اسکارف کے مسئلے کے بعد، اب ترکی سے خبر یہ ہے کہ ۱۴مارچ کو ترکی کے چیف پراسیکیوٹر نے ۱۶۲ صفحات پر مشتمل ایک فائل دستوری عدالت میں پیش کی اور پُرزور الفاظ میں عدالت سے درخواست کی کہ حکمران عدالت پارٹی سیکولر دشمنی میں تمام حدوں کو پھلانگ گئی ہے، اس پر پابندی لگائی جائے۔ یہ ۱۱ رکنی دستوری عدالت وہ حتمی ادارہ ہے جس کے فیصلوں پر نظرثانی نہیں ہوسکتی۔ اسی عدالت نے ۱۹۹۸ء میں نجم الدین اربکان اور ان کی رفاہ پارٹی کے خلاف فیصلہ دیا تھا جس میں ۹ ججوں نے فیصلے کے حق میں اور ۲ نے فیصلے کے خلاف راے دی تھی۔ کوئی بھی فیصلہ نافذ ہونے کے لیے ۶ ججوں کی حمایت ضروری ہوتی ہے۔ آج یہی نام نہاد عدالت اس نئے مقدمے کی سماعت کر رہی ہے جس میں درخواست کی گئی ہے کہ نہ صرف پارٹی پر پابندی لگائی جائے بلکہ وزیراعظم اور صدر سمیت عدالت پارٹی کے ۷۱ نمایاں سیاسی رہنمائوں پر سیاست میں حصہ لینا ممنوع قرار دے دیا جائے۔
ادھر عدالت میں مقدمہ زیرسماعت ہے اور ادھر فوج اس میں کھلم کھلا مداخلت کر رہی ہے۔ چیف آف اسٹاف جنرل یاسر بوکانت نے پریس میں ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا: ’’ترکی کی سیکولر حیثیت مسلمہ ہے۔ برائی کے مراکز ترک دستور کے تقدس کو پامال کرنے میں مصروف ہیں‘‘۔ عمومی خیال یہ ہے کہ دستوری عدالت منتخب حکومت کے خلاف فیصلہ صادر کردے گی لیکن اب حالات نصف صدی قبل سے کافی مختلف ہیں۔ ترک پارلیمان کے اسپیکر کوکسال توپتان نے انقرہ میں ۵جون کو ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ دستوری عدالت کے لامحدود اختیارات محدود کردیے جائیں۔ ہمیں یک ایوانی پارلیمان کی جگہ دو ایوانی مقننہ کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے اور غیرمنتخب اداروں کو ایوان کے تابع رکھنا چاہیے۔
اسپیکر کی اس بات کی حمایت میں بہت سے غیر جانب دار ماہرینِدستور اور دانش ور بھی منظرعام پر آگئے۔ ڈاکٹر مصطفی سنتوب ترکی کے دستوری ماہر ہیں۔ انھوں نے کہا: ’’یہ اعلیٰ عدالت ملک و قوم کے لیے ایک مسئلہ بن گئی ہے۔ قانون ساز ادارے کے بارے میں عدالت کا فیصلہ بالکل بے وقعت ہے۔ دستوری ترامیم جب قواعد و ضوابط کے مطابق پارلیمنٹ میں منظور ہوجائیں تو ان کے اجرا کو کوئی نہیں روک سکتا‘‘۔ واضح رہے کہ ترکی کے دستور کی دفعہ ۱۴۸ کے مطابق: ’’ریاست کا کوئی ادارہ پارلیمنٹ سے برتر نہیں ہوسکتا‘‘۔
اسکارف پر پابندی ہٹانے کے خلاف سیکولر عناصر نے عدالت سے رجوع کیا تو عدالت نے اس پارلیمانی فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے یونی ورسٹی کے قانون کے پروفیسر سیراب یزیجی نے کہا:’’یہ فیصلہ قانونی کم اور سیاسی زیادہ ہے۔ عدالت نے اسکارف پر پابندی لگا کر پارلیمنٹ بلکہ خود دستور پر بھی اجارہ داری حاصل کرنے کی کوشش کی ہے‘‘۔
یہ بحث جاری ہی تھی کہ نئے واقعات رونما ہونے شروع ہوگئے۔ یکم جولائی کو دارالحکومت انقرہ میں پولیس نے چھاپے مار کر بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ۲۱ شدت پسند قوم پرست گرفتار کرلیے۔ ان میں دو معروف ریٹائرڈ جرنیل بھی شامل ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ وہ خفیہ طریقے سے منتخب حکومت کا تختہ اُلٹنے کی سازش کر رہے تھے۔ وزیراعظم طیب اردوگان نے ان لوگوں کو ارجن کون (Ergene Kon) سے متعلق قرار دیا۔ یہ تنظیم ترکی میں کافی بدنام ہے۔ اس سے پہلے بھی اس کے ارکان بم حملوں اور بڑی شخصیات کو قتل کر کے انقلاب برپا کرنے کے الزامات کے تحت گرفتار ہوتے رہے ہیں۔ ۱۶ جولائی کو ترکی ذرئع ابلاغ کے مطابق اس تنظیم کے مزید افراد گرفتار ہوئے جس سے گرفتار شدگان کی تعداد ۵۸ تک پہنچ گئی ہے۔ عدالتوں نے ان میں سے بعض کو جن میں ایک ریٹائرڈ میجر جنرل بھی شامل ہے، ضمانت پر رہا کردیا ہے۔ اس انتہاپسند تنظیم کی حمایت انجمن افکار اتاترک (Ataturk Thought Association) بھی کر رہی ہے جس کا صدر ایک ریٹائرڈ جنرل ایروگر (Eroger) ہے۔ وہ بھی گرفتار ہے اور ہنوز زیرحراست ہے۔
ان سطور کے شائع ہونے تک ممکن ہے کہ عدالت کا فیصلہ بھی منظرعام پر آجائے۔ عدالت کو فیصلہ کرنے میں جلدی بھی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عدلیہ کے ججوں کا تقرر صدر کے اختیار میں ہوتا ہے۔ دستوری عدالت کے تمام جج سابق صدر احمدنجدت سیزر کے دورِ صدارت میں مقرر کیے گئے تھے۔ ان میں سے بعض کو اگلے سالوں میں ریٹائر ہونا تھا اور عمومی خیال یہ تھا کہ ان کی جگہ عبداللہ گل ایسے ججوں کو مقرر کریں گے جو کم از کم شدت پسند سیکولر نہ ہوں۔
بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق اردوگان حکومت نے اسکارف کا مسئلہ عجلت میں اور قبل از وقت چھیڑ کر اپنے لیے مشکلات پیدا کرلی ہیں۔ ممکن ہے ایسا ہی ہو لیکن ترکی کی جدید تاریخ بتاتی ہے کہ مخالفین کے شر سے بالواسطہ ہمیشہ خیر برآمد ہوا ہے۔ اب بھی اگر عدالت اور ارتقا پارٹی پر پابندی لگتی ہے تو نیوزویک کے مطابق اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوجائے گا اور اگر عدالت پابندی نہیں لگاتی تو اس سے بھی عملاً حکومت کی جیت ہوگی اور اسے بالادستی مل جائے گی۔ اس ضمن میں ڈان ۵جولائی کا ادارتی شذرہ اور ۷جولائی کو اسی اخبار میں: ’ترکی میں جمہوریت کا معلق مستقبل‘ جوکہ گارجین لندن کے مضمون نگار مائورین فریلے (Maureen Freely) کا مضمون ہے، قابلِ ملاحظہ ہیں۔
نیوزویک کے تازہ شمارے (۲۱ جولائی) میں ترکش ڈیلی نیوز کے ڈپٹی ایڈیٹر اور مشہور تجزیہ نگار مصطفی اکیول نے ’ترکی کے خلاف سازش‘ کے عنوان سے جو تجزیہ کیا ہے اس میں لادین عناصر کی شدید مذمت کے ساتھ یہ راے ظاہر کی ہے کہ حکمران پارٹی اور اس کی قیادت پر پابندی کی صورت میں وقتی طور پر اگلی پارلیمان پھر معلق ہوگی اور نئی حکومتوں کو جرنیل اپنے اشاروں پر نچائیں گے، تاہم طویل المیعاد تناظر میں اردوگان کی پارٹی مزید مضبوط ہوگی۔
ہماری راے میں حکمران پارٹی پر پابندی لگنے کے امکانات زیادہ ہیں۔ اعلیٰ قیادت کو سیاست سے خارج بلکہ پابندِسلاسل بھی کیا جاسکتا ہے۔ ترکی میں اب تک ۲۵ پارٹیوں پر پابندی لگ چکی ہے۔ ان میں زیادہ تر کرد یا کمیونسٹ تھیں۔ اس سے پہلے اسلامی پارٹی پر پانچ مرتبہ پابندیاں لگیں۔ اسلامی پارٹی واحد پارٹی ہے جس پر پابندیوں سے ہمیشہ عوامی تائید میں اضافہ ہوا ہے۔ اگر پابندی لگتی ہے تو یہ فیصلہ اور اس کے بعد کا منظر سیکولر طبقات کے لیے کچھ زیادہ خوش آیند نہیں ہوگا۔ ہم ترکی کے اسلام دوست حلقوں کو یہی پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ صبرواستقامت اور حکمت کے ساتھ آگے بڑھتے رہیں ع ’’شرِّ برانگیزد عدو کہ خیر ما در آں باشد‘‘۔
اسرائیل کے ناجائز قیام کو ۶۰ سال ہو گئے۔ اِس کی پوری تاریخ ظلم و جبر، نسل کشی، ناجائز قبضے اور مذاکرات کی فریب کاریوں پر مشتمل ہے۔ اسرائیل میں آج تک جو کچھ ہوتا رہا ہے یا اب جو کچھ غزہ اور مغربی کنارے میں ہو رہا ہے، اُسے انسانیت کے خلاف جرم ہی کہا جا سکتا ہے۔ اسرائیل نے اقوام متحدہ کی کسی قرار داد، امن فارمولے، بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کو تسلیم نہیں کیا۔ جنگِ عظیم دوم کے دوران جرمنی کے ہاتھوں ۶۰ لاکھ یہودیوں کے قتلِ عام کے افسانے گھڑ کر دُنیا کو فریب دیتے ہوئے مظلومیت کی داستانیںسنائیں اور پھر فلسطین کا رُخ کرتے ہوئے اُس پر قبضہ کر لیا۔
دُنیا کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہودیوں کے ہاتھوں دیریاسین کے قتلِ عام کو بھی ۶۰ سال ہوگئے ہیں۔ ۳۰۰ فلسطینی مردوں، عورتوں اور بچوں پر مشتمل یہ بستی ہاگانہ (Hagana) دہشت گردوں کے ہاتھوں راتوں رات صفحۂ ہستی سے اِس طرح مٹی کہ اب وہاں کھنڈرات کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ ’مہذب‘ مغربی حکومتیں دیریاسین کی بربریت پر آج تک خاموش ہیں، جب کہ یہ فلسطینیوں کے قتلِ عام کا پہلا بڑا واقعہ تھا۔ ایک معروف اسرائیلی مورخ ایلان پاپ(Ilan Pappe) نے جو ۲۰۰۷ء تک حیفا یونی ورسٹی میں پروفیسر رہے ہیں، اپنی ایک کتاب فلسطینیوں کا نسلی صفایا (The Ethnic Cleansing of Palestine) میں لکھتے ہیں:
دسمبر ۱۹۴۷ء سے جنوری ۱۹۴۹ء تک فلسطینیوں کا مسلسل ۳۱ بار قتلِ عام ہوا۔ یہودیوں نے فلسطینیوں کی ۴۱۸ بستیاں صفحۂ ہستی سے مٹا دیں۔
ایلن پاپ حماس کی تحریکِ مزاحمت کے حامی ہیں۔ وہ صہیونیوں کو کھلّم کھلّا نوآبادکار کہتے ہیں۔ وہ اسرائیل کو ایک جمہوری ریاست نہیں سمجھتے۔ ۲۰۰۷ء میں اُنھیں یونی ورسٹی سے استعفا دینے پر مجبور کیا گیا۔ جنوری ۲۰۰۸ء میں ایلن پاپ نے مانچسٹر میٹروپولیٹن یونی ورسٹی (MMU) میں تقریر کرتے ہوئے کہا:
جس طرح سے فلسطینیوں کا نسلی صفایا ہوا ہے، وہ ناقابلِ فراموش ہے۔ اِسے نوآبادکاری کے جبر کے سوا اور کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔ دُوسری جنگِ عظیم کے بعد اسرائیل نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت قتلِ عام کر کے نصف سے زیادہ فلسطینیوں کو اُن کے گھروں سے نکالا جو اب دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔
اسرائیل دُنیا کی واحد ریاست ہے جو نسلی تفریق پر قائم ہے۔ عربوں کی زندگیاں اِتنی سستی اور اِتنی بے مایہ ہیں کہ ایک اسرائیلی کے قتل کے بدلے میں درجنوں فلسطینی بم باری کے ذریعے اُڑا دیے جاتے ہیں۔ ۶۰ برس گزرنے کے باوجود اسرائیل خوف و ہراس کا اِس حَد تک شکار ہے کہ سڑکوں اور گلیوں پر جگہ جگہ کلوز سرکٹ کیمرے اور میٹل ڈی ٹیکٹر نصب ہیں۔ ہر اسرائیلی کے لیے، چاہے وہ مرد ہے یا عورت، ملٹری سروس لازمی ہے۔ اسرائیل نے امن و آشتی کے راستے کا انتخاب کبھی نہیں کیا۔ اِس کے پاس امریکا کا دیا ہوا وافر اسلحہ موجود ہے۔ لیکن ۲۰۰۶ء میں حزب اللہ نے اسرائیل کو پسپا کر کے ثابت کر دیا کہ وہ کوئی ناقابل تسخیر قو ّت نہیں ہے۔ اب وہ غزہ میں حماس سے پنجہ آزمائی کر رہا ہے، لیکن وہ اِس کی راکٹ باری کو روکنے میں ناکام ہو چکا ہے۔
یہودیوں کی اکثریت یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ اسرائیل اُن کے لیے کبھی خطۂ امن نہیں بن سکتا ۔ دُوسرے انتفاضہ کے بعد سے اب تک کے آٹھ برسوں میں ۱۱۰۰ اسرائیلی ہلاک ہو چکے ہیں۔ اِسی دوران ۴۸۰۰ فلسطینی بھی جاں بحق ہوئے ہیں، لیکن اسرائیل اُن کے عزم کو شکست دینے میں ناکام ہوا ہے۔ غزہ کو ایک ’اوپن جیل‘کہا جاتا ہے جس میں ۱۵ لاکھ قیدی فلسطینی بھوکوں مر رہے ہیں۔ باقی رہے مغربی کنارے کے فلسطینی، تو وہ اسرائیلی بستیوں کے محاصرے میں آ چکے ہیں۔ اب اُن کی اپنی فلسطینی اتھارٹی اسرائیل سے اُن کا سودا کرنے یا اُنھیں خود ہی ٹھکانے لگانے میں مصروف ہے۔ نام نہاد مذاکرات کے باوجود مغربی کنارے پر اسرائیلی بستیاں کم ہونے کے بجاے بڑھ رہی ہیں اور فلسطینی سر چھپانے کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ تعلیم اور صحت کی سہولیات دینا تو دُور کی بات ہے، مغربی کنارے اور غزہ کے فلسطینی پانی کی ایک ایک بوند کو ترستے ہیں، جب کہ اسرائیلی تازہ پانی کے سوئمنگ پولوں میں نہاتے ہیں۔ اِن حقائق سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسرائیل غیر یہودیوں کے لیے کتنا ظالم ہے۔
۲۰۰۶ء سے مغربی کنارے پر القدس کے ساتھ ساتھ دیوارِ برلن کے نمونے پر ایک دیوار بنائی جا رہی ہے۔ دیوارِ برلن ۱۵۵ کلو میٹر طویل اور تین سے ۶ میٹر اُونچی تھی۔ جب کہ مغربی کنارے کی دیوار ایک ہزار کلومیٹر طویل اور ۸ میٹر اُونچی ہو گی۔ یہ چاند سے نظر آنے والی دیوارِ چین کے بعد دُوسری طویل دیوار ہو گی۔ اِس کے ساتھ ایک دفاعی سڑک اور ٹاور تعمیر ہوں گے۔ فلسطینیوں نے اِسے جدارالفصل العُنصری ، یعنی نسلی منافرت کی دیوار کا نام دیا ہے۔ انگریزی میں اِسے Apartheid Wall کہا جا سکتا ہے۔ اسرائیل اِس دیوار کو اگلے دَو برسوں میں مکمل کرنا چاہتا ہے۔ اِس کی تعمیر کے لیے راستے میں آنے والے فلسطینیوں کے باغ اُجاڑ دیے گئے اور اُن میں کھڑے زیتون کے لاکھوں درخت کاٹ دیے گئے۔ اسرائیل نے مغربی کنارے پر سڑکوں کا ایسا الگ تھلگ نظام قائم کیا ہے کہ وہاں فلسطینی نہ تو سفر کر سکتے ہیں اور نہ ہی گاڑی چلا سکتے ہیں۔ اِس جبری تقسیم کا مطلب القدس سمیت فلسطینی شہروں اور اُن کی زرخیز زمینوں پر مستقل قبضہ کرنا ہے۔ آج ۹۰ فی صد فلسطین پر اسرائیل کا ناجائز تسلّط قائم ہے۔ شام کی جولان کی پہاڑیاں اور لبنان کے شبعاء فارمز اُن کے علاوہ ہیں جنھیں وہ ضم کر چکا ہے۔ حالانکہ ۱۹۴۷ء کی اقوامِ متحدہ کی قرار داد میں فلسطینیوں کو ۴۵ فی صد علاقہ دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔
اسرائیل کا دیمونہ (Dimona)جوہری ری ایکٹر النقب (Negev) کے دشت میں قائم ہے جہاں یورینیم دستیاب ہے۔ یہ ری ایکٹر فرانسیسی ایٹمی توانائی کے تکنیکی تعاون سے ۱۹۶۳ء میں مکمل ہوا۔ ان میں وہ فرانسیسی، مفرور جرمن اور یہودی سائنس دان شامل تھے جو ایٹم بم بنانے والے امریکی مین ہٹن پروجیکٹ میں کام کر چکے تھے۔ اسرائیل غیرعلانیہ طور پر ایٹم بم بنا چکا ہے۔ وہ ہزاروں ٹن مہلک جوہری فضلہ غزہ کی پٹی میں کم گہرائی پر دفن کرتا رہا ہے۔ دیمونہ ری ایکٹر روس کے چرنوبل پلانٹ کی طرح بوسیدہ ہو چکا ہے۔ بی بی سی کی ایک دستاویزی فلم کے مطابق اسرائیل کے جوہری ری ایکٹر میں دراڑیں پڑ چکی ہیں جو کسی بھی وقت پھٹ کر مصر سے اُردن تک تباہی پھیلا سکتا ہے۔
تل ابیب اسرائیل کی ۶۰ ویں سالگرہ کے علاوہ اپنی صدسالہ تقریبات منانے کی تیاریاں بھی کر رہا ہے۔ یہ شہر ۱۹۰۹ء میں یافا کے پہلو میں بحیرۂ رُوم کے کنارے آباد کیا گیا تھا۔ یہ اِس وقت کی عثمانی حکومت کی فراخ دِلی کا کھلا ثبوت ہے کہ اُس نے یہودیوں کو ایک نیا شہر بسانے کی اجازت دی۔ تل ابیب ۵۱ مربع کلومیٹر میں پھیلا ہوا ہے۔ اِس کی آبادی ۳۰ لاکھ سے زائد ہے۔ یہودی اِسے اسرائیل کا نیویارک کہتے ہیں۔ پہلے اِس کا نام صہیونیوں کے باوا آدم تھیوڈور ہرزل کے نام پر ہرزیلیا (Herzliya) بھی تجویز ہوا تھا۔
اِس وقت اسرائیل کی مجموعی آبادی ۷۱ لاکھ سے زائد ہے۔ اِس میں یہودیوں کی تعداد ۵۴لاکھ ہے۔ مقبوضہ مغربی کنارے، مشرقی القدس اور جولان میں سیکڑوں یہودی نوآبادیات قائم ہیں۔ ویسٹ بنک میں ۲۴۲ نو آبادیات ہیں جن میں ایک لاکھ ۸۷ہزار نوآبادکار لاکر بسائے گئے ہیں۔ مشرقی القدس میں فلسطینیوں کی زبردست مزاحمت کے باوجود ۲۹ نوآبادیات قائم ہو چکی ہیں جن میں ایک لاکھ ۷۷ ہزار یہودی رہتے ہیں۔ جولان کی پہاڑیوں پر ۴۲نوآبادیات ہیں اور یہودی آباد کاروں کی تعداد ۲۰ ہزار ہے۔ اسرائیل نے حال ہی میں یہ عندیہ دیا ہے کہ اگر شام حزب اللہ ، حماس اور اسلامک جہاد سے تعاون نہ کرنے کی یقین دہانی کرا دے تو وہ جولان کی واپسی کے لیے مذاکرات کر سکتا ہے۔
