مضامین کی فہرست


دسمبر ۲۰۱۰

بسم اللہ الرحمن الرحیم

پاکستان کی داخلی سیاست میں ہر تھوڑے عرصے کے بعد، خصوصاً ایسے مواقع پر جب ملک کو سخت معاشی بحران اور سیاسی انتشار کا سامنا ہو، بعض ایسے معاملات کو جو غیرمتنازع اور اُمت کے اندر اجماع کی حیثیت رکھتے ہوں ،نئے سرے سے کھڑا کر دیا جاتا ہے تاکہ عوام کی توجہ کو معاشی اور سیاسی مسائل سے ہٹا کر ان معاملات میں اُلجھا دیا جائے اور غیرمتنازع امور کو متنازعہ بنا دیاجائے۔ اس سلسلے میں الیکٹرونک میڈیا باہمی مسابقت اور بعض دیگر وجوہ سے مسئلے کو اُلجھانے میں اور ان سوالات کو اُٹھانے میں سرگرم ہوجاتا ہے جو نام نہاد حقوق انسانی کے علَم بردار اور سیکولر لابی کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔

ان موضوعات میں ایک قانونِ ناموس رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس میں  سیکولر لابی اور بیرونی امداد کے سہارے چلنے والی این جی اوز اور انسانی حقوق کے نام پر کام کرنے والے بعض ادارے نہ صرف خصوصی دل چسپی لیتے ہیں بلکہ منظم انداز میں سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے ملک کو تصادم کی طرف دھکیلنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔

آج کل ایک مسیحی خاتون آسیہ بی بی کے حوالے سے ملکی صحافت اور ٹی وی چینل عوام الناس کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مروجہ قانون ایک انسانی قانون ہے۔ یہ کوئی الٰہی قانون نہیں ہے، اس لیے اسے تبدیل کرکے شاتمِ رسولؐ کے لیے جو سزا قانون میں موجود ہے، اسے ایسا بنادیا جائے جو ’مہذب دنیا‘ کے لیے قابلِ قبول ہوجائے (حالانکہ اس ’مہذب دنیا‘کے ہاتھوں دنیا کے گوشے گوشے میں معصوم انسانوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے، اسی ’مہذب دنیا‘ نے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر پوری دنیا میں دہشت گردی کا بازار گرم کررکھا ہے   جس سے لاکھوں افراد لقمۂ اجل بن چکے ہیں اور اب بھی ہزاروں کو محض شبہے کی بنیاد پر گولیوں اور میزائل کا نشانہ بنایا جارہا ہے)۔ واضح رہے کہ موصوفہ کا معاملہ ابھی عدالت ِ عالیہ میں زیرسماعت ہے اور عوام کو گمراہ کرنے کے لیے ایک طوفان برپا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

گورنر پنجاب نے بھی اپنے اخباری بیان میں اسی بات پر زور دیا کہ یہ ایک انسان کا بنایا ہوا قانون (بلکہ العیاذ باللہ ان کے الفاظ میں: ’کالا قانون‘) ہے اور اسے تبدیل کیا جانا چاہیے۔ وہ اپنے منصب کے دستوری تقاضوں کو پامال کرتے ہوئے جیل میں پہنچ گئے اور ملزمہ کے ساتھ ایک پریس کانفرنس تک منعقد کرڈالی جو ملک میں نافذ دستور اور نظامِ قانون کی دھجیاں بکھیرنے کے مترادف تھی۔ ہم چاہیں گے کہ اس موضوع پر انتہائی اختصار کے ساتھ معاملے کے چند بنیادی پہلوئوں کی طرف صرف نکات کی شکل میں اشارتاً کچھ عرض کریں۔

مسئلے کا سب سے اہم اور بنیادی پہلو وہی ہے جسے ایک صوبائی گورنر نے متنازعہ بنانا چاہا ہے، یعنی شاتمِ رسولؐ کی سزا کیا انسانوں کی طے کی ہوئی شے ہے، یا یہ اللہ کا حکم ہے جس کی بنیاد قرآن و سنت کی واضح ہدایات اور نصوص ہیں، نیز کیا یہ حکم اسلام کے ساتھ خاص ہے یا یہ الٰہی قانون تمام مذاہب اور تہذیبوں کی مشترک میراث ہے۔ مناسب ہوگاکہ قرآن کریم یا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آنے سے قبل یہ دیکھ لیا جائے کہ کیا قبلِ اسلام اس نوعیت کا کوئی الہامی یا الٰہی حکم پایا جاتا تھا یا نہیں۔

یھودیت اور عیسائیت میں

یہودی اور عیسائی مذہب کی مقدس کتابوں عہدنامہ قدیم اور عہدنامہ جدید پر نظر ڈالی جائے تو عہدنامہ قدیم میں واضح طور پر یہ الفاظ ملتے ہیں:

you shall not revile God (Exodus 22: 28)

اس کا مفہوم یہ ہوگا: ’’تو خدا کو نہ کوسنا‘‘ اور بُرا بھلا نہ کہنا‘‘ (ملاحظہ ہو، کتاب مقدس پرانا اور نیا عہدنامہ، لاہور ۱۹۹۳ئ، بائبل سوسائٹی، ص ۷۵)۔ عہدنامہ قدیم میں آگے چل کر مزید وضاحت اور متعین الفاظ کے ساتھ یہ بات کہی گئی: اور جو خداوند کے نام پر کفر بکے ضرور جان سے مارا جائے۔ ساری جماعت اسے قطعی سنگسار کرے خواہ وہ دیسی ہو یا پردیسی جب وہ پاک نام پر کفر بکے تو وہ ضرور جان سے  مارا جائے۔ (ایضاً احبار، باب ۲۴:۱۵-۱۷، ص ۱۱۸)

انگریزی متن کے الفاظ بھی غور سے دیکھنے کی ضرورت ہے:

And he that blasphemeth the name of the Lord, he shall surely be put to death, and all the congregation shall certainly stone him: as well as the stranger, as he that is born in the Land, when he blashphemeth the name of the Lord, shall be put to death. (Leveticm 24: 11-16).

میثاقِ جدید کے یہ الفاظ بھی قابلِ غور ہیں:

Wherefore I say unto you, all manner of sin and blasphemy shall be forgiven unto men: but to blasphemy against the Holy Christ, shall not be forgiven unto men. (Mathen 12:31)

اس کا مفہوم یہ ہوگا: ’’اس لیے میں تم سے کہتا ہوں کہ آدمیوں کا ہر گناہ اور کفر تو معاف کیا جائے گا مگر جو کفر روحِ مقدس کے بارے میں ہو، وہ معاف نہ کیا جائے گا‘‘ (متی باب ۱۲: ۳۱، کتاب مقدس، مطبوعہ بائبل سوسائٹی، انارکلی لاہور،۱۹۹۳ئ، میثاقِ جدید،ص ۱۵)

قرآن و سنت کی رو سے

اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جو شخص بغاوت (treason) کرتا ہے، قرآن کریم نے اس کی سزا کو واضح الفاظ میں بیان کیا ہے چنانچہ فرمایا گیا:

اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَ یَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّلُوْٓا اَوْ یُصَلَّبُوْٓا اَوْ تُقَطَّعَ اَیْدِیْھِمْ وَ اَرْجُلُھُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ ط ذٰلِکَ لَھُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنْیَا وَلَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ o (المائدہ ۵:۳۳)جو لوگ اللہ سے اور اس کے رسولؐ سے لڑتے ہیں اور زمین میں اس لیے تگ و دو کرتے پھرتے ہیں کہ فساد برپا کریں ان کی سزا یہ ہے کہ قتل کیے جائیں، یا سولی پر چڑھائے جائیں، یا ان کے ہاتھ پائوں مخالف سمتوں سے کاٹ ڈالے جائیں، یا وہ جلاوطن کردیے جائیں۔

سورۂ مجادلہ میں بھی اس طرف اشارہ کیا گیا، چنانچہ فرمایا:

اِِنَّ الَّذِیْنَ یُحَآدُّوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ کُبِتُوْا کَمَا کُبِتَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ وَقَدْ اَنْزَلْنَآ اٰیٰتٍم بَیِّنٰتٍ ط وَلِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ o (المجادلہ ۵۸:۵) جو لوگ اللہ اور اس کے رسولؐ کی مخالفت کرتے ہیں وہ ذلیل کیے جائیں گے جس طرح ان سے پہلے لوگ ذلیل کیے گئے تھے اور ہم نے صاف اور کھلی آیتیں نازل کر دی ہیں جو نہیں مانتے ان کو ذلت کا عذاب ہوگا۔

گویا الٰہی قانون میں توہینِ رسالت (blasphemy )کی سزا بنی اسرائیل کے لیے، عیسائی مذہب کے پیروکاروں کے لیے، اور اُمت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یکساں طور پر مجرم کا قتل کیا جانا ہے۔

ایک لمحے کے لیے اس پہلو پر بھی غور کرلینا مفید ہوگا کہ کیا ایسی سزا کا نفاذ ایک ایسی ہستیؐ کے مزاج، طبیعت اور شخصیت سے مناسبت رکھتا ہے جسے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے تمام عالَموں کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہو، جو خون کے پیاسوں کو قبائیں دینے کا حوصلہ رکھتا ہو، جو اپنے چچاؓ کے قاتلوں کو بھی معاف کردینے کا دل گردہ رکھتا ہو۔ بات بڑی آسان سی ہے۔ سیرتِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے تابناک ابواب میں سے فتح مکہ کے باب کا مطالعہ کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے ہرممکنہ ظلم مکّی دور میں آپؐ پر کیا، حضرت یوسف ؑ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے آپؐ نے ان سب کو معاف کر دیا، لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ___ لیکن بات یہاں رُک نہیں گئی ___ اس عظیم معافی کے باوجود وہ چار افراد جو ارتداد اور توہینِ رسالتؐ کے مرتکب ہوئے پیش کیے گئے تو ان کے قتل کا فیصلہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا اور ان تین مردوں اور ایک خاتون کو موت کی سزا دی گئی۔ ان میں سے خاتون قریبہ جو ابن اخلی کی لونڈی تھی مکہ کی مغنیہ تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی اور ہجو پر مبنی گیت اس کا وتیرہ تھے۔ (ملاحظہ ہو: بخاری، فتح مکہ اور شبلی نعمانی کی سیرت النبیؐ، جلد اوّل، اعظم گڑھ، مطبع معارف، ۱۹۴۶ئ، ص ۵۲۵)

یہ محض ایک واقعے سے استدلال نہیں، نبی اکرمؐ کے ایک قانونی فیصلے کا معاملہ ہے جو اُمت کے لیے ہمیشہ کے لیے حجت ہے۔

قرآن و سنتِ رسولؐ کے ان نصوص کے بعد قرآن اور حدیث کو سند اور حجت ماننے والا کوئی شخص کس طرح یہ کہہ سکتا ہے کہ شاتمِ رسولؐ کی سزا قتل کے علاوہ کچھ اور ہوسکتی ہے۔ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس پر اُمت مسلمہ کا اجماع ہے۔ چنانچہ وہ اہلِ سنت ہوں یا اہلِ تشیع، ۱۵ سو سال میں اس مسئلے پر کسی کا اختلاف نہیں پایا جاتا۔ اس سلسلے میں فقہاے اُمت میں علامہ ابن تیمیہ کی الصارم المسلول علی شاتم الرسولؐ، تقی الدین سبکی کی السیف المسلول علی من سب الرسولؐ، ابن عابدین شامی کی تنبیہ الولاۃ والحکام علی احکام شاتم خیرالانامؐ ان چند معروف کتب میں سے ہیں جو اس اجماعِ اُمت کو محکم دلائل اور شواہد کے ساتھ ثابت کرتی ہیں۔

پاکستان کے تناظر میں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ سیکولر لابی عموماً اس معاملے میں     اپنا نزلہ مولویوں پر ہی گراتی ہے کہ یہ ان کا پیدا کردہ مسئلہ ہے ورنہ جو لوگ روشن خیال، وسیع القلب اور تعلیم یافتہ شمار کیے جاتے ہیں، وہ اس قسم کے معاملات میں نہ دل چسپی رکھتے ہیں اور نہ ایسے مسائل کی توثیق کرتے ہیں۔ مناسب ہوگا کہ اس حوالے سے صرف دو ایسی شخصیات کا تذکرہ کردیا جائے جنھیں سیکولر لابی کی نگاہ میں بھی ’روشن خیال‘، ’وسیع القلب‘ اور’ تعلیم یافتہ‘ تسلیم کیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ مغربی قانون اور فلسفۂ قانون پر ان کی ماہرانہ حیثیت بھی مسلّم ہے۔ گویا کسی بھی زاویے سے انھیں مولویوں کے زمرے میں شمار نہیں کیا جاسکتا، یعنی بانیِ پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح اور تصورِ پاکستان کے خالق اور شارح علامہ ڈاکٹر محمد اقبال۔

اس خطے میں جب غازی علم الدین شہید نے ایک شاتمِ رسولؐ کو قتل کیا تو ملزم کا وکیل کوئی ’مولوی‘ نہیں وہی ’روشن خیال‘ برطانیہ میں تعلیم پانے والا، اصول پرست اور کھرا انسان محمد علی جناح تھا جس نے کبھی کوئی جھوٹا یا مشتبہ مقدمہ لڑنا پسند نہیں کیا اور اپنے ملزم کے دفاع میں اور ناموسِ رسولؐ کے دفاع میں اپنی تمام تر صلاحیت کو استعمال کیا۔ اور جب غازی علم الدین کی تدفین کا مرحلہ آیا تو ’روشن دماغ‘ علامہ اقبال نے یہ کہہ کر اسے لحد میں اُتارا کہ’’ایک ترکھان کا بیٹا ہم پڑھے لکھوںپر بازی لے گیا‘‘۔

سوچنے کی بات صرف اتنی سی ہے کہ کیا یہ دو ماہر قانون دان ’حریت بیان‘، ’قلم کی آزادی‘ ، ’انسان کے پیدایشی حقِ اظہار‘ سے اتنے ناواقف تھے کہ ’جذبات‘ میں بہہ گئے۔

بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی

معاملے کا دوسرا پہلو حقوقِ انسانی سے تعلق رکھتا ہے۔ ہر انسان کو یہ حق ہے کہ وہ اپنی  راے کا اظہار کرے اور اگر کوئی چیز قابلِ تنقید ہو تو اس پر تنقید بھی کرے، لیکن کسی بھی انسان کو  آزادیِ قلم اور حریت بیان کے بہانے یہ آزادی نہیں دی جاسکتی کہ وہ کسی دوسرے فرد کی عزت، ساکھ، معاشرتی مقام اور کردار کو نشانہ بناکر نہ صرف اس کی بلکہ اُس سے وابستہ افراد کی دل آزاری کا ارتکاب کرے۔

اگر یورپ کے بعض ممالک میں (مثلاً ڈنمارک، اسپین، فن لینڈ، جرمنی، یونان، اٹلی، آئرلینڈ، ناروے، نیدرلینڈ، سوئٹزرلینڈ، آسٹریا وغیرہ) آج تک blasphemy یا مذہبی جذبات مجروح کرنے پر قانون پایا جاتا ہے اور برطانیہ جیسے رواداری والے ملک میں ملکہ کے خلاف توہین blasphemy کی تعریف میں آتی ہے، تو کیا کسی کارٹونسٹ یا کم تر درجے کے ادیب یا ادیبہ بلکہ کسی بھی فرد کو یہ حق دیا جاسکتا ہے کہ وہ گھٹیا ادب کے نام پر جو ہرزہ سرائی چاہے کرے۔ معاملہ تحریر کا ہو یا تقریر کا، ہر وہ لفظ اور ہر وہ بات جو ہتک آمیز ہو، اسے ’آزادیِ راے‘ کے نام پر جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ ایسی بدیہی حقیقت ہے جس کا انکار کوئی عقل کا اندھا ہی کرسکتا ہے۔ کسی بھی مہذب معاشرے میں آزادیِ راے کے نام پر کسی دوسرے کے حقِ شہرت، حقِ عزت کو پامال نہیں کیا جاسکتا۔ اگر ایسا کیا جائے گا تو یہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی۔

ھولوکاسٹ پر تنقید جرم

سیکولر اور آزاد خیال دنیا جس چیز کو اہم سمجھتی ہے، اس پر حرف گیری کو جرم قرار دیتی ہے اور عملاً اپنے پسندیدہ تصورات اور واقعات پر تنقید، محاسبے اور بحث و استدلال تک کو گوارا کرنے کے لیے تیار نہیں۔

آج جو لوگ اللہ کی مقدس کتابوں کی تحقیر و تذلیل اور اللہ کے پاک باز رسولوں کو سب و شتم کا نشانہ بنانے سے روکنے کو آزادیِ راے اور آزادیِ اظہار کے منافی قرار دیتے ہیں اور ان گھنائونے جرائم کے مرتکبین کو پناہ دینے میں شیر ہیں، ان کا اپنا حال یہ ہے کہ جرمنی میں ہٹلر کے دور میں یہودیوں پر جو مظالم ڈھائے گئے اور جنھیں بین الاقوامی قانون اور سیاست کی اصطلاح میں ’ہولوکاسٹ‘ کہا جاتا ہے محض یہودیوں اور صہیونیت کے علَم برداروں کو خوش کرنے کے لیے ان پر تنقید کو اپنے دستور یا قانون میں جرم قرار دیتے ہیں۔ ایسے محققین، مؤرخین اور اہلِ علم کو جو دلیل اور تاریخی شہادتوں کی بنا پر ’ہولوکاسٹ‘ کا انکار نہیں صرف اس کے بارے میں غیرحقیقی دعووں پر تنقید و احتساب کرتے ہیں، نہ صرف انھیں مجرم قرار دیتے ہیں بلکہ عملاً انھیں طویل مدت کی سزائیں دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر آسٹریا کا قانون National Socialism Prohibition Law 1947 amended 1992کی رُو سے جو مندرجہ ذیل جرم کا ارتکاب کرے گا:

Whoever denies, grossly plays down, approves, or tries to excuse the National Socialist genocide or other National Socialist crimes against humanity in print publication, in broadcast or other media....will be punished with imprisonment from one to ten years, and in cases of particularly dangerous suspects or activity be punished with upto twenty years imprisonment.

جو کوئی طباعتی، نشری یا کسی اور میڈیا میں انسانیت کے خلاف قومی سوشلسٹ جرائم یا  قومی سوشلسٹ نسل کشی کا انکار کرتا ہے، یا اسے بہت زیادہ کم کر کے بیان کرتا ہے یا اس کے لیے عذر فراہم کرتا ہے، اسے ایک تا ۱۰ سال کی سزاے قید اور خصوصی طور پر خطرناک مجرموں کو یا سرگرمیوں پر ۲۰سال تک کی سزاے قید دی جاسکے گی۔

آسٹریا میں یہ قانون کتابِ قانون کی صرف زینت ہی نہیں ہے بلکہ عملاً دسیوں محققین، اہلِ علم، صحافیوں اور سیاسی شخصیات کو سزا دی گئی ہے اور برسوں وہ جیل میں محبوس رہے ہیں۔ اس سلسلے کے مشہور مقدمات میں مارچ ۲۰۰۶ء میں برطانوی مؤرخ ڈیوڈ ارونگ کو ایک سال کی سزا اور جنوری ۲۰۰۸ء میں وولف گینگ فرولچ کو ساڑھے چھے سال کی سزا دی گئی اور عالمی احتجاج کے باوجود انھیںاپنی سزا بھگتنی پڑی۔ حقوقِ انسانی کے کسی علَم بردار ادارے یا ملک نے ان کی رہائی کے لیے احتجاج نہیں کیا اور نہ سیاسی پناہ دے کر ہی انھیں اس سزا سے نجات دلائی۔ یورپ کے جن ممالک میں محض ایک تاریخی واقعے کے بارے میں اظہار یا تخفیف کے اظہار کو جرم قرار دیا گیا ان میں آسٹریا کے علاوہ بلجیم۱؎ ، چیک ری پبلک ۲؎، فرانس ۳؎، جرمنی۴؎، ہنگری۵؎ ،سوئٹزرلینڈ۶؎،لکسمبرگ۷؎ ، ہالینڈ۸؎ اور پولینڈ۹؎میں قوانین موجود ہیں۔ اسی طرح اسپین،پرتگال اور رومانیہ میں بھی قوانین موجود ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اگر ایک عام آدمی کی عزت کی حفاظت کے لیے Law of Libel and Slander آزادیِ اظہار کے خلاف نہیں اور ہولوکاسٹ کے انکار یا بیان میں تحقیر یا تخفیف کو جرم قابلِ سزا تسلیم کیا جاتا ہے تو اللہ کے رسولوں اور انسانیت کے محسنوں اور رہنمائوں کی عزت و ناموس کی حفاظت کے قوانین نعوذ باللہ ’کالے قوانین‘ کیسے قرار دیے جاسکتے ہیں۔

رہی آج کی مہذب دنیا جو انسانی جان، آزادی اور اظہار راے کی محافظ اور علَم بردار بن کر دوسرے ممالک اور تہذیبوں پر اپنی راے مسلط کرنے کی جارحانہ کارروائیاں کررہی ہے، وہ کس منہ سے یہ دعویٰ کر رہی ہے جب اس کا اپنا حال یہ ہے کہ محض شبہے کی بنیاد پر دوچار اور دس بیس نہیں لاکھوں انسانوں کو اپنی فوج کشی اور مہلک ہتھیاروں سے موت کے گھاٹ اُتار رہی ہے۔ بیسویں صدی انسانی تاریخ کی سب سے خوں آشام صدی رہی ہے۔ جس میں صرف ایک صدی میں دنیا کی کُل آبادی کا ۳ئ۷ فی صد استعماری جنگوں اور مہم جوئی کی کارروائیوں میں لقمۂ اجل بنا دیا گیا ہے اور اکیسویں صدی کا آغاز ہی افغانستان اور پاکستان میں بلاامتیاز شہریوں کو ہلاک کرنے سے کیا گیا ہے    ؎

اتنی نہ بڑھا پاکیِ داماں کی حکایت

دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بند قبا دیکھ

قانون توھینِ رسالتؐ کی ضرورت

تیسرا قابلِ غور پہلو اس قانون کا اجماعی قانون ہونا ہے۔ یہ کسی آمر کا دیا ہوا قانون ہے  یا پارلیمنٹ کا پاس کردہ، اس پر تو ہم آگے چل کر بات کریں گے۔ یہاں صرف یہ بتانا ہے کہ    اس قانون کی ضرورت کم از کم چار وجوہات کی بنا پر تھی:

اوّل، یہ قانون ملزم کو عوام کے رحم و کرم سے نکال کر قانون کے دائرے میں لاتا ہے۔ اس طرح اسے عدلیہ کے فاضل ججوں کے بے لاگ اور عادلانہ تحقیق کے دائرے میں پہنچا دیتا ہے۔ اب کسی کے شاتم ہونے کا فیصلہ کوئی فرد یا عوامی عدالت نہیں کرسکتی۔ عوام کے جذبات اور دخل اندازی کی گنجایش ختم ہوجاتی ہے۔ جب تک فاضل عدالت پوری تحقیقات نہ کرلے، ملزم کو صفائی کا موقع فراہم نہ کرے، کوئی اقدام نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے یہ قانون سب سے زیادہ تحفظ ملزم ہی کو فراہم کرتا ہے اور یہی اس کے نفاذ کا سب سے اہم پہلو ہے۔

دوم، یہ قانون دستورِ پاکستان کا تقاضا ہے کیونکہ دستورِ پاکستان ریاست کو اس بات کا   ذمہ دار ٹھیراتا ہے کہ وہ اسلامی شعائر کا احترام و تحفظ کرے اور ساتھ ہی مسلمان اور غیرمسلم شہریوں کے حقوق کو پامال ہونے سے بچائے۔

سوم، یہ قانون پاکستان کی ۹۵ فی صد آبادی کے جذبات کا ترجمان ہے جس کا ہر فرد قرآن کریم اور حدیثِ رسولؐ کے ارشادات کی رُو سے اس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ اپنی جان، اپنے والدین، دنیا کی ہرچیز والد والدہ اور تمام انسانوں سے زیادہ محبوب نہ رکھے۔ (بخاری ، مسلم)

یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ National Commission for Justice & Peace کی رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ ۱۹۸۶ء سے ۲۰۰۹ء تک اس قانون کے حوالے سے پاکستان میں کُل ۹۶۴ مقدمات زیرسماعت آئے جن میں ۴۷۹ کا تعلق مسلمانوں سے، ۳۴۰ کا احمدیوں سے، ۱۱۹ کا عیسائیوں سے، ۱۴ کا ہندوئوں سے اور ۱۲ کا دیگر مسالک کے پیروکاروں سے تھا۔ ان تمام مقدمات میں سے کسی ایک میں بھی اس قانون کے تحت عملاً کسی کو سزاے موت نہیں دی گئی۔ عدالتیں قانون کے مطابق انصاف کرانے کے عمل کے تمام تقاضے پورا کرتی ہیں، جب کہ سیکولر لابی ہر ملزم کو مظلوم بناکر پیش کرتی ہے۔ انصاف کے عمل کو سبوتاژ کیا جاتا ہے۔ میڈیاوار اور بیرونی حکومتوں، اداروں اور این جی اوز کا واویلا قانون کی آنکھوں میں دھول جھونکنے، قانون کی عمل داری اور انصاف کی فراہمی کے عمل کو ناکام کرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ یہ عجیب بات ہے کہ ایک شخص اگر     نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ہتک، توہین، سب و شتم کا ارتکاب کرتا ہے تو عدالت کو حقیقت کو جاننے اور اس کے مطابق مقدمے کا فیصلہ کرنے سے روک دیا جاتا ہے۔ صحافت اور الیکٹرونک میڈیا اور این جی اوز اس کی ہمدردی اور ’مظلومیت‘ میں رطب اللسان ہوجاتے ہیں، حالانکہ مسئلہ ایک عظیم شخصیت انسانِ کامل اور ہادیِ اعظم کو نشانہ بنانے کا اور کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کو  مجروح کرنے کا ہے۔ کیا اہانت اور استہزا کو محض ’آزادیِ قلم و لسان‘ قرار دیا جاسکتا ہے؟ کیا اسی کا نام   عدل و رواداری ہے؟ حقیقی مظلوم کون ہے؟

جو کھیل ہمارے یہ آزادی کے علَم بردار کھیل رہے ہیں وہ نہ اخلاق کے مسلّمہ اصولوں سے مطابقت رکھتا ہے اور نہ انصاف کے تقاضوں سے ان کا کوئی تعلق ہے۔ یہ محض جانب داری اور من مانی کا رویہ ہے۔ اسلام ہر فرد سے انصاف کا معاملہ کرنے کا حکم دیتا ہے اور ایک شخص اس وقت تک صرف ملزم ہے مجرم نہیں جب تک الزام عدالتی عمل کے ذریعے ثابت نہیں ہوجاتا۔ لیکن جس طرح عام انسانوں کا جذبات کی رو میں بہہ کر ایسے ملزم کو ہلاک کردینا ایک ناقابلِ معافی جرم ہے، اسی طرح ایسے فرد کو الزام سے عدالتی عمل کے ذریعے بری ہوئے بغیر مظلوم قرار دے کر اور    سیاسی اور بین الاقوامی دبائو کو استعمال کر کے عدالتی عمل سے نکالنا بلکہ ملک ہی سے باہر لے جانا بھی انصاف کا خون کرنا ہے اور لاقانونیت کی بدترین مثال ہے۔

حالیہ مقدمہ اور قانون کی تنسیخ کا مطالبہ

قانونِ توہینِ رسالتؐ پر جس کیس کی وجہ سے گرد اُڑائی جارہی ہے، اب ہم اس کے بارے میں کچھ معروضات پیش کرتے ہیں:

آسیہ کیس کے بارے میں دی نیوز کی وہ رپورٹ بڑی اہمیت کی حامل ہے جو ۲۶نومبر کے شمارے میں شائع کی گئی ہے اور جس میں اس امر کی نشان دہی کی گئی ہے کہ یہ واقعہ جون ۲۰۰۹ء کا ہے جس کو ایس پی پولیس کی سطح پر واقعے کے فوراً بعد شکایت کرنے والے ۲۷ گواہوں اور ملزمہ کی طرف سے پانچ گواہوں سے تفتیش کے بعد سیشن عدالت میں دائر کیا گیا۔ ملزمہ نے ایک جرگے کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کیا اور معافی کی درخواست کی۔ مقدمے کے دوران کسی ایسے دوسرے تنازعے کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا جسے اب وجہِ تنازع بنایا جا رہا ہے۔ جس جج نے فیصلہ دیا ہے وہ اچھی شہرت کا حامل ہے اور ننکانہ بار ایسوسی ایشن کے صدر راے ولایت کھرل نے جج موصوف کی دیانت اور integrity کا برملا اعتراف کیا ہے۔ رپورٹ میں یہ بات بھی صاف الفاظ میں درج ہے کہ:

علاقے کی بار ایسوسی ایشن کا دعویٰ ہے کہ اصل فیصلے کو پڑھے بغیر شوروغوغا کیا جا رہا ہے، حالانکہ عدالت میں ملزمہ کے بیان میں کسی دشمنی یا کسی سیاسی زاویے کا ذکر نہیں جس کا اظہار اب کچھ سیاست دانوں یا حقوقِ انسانی کے چیمپئن اور این جی اوز کی طرف سے کیا جا رہا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اصل فیصلے کے مندرجات کو یکسر نظرانداز کر کے اس کیس کو سیاسی انداز میں اُچھالا جارہا ہے اور قانون ناموسِ رسالتؐ کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔ ہم اس رپورٹ کے باوجود یہ سمجھتے ہیں کہ ابھی عدالتی عمل کے اہم مراحل موجود ہیں۔ ہائی کورٹ میں اپیل اور سپریم کورٹ سے استغاثہ وہ قانونی عمل ہے جس کے ذریعے انصاف کا حصول ممکن ہے اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکتا ہے۔ لیکن اس عمل کو آگے بڑھانے کے بجاے ایک گروہ اسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے، اور اس سے بھی زیادہ قابلِ مذمت بات یہ ہے کہ تحفظ ناموس رسالتؐ کے قانون ہی کی تنسیخ یا ترمیم کا کو رَس برپا کیا جا رہا ہے جو ایک خالص سیکولر اور دین دشمن ایجنڈے کا حصہ ہے۔ پاکستان کی حکومت اور قوم کو اس کھیل کو آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دینا چاہیے۔

آزادیِ اظہار کے نام پر جرم کی تحلیل اور مجرموں کی توقیر کا دروازہ کھلنے کا نتیجہ بڑی تباہی کی شکل میں رونما ہوسکتا ہے۔ جیساکہ ہم نے عرض کیا یہ قانون ایک حصار ہے اور ایک طرف دین اور شعائر دین کے تحفظ کا ذریعہ ہے تو دوسری طرف سوسائٹی میں رونما ہونے والے کسی ناخوش گوار واقعے کو قانون کی گرفت میں لانے اور انصاف کے عمل کا حصہ بنانے کا ذریعہ ہے ورنہ معاشرے میں تصادم، فساد اور خون خرابے کا خطرہ ہوسکتا ہے جس کا یہ سدباب کرتا ہے۔ قانون اپنی جگہ صحیح، محکم اور ضروری ہے۔ قانون کے تحت پورے عدالتی عمل ہی کے راستے کو ہر کسی کو اختیار کرنا چاہیے، نہ عوام کے لیے جائز ہے کہ قانون اپنے ہاتھ میں لیں اور نہ ان طاقت ور لابیز کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ قانون کا مذاق اُڑائیں اور عدالتی عمل کی دھجیاں بکھیرنے کا کھیل کھیلیں۔ معاشرے میں رواداری، برداشت اور قانون کے احترام کی روایت کا قیام ازبس ضروری ہے اور آج ہر دو طرف سے قانون کی حکمرانی ہی کو خطرہ ہے۔

حق تو یہ ہے کہ یہ قانون نہ صرف اہلِ ایمان بلکہ ہر ایسے انسان کے لیے اہمیت رکھتا ہے جو رواداری، عدل و انصاف اور معاشرے میں افراد کی عزت کے تحفظ پر یقین رکھتا ہو۔ یہ معاملہ محض خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کا نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے لیے ہر نبی اور ہر رسول کی عزت و ناموس محترم ہے۔ اس لیے اس قانون کو نہ تو اختلافی مسئلہ بنایا جاسکتا ہے اور نہ اسے یہ کہہ کر کہ یہ محض ایک انسانی قانون ہے، تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ ہاں، اگر کہیں اس کے نفاذ کے حوالے سے انتظامی امور یا کارروائی کو زیادہ عادلانہ بنانے کے لیے طریق کار میں بہتری پیدا کرنے کی ضرورت ہو، تو دلیل اور تجربے کی بنیاد پر اس پر غور کیا جاسکتا ہے اور قانون کے احترام اور اس کی روح کے مطابق اطلاق کو مؤثر بنانے کے لیے ضروری اقدام ہوسکتے ہیں تاکہ عدالت جلد اور معقول تحقیق کرنے کے بعد فیصلے تک پہنچ سکے۔ بیرونی دبائو اور عالمی استعمار اور سیکولر لابی کی ریشہ دوانیوں کے تحت قانون کی تنسیخ یا ترمیم کا مطالبہ تو ہمارے ایمان، ہماری آزادی، ہماری عزت اور ہماری تہذیب کے خلاف ایک گھنائونی سازش ہی نہیں ان کے خلاف اعلانِ جنگ ہے جن کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ معذرت خواہانہ رویہ دراصل کفر کی یلغار اور دشمنوں کی سازشوں کے آگے ہتھیار ڈالنے کے مترادف ہوگا۔

توھینِ رسالتؐ کے قانون میں ترمیم کا بل

میڈیا،این جی اوز، عیسائی اور احمدی لابی اور پیپلزپارٹی کے گورنر اور ترجمانوں کی ہائو ہو کو ناکافی سمجھتے ہوئے اور استعماری قوتوں کی ہاں میں ہاں ملانے کے لیے پیپلزپارٹی کی ایک رکن پارلیمنٹ نے عملاً قومی اسمبلی میں توہینِ رسالتؐ کے قانون میں ترامیم کی نام پر ایک شرانگیز مسودہ قانون جمع کروا دیا ہے، جو اَب قوم کے سامنے ہے اور اس کے ایمان اور غیرت کا امتحان ہے۔ اس قانون کے دیباچے میں قائداعظم کی ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر کو ایک بار پھر اس کے اصل پس منظر اور مقصد سے کاٹ کر اپنے مخصوص نظریات کی تائید میں استعمال کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور سارا کھیل یہ ہے کہ دین و مذہب کا ریاست اور قانون سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ قانون سازی کو شریعت کی گرفت سے باہر ہونا چاہیے حالانکہ یہ اس بنیادی تصور کی ضد ہے جس پر تحریکِ پاکستان برپا ہوئی اور جس کے نتیجے میں پاکستان قائم ہوا ہے اور جسے قرارداد مقاصد میں تسلیم کیا گیا، وہ قراردادِ مقاصد جسے سیکولر لابی کی تمام ریشہ دوانیوں کے باوجود پاکستان کے دستور کی بنیاد اور اساسی قانون (grundnorm) تسلیم کیا گیا ہے۔

قائداعظم کی اس تقریر کو قائداعظم کی دوسری تمام متعلقہ تقاریر کے ساتھ ہی سمجھا جاسکتا ہے۔ اس تقریر کی اس سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں کہ تقسیمِ ملک کے خوں آشام حالات میں قائداعظم نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی جو وہ اس سے پہلے ہی بارہا دے چکے تھے اور جو پوری پاکستانی قوم کا عہد ہے۔ لیکن اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ مذہب کا اور شریعت کا قانون سے کوئی تعلق نہیں اور ریاست پاکستان قانون سازی کے باب میں اسی طرح آزاد ہے جس طرح ایک لادین ملک ہوتا ہے تو یہ حقیقت کے خلاف اور اقبال اور قائداعظم پر ایک بہتان ہے۔

۲۴ نومبر ۲۰۱۰ء کو پارلیمنٹ میں جو بل داخل کیا گیا ہے اس میں محرک نے یہ درخواست کی ہے کہ مروجہ قانونِ توہینِ رسالتؐ 295-C اور اس سے متعلقہ دیگر دفعات میں بنیادی تبدیلیاں کی جائیں۔ بل میں جو تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں ان کا مقصد ترمیم نہیں، بلکہ اس قانون کی عملی تنسیخ ہے۔

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ترمیم کی ضرورت پر غور کرلیا جائے۔ ترمیم کا عمومی مقصد قانون کی روح کو برقرار رکھتے ہوئے کسی ایسے پہلو کا دُور کرنا ہوتا ہے جو قانون کے نفاذ میں رکاوٹ پیدا کر رہا ہو یا کسی ایسے پہلو کی تکمیل مقصود ہو جو مروجہ قانون میں رہ گیا ہو۔ اس حیثیت سے اگر حالیہ قانون کی دفعہ 295-C اور مجوزہ ترمیم کے الفاظ کا مقابلہ کیا جائے تو صورت حال کچھ مختلف نظر آتی ہے۔ مروجہ قانون میں 295-B میں ارتکاب جرم کرنے والے کے لیے سزا عمرقید ہے، shall be punishable with imprisonment to life۔ 295 میں الفاظ ہیں: shall be punished with deathجب کہ مجوزہ بل میں 295-B کے لیے جو متبادل الفاظ تجویز کیے گئے ہیں وہ ہیں: shall be punishable with imprisonment of either description for a term which may extend to five years or with fine or both.۔ اسی طرح 295-C کے لیے جو متبادل الفاظ تجویز کیے گئے ہیں وہ یہ ہیں: shall be punishable with imprisonment of either description for a term

which may extend to ten years or with fine or with both.

گویا دونوں مجوزہ دفعات میں اگر کوئی فرق ہے تو صرف قید کی مدت، یعنی 295-B میں  حد سے حد پانچ سال ، 295-CV میں حد سے حد ۱۰ سال! جو بھلا انسان بھی باہوش و حواس اس تقابل کو دیکھے گا وہ یہی کہے گا کہ اس تجویز کا اصل کام ’تنسیخ‘ ہے ترمیم نہیں۔ واضح رہے کہ اس میں قید اور جرمانہ کے درمیان’یا‘ کا رشتہ قائم کیا گیا ہے۔ گویا سزا کے بغیر صرف جرمانہ، جس کا بھی تعین نہیں کیا گیا ادا کرکے کوئی بھی شاتمِ رسولؐ اُمت مسلمہ کے جذبات کا خون اور اُن کی آنکھوں میں دھول جھونک سکتا ہے۔

اس تجویز میں ناموسِ رسالتؐ کو پامال کرنے والے کے لیے قرآن و سنت اور اجماعِ اُمت کے فیصلے کی جگہ ملزم کو معصوم اور بے گناہ تصور کرتے ہوئے ساری ہمدردی اسی کے پلڑے میں  ڈال دی گئی ہے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ناموسِ رسالتؐ یا قرآن کریم کی بے حُرمتی کرنا ایک اتنا ہلکا سا جرم ہے کہ اگر حد سے حد پانچ سال یا ۱۰ سال کی قید دے دی جائے یا صرف چند روپے جرمانہ کردیا جائے تو اس گھنائونے جرم کی قرارواقعی سزا ہوجائے۔ یہ بھی نہ بھولیے کہ اس سزا کو  چندلمحات بعد کوئی نام نہاد صدرِ مملکت معاف بھی کر دے تو اُمت مسلمہ بری الذمہ ہوجائے گی!

