو پالیسی طے ہوتی تھی اسے نافذ کرتا تھا۔ اس مقصد کے لیے دو ادارے تھے۔ ایک مجلس شوریٰ اور دوسرا مسلمانوں کا اجتماعِ عام۔ بالعموم معاملات مجلس شوریٰ ہی میں طے ہوتے تھے لیکن اگر کسی مسئلے پر بڑی مشاورت کی ضرورت محسوس ہوتی تو عام منادی کر دی جاتی اور مسجد میں جمع ہوکر بحث و تمحیص کے بعد اس مسئلے کو جمعیت مسلمین طے کرلیتی۔
یہ بحث و مشورہ پوری طرح آزادانہ فضا میں ہوتا اور ہرشخص اپنی حقیقی راے کا بے لاگ اظہار کرتا۔ ایک مجلس مشاورت کی افتتاحی تقریر میں حضرت عمرؓ نے صحیح اسلامی پالیسی کو اس طرح بیان فرمایا: ’’میں نے آپ لوگوں کو جس غرض کے لیے تکلیف دی ہے وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ مجھ پر آپ کے معاملات کی امانت کا جو بار ڈالا گیا ہے اسے اُٹھانے میں آپ میرے ساتھ شریک ہوں۔ میں آپ ہی کے افراد میں سے ایک فرد ہوں اور آج آپ لوگ وہ ہیںجو حق کا اقرار کرتے ہیں۔ آپ میں سے جس کا جی چاہے میرے ساتھ اتفاق کرے۔ میں یہ نہیں چاہتا کہ آپ میری خواہش کی پیروی کریں‘‘۔
مولانا شبلی نعمانی نے الفاروق میں اس نظامِ مشاورت کی پوری تفصیل دی ہے جس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ خلافت ِ راشدہ کا نظام، شوریٰ کی بنیاد پر قائم تھا۔
د- قانون سازی کا اختیار امیر کو حاصل نہیں تھا۔ اصل قانون قرآن اور سنت ہے لیکن جن چیزوں میں قرآن و سنت خاموش ہیں، امیر کا اجتہاد بھی ایک اجتہاد ہے۔ قانون کا درجہ اسے صرف اس وقت حاصل ہوتا ہے جب اس پر اُمت کے ارباب حل و عقد کا اجماع ہوجائے۔ قانون ساز ادارے (Legislative Organ)کی حیثیت اجماع کو حاصل ہے، امیر کی راے کو نہیں۔ اپنے زمانے میں یہ ایک ایسا انقلابی اقدام تھا کہ ایک عرصے تک تاریخ اس کی اصل اہمیت کو محسوس بھی نہ کرسکی۔ آج جب ہم غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ دراصل وظائف حکومت کی مختلف اداروں میں تقسیم تھی اور اس کے ذریعے نظامِ حکومت میں محاسبہ و توازن کا ایک نظام قائم کیا گیا تھا۔
مندرجہ بالا بحث سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ خلافت ِ راشدہ کی دوسری بنیاد شوریٰ تھی یہی اسلام کی اصل روح ہے۔ اگر یہ باقی نہ رہے تو پھر خلافت کا نظام بے معنی ہوجاتا ہے۔ اس کے لیے خلفاے اربعہ کے زمانے میں مناسب ادارے بھی بنائے گئے تھے تاکہ شوریٰ کا اصول عملی طور پر بروے کار آسکے۔ جب خلافت آمریت اور ملوکیت میں بدل گئی تو شوریٰ کا یہ نظام بھی درہم برہم ہوگیا۔ اسلام کے اس شورائی نظام کو اسلامی جمہوریت کہا جاسکتا ہے جس میں جمہور کی راے اور کردار ایک مرکزی حیثیت رکھتا ہے لیکن وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طے کردہ حدود کے اندر واقع ہوتا ہے اور ان حدود سے باہر جانے کا اختیار کسی کو بھی حاصل نہیں۔
خلافت ِ راشدہ کی تیسری بنیاد ریاست کا فلاحی تصور تھا۔ ریاست محض ایک منفی ادارہ نہیں ہے جو محض اندرونی خلفشار اور بیرونی حملہ سے ملک کو محفوظ رکھنے کے لیے وجود میں لایاگیاہو، بلکہ معاشری تنظیم کی وہ صورت ہے جس کے ذریعے مثبت طور پر ایک خاص طرزِ زندگی کو ترویج دینے کی منظم سعی و جہد کی جائے۔ اس ادارے کا اصل مقصد نیکی کا فروغ، بدی کا استیصال اور ایک فلاحی معاشرے کا قیام ہے جو انسانوں کی حقیقی ضرورتوں کا اہتمام کرے، اور ان کو مادی اور اخلاقی اعتبار سے اس لائق بنا دے کہ وہ زمین پر اللہ کے خلیفہ کا کردار مؤثرانداز میں ادا کرسکیں۔
۱- پہلا اقدام کتاب و سنت کی تعلیم، اور ان کا فروغ اور قیام تھا۔ حضور اکرمؐ نے جب عمرو بن حزمؓ کو یمن کا گورنر بنایا تو ان کو ہدایت کی تھی کہ وہ حق پر قائم رہیں، جیساکہ اللہ نے حکم دیا ہے، اور لوگوں کو بھلائی کی خوشخبری اور نیکی کا حکم دیں اور لوگوں کو قرآن کی تعلیم دیں اور ان میں اس کی سمجھ پیدا کریں اور لوگوں کی دل داری کریں یہاں تک کہ لوگ دین کا فہم پیدا کرنے کی طرف مائل ہوجائیں۔
اسی پالیسی پر خلافت ِ راشدہ کے پورے دور میں عمل کیا گیا۔ حضرت عمرؓ نے ارشاد فرمایا: ’’اے اللہ! میں اپنے تمام علاقوں کے عہدے داروں پر تجھ کو گواہ ٹھیراتا ہوں کہ میں نے ان کو اس لیے مقرر کیا ہے کہ وہ لوگوں کو اِن کے دین اور ان کے نبیؐ کی سنت کی تعلیم دیں‘‘۔
ایک دوسرے خطبے میں آپؓ نے فرمایا: ’’میں نے اِن کو اس لیے مقرر کیا ہے کہ تم کو تمھارے پروردگار کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی سنت کی تعلیم دیں۔
خلفاے اربعہ قیامِ فلاح کے لیے سب سے ضروری اس امر کو سمجھتے تھے کہ لوگوں کو فلاح کا صحیح اور اس کا اصل راستہ بتا دیں اور یہ علم قرآن اور سنت نبویؐ ہی سے حاصل ہوسکتا ہے۔ ان کا مقصد دنیاوی اور اُخروی فلاح تھا اور اس کے حصول کے لیے سب سے پہلی ضرورت قرآن اور سنت کی تعلیم اور تنفیذ تھی۔
۲- دوسری بنیادی چیز امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے، یعنی ریاست تمام اچھی چیزوں کی ترویج کرے، نیکیوں کو پھیلائے، صدقات کو عام کرے اور خیر کی روایت قائم کرے، نیز ان تمام چیزوں کی حوصلہ افزائی کرے جو کسی طرح بھی حسنات کو فروغ دینے والی ہوں۔ اسی طرح ریاست ان تمام چیزوں کو ختم کرے جو بُرائی اور منکر کو پھیلانے والی ہوں اور معاشرے میں کسی قسم کی بھی گندگیوں کو نہ پنپنے دے تاکہ فرد اور ملت دونوں کو صحیح خطوط پر ترقی کرنے کا پورا پورا موقع ملے۔ حکومت کی اس پالیسی کی اساس قرآن کا یہ حکم ہے کہ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ(اٰل عمران ۳:۱۱۰) ’’تم وہ بہترین اُمت ہو جو انسانیت کی طرف بھیجے گئے ہو، پس نیکیوں کا حکم کرو، برائیوں کو روکو، اور تم مومن ہو‘‘۔
۳- اس سلسلے کی تیسری چیز یہ ہے کہ حکومت عوام کے لیے آسانیاں پیدا کرے، ان پر ظلم و جبر نہ کرے، ان پر ایسا بوجھ نہ ڈالے جس کے وہ متحمل نہ ہوسکتے ہوں۔ نیز حسنات زندگی کو فروغ دے ، اور اس بات کی کوشش کرے کہ اس کے دائرۂ اثر میں کوئی متنفس بلالحاظ مذہب و ملّت ایسا نہ رہے جو اپنی بنیادی ضرورتیں پوری نہ کر رہا ہو۔
حضرت عمرؓ اس بات کا اہتمام کرتے تھے کہ مجاہدین زیادہ عرصے تک اپنے اہل و عیال سے جدا نہ رہیں، اور کہا کرتے تھے کہ ’’اور تمھارا مجھ پر یہ حق ہے کہ میں تمھیں تباہی میں نہ ڈالوں اور تم کو سرحدوں میں روکے نہ رکھوں‘‘۔
اس اصول کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کو ایک خط میں حضرت عمرؓ نے لکھا کہ ’’سب سے زیادہ خوش نصیب حاکم اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ ہے جس کے سبب سے اس کی رعایا خوش حال ہو، اور سب سے بدبخت حاکم وہ ہے جس کے سبب سے اس کی رعایا بدحال ہو۔ تم خود بھی اپنے آپ کو کج روی سے بچانا تاکہ تمھارے ماتحت کج روی اختیار نہ کریں‘‘۔
اس حقیقت کو خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح بیان فرمایا تھا کہ: ’’ اے اللہ! جو شخص میری اُمت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنایا جائے اور وہ اِن کو مشقت میں ڈالے تو، تو بھی اِس کو مشقت میں ڈال۔ اور جو شخص میری اُمت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنایا گیا اور اس نے ان کے ساتھ نرمی کا معاملہ کیا تو، تو بھی اس کے ساتھ نرمی کا معاملہ کر‘‘۔
خلافت ِ راشدہ کی تمام پالیسیوں میں لوگوں تک حسنات زندگی پہنچانے اور ضرورت مندوں کی کفالت کرنے کا جذبہ کارفرما تھا، بلکہ حضرت عمرؓ تو فرمایا کرتے تھے کہ: ’’خدا کی قسم! اگر میں زندہ رہا تو صفاء کے پہاڑوں میں جو چرواہا اپنی بکریاں چرا رہا ہوگا، اس کو بھی اس مال سے اس کا حصہ پہنچے گا اور اس کے لیے اس کو کوئی زحمت نہیں اٹھانا پڑے گی‘‘۔ اور یہ کہ: ’’خدا کی قسم! اگر میں اہلِ عراق کی بیوائوں کی خدمت کے لیے زندہ رہ گیا تو ان کو اس حال میں چھوڑ جائوں گا کہ میرے بعد ان کو کسی اور امیر کی مدد کی احتیاج باقی نہ رہے گی‘‘۔
خلافت ِ راشدہ ایک صحیح اور معیاری خادم خلق ریاست تھی اور عوام کی حقیقی فلاح و بہبود اور ان کے لیے آسانیوں کی فراہمی اس کا اصل مقصد تھا اور حکومت کا یہی فلاحی تصور خلافت ِ راشدہ کی تیسری بنیادی خصوصیت تھا۔
خلافت ِ راشدہ کی چوتھی بنیاد تمام شہریوں کے حقوق کا تحفظ اور ان کی شخصی اور سیاسی آزادی کی ضمانت تھی۔ حضرت عمرؓ نے حقوق کی ضمانت ان الفاظ میں دی تھی کہ: ’’میں کسی شخص کو اس بات کا موقع نہیں دوں گا کہ وہ کسی کی حق تلفی یا کسی پر زیادتی کرسکے۔ جو شخص ایسا کرے گا میں اس کا ایک گال زمین پر رکھوں گا اور اس کے دوسرے گال پر اپنا پائوں رکھوں گا یہاں تک کہ وہ حق کے آگے جھک جائے‘‘۔
حضرت ابوبکرؓ نے شہریوں کے حقوق کی حفاظت کا اعلان اس بلیغ انداز میں فرمایاتھا کہ: ’’تمھارے اندر جو بے اثر ہے، وہ میرے نزدیک بااثر ہے یہاں تک کہ میں اس سے چھینا ہوا حق اس کو واپس دلا دوں۔ اور تمھارے اندر جو بااثر ہے وہ میرے نزدیک بے اثر ہے یہاں تک کہ میں اس سے اس حق کو وصول کرلوں جو اس نے غصب کر رکھا ہے‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ خلفاے اربعہ نے یہ کام کرکے دکھا دیا۔ جب بھی کسی عامل نے کوئی زیادتی کی، انھوں نے فوراً اس پر مواخذہ کیا اور اس کا تدارک کیا۔
حضرت عمرؓ کا ارشاد تھا کہ: ’’میں اپنے عاملوں کو تمھارے پاس اس لیے نہیں بھیجتا کہ وہ تمھیں ماریں پیٹیں یا تمھارے مالوں کو ناجائز طریقے پر لیں، بلکہ اس لیے بھیجتا ہوں کہ تم کو تمھارا دین سکھائیں اور تمھارے نبی کا طریقہ سکھائیں۔ اگر کسی کے ساتھ اس قسم کی کوئی زیادتی کی گئی ہو تو وہ میرے علم میں لائے۔ اس ذات کی قسم جس کی مٹھی میں میری جان ہے، میں اس کو زیادتی کرنے والے سے اس کا قصاص ضرور دلائوں گا‘‘۔
اس نظام میں لوگوں کی آزادیوں کا جو لحاظ رکھا جاتا تھا وہ حضرت عمر ؓ کے ان تاریخی الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے جو آپ نے والیِ مصر حضرت عمرو بن عاصؓ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:’’تم نے لوگوں کو کب سے غلام بنا لیا، حالانکہ ان کی مائوں نے ان کو آزاد جنا تھا‘‘۔
آپ نے اس بات کی بھی ضمانت دی کہ کسی کو عدل اور قانون کے تقاضے پورے کیے بغیر اس کی آزادی سے محروم نہیں کیا جاسکتا:
وَاللّٰہِ لاَ یُوْسَرُ رَجُلٌ فِی الْاِسْلَامِ بِغَیْرِ عَدْلٍ،خدا کی قسم! اسلام میں کوئی شخص بغیر عدل کے قید نہیں کیا جاسکتا۔
حد یہ ہے کہ اس نظام میں اس شخص تک کو آزادی حاصل ہوتی تھی اور اس پر کوئی زیادتی نہیں کی جاتی تھی جو خواہ نظری طور پر حکومت کا باغی ہی کیوں نہ ہو مگر عملاً بغاوت نہ کر رہا ہو۔ حضرت علیؓ نے خوارج کو یہ پیغام بھیجا تھا کہ: ’’تم کو آزادی حاصل ہے کہ جہاں چاہو رہو، البتہ ہمارے اور تمھارے درمیان یہ قرار داد ہے کہ ناجائز طور پر کسی کا خون نہیں بہائو گے، بدامنی نہیں پھیلائو گے اور کسی پر ظلم نہیں ڈھائو گے۔ اگر ان باتوں میں سے کوئی بات تم سے سرزد ہوئی تو پھر میں تمھارے خلاف جنگ کا حکم دے دوں گا‘‘۔
اس سے وسیع تر آزادی کا کون سا تصور ہے جو انسان کرسکتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ خلافت راشدہ کی بڑ ی اہم خصوصیت اس کا وہ نظام تھا جس میں آزادی اور حقوقِ انسانی کی کُلّی ضمانت تھی… اور یہ محض ضمانت نہ تھی بلکہ اس ضمانت کے ایک ایک حرف پر پوری راست بازی کے ساتھ عمل ہو رہا تھا۔
خلافت راشدہ کی پانچویں بنیاد اس کا نظامِ تنقید و محاسبہ تھا۔ دنیا کے دوسرے نظام ہاے سیاست میں تنقید کو ایک حق مانا گیا ہے اور سیاسیات کے طالب علم اس امر سے اس طرح واقف ہیں کہ کتنی جدوجہد، کتنی قربانیوں اور کتنی کش مکش کے بعد عوام کا یہ حق دنیاے تہذیب میں تسلیم کیا گیا ہے، لیکن خلافت ِ راشدہ کا یہ اعجاز ہے کہ اس میں پہلے دن سے تنقید و محاسبے کی فضا قائم تھی۔ ہرشخص نظامِ حکومت پر نگاہ رکھتا تھا، اور جہاں کہیں بھی جو بُرائی دیکھتا تھا، اس کو دُرست کرنے میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھتا تھا، بلکہ گہری نگاہ سے حالات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ خلافت ِ راشدہ اور خود آج کے جمہوری نظام میں تنقید و محاسبے کے مقام کے سلسلے میں ایک بڑا باریک لیکن بڑا اہم فرق تھا۔ دوسرے نظاموں میں تنقید زیادہ سے زیادہ عوام کا ایک حق رہی ہے لیکن خلافت ِ راشدہ میں یہ صرف حق ہی نہیں بلکہ ایک فریضہ بھی تھی۔ یہ بات لوگوں کی مرضی پر چھوڑ نہیں دی گئی تھی کہ چاہے محاسبہ کریں اور چاہے نہ کریں، بلکہ ان کو یہ تربیت دی گئی تھی کہ دین کی خیرخواہی کا تقاضا یہ ہے کہ ہرمسلمان صحیح طریقے پر تنقید و محاسبہ کرتا رہے اور اگر کوئی شخص اپنے اس فریضے کو ادا نہیں کرتا تو وہ اس کوتاہی پر اللہ تعالیٰ کے یہاں جواب دہ ہوگا۔
الدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ لِلّٰہِ وَلِکِتَابِہِ وَلِاَئِمَّۃِ الْمُسْلِمِیْنَ وَعَامَّتِھِمْ،دین نام ہے خیرخواہی کا، خیرخواہی اللہ کی، اس کی کتاب کی، اس کے رسولؐ کی، مسلمانوں کے قائدین کی اور سب مسلمانوں کی۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تمھیں لازم ہے کہ نیکی کا حکم کرو اور برائی سے روکو، اور بدکار کا ہاتھ پکڑ لو اور اسے حق کی طرف موڑ دو‘‘۔ ایک دوسری حدیث میں آتا ہے کہ ’’اگر برائی کو دیکھو تو اسے اپنے ہاتھ سے روک دو، اگر اس کی استطاعت نہ رکھتے ہو تو زبان سے اس کے خلاف آواز بلند کرو، اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو کم از کم دل میں اس کو بُرا جانو، اور یہ ایمان کا آخری درجہ ہے‘‘۔
آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ ’’اللہ عام لوگوں پر خاص لوگوں کے عمل کے باعث اس وقت تک عذاب نازل نہیں کرتا جب تک ان میں یہ عیب نہ پیدا ہوجائے کہ اپنے سامنے بُرے اعمال ہوتے دیکھیں اور انھیں روکنے کی قدرت رکھتے ہوں مگر نہ روکیں۔ جب وہ ایسا کرتے ہیں تو پھر اللہ عام اور خاص سب پر عذاب نازل کرتا ہے‘‘۔
خلافت ِ راشدہ کے نظام کی بنیاد زبانِ رسالت مآبؐ سے نکلی ہوئی انھی ہدایات پر تھی۔ اس نظام میں معاشرے کا ضمیر بیدار تھا اور فضا صحت مند تنقید اور مخلصانہ محاسبے سے معمور تھی اور یہ مقدس ذمہ داری ایک طرف کسی مداہنت کے بغیر انجام دی جاتی تھی تو دوسری طرف اس کو ان حدود میں رکھا جاتا تھا جو بدنظمی، انتشار، افتراق اور انارکی کے فساد سے معاشرے اور ریاست کو محفوظ رکھیں۔
حضرت ابوبکرؓ نے خلیفہ بننے کے بعد جو تاریخی خطبہ دیا اور اس حالت میں ارشاد فرمایا کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے: ’’اے لوگو! میں اس جگہ اس لیے مقرر نہیں کیا گیا ہوں کہ تم سے برتر بن کے رہوں۔ میری خواہش تو یہ تھی کہ کوئی اور اس جگہ کو سنبھالتا، میں تمھارے ہی جیسا ایک آدمی ہوں۔ جب تم دیکھو کہ میں سیدھے راستے پر چل رہا ہوں تو میری پیروی کرو۔ اور اگر دیکھو کہ میں راستی سے ہٹ گیا ہوں تو مجھے سیدھا کردو‘‘۔
حضرت عمرؓ نے خلافت کا بار اُٹھانے کے بعد ارشاد فرمایا کہ’’اے لوگو! تم نفس کے مقابلے میں میری مدد اس طرح کرسکتے ہو کہ بھلائی کا حکم دو اور بُرائی سے روکو۔ نیز خدا نے تمھاری جو ذمہ داری مجھ پر ڈالی ہے اس کے بارے میں میری خیرخواہی اور مجھے نصیحت کرتے رہو‘‘۔
دورِ خلافت راشدہ میں امیرالمومنین ہر جمعہ کو پبلک سے خطاب کرتا تھا۔ جمعہ کے خطبے میں اپنی پالیسی بیان کرتا تھا ۔ اپنے کو خود پبلک کے سامنے پیش کرتا تھا اور پبلک کو پورا پورا موقع دیتا تھا کہ وہ اس پر تنقید کرے، اس سے اختلاف کرے، اس کے سامنے شکایت پیش کرے۔ مختصراً یہ کہ وہ اپنی پالیسی پر عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ خلافت ِ راشدہ میں خطبۂ جمعہ دینی عبادت کے ساتھ ایک سیاسی ادارہ تھا اور اس کی حیثیت بحث و مباحثے اور افہام و تفہیم کے ایک پلیٹ فارم کی بھی تھی۔
حضرت عمرؓ کے مزاج کی سختی کے متعلق تو ہرشخص بہت کچھ جانتا ہے لیکن دورِ خلافت راشدہ کے طالب علم کی نگاہ سے یہ بات اوجھل نہیں کہ سب کو آپ تنقید و محاسبے کی دعوت دیتے اور اسے صبروسکون سے برداشت کرتے بلکہ اس تنقید سے پورا پورا فائدہ اُٹھانے میں بھی ان سے بڑھ کر کوئی نہ تھا۔ انھوں نے کبھی بھی لوگوں کو اس حق سے کسی درجے میں بھی محروم کرنے کی کوشش نہیں کی، بلکہ جو پوزیشن انھوں نے اختیار کی وہ ایک ایسی اعلیٰ مثال ہے جو انسانوں کے لیے ہمیشہ روشنی کا مینار رہے گی۔
ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ حضرت عمرؓ مسجد سے نکلے، چند قدم چلے ہوں گے کہ ایک خاتون (خولہ بنت حکیم) دوسری طرف سے آئیں۔ آپ نے ان کو سلام کیا۔ انھوں نے جواب دیا اور فوراً برس پڑیں: ’’عمر ؓ! تمھارے حال پر افسوس ہے، میں نے تمھارا وہ زمانہ دیکھا ہے کہ تم عمیرعمیر کہلاتے تھے اور لٹھیا لیے دن بھر عکاظ میں بکریاں چراتے تھے۔ اس کے بعد میں نے تمھارا وہ زمانہ بھی دیکھا جب تم عمر کہلانے لگے اور اب یہ زمانہ ہے کہ میں دیکھ رہی ہوں کہ امیرالمومنین بنے پھررہے ہو۔ رعایا کے معاملے میں خدا سے ڈرو اور اس بات کو یاد رکھو کہ جو اللہ کا تقویٰ اختیار کرے گا وہ آخرت کے عالم کو بالکل اپنے آپ سے قریب پائے گا اور جس کو موت کا ڈر ہوگا وہ ہمیشہ اس فکر میں رہے گا کہ خدا کی دی ہوئی فرصت رائیگاں نہ ہونے پائے‘‘۔حضرت عمرؓ نے ان کی تقریر کو بڑے غور سے سنا اور جن صحابہ نے ان کی سختی کی شکایت کی ، ان کو خاموش کردیا۔
اسی طرح ایک اور شخص نے حضرت عمرؓ کو سختی سے ٹوکا اور آپ سے کہا: ’’اے عمر! اللہ سے ڈر! اللہ سے ڈر! (اور اس جملہ کو تین بار کہا)، ایک دوسرے شخص نے کہا کہ اب بس بھی کرو، بہت ہوچکا تو حضرت عمرؓنے یہ تاریخی الفاظ ارشاد فرمائے: ’’ان کو کہنے دو، اگر یہ ہم کو یہ باتیں نہ کہیں تو ان میں کوئی خوبی نہیں، اور اگر ہم ان کی ان نصیحتوں کو قبول نہ کریں تو ہم میں کوئی خوبی نہیں‘‘۔
خدا کی قسم! یہ الفاظ انسانی آزادی اور حق تنقید و محاسبے کا سب سے بڑا چارٹر ہیں، اور خلافت ِ راشدہ کا نظام اس تنقید و محاسبے کی بنیاد پر قائم تھا۔ اسی کی وجہ سے حکومت راہِ حق پر قائم رہتی تھی اور ہرکجی سے محفوظ رہتی تھی۔ استحکام اور ترقی کے لیے اس سے بڑی ضمانت اور کون سی ہوسکتی ہے؟
خلافت ِ راشدہ کی ایک اور بنیادی خصوصیت پارٹی پرستی سے کامل احتراز تھا۔ سیاسیات کا یہ ایک بنیادی اصول ہے کہ معاملات کی انجام دہی میں نمایندگی (representation) کی ضرورت وہاں پیش آتی ہے جہاں بلاواسطہ رابطہ قائم کرنا ممکن نہ ہو۔ یونان کی شہری حکومت میں کسی نمایندہ اسمبلی کا وجود نہ تھا۔ اس لیے کہ وہاں پوری شہری آبادی ایک اسمبلی کی حیثیت رکھتی تھی اور جب بھی حکومت کو مشورے کی ضرورت پیش آتی تمام لوگوں کو جمع کیا جاتا اور اسی اجتماع میں فیصلہ کرلیا جاتا۔ جب ہیئت ِ اجتماعی وسیع ہوا تو بلاواسطہ جمہوریت کے مقابلے میں نمایندہ جمہوریت کا ظہور ہوا۔ اور اس نمایندگی کے نظام میں نمایندوں کو شہریوں کی راے اور ان کی مرضیات کا حقیقی نمایندہ بنانے کے لیے سیاسی پارٹیوں کا نظام وضع کیا گیا۔ اس لیے کہ اگر عوام کے نمایندوں کو ان کے نظریات کا نمایندہ ہونا چاہیے تو ضروری ہے کہ پروگرام اور پارٹی کی ذمہ داری کا نظام موجود ہو۔
اس پارٹی کے نظام نے جہاں بہت سی حقیقی ضرورتوں کو پورا کیا، نیز جہاں وسیع و عریض ممالک اور لاکھوں اور کروڑوں کی آبادی میں اس کا قیام ناگزیر ہوگیا ،وہیں اس میں ایک بڑی خرابی بھی رونما ہوئی اور وہ پارٹی پرستی، یعنی پارٹی کو حق و باطل کا معیار جان لینا، اصول اور اقدار کی بالادستی سے صرفِ نظر اور اپنے ضمیر کی آواز کے مقابلے میں محض پارٹی کی موافقت کے جذبات سے کام کرنا۔
دورِ خلافت ِ راشدہ میں ہمیں یہ اہم چیز نظر آتی ہے کہ اس میں اپنے دور کے قبائل، برادریوں اور مشترک اجتماعی وجود رکھنے والے گروہوں کو ختم نہیں کیا گیا لیکن پارٹی بازی اور خاندانی، قبائلی یا گروہی مفادات کو حق و باطل کا معیار ماننے کا اصول بیخ و بُن سے اُکھاڑ پھینکا گیا۔ گروہ اور احزاب اس لیے تھیں کہ لوگ ایک دوسرے کو جانیں، اجتماعی نظام زیادہ آسانی سے کام کرسکے۔ ہرشخص کی راے معلوم کرنے کے بجاے ایک گروہ اور پارٹی کے قائدین کی راے معلوم کرلی جائے اور اس طرح اس پورے گروہ کے نقطۂ نظر سے آگاہی حاصل کرلی جائے لیکن تربیت اور تعلیم کے ذریعے سے لوگوں میں پارٹی کی عصبیت کو، پارٹی بازی اور پارٹی پرستی کو ختم کیا گیا۔ تاریخ شاہد ہے کہ خلافت ِ راشدہ نے کسی جبروتشدد کے بغیر، غلط احساسات کو زیادہ سے زیادہ دبا دیا، اور پارٹی پرستی کے فتنے کو اخلاقی سنوار کے ذریعے ختم کر دیا۔
دورِ خلافت راشدہ میں سب سے پہلے تو مہاجرین اور انصار کے دو گروہ تھے اور ان کے سربراہ اپنی پارٹی کے نمایندوں کی حیثیت سے امورِ سلطنت میں تعاون کرتے تھے۔ پھر خود انصار کے دو اہم قبیلے اوس اور خزرج کی شکل رکھتے تھے اور جس شخص نے بھی ثقیفہ بنوساعدہ کی بحثوں کا مطالعہ کیا ہے وہ ان کے سیاسی وجود اور اس کی اہمیت کو اچھی طرح محسوس کرسکتا ہے۔ اسی طرح مہاجرین میں کم از کم تین نمایاں پارٹیاں نظر آتی ہیں۔ بنواُمیہ، بنوزہرہ اور بنوہاشم۔۱؎
حضرت ابوبکرؓ نے ثقیفہ بنوساعدہ میں اپنی تقریر میں فرمایا تھا کہ امیرمہاجرین میں سے ہوگا اور انصار ان کے وزیر ہوں گے۔ خلفاے اربعہ نے مناصب کی تقسیم کے سلسلے میں اس بات کا پورا لحاظ رکھا کہ مختلف گروہوں میں سے اہل لوگوں کو مناصب دیے جائیں اور اس طرح ہرپارٹی کو نمایندگی ملتی رہے اور شکررنجی نہ پیدا ہو۔
حضرت عمر ؓ نے پارٹیوں کو ختم نہیں کیا، صرف پارٹی پرستی سے لوگوں کو منع کیا۔ ان کا ارشاد ہے کہ ’’اللہ کی شریعت کو قائم نہیں کرسکتا وہ شخص جو حق کے معاملے میں اپنی پارٹی کی ناانصافیوں کو گوارا کرنے والا ہو۔ ولا یکظم فی الحق علٰی حِزْبِہٖ، یہاں ضرب حزب کے وجود پر نہیں پارٹی کی ایسی پرستش پر ہے کہ حق و ناحق کا اختیار ہی ختم ہوجائے۲؎، اور غالباً یہی خود قرآن پاک کے اس ارشاد کا بھی منشا ہے کہ
ٰٓیاََیُّھَا النَّاسُ اِِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا اِِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ (الحجرات ۴۹:۱۳) ، لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمھاری قومیں اور قبیلے بنائے تاکہ
۱- مولانا امین احسن اصلاحی اپنی کتاب اسلامی ریاست، شہریت کے حقوق و فرائض (۴) میں تحریر فرماتے ہیں: انصار اور مہاجرین کی ان دو پارٹیوں کے علاوہ خود مہاجرین کے اندر تین نمایاں پارٹیاں موجود تھیں۔ lبنواُمیہ کی پارٹی عثمان غنیؓ کی قیادت میں، lبنوزہرہ کی پارٹی سعد اور عبدالرحمن بن عوفؓ کی سرکردگی میں، lبنوہاشم کی پارٹی حضرت علیؓ اور عباسؓ ابن عبدالمطلب کی رہنمائی میں۔ اور ان میں سے بعض کا اختلاف حکومت کے ساتھ کھلا ہوا تھا لیکن حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کی حکومت نے انتہائی رواداری کے ساتھ اس اختلاف کو انگیز کیا۔ یہاں تک کہ حضرت علیؓ نے حضرت ابوبکرؓ کے ہاتھ پر کئی مہینے تک بیعت نہیں کی۔ (ص ۳۲)
۲- خود خوارج کے سلسلے میں جو پالیسی حضرت علیؓ نے اختیار فرمائی وہ بھی اسی مسلک پر روشنی ڈالتی ہے۔ خوارج کی حیثیت ایک متشدد حزب اختلاف کی تھی مگر آپؓ نے ان کو تحریر فرمایا کہ جب تک تم بدامنی نہیں پھیلاتے اور کشت و خون نہیں کرتے ہم تم سے تعرض نہیں کریں گے اور تمھیں اجازت ہوگی کہ جہاں چاہے رہو۔
ایک دوسرے کو شناخت کرو۔ اور خدا کے نزدیک تم میں سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ نیکوکار اور پرہیزگار ہے۔
یہاں نہ صرف یہ کہ ’شعوب‘ اور ’قبائل‘کے وجود کو ختم کرنے کی طرف کوئی اشارہ نہیں بلکہ اس کی ایک اہم ضرورت اور افادیت بیان کی گئی ہے۔ یعنی لتعارفوا،تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکو، امتیازات کو محسوس کرسکو، لیکن ساتھ ہی قبائل پرستی، گروہ پرستی اور قوم پرستی کی جڑ یہ کہہ کر کاٹ ڈالی گئی ہے کہ لتعارفوا کی حد سے آگے نہ بڑھنا کیوں کہ اسلام کی نگاہ میں حق اور شرف کا معیار قوم، قبیلہ اور گروہ نہیں ہیں بلکہ تقویٰ ہے۔
یہی اصول پارٹیوں کے سلسلے میں خلافت ِ راشدہ نے اختیار کیا، یعنی پارٹیوں کے وجود کو ختم نہیں کیا گیا صرف پارٹی پرستی کو ختم کیاگیا ۔ حق کا معیار سب کے لیے قرآن اور سنت نبویؐ قرار پایا اور ہر ایک نے اسی سے استدلال کیا۔ باقی نقطۂ نظر اور دوسرے اختلافات کی پہچان کے لیے پارٹیاں موجود رہیں اور نظامِ خلافت کو صحت مند بنیادوں پر ترقی دینے میں ممدومعاون ثابت ہوتی رہیں۔
خلافت ِ راشدہ کی آخری خصوصیت امیر کا ایک خاص کردار ہے جسے اچھی طرح سمجھے بغیر اس دور کی تصویر مکمل نہیں ہوسکتی۔ مسلمانوں کا امیر ان کا بہترین شخص ہوتا تھا۔ فہم و تدبیر ، اور تقویٰ اور صلاحیت کار میں سب پر فوقیت رکھتا تھا اور اس کے ہر کام کا محرک خدا کا خوف اور اُمت کی فلاح تھا۔
حضرت ابوبکرؓ کا کیا عالم تھا۔ اس کا ذکر حضرت علیؓ کی زبان سے سنیے: یہ تقریر حضرت علیؓ ابن ابی طالب نے آپ کی وفات کے وقت کی تھی: اے ابوبکر! اللہ تم پر رحم کرے، واللہ! تم پہلے آدمی تھے جس نے رسول اللہ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اسلام قبول کیا، ایمان و اخلاص میں تمھارا ہم پلّہ کوئی نہ تھا۔خلوص و محبت میں تم سب سے بڑھے ہوئے تھے۔ اخلاق و قربانی، ایثار و بزرگی میں تمھارا کوئی ثانی نہ تھا۔ اسلام اور مسلمانوں کی جو خدمت تم نے کی اور رسولؐ اللہ کی رفاقت میں جس طرح ثابت قدم رہے اس کا بدلہ اللہ ہی تمھیں دے…واللہ تم اسلام کے حصن حصین تھے۔ کافروں کے لیے تمھارا وجود انتہائی اذیت بخش تھا۔ تمھاری کوئی دلیل وزن سے خالی نہ ہوتی تھی اور تمھاری بصیرت فہم و کمال کو پہنچی ہوئی تھی۔ تمھاری سرشت میں کمزوری کا ذرا سا بھی دخل نہ تھا۔ تم ایک پہاڑ کی مانند تھے جسے تند و تیز آندھیاں بھی اپنی جگہ سے نہیں ہٹا سکتیں۔ اگرچہ تم جسمانی لحاظ سے کمزور تھے لیکن دینی لحاظ سے جو قوت تم کو حاصل تھی اس کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔ تم دنیا والوں کی نظر وں میں واقعی ایک جلیل القدر انسان تھے اور مومنوں کی نگاہوں میں انتہائی رفیع الشان شخصیت کے مالک، لالچ اور نفسانی خواہشات تمھارے پاس نہ پھٹکتی تھی۔ ہر کمزور انسان تمھارے نزدیک اس وقت تک قوی تھا اور ہر قوی انسان اس وقت تک کمزور تھا جب تک تم قوی سے کمزور کا حق لے کر نہ دلوا دیتے تھے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں تمھارے اجر سے محروم نہ رکھے اور ہمیں تمھارے بعد بے یارومددگار نہ چھوڑدے بلکہ ہمارے سہارے کے لیے کوئی نہ کوئی سامان پیدا کردے‘‘۔
حضرت ابوبکرؓ میں ذمہ داری کا احساس اتنا تھا کہ گھنٹوں رویا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ کاش! میں پتھر ہوتا مگر امارت کے اس بار سے آزاد ہوتا۔ شخصی سیرت کا یہ حال تھا کہ کبھی کسی پر زیادتی نہ کی، کبھی کسی کو دُکھ نہ پہنچایا اور حق کی راہ میں کبھی کوئی کمزوری نہ دکھائی۔ خدمت خلق کا یہ عالم تھا کہ خلافت سے پہلے محلے کی جن بیوائوں کا سودا لا کر دیتے تھے اور جن کی بکریوں کا دودھ دوہا کرتے تھے خلافت کے بعد بھی اس کام کو اسی طرح جاری رکھا۔ دن کو امورِ خلافت کی دیکھ بھال اور رات کو عبادت کا اہتمام ان کا روزمرہ کا شعار تھا۔ ہمہ وقتی خدمت کے باوجود کوئی معاوضہ لینے پر تیار نہ ہوتے تھے اور بہ مشکل تیار ہوئے تو بھی وفات کے وقت ساری رقم اپنا مکان بیچ کر ادا کردی۔
یہ تھی خلیفۂ اوّل کی سیرت! اسی لیے آپؓ کی وفات پر حضرت عمرؓ نے کہا تھا کہ: ’’اے خلیفۂ رسولؐ اللہ! تمھاری وفات نے قوم کو سخت مصیبت اور مشکلات میں مبتلا کر دیا ہے، ہم تو تمھاری گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتے، تمھارے مرتبے کو کس طرح پاسکتے ہیں؟
حضرت عمرؓ جب خلیفہ ہوئے تو حضرت علیؓ نے ان کو یہ نصیحت کی تھی کہ ’’اگر آپ اپنے پیش رو کی جگہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو قمیص میں پیوند لگا لیجیے، تہمد اُونچی کیجیے، جوتے اپنے ہاتھ سے گانٹھ لیجیے، جرابوں میں پیوند لگا لیجیے، ارمان کم کیجیے اور بھوک سے کم کھایئے‘‘۔
حضرت عمرؓ اس معیار پر سختی سے قائم رہے کہ اس کی مثال تاریخ میں ملنا مشکل ہے۔ حضرت عمرؓ کسی کرّوفر کے قائل نہ تھے۔ زمین پر سوتے، پیدل پھرتے، اپنے اُونٹ کی نکیل تھام کر خود چلتے اور اپنے غلام کو آرام کرنے کے لیے اُونٹ پر بٹھا دیتے۔ اپنے کپڑے خود دھوتے اور کپڑے اتنے کم تھے کہ ایک مرتبہ مسجد وقت پر اس لیے نہیں آسکے کہ کوئی دوسرا جوڑا نہ تھا اور آپ اپنی قمیص دھو کر سُکھا رہے تھے۔ سادگی کا یہ عالم تھا کہ سفرشام کے دوران میں ایک جگہ راستے میں پانی عبور کرنا پڑا تو بے تکلف اُونٹ سے اُترے، چرمی موزے ہاتھ میں لیے اور اُونٹ کی نکیل تھام کر پانی میں گھس گئے۔ فوج کے سپہ سالار حضرت ابوعبیدہؓ ساتھ تھے۔ انھوں نے کہا کہ یہاں کے لوگ آپ کی اس بات کو دیکھ کر بڑا تعجب کریں گے، تو آپؓ نے فرمایا: ا ے ابوعبیدہؓ! کاش یہ بات تمھارے سوا کوئی اور کہتا۔ کیا تمھیں معلوم نہیں کہ ہم سب سے زیادہ ذلیل تھے، ہم سب سے زیادہ حقیر تھے اور ہم سے زیادہ کم تعداد کوئی اور قوم دنیا میں نہ تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے ہم کو اسلام کے ذریعے عزت دی۔ یاد رکھو! اگر تم اسلام کی بخشی ہوئی عزت کے سوا کوئی اور صورت عزت کی حاصل کرنا چاہو گے تو اللہ تعالیٰ تم کو ذلیل کردے گا‘‘۔
تقویٰ کا یہ حال تھا کہ دن بھر عوام کی خدمت میں اور اُمورِ سلطنت کی انجام دہی میں سرگرداں رہتے اور رات بھر عبادت کرتے اور کہتے کہ اگر میں دن کو غافل ہوجائوں تو اُمت تباہ ہوجائے اور اگر رات کو غافل ہوجائوں تو میں تباہ ہوجائوں۔ بیت المال سے بقدر کفالت لیتے اور اگر اپنے بچوں کے پاس بھی کوئی غیرمعمولی چیز دیکھ لیتے تو اس کو فوراً بیت المال میں داخل کرادیتے۔ قحط کے زمانے میں خود گوشت اور گیہوں کھانا ترک کردیا اور فرمایا کہ جب تک میں خود وہی تکلیف نہ اُٹھائوں جو عوام اُٹھا رہے ہیں، مجھے اِن کی مصیبت کا صحیح اندازہ کیسے ہوسکتا ہے۔ بیت المال کی چیزوں کی ایسی نگرانی کرتے تھے کہ ایک ہبّہ بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ نہیں جاسکتا تھا۔ اپنے اہل و عیال کے ساتھ کوئی رعایت نہ کرتے تھے اور ایک مرتبہ جب ان کی بیٹی نے اہل و عیال کو آرام پہنچانے کے لیے کہا تو فرمایا کہ اے بیٹی! تو نے اپنی قوم کے ساتھ تو خیرخواہی کی لیکن اپنے باپ کے ساتھ بدخواہی کی ہے۔ میرے اہل و عیال کا حق میری جان اور میرے مال میں ہے لیکن میرے دین اور میری امانت کے اندر انھیں دخل انداز ہونے کا کوئی حق نہیں۔ ایک مرتبہ بیت المال کا ایک اُونٹ کھو گیا تو آپ دھوپ میں مارے مارے پھرے تاکہ اس کو ڈھونڈھ لائیں۔ حضرت علیؓ نے یہ حال دیکھا تو بے ساختہ کہا: قَدْ أَتْعَبْتَ الْخُلَفَائَ بَعْدَکَ، ’’آپ نے اپنے بعد آنے والوں کو تھکا دیا‘‘۔
حضرت عمرؓ گلیوں میں پھرتے تھے کہ کوئی مستحق حکومت کی مدد سے محروم نہ رہ جائے اور اگر کسی کی مصیبت کا کوئی واقعہ سامنے آتا تو کانپ اُٹھتے۔ خود سامان اُٹھا کر لاتے، کھانا پکا کر کھلاتے اور کیا کیا کچھ نہ کرتے!