اسرائیل امریکا کا بغل بچہ ہے۔ اِسے امریکا سے ہر سال ایک بلین ارب ڈالر سے زائد بلاواسطہ معاشی امداد مل رہی ہے۔ اربوں ڈالر پر مشتمل امریکی یہودیوں سے ملنے والے فنڈ اِس کے علاوہ ہیں۔ آئی ایم ایف کے مطابق ۲۰۰۶ء میں اسرائیل کی خام قومی آمدنی ۱۹۵ ارب ڈالر تھی۔ اِسی ذریعے کے مطابق ۲۰۰۷ء میں اسرائیلی کی فی کس آمدنی ۷۶۷,۳۱ ڈالر سالانہ تک بڑھ چکی تھی۔ دُوسری طرف فلسطینی ہیں جن کا پرسان حال کوئی نہیں۔ اپریل ۲۰۰۸ء میں عالمی بنک نے رپورٹ دی کہ اسرائیلی پابندیوں کی وجہ سے مغربی کنارے کے فلسطینی غربت کے چنگل میں پھنس کر رِہ گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق فلسطینیوں کی نقل و حرکت کو محدود رکھنے کے لیے مسلسل چیک پوسٹیں تعمیر کی جارہی ہیں۔ مارچ ۲۰۰۸ء تک مغربی کنارے میں ۵۴۶ چیک پوسٹیں بن چکی تھیں۔ اِس امتیازی سلوک سے مغربی کنارے کی معیشت بدترین دَور سے گزر رہی ہے۔ یہاں کی نصف فلسطینی آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ غزہ کا حال نام نہاد یہودی انخلا کے باوجود بہت پتلا ہے۔ یہاں کی پوری ۸۰ فی صد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ واضح رہے کہ غزہ کی آبادی ۱۵لاکھ ۳۷ ہزار، جب کہ مغربی کنارے کی فلسطینی آبادی ۲۶ لاکھ ۱۱ ہزار ہے۔
فلسطینیوں کے خون سے سرخ اسرائیل نہایت بے شرمی کے ساتھ اپنی ۶۰ ویں سالگرہ منا رہا ہے۔ مال و دولت کی ریل پیل کے باوجود اسرائیل کا حکمران طبقہ مالی و اخلاقی بدعنوانی اور روایتی یہودی بددیانتی میں ملو ّث ہے۔ اسرائیلی صدر موشے کتساف پر صدارتی دفتر کی خواتین سے زیادتی کا، موجودہ وزیراعظم اولمرٹ پر مالی بدعنوانی اور بدعنوان کابینہ بنانے کا اور نائب وزیراعظم لیبرمین پر خواتین کو چھیڑنے کا الزام ہے۔ پولیس اِن کیسوں کی تحقیقات میں مصروف ہے۔ نومبر ۲۰۰۷ء میں ۲۰ سے زائد مقامات پر چھاپے مار کر سرکاری ریکارڈ قبضے میں لیے گئے، اِن میں وزارتِ صحت و تجارت شامل تھی۔
اسرائیل کا تحریری دستور مختلف تنازعات کے باعث آج تک وضع نہیں ہو سکا۔ اِس تنازع کے پیچھے عرب نہیں، بلکہ وہ یہودی ہیں جو آج تک اسرائیل کی صہیونی یا سیکولر حیثیت کا تعین نہیں کرسکے۔ یہ وہ نام نہاد ریاست ہے جو پورے مشرق وسطیٰ میں جمہوریت کی اکیلی دعوے دار ہے۔ دُنیا کے دساتیر میں تمام شہریوں کو مساوی حقوق دیے گئے ہیں، مگر اسرائیلی دستور کے لیے یہ شق متنازع ہے۔ اسرائیلی پارلیمنٹ کے اکثر ارکان اِس مساوات کے مخالف ہیں، کیونکہ اِس سے یہودی دُوسرے غیر یہودی شہریوں کے مساوی ہو جائیں گے۔ اِس وقت ۱۹۴۸ء کے ایک بنیادی قانون کے تحت حکومت چلائی جا رہی ہے۔
اسرائیل کی ۶۰ سالہ تقریبات میں صدومی بھی حصہ لیں گے، کیونکہ صدومیت یہودی کلچر کا تاریخی حصہ ہے۔ اِس سلسلے میں اگست میں عالمی فخر (World Pride) کے نام سے ہم جنس پرستوں کی پریڈ مشرقی یروشلم میں ہو گی۔ کئی یہودی ربیوں، عیسائی پادریوں اور مسلم علما نے اپنے بیانات میں کہا ہے کہ وہ علانیہ گناہ کا مظاہرہ کر کے خدا کے غضب کو نہ بھڑکائیں۔
امریکا میں اسرائیل کی ۶۰ سالہ تقریبات کا سلسلہ فروری سے جاری ہے۔ اِس سلسلے میں واشنگٹن سکوائر میں ایک بڑے مخلوط رقص کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ امریکا کے یہودی طلبہ نے امریکی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اُنھیں اسرائیل کی طرح یہاں بھی ہتھیار رکھنے اور فوجی تربیت لینے کا حق دیا جائے۔ اسرائیلی تقریبات منانے کے لیے امریکی یہودی اور یہود نواز تنظیمیں چندے اکٹھے کر رہی ہیں۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اسرائیل اپنے برتھ ڈے بجٹ کے لیے ۲۸ ملین ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ دُوسری جانب فلسطین کا زخم مندمل ہونے کے بجاے گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ یہودی اور امریکی اسرائیل کے یومِ تاسیس ۱۴ مئی کو جس ڈھٹائی سے بھی منانا چاہیں، اُنھیں کوئی نہیں روک سکتا۔ لیکن اُنھیں اِس موقع پر اپنے ضمیر کے اندر جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ وہ جس اسرائیل کی تقریبات منا رہے ہیں، اُس کی بنیاد فلسطینیوں کی کھوپڑیوں پر رکھی گئی ہے۔ ۱۴ مئی یومِ تاسیس نہیں، بلکہ ’یومِ نکبہ‘یعنی مصائب کے آغاز کا دِن ہے۔
مصر عالمِ عرب کا بہت اہم ملک ہے۔ عالمِ اسلام کی مضبوط تحریک اسلامی، اخوان المسلمون اس ملک میں ۱۹۲۸ء میں وجود پذیر ہوئی۔ اپنے قیام کے کچھ ہی عرصے بعد اس تحریک کو گوناگوں مشکلات اور مصری حکومت کے تشدد کے علاوہ عالمی قوتوں کی چیرہ دستیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ تحریک کی بنیادیں قرآن وسنت کے مضبوط اور محکم اصولوں پر اٹھائی گئی تھیں، اس لیے تحریک کی قیادت اور کارکنان نے وقت کے طوفانوں کا ایسی پامردی سے مقابلہ کیا کہ دوست اس پر جھوم اٹھتے ہیں تو دشمن بھی اس کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ حسن البنا شہید ہوں یا ان کے قافلے کے دیگر شہدا، عبدالقادر عودہؒ، محمد فرغلی ؒاور سید قطبؒ سبھی آج دنیا میں روشن ستاروں کی مانند جگمگا رہے ہیں۔ تحریک کی قیادت میں حسن الہضیبیؒ سے لے کر عمرتلمسانی.ؒ تک اور مصطفی مشہورؒ سے لے کر محمدمہدی عاکف حفظہ اللہ تک سبھی صاحبِ عزیمت تھے۔ قیدوبند کی صعوبتیں اور ظلم وستم کے کوڑے ان کے پاے استقامت میں تزلزل پیدا نہ کرسکے۔
اخوان قانون اور دستور کے مطابق تبدیلی کے علَم بردار اور خفیہ سرگرمیوں کے مخالف ہیں۔ انھوں نے ہمیشہ عدالتوں میں اپنے کیس لڑے مگر بدقسمتی سے مصری حکمرانوں نے کبھی عدالتوں کو آزادانہ فیصلے کرنے کی اجازت نہیں دی۔ جب جرأت مند قاضیوں نے جان جوکھوں میں ڈال کر انصاف پر مبنی فیصلے صادر کیے تو پاکستانی حکمران جنرل پرویز مشرف کی طرح مصری حکمرانوں کا کوڑا عدلیہ پر بھی برستا رہا۔ عدالتوں کے ججوں کا ضمیر اس کے باوجود زندہ ہے، اسی وجہ سے بیش تر مقدمات عسکری عدالتوں ہی میں چلائے جاتے ہیں۔ اخوان اپنے آغاز ہی سے سیاسی اور جمہوری دھارے میں شامل رہے ہیں لیکن مصری نظام نے انھیں کبھی قبول نہیں کیا۔ مصر کے گذشتہ عام انتخابات منعقدہ ۲۰۰۵ء میں اخوان سے متعلق امیدواروں نے اپنی آزادانہ حیثیت میں ساری دھاندلیوں کے باوجود ۸۸ نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے پوری دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا تھا۔ ملک کے عام انتخابات کے بعد شیڈول کے مطابق بلدیاتی انتخابات کاانعقاد اپریل ۲۰۰۶ء میں ہونا تھا مگر مصری حکومت نے مختلف حیلوں بہانوں سے وہ انتخابات دو سال کے لیے ملتوی کردیے۔ اس التوا پر ملک بھر میں شدید احتجاج ہوا، اور مصر کی سول سوسائٹی نے کئی دنوں تک اس مسئلے کو حکومت کی بوکھلاہٹ اور بزدلی قرار دے کر بلدیاتی انتخابات منعقد کرانے کی تحریک جاری رکھی۔
اس موقع پر تمام تجزیہ نگار کہہ رہے تھے کہ مصری حکومت اخوان کی مقبولیت سے خوف زدہ ہوکر بلدیاتی انتخابات سے راہِ فرار اختیار کرگئی ہے۔ اس دوران حسنی مبارک نے دستور میں کئی ترمیمات کیں، جنھیں حکمران پارٹی کے انگوٹھا چھاپ قانون سازوں نے منظور کرلیا مگر سول سوسائٹی نے ان پر ہمیشہ تحفظات کا اظہار بلکہ شدید مخالفت اور احتجاج کیا۔ ان دو سالوں میں مصر میں پھر سے پکڑدھکڑ کا ایسا سلسلہ شروع ہوا، جس نے جمال عبدالناصر کے فرعونی دور کی یادیں تازہ کردیں۔ ہزاروں کی تعداد میں اخوان جیلوں میں ڈالے گئے، حتیٰ کہ ان کے ارکان پارلیمنٹ کو بھی نہ بخشا گیا۔ ظلم کی حد یہ ہے کہ اگر اخوانی اسیروں کے اہلِ خانہ کی دیکھ بھال اور معاشی مدد کے لیے کوئی صاحبِ خیر خدمت سرانجام دیتا تو اس جرم کی پاداش میں اسے بھی جیل میں ڈال دیا جاتا۔ایسے تمام کیس خصوصی ملٹری عدالتوں میں چلائے جاتے ہیں۔ اخوان کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر محمود عزت کے بقول: ایک ایسے مخیر مصری کو جس نے اسیروں کے بال بچوں سے تعاون کیا، ۵۵ سال قید کی سزا سنائی گئی۔ (بحوالہ رسالہ الاخوان، شمارہ ۵۴۷، ۲۸ مارچ ۲۰۰۸ئ)
۲۰۰۸ء کے آغاز میں انھی پُرآشوب حالات میں حسنی مبارک حکومت نے ملک بھر میں بلدیاتی انتخابات کا اعلان کردیا۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ ان انتخابات سے قبل اخوان کے اہم رہنمائوں کو پابندِ سلاسل کر دیا گیا اور انتخابات کا اعلان ہوتے ہی ملک بھر سے اخوان کے متوقع بلدیاتی امیدواروں کی پکڑ دھکڑ بھی شروع ہوگئی۔ ۸ اپریل انتخابات کی تاریخ تھی، جب کہ اس سے قبل اخوان کے ڈیڑھ سے دو ہزار کے درمیان مقامی رہنما ملک بھر کی جیلوں میں محبوس کر دیے گئے۔ تجزیہ نگاروں کے بقول حال ہی میں کی جانے والی دستوری ترمیم جس کے مطابق صدارتی امیدوار کے لیے ۹۰ ارکانِ پارلیمان اور ۱۴۰ بلدیاتی اداروں کے سربراہوں کی تائید ضروری ہے، اس پکڑدھکڑ کی اصل محرک ہے۔ حسنی مبارک خوف زدہ ہے کہ کہیں اپوزیشن کا کوئی نمایاں لیڈر آیندہ انتخابات میں صدارتی امیدوار کے لیے اہلیت حاصل نہ کرلے۔
اخوان نے ان انتخابات کے لیے ۵ ہزار ۷ سو ۵۴ امیدواروں کا انتخاب کیا تھا، مگر پکڑدھکڑ اور خوف و ہراس کی وجہ سے صرف ۴۹۸ امیدوار کاغذات جمع کرا سکے۔ آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ مصری تجزیہ نگار نبیل شرف الدین کے بقول: ان ۴۹۸ میں سے صرف ۲۰ امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور ہوسکے، باقی سب کے کاغذات ہی مسترد کردیے گئے۔ اخوان کے نائب مرشدعام ڈاکٹر محمد حبیب نے اعدادوشمار کی روشنی میں اس صورت حال پر پریس کوبریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ اب ایسے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کے علاوہ ہمارے پاس اور کیا چارۂ کار ہے۔ اخوان کے علاوہ ایک اور تنظیم تحریکِ مصر براے تبدیلی (کفایۃ) نے بھی ان فراڈ انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔ ان دونوں تنظیموں نے تمام سیاسی گروپوں اور آزاد امیدواران سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ انتخابات کا بائیکاٹ کردیں۔ اسی طرح ٹریڈ یونینز نے بھی ان انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔تجزیہ نگاروں کے بقول عملاً پولنگ اسٹیشنوں پر اُلّو بول رہے تھے اور حکومتی کارندے آزادانہ ٹھپے لگا رہے تھے۔
حقوقِ انسانی کی تنظیم براے عرب دنیا نے ۱۸ اپریل کو اس تشویش ناک صورت حال پر اپنے ردّعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مصر میں بدترین قسم کا سیاسی انتقام لیا جا رہا ہے۔ تمام بنیادی حقوق معطل ہیں، حتیٰ کہ عسکری عدالتوں کا جو ڈھونگ رچایا گیا ہے، اس میں ملزمان کے رشتے داروں اور وکلا تک کو جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس کے علاوہ کسی فوٹوگرافر اور صحافی کو بھی ان کے قریب پھٹکنے نہیں دیا گیا۔ اگر کوئی صحافی اور کیمرہ مین وہاں پہنچ بھی پایا، تو اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ٹیپ ریکارڈر اور کیمرے تک چھین لیے گئے۔ انسانی حقوق کی اس تنظیم نے کہا ہے کہ انصاف کے عالمی ضوابط و قوانین کے علاوہ مصری دستور کی دفعہ ۱۶۹ کے تحت یہ ظلم کسی صورت گوارا نہیں کیا جاسکتا۔
ان حالات میں بظاہر حسنی مبارک نے بلدیات سے حزبِ اختلاف کا نام و نشان مٹا دیا ہے مگر مصر اور پوری دنیا کے مہذب شہری اس انتخاب کو ایک ڈرامے سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں دیتے۔ اخوان کے نائب مرشدعام ڈاکٹر محمد حبیب نے اخباری نمایندوں سے بات چیت کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ یہ ہتھکنڈے نہ تو مصری حکومت کو استحکام دے سکتے ہیں، نہ اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے حریت پسندوں کو سرنگوں کرسکتے ہیں۔ عالمی جریدے الشرق الاوسط کے تجزیہ نگاروں کے مطابق حسنی مبارک اپنے بیٹے جمال کو اپنی جانشینی کے لیے تیار کرچکا ہے۔ لیکن ان اوچھے حربوں سے حکومت اور ایوانِ صدارت کی ساکھ بُری طرح سے متاثر ہوچکی ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ اب حسنی مبارک دور کا خاتمہ قریب ہے کیونکہ مصر میں جس قدر نفرت موجودہ حکومت سے پائی جاتی ہے، اس کی کوئی مثال ماضی میں دیکھنے میں نہیں آئی۔
بلدیاتی انتخابات کے بعد مصر میں وسیع پیمانے پر احتجاج ہو رہا ہے۔ حسنی مبارک نے اس صورت حال کو آہنی ہاتھ سے قابو کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ ملک بھر میں ۲۸ گورنروں (ڈی سی) کا نئے سرے سے تقرر عمل میں لایا گیا ہے۔ ان میں سے ۱۲ نئے چہرے سامنے آئے ہیں، جب کہ تین کے اضلاع تبدیل کیے گئے اور ۱۳ سابقہ اضلاع ہی میں بحال رکھے گئے ہیں۔ ان سے حسنی مبارک نے گذشتہ ہفتے حلف لیا ہے اور انھیں تلقین کی گئی ہے کہ امنِ عامہ میں گڑبڑ کرنے والوں سے سختی سے نمٹا جائے۔ ان گورنروں نے حلف کے بعد اعلان کیا کہ ان کی ترجیحات میں ان عناصر کی بیخ کنی سرفہرست ہے جو امن و امان کا مسئلہ پیدا کریں، نیز وہ صدر کے سیاسی پروگرام کے محافظ بن کر کام کریں گے۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حکومتی عزائم کیا ہیں۔
عراق میں امریکی جارحیت کے پانچ سال مکمل ہونے پر دنیا بھر میں احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ امریکی حکومت کو خود امریکی عوام اور دانش وروں اور کانگرس کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔ عملاً امریکا کو اس جنگ کی بھاری قیمت چکانا پڑ رہی ہے اور روز بروز امریکی فوجوں کے انخلا کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جب صدام حسین کی حکومت کا تختہ ۲۰۰۳ء میں اُلٹا گیا تو امریکا کے سامنے بظاہر دو اہداف تھے: اجتماعی تباہ کاری کے ہتھیاروں کی بازیابی اور مشرق وسطیٰ میں بتدریج جمہوریت کا قیام۔ یہ اہداف تو حاصل نہ ہوسکے اور امریکا اب ایران میں ’موت کا رقص‘ شروع کرنے کے لیے تمام ممکنہ تیاریاں کر رہا ہے۔ صدام حسین کے بعد عبوری حکمران کونسل اور اُس کے بعد دستوری حکومت، امریکی انتظامیہ کے اشارے پر ناچنے والی کٹھ پتلیاں تھیں جن کا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں دوورقہ پڑھ کر سنا دینے کے سوا کوئی کردار نہیں۔ نوری کامل المالکی یہ کام بخیروخوبی سرانجام دے رہے ہیں۔ ہر روز مختلف لسانی اور مذہبی گروہوں میں تصادم ہوتا ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکالا جاتا ہے کہ ’’افواج کا قیام بے انتہا ضروری ہے‘‘۔ شیعہ، سُنّی اور کُرد سیکڑوں برس سے عراق میں رہ رہے ہیں۔ مگر یہ امریکی پالیسی سازوں کا کمال ہے کہ وہ تینوں گروہوں کو وافر مقدار میں اسلحہ بھی فراہم کرتے ہیں، ایک دوسرے کے قتل پر آمادہ بھی کرتے ہیں، اور بعدازاں تینوں گروپوں کے گرفتار شدہ مجاہدین، اور ہلاک شدہ ’جہادیوں‘ کی تصاویر بھی عالمی نشریاتی اداروں کے حوالے کر دیتے ہیں۔
