اخبار اُمت


مصر پر طویل عرصے تک فراعنہ حکمران رہے۔ مصر کے ان حکمرانوں کے مظالم تاریخ ہی میں نہیں‘ سابقہ الہامی کتب اور قرآن مجید میں بھی بہت تفصیل سے بیان ہوئے ہیں۔ دورِجدید کے مسلمان مصری حکمرانوں نے اس مسلمان ملک کو سرزمینِ فراعنہ اور خود کو ابناے فراعنہ کہنے میں   فخر محسوس کیا۔ آج اسی فرعونی دَور کی یادیں مصر میں تازہ کی جارہی ہیں۔ اخوان ایک دفعہ پھر حکمرانوں کے انتقام کا نشانہ ہیں مگر سرزمین مصر بحیثیت مجموعی بھی تباہی کے دہانے پر آکھڑی ہے۔ اخوان المسلمون‘ عرب دنیا سے اٹھنے والی وہ اسلامی تحریک ہے جس نے زندگی کے ہر شعبے میں مسلمانوں کی تربیت کی ہے۔ اخوان نے اسلام کے جامع تصور کو دورِ جدید کے تقاضوں کے مطابق اُجاگر کیا ہے اور معاشرتی‘ سیاسی‘ معاشی اور تعلیمی میدان میں عالمِ عرب کی گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں۔ ۱۹۲۸ء میں مصر میں قائم ہونے والی یہ تحریک‘ آج عالمِ عرب ہی نہیں‘ پوری دنیا میں معروف اور ایک حقیقت ہے۔

غلبۂ اسلام کے لیے جدوجہد کرنے والے تمام لوگ ہردور میں ابتلا و آزمایش سے ہمت و استقامت سے گزرتے رہے ہیں مگر دورِ جدید میں اخوان المسلمون نے عزیمت کی جو بے مثال تاریخ رقم کی ہے وہ قرونِ اولیٰ کے عظیم مسلمانوں کی یاد تازہ کردیتی ہے۔ ابتلا و آزمایش کا یہ سلسلہ تحریک کے آغاز سے لے کر آج تک مسلسل جاری ہے۔ آفرین ہے ان جواں ہمت لوگوں کے جذبۂ ایثار و قربانی پر کہ جو مستبد حکمرانوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کے بجاے راہِ عزیمت پر مسلسل چراغ جلاتے جارہے ہیں۔ حسن البنا‘ عبدالقادر عودہ اور سیدقطب کی شہادت‘ حسن الہضیبی‘ عمرتلمسانی‘ محمد حامد ابوالنصر‘ مصطفی مشہور اور ہزاروں اخوانیوں کی قیدوبند کی ناقابلِ بیان صعوبتیں ان کے لیے روشنی کے مینار ہیں۔ عمرتلمسانی نے کیا خوب فرمایا تھا کہ طاغوت کے مظالم کے سامنے اہلِ حق کا ڈٹ جانا اور جھکنے سے انکار کردینا‘ طاغوت کی شکست اور حق کی فتح ہے‘ اگرچہ اہلِ حق اس جدوجہد میں جان ہی سے کیوں نہ گزر جائیں!

تازہ ترین فرعونی کوڑا‘ جو صرف اخوان ہی پر نہیں‘ بحیثیت مجموعی ملک کی معیشت پر برسایا گیا ہے‘ بہت خطرناک اور دُور رس نتائج کا حامل ہے۔ اخوان المسلمون کے مرکزی رہنما‘ مرشدعام کے نائب دوم‘ انجینیرخیرت الشاطر سمیت ۳۰ کے قریب تجارتی و کاروباری فرموں کے اخوانی مالکان کو نہ صرف گرفتار کرلیا گیا ہے بلکہ ان کے تجارتی اداروں اور ان کے ذاتی و شراکت داروں کے مشترکہ اثاثہ جات کو بھی منجمد کردیا گیاہے۔ ان کاروباری لوگوں کی حالیہ گرفتاری کے علاوہ اخوان کے سیکڑوں سیاسی کارکنان پہلے ہی سے جیلوں میں مقید ہیں۔ ہنگامی قوانین کے ذریعے حکومت مصر نے گذشتہ انتخابات سے قبل اور بعد‘ بہت سے سیاسی مخالفین بالخصوص اخوان سے تعلق رکھنے والی معروف شخصیات کو تسلسل کے ساتھ جھوٹے مقدمات میں گرفتار کرنے کا مذموم سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ ان کالے قوانین کے خلاف سیاسی جماعتوں کے علاوہ مصر کے وکلا بلکہ ججوں نے بھی    شدید احتجاج کیا ہے۔ ججوں کے حکومتی ایما پر فیصلے کرنے سے اجتناب کی وجہ سے حکومت‘ خصوصی اور فوجی عدالتیں قائم کرکے ان لوگوں کو انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے۔

حالیہ گرفتاریوں کے نتیجے میں چونکہ ملک کے معروف تاجر‘ صنعت کار اور سرمایہ کار گرفتار کیے گئے اور ان کے اداروں پر قبضہ کرکے اثاثے منجمد کردیے گئے ہیں‘ اس لیے مصر سے سرمایہ کار اپنا سرمایہ دھڑا دھڑ بیرونِ ملک بھجوا رہے ہیں۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق تقریباً ۲۱ارب مصری پائونڈ کا سرمایہ بیرونِ ملک منتقل کیا جاچکا ہے۔ غیرجانب دار تجارتی حلقے بھی تشویش میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ ملک کے تمام ایوان ہاے صنعت و تجارت نے اس صورتِ حال کو ملک کی معاشی تباہی اور مصری عوام کے معاشی قتل کے مترادف قرار دیا ہے۔ ثقہ اخباری اطلاعات کے مطابق مصر میں سکیورٹی فورسز نے ۴۵ جاسوسی نیٹ ورک پکڑے ہیں‘ جو صہیونی و صلیبی اداروں نے قائم کررکھے ہیں اور ان کا مقصدمصر کی سالمیت کو تباہ کرنا ہے۔ مگر طُرفہ تماشا ہے کہ ان اداروں کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کے بجاے اُلٹا اخوان کوہدفِ انتقام بنایا گیا ہے۔

اخوان کے مرشدِ عام جناب محمد مہدی عاکف نے اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے حکومتی ہتھکنڈوں کو بوکھلاہٹ قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ اخلاقی و دینی اصولوں کے مطابق بھی پابندیاں لگانے اور قیدوبند کے مراحل سے گزارنے کا یہ عمل ناپسندیدہ ہے اور ملک کا دستور بھی اس کی اجازت نہیں دیتا لیکن افسوس تو یہ ہے کہ دستور کو حکمرانوں نے موم کی ناک بنادیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اخوان‘ سیاسی و معاشی کسی سطح پر کوئی غیر قانونی کام نہیں کرتے۔ یہ ساری کارروائی امریکی دبائو کے تحت کی گئی ہے۔ امریکا اخوان کی مقبولیت اور پارلیمنٹ میں ان کے مضبوط گروپ کی وجہ سے اخوان کو خطرہ سمجھتا ہے۔(نیوزویک‘ عربی اڈیشن‘۲۷ فروری ۲۰۰۷ء)

ترکی کے اخبار المساء سے گفتگو کرتے ہوئے مرشدعام نے کہا کہ جن اداروں بالخصوص اخوان کے راہنما حسن مالک کی فرم پر پابندی لگائی گئی ہے‘ وہ اپنی ساکھ اور اپنے شفاف و کامیاب کاروبار کی وجہ سے اتنے مقبول تھے کہ مصر ہی نہیں‘ مصر سے باہر کے سرمایہ کار اور شراکت دار بھی ان میں سرمایہ لگائے ہوئے تھے‘ حتیٰ کے ترکی کی کئی کاروباری کمپنیوں نے بھی مصر کے ان اداروں میں حصص خرید رکھے تھے۔ یہ مصر کی گرتی ہوئی اقتصادی صورتِ حال اور متزلزل اخلاقی ساکھ کو مزید تباہ کرنے کی حکومتی کوشش ہے‘ جسے کوئی بھی عقلِ سلیم رکھنے والا شخص درست قرار نہیں دے سکتا۔ مرشدعام نے حسنی مبارک اور ان کی حکومت کی غیر قانونی کارروائیوں پر تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ ۱۰ برسوں میں حکومت نے اخوان سے تعلق رکھنے والے ۲۵ ہزار بے گناہ شہریوں کو گرفتار کیا ہے۔ ان میں سے ۳۰۰ کے قریب لوگوں کو فوجی عدالتوں سے سزائیںدلوائی گئی ہیں۔

مصر میں اس ظالمانہ اقدام کے خلاف کافی بے چینی اور ردعمل پایا جاتا ہے۔ اخوان کے مجلہ رسالہ الاخوان (شمارہ ۴۹۵‘ مارچ ۲۰۰۷ء) نے مختلف انٹرنیٹ سے حاصل کردہ کچھ نمونے پیش کیے ہیں جن میں گرفتار شدگان کی خدمات اور صلاحیتوں کا تذکرہ ہے اور نہایت مؤثر انداز میں ان پر ڈھائے جانے والے ظلم کے خلاف صداے احتجاج بلند کی گئی ہے۔ صحافت پرقدغن کے باوجود اب ایسے وسائل و ذرائع موجود ہیں کہ لوگ ان کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں اور احتجاج ریکارڈ کراتے ہیں۔

روزنامہ ڈان لاہور نے آئی پی ایس نیوز سروس کے حوالے سے ۱۶ فروری ۲۰۰۷ء کو ایک تفصیلی رپورٹ چھاپی ہے جس کے مطابق ۲۸ جنوری ۲۰۰۷ء کو اخوان سے تعلق رکھنے والے ۲۹معروف صنعت کاروں اور تاجروں کو غیرقانونی طور پر اس وقت گرفتار کرلیا گیا‘ جب کہ ایک دن قبل ان میں سے بعض کو مصر کی ایک عدالت نے سابقہ مقدمات سے رہا کیا تھا۔ حسنی مبارک نے ۱۵جنوری ۲۰۰۷ء کو ایک اعلان کیا‘ جس کے مطابق اخوان کو مصر کی سلامتی کے لیے خطرناک قرار دیا۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ مصری صدر نے اخوان کے دینی تشخص کو خطرے کی علامت قراردیا۔

مصر کے سیاسی حالات پر گہری نظر رکھنے والے سیاسی مبصرین کے نزدیک ۲۰۰۵ء کے انتخاباتِ عام میں حکومتی جبر اور پابندیوں کے باوجود اخوان نے پارلیمنٹ کی ۲۰ فی صد نشستوں پر جوکامیابی حاصل کی تھی‘ اس نے پوری دنیا کو حیرت اور مصری حکمرانوں کو پریشانی میں مبتلا کر دیا تھا۔ اخوان کی مقبولیت میں ایک بڑا سبب ان کی خدمتِ خلق اور فلاح و بہبود کے منصوبوں کو قرار دیا جاتا ہے۔ حکومت جانتی ہے کہ یہ متمول کاروباری ادارے ان فلاحی خدمات میں ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتے ہیں۔ اسی لیے ان پر ہاتھ ڈالا گیا ہے۔ پارلیمانی امور کے ذمہ دار اور قانونی امور کے ماہر اخوانی راہنما صبحی صالح نے اس حکومتی اقدام کو امریکا اور اس کے زیراثر مسلمان حکومتوں کی طرف سے اسلام کے خلاف جنگ کا ایک محاذ قرار دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ حماس کو بھی معاشی لحاظ سے اپاہج کیا گیا‘ اب مصر میں اخوان کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جا رہا ہے۔

اخوان کے نائب مرشدعام اوّل ڈاکٹر محمدحبیب نے ایک انٹرویو میں کہا کہ اس طرح کے ہتھکنڈے ہمارے خلاف ہمیشہ استعمال کیے جا تے رہے ہیں۔ گذشتہ ۲۵ برسوں سے ملک پر ہنگامی قوانین کی تلوار لٹک رہی ہے اور انھی کو بنیاد بناکر تازہ حملہ کیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ مصر کے لیے حکمران طبقہ ہر لحاظ سے خطرہ ہے۔ حکومت یہ چاہتی ہے کہ اس کی مجوزہ دستوری ترامیم کے خلاف اخوان کی احتجاجی اور سیاسی جدوجہد کا راستہ روکا جائے۔ اسی لیے وہ ہماری معاشی شہ رگ کاٹنے کا فیصلہ کرچکی ہے۔ لیکن ہمارے تمام کام قانون کے دائروں میں ہیں اور ہمارے کاروبار شفاف ہیں۔  ہم پر ہمیشہ اوچھے حملے ہوتے رہے ہیں مگر اللہ نے ہمیں ہر مرتبہ سرخ رو کیا ہے اور ہم مصر کو ایک اسلامی اور جمہوری ملک بنانے کی کوششیں کسی صورت ترک نہیں کرسکتے۔(المجتمع، ۱۷فروری ۲۰۰۷ء)

مرشدعام نے تازہ ترین صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم مصر کی سیاست میں تحمل و برداشت کے علَم بردار ہیں۔ انھوں نے کہا کہ حکومت کے پروگراموں کے ساتھ صرف اسلام چندپروگرام رکھنے والی قوتوں کو ہی اختلاف نہیں بلکہ تمام لبرل‘ سیکولر اور بائیں بازو کی پارٹیاں بھی اختلاف رکھتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم جس اسلام کی بات کرتے ہیں وہ قرآن و سنت کی بالادستی پر مبنی ہے۔ مذہبی پاپائیت (تھیاکریسی) کا الزام لگانے والے حقائق سے چشم پوشی کرتے ہیں۔

مصر کے ججوں کی تنظیم کے صدر جسٹس زکریا عبدالعزیز نے ایک بیان میں حکومت کی دستوری ترامیم پر شدید افسوس کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت دستور کی دفعہ ۸۸ اور ۱۷۳ میں جو ترمیمات کر رہی ہے‘ وہ دراصل مصری عدلیہ کے پَر کاٹنے اور انھیں آزادی سے محروم کرنے کی کوشش ہے۔ مصر کی عدلیہ کو انتخابات کی نگرانی کا جو قانونی و دستوری حق حاصل ہے‘ اسے ختم کرکے محض مبصر کا درجہ دیا جا رہا ہے۔ یہ دستور کی دفعہ ۱۶۵-۱۶۶ کی صریح خلاف ورزی ہے۔    یہ دفعات عدلیہ کو انتخابات کی نگرانی کا مستقل اختیار دیتی ہیں۔ انھوں نے حکومت کے اس اقدام کو بھی حرفِ تنقید بنایا جس کے مطابق جوڈیشل کونسل کو ختم کرکے ہرسطح کی عدالت کے چیف پر مشتمل ایک نئی کونسل بنائی جارہی ہے جو آزادانہ فیصلے نہیں کرسکے گی۔(المجتمع‘ عدد ۱۷۳۹ )

مصر میں کاروباری اداروں پر لگائی جانے والے حالیہ پابندیوں کو پاکستان کی جانب سے بعض فلاحی تنظیمات پر پابندی اور ان کے اثاثہ جات اور اداروں کو منجمد و مقفل کرنے کے تناظر میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ عالمِ اسلام کے سب حکمران باہر کی ہدایات پر عمل پیرا ہیں۔  یہ صورتِ حال کسی خوش حال اور مہذب معاشرے کی عکاسی نہیں کرتی۔ اُمت مسلمہ کو اس     اہانت آمیز صورت سے نکلنے کے لیے پُرامن مگر منظم و مسلسل جدوجہدکی ضرورت ہے۔ اخوان کی قیادت نے اسی عزم کا اظہار کیا ہے جو خوش آیند ہے۔

بھارتی پنجاب اور اتر اکھنڈ (ڈیرہ دون)کے فروری ۲۰۰۷ء کے اسمبلی انتخابات میں جیت کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی قومی کونسل کے اجلاس منعقدہ لکھنؤ میں اس کے قومی صدر پروفیسر راج ناتھ سنگھ کا بیان یکم مارچ ۲۰۰۷ء میں سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا ہے: اوّلاً: اگر انھیں ۲۰۰۹ء کے پارلیمانی انتخابات میں اکثریت حاصل ہوجاتی ہے تو وہ متنازع بابری مسجد کی جگہ  رام مندر بنانے کے لیے ایک قانون بنائیں گے۔ ثانیاً: بی جے پی کی قوم پرستانہ پالیسی کے زیرسایہ ایک طاقت ور بھارت کی تعمیر ضروری ہے تاکہ مرکز کی حکومت (من موہن سنگھ) کی اقلیتوں کو خوش کرنے کی خطرناک سیاست کو بھارت کی سرزمین پر ختم کیا جاسکے (روزنامہ نواے وقت‘ لاہور‘ یکم مارچ ۲۰۰۷ء)۔المیہ یہ ہے کہ بھارت میں کانگریس نے مسلمانوں کو عملاً کچھ نہیں دیا۔ مگر دوسری طرف بھارتیہ جنتا پارٹی‘ اسے مسلمانوں کی اقلیت نوازی کے نام پر شورمچا کر مسلمانوں کو مزید ملیامیٹ کرنے کی ہندتو پالیسی پر عمل پیرا ہے جس کا کھلا نعرہ ہے: ہندی  ،   ہندو  ،   ہندستان

بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر راج ناتھ سنگھ کا تازہ ترین بیان بلکہ اعلان‘ اس بات کا غماز ہے کہ اگر کانگرس یا کسی اور سیاسی جماعت نے مسلمانوں کی پس ماندگی دُور کرنے کی بات کی تو بھارتیہ جنتا پارٹی کا مسلم دشمن رویہ مزید جارحانہ سمت میں آگے بڑھے گا ۔ ان کی دوسری فوری وجہ یوپی (اترپردیش) میں ماہِ اپریل ۲۰۰۷ء میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہیں۔ ظاہر ہے کہ یوپی صوبہ بھارت کا آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑا صوبہ ہے جس کی بھارت کی قومی سیاست میں بڑی اہمیت ہے۔ وہاں سماج وادی پارٹی اور اس کے وزیراعلیٰ ملائم سنگھ یادو کے مقابل مایاوتی کی بہو جن سماج وادی پارٹی‘ کے علاوہ بھارتیہ جنتاپارٹی ایک متبادل اور متحرک سیاسی جماعت ہے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی پنجاب اور اتر اکھنڈ کے بعد یوپی میں اپنی حکومت قائم کرنے کے لیے مسلمانوں کے خلاف ہندوئوں کے روایتی اور تاریخی تعصب کو ہوا دے کر پھر سے ہندتو کارڈ اور  رام مندر کی تعمیر کا مسئلہ اٹھائے سامنے آرہی ہے‘ جب کہ گجرات میںمسلمانوں کے حالیہ قتلِ عام کے بعد پٹنہ (بہار) میں وشواہند پریشد (ورلڈ ہندوکونسل) کے جنرل سیکرٹری پروین توگڑیا کا تازہ ترین اعلان بھی سامنے آیا ہے۔ جس میں انھوں نے ہندو آبادی کو مشتعل کرنے کے لیے کہا ہے کہ ’’وہ مسلمانوں کے خلاف متحد ہوجائیں‘‘۔ انھوں نے مسلمانوں پر زبردست تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’مسلمان ایک سے زیادہ شادیاں کر رہے ہیں اور وہ جلد ہندستان کے ہندوئوں کو اقلیت بنا دیں گے‘‘۔ یہ وہ مسلم دشمن لہریں ہیں جو بھارتی سماج کے دروبام ہلانے کے لیے سرگرمِ عمل ہیں۔ جس طرح بھارت‘ پاکستان کو اپنا دشمن نمبر ایک سمجھتا ہے بعینہٖ بھارت کے ہندو‘ مسلمانوں کو بھی اپنا دشمن نمبر ایک ہی سمجھتے ہیں‘ جسے یقین نہ آئے بھارت جاکر بچشم خود دیکھ لے۔