اور اس سب کے بعد بھی آخیر عمر میں کہا کرتے تھے کہ اگر برابر سرابر چھوٹ جائوں، نہ انعام ہی پائوں اور نہ ہی سزا کا مستحق ٹھیرایا جائوں تو بڑی بات ہے۔
حضرت عثمانؓ کا حال بھی یہ تھا کہ اپنا مال اور اپنی دولت دین اور اہلِ دین کی ضرورتوں کے لیے وقف کر رکھی تھی اور اُمت کی بہبود کی خاطر اپنا آرام تج دیا تھا، حتیٰ کہ قوم کو فتنے سے بچانے کے لیے اپنی جان تک قربان کردی۔
یہی عالم حضرت علیؓ کا تھا کہ ان کی زندگی میں کوئی کھوٹ نظر نہیں آتا اور وہ اپنی ہرصلاحیت اور اپنی طاقت کی ہر رمق اُمت کی بہبود کے لیے وقف کردیتے ہیں اور اپنی ذات کے لیے معمولی سے معمولی چیز بھی نہیں لیتے۔
خلفاے راشدینؓ نے اپنی ذاتی سیرت اور خدمت دین و مسلمین کے ذریعے اُمت کا اعتماد حاصل کیا اور اس دور کی جو بھی خوبیاں نظر آتی ہیں ان کے فروغ میں انسانیت کے انھی بہترین نمونوں کا بڑا دخل ہے۔ خلافت ِ راشدہ کا مزاج اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ دین کے بے لوث خادم اس نظام کو چلائیں جبھی وہ کامیاب ہوسکتے ہیں، اور جب یہ نظام قائم ہوجاتاہے تو زمین اپنے خزانے اُگل دیتی ہے اور آسمان اپنی نعمتیں برسانے لگتا ہے ، اور دنیا خیروصلاح سے بھر جاتی ہے۔
اُمت مسلمہ نہ انگلستان کا نظام چاہتی ہے نہ روس کا، نہ امریکا کے طریقوں سے اسے دل چسپی ہے نہ فرانس کے۔بلاشبہہ اپنے زمانے اور اپنی ضرورتوں کے مطابق ان کو اختیار ہے کہ سیاسی اور اداراتی دروبست کا اہتمام کریں، لیکن اصولِ اقدار اور معیار کے باب میں وہ تو خلافت راشدہ کے اصولوں کا احیا چاہتی ہے اور ہراس پیکر کو پسند کرے گی جو ان اصولوں کو ٹھیک ٹھیک قائم کرسکے ؎
اقبال لکھنؤ سے نہ دلّی سے ہے غرض
ہم تو اسیر ہیں خم زلفِ کمال کے
تاریخ ایک آئینہ ہے جس میں قوموں کے عروج و زوال کی داستان کے ہر دور اور ہرپہلو کی تصویر دیکھی جاسکتی ہے، اور اس مقولے میں بڑی صداقت ہے کہ جو تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے، تاریخ انھیں سبق سکھا کر رہتی ہے۔ سلطنت روما کے زوال کا نقشہ مشہور مؤرخ گبن نے ایک جملے میں اس طرح کھینچا ہے کہ: ’’روم جل رہا تھا اور نیرو بنسری بجا رہا تھا‘‘۔ بڑے دُکھ اور افسوس کے ساتھ ہمیں کہنا پڑتا ہے کہ گذشتہ ۱۰،۱۲ سال سے بلوچستان بُری طرح جل رہا ہے اور اس زمانے کی دونوں برسرِاقتدار قوتیں، یعنی پرویز مشرف کی فوجی حکمرانی اور اس کے بعد زرداری گیلانی کی نام نہاد جمہوری حکومت جلتی پر تیل ڈالنے کی مرتکب ہوئی ہیں۔ آج نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ امریکی کانگریس کیSurveillance and Oversight Committee نے ۸فروری ۲۰۱۲ء کو بلوچستان کے مسئلے پر باقاعدہ ایک نشست منعقد کی ہے، اور ۱۷فروری ۲۰۱۲ء کو اس کمیٹی کی سربراہ ڈینا روہربافر نے کانگریس میں باقاعدہ ایک مسودۂ قانون اپنے دو مزید ساتھیوں کے ساتھ جمع کرا دیا ہے جس میں بلوچستان کے پاکستان سے الگ ملک بنائے جانے اور بلوچوں کے لیے حق خود ارادیت کے حصول کی جدوجہد کی تائید اور سرپرستی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ یہ شرانگیز اقدام امریکی سیاسی قوتوں کی طرف سے اس نوعیت کی پہلی کوشش نہیں ہے۔ امریکا ایک طرف تو کہتا ہے کہ اگرچہ پاکستان ناٹو میں شامل نہیں مگر ناٹو میں شامل دیگر ملکوں کی طرح ہمارا حلیف اور دوست ہے اور ہمارا اسٹرے ٹیجک پارٹنر ہے، اور دوسری طرف پاکستان کی آزادی، حاکمیت، خودمختاری اور عزت پر بے دریغ حملے کرتا ہے۔ اس کی زمین اور فضائی حدود کو پامال کرتا ہے اور ملک میں تخریب کاری کی نہ صرف سرپرستی کرتا ہے، بلکہ سی آئی اے کے امریکی کارندوں اور پاکستانی بھاڑے کے ٹٹوؤں (mercenaries)کو بے دریغ استعمال کرتا ہے۔ بھارت بہت پہلے سے اس قسم کی مذموم حرکتوں کی پشتی بانی کرتا رہا ہے اور اب امریکی بھارتی اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ کا یہ مشترک ہدف ہے۔
امریکا اس وقت پاکستان کے خلاف بی-۳، یعنی Bribe، Blackmail اور Bully and Bullets(رشوت، بلیک میل اور گولی)کی حکمت عملی پر گامزن ہے۔ اس کا یہ خطرناک اور خونیں کھیل ریمنڈ ڈیوس کے جنوری ۲۰۱۱ء کے واقعے کے بعد اور کانگریس کی حالیہ کارروائیوں کی شکل میں زیادہ ہی گمبھیر ہوتا جارہا ہے۔ افسوس ہے کہ ہماری سیاسی اور فوجی قیادت اب بھی امریکا کے اصل کھیل کو سمجھنے اور اس کے مقابلے کے لیے جان دار حکمت عملی بنانے سے قاصر ہے، اور اس کے کردار اور عوام کے جذبات و احساسات میں خلیج روزبروز بڑھتی ہی جارہی ہے۔ ان حالات میں قوم کے لیے اس کے سوا کوئی اور عزت اور آزادی کا راستہ باقی نہیں رہا ہے کہ اس قیادت سے جلدازجلد نجات پائے اور ایسی قیادت کو برسرِاقتدار لائے جو پاکستان کی آزادی، حاکمیت، عزت اور مفادات کی بھرپور انداز میں حفاظت کرسکے اور اس کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے سے بھی دریغ نہ کرے۔
بلوچستان کے مسئلے کے دو اہم پہلو ہیں اور دونوں ہی بے حد اہم اور فوری اقدام کا مطالبہ کرتے ہیں۔ امریکا جو کھیل کھیل رہا ہے وہ نیا نہیں۔ اس کا ہدف پاکستان کی آزادی، اس کا نظریاتی تشخص اور اس کی ایٹمی صلاحیت پر ضرب ہے اور اب ایک عرصے سے اس ہمہ گیر حکمت عملی کے ایک پہلو کی حیثیت سے بلوچستان کارڈ استعمال کیا جارہا ہے۔ ہنری کسنجر سے لے کر حالیہ قیادت تک سب کے سامنے ایک مرکزی ہدف اُمت مسلمہ کی تقسیم در تقسیم اور اس کے وسائل پر بلاواسطہ یا بالواسطہ (مقامی چہروں کے ذریعے) قبضہ ہے۔ اس پالیسی کا پہلا ہدف مقامی قومیتوں کے ہتھیار کے ذریعے دولت عثمانیہ کا شیرازہ منتشر کرنا تھا۔ پھر افریقہ کو چھوٹے چھوٹے ملکوں میں بانٹ کر غیرمؤثر کردیا گیا۔ بالفور ڈیکلریشن کے سہارے عالمِ عرب کے قلب میں اسرائیل کا خنجر گھونپنا بھی کچھ دوسرے مقاصد کے ساتھ اسی حکمت عملی کا ایک حصہ تھا۔ پاکستان کو ۱۹۷۱ء میں دولخت کرنا، سوڈان اور انڈونیشیا کے اعضا کو کاٹ کر اپنی باج گزار ریاستیں وجود میں لانا، عراق اور افغانستان میں زبان، نسل اور مسلک کی بنیاد پر ان ممالک کی سرحدوں کو بدلنے کی کوشش، کرد قومیت کو ہوا دے کر عراق، ایران اور ترکی میں دہشت گردی اور خون خرابے کی آگ کو بھڑکانا، یہ سب اسی حکمت عملی کے مختلف پہلو ہیں۔
پاکستان ایک بار پھر اس صلیبی جنگ کی زد میں ہے۔ ۲۰۰۶ء میں رالف پیٹرز نے US Armed Forces Journal میں Blood Borders (خونیں سرحدیں) کے عنوان سے ایک شرانگیزمضمون لکھا جس میں پاکستان کی تقسیم اور تبدیل کی جانے والی سرحدوں کا نقشہ پیش کیا گیا ۔ اس میں آزاد بلوچستان کو ایک الگ ملک کی حیثیت سے دکھایا گیا تھا۔ بھارت اور امریکا دونوں اپنے اپنے انداز میں پاکستان میں تخریب کاری کے ساتھ علیحدگی کی تحریکوں کی سرپرستی کرتے رہے ہیں۔ اس وقت جب عوامی دبائو کے تحت پاکستان امریکا سے تعلقات کی نوعیت پر نظرثانی کر رہا ہے اور پاکستان، ایران اور افغانستان علاقے کے امن اور سلامتی کے لیے علاقائی بندوبست کی تلاش میں ہیں، پاکستان کے اندرونی حالات کو خراب کرنے کی کوششیں تیز تر ہوگئی ہیں۔ نیز امریکا اور بھارت دونوں کی نگاہ میں پاکستان اور چین کا قریبی تعلق اور خصوصیت سے بلوچستان میں چین کی بڑھتی ہوئی دل چسپی کا راستہ روکنے اور پاکستان ایران گیس پائپ لائن اور بجلی کی فراہمی میں تعاون کو مؤخر و ملتوی اور معاملے کو خراب کرنے کا کھیل کھیلاجارہا ہے۔
امریکا کے ان جارحانہ عزائم کو سمجھنا اور ان کا مؤثر انداز میں مقابلہ کرنا دفاعِ پاکستان کا اہم ترین پہلو ہے۔ اس کے لیے ’امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے نکلنا اور افغانستان سے امریکی اور ناٹو فوجوں کی مکمل اور جلد از جلد واپسی کے لیے علاقے کے ممالک کے تعاون سے فیصلہ کن جدوجہد کرنا وقت کی اصل ضرورت ہے۔ اس کے لیے قوم کو بیدار اور متحرک کرنا ازبس ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا کی کانگریس میں جو کھچڑی پک رہی ہے، اس کا سختی سے نوٹس لینا اور قوم کو اپنی آزادی اور امریکا کی گرفت سے نکلنے کے لیے متحد اور منظم کرنا ضروری ہے۔ امریکا کی طرف سے گذشتہ ایک سال میں جو کچھ ہوا ہے، خواہ اس کا تعلق ریمنڈ ڈیوس کو قانون کی گرفت سے چھڑا لے جانے سے ہو، یا ہردم بڑھتے ہوئے ڈرون حملوں سے، ۲مئی کا ایبٹ آباد کا حملہ ہویا ۲۶نومبر کا سلالہ چیک پوسٹ پر فوج کشی، یا فروری ۲۰۱۲ء کی کانگریس کی سفارتی لبادے میں سیاسی جنگ___ یہ سب ایک ہی زنجیر کی کڑیاں ہیں، جو قوم کو بیدار کرنے کے لیے تازیانے کی حیثیت رکھتی ہیں اور جن کا جواب موجودہ حکومت کے بس کا کام نہیں۔ اس چیلنج کا مقابلہ نئی باصلاحیت، دیانت دار اور قوم کی معتمدعلیہ قیادت ہی کرسکتی ہے۔
مسئلے کا دوسرا پہلو بلوچستان کے حالات اور ان کی اصلاح ہے۔ بیرونی ہاتھ اپنا کام کر رہا ہے مگر اسے یہ کھیل کھیلنے کا موقع ہماری اپنی سنگین غلطیاں اور حالات کو بروقت قابو میں نہ لانے بلکہ مزید بگاڑنے والی پالیسیاں ہیں۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے سانحے سے ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ ایک جمہوری وزیراعظم نے ۱۹۷۳ء کے دستور کے نفاذکے چند ماہ ہی کے اندر، بلوچستان کی منتخب حکومت کو برطرف کر کے سیاسی مسائل کے لیے فوجی حل کے تباہ کن راستے کو اختیار کیا، اور دستور کے مخلصانہ نفاذ سے جو برکتیں ملک و قوم کو حاصل ہوسکتی تھیں ان سے محروم کردیا۔ یہ ستم ظریفی سے کم نہیں کہ جو آگ پیپلزپارٹی کے پہلے دورِ حکومت میں لگائی گئی تھی وہ اس کے بعد وجود میں آنے والی ایک فوجی حکومت کے دور میں سرد پڑی اور تصادم کی وہ شکل ختم ہوئی جو تباہی کی طرف لے جارہی تھی۔ مقامِ افسوس ہے کہ اس کے بعد آنے والے نئے جمہوری اَدوار میں بھی نہ مرکزی قیادت نے اور نہ صوبے کی قیادت نے بلوچستان کے مسئلے کا صحیح حل تلاش کرنے کی کوئی منظم اور مؤثر کوشش کی، اور زیرزمین آگ پھر سُلگنے لگی جو پرویز مشرف کے فوجی حکمرانی کے دور میں ایک بار پھر بھڑک پڑی، اور آج نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ بلوچستان کے ایک بڑے علاقے میں پاکستان کا پرچم سرنگوں ہے اور پاکستان کا ترانہ خاموش ہوگیا ہے۔ قانون نافذ کرنے والی قوتیں ہی لاقانونیت کا مظاہرہ کر رہی ہیں اور اپنے ہی شہریوں پر آگ اور خون کی بارش کر رہی ہیں۔ لاپتا افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے اور سیکڑوں کی تعداد میں مسخ شدہ لاشیں بے گوروکفن تحفے کی صورت میں دی جارہی ہیں۔ نواب اکبر بگٹی جو بلوچستان کے مسئلے کے سیاسی حل کے لیے فیصلہ کن کردار ادا کرسکتے تھے، ان کو جس بے دردی اور رعونت کے ساتھ شہید کیا گیا ہے اور جس طرح انھیں سپردِخاک کیا گیا ہے، اس نے غم و غصے کا وہ سیلاب برپا کیا ہے جس نے صوبے ہی نہیں ملک کے دروبست کو ہلا دیا ہے۔
ہمیں بڑے دُکھ سے اس حقیقت کو بیان کرنا پڑ رہا ہے کہ بلوچستان اپنی تمام اسٹرے ٹیجک اہمیت اور معدنی اور مادی وسائل سے مالامال ہونے کے باوجود ملک کا پس ماندہ ترین صوبہ ہے اور معاشی اور سیاسی اعتبار سے بنیادی ڈھانچے سے محروم ہے۔ ملک میں بنیادی ڈھانچے (socio- economic infrasturcture)سے محرومی کے سلسلے میں پنجاب کا محرومی کا انڈکس ۲۹ فی صد، سندھ کا ۵۰ فی صد، خیبرپختونخواہ کا ۵۱ فی صد اور بلوچستان کا ۸۸ فی صد ہے۔ غربت کی انتہائی سطح پر رہنے والی آبادی پنجاب میں ۲۶فی صد، سندھ میں ۳۸ فی صد، خیبرپختونخواہ میں ۲۹ فی صد اور بلوچستان میں ۴۸ فی صد ہے۔ خواندگی کی شرح پاکستان میں ۵۰ فی صد ہے لیکن بلوچستان میں مردوں میں ۲۳ فی صد اور خواتین میں صرف ۷ فی صد ہے۔ بلوچستان جس کی گیس نے پورے پاکستان کو روشنی اور گرمایش دی ہے اور ۵۰برس سے دے رہا ہے، وہ صوبہ اس نعمت سے محروم رہا ہے۔ گیس کی دریافت کے ۳۲سال بعد ۱۹۸۶ء میں کوئٹہ میں گیس آئی ہے اور اب بھی بلوچستان کا ۷۸ فی صد حصہ گیس سے محروم ہے۔ گیس کی رائلٹی کے لیے بھی جو منبع پر مقررہ (well-head) قیمت اسے دی گئی ہے وہ دوسرے صوبوں سے نکلنے والی گیس کا بمشکل ۲۵ فی صد ہے۔
ایک تازہ مطالعے کے مطابق: ’’بلوچستان کے ہر دو باشندوں میں سے ایک خط ِ غربت کے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔ ہردو میں سے ایک کی صاف پانی تک رسائی نہیں ہے۔ ہر دو میں سے ایک بچہ پرائمری سکول کے سایے سے بھی محروم ہے۔ ہر تین میں سے صرف ایک بچے کو حفاظتی ٹیکے لگائے جاتے ہیں اور دو اس بنیادی حفاظتی سہولت سے بھی محروم ہیں‘‘۔(دی نیوز، ۲۱فروری ۲۰۱۲ئ)
اسی طرح ملازمتوںمیں بلوچستان کے لوگوں کی محرومی اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے۔ جو کوٹہ دیا گیا ہے وہ بھی کسی سرکاری یا نیم سرکاری ادارے میں ان کو میسر نہیں اور کم از کم گذشتہ سات برسوں میں،( جب کہ پارلیمنٹ کی کمیٹی براے بلوچستان (۲۰۰۵ئ) نے اس ناانصافی کے فی الفور خاتمے کا مطالبہ کیا تھا) کوئی نمایاں فرق نہیں پڑا ہے۔ ستمبر ۲۰۰۵ء میں پارلیمنٹ کی کمیٹی نے ۳۵ اہم سفارشات دی تھیں اور ان پر عمل اور نگرانی کے لیے ۹۰دن کے اندر اندر پارلیمانی کمیٹی کے تقرر کی سفارش کی تھی، مگر آج تک وہ کمیٹی بنی ہے اور نہ سفارشات میں سے بیش تر پر عمل ہوا ہے جس کی ذمہ داری مرکز اور صوبے دونوں کی قیادت پر آتی ہے۔ مجرمانہ غفلت کا حال یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں بڑی لے دے کے بعد چھے ماہ پہلے وزیر مذہبی امور جناب سید خورشیدشاہ صاحب کی سربراہی میں مسئلہ بلوچستان کے سیاسی حل کے لیے ایک کمیٹی بنائی گئی مگر آج تک اس کا اجلاس کوئٹہ میں نہ ہوسکا۔ صوبے کی اسمبلی اور حکومت کا جو حال ہے، وہ ناقابلِ بیان ہے۔ ۶۵؍ارکان کے اس ایوان میں ۵۸وزیر یا مشیر ہیں اور متعدد ایسے ہیں جنھیں چار برس میں بھی کوئی محکمہ نہیں ملا ہے، کوئی ذمہ داری نہیں ہے، مگر مراعات وہ پوری حاصل کر رہے ہیں۔ صوبے میں سب سے اہم کمیٹی پبلک اکائونٹس کمیٹی ہوتی ہے جو آج تک قائم نہیں ہوئی ہے اور متعدد قائمہ کمیٹیاں ہیں جن کے قیام کے لیے اتنی مدت گزر جانے کے باوجود کوئی زحمت آج تک نہیں کی گئی۔ وزیراعلیٰ مہینوں صوبے سے باہر (زیادہ تر اسلام آباد میں) رہتے ہیں لیکن صوبائی اسمبلی کے ہر ممبر کو ہرسال ۲۵کروڑ روپے ترقیاتی فنڈ کے نام پر دیے جاتے ہیں لیکن صوبے کے طول و عرض میں ترقیاتی عمل کا کہیں وجود نہیں۔ ۷۰ فی صد اسکول بند ہیں۔ پورے صوبے میں صرف ایک ہزار ۵ سو ۶۴ ڈاکٹر ہیںاور اس طرح ۴ہزار ایک سو ۹۸ افراد پر ایک ڈاکٹر بنتا ہے۔ لاقانونیت اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے حالانکہ فرنٹیر کور کے افسروں اور جوانوں کی تعداد ۵۰ہزار سے زیادہ ہے۔ گویا ہر ۱۳۰؍ افراد پر ایف سی کا ایک فرد متعین ہے۔
نئے این ایف سی اوارڈ کے تحت بلوچستان کا جو حصہ ملک کے محصولات (ٹیکس ریونیو) میں بنتا تھا، پہلی مرتبہ اس میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے لیکن اس کا کوئی اثر عام آدمی کی زندگی پر یا صوبے کی معاشی حالت اور ترقیاتی کام پر نظر نہیں آتا۔ فوج کا دعویٰ ہے کہ وہ بارکوں میں چلی گئی ہے مگر عملاً ایف سی اور خفیہ ایجنسیاں من مانی کر رہی ہیں۔ مرکز اور صوبوں میں ایک ہی پارٹی کی حکومت ہے لیکن صوبے کا وزیراعلیٰ برملا کہتا ہے کہ ایف سی میرے قابو میں نہیں۔عملاً فوجی آپریشن جاری ہے۔ صرف ۲۰۱۱ء کے بارے میں سرکاری اعدادوشمار کے مطابق دہشت گردی کے ایک ہزار ۴سو۷۶ واقعات ہوئے ہیں جن میں ۳۶ بم حملے، ۶۸دھماکے اور ۱۳۴ گیس تنصیبات پر حملے شامل ہیں۔ ان حملوں میں ۱۱۷ راکٹ فائر ہوئے اور ۲۱۵ بارودی سرنگوں کے دھماکے ہوئے۔ ۲۹۱؍افراد کو اغوا کیا گیا۔ صرف ایک سال میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہے۔ گذشتہ چند برسوں میں لاپتا افراد کی۲۷۰ مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں۔ ایک طرف بلوچ نوجوانوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے، تو دوسری طرف پنجاب اور دوسرے صوبوں سے آکربسنے والے لوگوں کے ڈھائی سو سے زیادہ بے گناہ افراد، مردوں، عورتوں، بچوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا ہے۔ پھر اس میں مسلک کی بنیاد پر کشت و خون کا بھی ایک حصہ ہے اور تازہ ترین واقعات میں پشتون مزدوروں کو بھی موت کے گھاٹ اُتارا جارہا ہے۔ اس کشت و خون کی ذمہ داری سب پر ہے۔ فوج، ایف سی، کوسٹل گارڈز، پولیس، لیوی اور علیحدگی پسند جماعتوں کے مسلح ونگ، سب کے ہاتھوں پر معصوم انسانوں کا خون ہے اور فوج، ایف سی اور خفیہ ایجنسیوں کی فوج ظفر موج کے باوجود نہ اصل مجرم پکڑے جاتے ہیں اور نہ ان بیرونی ہاتھوں کی نشان دہی ہوپاتی ہے جن کا بڑے طمطراق سے باربار ذکر کیا جاتا ہے۔
مسئلے کا یہ پہلو بیرونی عناصر کی شرانگیزیوں سے بھی کچھ زیادہ ہی اہم ہے اور جب تک یہ مسئلہ اپنے تمام سیاسی، سماجی اور معاشی پہلوئوں کے ساتھ حل نہیں ہوتا، بیرونی قوتوں کے کردار پر بھی قابو نہیں پایا جاسکتا۔ اصل مسئلہ سیاسی، معاشی اور اخلاقی ہے۔ حقیقی شکایات کا ازالہ ہونا چاہیے۔ فوجی آپریشن کسی بھی نام یا عنوان سے ہو، وہ مسائل کا حل نہیں۔ حل کا ایک ہی راستہ ہے، اور وہ اس مسئلے سے متاثر تمام افراد ( اسٹیک ہولڈرز) کو افہام و تفہیم اور حق و انصاف کی بنیاد پر مل جل کر حالات کی اصلاح کے لیے مجتمع اور متحرک کرنا ہے۔ مذاکرات کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ اعتماد کا فقدان بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ اس لیے اعتماد کی بحالی ہی پہلا قدم ہوسکتی ہے جس کے لیے فوجی آپریشن کا خاتمہ، عام معافی، تمام گرفتار شدہ اور لاپتا افراد کی بازیابی، نواب اکبربگٹی کے قاتلوں کے خلاف کارروائی کا آغاز اور بہتر فضا میں تمام سیاسی اور دینی قوتوں کی شرکت سے نئے انتخابات اور ایک بہتر قیادت کا زمامِ کار سنبھالنا ناگزیر ہے۔ بیرونی قوتوں کے کھیل کو بھی اسی وقت ناکام بنایا جاسکتا ہے جب ہم اپنے گھر کی اصلاح کریں اور جو حقیقی شکایات اور محرومیاں ہیں ان کی تلافی کا سامان کریں۔ ۲۰۰۵ء کی پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات اور ۲۰۱۰ء کا بلوچستان کا پیکج سیاسی حل اور انتظامِ نو کے لیے اولین نقشۂ کار کی تیاری کے لیے بنیاد بن سکتے ہیں۔ اصل چیز اعتماد کی بحالی، سیاسی عمل کو شروع کرنا اور تمام قوتوں کو اس عمل کا حصہ بنانا ہے۔ عوام ہی کو حقیقی طور پر بااختیار بنانے سے نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔ بہت وقت ضائع ہوچکا ہے۔ ایک ایک دن اور ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔ یہ ہمارا گھر ہے اور ہم ہی کو اسے بچانا اور تعمیرنو کی ذمہ داری ادا کرنا ہے۔ مسئلہ صرف بلوچستان کا نہیں بلکہ پاکستان کا ہے۔ بلوچستان کا پاکستان سے باہر کوئی مستقبل نہیں ہے اور نہ پاکستان کا بلوچستان کے بغیر وجود ممکن ہے۔ سیاسی اور عسکری دونوں قیادتوں کا امتحان ہے۔ اس لیے کہ ؎
یہ گھڑی محشر کی ہے ، تو عرصہ محشر میں ہے
پیش کر غافل اگر کوئی عمل دفتر میں ہے
اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ایک عقیدۂ آخرت ہے۔ انسانی زندگی میں بھی اس عقیدے کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ جیسا عقیدہ ہوتا ہے ویسا ہی انسان اور اس کے اعمال ہوتے ہیں۔ کوئی آدمی عقیدے میں پختہ ہو یا کمزور، یہ ضمنی بحثیں ہیں، لیکن اصلاً جس عقیدے کا حامل جو شخص ہوتا ہے اس کے اعمال، افعال، رویے اور کردار پر لازماً اس کا گہرا اثر اور چھاپ ہوتی ہے۔
عقیدۂ آخرت اس یقین کا نام ہے کہ یہ دنیا اور یہ زندگی فانی ہے۔ اس عالم کے بعد ایک دوسرا عالم وجود میں آنا ہے۔ جس طرح سے عالم دو ہیں، اس طرح سے زندگیاں بھی دو ہیں۔ گویا اس کو یوں کہا جاسکتا ہے کہ اصلاً زندگی تو ایک ہی ہے، جس چیز کا نام ہم نے موت رکھا ہوا ہے، اس کی آمد سے وقتی اور عارضی طور پر محض زندگی کا مرحلہ بدل جاتا ہے مگر زندگی اور اس کا تسلسل برقرار رہتا ہے۔ اس زندگی کو ہم عارضی یا ناپایدار زندگی کہتے ہیں، اور وہ زندگی جو موت کے دراوزے سے گزر کر شروع ہوتی ہے، پایدار، باقی رہنے والی، دائمی اور ہمیشہ کی زندگی قرار پاتی ہے۔ قرآن پاک میں جابجا اس حوالے سے جواب دہی کا احساس اور آخرت کا حوالہ موجود ہے:
وَ بِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ (البقرہ ۲:۴) اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔
اَیَحْسَبُ الْاِِنْسَانُ اَنْ یُّتْرَکَ سُدًیo (القیامۃ ۷۵:۳۶) کیا انسان نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ یوں ہی مہمل چھوڑ دیا جائے گا؟
تمام اعمال کی جواب دہی اسی عقیدۂ آخرت کی بنیاد پر ہے۔ محاسبۂ اعمال کی تفصیل قرآن پاک کے اوراق کے اندر بکھری ہوئی ہے۔ سورئہ واقعہ، سورئہ معارج، سورئہ حاقہ، سورئہ قیامہ، سورئہ تکویر اور سورئہ نبا، یہ وہ سورتیں ہیں کہ جن میں قیامت اور آخرت کی ہولناکیوں اور مجرمین پر اللہ تبارک و تعالیٰ کے عذاب کا تذکرہ ہے، نیز روزِ محشر کی تفصیلات ہیں۔ سورج کا لپیٹ دیا جانا اور ستاروں کا بے نور ہو جانا، اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے، جو انسان جو کچھ لے کر آیا ہے، اس کو اپنا کیا دھرا سب معلوم ہوجائے گا، جب آسمان پھٹ جائے گا، ستارے جھڑ جائیں گے اور جب دریا ایک دوسرے سے مل کر بہہ نکلیں گے، جس دن صور پھونکا جائے گا اور یکایک قبروں سے لوگ اُٹھ کھڑے ہوں گے، اور اپنے رب کی طرف چل پڑیں گے اور پکاریں گے: ہاے ہماری کم بختی، کس نے ہماری خواب گاہوں سے ہمیں جگادیا اور یہ تو وہی قیامت کادن ہے، جس کا حق تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا اور رسولوں نے اس کے بارے میں سچی خبریں ہم تک پہنچائی تھیں___ یہ وہ منظرکشی ہے جس سے تسلسل کے ساتھ آخرت اور اس کی جواب دہی اور اس حوالے سے انسانوں کے اعمال کو دیکھا اور پرکھا جانا سامنے آتا ہے۔
