مضامین کی فہرست


جولائی ۲۰۱۰

بسم اللہ الرحمن الرحیم

بجٹ صرف حکومت کی آمدن و خرچ کا ایک میزانیہ ہی نہیں ہوتا بلکہ حکومتِ وقت کی تمام معاشی اور مالیاتی پالیسیوں اور ان کے مالی تقاضوں کا آئینہ بھی ہوتا ہے، اور اس میں ملک کی معاشی اور مالی صورت حال اور سیاسی حکمت عملی کی پوری تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔ بلاشبہہ بجٹ کا کام وسائل کے حصول کے ذرائع کی نشان دہی کرنا اور یہ بتانا ہوتا ہے کہ انھیں کن پالیسیوں پر عمل درآمد کے لیے کس انداز میں استعمال کیا جائے گا۔ اس لیے بجٹ، حکومت ِ وقت کی ایک بنیادی دستاویز ہوتی ہے، جس میں اس کی تمام پالیسیوں کا عکس دیکھا جاسکتا ہے۔

موجودہ حکومت کی طرفہ کارگزاریوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اسے اپنے کنبے سے کوئی لائق وزیرخزانہ میسر نہیں آیا۔ پہلے چند مہینے مسلم لیگ (ن) کے جناب اسحاق ڈار اس ذمہ داری پر فائز ہوئے۔ پھر چند ہفتے کے لیے جناب نوید قمر نے جلوہ دکھایا۔ اس کے بعد جناب شوکت ترین مستعار لیے گئے اور اب ڈاکٹر محمد حفیظ شیخ کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے، جو اپنی ذاتی قابلیت کے باوصف جنرل پرویز مشرف کی ٹیم کا حصہ رہے ہیں اور صوبہ سندھ کے وزیرخزانہ اور مرکزی حکومت کے وزیر نج کاری کی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ اسی طرح حنا ربانی کھر صاحبہ بھی پچھلی اور موجودہ حکومت کا حصہ رہی ہیں۔ گویا ڈھائی سال کے عرصے میں چار وزراے خزانہ کی آمدورفت جاری رہی۔ ہر ایک اپنے ساتھ اپنی من پسند ٹیم لایا اور اپنی پالیسی اور ترجیحات بھی۔ رہا معاملہ حکومت کی معاشی پالیسی کا تو ہر وزیر اور ہر وزارت اپنی اپنی ڈفلی بجانے اور اپنا اپنا راگ الاپنے کا منظر پیش کرتی رہی اور پاکستان کی معیشت کا جو حشر ہوا اس کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ  ع

شد پریشاں خواب من از کثرتِ تعبیر ہا

بے سمت معاشی پالیسی

بجٹ تقریر کے حوالے سے عوام الناس میں اب یہ تاثر عام ہے کہ یہ ناقابلِ اعتماد اعدادوشمار اور بے سروپادعووںکا پلندا ہواکرتی ہے۔ اس حوالے سے موجودہ وزیرخزانہ کی تقریر نسبتاً بہتر ہے کہ اس تقریر میں اگرچہ مکمل صداقت نہ تھی لیکن صداقت کی کم از کم کچھ جھلکیاں موجود تھیں۔ تقریر میںوزیرخزانہ نے حالات کا کچھ تجزیہ بھی کیا، اور چھے ایسے نکات بھی دیے جو ان کی نگاہ میں بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔تاہم، بجٹ تقریر میں ایک بڑی خامی یہ رہی کہ اس میں کسی عام فرد کی طرح مسائل کی نشان دہی تو کی گئی، لیکن مسائل کاکوئی واضح اور قابل عمل حل پیش نہیں کیا گیا، حالانکہ یہ حل پیش کرنا ہی اصل کام اور حکومت کی اصل ذمہ داری ہے۔ اس بجٹ کی سب سے بڑی خامی  یہ ہے کہ اس میں مستقبل کے حوالے سے کسی واضح منزل اور سمت کا تعین قطعی طور پر مفقود ہے ع

منزل ہے کہاں تیری اے لالۂ صحرائی

بجٹ کے حوالے سے قوم اور قوم کے نمایندہ ایوانوں سے ایک سنگین مذاق یہ بھی ہے کہ وزیرِ خزانہ کی تقریر اور حکومت کی طرف سے فراہم کردہ بجٹ دستاویزات میں بڑا فرق ہے ۔وزیرِ خزانہ تو یہ کہہ کر داد وصول کر گئے کہ کفایت شعاری کی غرض سے تنخواہوں کے علاوہ غیرترقیاتی اخراجات کو منجمد کیا جا رہا ہے، لیکن جو تفصیل تحریری طور پر فراہم کی گئی ہے اس میں اس کا کوئی عکس نظر نہیں آتا، بلکہ بجٹ تقریباً ہر مد میں اضافے کی خبر دے رہا ہے۔ اسی طرح سرکاری ملازمین کی بنیادی تنخواہ میں ۵۰ فی صد اضافے کا جو اعلان کیا گیا، بجٹ دستاویز میں اس کا اشارہ تک نہیں ہے۔ اس لیے کہ کم از کم اس کی بنا پر یہ ۶۰،۷۰ ارب روپے مرکزی بجٹ میں اور پھراس سے بھی کچھ بڑی رقوم کی فراہمی صوبوں میں دکھائی دینی چاہیے تھی، لیکن بجٹ دستاویز میں یہ کہیں نظر نہیں آتا۔

اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے کنکرنٹ لسٹ کا خاتمہ اور اختیارات صوبائی حکومت کو منتقل کرنے کے فیصلے کے بعد، یہ پہلا بجٹ ہے جو سامنے آیا ہے۔ اصولی طور پر اگرچہ یہ درست ہے کہ صوبوں کو اختیارات اوروسائل کی منتقلی کے لیے ایک سال کی مدت رکھی گئی ہے، لیکن خود بجٹ کو بھی اس بات کا عکاس ہونا چاہیے تھا ۔ مثال کے طور پر کم از کم ۲۱ ایسے ڈویژنز ہیں جو اَب صوبوں کو منتقل ہوگئے ہیں لیکن ان وزارتوں کے بارے میں اسی طرح کا بجٹ ہے جیسے پہلے تھا۔ پھر ۵۵۰ میں سے ۱۲۵ سرکاری اداروں کو صوبوں کی طرف منتقل ہونا ہے۔وسائل اور اختیارات کی اس منتقلی کا  لائحۂ عمل بجاطور پر اس بجٹ میں نظر آنا چاہیے تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ تقریباً اڑھائی لاکھ سرکاری ملازمین جو مرکزی حکومت کے تحت ہیں، ان کی خدمات صوبہ جات کی طرف منتقل ہونے کے حوالے سے کوئی ابتدائی اقدامات تو نظر آنے ہی چاہییں تھے۔لیکن معلوم ہوتا ہے کہ بجٹ سازی کوئی اور کررہا ہے،جس کے علم میں یہ بات آئی ہی نہیں ہے کہ پارلیمنٹ کیا قانون سازی کررہی ہے۔ حد یہ ہے کہ CTV اور سروسز پرسیلز ٹیکس جواب صوبوں کو منتقل ہوچکے ہیں، بجٹ کی ان دستاویز میں انھیں مرکز کے مشمولہ فنڈ (consolidated fund ) میں ایک آمدنی کے طور پر ظاہر کیا گیا ہے، حالانکہ اب ان کو صوبوں کے بجٹ میں جانا چاہیے۔ اس لیے یکم جولائی ۲۰۱۰ء کے بعد ان کا مرکزی بجٹ میں اندراج دستور سے مطابقت نہیں رکھتا۔

ماضی کی حکومت اور ماضی کے مسائل کو بیان کرنا اور کیڑے نکالنا ہر موجودہ حکومت کا مستقل طرزِ عمل رہا ہے۔موجودہ وفاقی حکومت، اقتدار کے تقریباً اڑھائی سال مکمل کر چکی ہے اور اب اس کے پاس نصف عرصہ باقی رہ گیا ہے۔ اس وقت معیشت کی جو بھی صورتِ حال ہے، اس کی ذمہ داری کلی طور پر سابقہ حکومت پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ ان اڑھائی برسوں کا حساب موجودہ حکومت کو ہی دینا ہوگا۔ اگرچہ پاکستان میں اندازِ حکمرانی کبھی بھی مثالی نہیں رہا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ماضی کے کسی بھی دور میں ہماری معاشی پالیسی اتنی بے ربط اور بے ہنگم نہیں رہی جتنی موجودہ حکومت کے دور میں ہے۔ حکومت کی کوئی واضح سمت نہیں ہے اور ہر وزیر اور ہر شعبہ ایک الگ ہی سمت میں جارہا ہے۔اگرچہ قومی زندگی کاہر شعبہ ہی ’دیکھو اور وقت گزارو‘ (ایڈہاک ازم یا ’ڈنگ ٹپائو) کی پالیسی پر چل رہا ہے، لیکن جو عدم استحکام خاص طور پر وزارتِ خزانہ میں نظر آیا ہے، اس نے یقینا ملک، قوم اور خود حکومت کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ کسی مرکزی نظام کی غیر موجودگی میں وزارت کی سطح پر پالیسیوں کے تسلسل پر بہت فرق پڑا ہے۔سوا دو سال میں وزارتِ خزانہ کی قیادت چار بار تبدیل ہوئی ہے اور ملک کے معاشی مسائل اور بھی گھمبیر ہوگئے ہیں۔ حکومت کا حال یہ ہے کہ    ؎

رو میں ہے رخشِ عمر کہاں دیکھیے تھمے

نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں

تشویش ناک معاشی صورت حال

وزیر خزانہ نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ملک معاشی طور پر بہتری اوراستحکام کی جانب گامزن ہے لیکن حکومت پاکستان کے سالانہ اقتصادی جائزے (اکنامک سروے) میں ملکی معیشت کی سخت پریشان کن صورت سامنے آتی ہے۔ اکنامک سروے میں کم از کم ۲۵ مقامات پر یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ حالیہ معاشی صورتِ حال غیر مستحکم اور ناپایدار ہے۔ وزارتِ خزانہ اور عالمی بنک کے معاشی جائزے کے مطابق غربت میں اضافہ ہوا ہے۔ محتاط ترین اندازے کے مطابق ملک کی مجموعی آبادی کا ۴۰ فی صد خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ اگر دو ڈالر (=۱۷۰ روپے) آمدنی روزانہ کو بنیاد بنائیں تو یہ رقم کروڑوں پاکستانیوں کی دسترس سے باہر ہے، اس لیے ۷۶فی صد آبادی غربت کا شکار ہے۔ ان کے برعکس تقریباً ۲۰ فی صد کے پاس ساری دولت ہے اور وہ عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں، جس سے معاشرے کے اندر تصادم، نفرت، تناؤ اورانتہا پسندی کے رجحانات پیداہو رہے ہیں، جب کہ ۸۰ فی صد آبادی کا حال یہ ہے کہ  ع

زندگی نام ہے مرمر کے جیے جانے کا!

حال ہی میں پاکستان کے حوالے سے ہونے والے سماجی و معاشی جائزے کے مطابق ملک میں ۶ئ۴۸ فی صد آبادی غذا کی کمی کا شکار ہے اورملک کے ۶۱ فی صد اضلاع میں غذائی قلت ہے۔ جس ملک میں یہ صورت حال ہو، حقیقت یہ ہے کہ ان کے حکمرانوں اور ارکینِ پارلیمنٹ کی نیندیں اُڑجانی چاہییں، لیکن مقامِِ حیرت ہے کہ ان کے معاملاتِ زندگی اور سوچ کے انداز میں کوئی فرق ہی نہیں، بلکہ دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ ان کی زندگی کا نقشہ تو کچھ ایسا ہے کہ  ع

ہر روز، روزِ عید ہے اور ہر شب شبِ برات!

پاکستان کی ۶۳ سالہ تاریخ میں پہلی بار یہ ہوا ہے کہ۲۰۰۹ء اور۲۰۱۰ء کے درمیان صرف ایک سال کی مدت میں ملک میں گندم اورآٹے کے استعمال اور کھپت میں ۱۰ فی صد کمی ہوئی ہے، یعنی لوگوں کو روٹی میسر نہیںہے۔ اس جائزے کے مطابق ایک بڑی تعداد وہ ہے کہ جنھیں ایک وقت کی روٹی بھی بمشکل میسر ہے۔ اس صورت حال کو نظر انداز کرنا بہت بڑی زیادتی ہے۔

مہنگائی کی صورت حال یہ ہے کہ۲۰۰۹ء میں مہنگائی کی شرح۹ئ۸ فی صد رہی،جو   موجودہ برس میں تشویش ناک حد تک بڑھ کر ۵ئ۱۳ فی صد ہو گئی ہے اور اشیاے خوردنی کی قیمتوں میں اضافہ ۵ئ۱۴ فی صد ہوا ہے۔ پاکستان کے حوالے سے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستانی عوام کی اوسط قوتِ خرید ۲۳ فی صد کم ہوئی ہے۔ستم بالاے ستم یہ ہے کہ موجودہ بجٹ میں سب سے زیادہ کٹوتی ترقیاتی بجٹ میں ہوئی ہے، یعنی ۴۰ فی صد کم کر دیا گیا ہے۔

بجلی اور توانائی کے بحران کے سبب قوم جس پریشانی اور مصیبت میں مبتلا ہے وہ تو اپنی جگہ جوں کی توں موجود ہے ،لیکن اس کا تشویش ناک نتیجہ یہ ہے کہ ملکی پیداوار میں تیزی سے کمی ہوئی ہے۔ گذشتہ دوسال کے عرصے میں ۱۳۳۲ صنعتی کارخانے بند ہوگئے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں ۴۹ ملین افرادلیبر فورس کا حصہ ہیں اور حکومتی اعدادوشمار کے مطابق گذشتہ دو برس کے دوران حددرجہ بے روزگاروں میں اضافہ ہوا ہے اور حکومت کے مطابق اس وقت ۳۰ لاکھ افراد بے روزگار ہیں۔ لیکن اعدادوشمار کے ساتھ تکلیف دہ مذاق یہ کیا گیا ہے کہ جو۵۰ ملین لوگ برسر روزگار دکھائے گئے ہیں، ان میں سے ۴۵ئ۱۴ ملین بغیر تنخواہ کے ملازم ہیں ۔اگر لفظوں کی اس جادوگری کے سحر سے نکل کر دیکھا جائے تو دراصل ایک کروڑ ۷۰ لاکھ ۳۷ ہزار افراد بے روزگار ہیں۔ اس میں ۳۸ فی صد وہ ہیں جو ۱۰ سے ۲۵ سال عمر کے درمیان ہیں۔ یہ بے کاری اور معاشی ظلم ان اسباب و محرکات میں سے ایک ہے، جن کی وجہ سے نوجوانوں میں انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کے رجحانات میںاضافہ ہوتا ہے۔ لیکن افسوس کہ بجٹ نے ان حالات کو یکسر نظر انداز کیا ہے۔