دوسری طرف مسلمان ایک سہمی ہوئی اقلیت کے طور پر حکمرانوں اور ہندو سیاست دانوں کے رحم و کرم پر ہیں۔ صاف کہنا چاہیے کہ بھارت کے مسلمانوں کے گذشتہ ۶۰ برس‘ ہندو اکثریت کے تاریخی تعصب اور ہندو حکمرانوں کی دانستہ پالیسی کے نتیجے میں معاشی پس ماندگی کا آئینۂ ایام ہیں۔ جس سے بالفعل یہ ثابت ہوا ہے کہ قومیں دین سے بنتی ہے سرزمین سے نہیں‘ ورنہ بھارت کی مسلم ملت یوں اپنے وطن میں غریب الوطن تو نہ ہوتی کہ سانحہ گودھرا گجرات کے بعد بھارت کے مسلمانوں کا مستقبل اپنے ہی وطن میں تاریک ہوکر رہ گیا ہے اور مسلمانوں کی بے بسی اور برستی آنکھیں انصاف مانگتے مانگتے اندھی ہوگئی ہیں۔ بھارتی سپریم کورٹ کے بعض احکامات کے تحت‘ کچھ قانونی کارروائی اور کچھ مظلوم مسلمانوں کی شنوائی جاری ہے۔ مگر گجرات میں ’ہندوتو‘ کا تجربہ  وہ نمونہ ہے جس میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے زیراقتدار مسلمانوں کے مستقبل کی واضح جھلک دکھائی دیتی ہے مگر گجرات کے مسلمانوں کا صوبائی حکومت کے ایما پر قتلِ عام اور پھر یہ اعلان:’’مسلمانوں کے دواستھان پاکستان یا قبرستان!‘‘کس طرح کے عزائم کی پھنکار ہے۔

بھارت کا مسلمان گذشتہ ۶۰ برس سے ہندو اکثریت کے ہندستان میں جس جمہوری اور سیکولر تجربے سے گزرا ہے‘ اس کی بازگشت دسمبر ۲۰۰۶ء کو مسلمانوں کے بارے میں معاشی‘ سماجی اور تعلیمی کوائف جاننے کے لیے قائم سچرکمیٹی میں سنائی۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ ہندستان میں مسلمان‘ اپنی معاشی پس ماندگی میں دلتوں سے بھی کہیں نچلے درجے پر پہنچ چکے ہیں۔ سچرکمیٹی نے اپنی رپورٹ میں ’شرمساری کے ساتھ‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ بھارت میں برسرِاقتدار کانگریسی قیادت کی  یوپی اے سرکار کا بھارت کے مسلمانوں کے بارے میں حقائق جاننے کا مقصد کیا واقعی مسلمانوں کی  پس ماندگی کا مداوا کرنا ہے یا صرف مسلمانوں کے ووٹ بٹورنے کی روایتی سیاست ہے؟ اس پر سردست کچھ کہنا مناسب نہ ہوگا۔ البتہ ایک حقیقت جو سامنے ہے وہ یہ کہ بھارت کے حکمرانوں‘ سیاست دانوں اور ہندو اکثریت کی یہ اجتماعی اور مستقل پالیسی رہی ہے کہ مسلمانوں کو مسلسل دوسرے درجے کے خوف زدہ شہری ہی نہیں‘ ایک یرغمال رعایا کے طور پر محبوس رکھا جائے‘ جس کا بدیہی ثبوت سچرکمیٹی رپورٹ ہی نہیں ‘ بھارت بھر میں پھیلے ۱۷ کروڑ سے زائد مسلمانوں کے     شب و روز ہیں۔ جہاں گذشتہ ۶۰ برس میں ۲۴ ہزار کے لگ بھگ مسلم کش فسادات برپا ہوچکے ہیں اور بھارتی مسلمان معاشی‘ معاشرتی طور پر پریشانیوں کا شکار ہیں۔

مسلمانوں نے اپنے طور پر تعلیمی‘ فلاحی اور سماجی نوعیت کے ادارے تو بنا رکھے ہیں مگر مسلمان نوجوان اگر بمشکل تعلیم یافتہ ہو جائیں تو بھی انھیں روزگار ملنا مشکل ہوتا ہے۔ اکثریت کا رویہ مسلمانوں کے تئیں تعصب و حقارت ہی نہیں‘ شر اور شرارت سے بھرپورہے۔ کسی جگہ مسلمان اپنے روایتی پیشوں میں کامیاب ہوں بھی تو فرقہ وارانہ فسادات کی آڑ میں پاور لومز جلانا‘ ان کے کارخانوں کو نذرِآتش کرنا اور لوٹ مار کرکے پھر انھیں معاشی پستی کی سطح پر دھکیل دینا ایک عام رویہ ہے۔

کانگریس کے ہم نوا بعض علما کے پرستار حلقے پاکستان کے قیام کو غلطی قرار دے کر اُسے مسلمانانِ ہند کی سزا کی بات کرتے ہیں‘ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ مسلمانوں کو پاکستان بنانے کی نہیں محض مسلمان ہونے کی سزا دی جارہی ہے۔ کانگریس نے اپنے دورِاقتدار میں مسلمانوں کو کیا دیا ہے؟ یہ متحدہ قومیت کے ہندستان میں مسلمانوں کے معاشی‘ سماجی اور تعلیمی حالات سے واضح ہے۔ بھارت کے حکمرانوں کا رویہ کیا عملاًسیکولر ہے یا فرقہ وارانہ؟ اس کاصحیح جواب‘ بھارت کے مسلمانوں کی حالت سے عیاں ہے۔ دوسری طرف بھارتیہ جنتا پارٹی کا متعصبانہ اور متشددانہ طرزِعمل ہے جس کی زد میں بھارت کے مسلمانوں کی اولادیں اور جایدادیں ہی نہیں‘ مساجد و مزارات اور اوقاف تک ہیں۔

افغانستان پر فوج کشی کا مرحلہ درپیش تھا تو ’سب سے پہلے پاکستان‘ کا نعرہ بلند کردیا گیا۔ پھر جنرل صاحب سے لے کر ادنیٰ وزرا اور گویوں.ّ  تک سب انھی الفاظ کی جگالی کرنے لگے۔ اس وقت اُمت کی بات کرنے والوں کو ‘کشمیر وفلسطین کی بات کرنے والوں کو بے حکمت‘ غیرمتوازن اور جذباتی کے طعنے دیے گئے۔ انھیں پرایوں کی لڑائی میں کودنے کے کوسنے دیے گئے۔ پھر افغانستان تباہ ہوگیا‘ ہزاروں بے گناہ انسان خاک میں ملا دیے گئے۔ کئی عشروں پر محیط افغان پالیسی کے نتیجے میں ہم نے وہاں جتنے بھی دوست بنائے تھے‘ سب کھو دیے‘ وہاں امریکا سمیت ناٹو ممالک کی افواج اور بھارتی خفیہ ایجنسیوں کا جال وسیع تر ہوتا چلا گیا اور برادر حقیقی کی حیثیت رکھنے والے ملک کی ہوائیں پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے زہریلی ہوتی چلی گئیں۔

 ’سب سے پہلے پاکستان‘ کی بنیادوں پر ہم نے بھی مزید ردّے چڑھا دیے۔ہزاروں بے گناہوں کے قتل میں معاونت کا بوجھ تو گردن پہ تھا ہی‘ اب ہم نے اپنے قبائل کو بھی کچلنا شروع کردیا۔ باڑھ ہی کھیت کو کھانے لگی تو ہم اس فکر سے بھی آزاد ہوگئے کہ چھری خربوزے پہ گرتی ہے یا خربوزہ چھری پر۔ دونوں طرف اپنے ہی بھائی بندوں کے لاشے گر رہے تھے‘ فوجی جوان بھی پاکستانی اور قبائل بھی پاکستانی۔

ایسے المیوں کا جو انجام ہوتا ہے ہم اب اسی کا سامنا کر رہے ہیں ۔ جس بے وفا کے لیے جان سے گزرے تھے وہ اب بھی ہمیں موردالزام ٹھیرا رہا ہے۔ بھارتی خفیہ ایجنسیاں سرحدپار  کھل کھیل رہی ہیں۔ کوئی بھی دھماکا ہو‘ کیسا ہی حادثہ ہو‘ جو بھی شکایات پیدا ہوں الزامات ہمارے ہی سر منڈھے جارہے ہیں۔ وہی طالبان جنھیں ہم نے خود پکڑپکڑ کر گوانتاناموبے بھجوا دیا‘ افغانستان کی خاک میں ملا دیا‘ ہمارے اور امریکیوں کے اندازے سے زیادہ سخت جان نکلے۔ افغان تاریخ و روایات کے عین مطابق جب انھوں نے قابض فوجوں سے عملاً نبردآزما ہونا شروع کیا‘ تو سارا نزلہ عضو ضعیف پر ہی گرنے لگا۔ ساری خدمت اور چاکری کرنے کے باوجود ہم ہی گردن زدنی ہیں‘ ہرطلوع ہونے والے دن ہمارے لیے دشنام و الزامات کا نیا ذخیرۂ الفاظ ایجاد ہو رہا ہوتا ہے۔ اب نہ روشن خیالی کی کوئی تدبیر کام کر رہی ہے اور نہ نسلوں کو تباہ کرنے والی تعلیمی و ثقافتی قلابازیاں اثر دکھا رہی ہیں۔

اصل بدقسمتی یہ ہے کہ ایسی تاریکی میں بھی اندھوں کو ایک بار پھر بڑی دُور کی سوجھی ہے۔ اب ’سب سے پہلے پاکستان‘کے بجاے زیادہ ’حقیقت پسندی‘ کا ثبوت دیا جا رہا ہے۔ بالکل اُلٹی سمت میں جاکر اعلان کیا گیا ہے کہ اصل مسئلہ مشرق وسطیٰ کا مسئلہ ہے۔ اسے حل کیے بغیر کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اب جنرل صاحب نے ایک دو نہیں پورے ۹مسلم ملکوں کے طوفانی دورے کیے ہیں۔ ’سب سے پہلے پاکستان‘ کے بعد اب وہ ’سب سے پہلے مشرق وسطیٰ‘ کے سنہری فارمولے کی دلالی کر رہے ہیں۔ برادر مسلم ممالک تو ہم سے ہمیشہ دوستی‘ تعاون اور مضبوط تعلقات ہی چاہتے ہیں۔ انھوں نے حوصلہ افزائی کی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جب ہمیں سب سے پہلے پاکستان کا  نسخۂ کیمیا تھمایا گیا تھا‘ تب امریکی کولھو میں جتے دیگر تمام مسلم ممالک کو بھی اسی لاٹھی سے ہانکا جا رہا تھا۔ اس وقت جدھر سنتے تھے‘ ایک ہی نغمہ الاپا جا رہا تھا: ’سب سے پہلے اُردن‘، ’سب سے پہلے لبنان‘، ’سب سے پہلے مصر‘، ’سب سے پہلے…۔ اب کیسٹ اُلٹی چلنی شروع ہوئی ہے تو توقع ہے کہ عنقریب ہر جانب سے ایک ہی راگ کانوں میں رس گھولے گا: ’سب سے پہلے مشرق وسطیٰ‘۔

آخر یہ نیا فارمولا ہے کیا؟ اسلام آباد نے تو اعلان کیا ہے کہ ابھی اس راز سے پردہ نہیں اٹھایا جاسکتا‘ لیکن نئے سال کے دوسرے مہینے‘ دوسری بار مشرق وسطیٰ کے دورے پر آئی ہوئی امریکی وزیرخارجہ کونڈولیزارائس نے اس کی کئی جھلکیاں دکھا دی ہیں۔ حماس الفتح مذاکرات اور معاہدۂ مکہ سے یہ تاثر اُبھرا تھا کہ اب فلسطینیوں کو فلسطینیوں سے لڑانے کی سازش ناکام ہوجائے گی۔ اب دونوں بھائی مل کر اپنے دشمن کا سامنا کرسکیں گے‘ اپنے حقوق کا تحفظ کرنے کی فکر کریں گے۔ لیکن معاہدے پر دستخط کی تقریب میں رسمی تقاریر ہی کے دوران میں صدر محمود عباس نے   اصل ایجنڈے کی نشان دہی کردی۔ انھوں نے کہا: ’’بالآخر ہماری قومی حکومت تشکیل پاگئی ہے۔ اب حماس کو ان تمام عالمی معاہدوں کا احترام کرنا ہوگا جو ہم نے عالمی برادری کے ساتھ کیے ہیں‘‘۔ روسی صدر پوٹن نے جو خود بھی ان دنوںمشرق وسطیٰ کے دورے پر تھے‘ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ’’معاہدۂ مکہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی طرف پہلا عملی قدم ہے‘‘۔ ظاہر ہے محمود عباس نے تو عالمی برادری کو شیشے میںاُتارا ہی اس بنیاد پر تھا کہ وہ ان کے احکام بجا لائیں گے۔ محمودعباس اپنے عقیدے کے بارے میں زبان زدعام اطلاع کی نفی کرتے ہیں اور اصرار کرتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں  ’بہائی‘ نہیں۔ لیکن عملاً اسی بات کا پرچار کرتے ہیں جو قادیانیت اور بہائیت کی اصل بنیاد ہے‘ یعنی ’’جہاد کا انکار اور مجاہدین سے دست برداری‘‘۔ محمودعباس‘ حماس کی حکومت کو ناکام بنانے کے لیے ہروہ خدمت بجا لائے جو اسرائیل و امریکا کو مطلوب تھی۔ امریکی وزیرخارجہ نے جواباً ان کی اپنی سیکورٹی فورسز کے لیے ۸۶ملین ڈالر امداد کا اعلان کیا۔

اُردن و مصر کے راستے‘ فلسطینی انتظامیہ کے مقابل صدارتی افواج کے لیے اسلحے کے انبار فراہم کر دیے گئے اور محمودعباس کے ساتھیوں میں سے سب سے متنازع شخص محمد دحلان صدارتی فوج لے کر اپنے فلسطینی مجاہدین پر ہی چڑھ دوڑا۔ غزہ یونی ورسٹی جلا ڈالی گئی۔ مساجد میں علماے کرام اور کتاب الٰہی پر گولیوں کی برسات کردی گئی اور جہاں کبھی صرف صہیونی بم باری اور فائرنگ ہوا کرتی تھی وہاں فلسطینیوں کو خود فلسطینی مارنے لگے۔ اور یہ خوں ریزی عین اس وقت ہورہی تھی جب قابض صہیونی افواج مسجداقصیٰ سے ملحق حصے کو شہید کر رہے تھے۔ حرم قدسی کے باب المغاربہ کے باہر بنے حجرے کو گرا کر وہاں ہیکل سلیمانی کی بنیاد رکھنے کی تیاریاں کر رہے تھے اور اسلامی تحریک کے کارکنان ان سے برسرپیکار تھے۔ فلسطینیوں کے ہاتھوں فلسطینیوں کی یہ خوں ریزی فلسطین کی تاریخ کا سیاہ ترین باب تھی‘ لیکن بالآخر فریقین مکہ مکرمہ میں ایک معاہدے پر متفق ہوگئے۔ محمودعباس نے مذکورہ بالا بیان تو دے دیا لیکن یہودی اخبارات نے واویلا مچایا کہ حماس سے   عالمی معاہدوں کے احترام کی بات بہت کمزور اور ناکافی ہے۔ محمود عباس کو تاکیداً کہنا چاہیے تھا کہ ہم حماس سے ان معاہدوں کی پابندی کروائیں گے۔

رائس نے حالیہ دورے میں صہیونی وزیراعظم اولمرٹ اور محمودعباس سے ملاقاتیں کرنے کے بعد دو ٹوک اور مختصر بات کی ہے کہ‘ اسرائیل کو تسلیم کرنے اور دہشت گردی (یعنی فلسطینی جہاد) کو ترک کرنے سے کم کوئی اور بات قابلِ قبول اور قابلِ عمل نہیں ہوگی۔ ان مکرر ارشادات عالیہ اور گذشتہ تقریباً پون صدی کے حقائق‘ ’سب سے پہلے مشرق وسطیٰ‘ کی وحی مستور کی جھلک دکھانے کے لیے کافی ہیں۔

ویسے اُمت مسلمہ ہی نہیں خود امریکی اور صہیونی بھی اب اس حقیقت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ وہ فلسطینی مجاہدین کو کچلنے میں بری طرح ناکام ہوچکے ہیں۔ وہ یہ راز سمجھنے سے قاصر ہیں کہ فلسطینیوں کے سروں کی فصل‘ جتنی کاٹتے ہیں‘ اس سے زیادہ پھر سامنے آکھڑی ہوتی ہے۔ انھیں نہیں معلوم کہ اسی سفر معراج میں جس کا آغاز مسجداقصیٰ سے ہوا تھا‘ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خالقِ کائنات نے خود اس راز کی حقیقت سے آگاہ فرما دیا تھا‘ اور پوچھنے پر بتایا تھا کہ  ’’یہ آپؐ کی اُمت کے جہاد کی فصل ہے… یہ کبھی ختم نہیں ہوگی‘ جتنی کٹے گی… اتنی ہی بڑھے گی‘‘۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ’سب سے پہلے اسرائیل ‘ کا فارمولا تیار کرنے والے ’مسلم‘ حکمران اس حقیقت پر کتنا ایمان رکھتے ہیں۔

