بلڈوزر نے گندے پانی کے جوہڑ سے ملبہ نکال کر ہمارے سامنے لاپھینکا۔میں اس بلڈوزر کی تصویر لینا چاہتا تھا۔ چند قدم آگے بڑھا تو شدید بدبو میری ناک سے آٹکرائی حالانکہ میں نے ناک پر ماسک چڑھا رکھا تھا۔ ناگواری کے احساس کے ساتھ میں نے اس ملبے پر نظر دوڑائی جو ابھی ابھی میرے سامنے ڈالا گیا تھا۔ کچھ سیمنٹ‘ کچھ اینٹیں‘ کچھ لکڑیاں اور کچھ گلی سڑی سی چیز ایک ڈھیر کی صورت میں پڑی ہوئی تھی۔ میں نے غور سے دیکھا تویہ تین انسانوں کی لاشیں تھیں اور ان سے ناقابلِ برداشت حد تک بدبو اٹھ رہی تھی۔ زمانۂ طالب علمی میں ڈائسیکشن ہال میں مُردوں کی چیرپھاڑ تو میں دیکھ ہی چکا تھا مگر بلامبالغہ اس منظر نے مجھے خوفزدہ کردیا۔ کچھ لمحات تک تو میں سمجھ ہی نہ سکا کہ یہ کیا ہے۔
الخدمت فائونڈیشن پاکستان اور پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کا پانچ رکنی وفد ڈاکٹرمحمد اقبال خان کی سربراہی میں ۱۳ جنوری ۲۰۰۵ء کو بنڈہ آچے انڈونیشیا‘سونامی کے متاثرین کی امداد و بحالی کے کام میں تعاون کے لیے پہنچا۔ راقم اس وفد کا رکن تھا۔
آج بنڈہ آچے میں ہمارا تیسرا دن تھا اور ہم اُس علاقے کا دورہ کرنا چاہتے تھے جو سونامی طوفان کی وجہ سے مکمل طور پر تباہ ہوچکا تھا۔ طوفان کو آئے ہوئے دو ہفتے گزر چکے تھے۔ حدِنگاہ تک تباہ شدہ مکانات‘ گاڑیوں اور کشتیوں کے ڈھیر جن کے ملبے تلے لاشیں دب چکی تھیں اور کہیں کہیں کٹے ہوئے انسانی اعضا بھی نظرآجاتے تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے کسی کو دم لینے کی بھی مہلت نہ ملی ہو‘ اور جو جس حال میں تھا وہیں موت سے ہمکنار ہوگیا۔
ہماری گاڑی آہستہ آہستہ اس ساحل کی طرف بڑھ رہی تھی جہاں سے یہ قیامت خیز سمندری طوفان زمین پر چڑھ آیا تھا۔ ہمارے ساتھی نے ایک مکان کے پاس سے گزرتے ہوئے اشارہ کیا۔ اس مکان کی دوسری منزل سے ایک کٹا ہو انسانی بازو لٹک رہا تھا۔ یہ منظر اس پورے طوفان کی منظرکشی کے لیے کافی تھا۔ معلوم نہیں مرنے والا اپنے آخری لمحات میں جدوجہد کے کن مراحل سے گزراہوگا۔ اس طرح کے دہشت ناک مناظر قدم قدم پر نظرآرہے تھے۔
جب ہم ساحلِ سمندر پر پہنچے توسمندر کے خاموش پانی سے بھی خوف سا محسوس ہوتا تھا۔ یہیں ساحل پر ایک خوب صورت مسجد بنی ہوئی تھی‘ جس کی چند جالیاں ٹوٹی ہوئی تھیں‘ لیکن عمارت جوںکی توں موجود تھی۔ مسجد کے اندر ریت کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ اس مسجد کے امام نے واقعے کی تفصیلات سنائیں۔ ان کے کہنے کے مطابق طوفان والے روز وہ حسبِ معمول فجر کی نماز پڑھا کر تقریباً سات بجے تک مسجد میں موجود رہے۔ پھر وہ اپنی موٹرسائیکل پر شہر کی جانب چل پڑے اور کچھ دور جاکر ایک چھوٹے سے ہوٹل میں چائے پینے کے لیے رکے۔ اسی دوران زلزلے کے شدید جھٹکے آنے لگے۔ وہ فوراً موٹرسائیکل لے کر اپنے گھر کی خیریت معلوم کرنے کے لیے دوڑے۔ اسی وقت ان کو طوفان آنے کی اطلاع ملی تو وہ واپس اپنی مسجد کی طرف پلٹے‘ لیکن اس وقت تک پانی شہر کے مرکز میں واقع مسجد بیت الرحمن تک پہنچ چکا تھا۔ پانی تقریباً ساڑھے سات سو کلومیٹر کی رفتار سے تقریباً ۱۰میٹر کی بلندی تک آیا اور زلزلے سے نیم تباہ شدہ مکانات اور دیگر تنصیبات کو ناقابلِ شناخت حد تک برباد کر گیا۔
مقامی لوگوں کے مطابق پانی کا زور مسجد بیت الرحمن کے سامنے آکر ٹوٹا جو ساحل سے سات کلومیٹر دور شہر کے وسط میں ہے۔ یہ مسجد انڈونیشیا کی اوّلین مساجد میں سے ہے اور اسے یہاں کے مقامی سلطان نے قبولِ اسلام کے بعد تعمیر کروایا تھا جس کے ساتھ ہی آچے کی ساری قوم نے بھی اسلام قبول کر لیا تھا۔ آچے کو مکہ کا برآمدہ کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں اسلام سب سے پہلے پہنچا۔ اسلام کی جڑیں آچے میں انتہائی گہری ہیں اور یہاں کی مقامی حکومت نے اس صوبے میں شریعت نافذ کر رکھی ہے۔ یہ صوبہ تیل کی دولت سے مالا مال ہے لیکن اس سے پوری طرح استفادہ نہیں کیا جا رہا۔ بین الاقوامی طاقتیں اس دولت کو انڈونیشیا کے ہاتھ میں دے کر اسے مضبوط نہیں کرنا چاہتیں۔ ان کے نزدیک آچے کو الگ کرکے برونائی کی طرح ایک نرم و نازک سلطنت تو بنائی جاسکتی ہے لیکن انڈونیشیا کو آسٹریلیا کے مقابلے میں انتہائی کمزور رہنا چاہیے۔
بنڈہ آچے‘ آچے کا دارالحکومت ہے (بنڈہ کے معنی بندرگاہ کے ہیں)۔ یہ شہر سونامی سے بری طرح برباد ہوا ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ تباہی سماٹرا کے جنوبی ساحل پر موجود شہروں میں ہوئی ہے جہاں ملابونامی بڑا شہر تقریباً صفحۂ ہستی سے مٹ گیا ہے لیکن وہاں اموات کم واقع ہوئی ہیں۔ ہمارے میزبان ڈاکٹر صائفہ کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ اس علاقے کے لوگوں میں ان کے بزرگوں سے یہ روایت چلی آ رہی تھی کہ جب اس قسم کا زلزلہ آئے تو فوراً پہاڑوں کی طرف بھاگو۔ زلزلہ آتے ہی لوگ اونچے مقامات کی طرف دوڑ پڑے اور کچھ دیر بعد سمندر نے ان کے شہر کو نگل لیا۔ سماٹرا کے جنوبی شہروں تک رسائی کا واحد ذریعہ ہیلی کاپٹر ہے کیونکہ سڑکیں اور بندرگاہیں تباہ ہوچکی ہیں۔ یہ علاقے مدد کے سب سے زیادہ محتاج ہیں‘ مگر تمام بین الاقوامی امداد بنڈہ آچے میں آکر ڈھیر ہو رہی ہے اور بیش تر این جی اوز صرف تصویریں کھچوا کر اور اپنی انسانیت دوستی کا چرچا کر کے واپس جارہی ہیں۔ یہاں کے لوگ سفیدفام قوموں کو پسند نہیں کرتے اور کسی بھی مسلمان ملک کی امداد پر انتہائی خوش ہوتے ہیں۔ پاکستان کا نام سن کر ان کے چہرے کھل اٹھتے تھے۔
ہماری ٹیم کے ڈاکٹروں نے مقامی ملٹری ہسپتال میں کئی پیچیدہ آپریشن کیے اور شدید بیمار بچوں کو بروقت طبی امداد پہنچائی۔ یہاں میں اُس مریض کا ذکر ضرور کرنا چاہوں گا‘ جس کی ٹانگ ہمارے ڈاکٹروں کی بروقت مداخلت سے بچا لی گئی‘ وگرنہ آسٹریلیا کے ایک سرجن اس کو بے کار قرار دے کر کاٹنے کے درپے تھے۔ ہسپتال کے انچارج نے پاکستانی ڈاکٹروں کی تعریف کی۔ انھوں نے ہماری ٹیم کے ڈاکٹروں سے سیکھنے کی خواہش کا بھی اظہار کیا۔
جمعے کے روز ہم مسجدِبیت الرحمن پہنچے‘ جو اس روز طوفان کے بعد پہلی دفعہ کھل رہی تھی۔ یہاں سے ۴۰۰ لاشیں برآمد کی گئی تھیں جو پانی میں تیر رہی تھیں۔ آج مسجد بالکل صاف ستھری اور بدبو سے پاک تھی البتہ مسجد کا مینار شکستہ حالت میں گزری ہوئی تباہی کا پتا دے رہا تھا۔ یہ مسجد اس شہرکا مرکز ہے اور مقامی لوگوں کی اسلام دوستی کا ثبوت یہ ہے کہ یہ مسجد سب سے پہلی عمارت تھی جو طوفان سے متاثر ہونے کے بعد بحال کی گئی۔ مسجد میں بے پناہ رش تھا۔ لوگ بہت جوش وخروش سے نماز پڑھنے آرہے تھے۔ امام صاحب نے اپنے خطبے میں گناہوں پر معافی مانگنے اور اللہ کی طرف پلٹنے پر زور دیا۔
بنڈہ آچے میں دو روز ہم انڈونیشیا کی ریڈ کریسنٹ کے ہسپتال میں مقیم رہے۔ تیسرے روز ہم نے ایک مکان کرائے پر لے کر اس میں اپنا مستقل مرکز قائم کرلیا۔ آنے والے گروپوں کے لیے تو ہم نے اپنے تجربے کی بنیاد پر مناسب انتظامات کرلیے‘ مگر خود ہم انتہائی سخت حالات سے گزرے۔ سب سے بڑی مشکل خوراک کی تھی۔ تقریباً ایک ہفتہ ہم نے صرف پھل کھا کر گزارا کیا۔ کیونکہ اس کے علاوہ کھانے کی کوئی چیز شہر میں دستیاب نہ تھی۔ مقامی خوراک پاکستانی ذائقے سے بالکل مختلف تھی اور ایک نوالہ بھی حلق سے نہ اترتا تھا۔ دوسری مشکل آرام کی تھی۔ مچھر وافر تعداد میں موجود تھے۔ ایک خاص قسم کی چھپکلی جسے وہ لوگ ’کوکے‘ کہتے تھے (کیونکہ وہ کو اور کے کی آواز نکالتی تھی) رات کے پچھلے پہر انتہائی بلند آواز نکالنا شروع کر دیتی تھی۔
بنڈہ آچے کا سارا نظام تباہ ہوچکا ہے۔ ہماری موجودگی میں بھی دو مرتبہ زلزلے کے شدید جھٹکے آئے۔ہر جگہ انڈونیشیا کے دوسرے علاقوں کے لوگ عارضی طور پر کام کر رہے ہیں جو مقامی حالات سے بھرپور واقفیت نہیں رکھتے۔ اس کے علاوہ بیشتر جگہوں پر غیرملکی این جی اوز نے اپنا راج قائم کر رکھا ہے۔ آچے میں موجود علیحدگی پسند تحریک کی بنا پر تمام غیرملکی این جی اوز کو مارچ کے وسط تک آچے سے نکل جانے کا حکم دیا گیا ہے۔ کسی غیرملکی فوج کو آچے میں داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ صرف ملائشیا کی فوج ہمارے جانے سے ایک روز پہلے ایک معاہدے کے تحت شہر میں داخل ہوئی اور نظام سنبھالنا شروع کر دیا۔ ملائشیا کو تعمیراتی میدان میں مہارت حاصل ہے۔ ہماری آچے میں موجودگی تک جو مشینری اور افرادی قوت شہر کی صفائی کا کام کر رہی تھی وہ ناکافی تھی۔
واپسی پر ہم جکارتا کے لیے روانہ ہوئے تو دن کا وقت تھا۔ ائرپورٹ پر تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی۔ تقریباً دو گھنٹے قطار میں کھڑے رہنے کے بعد ہماری باری آئی۔ جہاز واپسی کے لیے اڑا تو نیچے حدِّنگاہ تک سبزہ نظر آرہا تھا۔ ساحلوں پر تباہی جہاز سے بھی دکھائی دے رہی تھی مگر ساحل سے ہٹ کر اندر کا علاقہ بہت خوب صورت تھا۔
جکارتا میں آخری دن انتہائی مصروف تھا۔ اس دن ہم نے بچی ہوئی نقد رقم سے ایک بڑی ایمبولینس خریدی اور اسے انسانی کمیٹی برائے آچے (انڈونیشین ہیومینیٹیرین کمیٹی KKIA) کے حوالے کیا۔ اس کے علاوہ ہم نے تقریباً ۲۰ لاکھ روپے کی ادویات ان کے حوالے کیں۔ ڈاکٹرطوطی علویہ صدارتی امیدوار کی یونی ورسٹی میں یتیم خانے کا دورہ کیا۔اس یتیم خانے میں ایک ہزار آچے سے تعلق رکھنے والے یتیم بچوں کی کفالت کا بندوبست کیا جا رہا ہے۔
’ہدایت عبدالواحد‘ یہاں کی جسٹس اینڈ ویلفیئر پارٹی کے لیڈر ہیں اور ہمارے ساتھ نظریاتی مطابقت رکھتے ہیں۔ آج کل وہ پارٹی صدارت چھوڑ کر پارلیمنٹ کے اسپیکرہیں۔ انھوں نے ہمارا خیرمقدم کیا اور قاضی حسین احمد صاحب کے لیے سلام کہا۔
رات کو الوداع کہتے ہوئے ہمارے میزبان کی آنکھوں کے آنسو یہ پیغام دے رہے تھے کہ پاکستانیوں سے کہنا کہ ہم ایک ہی قوم ہیں اور ایک نہ ایک دن ہم یہ سرحدیں مٹاکر ضرور ایک ہوجائیں گے!