ہمارے خیال میں کسی مسلمان سے یہ توقع نہیں رکھی جاتی کہ اگر اس کے نسب کے بارے میں ایک بُرا لفظ منہ سے نکالا جائے تو وہ کہنے والے کی زبان کھینچنے کو اپنا حق نہ سمجھے لیکن اگر   قرآنِ کریم یا خاتم النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی حملہ ہو اور کھلی بغاوت ہو تو ’رواداری‘ اور ’عفوودرگزر‘ میں پناہ دی جائے۔

معلوم ہوتا ہے کہ یہ تجویز پیش کرنے والوں کے خیال میں کسی کی عزت، جذبات، شخصیت اور مقام پر حملہ کرنا تو ’انسانی حق‘، ’آزادی راے‘ اور ’اقلیتی حقوق‘ کی بنا پر ایک نادانستہ غلطی مان لیا جائے، اور جس پر یہ حملہ کیا جا رہا ہے، جس کی شخصیت کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اس کے ساتھ اس زیادتی کو نہ ظلم کہا جائے، نہ اسے انسانی حقوق کی پامالی سمجھا جائے، بلکہ الزام تراشی کرنے والے کو معصوم ثابت کرنے اور جرم کی سنگینی اور گھنائونے ہونے کو کم سے کم کیا جائے اور عملاً اس جرم پر گرفت ایک سنگین جرم بنا دیا جائے۔ گویا     ع

جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

یہ بل ملت اسلامیہ کے ایمان، حب ِ رسولؐ اور عظمتِ قرآن کے ساتھ ایک ہتک آمیز مذاق کی حیثیت رکھتا ہے ،اور اقلیتوں کے ’تحفظ‘ کے نعرے کے زور سے اُمت مسلمہ کی اکثریت کو بے معنی قرار دیتے ہوئے اس کی روایات اور قرآن و سنت کے واضح فیصلوں کی تردید بلکہ تنسیخ کرتا ہے۔

اس موقع پر یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ پاکستان ہی میں نہیں، پوری دنیا میں جہاں کہیں بھی مسلمان مسلم ممالک میں غالب اکثریت رکھتے ہیں غیرمسلموں کا تحفظ ان کا دینی فریضہ ہے۔ اللہ اور اس کے رسولؐ نے ان کا ذمہ لیا ہے، اس لیے کوئی مسلمان ان کی جان، مال اور عزت کو اپنے لیے حلال نہیں کرسکتا لیکن کوئی شخص مسلمان ہو یا غیرمسلم، اسے یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ وہ برسرِعام جب چاہے قرآن اور صاحب ِ قرآن علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بے حُرمتی کا مرتکب بھی ہو اور اس پر کوئی قانونی کارروائی بھی نہ کی جائے کہ ایسا کرنے سے بعض پڑوسی ناراض ہوجائیں گے۔

یہ پہلو بھی قابلِ غور ہے کہ بل میں اے-۲۰۳ میں یہ اضافہ کرنے کی تجویز کی گئی ہے کہ:

Anyone making a false or frivolous accusation under any of the sections 295-A, 295 B and 295-c, of the Pakistan Penal Code shall be punished in accordance with similar punishment prescribed in the Section under which the false or frivolous accusation was made.

حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے ملک میں ایسے افراد قانون کی پاسبانی کا دعویٰ کرتے ہیں جو قانون کے بنیادی تصورات کو کھلے عام پامال کرنے پر آمادہ ہیں۔ ملزم کے ساتھ تمام تر ہمدردی کے باوجود کیا ۱۵ سو سال میں ایک واقعہ بھی ایسا پیش کیا جاسکتا ہے کہ ایک شخص نے کسی پر بدکاری کا الزام لگایا جس کے ثابت ہونے کی شکل میں بدکار کو سنگسار کیا جانا تھا لیکن الزام ثابت نہ ہوسکا تو الزام لگانے والے کو سنگسار کر دیا گیا ہو۔ قذف کا قانون اسلامی قانون کا حصہ ہے لیکن وہ نصوص پر مبنی ہے اور صرف زنا کے ایک جرم کے ساتھ خاص ہے۔ البتہ اتہام، جھوٹی شہادت وغیرہ تعزیری جرم ہوسکتے ہیں اور ان پر ضرورت اور حالات کے مطابق غور کیا جاسکتا ہے مگر جھوٹے گواہ کو ہمیشہ کے لیے ناقابلِ قبول گواہ قرار دینا اسلام کے تعزیری قانون کا حصہ ہے۔ لیکن جس طرح یہاں ان نامساوی چیزوں کو برابر برابر (juxtapose) کیا گیا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ قانون کا صحیح نفاذ نہیں بلکہ قانون سے جان چھڑانے کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ جو تصور اس ترمیم میں پیش کیا گیا ہے کیا تمام تعزیری قوانین پر اس کا اطلاق ہوگا؟ اس کا اصولِ قانون و انصاف سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ تو جنگل کے قانون کی طرف مراجعت کا نسخہ معلوم ہوتا ہے! کیا اس سے یہ نتیجہ نکالنا غلط ہوگا کہ ہمارا حکمران طبقہ اس معاملے میں شاید اُس مقامِ زوال تک پہنچ گیا ہے جہاں عقل کا استعمال قابلِ دست اندازی پولیس جرم تصور کر لیا جائے گا؟

اسلامی قانون میں قذف کی سزا کی موجودگی میں نہ تو حد میں اضافہ ہوسکتا ہے اور نہ قذف کے ملزم پر زنا کی حد جاری کی جاسکتی ہے۔ ایک پارلیمنٹ کے رکن کی جانب سے ردعمل کی بنیاد پر  یہ تجویز بنیادی انسانی حقوق اور قانون کے فطری اصولوں کے ساتھ گھنائونا مذاق ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری قوم کو سمجھ بوجھ سے نوازے تاکہ وہ اپنی فکری غلطیوں کو محسوس کرسکے۔

قوم کا امتحان

ایک ایسے قانون کو جسے ملک کی وفاقی شرعی عدالت نے تجویز کیا ہو، جسے پارلیمنٹ اور سینیٹ کے اجلاس نے متفقہ طور پر قانون کا درجہ دیا ہو، محض یہ کہہ کر ایک طرف رکھ دینا کہ یہ فلاں فوجی آمر کے دور میں پارلیمنٹ نے بنایا، ہرگز قابلِ قبول نہیں ہوسکتا۔ نیز یہ دستورِ پاکستان کے ساتھ ایک مذاق کے مترادف ہے۔

۱۸۶۰ء سے ۱۹۹۲ء تک جو قانون عوامی ضرورت کی بنا پر وجود میں آیا جس میں ناموسِ رسولؐ کے تحفظ کے لیے اضافی قانون شامل کیا گیا وہ ایک غیر متنازع اور متفق علیہ معاملہ ہے۔ اسے ایسے وقت میں ایک اختلافی مسئلہ بنا کر پیش کرنا جب ملک کو شدید معاشی زبوں حالی اور سیاسی انتشار کا سامنا ہے، ملک کے باشندوں کے ساتھ بے وفائی اور ان کے جذبات کو مجروح کرنے کی ایک ناپاک کوشش ہے۔

اس امر کی ضرورت ہے کہ یک طرفہ پروپیگنڈے بلکہ ایک نوعیت سے کروسیڈ کا بھرپور انداز میں مقابلہ کیا جائے۔ اس موقع پر اہلِ حق کی خاموشی ایک جرم کا درجہ رکھتی ہے۔ اور اس بات کا خطرہ ہے کہ اس سے ان عناصر کو شہ ملے گی جو دلیل، قانون اور سیاسی عمل کے ذریعے اصلاح سے مایوس ہوکر تشدد کے راستے کو ترجیح دینے لگتے ہیں۔ جہاں قانون کا منصفانہ نفاذ وقت کی ضرورت ہے اور عوام و خواص سب کی تعلیم اور راے عامہ کی استواری ضروری ہے، وہیں اس بات کی ضرورت ہے کہ ایک مبنی برحق قانون کو جھوٹے سہاروں اور نفاذ کے باب میں مبینہ بدعنوانیوں کے نام پر قانون کو مسخ کرنے کی کوشش کا دلیل اور عوامی تائید کے ذریعے مقابلہ کیا جائے ۔ میڈیا پر ناموسِ رسالتؐ کے قانون کا مؤثر دفاع اوراس کی ضرورت اور افادیت کے تمام پہلوئوں کو اُجاگر کیا جائے، وہیں عمومی تعلیم اور انتظامیہ، پولیس اور عدالت سب کے تعاون سے اس قانون کے غلط استعمال کو جہاں کہیں بھی ہو، قانون اور عدل و انصاف کے معروف ضابطوں کے مطابق روکا جائے، اور جو عناصر مسلمانوں کے ایمان اور ان کے جذبات سے کھیلنے پر تلے ہوئے ہیں اور جو کردار ان کے آلۂ کار بننے کو تیار ہوں ان کی سرپرستی اور بیرونِ ملک آبادکاری کے مذموم کھیل میں مصروف ہیں، ان کی ہر شرارت کا دروازہ بند کیا جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ایک طرف اہلِ علم اور اہلِ قلم اپنی ذمہ داری ادا کریں تو اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے وہیں مسجد اور منبر سے بھی پورے توازن اور ذمہ داری کے ساتھ اس آواز کو اُٹھایا جائے۔ نیز پارلیمنٹ کے ارکان تک حق کی آواز کو مؤثر انداز میں پہنچایا جائے اور ہرہرحلقے میں اہلِ علم اور سیاسی کارکن اپنے امیدواروں کو پاکستان کے دستور اور اسلام کے شعائر کی حفاظت کے لیے مضبوطی سے سرگرم عمل ہونے کی دعوت دیں۔

قائداعظم کی ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر کو بددیانتی اور دیدہ دلیری سے استعمال کیا جارہا ہے۔ قراردادِ مقاصد کے خلاف جو فکری جنگ برپا ہے اس کا بھرپور مقابلہ کیا جائے اور قائداعظم کے بیان کو آج جس طرح اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے اس کا پردہ چاک کیا جائے۔ اس لیے کہ قائداعظم نے قیامِ پاکستان کی ساری جنگ دو قومی نظریے، مسلمانوں کی نظریاتی قومیت، دین پر مبنی ان کی شناخت اور اسلامی نظریے کے لیے پاکستان کو تجربہ گاہ بنانے کے مسلسل وعدوں پر لڑی تھی۔ آج سیکولر لابی اس عظیم تاریخی تحریک کو جس کے دوران ملّت اسلامیہ ہند نے   بیش بہا قربانیاں دی ہیں، ہائی جیک کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور اسے محض معاشی مفادات کا کھیل بنا کر پیش کیا جا رہا ہے جو تاریخ کے ساتھ مذاق، قائداعظم سے بے وفائی اور اُمت مسلمہ اور پاکستان کے لیے قربانی دینے والوں کے خون سے غداری کے مترادف ہے۔

قائداعظم کا تصورِ پاکستان

قائداعظم نے پاکستان کس مقصد اور کس عہدوپیمان پر قائم کیا تھا وہ بار بار سامنے لانا ضروری ہے۔ ہم قائداعظم ہی کے چند زریں اقوال پر ان گزارشات کا خاتمہ کرتے ہیں تاکہ ناموسِ رسولؐ کی حفاظت کے قانون پر ان تازہ حملوں کے لیے قائداعظم کے نام کو استعمال کرنے والوں کی بدباطنی سب پر آشکارا ہوجائے۔ کاش! وہ خود بھی اس آئینے میں اپنا چہرہ دیکھ لیں اور قائداعظم کا سہارا لے کر اپنے اس شیطانی کھیل سے اجتناب کریں۔

قائداعظم نے ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر کے بعد اکتوبر ۱۹۴۷ء میں ان تمام غلط فہمیوں کو خود دور کر دیا تھا جو مخالفین پیدا کر رہے تھے بلکہ واضح الفاظ میں پاکستان کے قیام کے مقاصد اور اس عمرانی معاہدے کا برملا اعلان کیا تھا جو انھوں نے ملّت اسلامیہ پاک و ہند سے کیا تھا:

پاکستان کا قیام جس کے لیے ہم ۱۰ سال سے کوشاں تھے بفضلہ تعالیٰ اب ایک زندہ حقیقت ہے لیکن خود اپنی آزاد مملکت کا قیام ہمارے اصل مقصد کا صرف ایک ذریعہ تھا، اصل مقصد نہ تھا۔ ہمارا اصل منشا و مقصود یہ تھا کہ ایک ایسی مملکت قائم ہو جس میں ہم آزاد انسانوں کی طرح رہیں، جس کو ہم اپنے مخصوص مزاج اور اپنی ثقافت کے مطابق ترقی دیں اور جس میں اسلامی عدل اجتماعی کے اصولِ آزادی کے ساتھ برتے جائیں۔

قائداعظم اچھی طرح جانتے تھے کہ اسلام محض عقائد اور عبادات کا نام نہیں بلکہ وہ ایک مکمل نظامِ حیات ہے جو تطہیر افکار اور تعمیر اخلاق کے ساتھ اجتماعی زندگی کی نئی صورت گری کا تقاضا کرتا ہے اور جس میں قانون، معاشرت اور معیشت سب کی تشکیل کو قرآن و سنت کے مطابق ہونا ہی اصل مطلوب ہے۔ معاملہ حدود قوانین کا ہو یا تحفظ ناموسِ رسالتؐ کے قانون کا، زکوٰۃ و عشر کے قوانین ہوں یا اسلام کا قانونِ شہادت، یہ سب پاکستان کے مقصدِ وجود کا تقاضا ہیں اور قائداعظم کو اس بارے میں کوئی ابہام نہیں تھا۔ ان کا ارشاد ہے:

ان لوگوں کو چھوڑ کر جو بالکل ہی ناواقف ہیں ہر شخص جانتا ہے کہ قرآن مسلمانوں کا  ہمہ گیر ضابطۂ حیات ہے۔ مذہبی، معاشرتی، دیوانی، معاشی، عدالتی، غرض یہ کہ ہماری مذہبی رسومات سے لے کر روز مرہ زندگی کے معاملات تک، روح کی نجات سے جسم کی صحت تک، اجتماعی حقوق سے انفرادی حقوق تک، اخلاقیات سے جرائم تک کو دنیاوی سزائوں سے لے کر آنے والی زندگی کی جزا وسزا تک کے تمام معاملات پر اس کی عمل داری ہے اور ہمارے پیغمبرؐ نے ہمیں ہدایت کی ہے کہ ہرشخص اپنے پاس قرآن رکھے اور خود رہنمائی حاصل کرے۔ اس لیے اسلام صرف روحانی احکام اور تعلیمات اور مراسم تک ہی محدود نہیں ہے۔ یہ ایک کامل ضابطہ ہے جو مسلم معاشرے کو مرتب کرتا ہے۔

۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر سے قبل دہلی میں پاکستان کے لیے روانہ ہونے سے پہلے قائداعظم نے بہت صاف الفاظ میں اس وقت کے صوبہ سرحد میں استصواب کے موقع پر جو  عہدوپیمان قوم سے کیا تھا خود اس کو بھی ذہن میں تازہ کرلیں۔ یہ کوئی عام تقریر نہیں بلکہ سرحد کے مسلمانوں کے ساتھ ایک عہد (covenant)ہے جس کے مطابق انھوں نے خان عبدالغفار خان کے موقف کو رد کیا اور قائداعظم کے موقف پر اعتماد کرکے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا:

خان برادران نے اخبارات میں ایک اور زہریلا نعرہ بلند کیا ہے کہ مجلس دستور ساز پاکستان، شریعت کے بنیادی اصولوں اور قرآنی قوانین کو نظرانداز کردے گی۔ یہ بھی ایک بالکل نادرست بات ہے۔ ۱۳ سے زیادہ صدیاں بیت گئیں،اچھے اور بُرے موسموں کا سامنا کرنے کے باوجود، ہم مسلمان نہ صرف اپنی عظیم اور مقدس کتاب قرآن کریم پر فخر کرتے رہے، بلکہ ان تمام ادوار میں جملہ مبادیات کو حرزِ جاں بنائے رکھا… معلوم نہیں کہ خان برادران کو اچانک اسلام اور قرآنی قوانین کی علَم برداری کا دورہ کیسے پڑا ہے، اور انھیں اُس ہند مجلس دستور ساز پر اعتبار ہے کہ جس میں ہندوئوں کی ظالمانہ اکثریت ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ صوبہ سرحد کے مسلمان واضح طور پر یہ سمجھ لیں کہ وہ پہلے مسلمان ہیں اور بعد میں پٹھان۔ (قائداعظم: تقاریر و بیانات، ج۴، ترجمہ اقبال احمد صدیقی، بزمِ اقبال، لاہور، ص ۳۴۶-۳۴۷)

دیکھیے بات بہت واضح ہے، پاکستان کے قیام کا مقصد قرآن و سنت کے مطابق قانون سازی اور زندگی کے پورے نظام کو ان اصولوں اور ہدایات کے مطابق منظم اور مرتب کرنا تھا۔ اس لیے آج ایشو یہ ہے کہ کیا ناموسِ رسالتؐ کی حفاظت اور توہینِ رسالتؐ کے خلاف قانون قرآن و سنت کا حکم اور اقتضا ہے یا نہیں۔ اور اگر ہے تو پھر اس سلسلے میں کسی معذرت کی ضرورت نہیں۔ قانون کی تنسیخ اللہ اور اس کے رسولؐ کے خلاف بغاوت ہوگی اور قانون میں ایسی ترمیم جس سے وہ محض ایک نمایشی چیز بن کر رہ جائے قرآن و سنت سے مذاق اور ذاتِ رسالت مآبؐ سے بے وفائی ہوگی۔ بلاشبہہ قانون کا نفاذ اس طرح ہونا چاہیے کہ کوئی شاتمِ رسولؐ اپنے جرم کی سزا سے بچ نہ سکے اور کوئی معصوم فرد ذاتی، گروہی ، معاشی مفادات کے تنازعے کی وجہ سے اس کی زد میں نہ آسکے۔ انصاف سب سے پہلے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ضروری ہے اور وہ یہ کہ آپؐ کی ذاتِ مبارک کے بارے میں کسی کو بھی تضحیک اور توہین کی جرأت نہ ہو۔ پھر انصاف معاشرے کے ہر فرد کے ساتھ ضروری ہے خواہ وہ مسلمان ہو یا غیرمسلم، مرد ہو یا عورت، امیر ہو یا غریب، تعلیم یافتہ ہو یا ناخواندہ کہ مجرم اور صرف مجرم قانون کے شکنجے میں آئے۔ نہ عام انسان قانون کو اپنے ہاتھ میں لیں اور نہ کسی کو قانون کی گرفت سے نکلوانے کے لیے سیاسی وڈیروں، دولت مند مفاد پرستوں، سیکولر دہشت گردوں یا بین الاقوامی شاطروں کو اپنا کھیل کھیلنے کا موقع مل سکے۔ اس سلسلے میں جن انتظامی اصلاحات یا انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے جن تدابیر کی ضرورت ہے، ان کے بارے میں نہ ماضی میں کوئی مشکل حائل تھی اور نہ آج ہونی چاہیے۔ لیکن ترمیم کے نام سے قانون کو بے اثر کرنے اور امریکا و یورپ اور عالمی سیکولر اور سامراج کے کارندوں کو کھل کھیلنے کا موقع دینا ہمارے ایمان، آزادی، عزت اور حمیت کے خلاف ہے اور اس کی یہ قوم کبھی اور کسی کو بھی اجازت نہیں دے گی۔ اس لیے کہ    ؎

کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں


(کتابچہ تقسیم عام کے لیے دستیاب ہے، -/۹ روپے۔ سیکڑے پر خصوصی رعایت۔ منشورات، منصورہ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۴۹۰۹)

اچھی حکومت کسی بھی معاشرے کے لیے نعمت کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ امن و امان اور عدل و انصاف کے قیام کے ساتھ عوام کے مسائل کو حل کرنے اور ان کو مشکلات سے نکلنے میں مدد اور رہنمائی فراہم کرتی ہے اور اسے ہر دوسری سرگرمی پر اوّلیت دیتی ہے۔ لیکن آج جمہوریت کے نام پر جو زرداری- گیلانی حکومت ملک کے سیاہ و سپید کی ذمہ دار بنی ہوئی ہے، اس کا امتیازی وصف حکمرانی کا فقدان، عوامی مسائل سے غفلت، بیرونی عناصر کی کاسہ لیسی، کرپشن کا فروغ، حکومت کے ہر شعبے میں نااہلی اور نااہلوں کی سرپرستی، اور ملکی مفادات کو نظرانداز کرکے اپنے ذاتی اور گروہی اہداف کے حصول میں سرگرمی ہے۔ حکومت چلانے کے یہ انداز اور اطوار جمہوریت کے ماتھے پر بدنما داغ کی حیثیت رکھتے ہیں، اور اس کے مستقبل کے لیے خطرہ ہیں۔ حالات تبدیلی کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور وقت اس امر کا تقاضا کر رہا ہے کہ تمام محب ِ وطن عناصر جو ملک میں بیرونی مداخلت کا باب بند کرنا، فوج کو اس کے دفاعی کردار تک محدود رکھنا اور عوام کو جمہوریت کے ثمرات سے فیض یاب کرنا چاہتے ہیں، شخصی اور جماعتی سطح سے بلند ہوکر ملک اور جمہوریت کی بقا کے لیے مثبت کردار ادا کریں۔

اس عمل کا نقطۂ آغاز ان تین نئے ٹیکسوں کے باب میں مشترک لائحہ عمل کی شکل میں ہوسکتا ہے، جن کے ذریعے اس ماہ حکومت نے اپنے ہی عوام کو معاشی حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔ سینیٹ کے ارکان کی اکثریت نے جس طرح ان ٹیکسوں کو رد کیا ہے، وہ معاشی اور سیاسی دونوں محاذوں پر  ایک نئی تحریک اور قومی حکمت عملی کی تشکیل اور اس کے حصول کے لیے صف بندی کے لیے فتح باب کا کردار ادا کرسکتا ہے۔

نئے ٹیکس: حکومتی موقف

حکومت نے ۱۲ نومبر کو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں جنرل سیلزٹیکس (GST)کا ایک نیا قانون جو دراصل VAT کے اصول پر مبنی ہے اور ایک مالیاتی بل پیش کیا ہے جس کے ذریعے سیلاب زدگان کے لیے سرچارج کے عنوان سے تمام انکم اور کورپوریٹ ٹیکس ادا کرنے والوں پر چھے ماہ کے لیے ۱۰ فی صد ٹیکس کا اضافہ کیا ہے اور ایکسائز ڈیوٹی میں ۱۰۰فی صد اضافہ کیا ہے، یعنی ایک فی صد سے بڑھا کر اسے۲ فی صد کر دیا گیا ہے۔

حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ نئے ٹیکس چار وجوہ سے ضروری ہیں:

۱- حکومت کا جو معاہدہ آئی ایم ایف سے ہے، اس کے تحت مزید قرضے صرف اس صورت میں مل سکتے ہیں جب یہ ٹیکس عائد کیے جائیں۔ اس لیے معیشت کی گاڑی کو آگے چلانے، سرکاری اخراجات اور تنخواہوں تک کی ادایگی کو جاری رکھنے اور مزید قرض لینے کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

۲- ملک میں مجموعی قومی پیداوار (GDP) اور ٹیکس کا تناسب خطرناک حد تک کم ہے، یعنی ۳ئ۹ فی صد، جب کہ دنیا کے ترقی پذیر ملکوں میں یہ شرح ۱۷ سے ۲۰ فی صد اور ترقی یافتہ ممالک میں ۳۰، حتیٰ کہ ۴۰ فی صد تک ہے۔ حکومت کو چلانے اور ترقیاتی عمل کو آگے بڑھانے کے لیے ٹیکسوں کی آمدنی میں اضافہ ناگزیر ہے اور یہ ٹیکس اس سمت ایک مثبت قدم ہے۔ پھر حالیہ سیلاب نے جو تباہی مچائی ہے صرف اس کے متاثرین کی کم سے کم ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے___ اصل ضرورت تو ۸۰۰ ارب روپے کی ہے___ فوری طور پر اس سال ۲۰۰ سے ۲۵۰ ارب روپے درکار ہیں۔   وہ کہاں سے لائیں؟ باہر کے مدد کرنے والے بھی مطالبہ کر رہے ہیں کہ اپنے وسائل کو بروے کار لائو۔ اس لیے ٹیکس کی آمدنی میں فوری اضافے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔

۳- ملک میں ٹیکس دینے والوں کی تعداد محدود ہے۔ ۱۸ کروڑ کے اس ملک میں ٹیکس دینے والوں کے دائرے میں صرف ۳۰ لاکھ افراد آتے ہیں مگر عملاً انکم اور کورپوریٹ ٹیکس دینے والوں کی تعداد ۱۸لاکھ سے بھی کم ہے جن میں ۱۲ لاکھ سے زائد تنخواہ دار طبقہ ہے۔ اس سے ان کی تنخواہ کے ساتھ ہی ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے۔ اس لیے ٹیکس کے دائرے کو بڑھانا ضروری ہے۔

۴- ملکی معیشت کی دستاویز بندی (documentation) وقت کی ضرورت ہے۔ ماضی کی ساری کوششیں اس سلسلے میں ثمرآور نہیں ہوسکیں۔ اس کی وجہ سے ٹیکس کی چوری بھی بڑے پیمانے پر ہوتی ہے اور کالا کاروبار بھی عام ہے۔ معیشت کو دستاویزی نظام میں لانے کے دوررس اثرات ہوں گے اور نیا جنرل سیلزٹیکس اس کی طرف ایک اہم پیش رفت ہے۔

یہ وہ چار دلائل ہیں جو حکومت اور اس کے حامیوں کی طرف سے آئے ہیں۔ اس ناقابلِ فہم دعوے کے ساتھ کہ نئے ٹیکسوں سے عوام پر بوجھ اور ملک میں مہنگائی اور افراطِ زر پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا، بلکہ ٹیکس کی شرح موجودہ ۱۷ سے ۲۳ فی صد کی شرح سے کم کرکے ۱۵ فی صد کی  جارہی ہے۔ جس کے نتیجے میں قیمتوں میں کمی ہوسکتی ہے یا اگر اضافہ ہوا بھی تو بہت ہی معمولی اور ناقابلِ التفات ہوگا۔

ہماری نگاہ میں مہنگائی کے بارے میں حکومت کا دعویٰ اور ان ٹیکسوں کے جواز میں دیے جانے والے دلائل یا غلط فہمیوں پر مبنی ہیں یا عوام کو صریح دھوکا دینے کی جسارت ہے۔ ہم ان    تمام پہلوئوں کا نہایت ٹھنڈے انداز میں اور صرف حقائق اور معاشی دلائل کی بنیاد پر جائزہ لینا  چاہتے ہیں۔

ہمیں جن باتوں سے اتفاق ہے وہ یہ ہیں کہ مجموعی قومی آمدنی کے تناسب کے اعتبار سے ٹیکس کا حجم فی الحقیقت شرم ناک حد تک کم ہے۔ حکومت کو وسائل کی ضرورت ہے اور قوم کو وہ وسائل کھلے دل سے فراہم کرنے چاہییں بشرطیکہ حکومت انھیں صحیح طور پر قومی مقاصد کے لیے استعمال کرے۔ نیز معیشت کی دستاویزبندی بھی ایک مفید کام ہے اور معاشی ترقی اور معاشی انصاف کے قیام کے لیے ضروری اقدام ہے۔ ان بنیادی باتوں کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں۔ اختلاف جس پر ہے وہ یہ ہے کہ جن چیزوں کو بطور دلیل یا جواز پیش کیا جا رہا ہے کیا فی الحقیقت ان کا حصول ان نئے ٹیکسوں کے ذریعے ممکن ہے یا یہ باتیں محض اشک شوئی  کے طور پر کی جارہی ہیں تاکہ اصل حقائق پر پردہ پڑا رہے، اور معیشت کے اساسی مسائل سے اغماض اور عوام کی مشکلات کے حل اور ان کی مصیبتوں سے خلاصی کے باب میں حکومت کی مجرمانہ غفلت اور ناکامی سے توجہ ہٹائی جاسکے۔

آئی ایم ایف کی گرفت

سب سے پہلے آئی ایم ایف کو لیجیے۔ آئی ایم ایف عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا ایک حصہ ہے اور تجارتی خسارہ اور ادایگیوں کے خسارے کی صورت میں وقتی قرض فراہم کرنا اس کا وظیفہ ہے۔ ہرملک کے لیے اس کی عالمی تجارت کی روشنی میں کوٹا مقرر ہے جو SDR کی شکل میں ہوتا ہے اور اس کوٹے کی حد تک کسی نئی شرط کے بغیر اس سے قرضہ لیا جاسکتا ہے جسے ۲۳مہینے میں ادا کرنا ہوتا ہے۔ اگر اس کوٹے سے زیادہ قرض کی درخواست کی جائے تو پھر ان کی شرائط کا معاملہ آتا ہے جو قرض کی مقدار کی مناسبت سے بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ نیز ان کی شرائط کا ایک معروف و معلوم نظام ہے جسے Macro Stabilization Conditionalities کہا جاتا ہے۔ پھر ان کا اصل ہدف ایک معیشت کو گلوبل معیشت میں ضم کرنا، نج کاری اور آزاد تجارت اور سرمایے کی آزادانہ درآمد کو فروغ دینا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آئی ایم ایف ہمیشہ دوغلی پالیسیوں پر کاربند رہا ہے کہ اس کا اصل ہدف مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کا فروغ ہے۔ نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات جوزف اسٹگلٹز نے اپنی کتاب Globalization and Its Discontentsمیں ۴۰ سے سے زیادہ ان ممالک کے معاشی تجربات کو پیش کیا ہے جو ترقی پذیر دنیا میں آئی ایم ایف کے زیراثر پالیسی بنانے پر مجبور ہوئے ہیں، اور دو ایک کو چھوڑ کر یہ پالیسیاں کہیں بھی کامیاب نہیں ہوئی ہیں بلکہ معاشی تباہی کا سبب بنیں۔ خود آئی ایم ایف کے تحت شائع ہونے والے تحقیقی مقالات میں اس کا اعتراف کیا جا رہا ہے۔ لندن کے اخبار گارڈین میں مارک ویزبورڈ نے اپنے مضمون The IMF's New Visionمیں لکھا ہے:

گذشتہ چند برسوں میں آئی ایم ایف نے دہرے معیارات اپنانے کی پالیسی جاری رکھی ہے۔ یہ زیادہ آمدنی والے ممالک کے لیے کساد بازاری کے موقع پر وسعت پذیر مالی اور زری پالیسیوں کی حمایت کرتا ہے، جب کہ متوسط اور کم آمدنی والے ممالک کے لیے ایسا نہیں ہوتا۔ ۲۰۰۹ء میں آئی ایم ایف کے جن ۴۱ ممالک سے جاری معاہدے تھے ان میں سے ۳۱ معاہدے مالی یا زری پالیسیوں یا دونوں کو سخت کرنے والے تھے۔ یہ اس سے بالکل مختلف ہے جو آئی ایم ایف امریکا جیسے امیر ممالک کے لیے تجویز کرتا ہے، جہاں بہت زیادہ بجٹ خسارہ ہے، سود کی شرح صفر کے قریب رکھنے کی پالیسی ہے، اور کسادبازاری کا مقابلہ کرنے کے لیے ہزاروں ارب ڈالر فراہم کیے گئے ہیں۔(دی گارڈین، یکم اپریل ۲۰۱۰ئ)

آئی ایم ایف کے بارے میں سب جانتے ہیں اور خود ہمارا ۴۰ سالہ تجربہ ہے کہ وہ صرف عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے مفادات کا محافظ ہے۔ اس میں فیصلہ سازی کا کُل اختیار سرمایہ دارانہ ممالک کو حاصل ہے اور سب اس کا اعتراف کرتے ہیں: ’’وال اسٹریٹ اور یورپی بنکوں کو اب تک فنڈ کی سمت پر مکمل اختیار حاصل ہے‘‘۔ (دی گارڈین، یکم اپریل ۲۰۱۰ئ)

اس لیے آئی ایم ایف سے قرضوں کے لیے ایس ڈی آر کوٹے جس کے ذریعے کسی  وقت بھی چند سو ملین ڈالر حاصل کیے جاسکتے ہیں، کے راستے کو نظرانداز کرکے ۵ئ۷ ارب اور پھر ۱۱ارب ڈالر کے قرضوں کے لیے جانا ایک ہمالیہ کے برابر غلطی تھی۔ پھر یہ اقدام کسی قومی مشاورت کے بغیر ہوا۔ پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیے بغیر ملک کے بجٹ اور اس کی معاشی پالیسیوں کو آئی ایم ایف کی گرفت میں دے دیا گیا۔ نومبر ۲۰۰۸ء میں یہ سارے معاملات طے کرلیے گئے اور یکم جولائی ۲۰۱۰ء سے عملاً نافذ کردینے کا عہدوپیمان بھی کرلیا گیا، مگر نہ پارلیمنٹ سے اجازت لی گئی اور نہ  ملک کو، حتیٰ کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور معاشی زندگی کی صورت گری کرنے والے تمام اہم اداروں تک کو اعتماد میں لیا گیا اور نہ اس تبدیلی کے لیے تیار کیا گیا۔ اور اب جب پانی   سر سے اُونچا ہوگیا ہے تو پارلیمنٹ کی کنپٹی پر آئی ایم ایف کا پستول تان کر قانون سازی کی جارہی ہے۔ یہ ہے ہمارا اصل اعتراض۔ اس تباہ کن پالیسی کی ساری ذمہ داری اس حکومت پر ہے  جس کے پاس نہ کوئی معاشی اور مالی پالیسیوں میں کوئی ارتباط اور ہم آہنگی نہیں ہے۔ جس نے پونے تین سال کے عرصے میں چار وزراے خزانہ تبدیل کیے ہیں، چار وفاقی فنانس سیکرٹری تبدیل کیے ہیں، تین بار اسٹیٹ بنک کے گورنروں کو تبدیل کیا ہے اور رہا معاملہ پالیسیوں کا تو ان کا حال تو یہ ہے کہ  ع

نے ہاتھ باگ پر ہے، نہ پا ہے رکاب میں!

ٹیکس میں اضافے کی غلط حکمت عملی

اب دوسرے مسئلے کو لیجیے۔

  • بلاشبہہ ٹیکس اور مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کا تناسب بہت کم ہے، یعنی ۳ئ۹ فی صد۔ لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ۸۱-۱۹۸۰ء میں یہ تناسب ۱۴ فی صد تھا۔ ۹۵-۱۹۹۴ء میں کم ہوکر ۷ئ۱۳فی صد رہ گیا۔ ۰۸-۲۰۰۴ء میں ۱۰ فی صد تھا اور اب ۳ئ۹ فی صد ہے۔ معلوم ہوا کہ موجودہ ٹیکس کے نظام میں اگر اسے ٹھیک ٹھیک بروے کار لایا جائے تو ۱۳ اور ۱۴ فی صد تک پہنچنے کی صلاحیت ہے مگر دو بڑی وجوہ سے یہ تناسب کم ہوتا گیا ہے جس میں سب سے اہم ٹیکس کی چوری، ایف بی آر کی کرپشن، اور سیاسی اور معاشی اشرافیہ کی ملی بھگت ہے جس کے نتیجے میں ملک کے خزانے کو ٹیکس کے جائز حصے سے محروم کیا جارہا ہے۔ خود کئی سابقہ وزراے خزانہ اور ایف بی آر کے ذمہ دار حضرات اعتراف کرچکے ہیں کہ ٹیکس چوری کے نتیجے میں خزانے کو ۶۰۰ ارب سالانہ سے ۷۵۰ ارب سالانہ تک کا نقصان ہورہا ہے۔ اگر آج بھی صرف ان ٹیکسوں کی پوری وصولی کا اہتمام ہوجائے جو ملک میں نافذ ہیں تو ٹیکس کی آمدنی میں ۶۰۰ ارب روپے سے زیادہ کا اضافہ ہوسکتا ہے۔ اگر اس کا نصف بھی وصول کرلیا جائے تو ۳۰۰/۳۵۰ ارب روپے وصول ہوسکتے ہیں۔ مسئلہ نئے ٹیکس لگانے کا نہیں، موجود الوقت ٹیکسوں کو دیانت داری سے وصول کرنے کا ہے۔
  • دوسری بڑی وجہ وہ استثنا ہیں جو وقتاً فوقتاً مفاد پرست عناصر کی اثراندازی کی وجہ سے پارلیمنٹ کو یکسر نظرانداز کر کے محکمہ کے ایس آر او (Statutury Regulatory Orders) کے ذریعے دیے جارہے ہیں۔ ان کا دروازہ اگر سختی سے بند کردیا جائے تو ٹیکس کا موجودہ نظام ملک کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے کافی ہے۔ لیکن یہ راستہ اختیار نہیں کیا جا رہا۔
  • تیسرا مسئلہ ٹیکس دینے والوں کی تعداد میں وسعت کا ہے۔ یہ ضرور ہونا چاہیے لیکن یہ مقصد سیلزٹیکس کے مجوزہ قانون سے حاصل ہونا محال ہے۔ یہ ٹیکس ایک بالواسطہ ٹیکس ہے جو امیر اور غریب سب پر اشیا کی قیمتوں میں اضافے کے ذریعے لاگو ہوتا ہے اور ۷۵ فی صد غریب عوام پر پڑتا ہے۔ ٹیکس دینے والوں کی تعداد میں وسعت براہِ راست ٹیکس (direct taxes) کی وصولی سے ہوتی ہے جس کی کوئی فکر نہیں۔ یہ صحیح ہے کہ اس وقت ۱۸کروڑ انسانوں میں سے صرف ۱۸لاکھ، یعنی ایک فی صد انکم اور کورپوریٹ ٹیکس دے رہے ہیں۔ بلاشبہہ براہِ راست ٹیکس ادا کرنے والے لوگوں کی تعداد موجودہ معاشی حالات میں ۷۰ اور ۸۰ لاکھ سے کم نہیں ہونا چاہیے۔ ان کو ٹیکس دینے والوں کے دائرے میں لایئے۔

اس سلسلے میں سب سے اہم طبقات بڑے زمین دار اور جاگیردار ہیں جو انکم ٹیکس سے عملاً مستثنیٰ ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ ملک کی آبادی کا نصف سے زیادہ زراعت پر منحصر ہے۔ قومی آمدنی میں زراعت کے سیکٹر کا حصہ ۲۲فی صد کے قریب ہے مگر ٹیکس میں ان کا حصہ صرف ۲ئ۱ فی صد ہے۔ اور ستم یہ ہے کہ اصل فائدہ اٹھانے والے دیہی آبادی کے ۹۵ فی صد عوام نہیں بلکہ وہ ۵ فی صد زمین دار ہیں جن کے ہاتھوں میں زیرکاشت رقبے کا ۵۰ فی صد ہے اور جن کے رہن سہن کا انداز بادشاہوں جیسا ہے جو دیہات میں نہیں شہروں میں بھی محلات کے مالک ہیں۔ گیلانی صاحب کی حکومت نے یک قلم گندم کی قیمت خرید میں ۴۵۰ روپے فی من سے بڑھا کر ۹۵۰ روپے فی من کا جو اضافہ کیا تھا اس سے زرعی سیکٹر کی آمدنی میں ۳۸۰ ارب روپے کا اضافہ ہوا جس کا کم از کم ۷۵ فی صد ان ۶ ہزار زمین دار خاندانوں کے حصے میں آیا، جو بڑے بڑے رقبوں (farms) کے مالک ہیں مگر اس سے ایک روپیہ بھی قومی خزانے میں نہیں آیا، اس لیے کہ زرعی آمدنی، خواہ کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو انکم ٹیکس سے مستثنیٰ ہے۔ اسی طرح  زمین اور عمارات کی خریدفروخت اور capital gains وہ میدان ہیں جہاں دولت کی ریل پیل ہے اور ٹیکسوں کا فقدان۔ بڑے بڑے پیشہ ور ماہرین  بھی اپنے حصے کا ٹیکس  ادا نہیں کر رہے۔ متوسط طبقے میں تاجروں، آڑھتیوں کا اور ٹرانسپورٹروں کا بڑا طبقہ ہے جو ٹیکس کے دائرے سے باہر ہے۔ مجوزہ ٹیکسوں میں ان کو ٹیکس کے دائرے میں لانے کی کوئی تدبیر نہیں بلکہ ان ۱۸ لاکھ افراد ہی پر ۱۰ فی صد کی مزید چٹی لگا دی گئی ہے جو طوعاً وکرہاً ٹیکس ادا کررہے ہیں۔

یہ بات بھی قابلِ غور ہے سیلزٹیکس کے نئے قانون کے ذریعے یہ ٹیکس جن اداروں اور تجارتی کمپنیوں پر لاگو ہوگا ان کی استثنا کی حد کو ۵۰لاکھ سے بڑھا کر ۷۵ لاکھ روپے کی سالانہ کاروباری حجم پر کر دیا گیا ہے۔ گویا ماضی میں بہت سے ایسے ادارے جو ٹیکس کے نیٹ میں تھے ان کے نکلنے کا راستہ کھل گیا ہے۔ اس سے ٹیکس نیٹ میں اضافہ ہوگا یا کمی، یہ بھی دیکھنے کی بات ہے۔