ایمان کے بعد انسانی زندگی کو سنوارنے، اس کو حقیقی کردار کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے اوراس کو درست رُخ دینے کے لیے اور منزل کا شعور بخشنے کے لیے اگر کوئی عقیدہ ہے تو وہ آخرت کا عقیدہ ہے۔ آخرت کی فکر کے لیے یہ پوری منظرکشی قرآنِ مجید اور احادیث میں ملتی ہے۔ یہ وہ کیفیت ہے جو مطلوب ہے،اس لیے کہ فکرِ آخرت انسانی جمود کو توڑنے کا نہایت مؤثر ذریعہ ہے۔ جب انسان بے عمل ہوجائے، غلط راہوں پر چل نکلے، گم کردۂ راہ ہوجائے، سب کچھ جانتے ہوئے عملی زندگی میں انجان سا بن جائے، تو یہ آخرت کی فکر انسان کے جمود کو توڑنے اور اس کے ایمان پر لگ جانے والے زنگ کو اُتارنے، دیگر افکار اور پریشانیوں سے کاٹ کر آخرت کے شعور کی طرف لانے کے لیے نہایت مؤثر ذریعہ ہے۔
جناب صدیق اکبرؓ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پرانے ساتھی تھے۔ عمر میں بھی دو ہی سال کا فرق تھا، گویا بچپن ہی سے ایک دوسرے کو دیکھتے آئے تھے۔ جناب صدیق اکبرؓ نے عرض کی: یارسولؐ اللہ! آپؐ پر تو بڑھاپا آگیا ہے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: ہاں، مجھے بوڑھا کر دیا سورئہ ہود، سورئہ واقعہ، سورئہ مرسلات، سورئہ نبا اور سورئہ تکویر نے۔ (ترمذی)
ان سورتوں کی اگر تلاوت کی جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ وہی سورتیں ہیں جن میں قیامت اور آخرت کا بیان ہے۔ ان میں اس پکڑ، بازپُرس اور تنبیہ کا بیان ہے جو آخرت برپا ہونے سے پیش تر کی جارہی ہے۔ نبی کریمؐ ان سورتوں کی تلاوت کرتے تھے تو آپؐ پر رقت طاری ہوجاتی تھی اور ریش مبارک آنسوئوں سے تر ہوجاتی تھی۔ آپؐ چونکہ داعیِ اعظم اور داعیِ اوّل تھے، اس لیے یہ خوف بھی آپؐ کو ستاتا تھا کہ اگر یہ لوگ اس دعوت کو قبول نہیں کریں گے تو لازماً پکڑے جائیں گے،اور اس طریقے سے بارگاہِ رب العزت میں دھر لیے جائیں گے۔ یہ وہ کیفیت تھی کہ جس میں جواب دہی اور دوسروں کی نجات کے لیے فکرمند ایک داعی کی حیثیت سے آپؐ سرشار رہتے تھے۔ لوگوں تک پہنچنا، ان کے دلوں پر دستک دینا، ان کو سیدھے راستے پر لانا، جہنم کی آگ سے بچانا اور قبر کی پکڑ سے محفوظ رکھنے کے لیے تمام جتن کرنا، ان کی فکرمندی کا عنوان تھا۔
اپنی گھریلو زندگی میں بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس فکرمندی میں گُھلے جاتے تھے۔ ان کیفیات کا تذکرہ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے مروی احادیث میں ملتا ہے۔ اُم المومنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: میں نے حضوؐر کو بارہا یہ دعا مانگتے ہوئے سنا کہ اللّٰھُمَّ حَاسِبْنِیْ حِسَابًا یَسِیْرًا ، ’’اے اللہ! مجھ سے آسان حساب لیجیے‘‘، تو میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسولؐ! آسان حساب کی کیا صورت ہوگی؟ آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ایک شخص کے اعمال نامے کو دیکھے گا اور بس اس سے صرفِ نظر فرما لے گا، تو یہ آسان حساب ہوگا۔ پھر آپؐ نے فرمایا: اے عائشہ! اس دن جس شخص سے واقعی پوچھ گچھ ہوگئی تو وہ شخص ہلاک ہوا، وہ شخص ہلاک ہوا، وہ شخص ہلاک ہوا۔ اسی لیے آپؐ نے یہ دعا بھی سکھائی۔
موت جس چیز کا نام ہے، اور جس سے ہم بہت اچھی طرح واقف ہیں، یہ بڑی ہولناک چیز ہے۔ موت کے بعد کے جو واقعات قرآن اور حدیث میں ملتے ہیں، وہ تو اور بھی زیادہ ہولناک ہیں۔ ان کے تذکرے سے بھی آخرت کی فکر پیدا ہوتی ہے اوراعمال کے اندر تضاد، تناقض اور منافقت و ریاکاری دُور کرنے کا جذبہ انسان کے اندر پروان چڑھتا ہے۔ موت سے زیادہ یقینی چیز کوئی بھی نہیں۔ یہ بڑی ہی تلخ حقیقت ہے اور اس کڑوے گھونٹ کو پیے بغیر گزارہ بھی نہیں ہے۔ اس سے انسانوں کو مَفر نہیں ہے۔
حضرت سعد بن معاذؓ بڑے جلیل القدر صحابیؓ ہیں۔ نبی کریمؐ آپ کی نمازِ جنازہ پڑھا رہے ہیں۔ آپؐ ہی کے مبارک ہاتھوں ان کی تدفین عمل میں آرہی ہے۔ لیکن ان تمام چیزوں سے قطع نظر اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے نبی کریمؐ کے ذریعے سے ہمیں یہ تعلیم دے رہا ہے کہ قبر کی پکڑ کسے کہتے ہیں، قبر کا سکڑ جانا اور اس کے نتیجے میں انسانوں کا بھینچا جانا کسے کہتے ہیں، اور قبر کی حقیقت کیا ہے!
حقیقت یہ ہے کہ اس نوعیت کے اَن گنت واقعات ہیں جو صحابہ کرامؓ کی زندگیوں سے ملتے ہیں کہ وہ کس فکر کے اندر غلطاں و پیچاں رہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ صدیق اکبرؓ کہتے کہ کاش! میں تنکا ہوتا۔ اس کا کوئی حساب کتاب تو نہیں ہوتا، اور اس کی کوئی پوچھ گچھ تو نہیں ہوتی۔ حضرت عمرؓ فرمایا کرتے تھے کہ کاش! کوئی ایسی صورت نکل آئے کہ میں چھوٹ جائوں۔
آخرت کا بہت گہرا تعلق فکرِ دنیا سے ہے۔ ان دونوں کے درمیان توازن اور اعتدال ہی انسان کو راہِ راست پر رکھتا ہے۔ اگر انسان فکرِ دنیا کے اندر دُور تک چلا جائے توفکرِ آخرت اس سے گم ہوجاتی ہے۔ اس لیے فکرِ آخرت کی دولت پانے کے لیے خود دنیا کا تصور واضح اور دوٹوک ہونا چاہیے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کی جماعت کے ساتھ چل رہے تھے کہ کوڑے کے ڈھیر پر بکری کا مرا ہوا بچہ پڑا تھا۔ آپؐ نے صحابہ کی طرف رُخ کر کے فرمایا کہ تم میں سے کوئی بکری کے اس بچے کو ایک درہم میں لینا پسند کرے گا؟ صحابہ کرامؓ قدرے حیران ہوئے اور عرض کیا: یارسولؐ اللہ! یہ تو بکری کا مرا ہوا بچہ ہے، ہم میں سے تو کوئی اس کو مفت میں لینا بھی گوارا نہیں کرے گا۔
ذرا دیکھیے کہ کس طرح آپؐ تعلیم دیتے ہیں، کیسے ذہنوں کو آمادہ کرتے اور لوگوں کو متوجہ کرتے ہیں۔ پھر آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کی حیثیت اس بکری کے مرے ہوئے بچے سے بھی کم تر ہے۔ مراد یہ ہے کہ جس دنیا کی فکر میں ہم دن رات لگے رہتے ہیں، تگ و دو کرتے ہیں اور اسی کے غم میں نڈھال ہوتے، جوانی کے اندر بوڑھے نظر آنے لگتے ہیں، اس دنیا کی یہ حیثیت ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بتا رہے ہیں۔
آپؐ نے فرمایا: دریا کے اندر انگلی ڈالو اور باہر نکالو تو جو پانی اس انگلی کے اُوپر لگا رہ جائے گا، وہ دنیا کی زندگی ہے، اور جو ٹھاٹھیں مارتا ہوا پانی باقی رہے گا، وہ آخرت کی زندگی ہے۔
یہ دنیا تو لمحوں، مہینوں، اور برسوں کی اتنی طوالت کے باوجود بہت کم، بہت ہی بے مایہ اور بے حیثیت ہے، جب کہ آنے والی زندگی کبھی نہ ختم ہونے والی ہے، جس کی کامیابی اصل کامیابی اور ناکامی اصل ناکامی ہے۔ اس دنیا میں پائی جانے والی کامیابی عارضی ہے، پانی کا بُلبلہ ہے کہ ابھی ہے اور ابھی نہیں۔ یہاں کی ناکامی اور یہاں کا غم بھی بالکل عارضی ہے کہ وہ اچانک ختم ہوجاتا ہے۔ دنوں کی رفت گزشت کے نتیجے میں ذہنوں سے دُھل جاتا ہے۔ اس لیے تصورِ آخرت کے ساتھ ساتھ خود تصورِ دنیا بھی احادیث پاک میں بڑی وضاحت کے ساتھ ہمارے سامنے آتا ہے۔
حضرت ابوذر غفاریؓ ایک مجلس میں تشریف فرما تھے۔ ملازم کو دیکھا تو اس کو آواز دی اور کہا کہ جائودیکھو میرے اُونٹوں میں سے جو سب سے اچھا اُونٹ ہے، وہ اللہ کی راہ میں دے دو اور قربان کر دو۔ کچھ دیر کے بعد ملازم آیا اور اطلاع دی کہ کام ہوگیا ہے۔ شام کو جب آپؓ اپنے گھر پہنچے تو دیکھا کہ اُونٹوں میں سے جو سب سے اچھا سُرخ اُونٹ تھا، وہ اسی طرح زندہ سلامت کھڑا ہے۔ آپؓ نے ملازم کو بلایا اور کہا کہ نیک بخت میں نے تجھ سے کہا تھا کہ سب سے اچھا اُونٹ اللہ کے راستے میں دے دو، اور تو نے نہایت ہی مریل اُونٹ اللہ کے راستے میں قربان کردیا۔ اس نے کہا: یہ تو دراصل وہ اُونٹ ہے جو آپؓ سواری میں استعمال کرتے ہیں، بُرے وقت میں کام آتا ہے، سفر میں آپؓ کا ساتھ دیتا ہے، اس لیے میں نے اس اُونٹ کو رہنے دیا۔ حضرت ابوذرؓ نے کہا کہ ارے نیک بخت! تجھے پتا ہی نہیں کہ مجھے کس دن کی سواری کے لیے اُونٹ مطلوب تھا۔ جب کوئی سواری میسر نہ ہوگی تو اس لمحے کے لیے مجھے یہ اُونٹ مطلوب تھا۔ میں اس دن کے لیے یہ اُونٹ چاہتا تھا کہ جب کسی انسان کو سایہ بھی میسر نہ آئے گا اور کوئی بھی سہارا اس کو نہیں ملے گا___ یہ ہے تصورِ دنیا اور تصورِ آخرت۔ یہ تصور درست ہوگا تو فکر بھی درست ہوگی اور صحیح رُخ پر اس کی تشکیل ہوگی۔
اس زندگی میں تصورِ مال کا درست ہونا بھی بہت ضروری ہے کہ مال کی حقیقت کیا ہے؟ وہ جو واقعہ آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر تشریف لائے اور اُمہات المومنینؓ سے پوچھا کہ گھر میں کچھ کھانے کے لیے ہے؟ انھوں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! آج ایک بکری ذبح کی گئی تھی اسے محلے میں، رشتہ داروں میں اورعزیزو اقارب میں تقسیم کر دیا گیا ہے، بس دست کا ایک ٹکڑا باقی ہے۔ دیکھیے آپؐ نے کیا فرمایا؟ آپؐ نے فرمایا: جو دے دیا گیا، دراصل وہی باقی ہے اور جو رہ گیا وہ کس کے کام آنا ہے۔
اصل مسئلہ تو تصورات کا ہے۔ اگر تصورات درست ہوں گے تو فکر بھی درست اور ٹھیک ہوگی اور عمل کی وادی میں آدمی صحیح سمت کی طرف چلے گا۔ یہ تصورِ آخرت ہی تو ہے کہ جو دے دیا گیا وہی دراصل باقی ہے اور جو باقی رہ گیا، وہ بھلا کس کے کام آنا ہے۔
ہمارا روزمرہ کا تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ اللہ کی راہ میں جب دینے کا موقع آتا ہے تو بھلے سے بھلا آدمی بھی یہ سوچنے لگتا ہے کہ چلو گھر کی صفائی کا نادر موقع ہاتھ آیا ہے۔ لوگ پھٹے پرانے کپڑے، گھسے پٹے جوتے اور ٹوٹے پھوٹے برتن اور دوسرا سامان وغیرہ نکال نکال کر راہِ خدا میں دیتے ہیں۔ افسوس صد افسوس کہ ذہن کے کسی گوشے میں یہ بات نہیں ہوتی کہ میں یہ اپنے آپ کو دے رہا ہوں، اس لیے کہ جب ہم وہاں پر پہنچیں گے تو یہی پھٹے پرانے کپڑے اور ٹوٹے پھوٹے جوتے، اور گیا گزرا سامان ہمارا انتظار کر رہا ہوگا کہ تم نے اپنے آپ کو یہی دیا تھا نا۔ اب یہی کھائو، پیو اور عیش کرو!
ہمارے ذہن میں یہ بات آتی ہی نہیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں؟ خیال تو یہی ہوتا ہے کہ راہِ خدا میں دیا جا رہا ہے۔ اگر انسانی ذہن اس بات کو سوچنے اور بالآخر اس کے مطابق اپنے یقین کو پختہ کرنے کے لیے آمادہ ہوجائے کہ یہ دراصل میں اپنے آپ کو دے رہا ہوں، یہ فی الحقیقت خود میری ذات کے لیے سرمایہ کاری ہے، تو اس کا رویہ بدل جائے گا۔ پھر وہ بہتر سے بہتر دے گا، اچھے سے اچھا دے گا، جس چیز سے محبت کرتا ہے، اسی سے انفاق کرے گا۔ اس لیے تصورِ مال کا درست ہونا، تصورِ دنیا کا درست ہونا ضروری ہے اور اسی کے نتیجے میں تصورِ آخرت درست ہوتا ہے جو مطلوب ہے۔
حضرت ابوسعید خدریؓ مشہور صحابی ہیں۔ نبی کریمؐ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے۔ انھوں نے سورئہ مطففین کی آیت: یَوْمَ یَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (وہ دن جب تمام انسانوں کو بارگاہِ رب العزت میں لاکھڑا کیا جائے گا۔۸۳:۶) کی تلاوت کی اور عرض کیا: یارسولؐ اللہ! روزِ محشر جو ہزار سال سے بھی بڑا دن ہوگا، کس کے اندر یہ طاقت اور مجال ہوگی کہ اللہ کی بارگاہ میں کھڑا رہ سکے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ ابوسعید! وہ دن نافرمانوں اور مجرموں اور باغیوں کے لیے بڑا سخت ہوگا۔
مصیبت کا دن تو ویسے ہی بڑا سخت ہوتا ہے۔ مصیبت کی گھڑی ٹلنے کو نہیں آتی۔ کسی آزمایش سے انسان دوچار ہوجائے تو لگتا ہے کہ نہ معلوم کب سے اس آزمایش کے اندر گھرا ہوا ہے۔ کچھ یاد بھی نہیں آتا کہ کبھی خوشی و مسرت سے بھی ہم کنار ہوا تھا لیکن آپؐ نے فرمایا کہ مومنوں کے لیے اس دن کو آسان بنا دیا جائے گا اور وہ اپنے رب کے جلوے سے سرفراز ہوںگے، اور ان کے چہرے شاداں و فرحاں ہوں گے، سورئہ قیامہ کی آیت کَلَّا بَلْ تُحِبُّونَ الْعَاجِلَۃَ o وَتَذَرُوْنَ الْاٰخِرَۃَ o وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ (۷۵: ۲۰-۲۲) کی گویا آپؐ نے تشریح فرمائی کہ اس روز کچھ چہرے تروتازہ ہوںگے، شاداں و فرحاں ہوں گے، چمکتی دمکتی پیشانیوں کے ساتھ پُرامید نگاہوں کے ساتھ، اپنے رب کی طرف بڑھ رہے ہوںگے، اس نعمت کو لینے کے لیے اور انعامات کا مستحق ٹھیرنے کے لیے اور اپنے رب کے دربار سے سرخ رُو ہونے کے لیے۔
ایک طرف یہ منظر ہے کہ لوگ شاداں و فرحاں ہوںگے اور اُمید بھری نگاہوں سے اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔ وہاں ایک دوسرا منظر بھی ہے۔ کچھ چہرے اُداس ہوں گے، آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی، اور ان کو یہ خیال ستا رہا ہوگا کہ عنقریب ایک کمرتوڑ سلوک ان کے ساتھ کیا جانے والا ہے۔ ماننے والوں اور انکار کرنے والوں کی تصویر میں یہ فرق بڑا واضح ہوگا۔ ایک گروہ رحمتِ الٰہی کی اُمیدیں لیے ہشاش بشاش ہوگا، چمکتی پیشانیوں اور کھِلے چہروں کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہوگا، وہیں دوسرا گروہ عذابِ الٰہی کے اندیشوں سے بدحواس، اور اپنے رب کی پکڑ اور اس کے دربار میں جو سلوک اس کے ساتھ کیا جانا ہے اس کی سختی سے بے حال ہوگا۔
روزِ محشر کا یہ بیان قرآن پاک کے اندر اور بہت سے مقامات پر موجود ہے اور احادیث میں نبی اکرمؐ نے تفصیل سے اسے بیان فرمایا ہے۔ ظاہر ہے کہ میدانِ حشر کا یہ منظر موت کے دروازے سے گزر کر ہی نظر آئے گا۔ موت ایک ایسی حقیقت ہے کہ ہم تو اس کے تذکرے سے بھی تھوڑے سے گریزاں اور کتراتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ نبی کریمؐ کی مجلسوں کا موضوع تو آخرت اور موت کی یاد ہوا کرتا تھا۔ لوگ اس حوالے سے اپنی پوری زندگی کو استوار کرتے اور اس کو بنیاد بناتے تھے۔ ادھر ہمارے ہاں اگر بھری بزم کے اندر کوئی موت کا تذکرہ لے بیٹھے تو لوگ اسے بدشگونی سمجھتے ہیں۔
پھر وہ مرحلہ آجاتا ہے جب پنڈلی سے پنڈلی لپٹ جائے گی، وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ(القیامۃ ۷۵:۲۹)، یعنی جاں کنی کا مرحلہ۔ جب انسان نہ چل سکے گا، انھی پنڈلیوں کے بل پر ہی تو انسان چلتا پھرتا اور جولانیاںدکھاتا ہے۔ ادھر سے مال بھیجا، اُدھر سے چھڑا لیا، اُدھر اتنے لینے کے دینے اور اِدھر اتنے دینے کے لینے، یہاں اکائونٹ کھولا اور وہاں اکائونٹ کھولا، لمحوں کے اندر دولت مند بن گیا۔ اِدھر لوگوں کو ملازم رکھا اوراُدھر برطرف کر دیا، ایک قلم اور ایک دستخط سے نہ جانے کتنے لوگوں کی قسمت کا فیصلہ کرڈالا۔
پھر جب رب کی طرف لوٹنے کا سفر شروع ہوتا ہے تو ایک ایک کر کے منظر بدلتے چلے جاتے ہیں۔ کسی موذی بیماری یا طویل علالت کا زمانہ شروع ہوتا ہے تو وہی جہاں دیدہ، مشہور و معروف، محفل کی جان اور اپنے بچوں کے لیے آسمان کے تارے توڑ لانے کے لیے سرگرم فرد بستر سے لگا پڑا ہوتا ہے۔ کہتا ہے کہ میرے بچوں کو بلائو، مگر بچے مال و دولت سمیٹنے میں اور مینجمنٹ کی ذمہ داریوں میں مصروف ہوتے ہیں۔ پیغام ملتے ہی کہتے ہیں کہ کس مصروف وقت میں ابّاحضور یا دادا جان نے ناگاہ طلب فرمایا ہے۔ ایک اُکتاہٹ، ایک بے زاری کی کلونس چہرے پر چھا جاتی ہے، اور جب آتے ہیں تو جلد واپس جانے کا بہانہ پہلے ہی سے گھڑ کے ساتھ لاتے ہیں۔ ابا حضور کی آنکھیں توو ہی ہوتی ہیں لیکن دھندلائی ہوئی اور دیکھنے سے انکاری۔ وہی کان ہوتے ہیں لیکن سننے سے عاری ہوجاتے ہیں۔ پھر ان کے پہچاننے کی صلاحیت ہی ختم ہوجاتی ہے۔ وہ زبان سے کچھ کہنا چاہتے ہیں لیکن کہہ نہیں پاتے۔ کہتے کچھ ہیں، مگر ادا کچھ ہوتا ہے۔ اس لمحے کوئی سعادت مند بچہ پکارتا ہے کہ بلائو ڈاکٹر یا حکیم کو، بلائو قاری صاحب کو کہ آیت کریمہ کا ختم کرائیں، سورئہ یٰس کی تلاوت شروع کر دو۔
یہ کوئی انوکھا منظر نہیں ہے، یہ عمل تو روز ہمارے گھروں میں ہوتا ہے۔ اس منظر سے تو ہم روز گزرتے ہیں اور پھر اُس کے بعد اُٹھ کر چلے آتے ہیں۔ ہم میں سے کون ہے کہ جو گن کر بتا سکے کہ اس نے کتنے لوگوں کو کندھا دے کر قبر تک پہنچایا ہے۔ ہم اَن گنت اور لاتعداد لوگوں کے جنازوں کو کندھا دیتے ہیں۔ وہ بھی اَن گنت اور لاتعداد ہیں کہ جن کی قبر کے کنارے کھڑے ہوکر، انسان کو قبر میں اُتارنے کا منظر ہم دیکھتے ہیں اور کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ذرا اس قبر کو اور گہرا کھودو اور میت کو مزید نیچے اُتارو۔ اسے نیچے اُتارنے میں پانچ چھے منٹ لگتے ہیں اور مٹی ڈالنے میں مزید چند منٹ۔ پھر اس کے اُوپر مٹی یا پتھر رکھنے کی کوشش ہوتی ہے کہ ہوا کا تازہ جھونکا تک اسے نہ پہنچ پائے۔ مٹی ڈال کر اس دنیا سے اس کا رابطہ اور ناتا بالکل منقطع اور ختم کر دیا جاتا ہے___ مِنْھَا خَلَقْنٰکُمْ وَفِیْھَا نُعِیْدُکُمْ وَمِنْھَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً اُخْرٰی ’اسی زمین سے ہم نے تمھیں پیدا کیا، اور اسی میں ہم تمھیں لوٹا رہے ہیں، اور اسی سے ہم تمھیں دوبارہ اٹھائیں گے‘‘۔
اس طرح سب لوگ جمع ہوکر میت کو منّوں مٹی تلے دبا دیتے ہیں۔ اس دوران میں کسی کو کوئی خوف نہیں آتا کہ یہ میرا دوست ہے، یہ میرا بھائی ہے، یہ میرا باپ ہے، یہ میرا بیٹا ہے، یہ میری ماں ہے، جسے ہم منوں مٹی تلے دبا رہے ہیں۔ یہ سارے دوست، احباب اور رشتہ دار ہی ہوتے ہیں۔ یہ پرائے نہیں، بلکہ اپنے ہوتے ہیں،یہ غیر نہیں، بلکہ دلوں میں بسے ہوتے ہیں کہ جن کی جدائی کے غم سے آنکھوں کے اندر نمی تیر رہی ہوتی ہے، جن کے لیے دلوں کے اندر گداز ہوتا ہے، خود خوف و خشیت کے اندر مبتلا ہوتے ہیں، لیکن اس کے باوجود انسان کا یہ خیال ہوتا ہے کہ جیسے باقی سب کوتو مرنا ہے، لیکن مجھے تو زندہ رہنا ہے ع
سامان سو برس کا ہے، پل کی خبر نہیں
موت کے جس دروازے سے گزر کر حشر کا میدان آتا ہے، اس موت کے بارے میں کوئی بات ایسی نہیں ہے کہ جو ہم سے پوشیدہ ہو، یاجس سے ہم لاعلم ہوں۔ ابتدا میں، مَیں نے چند احادیث کے ذریعے عرض کرنے کی جسارت کی ہے کہ موت کس طرح زندگی کا تعاقب کرتی ہے اور پھر موت خود زندگی بن جاتی ہے۔ کیسا ہی باصلاحیت اور بااختیار انسان ہو یا کتنا ہی تندرست و توانا انسان ہو، بالآخر موت کے ہاتھوں زچ ہو جاتا ہے۔ پھر چاروں طرف یہ خبر پھیل جاتی ہے۔ بہت سے لوگ سوگوار ہوجاتے ہیں لیکن اس خبر کو تو پھیلنا ہی ہوتا ہے۔ یہ ہم ہیں کہ اس کی آمد کا انکار کرتے ہیں۔ وہ جن کے ہاتھوں نہ معلوم کتنے سیکڑوں ہزاروں انسانوں کو شفا ہوئی ہوتی ہے، اور جن کے ہاتھوں لوگوں کے بقول ہمیشہ کامیاب آپریشن ہوتا ہے، خود اسی مرض کے اندر چلے جاتے ہیں۔ گویا جو دوسروں کے لیے مسیحا ہوتے ہیں، اپنی مدد آپ نہیں کرپاتے۔ کون کون سا منظر ہے، جسے ہم نے نہیں دیکھا ہے اور جس سے ہم ناواقف ہوں۔
اس لیے موت کی یاد کے حوالے سے، جوانتہائی یقینی حقیقت ہے، اور جس سے زیادہ کوئی یقینی بات نہیں ہے، اس سے غفلت کو دُور کرنا، غفلت کے پردوں کو ہٹانا، اور یہ بھولا بسرا سبق ذہنوں کے اندر تازہ کرنا، دانش مندی بھی ہے اور سعادت مندی بھی کہ یہ دنیا فانی ہے۔ اس کو ہرگز دوام اور بقا نہیں ہے، جب کہ موت کے بعد کی زندگی کو بقا اوردوام ہے۔
شیخ جمال الدین کا نام آپ نے سنا ہوگا۔ انھیں تاتاریوں نے گرفتار کرلیا اور موت بالکل آنکھوں کے سامنے تھی۔ تاتاری سردار نے تضحیک کے انداز میں ان سے پوچھا کہ شیخ تم زیادہ اچھے ہو کہ یہ کتا زیادہ اچھا ہے؟ شیخ نے ایک لمحے توقف کے بعد کہا کہ اگر میں اس حال میں دنیا سے رخصت ہوجائوں کہ میرا ایمان سلامت رہے تو میں اس کتے سے بہتر ہوں، لیکن اگر اس حال میں دنیا سے رخصت ہوجائوں کہ میرا ایمان سلامت نہ رہے تو یہ کتا مجھ سے بہتر ہے۔
وہ تاتاری سردار کی تضحیک کا نشانہ بھی نہ بنے اور پتے کی بات بھی کہہ گئے کہ اصل پہچان تو انسان کا ایمان ہے۔ یہ پہچان باقی ہے، تو پھر انسان ان راہوں پر چلتا ہے کہ جو مطلوب ہیں اور منزل کی طرف لے جانے والی ہیں۔
یہ بات بھی پیشِ نظر رہے کہ ارادے اور عزمِ مصمم کا تعلق مضبوط ایمان سے ہے۔ محض ایمان لانے کے اعلان کے نتیجے میں کسی ارادے پر عمل نہیں کیا جاسکتا۔ دراصل انسانی زندگی کو سنوارنے، حقیقی کردار کے سانچے میں ڈھالنے اور درست رُخ دینے اور منزل کا شعور بخشنے کے لیے آخرت ہی وہ عقیدہ ہے جو بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ اسی سے فکرِدنیا اور فکرِآخرت میں اعتدال و توازن پیدا ہوتا ہے اور انسان کا تصورِ زندگی درست ہوتا ہے۔موت وہ اٹل حقیقت ہے جس کے تذکرے سے آخرت کی فکر پیدا ہوتی ہے اور اعمال کے اندر تضاد، تناقض اور منافقت و ریاکاری کو دُور کرنے کے لیے انسان کے اندر جذبہ پروان چڑھتا ہے۔ قرآن و حدیث میں موت کی ہولناکی، اور روزِمحشر کے مناظر کو بار بار تازہ کرنے سے انسان خدا کی اطاعت و بندگی کے لیے فکرمند ہوتا ہے ۔ وہ راہِ خدا میں بہترین مال دیتا ہے کہ اصل دینا یہی ہے۔ وہ علم و عمل میں مطابقت پیدا کرتا ہے۔ ہرلمحے اپنے جائزے اور احتساب کا اہتمام کرتا ہے اور اللہ کی راہ میں جان و مال لٹا کر سبقت لے جانے والوں میں ہوجاتا ہے۔ یقینا ایسے ہی لوگ روزِ محشر شاداں و فرحاں اپنے رب کی رضا و خوش نودی اور اس کی جنت کے مستحق ٹھیریں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی راہ میں استقامت دے اور اپنی رضا و خوش نودی کا مستحق ٹھیرائے، آمین!