بالآخر سوڈان پر مسلط کردہ ۲۲ سالہ جنگ کا خاتمہ ہوا۔ ۹ جنوری ۲۰۰۵ء کو کینیا کے شہر نیروبی میں امریکی وزیرخارجہ کولن پاول‘ متعدد افریقی سربراہوں اور عالمی مبصرین کی موجودگی میں سوڈانی حکومت اور جنوبی علیحدگی پسندوں کے درمیان ایک جامع معاہدے پر دستخط ہوگئے۔ اس معاہدے کے بعد اب جنوبی لیڈر جون گرنگ‘ صدر عمر حسن البشیر کے ساتھ سینئر نائب صدر مملکت کے طور پر کام کریں گے۔ نائب صدر دوم شمالی سوڈان سے لیا جائے گا۔ تمام وزارتیں ایک مخصوص تناسب سے تقسیم کی جائیں گی۔ حکومتی پارٹی اور گرنگ کی پیپلز موومنٹ کے علاوہ کچھ وزارتیں دیگر پارٹیوں کے لیے بھی مخصوص کی جائیں گی اور ایک نیم قومی حکومت چھے سال کا عبوری دور شروع کرے گی۔ اس عبوری دور کے لیے ایک عبوری دستور‘ تاریخ معاہدہ کے چھے ہفتے کے اندر اندر منظور ہوگا‘ جس کے تحت سینئرنائب صدر کو بھی وسیع اختیارات حاصل ہوں گے۔ ملک کے تمام وسائل شمال و جنوب میں تقریباً برابر برابر تقسیم ہوں گے اور چھے سال کے بعد انتخابات کے ذریعے اہلِ جنوب کو یہ اختیار دیا جائے گا کہ وہ شمال کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا ایک الگ ریاست کے طور پر۔
جنوبی حصہ‘ سوڈان کے کل رقبے ۲۵ لاکھ ۵ ہزار ۸ سو ۱۰ مربع کلومیٹر کا تقریباً ۲۸ فی صد‘ یعنی ۷ لاکھ مربع کلومیٹر ہے جس کا زیادہ تر (۶۳ فی صد) حصہ گھنے جنگلات یا چراگاہوں پر مشتمل ہے‘ جب کہ ۳۰ فی صد علاقہ زرخیز زرعی اراضی پر۔ جنوبی آبادی‘ سوڈان کی کل آبادی (۳ کروڑ ۳۶ لاکھ) کا صرف ۱۰ فی صد ہے‘ جن کی زبان ۱۲ مختلف لہجوں پر مبنی ہے‘ جب کہ افریقی اور عربی زبان کا ایک مخلوط لہجہ پوری آبادی کی مشترکہ زبان ہے۔ اگرچہ مشہور یہی کیا جاتا ہے کہ جنوب میں عیسائی اکثریت ہے اور عیسائی علیحدگی پسندی کی تحریک چل رہی ہے لیکن وہاں عیسائیوں کا تناسب صرف ۱۷ فی صد ہے‘ مسلمان آبادی کا تناسب ۱۸ فی صد ہے‘ جب کہ ۶۵ فی صد آبادی کا کوئی مذہب نہیں ہے اور وہ مختلف بتوں اور ارواح پر یقین رکھتی ہے۔
اگرچہ جنوبی قبائل کی شمالی سوڈان سے بغاوت و لڑائی ۱۹۶۲ء سے شروع ہے جو ۱۹۷۲ء میں صدر جعفر نمیری کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے کے بعد ۱۱سال تک بند رہی۔ اس وقت بغاوت کی قیادت ’’انیانیا‘‘ کررہا تھا لیکن ۱۹۸۳ء میں جب جعفر نمیری نے نفاذ شریعت اسلامی کا اعلان کیا تو نئے باغی لیڈر جون گرنگ نے خانہ جنگی کا آغاز کر دیا جو ۹جنوری کے معاہدے سے ختم ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ لیکن جنوبی سوڈان کی اس خانہ جنگی کے بیج سوڈان پر برطانوی استعمار کے وقت سے ہی بو دیے گئے تھے اور اس کے لیے برطانوی حکمرانوں کو سخت محنت کرنا پڑی تھی۔
حالیہ مصر اور سوڈان کی سرزمین خلافتِ عثمانیہ ہی کا حصہ تھی مگر ۱۸۸۱ء میں اس نے بغاوت کردی۔ ۱۸۹۹ء میں مصر اور برطانیہ نے سوڈان کا مشترکہ انتظام سنبھالا اور سوڈان میں عملاً انگریزی اقتدار قائم ہوگیا۔ تب ہی سے انگریز نے جنوبی سوڈان سے شمالی سوڈان کو بے دخل کرنا شروع کر دیا۔ اس وقت جنوب میں مصری افواج‘ مصر اور شمالی سوڈان سے تعلق رکھنے والے سرکاری ملازمین اور تاجروں کی ایک معتدبہ تعداد تھی۔
برطانوی راج نے پوری منصوبہ بندی سے آہستہ آہستہ ان تینوں عناصر کو جنوب سے نکالنا شروع کر دیا۔ عربی زبان کے بجاے مقامی زبانوں کو فروغ دینا شروع کر دیا‘ عیسائی مشنریوں کے اسکول کھول دیے اور جمعہ کی ہفتہ وار تعطیل کو اتوار میں بدلنے کی کوشش کی۔ ان اقدامات پر عمل درآمد ۱۹۱۰ء میں شروع ہوا اور ۷ دسمبر ۱۹۱۷ء کو جنوب سے شمالی سوڈان کی افواج کا آخری سپاہی بھی نکل گیا‘ جس کے ٹھیک ایک ماہ بعد ہفتہ وارچھٹی جمعہ سے اتوار میں بدل دی گئی (پاکستان میں جمعہ یا اتوار کی چھٹی کے مسئلے کو استہزا و خفت پن کا شکار کرنے والے متوجہ ہوں)۔
وقت کے ساتھ ساتھ برطانوی راج نے جنوب و شمال کی تقسیم کو گہرا کرنے کے لیے کئی اقدامات اٹھائے۔ ۱۹۱۹ء میں لارڈ ملنر کمیٹی نے اپنی تحقیقات کے بعد متعدد سفارشات و دستاویزات پیش کیں۔ جنوبی سوڈان کے حوالے سے تین دستاویزات بہت اہم تھیں۔ ان میں سے ۱۴ مارچ ۱۹۲۰ء کو جاری ہونے والی رپورٹ میں کمیٹی صراحت کے ساتھ سفارش کرتی ہے:’’حکومت کی پالیسی یہ ہے کہ جنوبی سوڈان کو حتی المقدور اسلامی اثرات سے دور رکھا جائے۔ اس علاقے میں سرکاری ملازمین غیرمسلم سیاہ فام ہوں اور اگر ملازمین باہر سے منگوانا ضروری ہو تو مصر کے قبطی مسیحی لائے جائیں۔ جمعہ کے بجاے اتوار کی چھٹی لازمی کر دی گئی ہے اور عیسائی مشنریوں کی خصوصی حوصلہ افزائی کی جائے گی‘‘۔
عربی زبان کو جنوب سے بے دخل کرنے کے لیے یہ حجت گھڑی گئی کہ: ’’یہاں متعدد زبانیں رائج ہیں۔ اس لیے اہلِ جنوب کو کسی مشترکہ مقامی زبان کی تعلیم دینی چاہیے اور جب تک یہ مقامی زبان باقاعدہ پڑھنے لکھنے کے قابل نہیں ہوجاتی‘ انگریزی کو مشترک زبان کے طور پر رائج کیا جاتا ہے‘‘۔ عربی زبان کے بارے میں برطانوی سول سیکریٹری میک مائیکل نے بلاجھجک و تردد کہا کہ: ’’جنوب میں عربی زبان کوبدستور قبول کیے رکھنے سے یہاں اسلام پھیلے گا اور ’’متعصب شمالی سوڈان‘‘ (یعنی مسلمان آبادی)کو اتنا ہی مزید رقبہ مل جائے گا جتنا اب اس کے پاس ہے‘‘۔
اس پورے پس منظر اور حالیہ طویل خانہ جنگی کے بعد اب یہ معاہدہ طے پایا ہے تو پورے سوڈان نے سکھ کا سانس لیا ہے ‘لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ خدشات بھی بہت سنگین ہیں کہ کیا یہ معاہدہ حقیقی صلح اور سوڈان کی تعمیروترقی کا ایک نیا باب ثابت ہوگا؟ معاہدے پر دستخط سے پہلے طرفین کے درمیان تقریباً تین سال مذاکرات ہوئے ہیں۔ اس پورے عرصے اور پورے عمل میں امریکا سمیت متعدد مغربی ممالک مکمل شریک رہے ہیں۔ امریکا کی حالیہ سوڈانی حکومت سے عداوت کسی سے مخفی نہیں ہے۔ جنوبی باغیوں کی مدد میں وہ اور اسرائیل پیش پیش رہے ہیں‘ تو کیا اب واقعی سوڈان اور اس کے نظام کو قبول کر لیا گیا ہے؟ کیا اس ماہیت قلبی کا سبب یہ خدشہ بنا ہے کہ سوڈان میں دریافت ہونے والا تیل اب چین کے ہاتھ میں جا رہا ہے‘ اور اس کا راستہ روکنا ضروری ہے؟ کیا یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ ۱۹۸۹ء میں عمر حسن البشیرکا انقلاب آنے کے بعد سے لے کر اب تک ہر ہتھکنڈا آزما کر دیکھ لیا گیا‘ لیکن سوڈانی حکومت کو ختم نہیں کیا جا سکا۔ اس لیے اب مذاکرات و افہام و تفہیم سے اختلافات پاٹنے اور ’’زہر‘‘ کم کرنے کی کوشش کی جائے یا پھر اندر جاکر اپنے ایجنڈے کی تکمیل کی جائے؟
حقیقت جو بھی ہو‘ خدشات و امکانات کا ایک وسیع باب کھل گیا ہے۔ یورپ و امریکا سمیت اگر طرفین نے باہم اعتماد کو فروغ دیا تو سوڈان کا استحکام‘ وہاں کی زرخیز سرزمین اور وافر تیل پورے خطے کے لیے ایک نعمت ثابت ہوگا۔ لیکن ۲۴ جنوری کا جون گرنگ کا یہ بیان تشویش ناک ہے کہ ’’عبوری دور میں اقوام متحدہ کی طرف سے ۱۰ ہزار فوجیوں کو تعینات کرتے ہوئے چین‘ ملایشیا اور پاکستان کی افواج کو ان میں شامل نہ کیا جائے۔ کیونکہ اول الذکر دونوں ممالک کا مفاد سوڈان کے تیل سے وابستہ ہے اور پاکستان ایک اسلامی ملک ہے‘‘۔ واضح رہے کہ اب تک پاکستان‘ بھارت‘ بنگلہ دیش اور کینیا سمیت کئی ممالک سوڈان فوجیں بھجوانے کی پیش کش کرچکے ہیں۔
ان خدشات کے حوالے سے راقم کو سوڈانی صدر سمیت متعدد ذمہ داران سے گفت و شنید کا موقع ملا تو انھوں نے کامل اعتماد کے ساتھ کہا کہ: ’’جنگ بند کروانے میں کامیابی ایک بڑی کامیابی ہے‘ اور جہاں تک خدشات کا تعلق ہے توگذشتہ ۱۵ سال میں سوڈان میں جو نظام تشکیل دیا جا چکا ہے وہ کسی کے اندر آبیٹھنے یا باہر چلے جانے سے متاثر نہیں ہوگا۔
ایک اور اہم پہلو جس کے بارے میں سوڈان کے ہر خیرخواہ کو تشویش ہے وہ سوڈانی حکمران پارٹی کے باہمی اختلافات ہیں جن کے نتیجے میں ایک پارٹی دو پارٹیاں بن گئیں اور ڈاکٹر حسن ترابی کو پس دیوار زندان بھیج دیا گیا۔ باہم لڑائی کبھی بھی کسی ایک فریق کی تقویت کا باعث نہیں بنتی۔ اس مرحلے پر اگر خطرات حقیقی ہیں تو سب یکجا ہو کر ہی ان کا مقابلہ کر سکتے ہیں‘ اور اگر مصالحت حقیقی ہے تو دوسروں سے پہلے (یا ان کے بعد ہی سہی) اپنوں سے مصالحت کیوں نہیں؟
پچھلے دو تین ماہ ذرائع ابلاغ میں یوکرائن کا بڑا چرچا رہا۔ وجہ؟ وہاں دنیا کی دو بڑی طاقتیں‘امریکہ اورروس شطرنج کھیلنے میں مصروف ہیں جس میں فی الحال روس کو شکست ہوئی ہے۔ کیونکہ ۲۶ دسمبر ۲۰۰۴ء کے صدارتی انتخاب میں روس نواز سابق وزیراعظم وکٹر یانو کووچ شکست کھا گئے‘ ان کے حریف اور مغرب نواز وکٹر یوشینکو کو کامیابی ملی۔
یہ صدارتی انتخاب ۳ نومبر ۲۰۰۴ء کو بھی ہوا تھا جس میں یانو کووچ کامیاب ہوا مگر حزبِ اختلاف نے دھاندلی کا شور مچا دیا جس کے بعد سپریم کورٹ نے انتخاب دوبارہ کروانے کا حکم دیا۔ انتخاب کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایئے کہ کسی روسی صدر نے ۲۸ برس بعد امریکا کو دھمکی دی کہ وہ اس کے معاملات میں مداخلت نہ کرے۔
یوکرائن پر کئی وجوہ سے عالمی طاقتیں توجہ دے رہی ہیں۔ وہاں مینگنیز‘ کچ لوہے‘ کوئلے‘ تیل اور گیس کے وسیع ذخائر ہیں۔ پھر وہ روس جیسی طاقت کی پڑوسی ہے۔ اگر یہاں امریکی اثرورسوخ بڑھ جائے‘ تو وہ روسی معاملات پر اثرانداز ہو سکتا ہے۔ یہ ملک بحیرہ اسود کے کنارے واقع ہے جو اسٹرے ٹیجک اعتبار سے دنیا کا اہم سمندر ہے۔ یہ رقبے کے لحاظ سے یورپ کا دوسرا بڑا اور آبادی میں چھٹا بڑا یورپی ملک ہے۔ یہاں عیسائیوں کی اکثریت ہے مگر مسلمان بھی خاصی تعداد میں ہیں‘ بلکہ یہ اس ضمن میں یورپ میں پانچویں نمبر پر ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران بچے کھچے مسلمانوں کو شیطان نما آمر‘ اسٹالن کی پرتشدد کارروائیوں کا نشانہ بننا پڑا۔ اس نے ان پر جرمنوں کے ساتھی ہونے کا الزام لگایا۔ یوں کریمیائی مسلمانوں کی تاریخ کے سب سے الم ناک باب کا آغاز ہوا۔ ۱۹۴۴ء تک اسٹالن نے ۲ لاکھ مسلمانوں کو زبردستی دوسرے علاقوں کی طرف بھجوا دیا۔ بہت سے مسلمان بھوک‘ پیاس اور ہجرت کی سختیوں کے باعث راہ میں شہید ہوگئے۔ ۱۹۶۷ء میں روسی حکومت نے تاتاری مسلمانوں کے خلاف الزام واپس لے لیے مگر کریمیا میں ان کی آباد کاری اور انھیں معاوضہ دینے کے سلسلے میں وعدہ پورا نہ کیا۔
۹۰ کے عشرے میں سوویت یونین صفحہ ہستی سے نابود ہوا‘ تو کریمیا یوکرائن کا حصہ بن گیا‘ تاہم وہ خاصی حد تک خودمختار علاقہ ہے۔ یوکرائنی حکومت مسلمانوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتی ہے کیونکہ یوکرائن کے باشندے بھی تقریباً ایک صدی تک روسیوں کے جبر کا شکار رہے۔ آزادی کے بعد سے ڈھائی لاکھ کریمیائی مسلمان دوبارہ کریمیا میں بس چکے ہیں۔ گو انھیں کئی مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ وہ معاشی لحاظ سے خوش حال نہیں۔ پھر ان کے مقامی روسیوں سے تعلقات خوش گوار نہیں جن کی آبادی زیادہ ہے۔ اس کے باوجود انھیں اپنی مٹی سے محبت ہے اور وہ اُسے چھوڑنا نہیں چاہتے۔
یوکرائن میں تاتاری مسلمانوں کے علاوہ کوہ قاف‘ وسطی ایشیا کے ممالک‘ افغانستان‘ بنگلہ دیش‘ پاکستان‘ شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے مسلمانوں کی بھی بڑی تعداد بستی ہے اور ان کی آبادی بڑھ رہی ہے کیونکہ مسلم ممالک کے طلبہ یوکرائن میں تعلیم حاصل کرنے آرہے ہیں۔ خصوصاً جب سے ’’واقعہ نوگیارہ‘‘ کے بعد امریکا اور یورپی ممالک نے ان کے داخلے پر پابندیاں لگا دی ہیں۔
ایس ڈی ایم سی (The Spiritual Direction of the Muslims of Crimea) یوکرائنی مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم ہے۔ ۱۹۹۱ء میں اس کی بنیاد پڑی اور سرکاری طور پر منظورشدہ ۷۰ فی صد مسلم آبادیاں اسی سے وابستہ ہیں۔ تنظیم کے اپنے اسکول اور اخبار ہدایت ہے جو تاتاری زبان میں نکلتا ہے۔ دوسری بڑی تنظیم ایس ڈی ایم یو (The Spiritual Direction of the Muslims of Ukraine) کی بنیاد ۱۹۹۲ء میں رکھی گئی۔ اس کا مقصد رنگ و نسل سے بے نیاز ہوکر مسلمانوں کو متحد کرنا ہے۔ یوکرائن کے دس صوبوں میں اس کے دفاتر ہیں۔ دارالحکومت کیف میں اسلامی مرکز چلاتی اور روسی زبان میں اخبار منار نکالتی ہے۔
ایس سی ایم یو کی بنیاد ۱۹۹۴ء میں پڑی۔ اس تنظیم میں تاتاری مسلمانوں کی اکثریت ہے جو اپنے دین سے بڑی قربت رکھتے ہیں۔ اس کا صدر دفتر ڈونٹسک شہر میں ہے جہاں ایک اسلامی مرکز بھی قائم ہے۔ ۱۹۹۷ء میں جذبۂ ایمانی سے سرشار تنظیم کے رہنمائوں نے یوکرائنی مسلمانوں کی سیاسی جماعت‘ مسلم پارٹی کی بنیاد رکھی۔
یوکرائن ان گنے چنے مغربی ممالک میں سے ایک ہے جہاں مسلمانوں کو خاصی آزادی حاصل ہے‘ عبادت کرنے اور اپنی رسوم بجا لانے پر کوئی روک ٹوک نہیں۔ یوکرائن آزاد ہوا‘ تو خصوصاً یوکرائنی مسلمانوں میں نئے جوش و ولولے نے جنم لیا۔ اب وہ نئے سرے سے اپنے دین سے روشناس ہو رہے ہیں تاکہ اسلام کی حقیقی روح سے شناسا ہوسکیں۔ وہاں اشاعت اسلام کا عمل بھی جاری ہے اور ہر سال کئی یوکرائنی اور روسی عیسائی مسلمان ہو رہے ہیں۔