۲۱ دسمبر ۲۰۰۶ء صومالیہ کی تاریک تاریخ میں ایک اورسیاہ باب رقم کرنے کے لیے طلوع ہوا۔ ۱۶برس کی بدترین خانہ جنگی‘ قحط سالی اور عالمی طاقتوں کی چیرہ دستیوں سے نڈھال صومالی قوم ہمسایہ ملک ایتھوپیا کی جدید ترین امریکی اسلحے سے لیس فوج کا مقابلہ نہ کرسکی۔ یوں ایک ہی ہفتے کے اندر صومالیہ کے تمام قابلِ ذکر شہر یکے بعد دیگرے کالی آندھی کے سامنے ڈھیر ہوتے چلے گئے۔ اسلامی عدلیہ یونین سے پٹ کر بھاگنے والے جنگی سردار ایتھوپیائی ٹینکوں اور امریکی طیاروں کی بم باری کی آڑ میں موگادیشو پر قبضہ جمانے میںکامیاب ہوگئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر صومالیہ میں ایسی کیا بات ہے کہ عالمی طاقت امریکا اور افریقہ کی سب سے بڑی فوجی قوت ایتھوپیا اس پکے ہوئے پھل پر اتنی بے تابی سے ٹوٹ پڑے ہیں؟

صومالیہ کے ساتھ ایتھوپیا کے کئی اسٹرے ٹیجک مفادات وابستہ ہیں۔ یہ ۴۰ کے عشرے کی بات ہے جب برطانوی سامراج شاہانہ فیاضی کا ثبوت دیتے ہوئے ہرکس و ناکس کو بڑے بڑے ارضی خطے تحفتاً پیش کر رہا تھا۔ بے وطن یہودیوں کو فلسطین کی زمین بے داموں دی جارہی تھی۔ جنت نظیر خطۂ کشمیر اور پنجاب کے ملحقہ اضلاع ہندوؤں کو عطا کیے گئے تھے۔ اسی طرح براعظم افریقہ میں قدیم بازنطینی عیسائی سلطنت کے وارث شہنشاہ حبشہ کو ارض صومال کا سب سے بہترین زرخیز اور معدنی دولت سے مالامال مسلم اکثریت کا صوبہ اوگادین عطا ہوا۔ استعماری طاقتوں کی یہی بندربانٹ آج دنیا میں تصادم اور جنگوں کا حقیقی سبب ہے۔

صوبہ اوگادین کے تنازعے پر صومالیہ اور ایتھوپیا میں دو نہایت خوف ناک جنگیں لڑی جاچکی ہیں۔ ایتھوپیا کی یہی پالیسی رہی ہے کہ صومالیہ کے عوام کی نمایندہ کوئی طاقت ور مرکزی حکومت نہ آنے پائے۔ یہ ملک خانہ جنگی کی آگ میں جلتا رہے اور اوگادین کی آزادی کے لیے کوئی مربوط اور منظم کوشش نہ ہوسکے۔

دوسری جانب اریٹیریا کی آزادی کے بعد ایتھوپیا عملاً سمندر تک رسائی سے محروم (land locked)  ملک بن گیا ہے۔ سمندر تک اس کا سب سے مختصر راستہ صرف صومالیہ سے ہوکر گزرتا ہے۔ لہٰذا صومالیہ میں دوستانہ بلکہ کٹھ پتلی حکومت کا وجود ناگزیر سمجھا گیا ہے۔ جہاں تک امریکا کا تعلق ہے‘ وہ ہمیشہ ہی سے صومالیہ پر اثرورسوخ بلکہ مستحکم قبضے کا خواہاں رہا ہے۔ اس خواہش کے پیچھے ایک تو سمندروں پر حکمرانی کی خواہش ہے۔ صومالیہ کا محل وقوع ایسا ہے کہ یہاں پر قبضہ جمائے بغیر بحیرۂ احمر کی اہم ترین سمندری گزرگاہ پر تسلط ایک خواب ہی ہوسکتا ہے۔ دوسرے‘ اسے   تیل اور دوسری قیمتی معدنیات یورینیم وغیرہ کی بھوک ہے۔ علاوہ ازیں امریکا کو موگادیشو میں کھائی ہوئی ۱۹۹۴ء کی شرم ناک شکست بھولے سے بھی نہیں بھولتی۔ واشنگٹن کے انٹرنیشنل اسٹرے ٹیجک اسٹڈی سنٹر کے صدر جان ہیمبرے اس سلسلے میں کہتے ہیں: ’’صومالیہ ہماری خارجہ پالیسی تشکیل دینے والوں کے سر پر ایک کابوس کی مانند سوار ہوکر رہ گیا ہے۔ اس کے منفی اثرات سے ہم کبھی چھٹکارا حاصل نہیں کرپائے‘‘۔ لہٰذا اب امریکا ایتھوپیا کا عملاً ساتھ دے کر اپنے شرم ناک ماضی کے داغ کو دھونا چاہتا ہے۔ اپنے سامراجی مقاصد کی تکمیل کے لیے پہلے پہل تو کمیونزم کے علَم بردار ایتھوپیا کے فوجی ڈکٹیٹر ہیل سلاسی کے مقابلے میں صومالی ڈکٹیٹر جنرل سیدبرے کی حکومت کی مدد کی گئی۔ ۱۹۷۷ء کی اوگادین جنگ میں مالی و فوجی مدد کے ذریعے جنرل سیدبرے کے ہاتھ مضبوط کیے گئے۔ پھر ۱۹۹۱ء میں سیدبرے کا تختہ اُلٹ جانے کے بعد خوراک اور امداد کی تقسیم کی آڑ میں براہ راست فوجی مداخلت کا جواز تراشا گیا‘ لیکن آفرین ہے صومالی حریت پسندوں پر‘ جنھوں نے صومالیہ کی آزادی کی خاطر امریکی سامراج کا ڈٹ کر مقابلہ کیا‘ اور ۱۹۹۴ء کا سال امریکی تاریخ کا تاریک ترین سال قرار پایا جب صومالیہ کے حریت کیش مجاہدین نے ۱۸امریکی میرین شکار کیے اور انھیں موگادیشو کی سڑکوں پر گھسیٹا۔ اس پر امریکا اپنی ساری نخوت بھول کر صومالیہ سے نکل گیا۔ اب امریکی حکمران اپنے دیرینہ خواب کی تکمیل کے لیے پھر سے نکلے ہیں لیکن ذرا ایک اور طریقے سے۔

صومالیہ کے عوام کو سبق سکھانے کی خاطر موگادیشو پر قابض جنگی سرداروں کو Alliance for the Restoraion of Hope and anti Terrorismکے نام پر جمع کیاگیا اور ان پر اسلحے اور ڈالروں کی بارش برسائی جانے لگی۔ ان جنگی سرداروں کی بے مقصد جنگ و جدل سے اُکتائے ہوئے عوام مزید خون ریزی سے بچتے ہوئے ملک و قوم کی خاطر ٹھوس اقدامات کرنا چاہتے تھے۔ ان لوگوں نے ’اسلام ہی ہمارے مسائل کا حل ہے‘ کے نعرے تلے اپنی تحریک کا آغاز کیا۔ ابتدا میں ایک قبیلے میں اور بعدازاں ہر قبیلے کی سطح پر ایک ایک اسلامی عدلیہ کا قیام عمل میں آیا۔ جہاں جہاں اسلامی عدالتوں کا قیام عمل میں آتا گیا وہ علاقے امن و امان کے حوالے سے مثالی حیثیت اختیار کرتے گئے۔ اسلامی عدلیہ کے احکامات کی تنفیذ کے لیے نوجوان رضاکار موجود تھے۔ انھی قبائلی سطح پر منظم ہونے والی اسلامی عدالتوں نے آگے چل کر ایک یونین بنا لی جسے اسلامی عدلیہ یونین کا نام دیا گیا۔ یہ یونین اپنی ساخت کے لحاظ سے وسیع البنیاد عوامی تحریک تھی جس میں جہاں سخت گیر اسلامی فکر کے حامل سلفی تھے تو صوفیا اور مشائخ بھی شامل تھے۔ صرف یہی نہیں بلکہ معاشرے کے نمایاں تجار‘ سابقہ فوجی جنرل اور دیگر مختلف میدانوں سے تعلق رکھنے والے سبھی   امن پسند عناصر موجود تھے۔ اس یونین کا آغاز اگرچہ صرف عدالتی امور نبٹانے کے لیے عمل میں  لایا گیا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور دیگر اسلامی تنظیموں کی مدد سے اس نے سماجی‘    طبی اور تعلیمی خدمات کا آغاز بھی کردیا۔ یہاں تک کہ برسرِاقتدار آنے سے قبل موگادیشو میں   تین یونی ورسٹیاں اسلامی عدلیہ یونین کے زیراہتمام کام کر رہی تھیں۔تمام تجزیہ نگار اس امر پر متفق ہیں کہ ۱۶ برس کی خانہ جنگی میں صومالی تاریخ میں اگر کوئی سنہری کارنامہ وقوع پذیر ہوا ہے تو وہ ان اسلامی عدالتوں کا قیام ہے۔

جنگی سرداروں کی چھیڑ چھاڑ کے جواب میں گذشتہ جون میں یونین کے رضاکاروں نے سخت جوابی کارروائی کی جس کے نتیجے میں نہ صرف دارالحکومت موگادیشو بلکہ جنوبی صومالیہ کا بیش تر حصہ امریکی حمایت یافتہ جنگی سرداروں کے چنگل سے آزاد ہوگیا۔ عوام نے یونین کی ان کامیابیوں کا بھرپور خیرمقدم کیا اور پورے ملک میں امن و امان پوری طرح بحال ہوگیا۔ بیش تر جنگی سردار ایتھوپیا کی پناہ میں چلے گئے۔ اب ایتھوپیا کو عبوری حکومت کی حمایت کی خاطر صومالیہ میں فوجی مداخلت کا جواز مل گیا۔ اگرچہ یہ بھیڑیے اور میمنے کی کہانی والا جواز ہی تھا لیکن چونکہ اسے امریکا کی عملی تائیدو حمایت حاصل تھی‘ لہٰذا ایتھوپیا نے صومالیہ پرحملہ کرنے میں بالکل دریغ نہ کیا۔

ایتھوپیائی فوج کوئی دو ماہ سے صومالیہ کے سرحدی علاقوں میں برسرپیکار تھی‘ تاہم کھلا فوجی حملہ ۲۱دسمبر سے شروع کیا گیا۔ فضائی بم باری اور توپ و تفنگ کا خانہ جنگیوں سے   ُچور ہونے اور اقوام متحدہ کی جانب سے اسلحے کی خرید و فروخت پر پابندی کے باعث کوئی مقابلہ ہی نہیں تھا۔ اس پر مستزاد گھر کے بھیدی‘ ملک و قوم کے غدار بھگوڑے جنگی سردار ایتھوپیائی فوج کی رہنمائی کے لیے پیش پیش تھے۔ ان سبھی جنگی سرداروں کا ماضی عوام کے قتلِ عام اور باہمی خون ریزیوں سے عبارت ہے۔ مشتے نمونہ از خروارے‘ ان سبھی جنگی مجرموں کے سرخیل عبوری حکومت کے سربراہ عبداللہ یوسف احمد کو لیا جائے تو ان کا تعارف یہ ہے کہ موصوف صومالی فوج میں کرنل رہے ہیں۔ کئی    فوجی بغاوتوں میں ان کا نمایاں ہاتھ رہا ہے۔ خانہ جنگی کے دور میں صومالیہ ہی کے ایک نیم خودمختار صوبہ پُنٹی لینڈ کے سربراہ بنے۔ اقتدار سے اس قدر پیار ہے کہ ۲۰۰۱ء میں اپنی مدت صدارت کی تکمیل پر بھی کرسیِ اقتدار کو چھوڑنا گوارا نہ کیا بلکہ اُلٹا اپنے سیاسی مخالفین کو بے دردی سے قتل کرنا شروع کیا اور اب ایتھوپیا کی فوج کے سہارے ایک بار پھر موگادیشو میں وارد ہوئے ہیں۔

اب ایتھوپیا اور امریکا کی مدد سے عبوری حکومت موگادیشو تک پہنچ تو گئی ہے لیکن اس حکومت کا وجود برسرِزمین کہیں نظر نہیں آتا۔ اس حقیقت کو امریکی بھی محسوس کررہے ہیں۔ سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے صدر کہتے ہیں: ’’عبوری حکومت بے حد کمزور ہے اور اب تک کی تمام رپورٹیں یہی بتا رہی ہیں کہ صومالی عوام اس حکومت کے ہرگز حامی نہیں ہیں‘‘۔ دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ صومالیہ کے عوام نے اپنے مقبوضہ علاقے اوگادین کی خاطر ایتھوپیا سے طویل جنگیں لڑی ہیں اور موگادیشو میں ایتھوپیائی فوجوں کو غاصب فوج کی نظر سے دیکھا جارہا ہے۔ اسی لیے امریکا اور مغربی طاقتیں لالچ اور خوف کے تمام ہتھکنڈے لیے اس بات کی کوشش کر رہی ہیں کہ کسی طرح افریقی یونین کی افواج کو صومالیہ لانے میں کامیاب ہوجائیں تاکہ ایتھوپیائی قبضے کا تاثر دُور ہوسکے۔

اس وقت تک ان کی تمام کوشش رائیگاں جاتی نظر آتی ہیں۔جنوبی افریقہ نے دانش مندی سے امریکی کھیل میں شریک ہونے سے انکار کرتے ہوئے اپنی فوجیں بھیجنے سے انکار کیا ہے۔ ۸ہزار امن فوج میں یوگنڈا اور برونڈی جیسے ممالک سے صرف ۴ہزار فوج کا انتظام ہوسکا ہے۔

اگلا مرحلہ یہ بتایا گیا ہے کہ موگادیشو کو اسلحے سے پاک شہر بنایا جائے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس شہر کو امریکا اور ایتھوپیا اپنی کھلی جارحیت سے اسلحے سے پاک شہر بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکے تو کیا افریقی یونین کی کمزور سی آدھی فوج یہ معرکہ سرانجام دینے میں کامیاب ہوسکے گی؟ حالات اس کی نفی کر رہے ہیں۔ موگادیشو میں تقریباً روزانہ مسلم حریت پسندوں اور ایتھوپیائی فوجوں کے درمیان مسلح جھڑپیں ہورہی ہیں۔ نظر یہی آرہا ہے کہ صومالیہ کے عوام اپنی آزادی کو  رہن رکھنے کے لیے ہرگزتیار نہیں ہیں اور غاصب فوجوں کی بڑھتی ہوئی مزاحمت صومالیہ کے    عزمِ آزادی پر دلالت کر رہی ہے۔

دسمبر ۱۹۷۱ء میں جب بھارتی فوج کی مدد سے بنگلہ دیش کی صورت میں مشرقی پاکستان الگ ہوا توعوامی لیگ کی حکومت نے بھارتی احسان مندی کے طور پر ریاست و سیاست اور  معیشت و معاشرت کو بھارت کے ہاتھ گروی رکھنے کے راستے کا انتخاب کیا۔ یہ اگست ۱۹۷۵ء کی بات ہے جب شیخ مجیب الرحمن بھارت سے اس معاہدے پر دستخط کرنے کی تیاری کر رہا تھا کہ  بنگلہ دیش کی تجارت بھارت کے ذریعے ہو‘ بنگلہ دیش کی فوج عملاً ایک پولیس فورس ہو جو محض اپنے عوام پر کنٹرول کے لیے حکومت کا ہاتھ بٹائے‘ جب کہ دفاع کی ذمہ داری بھارتی فوج کے پاس ہو۔ ان  نکات پر مبنی معاہدے کی دستاویز پر دستخط کے لیے ۱۴ اگست کو ڈھاکہ یونی ورسٹی میں اسٹیج سجایا گیا تھا۔ عوامی لیگ کی تمام لیڈرشپ کو اکٹھا کیا گیا تاکہ تقریب میں شرکت کرے لیکن محب ِ وطن فوج اور عوام کو یہ منظور نہ تھا اوروہ اس غلامی کے لیے تیار نہ تھے۔ ۱۵ اگست ۱۹۷۵ء کو یہ تقریب منعقد ہونا تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۵ اگست کو سحری کے وقت شیخ مجیب الرحمن‘ ان کے اہلِ خانہ اور عوامی لیگ کی دیگر قیادت کو فوج نے عوامی تائید و حمایت سے ختم کردیا۔حسینہ واجد اس وقت    ملک سے باہر تھیں‘ اس لیے وہ بچ گئیں اور خوندکر مشتاق کی سربراہی میں حکومت نے بنگلہ دیش کی  عنانِ حکومت سنبھال لی۔ درحقیقت یہی دو رویے بنگلہ دیش کی پوری سیاست پر حاوی ہیں۔

۲۰ اکتوبر ۲۰۰۶ء کو خالدہ ضیا اور جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی مخلوط حکومت نے اپنی مدت پوری کرنے کے بعد صدر کو استعفا پیش کیا۔ جوں ہی دستوری تقاضے کے مطابق نگراں حکومت کی تشکیل کا مرحلہ پیش آیا تو انھی شیخ مجیب کی بیٹی حسینہ واجد (عوامی لیگ) نے اپنے سیاسی نقطۂ نظر کے مطابق ہنگامہ آرائی کا خونیں ڈراما رچانا شروع کردیا۔

وزیراعظم خالدہ ضیا نے ان تمام ہنگاموں کے باوجود آئینی مدت ختم ہوتے ہی تمام اختیارات صدر ایاز الدین کو سونپ دیے۔ دستور کے مطابق نگران حکومت کا سربراہ ریٹائرڈ جسٹس کے ایم حسن کو بننا تھا‘ مگر عوامی لیگ نے اس کی شدت سے مخالفت کی اور مطالبہ کیا کہ ان کو سربراہ نہ بنایا جائے۔ عوامی لیگ نے اس مطالبے کو منوانے کے لیے سارے ملک میں مظاہرے کروائے۔ مختلف شہروں کا محاصرہ کیا‘ ڈھاکہ کو گھیرے میں لے لیا‘ ۳۶‘ ۳۶ گھنٹے پہیہ جام ہڑتال کی‘ گھیرائو اور جلائو کی سیاست کی۔ عوامی لیگ کی اس جارحیت کے نتیجے میں ۲۴ افراد مارے گئے (جن میں ۱۳افراد کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے اور باقی کا بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی سے ہے) اور ایک ہزار زخمی ہوئے۔ بنگلہ دیش اس پورے عرصے میں سیاسی غیریقینی کی صورتِ حال سے دوچار رہا۔

چار بڑی پارٹیز الائنس کی سربراہ خالدہ ضیا نے صدر سے درخواست کی کہ اس سیاسی تعطل کو ختم کر کے انتخابی عمل جلد شروع کیا جائے۔ بالآخر کے ایم حسن نے خود ہی نگران حکومت کی سربراہی سے معذرت کرلی اور صدرایازالدین نے نگران حکومت کے سربراہ کے طور پر خود حلف اٹھایا۔