پبلک سیکٹر میں۲۶۰ ارب روپے کا خسارہ صرف چھے بڑے اداروں میںہوا ہے۔ جس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ ان منافع بخش اداروں کو من پسند اور نااہل افراد کو نوازنے کا ذریعہ بنالیا گیا، جنھوں نے بدنظمی، بداحتیاطی اور اقربا نوازی سے دو سال کے اندر اندر ان اداروں کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے، اور اب ان اداروں کو بیچ کھانے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔اس وقت دنیا کو جو معاشی بحران درپیش ہے، اس کی بڑی وجہ نجی اداروں کی آزادانہ اور بلا روک ٹوک پالیسیاں ہیں جس کے نتیجے میں عالمی معیشت میں صرف دو سال میں ۹ٹریلین ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے۔ اس لیے معیشت کو آنکھیں بند کرکے محض منڈی (market) کے رحم وکرم پرنہیں چھوڑا جاسکتا اور نہ ہرمسئلہ کا حل نج کاری (Privatization) ہی ہے۔ معیشت کے میدان میں حکومت کا ایک مثبت کردار بہت ضروری ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اپنے کردار کے ذریعے سے نہ صرف معاشی بڑھوتری کو یقینی بنائے بلکہ قومی مقاصد اور اسٹرے ٹیجک ضروریات کے حصول کو یقینی بنانے کا بھی خیال رکھے۔ اس لیے ہمارا ماڈل نج کاری کے بجاے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ ہونا چاہیے۔

قرضوں کا بڑہتا ھوا سنگین بوجھ

قومی معیشت کی ایک نہایت خطرناک شکل اندرونی و بیرونی قرضو ں کی شکل میں نظر آتی ہے۔ ہمارے بیرونی قرضے ۴ہزار ارب روپے ہیں، لیکن ہمارے لیے اس سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ ہمارے اندرونی قرضے بھی اب ۴ہزار ارب روپے سے زیادہ ہوچکے ہیں۔ اس طرح ملک پرقرضوں کا مجموعی بار ساڑھے آٹھ ہزار ارب روپے ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے پاکستانی قوم کو تقریباً ساڑھے چھے سے سات ارب ڈالر مبادلہ کی شکل میں سالانہ بیرونی اقوام اور اداروں کو ادا کرنا پڑ رہا ہے اور اس وقت بجٹ میں اخراجات کی سب سے بڑی مد قرضوںپرسود کی ادایگی پر خرچ ہورہی ہے، جو ۷۵۰ ارب روپے سالانہ تک پہنچ گئی ہے۔ اگر ہماری قرض خوری اور فاقہ مستی کی کیفیت یہی رہی تو آیندہ اس غریب قوم کے دیے ہوئے ٹیکسوں کی آمدنی کا نصف سے بھی زیادہ صرف قرضوں کی ادایگی کی نذر ہوجائے گا اور بیرونی قرضوں کوادا کرنے کے لیے مزید نئے قرضے لینے ہوں گے۔

اس خطرناک ترین صورتِ حال میں بھی حکومت کے پاس بظاہر یہی ایک حل ہے کہ مزید قرض حاصل کر کے پہلے سے واجب الادا قرض ادا کر دیا جائے۔ یہ معاشی خودکشی کا راستہ ہے۔ اس بجٹ میں کوئی ایسا اشارہ نہیں ملتا کہ خود انحصاری بھی ہماری ترجیحات میں کہیں شامل ہے۔معلوم ہوتا ہے اپنی معاشی خودمختاری کھو دینے کے بعد اب ہم اپنی سیاسی خود مختاری کا سودا بھی کرنے پر تُلے بیٹھے ہیں۔

’دہشت گردی کے نام پر امریکی جنگ‘ میں امریکا نے ہمیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے، جس کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کا تخمینہ لگانا بھی مشکل ہے۔ شماریاتی جائزے کے مطابق ملک کا صرف معاشی نقصان ہی۴۳ ارب ڈالر ہے، یعنی ۳ہزار ۷ سو ارب روپے جو ہمارے اس سال کے پورے بجٹ سے بھی ۲۵ فی صد زیادہ ہے۔ بیرونی ممالک سے پاکستان کو صرف ۱۵ارب ۵۰ کروڑ ڈالر ملے ہیں، جن میں سے ۱۰ ارب ڈالر سروس چارجز کی مد میں ہیں۔ اس طرح درحقیقت پاکستان کو اس عظیم، سیاسی، سماجی اور معاشی نقصان کے بدلے صرف ساڑھے پانچ ارب ڈالر ملے ہیں۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ سرکاری اعداد و شمار کی روشنی میں اس ملک کے غریب عوام نے امریکا کی ہوس کے لیے ۳۷ ارب ڈالر کا بوجھ اٹھایا ہے، جس کے نتیجے میں مسلمانوں ہی کا خون بھی بہایا گیاہے۔ہم نے اپنے ۱۳۰۰ فوجی اور۳۵۰۰ سویلین امریکا کی راہ میں قربان کیے ہیں۔ ہمارے ۳ہزار فوجیوں اور ۱۲ہزار عام شہریوں نے جسمانی زخم اٹھائے ہیں، جب کہ روح تو ہر فرد کی زخمی ہے۔اس کے باوجود امریکا کے دبائو میں وزیرستان، پنجاب، کراچی اور کوئٹہ میں بھی فوجی کارروائی شروع کرنے کی بات کی جارہی ہے۔ جب تک ہم آنکھیں کھول کر پاکستان کے مفاد میں آزاد معاشی و سیاسی حکمتِ عملی وضع نہیں کریں گے، حالات میں مثبت تبدیلی نہیں آئے گی۔ پارلیمنٹ نے یہی بات اپنی ۲۲؍اکتوبر۲۰۰۸ء کی قرارداد میں واضح الفاظ میں اور متفقہ طور پر کہی تھی لیکن اس پر کوئی عمل نہیں ہورہا۔

شاہ خرچیاں اور طفل تسلیاں

ٰٰٓٓایک طرف تو یہ روح فرسا حقائق ہیں اور دوسری طرف شاہ خرچیوں کا یہ عالم ہے کہ ۲۰۰۹-۲۰۱۰ء کے مالی سال میں ۳۵۰ ارب روپے طے شدہ بجٹ سے زیادہ خرچ کیے گئے ہیں۔ لاکھوں نہیں، اربوں روپے اشتہار بازی کی نذر کیے گئے ہیں۔اربوں روپے وی آئی پی کلچر کر فروغ دینے اور اپنے مکانات کی تعمیر اور تزئین و آرایش پر خرچ کیے گئے ہیں۔اس لیے ضروری ہے کہ حکومت کے صواب دیدی اختیارات ختم کیے جائیں۔اپنے منظورکردہ بجٹ پر عمل درآمد کروانا بھی پارلیمنٹ کا ہی کام ہونا چاہیے۔ کسی بھی شعبے یا وزارت کو بجٹ سے زیادہ وسائل درکار ہوں تو پارلیمنٹ اس کی منظوری دے۔اس لیے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ انتظامیہ کے اس اختیار کو فی الفور ختم کیا جائے کہ وہ جب چاہے، اور جس مد میں چاہے، پارلیمنٹ کے منظورشدہ بجٹ سے زیادہ رقوم خرچ کرسکے۔ کوئی خرچ پارلیمنٹ کی پیشگی منظوری کے بغیر نہیں ہونا چاہیے۔

وزیر اعظم نے سال کے شروع میں اعلان کیا تھا کہ ان کے دفتر کا خرچ ۴۰فی صد کم کیا جائے گا لیکن بجٹ کی جو دستاویزات پیش کی گئی ہیں ،ان میں یہ خرچ۴۰ فی صد کم ہونے کے بجاے ۲۰ فی صد بڑھ گیا ہے اور اگلے سال اس میں مزید ۱۴فی صد اضافہ کیا جا رہا ہے۔اس وقت بہت ضروری ہے کہ صدر، وزیرِ اعظم اور اراکینِ پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات میں کمی کی جائے ۔ جب تک اہلِ ثروت کو اللّوں تللّوں کی کھلی چھوٹ دی جاتی رہے گی ہم عام آدمی کی مشکلات کو نہیں سمجھ سکیں گے۔ صدر و وزیرِ اعظم کے بیرونی دوروںاور دعوتوں سمیت اسراف اور فضول کرچی کی تمام عادات کو ترک کیا جائے۔یہ قاعدہ بنا دیا جائے کہ عام حالات میں پانچ افراد اور غیر معمولی حالات میں زیادہ سے زیادہ ۱۰ افراد کسی بھی بیرونی دورے پر جائیں گے۔ بنکوں اور انشورنس کے اداروں نے بے تحاشا منافع کمایا ہے، ان پر زیادہ ٹیکس لاگو کیے جائیں۔ سینیٹ بار بار اس کی طرف متوجہ کرتا رہا ہے کہ مالیاتی اداروں پر کم از کم ۴۰ فی صد کارپوریٹ ٹیکس لگنا چاہیے۔ اسی طریقے سے ٹیلی کمیونی کیشن سیکٹر کو حکومتی وسائل پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جائے ۔ جب تک حکومتی دعوے یا خواب جو وزیرخزانہ نے دکھائے ہیں،انھیں پورا کرنے کے لیے مناسب اقدامات نہیں کیے جائیں گے ، ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی ہدایات کی روشنی میں ہم macro معاشی اشاریوں میں استحکام لانے کے لیے کوشاں ہیں، لیکن جب تک ہماری شرحِ پیداوار میں اضافہ نہ ہو اس وقت تک حقیقی استحکام اور ترقی ممکن نہیں۔ اس لیے جب تک شرحِ پیداوار میں اضافے، غربت میں کمی اور روزگار میں اضافہ کی حکمتِ عملی اختیار نہیں کی جائے گی، ہم اپنی معیشت کو مستحکم بنیادوں پر استوار نہیں کرسکیں گے۔

حکومت نے ہمیںسال رواں کے باب میں ۱ئ۴ فی صد شرحِ نموکی خوش خبری سنائی ہے، جو محض کاغذی کاری گری اور سراسر دھوکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ۱ئ۴فی صد شرحِ ترقی ظاہر کرنے کے لیے سب سے پہلے ۰۸-۲۰۰۷ء کی شرحِ ترقی کو کم کیا گیا ہے۔ اسے پہلے ۱ئ۴ سے ۷ئ۳ اور پھر ۲ئ۳ کیا گیا۔ اسی طرح ۰۹-۲۰۰۸ء کے اعداد وشمار کو بھی تبدیل کیا گیا۔ ان کو ۲ کے بجاے ۲ئ۱فی صد پر لے جایا گیا۔ اس تمام کاغذی ’کارناموں‘ کے بعد حالیہ سال کی شرحِ نمو کو۳ فی صد بڑھا کر۱ئ۴ فی صد قرار دیا گیا، جب کہ حقیقت میں یہ۳ فی صد بھی نہیں ہے۔ لطف کی بات ہے کہ اس دعوے کے ساتھ جو ۵ جون کی تقریر میں کیا گیا ہے، دوسری حکومتی دستاویزات بالکل دوسری تصویر پیش کر رہی ہیں۔

خود پاکستان نے ۳ مئی۲۰۱۰ء کو آئی ایم ایف کوجو سرکاری یادداشت پیش کی ہے اس میں یہ توقع ظاہر کی گئی تھی کہ مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کی حقیقی شرحِ نمو ۳ فی صد تک ہوجانے کا امکان ہے اور جون ۲۰۱۰ء میں، یعنی بجٹ کے اعلان سے صرف چند دن پہلے خود آئی ایم ایف کی پاکستان پر رپورٹ میںبھی متوقع شرح نمو کو ۳فی صد دکھایاگیاہے۔ تمام عالمی رپورٹوں میں یہی بات دہرائی گئی ہے۔ آخر یہ دودن میں کیا ماجرا ہوگیا ہے کہ۳ فی صد کی متوقع شرح سے بڑھ کر یہ ۱ئ۴ فی صد ہو گئی ہے، حالانکہ توانائی کے بحران کے نتیجے میں جی ڈی پی میں ۲ فی صد کمی ہوئی ہے۔ نجی سرمایہ کاری میں ۵ئ۳ فی صد اور براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں ۴۶فی صد کمی ہوئی ہے۔ ہماری حکومتیں جب تک خودفریبی اور قوم کو طفل تسلیاں دینے کی روش سے باز آکر حقائق کا سامنا نہیں کریں گی، ہم اس دلدل سے نہیں نکل سکیں گے۔

استحصالی مالیاتی نظام

قومی زندگی کے چار بنیادی شعبہ جات تعلیم ، صحت ،تحقیق و ترقی اور انسانی وسائل کی ترقی، معاشی ترقی اور منصفانہ معاشرے کے قیام کے لیے فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔ ان چاروں کے حوالے سے حالیہ بجٹ اور پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کسی مثبت پیش رفت میں قطعی ناکام نظر آتا ہے۔ جب تک ان کے لیے وسائل فراہم نہیں کیے جائیں گے، اس وقت تک معاشی ترقی کے اہداف حاصل نہیں کیے جاسکتے۔ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلاتِ زر ایک بہت بڑی نعمت ہیں۔ہمیں ہر سال ۷ سے۸ ارب ڈالر اس ذریعے سے وصول ہو رہے ہیں۔مقامی مارکیٹ میں اس رقم کے آنے سے طلب کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے، جسے پورا کرنے کے لیے ہماری پیداوار ناکافی ہے۔ اس کی وجہ سے افراطِ زر میں اضافہ ہو رہا ہے۔عام پیداواری صلاحیت میں کمی کے ساتھ ساتھ زراعت کے شعبے میں بھی ملک خسارے کا شکار ہے۔ توانائی کے بحران نے زرعی ضروریات (inputs) کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ کیا ہے اور اس وقت ہم چھوٹی اور بڑی،  تمام فصلوں کی پیداوار میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ زرعی شعبے کے حوالے سے جو چند مثبت اعداد و شمار  پیش کیے جاتے ہیں وہ صرف اس وجہ سے ہیں کہ مویشیوں کی افزایش (لائیو سٹاک) کو بھی اسی ضمن میں گِنا جاتا ہے، جس میں کارکردگی نسبتاً بہتر رہی ہے۔ تاہم لائیو سٹاک کے شعبے پر بھی مزید توجہ کی ضرورت ہے۔

پاکستانی معیشت کے تمام تر تجزیوں کا ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ہمیں اپنی پیداوار میں اضافہ کرنا ہوگا جو کہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک سرمایہ کاری اور بچت کے رجحان میں اضافہ نہ ہو، لیکن موجودہ استحصالی پالیسیوں کے ساتھ ایسا ممکن نہیں ہے۔ سٹیٹ بنک آف پاکستان نے جس شرحِ سود کو بنیادی شرح (base-line) مقرر کیا ہے، وہ ساڑھے بارہ فی صد ہے۔مارکیٹ میں یہی شرحِ سود ۱۵ سے ۱۸ فی صد ہو جاتی ہے۔ہم ہر طرح کے سود کے شدید مخالف ہیں، لیکن ہمارا مالیاتی نظام بنیادی طور پر اس استحصالی نظام کو مزید استحصال کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ پاکستان کے مرکزی بنک کے ساڑھے بارہ فی صد شرحِ سود کے مقابلے میں امریکا میں شرحِ سود ۲۵ئ۰ فی صد، برطانیہ میں ۵۰ئ۰ فی صد،بقیہ یورپ میں ایک فی صد، جاپان میں ۱ئ۰ فی صد، کینیڈا میں ۲۳ئ۰ فی صد، آسٹریلیا میں ۵ئ۴ فی صداور چین میں۳ئ۵فی صد ہے۔ خود ہمارے خطے میں بھارت میں شرحِ سود ۲۵ئ۵فی صد، ملائشیا میں ۲ فی صد، انڈونیشیا میں ۲ئ۲ فی صد، فلپائن میں ۵ئ۶ فی صد، تھائی لینڈ میں ۴ فی صد، نیوزی لینڈ میں ۲ئ۱ فی صد ہے۔ جب سرمایہ کاری مہنگی اور مشکل ہو، مراعات موجود نہ ہوں، ریسرچ اور ڈویلپمنٹ کے لیے وسائل فراہم نہ کیے جائیں اور سبسڈیز واپس لے لی جائیں تو پیداوار میں اضافہ کیسے ہو سکتا ہے۔