کُردوں کی قوم پرست تحریک نے بھی اِس عرصے میں شدت اختیار کرلی ہے۔ شام، ایران اور عراق میں پھیلے ہوئے کُرد آزاد ریاست کی منزل تک نہ پہنچ سکیں گے اگرچہ ’نیوکونز‘ کے پالیسی سازوں کے سامنے ایک یہ حل بھی موجود ہے کہ عراق کو سُنّی، شیعہ اور کُرد عراق ریاستوں میں تبدیل کردیا جائے جو خودمختار ہوں لیکن امریکا کی باج گزار ہوں اور امریکی اشارے پر کسی بھی ہمسایہ عرب ریاست کے خلاف فوجی کارروائی کرسکیں یا امریکی کارروائی کے لیے’ محفوظ پناہ گاہ‘ فراہم کرسکیں۔ تین شمالی صوبوں میں کُردوں کی علاقائی حکومت ہے۔ اُن کی مسلّح افواج، قومی نشان اور جھنڈا ہے، لیکن داخلی بدامنی اور قومی انتشار نے اُن کو ایسے مقام پر لاکھڑا کیا ہے کہ جنگ اور فوجی کارروائی کا منظر ہی اُنھیں نجات کا منظر نظر آتا ہے۔ ایک ہزار سے زائد قبائل اور گروہ عراق میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اُن کے باہمی لسانی، قبائلی اور تہذیبی اختلافات بھی ہیں، تاہم اس پر اُن کا اتفاق ہے کہ غیرملکی حملہ آوروں کا نہ سازوسامان واپس جائے اور نہ وہ خود زندہ واپس لوٹیں۔ امریکا کی جانب سے مسلط جنگ اور باہمی خوں ریزی سے عراق میں ۱۰ لاکھ افراد لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔ تباہی و بربادی کے جو مناظر تشکیل پائے ہیں، عالمِ انسانیت اس پر ہمیشہ نوحہ کناں رہے گی۔
امریکی انتظامیہ ۵۰۰ ارب ڈالر خرچ کرنے کے بعد اور تو کچھ حاصل نہ کرسکی، تاہم سرکاری اعلان کے مطابق ۴ ہزار امریکی فوجیوں کی لاشیں امریکا پہنچ چکی ہیں، ۲۳ ہزار اپاہج اور زخمی فوجی، مختلف امریکی ریاستوں میں زیرعلاج ہیں (www.antiwar.com)۔ امریکا عراق میں جنگ جاری رکھنے کے لیے ۷۲ کروڑ (۷۲۰ ملین) ڈالر روزانہ خرچ کر رہا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکا مجبورہے کہ ہر ایک منٹ میں ۵ لاکھ ڈالر جنگی اخراجات کی صورت میں خرچ کرے۔ معروف تحقیقی مجلے فارن پالیسی نے ناکام ریاستوں کا گوشوارہ ۲۰۰۷ء میں عراق کو دنیا کی ناکام ترین ریاستوں میں دوسرا نمبر دیا ہے۔ تیل کی دولت سے مالا مال ریاست کو اس مقام تک پہنچانے کا سہرا واشنگٹن کے سر بندھتا ہے۔
امریکا کے سرکاری ترجمان اور پالیسی ساز ادارے جو اعلان بھی کریں، عراق سے امریکی افواج کو بالآخر نکلنا پڑے گا۔ پانچ برس قبل عراق پر مکمل امریکی تسلط تھا، اب اقتدار براے نام سہی عراقی انتظامیہ کے پاس ہے۔ امریکی بحری، بّری اور فضائی افواج کی نوعیت بھی ماضی والی نہیں رہی۔ امکان ہے کہ امریکی انتظامیہ اپنے فوجی دستے بتدریج عراق سے نکال لے، لیکن اس کی فوجی چھائونیاں اور دستے یہاں موجود رہیںگے، چاہے وہ دنیا کے دکھاوے کے لیے عراقی حکومت سے معاہدے کے بعد یہاں رہیں۔ ایسے معاہدے امریکی حکومت ’جنوبی کوریا‘ کی حکومت سے بھی کرچکی ہے اور بہ سہولت وہاں براجمان ہے۔
امریکا کو عراق میں قیام کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی ہے اور مزید ادا کرنا پڑرہی ہے۔ عراق پرقبضے کے خلاف دنیا بھر میں مظاہرے ہوئے، خود امریکی عوام نے اس سے نفرت کا اظہار کیا۔ عراقیوں کی صدام حسین سے ناراضی ڈھکی چھپی بات نہ تھی، تاہم امریکی فوجیوں سے نفرت اُس سے کئی ہزار گنا زیادہ ہے۔ عراق کا کوئی حصہ ایسا نہیں ہے کہ جہاں امریکا کے خلاف مظاہرے نہ ہوئے ہوں، یا امریکی فوجیوں کو نقصان نہ پہنچایا گیا ہو۔ امریکی فوجیوں کی سب سے بڑی تعداد دارالحکومت بغداد میں ہے اور یہیں سب سے زیادہ پُرتشدد واقعات رونما ہوئے ہیں۔ بم مارنے اور فوجی گاڑیاں اڑا دینے کے واقعات عام ہیں۔ عراق میں بم مارنے اور باہمی کُشت و خون کے کُل واقعات کا ایک چوتھائی بغداد میں رونما ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے کہا تھا: عراق میں جنگ غیرقانونی ہے، کیونکہ یہ اقوام متحدہ کے چارٹر پر پورا نہیں اُترتی۔
واشنگٹن کے پالیسی ساز کانگرس کے دبائو اور عوامی ردعمل کے جواب میں کہتے ہیں کہ اگر فوری طور پر افواج، عراق سے واپس بلا لی گئیں تو اس کا مطلب یہ لیا جائے گا کہ امریکی افواج عراق میں ناکام ہوگئیں،نیز یہ کہ امریکی افواج کے عراق چھوڑ دینے سے دنیا بھر کے ’دہشت گرد‘ عراق میں اکٹھے ہوجائیں گے۔ امنِ عالم، جمہوریت، روشن خیالی اور مہذب دنیا کو ناکام کرنے کے لیے نائن الیون، سیون سیون اور سیون الیون جیسے واقعات بار بار رونما ہوں گے۔ اس لیے کُلی طور پر نہیں، جزوی طور پر امریکی افواج اور بحری و فضائی بیڑے کی موجودگی ضروری ہے اور مشرق وسطیٰ میں ’جمہوریت کی ترویج‘ کی منزل بھی تو حاصل نہیں ہوسکی ہے۔
اگلے صدارتی انتخابات جیتنے والا امریکی صدر مجبور ہوگا کہ سال ۲۰۰۸ء میں امریکی افواج کی تعداد میں واضح طور پر کمی کا اعلان کردے۔ سول سوسائٹی کے اراکین اور کانگرس مشترکہ طور پر مطالبہ کرچکے ہیں کہ فوج واپس بلائی جائے۔
امریکا نے بغداد میں جو حکومت قائم کی ہے، وہ بھی مجبور ہوجاتی ہے کہ امریکا کے غیرقانونی، غیراخلاقی تسلط کے خلاف لب کشائی کرے۔ جولائی ۲۰۰۶ء میں عراقی پارلیمنٹ کے اسپیکر نے عراق پر امریکی حملے اور اس کے نتائج کو ’ذبح کرنے والوں کی کارروائی ‘ قرار دیا۔ عالمی پیمانے پر بھی امریکا کو تنہائی کا سامنا ہے۔ کئی ممالک نے واشنگٹن کے اتباع میں، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے فوجی عراق بھیجے تھے، مگر اب اُن میں سے اکثر نے اپنی فوجیں عراق سے نکالی ہیں۔ برطانیہ بھی اپنی فوجیں عراق سے نکال رہا ہے جو کہ امریکا کا جاںنثار ’شریکِ کار‘ رہا ہے۔ اُس کے بعد امریکا کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ عراق میں اپنی افواج کو ’کثیر المُلکی فوج‘ قرار دے۔
گذشتہ پانچ برسوں میں سیاسی تعمیرنو کے دوران، عراق کو انتہائی ناہموار حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ وفاقی نظام اور سیاسی انتشار نے عراق کی شناخت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ عراق کو ایسی سیاسی قوت کی ضرورت ہے کہ جو لسانی، مذہبی اور قبائلی تعصب سے بالاتر ہوکر تعمیرنو کا مقامی عمل شروع کرے۔ یہ قوت عراق ہی سے اُبھرنی چاہیے، باہر سے آنے والی قوت یہ کام نہ کرسکے گی، نہ امن وامان اور سرحدوں کی حفاظت کا کام ہی، بیرونی ایجنٹ سرانجام دے سکیں گے۔
روسی افواج ۱۹۷۹ء میں افغانستان میں داخل ہوئیں اور ۱۹۹۲ء تک واپس جا چکی تھیں لیکن اس عرصے میں روس کے اندر ٹوٹ پھوٹ کا جو سلسلہ شروع ہوا، وہ سوویت یونین کے زوال پذیر ہونے کی صورت میں سامنے آیا۔ امریکا کو ویت نام، کوریا اور اب عراق کے تجربے سے یہ سیکھ لینا چاہیے کہ ’عالمی داداگیری‘کے دورانیے کو طول دیتے ہوئے اُس کو داخلی محاذ پر شکست در شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔ امریکی اراکینِ کانگرس، اراکینِ سینیٹ، تھنک ٹینکس، سول سوسائٹی کے ارکان اور انسانی حقوق کی آواز بلند کرنے والے امریکی عوام یقینا اپنی حکومت پر دبائو ڈالیں گے کہ عراق سے اپنی افواج واپس بلالیں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو اُن کی معیشت کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا، اور امریکا سے بڑھتی ہوئی نفرت انتقامی جذبے کو ہوا دینے کا باعث بنے گی جس سے عالمی امن تباہ ہوسکتا ہے اور اس کی ذمہ داری امریکا کے سر ہوگی۔ کاش! امریکی حکمران عقل کے ناخن لیں۔
ملایشیا میں آزادی کے بعد انتخابات کا سلسلہ باقاعدگی سے جاری و ساری ہے۔ بارھویں قومی انتخابات کا انعقاد ۸مارچ ۲۰۰۸ء کو مکمل ہوا۔ اِن انتخابات کے حوالے سے اہم ترین بات یہ ہے کہ حزبِ اختلاف کی تین جماعتوں کے اتحاد نے وفاقی ایوان کی ۲۲۲ میں سے ۸۱ نشستیں حاصل کرلی ہیں، جب کہ ۱۹۵۷ء سے برسرِاقتدار ’متحدہ مَلے قومی محاذ‘ ’امنو‘ (UMNO) دو تہائی نشستیں حاصل نہ کرسکا۔ گذشتہ ۵۰ برسوں میں اسے ’قومی محاذ‘ کے لیے بدترین نتائج تصور کیا جا رہا ہے۔ موجودہ وزیراعظم عبداللہ بداوی نے تسلیم کیا ہے کہ سرکاری اہل کاروں کی بدعنوانی، نسلی اقلیتوں کے عدمِ اطمینا ن اور کئی اہم معاملات پر غیرواضح موقف کی وجہ سے برسرِاقتدار جماعت کو دو ٹوک اکثریت حاصل نہ ہوسکی۔ ان کی نشستوں کی تعداد ۱۳۷ ہے۔
ملایشیا کثیرنسلی معاشرہ ہے۔ یہاں مَلے نسل سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی تعداد ۶۰ فی صد، چینی النسل باشندوں کی تعداد ۲۵ فی صد اور ہندی النسل شہریوں کی تعداد ۱۰ فی صد ہے، جب کہ بقیہ تعداد دیگر قوموں سے تعلق رکھتی ہے۔ ملایشیا میں جس قسم کی قومی یگانگت، معاشی استحکام اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے اِس کی مثال کسی اور ملک میں ملنا مشکل ہے۔
’امنو‘ کے اقتدار کو دھچکا تین جماعتی اتحاد نے لگایا۔ ’پاس‘ (PAS) ملایشیا کی معروف اسلامی تحریک ہے۔ یہ ۱۹۵۶ء میں وجود میں آئی۔ اس کے سربراہ عبدالہادی آوانگ ہیں، جو سابقہ پارلیمان میں منتخب رُکن رہے۔ ’پاس‘ صوبہ کلنتان میں پانچویں بار حکومت بنائے گی، اس کے سربراہ عالم دین نِک عبدالعزیز ہیں۔ ’پاس‘ جمہوری عمل پارٹی اور عوامی انصاف پارٹی نے مل کر اتحاد قائم کیا۔ ملایشیا کی ۱۳ ریاستوں میں سے پانچ ریاستوں میں اب حزبِ اختلاف کی حکومت قائم ہوگی۔ اسلامی پارٹی کی ۲۰۰۴ء کے انتخابات میں سات سیٹیں تھیں، اب یہ ۲۴ ہوچکی ہیں۔ عوامی انصاف پارٹی کی گذشتہ انتخابات میں صرف ایک سیٹ تھی، اب ۳۱ ہوچکی ہیں، جب کہ جمہوری عمل پارٹی نے اس بار ۲۶ نشستیں حاصل کی ہیں۔ اِن تینوں جماعتوں کو اکٹھا کرنے اور اکٹھا رکھنے میں ڈاکٹر انور ابراہیم کا اہم کردار ہے جو ملایشیا کے وزیراعظم مہاتیرمحمد اور بعدازاں عبداللہ بداوی کے جبروناانصافی کا شکار رہے اور طویل عرصہ جیل میں گزار چکے ہیں۔
اسلامی پارٹی ملایشیا ’پاس‘ کے امیدواروں نے انتخابی مہم کے دوران وزیراعظم عبداللہ بداوی کے اُن وعدوں کا بار بار تذکرہ کیا جو ۲۰۰۴ء کے انتخابات میں غیرمعمولی کامیابی کے بعد اُنھوں نے قوم سے کیے تھے۔ ان کا وعدہ تھا کہ قانون ساز ادارے اور سرکاری اداروں میں اہم تبدیلیاں لائی جائیں گی، تمام نسلی گروہوں سے انصاف کیا جائے گا، نجی شعبے کو آزادی کے ساتھ کام کرنے دیا جائے گا، عرصۂ دراز سے مالی بدعنوانی کے جو مقدمات تاحال فیصلہ طلب ہیں، اُن کا فیصلہ کیا جائے گا، اقتدار اور حکومت کا ناجائز استعمال نہ ہوگا، سرکاری معاملات اور تجارتی امور شفاف ہوں گے اور احتساب کیا جائے گا۔ بداوی کے اعلانات، اعلانات ہی رہے اور بدعنوانی کا گراف بڑھتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ وزیراعظم کے اپنے قریبی عزیزوں اور وزرا کے بدعنوانی کے اسیکنڈل زبان زدعام ہوئے، مہنگائی سابقہ ریکارڈ توڑ گئی اور غیرملکی کمپنیوں نے سرمایہ نکالنا شروع کردیا لیکن کسی کو قرارواقعی سزا نہیں ملی۔
’پاس‘ نے یہ واضح کیا کہ لاتعداد ملیشیائی باشندے خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، جب کہ اشیاے صرف کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ اور اس کے ساتھ ساتھ جرائم کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بداوی کی حکومت نے ایک ملیشیائی خلاباز کو روسی اسپیس کرافٹ میں کروڑوں ڈالر کے خرچ پر بطور سیاح بھیجا اور اس کا صرف ایک ہی مقصد تھا کہ ایک ایسا ریکارڈ توڑ دیا جائے جوکہ پہلے ہی ملیشیا کے پاس تھا۔ اس کے مقابلے میں کلنتان اور ترنگانو کی غریب ریاستوں کو بہت سے وسائل اور حکومتی گرانٹ صرف اس لیے نہیں دی گئی کہ ان صوبوں کے عوام اسلامی پارٹی ملایشیا کے امیدواروں کو کامیاب کراتے ہیں (کلنتان میں حالیہ انتخابات میں ریاست کی ۵۷ میں سے ۴۰ نشستیں ’پاس‘ نے حاصل کیں)۔ بداوی بھی ’روشن خیال اسلام‘ کے علَم بردار ہیں۔
پاس نے راے دہندگان پر واضح کردیا کہ بداوی کی حکومت اہم ثقافتی، سیاسی، اداراتی اور ساختیاتی (structural) مسائل حل کرنے میں ناکام رہی۔ چند مندروں کو مسمار کرنے، گرجاگھروں کی تعمیر کی اجازت نہ دینے اور کئی مقامات سے ’انجیل‘ اٹھائے جانے سے اُن شہریوں کے حقوق مجروح ہوئے ہیں جو اسی سرزمین کے بیٹے ہیں اور اُن کا جینا مرنا اِسی سرزمین سے وابستہ ہے۔ کئی ایسے افسوس ناک واقعات ہوئے کہ جہاں وزیراعظم بداوی اور اُن کی کابینہ کے لوگوں کو آگے بڑھ کر غلط اقدام کی مذمت کرنا چاہیے تھی مگر اُنھوں نے خاموشی اختیار کیے رکھی، اور وزیراعظم یہ سمجھتے رہے کہ ’’میں تمام ملیشیائی باشندوں کا وزیراعظم ہوں‘‘ کا اعلان کافی ہوگا۔ حالیہ انتخابات میں اُنھوں نے مَلے راے دہندگان پر مکمل توجہ دی لیکن نتائج حسب توقع برآمد نہ ہوئے۔
متحدہ حزبِ اختلاف نے وزیراعظم بداوی کی اُس تصویر کو انتخابی مہم میں بھرپور طریقے سے استعمال کیا، جو ’امنو‘ کے اجلاس سے لی گئی تھی جس میں وزیراعظم گہری نیند سو رہے تھے، اور تصویر دیکھنے والے کو یہ احساس ہوتا کہ جیسے وزیراعظم خراٹے لے رہے ہوں۔ سہ جماعتی اتحاد نے اس بات کو اُجاگر کیا کہ نہ صرف ملک کا وزیراعظم سو رہا ہے، بلکہ ساری انتظامیہ کی یہی صورت حال ہے اور اگر ملک کی کشتی کو سوئے ہوئے ڈرائیور سے بچانا ہے تو اس کے لیے متبادل قیادت کو موقع فراہم کرنا ہوگا۔ اِس کے خاطرخواہ نتائج برآمد ہوئے۔
’پاس‘ اور سہ جماعتی اتحاد کی اس بھرپور مہم کی وجہ سے ’امنو‘ کے ۳۰ فی صد چینی النسل ووٹر، ۳۰ فی صد ملے ووٹر اور ۵ فی صد ہندو ووٹروں نے اپنی رضامندی سے حزبِ اختلاف کو ووٹ دیا۔ اُن کی راے بنی کہ ’امنو‘ آیندہ دور میں اُن کے حقوق کی کماحقہٗ پاسبانی نہیں کرسکتی۔ ۰۷-۲۰۰۶ء کے برسوں میں وکلا نے مظاہرے کیے کہ عدالتی نظام میں اصلاح کی جائے، عوام الناس نے مظاہرے کیے کہ انتخابات کو شفاف بنایا جائے، اور مذہبی اقلیتوں نے مطالبے کیے کہ اُن کے مذہبی حقوق کی حفاظت یقینی بنائی جائے۔ اِن کا جواب بداوی انتظامیہ نے سول سوسائٹی کے مظاہرین پر لاٹھی چارج، عوامی سیمی ناروں کے لیے سرکاری اجازت نہ دینے، کتابوں پر پابندی عائد کرنے اور ذرائع ابلاغ کی آزادی کو محدود کرنے کی صورت میں دیا، اور انورابراہیم کے ساتھ جو سلوک روا رکھا وہ تو سب پر عیاں ہے۔
انتخابی نتائج اس قدر غیرمتوقع تھے کہ وزیراعظم عبداللہ احمد بداوی نے اگلے ہی روز دستوری شہنشاہ میزان زین العابدین اور درجنوں حکومتی عہدے داران کی موجودگی میں وزیراعظم کا حلف اُٹھا لیا، اُن کو یقین ہوگیا تھا کہ اس میں تاخیر کی گئی تو اُن کے استعفے کا مطالبہ قوت پکڑ سکتا ہے۔ موجودہ انتخابات کے نتیجے میں جمہوری عمل پارٹی، انصاف پارٹی اور پاس کلنتان، قدح، پینانگ، پراک اور سیلانگور میں حکومتیں بنائیں گی۔ حزبِ اختلاف نے ۳۷ فی صد سیٹیں اور ۴۷ فی صد عوامی ووٹ حاصل کیے ہیں۔