اپنے روزانہ کے پروگرام میں
تفھیم القرآن سے آدہا گہنٹہ ، گہنٹہ
…… قرآن کا مطالعہ بھی رکھیں ……
اس کے فوائد آپ کو بچشمِ سر خود نظر آئیں گے
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی مقبولِ عام اور مشہور کتاب خطبات کا انگریزی ترجمہ جب اسلامک فائونڈیشن لسٹر ، برطانیہ سے Let us be Muslims کے نام سے شائع کیا گیا تو محترم خرم مراد نے ترجمہ کرنے کے ساتھ ایک طویل مقدمہ بھی لکھا، جس میں اس کتاب کی خصوصیات مؤثرانداز سے پیش کی گئیں۔ اس مقدمے کا ترجمہ تذکرۂ سید مودودی میں شائع کیا گیا۔ اس ترجمے پر محترم مقدمہ نگار نے خود نظرثانی بھی کی تھی۔ اس کا ایک حصہ ہم پیش کر رہے ہیں۔ مکمل مطالعے کے لیے تذکرۂ سید مودودی-۲ ملاحظہ کیجیے۔ (ادارہ)
اسلام ایک روایتی مذہب نہیں، بلکہ دُنیا میں خداخوفی، عبادت گزاری اور آخرت میں رضاے الٰہی کے تابع ابدی کامرانی کا پیغام ہے۔ یہ پیغام محض انفرادی وعظ و تلقین کا آوازہ نہیں، بلکہ عمل اور اجتماعی جدوجہد کی پکار بھی ہے۔ اس سرمدی پیغام کو انبیا ؑو رُسل ؑنے پھیلایا، عام کیا، اس راستے میں اپنی زندگیوں کو نثار کیا، اور خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مکمل کیا۔ بعدازاں یہ ذمہ داری پوری اُمت اسلامیہ پر عائد ہوگئی کہ وہ ہدایت ِ ربانی کو عام کریں۔ یہ شمعِ ہدایت ظلمت اور تاریکی، جبر اور صُلح، محکومی اور حاکمیت ،گویا کہ ہررنگ میں روشن اور منور رہی۔ بلاشبہہ کبھی اس لَو کا ہالہ وسیع رہا، اور کبھی مایوسی کی اتھاہ یوں سامنے آئی کہ دل بیٹھنے لگے، اور یہ ان سعید رُوحوں کا کمال اور ربِ کریم کی برکت و عنایت ہے کہ دیپ سے دیپ روشن ہوتے رہے۔
ان باکمال شخصیات میں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی (۱۹۰۳ئ-۱۹۷۹ئ) کا اسمِ گرامی تاریخ کے اوراق پر ثبت ہوچکا ہے۔ تاریخ کے اوراق میں جگہ پانا بھی شاید کوئی بڑے کمال کی بات نہیں ہے۔ لیکن مولانا کی عظمت و بزرگی کا اصل راز وہ حکمت اور تدبر ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے راستے پر چلنے اور لوگوں کو چلانے کے لیے انھیں عطا فرمایا۔ اس ضمن میں مولانا مودودی کا راہوارِقلم، مولانا کا طرزِ استدلال، مولانا کے طرزِ بیان اور مولانا کی بصیرت افروز رہنمائی وہ انعام ہے جس نے ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑنے، بھٹکے ذہنوں کو صراطِ مستقیم پر چلانے اور جمودزدہ زندگیوں کو جہادِعظیم میں کھپا دینے کا کارنامہ انجام دیا....
مولانا مودودی کی کتاب خطبات کوئی معمولی کاوش نہیں ہے۔اگرچہ یہ کتاب عام اور معروف موضوعات اور سیدھی سادی سچی باتوں پر مشتمل ہے، جن کو عام اور کم پڑھے لکھے یا اَن پڑھ لوگوں کے سامنے سادہ الفاظ اور انھی کی روزمرہ کی زبان میں پیش کیا گیا تھا، مگر خدا کے فضل و کرم سے اس کتاب نے مولانا کی کسی بھی اس سے زیادہ علمی کتاب کے مقابلے میں کہیں زیادہ لوگوں کے دلوں میں ہل چل پیدا کی ہے، اور کہیں زیادہ زندگیوں کو اپنا رُخ بدل کر اپنے خالقِ حقیقی کے ساتھ وابستہ ہوکر زندگی گزارنے کی راہ پر گامزن کردیا ہے....
سید مودودی کی تمام تحریروں میں خطبات کے الفاظ اگرچہ وہ ایک دُور دراز مقام پر ایک چھوٹی سی مسجد کی چار دیواری میں بولے گئے، اپنے زمان و مکاں کی حدود کو عبور کر کے اثرانداز ہوتے ہیں۔ ان الفاظ نے اپنے قاریوں کے دل و دماغ میں جو تاثر پیدا کیا ہے وہ ٹھیک ٹھیک ان کے مقصد اور پیغام کی اس گہرائی اور اخلاص کے تناسب سے ہے جو ان الفاظ میں کارفرما ہے۔ انھوں نے بے شمار لوگوں کو ان کی کمزوریوں کا شعور دیا ہے، اور ان کے ایمان میں اخلاص پیدا کیا ہے....
اس کتاب میں مولانا مودودی کی گفتگو کے موضوعات وہ ہیں جو اسلام میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں، یعنی، ایمان اور اسلام، علم و عملِ صالح، تقویٰ، دُنیا و آخرت، عبادت، نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور جہاد۔ یہ تمام بالکل وہی موضوعات ہیں جن پر تمام مذہبی اہلِ قلم اور واعظین کلام کرتے رہتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر مولانا کے خطاب میں کیا منفرد خصوصیت ہے؟ یہ سوال بالکل بجا ہے۔ آیئے اس کا جواب تلاش کرتے ہیں۔
اگرچہ اس میں شک نہیں کہ مولانا کا بیان بھی ان موضوعات کی حقیقت کے بارے میں بڑا واضح اور منفرد و غیرمعمولی نوعیت کا حامل ہوتا ہے، لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ وہ ان تمام معمولی اور روزمرہ کے موضوعات کے ابتدائی، اصلی اور حقیقی معانی کا احیا کرکے، اور ہماری آج کی زندگی کے ساتھ جوڑ کے، ان کو ایک بالکل مختلف انقلابی مقام دے دیتے ہیں۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ وہ ہرموضوع کا ٹھیک وہی مقام بحال کردیتے ہیں جو اسے اسلام میں حاصل ہے۔ دوسری بات یہ ہے اور یہ ان کا منفرد کارنامہ ہے کہ وہ ان سب کی ان باہم کڑیوں کو آپس میں پھر سے جوڑ دیتے ہیں جو عرصے سے ہماری زندگی میں فکروعمل کے دائرے میں ٹوٹ چکی ہیں اور جن کو ہم بالکل فراموش کربیٹھے ہیں۔ ایمان، اسلام، دنیا و آخرت، نماز، روزہ، یہ سب موجود ہیں، لیکن یہ سب اپنے دائرے اور حلقے تک محدود ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم ان سب کو ایک علیحدہ اکائی تصور کیے بیٹھے ہیں، اور ایک علیحدہ اکائی کے طور پر ہی ان سب سے معاملہ کرنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ اس لیے اگرچہ ہر جُز اپنے مقام پر موجود ہو اور مسخ بھی نہ ہوا ہو، اور اس میں کوئی غیرمتعلق حصہ شامل بھی نہ کیا گیا ہو، پھر بھی مولانا کی تمثیل کے مطابق، یہ سب پُرزوں کی حیثیت میں رہتے ہیں اور ایک مجسم گھڑیال کی صورت اختیار نہیں کرتے، کیونکہ وہ علیحدہ علیحدہ ہیں۔ مولانا ان سب پُرزوں کو جمع کرلیتے ہیں اور ہمیں ان کو جوڑنے کا طریقہ سکھاتے ہیں۔ اچانک جو چیز غیراہم اور غیرمتعلق تھی، ایک مرکزی حیثیت اختیار کرلیتی ہے اور ہماری زندگی کا مقدر بن جاتی ہے۔ اس طرح باوجود اس کے کہ ان کے موضوعات معروف اور عام ہیں، اور باوجود اس کے کہ وہ طویل، بلند آہنگ اور شان دار خطابت کے لبادے میں ملبوس نہیں کیے گئے، اپنے گہرے نقوش دلوں پر مرتسم کرتے چلے جاتے ہیں۔
مولانا کے موضوعات کی گراں قدری، قوت اور وسعت یقینی طور پر بہت وقیع اور عمیق ہے۔ لیکن ہم بآسانی ایسی سات کڑیوں کا تذکرہ کرسکتے ہیں، جن کے درمیان انھوں نے دوبارہ ربط قائم کیا ہے:
۶- چھٹے یہ کہ وہ تاریخ کو بھی ایمان کے ساتھ منسلک کرتے ہیں۔ ایمان محض ایک مابعد الطبیعی یا روحانی قوت نہیں، وہ تاریخ اور تقدیر ساز ہے۔ اس طرح تاریخ، زندگی اور ایمان، دونوں کے لیے نہایت اہم ہوجاتی ہے۔ ہم خاموشی سے معطل ہوکر نہیں بیٹھ سکتے، بلکہ ہمیں آگے بڑھ کر تاریخ کا رُخ موڑنے کی عملی کوشش کرنی چاہیے۔ اس سعی و عمل کا نام جہاد ہے۔
ایمان کا مفہوم تو سب جانتے ہیں، مگر پھر بھی خرابی یہ پیدا ہوگئی ہے کہ صاحب ِ ایمان لوگوں کی عملی زندگی سے ایمان غیرمتعلق ہوکر رہ گیا ہے، یا اس کا مقام اب زندگی کے کناروں پر ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ مثلاً: یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ ایمان پر ایک پیدایشی ورثے کے طور پر حق قائم رہتا ہے، خواہ عمل کچھ بھی ہو۔ یا، صرف کلمے کے الفاظ زبان سے ادا کردینے ہی کو ایمان کے مساوی بنا لیا گیا ہے۔ یا، ایمان کا مقام زندگی کے دُور دراز گوشوں اور کونوں تک محدود کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ یا، ایمان کو ایک بے ضرر شے بنا دیا گیا ہے۔
’’یہ کوئی نسلی چیز نہیں ہے کہ ماں باپ سے وراثت میں یہ خود بخود آپ کو حاصل ہوجائے اور خود بخود تمام عمر آپ کے ساتھ لگی رہے، خواہ آپ اس کی پروا کریں یا نہ کریں۔ بلکہ ایسی نعمت ہے کہ اس کے حاصل کرنے کے لیے خود آپ کی کوشش شرط ہے‘‘۔ (خطبات، ص ۳۱)
’’ہرشخص جو مسلمان کے گھر پیدا ہوا ہے، جس کا نام مسلمانوں کا سا ہے، جو مسلمانوں کے سے کپڑے پہنتا ہے، اور جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے، حقیقت میں وہ مسلمان نہیں ہے‘‘۔ (ایضاً،ص ۳۲)
اس لیے کہ: ’’ایک کافر اور ایک مسلمان میں اصلی فرق نام کا نہیں کہ وہ رام پرشاد ہے اور یہ عبداللہ ہے، اس لیے وہ کافر ہے اور یہ مسلمان۔ اسی طرح ایک کافر اور ایک مسلمان میں اصلی فرق لباس کا بھی نہیں ہے‘‘۔ (ایضاً، ص ۳۲)
اسی طرح وہ کہتے ہیں: ’’بس یہی حال کلمۂ طیبہ کا ہے۔ فقط چھے سات لفظ بول دینے سے اتنا بڑا فرق نہیں ہوتا کہ آدمی کافر سے مسلمان ہوجائے، ناپاک سے پاک ہوجائے، مردُود سے محبوب بن جائے، دوزخی سے جنتی بن جائے‘‘۔ (ایضاً، ص ۵۵)
اسلام میں کلمۂ طیبہ پڑھنے کے لیے کسی پر جبر نہیں کیا جاسکتا، مگر ہاں! ایک دفعہ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوجانے کے بعد زندگی کے ظاہری اور باطنی پہلوئوں میں کلمے کے تقاضوں کی پابندی لازم اور فرض ہے۔ مولانا اس پہلو کو یوں واضح کرتے ہیں:
’’اس بات کا اقرار کرنے کے بعد تمھیں یہ کہنے کا کیا حق ہے کہ یہ جان میری ہے، جسم میرا ہے، مال میرا ہے، اور فلاں چیز میری ہے۔ دوسرے کو مالک کہنا اور پھر اس کی چیز کو اپنی قرار دینا، بالکل ایک لغو بات ہے۔ اگر درحقیقت یہ بات سچے دل سے مانتے ہو کہ ان سب چیزوں کا مالک خدا ہی ہے… تو جس طرح مالک کہتا ہے اسی طرح تمھیں ان چیزوں سے کام لینا چاہیے۔ ان کی مرضی کے خلاف ان سے کام لیتے ہو تو دھوکا بازی کرتے ہو‘‘۔ (ایضاً، ص ۵۹)
اسی طرح وہ کہتے ہیں: ’’اب آپ کو یہ کہنے کا حق ہی نہ رہا کہ میری راے یہ ہے، یا دُنیا کا دستور یہ ہے، یا خاندان کا رواج یہ ہے، یا فلاں حضرت یا فلاں بزرگ یہ فرماتے ہیں۔ خدا کے کلام اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مقابلے میں اب ان میں سے کوئی چیز بھی آپ نہیں کرسکتے‘‘۔ (ایضاً، ص ۵۱)
سید مودودیؒ ایک بہت بڑے بت شکن واقع ہوئے ہیں، کیونکہ ایمان کے ساتھ بت پرستی نہیں چل سکتی۔ لیکن ان کی فکروتشویش کا موضوع پتھر کے بت نہیں ہیں، اور نہ مظاہر فطرت۔ بلکہ دلوں کے اندر بیٹھے بت ہیں، یعنی اپنی ذات، اپنا معاشرہ، اپنی تہذیب، بلکہ خود اپنے جیسے انسان، جو کہ اکثر انسانی زندگی میں خدا کا درجہ حاصل کرلیتے ہیں۔
اکثر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام کیا ہے؟ مولانا مودودی اس نکتے کو نہایت سادگی اور بڑی وسعت کے ساتھ یوں بیان کرتے ہیں:’’خدا کے مقابلے میں اپنی آزادی و خودمختاری سے دست بردار ہو جانا ’اسلام‘ ہے۔ خدا کی پادشاہی و فرماں روائی کے آگے سرِتسلیم خم کر دینا اسلام ہے.... خدا کے حوالے کرنے یا خدا کے سپرد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے اپنی کتاب اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے جو ہدایت بھیجی ہے، اس کو قبول کیا جائے۔ اس میں چون و چرا نہ کی جائے اور زندگی میں جو معاملہ بھی پیش آئے، اس میں صرف قرآن اور سنت ِ رسولؐ کی پیروی کی جائے‘‘۔ (ایضاً، ص ۵۰)
لیکن پھر بھی لوگ اپنی ذاتی خواہشات کے بندے اور غلام ہوتے ہیں اور انھی کی تکمیل کو مقصدِحیات قرار دیتے ہیں۔ ان کے لیے محض یہ امر قابلِ اطمینان ہوتا ہے کہ معاشرے کا چلن کیا ہے؟ ___ وہ ہرگز یہ نہیں دیکھتے کہ قرآن کیا کہتا ہے، سنت میں ان کے لیے کیا اسوئہ حسنہ ہے۔ مولانا فرماتے ہیں: ’’اگر اسے معلوم ہوجائے کہ قرآن و سنت کی ہدایت یہ ہے اور پھر وہ اس کے جواب میں کہتا ہے کہ میری عقل اسے قبول نہیں کرتی۔ اس لیے مَیں اس بات کو نہیں مانتا یا باپ دادا سے تو اس کے خلاف عمل ہو رہا ہے، لہٰذا میں اس کی پیروی نہ کروں گا، یا دنیا کا طریقہ اس کے خلاف ہے، لہٰذا میں اسی پر چلوں گا، تو ایسا شخص ہرگز مسلمان نہیں ہے۔ [یہاں پہنچ کر مولانا مودودی دوٹوک انداز سے کہتے ہیں] وہ جھوٹ کہتا ہے: اگر اپنے کو مسلمان کہتا ہے‘‘۔ (ایضاً، ص ۵۱)
خدا کو چھوڑ کر جس کے ساتھ اطاعت و وفاداری کا رشتہ قائم کیا جائے، وہ ایک خدا ہے۔ یہ اپنا نفس ہو، اپنا معاشرہ، خاندان اور قوم ہو، اپنے جیسے انسان ہوں، جیسے حکمران، دولت مند، اور گم کردہ راہ دانش ور___ ان کی گمراہ کن اطاعت گزاری کے بتوں پر کاری ضرب لگاتے ہوئے، مولانا فرماتے ہیں: ’’بھائیو! آج مَیں نے آپ کے سامنے جن تین بتوں کا ذکر کیا ہے، ان کی بندگی اصل شرک ہے۔ آپ نے پتھر کے بت توڑ دیے، اینٹ اور چونے سے بنے ہوئے بت خانے ڈھا دیے، مگر سینوں میں جو بت خانے بنے ہوئے ہیں، ان کی طرف کم توجہ کی۔ سب سے زیادہ ضروری، بلکہ مسلمان ہونے کے لیے اوّلین شرط ان بتوں کو توڑنا ہے‘‘۔ (ایضاً، ص ۹۰)
کیونکہ یہ امر بدیہی طور پر روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ:’’جس نے یہ تینوں بت اپنے دل میں بٹھا رکھے ہوں، اس کا بندۂ خدا ہونا مشکل ہے۔ وہ دن میں پانچ وقت کی نمازیں پڑھ کر اور دکھاوے کے روزے رکھ کر اور مسلمانوں کی سی شکل بنا کر انسانوں کو دھوکا دے سکتا ہے، خود اپنے نفس کو بھی دھوکا دے سکتا ہے کہ مَیں پکا مسلمان ہوں، مگر خدا کو دھوکا نہیں دے سکتا‘‘۔ (ایضاً، ص ۹۰)
ایمان و بت پرستی کی حقیقت، اور ہماری زندگیوں میں ایمان کے مقتضیات پر بصیرت افروز روشنی ڈالتے ہوئے وہ یوں وضاحت کرتے ہیں: ’’اور اگر وہ [مسلمان] بعض معاملات میں تو خدا کی ہدایت کو مانتا، اور بعض میں اپنے نفس کی خواہشات کو یا رسم و رواج کو، یا انسانوں کے قانون کو، خدا کے قانون پر ترجیح دیتا ہو، تو جس قدر بھی وہ خدا کے قانون کی بغاوت کرتا ہے، اسی قدر کفر میں مبتلا ہے۔ کوئی آدھا کافر ہے، کوئی چوتھائی کافر ہے، کسی میں دسواں حصہ کفر کا ہے اور کسی میں بیسواں حصہ، غرض جتنی خدا کے قانون سے بغاوت ہے، اتنا ہی کفر۔ (ایضاً، ص ۹۰)
ایک فرد کی جانب سے بظاہر دعویٰ ٔایمان اور اس کے برعکس دل کی دُنیا کو، اس کے کسی چھوٹے سے گوشے کو بھی خدا، اطاعت ِخدا اور خوفِ خداسے خالی رکھنے کے رویے کو مولانا مودودی خالص منافقانہ روش قرار دیتے ہیں۔ کیا مولانا مودودی مسلمانوں کی تکفیر کا کام کر رہے ہیں؟ نہیں! اپنے خطبات کے مندرجہ بالا بیانات سے پیدا ہونے والی ممکنہ غلط فہمی کی وہ ساتھ ہی ساتھ فوراً تردید کردیتے ہیں۔ اپنے لہجے کی شدت کے بارے میں جو دل گرفتگی، حسرت اور کرب کا نتیجہ ہے، فرماتے ہیں: ’’میرے عزیز بھائیو! کہیں یہ نہ سمجھ لینا کہ مَیں مسلمانوں کو کافر بنانے چلا ہوں، نہیں میرا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے‘‘۔ (ایضاً، ص ۴۱-۴۲)
اس لہجے سے ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ عمومی سوچ اور روایتی عمل میں ایک زلزلہ برپا کرکے، قاری کو رُکنے، ٹھٹھکنے اور نئے سرے سے اپنے اندازِ فکر اور طرزِعمل پر نظرثانی کرنے، احتساب کرنے اور جائزہ لینے پر آمادہ کیا جائے۔ پہاڑوں کی تنگنائوں کی شوریدہ سرموجیں اب کھلے میدانی اور پُرسکون دریا کی مانند سرگرم سفر نظر آتی ہیں۔ اب وہ بڑے نرم لہجے میں سمجھا رہے ہیں: ’’یہ کسوٹی اس غرض کے لیے نہیں ہے کہ اس پر آپ دوسروں کو پرکھیں اور ان کے مومن یا منافق اور مُسلم یا کافر ہونے کا فیصلہ کریں بلکہ یہ کسوٹی اس غرض کے لیے ہے کہ اس پر خود اپنے آپ کو پرکھیں، اور آخرت کی عدالت میں جانے سے پہلے اپنا کھوٹ معلوم کرکے یہیں اُسے دُور کرنے کی فکر کریں‘‘۔ (ایضاً، ص ۱۱۰)
مولانا مودودی نے ایمان کے دو درجات بیان کیے ہیں۔ انھوں نے ان دونوں کا بڑا اہم اور نمایاں فرق بھی بیان کیا ہے۔ پہلا درجہ ایمان کے زبانی اقرار کا درجہ ہے۔ اسے وہ ’قانونی ایمان‘ کہتے ہیں۔ دوسرا درجہ وفاو عمل کے سانچے میں ڈھلے ہوئے قلبی ایمان کا ہے۔ اسے وہ حقیقی ایمان کہتے ہیں۔ یہی خدا کا پسندیدہ ایمان ہے اور یہی آخرت میں ہمارے لیے خدا کی رضا اور جزاے خیر کا ضامن ہے، نیز اس دنیا میں بھی خدا کے انعام و اکرام کا مستحق قرار دیتا ہے۔ خطبات میں اُنھوں نے بالکل واضح طور پر کہا ہے کہ ان کا موضوع اس تحریر میں حقیقی ایمان ہے۔ اس لیے کہ یہی اللہ کو مطلوب ہے اور یہی ہماری دنیاوی زندگی میں بھی اہمیت رکھتا ہے۔
لیکن اسی کے ساتھ وہ حکیمانہ طریقے سے ’قانونی ایمان‘ کی اہمیت پر بھی زور دیتے ہیں، کیونکہ یہی ایمان مُسلم اُمت میں رُکنیت کا سبب بنتا ہے۔ دین اور شریعت کے درمیان اہم فرق و امتیاز واضح کرکے فرقہ پرستی کی بنیادوں پر کاری ضرب لگاتے ہیں، جو آپس میں تفرقہ و تکفیر کا اصل سبب ہے۔ صحیح اسلام کو اپنے بلیغ انداز میں بیان کرنے کے باوجود اور اپنی تمام ایسی شعلہ نوائی کے باوجود کہ فرقہ پرستوں کو اس طرح مخاطب کرنا’’ تم لوگ مسلمان نہیں ہو‘‘، ’’یہ قطعی منافقت ہے‘‘ کے الفاظ استعمال نہیں کیے۔ مولانا نے کبھی اپنی زندگی میں کسی کے خلاف کفر کا فتویٰ صادر نہیں کیا بلکہ وہ ہمارے سامنے اس معاملے میں تحمل و بُردباری کی ایسی مثالیں پیش کرتے ہیں جو کہ آج کل بڑی کمیاب ہیں۔
’’نوکر…جس طرح آقا کے حکم کے ماننے پر مجبور ہے، اسی طرح میری سمجھ کو بھی ماننے پر مجبور ہے۔ اگر تو میری سمجھ کو نہ مانے گا، تو مَیں اپنے اختیار سے تجھ کو آقا کی نوکری سے خارج کرادوں گا۔ غور کرو یہ کتنی بڑی بات ہے۔ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’جو شخص کسی مسلمان کو ناحق کافر کہے گا، اس کا قول خود اسی پر پلٹ جائے گا‘‘۔ کیونکہ مسلمان کو تو خدا نے اپنے حکم کا غلام بنایا ہے، مگر یہ شخص کہتا ہے کہ ’’نہیں، تم میری سمجھ اور میری راے کی بھی غلامی کرو‘‘۔ یعنی صرف خدا ہی تمھارا خدا نہیں ہے، بلکہ مَیں بھی چھوٹا خدا ہوں‘‘۔(ایضاً، ص ۱۲۵)
دوسری طرف اگر عبادات صحیح طریقے سے انجام دی جائیں تو وہ پوری زندگی کو ایمان کے دائرۂ کار میں لاسکتی ہیں، یا دوسرے الفاظ میں خدا اور خدائی احکام کے تحت۔ ہم اگر ان کے خطاب ’’عبادت کے صحیح معنی‘‘ کو پڑھیں تو ہم یہ محسوس کرسکتے ہیں کہ کس قدر زوردار طریقے سے مولانا مودودی نے اس اہم نکتے پر اپنے دلائل دیے ہیں۔
مولانا مودودی کہتے ہیں کہ نماز کا مقصد یہ ہے کہ ہم ہر اس چیز سے اپنے ہاتھ روک لیں، ہراس رویّے سے اپنا پہلو بچا لیں، جو خدا کو ناپسند ہے: ’’لیکن اگر کوئی ایسا ہے کہ اتنی زبردست اصلاح کرنے والی چیز [نماز] سے بھی اس کی اصلاح نہیں ہوتی تو [پھر جان لینا چاہیے کہ] یہ اس کی طینت کی خرابی ہے، نماز کی خرابی نہیں۔ پانی اور صابن کا قصور نہیں، اس کی وجہ کوئلے کی اپنی سیاہی ہے‘‘۔ (ایضاً، ص ۱۵۸)
مولانا مودودی نے ایسی بے روح مذہبیت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے جو خالی دلوں اور تقسیم شدہ اطاعتوں پر مبنی ہوتی ہے۔ وہ پوچھتے ہیں کہ آپ ایسے ملازم کو کیا کہیں گے جو اپنی منصبی ذمہ داریاں ادا کرنے کے بجاے، محض اپنے آقا کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا رہے، اور اس کے نام کی مالا جپتا رہے۔ آقا اسے حکم دے کہ چور کا ہاتھ کاٹ دو،مگر ملازم اس پر عمل کرنے کے بجاے وہیں کھڑا رہے، اور خوش الحانی سے بار بار کہتا رہے کہ ’’چور کا ہاتھ کاٹ دو، چور کا ہاتھ کاٹ دو‘‘، مگر اس نظام کو قائم کرنے کے لیے انگلی بھی نہ ہلائے، جہاں چور کا ہاتھ کاٹا جاسکے۔ بالکل اسی طرح ایک مسلمان جب یہ کرے کہ قرآن کے احکام پر عمل کرنے کے بجاے اسے بس جوابی طور پر خوش الحانی سے ان احکام کو زبان سے دہراتا ہی رہے تو کیا اسے عبادت کہا جائے گا؟
’’مگر کیسی حیرت کی بات ہے کہ جو لوگ رات دن، خدا کے قانون کو توڑتے ہیں، کفار و مشرکین کے احکام پر عمل کرتے ہیں، اور اپنی زندگی کے معاملات میں خدا کے احکام کی کوئی پروا نہیں کرتے، ان کی نماز اور روزے اور تسبیح اور تلاوتِ قرآن اور حج و زکوٰۃ کو آپ خدا کی عبادت سمجھتے ہیں۔ یہ غلط فہمی بھی اسی وجہ سے ہے کہ آپ عبادت کے اصل مطلب سے ناواقف ہیں‘‘۔ (ایضاً، ص ۱۳۵)
’’مگر اب مَیں تمھیں بتاتا ہوں کہ جس دل میں جہاد کی نیت نہ ہو، اور جس کے پیشِ نظر جہاد کا مقصد نہ ہو ، اس کی ساری عبادتیں بے معنی ہیں۔ ان بے معنی عبادت گزاریوں سے اگر تم گمان رکھتے ہو، کہ خدا کا تقرب نصیب ہوتا ہے تو خدا کے ہاں جاکر تم دیکھ لو گے کہ اُنھوں نے تم کو اس سے کتنا قریب کیا‘‘۔ (ایضاً، ص ۳۱۸)
’’لہٰذا اگر آپ واقعی اس دین (اسلام) کو حق سمجھتے ہیں ، تو آپ کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اس دین کو زمین میں قائم کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں، اور یا تو اسے قائم کر چھوڑیں، یا اسی کوشش میں جان دے دیں‘‘۔ (ایضاً، ص ۳۲۶)
مگر کیوں؟___ مولانا کا دانش آفرین استدلال بڑا واضح اور معقول ہے۔ سب سے پہلے وہ بتاتے ہیں کہ اللہ اور اس کے آخری رسولؐ پر ایمان لانے اور قرآن کریم کو کتابِ ہدایت تسلیم کرنے کا تقاضا یہی ہے کہ ہماری پوری کی پوری زندگی تابع امرِرب ہوجائے، اسی لیے:
’’[مسلمان سے] اسلام یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنے بادشاہ کے ملک میں اس کا قانون جاری کرنے کے لیے اُٹھیں، اس کی رعیّت میں سے جو لوگ باغی ہوگئے ہیں اور خود مالک المُلک بن بیٹھے ہیں، ان کا زور توڑیں اور اللہ کی رعیّت کو دوسروں کی رعیّت بننے سے بچائیں۔ اسلام کی نگاہ میں یہ بات ہرگز کافی نہیں ہے کہ تم نے خدا کو خدا اور اس کے قانون کو قانونِ برحق مان لیا___ نہیں! اس کو ماننے کے ساتھ ہی آپ سے آپ یہ فرض تم پر عائد ہوجاتا ہے کہ جہاں بھی تم ہو، جس سرزمین میں بھی تمھاری سکونت ہو، وہاں خلقِ خدا کی اصلاح کے لیے اُٹھو، حکومت کے غلط اصول کو صحیح اصول سے بدلنے کی کوشش کرو، ناخدا ترس اور شُتر بے مہار قسم کے لوگوں سے قانون سازی اور فرماں روائی کا اقتدار چھین لو، اور بندگانِ خدا کی رہنمائی و سربراہ کاری اپنے ہاتھ میں لے کر خدا کے قانون کے مطابق آخرت کی ذمہ داری و جواب دہی کا اور خدا کے عالم الغیب ہونے کا یقین رکھتے ہوئے، حکومت کے معاملات انجام دو۔ اسی کوشش اور اسی جدوجہد کا نام جہاد ہے۔ (ایضاً، ص ۳۱۴)
اگر ایسا نہ ہو تو پھر وہ دو دینوں کے تحت زندگی گزارتے ہیں۔ مولانا مودودی اس دوعملی پر ضرب لگاتے ہیں جس میں عموماً مسلمان اس طرح دو دینوں پر عمل پیرا نظر آتے ہیں۔ ایک دین ہمارے دماغ میں ہوتا ہے یا زیادہ سے زیادہ ذاتی و خانگی زندگی میں، اور دوسرا دین اجتماعی زندگی میں:’’حکومت کے بغیر دین بالکل ایسا ہے، جیسے ایک عمارت کا نقشہ آپ کے دماغ میں ہو، مگر عمارت زمین پر موجود نہ ہو۔ ایسے دماغی نقشے ہونے کا فائدہ ہی کیا ہے؟ جب کہ آپ رہیں گے اس عمارت میں جو فی الواقع موجود ہوگی؟‘‘(ایضاً، ص ۳۲۲)
مولانا مودودی، انسانی نفسیات پر گہری نظر رکھتے ہوئے واضح طور پر یہ اعلان کرتے ہیں کہ کسی انسان کے لیے بیک وقت دو دینوں اور دو مذہبوں پر عمل کرنا ممکن نہیں ہے: ’’حقیقت میں تو آپ اسی کے دین پر ہیں جس کی اطاعت واقعی آپ کر رہے ہیں۔ پھر یہ جھوٹ نہیں تو کیا ہے کہ جس کی اطاعت آپ نہیں کر رہے، اس کو اپنا حاکم اور اس کے دین کو اپنا دین کہیں؟ اور اگر زبان سے آپ کہتے بھی ہیں، یا دل میں ایسا سمجھتے بھی ہیں، تو اس کا فائدہ اور اثر کیا ہے؟ آپ کا یہ کہنا کہ ہم اس کی شریعت پر ایمان لاتے ہیں، بالکل ہی بے معنی ہے، جب کہ آپ کی زندگی کے معاملات اس کی شریعت کے دائرے سے نکل گئے ہوں، اور کسی دوسری شریعت پر چل رہے ہوں‘‘۔ (ایضاً، ص۳۲۰)
تیسرے، ظاہر ہے کہ یہ صورتِ حال ایک صاحب ِ ایمان کے لیے ہرگز قابلِ قبول نہیں ہوسکتی: ’’کسی دوسرے دین کے ساتھ یہ دین [اسلام] شرکت کہاں قبول کرسکتا ہے؟ اور کون سا دین ہے جو دوسرے دین کی شرکت قبول کرتا ہو؟ ہردین کی طرح یہ دین بھی یہی کہتا ہے کہ اقتدار خالصاً و مخلصاً میرا ہونا چاہیے، اور ہر دوسرا دین میرے مقابلے میں مغلوب ہوجانا چاہیے، ورنہ میری پیروی نہیں ہوسکتی‘‘۔ (ایضاً، ص ۳۲۴)
چوتھی دلیل وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ انسان پر انسان کی خدائی، حکومت اور اقتدار ہی زمین پر فتنہ و فساد کی ساری خرابیوں کی جڑ ہے۔ اس لیے: ’’جو کوئی حقیقت میں خدا کی زمین سے فتنہ و فساد کو مٹانا چاہتا ہو، اور واقعی یہ چاہتا ہو کہ خلقِ خدا کی اصلاح ہو، تو اس کے لیے محض واعظ اور ناصح بن کر کام کرنا فضول ہے۔ اسے اُٹھنا چاہیے اور غلط اصول کی حکومت کا خاتمہ کر کے، غلط کار لوگوں کے ہاتھ سے اقتدار چھین کر صحیح اصول اور صحیح طریقے کی حکومت قائم کرنی چاہیے‘‘۔ (ایضاً، ص ۳۱۱)
اس سوال کی گرفت کو اور مضبوط بناتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’یہ قطعی ناممکن ہے کہ کوئی قوم خدا کے کلام کی حامل ہو اور پھر دنیا میں ذلیل و خوارہو، دوسروں کی محکوم ہو، پائوں میں روندی اور جوتیوں سے ٹھکرائی جائے۔ اس کے گلے میں غلامی کا پھندا ہو، اور غیروں کے ہاتھ میں اس کی باگیں ہوں، اور وہ اس کو اس طرح ہانکیں جیسے جانور ہانکتے ہیں‘‘۔ (ایضاً، ص ۴۸)
یہ سب کچھ کیوں کر وقوع پذیر ہوگیا ہے؟ مولانا مودودی یقین بھری آواز میں پکارتے ہیں: ’اگر تمھارا ایمان ہے کہ خدا ظالم نہیں ہے، اور اگر تم یقین رکھتے ہو کہ خدا کی فرماں برداری کا بدلہ ذلت سے نہیں مل سکتا، تو پھر ہمیں ماننا پڑے گا کہ مسلمان ہونے کا دعویٰ جو تم کرتے ہو، اسی میں کوئی غلطی ہے‘‘۔ (ایضاً، ص ۴۰)