محصول اضافہ قدر (VAT)نافذ کرنے کا فیصلہ حکومت نے آئی ایم ایف سے اپنے ایک معاہدے میں مارچ ۲۰۰۹ء میں کر لیاتھا (ویلیو ایڈڈ ٹیکس، ایک عمومی ٹیکس ہے جو ہر طرح کی اشیا اور خدمات پر، بنیادی پیداوار سے لے کر آخری صارف تک لگایا جاتا ہے۔ یہ ایک بالواسطہ ٹیکس ہے، جس کی زد ہرسطح پر پڑتی ہے) لیکن اس حوالے سے کوئی بنیادی اورضروری اقدامات نہیں کیے گئے جس سے قوم کو شدید دھچکا پہنچے گا۔ پھر اپنے ٹیکس جمع کرنے کے نظام کو بھی اس قابل نہیں بنایا گیا کہ اسی ذریعے سے کسی حقیقی فائدے کی توقع رکھی جاتی۔ اس وقت پاکستان کے عوام پر لاگو بالواسطہ ٹیکس ۶۲ فی صد ہیں، جب کہ بلاواسطہ ٹیکس صرف ۳۸ فی صد ہیں۔

ویٹ ایک رجعی ٹیکس (regressive) ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس سکیم میں دولت مند طبقے کے بجاے عام افراد کو ٹیکس کا ہدف رکھا گیا ہے جو سراسر استحصال ہے۔ جب تک اس طرزِ عمل کو بدلا نہیں جائے گا، یہ نظام ٹھیک نہیں ہوگا۔ اسی طرح حکومت نے اس بجٹ میں سیلز ٹیکس میں ایک فی صد اضافہ کر دیا ہے، گویا موجودہ حکومت کے آنے کے بعد جنرل سیلز ٹیکس میں ۲ فی صد اضافہ ہواہے۔ اس ٹیکس کا سارا بوجھ تو ملک کے ۸۰ فی صد عوام پر ہے اور اس کے نتیجے میں ملک میں مہنگائی کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا ہے ۔ اس ٹیکس سے جو آمدنی ہوگی، اس سے کہیں زیادہ آمدنی صرف درآمدات پر ٹیکس میں دانستہ نظراندازی اور ہیرپھیر کا رویہ (evasion) اختیار کیا جا رہا ہے، اسے روک کر ہی کی جاسکتی ہے۔ حالیہ معاشی سروے کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق صرف درآمدی مال میں ۱۰۰سے ۳۰۰ارب روپے سالانہ کا ٹیکس چوری کیا جا رہا ہے۔ ان امرا سے ٹیکس وصول کرنے کی طرف کسی کی توجہ نہیں ہے۔

بڑہتی ھوئی کرپشن

کرپشن اور بدعنوانی کا حال یہ ہے کہ ٹیکس جمع کرنے والے ادارے فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں ہونے والی کرپشن کا اندازہ ۲۰۰ سے ۲۵۰ارب روپے سالانہ کا ہے، جب بعض آزاد تجزیہ نگاروں کے اندازے کے مطابق ہر سال ۶۰۰سے۷۰۰ ارب روپے ٹیکس چوری کیا جا رہا ہے۔ اگردستیاب وسائل کو درست انداز میں حاصل کرلیں اور کرپشن پر قابو پانے کی سنجیدہ کوشش کی جائے، تو ملک کو قرض کی لعنت سے آزاد کرایا جا سکتا ہے۔عالمی بنک کے مطابق پاکستان میں گذشتہ ۱۰برسوں میں کرپشن ۴۰۰فی صد بڑھی ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق صرف پچھلے ایک سال میں کرپشن میں ۱۰۰ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ اس سب کے باوجود حکومت اب تک کرپشن کے خلاف کسی قسم کی قانون سازی میں ناکام رہی ہے بلکہ جو قانون زیرِغور ہے وہ دراصل کرپشن کی سرپرستی اور بدعنوان عناصر کی حوصلہ افزائی کرنے کا فارمولا ہے۔ بدعنوانی اور کرپشن کے خلاف عوام اور میڈیا چیخ رہے ہیں لیکن حکومت ٹس سے مَس نہیں ہو رہی۔ دُور دُور تک گُڈ گورننس کا نام و نشان تک نظر نہیں آتا۔ مالیاتی نظم و ضبط کا کہیں وجود نہیں ہے۔ملکی سلامتی و خود مختاری تک داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ ان حالات میں وفاقی بجٹ مایوس کن ہے۔

حکومت کی طرف سے کم از کم تنخواہ ۶ ہزار سے بڑھا کر ۷ہزارروپے کرنے کا اعلان بظاہر خوش کُن، لیکن درحقیقت امتیازانہ ہے۔ اگر گریڈ ایک سے گریڈ ۲۲ کے تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں ۵۰ فی صد اضافہ کیا جا رہا ہے تو کم از کم تنخواہ میں بھی اسی تناسب سے اضافہ کیوں نہیں کیا جا رہا۔پھر تمام ملازمین کے لیے ۵۰ فی صد کا اضافہ بلا جواز ہے۔ پہلے گریڈ سے ۱۶ویں گریڈ تک کے سرکاری ملازمین کو ۶۰فی صد اور گریڈ ۱۷ اور اس سے بالائی گریڈ زکو ۴۰ فی صد اضافہ ملنا چاہیے تاکہ معاشی ناہمواری میں کمی ہو۔ اگر گریڈ ۱۷ سے گریڈ۲۲ تک کے ملازمین کو۵۰فی صد دینا ضروری ہو، جب بھی ضروری ہے کہ پہلے گریڈ ایک سے ۱۶ویں گریڈ تک کے ملازمین کو     ۶۰ سے۶۵ فی صد تک کا اضافہ دیا جائے۔ اسی طرح گیس پر۵ فی صد اضافی سرچارج بھی قطعاً بلا جواز ہے۔ اسے ختم ہونا چاہیے اور سیلزٹیکس بھی ایک فی صدی کا مزید اضافہ ایک ظالمانہ اقدام ہے اور اسے بھی ختم کیا جانا چاہیے۔

آئی ایم ایف سے نجات کی ضرورت

اصولی طور پر یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ جو ملک بھی آئی ایم ایف کی گرفت میں آیا ہے،  وہ کبھی ترقی نہیں کرسکا۔ آئی ایم ایف کا اصل کام ملک کی ادایگیوں کے توازن میں مدد کرنا تھا جسے اب قرض لینے والے ملک کی پوری معاشی پالیسی اور خصوصیت سے بڑے پیمانے پر استحکامی پالیسی (macro stabilization) کے نام پر ایسی پابندیوں کے شکنجے میں کسنا ہوگیا ہے، جس کے نتیجے میں ضروریاتِ زندگی پیدا کرنے والے شعبوں کی مدد (subsidy) کو ختم کرنے اور تمام خدمات کی قیمتوں کو بڑھانے اور منڈی کی حکمرانی قائم کرنے کی سعی کی جاتی ہے۔

نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات جوزف سٹک لٹز(Joseph Sticlets) نے دنیا کے ۴۰سے زیادہ ممالک کی معیشت پر آئی ایم ایف کی پالیسیوں کے اثرات کا جائزہ لیا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کسی ایک ملک میں بھی اس کی مسلط کردہ پالیسیوں کے نتیجے میں معاشی ترقی اور عوام کی خوش حالی حاصل نہیں ہوسکی۔

افسوس کا مقام ہے کہ ہم انھی ناکام پالیسیوں کو اپنے ملک پر ایک بار پھر مسلط کرنے کی حماقت کر رہے ہیں۔ ملک کی معاشی ترقی اور سیاسی آزادی کے لیے ضروری ہے کہ آئی ایم ایف کی غلامی سے نجات حاصل کی جائے لیکن اس حکومت نے جناب شوکت ترین کے دور میں صدر  آصف علی زرداری کے احکام کے مطابق جو راستہ اختیار کیا ہے، وہ معاشی تباہی اور مسلسل قرضوں کے بار میں اضافے کا راستے ہے اور یہ قرض بھی اس لیے مل رہے ہیں کہ ہم امریکا کے حکم پر اپنی خارجہ پالیسی اور نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک قبیح کردار ادا کر رہے ہیں۔

اگر ہم آزاد خارجہ پالیسی اختیار کرنے کی جسارت کریں گے تو آئی ایم ایف اسی دن لال جھنڈی دکھا دے گا اور ہم ایک عظیم تر بحران کی گرفت میں ہوںگے۔ کاش! ہمارے حکمران ہوش کے ناخن لیں اوراس تباہ کن پالیسی کوتبدیل کریں۔

اس ملک میں وسائل کی کمی نہیں۔ اصل کمی پالیسی کے صحیح وژن، اپنی قوم اور اپنے وسائل پر بھروسا، بُری حکمرانی (bad governance) اور کرپشن کا خاتمہ اور معاشی ترقی کا وہ آہنگ اختیار کرنا ہے جو ترقی کی رفتار کے ساتھ عوام کی خوش حالی، دولت کی منصفانہ تقسیم اور ملک کی پوری آبادی کو صحت مند معاشی جدوجہد میں شریک کرنے کا ذریعہ بنے۔ جب تک معاشی ترقی کا مثالیہ (paradigm) تبدیل نہیں ہوگا ہم ایک بحران کے بعد دوسرے بحران کا شکار ہوتے رہیں گے اور عوام کی زندگی اجیرن رہے گی۔ موجودہ حکومت معیشت کی صحیح سمت میں رہنمائی کرنے میں بُری طرح ناکام رہی ہے جس کے نتیجے میں عوام کی تکالیف اور معاشی مسائل بڑھتے جارہے ہیں اور اندر ہی اندر وہ لاوا پک رہا ہے جو پورے نظام کو خدانخواستہ ایک دھماکے سے اُڑانے کا باعث ہوسکتا ہے۔ ہم پوری دردمندی سے ملک کی پوری قیادت سے اپیل کریں گے کہ معاشی خودکشی اور سیاسی محکومی کے اس راستے کو ترک کریں، صحیح اہداف کا تعین کریں، اپنی ترجیحات کو ازسرنو ترتیب دیں، عوام اور پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیں، ترقی کا رُخ اور وسائل کے استعمال کی سمت کو تبدیل کریں، اور پاکستان میں اسلام کے دیے ہوئے معاشی اصولوں اور اقدار کی روشنی میں پالیسی سازی اور زندگی کے ہر شعبے کی صورت گری کریں۔ پاکستان کی بقا، نجات اور ترقی کا یہ واحد راستہ ہے۔ ابھی موقع ہے کہ ہم اپنی پالیسی، اپنے رویوں اور اپنے وسائل کے استعمال کے طریقوں کو تبدیل کریں۔ اس صورت میں ہم چند سال میں ملک کی قسمت کو بدل سکتے ہیں۔

سورئہ منافقون غزوۂ بنی مصطلق کے زمانے میں نازل ہوئی۔ احادیث میں آتا ہے کہ اس غزوہ سے واپسی کے سفر میں ایک انصاری اور مہاجر کا جھگڑا ہوگیا۔ یہ کوئی انوکھی بات نہ تھی۔ جب لوگ ایک ساتھ رہتے اور ایک ساتھ اُٹھتے بیٹھتے ہوں، باہم معاملات کرتے ہوں تو اُن کے اندر جھگڑے ہوسکتے ہیں۔ چنانچہ ایسے ہی کسی بات پر ایک مہاجر اور ایک انصاری کا جھگڑا ہوگیا۔ انصار کے ایک بڑے قبیلے بنوخزرج کا سردار عبداللہ بن اُبی جو اس وقت مدینے کا ایک بڑا قوم پرست (nationalist) لیڈر تھا، اس نے اس موقع پر یہ محسوس کیا کہ مدینے کے انصار اور مہاجرین کے درمیان نفاق ڈالنے اور ان کو لڑانے کا اچھا موقع ہے۔ چونکہ وہ مدینے کا ایک اہم سردار تھا اور سچے دل سے ایمان بھی نہیں لایا تھا، اس لیے اس کو یہ بات سخت ناگوار تھی کہ دوسرے شہر کے لوگ، یعنی مکی مہاجرین اور دوسرے قبیلوں سے آئے ہوئے لوگ مدینے کے اندر آکر بس گئے ہیں اور یہاں اپنے قدم جمارہے ہیں۔ لہٰذا اس نے جب یہ دیکھا کہ مہاجرین میں سے ایک آدمی اس کے قبیلے کے ایک آدمی سے جھگڑ پڑا ہے، تو اس موقع سے فائدہ اُٹھا کر اس نے مدینے کے لوگوں کی عصبیت کو بھڑکانا اور ان کو مہاجرین کے خلاف اُکسانا شروع کردیا۔

قوم پرستی (نیشنلزم) کا جذبہ جب بھی پیدا ہوتا ہے توہر آدمی جو سمجھتا ہو کہ ایک خاص دائرے کے اندر اس کو برتری حاصل ہونی چاہیے وہ اس دائرے کے اندر والوں کو اپنا اور باہر  والوں کو غیر سمجھتا ہے۔ جب صورتِ حال یہ پیدا ہوجاتی ہے تو ایک ملک کے اندر ضلع کی عصبیت پیدا ہوتی ہے اور ایک ضلع کے اندر تحصیل کی عصبیت پیدا ہوتی ہے۔ ایک تحصیل میں ایک تھانے کی اورایک شہر اور گائوں کی عصبیت پیدا ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ برادری اور خاندان کی عصبیت بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ لیکن دینی نقطۂ نظر سے یہ وہ چیز ہے جو اُن مقاصد کے بالکل خلاف ہے، جو اسلام کا مقصود ہیں۔ اسلام کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ جتنے انسان ایک کلمے کے اُوپر جمع ہوجائیں وہ ایک قوم بن جاتے ہیں۔ اس طرح تشکیل پانے والی قوم اور دراصل اُمت تمام دنیا کے انسانوں کو اپنے اندر سمیٹ سکتی ہے۔ اس کے برعکس جو دنیاوی نیشنلزم اور قوم پرستی ہے وہ چھوٹے سے چھوٹے دائرے کے آدمیوں کو جمع کرتی ہے، اور باہر والے لوگوں کے بارے میں ان کے اندر عداوت ڈالتی ہے۔ ان کے درمیان مناقشت (مخاصمت) اور کش مکش پیدا کرتی ہے۔

عبداللہ بن اُبی چونکہ قوم پرستانہ ذہن کا آدمی تھا اس لیے وہ اس موقع کی تاک میں تھا کہ مہاجرین کے خلاف انصار کو بھڑکائے اور بالآخر مہاجرین کو مدینہ سے نکالا جاسکے۔ چنانچہ اس نے اس موقع پر انصار کو بھڑکایا۔ اسی ترنگ میں اس نے ایک بڑی نازیبا بات کہی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ نعوذباللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مہاجرین اہلِ مدینہ کے ٹکڑوں پر پل رہے ہیں اور اب نوبت یہ آگئی ہے کہ یہ ہمارے منہ آرہے ہیں۔ اس نے یہاں تک کہا کہ مدینے پہنچ کر ہم میں سے جو عزت والا ہے وہ ذلیل کو نکال باہر کرے گا۔ یہ سورت اسی زمانے میں نازل ہوئی۔اس کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