ان انتخابات میں ڈاکٹر انور ابراہیم کا کردار بھی اہم تھا۔ ان کی کوششوں سے چینی النسل باشندوں کی جمہوری عمل پارٹی اور اسلامی نظام کے نفاذ کی علَم بردار ’پاس‘ ایک دوسرے کے قریب آئیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ۳۷ سال پرانی ’نئی معاشی پالیسی‘ کو ختم کیا جائے جس کے ذریعے ۶۰فی صد ملے باشندوں کو ملازمت، کاروبار، تعلیم، ٹھیکوں اور دیگر معاملات میں فوقیت دی گئی ہے۔ اس نکتے نے چینی النسل باشندوں کی اکثریت کو حزبِ اختلاف کے لیے ووٹ ڈالنے پر آمادہ کیا۔ انھوں نے عوام پر یہ بھی واضح کیا کہ جب میں وزیرخزانہ اور نائب وزیراعظم تھا تو میں نے اشیا کی قیمتیں کسی قیمت پر بڑھنے نہیں دی تھیں، جب کہ مہاتیر اور اب بداوی نے عالمی دبائوکو تسلیم کرکے عوام کے لیے بے شمار مسائل کھڑے کردیے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ مہاتیر نے مجھے جیل میں ڈالے رکھا لیکن میں نے اپنے وطن کے لیے کسی قسم کے دبائو کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ آج آپ لوگ مل کر نئے ملایشیا کی تعمیر کے لیے اس اتحاد کو تقویت پہنچائیں۔
اسلامی پارٹی کے سربراہ عبدالہادی آوانگ نے ملایشیا کے عوام کا شکریہ ادا کیا ہے کہ اُنھوں نے سہ جماعتی اتحاد کو کامیابی سے ہم کنار کیا۔ اُنھوں نے کہا کہ ہم اسلامی نظامِ قانون کی بالادستی اور عوام الناس کی خوش حالی میں یقین رکھتے ہیں، اور ہم مثالی طرزِ حکومت متعارف کرائیں گے۔ ہمارے دروازے عوام کے لیے کھلے ہیں اور ان شاء اللہ اگلے قومی انتخابات میں بھرپور کامیابی حاصل کریں گے ___آنے والا وقت ہی یہ فیصلہ کرے گا کہ سہ جماعتی اتحاد اس کامیابی کے نتیجے میں نئے ملایشیا کی تعمیر کے نعرے کو کس حد تک حقیقت کا رنگ دے پاتا ہے۔
صدرمملکت عبداللہ گل کی اہلیہ ہوں، وزیراعظم طیب اردوگان کی صاحبزادیاں ہوں، منتخب رکن پارلیمنٹ مروہ قاوقچی ہوں یا دیگر کروڑوں ترک خواتین، کسی کو بھی یہ اجازت نہیں کہ وہ تعلیمی اداروں، سرکاری دفاتر یا سرکاری تقریبات میں جاتے ہوئے سر ڈھانپ سکیں۔ چہرے کا پردہ نہیں صرف سر اور گردن کو دوپٹے یا اسکارف سے ڈھانپ لینا ہی اتنا بڑا جرم ہے کہ اس کی پاداش میں ہزاروں طالبات کو حصولِ تعلیم سے محروم کیا جاچکا ہے۔ وزیراعظم اردوگان کے لیے بھی ممکن نہیں ہوسکا کہ اپنی دو بیٹیوں کے سر ڈھانپ کر کالج میں داخلہ دلوا سکیں۔ ہاں، اگر کوئی خاتون اپنا لباس مختصر کرنا چاہے تواس پر کوئی قدغن نہیں، اسے ایسا کرنے سے روکنے والے بنیاد پرست، تاریک خیال اور سیکولر ریاست دشمن قرار پائیں گے۔ خلافت اسلامی کے آخری امین، ۹۹ فی صد مسلم آبادی پر مشتمل ترکی کے درودیوار سیکڑوں ایسے مناظر کے گواہ ہیں کہ سر ڈھانپے نوجوان بچیوں کو دھکے مار کر تعلیمی اداروں سے نکالا جا رہا ہے۔ یہ بھی ہوا کہ طالبات اپنے اس ایمان کے باعث کہ حجاب امرخداوندی ہے، سر، گردن اور سینے پر باوقار اسکارف اوڑھ کر آئیں، لیکن اپنی مادر علمی کی دہلیز پر آنسو بہاتے ہوئے اسکارف نوچ کر بیگ میں چھپا لیا کہ ایسا نہ کیا تو حصولِ علم سے محروم کردی جائیں گی۔
پردے کے مخالفین میں ایک عجیب تضاد پایا جاتا ہے، جس معاشرے میں پردہ کرنا، نہ کرنے سے زیادہ آسان ہو، وہاں یہ ’فلسفہ‘ رواج دیا جاتا ہے کہ یہ تو انسان کا ذاتی مسئلہ ہے کوئی دوسرا کیسے اسے اس بارے میں کچھ کہہ سکتا ہے، بندہ جانے اور اس کا رب جانے یا پھر یہ کہ یہ تو معمولی اور چھوٹی سی بات ہے، اس کا بتنگڑ کیوں بناتے ہو… وغیرہ لیکن ترکی جیسے معاشرے میں کہاجاتا ہے: پردہ ایک مخصوص عقیدے کی علامت ہے، پردہ بنیاد پرستی کی نشانی ہے، پردہ رجعت پسندی کی طرف لے جاتا ہے، پردہ ترقی پسندی اور روشن خیالی کے منافی ہے، پردہ دہشت گردی کی انتہاتک لے جاتا ہے۔ ترکی ہی نہیں تیونس، تاجکستان اور ازبکستان جیسے کئی مسلمان ملکوں میں، جہاں بھی اسلام پسندی کے خلاف سرکاری محاذ آرائی عروج پر ہوتی ہے، سب سے پہلا نشانہ پردے ہی کو بنایا جاتا ہے۔ مغربی ممالک میں سے صرف فرانس ایسا ملک ہے جہاں تعلیمی اداروں یا سرکاری دفاتر میں اسکارف اوڑھ کر جانا قانوناً ممنوع ہے۔ جرمنی نے بھی اس راہ پر قدم اٹھائے ہیں، اس کے ۱۲ صوبوں میں سے سات میں اسکارف پر پابندی ہے۔ اسپین میں عام انتخابات ہونے والے ہیں، انتخابی مہم میں اپوزیشن جماعت پیپلزپارٹی نے اعلان کیا ہے کہ اگر وہ کامیاب ہوگئی تو تعلیمی اداروں میں اسکارف پر پابندی لگا دے گی۔
ترک عوام اور بالخصوص خواتین نے ان پابندیوںاور جبر سے نجات کی ہرممکن کوشش کی، لیکن روشن خیالی اور سیکولر ریاست کو بنیاد بناکر ان تمام کوششوں کا گلا گھونٹ دیا گیا۔ صدآفریں کہ خواتین نے اپنے حق اور اپنی کوششوں سے دست برداری قبول نہیں کی۔ لاکھوں کی تعداد میں جمع ہوکر مظاہرے کیے، تعلیمی اداروںاور سرکاری ملازمتوں سے باہر آتے ہی خود کو اسکارف کی زینت سے آراستہ کیے رکھا۔ عرصے تک ایک انوکھا مظاہرہ یہ بھی کیا کہ ہراتوار کی صبح فجر کی نماز استنبول میں واقع صحابی رسولؐ حضرت ابوایوب انصاریؓ کی قبر سے ملحق مسجد اور میدان میں ادا کی۔ ہزاروں کی تعداد میں مسلم خواتین اپنے کنبوں سمیت منہ اندھیرے آتیں اور آس پاس کی تمام سڑکیں رب کے حضور سجدہ ریز، اللہ کی ان بندیوں سے بھر جاتیں۔
۲۰۰۲ء میں انصاف و ترقی پارٹی بھاری اکثریت سے برسرِاقتدار آئی تو اس نے وعدہ کیا کہ وہ حجاب سے پابندی ختم کردے گی، کیونکہ یہ پابندی خود سیکولرزم کے ان دعووں کے بھی منافی ہے جن میں ہر شخص کو اپنے لباس اور عقیدے کی آزادی دینے کی بات کی جاتی ہے۔ لیکن سعی کے باوجود یہ پابندی ختم نہیں کی جاسکی۔ صدارتی انتخابات کا مرحلہ آیا تو عبداللہ گل پر سب سے بڑااعتراض ہی ان کی اہلیہ کا باحجاب ہونا تھا۔ اعتراض اور معرکہ یہاں تک پہنچا کہ کئی بار پولنگ کے بعد بالآخر اسمبلی برخاست ہوگئی۔ دوبارہ عام انتخابات بھی ’انصاف و ترقی‘ کی جیت پر منتج ہوئے تو صدارتی معرکے میں پھر حجاب ہی کو اصل وجہ نزاع بنانے کی کوشش کی گئی۔ عوامی تائید کی لہر کے سامنے مخالفین کی ایک نہ چلی اور باحجاب خاتونِ اول ایوانِ صدر کی زینت بن گئیں۔ اس سے قبل جب ڈاکٹر نجم الدین اربکان کی رفاہ پارٹی کی طرف سے مروہ قاوقچی رکن اسمبلی منتخب ہوئی تھیں تو مخالفین کے منع کرنے کے باوجود وہ اسکارف سمیت ایوان میں داخل ہوگئیں، آسمان سر پر اُٹھالیا گیا، دہائیاں دی گئیں کہ اتاترک کی روح کو گھائل کردیا گیا، بالآخر مروہ کو اسمبلی چھوڑنا پڑی۔
اب ایک ایک کر کے اتاترک کی باقیات السیئات سے نجات مل رہی ہے۔ ۷فروری کو اسی پارلیمنٹ میں ایک دستوری ترمیم پیش کی گئی جس میں براہِ راست تو حجاب یا اسکارف کا کوئی ذکر نہیں تھا لیکن اصل ہدف حجاب کی بتدریج بحالی ہی تھا۔ عمومی تصور یہ ہے کہ ترکی دستور حجاب پر کوئی براہِ راست ممانعت عائد کرتا ہے۔ لیکن اس ضمن میں درحقیقت ۱۹۲۶ء میں جاری قانونِ ہیئت کی ایک شق کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اتاترک نے اس قانون کے ذریعے ہر مردوزن پر مغربی لباس فرض کردیا تھا تاکہ ترقی یافتہ ہونے کا ثبوت دیا جاسکے۔ اس ضمن میں خواتین کو پابند کردیا گیا کہ وہ سرکاری دفاتر اور تعلیمی اداروں میں لمبااسکرٹ اور شرٹ پہنا کریں۔ا گرچہ اس میں یہ نہیں کہاگیا تھا کہ سرڈھانپنے کی اجازت نہیں ہوگی لیکن عملاً ایسا ہی کیا جاتا رہا۔ ۱۹۸۰ء کے فوجی انقلاب کے بعد ترک یونی ورسٹیوں کے سربراہوں نے مل کر ایک فیصلہ جاری کردیا کہ آیندہ کوئی طالبہ یونی ورسٹی کی عمارت میں اسکارف لے کر نہیں آسکے گی، تب سے یہ معرکہ اپنے عروج پر جاپہنچا۔ کئی شہروں میں ہنگامے ہوئے اور ہزاروں کی تعداد میں طالبات و خواتین کو جیلوں میں بھیج دیا گیا۔ کئی طالبات اور ان کے خاندان ترکی چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ ایک تنہا خاتون ہدی کایا اپنی تین بچیوں اور ایک صاحبزادے سمیت پاکستان آکر بھی رہیں۔ تقریباً ایک سال قیام کے بعد واپس گئیں تو جاتے ہی پھر گرفتار ہوگئیں، مقدمہ چلا اور سب کو کئی سال کی سزا بھگتنا پڑی۔ جرم صرف یہی تھا کہ نہ تو یونی ورسٹی میں حجاب اُتارنے پر راضی تھیں اور نہ تعلیم سے محروم رہنے پر تیار ، بلکہ اس پر احتجاج کرتی تھیں۔ پھر ۱۹۹۷ء میں صدر سلیمان ڈیمرل نے ایک صدارتی فرمان کے ذریعے صراحت کے ساتھ تعلیمی اور سرکاری اداروں میں اسکارف لینے پر پابندی عائد کردی۔
فروری کو پارلیمنٹ میں پیش کی جانے والی دستوری ترمیم میں صرف یہ کہا گیا ہے کہ ’’کوئی شخص یا ادارہ کسی ایسی بنیاد پر کسی کو تعلیم حاصل کرنے سے نہیں روک سکے گا کہ جس کا ذکر ترک دستور میں نہیں ہے‘‘۔ اس ترمیم پر ۹فروری کو ووٹنگ ہوئی تو ۵۵۰ کے ایوان میں سے ۴۰۳ ارکان نے اس کے حق میں ووٹ دیا۔ دستوری ترمیم کے لیے ۳۶۷ ووٹ درکار تھے لیکن ’قومی تحریک پارٹی‘ نامی ایک سیکولر جماعت نے بھی اردوگان کی پارٹی کا ساتھ دیا۔ ایک سیکولر جماعت کا حجاب کی راہ سے رکاوٹیں ختم کرنے میں ساتھ دینا سب کے لیے حیرت کا باعث بنا۔ تجزیہ نگار اس فیصلے کی توجیہہ یہ کر رہے ہیں کہ ’قومی تحریک پارٹی‘نے عوامی تائید حاصل کرنے کے لیے ایسا کیا ہے۔ سیکولر جماعتوں نے یہ ترمیم سامنے آنے پر ۱۷شہروں میں لاکھوں کی تعداد میں جمع ہوکر اس کے خلاف مظاہرے کیے، لیکن یہ بات سب جانتے تھے کہ اب ترمیم کا راستہ روکنا کسی کے بس میں نہیں۔ ’قومی تحریک‘ نے فیصلہ کیا کہ حجاب کے حق میں بڑھتی ہوئی عوامی لہرسے اپنا حصہ حاصل کیا جائے۔ دوسری اور زیادہ اہم وجہ یہ ہے کہ ترکی کی سیکولر پارٹیوںنے جان لیا ہے کہ ’انصاف و ترقی‘ کی مخالفت اس کی مزید شہرت و تقویت کا باعث بنتی رہی ہے۔ اب کوئی اور راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ قومی تحریک پارٹی کے نائب صدر ٹوسکای نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہم نے انصاف و ترقی کی اس دستوری ترمیم کا ساتھ اس لیے دیا ہے تاکہ اسے اس سے زیادہ حسّاس اور اہم ترامیم سے روکا جاسکے۔ واضح رہے کہ انصاف و ترقی آیندہ برس ترکی کے نئے دستور کا مسودہ پیش کرکے اس پر عوامی ریفرنڈم کروانا چاہتی ہے۔
۹فروری ۲۰۰۸ء کو اسمبلی سے منظوری کے دو ہفتے کے اندر اندر اس پر صدر جمہوریہ کی منظوری درکار تھی۔ صدر یہ منظوری دو ہفتے کے دوران کسی بھی وقت دے سکتا تھا لیکن انھوں نے آخری روز، یعنی ۲۳فروری کو دستخط کیے اور یہ ترمیم دستور کا حصہ بن گئی۔ تحمل اور صبر کا یہ رویہ بھی انصاف پارٹی کی حکمت عملی کا ایک تعارف کرواتا ہے۔ حالیہ ترمیم سے صرف یونی ورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والی طالبات پر سے پابندی ختم ہوئی ہے، تعلیم کے تمام ابتدائی مراحل میں ابھی یہ پابندی باقی ہے اور یونی ورسٹیوں کی اساتذہ و ملازمین بھی اسکارف لے کر یونی ورسٹی نہیں آسکتیں۔ دیگر سرکاری اداروں میں بھی یہ پابندی بدستور باقی ہے لیکن یہ ایک آغاز ہے اور اتاترک کی راہ پر چلنے والوں کے لیے انتہائی تہلکہ خیز آغاز۔
اب اصل سوال ترک فوج اوردستوری عدالت کا ہے۔ فوج کے سربراہ نے تو یہ بیان دے کر فی الحال خاموشی اختیار کرلی ہے کہ ’’پردے کے بارے میں فوج کا موقف معلوم و معروف ہے، اسے بار بار دہرانے کی ضرورت نہیں‘‘۔ لیکن دستوری عدالت کا موقف فی الحال مجہول بھی ہے اور خطرناک بھی۔ اس کا فیصلہ ناقابلِ اپیل اور حتمی ہوتا ہے اور اس پر کٹڑ اسلام دشمن سیکولر حاوی ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا خیال یہ ہے کہ بھرپور عوامی رو کو دیکھتے ہوئے دستوری عدالت بھی خاموش رہنے ہی میں عافیت سمجھے گی۔ عدالت کو بھی یہ خدشہ ہے کہ اگر اس جزوی ترمیم کی راہ میں رکاوٹ ڈالی گئی تو کہیں اردوگان فوراً ہی نئے دستور کا مسودہ ریفرنڈم کے لیے پیش نہ کردیں کہ جس میں خود دستوری عدالت کا کردار بھی محدود کرنا پیش نظر ہے۔ ترکی میں گذشتہ پون صدی سے جاری سیاسی و ثقافتی کش مکش اب حسّاس دور میں داخل ہوگئی ہے۔ عوام کی بھرپور اکثریت اسلامی شعائر کا احترام کرنے پر زور دے رہی ہے۔ حالیہ دستوری ترامیم کے بارے میں جب سروے کروایا گیا تو ۷۰ فی صد عوام نے اس کے حق میں رائے دی۔ یہ پہلو بھی اہم ہے کہ یہ حمایت کسی عمومی معاشرتی ماحول یا وراثتی روایات کی بنیاد پر مبنی نہیں ہے۔ اسکارف کی حمایت کرنے والوں میں سے ۶۱ فی صد نے بتایا کہ وہ اس لیے حمایت کر رہے ہیں کہ اسلام حجاب کا حکم دیتا ہے۔
وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ ،(الصف ۶۱:۸) اللہ اپنا نور مکمل کرکے رہے گا خواہ یہ کافروں کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔
جمہوریہ چاڈ اقوام متحدہ، افریقی اتحاد کی تنظیم (OAU) اور اسلامی کانفرنس کا رکن ہے۔ یہاں مسلمان اکثریت (۵۷ فی صد) میں ہیں۔ چاڈ میں اس وقت خانہ جنگی جاری ہے۔ دنیابھر میں اس کی خبریں منظرعام پر آرہی ہیں۔ چاڈ ایک تو افریقی ملک ہے، دوسرے فرانسیسی استعمار کے زیرتسلط رہنے کی وجہ سے انگریزی بولنے والے ممالک کے برعکس فرینکوفون (فرانسیسی زبان) برادری کا رکن ہے۔ اسی وجہ سے انگریزی استعمار میں رہنے والے علاقوں کے برعکس فرانسیسی نوآبادیات والے علاقوں میں زیادہ متعارف ہے۔ یہ علاقہ بنیادی طور پر مسلمانوں کا ملک تھا۔ فرانسیسی استعمار نے ۱۹۰۰ء میں یہاںقبضہ کیا اور مسلمان حکمران ربیح الزبیر کو حکومت سے بے دخل کردیا۔ الزبیر کا اپنا تعلق بھی چاڈ سے نہیں تھا۔ وہ سوڈان کا حکمران تھا جس نے ۱۸۸۳ء کو اس علاقے کی تین مقامی بادشاہتوں کو یکے بعد دیگرے فتح کیا۔ فرانسیسی استعمار کے خلاف اس وقت سے ہی مقامی آبادی نے جدوجہد شروع کر دی تھی لیکن انھیں عملاً آزادی ۱۹۶۰ء میں حاصل ہوئی۔ یہ آزادی بھی فی الحقیقت براے نام ہی تھی کیونکہ فرانس نے اپنی فوجیں اور دیگر ادارے یہاں آزادی کے بعد بھی مسلط رکھے، جو اب تک پوری طرح معاملات میں دخیل ہیں۔
بدیشی آقائوں نے جاتے ہوئے مسلمان اکثریت کے اس ملک کا پہلامقامی حکمران جنوب کے ایک عیسائی فرنکوئیس ٹومبل بائی کو بنایا۔چاڈ خشکی میں گھرا ہوا ملک ہے، جس کا رقبہ پاکستان سے تقریباً ڈیڑھ گنا ہے (چاڈ ۱۲لاکھ ۸۴ہزار مربع میل، پاکستان ۸ لاکھ ۹سو ۴۰ مربع میل) اور آبادی صرف ایک کروڑ ۱۰ لاکھ ہے۔ چاڈ کی سرحدیں جن ملکوں سے ملتی ہیں، ان میں نائیجیریا، لیبیا،سوڈان، سنٹرل افریقن ری پبلک، کیمرون اور نائیجر، چھے ممالک شامل ہیں۔ اس کے دوہمسایے نائیجیریا اور سوڈان براعظم افریقہ میں آبادی اور رقبے کے لحاظ سے بالترتیب سب سے بڑے ملک ہیں۔ چاڈ میں آزادی کے بعد مسلسل افراتفری اور جنگ و جدال رہا ہے۔ شمال میں بسنے والے مسلمان، جو ملکی آبادی کا ۶۰ فی صد ہیں، اقلیت کی حکومت میں خود کو مطمئن نہیں پاسکتے تھے۔ وہ شروع سے اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھاتے رہے۔ جب کوئی شنوائی نہ ہوئی تو وہ بغاوت پر مجبور ہوگئے۔ وقتاً فوقتاً باہر کے ممالک بھی اس خانہ جنگی میں شریک ہوتے رہے۔