’’واقعہ نوگیارہ‘‘ نے یوکرائن میں الٹا اثر کیا‘ یعنی مقامی باشندے اسلام میں دل چسپی لینے لگے۔ یوکرائنی نئی نسل میں اسلامی کتب کی مانگ بڑھ گئی۔ مقامی لوگ اور مسلمانوں میں اتحاد کی دو بڑی وجوہ ہیں: پہلی یہ کہ مسلمانوں کی خواہش ہے کہ وہ یوکرائن میں رہتے ہوئے ہی ترقی اور خوش حالی کی منازل طے کریں۔ دوسری یہ کہ دونوں یہودیوں کے مخالف ہیں جو ان کے خیال میں انسانیت کے لیے ناسور ہیں۔ اس وقت تاتاری مسلمانوں کی ساری توجہ اس امر پر مرکوز ہے کہ مسلم معاشرہ دوبارہ تشکیل دیا جائے جس کا اسٹالن نے صفایا کردیا‘ یعنی جو تاتاری کریمیا واپس آرہے ہیں‘ انھیں گھر‘تعلیم‘ صحت اور دیگر بنیادی سہولیات ملیں‘ وہ اپنے دین‘ زبان‘ تہذیب و تمدن وغیرہ سے واقف اور اپنے وطن میں سیاسی طور پر مضبوط ہوں۔
کریمیا میں اس وقت مسلمان بڑی آزادی سے زندگی بسر کر رہے ہیں وہاں کے شہروں میں گھومتے پھرتے یہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ وہ ایک عیسائی مملکت کا حصہ ہے‘ خصوصاً جب شہر کی مساجد کے لائوڈاسپیکروں سے اذان بلند ہوتی ہے۔ امید ہے کہ ایک دن یوکرائنی مسلمان مؤثر قوت بن کر ملکی معاملات میں فعال کردار ادا کریں گے۔ یاد رہے کریمیا کا رقبہ ۲۵ ہزار ۹ سو ۹۳ مربع کلومیٹر اور آبادی ۳۰ لاکھ ہے۔
۵۲ سالہ بشیرالخطیب کو آج سے آٹھ سال قبل پیش کش کی گئی تھی کہ اگر تم اپنی غلطی کا اعتراف اور اس پر اظہار ندامت کر لو تو فوری رہائی حاصل ہو سکتی ہے۔ اس وقت اسے گرفتار ہوئے ۱۷ سال گزر چکے تھے۔ الخطیب نے کہا کہ میں نے کوئی جرم نہیں کیا اور اخوان المسلمون سے تعلق کا جو الزام تم لگاتے ہو‘ میں اس پر نادم نہیں‘ اس کا اقراری ہوں۔ جواب سن کر اسے دوبارہ جیل بھیج دیا گیا۔ اب بشیرالخطیب اور ان کے ۱۱۹دیگر ساتھیوں کو ۲۵‘۲۵سال قید کے بعد اچانک اور کسی کارروائی کے بغیر رہا کر دیا گیا ہے۔ شام کی مختلف جیلوں میں ربع صدی گزارنے والے ان قیدیوں کے اہل خانہ میں سے کسی کو معلوم نہیں تھا کہ ان کے یہ عزیز کہاں اور کس حال میں ہیں۔ اب بھی ہزاروں خاندانوں کو معلوم نہیں کہ ان کے جن اعزہ کو آج سے کئی سال پہلے گرفتار کیا گیا تھا وہ زندہ بھی ہیںیا موت کے آئینے میں رخِ دوست پر نظریں جمائے‘ شہادت کے جام نوش کر گئے۔
۱۲۰ مفقود الخبر افراد کی رہائی کی نوید سن کر یہ ہزاروں خاندان ایک بار پھر انتظار کی سولی پر چڑھ گئے ہیں۔ یہ خاندان اپنے عزیزوںسے محروم ہوجانے کے بعد نہ تو ان کی موت کا سوگ مناسکتے ہیں کہ وراثت اور یتیموں کی سرپرستی کے مسائل کا حل تلاش کیا جا سکے‘ اور نہ ان کے زندہ ہونے کو حقیقت قرار دے سکتے ہیں کہ ۲۰‘ ۲۰ اور ۲۵‘ ۲۵ سال سے ان کی کوئی خبر موصول نہیں ہوئی۔ یہ ساری تفصیل مجھے بشیرالخطیب کے خالہ زاد بھائی نے شام کے صدر بشار الاسد کے اس اعلان کے بعد سنائی کہ ہم سیاسی قیدیوں کو رہا کر رہے ہیں۔
اخوان المسلمون شام کے سربراہ صدرالدین البیانونی نے بھی ان رہائیوں کا خیرمقدم کرتے ہوئے ایک پریس کانفرنس میں اسے ایک مثبت لیکن ادھورا اقدام قرار دیا ہے۔ انھوں نے بدلتے ہوئے عالمی حالات میں شام میں ایک مکمل سیاسی مفاہمت اور منصفانہ معاشرے کے قیام کے لیے جامع تجاویز پیش کی ہیں‘ لیکن فی الحال شامی حکومت کی طرف سے ان تجاویز کا واضح جواب نہیں دیا گیا۔
رہا ہونے والوں کی اس کھیپ سے پہلے بھی کچھ لوگوں کو رہا کیا گیا تھا اور یہ بات عرصے سے زبان زدِعام ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان خفیہ مذاکرات کے کئی دور ہوچکے ہیں‘ حالانکہ اس سے پہلے اس موضوع پر اشارتاً بھی بات نہیں کی جاسکتی تھی۔ حکومتی پالیسی میں اس اچانک تبدیلی کی ایک وجہ بشارالاسد کا اپنے باپ حافظ الاسد سے مختلف ہونا بھی ہوسکتی ہے‘ لیکن اصل وجہ ۱۱ستمبر کے بعد روپذیر ہونے والی عالمی تبدیلیاں ہیں۔ بش‘ شام کو محورِشر کا ایک زاویہ قرار دینے کے بعد عراق میں خون کی ہولی کھیل رہا ہے۔ شام پر مسلسل یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ وہ عراق میں جاری مزاحمت کو مدد فراہم کر رہا ہے۔ فلوجہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کے بعد کہا گیا کہ فلوجہ کے کھنڈرات سے سراغ و ثبوت ملے ہیں کہ ’’دہشت گردوں‘‘ نے شام کے کیمپوں میں تربیت حاصل کی تھی۔ ادھر شارون نے اعلان کیا ہے کہ شام میں پناہ گزیں دہشت گردوں کا پیچھا ان کے ٹھکانوں تک کریں گے۔ متعدد فلسطینی رہنمائوں پر شام کے مختلف علاقوں میں قاتلانہ حملے بھی کیے جاچکے ہیں۔ امریکی اخبارات اور صہیونی کالم نگار مسلسل زور دے رہے ہیں کہ خطے سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے شام پر بھی فوج کُشی ناگزیر ہے۔ جو تباہ کن اسلحہ عراق میں نہیں ملا‘ اس کی شام میں موجودگی کی ’مصدقہ اطلاعات‘ نشر کی جارہی ہیں۔ وائٹ ہائوس کے ترجمان نے ۸دسمبر کو اپنی بریفنگ میں شام اور ایران پر الزام لگایا ہے کہ دونوں ملک عراقی انتخابات پر اثرانداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں‘ انھیں اس سے باز رکھنے کی ضرورت ہے۔ خطے میں امریکی ترجمان‘ کئی مسلم حکمران بھی امریکا کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں۔ اُردن جس کی سرحدیں شام‘ عراق‘ فلسطین‘ لبنان اور سعودی عرب سے ملتی ہیں کے شاہ عبداللہ نے بھی خطے میں شیعہ کمان کے وجود سے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’عراق‘ شام اور لبنان میں شیعہ حکومتیں قائم کرتے ہوئے ایران پورے خطے پر تنی ایک کمان تشکیل دینا چاہتا ہے۔ دنیا کو اس خطرے سے خبردار رہنا چاہیے‘‘۔
اس تناظر میں شام کی قیادت نے کئی اہم اقدامات اٹھانے کا عندیہ دیا ہے۔ اگر سیاسی قیدیوں کی رہائی کا سلسلہ حقیقت بن جاتا ہے اور سالہا سال سے جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے دسیوں ہزار خاندانوں کو ملک واپسی کی اجازت دے دی جاتی ہے‘ ملک میں افہام و تفہیم اور سیاسی آزادی کی فضا کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے‘ تو یقینا مقابلے کے لیے تیاری کا یہ سب سے اولیں اور ضروری تقاضا پورا ہو سکتا ہے کہ پوری قوم یک جان ہو اور اندرونی محاذ مضبوط تر ہو۔ اس وقت سیاسی و صحافتی آزادیوں کا عالم یہ ہے کہ ملک میں صرف ایک ہی حکمران پارٹی ہے‘ کوئی دوسرا پارٹی تشکیل دینے کی جسارت نہیں کرسکتا۔ ابلاغیات کے دور میں بھی شام میں صرف تین سرکاری اخبار بعث‘ الثورہ‘ تشرین ہی شائع ہوسکتے ہیں۔ آئی ایم ایف کے مطابق بیرون ملک مقیم شامی شہریوں نے مختلف ممالک میں ۱۰۰ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے‘ لیکن انھیں ملک واپسی کی اجازت نہیں ہے۔
شامی حکومت نے وقت کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے عالمِ اسلام سے بھی روابط مضبوط کرنا شروع کیے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل شامی علما اور دانش وروں کے ایک وفد نے متعدد مسلم ممالک کا دورہ کیا۔ وفد پاکستان بھی آیا اور متعدد حکومتی شخصیتوں کے علاوہ سیاسی رہنمائوں سے ملاقات کی۔ محترم قاضی حسین احمد سے اپنی ملاقات میں انھوں نے شام کی اسلامی تاریخ اور بشارالاسد کی اسلام پسندی کے حوالے سے مفصل گفتگو کی۔ قاضی صاحب نے انھیں یہی مشورہ دیا کہ عالمِ اسلام سے رابطہ بہت اہم ہے لیکن ملک کے اندر اعتماد و آزادی کی فضا اس سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ پوری قوم متحد ہو کر اللہ کی رسی کو تھامے گی‘ تو کوئی خطرہ‘ خطرہ نہیں رہے گا۔
بشارالاسد نے اندرون ملک بعض اصلاحات کا عندیہ دینے کے ساتھ ہی بعض سیاسی کارڈ بھی پھینکے ہیں۔ عراق کے پڑوسی ممالک کی مصری سیاحتی شہر شرم الشیخ میں ہونے والی کانفرنس میں شامی وزیرخارجہ نے بھی شرکت کی اور کانفرنس کے امریکی میزبانوں کو عراق میں امن کی خاطر ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ بشارالاسد نے حال ہی میں اسرائیلی وزیراعظم شارون کو بھی مذاکرات کی غیرمشروط پیش کش کی ہے۔ لیکن نہ تو شارون نے اس پیش کش کا کوئی مثبت جواب دیا اور نہ اس غیرمعمولی پیش کش سے ہی امریکی خوشنودی کا کوئی امکان پیدا ہوا‘ بلکہ بش نے مزید رعونت سے کہا کہ اس وقت میری ساری توجہ مسئلہ فلسطین حل کرنے پر ہے۔ اس سے فراغت کے بعد شام کی پیش کش کا جائزہ لیں گے۔
سابق روسی وزیرخارجہ یفجینی پریماکوف اپنے ۱۹ دسمبر کے ایک کالم میں شام کے تذبذب کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’میں حافظ الاسد سے مشرق وسطیٰ کے حالات پر گفتگو کر رہا تھا تو حافظ الاسد نے کہا: ’’شام نہیں چاہتا کہ کوئی شام کو نظرانداز کرتے ہوئے‘ ہم سے پہلے اسرائیلیوں کے ساتھ صلح کرے اور نہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ شام اسرائیل کے ساتھ صلح کرنے والا پہلا ملک ہو‘‘۔ نتیجہ یہ نکلا کہ فلسطین اور لبنان میں اپنے گہرے اثرونفوذ کے باوجود شام خطے کے واقعات پر اپنا نقش ثبت نہیں کر سکا۔ یقینا جنوبی لبنان‘ جولان کی پہاڑیوں اور فلسطینی تنظیموں کے حوالے سے کوئی بھی شام کو نظرانداز نہیں کر سکتا۔ اور اب عراق میں جاری مزاحمت کے حوالے سے‘ عراق شام سرحدیں حساس ترین اور اہم ترین ہوگئی ہیں لیکن معاملات کا تمام تر انحصار شامی حکومت کے یکسو ہونے پر ہے۔ اگر شام یکسو ہوکر پوری قوم کو اسلامی اصولوں پر ساتھ لیتا ہے اور قبلۂ اول کے حوالے سے دمشق‘ حمص اور حلب کے تاریخی کردار کو زندہ کرتا ہے تو تجزیہ نگاروں کا یہ تجزیہ ایک زندہ و عظیم حقیقت بن جائے گا کہ ’’عراق میں امریکی فوجوں کی حالت‘ خطے کے باقی ممالک کی سلامتی کی علامت ہے‘‘۔
۲۱ دسمبرکو موصل کے امریکی اڈے پر میزائلوں کا حملہ اور سیکڑوں امریکی فوجیوں کا اس کی زد میں آنا (واضح رہے کہ حملے کے وقت ۵۰۰ امریکی فوجی ظہرانہ کھا رہے تھے) پورے فلوجہ کو زمین بوس کر دینے کے باوجود‘ عراقی مزاحمت میں روز افزوں اضافے ہی کی نہیں نئی اور‘ زیادہ مؤثر حکمت عملی کی خبردے رہا ہے۔ ۳۰ جنوری کو عراقی انتخابات کا ڈراما اسٹیج ہو بھی جاتا ہے‘ تب بھی نہ تو اس مزاحمت کو روکا جا سکے گا اور نہ امریکا کوئی ایسی کٹھ پتلی حکومت قائم کر سکے گا جو وہاں امریکیوں کی جنگ لڑے۔ البتہ ان انتخابات کے ذریعے عراقی عوام کو تقسیم کرنے کی سازش کامیاب ہونے کا خطرہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ شاہ عبداللہ نے واشنگٹن پوسٹ کو اپنے سابق الذکر انٹرویو میں ایران پر الزام لگایا ہے کہ ’’عراقی انتخابات پر اثرانداز ہونے کے لیے ایران نے اپنے ۱۰ لاکھ شہری عراق میں داخل کیے ہیں جو اپنے ووٹ کے ذریعے وہاںشیعہ حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں‘‘۔ تقریباً تمام سنی جماعتوں کی طرف سے الیکشن کے بائیکاٹ اور آیۃ اللہ سیستانی سمیت اہم شیعہ رہنمائوں کی طرف سے انتخابات میں بھرپور حصہ لینے کے بیانات اور کربلا و نجف میں حالیہ خوفناک بم دھماکے‘ اسی تقسیم کے خطرے کو ہوا دیتے دکھائی دیتے ہیں۔
سیکڑوں ارب ڈالر کے اخراجات‘ ہزاروں فوجیوں کی لاشیں‘ ڈیڑھ لاکھ سے زائد افواج اور بغداد میں امریکی سفارت خانے کے۳ ہزار اہلکار (جن کی قیادت وہی امریکی سفیر جون نیگروبونٹی کر رہا ہے جس نے ویت نام میں امریکی شکست کا یقین ہونے کے بعد وہاں سے امریکی افواج کے انخلا کا مشن سرانجام دیا تھا)‘عراق میں امریکی اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ بش کے دوسرے عہدصدارت میں امریکی ناکامیوں کی فہرست مختصر ہونے کے بجاے طویل تر ہوگی ‘ کیونکہ غلطیوں سے سبق سیکھنے کے بجاے مزید غلطیوں پر اصرار کیا جا رہا ہے۔ ایسے میں شام اور دیگر مسلم ممالک کے لیے نجات کا ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے کہ وہ دلدل میں دھنسے‘ پھنکارتے بدمست ہاتھی کے ساتھ بندھنے کے بجاے اپنے عوام کے ساتھ صلح کریں‘ اپنے خالق اور کائنات کے مالک سے رجوع کریں۔
شام کے حالیہ واقعات نے دنیا کو ایک اور حقیقت سے بھی دوبارہ روشناس کروایا ہے کہ دسیوں سال جیلوں میں رکھ کر‘ ہزاروں خاندانوں کو عذاب و اذیت میں مبتلا کر کے اور سیکڑوں افراد کو شہید کر کے بھی اسلام اور اسلامی تحریک کے وابستگان کو کچلا نہیں جاسکتا۔ مظالم ڈھانے والوں کو خدا کے حضور جانے کے بعد جس انجام کا سامنا کرنا پڑے گا وہ تو قرآن کریم میں ثبت کردیا گیا۔ دنیا میں بھی ان کا انجام ٹالا نہیں جاسکتا۔ وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓا اَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ (الشعرائ:۲۶:۲۲۷)، ’’جنھوں نے ظلم کیا وہ عنقریب جان لیں گے کہ ان کا انجام کیا ہوتا ہے!‘‘