ٹیکس کے دائرے میں نادہندہ افراد اور اداروں کو لانے کا ایک معروف طریقہ یہ ہے کہ قانونی اور انتظامی تدابیر کے ساتھ اس کے لیے محرکات (incentives) فراہم کیے جاتے ہیں۔ نیز ٹیکس دائرے میں لانے کے لیے ایسے آسان طریقے اختیار کیے جاتے ہیں جن سے کاروباری اداروں کو وحشت نہ ہو۔ خود تشخیصی کا طریقہ اس سلسلے کا اہم اقدام ہے۔ سب سے بڑھ کر اس کے لیے جو راستہ اختیار کیا جاتا ہے وہ ٹیکس کی شرح کو بہت معمولی رکھنا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس میں آجائیں اور زیادہ تکلیف بھی نہ محسوس کریں۔ ٹیکس کی شرح کو اُونچا رکھنے کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اس سے ٹیکس سے فرار کو ترغیب ملتی ہے۔ انگلستان میں جب ۳۰سال پہلے VAT لگایا گیا   تو اوّل اوّل اس کی شرح صرف ۳ فی صد تھی جسے کاروباری دنیا نے بخوشی قبول کرلیا۔ ۳۰سال   کے عرصے میں آہستہ آہستہ اس کو بڑھا کر ساڑھے ۱۷ فی صد تک لے جایا گیا مگر ساتھ ہی   اشیاے خوراک، بچوں کی تمام ضروریات، تعلیم اور ادویات کو ٹیکس سے باہر رکھا گیا۔ ہمارے یہاں آغاز ہی ۱۵ فی صد سے ہوتا ہے اور توقع کی جاتی ہے کہ ٹیکس نیٹ میں لوگ بہ آسانی آجائیں گے۔ اسے کیا کہا جائے؟

  • چوتھی چیز کا تعلق دستاویز بندی سے ہے۔ یہاں بھی ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم اس کے حق میں ہیں لیکن جو راستہ موجودہ حکومت نے اختیار کیا ہے وہ اس طرف لے جاتا ہوا نظر نہیں آتا۔ یہ کام افہام و تفہیم اور ٹیکس کے ایک سہولت اور تعاون پر مبنی نظام سے ہوسکتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف اور شوکت عزیز صاحب نے بھی دو ماہ دستاویز بندی کے نام پر ملک کی پوری معاشی زندگی کو درہم برہم کر دیا تھا اور ہمیں شبہہ ہے کہ موجودہ حکومت کا تجربہ بھی زیادہ مختلف نتائج دکھاتا نظر نہیں آرہا۔

قومی وسائل کا بے دردی سے استعمال

انکم ٹیکس اور ایکسائز ڈیوٹی میں اضافے کی مخالفت ہم اس لیے کر رہے ہیں کہ یہ بوجھ  عوام کی برداشت سے باہر ہے اور اس کا سارا بوجھ ان لوگوں پر پڑے گا جو ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ وزیرخزانہ نے سینیٹ میں اپنی تقریر میں بڑے استہزائی انداز میں فرمایا کہ جن کی آمدنی ۳لاکھ روپے سالانہ ہے ان پر چھے مہینے میں محض ۱۵۰ روپے کا بوجھ پڑے گا۔ اس پر اتنی آہ و بکا چہ معنی؟

ہم عرض کریں گے کہ صرف ۱۵۰ نہیں، لوگ اس سے ۱۰ گنا دینے کو تیار ہیں اور عملاً سرکاری مشینری سے باہر اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کے لیے دے رہے ہیں لیکن وہ اس حکومت کو مزید ٹیکس ادا کرنے کے لیے اس لیے تیار نہیں ہیں کہ اس کا صدر، اس کا وزیراعظم، اس کا وزیرخزانہ، اس کی خزانہ کی وزیرمملکت اور کابینہ کے دو درجن سے زیادہ وزرا لاکھوں نہیں کروڑوں اور کچھ تو اربوں کے اثاثے رکھنے کے باوجود انکم ٹیکس کی مد میں کچھ بھی نہیں دے رہے ہیں یا مضحکہ خیز حد تک نمایشی ٹیکس دے رہے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ اس بات کا اطلاق پارلیمنٹ کے دوسرے بہت سے ارکان اور ملک کے اربابِ ثروت پر بھی ہوتا ہے۔ اس لیے یہ بات سمجھنے کی ہے کہ سیلاب کے نام پر اضافے پر اعتراض کی اصل وجہ اعتماد کا فقدان ہے جو حکمرانوں اور عوام کے درمیان ہے۔ نیز اربابِ اقتدار اور اربابِ دولت کا وہ رویہ ہے جس کی رُو سے وہ فوائد سارے اُٹھا رہے ہیں اور ملک اور خزانے کا حق ادا نہیں کر رہے۔ ۱۰۰ وزیروں کی کابینہ کا کیا جواز ہے؟ سندھ اور بلوچستان کے دسیوں وزیر ہیں جن کا کوئی عہدہ نہیں لیکن وہ مراعات لے رہے ہیں۔ بلوچستان میں اسمبلی کے ۶۲ارکان میں سے ۶۰ وزیر یا مشیر ہیں۔ ایوانِ صدر اور ایوانِ وزیراعظم کاسرکاری خزانے سے یومیہ خرچہ ۱۳ لاکھ روپے ہے، جب کہ آبادی کے ۴۰ فی صد کی یومیہ آمدنی ۸۵ روپے اور ۷۵ فی صد کی ۱۵۰ روپے سے کم ہے۔

سیلاب زدگان اور دوسرے مصیبت زدہ افراد کی مدد کے لیے ہیلی کوپٹر مفقود ہیں یا امریکا سے قرض پر حاصل کیے جاتے ہیں، جب کہ وی وی آئی پیز کے لیے دو درجن سے زیادہ جہاز اور ہیلی کوپٹر موجود ہیں جن کو ذاتی اغراض کے لیے بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ اعزہ اور دوستوں کو دعوتوں میں لانے کے لیے یہ جہاز گردش کرتے ہیں۔ پھر جو رقم یہ قوم اپنا پیٹ کاٹ کر حکومت کے خزانے میں دیتی ہے اس کا ناجائز اور ناروا استعمال ہے۔ زندگی کے ہرشعبے میں کرپشن ہے جس کا محتاط ترین اندازہ ۱۰۰۰ ارب روپے سالانہ سے زیادہ کا ہے۔ سرکاری کارپوریشنوں کا ۴۰۰ ارب روپے سالانہ کا خسارہ اس ظلم کا منہ بولتا ثبوت ہے جو اس ملک کے عوام پر کیا جا رہا ہے۔ اس پر مستزاد مہنگائی ہے جس کے عمومی انڈکس میں پچھلے پونے تین سال میں ۵۰ فی صد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے اور اشیاے ضرورت میں تو یہ اضافہ ۱۰۰ فی صد سے زیادہ ہے۔ بجلی کے نرخ میں    ۱۲۰ فی صدکا اضافہ ہے، اور لوڈشیڈنگ اس پر مستزاد۔

حکومت قرض آنکھیں بند کرکے لے رہی ہے۔ ان پونے تین سالوں میں ملک کے اندرونی قرضوں میں ۴ ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے، جب کہ گذشتہ ۶۰ سال میں ملا کر یہ  مجموعی رقم ۴۸۰۰ارب روپے ہے۔ اس طرح بیرونی قرضوں میں صرف اس حکومت کے دور میں ۵ئ۱۵ ارب ڈالر کا اضافہ ہوا اور آج صرف سود کی مد میں اس قوم کو ۷۱۷ ارب روپے سالانہ     ادا کرنے پڑرہے ہیں۔ اسی طرح ان پونے تین سالوں میں ۱۵۴۵ صنعتیں بند ہوئی ہیں اور    بے روزگاری میں اضافے کی رفتار ساڑھے سات فی صد سے بڑھ کر ۱۳ اور ۱۴ فی صد تک ہوگئی ہے۔ غربت میں اضافہ ہوا ہے اور لوگ خودکشی اور اولاد فروشی پر مجبور ہورہے ہیں___ یہ ہیں ملک کے اصل مسائل اور وزیرخزانہ فرماتے ہیں کہ ۱۵۰ روپے کیا ہوتے ہیں۔ انقلابِ فرانس سے پہلے بھی ایسے ہی حالات تھے جب ملکۂ فرانس نے کہا تھا کہ ’’یہ عوام روٹی کے لیے کیوں چیخ و پکار کر رہے ہیں، روٹی نہیں ملتی تو کیک کھا لیں!‘‘

سیلزٹیکس کے قانون پر اعتراضات

سیلزٹیکس کا جو قانون لایا گیا ہے اس پر ہمارا اصل اعتراض یہ ہے کہ یہ ایک بالواسطہ ٹیکس ہے جو پیچھے کی طرف لے جانے والا (regressive) ہے۔ اس کا زیادہ بوجھ غریب عوام پر پڑے گا جس کے نتیجے میں مہنگائی بڑھے گی، پیداوار کی لاگت میں اضافہ ہوگا اور بین الاقوامی منڈیوں میں ہماری صلاحیت کار بری طرح متاثر ہوگی۔ اس وقت بھی ٹیکس کی کُل آمدنی میں بالواسطہ ٹیکس کا تناسب ۶۲ فی صد ہے جو نئے ٹیکس کے بعد خدشہ ہے کہ بڑھ کر ۶۵سے ۷۰ فی صد ہوجائے گا جو عوام کی کمر توڑ دے گا، اور دولت کی غیرمساویانہ تقسیم کو اور بھی غیر مساوی اور غیرمنصفانہ کردے گا۔ معاشیات کا یہ ایک مسلّمہ اصول ہے کہ بالواسطہ ٹیکس غریبوں کے لیے بوجھ اور دولت مندوں کے لیے مراعات فراہم کرنے کا ذریعہ ہیں۔

ہمارا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ سیلزٹیکس کے اس نظام میں معاشرے کے مختلف طبقات اور مختلف آمدنیوں والوں کے استعمال کی اشیا میں جو فرق کرنا ضروری تھا وہ مفقود ہے۔

دنیا کے جن ممالک میں سیلزٹیکس یا VAT رائج ہے ان میں سے ایک بڑی تعداد، یعنی تقریباً ۷۰ میں اشیاے ضرورت اور عام اشیا، بچوں کے استعمال کی چیزیں، تعلیم اور صحت سے متعلقہ اشیا میں فرق کیا جاتا ہے۔ نہایت ضروری اشیا کو غریب ہی نہیں ترقی پسند ممالک میں بھی ٹیکس سے مکمل استثنا دیا جاتا ہے۔ دوسری ضروری اشیا پر ٹیکس کی شرح کم ہوتی ہے، جب کہ باقی تمام اشیا اور خدمات پر ٹیکس زیادہ اُونچی شرح سے لگایا جاتا ہے۔ مگر ہماری حکومت نے چند اشیا کے استثنا کے بعد تمام اشیا اور خدمات پر ۱۵ فی صد کی نہایت اُونچی شرح سے ٹیکس عائد کیا ہے۔ اس وقت جو ۷۰۰ اشیا ٹیکس سے مستثنیٰ تھیں ان میں ۵۵۰ کو ٹیکس کے نظام میں لے آیا گیا ہے، نیز معیشت کے پانچ بڑے سیکٹر بشمول ٹیکسٹائل انڈسٹری، لیدر انڈسٹری، کارپٹ انڈسٹری، سپورٹس اور سرجیکل انسٹرومنٹ کی صنعتوں کو اس کے دائرے میں بیک جنبش قلم لے آیا گیا ہے۔ اور یہ کام بھی کسی تدریج سے نہیں کیا گیا بلکہ بیک وقت  ۱۵ فی صد ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ ا س سے معاشی بھونچال اگر نہ آئے توکیا ہو، اور مہنگائی کے طوفان میں مزید سیلابی کیفیت پیدا نہ ہو تو کیا ہو۔

ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں بھی سیلزٹیکس کا ایسا ہی نظام رائج ہے لیکن اسے نافذ کرنے کے لیے کئی سال افہام و تفہیم کا سلسلہ جاری رہا اور قومی اور صوبائی اتفاق راے پیدا کرکے نافذ کیا گیا، نیز اس کی تین شرح ہیں۔ قیمتی جواہرو زیورات کے لیے ایک فی صد، اشیاے ضرورت کے لیے ۴فی صد اور عام اشیا پر ساڑھے ۱۲ فی صد۔ ترقی پذیر ممالک میں بالعموم اس کی شرح کم ہے، مثلاً مصر میں ۱۰ فی صد، ایران میں ۳ فی صد، انڈونیشیا میں اشیاے ضرورت پر ۵ فی صد اور باقی اشیا پر ۱۰ فی صد، ملائشیا میں ۱۰ فی صد، جنوبی کوریا میں ۱۰ فی صد، سنگاپور میں ۷ فی صد، سری لنکا میں اشیاے ضرورت پر ۴ئ۲ فی صد، ہوٹل سیکٹر پر ۶ئ۳ فی صد اور عام اشیا پر ۱۲ فی صد۔ تھائی لینڈ میں ۷فی صد، تائیوان میں ۵ فی صد، ویت نام میں اشیاے ضرورت پر ۵ فی صد اور عام اشیا پر ۱۰فی صد۔

ترقی یافتہ ممالک میں کچھ ممالک میں یہ ۲۰ بلکہ ۳۰ فی صد تک ہے لیکن وہاں بھی اشیاے ضرورت اور عام اشیا میں بالعموم فرق کیا گیا ہے اور ایسی مثالیں بھی ہیں کہ شرح ٹیکس کو بہت کم اور معقول رکھا گیا ہے، مثلاً جاپان میں ۵ فی صد، سوئٹزرلینڈ میں ۸ئ۳ اور ۸ فی صد۔ فرانس میں ۱ئ۲ فی صد، ۵ئ۵ فی اور ۶ئ۱۳ فی صد، آئرلینڈ میں ۸ئ۴ اور ۵ئ۱۳ فی صد۔ لکسمبرگ میں ۳، ۶، ۹، ۱۲ فی صد اور ۱۵ فی صد، یعنی پانچ کیٹگریاں بنائی گئی ہیں۔ آسٹریلیا میں ۱۰ فی صد اور کینیڈا میں ۵ فی صد ہے۔

افسوس ہے کہ ہماری معاشی ٹیم کی نگاہ دنیا کے ان کامیاب تجربات پر نہیں اور وہ آئی ایم ایف کے احکام کے دبائو میں ملکی معیشت کے حالات کو نظرانداز کرتے ہوئے واحد شرح اور وہ بھی اتنی زیادہ، یعنی ۱۵ فی صد کا راستہ اختیار کر رہی ہے حالانکہ ماہرین معاشیات کی عظیم اکثریت یہ کہتی ہے: ’’جن ممالک میں آمدنیوں میں بہت زیادہ فرق ہیں، وہاں یکساں شرح مناسب نہیں‘‘۔

ٹیکس نظام بدلنے کی ضرورت

ہماری نگاہ میں ٹیکس کے سلسلے میں دو فیصلہ کن اور اہم ترین ایشو یہ ہیں کہ ٹیکس کے نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے تاکہ ڈائرکٹ ٹیکس بڑھیں جن میں انکم ٹیکس کے دائرے کو مؤثر کرنا،    ویلتھ ٹیکس کے ایسے نظام کی تشکیل جو دولت مند اشرافیہ کو ٹیکس کی گرفت میں لاسکے۔ عام کاشتکار نہیں، زرعی آمدنی سے فیض یاب ہونے والے بڑے زمین داروں، وڈیروں اور جاگیرداروں کو ٹیکس کے دائرے میں لانے کے اقدامات، بازار حصص میں سرمایہ کاری کے منافع پر ٹیکس، ایک حد سے زیادہ پر جایداد ٹیکس، نیز جایداد کے کاروبار پر ٹیکس، ٹرانسپورٹ سیکٹر اور ٹیلی کمیونی کیشن کے دائرے کو ٹیکس کے منصفانہ نظام میں لانا وقت کی ضرورت ہے۔

دوسری چیز یہ ہے کہ بالواسطہ ٹیکسوں میں بھی اشیاے ضرورت اور عام اشیا، زرعی آلات اور انرجی پر اخراجات کو معقول حدود میں رکھنے کے لیے اشیا اور خدمات پر ٹیکس کا وہ نظام رائج کرنا جو متعدد شرحوں کے اصول پر مبنی ہو نہ کہ واحد شرح کا نظام جو ہمارے حالات سے مطابقت    نہیں رکھتا۔

آخر میں ہم ایک بات یہ بھی کہنا چاہتے ہیں کہ اس ٹیکس کو نافذ کرنے کے لیے حکومت اور ایف بی آر کے لیے جس تیاری اور capacity buildingکی ضرورت تھی، اسے مجرمانہ حد تک نظرانداز کیا گیا ہے۔ اسی طرح تجارتی اور صنعتی کمیونٹی اور معیشت کے دوسرے اسٹیک ہولڈرز کو افہام و تفہیم کے کسی نظام میں لائے بغیر اور پارلیمنٹ، عوام اور معیشت کے کرتا دھرتا افراد میں اتفاق راے پیدا کیے بغیر اسے ملک پر مسلط کیا جا رہا ہے، حتیٰ کہ پارلیمانی آداب اور قواعد تک کو نظرانداز کرکے سینیٹ میں اسے بل ڈوز کیا گیا، اور اب قومی اسمبلی کے لیے سودے بازی، لین دین یعنی wheeling dealingکا ایک مکروہ کاروبار ہے جو جاری ہے۔ یہ طریقہ پالیسی سازی اور حکمرانی کا نہیں۔ نیز اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کی خودمختاری کے سلسلے میں جو دستوری ترامیم کی گئی ہیں اور دستور کی دفعہ ۱۴۴ کے جو تقاضے تھے وہ بھی پورے نہیں کیے گئے ہیں۔ دھونس اور  بلیک میلنگ کے ذریعے جو قانون سازی کی جائے گی اس کا انجام بڑا تباہ کن ہوگا۔ ہم پوری دردمندی سے حکمرانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ ہوش کے ناخن لیں، مشاورت کے ذریعے اتفاق راے      پیدا کرنے کی کوشش کریں، مرکز اور صوبوں میں مکمل ہم آہنگی پیدا کریں، بیرونی دبائو کے تحت پالیسی سازی نہ کریں، بلکہ ملک کے معروضی حالات کو سامنے رکھ کر وہ راستہ اختیار کریں جس سے ملک موجودہ معاشی بحران سے نکل سکے۔

حقیقت یہ ہے کہ اس قانون کے نفاذ کے لیے آج کے حالات قطعاً ناموزوں ہیں۔ جب معیشت بحران کا شکار اور کساد بازاری کے دہانے پر ہو، اس وقت ایسے قوانین کو نافذ نہیں کیا جاتا۔ ہاں، جب معیشت ترقی کے راستے پر گامزن ہو تو نئے ٹیکسوں کے لگائے جانے کے لیے فضا سازگار ہوسکتی ہے۔ وسائل کے حصول کے لیے متبادل راستے موجود ہیں۔ اخراجات کی کمی، نئے وسائل کی تلاش، کرپشن اور ٹیکس سے فرار کے دروازے کو بند کرکے وہ وسائل حاصل کیے جاسکتے ہیں جو سیلاب کی تباہ کاریوں کا مقابلہ کرنے کے لیے درکار ہیں اور جو ملک کو قرضوں کے نظام سے نجات اور خودانحصاری کی طرف گامزن کرسکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے سب سے پہلے صحیح وژن کی ضرورت ہے۔ باصلاحیت اور ایمان دار ٹیم ہی یہ کام کرسکتی ہے۔ قیادت کو اپنے رنگ ڈھنگ کو بدلنا ہوگا۔ جو لوگ ملکی وسائل کو لوٹ رہے ہیں یا جن کی دولت ملک سے باہر ہے اور ان کی دل چسپیاں محض اپنی جیب بھرنے اور اپنوں کو نوازنے میں ہیں، ان سے نجات ضروری ہے۔ ہمارا اصل مسئلہ وسائل کی کمی نہیں، بددیانت اور نااہل قیادت ہے جس نے ایک وسائل سے مالا مال ملک کو کنگال کر دیا ہے اور آج بھی صحیح منزل اور صحیح ترجیحات کو اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں۔ قوم کے سامنے آج اصل سوال یہی ہے کہ کیا یہ قیادت اپنے کو بدلنے کو تیار ہے؟ اور اگر نہیں تو پھر اس کو بدلے بغیر بحران سے نکلنے کا کوئی اور راستہ نہیں     ؎

یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے

صنم کدہ ہے جہاں، لا الٰہ الا اللہ

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے ہم ایک غزوہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے تو آپؐ نے ایک آدمی کے متعلق جو اسلام کا دعوے دار تھا، فرمایا کہ یہ جہنمی ہے۔ جب جنگ شروع ہوئی تو اس آدمی نے جنگ میں زور و شور سے حصہ لیا اور بھرپور اور زبردست حملے کیے، اسے گہرے زخم لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ جس آدمی کے متعلق آپؐ نے فرمایا تھا کہ وہ جہنمی ہے ، اس نے تو آج سخت لڑائی لڑی اور وہ مر گیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ جہنم کی طرف چلا گیا۔ قریب تھا کہ کچھ لوگ آپؐ کے ارشاد کے متعلق شک و شبہے میں مبتلاہوجاتے کہ اطلاع آئی کہ وہ مرا نہیں زندہ ہے لیکن اسے سخت گہرے زخم آئے ہیں۔ جب رات آئی اور وہ زخموں کی تکلیف برداشت نہ کرسکا تو اس نے خودکشی کرلی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی گئی تو آپؐ نے اللہ اکبر کا کلمہ بلند کیا اور فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں، پھر بلال کو حکم دیا کہ وہ اعلان کریں کہ جنت میں نہیں داخل ہوگا مگر مسلمان آدمی، اللہ تعالیٰ بعض اوقات اس دین کی تائید و تقویت بدکار انسان کے ذریعے بھی فرماتا ہے۔ (بخاری، حدیث ۳۰۶۲، ۴۲۰۱، ۶۶۰۶)

جس شخص کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں، کتابوں اور آخرت پر ایمان ہو وہ کبھی بھی خودکشی نہیں کرسکتا۔ وہ دنیا کی بڑی سے بڑی تکلیف کو تھوڑا اور معمولی سمجھتا ہے اور آخرت کی تکلیف کو بہت سخت سمجھتا ہے۔ وہ دنیا کی تکلیف کو برداشت کرلیتا ہے اور آخرت کی تکلیف کو برداشت کرنے سے ڈرتا اور اپنے آپ کو بچاتا ہے۔ صحابہ کرامؓ کو طرح طرح کی تکالیف سے گزرنا پڑا لیکن انھوں نے کبھی بھی حوصلہ نہیں ہارا۔ آج غیرمسلم معاشروں میں خودکشیاں بڑے پیمانے پر ہو رہی ہیں مگر افسوس کہ مسلمان معاشرے بھی ان سے متاثر ہوکر خودکشیوں کا شکار ہو رہے ہیں۔

ان خودکشیوں کو روکنے کا طریقہ یہ ہے کہ اوّلاً حکومت اپنی ذمہ داری پوری کرے۔ روزگار اور بنیادی ضروریات روٹی، کپڑا، مکان، علاج اور تعلیم کی سہولت ہر شہری کو فراہم کرے۔ ثانیاً بڑے پیمانے پر عقیدے اور فکر کی اصلاح کرے۔ ایمان اور اسلام کو دلوں میں زندہ کرنا، اس کا شعور پیدا کرنا اور فکرِآخرت کی آبیاری اس کا حل ہے۔ دعوت و تبلیغ اور اقامت دین کی علَم بردار تحریکوں کو ایک طرف دین کا شعور عام کرنے اور فکرِ آخرت پیدا کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ تو دوسری طرف غربت و افلاس سے دوچار افراد کو احساسِ تنہائی سے نکال کر معاشی سہارا بھی فراہم کرنا چاہیے۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا خودکشی کی خبروں کو سنسنی خیز انداز میں نہ پھیلائیں بلکہ اس رجحان کی حوصلہ شکنی کریں اور لوگوں کو اُمید اور حوصلہ دینے کے ساتھ ساتھ ان کی اخلاقی ذمہ داریوں سے بھی آگاہ کریں۔ اصلاحِ معاشرہ کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو بھی عملی جامہ پہنایا جائے۔

o

حضرت ابوسعید خدریؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسرا اور معراج کی رات، میں ایسے لوگوں کے پاس سے گزرا جن کے پیٹ بڑے گھر جتنے بڑے ہیں اور ان کے سامنے پڑے ہیں۔ وہ اُٹھنے کی کوشش کرتے ہیں تو گر جاتے ہیں۔ اُٹھتے ہیں تو پیٹ انھیں پھر گرا دیتے ہیں۔ میں نے جبریل علیہ السلام سے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ انھوں نے جواب دیا:  یہ سودخور ہیں۔ قیامت کے روز یہ ان لوگوں کی طرح کھڑے ہوں گے جن کو شیطان مَس کر کے خبطی بنادیتا ہے۔ (الترغیب والترہیب، لابی القاسم اصبہانی، حدیث ۱۳۷۳)

سود خوروں کی اخروی سزا مذکورہ حدیث میں بیان کی گئی ہے۔ ان کی دنیاوی سزا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سود کو مٹا دیتا ہے اور صدقات کو بڑھا دیتا ہے۔ (البقرہ۲:۲۷۶)

سودی نظام کی وجہ سے معیشت تباہ ہوجاتی ہے لیکن سود خور سودی نظام کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اللہ تعالیٰ وقتاً فوقتاً اس کی تباہ کاریوں کے نشانات ظاہر کرتے رہتے ہیں۔ کبھی زلزلہ آجاتا ہے، کبھی قحط سالی اور کبھی سیلاب اور کبھی معاشی بحران کا سامنا ہوتا ہے۔ ان آفات کے ذریعے اتنا  بڑا نقصان ہوجاتا ہے کہ اربوں کھربوں خرچ کرنے سے بھی تلافی نہیں ہوسکتی۔ سودخور پھر بھی سودی قرضوں کا لین دین جاری رکھتے ہیں اور معاشرے کو معاشی لحاظ سے کھڑا ہونے کے قابل نہیں چھوڑتے۔ سودی نظام کی وجہ سے ملکی آزادی اور خودمختاری بھی دائو پر لگ جاتی ہے اور قتل و غارت گری کا وبال امن و امان کا جنازہ نکال دیتا ہے۔ مفلسی کے ہاتھوں تنگ آکر لوگ ایک دوسرے کو بلکہ خود اپنے آپ کو، اپنے ماں باپ اور اپنی اولاد تک کو قتل کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس صورتِ حال کو تبدیل کرنے کے لیے ناگزیر ہے کہ سود کی لعنت سے فوری طور پر نجات حاصل کی جائے، نیز متبادل بلاسود معیشت کو فروغ دیا جائے۔ یہ نہ صرف ہمارے معاشی مسائل کا حل ہے بلکہ اس کے نتیجے میں اسلام کے معاشی نظام کی برکات سے بھی ہم پوری طرح مستفید ہوسکیں گے۔ ضرورت آگے بڑھ کر اقدام کرنے کی ہے۔

o

حضرت عبداللہ بن عمرؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بجلی کی گرج اور کڑک کی آواز سنتے تو دعا کرتے: اے اللہ! ہمیں اپنے غضب اور اپنے عذاب سے ہلاک نہ فرمانا، عذاب نازل کرنے سے پہلے ہمیں معاف فرما دینا۔ (ترمذی، حدیث ۳۴۵۰)

اللہ تعالیٰ کا خوف کرنا اور خوف کے آثار سے متاثر ہونا ایمانی زندگی کی علامت ہے۔ آج ایسے کتنے ہی آثار ہمارے سامنے آتے ہیں جو اللہ تعالیٰ اور اس کی پکڑ سے ڈراتے ہیں لیکن ہم پر ان کا کچھ بھی اثر نہیں ہوتا۔ یہ سنگ دلی کی علامت ہے جو انتہائی خطرناک ہے۔ یہ سنگدلی بسااوقات مُردہ دلی کی   حد میں داخل ہوجاتی ہے۔ انسان ایمان سے محروم بھی ہوجاتا ہے اور اسے اس کا پتا تک نہیں چلتا۔   یہ حدیث ہمیں بیدار رہنے کی تلقین کرتی ہے۔

o

علقمہ بن وائل اپنے والد وائل سے روایت کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں حاضر تھا جب قاتل کو مقتول کا ولی (وارث) رسی میں پکڑے لا رہا تھا۔ رسول ؐاللہ نے پوچھا: کیا تم معاف کرتے ہو؟ اس نے کہا: نہیں۔ پھر فرمایا: کیا دیت لیتے ہو؟ کہا: نہیں۔ فرمایا: پھر تم اسے قتل کر دو گے۔ اس نے کہا: ہاں۔ آپؐ نے فرمایا: چلو لے جائو۔ پھر آپؐ نے فرمایا: سنو! اگر تم اسے معاف کر دو تو یہ اپنے اور اپنے مقتول ساتھی کے گناہ کا مستحق ہوگا۔ تب اس نے معاف کر دیا۔ میں نے اسے دیکھا کہ وہ اپنی رسی کو کھینچتے ہوئے جا رہا تھا۔ (نسائی، حدیث ۵۴۱۷)

اسلام نے ایک ایسے معاشرے اور ماحول کو جنم دیا جس میں لوگ ایک دوسرے سے رحمت و محبت اور عفو و درگزر کے ساتھ خوش حالی کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ جب ایک قاتل کو معافی مل جاتی ہے تو وہ مقتول کے ورثا کے زیراحسان ہوکر شکرگزار اور خدمت گزار بن جاتا ہے، اور اس سے معاف کرنے والوں کی دنیا اور آخرت دونوں سنور جاتی ہیں۔ قصاص اور دیت کے فوائد سے بڑھ کر فوائد حاصل ہوجاتے ہیں۔

o

حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ایسی چیز کا دعویٰ کیا جو اس کی نہیں ہے تو وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔ (ابن ماجہ، حدیث ۲۳۱۹)

ہم اپنے ارد گرد معاشرے کا جائزہ لیں تو دیکھیں گے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بنیادی تعلیم کو نظرنداز کرنے کی وجہ سے زندگی فساد اور بدامنی کا شکار ہے۔ عدالتوں میں مقدمات کا طومار اسی وجہ سے ہے۔ اجتماعی اور انفرادی زندگی کے کسی بھی گوشے کو دیکھیں، پریشانیوں اور تکالیف کا سب سے بڑا سبب اسی ہدایت کی خلاف ورزی کرنا ہے، جب کہ اس پر جہنم کی وعید ہے اور آپؐ نے ایسے شخص کو اُمت سے خارج قرار دیا ہے۔ آپ تھوڑی دیر کے لیے سوچیں کہ سب مسلمانوں کا حال اس کے مطابق ہو تو زندگی کا کیا نقشہ ہوگا۔ کوئی کسی دوسرے کے حق پر دست اندازی نہ کرے تو کتنا چین و سکون ہوگا۔

o

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندہ جب لوگوں کے سامنے نماز پڑھتا ہے اور اسے خوب صورت بناتا ہے اور جب چھپ کر نماز پڑھتا ہے اور اسے خوب صورت بناتا ہے (یعنی کھلے چھپے دونوں حال میں اچھی نماز پڑھتا ہے) تو یہ میرا حقیقی بندہ ہے۔ (ابن ماجہ، حدیث ۴۲۰۰)

نمازی کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ ایسی نماز پڑھے کہ کھلی اور چھپی حالت میں فرق نہ رہے اور دونوں حالتوں میں اس کی نماز بہترین ہو۔ ایسی بہترین کہ اللہ تعالیٰ اسے اپنا حقیقی بندہ قرار دے دیں۔ بندگی کا یہی مقام تو مطلوب ہے!

یہی مومن کی شان ہے، وہ ریاکاری سے پاک ہوتا ہے۔ اس کا ظاہر و باطن ایک ہوتا ہے۔ نماز ہی نہیں، وہ زندگی کی ہر سرگرمی کو، کھلے یا چھپے، رضاے الٰہی کے لیے بہترین انداز سے انجام دیتا ہے۔

شیطان کا ابن آدم کو چیلنج ہے کہ وہ دائیں اور بائیں اور سامنے اور پیچھے سے حملہ آور ہوگا اور اللہ کے مخلص بندوں کے سوا ہر کسی کو اپنے جال میں پھنسا لے گا۔ ایک ہی مقصد کے لیے اور ایک ہی ہدف پر بار بار حملے کرنا بھی شیطان کے طریق کار کا تیر بہدف ہتھیار ہے۔ ہٹلر کے وزیراطلاعات گوبلز نے بھی شیطان کے اس کھیل کا ایک پہلو اپنے اس حربے کی شکل میں بنالیا تھا کہ ایک جھوٹ کو اتنی بار دہرائو کہ لوگ اسے سچ سمجھنے لگیں۔ آج کی استعماری قوتیں اور ان کے  آلۂ کار انھی تمام حربوں کا بے دریغ استعمال کر رہے ہیں اور ان کا ایک خاص نشانہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارک اور اسلام کے تصورِ عدل اور جہاد ہیں۔ اپنی اصل کے اعتبار سے اعتراض بہت پرانا ہے اور اتنا گھسا پٹا ہے کہ تعجب ہوتا ہے کہ شیطانی قوتیں ان چلے ہوئے کارتوسوں کو باربار کس دیدہ دلیرہ سے استعمال کر رہی ہے۔ لیکن چونکہ یہ حملے برابر جاری ہیں اور ایک ہی ڈراما ہے جس کو تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد دہرایا جاتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ ان تمام اعتراضات کا جواب بار بار دیا جائے اور تمام ریشہ دوانیوں کا پردہ ہربار چاک کیا جائے۔

آج جو کھیل آسیہ مسیح کے نام پر کھیلا جارہا ہے وہ اس سے مختلف نہیں جو چند سال پہلے گوجرانوالہ میں رچایا گیا تھا۔ اس موقع پر مدیر ترجمان القرآن اور میرے بھائی  خرم مرادؒ نے ’توہین رسالتؐ کا مقدمہ‘ کے عنوان سے ایک گراں قدر مقالہ لکھا تھا جس میں مسئلے کے تمام پہلوئوں کا بڑے مدلل انداز میں اور کمالِ عدل کے ساتھ احاطہ کیا گیا تھا۔ آج یہ بحث ایک بار پھر برپا کردی گئی ہے اور پوری سیکولر لابی یک زبان ہوکر توہینِ رسالتؐ کے مبنی برحق قانون پر حملہ آور ہوگئی ہے تو ہم نے ضروری سمجھا کہ ایک بار پھر بطور تذکیر اس مقالے کو قارئین ترجمان کے سامنے لائیں، اور ترجمان کے ذریعے پوری قوم اور خود معتبرین کو اس کے مندرجات پر کھلے دل اور دیانت سے    غور کرنے کی دعوت دیں۔ اس ماہ کے ’اشارات‘ بھی تازہ واقعے اور اس کے تعلق سے اُٹھائے جانے والے سوالات سے متعلق ہیں جو برادر عزیز ڈاکٹر انیس احمد کے قلم سے ہیں۔ ’اشارات‘ اور یہ مضمون اس وقت کی بحث کا کافی و شافی جواب فراہم کرتے ہیں  ع

شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں مری بات

___  پروفیسر خورشید احمد

توہینِ رسالتؐ کا حالیہ مقدمہ ،معمول کے مطابق محض جرم و سزا کا ایک مقدمہ ہوتا تو کوئی بات نہ تھی۔ اگر دونوں ملزم بے گناہ تھے، یا ان کا جرم شرعی معیار شہادت کے مطابق ثابت نہ ہوسکا تھا، یا اس میں کوئی ادنیٰ سا بھی شبہہ تھا، تو حق و انصاف کا تقاضا یہی تھا کہ ان کو بری کردیا جاتا۔ اس حق و انصاف اور رحم و درگزر کا، جس کی تعلیم ہمیں اسی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے، جس کی توہین کا یہ مقدمہ تھا، جس نے بدترین دشمن کے ساتھ بھی عدل و رحم کا برتائو کیا ہے، اور ہر قیمت پر عدل کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور یہ تو ہمارے معاہد اور برابر کے شہری تھے، مگر پورے مقدمے کے دوران جس طرح اور جس پیمانے پر طاقت ور بیرونی اور اندرونی قوتیں اثرانداز ہوتی رہیں، اس نے مذکورہ مقدمے کو ایک غیرمعمولی نوعیت دے دی ہے۔ اس نے توہینِ رسالتؐ کے معاملے کو ہمارے مقدر کا، ہمارے حال اور مستقبل کا ایک آئینہ بنا دیا ہے۔ اس کی وجہ سے ملزمان کی برأت بھی مشتبہ ہوگئی ہے، جو یقینا ان کے ساتھ ایک بے انصافی ہوئی ہے۔

اس آئینے میں وہ ساری کھلی اور چھپی صورتیں بالکل بے نقاب ہوگئی ہیں، جو آج ہمارے مستقبل کی نقشہ گری اور ہمارے مقدر کے بنانے اور بگاڑنے میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہیں۔ ان صورتوں میں، اندرونی بھی ہیں اور بیرونی بھی ، تہذیبی بھی ہیں اور سیاسی بھی، فکری بھی ہیں اور ابلاغی بھی۔ اس آئینے میں ہم یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ ہماری بربادی کے مشورے کہاں ہو رہے ہیں، جنگ کا نقشہ کیا ہے، محاذ کہاں کہاں کھولے جارہے ہیں، مورچے کہاں کہاں بنائے گئے ہیں، چالیں کیا کیا چلی جارہی ہیں، دُور مار توپیں کدھر کدھر سے گولہ باری کر رہی ہیں، ہتھیار کون کون سے استعمال ہو رہے ہیں، پیش قدمی کن کن راستوں سے ہو رہی ہے، اندر کون کون ایجنٹ بنے ہوئے ہیں، عزائم کیا ہیں اور اصل ہدف کیا ہے؟___ اور یہ بھی کہ ___ ہماری قوت کا اصل راز کیا ہے، ہم بازی کیسے پلٹ سکتے ہیں، بلکہ جیت سکتے ہیں۔

l ایک چہرہ مغرب کا ہے، اس کے حکمرانوں، اہل کاروں اور سفارت کاروں اور ذرائع ابلاغ کے سحرکاروں کا چہرہ، جو پورے مقدمے کے دوران تیز تیز چلتے، بھاگ دوڑ کرتے نظر آتے رہے۔   یہ چہرہ اب کچھ ایسا ڈھکا چھپا بھی نہیں رہا۔ ذرا موقع نکلتا ہے، فوراً اُوپر سے تہذیب، روشن خیالی اور انسانی ہمدردی کا چھلکا اتر جاتا ہے، اور نیچے سے وہی مسلمان اور اسلام کی دشمنی کا چودہ سو سال پرانا رویہ اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف نفرت اور غصہ ٹپکاتا ہوا چہرہ نمودار ہوجاتا ہے۔

 سیکولرازم اور انسانی حقوق کی علم بردار ریاستیں بالآخر محض ’عیسائی‘ ریاستیں ثابت ہوتی ہیں، جو ہر ملک کے ملکی قوانین کے خلاف ’عیسائی حقوق‘ کے لیے سرگرم ہوجاتی ہیں۔ فلسطین ہو یا بوسنیا، کشمیر ہو یا چیچنیا، الجیریا ہو یا فرانس___ چہرہ روشن، اندرون چنگیز [۹ لاکھ ۴۰ ہزار انسانوں کا قاتل تاتار حکمران۔ م: ۱۲۲۷ئ] سے تاریک تر۔ مغرب کی یہ قوتیں ہمارے ہاں تہذیبی اور سیاسی غلبہ رکھتی ہیں، ہماری قسمت کے ساتھ کھیل رہی ہیں، یہاں تک کہ اب ہمارا ایک قانون اور ہمارے دو شہریوں کے خلاف، ہماری عدالت میں ایک مقدمہ بھی ان کے غلبے سے آزاد نہیں۔

l ایک چہرہ مغرب کے فرزندوں کا ہے، جو برطانوی مورخ لارڈ [تھامس بابنگٹن] میکالے [م: ۱۸۵۹ئ] کے خواب کی مکمل تعبیر ہے: ’’خون اور رنگ کے اعتبار سے تو ہم میںسے نہیں، مگر مذاق اور راے، الفاظ اور سمجھ کے اعتبار سے انگریز‘‘۔ یا، لبنانی ادیب خلیل جبران [م:۱۹۳۱ئ] کے الفاظ میں: ’’[جن کے جسم خواہ یہاں پیدا ہوئے ہوں، مگر] ان کی روحوں نے مغربی ہسپتالوں میں جنم لیا ہے۔ جو فصاحت و بلاغت کے دریا بہاتے ہیں، مگر ہمارے [فرنگی سامراجیوں] کے سامنے کمزور اور گونگے ہیں۔ جو آزادی کے علم بردار ہیں، مصلح ہیں، پرجوش ہیں، مگر اپنے اسٹیجوں پر، اہلِ مغرب کے سامنے اطاعت کیش اور رجعت پسند ہیں‘‘___ یہ فرزند ان مغرب، توہین رسالتؐ جیسے معاملات میں ایک سو ایک فی صد مغرب کے ہم نوا رہتے ہیں، مغرب سے بڑھ کرپیش پیش ہوتے ہیں۔