عوامی لیگ نے صدر کی حلف برداری کی تقریب کا بائیکاٹ کیا لیکن اس تقریب میں باقی تمام پارٹیاں اور فوج کے سربراہان شامل ہوئے۔ اس بائیکاٹ کے ساتھ ہی عوامی لیگ نے   ۱۱نکاتی چارٹر حکومت کو پیش کردیا جس میں سرفہرست چیف الیکشن کمشنر کو ہٹانے کا مطالبہ تھا۔ آج کل انھی ۱۱نکات کی بنیاد پر بنگلہ دیش میں عوامی لیگ نے ہنگامہ برپا کر رکھا ہے۔ سیاسی مخالفین کو     مارا جارہا ہے۔ انتظامی مشینری اس ٹکرائو کے نتیجے میں معطل ہوکر رہ گئی ہے۔ صدرایازالدین نے جو نگران حکومت کے سربراہ بھی ہیں‘ صورتِ حال کی بہتری کے لیے عوامی لیگ کے کئی مطالبات تسلیم کرلیے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر کو ہٹادیا گیا ہے‘ تمام کنٹریکٹ ملازمین کو ملازمت سے برخاست کردیا گیا ہے اور اہم عہدوں پر فائز بہت سے افسروں کو اوایس ڈی بنادیا گیا ہے۔ الیکشن کے شیڈول میں تبدیلی کردی گئی ہے۔ منتخب حلقوں کی انتخابی فہرست کی ازسرنو چیکنگ کی ہدایت کی گئی ہے لیکن عوامی لیگ ان تمام تر اقدامات کے باوجود الیکشن پر آمادہ نہیں۔ کبھی وہ صدر کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کررہی ہے‘ کبھی الیکشن کمیشن کے ازسرنو تعین کا مطالبہ کر رہی ہے‘ اور کبھی تمام انتخابی عملے کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔

محب وطن عوام‘ انتظامی مشینری اور فوج پر یہ عیاں ہوتا جا رہا ہے کہ عوامی لیگ الیکشن سے فرار چاہتی ہے اور وہ اس کے لیے کچھ بھی کرنے کے لیے تیار ہے۔ وہ شیخ مجیب کے قتل کا بدلہ لینا چاہتی ہے اور بھارت کی سرپرستی میں بنگلہ دیش کی فوج اور عوام کا ٹکرائو چاہتی ہے۔

صدر ایاز الدین نے فوج کو سول انتظامیہ کی مدد کے لیے طلب کرلیا ہے۔ سڑکوں پر فوج کا گشت ہے۔ بنگلہ دیش کے تمام شہر امن و امان کے پیش نظر فوج کے کنٹرول میں ہیں۔ اگرچہ فوج نے ابھی تک کوئی سرگرمی نہیں دکھائی‘ لیکن فوج کے ماضی کے کردار کی وجہ سے عوامی لیگ اور اس کے تمام اتحادی پریشان ہیں۔ انتخابی مہم ابھی تک شروع نہیں ہوئی ہے البتہ امن و امان کی   صورتِ حال اب بہتر ہے۔ اسلام دشمن‘ بھارت اور یہود نواز لابی کے زیراثر میڈیا نے عوامی لیگ کو بڑھاچڑھا کر پیش کیا ہے۔ لیکن صاف نظر آرہا ہے کہ عوامی لیگ اور اس کے اتحادی الیکشن سے  فرار کا راستہ تلاش کر رہے ہیں۔ ۱۸ دسمبر کے جلسے میں جو پلٹن میدان میں ہوا‘ عوامی لیگ کی سربراہ   حسینہ واجد نے بائیکاٹ کا نعرہ لگایا ہے۔

عوام اس صورتِ حال سے پریشان ہیں۔ بھارت اور عوامی لیگ گٹھ جوڑ نے ہمیشہ محب وطن لوگوں کو اضطراب میں مبتلا کیا ہے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ پچھلے دنوں وہاں امریکی سفیرکافی سرگرم نظر آئے۔ امریکا کے اسسٹنٹ سیکرٹری آف اسٹیٹ رچرڈ بائوچر انھی دنوں بنگلہ دیش کا دورہ کرچکے ہیں۔اس صورتِ حال میں مغرب کی پروردہ این جی اوز عوامی لیگ کے حق میں پروپیگنڈے کے لیے مرکزی کردار ادا کر رہی ہیں۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک دم ایسا لاوا کیوں بہہ نکلا؟ اس کا سادا سا جواب یہ ہے کہ اس فضا کو بنانے کے لیے گذشتہ ڈیڑھ برس سے دینی طبقے کے خلاف لوگوں کو اُبھارنے کے لیے بیرونی ایجنسیوں نے دھماکوں کا افسانہ تراشا اور پھر اسلام کے خلاف مہم کو ایک رخ دیا۔ جماعت اسلامی اور خالدہ ضیا کی مخلوط حکومت کی کارکردگی کا اعتراف عوامی سطح پر پایا جاتا ہے‘ جس میں انھوں نے معاشی استحکام کو یقینی بنانے کے زبردست اقدامات کیے۔ بنگلہ دیش کے امیرجماعت مطیع الرحمن نظامی نے بلدیات اور دیہی ترقی کے وزیر‘ اور جنرل سیکرٹری علی احسن مجاہد نے سوشل ویلفیئر کے  وزیر کی حیثیت سے جو نیک نامی کمائی‘ اس نے بھارت اور مغرب کے زیراثر قوتوں کو پریشان کردیا کہ اس طرح یہ لوگ فی الواقع ایک آزاد بنگلہ دیش کے استحکام کی جانب بڑھیں گے۔ اس چیز کو روکنے کے لیے انھوں نے اپنے آلۂ کار حلیفوں کو ایک بالکل بے معنی ایشو پر لڑنے اور مرنے کے لیے اُبھارا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس وقت خالدہ ضیا کی مخلوط حکومت اقتدار میں نہیں ہے‘ تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ عوامی لیگ کو اپوزیشن کن معنوں میں کہا جا رہا ہے؟ دوسری بات یہ ہے کہ عوامی لیگ کیوں جماعت اسلامی اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP‘ خالدہ ضیا) کے کارکنوں کو قتل کرنے اور ان کی املاک کو لوٹنے اور جلانے کے درپے ہے؟

اگر پورے منظرنامے کو دیکھا جائے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ بنگلہ دیش کو دو واضح قوتوں میں تقسیم کرکے خانہ جنگی کی آگ میں دھکیلنے کی جانب قدم بڑھایا جا رہا ہے‘ جس طرح بیروت‘ افغانستان یا عراق! کیوںکہ یہی وہ منظر ہے جس میں مسلمانوں کو بدنام کر کے‘ ان کے ملک پر کنٹرول حاصل کرنے کے شیطانی منصوبے پر عمل ہوسکتا ہے۔

کیا آیندہ انتخابات میں عوامی لیگ جیتے گی؟عوامی لیگ کا بلاشبہہ بنیادی مقصد انتخابات جیتنا ہی ہے لیکن اس پر یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ وہ پُرامن ماحول میں یقینا یہ الیکشن ہارے گی۔ اسی پیش بندی کے لیے وہ دہشت کی ایک ایسی فضا قائم کرنے کی جانب گام زن ہے کہ اسلام اور   بنگلہ دیش کی آزادی کو برقرار رکھنے کی حامی قوتیں اور ووٹر خوف زدہ ہوکر نہ تو الیکشن مہم میں پوری طرح اُتر سکیں اور نہ پولنگ کے روز ووٹ دینے کے لیے باہر نکل سکیں۔ اس کے بالمقابل وہ ہندو اقلیت کے مجتمع ووٹروں اور اپنے حامیوں کوایک جارحانہ فضامیں پولنگ اسٹیشن پر لاکر الیکشن جیت جائیں۔

عوامی لیگ جانتی ہے کہ بی این پی اور اسلامی قوتوں کا اتحاد عوامی تائید سے ان کے ہرحربے کو ناکام بنانے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے‘ اور انتخاب ہونے کی صورت میں اس کا پورا امکان ہے کہ اسلامی قوتیں پوری قوت سے باہر آکر انتخاب کے روز عوامی لیگ کی گولی کا جواب ووٹ کے ذریعے دیں۔

عراق میں امریکی ہزیمت پر مرثیہ خوانی کرتے ہوئے‘ بیکر ہملٹن رپورٹ میں کئی     عملی تجاویز دی گئی ہیں۔ ۶ دسمبر ۲۰۰۶ء کو جاری ہونے والی اس رپورٹ پر امریکی قوم ہی کی نہیں‘ پوری دنیا کی نظریں لگی تھیں۔ معروف سابق وزیرخارجہ جیمز بیکر اور اپوزیشن ڈیموکریٹک پارٹی کے لی ہملٹن کی سربراہی میں دونوں پارٹیوں کے پانچ پانچ افراد کی پیش کردہ رپورٹ پر گویا پوری امریکی قوم کا اجماع ہے۔ عراق کے حوالے سے اس میں انتہائی اہم امور کا اعتراف اور نشان دہی کی گئی ہے۔ اس رپورٹ پر جو لے دے اسرائیل میں ہورہی ہے وہ آج کی فلسطینی صورتِ حال پر روشنی ڈالتی ہے۔ بیکر ہملٹن نے لکھا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں امریکا کو درپیش بحران کا حقیقی حل عرب اسرائیل تنازعہ ختم کروانے میں مضمر ہے۔ یہ تجویز دراصل ایک اعترافِ حقیقت ہے اور اس کا سبب امریکا کی ہمہ گیر اسرائیل نوازی کی وجہ سے پورے عالمِ اسلام میں امریکا سے بڑھتی ہوئی نفرت و عداوت ہے۔

اس امریکی اعترافِ حقیقت پر تنقید کرتے ہوئے اسرائیلی وزیرخارجہ تسیبی لفنی اور دیگر افراد نے جیمز بیکر کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ ’’اسے معلوم ہونا چاہیے کہ مشرق وسطیٰ اب وہ نہیں رہا جو اس بڈھے وزیرخارجہ کے دور میں ہوا کرتا تھا‘‘۔ لیکن اس تنقید پر خود اسرائیلی تجزیہ نگاروں نے بھی کارپردازان حکومت کا مذاق اڑایا ہے۔ بڑے صہیونی روزنامے ہآرٹز کا معروف تجزیہ نگار شلوموبن عامی لکھتا ہے: ’’یہ لوگ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ مشرق وسطیٰ اب واقعی وہ نہیں رہا۔ اب یہاں روز بروز توانا ہوتی ہوئی ریڈیکل اسلامی لہر ہے۔ اب یہاں شیعہ امپائر ایٹمی اسلحے کے حصول کی طرف تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے اور ممکن ہے کہ مصر اور سعودی عرب جیسے ممالک بھی اسی راہ پر جانکلیں۔ اب شام کھلم کھلا دہشت گرد تنظیموں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ اسلامی تشدد پسند اپوزیشن  اب فلسطینی اتھارٹی میں شامل ہے۔ لبنان میں بھی ان اسلامیان کی حیثیت سب کو معلوم ہے۔ علاقے میں امریکی تسلط کے خاتمے کے ساتھ ہی امریکی حلیف حکمرانوں کا اقتدار خطرے میں ہے۔ ان تمام امور نے مشرق وسطیٰ کو بیکر کے زمانے سے بھی کہیں زیادہ پُرخطر بنا دیا ہے۔ اب اسرائیل کا اپنے پڑوسیوں کے ساتھ امن قائم کرنا پہلے سے کئی گنا زیادہ ضروری ہوگیا ہے… اب اسرائیل کا اپنے پڑوسی ملکوں سے تنازعہ صرف قومی تنازعہ نہیں رہا بلکہ اب اس تنازعے پر دینی اور ثقافتی رنگ غالب ہے جس سے یہ پہلے سے کہیں زیادہ خطرناک اور سنگین ہوگیا ہے‘‘۔ (ہآرٹز‘ ۱۸ دسمبر)

۱۶ دسمبر کو فلسطینی صدر محمود عباس (ابومازن) کی طرف سے تقریباً ۹ ماہ قبل تشکیل پانے والی فلسطینی حکومت اور پارلیمنٹ ختم کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے نئے انتخابات کا اعلان اسی     صہیونی خوف کو ختم کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔ صہیونی تجزیہ نگار لکھ رہے ہیں کہ یا تو حماس حکومت کو آغاز ہی میں مفلوج کرتے ہوئے نئے انتخابات کروا دینا چاہییں تھے یا پھر نتائج    تسلیم کرتے ہوئے اس سے نباہ کرنا چاہیے تھا اور ایک نئے فلسطینی شریک کی حیثیت سے معاملات طے کرنا چاہییں تھے۔ لیکن اسرائیلی حکومت نے دونوں میں سے کوئی بھی پالیسی واضح طور پر نہیں اپنائی۔ اب بالآخر محمود عباس کے ذریعے پہلی تجویز پر عمل درآمد شروع ہوگیا۔ نئے انتخابات کے اعلان سے پہلے ہر طرف یہی تاثر تھا کہ الفتح اور حماس کے مابین قومی حکومت کی تشکیل پر      اتفاق راے طے پا گیا ہے۔ الفتح نے اسماعیل ھنیّہ کے بجاے حماس ہی سے نئے وزیراعظم کا نام پیش کیا جسے حماس نے قبول کرلیا۔ لیکن فلسطینی وزیرخارجہ محمود الزھار کے بقول: محمودعباس نے بندکمرے میں امریکی وزیرخارجہ کونڈولیزا سے ملاقات کی اور باہر نکل کر اعلان کردیا کہ قومی حکومت کی تشکیل کے سلسلے میں جاری مذاکرات بندگلی میں پہنچ کر دم توڑ گئے ہیں‘‘۔

اپنی ڈیڑھ گھنٹے کی تقریر میں ابومازن نے حماس حکومت کے خلاف جو چارج شیٹ لگائی اس میں اقتصادی حصار کے باعث معاشی مشکلات کے علاوہ کرپشن کا بھی ذکر تھا۔ اس الزام پر حماس نے نہیں عام افراد نے حیرت کا اظہار کیا کہ حماس حکومت کا طرئہ امتیاز ہی کرپشن اور     لوٹ کھسوٹ کا خاتمہ کرنا اور سابق حکمرانوں کے خوف ناک مالی اسیکنڈل بے نقاب کرنا ہے۔ وزیرمنصوبہ بندی کے بقول حماس کی دیانت اور کفایت کے باعث حکومت کے انتظامی امور پر  اُٹھنے والے اخراجات ۲۱ کروڑ سے کم ہوکر صرف ۶ کروڑ ۶۰لاکھ ڈالر رہ گئے ہیں۔

حماس نے اس چارج شیٹ کے جواب میں کہا کہ ہماری حکومت پر کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کا الزام لگانے سے فلسطینی عوام کی نظروں میں فلسطینی صدر کی پوری تقریر بے معنی ہوکر    رہ گئی۔ رہے نئے انتخابات‘ تو ابھی ایک سال سے کم عرصے قبل انتخابات میں فلسطینی عوام نے اپنی بھرپور رائے کا اظہار کیا ہے۔ اگر دوبارہ انتخابات کروائے گئے توہمیں یقین ہے کہ حماس کو پہلے سے زیادہ بھرپور عوامی تائید حاصل ہوگی۔ کیا ایسی صورت میں تیسری دفعہ انتخاب کی بات کی جائے گی۔ وزیراعظم اسماعیل ھنیّہ‘ پارلیمنٹ کے اسپیکر اور حماس کے ذمہ داران ہی نے نہیں‘ سات جہادی تنظیموں نے مشترکہ طور پر نئے انتخابات کی تجویز مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہم کسی بھی صورت اس غیرآئینی اور غیراخلاقی اعلان پر عمل درآمد نہیں ہونے دیں گے۔ گذشتہ پارلیمنٹ تو ۱۰سال تک چلائی گئی اور اب بھاری عوامی تائید سے منتخب ایوان چند ماہ سے زیادہ برداشت نہیں کیا جا رہا ہے۔

اس اعلان کا اصل خمیازہ فلسطینی قوم کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ صدارتی مسلح فورسز سڑکوں پر آنے سے وزارتِ داخلہ نے صورتِ حال سنبھالنے کی کوشش کی اور غزہ کی سڑکوں پر فلسطینی تاریخ کے بدترین سیاہ صفحات رقم کیے گئے۔ مسلح فلسطینی نوجوان ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھے‘ دسیوں افراد زخمی ہوگئے۔ اب تک تین شہید ہوگئے۔ ساتھ ہی ساتھ صہیونی افواج کے ہاتھوں بھی قتل عام جاری رہا لیکن اپنے ہی ہم وطنوں کے ہاتھوں شہید ہونے والوں کا غم کہیں بڑھ کر ہے۔ اس  صورتِ حال کا مستقبل کیا ہوگا؟ صہیونی تجزیہ نگار خود کیا کہتے ہیں؟ معروف دانش ور ڈینی روبنسٹائن ہآرٹز میں لکھتا ہے: ’’حماس اور الفتح کے درمیان خانہ جنگی اب ایک طے شدہ حقیقت ہے۔ ۱۹۸۲ء اور ۱۹۸۳ء کی لبنان میں فلسطینی جھڑپوں کے بعد سے لے کر اب تک یہ صورت دوبارہ پیدا نہیں ہوسکی تھی۔ اب یہ تنازعہ صرف مسلح جھڑپوں ہی سے نہیں دونوں کے ایک دوسرے پر الزامات اور سخت رویے سے بھی واضح ہے‘‘۔ روبنسٹائن اعتراف کرتا ہے کہ اس تنازعے میں الفتح کی حیثیت بے حدکمزور ہے۔ ایک تو اندرونی خلفشار اور مالی بدعنوانیوں کے طومار اور دوسری طرف فلسطینی عوام کی تائید سے محرومی‘ آپ غزہ کی سڑکوں پر جاکر پوچھیںآپ کو بڑی تعداد میں ایسے لوگ ملیں گے جو اعتراف کرتے ہیں کہ وہ الفتح سے پیسے لیتے ہیں لیکن ’’ہم ووٹ حماس کو دیں گے‘‘۔ وہ اپنے تجزیے کا اختتام اپنے اس جملے پر کرتا ہے کہ ’’اگر اسرائیلی حکومت میں سیاسی سطح پر کوئی بڑی تبدیلی  نہ لائی تو الفتح اور ابومازن کے لیے کامیابی کا ادنیٰ امکان نہیں‘‘۔