اِِذَا جَآئَ کَ الْمُنَافِقُوْنَ قَالُوْا نَشْھَدُ اِِنَّکَ لَرَسُوْلُ اللّٰہِ م وَاللّٰہُ یَعْلَمُ اِِنَّکَ لَرَسُوْلُہٗ وَاللّٰہُ یَشْھَدُ اِِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَکٰذِبُوْنَ o (المنافقون ۶۳:۱) اے نبیؐ، جب یہ منافق تمھارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں: ’’ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں‘‘۔ ہاں، اللہ جانتا ہے کہ تم ضرور اس کے رسول ہو، مگر اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق جھوٹے ہیں۔

مراد یہ ہے کہ اے نبیؐ! تم اللہ کے رسولؐ ہو، یہ بات تو ان کی جھوٹی نہیں ہے لیکن ان کا یہ کہنا کہ ہم گواہ ہیں کہ تم اللہ کے رسولؐ ہو، یہ جھوٹ ہے۔ وہ ہرگز اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ تم اللہ کے رسول ہو۔ محض جھوٹ کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ تم اللہ کے رسول ہو۔ اللہ کے رسولؐ تو تم ضرور ہو مگر اُن کی گواہی جھوٹی ہے۔

قسموں کو ڈہال بنانا

اِتَّخَذُوْٓا اَیْمَانَھُمْ جُنَّۃً فَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اِِنَّھُمْ سَآئَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (۲) اُنھوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے اور اس طرح یہ  اللہ کے راستے سے (خود رُکتے ہیں اور) دنیا کو روکتے ہیں۔ کیسی بُری حرکتیں ہیں جو یہ لوگ کر رہے ہیں۔

انھوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا لیا ہے، کا مطلب یہ ہے کہ یہ جو آآ کر کہتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسولؐ ہیں اور ہم اس کی گواہی دیتے ہیں، اور مسلمانوں کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور ہم تمھاری ہی طرح ایمان لائے ہیں، اس بات کو اُنھوں نے ڈھال بنا لیا ہے۔ ڈھال بنانے کی نوعیت یہ تھی کہ مدینۂ طیبہ کے لوگوں کی ایک اچھی خاصی تعداد مسلمان ہوگئی تھی اور اخلاص کے ساتھ ایمان لے آئی تھی اس نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت دے کر مدینہ میں بلایا اور اپنا سردار اور فرماں روا بنا لیا، بغیر اس کے کہ حضوؐر زبردستی اپنے آپ کو ان پر مسلط کرتے، انھوں نے برضا و رغبت آپ کی فرماں روائی تسلیم کی اور مان لیا کہ جب آپ اللہ کے رسولؐ ہیں تو فرماں روائی بھی آپؐ کی ہے۔ اس طرح جب حضوؐر کی یہ پوزیشن مدینہ طیبہ میں بن گئی تو جو لوگ مدینہ کے سردار اور بااثر لوگ تھے انھوں نے یہ محسوس کیا کہ اگر اب ہم نے مقابلہ کیا تو آپس میں خانہ جنگی ہوسکتی ہے اورچونکہ بہت سے صاحب ِ حیثیت آدمی اور سردار مسلمان بھی ہوگئے ہیں اور نوجوانوںکا بڑا طبقہ بھی مسلمان ہوگیا ہے، اس صورت حال میں اگر غیرمسلم رہتے ہیں تو جو آج تک ہماری چودھراہٹ تھی وہ ختم ہوجائے گی۔ اس لیے محض اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے وہ مسلمان ہوگئے۔ دوسرے الفاظ میں انھوں نے اپنے اسلام کو ڈھال بنا لیا۔ اس طرح درحقیقت وہ اپنی پوزیشن بچانا چاہتے تھے اور اسلام کو انھوں نے محض ڈھال کے طور پر سامنے رکھا۔

دوسری چیز یہ تھی کہ جب وہ مسلمان ہوگئے تو ان کو مسلمانوں کے اندر گھسنے کا موقع مل گیا۔ اگر کوئی مسلمان نہ ہو تو وہ مسلمانوں کے اندر گھس کر فساد برپا نہیں کرسکتا۔ ان کے مشوروں میں شریک ہوکر ان کے رازوں سے واقف نہیں ہوسکتا، لیکن اگر وہ مسلمان ہوجائے تو اس کے لیے پورے مواقع موجود ہوتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے اندرونی معاملات کو بگاڑ سکے۔ ان کے اندر نفاق ڈالنا اور ان کے مشورے میں شریک ہوکر ان کو ایک دوسرے سے لڑانے کی کوشش کرنا،     یہ سارے کام بھی اس طرح کا آدمی کرسکتا ہے۔

اللہ کے راستے سے روکنا

اس کے بعد فرمایا کہ اپنی قسموں کو انھوں نے ڈھال بنالیا ہے اور اس ڈھال کی آڑ میں وہ اللہ کے راستے سے لوگوں کو روکتے ہیں۔ اللہ کے راستے سے روکنے کی بہت سی صورتیں ہیں۔ اللہ کے راستے سے روکنے کی ایک  شکل یہ تھی کہ وہ بظاہر مسلمانوں کے اندر شامل ہیں لیکن قرآنِ مجید کا کوئی ارشاد ہو یا حضوؐر کا کوئی فعل، وہ اس کے بارے میں لوگوں کے دلوں میں شکوک ڈالتے تھے تاکہ ان کے اندرایمان راسخ نہ ہوسکے۔

دوسری صورت یہ تھی کہ مسلمانوں کے اندر ایسی خبریں پھیلاتے تھے جن سے مسلمانوں میں انتشار اور کم حوصلگی پیدا ہو۔ دشمنوں کے مقابلے میں یہ خوف پیدا ہوا کہ فلاںقبیلہ تمھارے خلاف مجتمع ہورہا ہے اور وہ اتنی طاقت کے ساتھ تم پر حملہ آور ہونے کی تیاری کر رہا ہے۔ اس طرح کی خبریں پھیلا پھیلاکر وہ مسلمانوں کے اندر اضطراب اور بے چینی پیدا کرتے تھے۔ اسی طرح مدافعت کی جو تیاری کی جاتی تھی، وہ اس کے اندر بھی رخنے ڈالنے کی کوششیں کرتے تھے۔ یہ بھی اللہ کے راستے سے روکنے کی ایک صورت تھی۔

تیسری صورت یہ تھی کہ عرب قبائل کے اندر مسلمانوں کے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں طرح طرح کی جھوٹی خبریں پھیلایا کرتے تھے تاکہ ان کے دلوں میں اسلام کے متعلق عداوت اور منافرت پیدا ہو اور وہ اسلام اور رسولؐ اللہ کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں۔

یہ مختلف طریقے تھے جن کے ذریعے سے وہ لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکتے تھے اور اسلام کے راستے میں سدِّراہ بن کر کھڑے ہوگئے تھے۔ ان کی سرتوڑ کوشش یہ تھی کہ یہ کام کسی طرح چلنے نہ پائے۔ اس پر فرمایا گیا: اِِنَّھُمْ سَآئَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (۲)، یعنی یہ بہت بُرے کرتوت ہیں جو یہ لوگ کررہے ہیں۔

دلوں پر مُھر

ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ اٰمَنُوْا ثُمَّ کَفَرُوْا فَطُبِعَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ فَھُمْ لاَ یَفْقَھُوْنَ (۳)    یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ ان لوگوں نے ایمان لاکر پھر کفر کیا اس لیے ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی، اب یہ کچھ نہیں سمجھتے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی اللہ اور اس کے رسول کا صاف صاف انکار کردے تو اس بات کا امکان ہے کہ کسی وقت بات اس کی سمجھ میں آجائے اور وہ ہدایت قبول کر کے مسلمان ہوجائے۔ یہ اس وجہ سے کہ وہ مکار اور فریبی نہیں ہے، چال باز نہیں ہے۔ اس کے اندر اس طرح کا کھوٹ نہیں ہے کہ وہ بات کو مان بھی رہا ہے لیکن صدق دل سے نہیں مان رہا ہے، بلکہ صرف ماننے سے انکار کر رہا ہے۔ جس وقت بات اس کی سمجھ میں آجائے گی تو وہ اپنے قبولِ حق کا اظہار و اعلان کر دے گا۔ لیکن جو آدمی چال بازیاں کرتا ہے، مکاریاں کرتا ہے، فریب دیتا ہے، اس کے اندر سے وہ صلاحیت ختم ہوجاتی ہے کہ وہ سیدھی طرح سے ایمان لے آئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ماننے کا دعویٰ تو کرتا ہے لیکن اصل میں وہ کافر ہے۔بظاہر ماننے کی ایکٹنگ کر رہا ہے اور اندر سے مان نہیں رہا ہے۔ ماننے کے بعد وہ کام کر رہا ہے جو نہ ماننے والوں کے کرنے کے ہیں۔ ان حرکتوں کے بعد پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے قبولِ ہدایت کی توفیق سلب ہوجاتی ہے۔ ان کے دلوں پر ٹھپہ لگا دیا جاتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کی توفیق سلب ہوجائے تو ان کے اندر   یہ صلاحیت باقی نہیں رہتی کہ وہ غوروفکر کرسکیں اور سمجھ بوجھ سے کام لیں۔

اسی لیے یہ فرمایا گیا ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ کی پھٹکار ان پر پڑ گئی ہے اور ان کے دلوں پر ٹھپہ لگ گیا ہے اس وجہ سے اتنی سیدھی بات بھی ان کی سمجھ میں نہیں آتی کہ خدا کی ہدایت کے ساتھ چال بازی کا معاملہ کرکے وہ کیسے فلاح پائیں گے۔اسی ٹیڑھ کی وجہ سے آپ سیدھی بات ان سے کریں گے وہ اس میں سے ٹیڑھ نکال لیں گے۔

لکڑی کے کُندے

وَاِِذَا رَاَیْتَھُمْ تُعْجِبُکَ اَجْسَامُھُمْ ط وَاِِنْ یَّقُوْلُوْا تَسْمَعْ لِقَوْلِھِمْ ط کَاَنَّھُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَۃٌ ط یَحْسَبُوْنَ کُلَّ صَیْحَۃٍ عَلَیْھِمْ ط ھُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْھُمْط قٰتَلَھُمُ اللّٰہُ ز اَنّٰی یُؤْفَکُوْنَ o (۴) اِنھیں دیکھو تو اِن کے جُثّے تمھیں بڑے شان دار نظر آئیں۔ بولیں تم تو ان کی باتیں سنتے رہ جائو۔ مگر اصل میں یہ گویا لکڑی کے کُندے ہیں جو دیوار کے ساتھ چن کر رکھ دیے گئے ہیں۔ ہر زور کی آواز کو یہ اپنے خلاف سمجھتے ہیں۔ یہ پکے دشمن ہیں، ان سے بچ کر رہو۔ اللہ کی مار ان پر، یہ کدھر اُلٹے پھرائے جا رہے ہیں۔

اس میں منافقین کی تصویر کھینچ دی گئی ہے۔ میں پہلے بتا چکاہوں کہ یہ مدینے کے بڑے بڑے چودھری اور سردار تھے، خوب کھاتے پیتے لوگ تھے۔ اور چربی بھرے ہوئے ان کے جسم تھے۔ اس کی طرف اشارہ کرکے فرمایا گیا کہ تم ان کو دیکھو تو ان کے جسم بڑے شاندار نظر آئیں گے۔ دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بڑی شخصیت (personality) کے مالک ہیں۔ اگر بات کریں تو ان کی بات سنتے رہ جائو، بڑی چکنی چپڑی باتیں کرنے والے بڑے زبان آور اور بڑی اعلیٰ درجے کی زبان استعمال کرنے والے لوگ ہیں مگر ان ظاہر فریب شخصیتوں کے ساتھ ان کی کیفیت یہ ہے کہ یہ گویا دیوار سے لگی ہوئی لکڑیاں ہیں، اندر سے کھوکھلے لوگ ہیں۔

عرب میں جو بت پوجے جاتے تھے وہ زیادہ تر لکڑی کے ہوتے تھے، پتھر کے بت کم تھے۔ ان بتوں کو بہت شاندار، رنگین اور بڑے بڑے نقش و نگار بناکر طرح طرح کے کپڑے پہناکر دیواروں کے ساتھ لگا کر رکھ دیا جاتا تھا۔ چنانچہ فرمایا گیا کہ ان منافقوں کی حالت ان بتوں کی سی ہے جو کہ بظاہر بڑے شان دار نظر آتے ہیں لیکن ان کے اندر جان نہیں ہوتی۔یہ دیواروں کے سہارے کھڑے ہوتے ہیں، ان کے اندر اپنے بل بوتے پر کھڑے ہونے کی صلاحیت بھی نہیں ہے۔

مجرم ضمیر کی تصویر

یَحْسَبُوْنَ کُلَّ صَیْحَۃٍ عَلَیْھِمْ ہر آواز کو سمجھتے ہیں کہ وہ ان کے خلاف ہے۔

یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے۔ اگر ایک آدمی چوری کر رہا ہوتو ذرا سی آہٹ اور آواز کسی طرف سے آئے تو وہ فوراً بِدکتا ہے کہ میں مارا گیا۔ اسی طرح سے جو آدمی کسی معاشرے میں رہتے ہوئے اس معاشرے کے خلاف کام کر رہا ہے، کسی ریاست میں رہتا ہے اور غیرقانونی افعال میں ملوث ہے، دشمن سے ملا ہوا ہے، یا کسی سازش میں شریک ہے، تو ایسا آدمی اندر سے جانتا ہے کہ وہ کیا کر رہا ہے۔ اس کا دل اس بات سے باخبر ہوتا ہے کہ میں مجرم ہوں اور جرم کا ارتکاب کر رہا ہوں اس لیے ہر وقت اس بات کا امکان ہے کہ میرا راز فاش ہوجائے اور میری شامت آجائے۔ ایسے آدمی کے اندر ایک عجیب قسم کی بُزدلی موجود ہوتی ہے، اپنے جرم کا احساس موجود ہوتا ہے، اس لیے وہ ہر وقت خوف زدہ رہتا ہے۔ لہٰذا ہر آواز سے اس کو یہ خطرہ ہوتا ہے کہ میری شامت آئی۔

اس کے برعکس جو آدمی ایمان داری کے ساتھ کام کر رہا ہو، وہ بے خوف اور بے کھٹکے ہوتا ہے۔ وہ آدمی جو کچھ بھی خیالات رکھتا ہو، ان کو کھلم کھلا بیان کرتا ہے، جو کام بھی کرتا ہے، علانیہ کرتا ہے۔ اگر کسی سے لڑائی ہے تو کھلم کھلا لڑائی ہے۔ کسی کے ساتھ دوستی ہے تو ایمان داری کے ساتھ دوستی ہے۔ کسی کا مخالف ہے تو کھلم کھلا مخالف ہے۔ کسی کا موافق ہے تو علانیہ موافق ہے۔ جو بات کرتا ہے اطمینان اور ایمان داری کے ساتھ کرتا ہے۔ اس کے برعکس ایک منافق کا رویّہ ایک ڈرے ہوئے اور سہمے ہوئے سے انسان کی طرح ہوتا ہے، وہ اندر سے کمزور ہوتا ہے اس لیے ہر آواز سے اس کو احساس ہوتا ہے کہ بس اب اس کی شامت آرہی ہے۔