  • ایک چہرہ ان کا ہے، جو کسی طرح بھی لارڈ میکالے کے خواب کی مکمل تعبیر نہ بن سکے، وہ اسلام اور ملّت سے اپنا رشتہ کھرچ نہیں سکے، لیکن اس کے باوجود وہ کسی نہ کسی درجے میں فرنگی افکار کے جاود میں گرفتار ہیں۔ ان کے مزاج کے لیے بھی یہ قبول کرنا مشکل ہے کہ توہینِ رسالتؐ کی سزا موت ہو۔

وہ پوچھتے ہیں: کیا یہ سخت سزا قرآن سے ثابت ہے؟ کہیں یہ مُلا کی تنگ نظری اور شدت کا شاخسانہ تو نہیں؟ جو رحمت للعالمینؐ تھے اور جنھوں نے گالیاں کھا کر دعائیں دیں، ان کی توہین پر ایسی سخت سزا! دنیا ہمارے بارے میں کیا کہے گی، ہمیں کیا سمجھے گی، ہم اسے کیا منہ دکھائیں گے؟

خود نگری اور مستقبل بینی کا یہ آئینہ ہمارے ہاتھوں میں اگر مسئلہ توہینِ رسالتؐ کے ذریعے آیا، تو بالکل بجا آیا:

قوم را سرمایہ قوت ازو

حفظ سر وحدت ملّت ازو

’’ما ز حکم نسبت او ملتیم‘‘: آں حضوؐر کی ذات مبارک ہی ہماری قوت کا سرمایہ ہے، ہماری وحدت کا راز آپؐ سے وابستگی میں ہے، آپؐ سے نسبت ہی نے ہمیں ایک ملّت بنایا ہے، بلکہ ہمارے جسد ملّی میں رسالت ہی کی جان پھونکی گئی ہے، اسی کے دم سے ہمارا دین ہے، ہمارا آئین ہے:

حق تعالیٰ پیکر ما آفرید

و ز رسالت در تن ما جاں دمید

از رسالت در جہاں تکوین ما

از رسالت دین ما آئین ما

مغرب کا اضطراب اور شور و غوغا قابلِ فہم ہے۔ اس لیے نہیں، جیسا بعض لوگ [گستاخی رسولؐ کے مرتکب] سلمان رشدی کی یاوہ گوئی کے وقت سے کہہ رہے ہیں کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ مسلمانوں کے نزدیک رسولؐ کا مقام کیا ہے، اور کیوں ہے۔ مغرب سے ہماری مراد سارے اہلِ مغرب نہیں، تاہم ان میں سے اکثر کے بارے میں یہ بات صحیح ہے۔ اور مغرب کے طلسم میں گرفتار سادہ دل مسلمانوں کے بارے میں بھی۔ یقینا ان سب کو سمجھانے کی ضرورت ہے، ان کو سمجھا لینے ہی میں ہماری کامیابی پوشیدہ ہے۔ مگر جو حکمراں، سفارت کار، دانش ور اور ذرائع ابلاغ کے سحرکار قانونِ توہینِ رسالتؐ کے خلاف پیش پیش ہیں، وہ اسی لیے ہیں کہ وہ جانتے ہیں کہ مسلمان ملّت کی زندگی، وحدت اور قوت و توانائی کا راز اور ان کی سربلندی کا راز بھی حضوؐر کے ساتھ وابستگی اور عشق و محبت میں پوشیدہ ہے  ع  ’’در دل مسلم مقامِ مصطفیؐ است‘‘۔

اسی لیے ہزار سال سے اُوپر مدت ہوگئی، ان کے نقشۂ جنگ کا ہدف یہی مقام مصطفیؐ ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ملت اسلامیہ کا یہی ’قلب‘ اور ’دارالحکومت‘ ہے۔ اس کی شکست و ریخت، بربادی اور اس پر قبضہ کے بغیر اس ملت کو زیر کرنے کا اور کوئی نسخہ نہیں۔ اسی لیے آں حضوؐر کی ذات ان کے سارے حملوں کا اوّلین ہدف رہی ہے، اور ہے۔ اسی لیے وہ مسلسل ہر قسم کے انتہائی غلیظ وار، آپؐ  کے خلاف کرتے رہے ہیں۔ اسی لیے سلمان رشدی ان کی آنکھوں کا تارا ہے، یورپ کی حکومتوں کے سفارتی تعلقات اور تجارتی مفادات اس کے خلاف ’فتویٰ‘ کے محور پر گھوم رہے ہیں۔ اسی لیے تسلیمہ نسرین ان کی ہیروئن ہے۔ اسی لیے ہر وہ مسلمان جو: شریعت مصطفویؐکو بے وقعت کرے، جو تعلیمات محمدیؐ کو مشکوک بنائے، جو مقامِ مصطفویؐ کو مجروح کرے، وہ انھیں محبوب ہے۔ اور یہ حکیمانِ مغرب کا فتویٰ ہے:

وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا

روح محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو

اسی لیے مذکورہ دو افراد کے خلاف مقدمہ دائر ہوتے ہی، غیرمسلم دنیا کے ذرائع ابلاغ اور سفارت کار حرکت میں آگئے اور یہ واقعہ عالمی شہرت کا حامل بن گیا۔ ان سب کا ہدف ملزموں کی بے گناہی ثابت کرنا نہیں،بلکہ توہینِ رسالتؐ کے قانون کی تنسیخ رہا ہے۔ آل انڈیا ریڈیو، بی بی سی، وائس آف امریکا، وائس آف جرمنی کی نشریات، اخبارات، رسائل و جرائد میں مضامین اور خبروں کا ایک سلسلہ چل پڑا۔ انھی بیرونی لابیوں کے ساتھ پاکستان کا ہیومن رائٹس کمیشن بھی متحرک ہوگیا۔

امریکا میں پاکستانی سفیر، ملیحہ لودھی، گوجرانوالہ گئیں اور ملزموں کی ضمانت کے لیے عدالت پر زور ڈالا۔ امریکی نائب وزیرخارجہ، رابن رافیل نومبر ۱۹۹۳ء میں اسلام آباد آئیں، تو وزیراعظم پاکستان بے نظیر بھٹو کے ساتھ مذاکرات کے دوران اس کیس کو اٹھایا۔ پاکستانی سیکرٹری خارجہ نے انھیں یقین دلایا کہ ’’ملزموں کو ضمانت پر رہا کر دیا جائے گا‘‘۔ وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے اس مقدمے میں ذاتی دل چسپی لی اور جب مجرموں کو سزا ہوئی تو انھیں ’سخت دکھ‘ ہوا۔ اپریل ۱۹۹۴ء میں پاکستان کی وفاقی کابینہ نے موصوفہ کی صدارت میں، توہین رسالتؐ کے مرتکب فرد کے لیے موت کی سزا کو ۱۰ سال قید کی سزا میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔

پھر جب ملزموں کو سیشن کورٹ سے سزا ہوگئی تو سارے بین الاقوامی، سفارتی اور ابلاغی ذرائع نے نفرت انگیز پروپیگنڈے کے ذریعے پاکستانی حکومت پر دبائو ڈالنے کی مہم تیز تر کر دی۔ برطانوی ڈپٹی ہائی کمشنر، ملزمان سے ملاقات کے لیے جیل پہنچ گئے۔ لاہور ہائی کورٹ کے ایک    بنچ نے، جو عارضی [ایڈہاک] ججوں پر مشتمل تھا، مسلسل روزانہ اپیل کی سماعت شروع کردی۔ بالآخر ملزمان رہا ہوگئے اور راتوں رات ان کو جرمنی روانہ کردیا گیا۔

عدالتوں کے فیصلے تسلیم کیے بغیر کوئی مہذب اور پُرامن معاشرہ قائم بھی نہیں ہوسکتا۔ امید کی جا سکتی ہے کہ ہائی کورٹ نے صحیح فیصلہ ہی کیا ہوگا۔ لیکن، اس مسلسل بین الاقوامی اور حکومتی دبائو اور عدالتی کارروائی میں حیرت انگیز سرعت نے پورے فیصلے کو مشکوک بنا دیا۔ اس دبائو کے آگے اس دبائو کی کیا حیثیت اور کیا وزن، جو عدالتی کارروائی کے دوران اور فیصلے کے بعد عوام نے لاہور کی سڑکوں پر نکل کر ڈالا۔ ہر تجزیہ نگار، پورا پس منظر جان بوجھ کر نظرانداز کر کے، سارا زور عوامی احتجاج کی مذمت کرنے میں لگاتا رہا۔ ہم بھی کسی عدالت پر اس طرح عوامی دبائو ڈالنے کو صحیح نہیں سمجھتے۔ لیکن لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ دوسری طرف سے وہ لوگ زبردست دبائو ڈال رہے تھے، جن کی مٹھی میں حکمرانوں کے اقتدار کی کنجی ہے، ڈالر ہیں، دہشت گرد قرار دینے کی لاٹھی ہے اور ’مہذب، بھی کہلاتے ہیں۔

تہذیب کے دعووں کے ساتھ اب مغرب کے لیے قرونِ وسطیٰ کی طرح دشنام طرازیاں تو ممکن نہیں، البتہ ان کی جگہ آج کے رائج الفاظ کے پردے میں توہین رسالتؐ کے قانون پر حملہ ہو رہا ہے: ’’یہ قانون، انسانی اور بنیادی حقوق کے خلاف ہے، مذہبی آزادی کے خلاف ہے، اظہار راے کی آزادی کے خلاف ہے، اقلیتوں کے خلاف تعصب اور امتیاز پر مبنی ہے، اقلیتی فرقوں کے سر پر  ننگی تلوار لٹکا دی گئی ہے، فرقہ واریت اور ذاتی عناد کی بنا پر، اس قانون کا غلط استعمال ہو رہا ہے، اس سے مُلا، بنیاد پرستی، مذہبی جنون اور تنگ نظری کا زور بڑھ گیا ہے، تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔

توہین رسالتؐ کے لیے سزا، اس مقصد کے لیے رائج الوقت قانون، اس کا استعمال اور اس بارے میں خدشات کو حالیہ مقدمہ سے الگ کر کے دیکھا جائے، تب ہی ایک منصف مزاج آدمی اس قانون کے خلاف سارے مباحث میں کسی صحیح نتیجے تک پہنچ سکتا ہے۔

  • بنیادی اور اوّلین سوال یہ ہے: ’’کیا توہینِ رسالتؐکوئی جرم نہیں ہے، اور جرم ہے بھی تو کیا اس پر کوئی سزا نہیں ہونا چاہیے؟‘‘

رسالت تو بڑی چیز ہے، دنیا بھر میں ہمیشہ سے کسی بھی انسان کی عزت و آبرو کو تحریری یا زبانی نقصان پہنچانا، ایک جرم قرار دیا گیا ہے، اور اسی لیے ہر معاشرے میں ہتک عزت [defamation] کے جرم کے لیے سزا کا قانون موجود رہا ہے۔ کسی کے وہم و گمان میں کبھی یہ نہیں آیا کہ کسی دوسرے انسان کی بے عزتی اور توہین کرنا، ایک فرد کا انسانی اور بنیادی حق ہوسکتا ہے، اور اگر اس پر سزا دی جائے تو گویا ایک بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی۔ آج مغرب میں بھی یہی تصور اور یہی قانون ہے۔ ہاں، یہ بات ضرور ہے کہ مغربی قوانین کے تحت جس کی  ہتک عزت ہوئی ہو، وہ خود ہی مدعی بن سکتا ہے۔ گویا، کیونکہ رسول، یا کوئی بھی دنیا سے گزرا ہوا آدمی، اب خود مدعی نہیں بن سکتا، اس لیے اس کی جتنی توہین کرلی جائے، یہ جرم قابلِ سزا نہیں ہوسکتا۔

لیکن اس سے زیادہ بودی دلیل اور کیا ہو سکتی ہے؟___ جب ایک عام آدمی کی ہتک عزت بھی قابلِ تعزیر جرم ہو، تو اس شخص کی ہتک عزت کیوں نہ قابلِ تعزیر ہو، جوایک ارب سے زیادہ انسانوں کواپنی جان و مال ہی نہیں، اپنی ذات سے بڑھ کر محبوب ہے۔ جس کی عزت اور نام سے ان کی عزت اور نام وابستہ ہے۔ جس کی توہین سے ان کی اپنی ذات، ان کے نام، ان کی اپنی عزت، ان کے دین، ان کے آئین اور ان کی ملّت کی توہین ہوتی ہے۔ آں حضوؐر کا مقام تو ہرمسلمان کے لیے یہی ہے۔ ایک مسلمان کی آبرو آپؐ کے نام سے ہے: آبروے ما زنام مصطفی است۔ وہ مسلمان ہو نہیں سکتا، جب تک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنی جان، مال، والدین، دنیا کی ہر چیز، یہاں تک کہ اپنے نفس اور ذات سے زیادہ محبوب نہ ہوں: لَا یُوْمِنُ اَحَدَکُمْ حَتّٰی اَکُوْنُ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَّلَدِہٖ وَالِدِہٖ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنِ (بخاری، مسلم)

  • دوسرا سوال یہ ہے: ’’کیا اس جرم کے لیے موت کی سزا بہت سخت اور احترام آدمیت کے خلاف ہے؟‘‘

اگر اعتراض فی نفسہٖ موت کی سزا پر ہے کہ یہ وحشیانہ ہے، تو وہ زمانہ گزر گیا جب تہذیب کے جوش میں موت کی سزا کو بالکل منسوخ کرنے کی ہوا چلی تھی۔ اب تو انتہائی ’مہذب‘ اور   ’انسان دوست‘ ہونے کے دعوے دار ملکوں میں، ایک کے بعد ایک، یہ سزا بحال کی جارہی ہے، بلکہ ہر ملک جہاں یہ سزا ختم کی گئی، وہاں کی بھاری اکثریت موت کی سزا کی بحالی کے حق میں ہے، نہ صرف موت کی سزا، بلکہ جسمانی سزا کے حق میں بھی۔ ۱۹۹۴ء میں جب سنگاپور میں ایک امریکی کو چھے بید مارنے کی سزا دی گئی تو،امریکی حکومت اور چند طبقات کی مخالفت کے باوجود، امریکیوں کی اکثریت نے اس سزا کی حمایت کی تھی۔ مغرب میں بھی اس قسم کے جرم پر سخت سزائوں کے قوانین موجود ہیں، اور پہلے تو زندہ جلایا جاتا رہا ہے۔

اگر اعتراض یہ ہو کہ یہ سزا جرم کے مقابلے میں زیادہ سخت ہے، تو اس جرم کی نوعیت کا فیصلہ تو وہی کرسکتے ہیں، جن کو اور جن کے پورے معاشرے کو اس جرم سے نقصان پہنچ رہا ہو۔ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے کردار، اخلاق، صداقت، امانت، عدالت کو مجروح کرنا دراصل دین، ایمان، آئین، ریاست اور پوری اُمت مسلمہ، سب کو مجروح کرنا ہے۔ اس لیے مسلمان ہی اس معاملے میں مناسب قانون سازی کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ ان کی مقننہ نے یہی سزا مناسب سمجھ کر یہ قانون منظور کیا ہے، ان کی اعلیٰ عدالتوں نے اس پر مہر تصدیق ثبت کی ہے۔ یہ ایک جمہوری طریقے سے طے کردہ قانون ہے، ان کی اعلیٰ عدالتوں نے اس پر مہر تصدیق ثبت کی ہے۔ یہ ایک جمہوری طریقے سے طے کردہ قانون ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عمرقید کی سزا، موت کی سزا سے زیادہ وحشیانہ اور ظالمانہ سزا ہے، لیکن کوئی پارلیمنٹ یاکانگرس اپنی حدود میں یہ سزا دینے کا قانون بنائے، تو ہم اس کا فیصلہ کیسے بدلوا سکتے ہیں؟

  • تیسرا سوال یہ ہے: ’’کیا یہ قانون واقعی عیسائی اور ہندو جیسے اقلیتی فرقوں کے خلاف تعصب و امتیاز پر مبنی ہے، ان کو کچلنے، دبانے اور حقوق سے محروم کرنے کے لیے بنایا گیا ہے؟‘‘

جہاں تک قانون کا تعلق ہے، اس میں ایک حرف اور ایک نکتہ بھی ایسا نہیں بتایا جاسکتا، جو اقلیتی فرقوں کے خلاف ہو یا ان کا کوئی حق سلب کرتا ہو۔ اس کا اطلاق کسی نام نہاد مسلمان پر بھی بالکل اسی طرح ہوگا، جس طرح غیرمسلم پر۔ تعصب و امتیاز کی بات اس وقت صحیح ہو سکتی ہے، جب یہ گمان کیا جائے کہ اقلیتی فرقوں کی باقاعدہ نیت یا پروگرام ہے کہ وہ توہینِ رسالت کریں۔ ہمیں یقین ہے کہ عمومی سطح پر ان کا ایسا کوئی ارادہ یا منصوبہ نہیں، اگرچہ باہر والے ان سے یہ حرکت کروا کے انھیں اپنے مسلمان بھائیوں سے لڑانے اور انھیں پاکستان میں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے منصوبے رکھتے ہوں۔ اگر اعتراض کی بنیاد یہ ہو کہ اس میں دوسرے مذاہب کے پیغمبروں کی توہین کو شامل نہیں کیا گیا ہے، تو اس اعتراض کو ’اسلامی نظریاتی کونسل، (IIC) اور شریعت کورٹ کی سفارش کے مطابق، دُور کیا جانا چاہیے۔

  • چوتھا سوال یہ ہے: ’’کیا یہ قانون اس لیے منسوخ کردیا جائے، کہ ذاتی عناد یا فرقہ واریت کی خاطر اس کا غلط استعمال ہوا ہے، یا خدشہ ہے کہ ایسا ہو سکتا ہے؟‘‘

اگر خود قانون میں ایسی کوئی خامی، خلا یا ابہام ہے، جو غلط استعمال کا ذریعہ بن سکتا ہے، تو ہماری راے میں ایسی ہر خامی کو دُور کیا جانا چاہیے، اور ممکنہ غلط استعمال کے خلاف ہر ممکن تحفظ  فراہم کرنا چاہیے۔ یہ ایسا معاملہ نہیں ہے کہ جو باہمی گفت و شنید سے حل نہ کیا جا سکتا ہو۔ ہمیں  صرف مقامِ رسالتؐ کا تحفظ مطلوب ہے، بے گناہ لوگوں کو توہینِ رسالتؐکے نام پر سزا دلوانا تو خود توہینِ رسالتؐ کے زمرے میں آسکتا ہے۔

لیکن اگر قانون کا غلط استعمال کسی فرد یا پولیس کے غلط کردار کی وجہ سے ہے، تو اس کا  علاج قانون کی منسوخی نہیں ہے۔ اس وجہ سے تو ہر قانون کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔ قیامِ امن کے، انسداد دہشت گردی کے، لوٹ کھسوٹ اور بدعنوانیوں کی روک تھام کے قوانین حکومتیں بے دردی کے ساتھ اپنے سیاسی مخالفین کو کچلنے کے لیے استعمال کر رہی ہیں، کیا اس وجہ سے ان سب کو منسوخ کردیا جائے؟ قتل کے قانون کے تحت پولیس اور بااثر لوگ بے گناہوں کو پھانستے ہیں، ان کو لوٹا جاتا ہے، بعض پھانسی پر بھی چڑھ جاتے ہیں، کیا ان کو بھی منسوخ کر دیا جائے؟ کوئی بھی معقول آدمی یہ بات نہیں کہے گا۔ ذاتی عناد کی بنا پر بھی ملک میں بے شمار مقدمات کھڑے کیے جاتے ہیں۔ اس ظلم کا کوئی خصوصی تعلق اقلیتی فرقوں سے نہیں۔

  • پانچواں سوال یہ ہے: ’’کیا قانون توہینِ رسالتؐ کی وجہ سے فرقہ واریت میں، مذہبی جنون میں، اقلیتوں کے خلاف تشدد میں اضافہ ہوا ہے، کہ یہ قانون منسوخ کردیا جائے؟

اگر شدت پیدا ہوئی ہے تو شیعہ سنی فرقہ وارانہ سوچ رکھنے والے محض چند جنگجو عناصر میں، جب کہ عام سطح پر تو شیعہ سنی ہم آہنگی پہلے کی طرح قائم ہے اور یہ بڑی خوش آیند بات ہے۔ حد سے بڑھتی ہوئی قتل و غارت اور خوں ریزی کی وجہ نسلی اور لسانی تعصبات، سیاسی جھگڑے اور انتقامی کارروائیاں ہیں۔ اس میں کوئی دخل قانون توہینِ رسالتؐ کا نہیں، اور نہ کسی دوسرے قانون کا۔ ان کارروائیوں کا شکار اکثریتی فرقہ ہے، نہ کہ اقلیتی فرقے۔

ایک ایسے معاشرے میں جہاں روز بروز تشدد اور خوں ریزی بڑھ رہی ہے، اس معاشرے میں کیا صرف اقلیتی فرقوں کے لوگ ہی اس لہر سے بالکل محفوظ رہ سکتے ہیں؟ پھر تشدد کے ہر واقعے کو فوراً اقلیت کے خلاف ظلم قرار دینا کہاں تک قرین انصاف ہے؟ پاکستان میں آج تک کوئی     فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوا۔ ذرا بھارت کے جمہوری، سیکولر، روشن خیال ملک پر بھی ایک نظر ڈال لیجیے، جہاں کوئی مذہبی قوانین نہیں، جہاں ’مُلّا‘ کا غلبہ نہیں، لیکن وہاں پر تو فرقہ وارانہ فسادات روز کا معمول ہیں۔

قرآن و سنت کے دلائل سے جس طرح شاتمِ رسولؐ کی سزا ثابت ہے، اور اس پر جس طرح فقہاے اُمت کا اجماع ہے۔ جس طرح اس پر، ماسوا دورِ غلامی کے، ہر مسلمان ملک میں، ہرزمانے میں عمل درآمد ہوتا رہا ہے، اور دور غلامی میں بھی مسلمان جس طرح اپنا خون دے کر اسے نافذ کرتے رہے ہیں، اسے بیان کرنے کی چنداں حاجت نہیں۔ اس بارے میں عام مسلمانوں کے درمیان نہ کبھی اختلاف رہا اور نہ کوئی شک و شبہہ۔ جس کو تحقیق کا شوق ہو، اس کے لیے   حسب ذیل کتب کا مطالعہ کافی ہے:

۱-            محمد اسماعیل قریشی : ناموس رسولؐ اور قانونِ توہینِ رسالتؐ

۲-            امام ابن تیمیہ: الصارم المسلول علی شاتم الرسولؐ

۳-            تقی الدین سبکی: السیف المسلول علی من سب الرسولؐ

۴-            ابن عابدین: تنبیہ الولاۃ والحکام علی احکام شاتم خیرالانامؐ

  • لوگ چھٹا سوال یہ پوچھتے ہیں کہ: ’’رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے تو گالیاں سن کر، پتھر کھا کر، دعا دی، اب ان کو گالی دینے والے کو موت کی سزا دی جائے؟‘‘

ایسے لوگ رحمت کے مفہوم سے آگاہ نہیں۔ رحمت کا تقاضا جہاں عفو و درگزر ہے، وہاں انصاف بھی ہے۔ رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے: واقعہ افک میں قذف کے مرتکبین کو  کوڑے لگوائے، زنا کے مجرموں کو سنگسار کرایا، مسلح لشکر لے کر نکلے جس نے بدر کے میدان میں ۷۰سردارانِ قریش کو تہہ تیغ کردیا، فتح مکہ کے دن جب ہرجانی دشمن کو معافی مرحمت فرما دی گئی، چھے مرتدین اور شاتمین کے قتل کا حکم صادر ہوا۔ آپؐ یہ نہ کرتے تو فساد مچتا، اور زیادہ ظلم برپا ہوتا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی حکم اپنی ذات کی خاطر نہیں دیا، دین اور ملت کے تحفظ کی خاطر دیا۔ جب رسالتؐ ہی ایمان کی، دین کی، ملت کی بنیاد ہے، اس کی زندگی کی ضمانت ہے، تو توہینِ رسالتؐ کے مجرم کو سزا دینا عین رحمت کا تقاضا تھا۔ اسی لیے یومِ قیامت کو___ جس دن نیکوکاروں کو انعام سے نوازا جائے گا، مگر بدکار جہنم جھونکے جائیں گے___ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت، رحمانیت اور رحیمیت کا دن قرار دیا ہے۔ (الفاتحہ، الانعام)

شان رسالتؐ میں گستاخی کے مرتکب فرد کے لیے موت کی سزا کے قانون کی تائید اور حمایت کچھ فقہا و علما، ملائوں اور جنونیوں ہی کا ’جرم‘ نہیں ہے، بلکہ وہ اچھے اچھے مغربی تعلیم یافتہ مسلمان حضرات، جنھوں نے روح اسلام کو ضائع نہ کیا اور مقام محمدیؐ سے آگاہ رہے، کسی بھی مداہنت کے بغیر اس ’مذہبی جنون‘ کے ’جرم‘ میں شریک رہے۔

غازی علم الدین شہید [۴دسمبر ۱۹۰۸ئ- ۳۱ اکتوبر ۱۹۲۹ئ] نے [شانِ رسالتؐ میں گستاخی پر مبنی کتاب کے ناشر] راج پال کو قتل [۶ اپریل ۱۹۲۹ئ] کیا تو اس کے مقدمے کی پیروی قائداعظم محمدعلی جناح [م: ۱۱ستمبر ۱۹۴۸ئ] نے کی۔ علامہ محمد اقبال نے رشک کے ساتھ فرمایا: ’’اسیں گلاں کر دے رہے تے ترکھاناں دا منڈا بازی لے گیا۔ (ہم باتیں کرتے رہ گئے، اور ایک بڑھئی کا بیٹا بازی لے گیا)۔ علم الدین شہید کو اپنے ہاتھوں سے قبر میں اتارا، اور اس فضا میں یہ شعر بھی کہا :

ان شہیدوں کی دیت اہلِ کلیسا سے نہ مانگ

قدروقیمت میں ہے جن کا خون حرم سے بڑھ کر

شانِ رسالتؐ میں گستاخی کے جرم میں ایک خانساماں نے ایک انگریز میجر کی بیوی کا کام تمام کر دیا۔ سرمیاں محمد شفیع [م: جنوری ۱۹۳۲ئ] نے، جو برطانیہ کے زیرتسلط ہندستان میں وائسراے کی ایگزیکٹو کونسل کے رکن بھی تھے، اس کے مقدمے کی پیروی کی۔ دوران بحث ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔

ہائی کورٹ کے انگریز جج نے انھیں بڑی حیرت سے دیکھتے ہوئے پوچھا: ’’سرشفیع، کیا آپ جیسے ٹھنڈے دل و دماغ کا بلند پایہ وکیل بھی اس طرح جذباتی ہوسکتا ہے؟‘‘

سرمیاں محمد شفیع نے رنج اور حسرت بھرے لہجے میں جواب دیا: ’’جناب، آپ کو نہیں معلوم، ایک مسلمان کو اپنے پیغمبرؐ کی ذات سے کتنی گہری عقیدت اور محبت ہوتی ہے۔ سرشفیع بھی اگر اس وقت وہاں ہوتا تو وہ بھی یہی کر گزرتا جو اس ملزم نے کیا ہے‘‘۔

ہمیں خوشی ہے کہ ہمارے بعض مسیحی بھائیوں نے اس قانون کے معاملے میں حق پسندانہ اور معتدل مسلک اختیار کیا ہے۔ صوبہ بلوچستان اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر، آنجہانی بشیرمسیح کے الفاظ ایسے ہی موقف کے آئینہ دار ہیں، انھوں نے کہا تھا:

ہم اس [قانون] کے خلاف نہیں۔ کوئی بھی سچا مسیحی، توہین رسالتؐ کا تصور نہیں کرسکتا، اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر واقعی کوئی اس قبیح جرم کا مرتکب ہوتا ہے تو وہ موت سے بھی سخت سزا کا   حق دار ہے۔ لیکن یہ نہیں ہونا چاہیے کہ کسی بے گناہ کو اس قانون کا نشانہ بنایا جائے۔

اسی طرح ماہنامہ کلامِ حق میں پادری ڈاکٹر کے ایل ناصر کے بیٹے میجرٹی ناصر کے الفاظ ہیں:

ہم مسیحی، تعزیرات پاکستان کی دفعہ ۲۹۵- سی یعنی گستاخ رسولؐ [کی سزا] کے مخالف نہیں۔ ہم صرف یہ درخواست کرتے ہیں کہ ایک خصوصی کمیشن بنایا جائے۔ غیر جانب دارانہ تحقیقات کریں اور اگر ملزم واقعی مجرم ہو تو اس کو قانون کے مطابق سزا دی جائے،   ورنہ بصورت دیگر رہا کر دیا جائے۔ مقدمہ بھی خصوصی عدالت میں چلایا جائے، اور ملزم کو تمام قانونی سہولتیں بہم پہنچائی جائیں، تاکہ اقلیتوں، خاص طور پر مسیحی اقلیت کو   تحفظ و انصاف کا احساس ہو ___ اور یہ مطالبات بجا ہیں۔

لیکن ہمیں افسوس ہے کہ مسیحی لیڈروں کی اکثریت، سوچے سمجھے بغیر، قانون توہینِ رسالتؐ کی اندھی مخالفت پر تل گئی ہے۔ اس طرح وہ ایک طرف مغربی سامراجی طاقتوں کے آلۂ کار بھی بن رہے ہیں، دوسری طرف پاکستان میں اسلام دشمن اور سیکولر عناصر کے دوش بدوش کھڑے ہوگئے ہیں۔

ہم پورے خلوص اور دردمندی سے ان کی خدمت میں ادب سے عرض کریں گے، کہ اگر ان کے پیش نظر اس قانون کے بارے میں خدشات کے خلاف ضروری تحفظات حاصل کرنا ہے، بلکہ پاکستان کے شہری ہونے کے ناتے پاکستان میں اپنا جائز مقام حاصل کرنا ہے، تو انھوں نے ایک غلط راستہ اختیار کیا ہے۔ نہ بیرونی طاقتوں کی مداخلت سے انھیں یہ مقام حاصل ہو سکتا ہے، نہ سیکولر عناصر کی مدد سے کچھ پاسکتے ہیں، اگرچہ وہ اقتدار میں بھی آجائیں۔

ان کے لیے درست اور معقول راستہ یہ ہے کہ وہ محبِّ اسلام ممتاز شہریوں اور حق پسند علما اور دینی جماعتوں سے گفت و شنید کا آغاز کریں۔ انھیں اپنے خدشات سے آگاہ کریں، ممکن ہو تو ایک مشترک ’مسلم اینڈ کرسچین کونسل‘ تشکیل دیں۔ دلیل اور شواہد کے ساتھ مسلمانوں پر زور دیں کہ وہ خاص طور پر اس قانون کے ضمن میں اسلام کے قانون عدل و شہادت کے تقاضوں کی تکمیل یقینی بنائیں۔ وہ ایسی ترامیم کرانے میں ان کی مدد کریں جو قانون کو بے اثر بنائے بغیر کی جاسکتی ہیں، اور ان کے ساتھ انھی بنیادوں پر معاملہ کریں، جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران کے عیسائیوں کے ساتھ اختیار کیں۔ ہمیں یقین ہے کہ اس طرح دونوں کے تعلقات بھی خوش گوار ہوجائیں گے اور ان مسائل کا حل بھی خوش اسلوبی سے نکل آئے گا۔

شاید انھیں اسلام کے قانونِ عدل کے ان تقاضوں کا علم نہیں، جن کا نفاذ ان کے خدشات کے ازالے کے لیے کافی ہوسکتا ہے:

                ۱-            حد کی سزا صرف حکومت دے سکتی ہے، کسی مسلمان کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کا اختیار نہیں۔

                ۲-            عدالت کے لیے یہ بھی ضروری ہے، کہ وہ گواہوں کی مناسب جانچ پڑتال کرے۔ اس لیے کہ ’حد‘ کی سزا میں شہادت کا معیار، عام شہادت کے معیار سے بہت زیادہ سخت اور غیرمعمولی ہے۔ ایسے گواہوں کی شہادت قبول ہوتی ہے، جو گناہ کبیرہ سے اجتناب کرتے ہوں، صادق القول اور عادل ہوں، اور مزیدبرآں تزکیۃ الشہود کے معیار پر بھی پورا اترتے ہوں‘‘۔

                ۳-            جرم ثابت ہونے میں ایک شبہہ بھی رہ جائے تو شک کا فائدہ بھی اسلامی قانون کی رو سے ملزم کو پہنچتا ہے۔ حدیث مبارک ہے: ادر والحدود بالشبہات، حدود کی سزائوں کو شبہات کی بنا پر ختم کرو۔

                ۴-            عدالت ملزم کی نیت کا تعین بھی کرے گی، کیونکہ ’’نیت کے بغیر اسلامی قانون میں کوئی جرم مستوجب سزا نہیں ہوتا‘‘۔

                ۵-            حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی اسلامی قانون کا ایک بنیادی اصول ہے کہ ’’ایک مجرم کو بری کر دینے کی غلطی ایک بے گناہ کو سزا دینے کی غلطی سے بہتر ہے۔

                ۶-            بجاے اس کے کہ ہمارے مسیحی بھائی پاکستان کی سیکولر حکومت کے وعدوں پر زندہ رہیں یا باہر کی مسیحی طاقتوں سے آس لگائیں۔ کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ مسلمان، عیسائی، ہندو مل کر ایک متفقہ ترمیمی بل حکومت اور پارلیمنٹ کے سامنے پیش کردیں، جو اسلامی قانون کے مطابق بھی ہو اور اقلیتوں کے لیے انصاف اور تحفظ کا ضامن بھی۔ ہماری راے میں علما اور دینی جماعتوں کو اس مقصد کے لیے عیسائی رہنمائوں سے مکالمہ شروع کرنا چاہیے۔

قانون توہینِ رسالتؐ پر مخالفانہ ردعمل نے جو آئینہ ہمیں دیا ہے، اس میں مسلم ملت کی قوت کا اصل سرچشمہ بھی عیاں ہو رہا ہے۔

یہ سرچشمہ وہی ہے جس کے پیچھے ہمارے دشمن چودہ سو سال سے آج تک لگے ہوئے ہیں۔ ہماری قوت و توانائی کا سامان: اس اسلحہ، قرض اور امداد میں نہیں ہے جو ہمارے دشمن خود ہمیں فراہم کر رہے ہیں۔ یہ سرچشمہ تو روز اوّل سے دل مسلم میں مقام مصطفیؐ ہے، عشق مصطفیؐ ہے، اور ملت کی پوری زندگی میں اتباع اور اطاعت مصطفیؐ سے منسوب ہے۔ ہمیں اسی سرچشمے سے سیراب ہونے میں لگ جانا چاہیے۔

آج تاریخ کا اسٹیج، اسلام اور مغرب کے درمیان معرکے کے لیے تیار ہو رہا ہے۔ بظاہر ہمارا اور مغرب کا کیا مقابلہ؟ نہ ہمارے پاس اسلحہ، نہ ٹکنالوجی، نہ معاشی ترقی، نہ اتحاد، نہ لیڈرشپ، نہ منزل اور نہ مقصد۔ لیکن ان میں سے ہر چیز ہمیں حاصل ہوجائے گی، اگر ہم قوت اور توانائی کے اس سرچشمہ تک پہنچ جائیں:

کیمیا پیدا کن از مشت گلے

بوسہ زن بر آستان کاملے

دل زعشق اور توانا می شود

خاک ہم دوش ثریا می شود

اس سے زیادہ فریب انگیز مغالطہ اور کوئی نہیں ہو سکتا، کہ ہم یہ فیصلہ کرنے بیٹھ جائیں: ہم کو ’ترقی پسند‘ بننا ہے یا ’بنیاد پرست‘۔ ہمیں نہیں معلوم بنیاد پرست کے کیا معنی ہیں۔ لیکن ہم کو یہ ضرور معلوم ہے کہ ہماری بنیاد تو حضوؐر کی ذات، آپؐ کی لائی ہوئی کتاب، آپؐ کی سنت اور آپؐ  کا   اسوۂ حسنہ ہے۔ ہم، جو اس بنیاد کے ناتے بظاہر ’بنیاد پرست‘ ہیں، فی الحقیقت سب سے بڑھ کر   ترقی پسند ہیں۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اس ضمن میں اگر امریکا کی انگلی پکڑ کر چلے تو ترقی نہیں موت اور ذلت کا گڑھا ہمارا مقدر ہے۔ اس راہ کو چھوڑ کر چلنے والے ’ترقی یافتہ‘ مسلمان ممالک کے ڈھانچے ہمارے سامنے بہت موجود ہیں:

کشودم پردہ را از روئے تقدیر

مشو ناامید و راہ مصطفیؐ گیر

مقام خویش اگر خواہی دریں دیر

بحق دل بند و راہ مصطفیؐ رو

دامنش از دست دادن موت است، حضوؐر کا دامن ہاتھ سے چھوٹنا پروانہ موت ہے۔ آج کل مسلمان ہر جگہ، خصوصاً وطن عزیز پاکستان میں، زندگی اور موت کی کش مکش میں مبتلا ہیں۔ لوگ پوچھتے ہیں، علاج کیا ہے، حل کیا ہے؟ علاج اور حل تو ایک ہی ہے۔ پہلے بھی، قوم زندگی از دم اویافت، حضوؐر کے دم سے ہی زندگی ملی تھی، اور آج بھی سب کچھ آپؐ  کا دامن پکڑ کے، آپؐ  کا مشن پورا کرنے، اور آپؐ  کے پیچھے چلنے ہی سے ملے گا:

قوت عشق سے ہر پست کو بالا کردے

دہر میں اسمِ محمدؐ سے اُجالا کر دے

کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں

مسافر تباہ حال بستی سے گزرا تو پکار اٹھا: اب بھلا اس اوندھے منہ پڑی، کھنڈر بستی کو کیسے دوبارہ زندہ کیا جاسکے گا؟ خالق نے کہا: خود ہی مشاہدہ کرلو، فوراً اسے اور اس کی سواری کو موت کی نیند سلادیا گیا۔ پورے ۱۰۰ سال مُردہ حالت میں گزر گئے۔ پھر خالق نے اپنی قدرت سے مُردہ جسم میں دوبارہ روح پھونکی اور پوچھا: کیا خیال ہے کتنا عرصہ گزر گیا؟ ۱۰۰ سال تک مردہ پڑے رہنے والے مسافر نے کہا: ایک دن یا دن کا کچھ حصہ۔ خالق نے بتایا: تم نے پورے ۱۰۰ سال گزار دیے۔ اب میری قدرت کا ایک اور مظہر دیکھو۔ تمھارا گدھا بھی ۱۰۰ برسوں میں پیوند خاک ہوگیا ہے ،لیکن تم اپنے ساتھ جو کھانا لے کر جارہے تھے وہ جوں کا توں پڑا ہے، باسی تک نہیں ہونے دیا گیا۔ اور اب دیکھو ہم تمھارے گدھے کو کیسے زندہ کرتے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے راکھ بنی ہڈیوں کا ڈھانچا کھڑا ہوگیا، پھر ان پر ماس اور چمڑا مڑھ دیا گیا، تازہ دم سواری پھر سے تیار تھی۔ مسافر پکار اٹھا: پروردگار! میں بخوبی جان گیا کہ تو ہر چیز پر قادر ہے۔

سورہء بقرہ میں تفصیل سے بیان کیے گئے اس واقعے سے کئی اسباق حاصل ہوتے ہیں، لیکن ایک اہم حقیقت جو اس منظر کی طرح دیگر کئی قرآنی مناظر سے بھی واضح ہوتی ہے یہ ہے، کہ گزرا ہوا وقت جتنا بھی طویل کیوں نہ ہو، مختصر ہی محسوس ہوتا ہے۔ بندہ اس حقیقت کا مشاہدہ و اظہار آخرت میں بھی کرے گا اور قرآن کریم کے الفاظ میں یہی تکرار کرے گا: ’’پروردگار! ہم تو دنیا میں ایک آدھ روز ہی گزار کر آئے ہیں‘‘۔ ’’ہم تو بس اتنی دیر دنیا میں رہے کہ ایک دوسرے سے تعارف حاصل کرسکے‘‘، ’’بس چند ساعتیں ہی گزاری ہیں‘‘، ’’صرف چاشت کی کچھ گھڑیاں گزریں‘‘۔ حالانکہ ان سب لوگوں نے معمول کی زندگی گزاری ہوگی اور ان میں سے ایک بڑی تعداد کی پیٹھ پر گناہوں کا خوف ناک انبار لدا ہوگا۔