استعماری طاقتیں فوجی قبضے کے بغیر بھی اپنے طویل المیعاد مقاصد کس کس طرح حاصل کر رہی ہیں‘ اس کا ایک اندازہ ہمیں اپنے ملک میں بھی ہے جہاں ابتدائی عمر کے تدریسی نصابات سے قرآن کی ان تعلیمات کو حذف کیا جا رہا ہے جو ان کو پسند نہیں ہیں۔ لیکن بات کہاں تک پہنچ سکتی ہے‘ اس کا اندازہ مصر کی اس خبر سے کیا جاسکتا ہے جو المجتمع کے حوالے سے دعوت‘دہلی میں اس کے ایک قاری کی جانب سے شائع ہوئی ہے۔
دشمن نے اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیا ہے کہ جب تک مسلمان کا تعلق قرآن سے قائم ہے‘ اسے دین کے بنیادی تقاضوں سے بے تعلق نہیں کیاجاسکتا۔ اس سے ہر مسلمان کو اس بات کی اہمیت کو ازسرنو ذہن نشین کرنا چاہیے کہ ابتدائی عمر ہی سے قرآن سے زندہ تعلق اور پھر عمر کے ہرحصے میں اس کو برقرار رکھنا اس کی دنیا و آخرت کے لیے کتنی اہمیت رکھتا ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ مسلم ممالک میں ان استعماری طاقتوں کو جو آلۂ کار ملے ہیں وہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بنے ہوئے‘ ہر ہدایت پر عمل کرنے کے لیے آمادہ ہیں‘ اور ساتھ ہی یہ بھی کہتے جاتے ہیں کہ ہم یہ سب کچھ کسی دبائو کے بغیر کر رہے ہیں۔ المجتمع کی خبر کچھ اس طرح ہے:
مصری وزارت اوقاف نے اس بار ماہ رمضان المبارک میں روزانہ نماز تراویح میں قرآن کریم پڑھنے اور سننے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اس کے مطابق کسی مسجد میں تراویح میں قرآن ختم کرنے کے لیے انتظامیہ کی منظوری ضروری قرار دی گئی۔ حکومت نے ملک کی ۵۰ہزار ۸ سو ۷۰ مساجد میں سے صرف ۵۱مساجد میں تراویح میں ختم قرآن کریم کی اجازت دی تھی۔ گویا ہر ۱۶۸۲ مساجد میں صرف ایک مسجد میں قرآن کریم ختم کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔
قاہرہ کی وزارت اوقاف کے ترجمان شیخ فواد عبدالعظیم نے ان پابندیوں کی خبر دی اور بتایا کہ شہری مساجد (جن کی تعداد تقریباً ۱۵ ہزار ہے) کے لیے لازم کیا گیا تھا کہ وہ تراویح میں ختم قرآن کریم کے لیے حکومت سے اجازت حاصل کریں۔ قاہرہ کے گورنر ڈاکٹر عبدالعظیم وزیر نے کہا کہ قاہرہ میں تراویح میں ختم قرآن کی اجازت صرف تین مساجد میں دی گئی: (۱) مسجد نور (۲) مسجد ازہر (۳) مسجد عمرو بن العاص۔
مصری وزیر اوقاف نے ان نئی پابندیوں کو یہ کہتے ہوئے جائز و درست ٹھیرایا کہ وزارت ملک کی تمام مساجد میں تراویح میں ختم قرآن کی اجازت نہیں دے سکتی‘ ہاں مساجد کے قریب آباد باشندوں کی ختم قرآن کی درخواست پر وہ اس کی منظوری دے سکتی ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ۵۱ مساجد میں مکمل ختم قرآن کی اجازت کافی ہے۔ کیونکہ بہت سے نمازی بوڑھے اور بیمار ہوتے ہیں‘ پورا قرآن کریم سننا ان کے لیے زحمت اور تکلیف کا باعث ہوگا۔ (المجتمع سے ترجمہ‘ محمد جسیم الدین قاسمی‘ بحوالہ دعوت‘ دہلی‘ ۴ دسمبر ۲۰۰۴ئ)
لائوس‘ کمبوڈیا‘ میانمار اور ملائشیا کے درمیان واقع تھائی لینڈ‘ مسکراہٹ کی سرزمین‘ کے نام سے معروف ہے۔ ۶کروڑ ۳۰ لاکھ آبادی والا یہ ملک رقبے میں فرانس کے برابر ہے‘ جب کہ اس کے دارالحکومت ’بنکاک‘ کو ایک اہم سیاحتی‘ تجارتی و تفریحی مرکز کی حیثیت حاصل ہے۔ تھائی لینڈ کی اکثریت بدھ مت کے پیروکاروں پر مشتمل ہے‘ تاہم پٹانی‘ نراتھی وٹ‘ جایا اور سونگھلا چار جنوبی مسلم اکثریتی صوبے ہیں۔ حکومتی اعداد و شمار مسلمانوں کی تعداد ۴ فی صد بتاتے ہیں‘ جب کہ مسلم آبادی کا دعویٰ ہے کہ اُن کی تعداد ۵۰ لاکھ سے متجاوز ہے۔ یہ مسلم اکثریتی صوبے ملائشیا سے متصل اور تھائی دارالحکومت سے ۱۲۰۰ سو کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں۔
۱۱ رمضان المبارک کو نراتھی وٹ صوبے کے ٹک بے شہر پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ بدھ مت کے پیامِ امن کی پیروکار تھائی حکومت نے اُن ۱۵۰۰ مظاہرین کو سبق سکھانے کا فیصلہ کرلیا جو ٹک بے شہر کے ضلعی پولیس اسٹیشن کے گرد اکٹھے ہوگئے تھے۔ یہ لوگ اُن چھے افراد کے بارے میں جاننا چاہتے تھے جن کو تھائی فوج نے چند روز قبل گرفتار کر لیا تھا۔ الزام یہ عائد کیا گیا کہ اُنھوں نے مسلح افواج کے جوانوں سے چھے بندوقیں چھین کر علیحدگی پسند مسلمانوں کے حوالے کردی تھیں اور فوج نے اسلحہ بازیاب کرانے کے لیے اُنھیں گرفتار کیا ۔ ہفت روزہ اکانومسٹ کی رپورٹ بھی یہی ہے‘ جب کہ تھائی لینڈ کے اخبارات کا کہنا ہے کہ یہ افراد ٹک بے شہر کے حفاظتی اداروں کی طرف سے چوکیداری پر معمور تھے اور تھائی فوج نے مقامی آبادی پر دہشت ڈالنے کے لیے اسلحہ بازیابی کے بہانے اُنھیں گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا۔
پولیس اسٹیشن کے گرد جمع ہونے والے ۱۵۰۰ مظاہرین مکمل طور پر غیرمسلح تھے۔ بہت سے لوگ ایسے تھے کہ جو دیکھا دیکھی مجمع میں شامل ہوتے چلے گئے۔ اُن کی اکثریت چھوٹے کاشت کاروں اور قریبی دکان داروں پر مشتمل تھی۔ وہ حکومت کے لیے کیا مسئلہ کھڑا کرسکتے تھے‘ لیکن تھائی فوج نے مظاہرے میں موجود ہر شخص کو سیکیورٹی رسک سمجھا۔ یاد رہے کہ جنوبی تھائی لینڈ کے تین مسلم صوبوں میں گذشتہ ۱۰ ماہ سے مارشل لا نافذ ہے۔ دو ماہ قبل موجودہ وزیراعظم نے اپنے وزیر دفاع کو اس بنا پر برخواست کر دیاکہ وہ جنوبی علاقوں میں ’نمایاں‘ کارکردگی نہ دکھا سکے۔ ۲۵ اکتوبر کو فوج کو موقع ہاتھ آگیا کہ اُن کے بقول ’’دہشت گرد مسلم علیحدگی پسندوں اور شرپسندوں‘‘ کے دماغ درست کیے جاسکیں۔
اے ایف پی‘ رائٹر‘ بی بی سی اور دیگر خبررساں ایجنسیوں نے خبر جاری کی کہ فوج کے سربراہ جنرل یراوت ونگ سوان کی اجازت کے بعد ہی یہ کارروائی ہوئی۔ اولین طور پر ۳۰۰ فوجی کمانڈو مظاہرین کے گرد حصار بنانے میں کامیاب رہے۔ ان کی پشت پر خودکار اسلحہ سے لیس سیکڑوں فوجی دستے بھی موجود تھے ۔ فوج نے مظاہرین پر پائپوں سے پانی برسایا‘ پھر آنسوگیس پھینکنا شروع کی اور اس کے بعد لاٹھی چارج شروع کر دیا۔ اس افراتفری کے دوران کم از کم ۲۰۰ مظاہرین قریبی علاقوں میں پناہ لینے میں کامیاب ہوگئے۔ اس کے بعد قتلِ عام پر تُلی ہوئی فوج نے براہ راست گولیاں برسانا شروع کر دیں جس سے چھے افراد موقع پر شہید اور ۳۰ زخمی ہوگئے۔ ابھی مظاہرین سنبھلنے بھی نہ پائے تھے کہ آرمی کمانڈر نے انھیں منشتر ہونے کا اعلان کیے بغیرگرفتار کرنے کا حکم دے دیا۔ فوجیوں نے مسلم نوجوانوں کو بے پناہ تشدد کا نشانہ بنایا‘ اُن کی قمیصیں اُتروا کر اُن کے ہاتھ اُن کی پشت پرباندھ دیے اور اُنھیں منہ کے بل زمین پر لیٹنے کا حکم دیا‘ سرتابی کرنے والوں کے سروں پر بندوقوں کے بٹ مارے جاتے‘ یہ سلسلہ کئی گھنٹے تک جاری رہا۔ تھائی ٹیلی ویژن نے ۲۶ اکتوبر کو فلم دکھائی جس میں تھائی فوجی M-16آٹومیٹک رائفلیں چلا رہے تھے۔
وزیراعظم تھک سِن شِنا وترا نے پارلیمنٹ میں بھی اور ذرائع ابلاغ کے سامنے تسلیم کیا ہے کہ یہ لوگ روزے سے تھے اور اُن سے تباہ کُن اسلحہ اور ہتھیار برآمد نہیں ہوئے۔ گرفتار شدگان کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل تھی۔ کچھ عورتوں اور بچوں کا ذکر بھی ہے۔ ان لوگوں کومال برداری کے لیے چھ پہیوں والے ٹرکوں میں بھرکر فوج کے تفتیشی مرکز میں لے جایا جانے لگا۔ تفتیشی مرکز ۶۰ کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ مظاہرین کو ٹرکوں میں بھرنے اور تفتیشی مرکزتک پہنچانے میں چھے گھنٹے لگے۔جب یہ ٹرک تفتیشی مرکز پہنچے تو ۷۸ روزہ دار بے بس مسلمان‘ دم گھٹنے اور ایک دوسرے کے نیچے دب کر شہید ہوچکے تھے‘ جب کہ دو ڈھائی سو کی حالت نازک تھی۔ خبرجب پھیلی تو تھائی لینڈ کے ہر مسلم گھر میں صفِ ماتم بچھ گئی‘ شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو جہاں افطار کے وقت آنکھیں اشک بار نہ ہوئی ہوں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ تھائی ہیومن رائٹس کمیشن اور کئی اداروں نے تھائی لینڈ حکومت کے اس رویّے کی مذمت کی اور غیر جانب دارانہ تحقیقاتی کمیشن کے ذریعے تلاشِ حقیقت کا مطالبہ کیا۔ کچھ دنوں بعد وزیراعظم نے علاقے کا دورہ کیا اور اپنے اس عزم کا اظہار کیا کہ نشہ کرنے والوں‘ دہشت گردوں‘ علیحدگی پسندوں اور دوسرے ممالک سے ہدایات لے کر تھائی لینڈ میں امن و امان کا مسئلہ کھڑا کرنے والوں سے اس علاقے کو پاک کر دیا جائے گا‘ نیز یہ کہ اب مزید کوئی نرمی نہ برتی جائے گی۔ تھائی لینڈ کے تمام اخبارات نے وزیراعظم کی تقریر کو شہ سرخیوں سے شائع کیا۔ انھوں نے کہا کہ ہم اپنی سرزمین پر ’لاقانونیت‘ برداشت نہیں کرسکتے۔ اُنھوں نے اس پر افسوس کا اظہار کیا کہ ٹرکوں کی کم تعداد کی وجہ سے تھائی مسلمان جاں بحق ہوئے‘ تاہم انھوں نے یہ کہتے ہوئے ذرا بھی شرم محسوس نہ کی کہ اس علاقے کے شہری نشہ آور اشیا استعمال کرنے اور روزہ رکھنے کی وجہ سے کمزور ہوگئے تھے۔ دم گھٹنے کے علاوہ اُن کی جسمانی کمزوری بھی ان کے انتقال کا سبب بنی۔ گویا فوج کا کوئی قصور ہی نہیں تھا۔
اے بی سی نیوزکے رپورٹر نے وزارتِ انصاف کے افسر مَنِت سُتاپورن کے حوالے سے یہ خبر جاری کہ کہ ٹرکوں میں محبوس لوگوں پر آنسو گیس بھی پھینکی گئی اور اُن کی موت آکسیجن کی کمی اور دم گھٹنے کے سبب ہوئی۔ یہ تمام لوگ نیم برہنہ تھے‘ اُن میں سے تین افراد کی گردن کی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہلاکتیں تشدد اور دم گھٹنے سے ہوئیں۔
ملائشیا کے وزیراعظم عبداللہ بداوی نے تھائی لینڈ کے وزیراعظم تھک سن شنا وترا کو احتجاجی فون کیا اور کہا کہ تھائی لینڈ کی حکومت اپنے شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ اسلامی پارٹی ملائشیا نے کئی مقامات پر مظاہرے کیے اور تھائی لینڈ کی حکومت کی پُرزور مذمت کی۔ انڈونیشیا کے کئی اداروں اور تنظیموں نے بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر احتجاج کیا۔ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر جناب قاضی حسین احمد نے ۸۴ بے گناہ مسلمانوں کے بہیمانہ قتل پر شدید احتجاج کیا اور مطالبہ کیا کہ اقوام متحدہ کا کمیشن اس قتلِ عام کی تحقیقات کرے۔ بھارت کی حکومت نے بھی سرکاری طور پر مذمتی بیان جاری کیا۔ بنگلہ دیش‘ عرب ممالک اور یورپ کی کئی تنظیموں نے اس بہیمانہ واقعے کی پُرزور مذمت کی۔
چھے ماہ قبل ۲۸ اپریل کو اُس وقت کے وزیراعظم ظفراللہ خان جمالی تھائی لینڈ کے دورے پر گئے تھے اور اُسی روز ۱۰۸ مسلمانوں کو تھائی افواج نے ہلاک کر دیا تھا۔ افسوس کہ وہ شدید احتجاج تو کیا اظہار مذمت بھی نہ کرسکے۔ مسلم ممالک کی مجموعی بے حسی کے سبب تھائی حکومت گذشتہ ۱۵ برس سے اس کوشش میں ہے کہ پٹانی‘ نراتھی وٹ ‘ سونگھلا اور جایا کے صوبوں میں علیحدگی کی تحریک کے آخری آثار کو بھی کچل دیا جائے اور وہ اس میں بظاہر کامیاب دکھائی دیتی ہے۔
تھائی لینڈ میں خوش حالی کا جو دور دورہ ہے اُس کے اثرات جنوبی تھائی لینڈ میں دُور دُور تک نہیں ملتے۔ وہاں کی اکثریت غریب کسانوں‘ مزدوروں اور نیم تعلیم یافتہ لوگوں پر مشتمل ہے‘ جب کہ تھائی لینڈ میں شرح تعلیم ۹۳ فی صد ہے۔ حکومتِ تھائی لینڈ یہ الزام بار بار عائد کرتے ہوئے نہیں تھکتی کہ ان علاقوں میں نشہ بازوں‘ اسلحہ فروشوں اور بدعنوانی کرنے والوں کے گینگ ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں اور اس علاقے کو مجرموں سے پاک کرنا ضروری ہے۔
تھائی حکومت کی یہ بھی کوشش ہے کہ پٹانی یونائیٹڈ لبریشن آرگنائزیشن‘ پٹانی نیشنل یوتھ موومنٹ‘ بی آر این اور جی ایم آئی پی نیز آزاد اسلامی ریاست پٹانی کے خیالات کی معمولی سی حمایت کرنے والی تنظیموں کا‘ سنگاپور کی جماعت اسلامیہ اور اسامہ بن لادن کی القاعدہ تنظیم کے ساتھ تعلق ڈھونڈ نکالا جائے اور اُن کے خلاف ایسی ہی سخت کارروائی کی جائے جیسی امریکا افغانستان و عراق میں ’’دہشت گردی سدِّباب مہم‘‘ کے نام سے کر رہا ہے۔ امریکی مثال سے روشنی حاصل کرنے کے سبب گذشتہ ۱۰ ماہ کی مہم میں تھائی لینڈ میں ۴۰۰ مسلمان شہید کیے جاچکے ہیں۔ نہ ان کے خلاف کہیں رپورٹ درج ہوئی ہے نہ کوئی اس خونِ ناحق کا دعویدارہے۔
اس علاقے میں بسنے والے مسلمان مَلے اور چم نسل سے تعلق رکھتے ہیں جو۱۴۹۵ء میں حلقہ بگوش اسلام ہوئے اور یہاں کے سلطان نے پٹانی اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ ۱۷۹۵ء میں تھائی سلطنت نے اس علاقے پر قبضہ کر لیا اور جنگِ عظیم دوم کے خاتمے کے بعد بھی یہ علاقہ آزاد حیثیت حاصل نہ کر سکا۔
پٹانی تحریکِ آزادی کے راہنما اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ گذشتہ دس برس ’بنیاد پرستی‘ مخالف طوفان کی نذر ہوگئے۔ اگلے دس برس ’دہشت گردی‘ کے خاتمے کی مہم میں بش جونیئر کی قیادت میں صرف ہوتے نظر آرہے ہیں۔ افغانستان میں عوام کا اقتدار ختم کر دیا گیا‘ عراق میں آگ و خون کی بارش اس طرح ہو رہی ہے کہ شہروں کے شہر تباہ ہو رہے ہیں‘ فلسطین کا مسئلہ کسی صورت حل ہوتا نظر نہیں آتا‘ جموں و کشمیر کے دعوے داروں نے ہاتھ جوڑ رکھے ہیں۔ ان حالات میں بچارے پٹانی والوں کی خبرگیری کون کرے گا‘ واللّٰہ المستعان!