منافقین کی اس روش کی بنا پر انھیں مسلمانوں کا اصل دشمن قرار دیا گیا ہے، چنانچہ فرمایا گیا:

ھُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْھُمْ (۴) یہی اصل میں دشمن ہیں، ان سے بچو۔

باہر والے دشمن کے مقابلے میں یہ چھپے دشمن زیادہ خطرناک ہیں۔ اس لیے ان سے ہوشیار رہو۔ ان کے ظاہر سے دھوکا نہ کھائو۔ ہر وقت خیال رکھو کہ یہ کسی وقت بھی دغا دے سکتے ہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں اپنا فیصلہ سنا دیا: قٰتَلَھُمُ اللّٰہُ اَنّٰی یُؤْفَکُوْنَ اللہ تعالیٰ ان کا ناس کرے،  یہ کدھر اُلٹے پھرائے جارہے ہیں۔

اللہ تعالیٰ ان کا ناس کرے___ عربی زبان کا محاورہ ہے، یعنی جب کہنا ہو کہ اس کا ستیاناس ہوجائے تو اس موقع پر بولا جاتا ہے۔ مزید کہا گیا کہ یہ دھوکا کھاکر کدھر جا رہے ہیں۔ یہ بظاہر دوسروں کو دھوکا دے رہے ہیں لیکن دراصل خود دھوکا کھا رہے ہیں اور اپنی تباہی کا سامان کر رہے ہیں۔

گہمنڈ اور غرور

وَاِِذَا قِیْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا یَسْتَغْفِرْلَکُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ لَوَّوْا رُئُوْسَھُمْ وَرَاَیْتَھُمْ یَصُدُّونَ وَھُمْ مُّسْتَکْبِرُوْنَ o (۵) اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آئو تاکہ اللہ کا رسولؐ تمھارے لیے مغفرت کی دعا کرے، تو سر جھٹکتے ہیں، اور تم دیکھتے ہو کہ وہ بڑے گھمنڈ کے ساتھ آنے سے رُکتے ہیں۔

یہ اشارہ ہے اس واقعے کی طرف کہ عبداللہ بن اُبی نے غزوہ بنی المصطلق کے موقع پر مسلمانوں کو باہم لڑانے کی کوشش کی تھی اور اس طرح کی باتیں کی تھیں کہ یہ مہاجرین جب ہمارے ہاں آئے تھے تو بھوکے ننگے تھے۔ اور اس کے بعد پھر یہ حالت ہوگئی ہے کہ یہ انصار کے خلاف جری ہوگئے ہیں اور ان سے لڑنے کے لیے تیار ہیں۔ اس موقع پر اس نے یہ الفاظ بھی کہے تھے کہ اب مدینہ چل کر جو ہم میں سے عزت والا ہے وہ ذلت والے کو نکال باہر کرے گا۔

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک اس کی اطلاع پہنچی اور عبداللہ بن اُبی کو بھی خبر دی گئی کہ رسولؐ اللہ کو اس بات کا پتا چل گیا ہے کہ تم نے کیا باتیں کی ہیں تو انصار کے بعض لوگوں نے اس سے کہا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلو اور ان سے اس کی معافی مانگو اور یہ درخواست بھی کرو کہ آپ اللہ تعالیٰ سے میرے لیے مغفرت کے لیے دعا کریں، تو اس نے بڑی نفرت سے منہ پھیرا اور اکڑ کر یہ کہا کہ تم لوگوں نے مجھے کہا کہ محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) پر ایمان لائو تو میں ایمان لے آیا، تم نے کہا کہ نماز پڑھو تو میں نماز بھی پڑھنے لگا، تم نے کہا کہ زکوٰۃ دو تو میں نے زکوٰۃ بھی دینی شروع کر دی، اب بس یہ کسر رہ گئی ہے کہ تم کہو کہ محمدؐ کو سجدہ کرو تو یہ تو میں کرنے سے رہا۔

گویا اس کے نزدیک اس کا یہ بہت بڑا احسان تھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آیا، جب کہ اس کے قبیلے کے لوگ اس کو بادشاہ بنانے کا فیصلہ کرچکے تھے۔ گویا اس کے بقول: پھر یہ کیا کم مہربانی تھی کہ میں لوگوں کے کہنے پر نماز بھی پڑھنے لگا، زکوٰۃ بھی دینے لگا، اور اب    تم اتنے بڑے رئیس کو یہ کہہ رہے ہو کہ جاکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ درخواست کرو کہ    وہ تمھارے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا کریں ،تو گویا بس اب ان کو سجدہ کرنے کی کسر باقی رہ گئی ہے۔ اس کے بارے میں یہ فرمایا گیا کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آئو تاکہ اللہ کا رسولؐ تمھارے لیے مغفرت کی دعا کرے تو (تم دیکھتے ہو کہ) یہ بڑے تکبر کے ساتھ منہ پھیرتے ہیں۔ (جاری)۔ (جمع وتدوین: حفیظ الرحمٰن احسن)


منافق کے لیے ھدایت نھیں

سَوَآئٌ عَلَیْھِمْ اَسْتَغْفَرْتَ لَھُمْ اَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَھُمْ لَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَھُمْ اِِنَّ اللّٰہَ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ o (۶) اے نبیؐ، تم چاہے ان کے لیے مغفرت کی دعا کرو یا نہ کرو، ان کے لیے یکساں ہے، اللہ ہرگز انھیں معاف نہ کرے گا، اللہ فاسق لوگوں کو ہرگز ہدایت نہیں دیتا۔

یہ بات سورئہ توبہ میں بھی ارشاد ہوتی ہے اور یہاں تک فرمایا گیا کہ اگر تم ان کے لیے ۷۰مرتبہ بھی مغفرت کی دعا کرو گے تو اللہ تعالیٰ اس کو قبول نہیں کرے گا۔ یہاں یہی بات ان الفاظ میں فرمائی گئی کہ تم چاہے ان کے لیے مغفرت کی درخواست کرو یا نہ کرو، اللہ ان کو ہرگز معاف نہیں کرے گا۔ کیوں؟___ اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ کو ایمان کے دعوے کے ساتھ مکاری کسی طرح پسند نہیں۔

ایک آدمی مشرک، کافر، بدعتی، جو بھی ہے، اللہ سے معافی مانگے تو اس کی معافی ہوجائے گی۔ اس کے اندر کم از کم یہ شرافت تو موجود ہے کہ جس چیز کو مانتا ہے اس کو سیدھی طرح سے مانتا ہے۔ لیکن جو آدمی اپنے خدا سے بھی مکاری کرے، جس معاشرے میں وہ رہتا ہے اس سے بھی مکاری کرے، وفاداری کا دم بھی بھرے اور وفادار نہ بھی ہو، اپنے آپ کو مخلص مومن کی حیثیت سے پیش کرے لیکن حقیقت میں اس کے اندر کوئی اخلاص نہ ہو، بظاہر مطیع فرمان بنا پھرتا ہو لیکن درحقیقت اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے پر تلا ہوا ہو___ ایسے آدمی کے لیے کوئی معافی نہیں۔یہاں تک فرمایا گیا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس کے حق میں مغفرت کی دعا مانگیں تو ان کی دعا بھی قبول نہیں ہوگی۔

دوسرے الفاظ میں یوں کہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت بھی ہرشخص کے لیے نافع نہیں اور کسی کے لیے دعاے مغفرت کرنا بھی شفاعت ہے___ ظاہر بات ہے کہ شفاعت زندگی میں بھی ہوسکتی ہے اور آخرت میں بھی ہوگی۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک کی شفاعت کے معاملے میں کیفیت یہ ہے کہ حضوؐر کی شفاعت اللہ کو مجبور کرنے والی نہیں۔ اس کو قبول کرنے یا نہ کرنے کا پورا اختیار اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ حضوؐر اللہ کے بندے ہیں، خدائی میں شریک نہیں ہیں۔ آپؐ کا کام گزارش کرنا ہے،دعا کرنا ہے، قبول کرنا نہ کرنا بالکل اللہ کے اختیار میں ہے۔ کسی شخص کا یہ خیال کرنا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی شخص کے حق میں دعاے مغفرت فرما دیں تو وہ یقینا بخشا جائے گا، درست نہیں___ اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ بات فرمائی ہے کہ یہ بات یکساں ہے کہ چاہے تم ان کی مغفرت کی دعا کرو یانہ کرو، اللہ تعالیٰ ہرگز ان کو نہیں بخشے گا۔

اِِنَّ اللّٰہَ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ (۶) اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔

مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اطاعت کے دائرے سے جان بوجھ کر نکل جاتے ہیں، ان کے لیے کوئی ہدایت نہیں ہے۔ فِسق کے معنی ہیں اطاعت سے جان بوجھ کر نکل جانا۔ ایک وہ آدمی ہے جو بھولے سے اطاعت کے دائرے سے نکل گیا، لغزش کھا گیا، ٹھوکر کھا گیا۔ اس کے برعکس ایک آدمی وہ ہے جو جان بوجھ کر یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اللہ اور رسولؐ کی اطاعت نہیں کرنی ہے، وہ فاسق ہوتا ہے۔ ہر گناہ گار کافر نہیں فرق یہ ہے کہ جس شخص سے غفلت کی بنا پر کوئی قصور ہوگیا، وہ فاسق نہیں گناہ گار ہے۔ لیکن جس آدمی نے جان بوجھ کر فیصلہ کیا ہو کہ مجھے اطاعت قبول نہیں کرنی ہے بلکہ نافرمانی کی راہ پر چلنا ہے، وہ فسق کا ارتکاب کرتا ہے، اور اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔ ظاہر بات ہے کہ مغفرت اُسی شخص کی ہوسکتی ہے جو راہِ راست اختیار کرے، ہدایت قبول کرے لیکن جو شخص ہدایت اختیار نہیں کرتا اس کی مغفرت کیسے ہوسکتی ہے۔ جو آدمی پہلے گمراہ تھا لیکن سیدھے راستے پر آگیا اس کی معافی قبول ہونے کا امکان ہے، کیونکہ اس نے نافرمانی اور گمراہی کو چھوڑ کر اطاعت اور ہدایت کی راہ اختیار کرلی۔

اس کے برعکس جس نے جان بوجھ کر ٹھنڈے دل سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے کا فیصلہ کیا ہو تو اللہ تعالیٰ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ اس کو ہدایت دے۔ اللہ آقا ہے اور بندہ، بندہ اور غلام ہے۔ اگر بندہ اپنے آقا کے مقابلے میں جان بوجھ کر بغاوت کا رویہ اختیار کرے اور اکڑ کر چلاجائے کہ مجھے اس کی اطاعت نہیں کرنی ہے، تو کیا آقا کا یہ کام ہے کہ وہ اس کے پیچھے پیچھے پھرے کہ تو میری طرف چلا آ۔ آقا کا تو یہ کام ہے کہ اس سے کہے کہ تو جا اور اپنا انجام دیکھ۔      یہ مفہوم ہے اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ کا۔ اللہ کا کام یہ نہیں ہے کہ جو آدمی اس کی اطاعت نہیں کرنا چاہتا، اللہ اس کے پیچھے پیچھے پھرے کہ تو ہدایت قبول کرلے۔ جو ہدایت نہیں چاہتا، اس کے لیے ہدایت نہیں ہے۔ اور جب اس کے لیے ہدایت نہیں ہے تو اس کے لیے مغفرت بھی نہیں ہے ۔

احسان جتانا

ھُمُ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ لاَ تُنْفِقُوْا عَلٰی مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ حَتّٰی یَنْفَضُّوا وَلِلّٰہِ خَزَآئِنُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلٰـکِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لاَ یَفْقَھُوْنَ o (۶۳:۷) یہ وہی لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ رسولؐ کے ساتھیوں پر خرچ کرنا بند کر دو تاکہ یہ منتشر ہوجائیں۔ حالانکہ زمین اور آسمانوں کے خزانوں کامالک اللہ ہی ہے، مگر یہ منافق نہیں سمجھتے ہیں۔

یہ بات بھی عبداللہ بن اُبی نے کہی تھی۔ جب غزوئہ بنی المصطلق کے موقع پر ایک انصاری اور ایک مہاجر کے درمیان جھگڑا ہوا تو اس نے انصار کو خوب بھڑکایا، مہاجرین کے خلاف خوب اُکسایا اور کہا کہ یہ لوگ تو بھوکوں مرنے ہوئے آئے تھے اور تم نے ان کو اپنی جایدادوں میں شریک کیا، ان کو اپنے گھر تک دیے رہنے کے لیے،ان پر اپنے مال خرچ کیے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج یہ تمھارے …… آرہے ہیں۔ اب مدینہ واپس جاکر ان پر اپنا مال خرچ کرنا بند کرو، جو گھر ان کو دیے تھے ان سے واپس لو، اور جن جایدادوں میں ان کو حصہ دار بنایا تھا وہ ان سے واپس لو، جو قرض ان کو دیے تھے وہ قرض وصول کرو، اور آیندہ ان کی مدد کرنا بند کرو، یہ تمھیں چلتے پھرتے نظر آئیں گے۔

اس پر یہ فرمایا گیا کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسولؐ کے ساتھ جو لوگ ہیں ان کے اُوپر خرچ کرنا بند کر دو تاکہ یہ چھٹ کر الگ ہوجائیں، یہاں سے چلے جائیں، حالانکہ ان منافقین کو معلوم نہیں ہے کہ زمین و آسمان کے خزانے اللہ کے پاس ہیں۔ یہ محض جہالت اور نادانی کی باتیں ہیں کہ اگر یہ لوگ مہاجرین کی مدد نہ کرتے تو انھیں نہ کوئی ٹھکانہ ملتا اور نہ رزق میسر آتا، حالانکہ وہ ان کے رازق نہیں بلکہ وہ خود بھی کسی چیز کے مالک نہیں ہیں۔ وہ اپنے رزّاق خود نہیں ہیں۔ ان کے پاس جو کچھ ہے اللہ کا دیا ہوا ہے۔ اگر تم نے اپنے ایمان اور اخلاص کی بنا پر کیا تو پھر احسان کیا۔ اگر تم یہ سب کچھ نہ بھی کرتے تو اللہ تعالیٰ اپنے پاس سے ان کی ضرورت کا سامان مہیا کرتا۔ اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کا خزانوں کا مالک ہے۔

عزت اور ذلت کا معیار

یَقُوْلُوْنَ لَئِنْ رَّجَعْنَآ اِِلَی الْمَدِیْنَۃِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْھَا الْاَذَلَّ وَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَلٰـکِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ o (۶۳:۸) یہ کہتے ہیں کہ ہم مدینے واپس پہنچ جائیں تو جو عزت والا ہے وہ ذلیل کو وہاں سے نکال باہر کرے گا۔ حالانکہ عزت تو اللہ اور اس کے رسولؐ اور مومنین کے لیے ہے، مگر یہ منافق جانتے نہیں ہیں۔