گزرا وقت مختصر لگنے اور گزرنے والا وقت تیز رفتار ہونے کا مشاہدہ ،انسان کو دنیا میں بھی ہر وقت ہوتا رہتا ہے۔ جتنی بھی عمر گزر جائے، آنکھیں بند کرکے دیکھیں تو کل کی بات لگتی ہے۔ ابتدائی بچپن کی یادیں، بھولے بسرے مناظر، گاہے اچانک مجسم صورت میں سامنے آن کھڑے ہوتے ہیں۔ پھر وقت کا حساب کریں تو حیرت ہوتی ہے کہ --- اچھا  --- اتنا عرصہ گزر گیا۔

تازہ مثال دیکھ لیجیے، ابھی کل ہی ساری دنیا میں نئی صدی کے آغاز کا غلغلہ تھا۔ نئے ہزاریے، نئے ملینیم اور اکیسویں صدی کے بارے میں مختلف تجزیے اور تبصرے کیے جارہے تھے۔ طرح طرح کے دعوے، خدشے اور منصوبے سامنے آرہے تھے۔ وقت کی ایک ہی کروٹ میں آج ہم اس صدی کے پہلے ۱۰ سال پورے کرچکے ہیں۔ یکم جنوری ۲۰۱۰ء میں موجود ہر شخص ،آج صدی کا پہلا عشرہ مکمل کرچکا ہے۔ پل جھپکنے میں گزرنے والے اس عرصے کا مطلب ہے، ہم میں سے ہرشخص نے نئے ہزاریے کے ۳ہزار ۶ سو ۵۲ دن گزار لیے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ اطلاع دے دی تھی کہ ’’ایک وقت آئے گا کہ سال مہینے کی طرح گزر جائے گا۔ مہینہ ہفتے کی طرح، ہفتہ ایک دن اور ایک دن ایک ساعت کی طرح گزرتا دکھائی دے گا‘‘۔ (احمد، ترمذی)

تیزی سے گزرتا یہ وقت ہی انسان کی سب سے قیمتی متاع ہے، لیکن انسان اسی قیمتی متاع کے بارے میں ہی سب سے زیادہ غافل ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اور ارشاد کے مطابق: ’’اللہ کی عطا کردہ دو نعمتیں ایسی ہیں کہ جن کے بارے میںاکثر لوگ دھوکے کا شکار ہیں: ’’صحت اور وقت فرصت‘‘۔ صحت کی نعمت بھی اسی وقت قیمتی لگتی ہے، جب بندہ اس سے محروم ہونے لگے۔ ایک عرب محاورے کے مطابق صحت، صحت مندوں کے سر پر ایک ایسا تاج ہے جو صرف بیماروں کو دکھائی دیتا ہے۔ اور وقت کے بارے میں عرب شاعر کہتا ہے    ؎

دقات قلب المرء قائلۃ لہ

إن الحیاۃ  دقائق و ثوان

(دل کی دھڑکنیں بندے کو ہر دم یہی سمجھا رہی ہیں کہ زندگی تو فقط یہی منٹ اور ثانیے ہیں۔ ہر طلوع ہونے والا دن مخلوق میں منادی کرتا ہے۔)

یا ابن آدم أنا خلق جدید، و علي عملک شہید، فتزود مني، فانی اذا مضیت لا أعود الی یوم القیامۃ ’’اے ابن آدم! میں نئی تخلیق ہوں۔ میں تمھارے عمل پر گواہ بنایا گیا ہوں۔ تم مجھ سے جتنا استفادہ کرسکتے ہو کرلو۔ میں چلا جاؤں گا تو پھرقیامت تک واپس نہیں لوٹوں گا‘‘۔ صرف یہی نہیں بلکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی بتادیا کہ تیزی سے گزرنے والے ان لمحات کے بارے میںہر انسان جواب دہ ہوگا۔روز محشر کسی شخص کو تب تک قدم نہیں ہٹانے دیے جائیں گے جب تک اس سے یہ نہ پوچھ لیا جائے کہ جو مہلت عمر تمھیں دی گئی تھی، وہ کہاں فنا کی؟ عرب شاعر پھر یاد دلاتا ہے:

یسر المرء ما ذھب اللیالی

و کان ذھابہن لہ ذھابا

(بندہ خوش ہوتا ہے کہ روز و شب گزرگئے حالانکہ ان کا گزرنا خود بندے کا اپنی ہستی سے گزرتے چلے جانا ہے۔)

نئی صدی کے پہلے ۱۰ برس پلک جھپکتے مکمل ہوگئے۔ لیکن اگرسرسری سا جائزہ بھی لیں تو اس دوران عالمی، علاقائی اور ملکی سطح پر بہت بڑی بڑی تبدیلیاں روپذیر ہوچکی ہیں۔ نائن الیون کے بعد ایک نئی دنیا وجود میں آچکی ہے۔ اس نئی دنیا میں الفاظ کے معانی، اصطلاحات کے مفہوم اور روایات و اقدار سے لے کر، مختلف عالمی بلاک، ملکوں کے نقشے اور اپنے عہد میں سیاہ و سفید کے مالک بہت سے اصحاب اقتدار تک تبدیل ہوچکے ہیں۔ خود کو سپریم اور اکلوتی عالمی قوت سمجھنے والا امریکا،   عراق اور افغانستان میں اپنا نشۂ قوت ہرن کروا چکا ہے۔ یہ اور بات کہ خود فریبی اورجھوٹی انا اب بھی اسے اعترافِ جرم و شکست سے روک رہی ہے، لیکن یہ حقیقت نوشتۂ دیوار ہے کہ اگر امریکی انتظامیہ نے خدائی کے جھوٹے زعم سے نجات نہ پائی تو بہت جلد ریاست ہاے متحدہ امریکا بھی سلطنتوں کے قبرستان میں برطانیہ عظمیٰ اور آنجہانی سوویت یونین کی طرح ماضی کی علامت بنا دکھائی دے گا۔ معاملہ صرف امریکا ہی کا نہیں، خود یورپ اور ناٹو سے لے کر عراق اور افغانستان کے پڑوسی ملکوں تک، سب بری طرح خاک و خون میں لتھڑ چکے ہیں۔ عالمی اقتصادی بحران کا کوڑا بھی سب کی کمر پر سڑاک سڑاک برس رہا ہے۔ پیٹرو ڈالر کے بلند مینار بنانے کی دوڑ میں لگی، کئی صحرائی ریاستیںسکتے کا شکار ہو گئی ہیں۔

مختلف معاشی، سیاسی اور معاشرتی بحرانوں کی فہرست طویل ہوسکتی ہے ، لیکن تصویر کا دوسرا رخ بھی بہت اہم ہے۔ اسی عشرے میں مفلوک الحال افغانوں، بے نوا فلسطینیوں اور کس مپرسی کے شکار عراقیوں نے مزاحمت، جدوجہد اور جہاد کے الفاظ کو نئے مطالب عطا کیے ہیں۔ ۶۳ سال سے اپنے حقوق کی جنگ لڑنے والے کشمیریوں نے بھی ثابت کردیاہے کہ جب اپنے بھی منہ موڑ لیں،  تب بھی عزم و ارادے اور جذبۂ آزادی کی حفاظت کیوں کر کی جاتی ہے۔ غزہ میں محصور ۱۵ لاکھ فلسطینیوں نے حقوق انسانی کے جھوٹے دعویداروں کے مکروہ چہرے سے مکر و فریب کا پردہ نوچ ڈالا ہے ۔ بچوں، بوڑھوں اور خواتین نے بھی دنیا کو سکھادیا ہے کہ زندگی کی تمام راہیں مسدود کردی جائیں، تب بھی صرف اور صرف اللہ کے سہارے کیسے جیا اور آگے بڑھا جاتا ہے۔ اسی عشرے میں پاکستان کو تباہ کن زلزلے اور صدی کے بدترین سیلاب سے بھی دوچار ہونا پڑا، لیکن قیامت کی ان گھڑیوں میں اہل پاکستان نے من حیث القوم زندگی اور اسلامی اخوت کا ثبوت دیا۔

تصویر کے یہ دونوں رخ ،اور ان کے بہت سارے مزید پہلو بہت اہم ہیں۔ لیکن ہم اگر مجموعی طور پر دیکھیں تو ہمارا ملک، قوم اور امت سب سنگین بحرانوں کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ ہم ان بحرانوں کے اسباب کا جائزہ لے کر مختلف شخصیات حکومتوں اور سیاسی و دینی پارٹیوں میں سے ان کے ذمہ داران کا تعین بھی کرسکتے ہیں۔ لیکن سوچنے کی بات ہے کہ قوم، ملک اور امت آخر کیسے تشکیل پاتے ہیں___؟ کیا افراد کے بغیربھی کوئی قوم یا امت تشکیل پاسکتی ہے؟ تو پھر کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم سب کو ہمیشہ دوسروں کے سر ذمہ داری ڈالنے اور تباہی کا رونا رو کر بیٹھ جانے کے بجائے، فرداََ فرداََ میدان میں آنا ہوگا۔ فرد میں بھی ہوں، آپ بھی ہیں، آپ کے اہل خانہ، دوست احباب، اہل محلہ، اہل علاقہ___ یہی سب افراد بالآخر قوم اور امت کی تشکیل کرتے ہیں۔

اگرہم میں سے ہرفرد سوچے، ہر فرد اس بات کاجائزہ لے کہ جتنی عمر گزر گئی، اس میں ایک فرد کی حیثیت سے اس نے اصلاح و نجات کی خاطر کیا کیا؟ حالیہ دس برس ہی کو دیکھ لیجیے۔ ہم ذرا دیکھیں کہ ان ۳ ہزار ۶ سو ۵۲ دنوں میں ہم میں سے ہر فرد نے کیا کارنامہ انجام دیا؟___ اپنے اور اپنے اردگرد بسنے والے ’افراد‘ کے دل میں کتنا احساس زیاں پیدا کیا___؟ اسی سوال کے جواب میں ہماری بہت سی مصیبتوں کا علاج چُھپا ہوا ہے۔

آئیے ۱۰ سال کے اس عرصے کی اہمیت، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان مبارک کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی معروف حدیث میں فرمایا: کلمتان خفیفتان علی اللسان، ثقیلتان فی المیزان، حبیبتان إلی الرحمن، تملآن ما بین السماء و الأرض، دو کلمے ایسے ہیں کہ ادا کرنے میں انتہائی آسان و مختصر، لیکن قیامت کے روز میزان میں انتہائی وزنی، رحمن کو انتہائی محبوب، اور اپنے اجر و ثواب سے زمین و آسمان کے مابین پوری فضا کو بھر دینے والے ہیں۔ اور وہ دو کلمے ہیں: سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللّٰہ العظیم۔ خود کو اللہ کے سامنے کھڑا محسوس کرکے، سکون و اطمینان کے ساتھ یہ تسبیح ادا کرنے میں زیادہ سے زیادہ چھے سیکنڈ لگتے ہیں۔ کیا ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ ۱۰ سال میں      ہم رب ذو الجلال سے کیا اور کتنا کچھ حاصل کرسکتے تھے۔

آج اتفاق سے ہجری اور عیسوی دونوں برسوں کا اختتام اور نئے برس بلکہ نئے عشرے کا آغاز ہورہا ہے۔ اگر ہم میں سے ہر فرد یہ فیصلہ کرلے کہ اس نے صرف اللہ کا بندہ بن کر رہنا ہے، اسے سب کی بھلائی چاہنا ہے، سب کے لیے سراسر خیر ثابت ہونا ہے، ہر حرام سے بچنا ہے، رب ذوالجلال، اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کی کتاب مجید کی محبت کو دیگر تمام محبتوں پر غالب کردینا ہے، اس کو اپنی تمام ذمہ داریاں تن دہی اور جاں فشانی سے انجام دینا ہیں، خود ہی اس راہ پر نہیں چلنا، جہاں تک آواز پہنچتی ہے، خیر کی اس آواز کو پہنچانا اور عام کرنا ہے، اپنی سب سے قیمتی متاع یعنی وقت کا ایک ایک لمحہ رب کی قربت کا مستحق بننے کی سعی کرنا ہے___ اگر ہم میں سے ہرفرد اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ہر شہری اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر امتی یہ پختہ فیصلہ کرلے___ پھر اللہ سے استعانت طلب کرتے ہوئے ،اس پر عمل شروع کردے تو یقینا… یقینا… یقینا آیندہ آنے والا وقت ہمارا ہوگا،اور آخرت کی سرخروئی اس سے بھی پہلے یقینی ہوجائے گی۔

آج معاشرے میں جھوٹ اتنا عام ہوگیا ہے کہ اب سچ بولنا اور سچ پر یقین کرنا قریباً ناپید ہے۔ آج اگر کوئی شخص کسی کی بات کو سچ سمجھ کر یقین کرلے تو اس کو بے وقوف سمجھا جاتا ہے، اور فرض کرلیا گیا ہے کہ سب کچھ جھوٹ ہے، جب تک کہ کوئی سچ ثابت نہ کردے۔ تہذیبوں کی تاریخ میں ہمیشہ سچ کو یہ مقام حاصل رہا ہے لیکن آج ہماری یہ بدقسمتی ہے کہ ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر جھوٹ کے اتنے عادی ہوگئے ہیں کہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ جھوٹ بولا، سنا اور برتا جا رہا ہے اور یہ سب کچھ ہماری زندگی کا حصہ بن گیا ہے۔ سیاست سے لے کر تجارت، عدالت اور صحافت سارے کے سارے اداروں کا کاروبار بحیثیت مجموعی اسی سے شروع ہوتا ہے اور اسی پر ختم۔ اسی وجہ سے اب ہمارے معاشرے میں سماجی طور پر، اور ہمارے گھروں میں خاندانی طور پر، اور ہماری ذات میں انفرادی سطح پر بھی یہ اتنا عام ہوگیا ہے کہ کسی صاحب ِ ایمان اور صاحب ِ عمل کے لیے بھی اپنا دامن بچانا مشکل ہوگیا ہے۔ اس لیے کہ جب ایک بیماری وبا کی طرح عام ہوجائے تو کسی نہ کسی درجے پر ہر انسان اُس کا شکار ہوکر رہتا ہے۔

  • جہوٹ: جھوٹ سے مراد غلط بیانی یا جان بوجھ کر خلافِ واقعہ کوئی بات کہہ دینا ہے۔ اس کے گناہِ کبیرہ ہونے میں کوئی شک نہیں۔ ہمیں متواتر ایسی احادیث ملتی ہیں جس میں بڑے بڑے گناہوں، یعنی کبائر کے ذکر میں جھوٹ کا ذکر بھی ہے،اور پیارے نبیؐ کی حدیث اور سنت سے ثابت ہے اگر کسی کی اخلاقی تربیت مطلوب ہوتی تو اُس میں سرفہرست جھوٹ کو اُس کی جڑوں کے ساتھ اُکھاڑ پھینکنے کی تربیت تھی۔
  •  جہوٹ کی اقسام:جھوٹ کا چھوٹا یا بڑا ہونا اس بات پر منحصر ہے کہ اس سے ہونے والا نقصان چھوٹا ہے یا بڑا، انفرادی ہے یا اجتماعی۔ اس لیے ہم اس کو دو اقسام میں تقسیم کرسکتے ہیں۔
  • روز مـرہ زندگی میں جـہوٹ: پہلی قسم میں روزمرہ بولے جانے والے وہ   چھوٹے موٹے جھوٹ شامل ہیں جو ہم صرف اپنے دفاع، اپنے جائز و ناجائز حق کے تحفظ اور اپنی ساکھ کو درست رکھنے اور اپنی جان بچانے کے لیے بولتے ہیں۔ اس قسم کے جھوٹ کے اثرات محض ایک ذات تک محدود ہوتے ہیں اور کسی دوسرے کو اُس سے کوئی بڑا نقصان نہیں ہوتا۔ شاید اسی لیے ہم اس کو جھوٹ بھی تصور نہیں کرتے، مثلاً ہمیں کسی جگہ وقت پر پہنچنا ہے اور دیر ہوگئی۔ ہماری سُستی یا بدنظمی کی وجہ سے ہونے والی دیر کو ہم جھوٹ بول کر اپنی پوزیشن کو بچا لیتے ہیں کہ فلاں کام پڑ گیا تھا، اچانک اس وجہ سے دیر ہوگئی۔ اس موقع پر ہم اپنی غلطی کو تسلیم کرنے کو مناسب نہیں سمجھتے۔ اسی طرح کوئی کام ہمارے ذمے ہو اور ہم اُس کو درست طور پر نہ کرسکیں یا وقت پر نہ کرسکیں تو بجاے اس کے کہ اپنی کوتاہی کو سمجھیں اور اس کا ٹھیک ٹھیک تجزیہ کریں عموماً اُلٹی سیدھی وجوہات تلاش کر کے پیش کردیتے ہیں۔ کوئی کام سرے سے کیا ہی نہیں لیکن لکھ دیا یا بول دیا محض اس خاطر کہ ہماری عزت رہ جائے اور سب کے سامنے شرمندگی سے بچ جائیں گے۔

حقیقت میں اگر ہم جائزہ لینا شروع کریں تو ہم ایسے ایسے مواقع پر جھوٹ سے کام لیتے ہیں جہاں اس کی کوئی خاص ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ اپنے احباب، رشتہ داروں کے سامنے     شیخی بھگارنا ایک عام بیماری بن گئی ہے۔ یونہی محفل میں رنگ بھرنے کے لیے چند واقعات سنا دینا جس سے وقتی طور پر سب واہ واہ کر اُٹھیں، محض لوگوں کے اندر اپنی دھاک بٹھانے کے لیے زندگی کے ناکردہ واقعات سنا دینا جن کو اب ثابت نہیں کیا جاسکتا وغیرہ۔ اس معاملے میں خواتین کا تناسب تھوڑا زیادہ ہوجاتا ہے کہ نبی کریمؐ نے معراج کے موقع پر خواتین کو جہنم میں زیادہ دیکھا تو اس کی تصریح یہی فرمائی کہ خواتین زبان کے معاملے میں زیادہ احتیاط نہیں برتتی ہیں۔ غیبت، بدزبانی، جھوٹ اور زیادہ تر اخلاقی برائیوں کا تعلق چونکہ زبان سے ہے اور عموماً خواتین اس کے استعمال میں غیرمحتاط اور جذباتی ہوتی ہیں اسی لیے وہ جہنم میں بھی زیادہ ہوں گی۔

خواتین چونکہ اپنے میکے، شوہر اور بچوں کے معاملے میں حساس ہوتی ہیں اس لیے گھریلو سطح پر جھوٹ کی یہ بیماری رگوں میں سرایت کرگئی ہے۔ میکے اور سسرال میں پیدا ہونے والی مختلف  صورت حال میں جائز اور ناجائز طور پر محض اپنے دفاع کے لیے غلط بیانی سے کام لیا جاتا ہے۔ بعض اوقات کوئی وجہ نہیں بھی ہوتی لیکن عادتاً ہی جھوٹ بول دیا جاتا ہے۔ بچے بڑے ہونے لگتے ہیں تو اُن کی بے جا تعریف میں اُٹھتے بیٹھتے رشتہ داروں اور سہیلیوں کے سامنے اس کا اظہار اس طریقے سے ہوگا کہ جو کام بیچارے نے نہ بھی کیے ہوں یا اگر کیے بھی ہوں تو بڑھا چڑھا کر اُس کو بیان کرنا۔ اس میں شک نہیں کہ اولاد کی محبت ایک فطری امر ہے اور ہمارا دل بھی کرتا ہے کہ بچے کے اچھے کام کی تعریف اور اُس کی حوصلہ افزائی کریں مگر ہماری چھوٹی سی یہ عادت خاندانوں کی تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ نکاح اور شادی جس کو عبادت کا درجہ حاصل ہے اُس کی بنیاد ہی کئی طرح کے جھوٹ پر رکھی جاتی ہے۔ عمر، سلیقہ، اسناد اور تعلیم و تربیت کے متعلق اس قدر جھوٹ بولے جاتے ہیں یا مبالغے سے کام لیا جاتا ہے کہ اصل حقیقت جب بعد میں کھلتی ہے تو اعتماد کی ڈُور ٹوٹنا شروع ہوجاتی ہے۔ یہ سب کچھ محض اس لیے کیا جاتا ہے کہ اگر ایسا نہ کیا تو ظاہر ہے رشتے نہیں ہوں گے چاہے بعد میں اُس رشتے کا انجام ہی علیحدگی پر ہو۔ یہ ایک ایسا مروج جھوٹ ہے جو شروع تو ایک ذات سے ہوتا ہے مگر اس کے نقصانات وقت کے ساتھ ساتھ پھیلتے چلے جاتے ہیں۔

گھریلو سطح پر بولے جانے والا یہ جھوٹ اب ایک نفسیاتی بیماری کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ اس سے بچنے کے لیے افراد اور خصوصاً خواتین کی اخلاقی تربیت کے ساتھ ساتھ نفسیاتی تربیت کی بھی ضرورت ہے، جس پر اہلِ علم حضرات کو توجہ دینی چاہیے۔ اس لیے کہ اہلِ مغرب کے مقابلے میں ہم اپنے خاندانی نظام پر فخر کرسکتے ہیں۔ لیکن اب بڑھتی ہوئی طلاقیں اور ناچاقیاں اس نظام کے درپے ہیں۔ اس لیے اس کو بچانے کی فکر کرنی چاہیے۔ دراصل یہ کثرت سے بولے جانے والے جھوٹ کی ہی بے برکتی ہے جو ہمارے خاندانی نظام کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہی ہے۔

  • معاشرتی سطح پر جہوٹ: اس قسم کے بولے جانے والے جھوٹ کے اثرات دنیا و آخرت میں محض ہماری ذات تک محدود نہیں ہوتے بلکہ ہمارے گھر، اجتماعیت بلکہ ملک اور پوری قوم تک پھیلے ہوئے ہوسکتے ہیں۔ اسی کو قرآن کہتا ہے:

وَالَّذِیْنَ لاَ یَشْہَدُوْنَ الزُّوْرَ لا وَاِِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا کِرَامًا o (الفرقان ۲۵:۷۲) اور (رحمن کے بندے وہ ہیں) جو جھوٹ کے گواہ نہیں بنتے اور کسی لغو چیز پر اُن کا گزر ہوجائے تو شریف آدمیوں کی طرح گزر جاتے ہیں۔

جس جھوٹ سے کسی کی حق تلفی ہورہی ہو یا کسی کو انصاف نہیں ملتا، اس کی بنیاد پر کوئی ٹھیک اجتماعی فیصلہ اور صحیح راے قائم نہیں کی جاسکتی۔ یہ اس لیے زیادہ خطرناک ہے کہ اس کے نقصانات اجتماعی ہی نہیں ہوتے بلکہ دُوررس بھی ہوتے، اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ دل خدا کے خوف سے خالی اور انسان خدا کی پکڑ سے بے نیاز ہے۔

اس کی بھی کئی شکلیں ہیں، مثلاً بعض اوقات ہم الفاظ سے جھوٹ نہیں بولتے لیکن صحیح بات کو معلوم ہونے کے باوجودچھپا لیتے ہیں، جس سے معاملے کی تہہ تک نہیں پہنچا جاسکتا اور نتیجہ ایک غلط فیصلے کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ اجتماعی معاملات خواہ کسی بھی سطح کے ہوں اُس میں حق اور سچ کا ساتھ دینا ہماری ذمہ داری ہے۔ ملکی سطح اور معاشرتی سطح کے بڑے بڑے معاملات، یعنی ہماری سیاست، ہماری عدالتوں میں جھوٹی گواہی، جھوٹے مقدمے، تجارت میں جھوٹ اور دھوکا دہی،  تعلیمی اداروں کی جعلی اسناد، صحافت میں میڈیا کی غلط اور مبہم رپورٹنگ جس سے سچ اور جھوٹ گڈمڈ ہوکر رہ گیا ہے اور ایک عام آدمی کے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔ یہ سارے جھوٹ آج بولے جارہے ہیں۔ یہ سب کو نظر آرہے ہیں اور من حیث القوم ہم جس عذاب سے گزر رہے ہیں یہ اسی کا نتیجہ ہے۔

  • جہوٹ کا جواز: ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ مبالغہ یا جھوٹ اگر جائز ہے تو حدیث کی رُو سے اُس کی دو ہی صورتیں ہیں: ۱- لوگوں کے درمیان مصالحت کرتے ہوئے ۲-میاں بیوی کا ایک دوسرے کی محبت میں مبالغہ۔

اسی طرح سچ بولنے کی اتنی فضیلت ہے کہ غیبت جیسی برائی بھی چند خاص صورتوں میں جائز ہوجاتی ہے، مثلاً مظلوم کی فریاد رسی اور انصاف کے حصول کے لیے، فتویٰ حاصل کرنے کے لیے، اور معاملات کی اصلاح کے لیے اُن لوگوں کے سامنے حال بیان کرنا جو اس کو درست کرنے کے ذمہ دار ہوں (اس سلسلے میں تفصیلی احادیث اور فقہا کا بیان ریاض الصالحین (حصہ اول) میں غیبت کا جواز کے بیان میں دیکھا جاسکتا ہے)۔

ان دونوں قسم کی احادیث کو دیکھتے ہوئے ہم اچھی طرح سے سمجھ سکتے ہیں کہ حقیقت میں اخلاق اور معاملات کی درستی مطلوب ہے، اور اسلام، مسلمانوں کے مابین محبتوں کو پروان چڑھانا چاہتا ہے۔ اسی لیے محبتوں میں اضافے اور مصالحت کے لیے جھوٹ جیسے گناہِ کبیرہ کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ ہم نے چیزوں کو اُلٹ دیا ہے۔ جہاں چھوٹا موٹا جھوٹ بول کر معاملات کو سنبھالا اور بچایا جاسکتا ہے وہاں تو ’بھرپور سچ‘ کا مظاہرہ کر کے دلوں کو چیر پھاڑ دیا جاتا ہے، اور جہاں حقیقت میں سچ کی تلاش میں معلومات لی جاتی ہیں تو ’کہیں غیبت نہ ہوجائے‘ کا سوچ کر ہم اصل سچ تک پہنچنے میں رکاوٹ بنتے ہیں اور نتیجتاً ایک بڑا نقصان منتظر ہوتا ہے۔ اس طرح ہم محبتوں کو پروان چڑھانے کے بجاے بدگمانیاں بڑھاتے ہیں۔

 جہوٹ سے کیسے بچا جاسکتا ھے؟

  • سب سے پہلے تو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ میری وجہ سے کوئی بھی شخص ایسی صورت حال میں نہ پڑے کہ اُسے جھوٹ بولنا پڑے، یعنی ہم کسی کو جھوٹ بولنے پر مجبور نہ کریں۔ سورئہ حجرات میں تجسس نہ کرنے کا حکم اسی لیے ہے کہ دوسروں کے معاملات کی اتنی کُرید اور ٹُوہ نہ کی جائے اور نہ  اتنے سوالات ہی کیے جائیں کہ اُس کو جھوٹ سے کام لینا پڑے۔ بچوں کی تربیت کے معاملے میں بھی یہی طریقہ مناسب ہے کہ اُن کی بات پر اعتماد کریں اور اُنھیں ایسی صورت حال میں نہ لے کر جائیں کہ اُنھیں جھوٹ بولنے کے سوا کوئی راستہ نہ ملے۔
  • اللہ تعالیٰ سے حکمت طلب کریں۔ اس کے لیے پیارے نبیؐ نے جو دعائیں سکھائی ہیں وہ مانگیں تاکہ صورت حال کو سنبھالنے کے لیے جھوٹ کے بجاے حکمت سے کام لیں۔
  • اپنے بزرگوں سے حکمت کی باتیں سیکھیں۔
  • دوسروں کے کیے ہوئے اچھے کاموں کی دل کھول کر تعریف کریں۔ خصوصاً بچوں کی تربیت میں حوصلہ افزائی کے لیے یہ بہت ضروری ہے۔ اس طرح اگر کسی کو اپنے کسی اچھے کام پر حوصلہ افزائی ملتی ہے تو وہ خواہ مخواہ جھوٹ سے کام نہیں لے گا۔

قرآن کی اس آیت پر اپنا ایمان پختہ کرلیں کہ اللہ جسے چاہتا ہے عزت سے نوازتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے۔ کوئی اسے روک نہیں سکتا تو پھر کیوں ہم اپنی جھوٹی عزت بنانے کے لیے ایسے طریقے اختیار کریں جس سے آخرت میں تو رُسوائی ہوگی ہی لیکن دنیا میں بھی سب اس کا تعفن محسوس کرلیں۔ اس لیے کہ وقت گزرنے کے ساتھ سچ اور جھوٹ دنیا میں بھی واضح ہوکر رہنا ہے۔ اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے۔

اپنے ذہن میں اس تصور کو پختہ کرلیں کہ اس دنیا میں جتنی بھی بڑی کامیابی ہو وہ بہرحال اس دنیا کی کامیابی ہے اور آخرت کی بڑی کامیابی کے سامنے اُس کی کوئی حیثیت نہیں۔ اسی طرح اس دنیا کی بڑی سے بڑی ناکامی بھی آخرت کی ناکامی کے سامنے ہیچ ہے۔ اس لیے آخرت کی کامیابی کے لیے، دنیا کا بڑے سے بڑا نقصان بھی اُٹھانا پڑے تو سچ کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنا چاہیے۔

  • ھماری ذمہ داری: ہم اپنے گھر کے اندر اور اجتماعیت کے حوالے سے مختلف حیثیتوں سے مکلف بنائے گئے ہیں اور قیامت کے دن ہم سب سے ہماری رعیت کے بارے میں جواب دہی ہوگی، لہٰذا اپنی اس رعیت کی تربیت کے ہم ذمہ دار ہیں۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ جس طرح ہم اپنی ذات سے اس اخلاقی برائی کو نکال باہر کریں، اسی طرح اپنے زیرتربیت افراد کی تربیت کی اُٹھان اور بنیاد بھی اس طرح ڈالیں کہ وہ جھوٹ سے پرہیز کرنے والے ہوں۔

اسلام میں عبادات کے مقاصد میں سے ایک بڑا مقصد انسان کی اخلاقی تربیت ہے اور اخلاقی تربیت کی بنیاد ہی جھوٹ سے پرہیز اور سچ کی تلقین ہے۔ اگر ہم دنیا کے کسی بھی چھوٹے اور بڑے فائدے کے لیے بولے جانے والے جھوٹ کو اپنی ذات سے نکالنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو آخرت کی کامیابی یقینا ہماری منتظر ہے ہی، اس دنیا میں بھی من حیث القوم ہم پھر سے     نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدینؓ کے نظام کو نافذ کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔

کشف المحجوب سے ایک مطالعہ

اللہ کی زمین پر جِنّ و بشر کی ہدایت کے لیے نبیوں اور رسولوں کا سلسلہ ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم تک جاری رہا۔ نبیوں کے اسی مشن کو آگے بڑھانے کے لیے ہر دور میں اللہ کے دوستوں اور ولیوں کی جماعتیں سرگرمِ عمل رہتی ہیں۔ اللہ کے انھی دوستوں میں سے ایک سید علی بن عثمان الہجویری ؒ ہیں، جو غزنہ کی سرزمین میں آباد چھوٹی سی بستی ہجویر میں پیدا ہوئے۔ ابو الفضل محمد بن الحسن ختلی ؒ سے روحانی فیض حاصل کیا، اور علم وحکمت کے موتی ابوالعباس اشقاقی، ابو جعفر محمد بن المصباح الصیدلانی، ابو القاسم عبدالکریم بن ہوازن القشیری، ابو القاسم بن علی الگرگانی، محمد بن علی بسطامی اور ان جیسے دیگر علما وفقہا سے اکٹھے کیے۔ مختلف ملکوں اور بستیوں میں کسبِ علم کے لیے سفر کیا، بالآخر اپنے مرشد ابو الفضل محمد بن الحسن ختلی کے کہنے پر لاہور کو مرکز تعلیم وارشاد بنالیا۔ اس طرح سرزمین لاہور  خوش نصیب ٹھیری۔

شیخ علی بن عثمان الہجویری رحمہ اللہ علیہ علم ودانائی، تقویٰ اور کشادہ دلی میں اپنی مثال آپ تھے۔ علم وحکمت میں حق کی معرفت، تقویٰ میں اعتدال پسندی اور سخاوت میں دریا دلی آپ کی پہچان بنی۔آپ کی سیرت اور خیالات کے مطالعے کے ساتھ ساتھ صدیوں سے لاکھوں مساکین اور فقرا کا آپ کے مرکزِ فیض سے روحانی ترفع حاصل کرنا اس بات کی گواہی دے رہا ہے۔

سید علی الہجویری رحمہ اللہ علیہ توحید خالص، ختم ِ رسالت اور اتباعِ قرآن وسنت کے علَم بردار تھے۔ آپ نورِ حق کی طرف بلانے، نور رسالت کی شمع کے گرد جمع کرنے اور نورِ قرآن سے خلق ِ خدا کو روشنی دکھانے والے تھے۔ جب ہر طرف نور اور روشنی کی بات ہو تو بے یقینی کا سایہ اور شکوک وشبہات کا گردوغبار کیسے باقی رہ سکتا ہے، اس لیے ان کی ہر بات بالکل واضح اور کھلی ہے۔

اللہ کے ولی اور دوست صرف اللہ کی طرف بلاتے ہیں، اور پورے کے پورے انسان کو بلاتے ہیں، رسول کا مطیع بناتے ہیں اور ظاہر وباطن، جسم وروح، خیال اور عمل ہر بات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی بات کرتے ہیں۔شریعت پر عمل کرنا بھی لازم قرار دیتے ہیں، اور روحانیت کے مدارج طے کرنے میں بھی رہنمائی فرماتے ہیں۔

l معرفت اور شریعت: شریعت کے حوالے سے سید علی الہجویری رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’لوگ اب ترکِ شریعت کو طریقت کہتے ہیں‘‘(کشف المحجوب، فصل ہفتم، صورت سوال)، اور شریعت کی وضاحت میں بغیر کسی لاگ لپٹ کے بیان کرتے ہیں: ’’شریعت کا رکن اوّل کتاب اللہ ہے، چنانچہ فرمایا گیا: مِنْہُ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ہُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ (اٰلِ عمرٰن ۳:۷)۔ ’’اس کتاب میں محکم آیات ہیں، جن کا مقصود واضح ہے، وہی اصل کتاب ہے‘‘۔ دوسرا رکن سنّت رسول ہے، جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے: وَمَآ اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ ق وَمَا نَہٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا ج ’’رسول جو آپ کو عطا کریں وہ لے لو، اور جس بات سے منع کردیں اس سے رک جاؤ‘‘ (الحشر ۵۹:۷)۔ تیسرا رکن اجماع اُمّت ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا یجتمع امتی علی الضلالۃ (میری امت گمراہی پر متفق نہیں ہوسکتی)‘‘۔ (کشف المحجوب،    سید علی بن عثمان الہجویری رحمہ اللہ ، ترجمہ عبدالحکیم خان نشتر جالندھری وعلاّمہ ظہیر الدین بدایوانی)

غور فرمایئے کہ شریعت کے مصادر کا کس خوب صورتی سے ذکر کردیا۔ کوئی الجھاؤ باقی نہیں رہنے دیا ۔ قرآن، سنت اور اجماع اُمت، جب بھی ان بنیادوں پر اسلام کی عمارت استوار کی گئی ہے، ایک عالی شان، دیدہ زیب اور مستحکم عمارت وجود میں آئی ہے۔

معرفت اور شریعت کا اصل رشتہ بتاتے ہوئے اصحاب عرفان اور اصحاب شریعت کے فرق کو ختم کردیا، بلکہ اپنے زمانے کے ضروری علم کو حاصل کرنے کی بھی ترغیب دی۔ مرشدہجویری فرماتے ہیں: ’’بندے کو خدا کے امور اور اس کی معرفت کا علم ہونا چاہیے۔ وقت کی مصلحت کا علم بھی بندے پر فرض ہے، جو علم ضرورت کے وقت اس کے کام آتا ہے۔ اس کے ظاہر وباطن کی دو قسمیں ہیں: علم اصول اور علم فروع۔ ’’علم اصول کا ظاہر ،قولی شہادت ہے اور باطن، معرفت کی تحقیق۔ علم فروع کا ظاہر دینی معاملات کی تعمیل اور باطن، نیّت کی درستی‘‘ (کشف المحجوب، معرفت وشریعت)۔ پھر فرماتے ہیں: ’’شریعت کا ظاہر ، باطن کے بغیر نقصان ہے اور باطن، ظاہر کے بغیر ہوس ہے‘‘۔ گویا باطن کا ایمان اور اخلاصِ نیت سے تعلق ہے اور ظاہر کا عمل اور اطاعت سے، دونوں سے مل کر دین بنتا ہے۔

l علم اور عمل لازم و ملزوم: کچھ لوگوں نے نادانی یا دانش مندی کے زعم میں علم اور عمل کو ایک دوسرے کے مقابلے میں کھڑا کردیا ہے۔ کوئی علم ومعرفت کے جھنڈے گاڑنے کی فکر میں عمل کی دنیا سے بے گانہ ہونے لگا اور کسی نے ’علموں بس کریں او یار‘ کے جملے کو اپنے لیے ڈھال بنالیا۔ سید علی الہجویریؒ فرماتے ہیں: ’’میں نے عوام کی ایک جماعت دیکھی ہے جو علم کو عمل پر فضیلت دیتی ہے اور دوسری جماعت عمل کو علم پر، لیکن یہ دونوں باتیں غلط ہیں، کیونکہ عمل کو علم کے بغیر عمل نہیں کہہ سکتے، بلکہ عمل اُس وقت عمل بنتا  ہے جب علم اس کے ساتھ ہو،تا کہ بندہ اس کے ذریعے سے ثواب کا حق دار ہوسکے۔ مثلاً نماز کو لیجیے کہ جب تک پہلے انسان کو طہارت کے ارکان، پاک پانی کی شناخت، قبلے کی پہچان، نیت کی کیفیت اور نماز کے ارکان سے آگاہی نہ ہو، نماز ہوتی ہی نہیں۔ اس لیے جب عمل اصل میں علم ہی سے حاصل ہوسکتا ہے تو کس طرح جاہل اس کو علم سے علیحدہ کرسکتا ہے۔ جو لوگ علم کو عمل پر فضیلت دیتے ہیں، وہ بھی غلطی پر ہیں، کیونکہ علم کو عمل کے بغیر علم نہیں کہہ سکتے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: نَبَذَ فَرِیْقٌ مِّنَ الَّذِینَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ ق کِتٰبَ اللّٰہِ وَرَآئَ ظُہُوْرِہِمْ کَاَنَّہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ o (البقرہ ۲:۱۰۱) ’’اہلِ کتاب میں سے ایک فریق نے خدا کی کتاب پسِ پشت ڈال دی ، گویا وہ اسے جانتے ہی نہیں‘‘۔ اس آیت میں خدا نے بے عمل عالم کا نام علما سے خارج کردیا ہے، کیونکہ علم پڑھنا اور اسے یاد کرنا، یہ سب کچھ عمل ہی میں شامل ہے‘‘(کشف المحجوب، علم وعمل)۔ اس طرح شیخ نے علم اور عمل کو ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم کرکے حق بات کو واضح کردیا۔

اپنی بات کو مزید تقویت دینے کے لیے سید علی الہجویری رحمہ اللہ علیہ، جناب حاتم اصّمؒ   کی حکمت بھری بات بتاتے ہیں کہ حضرت حاتم اصم ؒ فرماتے ہیں: میں نے چار علم اختیار کرلیے اور دنیا کے تمام علموں سے نجات پائی۔ لوگوں نے پوچھا: وہ چار علم کون سے ہیں؟ اُنھوں نے جواب دیا: ’’پہلا یہ کہ میں نے جان لیا، میرا رزق میری قسمت میں لکھا جاچکا ہے جو زیادہ یا کم نہیں ہوسکتا، اس لیے میں زیادہ کی طلب سے بے غم ہوگیا ہوں۔ دوسر ایہ کہ میں نے جان لیا کہ  مجھ پر اللہ تعالیٰ کا ایک ایسا حق ہے، جو میرے سوا کوئی ادا نہیں کرسکتا، لہٰذا میں اس کے ادا کرنے میں مصروف ہو گیا ہوں۔ تیسرا یہ کہ میں نے جان لیا کہ کوئی میری تلاش میں ہے، یعنی موت اور میں اس سے بھاگ کر کہیں نہیں جاسکتا، لہٰذا میں نے اس کا سازو سامان کرلیا ہے (یعنی نیک کام کیے جارہا ہوں)۔ چوتھا یہ کہ میں نے جان لیا ، میرا ایک آقا ہے، جو میرے حالات سے آگاہ ہے، لہٰذا مجھے اس سے شرم آئی اور میں نے ناروا کاموں سے ہاتھ اٹھا لیا۔ جب بندہ جانتا ہے کہ خدا اسے دیکھ رہا ہے تو چاہیے کہ وہ کوئی ایسا کام نہ کرے جس کے باعث قیامت میں خدا سے شرمندہ ہونا پڑے‘‘ (کشف المحجوب، علم و عمل، فصل اوّل)۔ گویا علم میں ایمان اور یقین ہے، اور عمل میں اطاعت وفرماں برداری ہے۔   علم محبوب کی پہچان ہے اور عمل محبوب کی بات ماننا، اور اپنے آپ کو اس کے سپرد کرنا ہے۔