عالمی پیمانے پر کام کرنے والی اُن تنظیموں اور خبررساں اداروں کے کردار کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ جنھوں نے ٹک بے کے قتلِ عام کی تصاویر بنائیں اور جاری کیں۔ ایمنسٹی کا ذکر بھی ضروری ہے کہ جس کی ڈپٹی ڈائرکٹر نے اقوام متحدہ اور ریاست ہاے متحدہ سے مطالبہ کیا کہ ’’غیرانسانی قتلِ عام کی فی الفور تحقیقات کرائیں‘ ہانگ کانگ کے انسانی حقوق کمیشن نے تھائی حکومت کے سرکاری بیان کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ’’تمام افراد دم گھٹنے سے ہلاک نہیں ہوئے چند کے جسم سے گولیاں بھی برآمد ہوئی ہیں۔ ۱۳۰۰ کے مجمعے سے حکومت صرف چار رائفلیں بازیاب کرسکی۔ تھائی حکومت کو اپنے اقدام پر شرم آنی چاہیے‘‘۔
پٹانی کے ایک شہری کا یہ سوال برحق ہے کہ ایسا قتلِ عام اگر یورپ کے کسی ملک میں ہُوا ہوتا تو کیا عالمی ضمیر اُس وقت بھی سویا رہتا‘ یا کوئی اقدام کرتا؟
ولندیزی فلم ساز‘ تھیووان گوخھ (Theovan Gogh) کی اسلام میں عورت کے مقام کے موضوع پر "Submission" نامی فلم جس میں اسلام کی تصویر کو نہایت مسخ کر کے پیش کیا گیا ہے‘ حال ہی میں یورپ کے ٹی وی چینلوں پر نشر ہوئی۔یہ فلم درحقیقت ۱۰منٹ پر محیط تقریر پر مبنی ہے جس کی مصنفہ ڈچ پارلیمنٹ کی ممبر صومالی خاتون آیان حرسی علی (Ayaan Hirsi Ali) ہیں جو گذشتہ کئی برس سے اس تصور کو عام کرنے میں سرگرمِ عمل ہیں کہ اسلام عورتوں پر جبر اور ظلم و ستم کا نام ہے۔ متذکرہ فلم بھی حرسی علی کی اسی فکر کی ترجمانی کرتی ہے جس کے اشتعال انگیز مواد نے پورے یورپ کے مسلمانوں میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی جس کا انتہائی اور شدید ترین ردعمل ۲نومبر ۲۰۰۴ء کو وان گوخھ کے ایک مسلمان کے ہاتھوں افسوس ناک قتل کی صورت میں رونما ہوا۔
وان گوخھ کے قتل کے نتیجے میں یورپی میڈیا اور سیاسی حلقوں میں مسلمانوں کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار ہو رہا ہے جس کے باعث فلم کے مواد‘ اس کے محرکات‘ مضمرات اور نتائج کا تجزیہ مسلمانانِ یورپ کے مستقبل کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔
یہ فلم ایک خاتون کی افسانوی کہانی پر مبنی ہے جو ساری عمر باپردہ رہتی ہے اور اپنے رب کی رضا کی خاطر اپنی پاک محبت کو قربان کر کے اپنے والد کے پسند کیے ہوئے لڑکے سے ۱۷ برس کی عمرمیں محض اس لیے شادی کرلیتی ہے کہ اسلام ولی کی پسند کو تسلیم کرنے کا حکم دیتا ہے‘ حالانکہ لڑکی کو لڑکے کے وجود سے ہی کراہت محسوس ہوتی ہے۔ جب جب وہ خواہش کرتا ہے وہ اپنے شوہر سے خلوت بھی کرتی ہے کیونکہ نِسَآؤُکُمْ حَرْثٌ لَّکُمْص فَاْتُوْا حَرْثَکُمْ اَنّٰی شِئْتُمْ (البقرہ ۲:۲۲۳)‘ کی رو سے اُس کے شوہر کو یہ حق حاصل ہے اور عورت انکار کرنے کی مجاز نہیں۔
وقت گزرتا جاتا ہے وہ خاتون نہ کہیں باہر جاتی ہے نہ کوئی مشاغل ہی رکھتی ہے۔ اُس کی زندگی کا مرکز و محور صرف اور صرف اپنے شوہر کے احکام کی تعمیل ہوتی ہے۔ اس اطاعت شعاری کے باوجود اُس کا شوہر اُس کو مارتا پیٹتا ہے۔ وہ اپنی زینت کسی پر ظاہر نہیں کرتی سوائے اپنے محرموں کے سامنے۔ اس پاکیزگی اخلاق اور احتیاط کے باوجود اس کا چچا اُس سے جبراً زنا کرتا ہے۔ وہ اپنی والدہ کے ذریعے سے اپنے والد تک یہ بات پہنچاتی ہے تاکہ اپنے چچا کے ظلم سے نجات کی کوئی سبیل بنے مگر اُس کا باپ جواباً یہ فرماتا ہے کہ اُس کے بھائی کی عزت پر شک کی نگاہ سے دیکھنے کی جرأت نہ کی جائے۔ فلم کا اختتام اس طرح ہوتاہے کہ عورت اپنے رب کے حضور سجدے میں گر جاتی ہے‘ گویا کہ یہی اس کا مقدر اور منزل ہے۔
یہ کہانی اپنی جگہ یقینا آنکھوں کو نم کر دینے اور دلوں کو دہلا دینے والی ہے لیکن حرسی علی اور وان گوخھ کا مقصد کسی مظلوم خاتون کی فریاد سنانا نہیں‘ بلکہ فلم کی کہانی اور پیش کش دونوں کا مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ قرآن وسنت کی تعلیمات خواتین پر ظلم و ستم کی ترغیب دیتے ہیں اور مردوں کے مقابلے میں عورتوں کو کوئی مقام حاصل نہیں ہے۔ مرد عورت کے ساتھ جو سلوک چاہے روا رکھے۔ گویا یہی اسلام کی تعلیمات ہیں اور یہی اسلامی معاشرے کا دستور ہے۔
اس مختصر فلم کی اشتعال انگیزی کا اندازہ تو اُس کو دیکھ کر ہی لگایا جاسکتا ہے جس میں متذکرہ عورت ایسے لباس میں ملبوس ہے جس میں سے اُس کا جسم چھلکتا ہے اور اسی حالت میں وہ نماز ادا کر رہی ہے۔ فلم میں جہاں جہاں آیاتِ قرآنی کی تلاوت ہوئی ہے یا کسی آیت کا حوالہ دیا گیا ہے‘ اُس موقع پر خاتون کے برہنہ جسم کے کسی حصے پر اُس آیت کو لکھا دکھایا گیا ہے۔ خاتون کی تقریر شکوے کے طور پر بیان ہوئی ہے جس کا انداز طنزیہ ہے۔
اسلام آزادی اظہار کے قائل ہونے کا ہی نہیں بلکہ اس کی پُرزور اور پُرجوش حمایت کرنے کا نام ہے‘ تاہم اسلام اس آزادی اظہار کو اخلاقی ضابطوں کا پابند قرار دیتا ہے۔ وہ تعمیری تنقید کی اجازت ہی نہیں بلکہ دعوت دیتا ہے لیکن اشتعال انگیزی کو آزادی اظہار کا بدل ہرگز نہیں مانا جاسکتا۔ احکامِ اسلام کو شعوری طور پر سیاق و سباق سے کاٹ کر بیان کرنا ہی ایک مذموم کارروائی ہے‘ کجا کہ قرآن جیسی مقدس کتاب کی آیات کو برہنہ جسم پر لکھ کر پیش کرنا۔ اگرچہ فلم بالواسطہ متعدد موضوعات کو زیربحث لاتی ہے‘ تاہم کلیدی نکتہ اسلام میں عورت کا مقام‘ حقوق اور کردار ہے۔
قرآن کی آیات کو برہنہ جسم پر لکھنا اپنی جگہ توہین آمیز ہے‘ مگر اصل مسئلہ تو اسلام میں عورت کے مقام کی حسب مرضی پیش کش اور اس کے ذریعے سے مسلمانوں کے اذہان میں اسلام کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا کرنا اور غیرمسلموں کو اسلام کی دعوت سے متنفر کرنے کی کوشش ہے۔ فلم میں اسلام پر جو چارج شیٹ پیش کی گئی ہے وہ کسی بھی لحاظ سے نئی نہیں ہے۔ عرصۂ دراز سے مغرب اور مغرب زدہ مفکرین و مبصرین کی جانب سے مسلم خواتین اور اسلام میں اُن کے مقام کو ہدفِ تنقید بنایا جا رہا ہے۔ مذکورہ فلم بھی مفہوم کے اعتبار سے مختلف نہیں۔ فرق محض اتنا ہے کہ زوالِ اشتراکی روس اور ۱۱ستمبر کے بعد مغربی تہذیب کی اسلام اور مسلمانوں پر یلغار نے ان مسائل کو عصرِحاضر کے سلگتے مسائل بنا دیا ہے‘ بالخصوص جب کہ مسلم ردعمل اکثر جذباتی و انتقامی نوعیت کا ہوتا ہے نہ کہ مدبرانہ سوچ اور دعوت و اصلاح کے جذبے سے سرشار‘ جیسا کہ وان گوخھ کے قتل سے بھی ظاہر ہوا ہے۔
وان گوخھ کے قتل کے نتیجے میں یورپ کے سیاسی و حکومتی حلقوں میں اسلام کے حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار بلکہ بعض مقامات پر کھلم کھلا تحقیر کی جا رہی ہے اور تقاضا کیا جا رہا ہے کہ وہ سزاے موت‘ رجم‘ پردہ وغیرہ اور سب سے بڑھ کر اللہ کی حاکمیت کے تصور سے دست برداری کا اعلان کریں۔ جویہ کرے وہ مہذب ہے اور جو یہ نہ کرے وہ انتہاپسند (extremist) ہے جس کو معاشرہ قطعاً برداشت نہیں کر سکتا۔
وان گوخھ کے قتل نے یورپی ممالک میں اس بحث کو ایک دفعہ پھر مزید قوت کے ساتھ ابھار دیا ہے کہ اسلام جمہوریت اور آزادی اظہار کی ضد ہے اور اگر ہم نے خود اسلام کی اصلاح (reform) کرنے کی تحریک نہ چلائی تو انتہاپسند اور دہشت گرد ہمارے معاشروں پر قبضہ کرلیں گے۔ ڈنمارک میںحکومتی پارٹی نے ۲۱نومبر کو اجتماعِ ارکان میں حرسی علی کو اُن کی فلم پر خصوصی انعام سے نوازا اور ملک کے وزیراعظم نے یہ کہا کہ ’’مغربی معاشروں میں انجیل و قرآن ہر چیز کو ہدفِ تنقید بنایا جا سکتا ہے اور اس بنیادی اصول سے انحراف برداشت نہیں کیا جائے گا‘‘۔ جرمنی سے بھی یہ تقاضا اُٹھ رہاہے کہ مساجد کو ضابطے کے اندر رکھنے کے لیے یہ قانون نافذ کیا جائے کہ خطبہ جمعہ وغیرہ جرمنی زبان میں ہو۔ اسلام کی نام لیوا متعدد تنظیموں پر پابندی عائد کرنے پر زور دیا جارہا ہے‘ اور وہ مسلم سیاست دان جو مغرب کے تصور جمہوریت وغیرہ پر ایمان نہیں لائے اور علانیہ شریعت کو ناقابلِ عمل قرار نہیں دیتے‘ اُن کو سیاسی دائرے میں بے اثر کرنے یا نکالنے کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے۔ توقع کی جاسکتی ہے کہ یورپی یونین میں ترکی کی شمولیت کے مسئلے پر بھی یہ قتل اثرانداز ہوگا۔ سب سے پریشانی والی بات reformation of Islam کی ہے۔ یہ بات اب علانیہ کہی جارہی ہے کہ صلوٰۃ و زکوٰۃ سے ہمیں کوئی اختلاف نہیں لیکن اسلام کی سیاسی و قانونی ہیئت کو بدل کر ’’جدید‘‘تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے جیسا کہ عیسائیت نے کیا ہے۔ غالباً پاکستان میں اس کا عنوان ’’روشن خیال اعتدال پسندی ‘‘ہے۔
فرانس‘ یورپ میںمسلمانوں کی آبادی (۵۰ لاکھ) کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک تصور کیا جاتا ہے جہاں مسلمان سیکولرزم اور مذہبی آزادی کی بنیاد پر مسلم تشخص کی بقا کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ اسکارف پر حالیہ پابندی کے قانون نے اس جدوجہدمیں مزید سرگرمی پیدا کی ہے۔ فرانس میں اسلام اور مسلمانوں پر اس کے آیندہ کیا اثرات مرتب ہوںگے‘ اس کا ایک اندازہ اگلے برس اپریل میں ہونے والے فرانسیسی کونسل براے مسلم فیتھ (French Council of the Muslim Faith- CFCM) کے انتخابی نتائج سے بھی لگایا جا سکے گا۔
CFCM بنیادی طور پر فرانسیسی مسلمانوں کا نمایندہ حکومتی ادارہ ہے جو ۲۰۰۳ء میں تشکیل دیا گیا تھا۔ اس کے صدر دلیل بوبکر ہیں جو پیرس کی قدیم مسجد کے جدید ذہن کے حامل ریکٹر ہیں اور ان کی تعیناتی وزیرداخلہ نکولس سارکوزی (Nicolos Sarkozy) سے مذاکرات کے بعد کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ کونسل کے دو نائب صدر ہیں جن میں سے ایک کا تعلق یونین آف اسلامک آرگنائزیشن آف فرانس (UOIF) سے ہے اور دوسرے کا نیشنل فیڈریشن آف فرنچ مسلمز (FNMF) سے‘ دونوں ہی سخت موقف کے حامل گروپ شمار کیے جاتے ہیں۔ اس تنظیم کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ محتاط قیادت کے تحت فرانسیسی مسلمانوں کی اجتماعی طور پر نمایندگی ہوسکے۔
اس مرتبہ خیال کیا جارہا ہے کہ انتخاب کھلے ماحول میں ہوں گے۔ ایک انتخابی حلقہ مسجد یا نماز کے لیے مختص جگہ پر مشتمل ہوگا۔ ۴ ہزار نمایندے تقریباً ۹۰۰انتخابی حلقوں سے انتخاب میں حصہ لیں گے۔ موجودہ ۴۱ رکنی CFCM میں ۷۰ فی صد ارکان کا تعلق UOIFیا FNMFسے ہے‘ جب کہ صرف ۱۵ فی صد کا تعلق بوبکر کے کیمپ سے ہے۔ اس بار مزید دو سخت گیر جماعتوں کا انتخاب میں حصہ لینے کا امکان ہے۔ دوسرے لفظوں میں‘ مروجہ قوانین کے تحت موجودہ صدر کو بآسانی شدت پسند گروپ کی اکثریت ہٹاسکتی ہے۔
بوبکر نے اس خدشے کے پیش نظر دھمکی دی ہے کہ اگر مروجہ انتخابی قوانین کو تبدیل نہ کیا گیا تو وہ انتخاب میں حصہ نہیں لیں گے۔ ووٹنگ کی بنیاد مسجد کے رقبے کو بنایا گیا ہے۔ ان کے خیال میں قدیم اور جدید مساجد کو رقبے کی بنیاد پر برابر شمار کرنا ناانصافی ہے۔ حالانکہ پیرس کی مسجد قدیم ترین مسجد ہے جو ۱۹۲۰ء میں قائم ہوئی تھی۔ اس کے مقابلے میں مخالفین کا اصرار ہے کہ قوانین میں کوئی تبدیلی نہ کی جائے۔ یہ بحث شدت پکڑ رہی ہے۔
کچھ لوگوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا ہے کہ اس طرح سخت گیر موقف کے حامل گروہ کونسل پر چھا جائیں گے۔ وہ اس کی یہ دلیل دیتے ہیں کہ موجودہ صدر کی قیادت میں کونسل اسکارف کی سرکاری پالیسی کی حمایت کرتی ہے اور مسلمانوں کو ترغیب دیتی ہے کہ وہ اس قانون کی پابندی کریں‘ جب کہ اس کے برعکس UOIFاسکول کی بچیوں کو اسکارف پہننے کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔
UOIF اگرچہ کسی بیرونی تنظیم سے تعلق کی نفی کرتی ہے لیکن یہ بنیادی طور پر اخوان المسلمون سے متاثر ہے جو اسلامی نظام کے نفاذ کی علم بردار ہے۔ UOIF کے مطالبات میں سے ایک مطالبہ لڑکیوں کی تیراکی کے لیے الگ تالاب کا بھی ہے جس سے ان کی فکر کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
مسلمانوں کے باہمی اختلافات بھی ایک اہم موضوع ہے۔ اس سے وہ سیاست دان جو شدت پسند اسلام کے مخالف ہیں‘ ان کی تشویش میں اضافہ ہو جاتا ہے کہ ان اختلافات کے ساتھ امن و امان سے کس طرح رہا جا سکتا ہے۔