جیساکہ میں بتا چکا ہوں کہ عبداللہ بن اُبی نے یہ بات بھی کہی تھی اور اس کا مطلب ذلت والے سے مراد نعوذباللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس تھی۔ اس کے قول کا مطلب یہ تھا کہ ہم جو عزت والے ہیں مدینہ شریف پہنچ کر نعوذباللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نکال دیں گے۔ یہ بات رسولؐ اللہ تک بھی پہنچی اور صحابہ کرامؓ نے بھی سنی۔ رسولؐ اللہ نہایت درجے کی غیرمعمولی متحمل شخصیت کے مالک تھے۔ آپ نے یہ بات سنی اور سن کر ٹال دی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ قول سنا کہ عبداللہ بن اُبی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی ہے تو انھوں نے آکر حضوؐر سے عرض کیا کہ حضوؐر، اگر اجازت ہو تو میں جاکر اس کا سر قلم کر دوں۔ ظاہر بات ہے کہ یہ دراصل ارتداد کا فعل تھا کہ ایک شخص اسلام قبول کرنے اور مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور پھر اللہ کے رسولؐ کو نعوذباللہ ذلیل کہتا ہے___ اس سے زیادہ ارتداد اور کیا ہوسکتا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص قرآن کی توہین کرے، اللہ کو یا اس کے رسولؐ کو گالی دے تو وہ تو نہ صرف یہ کہ مرتد ہے بلکہ نہایت ذلیل قسم کا مرتد ہے۔ اس لیے حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ میں جاکر اس مرتد کا سر قلم کرتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جواب یہ دیا کہ میں نہیں چاہتا کہ عرب کے لوگ یہ کہیں کہ محمدؐ اپنے ساتھیوں کو قتل کرا رہا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ باہر کے لوگوں کو معلوم نہیں کہ عبداللہ بن اُبی ایک منافق ہے، باہر کے لوگوں کو تو یہ معلوم ہے کہ عبداللہ بن اُبی مسلمانوں کا ایک سردار ہے۔ اس کے علاوہ جو دوسرے منافق تھے ان کے بارے میں بھی باہر کے لوگ یہی جانتے تھے کہ وہ مسلمان ہیں۔ اگر عبداللہ بن اُبی کو قتل کر دیا جاتا تو باہر کے لوگ یہ کہتے کہ دیکھیے ان کے درمیان ایسی پھوٹ پڑی ہے کہ اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو قتل کرا رہے ہیں۔ یہ بات حکمت کے خلاف ہوتی۔ اس سے اسلام کی شہرت کو نقصان پہنچتا، اس لیے حضوؐر نے یہ فیصلہ کیا کہ آپ کو یہ کام نہیں کرنا ہے۔

عبداللہ بن اُبی کا اپنا بیٹا نہایت مخلص مسلمان تھا۔ اس نے آکر عرض کیا کہ حضوؐر اگر آپ کو میرے باپ کا سر چاہیے تو کسی اور کو حکم دینے کے بجاے مجھے حکم دیجیے، میں جاکر اس کا کام تمام کرتا ہوں۔ لیکن حضوؐر نے اس کو منع کر دیا۔ یہ غزوہ بنی المصطلق سے واپسی پر مدینہ پہنچنے سے پہلے کی بات ہے۔ جب حضوؐر مدینہ پہنچے تو عبداللہ بن اُبی کا اپنا بیٹا مدینہ کے دروازے پر کھڑا ہوگیا اور اس نے اپنے باپ سے کہا کہ جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو مدینہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیں گے اس وقت تک آپ مدینہ میں داخل نہیں ہوسکتے۔ اور فرمایا کہ عزت والے وہ ہیں۔ وہ اجازت دیں گے تو آپ آسکیںگے ورنہ نہیں۔ آپ نے تو کہا تھا کہ عزت والا ذلت والے کو نکال باہر کرے گا۔ اب آپ فیصلہ کرلیجیے کہ عزت والا کون ہے اور ذلیل کون ہے؟ اب اس کا بیٹا اس کے سامنے کھڑا ہے۔ یہ تھا اخلاص!

ایمان دراصل یہ چیز ہے کہ اللہ اور رسولؐ کو مان لینے کے بعد کسی اور رشتے داری کا پاس نہ ہو۔ اہلِ کفر سے تمام رشتے ختم ہوجاتے ہیں۔ نہ باپ باپ ہے، نہ بیٹا بیٹا ہے، نہ بھائی بھائی ہے۔ اگر کوئی شخص اللہ کے راستے میں آکر دشمن کی حیثیت سے کھڑا ہوجائے تو باپ اپنے بیٹے کو قتل کرے گا اور بیٹا اپنے باپ کو قتل کرے گا اور یہ مظاہرہ جنگ ِ بدر میں ہوچکا تھا۔ اللہ اور رسولؐ کو ماننے کا اخلاص یہی ہے۔ جس جگہ آدمی کے اپنے جذبات وابستہ ہیں اس جگہ آکر وہ اپنے جذبات پر چھری پھیر دے گا۔ کوئی پروا نہ کرے اس بات کی کہ اگر میں نے اپنے بیٹے کو قتل کر دیا، بیٹے نے باپ کو قتل کردیا تو دل پر کیا گزرے گی۔ جو گزرتی ہے گزر جائے لیکن اللہ کی راہ میں اخلاص کا تقاضا یہی ہے کہ ہر رشتے، ہر جذبے اور ہر شے پر اللہ اور اس کے رسولؐ کو مقدم رکھا جائے۔

یہی بات اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ کہتا ہے کہ عزت والا ذلت والے کو نکال دے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ عزت اللہ، اس کے رسولؐ اور مومنین کے لیے ہے۔ کوئی عزت والا ہونے کا دعویٰ کرے تو اس کی کوئی عزت نہیں۔ عزت صرف اللہ، اس کے رسولؐ اور مومنین کے لیے ہے۔

نفاق کا سبب

ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تُلْہِکُمْ اَمْوَالُکُمْ وَلَآ اَوْلاَدُکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ o (۶۳:۹) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمھارے مال اور تمھاری اولادیں تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کر دیں۔ جو لوگ ایسا کریں وہی خسارے میں رہنے والے ہیں۔

یہ سورئہ منافقون کا دوسرا اور آخری رکوع ہے۔ اس سے پہلے یہ بتایا گیا کہ مدینہ کے منافقین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں یہ روش اختیار کیے ہوئے تھے کہ آپ کی رسالت کا اقرار کرتے تھے اور قسمیں کھاکا کر یہ یقین دلاتے تھے کہ ہم آپ کو اللہ کا رسول مانتے ہیں لیکن اس کے بعد حضوؐر کے خلاف، دین کی دعوت اور مسلمانوں کے خلاف ہر طرح کی چال بازیاں اور مکاریاں کرتے تھے۔ اس کے بعد یہ فرمانا کہ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم کو تمھارے مال اور تمھاری اولاد اللہ کی یاد سے غافل نہ کردے، اور جو تم میں سے ایسا کرے وہ خسارے میں پڑنے والا ہے۔ یہ بات ارشاد فرمانے سے یہ بات خود بخود واضح ہوجاتی ہے کہ منافقین کو جس چیز نے منافقانہ روش پر آمادہ کیا تھا وہ مال اور اولاد کا مفاد تھا۔ جب تک ایک آدمی اپنے مال اور اولاد کے مفاد کو خدا اور اس کے دین سے، حق سے منحرف کردینے کی حد تک نہ پہنچ جائے، اس کی محبت اس وقت تک آدمی منافقانہ روش اختیار نہیں کرتا۔ اس لیے فرمایا کہ تمھارا مال اور تمھاری اولاد تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کردے۔ اصل میں لفظ لاَ تُلْھِکُمْ استعمال کیا گیا ہے۔ لَھْو اس چیز کو کہتے ہیں جس میں آدمی کو دل چسپی اتنی بڑھ جائے اور اس میں اتنا مشغول ہوجائے کہ دوسری چیزوں سے اس کو غفلت لاحق ہوجائے۔ اسی بنا پر گانے بجانے اور کھیل کود کو لَھْو کہتے ہیں کیونکہ آدمی ان کے اندر اتنا مشغول ہوتا ہے، اور اس میں اس کی دل چسپی اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ اس کو کسی اور چیز کا ہوش نہیں رہتا۔ یہی لفظ یہاں استعمال کیا گیا کہ تم کو ایسا غافل نہ کردے، اپنے ساتھ مشغول کرلے کہ تم اللہ کی یاد سے غافل ہوجائو۔

منافق اس شخص کو کہتے ہیں جو خدا سے غافل ہوتا ہے۔ وہ درحقیقت اس وجہ سے منافق ہوتا ہے کہ اس کو دنیوی مفاد عزیز ہوجاتا ہے، وہ اس کو اپنی طرف اتنا متوجہ کرلیتا ہے، مثلاً ایک آدمی ہے جس کو اپنی تجارت کو بڑھانے اور اسے ترقی دینے اور ہرممکن طریقے سے اپنی دولت کو نشوونما دینے کی اتنی فکر لاحق ہوجاتی ہے کہ اس کو پھر اس بات کی پروا نہیں رہتی کہ کیا حلال ہے اور کیا حرام ہے۔ وہ ہرممکن طریقے سے اپنی دولت کو بڑھانے کی فکر کرتا ہے۔ اس طرح جب وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ کسی طرح حق بات کی حمایت کروں، جس چیز کو زبان سے خود مانتا ہے وہ اس کے متعلق یہ سوچتا ہے کہ اگر میں اس کی حمایت کروں تو میری جایداد کو نقصان پہنچے گا، میری تجارت بیٹھ جائے گی، میرے دوسرے مالی مفادات پر ضرب آئے گی۔ اس لیے میں ٹھنڈے دل سے فیصلہ کرتا ہوں کہ حق اور باطل کے جھگڑے میں کیوں پڑوں، حق کے لیے مرنے، کٹنے والے نعوذباللہ بہت سے بے وقوف موجود ہیں، مجھے اپنے مفاد کی حفاظت کرنی چاہیے۔ اسی طرح ایک آدمی اپنی اولاد اور بیوی کے عیش و آرام کی خاطر حرام کماتا ہے، رشوتیں کھاتا ہے، غبن اور خیانتیں کرتا ہے۔ ہر طرح کی بے ایمانیاں کرکے کوشش کرتا ہے کہ اپنی بیوی کو زیادہ سے زیادہ زیور پہنائے، زیادہ سے زیادہ عیش کرائے، اور اپنے نزدیک اپنی اولاد کا مستقبل بہتر بنانے کے لیے سروسامان مہیا کرے۔ یہی وہ چیز ہے جو آدمی کو اس کے خدا، اس کے رسولؐ اور اس کے دین کے معاملے میں منافقانہ روش پر اُبھارتی ہے۔ اگر یہ چیز نہ ہو تو آدمی منافقت اختیار نہیںکرتا۔

اللہ کے ذکر سے غافل کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی اللہ اللہ کرنے سے رُک جائے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اللہ کو بھول جائے۔ یہ خیال اس کے دل سے نکل جائے کہ اُوپر کوئی خدا بھی ہے جس کے سامنے جاکر اسے کبھی اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے۔ یہ خیال اگر کسی آدمی کے دل میں رہے تو ظاہر بات ہے کہ وہ کبھی اس کے لیے آمادہ نہیں ہوسکتا کہ وہ اپنی اولاد کے مفاد کے لیے، اپنی بیوی کو عیش کرانے کے لیے، اپنی دولت بڑھانے کے لیے کوئی ایساکام کرے جس کا انجام ہمیشہ کے لیے جہنم ہو۔

قرآن مجید میں جگہ جگہ یہ بات بیان کی گئی ہے کہ یہ مال اور اولاد آخرت میں تمھارے کام آنے والا نہیں ہے، بلکہ اس کے برعکس جن لوگوں کے عیش اور آرام کے لیے تم یہاں بے ایمانیاں کرتے ہو، قیامت کے روز وہی اُٹھ کر تمھارے خلاف گواہ بنیںگے۔ بجاے اس کے کہ وہ یہ کہیں کہ ہمارے باپ نے ہمارے لیے کتنی تکلیفیں اُٹھا کر اور کس قدر ایمان کو بیچ کر حرام دولت کمائی تھی، اس لیے اب اس کی جگہ ہمیں جہنم میں بھیج دیا جائے۔ کوئی اولد اس کے لیے تیار نہیں ہوگی۔ باپ بیٹے کے لیے جہنم میں جانے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ بھائی بھائی کے لیے تیار نہیںہوگا۔ بلکہ اس کے برعکس اس کے خلاف جو مقدمہ قائم ہوگا تو یہی لوگ آکر گواہی دیں گے کہ اس طرح اس نے رشوتیں کھا کر، بے ایمانیاں کر کے یہ دولت کمائی تھی۔ ہمیں بھی حرام سے پالا اور خود بھی حرام کھایا۔ یہ بات قرآنِ مجید میں مختلف مقامات پر بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے کہ یہ اولاد کل تمھارے خلاف گواہ بننے والی ہے۔ اگر ان کی خاطر آج تم نے بے ایمانیاں کیں۔ یہی مطلب ہے اس آیت کا کہ اللہ تعالیٰ سے غافل نہ ہو۔ اس بات کو بھول مت جائو کہ تمھیں کبھی خدا کے ہاں جانا ہے اور اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے۔

وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ (۶۳:۹) جو لوگ یہ روش اختیار کریں گے یہی آخرکار خسارے میں جانے والے ہیں۔

خسارہ اس چیز کو کہتے ہیں کہ آدمی جس کاروبار میں اپنا سرمایہ لگائے، اس میں اپنی محنتیں اور وقت صرف کرے اور اس کے بعد وہ صرف لگا لگایا ڈوب جائے، یہ خسارہ ہے۔ ایک آدمی اپنی تمام محنتیں، قوتیں اور تمام ذرائع و وسائل سارے کے سارے ایک ایسے کام میں لگا رہا ہے جو اس کو لے جاکر آخرکار جہنم میں جھوکنے والا ہے، اس سے بڑا کوئی خسارہ نہیں ہے۔

مھلتِ عمل کو غنیمت جانو!