گویا اس معلم شریعت اور شیخ طریقت نے اصل حق کی طرف لوگوں کو بلایا ہے، اور   شرک وبدعات کی سب قباحتوں سے دور رہنے کی تلقین فرمائی ہے۔ اس اعتبار سے ایمان اور اطاعت میں جس قدر توجہ اور محنت ہوگی مقام عبدیت میں اتنا ہی کمال حاصل ہوگا۔ پھر عبدیت کے مقام پر فائز ہونے والا شخص روحانی کیفیت میں کَأنَّکَ تَرَاہٗ (گویا تو اسے دیکھ رہا ہے) کے درجے پر اور ظاہری حالت میں: فَاَکُوْنَ بَصَرُہٗ الَّذِیْ یُبْصِرُ بِہٖ وَسَمعَہٗ الَّذِیْ یَسْمَعُ بِہٖ (میں اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اور اس کی سماعت بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے)   بن جاتا ہے۔ (کشف المحجوب، تصوّف)

شیخ علی ہجویری فرماتے ہیں: ایسے شخص کے لیے شرع کے وہ احکام جو دوسروں کے لیے مشکل ہوتے ہیں، آسان ہوجاتے ہیں۔ آپؒ نے حضرت حارثہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت نقل کی ہے: ایک بار حضرت حارثہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضوؐر نے استفسار فرمایا: ’’اے حارثہ ؓ! تونے صبح کس حال میں کی؟ کہا: میں نے ایسے حال پر صبح کی کہ خدا پر  سچا ایمان رکھنے والا ہوں۔ فرمایا: اے حارثہؓ جو کچھ تو کہہ رہا ہے، اس پر غور کر، کیونکہ ہر شے کی کوئی حقیقت ہوتی ہے۔ بتا تیرے ایمان کی حقیقت کیا ہے؟ عرض کی کہ میں نے اپنے نفس کو دنیا سے منقطع کرلیا اور ہٹا لیا ہے، لہٰذا میرے لیے اِس کا پتھر، سونا، چاندی اور مٹی کا ڈھیلا سب یکساں ہیں۔ اب میں رات کو جاگتا ہوں اور دن کو پیاسا رہتا ہوں، حتیٰ کہ میرا یہ حال ہوگیا، گویا میں اپنے پروردگار کا عرش علانیہ دیکھ رہا ہوں، اور جنت والوں کو دیکھتا ہوں کہ وہاں باہم مل رہے ہیں، جہنمیوں کو دیکھتا ہوں کہ وہ باہم کشتی لڑ رہے (تکرار کر رہے ) ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ وہ ایک دوسرے کو شرمندہ کررہے ہیں (الحدیث)۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تو نے اپنے اللہ کو بخوبی پہچان لیا۔ اب اس عرفان کو اپنے آپ پر لازم کرلے‘‘۔ (کشف المحجوب، حقیقت تصوّف)

کتنے عظیم تھے وہ لوگ جنھوں نے اپنے رب کو اس طرح پہچانا کہ دنیا کی سب پہچانیں مدہم پڑگئیں، اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ معرفت ِ حقیقی تو اسی بات کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ کیا ہماری دنیا بلکہ ساری کائناتوں کی کوئی چیز بھی اللہ کی قدرت، ملکیت اور حکومت سے باہر ہے، اور کیا کائنات کا ایک معمولی سا ذرّہ بھی کسی اور کی تخلیق ہے؟ جب ساری تخلیق اسی اللہ کی ہے تو خالق و مالک جسے اچھا کہہ دے وہی اچھا ہے، اس کے بتانے کے مطابق وہ مشتِ غبار جو کسی مجاہد کے گھوڑے کے پاؤں سے اٹھتا ہے، اور وہ مٹی زروجواہر سے زیادہ قیمتی ہوجاتی ہے جس پر اللہ کے کسی بندے کی پیشانی سجدے کی حالت میں پڑتی ہے، اور وہی مالک چاہے تو سونے چاندی اور زروجواہر کے انبار کو زہریلے ناگ یا جھلسا دینے والی آگ میں بدل دے جس کی زکوٰۃ ادا نہ کی گئی ہو۔

  • صوفی کی پھچان: اس حقیقت کو واضح کرنے کے بعد سید علی ہجویری، اللہ کے سچے دوست، ولی، یا اہلِ طریقت کی اصطلاح میں صوفی کی پہچان کے لیے سب سے پہلی مثالی شخصیت کے طور پر جس ہستی کا ذکر کرتے ہیں وہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، جنھوں نے اللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت کے علاوہ دل میں کسی اور محبت کو نہ پالا، جو اپنی جان، مال اور اولاد قربان کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے۔ سید ہجویری رحمہ اللہ رقم طراز ہیں: ’’اگر تمھارے دل میں حقیقی صوفی بننے کی آرزو ہے تو لاریب باطن کی صفائی حضرت صدیق اکبر ؓ کی صفت ہے، کیونکہ صفا سے باطن کی ایک اصل ہے اور ایک فرع۔ اس کی اصل، غیروں سے دل کا کٹ جانا ہے، اور فرع غدّار دنیا سے دل کا خالی ہوجانا ہے۔ یہ دونوں باتیں حضرت صدیق اکبر ابوبکر عبداللہ ابی قحافہ ؓ کی صفتیں ہیں، کیونکہ وہ طریقت والوں کے امام تھے۔

غیر اللہ سے آپؓ کے دِل کا کٹ جانا اس طرح تھا کہ جب تمام صحابہؓ، پیغمبر عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارگاہ کبریا میں تشریف لے جانے (وصال پاجانے) سے دِل شکستہ ہو رہے تھے، یہاں تک کہ جب حضرت عمر ؓ تیغ بکف فرما رہے تھے کہ جو کوئی یہ کہے گا کہ پیغمبر عالم صلی اللہ علیہ وسلم انتقال فرماگئے ہیں، میں اس کا سر قلم کردوں گا، توحضرت صدیق اکبرؓ نے باہر تشریف لاکر بلند آواز میں فرمایا: خبردار لوگو! جو شخص محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا، پس بے شک محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا تو وصال ہوگیا، اور جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پروردگار کی عبادت کرتا تھا تو وہ زندہ ہے کبھی نہیں مرے گا۔ پھر انھوں نے یہ آیت پڑھی: وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ اَفَاْئِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓی اَعْقَابِکُمْ ط (اٰل عمران ۳:۱۴۴) ’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے ایک رسول ہی ہیں، حضوؐرسے قبل بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں، پس کیا اگر وہ وفات پاجائیں یا شہید کردیے جائیں تو کیا تم اپنے دین سے پھر جاؤ گے؟‘‘ غرض جو فانی شے سے دل لگاتا ہے تو  وہ شے فنا ہوجاتی ہے اور اس کے فنا ہوجانے پر اسے رنج ہوتا ہے، جو شخص اپنی جان حضرت باقی (اللہ تعالیٰ) کے سپرد کردیتا ہے تو جب اُس کا نفس تباہ ہوجاتا ہے (جسم سے اُس کا تعلق کٹ جاتا ہے) تو وہ بقاے دوام سے (تعلق جسم کے بغیر) باقی رہتا ہے۔ پس جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم پاک کو ظاہری آنکھ سے دیکھا، جب وہ جسم پاک جہان سے اُٹھ گیا تو آنحضرتؐ کی تعظیم بھی اس کے دل سے اُٹھ گئی۔ جس نے آپؐ کی روحِ پاک کو حقیقت کی آنکھ سے دیکھا، اس کے لیے آپؐ کا جہان سے چلا جانا، یا یہاں رہنا دونوں برابر ہیں، کیونکہ اس نے بقا کی حالت میں حضوؐر کی بقا کو حق تعالیٰ کے واسطے سے اور فنا کی حالت میں حضوؐر کی فنا کو اللہ ہی کی طرف سے سمجھا۔ اس نے تبدیل کیے ہوئے (جسم پاک) سے رُخ پھیر کر تبدیل کرنے والے کی طرف توجہ کی‘‘۔ (عن ابی ہریرہ، سنن ابی داؤد، حدیث ۲۰۴۱، مسند احمد حدیث ۵۸۲۷، مجموعہ الفتاویٰ ابن تیمیہ ج۱۱، ص۱۹۵)

جناب سید علی الہجویری رحمہ اللہ علیہ نے ایک ہی فقرے میں کتنی باتوں کو نکھار کر رکھ دیا ہے: ’’اہلِ ایمان صرف اور صرف اللہ کی عبادت کرتے ہیں، کسی بندے کی عبادت نہیں کرتے‘‘۔ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور آپؐ کی اطاعت کرتے ہیں، عبادت نہیں، اور محبت واطاعت کے لیے آپؐ کا نظر میں ہونا یا نہ ہونا برابر ہے۔ اہلِ محبت کے لیے زمان ومکان کی قید، اور حاضر وناظر کی شرط کوئی معنی نہیں رکھتی۔ اللہ کا ولی تبدیل کیے ہوئے جسم اطہر سے رخ ہٹا کر تبدیل کرنے والے کی طرف توجہ کرتا ہے اور کسی ہستی کے ظاہر ہونے یا غائب ہونے کا معاملہ   اللہ رب العزت کے ہاتھ میں ہے۔ رسولؐ سے محبت کا تقاضا ہے کہ اللہ سے محبت کی جائے، اور  اللہ سے محبت کا طریقہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی جائے۔

سید علی ہجویری رحمہ اللہ علیہ نے سیدنا ابوبکر کے بعد خلفاے راشدین، اہلِ بیت رسولؐ ، اصحابِ صفّہ، تابعین اور پھر علما، فقہا ، مجاہدین اور فقرا کی زندگیوں کو اہلِ تصوف کے لیے مشعلِ راہ بنایا ہے، جن میں جناب عمر بن خطابؓ، عثمان غنیؓ ، علی بن ابی طالب ؓ ، حسنؓ و حسینؓ سے لے کر سعید بن المسیّب ؒ، ابو حنیفہؒ، عبداللہ بن مبارکؒ ، معروف کرخیؒ، امام شافعیؒ، احمد بن حنبلؒ تک، اور جناب جنید بغدادی ؒ سے لے کر شام، عراق، فارس، غزنی اور ماوراء النہر کے صوفیا کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان سب نفوس قدسیہ کی زندگیوں کا مخلصانہ اور غیر متعصّبانہ جائزہ لیا جائے تو شریعت، طریقت اور تصوّف کی ساری الجھنیں دُور ہوجاتی ہیں۔

تصوف کے حوالے سے سید ہجویری ؒ نے تین طرح کے افراد کا ذکر کیا ہے ۔ ایک کو وہ صوفی کہتے ہیں، دوسرے کو متصوّف، اور تیسرے کو مستصوف کا نام دیا ہے اور پھر تینوں کا تعارف اس طرح کروایا:

  • صوفی وہ ہے جو اپنی ذات سے فانی اور ذاتِ حق کے ساتھ باقی ہو اور طبعی تقاضوں سے آزاد ہو کر حقیقت ِ باطن سے پیوستہ ہو۔
  • متصوف وہ ہے جو ریاضت ومجاہدے سے اس مقام (صوفی)کی جستجو میں غرق ہو اور ہر امر میں صوفیاے عظام کا طریقِ زیست ملحوظ ِ خاطر رکھتا ہو۔
  • مستصوف وہ ہے جو مال ومتاع اور جاہ وامارت کی نگہداشت کے لیے اپنے آپ کو صوفیا کی طرح بنائے رکھنے میں مشغول ہو اور ان دونوں مقاموں سے مطلق آگاہ نہ ہو۔(کشف المحجوب، تصوّف کی حقیقت، باب سوئم، فصل اوّل)

گویا وہ شخص جو دولت، عزّت وشہرت اور زیادہ سے زیادہ مادی سہولتیں جمع کرنے میں   لگا ہوا ہے، شریعت کے احکام کی پابندی نہ کرتا ہو، اور اپنی ظاہری بودوباش اور شکل وصورت سے صوفی بننے کا فریب کر رہا ہو، وہ اللہ کا ولی نہیں ہوسکتا ہے۔

  • فقر اور غنا: جہاں بھی اولیا اور اتقیا کا ذکر ملتا ہے وہیں فقر، دنیا کے مال ومتاع سے بے رغبتی، اور اکثر اوقات تنگ دستی والی زندگی کی صورت دکھائی دیتی ہے، جس کی وجہ سے ایک اور اختلاف نے اہلِ ایمان کو الجھن میں مبتلا کردیا۔ بعض نے کہا دنیا میں موجود سب نعمتیں اللہ کی بنائی ہوئی ہیں، ان سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے اور اپنے حالات اور زمانے کے حساب سے زیادہ سے زیادہ سہولتیں اختیار کرنا ضروری ہے۔ اس کے بغیر انسانی معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا، اور دین اسلام کا مقصد قطعاً یہ نہیں ہوسکتا کہ و ہ اپنے ماننے والوں کو پس ماندہ، دنیا سے بے زار، اور تنگ دست رکھے۔ بعض لوگ دنیا کی نعمتوں سے بے رغبتی کو روحانیت اور تقویٰ کے لیے ضروری قرار دیتے ہیں۔

شیخ علی الہجویریؒ نے اس الجھن کو بڑے اچھے طریقے سے حل کیا اور اس حوالے سے اپنے استاد ابو القاسم القشیریؒ کی بات سے راستہ سمجھایا ہے:’’میں نے استاد ابو القاسم قشیریؒ سے سُنا ہے، وہ فرماتے تھے: لوگوں نے فقروغنا کے باب میں خیالات کا اظہار کیا ہے، اور ہر ایک نے اپنے لیے کوئی نہ کوئی بات اختیار کرلی ہے۔ میں وہ بات اختیار کرتا ہوں، جو حق تعالیٰ میرے لیے پسند فرمائے اور اس میں میری نگہداشت رکھے۔ اگر وہ مجھے مال دار کردے تو غفلت نہ کروں، اور اگر فقیر بنا دے تو حرص نہ کروں۔ غنا نعمت ہے اور اس میں غفلت ، آفت، فقر نعمت ہے اور اس میں غرض آفت۔ یہ تمام باتیں حقیقت میں اچھی ہیں، اگرچہ معاملے اور روش میں اختلاف ہے۔ ذاتِ حق تعالیٰ کے سوا تمام چیزیں دل سے نکال دینے کا نام ہی فقر ہے اور غیراللہ میں دل کے مشغول نہ ہونے کا نام غنا۔ جب ماسوا سے فراغت مل گئی تو فقر غنا سے افضل ہوگیا اور  غنا فقر سے فروتر۔ غنا مال ومتاع کی زیادتی اور فقر مال ومتاع کی کمی کا نام نہیں، کیونکہ دُنیا کا سارا مال واسباب خُدا کی ملکیت ہے۔ جب طالب حق نے ملکیت ترک کردی اور سمجھ لیا کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کا ہے تو شرکت درمیان سے جاتی رہی اور طالب دونوں ناموں سے فارغ ہوگیا‘‘۔ (کشف المحجوب، فقروغنا)

درحقیقت فقر وغنا کا تعلق مال ودولت کی کثرت اور قلّت سے نہیں ہے، بلکہ مال وجاہ کی چاہت اور بے رغبتی سے ہے۔فقر کی منزل پہ وہی پہنچ سکتا ہے جس کے دل میں صرف اللہ ورسولؐ کی محبت رچ بس رہی ہے۔ ایسا شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں مال کماتا ہے اور اللہ کی چاہت میں مال خرچ کردیتا ہے، اور قربت الٰہی میں مال ودولت کما کر خرچ کرنا بے دست وپا بیٹھے رہنے سے زیادہ افضل ہے۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے الکاسب حبیب اللّٰہ (محنت سے کمانے والا اللہ کا حبیب ہے)کہہ کر اللہ کے دوستوں کی نشان دہی کردی ہے، لیکن مال کی محبت میں گرفتار ہو کر اللہ ورسولؐ کو فراموش کرنا غفلت ہے، اور غافل لوگ جانوروں سے بھی  کم تر ہیں۔ اُولٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْغٰفِلُوْنَ (الاعراف ۷:۱۷۹)

  • توحید کامل پر یقین: سید علی الہجویری رحمہ اللہ علیہ انتہائی متوازن شخصیت کے حامل تھے۔ دین اسلام کی وضاحت میں اعتدال کا راستہ اپنایا، لیکن اعتدال میں اصول دین پر ہرگز مداہنت سے کام نہیں لیا۔ روحانیت اور دنیا وآخرت میں کامیابی کے لیے سب سے پہلی بنیاد ہی توحید کو رکھا، اور توحید بھی توحید خالص، ذات، صفات اور اختیارات کے شرک سے پاک۔ توحید کے حوالے سے ایک فقرے میں سارے نظری، فکری، کلامی الجھاؤ کا مسکت اور مطمئن کردینے والا جواب دے دیا۔ فرماتے ہیں:
  • ’’جب بندہ خدا کو پہچان لے تو اس کی وحدانیت کے متعلق یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ خدا ایک ہے، جو وصل وفصل قبول نہیں کرتا، یعنی نہ کوئی شے اس سے جڑ سکتی ہے اور نہ جدا ہوسکتی ہے۔ دوئی اس میں جائز نہیں۔ اس کی یکتائی عددی نہیں کہ دوسرے عدد کے اثبات سے دو کی صورت اختیار کرلے، اور وہ ان دونوں میں سے ایک ہو، جس سے اس کی وحدت عددی اور اعداد کا ثابت کرنا بے نہایت ہوجائے۔ lوہ جوہر بھی نہیں کہ اس کا وجود اپنے جیسے جواہر کے بغیر درست نہ ہو۔
  • وہ طبعی بھی نہیں کہ ہلنے اور ٹھیرنے کا مقامِ آغاز ہو۔ lوہ روح بھی نہیں کہ  عدم کا حاجت مند ہو۔
  • وہ جسم بھی نہیں کہ اجزا سے ترکیب پائے۔
  • وہ کسی شے میں حلول نہیں کرتا کہ اشیا کی قسم میں سے ہو۔
  • کسی شے سے اس کا جوڑ نہیں کہ وہ شے کا ایک حصہ ہو۔
  • وہ تمام غلطیوں سے مبرّا ، اور سب خرابیوں سے پاک اور کُل عیبوں سے بالاتر ہے۔
  • اس کا کوئی مشابہ نہیں کہ اپنے مشابہ کے ساتھ دو ہو۔
  • اس کا کوئی فرزند نہیں کہ اس کی نسل اس کی متقاضی ہو۔
  • اس کی ذات وصفات پر تبدیلی جائز نہیں کہ اس کا وجود اس تبدیلی کے باعث بدل جائے، یا بدلے ہوئے حکم میں ہوجائے‘‘۔(کشف المحجوب، توحید کا ثبوت)

توحید کامل پر یقین رکھنے والا مومن بن جاتا ہے۔ شیخ علی الہجویری رحمہ اللہ علیہ ایمان کے بعد کے مراحل کا تذکرہ انتہائی واضح انداز میں کرتے ہیں جس پر اگر غور کر لیا جائے تو دیگر بہت سی اُلجھنوں کا ازالہ ہو جاتا ہے۔ شیخ فرماتے ہیں: ’’ایمان ومعرفت کی انتہا محبت ہے، اور محبت کی نشانی عبادت ہے۔ کیونکہ جب دل ، محبت اور مشاہدے کا مقام ہے، آنکھ دیدار کا، اور جان عبرت کا، تو بدن کو لازم ہے کہ خدا کا حکم نہ چھوڑے، جو شخص خدا کا حکم چھوڑ دے اسے معرفت الٰہی کا کچھ پتا نہیں ہوتا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ عبادت وعمل کی یہ زحمت اسی وقت تک ہے جب تک تونے خدا کو نہیں پہچانا، جب تونے اسے پہچان لیا تو عبادت بدن سے غائب ہوگئی، حالانکہ یہ بھاری غلطی ہے‘‘۔(کشف المحجوب، ایمان کی حقیقت)

محبت اور عبادت کے اس حسین امتزاج سے عبارت دین ِحنیف کی مکمل تصویر پیش کرنے کے لیے انھوں نے مختلف عنوانات کے تحت تشریح وتوضیح کی ہے۔ آدابِ زندگی، حسنِ معاشرت، اور روحانیت کے راستے پر چلنے کے لیے ضروری مجاہدوں اور ریاضتوں کی وضاحت انتہائی انوکھے اور نادر انداز میں فرمائی۔ آپ کی تشریحات عام فقہی موشگافیوں اور الجھا دینے والی کلامی بحثوں سے پاک ہیں۔ طہارت کے ضمن میں وضو کاتذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’جب ہاتھ دھوئے تو ضروری ہے کہ دنیا کی محبت سے ہاتھ دھو ڈالے۔ جب منہ میں پانی ڈالے تو ضروری ہے کہ اپنا منہ غیر کے ذکر سے خالی کردے۔ جب چہرہ دھوئے تو واجب ہے کہ نفس کی پسندیدہ چیزوں سے روگرداں ہوجائے۔ جب سر کا مسح کرے تو لازم ہے کہ اپنے کام اللہ کو سونپ دے‘‘ (کشف المحجوب، طہارت)۔ اسی طرح پوری تفصیل سے طہارت کی اصل غرض وغایت کا ذکر فرماتے ہیں۔

  •  قیامِ شریعت: جناب شیخ علی الہجویری رحمہ اللہ علیہ شریعت مطہرہ کو زمین پر غالب ونافذ کرنے کے حوالے سے ایک اچھوتی اور نادر بات تحریر کرتے ہیں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معراج کی مختلف منزلیں طے کرتے ہوئے تجلیاتِ رب کے انتہائی قریب ہوگئے، اور انھیں مشاہدے کا عظیم الشان مقام حاصل ہوگیا، جو کسی بھی بندے کے لیے اعلیٰ ترین مقام ہے، تو آپؐ نے انتہاے شوق سے بے اختیار ہو کر عرض کی مجھے پھر دنیا کے مصیبت خانے میں نہ لے جا، طبع اور ہواے نفس کی قید میں نہ ڈال۔ فرمان صادر ہوا: ہمارا حکم ایسا ہی ہے کہ آپ دنیا میں قیام شریعت کے لیے واپس جائیں ، تاکہ جو کچھ ہم نے آپ کو عالم ملکوت میں مرحمت کیا ہے، وہاں دنیا میں مرحمت کریں۔ چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں تشریف لائے تو جب بھی آپؐ کا دل مشتاق ِ معراج ہوتا تو فرماتے:أرِحنَا یَابِلَال بالصّلوۃ ’’اے بلال ہمیں نماز سے راحت پہنچا‘‘۔(کشف المحجوب، نماز)

گویا آپؐ  کا دنیا میں آنا قیام شریعت یا معروف اصطلاح میں اقامت دین ہے۔ اور آپؐ نے اپنا یہ مشن مکمل کیا اور پھر اسے قیامت تک جاری رکھنے کے لیے اُمّت کی ذمہ داری بنادیا۔ اس عظیم راستے پر چلنے کے لیے دنیا میں رہتے ہوئے بھی حرص وطمع اور غیر اللہ سے امیدیں لگانا اور  نت نئی آرزوؤں کے بخار میں مبتلا رہنا درست نہیں ہے۔ سید ہجویریؒ ایک درویش کی بات بتاتے ہیں کہ بادشاہ نے ایک درویش سے کہا مانگو جو مانگتے ہو۔ درویش نے کہا: میں اپنے غلاموں سے کچھ نہیں مانگتا۔ بادشاہ نے کہا :یہ کیا بات ہوئی؟ درویش نے کہا: میرے دو غلام ہیں: ایک حرص اور دوسرا آرزو، جب کہ یہ دونوں تمھارے آقا ۔ میں نے جنھیں اپنا غلام بنارکھا ہے ان سے مانگنا کیسا؟

یہ بات کہنے اور لکھنے میں جس قدر آسان ہے، عمل میں اسی قدر مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال ودولت کی فراوانی کے بجاے فقر کو پسند فرمایا۔ آپؐ اکثر یہ دعا فرمایا کرتے تھے:

اَللّٰہُمَّ اَحْیِـینِیْ مِسْکِیْناً وَاَمِتْنِیْ مِسْکِیْناً، وَاحْشُرْنِیْ فِیْ زُمْرَۃِ الْمَسَاکِیْنَ ، اے اللہ مجھے مسکینی میں زندہ رکھ، مسکینی میں وفات دے، اور قیامت کے روز مسکینوں کے گروہ میں اٹھا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ’’میرے دوستو میرے قریب آجاؤ۔ فرشتے پوچھیں گے یااللہ! آپ کے دوست کون ہیں ؟ اللہ فرمائے گا: فقرا اور مساکین‘‘۔(کشف المحجوب، فقر)

  • ایمان و آزمایش اور ملامت: خیال رہے کہ یہ فقر میلے کچیلے کپڑے پہننے کا نام نہیں ہے، بلکہ غیر اللہ سے آرزویں اور امیدیں توڑ کر اللہ سے امیدیں وابستہ کرنا، اور پھر سادہ زندگی کو اختیار کرتے ہوئے اسراف وتبذیر سے بچنے کا نام فقر ہے۔ سید صاحب کی تحریروں میں یہ بات بالکل واضح اور نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ ایمان، محبت، عبادت اور اقامتِ دین کے راستے پر چلنا یقینا مشکل ترین عمل ہے ۔ اس راستے پر مسافر کو ذہنی، بدنی اور مالی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔  ان مشکل مرحلوں میں سب سے مشکل مرحلہ مختلف قسم کے الزامات اور تہمتوں کا سامنا کرنا ہے۔

شیخ علی ہجویری رحمہ اللہ علیہ نے اسی حال کو ملامت کا نام دیا ہے، اور فرقہ ملامتیہ کی غیرشرعی اور غیر انسانی حرکات کی مذمت فرمائی ہے۔ آپؒ فرماتے ہیں:’’مردانِ خدا سارے جہان میں مخلوق کی ملامت سے مخصوص ہیں۔ بالخصوص اس اُمّت کے بزرگ اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو مردانِ خدا کے پیشوا وامام اور عاشقانِ الٰہی کے پیش رو تھے۔ جب تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر برہان حق (نبوت) ظاہر نہ ہوئی تھی اور وحی الٰہی کا نزول نہ ہوا تھا ،آپ تمام لوگوں کے نزدیک  نیک نام اور بزرگ تھے۔ لیکن جب خُدا نے آپ کو محبوبیت (رسالت)کے خلعت سے مزیّن کیا تو لوگوں نے زبانِ ملامت دراز کی۔ ایک جماعت نے کہا: وہ کاہن (نجومی) ہیں، دوسری نے شاعر، تیسری نے دیوانہ اور چوتھی نے جھوٹا قرار دیا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی تعریف میں فرمایا: وَلَا یَخَافُونَ لَوْمَۃَ لَآئِمٍ ط ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ ط وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیمٌ o (وہ ملامت کرنے والوں کی ملامت سے نہیں ڈرتے۔ یہ خدا کا فضل ہے جسے وہ چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ اور اللہ بہت وسعت والا ہے، اسے ہر چیز کا علم ہے۔ المائدہ ۵:۵۴)۔ خدا کا دستور یوں   ہی چلا آتا ہے کہ جو اس کا حال بیان کرتا ہے، وہ ساری دنیا کی ملامت کا ہدف بن جاتا ہے‘‘۔ (کشف المحجوب، ملامت، باب ۶)

مسئلہ ملامت کی وضاحت کرتے ہوئے ایک اور مقام پر رقم طراز ہیں: ایمان وآزمایش کے عمل کو مسلسل جاری رکھنے کے لیے اللہ رب العزت نے انسانوں کے اندر ملامت کرنے والا  نفس رکھ دیا ہے، تا کہ وہ انھیں ان کے افعال پر ملامت کرتا رہے۔ اگر ان سے کوئی لغزش ہوجاتی ہے تو وہ اس لغزش پر اپنے آپ کو ملامت کرتے، اور اگر وہ کوئی نیکی کرتے ہیں تو اس میں کمی رہ جانے پر اپنی ذات کو ہدفِ ملامت بناتے ہیں۔ یہ خدا کی راہ میں ایک قوی اصل ہے، کیونکہ کوئی بلا اور بدنصیبی اس سے سخت تر نہیں، کہ ایک شخص اپنی خوبیوں پر غرور کرنے لگے۔(کشف المحجوب، ملامت، باب۶)

سید علی الہجویری رحمہ اللہ علیہ کی ساری باتیں دیدہ زیب، چمن زار کی مانند ہیں۔ گھومتے رہو، سیر کرتے رہو، نہ آنکھیں تھکتی ہیں اور نہ پاؤں دُکھتے ہیں، اور دل کا حال یہ ہے کہ مزید اور مزید کی تمنا کیے جا رہا ہے۔

کیسے عظیم لوگ تھے جنھوں نے پورے اخلاص کے ساتھ اپنے رب کو راضی کرنے کی کوشش کی، اور ساری زندگی اسی راہ میں کھپا دی۔ دنیا میں رہے لیکن دنیا والوں سے کچھ نہ چاہا، بلکہ ان کے لیے مادی وروحانی فیض عام کرتے رہے۔ یہی سبب ہے کہ صدیاں گزر گئیں لیکن وہ نہیں گزرے۔ خلقِ خدا کے دلوں میں ان کی عقیدت واحترام اور زبانوں پر محبت کے تذکرے ہیں لیکن وہ لوگ جنھوں نے شریعت وطریقت کو ریا کاری اور دنیا جمع کرنے کا ذریعے بنالیا ہے، انھیں    وقتی آسایش اور مصنوعی احترام تو مل جاتا ہے، لیکن نہ انھیں خلقِ خدا کی سچی محبت نصیب ہوتی ہے اور نہ ان کے چشمۂ روحانی سے ہدایت کاپانی جاری ہوتا ہے۔

  • تصوف کے جہوٹے مدعی: مرشدِ حق سید ہجویری رحمہ اللہ علیہ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں: ’’اس دور میں یہ علم ِ طریقت وتصوف درحقیقت کُہنہ وفرسودہ ہوچکا ہے، بالخصوص ہمارے ملک میں کہ تمام لوگ ہوا وہوس میں گرفتار ہیں اور رضاے الٰہی کی راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں۔ زمانے کے عالموں اور وقت کے مدعیوں کے لیے اس طریقت سے اختلاف کی صورت پیدا ہوگئی ہے۔ لہٰذا اس شے کے حصول کی خاطر ہمت پیدا کرو کہ برگزیدگان درگاہِ خداوندی کے سوا جملہ اہلِ وقت کا ہاتھ اس کے حاصل کرنے سے کوتاہ ہے اور سب اہلِ ارادت کی مُراد اس سے کٹ چکی ہے۔ خُدا کے چند برگزیدہ بندوں کے سوا تمام خاص وعام نے حقیقت کو ترک کرکے صرف اس کی عبادت کو کافی سمجھ لیا ہے اور دل و جان سے اس کے حجاب کے خریدار بن گئے ہیں۔ کام تحقیق سے خارج ہو کر تقلید میں پڑگیا ہے۔ تحقیقِ حق نے ان سے چہرہ چھپا لیا ہے۔ عوام اس امر پر اکتفا کرتے ہیں کہ ہم حق شناس ہیں۔ خواص اس پر شاد ہیں کہ دل میں اس کی تمنا، قلب میں احساس اور سینے میں اس (طریقت) کی جانب ذوق وشوق رکھتے ہیں۔ وہ بطورِ شغل کہتے ہیں کہ یہ دیدار الٰہی کا شوق اور عشق کا سوز ہے۔ تصوف کے جھوٹے مدّعی دعویٰ کے باوصف حقائق معلوم کرنے سے قاصر رہ گئے ہیں اور مرید مجاہدے سے دست کش ہو کر ظنِ فاسد کو مشاہدہ کہنے لگے۔ اس سے قبل بھی میں نے طریقت و تصوف کے موضوع پر متعدد کتابیں تالیف کی تھیں، جو سب کی سب ضائع ہو گئیں۔ تصوّف کے جھوٹے مدعیوں نے ان میں سے بعض نکات لوگوں کو فریب دینے کی غرض سے چُن لیے اور باقی کو دھو کر تلف کردیا، کیونکہ جس کے دِل پر مُہر ہو، اس کے نزدیک حسدوانکار کا سرمایہ بھی نعمتِ الٰہی ہوتا ہے۔ ایک اور گروہ نے ان کا مطالعہ بھی نہیں کیا۔ دوسرے گروہ نے ان حصوں کا مطالعہ کیا، مگر مطلب سے بے بہرہ رہے اور محض عبارت پر اکتفا کیا تاکہ اسے تحریر میں لاکر رَٹ لیں، اور کہیں کہ ہم تصوّف اور معرفت کے علم کی تشریح کر رہے ہیں‘‘۔ (کشف المحجوب، دیباچہ)

عصرِ حاضر کے مردِ حق علاّمہ اقبال نے بھی اسی کرب کا اظہار اپنے انداز میں کیا تھا:

صوفی کی طریقت میں فقط مستیِ احوال

ملاّ کی شریعت میں فقط مستیِ گفتار

شاعر کی نوا مردہ وافسردہ وبے ذوق

افکار میں سرمست، نہ خوابیدہ نہ بیدار

وہ مردِ مجاہد نظر آتا نہیں مجھ کو

ہو جس کی رگ و پَے میں فقط مستیِ کردار

(ضربِ کلیم)


ڈاکٹر حبیب الرحمن عاصم، بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد، شعبہ عربی میں استاد ہیں۔

ترجمہ : اطہروقار عظیم

صدر اوباما نے ۲۰۰۸ء میں صدر منتخب ہونے سے ایک ہفتے پہلے، کشمیریوں کو حق خودارادیت دلانے کے ذریعے مسئلۂ کشمیر حل کروانے کی یقین دہانی کروائی تھی، کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ ۱۹۴۷ء سے لے کر اب تک پاکستان اور بھارت کے مابین اس مسئلے کی وجہ سے تین جنگیں ہوچکی ہیں۔ یقینا یہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔ لیکن اُس وقت بھارت کے سیاسی و سفارتی حلقوں میں اوباما کے ان خیالات کو ’خطرے کی گھنٹی‘ کے طور پر دیکھا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اوباما نے مسئلۂ کشمیر کے معاملے میں سردمہری اختیار کرلی ہے۔

اپنے موجودہ دورۂ بھارت میں اوباما نے کشمیر کے مسئلے پر کوئی مداخلت نہ کرنے کا اور  اقوام متحدہ میں بھارت کی مستقل نشست کے لیے حمایت کا اعلان کرکے اپنے میزبانوں کو خوش کردیا۔ مزید یہ کہ دورے میں جب جب دہشت گردی کے مسئلے پر بات ہوئی تو امریکا کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر یک سر خاموش رہا۔ کیا مسٹر اوباما نے کشمیر پر اپنے موقف کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے؟ اس کا انحصار مختلف باتوں پر بھی ہے، مثلاً افغانستان کی جنگی صورت حال، امریکا کو کس حد تک پاکستان کی ضرورت ہے، اور کیا بھارتی حکومت اس موسم میں امریکا سے ایئرکرافٹ خریدنے کا ارادہ رکھتی ہے؟ اس کے علاوہ بھاری تجارتی معاہدوں پر پیش رفت جاری ہے جس کی وجہ سے یہ خاموشی سمجھ میں بھی آتی ہے۔ لیکن سب کو یاد رہنا چاہیے کہ مسٹراوباما کی خاموشی اور عدم مداخلت کی یقین دہانی کشمیری عوام کو اپنے ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے پتھر رکھنے پر آمادہ نہیں کرسکتی۔

میں ۱۰ روز پہلے کشمیر میں پاکستانی سرحد کے پاس خوب صورت وادی میں تھی۔ یہ وادی  تین تہذیبوں (اسلام، ہندو اور بدھ ازم) کے سنگم پر واقع ہے۔ یہ وادی افسانوی تاریخ کی حامل ہے۔ کچھ لوگوں کے نزدیک یہ حضرت عیسٰی ؑکی جاے قیام رہی ہے، جب کہ کچھ کے نزدیک یہاں  حضرت موسٰی ؑاپنے کھوئے ہوئے قبیلے کی تلاش میں آئے تھے۔ یہاں حضرت بلؒ کے مزار پر لاکھوں عقیدت مند فاتحہ خوانی کے لیے بھی آتے ہیں اور ہر سال چند دنوں کے لیے پیغمبر محمد    [صلی اللہ علیہ وسلم] کے موے مبارک کی زیارت بھی کروائی جاتی ہے۔ میری منزل شوپیّاں کا مضافاتی دیہات تھا۔ کشمیر کے دارالحکومت سری نگر سے جنوب کی طرف جانے والی سڑک پر بھاری تعداد میں بھارتی فوج میں موجود تھی۔ اُنھیں سڑک کے دونوں اطراف باغات میں، کھیتوں اور دکانوں کی چھتوں اور بازاروں پر تعینات کیا گیا تھا۔ یہاں ۵ لاکھ سے زیادہ کی تعداد میں بھارتی افواج موجود ہیں۔ اس لیے یہ آبادی اور رقبے کے لحاظ سے سب سے زیادہ افواج کی تعیناتی والا علاقہ بن گیا ہے۔ فضا نہایت کشیدہ تھی۔ مہینوں تک پھیلے ہوئے کرفیو کے باوجود، نوجوانوں کے ہاتھوں میں ’پتھر‘ تھے۔ وہ فلسطینی ’انتفادہ‘ کی تحریک سے متاثر نظر آرہے تھے اور ’آزادی‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ وہ مسلسل کہہ رہے تھے: ’’ہم کیا چاہتے ہیں… آزادی! چھین کر لیں گے… آزادی!