وزیرداخلہ سارکوزی اور ماڈریٹ مسلمانوں کے خیال میں مسلمانوں کے مختلف طبقات کی نمایندگی پر مشتمل ایک مضبوط کونسل کا قیام اس لحاظ سے مفید ہوگا کہ اس طرح مسلم راے عامہ کے تمام نقطہ ہاے نظر کی نمایندگی ممکن ہوسکے گی۔ فرانسیسی سیاست دانوں میں بھی دونوں آرا کے حامی پائے جاتے ہیں۔ وزیر داخلہ اگرچہ اسکارف پر پابندی کے حامی ہیں لیکن انھوں نے UOIF کی سالانہ کانفرنس میں بھی شرکت کی جو اس پابندی کی مخالف ہے۔
فرانسیسی وزیرداخلہ اس نقطۂ نظر کی نمایندگی بھی کر رہے ہیں جن کے خیال میں فرانس کو ۱۹۰۵ء کے قانون میں تبدیلی کرنی چاہیے جس کے تحت مذہب اور ریاست کو جدا جدا کیا گیا ہے۔ انھوں نے اپنی ایک تازہ کتاب میں مطالبہ کیا ہے کہ جب حکومت ثقافتی اور کھیل پر مبنی گروہوں کی مالی اعانت کرتی ہے تو مذہبی گروہوں کی اعانت کیوں نہیں کی جاتی؟ اگر مذہبی گروہوں کی حمایت کی جائے تو بیرونی ممالک کی مداخلت کو جو مساجد اور مذہبی اسکولوں کی بہت بڑی تعداد کی اعانت کرتے ہیں‘ روکا جا سکتا ہے۔ یاد رہے عراق میں (اگست ۲۰۰۴ئ) فرانسیسی صحافیوں کو اغوا کرنے والوں کا ایک مطالبہ یہ بھی تھا کہ فرانس میں اسکارف پہننے پر پابندی ہٹائی جائے۔
فرانسیسی مسلم کونسل کا متوقع انتخاب‘ مسلمانوں کے لیے متفقہ مؤقف اور یک جہتی کے مظاہرے کا تاثر پیش کرنے کا ایک اچھا موقع ہے۔ اختلاف راے اپنی جگہ لیکن اجتماعی مفاد پر اشتراک عمل کی ضرورت ہے۔ (ماخوذ: اکانومسٹ‘ ۳۰ اکتوبر ۲۰۰۴ئ)
مسلم ممالک پر امریکی دبائو میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے کہ وہ اپنے تعلیمی نصاب تبدیل کریں جو امریکا اور مغرب کے خلاف نفرت‘ دہشت گردی اور تشدد میں فروغ کا سبب ہیں۔ اس مطالبے کے تسلسل میں قاہرہ میں یکم تا ۳جون ۲۰۰۴ء ایک کانفرنس منعقد ہوئی‘ موضوع تھا: ’’تعلیم سب کے لیے--- مستقبل کے لیے عرب نقطۂ نظر‘‘۔ اس کانفرنس میں عرب ممالک کے ۱۲وزراے تعلیم و تربیت شریک ہوئے۔ اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیموں کے نمایندوں نے بھی شرکت کی۔ کئی غیر عرب ممالک کے نمایندے بھی شریک ہوئے۔ کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں قاہرہ میں متعین امریکی سفیر ڈیویڈ وولش کی آمد بہت معنی خیز تھی۔ امریکی سفارت خانے نے کانفرنس کے تمام اجلاسوں میں گہری دل چسپی لی۔ یہ دل چسپی درحقیقت عرب ممالک کے داخلی امور کی نگرانی اور مسلسل دبائو کا اظہار ہے۔
یاد رہے کہ مصر پہلے ہی تعلیمی نصاب میں کافی تبدیلیاں لاچکا ہے۔ ’’اخلاقیات‘‘ کا نیا مضمون پڑھایا جا رہا ہے۔ مصری وزیرتعلیم ڈاکٹر حسین کامل بہاء الدین کے بقول اس مضمون کا مقصد ہے: ’’دوسروں کو قبول کرنا‘ نیز ترقی کی اقدار‘ اخلاقِ حمیدہ‘ تعاون‘ صداقت اور لوگوں کے ساتھ رحم و حسنِ سلوک پر آمادہ کرنا‘‘۔ کانفرنس کے اختتام پر ’’اعلانِ قاہرہ‘‘ جاری ہوا۔ اقوام متحدہ کے زیرانتظام اور امریکا کے زیرنگرانی اس قسم کی کانفرنسیں اب ۲۰۰۵ئ‘ ۲۰۱۰ئ‘ ۲۰۱۵ء اور ۲۰۲۰ء میں منعقد ہوں گی‘ جن میں یہ دیکھا جائے گا کہ تعلیم و تربیت کے نصابوں میں امریکا کے حسبِ منشا کس قدر تبدیلیاں لائی جاچکی ہیں۔ اس عنوان سے ایک کانفرنس امریکی ریاست جارجیا میں پہلے ہی منعقد ہوچکی ہے۔مغرب کو خوش کرنے کے لیے‘ اپنے نصاب ہاے تعلیم میں تغیروتبدل کر کے نام نہاد مسلمان حکمران خدا کے غضب کو بھڑکا رہے ہیں۔
۱- قاہرہ کانفرنس اپنی نوعیت کی پہلی کانفرنس نہیں ہے جس میں دنیاے عرب اور عالمِ اسلام کے نصاب ہاے تعلیم کو مغربی نقطۂ نظر کے مطابق ڈھالنے اور صہیونیوں کے ناپاک منصوبوں پر عمل درآمد کے لیے راستہ ہموار کیا گیا ہو‘بلکہ گذشتہ ربع صدی سے بھی زائد عرصے سے اس قسم کی کانفرنسیں اور اجلاس خفیہ و علانیہ‘ سرکاری و غیرسرکاری سطح پر وقتاً فوقتاً منعقد ہوتے رہے ہیں۔ ایسے مباحثوں کا بھی اہتمام ہوا ہے جن کا مقصد اسرائیل سے اپنے تعلقات کو معمول پر لانا رہا ہے۔ امریکی اور یورپی دارالحکومتوں میں ایسی کئی کانفرنسیں منعقد ہوچکی ہیں جن میں مسلم ممالک کے بڑے بڑے ذمہ دار شریک ہوئے اور وہاں سے ملنے والی ہدایات کو اپنے اپنے ممالک میں نافذ کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
۲- کئی عرب ممالک کی وزارتِ تعلیم نے صہیونیوں کے ساتھ خوش گوار تعلقات کے قیام کی خاطر نصابِ تعلیم سے وہ تمام امور حذف کر دیے ہیں جن سے یہودیوں کی مجرمانہ تاریخ کا اظہار ہوتا ہے‘ نیز نصاب سے وہ تمام آیات و احادیث اور تاریخی مواد بھی خارج کر دیا گیا ہے جس سے یہودیوں کی عیاری‘ مکاری‘ غداری اور منافقت سے آگہی ہوسکتی ہے۔ اسلامی فتوحات اور دین اسلام کے فروغ کا تذکرہ بھی خارج از نصاب کیا گیا ہے۔
۳- ۱۱ ستمبر کے سانحے کے بعد دینی تعلیم کو ختم کروانے کے لیے ایک بھرپور مغربی صہیونی مہم کا آغاز ہوا۔ اب وسیع پیمانے پر دینی تعلیم کو ’’ممنوع‘‘ قرار دینے کا عمل شروع ہوا ہے۔ یہ سب کچھ ’’تعلیمی ترقی‘‘ کے نام سے ہونے لگا ہے تاکہ آیندہ نسلوں کی تربیت‘ دینی اخلاق و اقدار کے مطابق نہ ہونے پائے۔
۴- اس میں شک نہیں کہ اسلامی تعلیم اور دینی اداروں کے خلاف یہ حملہ قدیم استعماری صلیبی حملوں ہی کا تسلسل ہے اور یہ حملہ اپنے اہداف و مقاصد میں ان سے ذرا بھی مختلف نہیں۔ قدیم استعمار نے اسلامی تعلیم کو محدود کر کے اسلامی ممالک میں ایسے اسکول قائم کیے تھے جن کا مقصد طلبہ کو مسیحی بنانا اور مغرب زدہ کرنا تھا۔ ان تعلیمی اداروں کی نگرانی مشنری مسیحی اور سامراجی ایجنٹوں نے کی۔ یہ ادارے اب تک اپنے مذموم مشن میں مصروف ہیں۔ مسلم ممالک کے حکمران استعمار کے قائم کردہ اداروں کی حیثیت کو برقرار رکھنے میں کس قدر کوشاں ہیں اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ لاہور کے ایک معروف مسیحی کالج کو جسے بھٹو دور میں قومیالیا گیا تھا‘ اب ازسرنو غیرملکی عیسائیوں کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ جس کا سربراہ امریکی عیسائی ہے۔ اب اس کالج کو یونی ورسٹی کا درجہ بھی مل چکا ہے۔
۵- واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ عالمی صہیونیت اسلامی تعلیم کو ختم کرنے کی کوششوں میں لگاتار پس پردہ کام کر رہی ہے۔ اس کا ثبوت وہ تحقیق و مطالعہ ہے جسے ’’گروپ ۱۹‘‘ نے‘ جس میں امریکی ماہرین و سیاست کار شامل ہیں--- امریکی قومی سلامتی کے ادارے کے سپرد کیا ہے۔ اس تحقیقی مطالعے کا عنوان ہے: ’’اسلامی دہشت گردی کے نفسیاتی پہلو‘‘۔ اس مطالعے میں عرب و مسلم ممالک کو اپنے نصاب ہاے تعلیم اور نشریات و اطلاعات کے پروگراموں کو تبدیل کرنے پر مجبور کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ خاص طور پر تعلیمی نصابوں کو ابتدائی مرحلوں سے تبدیل کرنے پر زور دیا گیا ہے۔
۶- بلاشبہہ اس مسلسل حملے کے نتیجے میں کئی اہداف پورے ہو چکے ہیں‘ درسی مواد تبدیل ہوا‘ کئی اسلامی ادارے بند ہوئے‘ بہت سے مسلم ممالک میں دینی تعلیم کا گلا گھونٹ دیا گیا۔ یہ سارے مقاصد سامراج نے مسلم ممالک پر مسلط کردہ اپنے اُن گماشتوں کے ذریعے حاصل کیے جنھیں کہیں فوجی انقلاب کے ذریعے یا مادی مفادات کے پیشِ نظر سامنے لایا گیا۔
ان مغربی منصوبوں پر عمل درآمد کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بغاوت اور ایک طرح کا ارتداد کا نام ہی دیا جاسکتا ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ خواب غفلت سے جاگیں اور ایک متحد و زندہ اُمت کا ثبوت پیش کریں‘ ورنہ مغرب کے گماشتے سامراجی مقاصد اور ذاتی مفادات کے حصول کے لیے پوری اُمت کے مستقبل کو دائو پر لگائے ہوئے ہیں۔
غربت‘ جہالت اور بیماری کی تثلیث نے پوری دنیا میں مسیحی اداروں کے کام کو آسان بنایا ہے۔ ترکی کے مسلمانوں کو عیسائی بنانے میں یورپی ممالک اور امریکا کے سفارت خانے اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان ممالک کا جو بھی شہری کلیسا کی معرفت ترکی جانے کی درخواست دیتا ہے اُسے تمام سہولیات اور سفری دستاویزات فراہم کی جاتی ہیں۔ اسی طرح ترکی کا جو شہری مغربی ممالک جانا چاہتا ہے اور وہ ترکی میں کام کرنے والی مسیحی تنظیموں کی معرفت درخواست کرتا ہے‘ فوراً اس کی شنوائی ہوتی ہے۔ ترکی کے طالب ِ علم اپنی تعلیم کی تکمیل کے لیے بیرونِ ملک جانا چاہیں‘ انھیں مفت باہر بھیج دیا جاتا ہے۔ مسیحی تبلیغی اداروں کا ہدف آیندہ دس برسوں میں ۵۰ لاکھ ترک باشندوں کو عیسائی بنانا ہے تاکہ ترکی میں ایک بااثر جدید مسیحی اقلیت کی تشکیل کی جا سکے۔
اگست ۱۹۹۹ء میں جب ترکی کا علاقہ مرمرہ زبردست زلزلوں کا نشانہ بنا تو عیسائی تبلیغی اداروں نے اس موقع کو غنیمت سمجھا اور تقریباً ۲۵۰۰ لوگوں کو غذا اور طبی امداد کے ذریعے عیسائی بنالینے میں کامیاب ہوگئے۔ یاد رہے کہ اس علاقے کے لوگوں کے گھر بالکل مسمار ہوگئے تھے۔ زلزلوں سے سب سے متاثر شہر اسکاریہ تھا۔ وہاں کے مسلمان اہلِ علم نے بتایا ہے کہ ویٹی کن کے ماتحت خیراتی اداروں کے کارکن صرف اس شرط پر متاثرین کی مدد کرتے تھے کہ پہلے وہ عیسائیت قبول کریں۔ عیسائیت میں داخل ہونے والوں کو بھاری رقوم سے نوازا جاتا۔ اسکاریا یونی ورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر کنعان تونج نے اس موضوع پر تحقیق کی ہے۔ وہ کہتے ہیں: مسیحی ادارے‘ مسلمانوں کو عیسائی بنانے میں سی آئی اے کا تعاون حاصل کرتے ہیں۔ ان کا اوّلین مقصد بیداری اور ترک قومیت کا تشخص ختم کرنا ہے۔ وہ اس سلسلے میں کافی مال خرچ کر دیتے ہیں۔ وہ امداد دیتے وقت لوگوں سے کہتے ہیں‘ دیکھو‘ تمھاری حکومت نے تمھاری مدد نہیں کی‘ ہم نے مدد کی ہے۔ یہ متاثرین کو مال بھی دیتے ہیں اور ان میں انجیل بھی تقسیم کرتے ہیں۔ متاثرین کی نفسیاتی و مالی حالت سے فائدہ اٹھا کر انھیں گرجوں میں جانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ مسیحی مبلغ بظاہر ’’مسیحی مقدس مقامات‘‘ کی زیارت کے بہانے ترکی میں آتے ہیں مگر ان کا اصل مقصد ترکی کے مسلمانوں کو اسلام سے ہٹانا ہے۔ صرف گذشتہ تین برسوں میں ترکی میں انجیل کے ۸۰ لاکھ نسخے تقسیم کیے گئے۔ مختلف محلوں اور بازاروں میں گھر خرید کر یا کرائے پر لے کر وہاں چھوٹے چھوٹے گرجے بنا دیے جاتے ہیں۔
ترک پولیس کی حاصل کردہ معلومات کے مطابق عیسائی مبلغ جن اداروں کے پس پردہ رہ کر کام کرتے ہیں‘ ان میں آرمینیائی تحقیقی مرکز‘ اتحاد کلیسا ہاے یورپ‘ اتحاد کلیسا ہاے آرتھوڈکس اور اتحاد کلیسا ہاے عالمی شامل ہیں۔ یہ مبلغ ترکی میں نسلی اور علاقائی تفریق پیدا کرنے کے لیے سرگرم عمل رہتے ہیں۔ پورے ترکی میں عیسائی لٹریچر کا سیلاب آیا ہوا ہے۔ ترکی زبان کے ذریعے عیسائیت کی تبلیغ کے لیے خطیر رقم خرچ کی جا رہی ہے۔ ترکی کے بڑے شہروں استنبول‘ انقرہ اور ازمیر میں تو ریڈیو اور ٹیلی وژن کے ذریعے بھی عیسائیت کا پرچار کیا جا رہا ہے۔
جنوب مشرقی اناضول کا علاقہ مسیحی سرگرمیوں کا گڑھ بن چکا ہے۔ اس علاقے میں مسیحی مبلغ یازیدیت اور کلدانیت کے پس پردہ کام کر رہے ہیں۔ کردی زبان سے پابندی اٹھا لیے جانے کے بعد مسیحی مبلغ وسیع پیمانے پر کردی زبان میں کام کر رہے ہیں۔ چنانچہ کردی زبان میں لاکھوں کتابیں‘ انجیلیں اور کیسٹیںتقسیم کی جاچکی ہیں۔ نہایت شان دار‘ عمدہ کاغذ اور طباعت کی لاکھوں کی تعداد میں انجیل کُردی زبان میں تیار کرکے مفت دی جاچکی ہیں۔ عیسائیت قبول کرنے والے کُردوں کو یورپ میں بھیجنے کا اہتمام کیا جاتا ہے اور یورپ جانے کے متمنی ان کُردوں کی صلاحیتوں سے وہاں استفادہ کیا جاتا ہے۔ نوجوان کُردوں کو عیسائیت پر لیکچر دیے جاتے ہیں۔
ترک انٹیلی جنس کے مطابق جنوب مشرقی اناضول میں کئی شہریوں نے مال کی خاطر اسلام ترک کر کے عیسائیت قبول کرلی ہے۔ دریاے فرات کے قرب بپتسمہ پانے والے ان افراد کی ایک تقریب منعقد ہوئی۔ اس موقع پر جو تصاویر لی گئیں وہ ترک انٹیلی جنس کے ہاتھ آئی ہیں۔ ان مردوں‘ عورتوں اور بچوں کے ساتھ مغربی ممالک کے سفارت خانوں کے اعلیٰ افسر کھڑے ہیں جن کے چہرے خوشی و مسرت سے دمک رہے ہیں۔ بپتسمہ کے بعد‘ نو عیسائیوں میں سے جو لوگ یورپی ممالک جانا چاہیں‘ مغربی سفارت کار انھیں ویزے فراہم کرتے ہیں اور تمام سفری سہولیات کا مفت اہتمام کرتے ہیں۔
افسوس کہ جس ترکی نے اپنے دورِ عروج میں پوری دنیا میں اپنی عظمت کا پرچم لہرایا اور جن عثمانی ترک خلفا کی ہیبت سے یورپی حکمران لرزہ براندام رہتے تھے ‘ آج اُسی ترک قوم کو یوں کھلم کھلا عیسائی بنایا جا رہا ہے!