حماس کے ذمہ داران کی اصل پریشانی خانہ جنگی کے امکانات سے ہے۔ وزیراعظم ھنیّہ نے ۲۰ دسمبر کی شب قوم سے خطاب کرتے ہوئے الفتح اور حماس کے نوجوانوں سے براہِ راست اپیل کی کہ وہ اس سازش کا شکار نہ ہوں۔ انھوں نے کہا: ’’الفتح اور حماس کے میرے جوانو!   ہمارا اصل محاذ جنگ یہ نہیں ہے‘ ہمارا مشترکہ دشمن ایک ہی ہے‘‘۔ اس اپیل کا اثر فلسطینی ہی نہیں ہرمسلم نوجوان قبول کرتا ہے۔ فلسطین کا بچہ بچہ یہ جانتا ہے کہ حماس حکومت کواصل سزا اس بات کی دی جارہی ہے کہ اس نے اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ وہ جہاد ترک کرنے سے انکاری ہے۔ وہ فلسطین سے باہر موجود لاکھوں مہاجرین کے حق واپسی سے دست برداری خیانت گردانتی ہے۔ یہ تینوں مطالبات ہرفلسطینی شہری کے دل کی آواز ہیں۔اس لیے وزیرخارجہ محمودالزھار نے کہا ہے کہ ہم عوام کی راے سے منتخب ایوان کا خون نہیں ہونے دیں گے حالاں کہ ہمیں یقین ہے کہ انتخابات ہوئے تو حماس پہلے سے بڑھ کر کامیابی حاصل کرے گی کیوںکہ ہم عوام سے یہ نہیں پوچھیں گے کہ روٹی چاہیے یا نہیں۔ ہمارا سوال پہلے بھی یہی تھا اور اب بھی یہی ہوگا کہ کیا  ہم اسرائیل کا ناجائز وجود تسلیم کرلیں؟ اور اس سوال کا واضح جواب خود محمود عباس کو بھی معلوم ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اس فیصلہ کن سوال کا دوٹوک جواب جاننے کے باوجود محمودعباس انھی احکام پرعمل درآمد کرنے پر تلے ہوئے ہیں جو کونڈولیزا نے دہشت گردی کی عالمی تکون کی طرف سے انھیں پہنچائے۔ امریکا‘ برطانیہ اور اسرائیل نے محمودعباس کی تائید اور اپنی بھرپور مدد کا اعلان کیا ہے۔

 

جو کچھ بھارت نواز عوامی لیگ نے ڈھاکہ کی سڑکوں پر کیا ہے‘ کسی اسلامی تحریک یا مذہبی جماعت نے کیا ہوتا تو پوری دنیا میں نہ تھمنے والا پروپیگنڈا شروع ہوچکا ہوتا۔ درندگی‘ سفاکیت‘  وحشی پن سب الفاظ اس کے سامنے ہیچ ہیں۔ اس کی جو وڈیو ریکارڈنگ ہم تک پہنچی ہے اس کی چند جھلکیاں دیکھنے کے لیے بھی بڑا دل گردہ چاہیے۔ اگرچہ انسانی جان کا قتل بے حد سنگین جرم ہے پھر بھی روزانہ ہزاروں انسان قتل ہوتے اور دوسرے اس قتل کی خبر پاتے ہیں‘ لیکن جو قتل عام اکتوبر کے آخری ہفتے ڈھاکہ کی سڑکوں پر ہوا‘ خدا وہ دن دوبارہ کسی ملک و قوم کو نہ دکھائے۔ معاملہ کیا تھا؟ صرف یہ کہ بنگلہ دیشی دستور کے تحت عام انتخابات سے قبل جو عبوری حکومت سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس کی سربراہی میں بننی ہے ہمیں اس کا سربراہ منظور نہیں۔ پھر عوامی لیگ کے کارکن تھے‘ خنجر‘ بھالے‘ لٹھ اور آہنی سلاخیں تھیں اور اپنے ہی بھائی بندوں کا قتل عام تھا۔

اگرچہ بنگلہ دیش میں جمہوری روایات پاکستان سے زیادہ مستحکم ہورہی ہیں۔ الیکشن بھی وقت پر ہورہے ہیں۔ عبوری حکومت کا فارمولا بھی اتفاق راے سے نافذ ہے۔ لیکن بھارتی مقتدر قوتیں بنگلہ دیش میں اپنے نفوذ و تسلط کو کسی صورت کم یا ثانوی ہوتے نہیں دیکھ سکتیں۔ شیخ مجیب کی صاحبزادی اور ان کی پارٹی کی اصل پہچان ہی بھارت نوازی ہے‘ اس لیے گذشتہ انتخابات میں شکست کے بعد سے مسلسل دونوں مضطرب ہیں کہ کیسے واپسی ہو‘کیسے دوسری کسی بھی حکومت کو مفلوج و ناکام بنایا جائے۔

خالدہ ضیا حکومت کے پانچ برس کوئی سنہری دور تو نہیں تھے‘ لیکن میں نے اندرون و بیرون ملک رہنے والے جس بنگالی بھائی سے بھی پوچھا اس نے ’’پہلے سے اچھا ہے‘‘ کہہ کر نسبتاً اطمینان کا اظہار کیا۔ خاص طور پر جماعت اسلامی کے امیر اور سیکرٹری جنرل کی دو وزارتوں کی کارکردگی سب سے نمایاں اور استثنائی رہی۔ خالدہ ضیا اپنی کابینہ میں دوسرے وزرا کو بھی ان دونوں کی پیروی کی تلقین کرتی رہیں۔ لیکن الزامات اور بھارت نواز ذرائع ابلاغ کبھی تو بنگلہ دیش میں طالبنائزیشن کی دہائی دیتے رہے‘ کبھی القاعدہ سے ڈانڈے ملاتے رہے اور کبھی ہڑتالوں اور مظاہروں سے زندگی مفلوج کرنے کی سعی کرتے رہے۔

اب ایک بار پھر انتخابات کا معرکہ ہے۔ خالدہ ضیا کا چار جماعتی اتحاد اپنی سابقہ کارکردگی اور حسینہ شیخ روایتی ہتھکنڈوں اور بیرونی سرپرستی کے ساتھ میدان میں ہیں۔ لیکن اصل مقابلہ پیسے‘ پروپیگنڈے‘ بیرونی نفوذ اور کارکنان کی جفاکشی میں ہے۔ جو بھی ہو‘ نتائج جنوری میں سامنے آجائیں گے۔

بات شروع ہوئی تھی عبوری حکومت کی سربراہی پر اختلاف کے نتیجے میں عوامی لیگ کی  قتل و غارت سے‘ کہ اس وحشی پن کا جو ذکر عالمی ذرائع ابلاغ میں ہوا ہے اصل حقائق کا عشرعشیر بھی نہیں تھا۔ ادھر غزہ سمیت فلسطین کے دیگر علاقوں میں صہیونی جارحیت بھی حسب معمول جاری ہے۔ نومبر کے آغاز میں صرف ایک ہفتے میں ۶۵ سے زائد افراد شہید کردیے گئے۔ بیت حانون کے ایک محلے پر بم باری کرکے دسیوں افراد شہید کردیے گئے جن میں سے ۱۳ ایک ہی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور ان میں سے سات معصوم بچے تھے۔ ساتھ ہی ساتھ فلسطین میں بھی نئی حکومت کی تشکیل کا عمل جاری ہے۔ صہیونیت نواز عالمی ذرائع ابلاغ نہ تو اس قتل عام کی صحیح عکاسی کر رہے ہیں اور نہ حماس کی اس سیاسی بصیرت و قربانی کی کہ پارلیمنٹ میں دو تہائی سے زائد اکثریت رکھنے کے باوجود وہ وسیع تر حکومت بنانے پر مصر ہے۔

وسط نومبر میں حماس کے سربراہ خالد المشعل سے فون پر اور لبنان میں ان کے خصوصی نمایندے اسامہ حمدان سے بالمشافہ تفصیلی گفتگو ہوئی۔ دونوں نے بتایا کہ ہم تو اپنی جیت کے فوراً بعد سے قومی حکومت کی تشکیل پر اصرار کر رہے تھے‘ لیکن تب ہماری پیش کش قبول نہ کی گئی۔ کچھ لوگ اور عالمی قوتیں چاہتی تھیں کہ ہماری حکومت اور فلسطینی عوام کا حصار کرکے ہمیں ناکام کردیا جائے۔ حماس کی حکومت ختم ہوگی تو دنیا بھر میں واویلا کیاجائے گا‘ دیکھا ناکام ہوگئے‘ اسلامی تحریکیں حکومت چلا ہی نہیں سکتیں۔ اس ضمن میں ہمارا اقتصادی بائیکاٹ کیا گیا۔ ہم نے کہا امداد نہیںدینا‘ نہ دیں  ہم اُمت سے اپیل کرکے خود ہی وسائل مہیا کرلیتے ہیں‘ لیکن ہماری جمع کردہ رقوم بھی فلسطینی عوام تک پہنچنے نہ دی گئیں۔ کئی ملکوں میں ہمارے اکائونٹس منجمد کردیے گئے اور پھر بالآخر الفتح تحریک کے مسلح گروہوں اور صدر محمودعباس کی سیکورٹی فورسز کے دستوں کو سڑکوں پر لے آیا گیا اور ملازمین کو تنخواہ نہ ملنے کا بہانہ بناکر خانہ جنگی شروع کرنے کی کوشش کی گئی‘ لیکن بالآخر سب تدبیریں الٹی ہوگئیں اور عوام حماس کی تائید میں مزید یکسو ہوگئے۔ رمضان کے وسط میں جب باہم لڑائی کا خدشہ اورالزامات کا طوفان شدید تھا‘ وزیراعظم اسماعیل ھنیّہ نے ایک جلسۂ عام کا اعلان کیا‘ بغیر کسی سرکاری انتظام کے‘ لاکھوں لوگوں نے جمع ہوکر ان کا مؤقف سنا اور اعلان کیا کہ ’’ہمارا مسئلہ صرف روٹی نہیں‘ وہ تو کتوں کو بھی مل جاتی ہے‘‘۔

عوام کو حماس حکومت سے متنفر کرنے کی کوششوں کے ساتھ ہی ساتھ ایوان صدر نے     یہ دھمکی بھی دی کہ حماس کی حکومت یا پارلیمنٹ معطل کردی جائے گی‘ لیکن اس کے لیے عملاً کوئی راستہ نہیں تھا۔ الفتح نے خود بیرونی سرپرستوں کے تعاون سے جو قانون سازی کی تھی‘ اس کے مطابق اگر حکومت توڑی جاتی ہے تو ایک عبوری حکومت فوراً بنانا پڑتی جس کی توثیق پارلیمنٹ سے ضروری تھی اور پارلیمنٹ میں حماس ہے۔ اور اگر پارلیمنٹ توڑی جاتی‘ تو نئے الیکشن ضروری تھے‘ جب کہ ہر سروے رپورٹ یہ رہی تھی کہ اس صورت حال میں انتخابات ہوئے تو حماس پہلے سے بھی زیادہ ووٹ حاصل کرسکتی ہے۔ کیونکہ چند ماہ کی حکومت میںاس نے ثابت کیا ہے کہ وہ غیرمعمولی طور پر   امانت دار‘ فعال اور باصلاحیت حکومت ہے۔ اگر عوام بھوکے ہوتے ہیں تووزیراعظم خود بھی بھوکا ہوتا ہے۔ اس نے آج تک کوئی الائونس یا تنخواہ نہیں لی کیونکہ اس کے عوام کو پوری تنخواہیں نہیں مل رہیں۔ عوام یہ بھی جانتے ہیں کہ چند ماہ کی حکومت نے گذشتہ حکمرانوں کے کتنے بڑے بڑے اسیکنڈل بے نقاب کیے ہیں۔ جب فلسطینی عوام دشمن کی بم باری کی زد میں ہوتے تھے‘ ان کے حکمران دشمن سے کیا کیا گٹھ جوڑ کر رہے ہوتے تھے۔ اور یہ بھی کہ تمام تر پابندیوں کے باوجود جو سامانِ ضرورت (خاص طور پر پٹرول) جب مقبوضہ فلسطین پہنچتا تھا تو کس کس وزیر کا کتنا کتنا کمیشن اس میں شامل ہوتا تھا۔

اس صورت حال میں الفتح اور صدر محمود عباس کے سامنے اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہ بچاتھا کہ وہ یا تو اسی طرح تناؤ اور حصار باقی رہنے دے ‘ یا حماس کی قومی حکومت والی تجویز قبول کرلے۔ پہلی صورت میں یہ خطرہ برقرار رہتا کہ مزید عوام حماس کے گرد جمع ہوجائیں جو امریکی‘ صہیونی اور فلسطینی ایوانِ صدر کی سازشوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس لیے بالآخر قومی حکومت کا  کڑوا گھونٹ برداشت کرلیا گیا۔ حماس کی اکلوتی شرط یہ ہے کہ قومی حکومت بنے تو اس ضمانت پر کہ اس کے بعد فلسطین کا اقتصادی حصار ختم کردیا جائے گا‘ جب کہ ایوان صدر مختلف شرطیں عائد کر رہا ہے‘ مثلاً اسماعیل ھنیّہ جیسا دبنگ لیڈر اس کاسربراہ نہیں ہوگا‘ یا یہ کہ فلاں فلاں وزارت ہمیں ملے گی خاص طور پر وزارتِ خارجہ۔ حماس نے ان کی یہ شرائط تسلیم کرلی ہیں۔ غزہ میں حماس کی قائم کردہ اسلامی یونی ورسٹی کے سابق سربراہ محمد شبیر شاید نئی حکومت کے سربراہ ہوں۔ وزارتیں پارلیمنٹ میں پارٹی حیثیت کے مطابق تقسیم ہوں گی‘ فلسطینی عوام کے روکے گئے فنڈ واپس مل جائیں اور اقتصادی حصار جزوی طور پر ختم ہوجائے گا۔

امریکا نے پہلے قومی حکومت کی تجویز کو مسترد کردیا تھا۔ صدربش اور اس کی وزیر کونڈالیزارائس نے اس کے خلاف بیان بھی دے دیے‘ لیکن پھر کئی صہیونی تجزیہ نگاروں کی اس رائے سے اتفاق کرنا پڑا کہ اگر کوئی بھی راستہ باقی نہ بچا تو جہادی کارروائیوں میں مزید تیزی آجائے گی۔ حماس کی قیادت کو اطمینان ہے کہ جو راستہ بھی ملے گا ہم اپنی منزل سے قریب تر ہوں گے۔ اسرائیل کے ناجائز وجود کو نہ پہلے کوئی دبائو ہم سے تسلیم کروا سکا ہے‘ نہ آیندہ کروا سکے گا۔ جہاد و انتفاضہ سے    ہم نہ پہلے دست بردار ہوئے ہیں نہ آیندہ کوئی دست بردار کروا سکے گا۔ عزالدین قسام بریگیڈ نے خودساختہ راکٹوں سے صہیونی آبادیوں اور کئی ذمہ داروں کے گھروں کو نشانہ بنا کے پیغام دیا ہے کہ ہمیں تکلیف پہنچے گی تو تم بھی محفوظ نہ رہو گے۔ ہماری سرزمین مقبوضہ رہے گی تو جہادِ آزادی بھی  اپنی منزلیں کامیابی سے طے کرتا رہے گا۔

خلیجی ریاستوں میں صرف کویت اور بحرین ہی دو ریاستیں ایسی ہیں جہاں پارلیمنٹ قائم ہے اور باقاعدہ انتخابات ہوتے ہیں۔ ان دونوں میں بھی کویتی پارلیمنٹ زیادہ مستحکم‘ جان دار‘   قدیم اور خودمختار ہے۔ اگرچہ یہاں بھی فیصلہ کن اختیارات امیر اور آلِ صباح خاندان کے پاس ہیں۔ معمول کے مطابق کویت کے عام انتخابات ۲۰۰۷ء کے اوائل میں متوقع تھے لیکن پارلیمنٹ اور کابینہ میں دستوری اصلاحات کے حوالے سے اختلافات اتنے گمبھیر ہوگئے کہ امیر نے اسمبلی توڑ دی اور فوری انتخابات کروانے کا اعلان کردیا۔

ان اختلافات کے دوران ہی اسلامی ذہن رکھنے والے اور اصلاح پسند ارکان کا ۲۹ رکنی گروپ سامنے آیا اور ۵۰ رکنی ایوان میں اپوزیشن کی تعداد حکومتی ارکان سے بڑھ گئی۔ انتخابات میں بھی اس پورے گروپ کو کامیابی حاصل ہوئی اور ان کی تعداد ۲۹ سے بڑھ کر ۳۵ ہوگئی جن میں  سے ۱۸اسلامی ذہن رکھنے والے ہیں۔ ان ۱۸ میں سے نو ‘گویا نصف الحرکۃ الاستوریۃ‘ یعنی  اخوان المسلمون سے ہیں‘ دو کا تعلق ایک سلفی تحریک سے‘ دیگر دو کا تعلق ایک دوسرے سلفی گروپ سے‘  چھے شیعہ تحریک سے وابستہ ہیں‘ جب کہ چھے آزاد ہیں (دستوری تحریک کے نام سے چھے ارکان منتخب ہوئے‘ جب کہ ان کے تین ارکان آزاد حیثیت سے جیتے)۔ کل انتخابی حلقے ۲۵ تھے‘ جب کہ ہر حلقے سے دو امیدوار منتخب ہوئے ہیں۔ کل امیدوار ۲۲۵ تھے اور خواتین امیدواران کی تعداد ۲۷تھی۔

انتخابات پر تبصرہ کرتے ہوئے خود ارکان اسمبلی نے اعتراف کیا ہے کہ ان کی جیت کے پیچھے نصرتِ خداوندی کے بعد سب سے زیادہ عمل دخل باہمی مفاہمت اور تعاون کا ہے۔ سب اسلامی عناصر نے ایک دوسرے کے ووٹ تقسیم کرنے کے بجاے ایک دوسرے کا ساتھ دیا اور سب نے اس کے ثمرات سمیٹے۔

کویتی انتخابات میں سب سے بڑا چیلنج پیسے کا استعمال تھا۔ لوگ کھلم کھلا ووٹوں کی     خرید و فروخت کرتے تھے۔ بعض علاقوں میں ووٹ کی قیمت بینروں پر آویزاں کردی جاتی تھی۔ ایک اندازے کے مطابق اس چھوٹی سی پارلیمنٹ کے انتخابات میں کم از کم ایک ارب ڈالر لگ جاتے تھے‘ یعنی ۶۰ ارب روپے سے بھی زیادہ‘ جب کہ کویت میں ووٹروں کی کل تعداد  ۳ لاکھ ۴۰ ہزار ہے۔ اس بار کویت کی تاریخ میں پہلی بار خواتین کو بھی ووٹ کا حق حاصل تھا اور ان کی تعداد ایک لاکھ ۹۵ہزار‘ یعنی نصف سے بھی زائد تھی (کل آبادی کا ۵۷ فی صد)۔    کئی خواتین نے امیدوار کی حیثیت سے بھی انتخاب میں حصہ لیا لیکن ان میں سے کوئی بھی رکن منتخب نہ ہوسکی۔

انتخابات کے بعد حکومت کو ایک بار پھر انھی چیلنجوں کا سامنا ہے جن کی بنیاد پر پارلیمنٹ تحلیل کی گئی تھی۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ دستوری ترامیم‘ انتخابی اصلاحات‘ پارلیمانی اکثریت رکھنے والوں کو تشکیل حکومت کا حق دینے کے علاوہ مختلف حکومتی اداروں میں مالی اور معاشرے میں اخلاقی کرپشن کا علاج جیسے مسائل آیندہ پارلیمنٹ کا اصل امتحان ہوں گے۔

ترکی‘ مراکش‘ الجزائر‘مصر اور فلسطین کے بعد اب کویت میں اسلامی نظام کے علم برداروں کی جیت اُمت کے اصل انتخاب و پسند کا واضح اعلان ہے۔ کویت جہاں عراق کے قبضے کے خاتمے کے بعد امریکی تسلط کا راز اب راز نہیں رہا‘ جہاں دینی مدارس میں پروان چڑھنے والی نسلوں کی کوئی  فصل نہیں پائی جاتی‘ جہاں معاشی مسئلہ کوئی بحرانی حیثیت نہیں رکھتا‘ جہاں تعلیم کے تناسب میں مسلسل اور تیز تر اضافہ ہوا ہے__ اسی کویت نے بھی اعلان کردیا ہے کہ مستقبل یقینا اسلام اور حقیقی اسلام کا ہے!