میں جن دوستوں کے ساتھ جارہی تھی وہ مطلوبہ دیہات تک جانے والے متبادل راستے سے واقف تھے۔ میں نے دورانِ سفر ان سے مزاحمتی تحریک کے بارے میں تفصیل سنی۔ ایک نوجوان نے مجھے بتایا کہ جب میرے تین دوستوں نے پتھر پھینکے تو اس ’جرم‘ کی پاداش میں بھارتی پولیس نے اُن کے ناخنوں کو اُکھاڑ دیا۔

تین سال سے اب تک کشمیری گلیوں میں ہیں اور بھارتی ناجائز قبضے کے خلاف احتجاج  کر رہے ہیں حالانکہ اس موجودہ مزاحمتی تحریک کا الزام پاکستان پر بھی عائد نہیں کیا جاسکتا کیونکہ سب کچھ مقامی ہے۔ بھارتی فوج کا ایک طرف دعویٰ ہے کہ ۵۰۰ سے بھی کم جنگ جو وادی میں موجود ہیں۔ اس جنگ میں ۷۰ہزار کشمیری شہید ہوچکے ہیں، ہزاروں کشمیری زخمی ہوئے، جب کہ ہزارں کو ’ہمیشہ کے لیے غائب‘ کردیا گیا ہے۔ اب، جب کہ جنگ جُو مزاحمت کاروں کی تعداد میں کمی آئی ہے لیکن بھارتی فوج کی تعداد میں کوئی کمی نہیں آئی۔ لیکن ہمیں بھارتی فوج کے غلبے کو سیاسی فتح نہیں سمجھنا چاہیے۔ نہتے عوام کے دلوں میں بھارتی افواج کے خلاف نفرت کا سمندر موجزن ہوچکا ہے۔ ایک پوری نسل چیک پوسٹوں، بنکر، آرمی کیمپ اور ٹارچر سیلوں کے سایے میں جوان ہوچکی ہے۔ ان کا بچپن ’پکڑو اور قتل کرو‘ جیسی کارروائیوں کو دیکھتے اور برداشت کرتے گزرا ہے۔ اُن کے لاشعور میں مخبری کے الزام، خفیہ اداروں کی جاسوسی اور جعلی انتخابات جیسے واقعات ثبت ہوکر رہ گئے ہیں۔ ایک طرف تو اُن کے صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا ہے تو دوسری طرف اُن کا خوف ختم ہوتا جا رہا ہے۔ جنون کی حدوں کو چھوتے ہوئے حوصلے نے نوجوان کشمیریوں کو بہادر اور نڈر بنا دیا ہے۔ ان کشمیریوں نے افواج کو پیچھے دھکیل کر اپنی گلیوں کو دوبارہ حاصل کرلیا ہے۔

اس سال اپریل میں افواج نے تین شہریوں کو قتل کیا تھا۔ اُن کا جرم صرف پتھر پھینکنا تھا۔ وہ تینوں طالب علم تھے۔ اُنھیں بھی دہشت گرد قرار دے دیا گیا۔ لیکن یہ خون جدوجہد آزادی کو نیا ولولہ دے گیا۔ بھارتی افواج نے کرفیو اور گولیوں سے مزاحمت کی جس کے تحت پچھلے چھے مہینوں میں ۱۱۱ کشمیریوں کا قتل عام کیا جاچکا ہے۔ اس میں زیادہ تر ۱۰ سے ۲۰ سال کی عمر کے نوجوان ہیں۔ ۳ہزار زخمی ہونے والے اور ایک ہزار گرفتار ہونے والے اس کے علاوہ ہیں۔ لیکن اس ظلم و استبداد کے باوجود نوجوان اب بھی باہر آتے ہیں اور پتھر پھینکتے ہیں۔ وہ کسی سیاسی جماعت سے منسلک نہیں ہیں۔ وہ اپنی نمایندگی خود کر ہے ہیں۔ اس لیے اب دنیا کی دوسری سب سے بڑی فوج کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ کیا کرے۔ دنیا کی سب سے بڑی ’جمہوریت‘ نہیں جانتی کہ وہ کس سے مذاکرت کرے۔ اب تو بہت سے بھارتی بھی سمجھنے لگے ہیں کہ کئی عشروں سے اُن سے جھوٹ بولا جاتا رہا ہے۔ کشمیر کے بارے میں ’اٹوٹ انگ‘ والے روایتی موقف میں بڑی واضح دراڑیں پڑ چکی ہیں۔

بھارتی صحافی ہونے کے باوجود مجھے شوپیّاں کے اس گائوں کی طرف جاتے ہوئے بھارتی حکومت کی طرف سے شدید مشکلات کا سامنا تھا کیونکہ چند دن پہلے ’آزادی… واحد راستہ‘ کے نام سے ہونے والی نشست میں مَیں نے کشمیر کے بارے میں کہا تھا: ’’کشمیر متنازعہ علاقہ ہے بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں، جیساکہ بھارتی حکومت کا دعویٰ ہے‘‘۔ اس پر مشتعل انتہاپسند ہندو سیاست دانوں اور ٹی وی میزبانوں نے مجھ پر غداری کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ کردیا۔ شام کی خبروں میں مجھے غدار، دہشت گرد اور باغی عورت کے خطابات سے نوازا گیا۔ صرف اس لیے کہ میں نے جھوٹ کو سچ کہنے سے انکار کر دیا تھا۔ لیکن کشمیر کے حالیہ دورے میں شوپیّاں جانے والی سڑک پر، اپنے دوستوں کو سنتے ہوئے اور خود کشمیر کے حالات کو دیکھتے ہوئے میں خود کو اس بات پر قائل نہ کرسکی کہ میں نے دہلی میں کشمیر کے بارے میں جو کچھ کہا تھا وہ غلط تھا اور مجھے اُس پر پچھتاوا ہونا چاہیے۔

ہم ایک کشمیری شکیل احمد کے گھر کی طرف سفر کر رہے تھے، کیونکہ ایک دن پہلے سری نگر میں جہاں میں ٹھیری ہوئی تھی مجھے کہا گیا تھا کہ مجھے شوپیّاں کا دورہ ضرور کرنا چاہیے۔ میں شکیل سے اس سے پہلے جون ۲۰۰۹ء میں ملی تھی۔ جب اُس کی ۲۲ سالہ بیوی نیلوفر اور ۱۷سالہ بہن عائشہ کی لاشیں ایک ندی سے ہزار گز کے فاصلے پر ملی تھیں۔ یہ وہ جگہ تھی جس کے دونوں اطراف میں بھارتی افواج اور پولیس کے ہیڈ کوارٹر موجود تھے۔ پوسٹ مارٹم کی ابتدائی رپورٹ میں زنا بالجبر اور قتل کی تصدیق ہوئی۔ ایک بھونچال کھڑا ہوگیا۔ چنانچہ ’سسٹم‘ آڑے آگیا۔ لاشوں کے دوبارہ معائنے کے بعد نئی رپورٹ میں زنا بالجبر سے انحراف کرلیا گیا اور سرکاری اعلان سامنے آیا کہ دونوں کی اموات پانی میں ڈوبنے کی وجہ سے ہوئی تھی۔ احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ شوپیّاں ۴۷دن تک بند رہا۔ وادی میں کئی ماہ تک اشتعال کی کیفیت رہی۔ اس بہیمانہ زیادتی اور قتلِ عام کے واقعے نے بغاوت کی لہر کو بڑھاوا دیا اور تحریکِ آزادی کے متوالوں کو نئے جذبے سے آشنا کردیا۔ شکیل مجھے شوپیّاں اس لیے بھی لانا چاہتا تھا کیونکہ بھارتی پولیس نے اُسے سختی سے بولنے سے منع کر دیا تھا۔ اس طرح اُسے امید تھی کہ ہمارے دورے سے مسئلۂ کشمیر عالمی سطح پر اُجاگر ہوجائے گا اور وہ خود کو تنہا نہیں سمجھے گا۔

کشمیر میں یہ سیبوں کے پکنے کا موسم ہے۔ جیسے ہی ہم شوپیّاں پہنچے ہم نے مختلف خاندانوں کو اپنے باغات میں سیب لکڑی کے کریٹ میں چن کر رکھتے ہوئے دیکھا۔ میں نے یہاں سرخ گالوں والے کشمیری بچے بھی دیکھے۔ وہ بھی کشمیری سیب کی طرح لگ رہے تھے لیکن المیہ یہ تھا اُنھیں    غلط کریٹ میں رکھ دیا گیا تھا۔ ہمارے آنے کی خبر پہلے ہی پہنچ چکی تھی۔ کشمیریوں کا چھوٹا سا گروہ سڑک پر ہمارا منتظر تھا۔ شکیل کا گھر قبرستان کے کنارے پر تھا جہاں اُس کی بیوی اور بہن دفن تھیں۔ اندھیرا ہونے والا تھا، بجلی بھی گئی ہوئی تھی۔ ہم نیم دائرے میں بیٹھ گئے۔ صرف ایک لالٹین کی روشنی تھی۔ میں نے انھیں اپنی کہانی سنانے کو کہا۔ رفتہ رفتہ دوسرے لوگ بھی آتے گئے۔ نئی تکلیف دہ کہانیاں سامنے آنے لگیں۔ یہ مظلوم عورتوں اور یتیم بچوں کی کہانیاں تھیں جنھوں نے خود کو بھارتی شہری ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ کیا یہ اتنا بڑا جرم ہے؟ شکیل کا بچہ بھی کھیلتے کھیلتے اُس کمرے میں آگیا۔ جلد ہی وہ بڑا ہوکر جان جائے گا کہ اُس کی ماں کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ جب ہم واپسی کے لیے   روانہ ہوئے تو پیغام ملا کہ شکیل کا سسر، یعنی نیلوفر کا باپ اُن کا اپنے گھر پر منتظر ہے۔ ہم نے پیغام بھجوایا کہ اس طرح بہت دیر ہوجائے گی اور واپسی کا سفر محفوظ نہیں رہے گا۔

خدا حافظ کہنے کے چند لمحوں بعد، جب ہم کار میں بیٹھ رہے تھے تو ایک صحافی دوست کا فون آگیا: پولیس میری گرفتاری کے وارنٹ ٹائپ کر رہی ہے اور آج رات مجھے گرفتار کرلیا جائے گا حالانکہ اس کا امکان کم تھا۔ یہ مجھے خوف زدہ کرنے کا نفسیاتی حربہ تھا۔

جب ہماری گاڑی نے رفتار پکڑی تو دو آدمیوں نے جو موٹرسائیکل پر سوار تھے ہمیں رُکنے کا اشارہ کیا۔ ہم نے حوصلہ کر کے گاڑی روک دی۔ ایک بوڑھا آدمی، جس کی سبزی مائل آنکھیں اور کھچڑی داڑھی تھی، آگے بڑھا۔ اُس کا نام عبدالحئی تھا۔ وہ یقینا نیلوفر کا باپ تھا۔ ’’میں تمھیں  سیبوں کے بغیر کیسے جانے دے سکتا ہوں؟‘‘ اُس نے کہا۔ موٹرسائیکل سوار نے دو سیبوں کے کریٹ ہماری کار میں رکھ دیے۔ عبدالحئی نے اپنے کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور ایک انڈا باہر نکالا اور میری ہتھیلی پر رکھ دیا اور میری انگلیاں بند کر دیں اور دوسرا انڈا میری دوسری ہتھیلی پر رکھ دیا۔  اُبلے ہوئے انڈے ابھی تک گرم تھے۔ ’’خدا تمھاری حفاظت کرے‘‘ اُس نے کہا اور وہ سخت ٹھنڈ اور تاریکی میں گم ہوگیا۔ کسی بھی لکھنے والی کے لیے اس سے بڑا انعام اور کیا ہوسکتا تھا!

مجھے گرفتار نہیں کیا گیا۔ یہ محض ایک سیاسی حربہ تھا۔ میں دہلی گھر واپس آئی تو بی جے پی کی عورتوں نے میرے گھر کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مجھے عمرقید سزا دینے کا مطالبہ کیا گیا۔ قاتل اور خونی بجرنگ دل کے جنگجو ہندو جنھوں نے ۲۰۰۲ء میں گجرات میں ایک ہزار سے زیادہ مسلمانوں کا قتلِ عام کیا تھا، انھوں نے مجھے تمام ’ذرائع‘ استعمال کرتے ہوئے ’دماغ درست‘ کرنے کی دھمکی دی، اور ملک بھر میں مختلف عدالتوں میں میرے خلاف مقدمے دائر کرنے کا اعلان کیا۔ بھارتی حکومت اور انتہاپسند ہندوئوں اور قوم پرست سیکولر بھارتیوں کو پتا نہیں کیوں یہ یقین ہونے لگا ہے کہ وہ اکھنڈ بھارت کے نظریے کی بڑھوتری، لوگوں کو ڈرا دھمکا کر اور بوئنگ ایئرکرافٹ کی خریداری کے ذریعے کرسکتے ہیں۔ لیکن وہ اُبلے ہوئے گرم انڈوں کی مزاحمتی طاقت اور تاثیر کو کبھی نہیں سمجھ سکتے۔ (Kashmir's Fruits of Discord،نیویارک ٹائمز، ۸ نومبر ۲۰۱۰ئ)


ارون دتی راے، بھارت کی معروف ناول نگار اور تجزیہ نگار ہیں۔

روس یورپ کا سب سے بڑ ا ملک ہے۔ اسے کمیونزم کی پہلی سرکاری تجربہ گاہ ہونے کا ’شرف ‘ بھی حاصل ہے ۔ ۱۹۹۱ء سے قبل یہ سوویت یونین (USSR) کہلاتا تھا۔ گرم پانیوں تک پہنچنے اور اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جب اس نے افغانستان کا رخ کیاتو عملًا اس کی منزل بحرِ ہند اور بحیرہ عرب پر واقع پاکستان اور دیگر ہمسایہ مسلم ممالک کے ساحل تھے۔ افغانستان کی طویل تاریخ نے ہردور میں اور ہر مرتبہ جارح قوتوں کے بارے میں جوفیصلہ کیاتھا دورِجدید کی تاریخ نے ایک بار پھر اس کا منظر دیکھ لیا۔ سوویت یونین اپنی ساری اندھی طاقت کے باوجود افغان مجاہدین کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوا۔ قدرت کا کرشمہ دیکھیے کہ شکست محض افغانستان کی سرزمین تک ہی محدود نہ رہی ، دریاے آموکے اس پار بھی تمام مقبوضہ ریاستیں افغان مجاہدین کی ضرب کاری کے نتیجے میں روس کے چنگل سے نکل کر آزادی سے ہم کنار ہوگئیں ۔ پھر ساری دنیا نے بچشمِ حیرت دیکھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے وسط ایشیا ہی نہیں پورا مشرقی یورپ جو روس کے پنجۂ استبداد میں جکڑا ہوا تھا ، بھی انگڑائی لینے لگا۔ اس جبریت کی مالا یوں ٹوٹی کہ سارے دانے بکھرگئے ۔ ظلم و بربریت کے بہت سے مظاہر شکست و ریخت سے دوچار ہوئے ۔ جرمنی کی دیوار برلن بھی ٹوٹ گئی ۔ سابق سوویت یونین/ روس کی آبادی ۲۵،۲۶ کروڑ سے گھٹ کر ۱۳ کروڑ پرآگئی اور اس کا جغرافیہ بھی آدھے سے کچھ کم ہو کر اس کے فولادی ہاتھوں سے نکل گیا ۔

کمیونزم کے پون صدی پر محیط استبدادی دور (۱۹۱۷ء تا ۱۹۹۱ئ) کے دوران اس کی سرحدوں کے اندر اسلام کا نام لینا ممنوع تھا ، مسجدیں مقفل تھیں اور وسط ایشیائی ریاستوں کی مسلمان آبادیاں آزادی سے نئی نسلوں تک کلمہ توحید پہنچانے کے قابل نہیں رہی تھیں ۔ والدین راتوں کو چھپ چھپاکر اپنے گھروں کے بند کمروں میں سرگوشی کے اندازمیں اپنے چھوٹے بچوں کو کلمہ او رنماز پڑھاتے تھے ، مگریہ تھے ہی کتنے ؟ یوں سمجھیں آٹے میں نمک کے برابر۔ لینن ، سٹالن اور ان کے جانشینوں نے یکے بعد دیگرے ، بظاہر سوویت یونین سے مذہب، بالخصوص اسلام کو دیس نکالا دے دیا تھا، مگر حقیقت یہ ہے کہ اسلام مرجھاجانے والا پودانہیں بلکہ انتہائی سخت جان اور اپنی بقا کے لیے ہمہ تن فکر مند، مضبوط ترین جڑوں پر کھڑا وہ تنا ور درخت ہے کہ جس کی کوئی شاخ سوکھ بھی جائے تو اس کے تنے سے نئی شاخیں او رشگوفے پھوٹنے لگتے ہیں ۔سٹالن نے بڑے طمطراق سے کہا تھا کہ ہم نے ’روایتی خدا‘ کو روس کی سرحدوں اور فضاؤں سے نکال باہر کیا ہے۔ خروشیف نے اپنے دور میں بڑہانکتے ہوئے کہا کہ ہمارے ہوا بازوں نے آسمان کی بلندیوں اور فضاکی پہنائیوں میں جاکر مشاہدہ کیا ہے کہ مذہبیت کے علَم برداروں کا خد ا کہیں موجود نہیں ۔ یہ اور ایسے سب کفریہ کلمات خالق کائنات اپنے بڑے ظرف کی وجہ سے برداشت کرتا ہے ،مگر اس کی پکڑ آنے کے بعد یہ   کفر بکنے والے پانی کے ایک بلبلے سے زیادہ کوئی وقعت نہیں رکھتے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ یہ ہرزہ سرائی کرنے والے مغرور شیطان ہر دور میں فنا کے گھاٹ اُتر جاتے ہیں اور حقیقت و صداقت اپنی جگہ موجود رہتی ہے اور مشکل ترین حالات میں بھی اپنا وجود برقرار رکھتی ہے ۔

جہاد ِافغانستان کے دور میں اسلامی لٹریچر آہنی دیواروں کو توڑ کر روسی سرزمین میںداخل ہوگیا تھا ۔ اس زمانے میں جب یہ رپورٹس نظر سے گزرتی تھیں تو بہت سے لوگ انھیں غیر مستند اور اکثر اسے مبالغہ آرائی سمجھتے تھے ۔آج کے روس میں تازہ ترین اعدادو شمار اور عالمی میڈیا پر آنے والے حقائق چشم کشا بھی ہیں اور ربع صدی پرانی ان رپورٹوں کی تصدیق بھی کرتے ہیں۔ آج روس کے دارالحکومت ماسکو کا ایک منظر مقامی مسلمانوں کی مشکلات اور مسائل کے باوجود بہت ہمت افزا اور حوصلہ بخش ہے ۔ اس ضمن میں حال ہی میں ماسکو سے ایک تجزیہ نگار ماریہ پانینا (Maria Panina) کا تجزیہ سامنے آیا ہے۔ وہ لکھتی ہے کہ ماسکو شہر جس کی کل آبادی ایک کروڑ ۵لاکھ ہے، میں مسلمانوں کی تعداد سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۱۲ لاکھ ہے ۔ تاہم ان سرکاری اعداد وشمار کو مسلمانوں کی مؤثر قومی تنظیم کونسل آف مفتیان (Council of Muftian )نے مسترد کیا ہے اور انھوں نے مسلمانوں کی تعداد ۲۰ لاکھ قرار دی ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہو ا کہ روسی دارالحکومت ماسکو میں مسلمان کم وبیش ۱۸، ۱۹ فی صد ہیں ۔ یہ یورپ کی تمام آبادیوں میں مسلمانوں کا سب سے بڑا تناسب ہے ۔ اسلام کو ختم کردینے کا اعلان کرنے والے کس قدر جھوٹے اور لغو دعوے کرتے رہے تھے۔ یہ سرکاری اعداد و شمار بھی خود اس پر تبصرہ کرنے کے لیے کافی و شافی ہیں۔ ان کے مطابق بھی مسلمان ماسکو کی آبادی کا ۱۲ بارہ فی صد تو ہیں!

ماسکو کے مسلمانوں کااس وقت ایک بہت بڑ ا مسئلہ یہ ہے کہ انھیں مساجد بنانے کی  آزادی حاصل نہیں ہے ۔ ماسکو جیسے اتنے بڑے شہر اور اتنی بڑی مسلم آبادی کے لیے صرف چار مساجد ہیں۔ ان کے علاوہ مسلمان کئی چھوٹی موٹی جگہوں پر کسی نہ کسی طرح نماز کا اہتمام کرتے ہیں مگر چار جامع مساجد کے سوا کہیں نماز جمعہ ادا نہیں کرسکتے ۔ ماسکو کی سب سے بڑی مسجد سوبرنایا (Sobernaya) میں جمعہ کے روز ہزاروں کی تعداد میں نمازی آتے ہیں مگر مسجد اپنی وسعت کے باوجود تنگ پڑ جاتی ہے ۔ مسجد میں نماز یوں کو جگہ نہیں ملتی تو وہ مسجد سے ملحق گیلریوں ، دفاتر اور راہداریوں کو بھر لیتے ہیں۔ اس کے بعد باقی ماندہ لوگ مسجد سے ملحق سٹرکوں اور پارک میں صفیں بنانے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔ جامع مسجد کے نمازیوں میں ہر عمر کے لوگ شامل ہوتے ہیں ۔ایک نمازی عبداللہ ہاشم ابراہیم ( ابراہیموف) کی عمر ۳۰ سال ہے ، اس نے اس مسئلے پر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میںباقاعدہ اس مسجد میں جمعہ پڑھنے کے لیے آتا ہوں ۔اگر میں ذرا سا بھی لیٹ ہوجاؤں اور اذان کے قریب پہنچوں تو مجھے نماز پڑھنے کے لیے کہیں جگہ نہیں ملتی ۔ میںمایوس ہوکر مسجد کے باہر کوئی جگہ تلاش کرتا ہوں ۔ ہم نے مسجد کی توسیع کے لیے باقاعدہ درخواست بھی دے رکھی ہے ، مگر اس میں رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں۔

ماریہ پانینا کے بقول: ایک نمازی عاشور اشرف (عشورؤف ) کی عمر ۶۰ سال سے زائد ہے ، اس نے اپنے سرکے سفید نقرئی بالوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ کس قدر زیادتی کی بات ہے کہ انتظامیہ کی طرف سے ہمیں عبادت کی جگہ دینے میں بھی لیت و لعل سے کام لیا جارہا ہے۔ نمازِ جمعہ ہمارے دین میں بڑی اہمیت کی حامل ہے ۔ مسلمان اس فرض کی ادایگی کے لیے جوق در جوق مساجد کا رخ کرتے ہیں مگر یہاں پہنچ کر بہت سے نمازیوں کو مایوسی ہوتی ہے کہ مسجد میں جگہ ہی نہیں رہی۔ برف باری ہورہی ہو یا شدید طوفانی بارش ہم پورے شوق کے ساتھ اللہ کے گھر کی طرف آتے ہیں۔ مسجد کی توسیع کا مطالبہ کرکے ہم بھیک نہیں مانگتے، یہ ہمارا بنیادی شہری حق ہے ۔ انتظامیہ کو ہمارے اس مسئلے کو سرخ فیتے کے ذریعے روکنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔

اس جامع مسجد کے امام اور خطیب روس کے بڑے معروف عالم دین ہیں۔ ان کا نام حضرت مولانا علاؤ الدین (علاؤ دینوف) ہے ۔ انھوں نے اس مسئلے پر اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’اس مسجد کی توسیع کے لیے باقاعدہ رسمی کارروائی مکمل کی گئی ہے ۔ اس میں کسی قسم کا کوئی قانونی سقم نہیں ، لیکن چونکہ روس میں ہر جائز مطالبہ بھی رشوت کی آلودگی کا شکار ہو جاتا ہے ، اس لیے ساری کاروائی مکمل ہوجانے کے باوجود محض ایک بیوروکریٹ فائل پر سانپ بنا بیٹھا ہے ۔ اسے رشوت چاہیے، بھلا مسجد کی تعمیر وتوسیع میں ہم رشوت دیں؟‘‘

روس میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد جہاں مسلمانوں کو پھلنے پھولنے کے مواقع حاصل ہوئے وہیں قوم پرست عناصر نے بھی خوب پر پرزے نکالے ۔ وہ قوم پرستی کی عصبیت کو اتنا بھڑکاتے ہیں کہ یہ کئی مقامات پر نسلی فسادات کا سبب بن جاتی ہے ۔ امام علاؤ الدین نے اپنے ایک بیان میںکہا کہ ہماری بڑی مساجد کو توسیع کی حقیقی ضرورت ہے ، مگر ہم محض اس پر اکتفا نہیں کریں گے ۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ہر کاؤنٹی اور مسلمان آبادی کے ہریونٹ میں لازماً ایک مسجد ہونی چاہیے ۔ سوبرنایا جامع مسجد کے ارد گرد بسنے والی آبادی کو بھی نسل پرستوں نے خوب بھڑکایا ہو اہے ۔ ان انتہا پسندوں کے ایک لیڈر میخائل بطریموف نے مسجد کی توسیع کی شدت سے مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ’’اس وقت تو ہم مسجد کے گرد و نواح میں اپنے پالتو کتے، بلیاں لے کر خوب سیر سپاٹا کرلیتے ہیں ۔مسجد کے سامنے کھلی جگہ پر ہم باربی کیو، روسٹ اور کباب پارٹیاں بھی کرلیتے ہیں ۔ مسجد کی مزید توسیع ہوگئی تو ہم اس آزادی سے محروم ہوجائیں گے ۔کسی دن خطیب صاحب یہ بھی کہیںگے کہ یہاں تم گوشت روسٹ نہ کیا کرو کیونکہ ہمارے گوشت میں سب سے بڑا جز خنزیرہے اور ان اماموں کو پتا نہیں خنزیر سے کیوں شدید نفرت ہے‘‘۔ علامہ اقبال نے تقریباً ایک صدی قبل ابلیس کی زبانی یہ اعتراف کر ایا تھا کہ اسے مستقبل میں کسی اور سے کوئی خطرہ نہیں، صرف اسلام سے ہے۔ اسلام دراصل عمل کا نام ہے اور مسلمان جب عمل کی طرف مائل ہوتا ہے تو پھر وہ ناقابلِ شکست ہوجاتا ہے۔ اسی لیے ابلیس نے کہا تھا:

کب ڈرا سکتے ہیں مجھ کو اشتراکی کوچہ گرد

یہ پریشاں روزگار ، آشفتہ مغز ، آشفتہ مُو

جانتا ہے، جس پہ روشن باطنِ ایّام ہے

مزدکیّت فتنۂ فردا نہیں، اسلام ہے

قوم پرستوں کی حامی ایک این جی او جس کا مرکز ماسکو میں ہے ، سووا (SOVA )کے نام سے رجسٹرڈ ہے ۔ یہ خود کو تھنک ٹینک کے نام سے پیش کرتی ہے اور اپنے سروے اور تجزیے اسلام مخالف لوازمے کے ساتھ پبلک میں عام کرتی رہتی ہے ۔اس گروہ نے مسجد کے علاقے میں اپنا انتخابی امیدوار بھی میخائل بطریموف کو بنا رکھا ہے ۔ وہ اس علاقے ہی میں نہیںہر اس علاقے میں جہاں مسلمانوں کی آبادی ہے، انتخابات میں کاغذات ِنامزدگی داخل کروا دیتا ہے۔ اس کے پیش نظر یہ ہوتا ہے کہ کوئی مسلمان یا ان کا کوئی غیر مسلم ہمدرد کامیاب نہ ہوجائے ۔ ماسکو میں ایک جانب مقامی مسلمان ہیں اور دوسری جانب وسط ایشیائی ریاستوں میں سے بھی ہر ریاست کی نمایندگی کرنے والی آبادی یہاں مقیم ہے ۔ مسلمان اور قومیت پرست ایک دوسرے کے مد مقابل ہیں۔

کمیونسٹ خاصے منتشر اور ایک لحاظ سے غیرفعال ہوگئے تھے۔ ۱۹۹۱ء میں سوویت یونین کے بعد سے اب تک حکومتی سطح پر بھی اور کمیونسٹ پارٹی کے پلیٹ فارم سے بھی اشتراکی ریاست کے بانی ولاڈی میرلینن کی سالگرہ اور برسی، نیز بالشویک انقلاب کا تاریخی دن منانے کی رسم تقریباً ختم ہوچکی تھی۔ ۲۰ برس کے وقفے سے اس سال پہلی مرتبہ سات نومبر کو لینن کی کامیابی کی ۹۳ویں سالگرہ منائی گئی ہے۔لینن نے ۲۵؍اکتوبر۱۹۱۷ء کو زارِ روس کے محل ونٹرپیلس سینٹ پیٹرزبرگ میں داخل ہوکر بالشویک انقلاب کا اعلان کیا تھا۔ بعد میں روس کا کیلنڈر بدلا گیا تو اس انقلاب کی تاریخ ۷ نومبر قرار پائی۔ اس سال پھر کمیونسٹوں نے ماسکو میں ایک ریلی نکالی اور ۷نومبر کو اپنے فعال ہونے کا ثبوت فراہم کیا۔ (روزنامہ نیوز، لاہور، بحوالہ اے ایف پی، ۸نومبر۲۰۱۰ئ)

ماسکو کے اس معاشرتی و مذہبی تناظر میں مسلم کمیونٹی، قومیت پرست روسی اور کمیونسٹ بلاک سبھی اس وقت ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ اس ماحول میں بعض غیر مسلم این جی او ز بھی سرگرم عمل ہیں جو غیر جانب داری سے اپنا نقطۂ نظر پیش کردیتی ہیں ۔ ایسی ہی ایک این جی او جو عالمی سطح پر معروف ہے ، ماسکو کارنیگی سینٹر کے نام سے رجسٹرڈ ہے ۔ اس کے ایک تھنک ٹینک الیکسی مالا شنکوف نے ایک تازہ رپورٹ میں اپنا تجزیہ پیش کیا تواس میں کہا کہ ماسکو کی مقامی آبادی کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ماسکوعام قسم کی کوئی چھوٹی موٹی بلدیہ نہیں بلکہ کاسموپولیٹن شہر ہے جہاں کم و بیش دنیا کی ہر نسل اور تمام مذاہب کے لوگ پائے جاتے ہیں ۔ تشدد اور عدم برداشت کا رویہ کسی صورت بھی پسندیدہ قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ تمام نظریات کی حامل آبادیاں اپنے بنیادی حقوق کا مطالبہ کرسکتی ہیں ۔ اس کی مخالفت تنگ نظری اور تعصب کے سوا کچھ نہیں کہلاسکتی ۔ ایک غیرمسلم اور غیر جانب دار این جی او کا یہ نقطۂ نظر ہماری راے میں یقینا خوش آیند ہے مگر سچی بات یہ ہے کہ اگر ماسکو کے مسلمان خود بیدار اور منظم نہ ہو چکے ہوتے تو کوئی این جی او اور تھینک ٹھینک ان خیالات کا اظہار نہ کرتا۔

پوری دنیا میں بے شمار تھنک ٹینکس اور این جی اوز سرگرم عمل ہیں مگر ان میں غیر جانبدار اور غیر متعصب بہت کم ہیں۔ غیر مسلم دنیا میں ایسے بیش تر ادارے مسلسل یہ منفی واویلا کررہے ہیں کہ اسلام جیسا خطر ناک مذہب دنیا میں بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے ۔ اس میںشک نہیں کہ قبولیت ِاسلام اور مسلم آبادیوں کی افزایش روز افزوں ہے ، مگر غیر مسلم اور متعصب حلقوں کو جو چیز قدرے سکون فراہم کرتی ہے وہ یہ ہے کہ مسلمان کہیں بھی حتی کہ آزاد مسلمان ملکوں میں بھی آزادانہ فیصلے نہیں کرسکتے ۔وہ غیروں کے محتاج اور دست نگر ہیں ۔ ان اسلام دشمن عناصر کو یہ بھی معلوم ہے کہ مسلمانوں کی آبادی بلا شبہہ بڑھ رہی ہے مگر اسلام کے حقیقی ، انقلابی پیغام کو اپنا دستور حیات بنانے والے تعداد میں نسبتاً بہت کم ہیں ۔ اس سارے کچھ کے باوجود علامہ اقبالؒ کے بقول کسی وقت بھی یہ شیر پھر ہوشیار ہوگا اور کفر کی بالادستی کو تہہ و بالا کردے گا، جس طرح ماضی میںاس نے دنیا کی نام نہاد سوپر پاور روما کی سلطنت کو اُلٹ دیا تھا۔ آج اگرچہ بظاہر گھٹاٹوپ اندھیرے ہیں مگر روشنی اور اُمید کی کرنیں بھی پھوٹ رہی ہیں اور کہیں سے یہ صدا ضرور سنائی دے رہی ہے    ؎

نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا

سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے، وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا

اللہ کے سایے سے مراد

سوال:  اللہ کے سایے سے کیا مراد ہے؟ احادیث میں نیک لوگوں کے اللہ کے سایے میں جگہ پانے کا تذکرہ ہے۔ اللہ تو رب العالمین ہے اگر اس کا سایہ ہے تو پھر اسے سارے جہانوں پر محیط ہونا چاہیے۔

جواب:  قرآن کریم نے بے شمار مقامات پر اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے وجود، ذات اور صفات کے حوالے سے ہماری رہنمائی کی ہے۔ ان مقامات کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وجود جسم کا محتاج نہیں ہے، جب کہ سایے کا تعلق جسم کے ساتھ ہے۔ ہر وہ شے جو جسم رکھتی ہے اگر سورج یا روشنی کی زد میں آئے تو سایہ پیدا ہوتا ہے۔ درخت کے نیچے سایہ بھی اسی لیے آرام دہ ہوتا ہے کہ سورج کی تپش ٹہنیوں اور پتوں کے درمیان میں آنے سے ہم تک نہیں پہنچتی اور ہم سایے کو اپنے لیے رحمت سمجھتے ہوئے آرام کرتے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ اعلیٰ ترین ہستی جو تمام موجودات کی پیدا کرنے والی ہے کہ جس کے حکم سے بنی اسرائیل پر ۴۰سال تک اَبرسایہ کرتا رہا تاکہ وہ ریگستان میں محفوظ رہ سکیں، اور وہ ہستی جو حضرت ابراہیم ؑ کے لیے آگ کو گلزار بناسکتی ہے، کیا وہ میدانِ حشر میں، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایسی تپش ہوگی کہ انسان پسینے میں شرابور ہوکر ڈوب جائے، اسی میدانِ حشر میں اپنے بعض بندوں کے لیے جو اس کی مرضی کے مطابق زندگی گزارتے رہے ہوں، سایے کا بندوبست نہیں کرسکتا؟ اصل سوال یہ نہیں ہے کہ سایہ کس طرح پیدا ہوگا بلکہ اصل سوال یہ ہونا چاہیے کہ وہ رحمن و رحیم جو اس دنیا میں ایسے ایسے معجزات دکھا سکتا ہے جن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا اور جو میدانِ حشر کا حاکم اور فرماں روا ہے کیا وہ اپنے پسندیدہ بندوں کے لیے سایہ پیدا نہیں کرسکتا؟ اگر ہم اُس اللہ پر یقین رکھتے ہیں جو ہرشے کا خالق، مالک، مصور اور اختیار رکھنے والا ہے۔ تو میدانِ حشر میں اپنے بندوں پر سایہ کردینا، اس کے ایک ہلکے سے اشارے کا محتاج ہے۔(ڈاکٹر انیس احمد)


دھوپ سے گرم پانی کا استعمال

س:  میں شمسی توانائی کے استعمال پر کام کررہا ہوں۔ غالباً ایک حدیث پاک ہے کہ دھوپ سے گرم کیا ہوا یا گرم ہوجانے والا پانی استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ براہِ مہربانی اس سلسلے میں رہنمائی فرمائیں۔ یہ بھی واضح فرما دیں کہ کیا تالاب کا پانی بھی استعمال نہ کرنا چاہیے؟ اس لیے کہ دھوپ تو بہرحال اس کو بھی گرم کرتی ہے۔ کیا تالاب کے چھوٹا یا بڑا ہونے کی کوئی حد ہے؟

ج:  آپ نے جس حدیث مبارک کے حوالے سے استفسار فرمایا ہے وہ دارقطنی کے حوالے سے مشکوٰۃ باب احکام المیاہ میں ذکر کی گئی ہے کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا ہے کہ دھوپ پر گرم کیے ہوئے یا گرم ہوجانے والے پانی سے غسل نہ کرو کہ یہ’ برص‘ کا مرض پیدا کرسکتا ہے۔ (الفصل الثالث، حدیث ۱۴)

حضرت عمرؓ کے اس ارشاد کے بارے میں احتمال ہے کہ ان کا اپنا قول ہو یا انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر ارشاد فرمایا ہو۔ اس بات کی تصریح کہیں بھی نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر اُنھوں نے یہ بات ارشاد فرمائی۔ اس لیے ظاہر یہی ہے کہ یہ ان کا اپنا قول ہے، اور یہ ایک طبّی راہنمائی ہے جو انھوں نے کسی ذریعے سے حاصل کی اور پھر اسے بیان کر دیا۔

اس قول کو بعض محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے لیکن امام شافعیؒ نے اس کی ایسی سند بھی بیان کی ہے جس کے تمام راوی قابلِ قبول اور قابلِ اعتماد ہیں۔ اس لیے اسے ضعیف قرار دینا درست نہیں ہے۔ (مظاہر حق جدید، شرح مشکوٰۃ از مولانا قطب الدینؒ)

امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ اور امام احمد بن حنبلؒ کے نزدیک اس طرح کے پانی سے وضو اور غسل کرنا بلاکراہت جائز ہے۔ امام شافعیؒ کے نزدیک نقصان دہ ہونے کی بنا پر اس سے وضو اور غسل مکروہ ہے لیکن متاخرین فقہاے شافعیہ کے نزدیک بھی ائمہ ثلاثہ کی طرح اس سے وضو اور غسل بلاکراہت جائز ہے۔ اس سلسلے میں راجح بات یہ ہے کہ یہ ایک طبّی مشورہ ہے اس لیے اگر دوسرا پانی موجود ہو تو وضو اور غسل کے لیے دھوپ پر گرم کیے ہوئے پانی سے پرہیز کرنا بہتر ہے۔ کبھی کبھار وضو کرلیا جائے تو خیر ہے لیکن اسے عادت اور معمول بنانا یا احتیاط نہ کرنا خطرناک بھی ہوسکتا ہے۔ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے بھی بہشتی زیور میں یہی مشورہ دیتے ہوئے فرمایا: ’’دھوپ میں جلے ہوئے پانی سے سفید داغ ہوجانے کا ڈر ہے، اس لیے اس سے وضو، غسل نہ کرنا چاہیے‘‘۔(ص۵۴)

تالاب کے پانی کے استعمال کے بارے میں واضح رہے کہ تالاب کے پانی کو جب دھوپ لگے اور وہ اس سے گرم ہوجائے تو اس کا استعمال بھی مناسب نہیں ہے۔ وہ چھوٹا ہو یا بڑا، دونوں کا ایک ہی حکم ہے۔ البتہ بہنے والا پانی جو دریا، نہر یا ندی نالے کی شکل میں ہو وہ اس سے مستثنیٰ ہے۔اس لیے کہ مسلسل جاری رہنے سے پانی اس سے اتنا متاثر نہیں ہوتا کہ اس کا استعمال خطرناک ہو۔ واللّٰہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)


دوسری شادی کو معیوب سمجھنا

س:  ہمارے ہاں اگر کسی خاتون کا شوہر فوت ہوجائے یا کسی کی بیوی فوت ہوجائے تو برادری والے دوسری شادی کو معیوب سمجھتے ہیں۔ کیا یہ رویہ درست ہے؟

ج:  دنیوی زندگی کے دوران ہر انسان کے لیے موت مقرر ہے اور ایک نہ ایک روز ہر ایک نے موت کا مزہ چکھنا ہے۔ شوہر اور بیوی بھی اس قانون سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔ کبھی شوہر پہلے فوت ہوجاتا ہے تو کبھی بیوی۔ اس پر انسان کا بس نہیں چلتا ہے۔ ہم روز مرہ زندگی میں اس کو ایک معمول سمجھتے ہیں کہ آئے روز اس سے ہمیں واسطہ پڑتا رہتا ہے۔

اسلام نے شوہر اور بیوی کے درمیان قائم تعلق کو تقدس اور احترام کا درجہ دیا ہے کیونکہ اسی رشتے کے نتیجے میں انسانی معاشرہ پھلتا پھولتا ہے۔ اس لیے اگر شوہر فوت ہوجائے تو عورت پر اس کا سوگ منانا ایک مقررہ مدت تک فرض کیا گیا ہے، اور اگر بیوی فوت ہوجائے تو اس پر بھی سوگ کا ایک طریقہ طے کیا گیا ہے لیکن کسی ایک کو دوسرے کے انتقال کی صورت میں شادی کرنے سے روکا نہیں گیا ہے، بلکہ شادی کی خواہش اور استطاعت ہونے کی صورت میں حسبِ ضرورت اس کو فرض، واجب یا مستحب کہا گیا ہے۔

اس سے بڑھ کر یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ صرف انتقال کی صورت میں ہی نہیں، بلکہ طلاق کی صورت میں بھی عدت مکمل ہونے کے بعد عورت کو دوسری شادی کرنے کا حق دیا گیا ہے اور کسی عزیز رشتہ دار کو اس بات سے روکنے کا حق شریعت نے نہیں دیا ہے:

وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ اَنْ یَّنْکِحْنَ اَزْوَاجَھُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ ط ذٰلِکَ یُوْعَظُ بِہٖ مَنْ کَانَ مِنْکُمْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِط ذٰلِکُمْ اَزْکٰی لَکُمْ وَ اَطْھَرُ ط وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ o (البقرہ ۲:۲۳۲) جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دے چکو اور وہ اپنی عدت پوری کرلیں تو پھر اس میں مانع نہ ہو کہ وہ اپنے زیرتجویز شوہروں سے نکاح کرلیں، جب کہ وہ معروف طریقے سے باہم مناکحت پر راضی ہوں۔ تمھیں نصیحت کی جاتی ہے کہ ایسی حرکت ہرگز نہ کرنا، اگر تم اللہ اور روزِ آخر پر ایمان لانے والے ہو۔ تمھارے لیے شائستہ اور پاکیزہ طریقہ یہی ہے کہ اس سے باز رہو۔ اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