ملک کا پہلا صدر فرنکوئیس ۱۹۷۵ء میں ایک بغاوت کے دوران قتل کردیا گیا۔ اس کامیاب بغاوت کے بعد جنرل فیلکس مالوم ملک پر قابض ہوگیا، یہ بھی ایک عیسائی تھا۔ ۱۹۷۹ء میں ایک باغی لیڈر گوکونی عیدی جو مسلمان تھا، برسراقتدار آگیا۔ بدقسمتی سے چاڈ میں اس کے بعد بھی حالات معمول پر نہ آئے۔ چاڈ میں فوجی بغاوت، عوامی خانہ جنگی اور افراتفری مسلسل جاری رہی۔اس عرصے میں ایک اور مسلمان حسین ہبرے جو پہلے وزیردفاع تھا، بھی کچھ عرصے کے لیے برسرِاقتدار رہا۔ اسے لیبیا کی حمایت حاصل تھی۔ موجودہ حکمران ادریس ڈیبی ۱۹۹۰ء میں برسرِاقتدار آیا۔ وہ بھی ایک زمانے میں کمانڈر اِن چیف اور وزیردفاع رہ چکا تھا جو حکومت سے الگ ہوکر خانہ جنگی اور فرانس و لیبیا کی حمایت کے نتیجے میں برسرِاقتدار آیا۔ وہ فرانس کا تربیت یافتہ ہے۔ چاڈ معدنی دولت سے مالامال ہے، یہاں پٹرولیم، یورینیم اور سونے کے بڑے ذخائر موجود ہیں لیکن ابھی تک پوری طرح سے انھیں استعمال میں نہیں لایا گیا۔ مغربی ممالک پٹرول اور دوسری قیمتی معدنی دولت یورینیم پر نظریں گاڑے ہوئے ہیں۔ ایک معاہدے کے تحت چین بھی تیل کی تلاش اور انتفاع کے لیے صحرائی علاقے میں کھدائی کر رہا ہے۔
موجودہ حکومت کے خلاف بغاوت اچانک نمودار نہیں ہوئی، یہاں کئی سالوں سے مسلح مزاحمت کی تحریکیں چل رہی تھیں۔ اس سال کے آغاز میں باغی دستوں نے بڑی قوت کے ساتھ ملک کے دارالحکومت انجمینا پر اچانک حملہ کیا اور پورے دارالحکومت پر ان کا قبضہ ہوگیا۔ محض صدارتی محل اور اس کے آس پاس کے کچھ محدود علاقے ان کی دست رس سے باہر رہ گئے۔ صدر کی حفاظت کے لیے فرانس کے کئی ہزار فوجی دستے دارالحکومت میں پہلے سے موجود ہیں۔ میراج طیاروں کی مدد اور فضائی کور سے ان فرانسیسیوں نے باغی جنگجوئوں کو صدارتی محل سے دُور دھکیلنے میں وقتی کامیابی تو حاصل کرلی لیکن ابھی تک حالات کسی کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔ موجودہ صدر ادریس دیبی اب تک برسرِاقتدار آنے والے تمام حکمرانوں سے زیادہ عرصہ یعنی تقریباً اٹھارہ سال سے حکمران اور سیاہ وسفید کا مالک ہے۔ وہ اپنے مغربی آقائوں کی طرف سے پیش کردہ ہر معاہدے پر دستخط کرتا چلا آرہا ہے، جس کی وجہ سے اس کی ذاتی دولت میں توبے پناہ اضافہ ہوا لیکن عام آدمی کو کوئی ریلیف نہیں ملا۔ پٹرول، سونے اور یورینیم جیسی قیمتی معدنی دولت کے باوجود چاڈ بھوک و افلاس اور قحط و بربادی کا نقشہ پیش کرتا ہے۔ یو این او کے تیار کردہ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈکس کے مطابق اس کا شمار دنیا کے ۱۸۰ ممالک میں سے پانچ غریب ترین ملکوں میں ہوتا ہے۔
چاڈ کا ایک دوسرا بڑا مسئلہ سوڈان کے جنوبی علاقے دارفور میں جاری لڑائی کی وجہ سے مہاجرین کی آمد رہا ہے۔ اس وقت دارفور سے آئے ہوئے دو لاکھ سے زیادہ مہاجرین یہاں مقیم ہیں۔ سوڈانی حکومت کے خلاف دارفور میں گذشتہ کئی برسوں سے جو شورش برپا ہے اس کے پیچھے مغربی منصوبہ سازوں کی سازشیں شامل ہیںاور سوڈانیوں کے خیال میں چاڈ سے حملہ آور اس خانہ جنگی میں حکومت کے خلاف باغیوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔ دوسری طرف چاڈ حکومت اپنے ملک میں پھیلی ہوئی بغاوت کو سوڈان کے کھاتے میں ڈالتی ہے اور اس کے اس دعوے کو مغربی دنیا بھی درست تسلیم کرتی ہے۔چاڈ کے مسلمان موجودہ حکمران کو جو ان کا ہم مذہب ہونے کے باوجود مکمل طور پر فرانس کا ہم نوا اور اس کی تہذیب کا دل دادہ ہے، شدید نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس کا تعلق بھی ایک چھوٹے سے قبیلے زگاوہ (Zagawa) سے ہے جو ملک کی آبادی کا صرف ڈیڑھ فی صد بنتا ہے۔
موجودہ بغاوت اگرچہ ان دنوں زیادہ منظرعام پر آگئی ہے مگر اس کی جڑیں ماضی میں دُور تک جاتی ہیں۔ ۱۹۹۸ء میں موجودہ صدر کے سابق وزیردفاع یوسف توجومی (Togoimi) نے مسلح بغاوت کی تھی جو دو تین سال مسلسل جاری رہی۔ اس دوران ملک کے بیش تر حصوں پرباغیوں نے قبضہ کرلیا تھا۔ ۲۰۰۲ء میں لیبیا کے صدر معمر قذافی نے مصالحت کی کوشش کی، مگر وہ کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکی، تاہم وقتی طور پر باغی تحریک پس منظر میں چلی گئی۔ قذافی صاحب نے چاڈ کے ساتھ الحاق کرنے کی بھی کوشش کی تھی اور ۱۹۸۱ء میں لیبیا کے فوجی دستے چاڈ بھیجے گئے تھے۔ ملک کی عام آبادی نے قذافی صاحب کی اس کاوش کو شک اور نفرت کی نگاہ سے دیکھا۔ یوں الحاق کا یہ منصوبہ دم توڑگیا اور لیبی فوجوں کو ۱۹۸۳ء میں ملک سے نکل جانے کا حکم ملا مگر وہ خانہ جنگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ۱۹۸۷ء تک چاڈ کے شمالی علاقوں میں براجمان رہے۔ معمرقذافی پر چاڈ کی آبادی کم ہی اعتماد کرتی ہے۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اگر فرانس اور دیگر مغربی قوتوں کی سرپرستی حاصل نہ ہو تو موجودہ حکومت ایک دن میں ختم ہوجائے۔ حالات کا اُونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے، کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ عالمی ادارے اور مغربی حکومتیں چاڈ کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی ہیں۔ وہ اپنی مرضی ہی کے حکمرانوں کو یہاں مسلط رکھیں گی خواہ موجودہ صدر کی صورت میں یا اس کے متبادل کے طور پر۔ آپ حیران ہوں گے کہ چاڈ سے جو پٹرول نکلتاہے، وہ عالمی بنک کے قرضوں کی سرمایہ کاری سے کیمرون کی بندرگاہ کریبی (Karibi) تک ۷۰۰ میل لمبی پائپ لائن کے ذریعے پہنچا دیا جاتا ہے۔ وہاں سے عالمی بنک مختلف ممالک کو عالمی منڈی کے بھائو پر فروخت کردیتا ہے۔ اس سے چاڈ کو محض ساڑھے ۱۲ فی صد رائلٹی ملتی ہے جو صریح ظلم ہے۔ اس میں سے بھی جنوری ۲۰۰۶ء میں عالمی بنک نے ۱۲۵ ملین ڈالر کی رائلٹی کئی عذر ہاے لنگ کو جواز بناکر منجمد کردی۔ اس کے علاوہ ایک سابقہ معاہدے کے مطابق فراہم کی جانے والی ۱۲۴ ملین ڈالر کی امداد بھی روک لی گئی۔ یوں ملک کی اس دولت پر بھی مقامی آبادی کا کوئی حق تسلیم نہیں کیا جا رہا ہے۔ یہ ظلم جب تک دنیا میں جاری رہے گا، انسانیت آزادی اور چین کا سانس کیسے لے سکے گی؟ تیسری دنیا میں نہ معاشی آزادی ہے، نہ سیاسی حریت۔ دنیا ایک حقیقی انقلاب کی پیاسی ہے۔ سرمایہ پرستی کا سفینہ ڈوبے بغیر انقلاب نہیں آسکتا۔
امریکا یا یورپ میں بالخصوص ستمبر ۲۰۰۱ء سے مسلمان کے طور پر زندگی گزارنا عملی طور پر ایک جرم بن گیا ہے۔ ان کے خلاف بے شمار قوانین وضع کیے گئے ہیں۔ بظاہر ان اقدامات کا مقصد ’انتہاپسندوں‘ پر قابو پانا ہے لیکن عملاً تمام ہی مسلمان شک وشبہے کی نگاہ سے دیکھے جا رہے ہیں۔ سیکورٹی چیک کے بہانے انھیں الگ کھڑا کردیا جاتا ہے، جب کہ بعض کو تو جہاز سے بھی اُتار لیاجاتا ہے۔ سیکڑوں مسلمانوں کومحض شبہے میں گرفتار کر کے ان کی زندگیوں کو تباہ کردیاگیا ہے جیساکہ گذشتہ ماہ لندن کی ۲۳ سالہ ثمینہ ملک کو محض جہادی شاعری کی بنیاد پر دہشت گرد قرار دے دیا گیا تھا۔ امریکا اور کینیڈا میں مسجدوں اور اسلامی طرز کے اسکولوں کو غنڈا گردی کا نشانہ بنایاگیا ہے اور حجاب پہننے والی خواتین پر آوازے کسے جاتے ہیں۔ ان اقدامات کو مغرب میں ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں جائز قرار دیا جاتا ہے۔
اس ناروا سلوک پر مسلمان سراپا احتجاج ہیں۔ کینیڈا کے کئی اسکولوں اور جامعات میں مسلم طلبہ کوجب اس بنیاد پر نماز کی سہولت فراہم کرنے سے انکار کیاگیا کہ تعلیمی ادارے سیکولر بنیادوں پر قائم ہیں تو مقامی طلبہ کی ایک تنظیم ’اونٹاریو فیڈریشن آف اسٹوڈنٹس‘ نے تعلیمی اداروں پر چھا جانے والے ’اسلامو فوبیا‘ کے خلاف جدوجہد کا اعلان کیا ہے۔
امریکی مسلم خواتین کی ایک تنظیم نیشنل ایسوسی ایشن آف مسلم امریکن وومن، ناما (NAMAW) نے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے باقاعدہ قانونی جدوجہد کا آغاز کیا ہے۔ اس تنظیم نے امریکی محکمۂ انصاف کے پاس جنوری ۲۰۰۷ء میں امریکی عربوں اور مسلمانوں کے خلاف صہیونی لابی کی حرکتوں پر مبنی ایک شکایت درج کرائی تھی جس میں سول رائٹس ڈویژن کے سربراہ مارک کیپل ہوف سے استدعا کی گئی تھی کہ وہ اس امر کی تحقیقات کرائے کہ کئی شخصیات اور اداروں نے قانون نافذ کرنے والے امریکی اداروں کو گمراہ کن اور حدسے زیادہ سیاسی اطلاعات فراہم کی ہیں جن کا مقصد امریکی عربوں اور مسلمانوں کے خلاف مالی، سماجی، قانونی اور سیاسی ماحول پیدا کرنا ہے تاکہ ان کے ساتھ مذہبی امتیاز پر مبنی پالیسی بنائی جاسکے اور انھیں پوچھ گچھ کے مرحلوں سے گزارا جاسکے۔ درخواست میں کہا گیا تھا کہ اس وجہ سے مسلمانوں کو ان کے جائز آئینی حقوق سے بھی دستبردار کیا جا رہاہے۔
ناما کسی ایسے فرد یا ادارے کو براہِ راست نامزد کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتی جسے وہ امریکی عرب اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کا اور ان کی ساکھ متاثر کرنے کا ملزم گردانتی ہو۔ اس کے نزدیک اس جرم کا ارتکاب کرنے والی شخصیات وتنظیمات میں امریکن اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی (AIPAC)، امریکن جیوش کمیٹی (AJC)، اینٹی ڈیفامیشن لیگ (ADL)، امریکن جیوش کانگرس (AJC)، جیوش کونسل آن پبلک افیئرز (JCPA) ہیں، اور شخصیات میں اسٹیوایمرسن، ڈینیل پائپس، ریٹاکاٹز، اسٹیون شوائز اور ایوئن کوہل مین وغیرہ شامل ہیں۔ ان تنظیمات اور شخصیات نے ایسی تقریریں اور بیانات نشر کیے جن کی بنیاد پر امریکی عربی اور عام مسلمانوں کے خلاف معاندانہ ماحول پیدا ہوا اور انھیں شہری آزادیوں اور حقوق سے دستبردار ہونا پڑا۔
اپنی عرضداشت میں ناما کی چیئرپرسن ڈاکٹر انیسہ عبدالفتاح نے مذکورہ شخصیات کی تقریروں، تحریروں اور بیانات کو منسلک کیا ہے جن کے باعث بعض اوقات نفرت انگیزی کی انتہا کردی گئی ہے، اور سرکاری محکمہ جات کو مسلمانوں کے خلاف مغالطے میں مبتلا کیا گیا ہے جن میں امریکی کانگریس بھی شامل ہے۔ اس نفرت انگیز مواد کی نشرواشاعت کا مقصد یہ تھا کہ عربوں اور مسلمانوں کے خلاف ایسے قوانین منظور کروائے جائیں جن سے ان کے آئینی حقوق پر ڈاکا ڈالا جاسکے۔ عرضداشت میں خصوصی طور پر یونائیٹڈ اسٹیٹس انسٹی ٹیوٹ فار پیس کے سابقہ بورڈ ممبر ڈینیل پائپس کے ایک حالیہ مضمون کاحوالہ دیا گیا ہے جو نیویارک پوسٹ کی ۲۶دسمبر ۲۰۰۶ء کی اشاعت میں بعنوان ’فاشسٹوں اور کمیونسٹوں کو شکست دینے کے بعد کیا اب مغرب ’اسلام پسندوں‘ کو بھی شکست دے سکتا ہے؟‘ شائع ہوا ہے۔ واضح رہے کہ ڈینیل پائپس اسلام دشمنی کی ایک طویل تاریخ رکھتا ہے۔ اس نے خود کہا تھا کہ اسلام پسند، مقدس اسلامی قوانین، یعنی شریعت کے مطابق زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر انیسہ عبدالفتاح لکھتی ہیں: ’’اگر ہم ڈینیل کی مذکورہ تعریف کو قبول کرلیں جیساکہ امریکا میں قانون نافذ کرنے والے اور پالیسی بنانے والے اداروں نے عام طور پر اسے قبول کیا ہوا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا دنیا کے ہرمسلمان حتیٰ کہ خود مذہب اسلام سے بھی حالتِ جنگ میں ہے۔ ڈینیل پائپس کے نزدیک مسلمانوں کی قانونی سرگرمیاں، ان کی غیرقانونی سرگرمیوں سے کہیں زیادہ دُور رس چیلنج کو جنم دیتی ہیں کیونکہ اس طرح امریکا میں سیاسی معاملات میں صہیونی اجارہ داری پر زد پڑتی ہے۔
کسی بھی قسم کا ابہام باقی نہ رہنے دینے کے لیے ڈاکٹر فتاح نے امریکی محکمۂ انصاف کو دوٹوک الفاظ میں لکھا ہے کہ:
۱- یہودی تنظیموں اور سرگرم افراد نے یہاں امریکا میں مسلمانوں، عربوں اور سفیدفام قوم پرست تنظیموں پر مشتمل اپنے ’دشمنوں‘ کی ایک فہرست تیار کی ہے جس میں ان افراد اور گروپوں کو نامزد کیا گیا ہے جو اسرائیلی ریاست کے لیے خطرہ یادشمن تصورکیے جاتے ہیں۔
۲- ان یہودی تنظیموں نے مسلمانوں، عربوں اور خود اسلام کے خلاف راے عامہ کو گمراہ کرنے کے لیے اپنے مالی وسائل اور سیاسی اثر ورسوخ کو استعمال کیا ہے تاکہ سیاسی مقاصد کے لیے انھیں غیرمؤثر کیا جائے، انھیں جائز آئینی و قانونی حقوق سے محروم کیا جائے اور اسلام کی عطاکردہ آزادی پر قدغن لگائی جائے۔
ناما کی طرف سے دائر کردہ اس کی درخواست میں امریکی محکمۂ انصاف سے استدعا کی گئی ہے کہ مذکورہ شکایات کی تحقیقات کی جائیں اور اس قسم کے اقدام کے خاتمے کے لیے ضروری کارروائی کی جائے، تاہم سیاسی اثروسوخ کی بنا پر صہیونی لابی کے خلاف کوئی مناسب اقدام اٹھائے جانے کی امید کم ہے ۔ لیکن نتائج کی پروا کیے بغیر ناما اور اس کی چیئرپرسن کے اس اقدام کی داد ضرور دی جانی چاہیے کہ انھوں نے صہیونی لابی کے نفرت انگیز اقدام کو سرکاری سطح پر نمایاں کیا ہے جس کی وجہ سے کئی عشروں سے امریکی پالیسیاں صہیونیوں کی یرغمال بنی ہوئی ہیں۔
_______________
ہاشمی نسب جناب ہاشم بن عبدِمَناف سے شروع ہوتا ہے۔ بلندکردار قریشی سردار، ذہانت و جرأت میں ہی نہیں صداقت و امانت میں بھی اپنی مثال آپ تھا۔ قریشِ مکہ ہرسال موسم گرما میں اپنے تجارتی قافلے شام بھیجا کرتے۔ یہ قافلے سرما میں واپس لوٹتے۔ ان رِحْلَۃَ الشِّتَائِ وَالصَّیْف میں سے ایک قافلہ جناب ہاشم کی قیادت میں جاتا۔ ۲۵ برس کی عمر تک یہ سردار نمایاں ترین مقام حاصل کرچکا تھا۔ لوگ انھیں التَّاجِرُ الصَّدُوق ’انتہائی سچا تاجر‘ کہہ کر پکارنے لگے۔ ۲۵سال کی عمر میں ہاشم بن عبدِمناف تجارتی قافلہ لے کر شام جا رہے تھے کہ وادیِ سینا سے ملحق علاقے غزہ میں انھیں اچانک بیماری نے آن لیا۔ یہ بیماری مرض الموت ثابت ہوئی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جدِّامجد ہاشم بن عبدِمناف غزہ میں انتقال فرما گئے۔ غزہ کے محلے ’الدرج‘ میں آج بھی ان کی قبر موجود ہے۔ قبر کے پڑوس میں ایک شان دار تاریخی مسجد، مسجدِسیدہاشم واقع ہے۔ یہ مسجد ممالیک کے عہد میںتعمیر کی گئی۔ سلطان عبدالحمید نے ۱۸۵۰ء میں اس کی تجدید کی، غزہ کو اسی حوالے سے غزۂ ہاشم کہہ کر پکارا جاتا ہے۔
مصر کی وادیِ سینا سے منسلک اور بحرمتوسط کے ساحل پر پھیلی ہوئی ۴۰کلومیٹر لمبی اور ۱۰کلومیٹر چوڑی غزہ کی پٹی میں ۱۵ لاکھ فلسطینی بستے ہیں۔ ۱۹۴۸ء میں سرزمینِ فلسطین پر قبضہ کر کے جب صہیونی ریاست قائم کرنے کا اعلان کیا گیا تو غزہ کی پٹی مصر کے زیرانتظام آگئی۔ مصری انتظام ۱۹ سال تک قائم رہا۔ ۱۹۶۷ء کی عرب اسرائیل جنگ کے نتیجے میں دیگر وسیع علاقوں کے ساتھ ہی ساتھ غزہ پر بھی صہیونی افواج نے قبضہ کرلیا اور غزۂ ہاشم پر ابتلا کا نیا دور شروع ہوگیا۔ ۱۹۴۸ء کے بعد دیگر فلسطینی علاقوں سے بھی مہاجرین کی بڑی تعداد غزہ منتقل ہوگئی تھی، آٹھ مہاجر خیمہ بستیاں وجود میں آئیں۔ یہودیوں نے بھی یہاں اپنی ۲۵ جدید بستیاں تعمیر کیں اور غزہ کی یہ مختصر سی پٹی کثافتِ آبادی کے لحاظ سے دنیا کی سب سے گنجان انسانی آبادی بن گئی۔