سوڈان کے مغربی علاقے ’دارفور میں نسل کشی‘ روکنے کے نام پر اچانک امریکا میںباقاعدہ مہم شروع ہوگئی ہے۔ اپریل کے آخر میں واشنگٹن میں ’دارفور بچائو‘ مظاہرہ کیا گیا۔ بار بار کہا جا رہا ہے کہ ’کچھ نہ کچھ‘ کیا جانا چاہیے۔ ’انسانیت دوست طاقتوں‘ اور امریکی امن دستوں کو فوری طور پر  نسل کشی روکنے کے لیے پہنچنا چاہیے۔ اقوام متحدہ یا ناٹو کی افواج نسل کشی روکنے کے لیے استعمال کی جانا چاہییں۔ امریکی حکومت کی ’اخلاقی ذمہ داری‘ ہے کہ دوسرا ہولوکاسٹ نہ ہونے دے۔   ذرائع ابلاغ اجتماعی عصمت دری کی کہانیوں اور پریشان حال مہاجرین کی تصویروں سے بھرے ہوئے ہیں۔ الزام یہ ہے کہ حکومت سوڈان کی پشت پناہی سے عرب ملیشیا ہزاروں لاکھوں افریقیوں کو قتل کر رہی ہیں۔ جنگ مخالف مظاہروں میں بھی نعرے لگائے جا رہے ہیں کہ عراق سے نکلو‘  دارفور جائو۔ نیویارک ٹائمز میں پورے پورے صفحے کے اشتہاروں میں یہی کچھ کہا جا رہا ہے۔

اس مہم کے پیچھے کون ہیں اور وہ کیا چاہتے ہیں؟ جائزے سے پتا چلتا ہے کہ عیسائی مذہبی تنظیمیں اور بڑے بڑے صہیونی گروپ اس کے پیچھے ہیں۔ اپریل کے مظاہروں کے لیے جو اشتہار نیویارک ٹائمز میں شائع ہوا وہ ۱۶۴ تنظیموں کا مشترکہ اشتہار تھا جس میں صہیونی تنظیموں کے علاوہ وہ سب تنظیمیں شامل تھیں جو بش انتظامیہ کے عراق پر حملے کی زبردست حامی تھیں۔ سوڈان سن رائز  (Sudan Sunrise)نے مقررین کا اور جلسوں کا انتظام کیا‘ فنڈ جمع کیے اور ۶۰۰ افرادکو  عشائیہ دیا۔ مظاہرے سے پہلے منتظمین کی صدربش سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے منتظمین کا شکریہ ادا کیا۔ مظاہرے میں ایک لاکھ افراد کی شرکت متوقع تھی‘ صرف ۵/۷ ہزار آئے لیکن ذرائع ابلاغ نے فراخ دلی سے اسے ہزاروں کہا۔ کم تعداد کے باوجود میڈیا میں اس کی بڑی بڑی خبریں دی گئیں۔ ایک دن پہلے کے ۳لاکھ افراد کے جنگ مخالف مظاہرے کے مقابلے میںاس کی خبریں زیادہ نمایاں دی گئیں۔ سارا زور اس پر ہے کہ دارفور بچانے کے لیے مداخلت کی جائے۔

ان مظاہروں سے امریکا کی سامراجی پالیسی کے کئی مقاصد حاصل ہوتے ہیں۔ اس سے عرب اور مسلمان مزید بدنام ہوتے ہیں۔ امریکا لاکھوں عراقیوں کو قتل اور معذور کر رہاہے اور فلسطینیوں کے خلاف جنگ میں اسرائیل کی جو حمایت کر رہاہے‘ اس سے توجہ ہٹ جاتی ہے۔

سوڈان میں امریکا کی اتنی زیادہ دل چسپی کی وجہ کیا ہے؟ یقین کیا جاتا ہے کہ سوڈان میں سعودی عرب کے برابر تیل کے ذخائر موجود ہیں۔ اس کے علاوہ گیس‘ یورینیم اور تانبے کے ذخائر بھی بڑے پیمانے پر موجود ہیں۔

سعودی عرب کے برعکس سوڈان نے امریکا سے آزاد موقف اختیار کیا۔ چین نے سوڈان سے تیل کی ٹکنالوجی میں تعاون کیا ہے اور اس سے بیش تر تیل خرید رہا ہے۔ امریکا کی کوشش ہے کہ سوڈان اپنے قیمتی ذخائر کو ترقی نہ دے سکے۔

امریکا کی کوشش ہے کہ پابندیوں کے ذریعے اور مختلف تنازعات میںالجھا کر سوڈان کو تیل برآمد کرنے سے روکے۔ جنوب میں آزادی کی تحریکوں کی دو عشروں تک حمایت کی۔     ایک معاہدے کے بعد وہاں سکون ہوا‘ تو دارفور کا مسئلہ شروع کردیا گیا۔

امریکی میڈیا دارفور کے مسئلے کو اس طرح بیان کرتے ہیں جیساکہ سوڈانی حکومت کی حمایت سے عرب افریقیوں پر مظالم کر رہے ہیں۔ یہ حقائق کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ دارفور کے سارے باشندے خواہ انھیں عرب کہا جائے یا افریقی‘ سیاہ فام ہیں‘ مقامی ہیں‘ سب عربی بولتے ہیں‘ سب سنی مسلمان ہیں۔ چراگاہوں اور پانی کے چشموں کی ملکیت پر شروع ہونے والے جھگڑے  اس قدر پھیل چکے ہیں کہ ہزاروں خاندان نقل مکانی پر مجبور ہوگئے۔ قبائلی جھگڑے بڑھانے میں پڑوسی ممالک بھی کردار ادا کرتے ہیں۔ (سارا فلائونڈرز‘ ریسرچ اسکالر‘ سنٹرفار ریسرچ آن گلوبلائزیشن کی رپورٹ سے ماخوذ)

گذشتہ ماہ صومالیہ کی شرعی عدالتوں کے اتحاد نے امریکا نواز جنگجوئوں کو ان کے گڑھ جوہر اور مھدیٰ سے نکال باہر کیا اور اس طرح ۱۵ برس سے جاری خانہ جنگی اپنے اختتام کو پہنچی۔

صومالیہ براعظم افریقہ کے عین مشرق میں انتہائی اسٹرے ٹیجک اہمیت کا حامل ملک ہے۔ خلیجِ عدن اور نہرسویز کے ذریعے بحیرۂ احمر کو بحرہند سے ملانے والی عظیم بحری تجارتی گزرگاہ پر واقع صومالیہ ۱۰۰ فی صد راسخ العقیدہ مسلمانوں کا ملک ہے۔ اس کے دیگر ہمسایوں میں ایتھوپیا‘ کینیا اور جیبوتی شامل ہیں۔ اپنے منفرد محل وقوع کی بنا پر تاریخ کے مختلف اَدوار میں استعماری طاقتوں کا اکھاڑا بنا رہا۔ اس کے ایک حصے پر اگر برطانیہ قابض تھا تو دوسرے پر اطالیہ براجمان۔ تیسرا حصہ جیبوتی فرانسیسی استعمار کی چیرہ دستیوں کا شکار رہا اور اب عرصے سے امریکا للچائی ہوئی نظروں سے سرزمینِ صومالیہ کی طرف دیکھ رہا ہے۔

اس غریب افریقی ملک کو ۱۹۶۰ء میںبرطانیہ اور اطالیہ کے پنجۂ استبداد سے رہائی نصیب ہوئی۔ ۱۹۶۱ء میں آئین نافذ ہوا لیکن آٹھ برس ہی گزرے تھے کہ فوجی آمریت کا شکار ہوگیا۔ ۱۹۶۹ء میں ایک خونی انقلاب کے دوران ملک کے صدر علی شرمارکے قتل کردیے گئے اور   جنرل سیدبرے اقتدار پر قابض ہوگئے۔ سوشلسٹ رجحانات کے حامل جنرل برے پہلے تو روس کے زیراثررہے اور بعدازاں ایتھوپیا کے خلاف جنگی امداد حاصل کرنے کے لیے امریکی کیمپ میں جابیٹھے۔ امریکا جو عرصے سے صومالیہ کے یورینیم‘ خام لوہے‘ تیل اور دیگر قیمتی معدنیات پر نظریں جمائے بیٹھا تھا‘ فوراً مدد پر آمادہ ہوگیا اور چند ڈالروں کی فوجی امداد کے عوض اس نے صومالیہ میں تیل کی تلاش‘ یورینیم کے ذخائر اور بربیرہ کی مشہور بندرگاہ اور ہوائی اڈے پر تصرف کے حقوق حاصل کرلیے۔

یہیں سے جنرل کے زوال کا آغاز ہوا جو بالآخر فوج کے اندر پھوٹ پڑنے اور خانہ جنگی کا آغاز ہونے پر منتج ہوا‘اور ۱۹۹۱ء میں جنرل سیدبرے کو اقتدار چھوڑ کر راہِ فرار اختیار کرنا پڑی۔ اب صومالیہ جنرل فرح عدید اور علی مہدی کی باہم برسرِپیکار ملیشیا کے رحم و کرم پر تھا۔ ۱۹۹۲ء میں امریکا اپنے ریاستی مفادات کی حفاظت کے لیے خود میدان میں کود پڑا۔ واضح رہے کہ پاک فوج بھی اس کارخیر میں حصہ لینے کے لیے کیل کانٹے سے لیس صومالیہ میں موجود تھی۔

صومالیہ میں امریکی افواج کے آتے ہی نئے استعمار کے خلاف باقاعدہ عوامی مزاحمت کا آغاز ہوگیا۔ ۳ اکتوبر ۱۹۹۳ء امریکی تاریخ کا سیاہ ترین دن بن کر طلوع ہوا جب صومالی گوریلوں نے ایک امریکی بلیک ہاک ہیلی کاپٹر گرا لیا اور امریکی فوجی تفاخر کی علامت ۱۸ مرینز قتل کر کے مقدیشو کی سڑکوں پر گھسیٹے۔ عوامی جذبات کا بروقت اندازہ کرتے ہی امریکا بہادر اپنے خواب اور عزائم ادھورے چھوڑ کر صومالیہ سے بھاگ کھڑا ہوا۔

امریکا کے جاتے ہی خانہ جنگی کو اور بڑھاوا ملا‘ حتیٰ کہ امریکا مخالف مزاحمت کی نمایاں ترین علامت جنرل فرح عدید بھی ۱۹۹۶ء میں اسی خانہ جنگی کی نذر ہوکر راہیِ ملکِ عدم ہوگئے۔ بڑے کمانڈروں کے ہٹتے ہی ملک مختلف الخیال‘ مفاد پرست چھوٹے چھوٹے کمانڈروں کے زیرسایہ انتہائی ابتری کی حالت میں خانہ جنگی کا شکار رہا۔ اپنے زیرقبضہ علاقوں میں جگہ جگہ بیریر لگائے رکھنا‘ عوام کی جابجا تلاشی‘ ہرگزرگاہ پر بھاری رشوتیں اور امن و امان کی قطعی نایابی‘ طوائف الملوکی کی عمومی صفات ہوا کرتی ہیں اور یہی سب کچھ مقدیشو کا مقدر ٹھیرا۔ ایک اندازے کے مطابق یہ نام نہاد فوجی کمانڈر‘ تجار اور عام شہریوں سے سالانہ ۱۰۰ ملین ڈالر بٹورا کرتے تھے۔

صومالیہ میں براہِ راست قبضہ جمانے میں ناکامی کے بعد امریکا نے علاقے کے لیے   نئی پالیسی تشکیل دی جس کا مرکزی ہدف عسکری قوت استعمال کیے بغیر صومالیہ کو اپنے زیرتسلط لانا تھا۔ اس مقصد کے لیے شمالی اتحاد کی طرز پر خانہ جنگی میں مصروف وار لارڈز کا ایک اتحاد تشکیل دیا گیا اور اس اتحاد کو بھرپور مالی معاونت فراہم کی جانے لگی۔ اطلاعات کے مطابق اس فرنٹ کو اب تک براہِ راست ۸۰ ملین ڈالر کی امداد مل چکی تھی۔ جائزہ لیں تو مذکورہ فوجی کمانڈروں کی امریکا نوازی اظہر من الشمس ہے۔ اس اتحاد کے رکنِ رکین عبداللہ احمد عدو سابق فوجی افسر اور واشنگٹن میں صومالی سفیر کی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ یہ کسی بھی نئے حکومتی سیٹ اَپ کے لیے مغرب کے انتہائی پسندیدہ نمایندے قرار دیے جاتے تھے۔ حسین عدید اپنے مقتول والد کے جانشین تھے۔ موصوف امریکی شہریت کے حامل تھے اور انھیں موجودہ عراقی جنگ میں بطور میرنیز امریکی چاکری کا اعزاز بھی حاصل تھا۔ نیم خودمختار علاقے بونٹی لینڈ کے سربراہ عبداللہ یوسف بھی واشنگٹن کے قریبی اتحادیوں میں شمار کیے جاتے تھے۔ فرنٹ کے دیگر دو اراکین عبدالنور احمد درمان اور رشید محمد ھوری بھی اپنی امریکا نوازی کی وجہ سے بدنام تھے۔

اکتوبر ۱۹۹۳ء کے واقعے کے بعد اور عراق اور افغانستان میں پھنسے ہونے کی بنا پر امریکا کی اوّلین ترجیح تو یہی تھی کہ براہِ راست فوجی مداخلت سے بچتے ہوئے کسی طرح مذکورہ جنگی کمانڈروں کو صومالی عوام کی گردنوں پر مسلط کیا جاسکے لیکن یہ حکمت عملی عملاً ناکام ہوکر رہ گئی۔

ملک کی ابتر صورت حال کو ریاستی اداروں بالخصوص عدلیہ کی کسی بھی سطح پر عدم موجودگی بھیانک تر بنا رہی تھی۔ اپنوں ہی کی چیرہ دستیوں کا شکار مظلوم عوام اپنے آپ کو بالکل بے دست و پا محسوس کر رہے تھے کہ علما کی جانب سے تشکیل دی جانے والی عدالتوں کی صورت میں انھیں امیدونجات کی ایک صورت دکھائی دی۔

ابتدائی طور پر شرعی عدالت کا قیام ۱۹۹۷ء میں ایک قبائلی جھگڑے کو نبٹانے کی خاطر عمل میں آیا تھا۔ پھر دیکھا دیکھی مقدیشو میں موجود تمام قبائل کے اندر اپنے اپنے قبیلے کے لیے شرعی عدالت کے قیام کا تصور مقبول ہونا شروع ہوا۔ جن علاقوں میں یہ عدالتیں قائم ہوتی گئیں وہاں امن و امان کی صورت حال بتدریج بہتر ہوتی چلی گئی۔ قتل اور لوٹ مار کے واقعات میں نمایاں کمی ہوئی۔ جہاں کہیں اس قسم کی واردات ہوتی قبیلے کے جوانوں پر مشتمل شرعی عدالت کی اپنی فورس عدالت کے احکامات کی تنفیذ کے لیے حرکت میں آجاتی۔

۲۰۰۵ء میں مختلف قبائل میں قائم شرعی عدالتوں پر مشتمل ایک یونین تشکیل پائی۔ ایک نوجوان عالمِ دین شیخ شریف شیخ احمد اس کے سربراہ قرار پائے۔ اتحاد کے نتیجے میں ایک طرف ان عدالتوں کے اثرونفوذ میں اضافہ ہوا تو دوسری طرف ان کے فیصلوں میں یک رنگی دکھائی دینے لگی۔

عامۃ الناس میں شرعی عدالتوں کی وقعت اور ان عدالتوں کی سربراہی مجلس کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ یہاںتک کہ گذشتہ فروری میں دارالحکومت پر قابض مختلف جنگجوئوں نے ان عدالتوں کے احکامات کی تنفیذ میں روڑے اٹکانے کی کوشش کی تو عامۃ الناس نے ازخود شہر کی تمام بڑی بڑی شاہراہوں پر شرعی عدالتوں کے اتحاد کے حق میں رکاوٹیں کھڑی کر دیں اور عوام عدالتی احکامات کی تنفیذ کے لیے مسلح ہوکر سڑکوں پر نکل آئے۔ جنگجو ملیشیاؤں کے ساتھ ایک مسلح تصادم میں طرفین کے ۲۰۰ کے قریب افراد جاں بحق ہوئے لیکن بالآخر شرعی عدالتوں کے اتحاد کودو ہفتے بیش تر دارالحکومت مقدیشو پر مکمل کنٹرول حاصل ہوگیا۔

گذشتہ ماہ جنگجو ملیشیاؤں کے آخری مضبوط گڑھ جوہر اور مھدیٰ پر قبضے کے بعد اگرچہ شرعی عدالتوں کے اتحاد کو پورے صومالیہ پر کنٹرول حاصل ہوچکا ہے‘ تاہم نوزائیدہ اسلامی انتظام کو ابھی بہت سے بیرونی و اندرونی چیلنجوں سے عہدہ برآ ہونا ہے۔ تاحال امریکی رویہ بے حد جارحانہ ہے۔ مقدیشو پراسلام پسندوں کے قبضے کے فوراً ہی بعد صدربش نے وہائٹ ہائوس میں پریس کانفرنس کے دوران واضح کیا کہ وہ صومالیہ کو دہشت گردوں کی محفوظ جنت کبھی نہیں بننے دیں گے۔ غالب گمان یہی ہے کہ امریکا ماضی کی غلطی سے اجتناب کرتے ہوئے اس مرتبہ ایتھوپیا کی پیٹھ تھپتھپائے گا تاکہ وہ صومالیہ پر فوج کشی کرے۔ اس پر اتحاد کے سربراہ شیخ شریف شیخ احمد نے امریکا کو متنبہ کیا کہ صومالیہ افغانستان نہیں ہے اور نہ امریکا ہی موہوم دہشت گردوں کے تعاقب میں سابقہ غلطی کو دہرائے۔