لہٰذا کسی برادری، رشتہ دار، باپ دادا یا اولاد کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ کسی مرد کو اُس کی بیوی کے انتقال کے بعد دوسرے نکاح سے روکے، اور نہ کسی بیوہ کو اس کے شوہر کے انتقال کے بعد دوسری شادی سے روکے۔ حلال اور حرام کے حدود مقرر کرنا اللہ کا کام ہے۔ کسی اور کو اس میں مداخلت کرنے کا حق نہیں ہے۔ شادی کرنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے، اور انسانی معاشرے کے قیام اور بقا کے لیے ضروری بھی ہے۔ گویا شوہر یا بیوی کی وفات کی صورت میں بھی اور طلاق یافتہ عورت اپنی ضروری عدت مکمل کرنے کے بعد اپنے حالات اور ضروریات کے تحت دوسری شادی کرنے کا مکمل حق رکھتے ہیں۔ اُن کو اس حق کے استعمال سے روکنا صریح ظلم ہے جس کی اجازت اسلام نے قطعاً نہیں دی ہے۔

اگر کسی برادری میں یہ رسم اور رواج موجود ہے تو معقول انداز میں اُن کو یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے، اور اللہ کے حکم کے مقابلے میں کھڑا ہونے، اس کی راہ روکنے یا اس کی مخالفت کرنے کے انجام سے ان کو خبردار کیا جانا چاہیے۔ نیز اس حکم کی خلاف ورزی کے نتیجے میں جو فساد پیدا ہونے کا خطرہ ہوتا ہے اس سے بھی آگاہی ہونی چاہیے۔ رسولؐ اللہ کا ارشاد ہے: ’’جب تمھارے پاس رشتہ لینے دینے کے لیے کوئی ایسا شخص آجائے جس کے دین و اخلاق سے تم مطمئن ہو تو اس کو رشتہ دے دیا کرو۔ اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں بڑا فتنہ و فساد پھیل جائے گا۔ گویا کہ اچھے رشتے اور پسندیدہ رشتے کے ملنے کے بعد اس میں پس و پیش کرنا یا روڑے اٹکانا یہ روے زمین پر فساد اور فتنے پھیلانے کا باعث ہے۔ اس سے گریز کیا جائے اور اللہ کے بنائے ہوئے قوانین کی راہ میں روڑے نہ اٹکانے چاہییں۔ (مصباح الرحمٰن یوسفی)


غیرمسلم سے اظہارِ تعزیت

س:  ایک مسلمان کی غیرمسلم شخص کی وفات پر اس کے لواحقین سے ہمدردی کا اظہار کیسے کرسکتا ہے؟

ج:  انسانی زندگی میں خوشی اور غمی کے مواقع مسلسل آتے رہتے ہیں، اور اسلام نے ان مواقع پر ایک دوسرے کی خوشی میں شریک ہونے، اس پر اظہارِ مسرت کرنے، اور غمی کے موقع پر اظہارِ ہمدردی اور تعزیت کرنے کو اسلام کے تقاضوں میں سے قرار دیا ہے۔

خوشی یا غمی کے موقع پر شرکت یا ہمدردی کے اظہار کے لیے مذہب یا رنگ نسل کی کوئی تفریق نہیں ہے۔ آپ کا پڑوسی یا جاننے والا آپ کی طرف سے اس ردعمل کا حق دار ہے کہ آپ اُس کی خوشی میں بھی شریک ہوں اور اگر اُس کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اس پر اظہارِ ہمدردی یا تعزیت کریں بلکہ ممکنہ تعاون بھی پیش کریں۔ رسولؐ اللہ نے ہمیشہ اپنے متعلقین یا پڑوسیوں کے ساتھ اسی حُسنِ سلوک کا اظہار فرمایا ہے۔

یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ تعزیت، اظہارِ ہمدردی اور دعاے مغفرت میں بڑا فرق ہے۔ دعاے مغفرت صرف اہلِ ایمان کا حق ہے اور انھی کے ساتھ مخصوص ہے۔ کسی غیرمسلم کے لیے آخرت میں کامیابی اور فوز و فلاح کی دعا ٹھیک نہیں ہے اور نہ کسی غیرمسلم ہی کو اس کی توقع ہوتی ہے، کیونکہ وہ اس بات پر یقین ہی نہیں رکھتا ہے۔ رسولؐ اللہ سے کسی غیرمسلم کے لیے یہ عمل ثابت نہیں ہے بلکہ خود حضرت ابراہیم ؑکی مثال اس سلسلے میں بڑی واضح ہے کہ آپ نے اپنے والد کے لیے اس خواہش کا اظہار کیا تو اس پر اللہ تعالیٰ نے ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا۔

لہٰذا اپنے کسی پڑوسی، رشتہ دار، جاننے والے غیرمسلم کی وفات پر اس کے لواحقین سے اظہارِ ہمدردی کرنا یا تعزیت کے الفاظ کہنا، اُن کے غم میں شریک ہونا، تسلی اور دلاسہ دینا جائز ہے بلکہ حسب ِ احوال ضروری ہوتا ہے۔ اس سے آپس میں پیار اور محبت کی فضا قائم ہوتی ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ تعلق بڑھتا ہے، بلکہ خود دین اسلام کی خوبیاں اور محاسن کو غیرمسلموں کو بھی قریب سے دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ یہ ایک انسانی تعاون ہی نہیں بلکہ دینی دعوت کا کام ہے جس میں مسلم اور غیرمسلم دونوں کی بھلائی اور فائدہ ہوتا ہے۔ اس رواج کو پروان چڑھانا چاہیے اور اس سے   پیار و محبت کی فضا قائم کرنی چاہیے تاکہ انسان انسانوں کے قریب آئیں اور حقیقت کو سمجھنے میں   مدد مل سکے۔ اس بات کو بھی ملحوظ رکھا جائے کہ ان کے مذہبی تہواروں اور ان کی مذہبی رسوم میں شرکت بھی جائز نہیں ہے جس طرح دعاے مغفرت جائز نہیں ہے۔ (م-ر-ی)


ذمہ داری ملنے پر مبارک باد یا دعا؟

س:  دستور جماعت کے مطابق جماعت اسلامی میں مختلف مناصب اور ذمہ داریاں سونپی جاتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب کسی کو ذمہ داری سونپی جائے تو دوسرے ساتھی یعنی کارکنان کو اپنے امیر یا ناظم کو ملاقات پر کیا کہنا چاہیے؟ کیا مبارک باد دی جائے یا کوئی دُعا؟ بعض ساتھی مبارک باد دینا پسند نہیں کرتے کہ یہ ذمہ داری ایک قسم کا بوجھ ہے، خوشی کی بات نہیں۔ صحیح رہنمائی فرمائیں۔

ج:  مبارک باد ایسی چیز کے حصول پر دی جاتی ہے جسے پاکر ایک آدمی خوشی محسوس کرے۔ عہدہ اور منصب خوشی کی چیز نہیں ہے بلکہ ایک ذمہ داری ہے جو آدمی کو فکرمند بنا دیتی ہے۔ جو چیز آدمی کو فکرمند بنا دے، اسے سوچنے پر مجبور کردے کہ وہ کامیاب ہو تاکہ راحت محسوس کرے اور خوش ہوجائے، اور بالفرض ناکام ہو تو پھر پریشانی سے دوچار ہوگا۔ یہ چیز مبارک باد کی نہیں بلکہ دعا کا تقاضا کرتی ہے۔ اس لیے مناسب یہ ہے کہ جسے کوئی عہدہ یا ذمہ داری ملے اسے کامیابی  اور استقامت کی دعا دی جائے۔ یہی طریقہ ہمیشہ سے چلا آرہا ہے، اسی کو قائم رکھنا چاہیے۔  واللّٰہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)

Key to Al-Kahf: Challenging  Materialism  & Godlessness,  [کلید الکھف: مادیت اور الحاد کے لیے چیلنج]، خرم مراد، عبدالرشید صدیقی۔ اسلامک فائونڈیشن، لسٹر، برطانیہ۔ صفحات: ۵۹۔ قیمت: درج نہیں۔

قرآن فہمی اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے عظیم احسانات میں سے ایک احسان ہے۔ یہ سعادت بزورِ بازو حاصل نہیں کی جاسکتی۔ وہ جس پر اپنی عنایت کرنا چاہتا ہے، اس کے لیے سینے کو کشادہ کردیتا ہے اور قرآن کریم کی برکات سے نواز دیتا ہے۔ زیرنظر کتاب اس یقین میں مزید اضافہ کردیتی ہے۔ یہ خرم مرادؒ کے ۱۹۸۰ء میں برطانیہ میں دورانِ قیام قرآن کریم پر محاضرات میں سے ایک محاضرہ ہے، جسے ان کے تحریر کردہ نوٹس کی مدد سے عبدالرشید صدیقی صاحب نے قیمتی اضافوں سے مدون کیا ہے۔

مقدمے میں عبدالرشید صدیقی صاحب نے اختصار سے وہ اصولِ تفسیر بھی بیان کردیے ہیں جو اس مقالے میں اختیار کیے گئے ہیں، مثلاً: ۱- تعبیر و تشریح کرتے وقت اسلام کے عمومی اُصول اور سنت رسولؐ کی روح، مزاج اور اسلامی قوانین کو سامنے رکھا جائے اور ان کے دائرے میں رہتے ہوئے قرآن کی تعبیر کی جائے۔ ۲- وہ قرآنی آیات جو کسی خاص مضمون سے تعلق رکھتی ہوں انھیں اسی مضمون سے وابستہ رکھا جائے اور ایسا کرتے وقت قرآن کریم میں تذکیر، تلاوت، تزکیہ اور تحکیم کے فرق کو سامنے رکھا جائے۔ ۳-تعبیر میں محض ندرت و جدت کے شوق میں بلاوجہ مفہوم کو کھینچا تانا نہ جائے۔ ۴- کسی بھی لفظ سے معانی کو اس کے متن اور تاریخی حوالے سے الگ نہ کیا جائے۔ ۵-زبان چونکہ ایک اہم ذریعہ ابلاغ ہے اور اس کے معانی میں تبدیلی بھی واقع ہوتی ہے، اس لیے نئے  سیاق و سباق میں بھی اصل معانی کو بنیاد بنایا جائے۔ ۶- نئے سیاق و سباق کے تعلق سے غور کرنے سے قبل تاریخی تناظر میں آیت کے اصل مفہوم کو سمجھ لیا جائے۔ ۷- اگر ضرورت کے پیشِ نظر کسی نئی اصطلاح کا استعمال مفید ہو تو یہ یقین کرلیا جائے کہ اصل معانی سے کوئی انحراف واقع نہ ہو۔ ۸-خصوصی احکامات سے عموم اخذ کیا جائے تاکہ تبدیلیِ زمانہ کے باوجود احکام کو نافذ کیا جاسکے۔

ان عمومی اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے خرم مراد مرحوم نے سورئہ کہف کے حوالے سے   جو مقالہ تحریر کیا، اس کے مصادر کی تخریج کے ساتھ جن مقامات پر اضافے کی ضرورت تھی،    برادرم عبدالرشید صدیقی نے انتہائی محنت سے تحقیق کے ساتھ انھیں مدون کیا ہے۔ اس حوالے سے دجّال سے متعلق احادیث کو ضمیمے میں یک جا کردیا گیا ہے، تاکہ اصل مضمون سے توجہ ہٹ کر اس طرف مبذول نہ ہوجائے۔ پہلے باب میں ایک اضافہ ہے۔ ایسے ہی دوسرے باب میں پانچویں حصے سے آٹھویں حصے تک، اور تیسرے اور چوتھے باب بھی اضافے ہیں، لیکن تحریر کو اس طرح پُرو دیا گیا ہے کہ کسی مقام پر بھی کوئی تشنگی یا خلا محسوس نہیں ہوتا۔

سورئہ کہف کی اہمیت احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہے اور جمعہ کے دن اس کا پڑھنا انتہائی اجر کا باعث ہے۔ احادیث میں اس طرف بھی واضح اشارہ ملتا ہے کہ جو اس سورہ کی ابتدائی ۱۰ آیات کو پڑھے گا وہ دجّال کے اثرات سے محفوظ رہے گا۔ ایسے ہی بعض آیات میں اس کی آخری ۱۰ آیات کے بارے میں اور بعض میں محض ۱۰ آیات کے حوالے سے اہمیت بیان کی گئی ہے۔ اس سورہ کی برکات میں دجّال سے محفوظ رکھنے کی خاصیت تو پائی جاتی ہے لیکن اس سے زیادہ دجّال کے آنے سے قبل عام حالات میں اس کی اہمیت غیرمعمولی ہے اور اسی بنا پر خرم مراد مرحوم نے اسے غور کرنے کے لیے منتخب کیا۔ سورہ کے مضامین کا خلاصہ پہلے باب میں بیان کردینے کے ساتھ اس سورہ کا دیگر سورتوں کے ساتھ تعلق اور خصوصاً سورۂ بنی اسرائیل اور اس میں جو مماثلت پائی جاتی ہے اس پر علمی جائزہ پہلے باب کی خصوصیت ہے۔

سورئہ کہف کا آغاز جن کلمات سے ہو رہا ہے اور سورہ بنی اسرائیل کا آغاز جن کلمات سے ہوتا ہے ان میں ایک گہری معنوی مماثلت پائی جاتی ہے، خصوصاً توحید، ہدایتِ ربانی اور رسول کریمؐ اور انبیا کے حوالے سے ان کا اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کا عبد ہونا قبل اسلام کے ان تمام تصورات کی تردید کردیتا ہے جن میں انبیا یا بعض دینی شخصیات کو اُلوہیت میں شریک بنا لیا جاتا تھا۔ خود ہدایت الٰہی کے حوالے سے اس پہلو کو سمجھایا گیا ہے کہ کتابِ ہدایت کا اصل مصنف اور بھیجنے والا اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہے۔

اصحابِ کہف کے واقعے سے آج کے حوالے سے جو پیغام ملتا ہے وہ ماحول کی آلودگی اور ظلم و طاغوت کی کثرت کو دیکھتے ہوئے دل چھوڑ کر کہیں گوشہ نشین ہوجانا نہیں ہے، بلکہ پوری استقامت اور صبر کے ساتھ مالکِ حقیقی کی طرف رجوع کرتے ہوئے کلمۂ حق ادا کرنا ہے۔ ساتھ ہی یہ پیغام بھی ہے کہ کیا واقعی ہمارے یہ اندازے کہ پانی سر سے اُوپر گزر چکا، اب اصلاح کی کوئی اُمید نہیں کی جاسکتی، اس لیے زمین کا پیٹ یا کسی غار کے مکین بن جانے میں نجات ہے درست کہے جاسکتے ہیں، یا اللہ کی مدد سے جس کے بارے بڑے صالح افراد یہ پکار اُٹھے تھے کہ متٰی نصراللّٰہ، ہم مایوس ہوکر ظلم و طاغوت کو من مانی کرنے کے لیے آزاد چھوڑ دیں، اور اصلاح کی قوتیں اپنے آپ کو ذاتی تحفظ کے نظریے کی روشنی میں میدانِ عمل سے نکال کر گوشہ نشینی اختیار کرلیں۔

یہ مکّی سورہ یہ پیغام دیتی ہے کہ مکہ میں ہونے والے وہ تمام مظالم اور آزمایشیں جن سے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحابِ رسولؐ گزر رہے تھے، ان تمام آزمایشوں نے نہ انھیں  دل برداشتہ کیا نہ وہ تنہائی کی طرف راغب ہوئے بلکہ اس امتحان نے دین کی دعوت دینے اور اس کے لیے اذیت برداشت کرنے کی لذت میں کچھ اضافہ ہی کر دیا۔

اصحابِ کہف کے قصے سے ایک بات یہ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کس طرح قوانینِ فطرت کو اپنی مرضی کے مطابق عموم دیتا ہے اور کس طرح بعض حالات میں استثناء کی شکل پیدا ہوجاتی ہے۔ ۳۰۰ سال تک سونے کے بعد جاگنا ایک ایسا استثنا ہے، جو مالکِ کائنات کی قدرت، قوت اور حاکمیت کی ایک دلیل اور اس بنا پر ایک آیت کی حیثیت رکھتا ہے۔

آگے چل کر حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت خضر علیہ السلام کے واقعے کا تفصیلی تجزیہ ہے جس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اللہ کے انبیا بھی تعلیمی سفر سے گزرتے رہے ہیں اور بعض اوقات بے صبری کا مظاہرہ بھی کربیٹھتے ہیں۔ ایک عظیم رسول اور قائد کو جس طرح حضرت خضر ؑنے اسرار سے آگاہ کیا اور جس تجسس و تحقیق کے جذبے کا اظہار حضرت موسٰی ؑکے طرزِعمل کے سامنے آتا ہے اس میں اہلِ علم کے لیے بہت سے سبق ہیں۔

پھر ذوالقرنین کے واقعے کا تجزیہ یہ بتاتا ہے کہ ایک ایسا فرماں روا جس کی مملکت مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک پھیلی ہوئی ہو اور اس کی فتوحات کے سامنے کسی کی مزاحمت کامیاب نہ ہوسکے، اس کا طرزِعمل فخروامتیاز کا ہو یا حلم و خاکساری کا، وہ خادم ہو یا بادشاہ بن کر بیٹھ جائے۔ اگر اس کے پاس دولت کی کثرت ہو تو کیا وہ اسے سینت سینت کر رکھے یا اسے اللہ کی راہ میں اللہ کے بندوں کی حاجتیں پوری کرنے میں لگا دے۔

آخری حصے میں ایک بہت اہم علمی اور تجزیاتی بحث اس موضوع پر ہے کہ کیا سائنسی ترقی اور مادیت کے دور میں اس دور کے لحاظ سے زندگی گزرنے کے اصول وضع کیے جائیں یا الہامی ہدایت کی روشنی میں قرآن و سنت کے ازلی اور ابدی اصول عمل میں لائے جائیں۔ کس طرح    اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اور توحید کی روشنی میں معاشرہ، معیشت اور سیاست کی تشکیلِ نو کی جاسکتی ہے اور آج کی دنیا کو جو مادیت، انفرادیت پرستی اور ٹکنالوجی کی برتری کی غلام نظر آتی ہے، اس فکری قید سے نکال کر اسلام کے روشن اور ابدی اصولوں کے ذریعے ایک روشن مستقبل کی طرف لے جایا جاسکتا ہے۔

یہ مختصر کلمات کسی لحاظ سے بھی اس کتاب کا خلاصہ نہیں کہے جاسکتے۔ جس قلبی حرارت کے ساتھ اس تحریر کو لکھا گیا ہے اس کی حدت کو نہ صرف محسوس کرنے بلکہ اسے عمل کی بنیاد بنانے کی ضرورت ہے تاکہ نظامِ کفروطاغوت کی جگہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی ہدایات کو نافذ کرنے کے لیے انسانی وسائل کی تعمیر و تشکیل کی جاسکے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)


تعلیم کی ضرورت، ڈاکٹر عبدالرشید ارشد۔ ناشر: اشاعت الحکمت، ۱۲- نیوگلشن پارک، چونگی ملتان روڈ، لاہور۔ صفحات: ۲۰۰۔ قیمت: ۱۹۰ روپے۔

زیرتبصرہ کتاب میں علم کی اہمیت، ضرورت اور دینی نقطۂ نظر سے اس کے فروغ کے لیے وسیع پیمانے پر کاوشوں کی ضرورت پر بحث کی گئی ہے۔ مصنف کو اس حقیقت کا شدت سے احساس ہے کہ مروجہ نظامِ تعلیم مسلمانوں کو غلام بنانے کی منظم کوشش ہے جو پوری کامیابی کے ساتھ مسلمانوں کو جکڑے ہوئے ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد اس غلام ساز نظامِ تعلیم کواسلامی اور قومی تقاضوں کے مطابق تشکیل نہیں دیا گیا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ قوم فکری اور عملی انتشار کا شکار ہے۔

کتاب کے آٹھ ابواب میں مصنف نے نظامِ معاشرہ اور تہذیبی تصورات، علم کی ضرورت، جدید تعلیمی فکر کی بنیادوں، اسلامی تصورِ تہذیب، عملِ تعلیم کی نمو، پاکستان میں علم سے بیگانہ معاشرے  کی صورتِ حال، اور تعلیم کے مقاصد پر بحث کرتے ہوئے نہایت حکیمانہ انداز میں دنیا کی    مختلف تہذیبوں، ثقافتوں، نظام ہاے زندگی، اور افکار و نظریات پر تنقید کر کے، اسلامی نظامِ حیات اور دینی عقائد و افکار کو واضح کیا ہے۔ پوری کتاب میں مختلف مباحث میں یہی جذبہ کارفرما ہے کہ صحیح علم اور صحیح تعلیم و تربیت کا مؤثر نظامِ تعلیم کس طرح تشکیل پاتا ہے اور اس کی خصوصیات کیا ہوتی ہیں، نیز ان خصوصیات کو کس طرح حاصل کی جاسکتا ہے۔ علمی اسلوبِ بیان نے موضوع کی مناسبت سے بعض مقامات پر بعض مباحث میں اسے فلسفۂ تعلیم کی کتاب بنا دیا ہے، تاہم مصنف کی نفسِ مضمون پر عالمانہ گرفت نے اس میں سلاست و روانی بھی پیدا کی ہے۔ ضرورت ہے کہ تعلیم و تعلم سے شغف رکھنے والے اصحابِ علم کے علاوہ، ایسی کتابیں، اُن پیشہ ورانہ تدریسی اداروں اور ان ارباب اقتدار تک پہنچائی جائیں جو نظامِ تعلیم اور مقاصد تعلیم کا تعیین کرکے تعلیمی منصوبے بناتے اور انھیں ملک بھر میں نافذ کرنے کے ذمے دار ہیں۔ (ظفرحجازی)


تعمیرپاکستان، ڈاکٹر محمد آفتاب خاں۔ ناشر: ادبیات، رحمن مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۳۶۱۴۰۸۔ صفحات: ۳۵۰۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

کتاب کے سرورق پرضمنی عنوان ہے: ’’مذہبی، ثقافتی محرکات: کل اور آج‘‘۔ بقول مصنف: ’’کتاب کا مقصدِ تحریر صرف یہ ہے کہ مسلمانانِ پاکستان کو بالعموم اور نسلِ نو کو بالخصوص یہ باور کرایا جائے کہ ربِ کریم نے اسلام کے نفاذ کے لیے ہمیں جو تجربہ گاہ پاکستان کی شکل میں عطا کی، اس کی قدروقیمت اور اہمیت کو پہچانیں‘‘۔(ص۱۳)

تحریکِ پاکستان کے تاریخی پس منظر کے تحت تحریکِ مجاہدین ’فرائضی تحریک، شمالی علاقوں میں مُلاپاوِندہ اور فقیرایپی کی جہادی اور انگریز مخالف سرگرمیوں، برطانوی استعمار کی چال بازیوں، انگریزوں کے تعلیمی نظام کے تباہ کن اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اسی طرح ہندوئوں کی مسلم دشمنی اور ان کے مقابلے میں ملّتِ اسلامیہ کے زعما (علامہ اقبال، قائداعظم اور سیدابولاعلیٰ مودودی) کی کاوشوں کا ذکر تفصیل سے کیا گیا ہے۔

مصنف نے کھلے دل سے اعتراف کیا ہے کہ اس کتاب کے حصہ اوّل (ص ۲۵ تا ۱۵۲) میں شامل بیش تر معلومات پروفیسر سیدمحمدسلیم (م: ۲۷؍اکتوبر ۲۰۰۰ئ) کی کتاب تاریخ نظریہ پاکستان سے اخذ کی گئی ہیں، تاہم مصنف نے دیگر مآخذ سے بھی بخوبی استفادہ کیا ہے اور آخر میں کتابیات کی مفصل فہرست بھی دی ہے۔ دیباچہ نگار ڈاکٹر محمد وسیم اکبر شیخ کے خیال میں: مصنف ایک محب ِ وطن اور دردمند دل رکھنے والے انسان ہیں اور حصولِ پاکستان کے دوران دی جانے والی جانی و مالی قربانیوں کے عینی شاہد بھی ہیں۔ انھوں نے نہایت محنت اور خلوص سے یہ یاد دلایا ہے کہ علاقائی تعصبات اور علیحدگی پسندی اور قومیت پرستی کے رجحانات جیسے سو سال پہلے خطرناک تھے، آج بھی اسی طرح تشویش ناک اور زہرناک ہیں۔ (ص ۲۱، ۲۲)

کتاب کا موضوع بہت عمدہ ہے۔ مصنف نے محنت بھی کی ہے مگر زبان و بیان کمزور ہے،  اشعار میں خاص طور پر غلطیاں نظر آتی ہیں: (صفحات: ۱۱، ۱۷، ۲۵، ۲۶، ۳۶، ۳۸، ۳۹، ۴۵، ۶۲، ۶۳، ۱۳۷، ۱۵۲، ۲۶۲، ۳۳۱ اور انتساب کا صفحہ وغیرہ)۔ کتاب کی تدوین بھی ناقص ہے۔ ص ۱۰۱ کے حاشیے کی باتیں،ص ۲۲۵ پر مکرّر لکھ دی گئی ہیں وغیرہ (تھوڑی سی مشاورت یا نظرثانی سے یہ خامیاں دُور ہوسکتی تھیں) مگر بعض کمزور پہلوئوں کے باوجود مصنف کی دردمندی، راست فکری اور پُرخلوص جذبات میں کلام نہیں۔

مصنف نے ایک حاشیے میں نام لیے بغیر علامہ اقبال کے ’بعض مداحوں اور محققوں‘ سے شکوہ کیا ہے کہ انھوں نے علامہ اقبال اور سید مودودی کے باہمی روابط سے صرفِ نظر کرکے   تاریخی حقائق سے گریز کیا ہے۔ فاضل مصنف کا یہ شکوہ اس لیے درست نہیں ہے کہ بعض نام نہاد سیکولر دانش وروں، قادیانیوں اور پرویزی مصنفین کے علاوہ کوئی بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ علامہ اقبال نے مولانا مودودی کو دکن سے ہجرت کر کے پنجاب آنے کی دعوت دی تھی اور مولانا بھی علامہ سے دو تین ملاقاتیں کر کے مطمئن ہوکر مارچ ۱۹۳۸ء میں پٹھان کوٹ پہنچے تھے، مگر اس سے پہلے کہ مولانا لاہور آکر علامہ سے تجدیدِ ملاقات کرتے اور مستقبل کے علمی منصوبوں پر کچھ بات کرتے ۲۱؍اپریل کو باری تعالیٰ نے علامہ کو اپنے پاس بلالیا۔ اقبال اور مودودی کے روابط پر اقبال کے آخری زمانے کے بعض ہم نشین رفقا اور خود ان کے فرزندِ ارجمند ڈاکٹر جاویداقبال کی شہادتیں موجود ہیں۔ کتاب پڑھنے کے لائق ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


معیشت و تجارت کے اسلامی احکام،  حافظ ذوالفقار علی۔ ناشر:ابوہریرہ اکیڈمی، ۳۷-کریم بلاک، علامہ اقبال ٹائون، لاہور۔ فون: ۳۵۴۱۷۲۳۳۔ صفحات: ۲۱۲۔ قیمت: درج نہیں۔

معیشت و تجارت کا شعبہ انسان کی زندگی کا ایک اہم شعبہ ہے۔ مادیت پر مبنی سوچ اور فکر نے پرانی قارونی فکر کی بنیاد پر اس معیشت و تجارت کو یوں اہمیت دی ہے کہ انسان کو معاشی حیوان کے درجہ پر فائز کر دیا ہے۔ حالانکہ انسان کی تخلیق خلیفۃ اللّٰہ فی الارض یعنی زمین پر اللہ کے نائب کی حیثیت سے کی گئی تھی اور معیشت و تجارت کو حسب ضرورت اختیار کرنے اور فروغ دینے کی اجازت دی تھی۔ اسلامی تعلیمات میں جہاں تمام شعبہ ہاے زندگی کے متعلق اصول و ضوابط متعین کیے گئے وہاں معاشی و تجارتی معاملات کے بارے میں بھی قوانین اور ضوابط عطا کیے گئے۔

زیرتبصرہ کتاب میں معیشت کی اہمیت اسلام کی نگاہ میں، بیع، اس کی اقسام، بیع و سود کا تقابل اور خرید و فروخت کے اسلامی اصولوں کو کتاب و سنت کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح جو اشیا فروخت کر دی جائیں ان سے متعلق کیا احکام ہیں؟ اشیا کی قیمتوں کے تعین، نقد و اُدھار قیمتوں کے حوالے سے اشکالات کا جواب دیا گیا ہے۔ کاروباری معاملات میں فریقین کو خیار (option) کا تصور اسلام نے دیا۔ خیار کی مختلف صورتیں اور خیارات کی تنسیخ جیسے مسائل پر بحث کی گئی ہے۔

اسلامی بنکاری میں اجارے کو بڑے پیمانے پر استعمال کیا جا رہا ہے، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اور اس کی عملی طور پر موجود شکلیں کیا اسلام کے اصولوں کے مطابق ہیں؟ سکوک کا کیا تصور ہے اور اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اسلام میں زر کیا تصور ہے اور کاغذی زر (کرنسی نوٹ) کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کرنسی نوٹ پر زکوٰۃ کے کیا احکام ہیں؟ قرضوں کی اشاریہ بندی کی کیا شرعی حیثیت ہے؟___ یہ وہ چند عنوانات ہیں جن پر فاضل مصنف نے قرآن و سنت کی روشنی اور فقہاے کرام کی آرا کو پیش نظر رکھ کر اپنی راے پیش کی ہے۔ علماے کرام، مدارس کے طلبہ، اسلامی معاشیات سے دل چسپی رکھنے والے حضرات اور معاشی، تجارتی اداروں میں کام کرنے والے افراد کے لیے یہ کتاب ایک گائیڈ کا کام دے سکتی ہے۔ (میاں محمد اکرم)

احمد علی محمودی ، بہاول پور

علامہ عنایت اللہ گجراتیؒ، ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ (نومبر ۲۰۱۰ئ) صاحبانِ علم و فضل کا تذکرہ نظر سے گزرا۔ بلاشبہہ یہ علم و تقویٰ، حسنِ اخلاق، صبر واستقامت کا پیکر اور اُمت مسلمہ کا عظیم سرمایہ تھے۔ ان کے   دنیا سے رخصت ہوجانے سے مذہبی، علمی و ادبی حلقوں میں جو خلا پیدا ہوا ہے شاید یہ کبھی پُر نہ ہو۔


محمد عبداللّٰہ ،خوشاب

’مغرب میں مطالعہ اسلام‘ (نومبر ۲۰۱۰ئ) پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ فاضل مصنفہ نجیبہ عارف زیرتبصرہ کتاب کے مصنف کارل ارنسٹ کے اس دعوے سے اختلاف کا اظہار کرتی ہیں کہ ’’قرونِ وسطیٰ میں عیسائیوں کی نسبت یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان زیادہ قریبی تعلقات رہے ہیں‘‘ (ص ۶۴)۔ گذشتہ دنوں جامعہ دارالاسلام، خوشاب کے دو طلبہ ترک حکومت کے اسکالرشپ پر ترکی کے شہر ازمیر پہنچے تو ازمیر کی تاریخ کے مطالعے کا موقع ملا۔ یہ ترکی کا تیسرا بڑا شہر ہے اور استنبول کے بعد ملک کی دوسری بڑی بندرگاہ یہاں ہے۔ اس شہر کی ایک وجۂ شہرت ۱۴۹۲ء میں سقوطِ غرناطہ کے بعد مسلمانوں کے ساتھ ساتھ یہودیوں کا بھی بڑی تعداد میں جلاوطن ہوکر ازمیر میں آبسنا ہے۔ اس تاریخی حقیقت سے ارنسٹ کے نقطۂ نظر کو اس حد تک تقویت ملتی ہے کہ مسلمانوں نے ہمیشہ ذمی رعایا خصوصاً یہود کے حقوق کا احسن انداز میں خیال رکھا اور رواداری برتی۔ تاہم، یہ بھی حقیقت ہے کہ اہلِ یہود نے جب بھی موقع ملا فائدہ اٹھایا اور اٹھارھویں صدی کے انگریز، اطالوی، فرانسیسی، ولندیزی استعمار کے دست و بازو بنے اور فلسطین کا نہ صرف مطالبہ کیا بلکہ اس پر قابض ہوکر بیٹھ گئے۔ بلاشبہہ اس مضمون سے غوروفکر کے نئے دریچے وا ہوتے ہیں۔


اسامہ مراد ،کراچی

’رسائل و مسائل‘ (نومبر ۲۰۱۰ئ) میں ’’حقوق العباد اور عبادات میں ترجیح‘‘ کا موضوع بہت اہم اور روزمرہ زندگی سے متعلق ہے۔ جنگ کی حالت میں بھی نماز اپنے وقت پر پڑھنے کا طریقہ قرآن نے بیان کیا ہے۔ اس سے حالت ِ جنگ تک میں جماعت کی اہمیت واضح ہورہی ہے۔ افسوس کہ مسلمانوں کی بڑی تعداد نماز سے غفلت برتتی اور دنیوی امور کو ترجیح دیتی ہے۔ اگر سب مسلمان نماز باجماعت ادا کریں تو مسجدوں میں نمازکے لیے جگہ نہ ملے۔ تحریکی حلقوں میں بھی اجتماعات اور مصروفیات کی وجہ سے مسجد میں نمازِ باجماعت کی طرف سے لاپروائی برتی جاتی ہے اور پروگرام کے بعد نماز کی ادایگی کا اعلان ہوتا ہے جس میں کم تعداد شرکت کرتی ہے۔ پھر یہ کہ تکبیر اولیٰ کے ساتھ کتنے شرکت کرتے ہیں___ اس طرف خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔


عبدالرؤف ،بہاول نگر

’مجالسِ حرم‘ (اکتوبر ۲۰۱۰ئ) سے ترکی کے حالات سے آگہی ہوئی۔ یہ امرخوش آیند ہے کہ اسلامی تحریک کے حامی لوگوں کے دورِ اقتدار میں ملک نے مروجہ پیمانوں پر ترقی کا سفر بھی جاری رکھا ہے (ص ۸۲)، اور  ریفرنڈم میں ۵۸ فی صد ووٹوں کا حصول بھی جمہوری انقلاب کی بڑی واضح مثال ہے۔ مقصد کے حصول کے لیے جو جدوجہد ۱۹۷۰ء میں شروع ہوئی، آج ۲۰۱۰ء میں کئی ناموں اور قائدین کی تبدیلی اور مختلف مراحل سے گزرتی ہوئی اہم اہداف کے حصول پر منتج ہوئی ہے۔ اس تناظر میں ہمارے ملک کی اسلامی تحریک کے لیے بھی سبق ہے۔ کیا ہم بھی اپنے آپ کو عوام کے اعتماد کا حق دار ٹھیرا چکے ہیں، یا کسی مرحلے پر عوام میں ہم بھی زیربحث ہیں کہ اس ملک میں ترقی اور تبدیلی کا سفر اسلامی تحریکوں کے ساتھ چل کر ہی طے ہوسکتا ہے؟


افشاں نوید ،کراچی

سیلاب زدگان کے کیمپوں میں کام کرتے ہوئے چشم کشا حقائق سامنے آئے کہ لوگ دینی و دنیاوی ہر طرح کی تعلیم سے محروم ہیں (یا رکھے گئے ہیں)۔ ان کی سوچ بس ضروریات کے حصول اور پیٹ بھرنے تک ہی محدود ہے۔ دین کا فہم نہ ہونے کے باعث اخلاقی خرابیاں بھی بدرجہ اتم موجود ہیں، بالخصوص حیا کا فقدان اور صفائی کا شعور نہ ہونا۔ بچوں کو سلام کرنا اور سلام کا جواب تک دینا نہ آتا تھا۔ قاسم آباد (حیدرآباد) کے ایک گنجان کیمپ میں معلوم ہوا کہ صرف ایک بچی کو قرآن پڑھنا آتا ہے۔ میں نے بچی سے استفسار کیا کہ اسے کس نے سکھایا؟ اس نے کہا: ساتھ والے گھر میں استانی رہتی ہیں۔ جب ان سے درخواست کی کہ کیمپ کی عورتوں کو نماز اور قرآن کی ابتدائی تعلیمات آپ دیں، تو انھوں نے یہ روح فرسا انکشاف کیا کہ اس کیمپ میں مرد عورتوں کو ہمارے حوالے نہیں کرتے۔ وہ نہیں چاہتے کہ ان کو دین کی تعلیمات کا پتا چلے۔ یہ خود اپنی عورتوں کو جاہل رکھتے ہیں، اس لیے کہ یہ خود بھی جاہل ہیں۔ اگر یہ خود جاہل نہ ہوتے تو وڈیروں اور جاگیرداروں کی غلامی کیوں قبول کرتے___اس خاتون کا یہ دردمندانہ تجزیہ ہمیں بھی کچھ سوچنے اور آیندہ کا لائحہ عمل بنانے پر مجبور کرتا ہے۔


عطاء الرحمٰن ،قصور

امریکی سامراج کی اُمت مسلمہ کے خلاف سازشوں کے مختلف حربوں میں سے ایک حربہ فرقہ واریت کو ہوا دینا اور اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش ہے۔ صوفیاے کرام کے مزاروں پر حملے اسی سازش کا شاخسانہ ہیں۔ امریکا کی اس سازش کو قومی یک جہتی سے ناکام بنایا جاسکتا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ملک کی قیادت چند بنیادی نکات پر اتفاق راے اور ملّی یک جہتی کا مظاہرہ کرے۔

باطل، نیکی کے روپ میں

دراصل فطرت کے نظام میں اور انسانی تاریخ کے بازار میں اصل کامیابی حق اور نیکی ہی کے لیے مقدر ہے، یہی وجہ ہے کہ باطل اور برائی کے سوداگر جب بھی اپنا مال لاتے ہیں تو اس کو حق اور نیکی کے رنگ میں رنگ کر لاتے ہیں۔ وہ جھوٹ کو لاتے ہیں لیکن سچائی کے لیبل کے ساتھ، وہ ذلت کو لاتے ہیں لیکن عزت کے سائن بورڈ کے ساتھ، وہ شر کو لاتے ہیں لیکن خیر کے ٹریڈمارک کے ساتھ، وہ مفاد پرستی کو لاتے ہیں لیکن خدمت کا عنوان دے کر، وہ مضرت کو لاتے ہیں لیکن افادیت کا رنگ روغن چڑھا کر!

نیکی اپنے نام کے ساتھ آتی ہے، بدی کے نام کے ساتھ نہیں آتی، لیکن دوسری طرف بدی کبھی اپنے نام کے ساتھ نہیں آتی، نیکی کے نام کے ساتھ آتی ہے۔ خیر ٹھیک ٹھیک اپنے روپ میں آتا ہے، شر کے روپ میںنہیں آتا، لیکن شر اپنے روپ میں نہیں آتا بلکہ خیر کے روپ میں آتا ہے۔ حق پوری طرح بے نقاب ہوکر نمودار ہوتا ہے، اپنے چہرے پر باطل کی نقاب نہیں ڈالتا، لیکن باطل میں بے نقاب ہوکر آنے کی جرأت نہیں، وہ مجبور ہے کہ حق کی نقاب اوڑھ کر آئے۔

اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حق اور نیکی ہی کے لیے اصل کامیابی ہے۔ وہ خود تو کجا ان کا نام بھی اتنا کامیاب ہے کہ باطل اور بدی بھی اسی نام کا سہارا لینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اس نام کا سہارا لیے بغیر وہ یکسر ناکام ہیں۔ باطل اور بدی کا حق اور نیکی کے نام یا روپ کو استعمال کرنا خود اس بات کی شہادت ہے کہ بازارِ حیات میں سارا فروغ حق اور نیکی کے لیے ہے۔

رہی یہ بات کہ حق کے روپ میں جو باطل لایا گیا ہو اس سے کتنے گاہک دھوکا کھا گئے یا نیکی کے لیبل سے جو بدی پیش کی گئی تھی اس سے کتنے خریداروں کی نظربندی ہوگئی، اس سے حق کی قدروقیمت اور نیکی کی کامیابی اور مقبولیت میں کوئی فرق نہیں آتا۔ اگر کسی بازارِ صرافہ میں ہزاروں گاہک بھی روزانہ ملمع کی انگوٹھیاں سونے کے بھائو خرید لے جائیں تو اس سے سونے کی کامیابی، ناکامی سے اور پیتل کی کم قدری، قیمت کی گرانی سے نہیں بدل جاتی۔ کامیابی اور ناکامی تو ساری خریداروں کی ہوگی کہ وہ کھرے اور کھوٹے کی تمیز کرنے میں چابک دستی دکھاتے ہیں یا کوتاہی!  (’حق اور باطل‘ ، نعیم صدیقی، ترجمان القرآن، جلد۳۵، عدد۲، صفر ۱۳۷۰ھ، دسمبر ۱۹۵۰ئ، ص۱۸-۱۹)