مفلوک الحال آبادی سسک سسک کر جی رہی تھی کہ وہاں جہاد و مزاحمت سے آشنا ایک نئی نسل نے جنم لیا۔ شیخ احمد یاسین، ڈاکٹر عبدالعزیز الرنتیسی اور انجینیریحییٰ شہید جیسے راہ نمائوں نے اس نسل کی تربیت کا بیڑا اٹھایا۔ اسلامی یونی ورسٹی غزہ جیسے شان دار تعلیمی ادارے قائم کیے اور بالآخر ۱۹۸۷ء میں اسلامی تحریک مزاحمت (ح: حرکۃ م: المقاومۃ اس: الاسلامیۃ حماس ،یعنی جوش و جذبہ) وجود میں آگئی۔ آغازِکار میں پتھروں اور غلیلوں سے ٹینکوں کا مقابلہ کیا گیا، معصوم بچوں نے کنکریوں سے دیوقامت ٹینکوں اور جدید ترین ہتھیاروں کا مقابلہ کیا۔ ابابیل صفت بچے گھروں سے نکلتے ہوئے باوضو ہوکر آتے، مساجد میں نوافل ادا کرتے اور صہیونی درندوں کا مقابلہ کرنے کے لیے نکل آتے۔ بظاہر صہیونی اسلحے کے انباروں اور بے وسیلہ بچوں کا کوئی تقابل نہیں تھا لیکن دنیا نے دیکھا کہ ہزاروں شہدا، زخمیوں اور قیدیوں کا نذرانہ دینے کے بعد بالآخر بے وسیلہ تحریکِ انتفاضہ ہی کامیاب ہوئی اور ۱۹۶۷ء سے غزہ پر قابض صہیونی افواج ۲۰۰۵ء میں انخلا پر مجبور ہوئیں۔
صہیونی اور امریکی منصوبہ یہ تھا کہ اسرائیلی انخلا کے بعد غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینی آپس ہی میں لڑتے لڑتے ختم ہوجائیں۔ صہیونی استعمار کے ساتھ مذاکرات و مصالحت کرنے والی الفتح تحریک خودکو فلسطینی عوام کا اکلوتا نمایندہ قرار دیتی رہی ہے۔ وہی۱۹۹۳ء کے بعد سے لے کر غزہ اور مغربی کنارے میں قائم فلسطینی اتھارٹی کے سیاہ و سفید کی مالک تھی۔ صہیونی اور امریکی منصوبہ ساز اس اتھارٹی کے ذریعے فلسطینی مجاہدین کو فلسطینی ’حکمرانوں‘ کے ہاتھوں نیست و نابود کروانا چاہتے تھے۔ اربوں ڈالر کی امداد کا اعلان کیا گیا اور یہ جاننے کے باوجود کہ یہ خطیر امدادی رقم چند جیبوں میں جارہی ہے اس کرپشن پر کوئی اعتراض نہ کیا گیا، مزید امداد کے لیے اکلوتی شرط یہی رکھی گئی کہ مزید دہشت گردوں، یعنی مجاہدین کا قلع قمع کرو۔
یہ منصوبہ اور سازش شاید کامیاب ہوجاتی لیکن جنوری ۲۰۰۶ء میں پورا نقشہ ہی بدل گیا۔ انتخابات ہوئے اور حماس نے پہلی بار انتخابات میں شرکت کا فیصلہ کرلیا۔ امریکا، اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی نے لاکھ دھمکیاں دیں کہ اگر حماس کو منتخب کیا گیا تو امداد بند کردی جائے گی… اسرائیل پھر فوج کشی کردے گا… محاصرہ کردیا جائے گا… لیکن فلسطینی عوام نے بھاری اکثریت سے حماس ہی کو اپنا نمایندہ منتخب کیا۔ امریکا، اسرائیل اور ان کی پسندیدہ فلسطینی اتھارٹی سب ایک مخمصے کا شکار ہوگئے۔ اپنے وضع کردہ نظام کو باقی رکھتے ہوئے حماس کو حاصل دو تہائی اکثریت تسلیم کرلیں یا سب کچھ لپیٹ کر، واپس ۱۹۹۳ء سے پہلے کی صورت حال میں جاپہنچیں۔ طویل لیت و لعل کے بعد صدر محمود عباس کو پارلیمنٹ کا اجلاس بلانے، منتخب ارکانِ اسمبلی اور ارکانِ حکومت سے حلف لینے کی ہدایات دی گئیں۔ وزیراعظم اسماعیل ھنیہ اور ان کے ساتھیوں نے کام کرنا شروع کردیا۔
کہنے کو تو ایک منتخب حکومت اور پارلیمنٹ وجود میں آگئی لیکن عملاً یہ زہریلے کانٹوں سے بھرا ایک تاج تھا جو حماس حکومت کے حصے میں آیا۔ کہنے کو تو صہیونی انخلا کے بعد غزہ سے اسرائیلی قبضہ ختم ہوگیا تھا لیکن عملاً پورا علاقہ نہ صرف صہیونی گھیرے میں ہے، بلکہ غزہ کے اندر بھی اسرائیلی افواج کی نمایندگی کرنے والے دندناتے پھرتے تھے۔ منتخب حکومت کو ایک دن بھی سُکھ کا سانس نہیں لینے دیا گیا۔ ۱۹۹۳ء میں صہیونی انتظامیہ کے ساتھ اوسلو معاہدے کے نتیجے میں متعارف کروائی جانے والی فلسطینی اتھارٹی کی بنیاد ہی بیرونی مالی امداد اور اسرائیلی شراکت داری پر رکھی گئی تھی، حماس کی حکومت آتے ہی تمام بیرونی امداد یکسر بند کردی گئی۔ اسرائیلی انتظامیہ نے تعاون کے بجاے عداوت کے نئے مورچے کھول لیے اور ان سے یہی توقع تھی۔ حماس نے چیلنج قبول کیا اور کہا کہ امداد بند ہے تو بند رہے ہم اپنا جہاں خود پیدا کریں گے۔ پورے عالمِ اسلام کے عوام نے ان کے لیے مالی امداد جمع کرنا شروع کی، ایک خطیر رقم جمع ہوگئی، بعض حکومتوں نے بھی دست تعاون بڑھایا اور دنیا کو ’خطرہ‘ لاحق ہوگیا کہ حماس حکومت کامیاب ہوسکتی ہے۔ مسلمان ملکوں کے بنکوں پر پابندی عائد کردی گئی کہ کوئی بنک فلسطینی حکومت کے اکائونٹ میں ایک پیسہ بھی منتقل نہ کرے۔ کئی بنکوں نے منتخب فلسطینی حکومت کے لیے جمع شدہ رقوم ضبط کرنے کا اعلان کردیا لیکن حماس نے پھر بھی ہمت نہ ہاری اور ذمہ دارانِ حکومت خود مالی اعانت لے کر غزہ جانے لگے۔
غزہ کو باقی دنیا اور خود فلسطین کے دیگر مقبوضہ علاقوں سے ملانے والے راستوں کی تعداد چھے ہے۔ ان میں سے پانچ تو براہِ راست اسرائیلی انتظام میں ہیں اور غزہ کو مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے ملاتے ہیں جب کہ ایک راستہ (رَفح گیٹ وے) غزہ کو مصر سے ملاتا ہے۔ وزیراعظم ھنیہ، وزیرخارجہ محمود الزھار اور دیگر کئی ذمہ داران حکومت کو رَفح کے راستے جمع شدہ مالی اعانت غزہ لے جانے سے روکنے کی کوشش کی گئی، لیکن ہربار فلسطینی مجاہدین نے باقاعدہ مزاحمت کرتے ہوئے یہ امداد اندر پہنچائی۔ تقریباً ڈیڑھ برس کا عرصہ یوں ہی گزرا۔ عالمی امداد بند، تمام بّری راستے جزوی طور پر بند، صہیونی فوجی کارروائیوں کا وسیع پیمانے پر دوبارہ آغاز اور سب سے بڑھ کر یہ کہ الفتح تنظیم اور صدارتی افواج کے ذریعے حماس کے ساتھ باقاعدہ مڈبھیڑ کا اہتمام، آئے روز ذمہ داران قتل، مجاہدین گرفتار… صہیونی دشمن کے ہاتھوں نہیں، اپنے ہی بھائی بندوں کے ذریعے۔ اس دوران کئی مصالحتی کوششیں ہوئیں۔ مکہ مکرمہ میں حماس اور الفتح کے درمیان کعبے کے سایے میں ایک تفصیلی معاہدہ طے پایا۔ معاہدے کی سیاہی بھی خشک نہ ہوئی تھی کہ صدارتی افواج اور الفتح کے مسلح عناصر کے ذریعے منتخب حکومت اور حماس کے خلاف جارحانہ کارروائیاں پھر شروع ہوگئیں۔ اغوا، قتل اور جلائوگھیرائو کی یہ کارروائیاں عروج پر پہنچیں تو بالآخر ۱۴ جون ۲۰۰۷ء کو حماس کے جوانوں نے غزہ سے صدارتی کیمپ کے تمام دفاتر خالی کروا لیے۔ چند گھنٹوں کے اندر اندر غزہ میں صرف حماس ہی کی عوامی و عسکری قوت باقی رہ گئی۔ حماس نے اعلان کیاکہ یہ صرف ایک عارضی اورانتظامی کارروائی ہے، ہم معاہدۂ مکہ کی اصل روح کے ساتھ اپنے تمام فلسطینی بھائیوں سے اشتراکِ عمل چاہتے ہیں، لیکن ۱۴ جون کے واقعات کو بنیاد بناکر غزہ کو مکمل گھیرے میں لے لیا گیا۔
اس محاصرے کو سات ماہ سے زائد عرصہ گزر گیا ہے۔ غزہ آنے جانے کے تمام راستے مکمل طور پہ بند ہیں۔ کوئی گاڑی، کوئی سواری، کوئی شخص غزہ آسکتا ہے، نہ وہاں سے جاسکتا ہے۔ اس مکمل بندش سے زندگی معطل ہوکر رہ گئی۔ ایندھن، پانی، ادویات، سامانِ خوردنوش فلسطینی مقبوضہ علاقوں سے آتا تھا، وہ بند ہوگیا۔ غزہ سے کچھ سامانِ تجارت خصوصاً فرنیچر ملبوسات اور زیتون کی مصنوعات باہر جاتی تھیں وہ بند، غزہ میں موجود ۱۸ہزار سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بند۔ غزہ سے لاکھوں افراد روزانہ محنت مزدوری کے لیے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں جاتے تھے، ان کے جانے پر پابندی۔ غزہ میں علاج کی سہولت محدود ہونے کے باعث سنگین امراض کے شکار افراد علاج کے لیے رَفح کے راستے مصر لے جائے جاتے تھے۔ گذشتہ سات ماہ میں کئی افراد کو انتہائی مجبوری کے عالم میں مصر لے جانے کی کوشش کی گئی لیکن انھیں کئی کئی روز راستے ہی میں روکے رکھا گیا جس کی وجہ سے ۸۲افراد راستے ہی میں دم توڑ گئے۔ کئی مریض ایسے تھے کہ حصار سے پہلے مصری ہسپتالوں میں داخل تھے، انھیں علاج کے بعد واپس اپنے اہلِ خانہ کے پاس نہیں جانے دیا گیا۔ ان میں کئی خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
۲۰ جنوری ۲۰۰۸ء محاصرے کی ہلاکت خیزیوں کے عروج کا دن تھا۔ غزہ کی ۱۵ لاکھ آبادی بجلی کے حصول کے لیے مقبوضہ فلسطینی علاقوں اور مصر سے آنے والی سپلائی کے رحم و کرم پر تھی۔ ۵ فی صد بجلی جنریٹروں کے ذریعے غزہ ہی سے فراہم ہوجاتی تھی۔ مقبوضہ علاقوں اور مصر سے آنے والی بجلی پہلے ہی بند کر دی گئی تھی۔ ۵ فی صد پر کسی نہ کسی طرح گزارا ہورہا تھا لیکن یہ جنریٹر بھی تیل سے چلتے ہیں اور ایندھن کی سپلائی گذشتہ سات ماہ سے بند تھی۔ ۲۰ جنوری کو پاکستانی وقت کے مطابق رات ساڑھے گیارہ اور غزہ کے وقت کے مطابق رات ساڑھے آٹھ بجے آخری جنریٹر بھی تیل نہ ملنے کی وجہ سے بند ہوگیا۔ ۱۵ لاکھ افراد پر مشتمل آبادیاں مکمل اندھیرے میں ڈوب گئیں۔ غزہ مکمل طور پہ تاریک ہوگیا۔ صرف تاریکی ہوتی تو اسے برداشت کیا جاسکتا تھا لیکن برقی رَو نہ ہونے کے باعث ٹیوب ویل بند ہوگئے، پانی ناپید ہوگیا۔ ہسپتالوں میں بجلی نہ ہونے کی وجہ سے حسّاس طبی آلات نے کام چھوڑ دیا، جن مریضوں کے آپریشن ضروری تھے یا جن کے آپریشن ہوچکے تھے، موت و حیات کی کش مکش سے دوچار ہوگئے۔ ٹیلی فون ایکسچینج اور موبائل فون کی بیٹریاں ختم ہوگئیں، ذرائع ابلاغ و مواصلات معطل، نقل و حرکت کے وسائل مفلوج، زرعی اجناس کھیت سے منڈی منتقل کرنا محال۔ اسی پر اکتفا نہیں، ساتھ ہی ساتھ اسرائیلی بم باری شروع۔ حماس کے ذمہ داران اور نوجوانوں کو چُن چُن کر میزائلوں کا نشانہ بنایا جانے لگا۔ منتخب وزیرخارجہ محمود الزھار کا کڑیل جوان بیٹا بھی شہید کردیا گیا (ان کا ایک بیٹا ۲۰۰۳ء میں اس وقت شہید ہوگیا تھا جب خود انھیں میزائلوں کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ وہ تو محفوظ رہے ہمراہ جانے والا بیٹا شہید ہوگیا)۔ حصار و تاریکی کے تین روز کے اندر اندر ۴۰ کے قریب افراد کو شہید کردیا گیا۔ شہدا اور زخمیوں کی جو فہرست غزہ سے جاری ہوئی ہے اسے دیکھیں توان میں سے صرف تین افراد ایسے ہیں کہ جن کی عمر بالترتیب ۴۲، ۵۴ اور ۵۹ سال ہے۔ باقی سب نوجوان یا بچے ہیں۔
۱۵ لاکھ انسانوں کو اب بھی پوری دنیا کے سامنے روزانہ موت کے گھاٹ اُتارا جا رہا ہے۔ ان کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ فلسطینی ہیں، اپنے نبیؐ کے قبلۂ اول اور مقام اسراء و معراج پر صہیونی قبضہ تسلیم کرنے سے انکاری فلسطینی۔ لاکھوں افراد کے سامنے جب کوئی راستہ نہ بچا تو ۲۲جنوری کی شام سیکڑوں خواتین رفح کے سرحدی پھاٹک پر جمع ہوگئیں، انھوں نے زبردستی پھاٹک کھولنے کی کوشش کی لیکن مصری انتظامیہ نے ان پر آنسو گیس اور گولیاں چلا دیں۔ اگلے روز، یعنی ۲۳جنوری کو ہزاروں کی تعداد میں فلسطینی نوجوان اکٹھے ہوئے اور انھوں نے بلڈوزر کے ذریعے غزہ اور مصر کے مابین حائل جنگلے اور آہنی دیوار مسمار کر دی۔ پھر وہاں سے لاکھوں فلسطینیوں کے قافلے مصری شہر عَرِیش اور رَفح کی جانب چل دیے۔ سب کا ہدف صرف یہ تھا کہ تیل، کھانے پینے کا سامان اور لالٹینیں، موم بتیاں خرید کر واپس جاسکیں۔ جب اتنی بڑی تعداد کو روکنا مصر کے لیے ممکن نہ رہا تو صدر حسنی مبارک نے اعلان کیا کہ ہم نے سرحد کھول دی ہے، فلسطینی سامان خوردونوش خریدنے کے لیے آسکتے ہیں۔ مصری دکان دار اور تاجر ایک انوکھی سرشاری کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ معمول سے بھی کم قیمت پر جو کچھ ہے اپنے محصور بھائیوں کو پیش کر دیتے، بعض اوقات قیمت خرید سے بھی کم پر۔
یہ منظر ایک بڑا سوالیہ نشان بھی ہے۔ ایک ہی قوم، ایک زبان، ایک ہی علاقے کے ساجھی ایک ہی نبیؐ کے اُمتی لیکن چند فٹ کی دیوار اور خاردار تاروں سے یوں تقسیم کردی گئی کہ ایک طرف ۱۵لاکھ انسانی جانیں موت کی دہلیز پر کھڑی ہیں اور دوسری جانب کے حکمران صرف امریکا و اسرائیل کے خوف سے انھیں روٹی، پانی، دوا یا تیل دینے سے انکاری ہیں۔ سرحدی دیوار روند دیے جانے پر امریکا بہادر نے خبردار کیا ہے کہ یہاں سے دہشت گرد اسلحہ اور مجاہدین غزہ جاسکتے ہیں۔ اسرائیل نے بھی دھمکی دی ہے کہ مصر یہ راستہ بند کردے وگرنہ براہ راست کارروائی کریں گے۔ اور مصر نے آمنا وصدقنا کہتے ہوئے یہ سرحدی شگاف بند کردیا۔ اب غزہ سے کسی کو مصر جانے کی اجازت نہیں البتہ فی الحال مصر کی طرف آئے ہوئے فلسطینیوں کو واپس غزہ کی سب سے بڑی انسانی جیل میں جانے کی آزادی ہے۔ سرحدی شگاف بند کردیا گیا لیکن اس اقدام سے اُمت کے جسد میں جو شگاف ڈالا جا رہا ہے اس کی کسی کو پروا نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ مظلوم کے سامنے جب سب راستے بند کردیے جائیں تو پھر وہ کسی طرح سرحدیں مسمار کردیتا ہے۔ دنیا نے اس کا عملی مظاہرہ دیکھ لیا۔
اہلِ غزہ پر توڑی جانے والی اس قیامت پر اُمت نے بیداری و زندگی کا ثبوت دیتے ہوئے پورے عالمِ اسلام میں اس پر احتجاج کیا ہے۔ موریتانیا سے لے کر انڈونیشیا تک ہر جگہ مظاہرے اور مذمتی بیانات جاری ہوئے ہیں۔ سب سے بڑے مظاہرے مصر اور اُردن میں اخوان المسلمون نے کیے ہیں۔ ایران اور لبنان میں بھی بڑے مظاہرے ہوئے ہیں۔ موریتانیا میں خواتین کے مظاہرے میں ایک خاتون رکن پارلیمنٹ وضع حمل کے تیسرے روز بیماری کے باوجود مظاہرے کی قیادت کے لیے نکل آئی۔ خلیجی ریاستوں بحرین، قطر اور متحدہ عرب امارات کے شہر شارقہ میں بھی مظاہرہ ہوا ہے حالانکہ وہاں کسی سیاسی سرگرمی کی اجازت نہیں ہے۔ دمشق میں ایک بڑی قومی کانفرنس ہوئی ہے۔ کئی عرب ممالک میں مظاہرین نعرے لگا رہے تھے: وَلَایَھُـمُّک فِلَسْطِین - کُلنُّا صَلاحُ الدِّین ’فلسطین فکر نہ کرو ہم سب صلاح الدین ہیں‘۔ اہلِ غزہ نے بھی موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بینر بلند کیے: شعب غزہ ما بینھار ’غزہ کے باسی کبھی شکست خوردہ نہیں ہوں گے‘۔ عالمی سروے بتارہے ہیں کہ اہل غزہ پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ حماس کا ساتھ دے رہے ہیں۔
جب رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے تمام ساتھیوں کو اہلِ خانہ سمیت شعبِ ابی طالب میں محبوس کردیا گیا اور وہ خشک چمڑا اور درختوں کی چھال تک کھانے پر مجبور کردیے گئے تو ایک روز زہیر بن امیہ تڑپ اٹھا، اپنا شان دار جبہ زیب تن کرکے حرم میں آیا، بیت اللہ کا طواف کیا اور کہا: ’’ہم تو انواع و اقسام کے کھانے کھائیں، طرح طرح کے کپڑے پہنیں اور بنوہاشم ہلاک ہوتے رہیں، ان سے ہر طرح کی خرید و فروخت بند ہو…؟ نہیں، خدا کی قسم! نہیں۔ میں تب تک چین سے نہیں بیٹھوں گا جب تک بنوہاشم سے بائیکاٹ کی ظالمانہ دستاویز پھاڑ نہیں دی جاتی‘‘۔ آج خود ہاشم بن عبدِمناف کے میزبانوں کے لیے غزہ کو شعبِ ابی طالب بنا دیا گیا ہے۔ غزہ اور دیگر فلسطینی آبادیوں کے گرد ۶۵۰ کلومیٹر لمبی اور ۲۵ فٹ اُونچی جدید ہتھیاروں سے آراستہ آہنی دیوار کھڑی کی جارہی ہے۔ (دیوار برلن ۱۵۵ کلومیٹر لمبی اور ۱۱ فٹ ۸ انچ اُونچی تھی) تمام راستے مسدود کر دیے گئے ہیں۔ رسولِ مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کے جدِّامجد کا میزبان غزہ دہائی دے رہا ہے کہ: کیا دنیابھر میں پھیلے اربوں انسانوں میں سے کوئی بھی زہیر بن اُمیہ نہیں ہے؟
۹ مارچ ۲۰۰۷ء کو پاکستان میں شروع ہونے والے عدالتی انقلاب کے قائد چیف جسٹس افتخار محمد چودھری ہیں‘ جب کہ مصر میں اس انقلاب کے لیے مدتوں سے جدوجہد جاری ہے۔