۱۱/۹ کے واقعات نہ ہوتے تو محترم قاضی حسین احمد کو دو سال پہلے ناروے آنا تھا۔ ۲۱ اگست سے شروع ہونے والے پانچ روزہ دورے سے واپس جاتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ اگر اُس وقت یہ دورہ ہوجاتا تو شاید حالیہ پروگرام کا عشرعشیر بھی نہ ہوتا۔ اسلامک کلچرل سنٹرکے ذمہ دار بتارہے تھے کہ آج تک کسی مسلمان رہنما کو اس بڑے پیمانے پر کوریج نہیں دی گئی۔ ۲۱ اگست کو اوسلو پہنچنے پر تمام ٹی وی چینلوں نے ایئرپورٹ سے براہ راست ان کا استقبال دکھایا اور پھر ناروے کے قیام کے دوران کا ہر لمحہ ریکارڈ ونشر کیا۔ تمام اخبارات نے صفحہ اول کی بڑی بڑی شہ سرخیوں سے قاضی صاحب کی آمدوگفتگو کا ذکر کیا اور پھر علیحدہ علیحدہ مفصل انٹرویو بھی مکمل دو دو صفحات پر نشرکیے۔
قاضی صاحب کی ناروے آمد کا اعلان ہوتے ہی ناروے کے سب سے بڑے اخبار آفتن پوستن نے بڑی تصویر کے ساتھ شہ سرخی جمائی: اسامہ بن لادن کا پشتیبان اوسلو آرہا ہے۔ پھر ہر اخبار‘ ٹی وی اور ریڈیو نے قاضی صاحب کو خطرناک ترین انسان قرار دینے میں کسر نہ چھوڑی۔ ان کے ناروے داخلے پر پابندی کا مطالبہ کیا گیا اور حکومت یہ کہنے پر مجبور ہوگئی کہ ہم مکمل تحقیقات کرنے کے بعد ہی اجازت دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کریں گے۔
دورے کی مخالفت کرنے والوں کی سب سے بڑی دلیل یہ تھی کہ ناروے شینگن (Shengen) ریاستوں کا رکن ہے اور اس سے پہلے دو شینگن ریاستیں ہالینڈ اوربلجیم قاضی حسین احمد کے اپنے ہاں آنے پر پابندی لگا چکی ہیں‘ اس لیے اب وہ ناروے بھی نہیں آسکتے۔ ہم نے اپنے میزبانوں اسلامک کلچرل سنٹر کے ذریعے نارویجین میڈیا کو اور اسلام آباد میں نارویجین سفارت خانے جاکر ان کے قائم مقام سفیر ایلف را مسلیم کو بھی بتایا کہ بلجیم کے سفیر خود قاضی صاحب کے پاس جاکر اور ہالینڈ کے سفارت کار راقم سے تفصیلی ملاقات میں بتا چکے ہیں کہ انھیں قاضی حسین احمد یا ان کے دورے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ ان کے بعض اندرونی مسائل یورپین پارلیمنٹ کے انتخابات اور ان کی میزبان تنظیم یورپین عرب لیگ کے کچھ معاملات ہیں جن کے باعث ہم چاہتے ہیں کہ آپ اس بار اپنا دورہ ملتوی کردیں‘ آیندہ آپ جب بھی جانا چاہیں گے ہمیں کوئی اعتراض نہ ہوگا‘ بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ ہم خود آپ کے میزبان ہوں۔
ہمیں ۲۱اگست کی صبح لاہور سے ناروے جانا تھا لیکن ۱۹اگست کی شام تک ناروے حکومت کا کوئی فیصلہ سامنے نہیں آیا تھا۔ قاضی صاحب البتہ یہ فیصلہ کرچکے تھے کہ چونکہ ناروے پاکستان معاہدے کے مطابق دونوں ممالک کے سرکاری پاسپورٹ رکھنے والے افراد کے لیے ویزے کی ضرورت نہیں ہے۔ آج اگر ایک مخصوص لابی کے پروپیگنڈے کے دبائو میں آکر دورہ منسوخ کر دیا جائے تو اس سے پورے یورپ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی اس مسلسل خطرے سے دوچار ہوسکتی ہے کہ جب بھی کوئی مخصوص لابی ان میں سے کسی کے خلاف پروپیگنڈا شروع کردے اس کے خلاف کارروائی عمل میں آجائے۔ اس لیے وہ بہرصورت ناروے جائیں گے۔
اسلامک کلچرل سنٹر ناروے کے صدر میاں وقاص وحید مسلسل رابطے میں تھے۔ انھوں نے بتایا کہ ذرائع ابلاغ روزانہ قاضی صاحب کے ایسے ایسے دوروں‘ انٹرویو اور بیانات کی جھلکیاں دکھا رہے تھے کہ جو اس سے قبل ہم نے نہیں دیکھی تھیں۔ لیکن الزامات اور صبح و شام چلنے والی مخالفانہ مہم کے باوجود ہمارے ساتھی خوفزدہ ہونے یا دبائو میں آنے کے بجاے مزید جوش و جذبے سے سرشار ہیں۔ خود کئی نارویجین ذمہ دار اور تنظیمیں قاضی صاحب کے ناروے آمد کے حق میں بیانات دے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ’’ایک جمہوری ملک میں اظہار راے پر پابندی کیوں کر لگائی جاسکتی ہے۔ ہمیں ان کی بات سننے کا موقع دیا جائے‘‘۔
۱۹ اگست کو بعد مغرب اسلام آباد سے ناروے کے سفیرکا فون آیا۔ وہ کہہ رہے تھے: ’’عزیز صاحب‘ مبارک ہو۔ ہماری وزیر مقامی حکومت نے ابھی کچھ دیر پہلے اوسلو میں ایک بھرپور پریس کانفرنس کی ہے۔ انھوں نے اعلان کیا ہے کہ ’’قاضی حسین احمد کے ناروے آنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ اور یہ کہ میں خود بھی ان سے مل کر خواتین کے حقوق اور ناروے میں مقیم پاکستانی نژاد نارویجین کمیونٹی کے مسائل پر بات کروں گی‘‘۔
۲۱ اگست کی شام براستہ لندن اوسلو پہنچے تو پورا نارویجین میڈیا ایئرپورٹ پر موجود تھا۔ پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد پاکستان اور ناروے کے پرچم لیے کھڑی تھی جن میں سرفہرست برطانیہ سے اس پروگرام کے دوسرے مہمان خصوصی ہائوس آف لارڈز کے رکن لارڈ نذیراحمد اور معزز پاکستانی باشندے تھے۔ لارڈ نذیراحمد مغربی دنیا میں مسلمانوں کے بہت مؤثر وبلند بانگ ترجمان کے طور پر اُبھر رہے ہیں۔ جس پروگرام میں بھی جائیں‘ حاضرین کے دل موہ لیتے ہیں۔ لارڈ احمد برطانوی تاریخ کے وہ پہلے رکن پارلیمنٹ ہیں جنھوں نے اپنا حلف قرآن پاک پر اٹھایا ہے۔ اوسلو ایئرپورٹ پر ایک لاعلم صحافی کو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ ایک برطانوی لارڈ پاکستان سے آنے والے ایک خطرناک لیڈر کے استقبال کے لیے اپنے اہلِ وطن کے ہمراہ کھڑا ہے۔
قاضی صاحب نے استقبال کے لیے آنے والے تمام افراد سے فرداً فرداً مصافحہ کیااور پھر اپنی نشریات روک کر ایک ’’بنیاد پرست‘‘ لیڈر کی آمد کی خبر دینے والے ٹی وی کے نمایندوں اور صحافیوں سے مخاطب ہوئے: ’’میں پاکستان سے اپنے نارویجن دوستوں کے لیے امن‘ محبت اور دوستی کا پیغام لے کر آیا ہوں۔ اسلام صرف پاکستانیوں یا مسلمانوں کے لیے نہیں‘ پوری انسانیت کے لیے سلامتی کا پیغام رکھتا ہے۔ اہلِ مشرق اور اہلِ مغرب کے درمیان اختلاف رائے ہوسکتا ہے لیکن یہ اختلاف بھی انسانی معاشرے کی بہتری کا باعث بن سکتا ہے۔ میں چند روز کے لیے ناروے میں ہوں۔ اس دوران آپ سب سے تفصیلی ملاقات اور تبادلۂ خیال ہوگا۔ میرے متعلق بہت سی غلط فہمیاں پھیلائی گئی ہیں‘ میں ان سب کی وضاحت کروں گا‘‘۔
اتوار کی شام تحفظ پاکستان کانفرنس تھی۔ آغاز سے پہلے ہی اوسلو کے قلب میں واقع بڑے آڈیٹوریم کی نشستیں اور راہداریاں تنگی داماں کا شکوہ کرنے لگیں۔ آغاز میں بچوں نے تلاوت‘ نعت اور ترانوں پر مشتمل پروگرام پیش کیا۔ لارڈ نذیراحمد نے اپنے گرم جوش خطاب میں امریکا اور مغربی ممالک کی پالیسیوں پر کڑی تنقید کی۔ اپنی گفتگو کے آغاز میں انھوں نے کئی سیاسی لطیفے بھی سنائے جن میں سے ایک یہ تھا کہ جہنم کے دروازے پر بہت سی گھڑیال لگے تھے۔ فرشتے سے پوچھا گیا کہ یہ گھڑیال کیا ہیں؟ اس نے کہا کہ یہ انسانوں کے جھوٹ کا پیمانہ ہے‘ جونہی کوئی شخص جھوٹ بولتا ہے تو اس کے گھڑیال کی سوئیاں جھوٹ کے درجے کے مطابق چلنے لگتی ہیں۔ دریافت کیا گیا کہ صدر بش کا گھڑیال کہاںہے؟ فرشتے نے جواب دیا: وہ اتنا تیز چل رہا ہے کہ ہم اسے پنکھے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
لارڈ نذیر احمد نے یورپ میں مقیم مسلمانوں کی طرف سے کہا کہ یورپ میں بسنے والے مسلمان یہاں کے برابر کے شہری ہیں۔ انھیں ان کے حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتا اور نہ انھیں دوسرے درجے کے شہری ہی قرار دیا جا سکتا ہے بلکہ پاکستان کو زیادہ اہم مقام ملنا چاہیے کیونکہ انھوں نے یورپ کی تعمیروترقی کے لیے زیادہ محنت اور جدوجہد کی ہے۔
محترم قاضی حسین احمد نے انتہائی مصروف پانچ دن گزارے‘ تحفظ پاکستان کانفرنس میں کلیدی خطاب کیا‘دیگر متعدد خطابات کیے جن میں اوسلو یونی ورسٹی میں مسلم اسٹوڈنٹس سوسائٹی کے زیراہتمام ’مقصد زندگی‘ کے عنوان سے لیکچر‘ ناروے میں مقیم عرب کمیونٹی کے ادارے رابطہ اسلامی کے مرکز میں ’اسلام اور مغرب‘ کے عنوان سے خطاب اور پاکستانی چنیدہ افراد کی عشایئے اور سنٹر کے ارکان و کارکنان کے اجتماعات کے خطاب شامل تھے۔ ان میں اسلام‘ پاکستان جماعت اسلامی‘ متحدہ مجلس عمل اور عالمِ اسلام سے متعلق پائے جانے والے تمام اشکالات و سوالات کا جواب دیا۔ انھوں نے مقصد بعثت نبویؐ کا حقیقی مقصد قیامِ عدل و انصاف کو واضح کیا اور دورحاضر میں پائی جانے والی بے انصافیوں اور اس ضمن میں دُہرے معیاروں کا ذکر کیا کہ فلسطین اور کشمیر میں تو ہزاروں انسانوں کا قتل عام کرنے والوں کی مکمل پشت پناہی کی جاتی ہے لیکن الزامات عالمِ اسلام اور خاص طور پر اہلِ اسلام پر دھرے جاتے ہیں کہ یہ دہشت گرد ہیں۔ بات دنیا کو دہشت گردی سے پاک امن کا گہوارہ بنانے کی کی جاتی ہے لیکن کلچر اور تہذیب وہ عام کیا جا رہا ہے کہ لوگ دین سے دُور ہوں اور جرائم کی دلدل میں دھنستے چلے جائیں۔ ہزاروں چینل صرف عریانی اور جرائم پر مشتمل پروگرام دکھاتے ہیں۔
قاضی صاحب نے اس دور میں پائی جانے والی بے انصافیوں اور انسانیت کو درپیش خطرات کا بھی ذکر کیا کہ روح انسانی اضطراب کا شکار ہے۔ جرائم اور دہشت گردی میں اضافہ ہورہا ہے کیونکہ انسان نے خود کو خدا قرار دے لیا ہے۔ اللہ کے نظام کے بجاے خواہشات کا نظام مسلط کیا جا رہا ہے اور پوری دنیا پر قبضے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
سوالات بہت متنوع تھے لیکن لیکچر کے بعد کے سوالات ہوں یا پریس کانفرنس کے وزرا کی ملاقاتیں ہوں‘ یا ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ذمہ داران کی‘ سب کا محور وہی گھساپٹا پروپیگنڈا تھا جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کیا جا رہا ہے۔ یونی ورسٹی لیکچر میں جنسی آوارگی اور فحاشی وبہیمیت کے علم بردار کچھ لوگ بہت تیاری سے آئے تھے۔ ہال کے مختلف کونوں میں بیٹھے ان مختلف العمر لوگوں نے ایک ہی جیسے سوالات کیے۔ قاضی صاحب نے ان سوالات کو ناشائستہ قرار دے کر ان کا جواب نہیں دیا لیکن ان سوالات نے پورے مغربی معاشرے کو ننگا کر دیا۔ دنیا کو نظام اور انسانی حقوق کا درس دینے والے اور اسلام کو دہشت گردی کے مترادف قرار دینے والے اس بات پر مصر ہیں کہ مردوں کو مردوں سے اور عورتوں کو عورتوں سے شادیاں کرنے کی آزادی ہی نہیں قانونی حق دیا جائے۔
مقامی حکومتوں کی وزیر ارنا سولبرگ سے ملاقات بہت مفید اور دل چسپ رہی۔ یہ خاتون وزیر نارویجی حکومت میں بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ سفیر بتا رہے تھے کہ اگر آیندہ انتخابات میں ان کی پارٹی جیت گئی تو ہو سکتا ہے وہ وزیراعظم بن جائیں۔ انھوں نے کہا کہ جو پاکستانی بچے ناروے میں پیدا ہوئے‘ پلے بڑھے اور نارویجی شہری قرار پائے ان کے رہن سہن‘ کلچر اور مسائل کو پیشِ نظر رکھا جانا چاہیے۔ قاضی صاحب نے ان کی بات سے اصولی اتفاق کیا اور کہا کہ نارویجی معاشرے اور حکومت کو ان بچوں کے والدین کو بھی یہ حق دینا چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی اپنے دین اور مذہب کے مطابق تربیت دے سکیں۔ ناروے میں تو الحمدللہ ہماری بچیوں کو شکایت نہیں‘ لیکن اگر فرانس میں بچیوں کو سر پر اسکارف رکھنے اور حجاب کی اجازت نہیں دی جائے گی تو یہ دوسروں کی مذہبی آزادی سلب کرنا ہی قرار پائے گا۔