یہی وہ صورتِ حال ہے جس میں موجودہ مسلمانوں کے قرآن سے تعلق اور ایمان شکن رویّے کی یوں وضاحت کرتے ہیں:’’پس جو قوم خدا کی کتاب رکھتی ہو اور پھر بھی ذلیل و خوار اور محکوم و مغلوب ہو تو سمجھ لیجیے کہ وہ ضرور کتابِ الٰہی پر ظلم کر رہی ہے۔ اور اس پر یہ سارا وبال اسی ظلم کا ہے۔ خدا کے اس غضب سے نجات پانے کی اس کے سوا کوئی صورت نہیں کہ اُس کی کتاب کے ساتھ ظلم کرنا چھوڑ دیا جائے اور اُس کا حق ادا کرنے کی کوشش کی جائے‘‘۔ (ایضاً، ص ۴۹)
اگرچہ ہمیں کتاب میں سے کثرت سے اقتباسات دینے پڑے ہیں، لیکن مولانا مودودی کی اس کتاب کے مختلف موضوعات کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے یہ ضروری تھا۔ مندرجہ بالا گزارشات یہ واضح کرنے کے لیے کافی ہیں کہ مولانا کی یہ کتاب کس قدر منفرد اور بے مثال ہے۔
دراصل یہی موضوعات ہیں جن میں مولانا نے مسلمانوں کو صحیح اسلام کی طرف پلٹ آنے کی جو دعوت دی ہے، اس کی اہمیت اور نزاکت میں اصل رنگ انھی موضوعات کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ ہر چیز جو اپنے ابتدائی معنی و مفہوم کو کھو دیتی ہے یا جو صحیح رُوح سے خالی ہوچکی ہے، اس کتاب میں اس کا احیا کردیا گیا ہے___ مگر سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے ان سب مطالب کو ایک لڑی میں پرو دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام کی تاثیر دوسرے واعظوں اور خطیبوں کے مقابلے میں بے پناہ ہوگئی ہے ، اگرچہ وہ لوگ یہی باتیں بیان کرتے ہیں جو مولانا مرحوم نے کی ہیں۔ اس لیے کہ یہ ایمان اس طرح زندگی، عمل، عبادت، جہاد اور تاریخ کے ساتھ جڑ کر ہی اپنی وہ اصل قوت حاصل کرلیتا ہے جو انسان اور اس کی دُنیا میں انقلاب لاسکتی ہے۔
اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ وَ اِذَآ اَرَادَ اللّٰہُ بِقَوْمٍ سُوْٓئً ا فَلَا مَرَدَّ لَہٗ وَ مَا لَھُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ مِنْ وَّالٍ (الرعد۱۳:۱۱) حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی اور جب اللہ کسی قوم کی شامت لانے کا فیصلہ کرلے تو پھر وہ کسی کے ٹالے نہیں ٹل سکتی، نہ اللہ کے مقابلے میں ایسی قوم کا کوئی حامی و مددگار ہوسکتا ہے۔
اُمت مسلمہ پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو دو حقیقتیں واضح طور پر نوشتۂ دیوار نظر آتی ہیں: اوّلاً یہ ایک اُمت ِ مرحومہ ہے جس پر اللہ کی خصوصی نگاہِ رحم اور عفو و درگزر ہے اور بے شمار خامیوں کے باوجود اس میں نمو اور زندگی کی رمق کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی خصوصی عنایت سے ۱۵۰۰ سال سے باقی رکھا ہے۔ جس وقت بغداد تباہ ہو رہا تھا اور علم کے اس مرکز کے بیش قیمت کتب خانے اُس دور کی یک قطبی طاقت کے ہاتھوں اس طرح تباہ ہو رہے تھے جس طرح ہماری آنکھوں کے سامنے بغداد کی حالیہ تباہی میں لاکھوں بے گناہ شہید کیے گئے، شفاخانے تباہ کیے گئے، مساجد و مدرسے مسمار کردیے گئے___ اور یہ سب کچھ کس عنوان سے ہوا؟ جمہوریت کی برآمد، تہذیب ِ مغرب کی تعلیم اور روشن خیالی کے کھوکھلے نعرے! عین اسی لمحے اُمت مسلمہ میں ایسے مفکرین اور قائد اُبھر رہے تھے جنھوں نے اس اُمت کو اس کا کھویا ہوا وقار دوبارہ حاصل کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ جب ہلاکو خان بغداد کے علمی مرکز کو تباہ کر رہا تھا تو دیکھنے والی آنکھیں ہرطرف خون، قتل و غارت، تباہی، مسلمان کی بے بسی، کس مپرسی اور بے وقعتی کو دیکھ رہی تھیں، لیکن دوسری جانب علم و حکمت، آگہی اور اُمید و رجا کی دو شمعیں نہ صرف روشن ہو رہی تھیں، بلکہ افسردہ و پژمردہ حال کو روشن مستقبل میں تبدیل کرنے کی تدبیریں کر رہی تھیں۔ یہ دو شمعیں اُمت مسلمہ کو ہمت، جوش، ولولہ، عزمِ نو کی تعلیم اور تغیرِ حالت کے لیے جہادِ نو کی طرف دعوت دے رہی تھیں۔ اس دورِ ابتلا نے جن شخصیات کو وجود بخشا وہ کوئی اور نہیں، امام تقی الدین ابن تیمیہ (۱۲۶۳ئ-۱۳۲۸ئ) اور مولانا جلال الدین رومی (۱۲۰۷ئ-۱۲۷۳ئ) تھے۔
یہ حقیقت واقعہ، اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ اُمت ِمسلمہ اپنی ڈیڑھ ہزار سال کی تاریخ میں جب بھی اپنے ہاتھوں پستی کی طرف گئی، اللہ تعالیٰ نے اسی اُمت میں سے اُمید کی لہر پیدا کی ہے۔ جب سلطنت مغلیہ کا چراغ گُل ہو رہا تھا اور ادیب و شاعر شہرآشوب تحریر کر رہے تھے، اسی دوران میں مدوجزر اسلام بھی تحریر ہو رہی تھی اور تحریکاتِ جہاد وجود میں آرہی تھیں۔ نہ صرف یہ، بلکہ علمی محاذ پر حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کے جانشین اسلامیانِ ہند ایک نئے دور کی طرف پیش قدمی کررہے تھے۔ چنانچہ جلد ہی علامہ اقبال اور سیدمودودی کی فکر نے اُمت کو اُمید اور منزل و مقصد ِ حیات کا شعور دینے کے ساتھ تبدیلیِ قیادت کے لیے بنیادی لوازمات کی نشان دہی کے ساتھ ایک لائحہ عمل بھی تجویز کیا۔
مشرق وسطیٰ بھی گذشتہ ۶۰برسوں سے ایسے ہی دورِ زوال، اندرونی عدمِ استحکام، بیرونی سیاسی، معاشی و عسکری تسلط و دخل اندازی اور اپنوں کی بے وفائی کا شکار رہا ہے۔ عموماً یہی وہ عوامل ہیں جو قوم کو مایوسی، نااُمیدی، نفسانفسی اور انتشار کی طرف لے جاتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا قانون بھی عجیب ہے کہ وہ مُردہ زمین سے لہلہاتی کھیتی پیدا کرتا ہے اور بعض اوقات عاقبت نااندیشی کرنے والے ہاتھوں سے خود اپنے ہاتھوں لگائی، لہراتی کھیتی کو تہس نہس کرنے کی آزادی بھی دیتا ہے۔ آج تیونس میں جو اُمید کی لہر، مستقبل کی تابناکی اور قوم میں زندگی کے آثار نظر آرہے ہیں، یہ اس دورِمایوسی ہی کی پیداوار ہیں، جو اَب ماضی کا قصہ بن چکا ہے۔ سورئہ رعد کی درج بالا آیت مبارکہ نے جن دو اُمور پر ہمیں متوجہ کیا ہے وہ قوموں کے عروج و زوال کے اسباب کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔
پہلی بات یہ ہے کہ تبدیلی کا آغاز اندر سے ہوگا، بتدریج ہوگا، صبروحکمت سے ہوگا اور ایک حکمت عملی وضع کرنے سے ہوگا۔ جب تک افرادِ کار کی ایسی قوی جماعت صبرواستقامت کے ساتھ تیار نہ کی جائے جو شدید آزمایشوں میں بھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں، جن کے سامنے قریب المیعاد اور طویل المیعاد اہداف و مقاصد واضح ہوں اور جو مداہنت کے بغیر اپنے اصولوں پر قائم رہیں، اس وقت تک تبدیلی کا آغاز نہیں ہوسکتا۔
تیونس میں اسلامیان نے اس صبرآزما اور استقامت والے راستے اور جمہوری عمل کے ذریعے سے جسے بعض اوقات کفروشرک سے تعبیر کیا جاتا ہے، حکمت کے ساتھ آج وہ مقام حاصل کرلیا ہے جس کے نتیجے میں وہ بنیادی اسلامی تبدیلیاں جمہوری اور دستوری ذرائع سے لاسکتے ہیں جنھیں مغرب اپنی دوغلی اخلاقی شہرت کے باوجود ’بنیاد پرستی‘، ’طالبانائزیشن‘، ’انتہا پسند قبضہ‘ نہیں کہہ سکتا۔ مغربی صحافت اس وقت جو بات بار بار دُہرا رہی ہے وہ یہ ہے کہ راشد الغنوشی کی حرکت نہضت معتدل اسلامیان (moderate islamists) کی جماعت ہے۔ یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ اسلام سے مکمل وابستگی اور اسلامی شعائر کے اہتمام کے باوجود اور جب کہ راشد الغنوشی کی فکر، اخوان المسلمون کے مقابلے میں سید موددوی سے زیادہ متاثر ہے، اور ان کی صاحب زادی اسکارف کے استعمال کے ساتھ پارٹی کی طرف سے سیاسی بیانات دیتی ہیں، نہضت پارٹی کو ’بنیاد پرست‘ کیوں نہیں کہا گیا، دوسرے الفاظ میں حکمت عملی میں کس نوعیت کی تبدیلی تحریکِ اسلامی کی امیج یا ابلاغی تصویر میں تبدیلی پیدا کرسکتی ہے۔
تیونس میں نہضت پارٹی نے ۲۱۷ کی پارلیمنٹ میں ۸۸ نشستیں حاصل کر کے ۴۱ فی صد نشستیں حاصل کی ہیں اور دیگر جماعتوں سے تناسب کے لحاظ سے یہ فرق بہت بھاری ہے۔ ڈیموکریٹک فورم نے ۱۰ فی صد، کانگریس براے ری پبلک نے ۱۴ فی صد، پروگریسیو پارٹی نے چھے فی صد، پاپولرفرنٹ نے ۱۳ فی صد اور دیگر جماعتوں نے ۱۶ فی صد نشستیں حاصل کی ہیں۔
یہ اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ تیونس کے عوام نے مغربیت، اباحیت، شراب اور فواحش کے سرکاری سرپرستی کے طویل دور سے گزرنے کے باوجود واضح اکثریت کے ساتھ تحریکِ اسلامی پر جس اعتماد کا اظہار کیا ہے، وہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ خاموش اکثریت کو اگر صحیح حکمت عملی سے پیغام پہنچایا جائے تو تبدیلیِ قیادت نہ صرف ممکن ہے بلکہ اگر اللہ کی نصرت شاملِ حال ہو تو یقینی ہے۔
تیونس میں مغربی سیکولر جمہوریت کے زیراثر ہونے والے انتخابات میں نہضت پارٹی کی شرکت اسلامی شریعت کے فقہی اصول ضرورۃ کی ایک عملی مثال ہے۔ گویا ایسے حالات میں کہ جب دوبرائیاں سامنے ہوں اور ایک کم تر برائی میں اُمت ِمسلمہ کی مصلحت ہو تو اس نیت کے ساتھ کہ اگر کوشش کر کے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو کامیابی سے نوازتا ہے تو اس غیراسلامی سیاسی نظام کے تحت کوشش کرکے اسے بدلا جاسکے گا، تو ایسا اقدام اسلامی شریعت کے منشا کے مطابق ہوگا۔
حضرت یوسف علیہ السلام کا ایک ایسے نظام کو تبدیل کرنے کے لیے اُس نظام میں ذمہ داری قبول کرنا بھی اسی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اعلیٰ تر مقصد کے حصول کے لیے اور جھوٹے خدائوں کی جگہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی حاکمیت اور نظامِ خلافت کے قیام کے لیے حکمت عملی کے طور پر ایسے وقتی اقدامات کرنا شریعت کے اصولوں کی پیروی ہوگی اور اسے اسلام سے ’انحراف‘ یا مغربی جمہوریت کی توثیق نہیں کہا جاسکے گا۔
تیونس میں تحریکِ اسلامی کی دستوری جدوجہد سے جو نتائج سامنے آئے ہیں، وہ ان تحریکاتِ اسلامی کے لیے خاص طور پر قابلِ غور ہیں، جو صلاحیت اور افرادی قوت رکھنے کے باوجود توڑ پھوڑ اور اسٹریٹ پاور یا شب خونی انقلاب کے مقابلے میں دیرپا اصلاحی اور تعمیری عمل کے بعد (جو ممکن ہے سو سال سے بھی زیادہ طویل مدت کا متقاضی ہو) متوقع تبدیلی قیادت لانے میں یقین رکھتی ہیں، جن کا شعار قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: وَ الَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا ط وَ اِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ o (العنکبوت ۲۹:۶۹) ’’جو لوگ ہماری راہ میں مشقتیں برداشت کرتے ہیں ہم انھیں اپنی راہیں ضرور دکھا دیں گے اور یقینا اللہ نیکوکاروں کا ساتھی ہے‘‘۔
سورئہ عنکبوت کی اس آخری آیت میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اہلِ ایمان خصوصاً تحریکِ اسلامی کے کارکنان کے لیے معانی کا ایک خزینہ بند کر دیا ہے۔
اسلام کی دعوت ایک دعوتِ انقلاب ہے۔ یہ ظلم، طاغوت، استحصال، ناانصافی، غیرعادلانہ تقسیم دولت، آمریت، شخصی حکومت، انانیت، کبر، غرض ان تمام صفات کے خلاف اعلانِ جہاد ہے جو عموماً عصری سیاسی اور معاشی قائد قوتوں میں پائی جاتی ہیں۔ یہ دعوتِ انقلاب انسان کی فکر، شخصیت، معاملات اور طرزِعمل کو ہرقسم کی خود پرستی اور مفاد پرستی سے نکال کر توجہ کا مرکز صرف ایک چیز کو بنادیتی ہے، اور وہ ہے: خلوصِ نیت کے ساتھ ہرکام کو ربِ کریم کی خوشی کے لیے کرنا۔ تحریکاتِ اسلامی کی دعوت کا پہلا نکتہ یہی ہے کہ وہ صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے جدوجہد کرتی ہیں۔ اس آیت مبارکہ میں اسی جانب اشارہ ہے کہ ہمارے جو بندے صرف اپنے رب کی رضا کے لیے مجاہدہ، جہاد، جدوجہد اور انتہائی کوشش کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ انھیں مصائب و آزمایش برداشت کرنے کے لیے تنہا نہیں چھوڑ دیتا، وہ انھیں صحیح راستہ سُجھاتا ہے۔
لیکن اس الٰہی ہدایت کی نوعیت کیا ہے۔ اس پر سبُلنا کا استعمال یہ واضح کرتا ہے کہ جب اہلِ ایمان اپنے رب کی خوشی کے لیے دنیا سے ٹکر لیتے ہیں اور یہ جاننے کے باوجود کہ اصول سے تھوڑا سا انحراف بڑے فائدے دلوا سکتا ہے،اصول پر قائم رہتے ہیں، اور مجاہدہ اور جہاد کے راستے کو اختیار کرتے ہیں، تو پھر رب کریم انھیں مشکلات و مصائب میں نہ تو مایوس ہونے دیتا ہے اور نہ بے بسی میں چھوڑتا ہے بلکہ انھیں ہدایت کے راستے دکھاتا ہے۔ قرآن کریم نے بار بار ہمیں یہ یاد دہانی کرائی ہے کہ راستہ (صراط مستقیم) تو صرف ایک ہی ہے: اللہ کی بندگی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا، لیکن یہاں پر ’راستے‘ فرما کر یہ بات سمجھانی مقصود ہے کہ اللہ کی رضا کے لیے جو جہاد اور مجاہدہ کیا جائے گا، اور حصولِ مقصد کے لیے کون کون سی حکمت عملیاں اور نقشہ ہاے عمل اختیار کیے جائیں گے، اور کس طرح فتح مکہ اور مدینہ منورہ کے راستے عمل میں لائی جائے گی۔
یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ مکہ مکرمہ میں دعوت کا مرکزی نکتہ توحید و رسالت تھا اور اللہ وحدہٗ لاشریک کی معاشی، سیاسی اور اعتقادی حاکمیت منزل و مقصد تھی جس کی سزا حضرات بلالؓ، خبابؓ، صہیبؓ ، سلمانؓ ، ابوبکرؓ، ابوذر غفاریؓ، اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین اور خود خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کو اُس شہر میں دی جارہی تھی جو امن کا، سلامتی کا، رحمتوں کا اور فضل کا مرکز بنایا گیا تھا۔ لیکن جس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحاب پر ظلم و تعذیب کا بازار گرم تھا، کیا اللہ نے انھیں تنہا چھوڑ دیا؟ کیا انھیں مکہ میں کفروشرک کی قوتوں کے ہاتھوں ختم ہونے دیا؟ یا ہجرت کو سبیل بنایا اور اس حکمت عملی کے مزید آٹھ سال بعد اسباب و افراد کی تیاری کے بعد مکہ میں اللہ تعالیٰ کے نام کو سربلند (علیا) کرنے کے ہدف تک پہنچایا۔
ہجرت ایک حکمت عملی اور ایک سبیل تھی۔ اس آیت مبارکہ میں سمجھایا جارہا ہے کہ تحریک اسلامی کو چاہیے کہ اخلاصِ نیت اور ہدف کو نگاہ سے اوجھل کیے بغیر، مستقل مزاجی اور صبرواستقامت سے جادۂ حق پر قائم رہتے ہوئے ایک سے زائد راستے اللہ کی ہدایت پر تلاش کرے۔ اللہ تعالیٰ خود اپنے مخلص بندوں کو جو اپنا رُخ اس کی طرف کردیں (اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ …) ’راستے‘ دکھاتا ہے۔ ان راستوں کو اختیار کرنا ہی مجاہدہ اور جہاد ہے۔ جہاد کی افضل ترین شکل کو قیامت تک کے لیے نفس اور مال کے ہدیے سے تعبیر کرتے ہوئے قرآن و سنت یہ چاہتے ہیں کہ اہلِ ایمان کھلے ذہن، واقعات کے تجزیے اور ترجیحات کی روشنی میں مختلف حکمتوں اور متبادل راستوں پر غور کریں۔
تبدیلیِ قیادت جہاں ایک ہدف ہے، وہیں ایک راستہ اور حکمت عملی بھی ہے۔ اسی بنا پر سورئہ حج میں اسی طرف اشارہ فرمایا گیا کہ ’’یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے، برائی سے منع کریں گے اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے‘‘ (الحج ۲۲:۴۱)۔گویا حصولِ اقتدار بذاتِ خود کوئی حتمی مقصد نہیں ہے بلکہ امربالمعروف، نہی عن المنکر اور نظامِ صلوٰۃ اور نظامِ زکوٰۃ کے نفاذ کا ذریعہ ہے۔ اگر اللہ کے دین کو مکمل طور پر قائم کرنا تحریکاتِ اسلامی کا مقصد ہے تو انھیں سیاسی جدوجہد کرنی ہوگی۔ طویل، صبر آزما دور سے گزرنا ہوگا اور اس جہاد کے بعد جب اقتدار حاصل ہوجائے تو پھر اللہ تعالیٰ کی شریعت کو ہر شعبۂ حیات میں بتدریج نافذ کرنا ہوگا۔
اوّلاً: نظامِ اسلامی کے قیام کی جدوجہد کی شرطِ اول خلوص نیت ہے، نہ اپنی ذات کو نمایاں کرنا، نہ یہ سمجھنا کہ کوئی فرد تنہا نجات دہندہ ’مہدیِ موعود‘ اور ’مسیحا‘ بن کر اقتدار سنبھالتے ہی چھڑی گھماکر انقلابی تبدیلیاں لے آئے گا۔ تمام جدوجہد اور جہاد کا مرکز صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہی ہو، اپنی ذات، حتیٰ کہ جماعت کو بت نہ بنا دیا جائے بلکہ ہر سرگرمی کو صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی سے وابستہ کر دیا جائے۔
دوسری بات یہ قابلِ توجہ ہے کہ یہ ’مجاہدہ‘ میدانِ جہاد میں بھی ہوگا اور معیشت وسیاست اور معاشرت کے میدان میں بھی۔ گویا جہاد کو اس کے وسیع تر مفہوم میں سامنے رکھنا ہی قرآن کریم کا مطلوب ہے۔ تیسرا اہم پہلو جو اس سے وابستہ ہے، یہ ہے کہ اس جہاد کے راستے پر چلتے وقت خلوصِ نیت سے جو قدم اُٹھایا جائے گا، اس کے نتیجے میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ خود اپنے مخلص بندوں کو ’راستے‘ اور سبیلیں سجھائے گا۔ ضرورت، زمینی حقائق اور ترجیحات کی روشنی میں ایک سے زائد حکمت عملیاں، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کے نتیجے میں سوچنی ہوںگی اور وسیع تر مصلحتِ عامہ کے دائرے میں ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔
تحریکی کارکنوں کے لیے خصوصاً یہ بات سوچنے کی ہے کہ قرآن کریم کس طرح ایسے مراحل کے لیے جب ہم یہ سمجھنا شروع کر دیتے ہیں کہ جو دعوتی یا سیاسی حکمت عملی ہم نے سوچی تھی وہ کام کیوں نہیں کررہی، مطلوبہ نتائج کیوں ظاہر نہیں ہو رہے، سُستی کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ قرآن کریم ایسے تمام مواقع پر جہاں مایوسی اور جمود کا امکان ہوتا ہے، ہمیں اللہ پر اعتماد کے ساتھ نئے راستے تلاش کرنے کی ہدایت کرتا ہے،۔ گویا جو تحریکات اپنی کسی حکمت عملی میں تبدیلی کرنے میں تردد و تکلف کرتی ہیں وہ قرآن کی اس ہدایت کے خلافِ عمل کرتی ہیں۔ ہم نے تیونس کی تحریک اسلامی کی حکمت عملی کی طرف اس بنا پر اشارہ کیا ہے کہ وہ اُس دور سے گزری جس سے ہم اس وقت گزر رہے ہیں۔ یہی شکل مصر میں رہی جس پر ہم اس تحریر میں کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے۔
چوتھا اہم پہلو جو اس آیت مبارکہ سے سامنے آتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کا قدم قدم پر رہنمائی کرنا اور اپنے ’محسن‘ بندوں کو تنہا نہ چھوڑنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اہلِ ایمان کا ملجا و ماویٰ، ان کا حقیقی سہارا، ان کی حتمی اُمید اگر کوئی ہے تو وہ اپنے رب کے ساتھ تعلق اور اس کی نصرت و مدد کی طلب ہے۔ ’مجاہدہ‘ دستوری جدوجہد ہو یا میدانِ کارزار میں سرگرمی، پُرامن حکمت عملی ہو یا عسکری منصوبہ بندی، حکمت عملیاں مختلف ہوسکتی ہیں اور بعض بظاہر ایسی بھی ہوسکتی ہیں جنھیں مداہنت (compromise) سے تعبیر کیا جائے گا لیکن تحریک کی زندگی اور کامیابی اسی وقت ممکن ہے جب وہ قرآنی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے ایک سے زائد راستوں (options) اور سبیلوں پر کھلے ذہن کے ساتھ آمادہ رہے اور کسی ایک حکمت عملی کی شکار اور اس کی مقید نہ ہوجائے۔
تیونس کے حالیہ انتخابات میں ایک دل چسپ اور قابلِ غور پہلو بھی سامنے آیا ہے۔ ایک ایسی جماعت اریدھا یا پٹشن پارٹی، جو تیونس میں کوئی شہرت نہیں رکھتی تھی، جس کا بانی اور قائد ہاشمی حمدی لندن سے ایک سیٹلائٹ ٹی وی چلاتا ہے، اس جماعت کو بھی ۱۳ فی صد نشستیں صرف اس بنا پر مل گئیں کہ اُس نے اپنے علاقے کے مفلوک الحال عوام سے فوری طور پر معاشی آسانیاں فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا ۔ گویا انتخابی حکمت عملی کا درست ہونا، عوام الناس کے مسائل سے وابستہ ہونا اور مناسب اندازمیں رُوبہ عمل لانا بنیادی اہمیت رکھتا ہے اور ایک غیرمعروف جماعت بھی صحیح حکمت عملی کی وجہ سے اچھی خاصی نشستیں حاصل کرسکتی ہے۔
اس پس منظر میں تحریکِ اسلامی کے لیے آگے بڑھنے اور عوام الناس میں موجود تبدیلی کی خواہش کو اس کے منطقی نتائج تک پہنچانے کے امکانات بے حد روشن نظر آتے ہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ ایک سے زائد سیاسی حکمت عملی سوچ سمجھ کر وضع کی جائیں اور خود اپنے بازوئوں کو مضبوط کرکے اپنے وسائل اور انسانی قوت کا صحیح استعمال کیا جائے تو اللہ تعالیٰ کی مدد سے تبدیلیِ قیادت اور نظامِ اسلامی کا قیام کوئی مشکل کام نہیں۔
اس عمل میں جو بات کلیدی حیثیت رکھتی ہے وہ اس بات کا اعادہ ہے کہ ہمارا مقصد کیا صرف سیاسی قوت کا حصول ہے یا تبدیلیِ قیادت، نظامِ ظلم، نظامِ تفریق اور بدعنوانی کی جگہ نظامِ حق، نظامِ عدل اور قانون کی بالادستی ہے۔ اگر ہمارا نقطۂ آغاز دین حق اور نظامِ عدل کا قیام ہے تو پھر ہمیں اپنی نظریاتی اساس کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنا ہوگا۔ تربیت ِ کردار اور ان صفات کے پیدا کرنے پر خصوصی توجہ کرنی ہوگی، جو تبدیلیِ قیادت کے لیے شرط کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ہمیں طویل المیعاد اور قریب المیعاد اہداف میں فرق کرتے ہوئے اسی مناسبت سے حکمت عملی وضع کرنا ہوگی۔
قرآن کریم نے تبدیلیِ قیادت کے حوالے سے حضرت ابراہیم ؑ کی مثال کو بار بار ہمارے سامنے رکھا ہے اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے قرآن کریم ہمیں یہی بات سمجھاتا ہے کہ آپؐ نے اپنے دادا حضرت ابراہیم ؑ کے اسوہ، دعوت اور دین کو اختیار فرمایا اور تبدیلیِ قیادت کے ذریعے کفروظلم کے نظام کو ختم کرکے عدل و حق پر مبنی اسلامی ریاست قائم فرمائی۔
حضرت ابراہیم ؑ کی دعوت کے حوالے سے قرآن کریم کا فرمان ہے: ’’اب کون ہے جو ابراہیم ؑ کے طریقے سے نفرت کرے۔ جس نے خود اپنے آپ کو حماقت و جہالت میں مبتلا کرلیا ہو، اس کے سوا کون یہ حرکت کرسکتا ہے۔ ابراہیم ؑتو وہ شخص ہے جس کو ہم نے دنیا میں اپنے کام کے لیے چُن لیا تھا اور آخرت میں اس کا شمار صالحین میں ہوگا۔ اس کا حال یہ تھا کہ جب اس کے رب نے اُس سے کہا: ’مسلم ہوجا‘ تو اس نے فوراً کہا: ’مَیں مالکِ کائنات کا مسلم ہوگیا‘۔ اس طریقے پر چلنے کی ہدایت اس نے اپنی اولاد کو کی تھی اور اسی کی وصیت یعقوب ؑاپنی اولاد کو کرگیا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ ’’میرے بچو! اللہ نے تمھارے لیے یہی دین پسند کیا ہے، لہٰذا مرتے دم تک مسلم ہی رہنا‘‘۔ پھر کیا تم اُس وقت موجود تھے جب یعقوب ؑ اس دنیا سے رخصت ہورہا تھا۔ اس نے مرتے وقت اپنے بیٹوں سے پوچھا: بچو! میرے بعد تم کس کی بندگی کرو گے؟ ان سب نے جواب دیا: ہم اس ایک الٰہ کی بندگی کریں گے جسے آپ نے اور آپ کے بزرگوں: ابراہیم ؑ،اسماعیل ؑاور اسحاقؑ نے الٰہ مانا، ہم اس کے مسلم ہیں۔ (البقرہ ۲:۱۳۰-۱۳۳)
اوّلاً: دین اصلاً اسلام ہی ہے جس کی تعلیم حضرت ابراہیم ؑ اور ان سے قبل حضرت نوحؑ نے دی (الصفات ۳۷:۸۳) اور جسے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اصل حالت میں ہمارے سامنے عملاً نافذ کرکے دکھا دیا، اس لیے دنیا کے تمام نظام وہ اشتراکی ہوں یا سرمایہ دارانہ، وہ جاگیردارانہ حیلے اور ظلم ہوں یا ساہوکارانہ دھوکے، ان سب کی جگہ اسلام کا نفاذ ہی انبیاے کرام ؑکی دعوت کا پہلا اور بنیادی نکتہ تھا اور یہی تحریکِ اسلامی کی دعوت ہے۔
اسلام کے قیام کا مطلب یہ ہے کہ مفاد پرست معیشت، قوت واقتدار کی ہوس والی سیاست، اور برادری اور ذات پات والی معاشرت ان سب کی جگہ اللہ کی بندگی والی سیاست، حلال پر مبنی معیشت اور حقوق و فرائض اور عفو ودرگزر اور محبت پر مبنی معاشرت کا قیام تحریکِ اسلامی کا مقصد ہے۔ یہی دعوتِ ابراہیمی ؑہے۔ یہی اسوئہ محمدیؐ ہے۔
دوسری قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ اور بعدکے انبیاؑ کی طرح تحریکِ اسلامی کے ہر کارکن اور ہرمتفق پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ دین کو مضبوطی سے پکڑ لے۔ وہ اپنی اولاد کی تربیت اس طرح کرے کہ مرتے وقت اولاد بھی اسلام پر عامل رہنے اور جھوٹے خدائوں کو اختیار نہ کرنے کی شہادت دے سکے گی۔ یہ جھوٹے خدا قومیت، لسانیت، برادری، ذاتی مفاد اور غیراللہ سے اُمیدیں باندھنا، اور وقتی طور پر اُبھر آنے والی بیرونی قوتوں کو اپنا سہارا ماننا ہے۔ اہلِ ایمان کا واحد سہارا اگر کوئی ہے تووہ صرف اللہ وحدہٗ لاشریک، مالک الملک ہے اور وہی اپنے بندوں کی مدد کرسکتا ہے۔
تیسری بات ہمارے سمجھنے کی یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑکے اسوے میں اللہ تعالیٰ کی بندگی اور تسلیم و رضا کی ایسی مثال ہے جو قیامت تک کے لیے ایک نمونہ اور آیت بنا دی گئی ہے، یعنی ذبحِ عظیم، اس پر غور کیا جائے اور دیکھا جائے کہ ہم نے نہ صرف عیدقربان کے موقع پر بلکہ ہر امتحان کے موقع پر اپنی کن محبتوں کو اللہ کے لیے قربان کیا ہے اور کن محبتوں کو اللہ کے لیے قربان کرنے پر آج آمادہ ہیں۔ یہ محبتیں اولاد کی ہوں، اہلِ خانہ کی ہوں، مال کی ہوں، صاحب ِ اختیار افراد سے قربت کی ہوں، ذاتی مفاد کی ہوں یا خودساختہ احتراموں کی ہوں، ان سب محبتوں کو صرف اور صرف اللہ کی بندگی کے عوض قربان کرنا ہوگا۔ جب تک ان پرتیز چھری نہ پھیری جائے، جانور کی قربانی محض خون کا بہانا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کو نہ خون پہنچتا ہے نہ گوشت۔ اسے تو صرف وہ بندگی، وہ اطاعت، وہ سپردگی، وہ ادا پہنچتی ہے جس میں ہرعمل کا مقصد صرف اس کی خوشی ہو۔
ابوالانبیا ؑ کے اسوے میں ہمارے لیے ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس سچے، مستقیم بندے کو جو مقامِ امامت دیا اور اس نیک بندے کے ذریعے جو تبدیلیِ قیادت عمل میں آئی اس کے لیے اسے بھی آزمایش سے گزرنا پڑا۔ ’’یاد کرو جب ابراہیم ؑ کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزمایا اور وہ ان سب میں پورا اُتر گیا تواس نے کہا: میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں۔ ابراہیم ؑ نے عرض کیا: اور کیا میری اولاد سے بھی یہی وعدہ ہے؟ اس نے جواب دیا: میرا وعدہ ظالموں سے متعلق نہیں ہے‘‘۔ (البقرہ ۲:۱۲۴)