۲۱ جون ۲۰۰۷ء کو مصر کے دو جج صاحبان نے اس پیرایے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ جسٹس محمود مکی کے بقول: ’’ہمیں جھکانے میں حکومت کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ بلاشبہہ ہمیں معاشی اعتبار سے قتل کیا گیا ہے‘ مگر ہمیں اس بات کی ذرہ برابر فکر نہیں ہے۔ جب تک لوگوں کے دلوں میں ہماری عزت موجود ہے‘ اس وقت تک ہمیں کسی بات کی پروا نہیں ہے‘‘۔ جسٹس ہشام بستاوسی بیان دیتے ہیں: ’’ہم پر چلائے جانے والے مقدمات کی کوئی اہمیت نہیں ہے‘ اصل اہمیت تو اس سوال کو حاصل ہے کہ: مصری عوام کو ایک خودمختار عدلیہ‘ شفاف انتخابات اور قانون کی حکمرانی کب نصیب ہوتی ہے؟ ہماری جدوجہد انھی سوالوں کا جواب حاصل کرنے کے لیے ہے‘‘___ مصر کے ججز کلب (judges club) کے ان اہم ارکان کے یہ جذبات ججوں کی تحریک کی پوری داستان بیان کردیتے ہیں جنھیں ۲۰۰۶ء میں برطرف کردیا گیا تھا۔
مصر میں بڑی اور چھوٹی عدالتوں کے جج حضرات نے ۱۹۳۹ء میں اپنی تنظیم ججز کلب کی رجسٹریشن کرائی تھی۔ پہلے پہل یہ تنظیم محض ایک رسمی سا ادارہ تھی‘ لیکن ۱۹۶۸ء میں ججزکلب نے آزاد عدلیہ کے ذریعے‘ شہری آزادیوں کے تحفظ کا مطالبہ کیا۔ درحقیقت مصری جج‘ جون ۱۹۶۷ء میں اسرائیل کے ہاتھوں مصر کی شکست سے پیدا شدہ سیاسی ‘ سماجی اور معاشی صورت حال سے سخت دل برداشتہ تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ انھیں خدشہ تھا کہ کہیں واحد حکمران پارٹی ’عرب سوشلسٹ یونین‘ میں پورا عدالتی نظام جذب ہوکر نہ رہ جائے۔ یہ پہلا موقع تھا جب صدر جمال عبدالناصر کی بدترین آمریت کے مقابلے میں اخوان کے علاوہ کسی دوسری قوت نے آواز بلند کی‘ جب کہ اخوان المسلمون کی صورت حال یہ تھی کہ حکمرانوں نے اگست ۱۹۶۶ء میں سید قطب کو پھانسی دے دی تھی۔ ہزاروں کارکن پابند سلاسل تھے اور ریاستی دہشت پورے ماحول پر مسلط تھی۔ ججوں کے اسی گروہ نے‘ ججوں کی یونین کا الیکشن بھی جیت لیا جس کے جواب میں ۱۹۶۹ء میں صدر ناصر نے ’عدلیہ کے قتل عام‘ کا راستہ منتخب کیا اور چھوٹی بڑی عدالتوں کے ۱۸۹ ججوں کو منصب عدل کی ذمہ داریوں سے برطرف کردیا۔ تاہم ستمبر ۱۹۷۰ء میں‘ ناصر کی موت کے بعد‘ ججوں کی تحریک کے نتیجے میں انورالسادات اور پھر حسنی مبارک نے عدالتی آزادیوں کو کسی حد تک بحال کیا۔
۱۹۸۶ء میں ججز کلب نے ’قومی کانفرنس براے عدل‘ منعقد کی، جس نے عدالتی عمل میں دُوررس اثرات کے حامل مطالبے پیش کیے۔ ۱۹۹۱ء میں ججزکلب نے عدالتی عمل کے لیے ایک جامع دستور منظور کیا‘ لیکن فعال قیادت کی عدم موجودگی کے باعث ’سفارشات و اصلاحات عدلیہ‘ کی تحریک کچھ عرصے کے لیے کمزور پڑ گئی۔ البتہ دسمبر ۲۰۰۴ء میں ایک نئے عزم کے ساتھ ججزکلب نے ۱۹۹۱ء کے عدالتی دستور میں دوٹوک انداز میں ترامیم کرکے‘ مطالبات کو واضح الفاظ میں بیان کیا تاکہ عدالتی عمل میں سے انتظامیہ کی مداخلت اور اتھارٹی کے دبائو سے نجات حاصل ہوسکے۔ ۲۰۰۴ء کے اس دستورِ عدل میں کہا گیا ہے:
دراصل جج حضرت اس نوعیت کے چارٹر کے ذریعے: عدالتی آزادی کو یقینی بنانے اور حکومت و ریاست کی بے جا مداخلتوں اور فیصلوں پر اثرانداز ہونے کے واقعات کا سدباب چاہتے ہیں۔ ججز کلب بنیادی طور پر نظریاتی فورم نہیں‘ بلکہ پیشہ ورانہ بنیادوں پر عدالتی اصلاح کے علَم برداروں کی تنظیم اور تحریک ہے۔ مصری آمر جمال ناصر کے پرستار صحافی عبدالحلیم قندیل نے لکھا تھا: ’’ججوں کے ’انقلاب‘ کا مطلب انتظامیہ کی موت ہوتا ہے‘‘۔ اس جملے میں شرارت کا ایک پہلو چھپا ہوا ہے۔ اس حوالے سے مصر کے دانش ور حلقوں میں یہ بات زیربحث آئی کہ: ’’اس تحریک کو ججوں کا انقلاب کہا جائے یا ججوں کی لہر۔ انقلاب ایک سخت لفظ ہے‘ لیکن لہر ذرا نرم لفظ ہے‘ اور لہر کے نتیجے میں سیاسی نظام کے تلپٹ ہونے کا تاثر نہیں ملتا‘‘۔ ویسے بھی ججوں کی یہ تحریک‘ حکومت کے متوازی کسی مقتدرہ کے قیام کی خواہش کا اظہار نہیں ہے‘ بلکہ ان کی اصلاحات کا محور آئینی اور قانونی اختیارات کے آزادانہ استعمال کا حق حاصل کرنا ہے‘ جسے مصری آمروں نے زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے۔
مصر کا دستور حکومت کو اس چیز کا پابند بناتا ہے کہ تمام انتخابات لازماً عدلیہ کی نگرانی میں ہوں لیکن ججزکلب نے اس شق کی بے حرمتی کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے: ’’پورے حلقۂ انتخاب میں بظاہر انتخابی عمل کا نگران ایک جج ہوتا ہے‘ لیکن انتخاب کے روز نیچے پورا عملہ حکومتی مشینری کا مقرر کیا ہوتا ہے‘ جس سے جو کام چاہے‘ لیا جاتا ہے۔ جب اور جہاں حکومت‘ پولیس یا مسلح فوجی دستے چاہتے ہیں‘ بے بس جج کو مفلوج بناکر من مانی کرتے اور نتائج کو تلپٹ کردیتے ہیں اور جج بے چارا صداے احتجاج بلند کرنے کے حق سے بھی محروم رہتا ہے‘ چہ جائیکہ وہ اس انتخاب کو منسوخ کرے کہ جس میں انتخاب نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی‘‘۔
ہشام بستاوسی اور محمود مکی‘ ججزکلب کے دو مرکزی قائدین ہیں‘ جنھیں عدلیہ کی آزادی کے لیے طویل جدوجہد کا اعزاز حاصل ہے۔ مصری حکومت ان کی بے باکی‘ حق گوئی اور پُرعزم بہادری سے خائف رہتی تھی۔ ان دونوں حضرات نے نومبر اور دسمبر ۲۰۰۵ء میں منعقد ہونے والے مصری پارلیمانی انتخابات کے انعقاد کے طریقے اور اعلان کردہ نتائج کو تنقید کا نشانہ بنایا‘ اور کہا: ’’حکومت نے قوم سے خیانت کی ہے‘ دھاندلی کا راستہ کشادہ کیا ہے‘ عوامی راے کو دفن کیا ہے‘ پولنگ اسٹیشن پر جانے والے لوگوں کو پولیس کے دستوں کے ذریعے روکا گیا ہے‘ اور سادہ کپڑوں میں ملبوس ایجنسیوں اور عسکری اداروں کے اہل کاروں نے مخالف راے دہندگان کو ڈرا دھمکا کر انتخاب سے دُور رکھا ہے۔ راے عامہ کے اس قتل عام کو انتخاب کہنا عوام کی توہین ہے‘‘۔
ان ججوں کے مذکورہ بیان پر حسنی مبارک حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر دیوانگی پر اتر آئی اور ۱۳ فروری ۲۰۰۶ء کو اس بیان کو ’ججوں کی سرکشی‘ (judges rebellion) سے موسوم کیا۔ اعلیٰ عدالتی کونسل نے انھیں عدالتی خدمات انجام دینے سے روک دیا۔ حق گو ججوں نے ’کورٹ آف اپیل‘ میں درخواست دائر کی‘ تاکہ وہ اپنا موقف وضاحت سے پیش کرسکیں۔
اب یہ ۲۷ اپریل ۲۰۰۶ء کا منظر ہے۔ قاہرہ کے وسط میں ہائی کورٹ کی عمارت ہے‘ جس کے قرب و جوار میں ججزکلب کا دفتر ہے۔ اس روز ججوں کے کیس کی سماعت تھی۔ لوگ اپنے محسن ججوں کے خلاف روا رکھے جانے والے ظالمانہ سلوک کے خلاف سراپا احتجاج تھے۔ رفتہ رفتہ ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اور ۱۰ہزار پولیس اہل کاروں نے احتجاج کرنے والوں کو گھیرے میں لے لیا۔ مظاہرین کی بڑی تعداد کو گرفتار کرتے ہوئے بے رحمی سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ یہیں پر ۸۰ ججوں نے درجنوں حامیوں کے ساتھ ہفتے بھر کے لیے احتجاجی دھرنا دینے کا اعلان کیا اور شاہراہ پر بیٹھ گئے۔ پولیس نے وحشیانہ انداز سے ان قانون دانوں پر چڑھائی کردی‘ یوں نظر پڑا جیسے حکومتی سیکورٹی عناصر کسی دشمن ملک کی فوج پر پل پڑے ہوں۔ حالانکہ وہ جج تو محض اپنے دو بھائیوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لیے آئے تھے‘ ان کے ہاتھ میں نہ پتھر تھے اور نہ ڈنڈے۔
حسنی مبارک حکومت‘ عدلیہ کی اس تنقید سے جھنجھلاہٹ کا شکار ہوگئی جس کے تحت وہ حکومتی طور طریقوں‘ حقوق کی پامالی اور بے ضابطگیوں کو زیربحث لاتے ہیں۔ وہ ملک جہاں ذرائع ابلاغ پر پابندیاں ہیں‘ حزبِ اختلاف کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے‘ انتخابات میں دھاندلی کو حکومتی حق قرار دے دیا گیا ہے اور مالی خیانت کو جدید مصری انتظامیہ کا استحقاق تسلیم کرایا جا رہا ہے‘ وہاں پر صرف ایک جگہ رہ جاتی ہے‘ اور وہ ہیں عدالت کے ایوان‘ جہاں پر بہادر جج وقتاًفوقتاً اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے فیصلے دیتے ہیں۔ ان کا یہی عمل حکومت کے اعصاب کو شل اور دماغ کو پاگل کیے دیتا ہے۔ دراصل مصر میں صرف عدلیہ ہی وہ ادارہ ہے‘ جس نے ۶۰کے عشرے میں کی جانے والی جدوجہد کے نتیجے میں کچھ نہ کچھ خودمختاری حاصل کرلی تھی‘ جس کا اظہار عدالتی کارروائی اور ججزکلب کی سرگرمیوں کی صورت میں سامنے آتا رہتا ہے۔
۲۱ جون ۲۰۰۷ء کو جوڈیشل کونسل نے ہر دو ججوں کے مقدمے کا فیصلہ سنایا‘ جس میں ہشام بستاوسی کے بارے میں چند سخت جملے لکھے اور محمود مکی کو بری کردیا گیا۔ اس کے بعد ججوں کی تحریک نے سڑکوں کے بجاے عدالت کی کرسی اور اخبارات کے اوراق کو اپنے موقف کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ مصر میں ججوں کی یہ تحریک بہرطور روشنی کی ایک کرن ہے۔ اخوان المسلمون کے جہاں دیدہ رہنما اور پُرعزم کارکن اس تحریک کے پہلو بہ پہلو کھڑے ہیں۔
اس تحریک کا آغاز ۱۹۶۸ء میں ہوا تھا‘ اور اب ۴۰ برس گزرنے کے باوجود ان میں کسی مایوسی کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔ ان ججوں نے کبھی سُست روی سے اور گاہے بہ گاہے برق رفتاری سے حق گوئی اورپُرعزم جدوجہد کا علَم بلند کیے رکھا ہے۔ جسے کچھ لوگ ’عدالتی بغاوت‘ بعض افراد ’عدالتی انتفاضہ‘ اور کچھ حضرات ’عدالتی جہاد‘ کہتے ہیں۔ نام جو بھی دیا جائے‘ بہرحال اس تحریک نے غلامی کے رزق پر عدل کی آزادی کو ترجیح دی ہے۔ ملازمت سے برطرفی‘ ڈنڈوں کی بوچھاڑ اور زخموں کی سوغات سے عدلیہ کی سربلندی اور قوم کی آزادی کا سورج طلوع ہونے کی امید باندھی ہے۔ اس تحریک میں مسلم دنیا پر مسلط موت کے سناٹے اور غلامی کے جال کو توڑنے کا پیغام موجود ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کس ملک کے جج غلامی کے رزق پر آزادی کی آزمایش کو خوشی خوشی قبول کرنے کا راستہ اختیار کرتے ہیں‘ اور ان خالی ہاتھ ججوں کے پشتی بان بننے کا اعزاز کن سیاسی و سماجی قوتوں کو حاصل ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں جاری عدلیہ کی بالادستی کی تحریک اور اس کے لیے سرگرم عناصر کے لیے مصر کے ججز کی ’عدالتی جہاد‘ کی یہ تحریک اُمید کی کرن اور روشنی کا پیغام ہے!
اسرائیل اور اس کے حواریوں کے لیے حماس کی نمایاں کامیابیوں کا صدمہ ایک ناسور بن چکا ہے۔ فلسطینی عوام کی واضح اکثریت کی منتخب حکومت کا تختہ اُلٹنے کے باوجود وہ حماس کے خوف سے نجات نہیں پاسکے۔ آئے روز کوئی نہ کوئی سازش تیار کی جارہی ہے۔ اب ایک قابلِ بقا و استمرار (sustainable state)فلسطینی ریاست کے قیام کے دعوے کے تحت نومبر ۲۰۰۷ء میں منعقد ہونے والی واشنگٹن کانفرنس___ حقیقت میں یہ ایک ایسا سراب ہے جو صدر بش نے فلسطینیوں‘ عربوں‘ مسلمانوں اور ساری دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے تیار کیا ہے۔ صدر بش نے بڑی ہوشیاری‘ چالاکی اور چال بازی کے ساتھ فلسطینی مسئلے کو حل کرنے کی سعودی تجویز‘ سابق وزیراعظم برطانیہ ٹونی بلیئر اور عالمی چار رکنی کمیٹی جو امریکا‘ یورپی یونین‘ روس اور اقوام متحدہ سے مل کر بنی ہے___ ان تینوں کو موت کی نیند سلانے کی نیت سے یہ سازش تیار کی ہے۔ اس کانفرنس کی ناکامی پہلے ہی سے معلوم ہے اور ہدف بھی یہی ہے‘ تاکہ ناکامی کا سارا الزام فلسطینیوں کے سرمنڈھ کر اسرائیل کو اپنے جارحانہ اور مجرمانہ منصوبوں کو پورا کرنے کا کھلا لائسنس دیا جاسکے۔
اس عالمی کانفرنس میں شام کو دعوت نامہ نہ بھیجنا بھی اس نیت کی حقیقت عیاں کرتا ہے کہ اس ناکام مگر امریکی‘ یورپین اور اسرائیلی نقطۂ نظر سے ’’کامیاب ___ بہت ہی کامیاب، عالمی پیمانے پر عالمی برادری کے معیار پر کامیاب‘‘ کانفرنس کو ناکام کرنے کی مسلسل کوششوں کا الزام شام پر بھی تھونپا جاسکے اور پھر اس پر حملہ آور ہونے کے لیے اسرائیل کو جواز فراہم کیا جائے۔ اس حملے کی تیاری کے لیے اسرائیلی ہوائی جہازوں نے شمال مشرقی شام میں دید الزور پر حملہ کر کے اپنی ریہرسل کرلی ہے اور اس میں وہ کامیاب ہونے کا دعویٰ بھی کرچکے ہیں۔ یقینا آگے بڑھ کر لبنان میں حزب اللہ‘فلسطین میں حماس‘ غزہ اور غزہ حماس اور آخرکار ایران اس کا اصل اور آخری ہدف ہوگا۔
اسرائیل اپنے جارحانہ اور توسیع پسندانہ عزائم کے بارے میں کوئی لچک نہیں رکھتا۔ وہ اپنے مبنی برظلم موقف کے بارے میں ٹس سے مس نہیں ہو رہا۔ بنیادی حساس موضوعات کو وہ چھیڑنا ہی نہیں چاہتا ہے اور فلسطینیوں سے وہی مطالبہ کر رہا ہے جو امریکا‘ برطانیہ اور یورپ اور اسرائیل نواز عالمی لابی بھی ہمیشہ سے دہراتی ہے ___ امن ‘ امن اور امن۔ صرف اسرائیل ہی کے لیے امن‘ اور ہلاکت‘ تباہی اور بدامنی اور قتل و غارت گری صرف اور صرف فلسطینیوں کے لیے۔
یہ عجیب و غریب اور ظالمانہ مساوات جو یہودی صہیونی ذہن کی خاص پیداوار ہے اور جسے یورپ اور بعد میں امریکا نے بحیثیت ملک و قوم اور نظامِ حیات اپنا لیا اور سینے سے لگالیا ہے‘ اس حد کو پہنچ چکا ہے کہ چار رکنی کمیٹی میں اقوامِ متحدہ کے نمایندے کو کہنا پڑا کہ اقوام متحدہ کو اس کمیٹی کی رکنیت سے مستعفی ہوجانا چاہیے‘ کیونکہ یہ کمیٹی فلسطین پر عائد کردہ اسرائیلی‘ امریکی‘ برطانوی‘ یورپی پابندیوں کو ختم کرانے میں ناکام رہی ہے(بی بی سی نیوز‘ ۱۵ اکتوبر ۲۰۰۷ء)۔ اقوامِ متحدہ جو امریکا‘ یورپ اور روس کے بعد باقی دنیا کی اس کمیٹی میں نمایندہ تھی‘ کے نمایندے کا یہ بیان اس امر کی کھلی دلیل ہے کہ یہ ایک ایسا یک طرفہ ڈراما ہے جس کے سارے کردار اسرائیل اور اسرائیلی ہی ہیں۔ اس میں کسی اور کی کوئی گنجایش نہیں۔
اللہ تعالیٰ اَسْرَعُ مَکْرًا ہے‘ یعنی اللہ اپنی چال چلنے میں سب سے تیز ہے۔ اس لیے اس نے اپنی قدرت‘ حکمت اور مصلحت سے غزہ کی پٹی میں حماس کو غالب کر کے اسرائیل‘ امریکا‘ برطانیہ‘ یورپ اور دیگر اسرائیلی ہم نوائوں کے سینے میں ایک زہریلا خنجر گھونپا ہے۔ سب ہی جانتے ہیں کہ جو حق‘ اہلِ حق کے لیے زندگی کا باعث ہوتا ہے‘ وہی حق‘ حق کے دشمنوں کے حق میں زہرہلاہل ہوتا ہے۔ شمال میں حزب اللہ اور جنوب مشرق میں حماس کے نرغے میں پھنسی ہوئی اسرائیلی ریاست‘ اور اس کے ساتھ یہ سب کے سب ظالم اورمجرم ملک اور قومیں درحقیقت اپنی اپنی موت کی تیاریوں میں لگی ہوئی ہیں کیونکہ اہلِ حق کو ختم کرنے کے زعم میں ان شاء اللہ ایک روز یہ خود صفحۂ ہستی سے مٹ جائیں گی۔ عاد و ثمود‘ فرعون و ہامان اس کی زندہ مثالیں ہیں۔
گذشتہ برس حزب اللہ کے کمزور اور ناتواں ہاتھوں سے اسرائیل‘ امریکا‘ برطانیہ وغیرہ کی شرمناک شکست اللہ تعالیٰ کی چالوں کی ایک کڑی تھی۔ اب یہ ظالم قومیں اپنے پیروں سے خود چل کر واشنگٹن کے اندھے کنوئیں میں اپنی مرضی سے چھلانگ لگا رہی ہیں۔ یہ قوموں کی اجتماعی خودکشی ہے جو عذابِ خداوندی کی بہترین مثال ہے۔
یہ صرف اور صرف کُنْ فَیَکُوْنُ کا کھیل ہے اور کچھ نہیں۔ وَّمَا ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ بِعَزِیْزٍ (ابراھیم ۱۴:۲۰) ’’ایسا کرنا اللہ کے لیے کچھ بھی دشوار نہیں ہے‘‘۔