وَاَنْفِقُوْا مِنْ مَّا رَزَقْنٰکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ فَیَقُوْلَ رَبِّ لَوْلآَ اَخَّرْتَنِیْٓ اِِلٰٓی اَجَلٍ قَرِیْبٍ فَاَصَّدَّقَ وَاَکُنْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ o وَلَنْ یُّؤَخِّرَ اللّٰہُ نَفْسًا اِِذَا جَآئَ اَجَلُھَا وَاللّٰہُ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَ o (۶۳:۱۰-۱۱) جو رزق ہم نے تمھیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرو کہ تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجائے اور اُس وقت وہ کہے کہ ’’اے میرے رب، کیوں نہ تو نے مجھے تھوڑی سی مہلت اور دے دی کہ میں صدقہ دیتا اور صالح لوگوں میں شامل ہوجاتا‘‘ حالانکہ جب کسی کی مہلت عمل پوری ہونے کا وقت آجاتا ہے تو اللہ اس کو ہرگز مہلت نہیں دیتا، اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سے باخبر ہے۔

ایک آدمی کے لیے اس سے زیادہ احمقانہ فعل کوئی نہیں ہے کہ اس وقت اس کو جو زندگی اور مہلت عمل ملی ہوئی ہے اس میں وہ اللہ تعالیٰ کو بھولتا ہے، اس سے منہ موڑ کر اپنے دنیوی مفاد کی پرستش میں لگارہے، تو مرتے وقت اس کو یہ احساس ہو کہ میں نے کیا کیا، کس خطرے میں اپنے آپ کو ڈال دے۔ اور اس وقت جب وہ دیکھ رہا ہو کہ اب میں تباہی کی طرف جا رہا ہوں، اس وقت وہ اللہ تعالیٰ سے کہے کہ مجھے تھوڑا سا وقت اور دے دے تاکہ میں اپنے مال کو آپ کی راہ میں خرچ کروں۔

وَلَنْ یُّؤَخِّرَ اللّٰہُ نَفْسًا اِِذَا جَآئَ اَجَلُھَا وَاللّٰہُ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَ o (۶۳:۱۱) اللہ کسی متنفس کو مہلت دینے والا نہیں ہے، جب کہ اس کی اجل آجائے، اور اللہ کو خبر ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔

اجل کہتے ہیں مدت مقررہ کو جو پہلے سے طے کر دی گئی کہ فلاں شخص کو اتنا وقت دیا جائے گا مثلاً امتحان کے کمرے میں آپ بیٹھتے ہیں تو یہ طے ہے کہ مثلاً تین ساڑھے تین گھنٹے کا وقت آپ کے لیے پرچہ حل کرنے کا وقت ہے۔ اس تین ساڑھے تین گھنٹے کی جو مہلت ہے اس کا نام اَجل ہے۔ ایک آدمی کو کسی کام کرنے کے لیے جو مہلت دی گئی ہو، یہ اَجل ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے طے کردیا گیا ہے کہ اس آدمی کو دنیا میں کام کرنے کے لیے اتنا وقت دیا جائے گا اور ایسی ہی مہلت قوموں کو بھی دی جاتی ہے۔ قوموں کی زندگی اور مہلتِ عمل کے لیے بھی اَجل کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے کہ جب کسی قوم کی اَجل آن پوری ہوتی ہے تو پھر ایک منٹ کی بھی تقدیم و تاخیر نہیں ہوتی۔ اس سے پہلے اس کی مہلت ختم ہوتی ہے اور نہ اس کے بعد۔ اس کو مزید وقت دیا جاتا ہے۔

یہاں یہ فرمایا گیا کہ جس شخص کے لیے جو اَجل مقرر کر دی گئی ہے، جو مدت طے کر دی گئی ہے،اس کے بعد کسی شخص کو کوئی مہلت نہیں دی جاتی۔ کوئی تاخیر اس کے اندر نہیں ہوتی۔ یہ نہیں ہوتا کہ اس کو مزید کچھ وقت دے دیا جائے۔ تو جس آدمی کو اپنی عاقبت کے لیے جو بھی عمل کرنا ہے، وہ اس وقت اس کو کرلینا چاہیے، جب کہ وہ دیکھ رہا ہے کہ میں تندرست ہوں، زندہ ہوں، موت کا وقت قریب نہیں ہے۔ لیکن جس وقت آدمی دیکھے کہ آخری وقت آگیا ہے، کوئی ایسی بیماری ہے کہ جس کی وجہ سے اس کو معلوم ہوگیا ہے کہ اس کا آخری وقت آگیا ہے، اس وقت آدمی کا یہ چاہنا کہ مجھے مزید وقت ملے تاکہ میں کوئی نیک عمل کرلوں جس سے میری عاقبت درست ہوجائے تو اس کی یہ محض حماقت ہے۔ کبھی آج تک دنیا میں یہ نہیں ہوا ہے کہ جس شخص کی موت کا جو وقت مقرر ہے ایک منٹ کے لیے بھی وہ ٹل جائے۔

وَاللّٰہُ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَ o (۶۳:۱۱) اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔

وہ بے خبر نہیں ہے۔ اللہ کو معلوم ہے کہ کتنا کتنا تم کو سمجھایا گیا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کتنی کچھ نصیحت کی گئی،فقط ایک کتاب ہی نہیں، بے شمار طریقوں سے آدمی کی نصیحت کا سامان ہوتا ہے۔ وہ فقط کسی ناصح کی زبان بھی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو نصیحت کرنے کے لیے، اس کو عبرت کا سبق دینے کے لیے بساااوقات ایک آدمی اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے کہ ایکسیڈنٹ ہوا اور آن کی آن میں آدمی مر گیا۔ وہ یہ اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے۔ یہ بھی ایک نصیحت ہے۔

اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ کتنے کتنے مواقع پر تمھاری نصیحت کا انتظام کیا گیا کہ تم ہوش میں آئو اور سمجھو کہ ہماری اس دنیا پر تمھاری کیا پوزیشن ہے؟ اور کیا چیزیں عاقبت درست کرنے والی ہیں، اور بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو آدمی کی عاقبت تباہ کرنے والی ہیں۔ کوئی آدمی آپ کو ایسا نہیں ملے گا جو اس چیز کو نہ سمجھتا ہو۔ اس کے بعد اگر ایک آدمی آخرت سے غافل ہوتا ہے اور اپنا سارا وقت اور محنتیں صرف اس دنیا کو بنانے کے لیے صرف کردیتا ہے اور ایسے طریقے اختیار کرتا ہے دنیا بنانے کے لیے جو عاقبت کے لیے تباہ کن ہوں تو اللہ تعالیٰ کو کوئی غرض نہیں پڑی ہے کہ ایسے آدمی کو مزید وقت دے۔ وہ کسی کے لیے اپنے قوانین تبدیل نہیں کیا کرتا۔ کیسٹ سے تدوین: حفیظ الرحمٰن احسن، امجد عباسی)

دعا کے لغوی معنی ہیں: پکارنا، بلانا، مانگنا اور سوال کرنا، اور شرعی اصطلاح میں دعا کے معنی ہیں: اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں استغاثہ اور عرض معروض کرنا۔ دعا کی حقیقت دو چیزوں سے مرکب ہے۔ اللہ کے حضور اپنی عبودیت، غلامی، احتیاج، عاجزی اور ضعف و ذلّت کا اظہار، اور اس کی اُلوہیت، ربوبیت، قدرت، رحمت اور عظمت و جلال کا اقرار۔ انسان جب اپنی بندگی و پستی اور اللہ رب العالمین کی آقائی و بالادستی کے زندہ شعور و احساس کے ساتھ اس کی بارگاہ میں عرض نیاز کرتا اور اس سے کچھ مانگتا اور کچھ چاہتا ہے تو دعا کی حقیقت وجود میں آتی ہے۔ وہ اپنے مالک کو کبھی دل ہی دل میں پکارتا ہے اور اکثر اس کی زبان بھی اس کے دل کا ساتھ دیتی ہے۔ کبھی ہاتھ پھیلائے بغیر اس سے مانگتا ہے اور اکثر دست سوال دراز کر کے اس کے حضور گڑگڑاتا ہے۔ یہی حقیقت ہے جس کا اظہار نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کو مغزِ عبادت بلکہ عین عبادت قرار دے کر کیا ہے۔    انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دعا  مغزِ عبادت ہے۔ (ترمذی)

حضوؐر نے دعا کو مغزِ عبادت یا روحِ عبادت اس لیے فرمایا ہے کہ دعا کرنے والا ماسوا اللہ سے اپنی تمام اُمیدیں منقطع کر کے اللہ کو پکارتا ہے اور یہی توحید اور اخلاص کی حقیقت ہے اور توحید و اخلاص سے بلند تر کوئی عبادت نہیں ہے۔ محی الدین ابن عربی کہتے ہیں کہ جس طرح جسم کے تمام اعضا ہڈیوں کے مغز سے قوت حاصل کرتے ہیں اسی طرح دعا وہ مغز ہے جس سے عابدوں کی عبادت کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔ ایک دوسری حدیث میں حضوؐر نے قرآن کی آیت سے استدلال کرتے ہوئے دعا کو عین عبادت بھی کہا ہے۔ ظاہر ہے کہ دعا کو عبادت یا مغزِ عبادت اسی وقت قرار دیا جاسکتا ہے جب دونوں کی حقیقت ایک ہو۔ کتاب و سنت کے بیسیوں دلائل و شواہد سے ثابت ہے کہ عبادت کی حقیقت بھی وہی ہے جو دعا کی ہے، یعنی یہ کہ انسان اپنی عبودیت کا اظہار اور اللہ کی معبودیت کا اعتراف و اقرار کرے۔ تمام عبادتیں اسی اظہار و اقرار کے مظاہر کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ہم اللہ کی پرستش کریں یا اس کی اطاعت، ہماری ہر پرستش اور ہراطاعت اپنی عبودیت کا اظہار اور اس کی معبودیت کا اقرار ہے۔

دین میں دعا کی اھمیت

اس کائنات کے معبودِ برحق نے اپنی کتاب قرآنِ مجید میں جس طرح بہت سے احکام و اوامر نازل فرمائے ہیں، اسی طرح دعا کا حکم بھی نازل فرمایا ہے۔ اللہ کا اپنے بندوں سے مطالبہ ہے کہ  وہ اس سے اور صرف اسی سے دعا مانگیں اور مدد کے لیے اسی کو پکاریں۔ اس لیے کہ سب کچھ    اسی کے دستِ قدرت میں ہے اور اس کائنات میں اس کی مشیت کے بغیر ایک پتّا بھی اپنی جگہ سے ہِل نہیں سکتا، اور اس لیے بھی کہ دعا عبادت ہے اور عبادت کسی دوسرے کی جائز نہیں۔ سورئہ مومن میں حکم دیا گیا ہے:

وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ط اِِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَھَنَّمَ دٰخِرِیْنَ o (المومن۴۰:۶۰) اور تمھارا رب کہتا ہے مجھے پکارو، میں تمھاری دعائیں قبول کروں گا۔ بے شک جو لوگ میری عبادت سے گھمنڈ کرتے ہیں وہ عنقریب ذلّت و خواری کے ساتھ جہنم میں داخل ہوںگے۔

اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کو عین عبادت قرار دیا ہے۔ نعمان بن بشیرؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دعا عین عبادت ہے۔ پھر آپؐ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ’’اور تمھارا رب کہتا ہے: مجھے پکارو میں تمھاری دعائیں قبول کروں گا۔ بے شک جو لوگ میری عبادت سے گھمنڈ کرتے ہیں وہ عنقریب ذلت کے ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے‘‘۔ (ترمذی، ابن حبان ، احمد، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ، حاکم)

سورئہ اعراف میں کچھ تفصیل سے دعا کا حکم دیا گیا ہے:

اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَۃً ط اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ o وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِھَا وَادْعُوْہُ خَوْفًا وَّ طَمَعًا ط اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَo (الاعراف ۷:۵۵-۵۶) اپنے رب کو پکارو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے یقینا وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ زمین میں فساد برپا نہ کرو، جب کہ اس کی اصلاح ہوچکی ہے اور خدا ہی کو پکارو خوف کے ساتھ اور طمع کے ساتھ۔ یقینا  اللہ کی رحمت نیک کردار لوگوں سے قریب ہے۔

ان دو آیتوں میں جو ہدایات دی گئی ہیں وہ یہ ہیں:

۱- اپنے رب سے دعا کرو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے۔ اس ہدایت میں دعا کی حقیقت اور اس کے ادب کی بھی تعلیم دی گئی ہے۔

۲- اس کو پکارو خوف اور اُمید کے ساتھ۔ خوف اللہ کے عذاب کا اور اُمید اس کے فضل و کرم کی، نیز ڈر اس بات کا کہ دعا کسی کوتاہی کی وجہ سے وہ رد نہ کردی جائے، اور اُمید اس بات کی کہ اللہ اپنے بندے کے عجزو قصور کو دیکھتے ہوئے اسے قبول فرما لے گا۔

۳- دوسرے اعمال کی طرح دعا میں بھی حد سے تجاوز نہ کرو۔ اس لیے کہ اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

۴- اصلاح کے بعد زمین میں فساد نہ مچائو۔ سب سے بڑا فساد یہ ہے کہ اللہ سے منہ موڑ کر دوسروں کو اپنا ملجا و ماویٰ بنایا جائے، ان کو مدد کے لیے پکارا جائے اور ان کے نام کی دہائی دی جائے۔

۵- جو لوگ خوف اور اُمید کے ساتھ صرف اللہ کو پکارتے اور اس سے دعائیں کرتے ہیں وہ محسن ہیں، اور اللہ کی رحمت محسنوں سے قریب ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حقیقی دعا بندے کو درجۂ احسان تک پہنچا دیتی ہے۔ سورئہ اعراف ہی میں ایک دوسرے مقام پر کہا گیا ہے: وَلِلّٰہِ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِھَا (الاعراف ۷:۱۸۰) ’’اللہ کے بہت سے اچھے نام ہیں تو تم اسے انھی ناموں سے پکارو‘‘۔

اللہ کے اسماے حسنیٰ قرآن میں بھی ہیں اور احادیث میں بھی اور چونکہ اس کی صفات   بے شمار ہیں، اس لیے کتنے ہی ایسے نام ہوں گے جن کا علم صرف اسی کو ہے۔ چنانچہ ایک دعا میں  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو الفاظ استعمال کیے ہیں وہ اس آیت کی بھی بہترین تفسیر ہیں۔ اس دعا کا متعلقہ ٹکڑا یہ ہے: ’’میں تجھ سے سوال کرتا ہوں تیرے ہر اس نام سے جس سے تو نے اپنے آپ کو موسوم کیا ہے، یا وہ نام جو تو نے اپنی کتاب میں نازل کیا ہے، یا تو نے اپنی مخلوق میں سے کسی کو اس کا علم عطا کیا ہے، یا اسے تو نے اپنے ہی علمِ غیب میں اپنے پاس محفوظ رکھا ہے‘‘۔(تفسیر ابن کثیر، ج ۲،ص ۲۶۹)

سورئہ بقرہ میں فرمایا گیا:

دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَo (البقرہ ۲:۱۸۶) میں قبول کرتا ہوں دعا مانگنے والے کی دعا کو جب مجھ سے دعا مانگے۔ لہٰذا انھیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ راہِ راست پالیں۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ میں اپنے بندوں سے دُور نہیں ہوں کہ انھیں زور سے مجھے پکارنے کی ضرورت پڑے۔ میں تو ان کے قریب ہی ہوں۔ مجھے نہ زور سے پکارنے کی ضرورت ہے اور نہ میری بارگاہ میں درخواست پیش کرنے کے لیے کسی دوسری ہستی کے واسطے کی حاجت ہے۔ میرا ہر بندہ بلاواسطہ مجھ سے دعا کرسکتا ہے۔ میں اس کی دعا کو صرف سنتا ہی نہیں ہوں بلکہ اسے قبول بھی کرتا اور اس کے بارے میں فیصلہ بھی کرتا ہوں۔ جب ایسا ہے تو میرے بندوں پر بھی لازم ہے کہ وہ میرا حکم مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں۔ لہٰذا آیت کے اس ٹکڑے سے معلوم ہوا کہ یہ بڑی نادانی ہوگی کہ انسان اللہ کی اطاعت تو نہ کرے لیکن یہ توقع رکھے کہ اس کی دعائیں قبول کی جائیں گی۔ دراصل اللہ پر ایمان اور اس کی اطاعت ہی انسان کو اس کا مستحق بناتی ہے کہ اس کی دعا قبول کی جائے۔