کیا تحریکِ اسلامی اور اس کے کارکن واقعی ایسی آزمایشوں سے گزرچکے ہیں کہ تبدیلیِ قیادت کا وعدہ پورا کر دیا جائے اور اقتدار کا انعام، زمین پر خلافت کی صورت میں عطا کردیا جائے، یا ابھی آزمایش سے مزید گزرنا ہوگا کہ وہ منزل جس کا وعدہ ہے، آنکھوں کے سامنے آجائے؟
آج ہم جن حالات سے گزررہے ہیں اگر ان کا تنقیدی تجزیہ کیا جائے تو وہ اس یقین میں اضافہ کرتے ہیں کہ عالمی طور پر لادینی قوتوں کا دور ختم ہورہا ہے اور ان معاشروں میں بھی جہاں بظاہر فواحش کا دور دورہ تھا، وہ خاموش اکثریت جو کل تک بے اثر تھی، ایک فیصلہ کن قوت میں تبدیل ہوگئی ہے اور استحصالی نظام کی جگہ اسلام کے عادلانہ نظام کے قیام میں مصروفِ عمل ہے۔ وہ صبحِ نو جس کے انتظار کی طوالت نے اُمت ِمسلمہ میں عارضی مایوسی پیدا کر دی تھی، نگاہوں کے سامنے ہے۔ قومیت و عصبیت کے جھوٹے خدائوں کی جگہ مالکِ حقیقی کا حکم اس کی زمین پر نافذ ہونے کا وقت آگیا ہے۔
تحریکِ اسلامی کے کارکنان، رب کریم کے ان بندوں کے لیے جنھیں سورئہ عنکبوت میں ’محسنین‘ کہا گیا ہے، یعنی وہ جو اپنے رب کی اطاعت میں احسان، حُسن و اتقان اختیار کرتے ہیں، ان کے لیے یہ یاد دہانی موجود ہے کہ وہ اللہ کی رضا کے حصول کے لیے تبدیلیِ نظام، تبدیلیِ قیادت اور نفاذِ شریعت کے لیے مسلسل جہاد کو اپنا شعار بنانے کے ساتھ زمینی حقائق کے پیشِ نظر، وسیع تر تحریکی اور دینی مصالح کو سامنے رکھتے ہوئے کھلے ذہن کے ساتھ ایک سے زائد حکمت عملی پر غور کرنے میں تاخیر نہ کریں۔ وسیع تر تحریکی مصالح کے پیشِ نظر طویل المیعاد اور قریب المیعاد منصوبہ بندی وضع کرنے کے لیے اجتہادی طریقہ اختیار کریں۔ تحریکاتِ اسلامی دراصل اجتہادی تحریکات ہیں، جو دین کے بنیادی مقاصد اور اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہر دور میں نئے راستے تلاش کرنے میں مصروف رہتی ہیں۔ ان کا مسلسل جہاد انھیں اُس قوتِ ایمانی سے نوازتا ہے جو مشکلات کے پہاڑوں سے نہ گھبراتی ہے، نہ مایوس ہوتی ہے اور نہ اُمید کا دامن ہاتھ سے چھوڑتی ہے۔ اس کے کارکنوں کا اعتصام باللہ انھیں اپنے رب کے قریب ہونے کا مسلسل احساس دلاتا ہے اور آخرکار ان کی جدوجہد کا انجام کلمۃ اللہ کے سب سے زیادہ بلند ہونے کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔
۲۶ نومبر ۲۰۱۱ء کو مہمند ایجنسی میں پاکستانی چیک پوسٹ پر امریکی ( ناٹو ) گن شپ ہیلی کاپٹروں کا حملہ ہوا جس میں ۱۶فوجی جوان شہید اور ۱۶ زخمی ہوئے۔ یہ ایک سوچا سمجھا اور پوری تیاری کے ساتھ کیا گیا حملہ تھا۔اس سے پہلے کافی عرصے سے پاکستان امریکی پروپیگنڈے کی زد میں تھا۔ امریکی تھنک ٹینک مسلسل امریکی حکومت کو یہ پٹی پڑھا رہے تھے کہ پاکستان کو سبق سکھایا جائے اور اس کو اپنی اوقات یاد دلائی جائے۔ افغانستان کے میدان جنگ میں مسلسل ناکامیوں سے دوچار امریکی عسکری قیادت اس کا ملبہ پاکستان پر گرانا چاہتی تھی۔ امریکی قیادت میڈیا کے ذریعے اپنے عوام کو یہ باور کرا رہی تھی کہ افغان جنگ اُس وقت تک نہیں جیتی جاسکتی جب تک پاکستان اصل میدان جنگ نہیں بن جاتا۔ افغانستان کی کٹھ پتلی قیادت اور امریکی دفترخارجہ بیک آواز افغان شورش پسندی کو پاکستان کے کھاتے میں ڈال رہے تھے، اور یہ مضحکہ خیز نتیجہ نکالتے ہیں کہ: ’’دراصل افغان طالبان، پاکستان کے ایما پر اپنی سرزمین کی آزادی کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں‘‘۔۱؎
۲مئی ۲۰۱۱ء کو جب امریکی ہیلی کاپٹروں نے ایبٹ آباد کے ایک گھر پر حملہ کیا اور القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کا اعلان کیاتو اس وقت بھی پاکستان کی فضائی حدود کی پامالی اور پاکستانی فوج کو اعتماد میں نہ لینے پر پاکستان نے بھرپور احتجاج کیا تھا، اور ۴مئی کوپارلیمنٹ نے متفقہ طور پر ایک مذمتی قرارداد منظور کی تھی۔ لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہ نکلا اور امریکی قیادت نے تسلسل کے ساتھ پاکستان کے عسکری اور قومی اداروں کو مطعون کرنے کا شغل جاری رکھا۔
اس سے پہلے جب۲۷جنوری ۲۰۱۱ء کو ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں لاہور کی سڑک پر دوپاکستانی نوجوانوں کو قتل کرنے پر ا س کو کوٹ لکھپت جیل میںڈالا گیا تو پوری امریکی حکومت اس پر سیخ پا تھی اور امریکی شہری کی گرفتاری پر حکومت پاکستان سے ناراض رہی تاوقتیکہ ۱۶مارچ کو دیت ادا کر کے اس کو رہا نہیں کروالیاگیا۔
اس طرح ہر موقع پر امریکی حکومت نے دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں اپنے حلیف پاکستان کے خلاف دشنام طرازی اور الزامات کا سلسلہ جاری رکھا۔ ۸جولائی ۲۰۱۱ء کو کابل میں بھارتی سفارت خانے پر حملہ ہو، یا امریکی سفارت خانے پر حملہ، ۱۳ستمبر کو ناٹو ہیڈ کوارٹر پر حملہ ہو یا ۲۰ستمبر کو جمعیت اسلامی افغانستان کے سربراہ استاد برہان الدین ربانی کا قتل، امریکی اور افغان قیادت نے پاکستان کو اس کا ذمہ دار قرار دیا۔ ۲۲ستمبر ۲۰۱۱ء کو ایڈمرل مولن نے صاف بیان دیا کہ حقانی نیٹ ورک کو آئی ایس ایس کی حمایت حاصل ہے۔ اس سے پہلے امریکی جنرل پیٹریاس تمام خرابیوں کی جڑ شمالی وزیرستان کو قرار دے چکے تھے۔
اس موقع پر ضروری ہے کہ پاکستانی قوم اور اہل دانش اس پوری صورت حال کا جائزہ لیں کہ کن عوامل کی بنیاد پر پاکستان اس جنگ میں شریک ہوا، اس نے اس دوران کیا پایا اور کیا کھویا؟
اس کا تجزیہ کرنے کے لیے ہم چاہتے ہیں کہ ان نکات پر نظر دوڑائیں جن کی بنیاد پر ۲۰۰۱ء میں پاکستان کی عسکری قیادت نے ’دہشت گردی‘ کے خلاف اس جنگ میں شرکت کا فیصلہ کیا تھا:
۱۹ ستمبر ۲۰۰۱ء کو صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے افغانستان پر امریکی حملے کے حق میں جودلائل دیے تھے ان میں پاکستان کے مفاد میںدرج ذیل پانچ نکات کا ذکر کیا گیا تھا ۔۲؎
۱-پاکستان کے حساس (ایٹمی) اثاثوں کی حفاظت
۲-کشمیر کاز کا تحفظ
۳-پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دیے جانے کا ازالہ
۴-کابل میں پاکستان مخالف حکومت کے بر سر اقتدار آنے کو روکنا
۵-پاکستان کو بحیثیت ایک ذمہ دار ، باوقار ریاست قرار دینا
اس سے پہلے نائن الیون کے واقعے کے بعد ۱۴ستمبر کو امریکی سیکرٹری خارجہ کولن پاول سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے ان سات نکات کو فی الفور قبول کر لیا تھا جو اس نے اس دھمکی کے ساتھ جنرل مشرف کو پیش کیے تھے کہ: ’’اگر آپ نے اس جنگ میں امریکا کا ساتھ نہ دیا تو امریکی عوام اس بات کو سمجھنے سے قاصر رہیں گے‘‘، اور یہ بھی کسی سطح پر کہاگیا تھا کہ: ’’ اگر آپ ہمارا ساتھ نہیں دیں گے تو پاکستان کو پتھر کے دور میں پہنچادیں گے‘‘۔۳؎
تمام امریکی مطالبات تسلیم کرنے کے بعد جنرل پرویز مشرف نے کور کمانڈروں، نیشنل سیکورٹی کونسل کے ارکان اور اپنے قریبی سیاسی معتمدین کی میٹنگ بلائی اور چھے گھنٹے کے اندر اندر ان کو اپنے فیصلے پر قائل کر لیا۔
اس فیصلے کے فوراً بعد ہی پاکستان نے اچانک اپنی فضائی حدود بند کردیں اور امریکی طیاروں اور فوجیوں کو موقع دیا کہ وہ شمالی فضائی اڈوں تک پہنچ سکیں، اس طرح برادر اسلامی ملک افغانستان پر امریکی حملے کے لیے راستہ ہموار کر دیاگیا۔
اس سے پہلے پاکستان ان تین مسلم ممالک میںشامل تھا جنھوں نے ستمبر ۱۹۹۵ئمیںکابل میں طالبان حکومت کے تحت بننے والی اسلامی امارت کو تسلیم کیا تھا ۔ باقی دو ممالک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات تھے اور جب افغانستان پر امریکی الزامات کی وجہ سے اقوام متحدہ نے اقتصادی پابندیاں عائد کی تھیں تو پاکستان نے اس کی مخالفت کی تھی۔
دہشت گردی کے خلاف مبینہ امریکی جنگ میںشرکت کے بعد پاکستان نے امریکا کو ہرممکن تعاون بہم پہنچایا، جس سے افغانستان پر امریکی قبضے کی راہ ہموار ہوئی اور ایک آزاد برادر مسلم ملک غیر ملکی استعمار کے چنگل میںچلا گیا۔ اس تعاون میں شمسی ایر بیس سمیت کئی ہوائی اڈوں اور لاجسٹک سپورٹ کے ذریعے امریکی افواج کو محفوظ راہ داری فراہم کی گئی۔ انٹیلی جنس اداروں کے ذریعے خفیہ معلومات کا تبادلہ ہوتا رہا اور پاکستان میں ان گروپوں اور جہادی تنظیموں کے خلاف بھرپور کریک ڈائون کیا گیا جو طالبان سے ہمدردی رکھتے تھے۔
ستمبر ۲۰۰۱ئمیں پالیسی میں تبدیلی کے پاکستان پر دُور رس اثرات مرتب ہو ئے اور اب ۲۰۱۲ء میں جب کہ ۱۰ سال کا عرصہ گزر چکا ہے ہم ایک ایسا میزانیہ تیار کر سکتے ہیںجس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جنرل مشرف کی یہ پالیسی کس حد تک کا میاب یا ناکام رہی تاکہ پاکستانی عوام کو اس کے ثمرات اور نقصانات سے آگہی ہو۔
مناسب ہوگا کہ جنرل پرویز مشرف نے اپنی تقریرمیں جو دلائل اس جنگ میں شرکت کے حق میں دیے تھے ان کا ایک ایک کر کے تجزیہ کیا جائے اور اعداد و شمار اور حقائق کی روشنی میں ہم کچھ نتائج اخذ کریں۔۴؎
پاکستان نے مئی۱۹۹۸ئمیں بھارت کے ایٹمی دھماکوںکے ردعمل کے طور پر زیر زمین ایٹمی دھماکے کیے تھے۔ اس طرح دنیا میں پاکستان ساتواں ایٹمی صلاحیت کا حامل اور پہلا مسلمان ملک بن گیا تھا جونیو کلیائی حملے کر سکتا ہے۔ دھماکوںسے پہلے امریکا سمیت تمام یورپی اقوام نے بیک آواز پاکستان کو منع کیا تھا کہ وہ بھارتی اشتعال کے جواب میںدھماکے نہ کرے لیکن پاکستان نہ مانا اور دھماکے کر ڈالے ۔ اب دہشت گردوںکے خلاف امریکی اتحاد میں شمولیت کے باوجود پاکستان واحد ایٹمی صلاحیت کے حامل اسلامی ملک کے طور پر ہدف ملامت بناہوا ہے ۔ ایٹمی کلب میں پاکستان شامل نہیں ہو سکا ہے۔ پاکستان کے ایٹم بم کے خالق محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیرخان کو ایک عرصے تک نظر بند رکھا گیا اوروہ اب بھی زیر عتاب ہیں، جب کہ ان کے بھارتی ہم منصب ڈاکٹر عبدالکلام کو ایٹم بم بنانے کی شاباش میں بھارتی صدر بنا دیا گیا ۔
۲۶مارچ ۲۰۰۶ ء کو امریکا نے بھارت سے سول نیوکلیر معاہد ہ کر کے گویا اس کو ایک ایٹمی طاقت کے طور پر تسلیم کر لیا ،جب کہ پاکستان کو مسلسل دشنام طرازیوں کا سامنا ہے۔
پاکستان کی نیوکلیر طاقت کے خلاف ایک نیا شوشہ چھوڑا گیا کہ یہ اسلحہ،دہشت گردوں کے ہاتھ لگ سکتا ہے ۔ اس طرح دنیا کو اس سے خطرہ لاحق ہے۔ لیکن اس قسم کا کوئی پروپیگنڈا بھارتی یا اسرائیلی ایٹمی اسلحوں کے بارے میں نہیں ہوا۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس پر وپیگنڈے کی بنیاد پر ایک بڑی سازش کا تانا بانا بُناجا رہا ہے، جس کا مقصد پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کو مفلوج کرنا ہے۔ چند ماہ پہلے ایرانی صدر احمد ی نژادکابیان آیاتھا کہ امریکا پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کے حوالے سے ایک بڑا منصوبہ بنا رہا ہے، جس سے اس شبہے کو تقویت ملتی ہے کہ کسی ایسے پروگرام پر غور کیا جا رہا ہے جو پاکستان کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کے خلاف پروپیگنڈے اور شکوک و شبہات پھیلانے کا یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔
قائد اعظم کے فرمان کے مطابق کہ ـ’’ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے‘‘ اورنوجوانانِ کشمیر کا نعرہ ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ ہر پاکستانی کے دل میںگھر کرچکاہے۔ بھارت کے تسلط کے باوجود کشمیر کی آزادی ایک ایسی تحریک ہے جو زندہ و تابندہ ہے اور اس وقت تک جا ری رہے گی جب تک اس کا حصول ممکن نہ ہو ۔ کشمیربھارت سے ہمارا سب سے بڑا تنازع ہے اور گذشتہ کئی جنگیںاسی مسئلے پر لڑی گئی ہیں ۔
جنرل مشرف نے اپنے دورِ حکومت میں افغانستان کے بجاے کشمیر آپشن قوم کے سامنے پیش کیا۔ کشمیر ی مجاہدوں کو آزادی کی جنگ لڑنے والے ہیرو کا درجہ دیااور تحریک آزادی اور دہشت گردی میںفرق کرنے پر زور دیا لیکن آہستہ آہستہ وہ تمام اقدامات کر ڈالے جو جدوجہد کشمیر کی کمر توڑڈالنے اور کشمیر کا مسئلہ محض زبانی جمع خرچ تک محدود کرنے کا باعث بنے ۔ کارگل کا نام نہاد ہیرو، بن بلائے ہندستان جا پہنچا اور کشمیر کی تقسیم کے نت نئے فارمولے پیش کر کے پاکستان کے دیرینہ موقف کوکمزور کرتا رہا ،اور یہ تک کہہ گزرا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو داخلِ دفتر کیا جاسکتا ہے۔یہ تو غنیمت ہے کہ ہندستانی حکومت کشمیر کے مسئلے پر اپنے غلط موقف سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے پر تیار نہیں ہوئی، وگرنہ جنرل مشرف نے اپنی ’روشن خیالی‘ کے زعم میں کشمیر کا سودا کرنے میںکوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔خود کشمیر کی قیادت، پاکستانی حکومت کے بے سرو پا اعلانات اور قلابازیوں پر حیران و پریشان ہوتی رہی، اور پاکستانی قوم سے اپیل کرتی رہی کہ وہ حکومت کو ان اعلانات سے روکے جس سے آزادی کشمیر کے تحریک کو ناقابل بیان نقصان پہنچ رہا ہے ۔
موجودہ حکومت نے ایک قدم آگے بڑھ کر مسئلہ کشمیر کو طاق نسیاں پر رکھتے ہوئے بھارت کو موسٹ فیورٹ نیشن، یعنی ’سب سے پسندیدہ‘ قوم قرار دینے کا عندیہ دیاہے، حالانکہ پوری قوم اس پر سخت برہم اورجموں و کشمیر کے مسلمان سخت مشتعل ہیں۔جموں وکشمیر کے مظلوم عوام کے لیے یہ اعلان تحریک آزادی کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کے مترادف ہے۔
نائن الیون کے واقعے میںکوئی پاکستانی ملوث نہیںتھا ۔اس واقعے کی تحقیقات کے لیے قائم ہونے والے کمیشن کی ہزاروں صفحات کی رپورٹ میں کسی پاکستانی فرد یا ادارے کا نام نہیںتھا جو اس واقعے کی منصوبہ سازی، مالی تعاون یا ہائی جیکروں کے ساتھ کسی بھی حیثیت میں شامل رہے ہوں۔ امریکا نے جب افغان حکومت سے اسامہ بن لادن کی حوالگی کا مطالبہ کیا تو اس وقت بھی پاکستان نے سفارتی طور پر طالبان حکومت پر زور دیا کہ وہ یہ مطالبہ مان لے ۔اس لیے اس امر کا کوئی امکان اس وقت موجود نہیںتھا کہ پاکستان کودہشت گرد ریاست قرار دیا جائے گا۔
پاکستان ایک آزاد ،خود مختار ملک اور اقوام متحدہ کے ایک باوقار رکن کی حیثیت سے یہ حق رکھتا تھا کہ وہ اپنی ملکی حدود کے بارے میں خود فیصلہ کرے اور کسی ایسی جنگ کاحصہ نہ بنے جس سے اس کا کوئی مفاد وابستہ نہ ہو ۔ جنرل مشرف نے ’سب سے پہلے پاکستان‘کا نعرہ لگایا لیکن امریکی مفاد میں ایک بے مقصد جنگ میں پوری پاکستانی قوم کی قسمت کو دائو پر لگا دیا، اور ایک برادر اسلامی ملک کو امریکی تسلط میں دینے کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی جنگ کا ایندھن بنا دیا ۔ سرکاری اعلان کے مطابق امریکا نے پاکستان کی سرزمین سے افغانستان پر ۷۵ہزار سے زیادہ ہوائی حملے کیے جس کے نتیجے میں دہشت گردی کو خود پاکستان میں فروغ حاصل ہوااور غیور افغان امریکا کے ساتھ پاکستان کے اس تعاون کو ان کے خلاف جنگ میں برابر کا شریک سمجھنے پر مجبور ہوگئے۔ اس طرح جو دوست تھے ان کو دھکے دے کر دشمنوں کی صف میں شامل کر دیا گیا، اور امریکا کا یہ منصوبہ کہ پاکستان کی سرزمین دہشت گردی کی آماج گاہ بن جائے ،پورا ہوگیا۔
اب ۱۰ سال بعد کیفیت یہ ہے کہ امریکا افغانستان میںاپنی ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈال رہا ہے ۔دہشت گردی کے خلاف اس نام نہاد جنگ میں امریکی فوج سے زیادہ نقصان پاکستان کے عوام اور پاکستانی فوج کوبرداشت کرنا پڑا ہے، ا ور دہشت گرد قراردیے جانے کا خطرہ پہلے سے زیادہ ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے۔ پاکستان کو اس جنگ میں شرکت کی جو مالی قیمت ادا کرنی پڑی ہے، اس کا تذکرہ آگے آرہا ہے۔
کابل میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد حامد کرزئی کی قیادت میں شمالی اتحاد کی حمایت یافتہ حکومت قائم ہوئی جو اب تک امریکی عسکری چھتری تلے ایک کٹھ پتلی انتظامیہ کی حیثیت رکھتی ہے ۔ ہندستان نے ہمیشہ سے کابل میں پاکستان کے مخالف عناصر کی کھل کر حمایت کی ہے ۔ جیسا کہ ماسکو نوازببرک کارمل انتظامیہ جب کابل پر حکومت کر رہی تھی تو اس وقت بھی سوشلسٹ بلاک کے ممالک کے علاوہ صرف بھارت نے ببرک کارمل کی حکومت کو تسلیم کیا تھا ۔ جب کابل میں نجیب انتظامیہ اقتدار میں تھی تو اس وقت بھی بھارت کے ساتھ اس کے قریبی تعلقات تھے۔ پھر جب مجاہدین کی حکومت قائم ہوئی تو بھارت نے رشید دوستم ملیشیا اور شمالی اتحاد کے ساتھ روابط قائم کیے اور اب تک شمالی اتحاد کے جملہ عناصر بھارت کے زیر اثر ہیں۔ کرزئی حکومت نے مسلسل پاکستان پر طالبان کی درپردہ حمایت کا الزام لگایا ہے اور اپنی تمام کمزوریوں اور ناکامیوں کاذمہ دار اس کو قرار دیا ہے ۔ دوسری طرف بھارتی اثرورسوخ پورے افغانستان میں ہر جگہ محسوس کیا جا سکتا ہے۔ افغان فوج کو تربیت دینے سے لے کر حکومت کے ہر شعبے میں اس کے اثرات ہیں۔ بڑی تعداد میں بھارتی کمپنیاں افغانستان میں کاروبار کر رہی ہیں اور بھاری اقتصادی مفادات کے حصول کے لیے بھارت ہر قسم کی سرمایہ کاری کے لیے تیار ہے۔ گویا موجودہ کابل حکومت پاکستان سے کئی گنا زیادہ ہندستان کی مرہونِ منت ہے، جب کہ قومی ، زمینی ، جغرافیائی ، نظریاتی ، لسانی ، مذہبی ہرنقطۂ نظر سے پاکستان ، افغانستان کے قریب ہے۔ روسی جارحیت کے موقع پر ۴۰ لاکھ سے زیادہ افغان مہاجرین کو پاکستان نے پناہ دی تھی۔ افغانستان کی تمام تر تجارت کا انحصا ر پاکستان پر ہے۔پاکستان اور افغانستان فطری حلیف ہیں لیکن موجودہ صورت حال اس کے بالکل برعکس ہے۔
جس وقت نائن الیون کا واقعہ پیش آیا، پاکستان ایک فوجی قیادت کی گرفت میں تھا۔ جنرل پرویزمشرف بلا شرکت غیرے حکمرانی کے مزے لوٹ رہا تھا۔ ملک کی منتخب حکومت برطرف کی جاچکی تھی جس کی بنا پر دولت مشترکہ سے پاکستان کی رکنیت معطل کی گئی تھی اور کئی ممالک نے پاکستان کے خلاف مختلف پابندیاں عائد کی تھیں۔کسی پارلیمنٹ کا وجود نہ تھا، اس لیے جب امریکا نے جنرل مشرف سے ’اِدھر یا اُدھر‘کا مطالبہ کیا توفوراً ہی اس نے غیر مشروط طور پر ان کا ساتھ دینے کا اعلان کیا اور اپنی کابینہ سے بھی مشورہ کرنا ضروری نہ سمجھا ۔ یہ کسی بھی ذمہ دار اور باوقار ملک کے قومی فیصلے کرنے کا طریقہ نہیں ہے ۔ جس نے پاکستان کے وقار ، سا لمیت اور خود مختاری کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ جنرل مشرف کو چاہیے تھا کہ اس وقت کوئی جواب دینے سے پہلے وہ اپنی سول کابینہ اور فوجی کمانڈروں سے مشورہ کرتا ، پارلیمنٹ کی غیر موجودگی میں سیاسی جماعتوںکی لیڈر شپ کو بُلاکر گول میز کانفرنس کرتا اور قوم کو اعتماد میں لے کر کوئی فیصلہ کرتا ۔
دوسرا موقع پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت کو ملا تھا کہ وہ ۲۰۰۸ئکے انتخابات میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے کے بعد اس پالیسی پر نظرثانی کرتی اور دہشت گردی کے خلاف اس نام نہاد امریکی جنگ میں شرکت کا میزانیہ تیار کرتی اور جنرل مشرف کی پالیسیوں کو دوام بخشنے کے بجاے ملک وقوم کے بہترین مفاد میں فیصلے کرتی ۔ کیری لوگر بل منظور کرتے وقت پاکستانی قوم کو ایک تیسرا موقع ملا تھا کہ وہ اپنے آپ کو امریکی چنگل سے آزاد کرانے کا راستہ اختیار کرتی۔ واضح رہے کہ کیری لوگر بل کی صورت میں پاکستان کو ملنے والی معمولی امداد دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں پاکستان کو پہنچنے والے ۳ئ۷۳؍ارب ڈالر کے اقتصادی نقصان کے مقابلے میں اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف بھی نہیں ہے ۔اس موقع پر ملک کے تمام اہل دانش نے اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا لیکن بدقسمتی سے جمہوری قیادت نے بالغ نظری سے کام نہ لیا اور بدستور ملک وقوم کو امریکی جنگ کا ایندھن بننے دیا ۔
اسی طرح اکتوبر ۲۰۰۸ئاور مئی۲۰۱۱ء میںپارلیمنٹ سے متفقہ قرار دادوں کی منظوری اور امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کی ۲۷جنوری ۲۰۱۱ء میں گرفتاری کے مواقع پر پاکستان کے لیے امریکی کیمپ سے نکلنے کے اچھے امکانات موجود تھے۔جن کو بنیاد بنا کر پاکستان امریکا سے گلو خلاصی کر سکتا تھا، لیکن عقل و دانش سے عاری حکمران ان بہترین مواقع کو بھی بروے کار لانے میں ناکام رہے۔ اب بھی ایک باوقار اور ذمہ دار ملک کی حیثیت سے پاکستان کے مفاد میں یہی راستہ ہے کہ ۲مئی اور ۲۶نومبر ۲۰۱۱ء کے واقعات سے سبق حاصل کرتے ہوئے، ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے علیحدگی اختیار کی جائے۔ دونوں حملوں میں امریکی ہیلی کاپٹروں نے امریکی حکومت کی مرضی سے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنی حلیف فوج کے اعتماد کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے اور تمام بین الاقوامی معاہدوں کو پامال کرتے ہوئے فوجی کارروائیاں کیں، تو اس کے بعد ہمارے پاس کیا دلیل رہ جاتی ہے کہ ہم پھر بھی اس امریکی کھونٹے سے بندھے رہیں۔
امریکی اتحادی بننے کا صلہ امریکا نے اب تک پاکستان کے خلاف۲۵۰ سے زائد ڈرون حملوں کی صورت میںدیا ہے جس کے نتیجے میں تقریباً ڈھائی ہزار بے گناہ قبائلی جاں بحق ہو چکے ہیں،جن میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین اور بچوں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔
سال ۲۰۰۶ء سے افغانستان میں جاری امریکی جنگ کے مہیب اثرات پاکستان میں واضح طور پر محسوس کیے جانے لگے ۔اب تک پاکستان کے ۳۵ہزار سے زائد شہری اور ۵ہزار سے زائد فوجی اس جنگ میں کام آچکے ہیں۔فاٹا اور شمالی علاقوں میں لاکھوں افراد اپنے گھروں سے بے گھر ہوگئے۔ملک کا اقتصادی ڈھانچا مجموعی طور پر اور جنگ زدہ علاقے خاص طور پر معاشی بدحالی سے دوچار ہیں۔اس سے پہلے کسی بھی موقع پر پاکستان اس طرح کے مالی بحران سے دوچار نہیں ہواجس کا سامنا اس کو اِس وقت کرنا پڑ رہا ہے۔۵؎
۲۰۰۸ء میں حکومت نے ایک بین الوزارتی کمیٹی اس مقصد کے لیے تشکیل دی تھی کہ وہ جائزہ لے کہ دہشت گردی کے خلاف جاری اس جنگ میں پاکستان کی فعال شرکت سے ملک پر کیا اقتصادی و معاشی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔اس کمیٹی نے طویل غور و خوض اور جائزوں کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ اس جنگ نے پاکستان کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اور اس کے جاری رہنے سے ملک کے سماجی اور اقتصادی ڈھانچے کو مزید نقصان پہنچتا رہے گا۔
جنگ کے آغاز ہی میں، یعنی سال ۰۲-۲۰۰۱ء میں اندازہ لگایا گیا تھا کہ ۶۶۹ئ۲؍ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ اس وقت یہ گمان تھا کہ جنگ جلد ختم ہو جائے گی اور حالات دوبارہ عام ڈگر پر آجائیں گے لیکن ایسا نہ ہوا اور جنگ میں مزید شدت اور تیزی آتی رہی اور بالآخر اس نے پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔اقتصادی طور پر بھی پاکستان اس جنگ کی بھاری قیمت ادا کرتا رہا اور بالواسطہ اور براہ راست نقصانات کا تخمینہ جو ۰۲-۲۰۰۱ء میں ۶۶۹ئ۲؍ ارب ڈالر تھا، ۱۰-۲۰۰۹ء میں بڑھ کر ۶ئ۱۳؍ارب ڈالرسالانہ کا حجم اختیار کر گیا۔ گذشتہ سال اس میں ۸ئ۱۷؍ارب ڈالر کا مزید اضافہ ہوگیا۔ اس طرح گذشتہ ۱۰ سال میں ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں پاکستان کے صرف اقتصادی نقصان کا اندازہ ۳ئ۷۳؍ ارب ڈالر یعنی۵۰۳۷؍ ارب پاکستانی روپے ہے جو پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے ناقابل تلافی ہے۔اس اقتصادی نقصان سے سب سے زیادہ ملک کی نوجوان نسل متاثر ہوئی، جس سے بے روز گاری کی شرح میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ملک کے بنیادی ڈھانچے مثلاً شاہراہوں، پُلوں ، عمارتوں، اسکولوں، ہسپتالوں اور ہر قسم کی آبادیوںکو اس جنگ میں جس تباہی اور بربادی کا سامنا کرنا پڑا ہے اس کا مشاہدہ ہر پاکستانی بخوبی کرسکتا ہے۔۶؎
سلالہ چیک پوسٹ پر دانستہ امریکی حملے کے بعد پاکستانی حکومت نے جو اقدامات اٹھائے ہیں، عرصہ دراز سے قوم اس کا مطالبہ کر رہی تھی۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ اقدامات مستقل بنیادوں پر ایک پالیسی کے تحت کیے جائیں ۔
ہماری تجویز یہ ہے کہ پاکستان امریکی کیمپ سے نکل کر ایک آزاد خارجہ پالیسی تشکیل دے۔قبائلی علاقے میں موجود مسلح گروہوں کے ساتھ مذاکرات کرے۔ ناٹو افواج کے لیے سپلائی لائن ختم کرے، امریکی اڈوں کو ملک سے مستقل طور پر نکال دے اور امریکی جنگی مشین کے طور پر اپنے کردار کو ختم کرتے ہوئے ایک آزاد اور خودمختار مسلم ملک کی حیثیت سے دنیا میں اپنا کردار ادا کرنا شروع کرے۔پاکستان کی ایک امتیازی جغرافیائی اور سیاسی حیثیت ہے جسے کوئی بھی طاقت نظر انداز نہیں کر سکتی۔
وقت کا اہم ترین تقاضا وہی ہے جس کا برملا اعلان جماعت اسلامی پاکستان اور ملک کی تمام اسلامی قوتوں نے کیا ہے۔ وہ یہ کہ ملک وملّت کے عظیم تر مفاد میں ، مسلم امہ کے اتحاد ویگانگت کے لیے، قومی آزادی اور خود محتاری کی خاطر ، پاکستانی قوم کی عظمت اور افتخار کے حصول کے لیے اس عزم ویقین کا اظہار کیا جائے کہ ہم خطے میں امریکی تسلط و بالادستی اور ظلم وزیادتی کے خلاف آواز اٹھائیں گے اورپاکستانی عوام کو امریکی چنگل سے نجات کے حصول کی ملک گیر جدوجہد کو اس مقصد کے حصول تک جاری رکھیں گے۔