دوسری طرف اسلامی شرعی عدالتوں کے اتحاد میں ابھی تک تمام قبائل کی مؤثر نمایندگی نہیں ہے۔ انھیں کسی بھی ممکنہ بیرونی جارحیت سے نبردآزما ہونے کے لیے اپنی صفوں میں وسعت پیدا کرنی پڑے گی۔اغلب گمان یہی ہے کہ صومالی عوام برسوں بعد ملنے والے امن کو کسی قیمت پر بھی قربان کرنا پسند نہ کریں گے اور ہر طرح کے اندرونی و بیرونی چیلنجوں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔

کابل میں قاتلانہ حملے میں بچ جانے کے بعد جناب صبغت اللہ مجددی نے فرمایا: مجھ پر یہ حملہ پاکستان نے کروایا تھا۔ ہم اپنے دشمن کو بخوبی جانتے پہچانتے ہیں۔ ہم اسے دشمنی کا مزا چکھائیں گے۔ یہ وہی صبغت اللہ مجددی ہیں جنھیں سب سے کمزور تنظیم کا سربراہ ہونے کے باوجود ۱۹۹۴ء میں معاہدۂ پشاور کے تحت پاکستان نے امریکا کے اشارے پر عبوری صدر مقرر کروایا تھا۔ یوں گلبدین حکمت یار اور احمدشاہ مسعود کو اقتدار سے محروم اور باہم متصادم کرکے‘ غیرمستحکم افغانستان کی بنیاد رکھی گئی اور پاکستان کو بھی جہاد کے ثمرات سے محروم کردیا گیا۔

مجددی صاحب کی پارٹی کے ایک کارکن حامدکرزئی‘ جنھیں امریکا نے افغان صدارت سونپ رکھی ہے‘ انکشاف کرتے ہیں: ہمیں تین ماہ پہلے اطلاعات ملی تھیں کہ پاکستان نے مجھے اور دیگر افغان لیڈروں کو قتل کرنے کے لیے خودکش حملہ آور افغانستان بھیجے ہیں۔ پاکستان طالبان کو منظم کررہا ہے اور طالبان القاعدہ سے مل کر افغانستان میں دہشت گردی پھیلا رہے ہیں۔ پاکستان کو یہ سودا مہنگا پڑے گا…

پاکستان نے سوویت جارحیت کے بعد مسلسل قربانیاں دیں۔ اب بھی اس نے لاکھوں افغان بھائیوں کے لیے اپنا دامن وا کیا ہوا ہے۔ آج بھی افغان عوام کی اکثریت پاکستان کو     اپنا دوسرا گھر سمجھتی ہے لیکن افغانستان کے سیاسی و عسکری ڈھانچے میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔ وہ تمام سابق مجاہدین لیڈر جو پاکستان کو اپنا بڑا بھائی اور سرپرست سمجھتے تھے ایک ایک کر کے پاکستانی حکمرانوں سے شدید ناراض ہوچکے ہیں۔ ان کا کمزور ترین فرد بھی پاکستان کو اپنا دشمن قرار دے رہا ہے۔ ان رہنمائوں کو ناراض‘ کمزور‘ بلکہ ختم کرنے کے لیے جن طالبان پہ تکیہ کیا گیا تھا‘ انھیں بھی بالآخر امریکا کی غلامی کی نذر کردیا گیا۔

اس صورت حال سے امریکا اور حلیف قوتیں جو فوائد حاصل کرنا چاہتی ہیں وہ اپنی جگہ اہم ہیں‘ لیکن خود بھارت بھی تیزی سے وہاں اپنے پنجے گاڑ رہا ہے۔ پاکستان کی مشرقی سرحدوں کے ساتھ ساتھ مغربی سرحدوں کی طرف سے بھی دبائو بڑھانا بھارت کی دیرینہ خواہش رہی ہے۔ سوویت قبضے کے دوران اس کے لیے کیا کیا پاپڑ نہ بیلے گئے۔ اس سے پہلے سردار دائود کے ساتھ اس نے معاہدہ کیا کہ وہ افغان خفیہ ایجنسیوں اور افواج کے افسران کو بھارت لے جاکر تربیت دے گا۔ جہاد اور پھرخانہ جنگی کے طویل ادوار کے بعد اب فوجی و جاسوسی تربیت کا یہ ٹوٹا سلسلہ پھر سے جڑچکا ہے۔ خود افغانستان کے تقریباً ہر صوبے میں بھارت اپنا وجود یقینی بنانے کی سعی کر رہا ہے۔ جلال آباد اور قندھار میں قونصل خانے کھولنا تو معمول کا سفارتی عمل دکھائی دیتا ہے‘ ایسے دسیوں دفاتر ‘ مشاورتی ادارے‘ تجارتی و تعمیراتی کمپنیوں کے نمایندے بٹھا دیے گئے ہیں جو اعلان شدہ سرگرمیوں سے زیادہ غیرعلانیہ سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ امریکی سرپرستی میں ثقافتی یلغار پہلے سے کئی گنا زیادہ سفاک ہوچکی ہے۔ بھارتی اداکارائوں کے جہازی پوسٹر‘ فلموں کے اشتہارات اور گانوں کے بول‘ آنکھیں اور کان بند کر کے بھی دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں۔

امریکا دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ میں اصل محاذ میدان جنگ کو نہیں‘ ثقافت اور تعلیم کوقرار دیتا ہے۔ بھارت اس ’روشن خیالی‘ میں اسے تمام مطلوبہ ایندھن فراہم کر رہا ہے۔ کابل سے آنے والے ایک دوست بتا رہے تھے کہ کسی کو لقمہ ملے یا نہ ملے‘ ٹی وی سے دسیوں عالمی چینل مفت دیکھنے کو ملتے ہیں جن میں سے کئی مجرد فحاشی پر مبنی ہیں۔ بھارتی حکومت کے اعلان کے مطابق وہ صرف سال ۲۰۰۶ء میں افغان عوام کو موسیقی اور ثقافتی تربیت پر ۶ لاکھ ڈالر (۳کروڑ ۶۰ لاکھ روپے) صرف کرے گی۔ فلمی دنیا اور ’ثقافتی تجارت‘ کرنے والے سرمایہ کاروں کا پیسہ اس کے علاوہ ہے۔ بھارتی حکومت نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ وہ اس سال افغانستان سے ۵۰۰ اساتذہ اور ۵۰۰ طلبہ کو اعلیٰ تعلیم کے لیے اپنے ہاں لے کر جائے گی تاکہ انھیں تعلیم کے ساتھ ہی ساتھ اپنی ثقافت اور ترجیحات کا سبق بھی دے سکے۔ بھارت کا افغانستان میں قدم جمانا دونوں ممالک کا باہمی معاملہ قرار دے کر نظرانداز بھی کیا جاسکتا ہے‘ لیکن اس پورے عمل سے پاکستان کی سلامتی کو درپیش خطرات سے آنکھیں بند کرنا گذشتہ قومی جرائم سے کہیں بڑا جرم اور سانحہ ہوگا۔

امریکی ذمہ داران نے بارہا بیان دیا ہے کہ وہ یہاں ہمیشہ رہنے کے لیے نہیں آئے‘ وہ افغانوں کو نظام و تربیت دے کر چلے جائیں گے۔ لیکن اب دنیا جانتی ہے کہ امریکا افغانستان میں اپنے مستقل فوجی اڈے تعمیر کررہا ہے۔ ان اڈوں کے لیے چنے گئے علاقوں پر ذرا غور فرمایئے: کابل‘ بلخ‘ ہرات‘پکتیکا‘ خوست‘ قندھار۔ ان میں سے ہرات کا امریکی فوجی اڈا ایرانی سرحد سے تقریباً ۳۰کلومیٹر کی مسافت پر ہے‘ جب کہ آخری تینوں اڈے پاکستانی سرحدوں پر واقع ہیں۔ اس وقت افغانستان میں تقریباً ۲۰ہزار امریکی فوجی ہیں۔ ان میں اور دیگر اتحادی افواج میں کتنے اسرائیلی ‘ یہودی یا اسرائیل نواز ہیں‘ کوئی نہیں جانتا۔ امریکا نے ۱۳فروری ۲۰۰۵ء کو اعلان کیا تھا کہ وہ افغانوں کی مدد کے لیے ۱۴ اسرائیلی جنگی ہیلی کاپٹر خریدے گا‘ یعنی کہ ہیلی کاپٹر تو آنا ہی ہیں ان کی قیمت افغانوں کے نام پر لی جانے والی امداد سے چکائی جائے گی۔ یہ اور دیگر اسرائیلی مصنوعات لانے اور ان کی تربیت دینے کے لیے اسرائیلی ماہرین درکار ہوں گے۔ ان کھلے اور چھپے اسرائیلی عناصر کا بھارت کے ساتھ کیا اور کیسا تعلق و تعاون رہے گا‘ یہ جاننے کے لیے غیرمعمولی ذہانت کی ضرورت نہیں۔ دونوں فطری حلیف پاکستان کے ایٹمی پروگرام ہی نہیں پاکستان کے وجود سے ناخوش ہیں۔ یہاں افغان وزیرخزانہ انور الحق کا یہ بیان بھی ذہن میں رہے کہ افغانستان کو دی جانے والی ایک ارب ڈالر کے قریب رقم امداد نہیں‘ قرضوں پر مشتمل ہے۔ یہ قرضے بھی اسی طرح کے اسلحے کے سودوں اور باہر سے آنے والے مشیروں کی تنخواہوں پر اڑائے جارہے ہیں اور افغانستان جو تاریخ میں کبھی مقروض نہیں ہوا‘ اب قرضوں کی زنجیروں میں جکڑا جاچکا ہے۔

امریکا کے فوجی قبضے میں تڑپتاافغانستان ہر روز نئے سے نئے بحران کا شکار ہوتا ہے۔ امریکی افواج نے بگرام اور دیگر کئی مقامات پر اپنے غیرعلانیہ قیدخانے قائم کر رکھے ہیں‘ جہاں صرف افغانستان ہی سے نہیں ‘پرویز مشرف کے ہاتھوں پکڑے گئے قیدیوں کوبھی ہربنیادی حق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ امریکی سیاسی تجزیہ نگار ٹم گولڈ (Tim Gold)کی رپورٹ کے مطابق کابل کے شمال میں ۴۰ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع بگرام کے امریکی اڈے کی جیل میں قیدیوں کے ساتھ گوانتانامو سے بھی زیادہ ظالمانہ سلوک برتا جاتا ہے۔ گوانتانامو کا کچھ ذکر امریکی عدالتوں میں آجانے کے بعد اب بش انتظامیہ نے فیصلہ کیاہے کہ زیادہ قیدی بگرام ہی میں رکھے جائیں۔ یہاں ۶۰۰ کے قریب قیدیوں پر توڑی جانے والی قیامت سے کوئی آگاہ نہیں ہے۔

اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کے ادارے نے ایک مصری نژاد شریف بسیونی کو افغانستان میں اپنا نمایندہ بناکر بھیجا ہوا تھا۔ ۴فروری ۲۰۰۶ء کو امریکا نے بسیونی کو واپس بھجوا دیا کہ اب ان کی ضرورت نہیں رہی۔ واپسی کا سبب صرف یہ ہے کہ امریکا اپنے قیدیوں سے روا رکھے جانے والے سلوک کا شاہد کسی کو نہیں بننے دینا چاہتا۔ یہ الگ بات ہے کہ زبانِ خنجر چپ کروا دیے جانے کے باوجود‘ آستیں کا لہو پکارپکار کر امریکی و عالمی اقوام کو اپنی بے گناہی کی دہائی دے رہا ہے۔

افغانستان میں ہمہ پہلوتباہی کا ایک اور سنگین پہلو وہاں افیون اور منشیات کے جِنّ کا دوبارہ بوتل سے نکل آنا ہے۔ اس وقت افیون و منشیات کی عالمی پیداوار کا ۹۰فی صد افغانستان میں پیدا ہوتا ہے۔ بلخ کے ایک کسان نے بی بی سی کے نمایندے سے کہا کہ: ’’مقامی پولیس کا سربراہ ان کی منشیات کی پیداوار سے اپنا حصہ زبردستی لے لیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اپنی کاشت جاری رکھنا چاہتے ہو تو ہر گھر مجھے جمع شدہ افیون میں سے ایک کلو بھتہ دیا کرے‘‘۔

قتل وغارت کا بازار الگ گرم ہے۔ افغان وزارت داخلہ کی رپورٹ کے مطابق   گذشتہ برس مارے جانے والوں کی تعداد ۱۵۰۰ سے متجاوز ہے۔ افغان پولیس اگر افیون کے بھتے پر لگی ہو‘ افغان فوج تمام تر کوششوں کے باوجود مطلوبہ تعداد اور تربیت حاصل نہ کرسکی ہو‘ اور امریکی افواج‘ افغانستان کے امن و استحکام سے زیادہ اپنے طے شدہ اہداف اور دُور رس مقاصد کے لیے وقف ہوں‘ اور صدربش حامدکرزئی کے لرزتے ہونٹوں سے ادا ہوتے مطالبات کو یکسر مسترد کردے اور کہے کہ افغانستان کے لیے واشنگٹن کا اپنا ایک نقطۂ نظر اور اسٹرے ٹیجی ہے اور امریکی افواج صرف امریکی قیادت ہی میں کام کریں گی‘ حتیٰ کہ وہ افواج بھی جو خود کرزئی انتظامیہ کی حفاظت پر معمور ہیں‘ تو ایسے میں امن و امان یقینی بنانے کے لیے کون دستیاب ہوگا؟ بدامنی اور لوٹ کھسوٹ کے ساتھ ہی ساتھ ملک اندرونی سیاسی خلفشار کا بھی شکار ہے۔ کچھ تجزیہ نگار صبغت اللہ مجددی پر قاتلانہ حملے کو یونس قانونی کی آنکھ سے بھی دیکھتے ہیں جو ان کے بعد ڈپٹی چیئرمین سینٹ ہیں اور بھارت کے زیادہ قریب ہیں۔ اگر مجددی صاحب کو کچھ ہوجاتا‘ تو جناب قانونی جو اپنی پارٹی میں بھی برہان الدین ربانی کے ساتھ مختلف مواقع پر متضاد موقف رکھتے تھے‘ سینٹ کے چیئرمین قرار پاتے۔

اس منتشر و زخمی افغانستان میں بھی امریکی قبضے کے خلاف مزاحمت پر تقریباً پوری قوم کا اجماع ہے۔ کرزئی سمیت جو سیاسی و عسکری عناصر کابل میں امریکا سے ہم آغوش ہیں‘ وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ ہم آزاد قوم ہیں‘ افغان قوم کسی کا قبضہ تسلیم نہیں کرتی‘ لیکن ابھی امریکا سے مسلح جنگ کا وقت نہیں آیا‘ جب کہ کئی عناصر جن میں طالبان کے بچ رہنے والے مجاہدین‘ حکمت یار کے مجاہدین اور متعدد جنگی سردار شامل ہیں‘ اوّل روز سے مسلح جدوجہد شروع کرنے کا اعلان کرچکے ہیں اور اب تک سیکڑوں کامیاب کارروائیاں کرچکے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کارروائیوں میں نہ تو کمی آئی ہے‘ نہ آئے گی۔ ان روزافزوں کارروائیوں کی وجہ سے پاکستان پر بھی امریکی اور افغان دبائو میں مزیداضافہ ہوگا۔ بدقسمتی سے ہم وزیرستان اور بلوچستان میں اپنے ہی بھائی بندوں پر جنگ مسلط کرکے اس بیرونی دبائو میں اضافے کے نئے مواقع فراہم کررہے ہیں۔ بھارتی رہنمائوں کا بلوچستان اور کراچی کے قوم پرست عناصر سے روابط بڑھانا‘ ان عناصر کی مانگ میں سیندھور بھرنے کے لیے نہیں ہے‘ اور نہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ اٹھایا جانا ہی صرف بے وقت کی راگنی کہہ کر نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔

اس گمبھیر صورت حال میں پاکستان کی پارلیمنٹ‘ پاک فوج اور اس کے اداروں‘ سیاسی جماعتوں اور ہرذی شعور شہری کا فرض ہے کہ‘ ملک میں عسکری تسلط کے بجاے حقیقی جمہوریت کے قیام‘ ایک فرد کے بجاے ملک کے استحکام‘ ذاتی مفاد کے بجاے ملّی مفادات کی آبیاری‘ اور سب سے اہم یہ کہ لالچ یا خوف کے بجاے صرف اللہ کی نصرت پر بھروسا کرتے ہوئے حکمت و ہمت سے اپنا گھر بچانے کی کوشش کرے۔ وقت کی ریت مٹھی سے نکلتی جارہی ہے۔ پاکستان کا مستقبل دائو پر لگادیا گیا ہے۔ اب بھی ملک کے بجاے اقتدار بچانے پر ہی توجہ رہی تو آیندہ نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔

۱۳؍ مئی ۲۰۰۵ء کا دن مسلمانانِ ازبکستان کے لیے وہ دن تھا جب ازبکستان کے شہروںاندیجان اور قاراسو میں پولیس اور فوج ان مظاہرین پر پوری سنگ دلی اور بے رحمی کے ساتھ ٹوٹ پڑی جو سیاسی اصلاحات کا اور ان مظالم کے سدباب کا مطالبہ کر رہے تھے‘ جو صدررِیاست اسلام کریموف کی لادینی حکومت مسلم آبادی پر ڈھا رہی تھی۔ ملک کی مجموعی آبادی میں مسلمان ۹۰فی صد ہیں‘ اور وقتاً فوقتاً سیاسی تشدد سے لے کر قیدوبند تک ہرقسم کے ظلم وستم کا نشانہ بنائے جاتے رہتے ہیں___  پُرامن مظاہرین پر بم پھینکے گئے‘ نتیجتاً ایک ہزار سے زیادہ مسلمان شہید ہوگئے اور بہت سے زخمی ہوئے۔

بات شروع یہاں سے ہوئی کہ قیدیوں کے کچھ اعزا و اقارب اندیجان کے ایک قیدخانے میں گھس آئے اور تقریباً ۴ ہزار سیاسی قیدیوں کو چھڑا لے گئے۔ یہ ۱۲؍مئی ۲۰۰۵ء کی رات کی بات تھی___ پے درپے نظربندیوں اور مقدموں سے وہ تنگ آگئے تھے‘ قیدیوں کی رہائی کے بعد لوگ بڑی تعداد میں مظاہرے کرنے لگے اور مطالبہ کیا کہ صدر کریموف مستعفی ہوجائیں۔ اس مسئلے میں روس نے یہ کہہ کر مداخلت سے انکار کردیا کہ یہ ازبکستان کا داخلی معاملہ ہے۔ رہا امریکا تو اس نے اتنا ہی کہا کہ قیدیوں کو زبردستی چھڑا لے جانا پریشانی اور افسوس کی بات ہے۔