سابق وزیراعظم‘ سابق وزیرخارجہ اور پارلیمنٹ میں خارجہ امور کمیٹی کے سربراہ سے تفصیلی ملاقات میں دہشت گردی کیا ہے‘ کیوں ہے‘ کشمیر‘فلسطین اور چیچنیا و عراق‘ افغانستان میں ریاستی دہشت گردی سے دنیا کو کیا کیا خطرات لاحق ہوگئے ہیں جیسے موضوعات پر بھی بات ہوئی۔
ناروے حقوق انسانی کے حوالے سے اس وقت دنیا میں پہلے نمبر پر آتا ہے‘ جہاں بے روزگار بھی بے روزگار نہیں ہوتا‘ حکومت وظیفہ دیتی ہے۔ انسان تو انسان حیوانات کے حقوق بھی طے ہیں۔ ایئرپورٹ جاتے ہوئے جمیل بھائی نے ایک پُل دکھاتے ہوئے کہا کہ مرکزی سڑک پر بنا یہ پُل انسانوں کے لیے نہیں ہے۔ دونوں طرف واقع جنگلات کے جانوروں کے لیے ہے۔ جنگلات سے درخت کاٹنا یا جانور شکار کرنا قطعاً ممنوع ہے۔ اگر کوئی درخت کاٹنا ناگزیر ہو تو اسی تعداد میں دوبارہ درخت لگانا پڑتے ہیں۔
تعلیم اور تعلیمی اداروں کی دیکھ بھال سب کی ترجیح اول ہے۔ ایک اسکول کے قریب سے گزرے تو سڑک ڈیڑھ کلومیٹر لمبی سرنگ میں بدل گئی۔ معلوم ہوا کہ اس اسکول کے بچوں نے ایک دن ہڑتال کرکے مطالبہ کیا کہ شور‘ آلودگی اور ٹریفک سے طلبہ متاثر ہوتے ہیں۔ حکومت نے مطالبہ فوراًتسلیم کرلیا اوریہاں سڑک کے بجاے ڈیڑھ کلومیٹر کی سرنگ بنا دی گئی۔ محترم قاضی صاحب فرمانے لگے یہاں یہ عالم ہے اور ادھر پنجاب یونی ورسٹی جیسے عظیم ادارے کے طلبہ و طالبات کے لیے موجود چند پُلوں کو بھی مسمار کر دیا گیا ہے تاکہ گاڑیاں تیز رفتاری سے گزر سکیں۔
ناروے کے نظام ‘ معاشرتی اقدار و روایات سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔ امیرجماعت کے اس دورے سے دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان روابط کی ایک مضبوط بنیاد رکھی گئی ہے۔
نومبر ۲۰۰۴ء امریکا میں صدارتی انتخابات کا ماہ ہے۔ ری پبلکن پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی انتہائی منظم انداز میں انتخابی مہم چلا رہی ہیں۔ ۷۰لاکھ سے زائد مسلمان امریکا میں قیام پذیر ہیں۔ امریکی شہریت کے حامل اندازاً ۱۸ لاکھ مسلمان ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔ مجموعی طور پر کل راے دہندگان کا یہ ۵ئ۱ فی صد بنتے ہیں۔ ان راے دہندگان میں سے ایک تہائی وہ لوگ ہیں جنھیں پہلی مرتبہ رائے استعمال کرنے کا موقع مل رہا ہے اور وہ اپنے سے ماقبل تارک وطن نسل سے زیادہ پُراعتماد‘ پُرجوش اور متحرک ہیں۔
فلوریڈا‘ مشِی گن‘ اوھائیو‘پنسلواینا‘ ٹیکساس اور منی سوٹا کی ریاستوں کے ووٹ عموماً غیرمعمولی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اگرچہ ۱۱ستمبر کے واقعے کی گونج اب بھی سنائی دے رہی ہے‘ دہشت گردی کا تدارک بھی شہ سرخیوں کا موضوع ہے‘ تاہم ایک عام امریکی شہری متوازن بجٹ‘ اسلحہ کنٹرول‘ میڈیکل سہولیات‘ الکوحل‘ ٹیکس اصلاحات‘ نسلی امتیاز اورووٹر رجسٹریشن جیسے مسائل کے حل میں دل چسپی رکھتا ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی امریکی فوج کے بیرونی کردار کو محدود کرنے‘ عظیم تر شہری آزادیوں اور اندرونِ ملک امور پر توجہ کے نعروں کو زیادہ متعارف کرا رہی ہے اور اس پارٹی کے امیدوار ’تہذیبی کش مکش‘ جیسے موضوع پر کم ہی اظہارخیال کرتے ہیں۔ بوسٹن میں ہونے والے ڈیموکریٹک پارٹی کے کنونشن میں ۴۰ مسلمان نمایندے بھی شریک تھے۔ دوسری طرف ری پبلکن پارٹی ساری دنیا کو دہشت گردی سے پاک کرنے کی جدوجہد کا کریڈٹ لینا چاہتی ہے اور میڈیا و الیکشن منتظمین کے ذریعے اُس خطرناک صورت حال سے بچنا چاہتی ہے کہ جب پچھلی بار دونوں صدارتی اُمیدواروں کے ووٹ برابر برابر نکلے۔ تازہ ترین سروے نتائج کے مطابق جارج بش اکثریت حاصل کرسکتے ہیں۔
امریکا میں کام کرنے والے مختلف اداروں نے مسلم آبادی سے کئی سروے کیے‘ ان اداروں میں مسلمانوں کی اپنی تنظیمات بھی شامل ہیں۔ سروے کے نتائج سے معلوم ہوا ہے کہ عرب آبادی جارج بش سے خصوصاً مشرقِ وسطیٰ پالیسی کی وجہ سے ناراض ہے۔ عرب آبادی میں ایک سروے سے معلوم ہوا کہ اسرائیل دوستی اور عرب دشمنی کی وجہ سے ۷۰ فی صد عرب ووٹر جارج بش کو ووٹ نہ دیں گے۔ اُنھوں نے واضح طور پر اعلان کر دیا ہے کہ جارج بش کی پالیسی سے اظہار نفرت کے طور پر وہ جان کیری کے حق میں اپنی رائے کا اظہار کریں گے۔ برعظیم سے سابقہ تعلق رکھنے والے امریکی مسلمان بھی اپنے لائحہ عمل کا اعلان کرچکے ہیں کہ وہ جان کیری کے شہری آزادی‘ بنیادی حقوق اور امریکا کے داخلی جامع کردار کے موید ہیں اور انتخاب میں کیری کو کامیاب کرائیں گے۔ انتخابات سے عین پانچ ہفتے قبل تک جو سروے سامنے آرہے ہیں اُن میں جارج بش کا گراف مقامی امریکی آبادی میں بڑھتا ہوا دکھائی دے رہا ہے لیکن مسلمانوں نے ایسا کوئی مشترکہ اعلان نہیں کیا کہ وہ اپنی رائے میں تبدیلی کر رہے ہیں۔ افغانستان و عراق پر بم باری ایسے امور پر امریکیوں کی بہت بڑی تعداد بش سے نالاں ہے اور وہ کسی بھی صورت میں ناراضی کے اظہار سے نہ رُکیں گے‘ چاہے جان کیری صدارتی انتخابات میں ناکام ہوجائے۔
سکونت پذیر امریکی مسلمانوں کے دو گروہ سب سے نمایاں ہیں۔ ان میں سے ۳۵لاکھ عرب ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی درجنوں تنظیمیں اور سیاسی اختلافات ہیں اور مجموعی طور پر اتنی ہی تعداد برعظیم (پاکستان‘ بھارت‘ بنگلہ دیش) سے تعلق رکھنے والوں کی ہے اور ان میں بھی غالب تر پاکستانی ہیں۔ ۱۹۸۰ء سے قبل امریکا میں آبائی وطن چھوڑ کر سکونت اختیار کرنے والے مسلمان ’’اچھا کھائو‘ اچھا پہنو‘‘کے جال میں مگن رہے۔ سیاسی‘ سماجی اور اقتصادی معاملات میں اُن کا کردار مغلوب رہا‘تاہم ۱۹۸۰ء کے بعد جو نسل امریکا میں پیدا ہوئی ہے‘ اُس کو امریکا کے ساتھ ساتھ فلسطین‘ کشمیر‘بوسنیا‘ الجزائر اور افغانستان سے بھی دل چسپی ایک حد تک ہے۔ وہ امریکا میں آئین و قانون کی پاسداری‘ نظامِ انتخابات اوربھرپور اظہارِ رائے کے ذریعے قومی امور میں شرکت کرنا چاہتے ہیں۔ مجموعی طور پر وہ USA Patriot Act سے نالاں ہیں جس کے ذریعے ایک ایک فرد کے خاندانی حالات اور ذرائع آمدن کی انتہائی باریک تفصیلات بھی حکومت طلب کرسکتی ہے۔ خصوصاً یہ کہ آپ اپنی آمدن کن ممالک یا اداروں کو دیتے ہیں‘ تاکہ ’’دہشت گردی‘‘ کے لیے معاشی وسائل کی فراہمی کا سدباب کیا جاسکے۔ ۱۱ستمبرکے واقعے کے بعد ۲۰۰۲ء میں ایک غیرسرکاری تنظیم کے سروے کے مطابق ۵۷ فی صد امریکی مسلمان ہراساں کیے گئے یا نسلی بنیادوں پر امتیازی سلوک کا شکار ہوئے۔ نئی نسل کی اسٹرے ٹیجی یہ ہے کہ تمام تر نسلی‘ لسانی‘ علاقائی اختلافات کے باوجود یک زبان ہوکر اپنی رائے کا اظہار کریں اور اپنے امریکا کو انصاف کا علم بردار ملک بنا دیں۔ یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ درست فیصلہ ہونے کی صورت میں بلدیاتی انتخابات اور سینیٹ و کانگرس میں نمایندگی کا مستحکم دروازہ کھل سکتا ہے۔
امریکن مسلم ٹاسک فورس آن سِوِل رائٹس اینڈ الیکشنز(AMT) کا قیام اس لحاظ سے خوش آیندہے کہ ایک مشترکہ پلیٹ فارم مسلم راے دہندگان کے لیے اصولی رہنمائی فراہم کر رہا ہے۔ اس فورم کے قیام کے پس منظر میں یہ نظریہ کارفرما ہے کہ مسلم آبادی کو قانونی حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد کرنا پڑے گی‘ نیز ’’تنہائی‘‘ اور ’’لاتعلقی‘‘کو خیرباد کہنا ہوگا۔ اس مشترکہ پلیٹ فارم میں امریکن مسلم الائنس (AMA)‘ کونسل آف امریکن اسلامک ریلیشنز (CAIR)‘ پاکستانیوں کی معروف اور متحرک تنظیم اسلامک سرکل آف نارتھ امریکا(ICNA)‘ مختلف ممالک کے مسلمانوں کا اتحاد اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکا (ISNA)‘مسلم الائنس آف نارتھ امریکا (MANA)‘ مسلم امریکن سوسائٹی (MAS)‘ مسلم پبلک افیئرزکونسل (MPAC)‘ مسلم اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن- نیشنل (MSA-N)‘ اور پراجیکٹ اسلامک ہوپ (PIH) شامل ہیں۔
اس ٹاسک فورس کے قائم ہونے سے قبل عموماً یہ رائے پائی جاتی تھی کہ سینیٹ کے اُن امیدواروں کو ووٹ دیے جائیں جو علاقائی مسائل اور سیاسی قوانین کے بارے میں اُن کے لیے سودمند ثابت ہوں اور قانونی جنگ لڑسکتے ہوں‘ جتھہ بن کر کسی پارٹی کے ساتھ منسلک نہ ہوا جائے جس طرح ۲۰۰۰ء کے انتخابات میں کیا گیا تھا اور مسلم ووٹروں نے ۴۵ فی صد رائے جارج ڈبلیو بش کے پلڑے میں ڈال دی تھی۔ بعدازاں اُس نے عراق و افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بھی بجائی اور دادوتحسین کا طلب گار بھی ہوا۔ ال گور کیونکہ مسلم کمیونٹی کے بڑے استقبالیوں میں یہود دوستی کی وجہ سے شریک نہ ہوا‘ اس لیے مسلم کمیونٹی نے اُس سے بالکل بے اعتنائی برتی۔
امریکا ٹاسک فورس نے سات نکاتی ایجنڈا متعارف کرایا ہے اور اپنی اجتماعی مہم کا نام Civil Rights Plus رکھا ہے۔ اس کی وضاحت یہ کی جاتی ہے کہ ’’سب کے لیے شہری حقوق‘‘ ایک اہم نکتہ ہے لیکن واحد نکتہ نہیں۔ تعلیم‘ رہایش کی عدم فراہمی‘ اقتصادی بحالی‘ ماحولیاتی و ارضیاتی تحفظ‘ انتخابی اصلاحات‘ جرائم‘ امنِ عالم اور انصاف بھی توجہ کے بھرپور مستحق ہیں۔ فورس نے مسلمان آبادیوں سے گزارش کی ہے کہ اپنے اپنے علاقے میں مختلف جماعتوں کے نمایندوں کو شہری حقوق اور مذکورہ بالا امور پر سابقہ کارکردگی کی روشنی میں پرکھیں اور اِن کے بارے میں تفصیلی رائے طے شدہ پرفارمے ٹاسک فورس کو فراہم کریں۔ فورس کی تاسیس میں شریک انجمنوں‘ اداروں اور پریشر گروپس سے کہا گیا ہے کہ اپنے ممبران کو مکمل طور پر متحرک کریں‘ نیز راے عامہ کے سروے‘ سوالناموں اور پالیسی سیمی ناروں کے ذریعے ووٹروں کی تربیت بھی کریں۔ علاوہ ازیں اس چیز کو یقینی بنائیں کہ ووٹ کے حق دار ۱۸ لاکھ مسلمان اپنے ضروری کاغذات مکمل کرائیں اور کوئی شخص بھی ووٹ نہ دینے کے جرم کا مرتکب نہ ہو۔ علماے کرام نے امریکا کے مخصوص پس منظر میں فتویٰ بھی دے دیا ہے کہ ان حالات میں ووٹ نہ دینا کسی اور بڑے المیے کو دعوت دینے کے مترادف ہوگا‘ بِلاواسطہ یہ پیغام بھی ہے۔ منتخب کوئی بھی ہو اُمت مسلمہ ‘فلسطین اور کشمیر کو فراموش نہ کیا جائے۔
گذشتہ ۲۰۰ برسوں میں یہودی آبادی نے اپنی کم تعداد اور بہتر منصوبہ بندی کے ساتھ نہ صرف اسلحہ مارکیٹ‘ پٹرول مارکیٹ اور بنک کاری پر قبضہ جمائے رکھا بلکہ اسرائیل کی بھی سرپرستی جاری و ساری رکھی‘ نیز قوت کے حصول پر خصوصی ارتکاز رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں پر ظلم بھی ڈھا رہا ہے‘ ۶۵۰کلومیٹر طویل متنازعہ دیوار بھی تعمیر کررہا ہے اور عالمی عدالت انصاف کے فیصلوں کو بھی بآسانی رد کر رہا ہے۔ اگلے ماہ ہونے والے انتخابات میں یہ حقیقت واضح ہوجائے گی آیا امریکی مسلمانوں نے ہم عصر یہودیوں سے کوئی سبق بھی سیکھا ہے یا نہیں!