NATO Attack: Why Salala? ،By Brig Asif Haroon Raja
1- http://www.thinkersforumpakistan.org / articles_detail.php?article_id=114&start=1
General Musharaf's Taliban Policy 1999-2008
2- http://www.qurtuba.edu.pk/ thedialogue /The%20Dialogue/5_2/Dialogue_April_June2010_96-124.pdf
UNITED STATES DIPLOMACY WITH PAKISTAN FOLLOWING 9/11
3- http://wws.princeton.edu/research/cases/coercivediplomacy.pdf
4- http://ipripak.org/journal/winter2004.shtml http://ipripak.org/journal/winter2004/waragainst.shtml
5- U.S. - Pakistan Relations
http://www.journalofamerica.net/html/us-pak_ties.html
Cost of War on Terror for Pakistan Economy
6- http://www.finance.gov.pk /survey/chapter_11 /Special%20 Section_1.pdf
حسن البنا شہیدؒ اپنی ڈائری میں بچپن کی یادیں تازہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’گرمیوں کی چھٹیوں میں ہماری ایک سرگرمی یہ بھی ہوتی کہ ہم تین ساتھی ’محمودیہ‘ کے محلوں کو آپس میں تقسیم کرتے ہوئے، فجر کی نماز سے پہلے وہاں جاکر لوگوں کو جگایا کرتے۔ میں جب کسی مؤذن کو اذان کے لیے جگاتا تو ایک پُرکیف لذت محسوس کرتا۔ میں انھیں جگانے کے بعد اسی جادو اثر اور جذباتی کیفیت میں دریاے نیل کے کنارے جاکھڑا ہوتا۔ ’محمودیہ‘ کی مساجد قریب قریب واقع تھیں، جب اذانیں شروع ہوتیں تو مجھے محسوس ہوتا کہ گویا ایک ہی اذان، مختلف مؤذنوں کے گلے سے نکل کر فضا میں رَس گھول رہی ہے۔ ایسے میں میرا دل کہتا: ان سارے مؤذنوں کو مَیں نے جگایا ہے، اب اتنی بڑی تعداد میں جو بھی نمازی جاگیں گے، ان کی عبادت میں، مَیں بھی برابر کا شریک ٹھیروں گا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد مجھے اپنے لطیف حصار میں لے لیتا: ’’جو شخص کسی کو بھلائی کی طرف بلاتا ہے تو اسے اپنی نیکی کا اجر بھی ملتا ہے اور اس شخص کی نیکی کا بھی جو اس کی وجہ سے نیکی پر عمل پیرا ہوا اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہتا ہے اور اس سے ان کے اجر میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں ہوتی۔ پھر اسی لذت و سعادت سے سرشار مَیں جب مسجد پہنچتا اور دیکھتا کہ ان تمام نمازیوں میں سے مَیں سب سے کم عمر ہوں، تو سراپا حمدوسپاس بن جاتا کہ تمام تر توفیق اسی کے ہاتھ میں ہے‘‘۔
مذکرات الداعیۃ (داعی کی ڈائری) کے عنوان سے شائع اس کتاب کی یہ سطور امام حسن البنا کی شہادت کے ۶۳برس بعد بھی قاری کو اسی کیفیت سے آشنا کردیتی ہیں جو حسن البنا نامی بچہ محسوس کیا کرتا تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بشارت کہ: ’’یہ سلسلہ تاقیامت جاری رہنا ہے‘‘۔ آج ہرصاحب ِ ایمان کو تقویت فراہم کر رہا ہے۔ حسن البنا بچپن میں مؤذنوں کو جگاتے رہے اور ۴۳برس کی مختصر عمر ختم ہونے سے پہلے، پوری دنیا میں تکبیر بلند کرنے والی نسلوں کی فصلیں بوگئے۔ آج دنیا تغیر پذیر ہے، اور جہاں بھی تبدیلی کا آغاز ہوتا ہے سب تسلیم کرتے ہیں کہ بیداری کے پیچھے اصل ’اذان‘ اسلامی تحریک کے کارکنان کی ہے۔
تیونس اور مصر کی عوامی تحریکوں کے بعد کویت میں بھی حکومتی کرپشن پر تنقید کی لَے بہت بلند ہوگئی اور نومبر ۲۰۱۱ء میں تو مظاہرین نے اسمبلی ہائوس پر باقاعدہ دھاوا بول دیا۔ وزیراعظم کے خلاف مواخذے کی تحریک آگئی۔ اس تناظر میں امیرکویت نے اسمبلی توڑتے ہوئے نئے انتخاہات کروانے کے اعلان کردیا۔ کویت کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار ۵۰؍ارکان کے ایوان میں اسلام پسند ارکان کو ۳۴ نشستیں ملی ہیں۔ اخوان کی سیاسی پارٹی کا نام ’دستوری تحریک‘ ہے۔ اسے ۵۰ میں سے پانچ نشستیں ملیں (چار ان کے اپنے اور ایک حمایت یافتہ) اخوان، سلفی، تحریک، آزاد ارکان اور دیگر اسلامی گروپوںکو ملا کر دیکھیں تو انھیں ۲۲نشستیں ملی ہیں۔ سات شیعہ ارکان اسمبلی ان کے علاوہ ہیں۔ اس طرح اگر اسلام پسند ارکان اسمبلی مل کر اور مؤثر حکمت عملی سے فعال کردار ادا کریں تو مخصوص قبائلی اور خاندانی نظام کے باوجود، کویت میں ایک نئی تاریخ رقم کی جارہی ہے۔ انتخابات میں اسلامی رجحانات رکھنے والے تجزیہ نگار بھی یہ لکھنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ حکومتی کرپشن کے مقابلے میں عوام کے پاس ایک ہی راہ بچتی ہے کہ وہ اسلامی قیادت منتخب کریں۔
۴فروری کو مصر کے بڑے شہر بورسعید (پورٹ سعید) میں دو مصری ٹیموں ’المصری فٹ بال کلب‘ اور ’الاھلی فٹ بال کلب‘ کے میچ کے دوران بھڑک اُٹھنے والے ہنگامے سے ۷۷؍افراد جاں بحق اور ڈیڑھ ہزار کے قریب لوگ زخمی ہوگئے۔ اس دوران انتظامیہ نے لڑائی کی آگ بجھانے کے بجاے اس پر مزید تیل چھڑکا، اسٹیڈیم کے دروازے بند کردیے گئے، روشنیاں بجھا دی گئیں، لوگوں کے پاس اچانک ہتھیار بھی آگئے۔ پارلیمنٹ نے فوری تحقیقات کے لیے کمیٹی بنادی، پتا چلا کہ خود وزارتِ داخلہ کے لوگ اس پوری خوں ریزی میں ملوث تھے۔ ہنگاموں کی اس آگ کو جلد ہی ملک کے دوسرے شہروں تک بھی پھیلا دیا گیا اور کئی روز تک ملک میں فسادات جاری رہے۔ کئی ہفتے گزرنے کے باوجود ابھی تک کسی ذمہ دار کو سزا نہیں دی گئی۔ اس دوران میں عبوری حکومت کے وزیرداخلہ میجر جرنل محمد ابراہیم کا بیان آیا بھی تو یہ کہ وزارتِ داخلہ کے قوانین کے مطابق پولیس والوں کی داڑھی رکھنے کی اجازت نہیں ہے، جو لوگ بھی اس قانون کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، ان کے خلاف کارروائی کریں گے۔ بیان کے بعد ایک اور بحث اور مناقشت شروع ہوگئی۔ اخوان کے ذمہ دار ڈاکٹر البلتاجی نے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جناب وزیرداخلہ! حیرت ہے، آپ کو غنڈا گردی اور جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کی تو کوئی فکر نہیں لیکن آپ نے داڑھی کی بنیاد پر معرکہ آرائی شروع کردی ہے۔ اصل کام پر توجہ دیں، قوم کو غیرضروری بحثوں میں نہ اُلجھائیں۔
مصر میں انتخابی عمل ابھی جاری ہے۔ قومی اسمبلی کے بعد اب مجلسِ شوریٰ (سینیٹ) کے انتخابات بھی مکمل ہوگئے ہیں۔ ۲۷۰ کے ایوان میں سے دوتہائی، یعنی ۱۸۰؍ارکان براہِ راست عام انتخابات کے ذریعے منتخب ہوئے ہیں، جب کہ باقی ۹۰؍ارکان آیندہ منتخب ہونے والا صدر نامزد کرے گا۔ سینیٹ انتخابات کے باقاعدہ نتائج ابھی سامنے نہیں آئے، لیکن اندازہ یہی ہے کہ ایوانِ بالا میں بھی قومی اسمبلی کی طرح اخوان کی الحریۃ والعدالۃ (حریت و عدالت) پارٹی ہی سب سے بڑی پارٹی ہوگی اور اسے تقریباً اسمبلی جتنی نشستیں یہاں بھی مل جائیں گی۔ انتخابی عمل میں اب اہم ترین مرحلہ صدرمملکت کا انتخاب ہے۔ ۱۰مارچ سے کاغذات نامزدگی وصول کرنے کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ حسنی مبارک نے صدارتی اُمیدوار کی نامزدگی ہی جوے شیر نکال لانے کی طرح ناممکن بنا دی تھی۔ اُمیدوار کے لیے سب سے اہم شرط یہ قرار دی گئی تھی کہ اسے کم از کم ۲۵۰؍ارکانِ پارلیمنٹ نامزد کریں۔ واضح رہے کہ دسمبر ۲۰۱۰ء کے آخری انتخاب میں ’ہردل عزیز‘ حسنی مبارک کے علاوہ کسی پارٹی کو ایک بھی نشست نہیں حاصل ہوئی تھی، یعنی نہ ہوگا بانس نہ بجے گی بانسری۔ صدر مملکت چھے سال کے لیے منتخب ہوتا تھا اور وہ تاحیات اُمیدوار بن سکتا تھا۔ انقلاب کے بعد مارچ ۲۰۱۱ء میں ریفرنڈم کے ذریعے ۷۷ فی صد عوام کی تائید سے بننے والے عبوری دستور میں کسی بھی صدارتی اُمیدوار کے لیے کم از کم ۳۰؍ارکان اسمبلی کی تائید کافی ہے۔ صدرمملکت چارسال کے لیے منتخب ہوگا اور وہ مسلسل صرف دوبار منتخب ہوسکتا ہے۔ یہ شرط بھی رکھ دی گئی ہے کہ اس کے پاس مصری شہریت کے علاوہ کوئی دوسری شہریت نہ ہو۔ حسنی مبارک نے فردِ واحد کا اقتدار یقینی بنانے کے لیے کبھی اپنا کوئی نائب نہیں بنایا تھا، اب شرط لگادی گئی ہے کہ صدرِمملکت زیادہ سے زیادہ ۶۰روز میں اپنا نائب صدر متعین کردے گا۔
الاخوان المسلمون کے لیے اس وقت اپنا صدر مملکت منتخب کروانا انتہائی آسان ہے، لیکن ملک میں قومی وحدت کو یقینی بنانے کے لیے وہ اپنے اس اعلان پر مضبوطی سے جمے ہوئے ہیں کہ اخوانی صدر نہیں لائیں گے، قوم کے لیے قابلِ قبول کوئی بھی اچھا شہری ہمارا اُمیدوار ہوسکتا ہے۔ اسی طرح ان کا یہ بھی اعلان ہے کہ اگرچہ ہم اکیلے بھی بآسانی حکومت تشکیل دے سکتے ہیں لیکن حالیہ عبوری حکومت کی مدت (جون میں) ختم ہونے پر ہم سب کے ساتھ مل کر قومی حکومت تشکیل دیں گے۔ اسپیکراسمبلی کے انتخابات کے موقع پر بھی انھوں نے دیگر پارٹیوں کو ساتھ ملاتے ہوئے انھیں مختلف کمیٹیوں میں برابر کا حصہ دیا۔ کئی مواقع پر اخوان اور سلفی حضرات کے مابین اختلافات کھڑے کرنے کی کوششیں کی گئیں، لیکن اخوان کے کارکنان کا نعرہ ہے: السلفیۃ والاخوان اِید واحدۃ فی کل مکان، ’’اخوان اور سلفیت ہرجگہ یک مشت ہیں‘‘۔
اخوان کی اس پالیسی کا نتیجہ ہے کہ معاشرے میں ان کے بارے میں پھیلائے جانے والے خدشات اور خوف کے باوجود ہرطبقے سے ان کے حق میں آواز اُٹھ رہی ہے۔ اخوان کی جیت کے تناظر میں پروپیگنڈا کیا جا رہا تھا کہ یہ مولوی حضرات فن و ثقافت کے دشمن ہیں۔ جواباً ایک معروف قومی گلوکار شعبان عبدالرحیم (المعروف: الشعبولا) نے اپنا تازہ نغمہ پیش کیا: یامھاجم الاخوان ھتروح من ربک فین، ’’اخوان پر اعتراضات کرنے والو! اپنے رب سے بچ کر کہاں جائو گے‘‘۔ فین ملقوش فی الزھرۃ عیب - قالوا أحمر الخدین، ’’انھیں پھول میں کوئی عیب نہ ملا تو کہنے لگے: اس کے گال سرخ کیوں ہیں؟‘‘۔ سبحان اللہ اُوپر تبدیلی آجائے تو نغمہ و لحن بھی اللہ کی یاد دلانے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔
اخوان کے ذمہ دار بتا رہے تھے کہ ہم لا صِدَام ، یعنی عدم تصادم کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ کسی سے بھی تصادم کے بجاے ، قوم کے تمام صالح افراد سے تعاون چاہتے ہیں۔ اس وقت اسلام پسند عناصر کو ناکام بنانے کے لیے ہی نہیں، ملک ہی کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی کوششیں عروج پر ہیں۔ پوری قوم کو متحد کیے بغیرچارہ نہیں ہے۔ قاہرہ کے اِلیٹ اسٹڈیز سنٹر (Elite Studies Centre) کے سربراہ احمد فودہ لکھتے ہیں: ’’۸۰ کی دہائی کے آغاز میں امریکی وزارتِ دفاع پینٹاگون نے معروف صہیونی دانش ور برنارڈ لویئس کو ذمہ داری سونپی تھی کہ عالمِ اسلام کو مزید ٹکڑے کرنے کے لیے جامع منصوبہ تیار کرے۔ اس نے ایک مسودہ تیار کیا، جسے امریکی کانگریس نے ۱۹۸۳ء میں اپنے ایک خفیہ اجلاس کے دوران منظور کیا اور تب ہی سے اس پر عمل درآمدشروع ہے۔ احمد فودہ مزید لکھتے ہیں کہ حسنی مبارک کے دور میں مصر کو توڑنے کے لیے جتنا کام ہوا، وہ ہماری پوری تاریخ میں نہیں ہوا۔ انھوں نے بتایا کہ ری پبلکن انسٹی ٹیوٹ میں انتخابی مہم کی انچارج مصری خاتون دولت عیسیٰ نے اس وقت اپنے عہدے سے استعفا دے دیا جب انھیں معلوم ہوا کہ انسٹی ٹیوٹ کے تمام بیرونی فنڈ براہِ راست امریکی کانگریس سے آتے ہیں، اور ادارے کی سرگرمیوں کا اصل ہدف یہ ہے کہ ۲۰۱۵ء تک مصر کو چار ٹکڑوں میں تقسیم کردیا جائے۔ احمد فودہ کا کہنا ہے کہ حسنی مبارک کے اقتدار کے بعد ملک میں مذہبی، علاقائی اور قبائلی بنیادوں پر جتنے بھی فسادات شروع کروائے گئے ہیں ان کے پیچھے ملک توڑنے کی یہی امریکی سازش کارفرما ہے۔
اسی طرح بنگلہ دیش کا ۱۱/۱ علاقہ چٹاگانگ پہاڑی سلسلے پر مشتمل ہے، جہاں مقامی قبائل اور بنگالی آبادی نصف نصف تناسب رکھتی ہے۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین اور متعدد مغربی غیرسرکاری تنظیمیں یہ مہم بھی چلا رہی ہیں کہ بھارت کی دو ریاستوں منی پور اور میزورام کے علاوہ بنگلہ دیش کے اس ۱۱/۱ علاقے کو بھی ایک الگ ملک کی حیثیت دی جائے۔ اسرائیل کی طرف سے انکشاف کیا گیا ہے کہ بنگلہ دیش کے یہ مقامی قبائل بنیادی طور پر یہودی تھے۔ دوسری طرف دونوں ہندستانی ریاستوں میں بھی ۵۰ہزار یہودی رہتے ہیں، جن کی اکثریت اسرائیلی پاسپورٹ رکھتی ہے۔ اسرائیل نے بنگلہ دیش کی قبائلی آبادی کو بھی دھڑادھڑ اسرائیلی دورے کروانا شروع کردیے ہیں۔ بنگلہ دیشی دانش وروں کے مطابق منصوبہ یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کے قلب میں پیوست صہیونی ریاست کی طرح جنوب مغربی ایشیا میں بھی ایک صہیونی ریاست کاخنجر گھونپ دیا جائے۔ انڈونیشیا سے مشرقی تیمور اور سوڈان سے جنوبی سوڈان کو کاٹ پھینکنے کی مہم سرانجام دینے والے لارڈ ابورر (Lord Abburir) کو چٹاگانگ ہل ٹریکٹس کمیشن (Chitagong Hill Tracts Commission) کا سربراہ بناکر میدان میں اُتار دیا گیا ہے۔ بنگلہ دیشی حکومت کو بھی ان ساری سازشوں کا ادراک تو یقینا ہوگا، لیکن مکمل بھارت نوازی نے آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے۔
اب ایک طرف یہ ساری سازشیں ہیں اور دوسری طرف عالمِ عرب سے آنے والی خوش گوار بہار کے جھونکے۔ یمن میں بھی ۳۳سال کے بعد پہلی بار ایسے صدارتی انتخاب ہوئے کہ جس میں سابق صدر علی عبداللہ شریک نہیں تھا۔ عبدہ منصور ہادی سب کا مشترک اُمیدوار تھا۔ اخوان نے بھی بھرپور ساتھ دیا اور اب سابقہ ڈکٹیٹر کے اقتدار کا حتمی خاتمہ ہوگیا۔ یہ تمام تبدیلیاں دشمن کے تمام منصوبوں کے علی الرغم اور لاتعداد قربانیوں کے بعد وقوع پذیر ہورہی ہیں۔ اہلِ ایمان کو یقینِ کامل ہے کہ ان شاء اللہ جیت حق ہی کو ملنا ہے۔ بیرونی دشمن بھی نامراد ہوگا اور اندرونِ ملک ان کے غلام بھی۔
چلتے چلتے یہ خوش گوار خبر بھی سن لیجیے کہ ۱۰فروری کو سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو میں سیدابوالاعلیٰ مودودی کی تفہیم القرآن کے سنہالی زبان میں ترجمے کی پُروقار تقریب منعقد ہوئی۔ سری لنکن وزیراعظم تقریب کے مہمانِ خصوصی تھے اور امیرجماعت اسلامی سری لنکا رشید حج الاکبر صدرمجلس۔ عرب انقلابات کے بعد دنیا اسلام اور اسلامی تحریک کو نئی روح سے سمجھنا چاہتی ہے۔ تفہیم القرآن کا سنہالی ترجمہ اس سلسلے کی اہم کڑی ثابت ہوگا، ان شاء اللہ۔ اس تقریب کی اطلاع سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانِ مبارک کی مٹھاس پھر عود کرآئی کہ:’’جو شخص کسی کو بھلائی کی طرف بلاتا ہے تو اسے اپنی نیکی کا اجر بھی ملتا ہے اور اس شخص کی نیکی کا بھی کہ جو اس کی وجہ سے نیکی پر عمل پیرا ہوا، اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہتا ہے اور اس سے ان کے اجر میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں ہوتی‘‘۔ امام حسن البنا شہید اور سیدابوالاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ اور ان جیسے لاتعداد بزرگوں کی تاقیامت جاری رہنے والی نیکیوں کا ذکر کرتے ہوئے آیئے ہم بھی سوچیں، بلکہ فیصلہ کریں کہ ہمیں پیچھے کیا چھوڑنا ہے۔
سوال: آج کے دور میں جادو ٹونے کا رواج بہت بڑھ گیا ہے۔ لوگ جادوگروں کے پاس بہت جانے لگے ہیں۔ اس بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ جس پر جادو کیا گیا ہو، اس کے علاج کا طریقہ بھی بتلایئے۔
جواب: جادو کرنا گناہِ کبیرہ ہے، بلکہ جادو کرنے والا دائرۂ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔ اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے: وَ اتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّیٰطِیْنُ عَلٰی مُلْکِ سُلَیْمٰنَ وَ مَا کَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَ لٰکِنَّ الشَّیٰطِیْنَ کَفَرُوْا یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ (البقرہ ۲:۱۰۲) ’’اور لگے ان چیزوں کی پیروی کرنے جو شیاطین، سلیمان ؑ کی سلطنت کا نام لے کر پیش کیا کرتے تھے، حالانکہ سلیمان ؑ نے کبھی کفر نہیں کیا، کفر کے مرتکب تو وہ شیاطین تھے جو لوگوں کو جادوگری کی تعلیم دیتے تھے‘‘۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے بتا دیا ہے کہ شیطان ہی لوگوں کو جادو سکھاتے تھے اور یہ کفریہ عمل ہے۔ جو فرشتے آسمان سے اُتارے گئے تھے انھوں نے بھی واضح طور پر کہا تھا کہ جادو کرنا یا سیکھنا کفریہ عمل ہے۔ نیز یہ بھی ارشاد فرمایا کہ جادو سیکھنے والے جو کچھ سیکھتے ہیں وہ ان کے لیے نقصان دہ ہے، فائدہ مند نہیں، اور ایسے لوگوں کے لیے آخرت میں اجروثواب کا کوئی حصہ نہیں۔ نیز فرمایا: جادوگر میاں بیوی میں جدائی ڈالتے ہیں، مگر وہ اللہ کی مشیت کے بغیر کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔
اس سے واضح ہوتا ہے کہ جادو کفر، گمراہی اور دین اسلام سے رُوگردانی کے مترادف ہے، اگر ایسا کرنے والا اسلام کا دعوے دار ہو۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سات مہلک ترین گناہوں سے بچو جن میں سے پہلا شرک اور دوسرا جادو۔ شرک کی طرح جادو بھی مہلک ہے، اس لیے کہ جادوگر، شیطان کی پوجا کے ذریعے ہی کامیاب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ شیطان سے استعانت اور مدد طلب کرتے ہیں۔ شیطان کے نام پر نذر و نیاز اور جانور ذبح کرتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جس نے دھاگوں سے گرہیں لگائیں اور ان میں پھونکیں ماریں، تو گویا اس نے جادو کیا اور جادو شرک کے مترادف ہے، اور جس نے گردن میں تعویذ وغیرہ لٹکائے وہ ان کے حوالے کر دیا جائے گا (یعنی پھر اللہ کی حفاظت اس سے اُٹھ جائے گی)۔ النَّفّٰثٰتِ فِی الْعُقَدِ (الفلق ۱۱۳:۴) سے مفسرین نے جادوگرنیاں مراد لی ہے جو شرکیہ الفاظ پڑھ کر پھونک مارتی ہیں اور لوگوں کو تکلیف پہنچانے کے لیے شیطانوں سے مدد مانگتی ہیں۔
شریعت کی رُو سے اسلامی مملکت میں جادوگر کو سزاے موت دی جاتی ہے، اس لیے کہ اس کا وجود اسلامی معاشرے کے لیے سخت مضر ہے۔ حضرت عمرؓ سے ایسا ہی منقول ہے۔ لہٰذا نجومیوں اور کاہنوں کی طرح جادوگروں کے پاس بھی جانا، ان سے قسمت کا حال پوچھنا اور ان کی بات پر یقین کرنا جائز نہیں۔
جہاں تک جادو کے علاج کا تعلق ہے تو وہ شرعی طور پر ثابت شدہ دُعائوں اور دوائوں کے ذریعے ہونا چاہیے۔ جس پر جادو ہوا ہو، اس پر سورئہ فاتحہ، آیت الکرسی، نیز سورۂ اعراف، سورئہ یونس اور سورئہ طٰہٰ کی جادو والی آیات، اور سورئہ کافرون، سورئہ اخلاص، سورئہ علق اور سورئہ ناس پڑھ کر دم کرنا چاہیے۔ یہ آخری تین سورتیں تین تین مرتبہ پڑھنی چاہییں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ دودُعائیں بھی تین تین مرتبہ پڑھ کر دم کرنا چاہیے: اَللّٰھُمَّ رَبَّ النَّاسِ اَذْھِبِ الْبَأسَ وَاشْفِ اَنْتَ الشَّافِی لَاشِفَائَ اِلاَّ شِفَاؤُکَ شِفَائً لَا یُغْادِرُ سَقَمًا۔اور وہ دُعا اور جھاڑ پھونک جو حضرت جبریل ؑ نے آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کی تھی: بِسْمِ اللّٰہِ اَرْقِیْکَ مِنْ کُلِّ شَیْئِ یُوْذِیْکَ، وَمِنْ شَرِّ کُلِّ نَفْسٍ اَوْ عَیْنٍ حَاسِدٍ، اللّٰہ یَشْفِیْکَ، بِسْمِ اللّٰہَ اَرْقِیْکَ۔ اس علاج سے ان شاء اللہ بہت فائدہ ہوگا۔ علاج میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ دھاگے اور تعویذ گنڈے وغیرہ تلف کردیے جائیں جن کے بارے میں یہ گمان ہو کہ ان سے جادو کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ جس پر جادو کیا گیا ہو، اسے شرعی طور پر ثابت شدہ جھاڑ پھونک کرنے اور اوراد و وظائف پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ مثال کے طور پر فجر اور مغرب کی نماز کے بعد تین تین مرتبہ آخری تین سورتیں اور یہ دُعا اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ پڑھنی چاہیے۔نیز ہرنماز کے بعد اور سوتے وقت آیۃ الکرسی ضرور پڑھنی چاہیے۔ صبح شام تین تین بار بِسْمِ اللّٰہِ الَّذِیْ لَا یَضُرُّ مَعْ اسْمِہٖ شَیْئٌ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَائِ وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ پڑھنے کو معمول بنالینا چاہیے۔پھر اللہ کے ساتھ حُسنِ ظن رکھنا چاہیے اور یہ اعتقاد رکھنا چاہیے کہ اسباب پیدا کرنے والی اسی کی ذات ہے اور وہ جب چاہے گا بیمار کو شفا بخش دے گا۔ یہ دُعائیں اور تعوذات تو اسباب ہیں شافی اللہ کی ذات ہے۔ وہ چاہے تو ان اسباب میں فوری تاثیر فرما دے۔ اس کے ہر کام میں حکمت ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ کسی نیک آدمی سے جو قرآن و سنت کے مسنون دم کرتا ہو، اس سے دم کرانا بھی جائز ہے۔ بعض اوقات آدمی بیمار ہوتا ہے، اسے کوئی اندرونی ذہنی بیماری لاحق ہوتی ہے لیکن لوگ وہم سے اسے جادو کا اثر یا جنات کا اثر سمجھ لیتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ اسی قسم کی بیماری کا شکار ہوتے ہیں۔ (ڈاکٹر عبدالحئی ابڑو)
س: بعض لوگ دُعا مانگتے ہیں مگر قبول نہیں ہوتی، پھر وہ لمبی دُعائیں مانگنا شروع کردیتے ہیں مگر بظاہر کوئی اثر نظر نہیں آتا۔ اس طرح شیطان کو وسوسہ اندازی اور اپنے مالک سے بدگمان کرنے کا موقع مل جاتا ہے؟ ایسے میں دُعا کی قبولیت میں تاخیر کی کیا حکمت ہوتی ہے؟
ج: اگر کسی کو ایسی صورت حال کا سامنا ہو، تو اسے یہ یقین رکھنا چاہیے کہ قبولیت دُعا میں تاخیر کے پیچھے بڑی حکمتیں اور اسرار پوشیدہ ہوتے ہیں۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ مالک الملک ہیں، اس کے فضل کو ٹالنے والا اور اس کے فیصلوں پر نظرثانی کرنے والا کوئی نہیں، اس کے دینے یا نہ دینے پر کوئی اعتراض نہیں کرسکتا۔ اگر وہ دے تو یہ اس کا فضل ہے، نہ دے تو یہ اس کا عدل ہے۔ ہم اس کے بندے ہیں، ہمارے بارے میں جو چاہے کرسکتا ہے۔ وَرَبُّکَ یَخْلُقُ مَا یَشَآئُ وَیَخْتَارُ ط مَا کَانَ لَھُمُ الْخِیَرَۃُ ط(القصص ۲۸:۶۸) ’’تیرا رب پیدا کرتا ہے جو کچھ چاہتا ہے اور (وہ خود ہی اپنے کام کے لیے جسے چاہتا ہے) منتخب کرلیتا ہے، یہ انتخاب اِن لوگوں کے کرنے کا کام نہیں ہے‘‘۔
یہ عجیب بات ہے کہ: ۱-غلام اپنے آقا کے حقوق ادا کرنے میں کوتاہی کرے اور پھر اپنا حق پورا ادا کرنے کا تقاضا کرے۔
۲-اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ حکمت کے تحت دیتا ہے اور حکمت کے تحت روکتا ہے۔ اپنی سطحی نظر میں انسان کسی چیز کو بہتر سمجھتا ہے مگر وہ اس کی حکمت کا تقاضا نہیں ہوتی۔ ڈاکٹر ایسی چیزیں کرتا ہے جو بظاہر ضرررساں لگتی ہیں مگر وہی مصلحت کا تقاضا ہوتی ہیں۔
۳- انسان کو کسی کام کے انجام کا پتا نہیں، وہ ایسی چیز مانگ سکتا ہے جس کا انجام اچھا نہیں ہوتا، ہو سکتا ہے اس میں اس کا نقصان ہو ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ عَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ ج وَ عَسٰٓی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْئًا وَّ ھُوَ شَرٌّ لَّکُمْ ط وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنo (البقرہ۲:۲۱۶) ،’’ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمھیں ناگوار ہو اور وہی تمھارے لیے بہتر ہو۔ اور ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمھیں پسند ہو اور وہی تمھارے لیے بُری ہو۔ اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے‘‘۔ یہ آیت یہ راز بتاتی ہے کہ بندے کو اپنے مالک کو تجاویز نہیں دینی چاہییں، اور ایسی چیزیں نہیں مانگنی چاہییں جن کی حقیقت کے متعلق اُسے علم نہ ہو، بلکہ اسے یہ سوال کرنا چاہیے کہ مولا! جس چیز کا آپ میرے لیے انتخاب کریں اس کا انجام بخیر فرمائیں۔ اس سے زیادہ نفع بخش کوئی سوال نہیں۔
۴- دُعا کی قبولیت میں تاخیر کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ بندہ اپنا جائزہ لے، اپنے نفس کا محاسبہ کرے، کیونکہ بعض اوقات تاخیر مانگنے والے کے اندر پائے جانے والے کسی نقص کی وجہ سے بھی ہوسکتی ہے۔ شاید اس کا کھانا پینا حرام کا ہو، شاید دُعا کرتے وقت اس کا دل غفلت کا شکار ہو، یا وہ گناہوں کا مرتکب ہو جن کی سزا دُعا قبول نہ ہونے کی صورت میں ظاہر ہو رہی ہو۔ اس طرح قبولیت میں تاخیر کے ذریعے اسے اپنا محاسبہ کرنے اور توبہ کرنے کا موقع دیا جارہا ہو۔ اگر دُعا فوراً قبول کرلی جاتی تو وہ اپنے نفس سے غفلت کا شکار ہوجاتا اور یہ سمجھ لیتا کہ وہ ٹھیک راستے پر ہے۔ اس طرح غرور اور غفلت اس کے لیے ہلاکت کا سبب بن جاتے۔
۵- بعض اوقات قبولیت دُعا میں تاخیر اس لیے ہوتی ہے کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ اس کے لیے آخرت میں اجر بڑھا چڑھا کر دینا چاہتا ہے، یا اس دُعا کے حساب سے اس سے کوئی متوقع شر اور مصیبت دُور رکھنا چاہتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ آخرت میں بندہ دُعا کا اجروثواب دیکھے گا تو تمنا کرے گا کہ کاش! دنیا میں میری ایک دُعا بھی قبول نہ ہوئی ہوتی۔ بہرحال دُعا کا نتیجہ یقینی ہے، اگرچہ بندے کو اپنی آنکھوں سے قبولیت نظر نہ آئے تو اسے اپنے رب کے بارے میں خوش گمانی رکھنی چاہیے اور کہنا چاہیے کہ مالک نے میری دُعا اس انداز سے قبول کی ہے جسے میں نہیں جانتا۔ اسے کبھی بھی دُعا ترک نہیں کرنی چاہیے۔ دُعا کا نتیجہ ہمیشہ بھلائی اور خیروبرکت کی صورت میں ہی نکلتا ہے۔(ع - ا )