پس منظر: یہ حادثے ایک طویل کش مکش کا نتیجہ ہیں‘ جس کے دو فریق ہیں۔ ایک فریق صدر اسلام کریموف ہیں جو ۱۹۸۹ء میں برسرِاقتدار آئے‘ اور دوسرا فریق اسلامی حزب مخالف‘ جس میں اکرام یولداشوف کی اسلامی آزاد پارٹی اور دوسری اسلام پسند پارٹیاں شامل ہیں جو قومی سطح پر بدامنی کو روکنے‘ گرتی ہوئی معیشت کو سنبھالنے اور بے روزگاری دُور کرنے کے لیے کوشاں ہیں‘ مگر حکمراں پارٹی حزب مخالف کو ’دہشت گرد‘ اور ’بنیاد پرست‘ قرار دے کر خاتمے کے درپے ہے۔

۱۱ستمبر کے حملے اور ’دہشت گردی‘ کے خلاف امریکا کی باقاعدہ جنگ کے بعد ملک کی اسلامی تحریک اور ازبکی قوم کے خلاف کریموف حکومت کا ظلم وستم کئی گنا بڑھ چکا ہے۔ ’بنیاد پرستی‘ اور ’دہشت گردی‘ کی آڑ لے کر حزب مخالف کے لوگوں کو گرفتار کیا جارہا ہے‘ انھیں جان سے مار ڈالا جارہا ہے‘ بڑے بڑے علما تک کو بخشا نہیں جاتا۔ اور تو اور مسجدیں بند کرائی جارہی ہیں۔ جب سے امریکا سے دوستی کا عہدوپیمان ہوا ہے اور افغانستان پر حملے کے لیے یہاں امریکی چھائونیاں کھل گئی ہیں‘ ظلم وستم کی کارروائی زوروں پر ہے۔ اس کا ایک فائدہ حکومت کو یہ ہوا کہ یہاں انسانی حقوق کی جو پامالی کھلے بندوں ہورہی ہے اس پر امریکا چوں نہیں کرتا‘ حالانکہ اشتراکی روس کے عہدحکومت میں انھی حقوق کی بحالی کے لیے وہ بہت چیختا چلاتا رہتا تھا۔

آزادی کے فوراً بعد ازبکستان کی حکومت نے اسلام کو سرکاری حیثیت دی۔ مذہبی اداروں کو نجی قبضہ وتصرف سے آزاد کردیا۔ مقصود یہ تھا کہ اسلامی تحریکات کو بے اثر کردیا جائے۔ ۱۹۹۱ء میں سوویت یونین زوال پذیر ہوا تو ملکی مطلع پر ایسے آثار ظاہر ہوئے‘ کہ دنیا کی دوسری مسلم قوموں کی طرح ازبک قوم بھی اپنی مذہبی اصلیت کی طرف لوٹنے لگی۔ چنانچہ مسجدیں جو ۱۹۸۹ء میں   کُل ملاکر ۸۲ تھیں دیکھتے ہی دیکھتے ۷ہزار۲ سو ہوگئیں اور یہ تمام تر نجی طور پر بنائی گئی ہیں۔ سرکاری‘    نیم سرکاری اہتمام سے نہیں۔ اب سرزمین ازبک پر کوئی مقام ایسا نہیں جہاں اللہ کا گھر موجود نہ ہو۔ اس کے ساتھ‘ ۱۰۰ سے زیادہ دینی مدرسوں اور اداروں کا آغاز ہوا جن میں آدھے سے زیادہ خواتین کے لیے مختص ہیں۔ ان درس گاہوں میں لکھنے پڑھنے والوں کی تعداد بڑھ کرکہیں سے کہیں پہنچ گئی۔ مذہبی کتابوں کا سیلاب سا بہنے لگا۔ ملک کے باشندوں کی خدمت و حفاظت کے لیے ’مذہبی پولیس کا محکمہ‘ قائم کرنے کی کوشش ہوئی۔ لوگ مذہبی تعلیم سے بھرپور دل چسپی لینے لگے‘ پردے کا اہتمام بڑھنے لگا۔ ہزاروں طلبہ علم دین کی تحصیل کے لیے اسلامی ممالک کی یونی ورسٹیوں کا قصد کرنے لگے‘ بہت سے لوگوں نے داڑھیاں رکھ لیں۔

ابتدا میں تو حکومت نے اس سیلِ رواں کا ساتھ دیا‘ اور وطنی تشخص کی تعمیر میں اس سے فائدہ اٹھایا‘ کیوں کہ یہ تشخص اقتدار کے استحکام کا باعث ہوتا ہے۔ صدر ریاست اسلام کریموف کا حال یہ تھا کہ اپنی بات چیت اور تقریروں میں آیات اور احادیث سے استدلال کرتے تھے‘ بلکہ ۱۹۹۱ء کے ایک انتخابی جلسے میں نمنغان نامی صوبے میں تقریر کرتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ ازبکستان کو اسلامی جمہوریہ بنا دیں گے‘ اور زور دے کر کہا تھا کہ اس سلسلے میں ہرگز دریغ نہیں کریں گے اورکوشش کریں گے کہ مذہب اسلام کو قابلِ رشک مقام ملے جس کا وہ ہر طرح مستحق ہے۔ پھر جب صدر بنے تو قرآن پاک کے نام پر حلف لیا‘ مگر حکومت میں قدم جم گئے تو قوم کو آنکھیں دکھانے لگے۔ ارشاد ہونے لگا کہ ’’مسلمان ملک کے امن و استحکام کے لیے خطرہ ہیں‘‘۔ مزید فرمایا کہ ازبکستان میں اسلامی حکومت کی باتیں مغربی بلاک کے غیظ وغضب کو بھڑکا دیں گی۔ اس کے بعد موصوف نے بہت سے ایسے علماے کرام کی داروگیر شروع کردی جو حکومت کے صیغۂ امور مذہبی کے ہتھے نہیں چڑھتے تھے۔ اس کے بعد مسجدوں پر ہاتھ ڈالا اور یہ کہہ کر سیکڑوں مسجدیں بند کروائیں کہ یہ عبادت کے لیے نہیں بلکہ دوسرے اغراض و مقاصد کے لیے بنی ہیں۔ پھر انھیں اسلحہ خانوں میں تبدیل کردیا جیسی وہ اشتراکی عہد میں تھیں۔ حکومت کے صیغۂ امور مذہبی نے تقریباً ۴۰۰مسجدوں پر ہاتھ ڈالا اور وہاں اپنے لوگ متعین کیے۔

قصرِصدارت نے سرکاری ذرائع ابلاغ کے نام‘ احکام صادر کیے کہ علماے کرام کے خلاف افواہیں پھیلائیں‘ ان کی کردارکشی کریں‘ ان کو تعصب‘ دہشت پسندی اور دقیانوسیت کے مجرم ٹھیرائیں اور اس غرض کے لیے اشتراکی لغات کے سارے الفاظ کام میں لائیں۔ اس سلسلے میں سرکاری ٹیلی ویژن ان تمام حلقوں پر حملے کرنے کا خاص طور پر پابند بنایا گیا جو ازراہ تعصب ملک کی دستوری حکومت کا تختہ اُلٹ دینا چاہتے ہیں۔ ایسے ’آستین کے سانپوں‘ سے خبردار رہنا چاہیے۔ اسی پر بس نہیں‘ پردے کے خلاف پروپیگنڈا کیا گیا کہ یہ عربوں کی چیز ہے‘ لہٰذا ازبکستانی خواتین کے لباس و پوشاک سے میل نہیں کھاتی۔ رہے اسلامی علوم و فنون‘ تو ان کی تعلیم پر بھی قدغن لگادی گئی اور ان کے طلبہ اور اساتذہ کو دوسرے شعبوں میں تتربتر کردیا گیا۔ مسجدوں سے لائوڈاسپیکر اتار لیے گئے‘ داڑھی رکھنے والوں کو جیل بھیج دیا گیا اور مجبور کیا گیا کہ پولیس اسٹیشن جاکر ’چارابروکا صفایا‘ کرڈالو‘ ورنہ قیدخانے کی ہوا کھانی پڑے گی۔

ایک نیا قیدخانہ بن کر تیار ہوا ہے جو ایسے مذہبی بنیاد پرستوں اور دہشت گردوں کے لیے مخصوص ہے جن کی اصلاح ممکن نہیں۔ پھر قیدیوں کی ایک تعداد ایسی بھی ہے جو آتش گیر مادوں کی تیاری کے الزام میں ماخوذ ہیں۔ ان سے وہ دہشت گردی پھیلانا چاہتے ہیں‘ حالانکہ یہ بے چارے زراعت پیشہ ہیں اور وہ جو کچھ تیار کر رہے تھے وہ کیمیاوی کھاد کے سوا کچھ نہیں تھا۔

ان قیدیوں کے مصائب کی بابت انسانی حقوق کی تنظیم بھی چیخ اٹھی ہے۔ اس کی رپورٹ مظہر ہے کہ انھیں ظلم وستم کی چکی میں پیسا جارہا ہے کہ ان کا دم خم ختم ہوجائے‘ ان کے حوصلے ٹوٹ جائیں۔ جو لوگ قیدوبند میں نہیں ہیں ایسے مذہبی ’دیوانوں‘ کو جو سزائیں دی جاتی ہیں ان میں ایک یہ ہے کہ انھیں ملازمتوں سے معطل اور تعلیمی اداروں سے خارج کر دیا جاتا ہے۔ بہرحال فردِقرار دادِ جرم بڑی طویل ہے‘ اس کی بعض دفعات یہ ہیں: ا: بلدیہ کے ایسے اعلیٰ عہدے داروں کی معزولی جنھوں نے مسجدیں بنانے کی اجازت دی‘ مگر ان مذہبی کارگزاریوں سے صرفِ نظر کرلیا تھا جو ان کے حلقوں میں جاری تھیں۔ ب:صدارتی کابینہ کے ان ارکان کی برطرفی جو پابندی سے مسجد آیا جایا کرتے تھے۔ ج: بیرونی ممالک کی دینی تنظیموں سے قطع تعلقات کے احکام کا اجرا۔ د: فلاحی اور دعوتی کام کرنے والے بیرونی ملکوں کے افراد کو ویزا دینے میں سختی اور ان کے مصارف کی کڑی تنقیح۔

اس فہرست کے ضمیمے کے طور پر حکومت نے ۳ ہزار سے زیادہ ایسے طلبہ کو وطن واپسی کا حکم دیا ہے جو اسلامی ’یونی ورسٹیوں‘ میں زیرتعلیم تھے۔ سبب اس نادری حکم کا یہ بتایا ہے کہ نئی نسل کے یہ افراد وہاں ’بنیاد پرستی‘ اور ’دہشت گردی‘ کی تربیت پاتے ہیں۔ خود صدر کریموف نے برسرِعام کہا ہے کہ یہ طلبا غلط راستے پر ڈال دیے گئے ہیں اور جن ملکوں میں یہ علم و ہنر سیکھنے کے بہانے گئے ہیں وہاں ہتھیار اور بم بنانے کی صنعت سیکھ رہے ہیں۔ خیر اسی میں ہے کہ وطن واپس ہوں اور پولیس اسٹیشن جاکر توبہ نامہ داخل کروائیں‘ ورنہ ان پر اور ان کے ماں باپ پر قیامت ٹوٹ پڑے گی۔

امریکی کردار: ازبکستان میں پچھلے دنوں جو حادثے رونما ہوئے ان میں امریکا کے کردار کا تجزیہ کرنے سے پہلے پیچھے مڑ کر ان دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات پر ایک نظر ڈال لینی ضروری ہے۔ اس سے معلوم ہوگا کہ ۱۱ستمبر کے حادثے کے بعد صورت حال پرپیچ ہوگئی اور صدرکریموف نے اس کا پورا فائدہ اٹھایا۔ حزبِ مخالف کے خلاف اپنا موقف سخت سے سخت تر کردیا‘اور ’دہشت گردی‘ کے مقابلے کے نام سے ملک میں قیامت ڈھا دی۔ امریکا سے تعلقات مستحکم کرلیے اور اسے ایسی سہولتیں مہیا کیں جن کے بل بوتے پر اس نے ازبکی‘ افغانی سرحد پر فوجی چھائونی قائم کرلی۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے‘ خود کریموف نے ازبکی پارلیمنٹ میں اس بات کا کھل کر اعتراف کیا ہے‘ چنانچہ ارشاد ہے: واضح رہے کہ امریکا اور بش میرے پشت پناہ ہیں‘ وہ اس قسم کی بے کار باتوں کو اہمیت نہیں دیتے۔ اگر وہ ہمارے خلاف ہوتے تو سالانہ خطیر مالی امداد نہ دیتے۔ میں نے اپنے دورئہ واشنگٹن کے دوران میں یہ بات محسوس کرلی تھی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے سلسلے میں میری جدوجہد کو وہ بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔داڑھیوں کا صفایا کرنے پر انھوں نے مجھے فیاضانہ انعام سے نوازا ہے۔ میں ارکانِ پارلیمنٹ سے کہوں گا کہ یہ دیکھ کر پریشان نہ ہوں کہ امریکی عہدے دار انسانی حقوق کے بارے میں ہمارا ریکارڈ دیکھ کر نکتہ چینی کرتے ہیں‘ کیوں کہ امریکا کا مقصود دراصل یہ ہوتا ہے کہ دنیا کے سامنے ظاہر کرے کہ اسے جمہوری اصول و قوانین کا بڑا خیال ہے۔

ازبکستان میں انسانی حقوق کی پامالی پر امریکا کی طویل خاموشی کا شدید ردعمل ہوا۔ خود امریکا کی متعدد تنظیموں نے حکومت کی اس چشم پوشی پر کڑی تنقید کی‘ بعد از خرابیِ بسیار حکومت نے مجبوراً ازبکستان کی امدادی رقم کا ایک حصہ منجمد کردیا اور گرتی ساکھ سنبھالنے کی خاطر بات یہ بنائی کہ ازبکستان نے مطلوبہ دستوری اور جمہوری اصلاحات نہیں کیں۔ بعد میں کہا گیا کہ اس ملک نے انسانی حقوق کے تحفظ میں تھوڑی سی پیش رفت دکھائی ہے‘ مگر جمہوری اور معاشی اصلاحات کا معاملہ بدستور مایوس کن ہے۔ اُدھر ماسکو کی ایک تنظیم کی رپورٹ خبر دے رہی ہے کہ ازبکستان کے قیدخانوں میں ۵۰ ہزار سے زیادہ قیدی ایڑیاں رگڑ رہے ہیں۔ مختلف قسم کی سخت سزائوں کی بنا پر جو لوگ جاں بحق تسلیم ہوگئے ان کا تو شمار ہی نہیں۔ اس طرح اسرائیل اور امریکا کے ساتھ پُرامن تعاون کو تقویت پہنچی۔ اس تعاون کی تفصیل یہ ہے کہ سونا‘ چاندی‘ یورینیم‘ تانبا‘ جست‘ قدرتی گیس‘ مٹی کا تیل‘ کوئلہ وغیرہ معدنی دولت میں شراکت ہوسکے گی۔ اسی لیے گذشتہ ایک سال کے دوران میں ازبکستان کو امریکا نے ۴۶ ملین ڈالر کی امداد دی تھی۔ سینیٹ نے بھی اس پر مہرتصدیق ثبت کردی ہے‘ مگر چونکہ بین الاقوامی سطح پر تنقید آئے دن بڑھتی ہی چلی گئی کہ ایک ایسے ملک کے ساتھ فیاضانہ سلوک کیا جا رہا ہے جو حزبِ مخالف کو ختم کرنے کے درپے ہے‘ تو اس خطیر رقم میں ۱۸ ملین ڈالر کی کٹوتی کر دی گئی۔

ماسکو اور واشنگٹن کو کریموف سے کوئی محبت نہیں ہے‘ انھیں اسلام پسندوں سے نفرت ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ ازبکستان میں (بلکہ دنیا بھر میں کہیں بھی) کوئی اسلامی پارٹی برسرِاقتدار آئے۔ اس سے انھیں خدا واسطے کا بیرہے۔ صدر کریموف کریملن اور وہائٹ ہائوس کا یہ الہامی پیام سمجھ گئے ہیں اور اپنے سیاسی مفاد کے تحفظ کے لیے سارے جتن کرلیے ہیں‘ یعنی باغی شہر (اندیجان) کے تمام راستے بند کر دیے ہیں۔ تمام مقامات پر پولیس کے ہزاروں سپاہی اور جاسوس پھیلا دیے گئے ہیں۔ توپوں اور بندوقوں سے آگ برسائی جارہی ہے اور ہرسُو سیکڑوں بندگانِ خدا کی لاشیں گررہی ہیں۔ اس سنگ دلی اور سفاکی کا صاف مطلب یہ ہے کہ وسط ایشیا کے اندر اسلام پسندوں کا عروج ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔ حالانکہ جارجیا‘قازقستان اوریوکرائن جیسی پڑوسی ریاستوں میں ایسے انقلاب کامیاب ہوچکے ہیں اور اپنی اپنی مصلحتوں کے پیش نظر روس اورامریکا انھیں تسلیم بھی کرچکے ہیں۔

صورت حال کا سب سے زیادہ خطرناک پہلو یہ ہے کہ دنیابھر کے مسلمان اس المیے کے تماشائی بنے بیٹھے ہیں‘ وہ المیہ جس کا اہم ترین کردار کریموف ہے۔ اس ظالم نے روسی ڈکٹیٹر جوزف اسٹالن کی تلخ یاد تازہ کر دی ہے جو وسط ایشیا کے مسلمانوں کے حق میں بَلاے بے درماں تھا‘ جس نے ۱۵ ملین مسلمانوں کے خونِ ناحق میں اپنے ہاتھ رنگے تھے اور انھیں سائیبریا کے دُور دراز علاقے میں دفن کروا دیا تھا۔

بات یہ ہے کہ کریموف کو ہلاکت و بربادی کے سبھی وسائل میسر آگئے ہیں اور اس نے یہ حقیقت پالی ہے کہ حکومت پر جمے رہنے کی واحد صورت یہ ہے کہ ملک کی اسلامی تحریک کا خاتمہ کردیا جائے‘ کیوں کہ یہی ایک ایسی طاقت ہے جو اس شخص کی ظالمانہ حکومت کو مات دے سکتی ہے۔ وہ حکومت جس نے ملک کو اس کی عظیم معدنی دولت اور زرعی پیداوار کے باوجود انتہائی غربت اور  پس ماندگی سے دوچار کر دیا ہے(عربی سے تلخیص۔ بشکریہ راہِ اعتدال‘ عمرآباد‘ بھارت‘ فروری ۲۰۰۶ئ)