ابھی کعبے کے سایے میں طے پانے والے ’معاہدۂ مکہ‘ کی سیاہی بھی خشک نہ ہونے پائی تھی کہ اس کی دھجیاں اڑا دی گئیں۔ ۱۹۴۸ء میں آدھے سے زائد فلسطین کو اسرائیل قرار دے دیے جانے اور ۱۹۶۷ء میں پورے فلسطین‘وادیِ سینا اور جولان کی پہاڑیوں پر قابض ہوتے ہوئے عرب افواج کو شکست فاش دینے کے علاوہ بھی فلسطینی قوم کو بہت بڑے بڑے صدمے‘ سانحے اور قیامتیں دیکھنا پڑی ہیں لیکن حالیہ سانحہ ۱۹۴۸ء اور ۱۹۶۷ء کے بعد سب سے تکلیف دہ گھائو ہے۔ دشمن کے وار سہنا اور اس کی طرف سے ظلم‘ زیادتی اور سازشوں کی توقع رکھنا تو سمجھ میں آتا ہے کہ درندے درندگی نہ دکھائیں تو اور کیا کریں، لیکن ’اپنے‘ بھی ان کی صف میں جاکھڑے ہوں تو صدمہ و اذیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔
۲۵ جنوری ۲۰۰۶ء کو بھاری اکثریت سے جیتنے کے باوجود حماس نے حیرت انگیز اصرار کیا کہ تنہا ہم حکومت نہیں بنائیں گے۔ انتخاب میں ہمارے مقابل شکست کھانے والی الفتح بھی آئے‘ ہم سب کے ساتھ مل کر قومی حکومت تشکیل دینا چاہتے ہیں۔ الفتح سے پہلے امریکا اور اسرائیل کی طرف سے جواب آیا: خبردارکسی صورت حماس سے اشتراک نہ کیا جائے‘ ہم ایسی کسی حکومت کو تسلیم نہیں کریں گے۔ انتخاب کے بعد حکومت سازی کے لیے دی گئی مدت ختم ہونے لگی تو حماس نے مجبوراً تنہا حکومت بنانے کا اعلان کردیا۔ الفتح کے سابق وزرا نے نئی تشکیل شدہ حکومت سے ’بھرپور تعاون‘ کیا، اور وہ یوں کہ دفاتر چھوڑتے ہوئے وہاں سے سارا فرنیچر‘ اسٹیشنری کا سامان‘ گاڑیاں حتیٰ کہ چائے کے برتن تک اپنے ساتھ لے گئے۔ ساتھ ہی امریکا‘ یورپ اور اسرائیل نے ہر طرح کی مالی امداد بند کردی۔ اسرائیل اپنے مقبوضہ علاقوں میں فلسطینی سامان رسد پر ماہانہ ۵۵ملین ڈالر کے ٹیکس جمع کرتا ہے جو اس کے پاس فلسطینی اتھارٹی کی امانت قرار دی گئی ہے‘ اس نے وہ بھی اداکرنے سے انکار کردیا۔ حکومت کے پاس کسی چپڑاسی تک کو تنخواہ دینے کے لیے کچھ نہ تھا۔ اس سارے کھیل کا اصل ہدف یہ تھا کہ فلسطینی عوام‘ حماس کو اپنے سارے دکھوں کا سبب قرار دیتے ہوئے بھوکے مریں گے تو ازخود بغاوت کردیں گے‘ حماس کی ناکامی درودیوار پر ثبت ہوجائے گی‘ لیکن صہیونی لومڑی دن رات ناچتے رہنے کے باوجود ’کھٹے انگوروں‘ تک نہ پہنچ سکی۔ فلسطینی عوام نے پہلے سے بھی بڑھ کر حماس پر اعتماد کیا۔ حماس کے وزیراعظم سمیت تمام ذمہ داروں نے بھی اپنا چولھا بجھا کر اپنے عوام کی خدمت کا بیڑا اُٹھا لیا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب بلدیہ کے جمعداروں کو بھی تنخواہ دینا ممکن نہ رہا تھا تب وزیراعظم خود ان کے ساتھ مل کر غزہ کی سڑکوں پر صفائی کرنے کے لیے اُتر آیا۔
عین انھی لمحات میں امریکا نے صدر محمود عباس (ابومازن) کی ذاتی حفاظت کے لیے آٹھ کروڑ ۶۰ لاکھ (۸۶ ملین) ڈالر کی امداد فراہم کی۔ صدر کے مشیرخاص اور خود الفتح کی صفوں میں بھی بدنام اورمتنازع ترین شخصیت محمد دحلان کو اسلحے اور سرمایے کے ڈھیر فراہم کرنا شروع کردیے گئے تاکہ فلسطینی حکومت کی تابع سیکورٹی فورسز کے مقابل صدارتی فوج تیار کی جائے۔ تقریباً ۳۳ہزار افراد پرمشتمل متوازی سیکورٹی کھڑی کردی گئی‘ حماس کے ذمہ داران کے علاوہ ان کی حمایت کرنے والے عوام کے خلاف بھی کارروائیاں شروع کردی گئیں اور بالآخر فلسطینی صہیونی کے بجاے الفتح حماس جھڑپیں ہونے لگیں۔ اس موقع پر مختلف اطراف و اکناف سے مصالحت کی کوششیں ہوئیں اور گذشتہ مارچ میں طرفین نے سعودی فرماںروا شاہ عبداللہ کی دعوت پر مکہ آکر مذاکرات کیے‘ جن کے نتیجے میں ایک سال سے زائد عرصے کے بعد حماس کی یہ خواہش پوری ہوئی کہ فلسطین میں متفق علیہ قومی حکومت تشکیل دی جائے۔ حماس نے اس ضمن میں کئی کڑوے گھونٹ پیے‘ واضح اکثریت رکھنے کے باوجود خزانہ‘ خارجہ اور داخلہ سمیت کئی اہم وزارتوں سے دست برداری قبول کرلی اور حکومت میں امریکا کے منظورنظر کئی نام بھی قبول کرلیے جیسے خزانہ کے لیے سلام فیاض۔
معاہدۂ مکہ اور قومی حکومت کی تشکیل فلسطینی تاریخ میں ایک اہم موڑ ثابت ہوسکتا تھا لیکن بدقسمتی سے دحلان گروپ نے اس پر ایک روز کے لیے بھی عمل درآمد نہیں ہونے دیا۔ وزیرداخلہ (جس کا تعلق حماس سے نہیں تھا) نے وزارت سنبھالنے کے چند ہفتے بعد ہی استعفا دے دیا کہ فلسطینی پولیس کی کوئی حیثیت نہیں ہے‘ دحلان سیکورٹی فورس ہرطرف غالب ہے اور خود کو ہرحکومت سے بالاتر سمجھتی ہے۔ حماس کے مختلف مراکز‘ اس کی سرپرستی میں چلنے والے رفاہی اداروں‘ اسکولوں اور یتیم خانوں پر ہلے بولے جانے لگے اور عملاً خانہ جنگی کی شروعات کردی گئیں۔ عین انھی دنوں میں مصری اور اُردنی سرحدوں سے صدر کی حفاظت کے نام پر جدید اسلحے کی بڑی کھیپ محمود عباس اور ان کے مشیر سیکورٹی دحلان کو پہنچائی گئی۔ یہ سیکورٹی فورس مسجدوں اور تعلیمی اداروں میں گھس گھس کر حماس کی قیادت کو نشانہ بنانے لگی۔ صہیونی حکومت نے بھی ۶۰ افراد پر مشتمل مطلوبہ افراد کی ایک ہٹ لسٹ جاری کردی جس میں وزیراعظم اسماعیل ھنیہ اور حماس کے سیاسی امور کے سربراہ خالدالمشعل سمیت تمام سرکردہ قائدین کے نام شامل تھے۔ پھر گلیوں اور بازاروں میں باقاعدہ لڑائیاں ہونے لگیں۔ الفتح کے نام پر دحلان سیکورٹی اور حماس کے افراد باقاعدہ مورچہ بند ہوکر لڑنے لگے۔ حماس نے اس موقع پر بھی حالات کا رخ موڑنے کی ایک اور کوشش کی۔ اس نے مقابل فلسطینی دھڑے کے حملے تو روکے‘ لیکن خود اپنے حملوں کا رخ اسرائیلی یہودی بستیوں کی طرف موڑ دیا۔ ان پر خودساختہ راکٹوں کے سیکڑوں حملے کیے اور فلسطینی عوام کو یاد دلایا کہ ہمارا اصل دشمن کون ہے؟
یہ ایک سانحہ ہے کہ الفتح کے دحلان دھڑے نے صدر محمود عباس کی سرپرستی میں حماس کے پائوں تلے سے بساط کھینچنے کی کوششیں عروج پر پہنچا دیں اور وزیراعظم کے دفتر پر بھی ہلہ بول دیا گیا۔ اس موقع پر حماس کے مسلح بازو نے بھی دحلان سیکورٹی سے نجات کا آپریشن شروع کردیا اور حیرت انگیز طور پر ۴۸ گھنٹے کے اندر اندر ان کے اہم ترین جاسوسی قلعے سمیت ان کے تمام مراکز پر مکمل کنٹرول حاصل کرلیا۔ حماس کے اس آپریشن کے بارے میں خود الفتح کے دحلان مخالف دھڑے اور دیگر فلسطینی تنظیموں کے ذمہ داران نے بیانات دیے ہیں کہ اگر حماس یہ کارروائی نہ کرتی تو الفتح غزہ پر ایک مہیب خانہ جنگی مسلط کردیتی۔ غزہ میں موجود الفتح کے اعلیٰ عہدے دار احمد حلس نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا: اس ساری خوں ریزی اور حماس سے الفتح کی شکست کی ذمہ داری محمود عباس اور دحلان کے سرعائد ہوتی ہے۔ انھوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ دحلان پر انقلابی عدالت میں بغاوت کا مقدمہ چلایا جائے اور محمود عباس جیسے کمزور صدر کو جس کے اعصاب پر دحلان سوار تھا‘ ہٹا کر الفتح کے گرفتار لیڈر مروان البرغوثی کو اپنا سربراہ بنایا جائے۔
حماس کی یہ کارروائی اور الفتح کی سیکورٹی فورسز کا غزہ سے انخلا ۱۴ جون کو ہوا۔ اسی شام محمودعباس کے ساتھیوں کی طرف سے بیان آگیا کہ یہ کارروائی حماس کی طرف سے کھلی بغاوت ہے‘ اس کی حکومت فوراً ختم کی جائے اور جلد دوبارہ انتخاب کروائے جائیں۔ کچھ ہی دیر بعد محمودعباس کا فرمان جاری ہوا کہ ھنیہ حکومت ختم کردی گئی ہے‘ جلد ایمرجنسی حکومت قائم کی جائے گی اور پھر ۱۵ جون کو وزیرخزانہ سلام فیاض سے وزیراعظم کا حلف پڑھوا کر ہنگامی حکومت قائم کردی گئی۔
اس موقع پر ایک انوکھی لیکن پوری طرح سمجھ میں آنے والی پیش رفت یہ ہوئی کہ اس عبوری حکومت کو سب سے پہلی مبارک باد اسرائیلی وزیراعظم ایہود اولمرٹ اور امریکی صدر جارج واکر بش کی طرف سے موصول ہوئی۔ فوراً ہی ان اعلانات کا تانتا بندھ گیا کہ محمود عباس اور ہنگامی حکومت کو مالی امداد دی جائے گی‘ ان پر سے تمام پابندیاں اٹھا لی جائیں گی‘ غزہ پر مزید پابندیاں عائد کی جائیں گی۔ تیل‘ بجلی اور غذائی سامان بھی نہیں جانے دیا جائے گا۔ ساتھ ہی اسرائیلی ٹینکوں نے غزہ کے گردونواح میں گھیرا ڈالنا شروع کردیا ہے اور چھے فلسطینی نوجوان شہید کردیے ہیں۔
اب مقبوضہ فلسطین دوہری آگ میں جل رہا ہے۔ ایک طرف صہیونی تسلط اور مظالم اور دوسری طرف خود فلسطینی عوام کی دو علیحدہ علیحدہ حکومتیں۔ غزہ میں اسماعیل ھنیہ نے اعلان کیا ہے کہ ہم کسی سے انتقام نہیں لیں گے‘ الفتح کے جو کارکنان و ذمہ داران یہاں رہنا چاہیں‘ رہیں یہ ان کا گھر ہے اور جو مغربی کنارے جانا چاہیں ان پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ لیکن دوسری جانب مغربی کنارے میں حماس سے تعلق رکھنے والوں کو چن چن کر پکڑا جارہا ہے۔ کئی ماہ سے اسرائیلی جیلوں میں پڑے فلسطینی منتخب اسپیکر عبدالعزیز الدویک کا گھر نذرِآتش کردیا گیا ہے۔ایک بحث ھنیہ کی منتخب حکومت کے مقابلے میں بنائی جانے والی ہنگامی حکومت کی دستوری حیثیت کی بھی ہے‘ کیونکہ فلسطینی دستور کے مطابق اگر صدر کو ہنگامی حکومت بنانا بھی پڑے تو اسے ۳۰دن کے اندر اندر پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا ہوتا ہے‘ اور حماس کی اکثریت کے باعث پارلیمنٹ کو یہ زحمت نہیں دی جارہی۔ پارلیمنٹ کی منظوری سے بھی ایسی حکومت صرف۳۰ روز کے لیے ہی بنائی جاسکتی ہے۔ اور اگر پارلیمنٹ توثیق کرے تو مزید ۳۰دن کے لیے اس کی عمر بڑھائی جاسکتی ہے۔ لیکن اس بحث سے قطع نظر‘ اصل سوال یہ ہے کہ کیا ۲۰لاکھ آبادی پر مشتمل مغربی کنارے اور پندرہ لاکھ کی آبادی پر مشتمل غزہ کی پٹی کو دو الگ الگ کنٹونمنٹس میں تقسیم و مقید کیا جاسکتا ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ عوام کو عوام سے اس طور لڑا دیا جائے کہ لاکھوں لوگ اپنے لاکھوں بھائیوں کو بھوک اور ہلاکت کی نذر ہونے دیں اور امداد کے وعدوں اور تسلیم کرلیے جانے کی صحرا نوردی کو اپنی گم شدہ جنت قرار دے لیں۔ اس سوال کا جواب غزہ سے واپس آنے والے مصری وفد میں شامل ایک اعلیٰ سیکورٹی افسر نے اپنا نام خفیہ رکھے جانے کے وعدے پر مصری اخبار ’المصری الیوم‘ کو دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ لڑائی فلسطینیوں کی فلسطینیوں سے نہیں بلکہ ۷۰ فی صد فلسطینی عوام کی دحلان سے ہے۔فلسطینی عوام کی بھاری اکثریت دحلان اور اس کے ساتھیوں سے نجات چاہتی ہے۔
دوسری طرف غزہ کے لاکھوں لوگ ایک اور معمے پر حیرت زدہ ہیں اور وہ یہ کہ غزہ کی فضائوں میں مسلسل ۲۴ گھنٹے بغیر پائلٹ کے جاسوسی صہیونی طیارے محوپرواز رہتے تھے۔ بعض اتنے قریب ہوتے تھے کہ فضا میں ہر وقت ان کی آواز سنائی دیتی رہتی تھی۔ جب سے غزہ سے الفتح کا انخلا ہوا ہے یہ جاسوسی طیارے غائب ہوگئے ہیں۔ ۱۸جون کو معروف عربی اخبار الحیاہ میں فکری عابدین نے ایک مضمون میں اسرائیلی جاسوسی ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ غزہ سے الفتح کے جاسوسی مراکز سے معلومات کا بے حد قیمتی خزانہ ہاتھ لگا ہے۔ اس میں صرف حساس معلومات ہی نہیں‘ جدید ترین آلات اور حساس اسلحے کی بڑی مقدار بھی ان کے ہاتھ چلی گئی ہے۔ حماس حکومت کے وزیرخارجہ محمود الزھار نے‘ جنھیں اصرار کرکے متفق علیہ قومی حکومت سے باہر رکھا گیا‘ اپنے ایک انٹرویو میں ۱۴ جون کے بعد غزہ کی صورت حال کے بارے میں کہا ہے کہ غزہ کے عوام کو ۱۴ سال بعد سکھ کا سانس لینے کا موقع ملا ہے۔ اب انھیں کسی سیکورٹی فورس کی دہشت گردی کا خطرہ اور خوف لاحق نہیں ہے۔
فلسطینی سیکورٹی فورسز کی حد تک تو شاید یہ درست ہو لیکن اب ایک بڑا خطرہ اور خدشہ یہ ہے کہ حماس سے نجات پانے کے لیے اسرائیلی افواج غزہ پر خوفناک چڑھائی کردے۔ بن گوریون یونی ورسٹی کے پروفیسر ڈرور زئیفی نے اس موقع کو اسرائیل کے لیے ایک سنہری موقع قرار دیتے ہوئے ۱۸جون کو اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ’’ہم اگر کسی اعلیٰ پایے کی لیبارٹری میں بھی کوئی ایسا فارمولا تیار کرنے کی کوشش کرتے تو ناکام رہتے۔ اب حالات نے خود یہ فارمولا فراہم کردیا ہے کہ ہمارے سامنے دو فلسطینی دھڑے واضح تقسیم میں بٹے ہوئے ہیں جو جغرافیائی لحاظ سے بھی ایک دوسرے سے دُور ہیں۔ ہمیں کسی صورت یہ سنہری موقع ضائع نہیں کرنا چاہیے‘‘۔ ۱۸جون ہی کو عبرانی روزنامے ھآرٹز نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ ’’محمود عباس کے اس دلیرانہ اقدام سے ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے اور اسرائیل کو اس سے بھرپور استفادہ کرنا ہے‘‘۔ لیکن اسی روز کے روزنامہ معاریف میں اسرائیلی فوجی انٹیلی جنس کے سابق سربراہ شلومو گازیٹ کی راے اس سے بالکل مختلف ہے۔ اس کے بقول: ’’الفتح اور ابومازن اب تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ بن چکے ہیں اور ہمیں کسی ایسی فلسطینی قیادت یا تحریک پر بھروسا نہیں کرنا چاہیے جسے مستقبل بہت پیچھے چھوڑ آیا ہے‘‘۔ اس کا مزید کہنا ہے کہ: ’’اسرائیل نے پہلے بھی تباہ کن غلطی کی تھی کہ فلسطینی عوام کو فوجی اور اقتصادی دبائو کی نذر کیا۔ اب اگر ہم نے دوبارہ یہ غلطی دہرائی تو اس کے علاوہ کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا کہ فلسطینی عوام حماس کی جانب مزید یکسوئی سے لپکیں گے۔ ہمیں خود کو اس وہم کا شکار نہیں کرنا چاہیے کہ ہم گھڑی کی سوئیاں ۴۰ سال پیچھے گھما سکتے ہیں‘‘۔
ان دونوں متضاد آرا پر مشتمل دسیوں تحریریں عبرانی صحافت اور ذرائع ابلاغ میں بکھری ہوئی ہیں لیکن ایک بات پر تقریباً سب اسرائیلی تجزیہ نگاروں کا اتفاق ہے کہ اسرائیل کو اب اپنے پڑوسی عرب ممالک کی پہلے سے بھی زیادہ ضرورت ہے‘ خاص طور پر اُردن اور مصر کی۔ اس بحران کے فوراً بعد عرب لیگ کے وزراے خارجہ کا ہنگامی اجلاس بلایا گیا جس کے اختتام پر فریقین سے تحمل اختیار کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا گیا کہ عرب لیگ دونوں میں سے کسی کی طرف داری نہیں کرے گی ساتھ ہی مصر‘ اُردن‘ سعودی عرب‘ تیونس اورعرب لیگ سیکرٹریٹ پر مشتمل ایک پانچ رکنی کمیٹی بنائی گئی ہے کہ وہ ایک ماہ کے اندر اندر اپنی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرے۔ حماس نے اس وفد کا خیرمقدم کیا ہے لیکن غیر جانب داری کا اعلان کرنے کے باوجود مصر نے سب سے پہلے غزہ میں قائم اپنا سفارت خانہ مغربی کنارے منتقل کرنے کا اعلان کردیا ہے۔
ان تمام بیانات اور اقدامات کاتجزیہ اپنی جگہ بہت اہم ہے لیکن گذشتہ ۵۹سالہ صہیونی دہشت گردی‘ جہاد کو کچلنے کی کوششوں اور فلسطینی قوم میں سے کچھ غداروں کے ان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہونے کے باوجود ہم برسرِزمین عملی نتیجہ کیا دیکھتے ہیں؟ کیا یہی نہیں کہ فلسطینی جہاد اور اس کی سرخیل تحریک حماس اب پہلے سے کہیں زیادہ توانا‘ کہیں زیادہ فعال اور کہیں زیادہ مؤثر ہے۔ کیا ربانی ہستی شیخ احمد یاسین کی یہ پیش گوئی تکمیل کی جانب بڑھ رہی ہے کہ ۲۱ویں صدی کی پہلی چوتھائی میں ہماراجہادی سفر نصرت الٰہی کی منزل پالے گا۔