س: ایک موقع پر ایک صاحب نے دورانِ گفتگوایک حدیث بیان کی۔ روزِ قیامت رب العالمین انسان کے بارے فیصلہ کچھ اس طرح کریں گے کہ ایک انسان کی نماز آئے گی، اور اس کی نجات کے لیے سفارش کرے گی۔ اسی طرح روزہ، قرآن اور دوسرے اعمالِ صالحہ اس کی نجات کے لیے سفارش کریں گے لیکن رب العالمین ان تمام اعمال کو ایک طرف کھڑا ہونے کا حکم دے کر فرمائیں گے کہ آج میں نے فیصلہ نماز، روزہ، زکوٰۃ وغیرہ پر نہیں بلکہ اس انسان کے ’اسلام‘ پر کرنا ہے۔ پھر اسلام کو بلاکر اس کے نتیجے کو دیکھ کر نجات کا فیصلہ کیا جائے گا۔ براہِ کرم وضاحت فرمائیں کہ یہاں ’اسلام‘ سے کیا مراد ہے؟ پھر نماز اور دوسرے اعمال کی تاکید کا کیا مقصد ہوا؟
ج: یہ حدیث صحیح ہے اور اس کے مضمون پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا۔ حدیث میں اسلام کی بنیاد پر فیصلے کا جو ارشاد فرمایا گیا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ اس بات کو دیکھا جائے گاکہ ایک انسان پورے دین کو مانتا ہے یا نہیں، اس کے ہرحکم کے سامنے سرخم تسلیم کرتا ہے یا نہیں۔ ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً،پورے اسلام میں داخل ہواجائو پر عمل کیا ہے یا نہیں؟ یا صرف اسلام کے چند احکام کو جو اس کو پسند آئے انھیں قبول کیا اور ان پر عمل کیا، باقی کو نظرانداز کردیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَ تَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ ج فَمَا جَزَآئُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ اِلَّا خِزْیٌ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ج وَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرَدُّوْنَ اِلٰٓی اَشَدِّ الْعَذَابِ ط وَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَo (البقرہ ۲:۸۵)’’کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو؟پھر تم میں سے جو لوگ ایسا کریں، ان کی سزا اس کے سوا اور کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ذلیل و خوار ہوکر رہیں اور آخرت میں شدید ترین عذاب کی طرف پھیر دیے جائیں؟ اللہ ان حرکات سے بے خبر نہیں ہے جو تم کر رہے ہو‘‘۔قرآن پاک کی اس آیت کریمہ میں یہودیوں کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ اللہ کے کچھ احکام کو مانتے تھے اور کچھ کا انکار کرتے تھے۔
یہی طرزِعمل اب مسلمانوں نے بھی اختیار کیا ہوا ہے۔ کچھ لوگ چند عبادات کو دین سمجھ کرکے ان پر عمل کرتے ہیں لیکن اسلام کے باقی حصے کو دین ہی نہیں سمجھتے۔ اسی وجہ سے وہ کلمہ بھی پڑھتے ہیں، نمازیں بھی ادا کرتے ہیں، روزے رکھتے ہیں اور حج کے لیے بھی جاتے ہیں لیکن باقی دین کو ترک کر دینے میں کوئی گناہ نہیں سمجھتے۔ حدیث میں انھی لوگوں کی مذمت کی گئی ہے کہ اس قسم کے لوگ جنت میں نہیں جائیں گے۔ نماز، روزے اور دیگر اعمال کے فضائل اور جو تاکید کی گئی ہے اس کا فائدہ بھی انھی لوگوں کو ملے گا جو پورے دین کو مانتے اور اپناتے ہیں اور اسلامی نظام کو ضروری سمجھتے ہیں۔ دوسرے تمام نظاموں کو مٹاکر اسلامی نظام قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے آپ کا اس حدیث پر اشکال درست نہیں ہے۔ واللّٰہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)
اس کتاب میں قرآنِ حکیم کی عام سورتوں کا تعارف بڑے ہی خوب صورت اور مؤثر انداز میں کرایا گیا ہے۔ ہر سورہ کا نچوڑ اور مضامین کے اہم گوشے قارئین کے سامنے آجاتے ہیں۔ اندازِ تحریر دل کش ہے۔چھوٹے چھوٹے اور دل نشین جملوں میں مومنین، کافروں اور منافقین کی صفات، انبیاے کرام کا تذکرہ اور گذشتہ قوموں کے ایمان افروز اور عبرت انگیز واقعات، موت اور قیامت کی منظرکشی، اہل جہنم اور اہلِ جنت کے احوال، مناجات و دعائیں، رسولوں اور خصوصاً نبی اکرمؐ کا تعارف، نہی عن المنکر اور امر بالمعروف اور قرآن کے اوامر ونواہی ___ غرض قرآنی تعلیمات کو کچھ اس طرح سے پیش کیا گیا ہے کہ قلب میں سرور وحرارت پیدا ہوتی ہے، قرآن سے قربت پیدا ہوتی ہے اور اس کے پیغام کو سمجھنے میں آسانی پیدا ہوتی ہے اور قاری عمل کی طرف مائل ہوتا ہے۔
مؤلف نے تفسیر ماجدی اور معارف القرآن (مفتی محمد شفیع) سے استفادہ کرکے سورتوں کی شرح بڑے سلیقے اور ترتیب سے کی ہے۔ پورے قرآن کو ۲۴ابواب میں اس طرح تقسیم کیا گیا ہے کہ ہر باب میں سوا پارہ سما جائے تاکہ رمضان المبارک کے دوران روزانہ تراویح میں ہرچار رکعت کے بعد کے وقفے میں سنایا جاسکے۔ مؤلف نے قرآنِ مجید کے مضامین کے ۱۵موضوعات بیان کیے ہیں اور انھی موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ (شہزاد الحسن چشتی)
’جرح و تعدیل‘ وہ علم اور فن ہے جس میں کسی راوی (حدیث کو سن کر آگے بیان کرنے والے) کی شخصیت کے قابلِ اعتماد ہونے یا نہ ہونے، اس کے کردار کی پختگی، اس کے حافظے اور یادداشت کے معیار، دینی اعتبار سے اس کے عمومی معاملات اور رویوں کے حوالے سے اس کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔یوں تو اسلامی تعلیمات کے مطابق، کسی فرد کے کردار اور ذاتی شخصیت کو عموماً موضوعِ بحث بنانا پسند نہیں کیا گیا، لیکن چونکہ حدیث نبویؐ کا ثبوت و عدم ثبوت ’راوی‘ کی شخصیت پر بہت حد تک منحصر ہے [جیساکہ امام ابن سیرینؒ نے فرمایا: یہ حدیثیں دین ہیں، لہٰذا یہ دیکھ لو کہ کن سے لے رہے ہو]، چنانچہ ہر راویِ حدیث اس اعتبار سے بڑے کڑے معیار پر جانچا گیا ہے۔
’تاریخِ حدیث‘ کے ذیل میں ’جرح و تعدیل‘ نیا موضوع نہیں ہے۔ عربی زبان میں اس حوالے سے کیے گئے کام کی ایک طول طویل فہرست ہے۔لیکن اُردو میں علمِ حدیث نبویؐ کے خالص فنی مباحث کے حوالے سے تصانیف کا رجحان نیا ہے۔ کتاب چونکہ خالص فنی مباحث پر مشتمل ہے، وہ بھی علومِ حدیث کے ایک خاص شعبے، یعنی ’جرح و تعدیل‘ کے حوالے سے۔ چنانچہ اپنی خاص اصطلاحات کے کثرت سے استعمال کے باعث حقیقت میں تو یہ علومِ حدیث کے طلبہ و اساتذہ ہی کو پورا فائدہ دے گی، جیساکہ اس کے مشتملات سے بھی واضح ہے۔ مثلاً، تعارفی مقدمے کے بعد چار طویل ابواب اسناد و طبقاتِ رجال، قواعدِ جرح و تعدیل، ائمۂ جرح و تعدیل، اور کتبِ جرح و تعدیل کے عنوانات کے تحت ’قدیم و جدید مصادر و مراجع سے‘ جمع و استفادہ کرتے ہوئے مرتب کیے گئے ہیں۔ تاہم علومِ دینیہ سے دل چسپی رکھنے والے ایک عام قاری کے لیے بھی یہاں دل چسپی کا کافی ’لوازمہ‘ موجود ہے۔
راویانِ حدیث کے تقویٰ اور شوقِ علم کا تذکرہ، ان کے طویل سفر، علمِ حدیث کے حصول اور اس کو دوسروں تک پہنچانے میں ان کی مشقت اور فکرمندی، حدیث نبویؐ کی حفاظت و اشاعت کے لیے علماے اُمت کے ایک بڑے طبقے کا اپنی توجہات کو صرف اسی ایک نکتے پر مرکوز کردینا___ اور سب سے بڑھ کر فرامینِ نبویؐ کی حفاظت کے لیے علوم کی کتنی ہی شاخوں کا اس طرح مرتب کرنا کہ آج تک ہرروایت کا مقام و مرتبہ معلوم و متعین کرلینا ممکن ہے۔ ساری اُمت اس باب میں ان رجالِ عظیم کی سپاس گزار ہے۔بعض مقامات پر الفاظ نظرثانی کے مستحق ہیں اور مستشرقین پر تنقید میں استعمال کیے گئے الفاظ محلّ نظر ہیں۔ (آسیہ منصوری)
طارق بن زیاد اور موسیٰ بن نصیر کے جنگی کارناموں کا مرکز سرزمین اندلس ایک عرصہ مسلم تہذیب کا گہوارہ بنی رہی جس کے آثار بزبانِ حال آج بھی اپنی داستان بیان کر رہے ہیں۔ اندلس کے سپوتوں میں شاطبی و قرطبی، ابن حزم و ابن رُشد، ابن عربی و ابن عبدالبر، ابن بیطار و ابن طفیل وغیرہ کے نام سرفہرست ہیں۔ ان مایہ ناز اور نابغۂ روزگار شخصیات نے قرآن، حدیث، فقہ، فلسفہ و کلام، تصوف و احسان، تاریخ و سیرت، طبیعیات و کیمیا اور طب و جراحت وغیرہ کے جملہ علوم میں دنیا کی رہنمائی کی۔ یہ بہت وسیع تاریخ ہے۔ علمِ حدیث اس کا ایک گوشہ ہے۔
زیرتبصرہ کتاب میں اسی گوشے کے ابتدائی خدوخال کو بیان کیا گیا ہے اور فتح اندلس سے لے کر پانچویں صدی ہجری تک علمِ حدیث کے میدان میں ہونے والی کاوشوں کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ پہلے باب میں اندلس کی مختصر تاریخ ، جغرافیہ، معاشرتی حالات اور اقلیتوں کی صورتِ حال کا بیان ہے۔ دوسرے باب میں حدیث کی اشاعت کے پہلے مرحلے پر روشنی ڈالی گئی ہے اور اولین محدثین کا تعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ تیسرا باب اشاعتِ حدیث کے دوسرے مرحلے کی تفصیلات پر مشتمل ہے۔ چوتھا باب پانچویں صدی ہجری کے محدثین کی تاریخ بیان کرتا ہے۔ اس تحقیق کے مطابق صحابہ کرامؓ کی اندلس آمد کے آثار بھی ملتے ہیں، تاہم اوّلین محدثین کے طور پر صعصعہ بن سلام سامی، معاویہ بن صالح اور غازی بن قیس کے نام سامنے آتے ہیں۔ اس ابتدائی دور میں موطا امام مالک حدیث کے طلبہ و علما کا مرکز رہی۔ حدیث کے دوسرے مرحلے میں اس ارتکاز میں کچھ وسعت پیدا ہوئی اور دیگر علماے حدیث کے اصول و آرا پر بھی توجہ ہونے لگی۔ اس مرحلے میں بقی بن مخلد اور ابن وضاح کے نام نمایاں ہیں۔ علمِ حدیث کے ارتقا کی اس تاریخ کے اختتامی عہد میں ابن عبدالبر، ابن المکویٰ، ابن الفرضی، ابوعمر والدانی، ابوالولید الباجی اور حسین بن محمد غسانی کاوشوں کا تذکرہ ہے۔ فاضل محقق نے بہت متوازن اور جامع انداز میں موضوع کا احاطہ کیا ہے۔ بنیادی مصادر سے رجوع کی بنا پر یہ تحقیق اہمیت کی حامل ہے۔ (ارشاد الرحمٰن)
قطع حیات بہ جذبۂ رحم یا جذبۂ رحم کے تحت قتل (euthanasia) ایک اہم موضوع ہے۔ مغرب میں تو عرصے سے اس انسان دشمن تصور پر ’جذبۂ رحم‘ کی اصطلاح کے زیرعنوان عمل کیا جا رہا ہے، کیونکہ مغربی فکر کی بنیاد ہی اس بات پر ہے کہ فرداپنی جان، مال اور عزت کا مالک ہے۔ وہ اسے جس طرح اور جب چاہے استعمال میں لائے۔ چنانچہ ایک شخص اپنی مرضی سے جب چاہے اپنی موت کا سامان کرسکتا ہے اور زندگی میں اگر چاہے تو غیراخلاقی تعلقات بھی قائم کرسکتا ہے۔
اسلام میں فرد کو یہ اختیار حاصل نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے بندے کی حیثیت سے اسے اس کی جان، مال اور عزت بطور امانت کے دی گئی ہے اور اس کا فرض ہے کہ ذمہ داری کے ساتھ ان کی قدروحفاظت کرے۔ جس شریعت کا مقصد جان کا تحفظ ہو، وہ کس طرح ایک شخص کو یہ آزادی دے سکتی ہے کہ وہ جب اور جس طرح چاہے اپنی جان کو ختم کرلے۔قرآن کریم نے صرف ایک آیت مبارکہ میں وَ لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ (البقرہ ۲:۱۹۵) ’’اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو‘‘ فرما کر ان تمام ذرائع کا سدباب کردیا ہے، جن کا تعلق انسان کی اپنی صواب دید سے ہے۔ ان ذرائع میں اپنے ہاتھوں سگریٹ پی کر، ہلکی زہرخورانی سے خود کو نقصان پہنچانا ہو، یا شراب اور دیگر منشیات کا استعمال، یا ہاتھ سے کسی آلے کے ذریعے خود کو مارنا یا اپنے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے اپنے ہاتھ سے یہ لکھ کر دینا کہ اس فرد کو اپنے مارے جانے پر کوئی اعتراض نہیں___ یہ سب شامل ہیں۔ گویا خود کو ختم کرنے کی ہروہ شکل جو انسانی ارادہ و اختیار کے دائرے میں آتی ہو، اس آیت مبارکہ کی رُو سے حرام اور ناجائز قرار دے دی گئی۔
گذشتہ چند برسوں سے نہ صرف بیماریوں سے متاثر افراد بلکہ فاقہ کشی اور بے روزگاری کے شکار یا خاندانی جھگڑوں سے تنگ آکر بعض افراد اپنے ہاتھوں اپنی زندگی ختم کرنے پر آمادہ ہونے لگے ہیں۔ خصوصاً نوجوانوں (لڑکوں، لڑکیوں) میں والدین، معاشرہ اور ابلاغ عامہ کی طرف سے صحیح تربیت نہ ملنے کے سبب یہ رجحان روز افزوں ہے۔
زیرتبصرہ کتاب کا موضوع عمومی خودکشی نہیں ہے بلکہ صرف جذبۂ رحم کے ذریعے ڈاکٹر کے تعاون سے موت کا واقع ہونا ہے جسے euthanasia کہا جاتا ہے۔ مغربی علمی جرائد میں بھی یہ مسئلہ طبی اخلاقیات کے زیرعنوان زیربحث رہا ہے اور اس پر اچھا خاصا اختلافِ راے پایا جاتا ہے۔ گو، بعض امریکی ریاستوں (یا شاید بعض یورپی ممالک) میں اس کی قانونی اجازت ہے اور ایک ڈاکٹر مریض کے کہنے پر مصنوعی آلات کو منقطع کرکے، مریض کو دنیاے عدم میں پہنچا سکتا ہے۔
مصنف نے قرآن و حدیث اورفقہا کی آرا کو یک جا کرکے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اسلام نہ تومریض کو، نہ اس کے لواحقین کو اور، نہ ڈاکٹر کو یہ حق دیتا ہے کہ شدید تکلیف سے بچنے کے لیے active euthanasia کا استعمال کرے۔ اس طرح passive euthanasia بھی ناجائز ہے۔ کیونکہ جان کا تحفظ اسلام کے مقاصد میں سے ہے اور مذکورہ دوائوں سے جان جاسکتی ہے۔
ڈاکٹر اور اقربا کا فرض ہے کہ وہ اپنی حد تک مریض کی دوا اور نگہداشت میں کوئی کمی نہ کریں۔ اگر کوئی وارث زیادہ اخراجات کی بنا پر یا مریض کو تکلیف کے خیال سے دوا یا علاج روک دیتا ہے تو اسلام کی نگاہ میں یہ قتل ہے اور شریعت کی نگاہ میں وہ وراثت سے محروم ہوجاتا ہے۔ غالباً وراثت سے محرومی کا حکم اس بنا پر دیا گیا تھا کہ لوگ اپنے کسی عزیز کی تکلیف کی طوالت کو بہانا بناکر اس کی میراث پر قابض ہونے کا خواب نہ دیکھیں۔
مصنف نے بہت محنت سے فقہی مواد جمع کیا ہے اور اس موضوع پر ایک علمی کام کیا ہے۔ اس کتاب کو میڈیکل کالجوں کے اساتذہ اور طلبہ کے لازمی مطالعے کا حصہ ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ مصنف کو طبی اخلاقیات پر مزید کام کا موقع دے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)
اس مختصر مگر جامع تصنیف میں مصنف نے سات اقسام کے حشرات (مچھر، مکھی، جوں، گھن، شہد کی مکھی اور چیونٹی) جن کا ذکر قرآنِ حکیم میں ہوا ہے، بیان کیے ہیں۔ گھن کے تحت پانچ انواع بیان ہوئی ہیں۔ اس فہرست میں مکڑی بھی شامل ہے حالانکہ وہ حشرات کی سائنسی تعریف میں نہیں آتی۔ اس کو شامل کرنے کی یہ معقول وجہ بیان کی گئی ہے کہ قرآن حکیم میں اس (مکڑی) کے بیان کی غرض و غایت وہی نظر آتی ہے جو مچھر اور مکھی کی مثالوں کی ہے۔ حرفِ آغاز میں کتاب میں دی گئی معلومات کے بارے میں وضاحت ہے کہ ’’ٹڈیوں، گھن اور جووئوں کو اللہ نے ایسی تمثیلات کے طور پر پیش کیا ہے جو منکرین پر عذابِ الٰہی بن کر ٹوٹ پڑسکتے ہیں۔ ان حشرات کے بارے میں وہی سائنسی معلومات یک جا کی گئی ہیں جو انھیں عذابی شکل دینے میں معاون و مددگار ثابت ہوتی ہیں‘‘۔ اس پہلو سے مصنف کی کوشش بڑی کامیاب ہے۔
مصنف منکرین قرآن کے اس لغو اور جاہلانہ اعتراض کو کہ ’’ایسی تمثیلوں (حقیر حشرات کا بیان) سے اللہ کو کیا سروکار (البقرہ) بڑی خوب صورتی سے احمقانہ ثابت کرنے میں کامیاب ہیں۔ اب تو یہ کیفیت ہے کہ خود منکرین قرآن اس بات پر مجبور ہوئے ہیں کہ ان حقیر حشرات پر تحقیقات کے لیے بڑے بڑے ادارے قائم کر رہے ہیں، اور ان پر تحقیق میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ لہٰذا یہ حقیر حشرات اب حقیر نہیں رہے کیونکہ ان حشرات نے انسان اور حیوان اور ان کی غذا اور صحت کو نقصان پہنچانے اور تباہ کرنے میں جو کردار ادا کیا ہے وہ قابلِ لحاظ حشرات سے کہیں بڑھ کر ہے۔ مصنف نے بڑے اچھے پیرایے میں قدم قدم پر ہرحشر کی جسمانی بناوٹ، دورِ حیات اور ستم سامانیوں بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کی نشان دہی کی ہے۔ حشرات کے نوعی نام انگریزی میں لکھنا مناسب ہے، مثلاً مچھروں کے نام انوفلیس، کیولکس وغیرہ مگر جسم کے حصوں اور دیگر کے بیان میں انگریزی اصطلاحات کے اُردو مترادفات لکھنا زیادہ بہتر ہوتا، مثلاً انٹینا کے بجاے مماس، مینڈبل کے بجاے جبڑا وغیرہ۔ مطالعہ عام کے لیے یہ ایک مفید اور پُراز معلومات کتاب ہے۔(ش - ح - چ)
ہرآدمی کی زندگی بہت سے مشاہدات و تجربات اور سبق آموز واقعات پر مشتمل ہوتی ہے جن سے دوسرے لوگ فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔ مُلّاواحدی دہلوی (۱۸۸۸ئ-۱۹۷۶ئ) اُردو کے معروف ادیب ہیں۔ انھوں نے اپنی زندگی کی سرگذشت میرا افسانہ اسی غرض کے پیش نظر لکھی تھی: اس سوانح عمری میں بعض ’قابلِ ذکر حضرات‘ کا ذکر ہے، نیز ’تجربے کی باتیں‘ بھی ہیں ’’جنھیں اس وقت جانا جاتا ہے جب انسان کے پاس ان سے فائدہ اُٹھانے کا وقت نہیں رہتا‘‘۔(ص ۸)
مصنف کے ذاتی احوال، خانگی زندگی، دوستوں سے تعلق اور معروف شخصیات، مثلاً خواجہ حسن نظامی، علامہ شبلی نعمانی، مولانا سلیمان پھلواری، علامہ اقبال، مولانا ظفر علی خاں، مولانا محمدعلی جوہر، اکبر الٰہ آبادی، نیاز فتح پوری کا تذکرہ، سلیس، سادہ اور دلی کی مستند زبان میں پڑھنے کو ملتا ہے۔اُس زمانے کی معاشرت، ثقافت اور طرزِ زندگی اور انسانی رویوں اور اقدار میں تبدیلی سے بھی قاری آگاہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ مُلّاواحدی اپنی یہ خودنوشت بیماری کی وجہ سے مکمل نہ کرسکے، آخر میں لکھتے ہیں کہ: میری عمربھر کی دو ہی قابلِ ذکر باتیں ہیں: اوّل: قلم کاری، دوم: میونسپل کمیٹی کی ممبری۔ ان دونوں پر ’افسانہ حیات‘ کو نامکمل چھوڑنے کا اعلان کردینے کے باوجود لکھ دیا گیا، لہٰذا میرا افسانہمکمل سمجھنا چاہیے۔ کچھ ملاقاتیوں کا تذکرہ رہ گیا۔ وہ میری کتابوں: ناقابلِ فراموش لوگ اور مقالات، انشایئے اور شخصیتیں میں کافی ہے۔ مُلّاواحدی اس سرگذشت کا اختتام ان الفاظ پر کرتے ہیں:’’اپنے حالات آپ لکھنے میں یہ بڑی خرابی ہے کہ طوطے کی طرح انسان کو اپنے منہ سے اپنے تئیں ’میاں مٹھو‘ کہنا پڑتا ہے۔ کچھ نہ کچھ خودنمائی ضرور کرنی پڑتی ہے‘‘(ص ۱۴۴)۔ (امجد عباسی)
’بنگلہ دیش کی جیل سے پیغام‘ (فروری ۲۰۱۲ئ) میں پروفیسر غلام اعظم صاحب نے اپنے بارے میں جو کچھ بیان کیا ہے وہ حقیقت پر مبنی ہے۔ حکومت نے ان کے خلاف جو اقدام کیا ہے وہ ظلم و زیادتی کی انتہا ہے۔ ایسے شخص کو جس کی عمر ۸۹برس ہے’ جیل کی کوٹھری میں بند کردیا گیا ہے۔ جو حکومت ظلم و ستم کی انتہا کردے اللہ تعالیٰ کے ہاں ایسی حکومت دیرپا نہیں رہتی، اسے اپنے ظلم کا خمیازہ بھگتنا ہی پڑتا ہے۔ ان شاء اللہ پروفیسر غلام اعظم صاحب جیل سے سرخ رو ہوکر باہر آئیں گے اور اُن کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔
’بارش اور پانی، اللہ کی نشانی‘ (جنوری ۲۰۱۲ئ) پڑھ کر پانی جیسی نعمت کی قدروقیمت کا صحیح معنوں میں احساس ہوا۔ قرآن پاک میں اللہ کی آیات (نشانیوں) پر غوروفکر اور تدبر کے لیے جس طرح زور دیا گیا ہے، اس مضمون کے مطالعے سے اس کی اہمیت بھی اُجاگر ہوتی ہے اور غوروفکر کے لیے تحریک ملتی ہے۔ پانی جہاں اللہ کی نعمت ہے وہاں اس کی قدر کرتے ہوئے اس کے ضیاع سے بھی بچنا چاہیے۔ یہ بھی اظہارِ تشکر ہے۔
’بارش اور پانی، اللہ کی نشانی‘ (جنوری ۲۰۱۲ئ) کو مفید پایا، البتہ ص ۳۱ پر ’’انسانی جسم کا درجۂ حرارت بالعموم ۲۵ تا ۴۰ درجہ سینٹی گریڈ کے درمیان‘‘ بتایا ہے جو صحیح نہیں۔ انسانی جسم کا عمومی درجۂ حرارت ۲ئ۳۳ سے ۲ئ۳۸ ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے، جو فارن ہایٹ میں ۹۲-۱۰۱ بنتا ہے۔ مرض کی حالت میں اس میں ضرورتفاوت ہوتا ہے۔
’فقہی رخصتوں پر عمل‘ (جنوری ۲۰۱۲ئ) اہم موضوع پر عمدہ تحریر ہے اور ترجمان کے ذریعے ایک وسیع حلقے تک اس کی رسائی ممکن ہوئی ہے۔ اس کا انگریزی ترجمہ بھی مفید رہے گا۔ اس موقع پر میں ایک توجہ بھی دلانا چاہتا ہوں کہ اُردو دُنیا کی تیسری بڑی زبان ہے اور ترجمان کے ذریعے ہمیں اہم مسائل پر بہترین رہنمائی میسر آتی ہے، تاہم اس کی زبان قدرے مشکل ہے۔ ایک عام قاری کے لیے اسے سمجھنے میں دقت پیش آتی ہے۔ اگر مشکل تراکیب کے عام فہم معنی بھی دے دیے جائیں تو زیادہ مؤثر ابلاغ ہوسکے گا۔
’فقہی رخصتوں پر عمل‘ (جنوری ۲۰۱۲ئ) خاصے کی چیز ہے، تاہم اعتدال اور توازن کی کمی محسوس ہوئی۔ اس مضمون میں رخصتوں پر عمل کی (اجازت کے اعلان کے باوجود) سخت حوصلہ شکنی کی گئی ہے، جب کہ شارع علیہ السلام نے ضرورت کے وقت رخصتوں پر نہ صرف خود عمل فرمایا ہے بلکہ اُمت کو بھی ان سے فائدہ اُٹھانے کی تلقین فرمائی ہے۔ مضمون اپنے مرکزی نکتے اختلافی مسائل میں فقہاے اسلام کے مختلف اقوال تک محدود ہوتا اور اس میں موجودہ دور کے متجددین کے افکار اور تلفیق پسندی کی مثالوں سے وضاحت کے ساتھ ان پر نکیر ہوتی تو کیا بات تھی۔یہ عبارت کہ ’’ایسے حضرات کی کمی نہیں ہے جو عصری تغیرات کا حوالہ دے کر اسلامی فقہ کی ازسرنو تدوین کا دم بھرتے نہیں تھکتے‘‘ (ص ۷۵) قابلِ غور ہے۔ فقہ اسلامی کی تدوینِ جدید کے نظریے میں آخر کیا برائی ہے جس کی اس شدومد سے مذمت کی جارہی ہے؟ اس مضمون کے بعض جملے اور عبارتیں غیرواضح ہیں۔
’رسائل و مسائل‘ (جنوری ۲۰۱۲ئ) کے تحت مولانا عبدالمالک صاحب کی طرف سے بلاسود بیمہ پالیسی سے متعلق سوال کے جواب میں یہ فرمایا جانا کہ ’’مولانا تقی عثمانی صاحب نے اگر کسی بنک کی پالیسی کو غیرسودی قرار دیا ہے تو وہ درست ہے‘‘ فقیہانہ انداز سے قطعاً میل نہیں کھاتا۔ اس پر مستزاد یہ کہ اس مسئلے سے متعلق ان کی بعض آرا سے دیگر علما کے ساتھ ساتھ خود انھی کے ہم مشرب علما میں بھی سخت اختلاف پایا جاتا ہے۔
موضوعات کے تنوع میں اضافہ ہونا چاہیے ۔ عرب دنیا انقلابات سے گزر رہی ہے۔ اس حوالے سے کچھ نہ کچھ تو چھپتا رہا لیکن جامع تجزیہ سامنے نہ آسکا۔ معاشرے میں نئے نئے رجحانات اور مسائل رہنمائی کے متقاضی ہیں۔
’عورتوں کی نماز‘(فروری ۲۰۱۲ئ) جیسے اختلافی مضامین ترجمان کی زینت ہی نہ بنیں تو اچھا ہے ، وگرنہ جواب الجواب کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔
پروفیسر خورشیداحمدصاحب نے ’حکومت، ریاست کے لیے خطرہ!‘ (اشارات، اکتوبر ۲۰۱۱ئ) میں میری نظم کا جو بندشامل کیا تھا، ریمنڈ ڈیوس کے واقعے کے بعد اس میں ایک مصرعے کا اضافہ ہوا تھا، جو یہ ہے:
تو خون بہا دینا، ہم خون بہا دیں گے
یوں شانِ وفاداری دنیا کو دکھا دیں گے
احمد اقبال قاسمی ،حیدرآباد
گذشتہ دنوں مصر جانے کا اتفاق ہوا۔ جامعہ ازہر کی زیارت کا شرف بھی حاصل ہوا۔ یہ مصر ہی نہیں اُمت کا علمی و فکری مرکز ہے۔ مجھے اخوان المسلمون کے مرکز جانے کا بھی موقع ملا۔ شان دار عمارت جدید سہولیات سے آراستہ تھی۔ امین عام محمودحسن صاحب کی خدمت میں بھی حاضر ہوا۔ مجھے اخوان کی کامیابیوں کو دیکھ کر امام البنا شہید، سید قطب شہید اور عبدالقادر عودہ شہید کی قربانیاں یاد آگئیں اور مجھ پر رقت طاری ہوگئی۔ میں نے امین عام سے عرض کیا کہ پاکستان کی طرح دیگر قوتوں کو ساتھ ملا کر قرآن و سنت کی بالادستی پر مبنی دستور کی تشکیل کے لیے مل جل کر کوشش کیجیے۔ انھوں نے کہا کہ ہم اسی نہج پر کام کر رہے ہیں اور حزب الحریۃ والعدالۃ (حریت و عدالت پارٹی)کا قیام اسی غرض کے لیے عمل میں لایا گیا ہے۔ یہ جان کر اطمینان ہوا، تاہم تحریکِ اسلامی پاکستان کو بھی اخوان کے ساتھ اپنے روابط مضبوط کرنے اور بھرپور کردار اداکرنے کی ضرورت ہے۔
مصر کا عالمی عجائب گھر بھی دیکھنے کا موقع ملا۔ حضرت موسٰی ؑکے عہد کے فراعنہ خاندان کی ممی کی ہوئی لاشیں، ان کے بال، اور دانت عجیب منظر پیش کر رہی تھیں۔ سننے میں آیا کہ حضرت موسٰی ؑکے عہد کے فرعون رعمیس کی ممی کی ہوئی لاش بیت المقدس کے عجائب گھر میں ہے۔ اہرامِ مصر کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ کس طرح ایسی عظیم الشان عمارت کی تعمیر کرین کی ایجاد سے پہلے ممکن ہوئی۔ قاہرہ کے وسط میں دریاے نیل اور اس کی دو شاخیں بہتی ہیں۔ ان کے اطراف میں فلک بوس عمارتیں قاہرہ کے مالی ثروت کی مظہر ہیں، جب کہ قدیم آبادیاں قدیم مصری تہذیب کا منظر پیش کرتی ہیں۔
زندگی اور موت کا سوال
اب اگر اپنی قوم اور مملکت کی وحدت کا سوال ہمارے لیے درحقیقت زندگی اور موت کا سوال ہے تو یہ بات مشرقی اور مغربی پاکستان کے ہر مسلمان کو اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ ہم کسی دوسرے مسئلے کو اِس مسئلے سے زیادہ، یا اِس کے برابر اہمیت نہیں دے سکتے۔ یہاں کوئی ایسا نادان دوست، یا دانا دشمن برداشت نہیں کیا جانا چاہیے ، اور نہیں کیا جاسکتا، جو اپنی حماقتوں سے، یا اپنی چالوں سے ہماری وحدت کو خطرے میں ڈالے۔ ہروہ شخص جو یہاں بنگالی، پنجابی، سرحدی اور سندھی کے درمیان تفریق کرتا ہے ، اور اِن تعصبات کو اپنی زبان یا عمل سے اُبھارتا ہے، وہ دراصل پاکستان کی جڑ کاٹتا ہے۔ اِسی طرح ہروہ شخص پاکستان کے ساتھ دشمنی کر رہا ہے جو یہاں مقامی اور مہاجر آبادی کے درمیان فرق و اختلاف پیدا کرتا ہے، یا خود مہاجرین میں یوپی اور بہاری اور دہلوی وغیرہ کی عصبیتیں بھڑکاتا ہے۔ اِسی طرح ایسے تمام لوگ بھی اپنی قوم اور ملک کے ساتھ بدخواہی کر رہے ہیں جو مغربی پاکستان میں بیٹھ کر یہ سوچتے ہیں کہ مشرقی پاکستان ہمارے لیے ایک بوجھ اور ایک ذمہ داری کا پشتارہ ہے، یا مشرقی پاکستان میں بیٹھ کر یہ سوچتے ہیں کہ ہم چونکہ کثیرالتعداد ہیں اس لیے محض ووٹوں کے بل پر ہم اپنی ہربات منوا لیں گے، خواہ مغربی پاکستان والے اس پر راضی ہوں یا نہ ہوں۔ یہ تمام باتیں نہ صرف جاہلیت کی باتیں ہیں جو مسلمانوں کے شایانِ شان نہیں، بلکہ یہ سخت خطرناک بھی ہیں، کیونکہ ان سے ہماری اُس وحدت کو نقصان پہنچتا ہے جس پر ہماری قومی زندگی کا انحصار ہے۔ جو قوم کٹ پھٹ کر پہلے ہی ۵/۳ رہ گئی ہو، اور وہ ۵/۳ بھی آدھوں آدھ کے حساب سے سیکڑوں میل کے فاصلہ پر بٹ گئے ہوں، اور اس کے دونوں حصوں کے درمیان ایک طاقت ور ہمسایہ معاندانہ جذبات لیے ہوئے حائل ہو، وہ اگر اِس طرح کی احمقانہ باتیں سوچتی ہے تو دراصل اپنی شامت کو دعوت دیتی ہے۔ (’اشارات‘، سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، ترجمان القرآن، جلد۳۷، عدد ۶، جمادی الثانی ۱۳۷۱ھ، مارچ ۱۹۵۲ئ، ص ۳-۴)
______________