رسولِؐ خدا کو دعا کی ھدایت

اُوپر کی آیتوں میں بالعموم تمام بندوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے رب سے دعا مانگیں اور اسے پکاریں۔ اب ہم ایسی آیتیں پیش کرتے ہیں جن میں اللہ نے اپنے سب سے مقرب، سب سے محبوب اور سب سے بلندمرتبہ بندے کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ اس سے دعا مانگیں۔ دین میں دعا کی اہمیت کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگاکہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا حکم دیاگیا اور آپؐ نے اس حکم کی ایسی تعمیل کی جس کی کوئی مثال تاریخِ انسانی میں موجود نہیں ہے۔

اضافۂ علم کی دعا

وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا o (طٰہٰ ۲۰:۱۱۴) اور دعا کرو کہ اے پروردگار! مجھے مزید علم عطا کر۔

مزید علم کی دعا سے ایک مراد یہ ہے کہ قرآن کے جو حصے ابھی نازل نہیں ہوئے ہیں اسے بھی عطا فرما اور دوسری مراد یہ ہے کہ جو حصے نازل ہوئے ہیں اس کے معانی و مسائل و معارف کا بیش از بیش فہم عطا فرما۔ اس سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ اللہ کو اپنے بندے کی دعا بے حد محبوب ہے اور دوسری یہ کہ علمِ دین میں اضافہ انتہائی پسندیدہ چیز ہے۔ اس چھوٹی سی آیت سے دین میں دعا اور علم دونوں ہی کی اہمیت و فضیلت پر روشنی پڑتی ہے۔

غلبہ و اقتدار کی دعا

وَقُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّ اجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۸۰) اور دعا کرو کہ پروردگار جہاں بھی تو لے جا سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ   نکال اور مجھ کو اپنے پاس سے ایسا غلبہ دے جس کے ساتھ تیری نصرت ہو۔

جب مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کا زمانہ قریب آیا تو اللہ نے اپنے آخری رسول کو یہ حکم دیا کہ غلبہ و اقتدار کی دعا مانگیں، اس لیے کہ آپؐ کی ہجرت اللہ کے باغیوں سے جنگ کا پیش خیمہ تھی اور اس کے لیے تین چیزیں ضروری تھیں:

ا - اس بات کی واضح دلیل اور کھلا ہوا بینہ کہ آپ ہی سچائی کے علَم بردار ہیں اور جو دین آپ پیش کر رہے ہیں وہی دین حق ہے اور وہی اس کا مستحق ہے کہ دوسرے باطل ادیان پر غالب ہو۔

ب- حکومت کا اقتدار تاکہ اس کے ذریعے نیکی کو فروغ دیا جائے اور بدی کو مٹایا جائے۔

ج- اللہ کی نصرت کیوں کہ اس کے بغیر دشمنوں پر فتح حاصل نہیں کی جاسکتی۔ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًا کے فقرے میں یہ تینوں چیزیں داخل ہیں۔ ظاہر ہے کہ غلبہ و اقتدار کے بغیر نہ دین باطل کو شکست دی جاسکتی ہے اور نہ قرآن کے تمام فرائض، احکام اور حدود کی تنفیذ ممکن ہے۔ یہی حقیقت ہے جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں ظاہر فرمایا ہے: اللہ تعالیٰ حکومت کے اقتدار سے ان چیزوں کا سدِّباب کردیتا ہے جن کا سدِّباب قرآن سے نہیں کرتا۔

طلب ِ حکومت کی لطیف دعا

قُلِ اللّٰھُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآئُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآئُ وَ تُعِزُّمَنْ تَشَآئُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَآئُ ط بِیَدِکَ الْخَیْرُ ط اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌo (اٰل عمرٰن ۳:۲۶) دعا کرو اے اللہ! ملک کے مالک تو جسے چاہے حکومت دے اور جس سے چاہے چھین لے، جسے چاہے عزت بخشے اور جسے چاہے ذلّت دے تیرے ہی ہاتھ میں خیر ہے، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

ابن جریر نے قتادہ سے روایت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے درخواست کی تھی کہ فارس اور روم کی سلطنت آپؐ کی اُمت کو عطا کر دی جائے۔ اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی اور امام رازی نے حسن بصری کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اس آیت میں اللہ نے اپنے نبی کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ فارس اور روم کی حکومت طلب کریں، اور موجودہ زمانے کے بعض ذی علم مفسرین نے لکھا ہے کہ اس آیت میں بشارت دی گئی ہے کہ امامت و سیادت کا وہ منصب جس پر بنی اسرائیل اب تک فائز رہے ہیں اب وہ بنی اسماعیل کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔ بہرحال اس آیت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہایت لطیف انداز میں امامت، سیادت اور حکومت طلب کرنے کی دعا کا حکم دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ حکومت طلبی کی یہ دعا دنیا پرستی کے لیے نہیں سکھائی گئی ہے بلکہ اعلاء کلمۃ اللہ اور اللہ کے نازل کیے ہوئے قوانین کو نافذ کرنے کے لیے سکھائی گئی ہے اور اس مقصد کے لیے حصولِ اقتدار کی دعا عین امرالٰہی کی تعمیل ہے۔ اسی مقصد کے لیے حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے لیے ایک ایسی بے مثال حکومت کی دعا مانگی تھی جو ان کے سوا کسی کو نہ دی گئی ہو۔

ھدایت پر استقامت کی دعا

قُلِ اللّٰھُمَّ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ عٰلِمَ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ اَنْتَ تَحْکُمُ بَیْنَ عِبَادِکَ فِیْ مَا کَانُوْا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ o (الزمر ۳۹: ۴۶) (اللہ سے دعا میں) کہیے کہ اے اللہ! آسمان و زمین کے پیدا کرنے والے، غائب اور حاضر کے جاننے والے آپ ہی اپنے بندوں کے درمیان ان امور میں فیصلہ فرمائیںگے جن میں وہ باہم اختلاف کرتے تھے۔

اس دعا میں یہ لطیف انداز اختیار کیا گیا ہے کہ اس میں صرف اللہ کی حمدوثنا کی گئی ہے اور اس کی حاکمیت کا اظہار کیا گیا ہے اور دعائیہ جز مخفی رکھا گیا ہے۔ اس مخفی جز کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعا میں ظاہر فرما دیا ہے۔ حضرت عائشہؓ کی ایک روایت میں ہے کہ حضوؐر نمازِ تہجد کے افتتاح میں سورئہ زمر کی یہ آیت فِیْ مَا کَانُوْا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ تک پڑھتے تھے۔ اس کے بعد یہ دعائیہ فقرہ کہتے تھے: ’’حق کے بارے میں جو اختلاف پیدا کیا گیا ہے اس میں مجھے ہدایت پر قائم رکھ، بلاشبہہ تو جسے چاہتا ہے صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت دیتا ہے‘‘۔ (ابن کثیر بحوالہ مسلم،ج ۴،ص ۵۶)

ھر برائی سے پناہ مانگنے کی دعا

انسان کو ہرقسم کی برائیوں سے اُبھارنے والا شیطان اور اس کا جرگہ ہے۔ اس عدومبین کی شرارتوں سے پناہ مانگنے کا حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی دیا گیا تھا:

خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰھِلِیْنَo وَ اِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِط اِنَّہٗ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌo (الاعراف ۷:۱۹۹-۲۰۰) اے نبیؐ! نرمی اور درگزر کا طریقہ اختیار کرو۔ معروف کی تلقین کیے جائو اور جاہلوں سے نہ اُلجھو۔ اگر کبھی شیطان تمھیں اُکسائے تو اللہ کی پناہ مانگو وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔

حق کی وصیت، نیکی کی تلقین اور برائی سے اجتناب کی نصیحت ایسی چیزیں نہیں ہیں جو ہمیشہ ٹھنڈے پیٹوں قبول کرلی جائیں بلکہ اس راہ میں داعیانِ حق پر زیادتیاں بھی کی جاتی ہیں اور جاہلوں کی اشتعال انگیزیوں سے بچنے کی تدبیر صرف یہ ہے کہ داعیِ حق اس سے اللہ کی پناہ مانگے جس کی قدرت شیطان پر بھی حاوی ہے۔ سورئہ حم السجدہ میں بھی انھی الفاظ کے ساتھ آپؐ کو شیطان سے اللہ کی پناہ مانگنے کا حکم دیا گیا ہے اور سورئہ مومنون میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ شیطان سے کس طرح اللہ کی پناہ مانگی جائے:

اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ السَّیَِّٔۃَ ط نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَصِفُوْنَ o وَقُلْ رَّبِّ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ ھَمَزٰتِ الشَّیٰطِینِ o وَاَعُوْذُ بِکَ رَبِّ اَنْ یَّحْضُرُوْنِ o (المومنون ۲۳: ۹۶ تا ۹۸) برائی کو اس طریقے سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ جو کچھ باتیں وہ تم پر بناتے ہیں وہ ہمیں خوب معلوم ہیں اور دعا کرو کہ پروردگار میں شیاطین کی اُکساہٹوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں، بلکہ اے رب! میں تو اس سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں کہ وہ میرے پاس آئیں۔

ان آیتوں میں بھی پہلے حکم دیا گیا ہے کہ برائی کو بھلائی سے دفع کرو اور اس کے بعد شیطان کی اُکساہٹوں سے پناہ مانگنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اس لیے کہ اس کا علاج صرف اللہ کے دستِ قدرت میں ہے۔ ان آیتوں کے علاوہ قرآن کی سب سے آخری سورہ شیاطین جن و انس کی وسوسہ اندازیوں سے استعاذہ کے لیے ہی نازل کی گئی ہے۔ اس میں پناہ مانگنے کا حکم بھی دیا گیا ہے اور اس کے الفاظ بھی سکھائے گئے ہیں۔ سورۃ الناس سے پہلے سورۃ الفلق میں ہر شر اور ہربرائی سے اللہ کی پناہ مانگنے کی دعا سکھائی گئی ہے۔ اسی لیے ان دونوں سورتوں کا نام ’المعوذتین‘ ہے۔ ان دومستقل سورتوں کو نازل کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ استعاذہ اور تعوذ، یعنی اللہ کی پناہ مانگنے کی دعائوں کو دین میں کیا مقام حاصل ہے اور اس کی کیا اہمیت ہے۔ غصے اور غضب کو دُور کرنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ پڑھنے کی تعلیم دی ہے اور قرآن کی تلاوت شروع کرنے سے پہلے بھی پڑھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

طلب ِ مغفرت کی دعا

کسی کم درجے کے انسان کی معمولی کوتاہی نظرانداز کی جاسکتی ہے لیکن کسی بڑے درجے کے انسان کی معمولی کوتاہی بھی قابلِ گرفت بن جاتی ہے۔ نزدیکاں را بیش بود حیرانی، اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ اصولی بات یاد رکھنی چاہیے کہ انبیاے کرام علیہم السلام کو استغفار کا جو حکم دیا گیا ہے وہ ان کے بلند درجات کی مناسبت سے دیا گیا ہے۔ دوسری بات یہ یاد رکھنا چاہیے کہ استغفار سے صرف کوتاہیاں ہی معاف نہیں ہوتیں بلکہ اس سے درجات بھی بلند ہوتے ہیں۔ ان دونوں باتوں کو سامنے رکھ کر دیکھیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی استغفار کا حکم دیا گیا ہے۔ کہیں صرف اپنے لیے اور کہیں اپنے لیے بھی اور مسلمانوں کے لیے بھی:

وَقُلْ رَّبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْنَ o (المومنون ۲۳: ۱۱۸) اور کہیے اے میرے رب! میری خطائیں معاف کر اور رحم کر اور تو سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔

اس آیت سے پہلے مشرکین کے انکارِ آخرت اور معبودانِ باطل سے ان کی دعائوں کی تردید کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ غیراللہ کو پکارنے اور ان کی دہائی دینے والے کافروں کو فلاح نصیب نہیں ہوسکتی۔ اس کے بعد حضوؐر کو اپنے رب سے مغفرت اور رحمت طلب کرنے کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ صرف اللہ سے دعا، توحید کی تکمیل بھی ہے:

فَاعْلَمْ اَنَّہٗ لَآ اِِلٰہَ اِِلَّا اللّٰہُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْـبِکَ م    وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِط وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مُتَقَلَّبَکُمْ وَمَثْوٰکُمْ o (محمد۴۷:۱۹) پس تم جان رکھو کہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہیں اور اپنے گناہ کی مغفرت طلب کرو اور مسلمان مرد اور عورتوں کے لیے بھی استغفار کرو۔ اللہ کو معلوم ہے تمھاری بازگشت اور تمھارا گھر۔

استغفار کے حکم کی تعمیل حضوؐر نے اس طرح کی ہے کہ نمازوں کے اندر آپؐ جو استغفار کرتے تھے اس کے علاوہ بھی بعض حدیثوں میں آتا ہے کہ روزانہ ۷۰ بار اور بعض میں آتا ہے کہ روزانہ ۱۰۰ بار استغفار کرتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو دعائیں، استعاذے اور استغفار کی مروی ہیں، اگر ان سب کو تشریح کے ساتھ جمع کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب آسانی کے ساتھ تیار کی جاسکتی ہے۔

فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ ط اِِنَّہٗ کَانَ تَوَّابًا (النصر۱۱۰:۳) پس اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کیجیے اور اس سے مغفرت طلب کیجیے۔ بے شک وہ بہت توبہ قبول کرنے والا ہے۔

جب حضوؐر کی وفات کا زمانہ قریب آیا تو سورہ اِِذَا جَآئَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ نازل ہوئی اور آپؐ کو اس میں بھی حمدوتسبیح اور استغفار کا حکم دیا گیا۔ صحیح احادیث میں مروی ہے کہ سورئہ نصر میں آپؐ کو زمانۂ وفات کے قریب ہونے کی خبر دی گئی تھی اور صحیح احادیث میں یہ بھی آتا ہے کہ اس سورہ کے نازل ہونے کے بعد آپؐ نمازوں کے اندر بھی اور دوسرے اوقات میں بھی سُبْحَنٰکَ اللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ اللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ (اے اللہ! اے ہمارے رب میں حمد کے ساتھ تیری تسبیح کرتا ہوں، اے اللہ مجھے بخش دے) پڑھا کرتے تھے۔

فرشتوں کو دعا کا حکم

قرآن نے ہمیں بتایا ہے کہ فرشتے ہر کام امرالٰہی کے تحت کرتے ہیں۔ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ (النحل ۱۶:۵۰) ’’فرشتے وہی کام کرتے ہیں جس کا انھیں حکم دیا جاتا ہے‘‘۔ اس کے پیشِ نظر یہ بات یقینی ہے کہ مسلمان مرد اور عورتوں کے لیے جو دعا وہ کرتے ہیں وہ بھی امرالٰہی کے ماتحت ہی ہے۔ فرشتوں کو بھی اللہ نے حکم دیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے لیے دعا کرتے رہیں۔     اللہ تعالیٰ کے اس حکم سے بھی دین میں دعا کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ فرشتوں کی طویل دعا سورئہ مومن کی ابتدا میں ہے۔ (المومن ۴۰: ۷-۹)

ان آیتوں سے ایک طرف دین میں دعا کی اہمیت اور فضیلت معلوم ہوتی ہے اور دوسری طرف ان میں اپنے گناہوں سے تائب اور راہِ حق پر چلنے والے مسلمانوں کے عظیم فضل و شرف کا ذکر ہے۔ تسلی یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کے مقرب ترین فرشتے خود اس کے حکم کے تحت ان کے لیے مغفرت اور دخولِ جنت کی دعا کر رہے ہیں تو پوری توقع ہے کہ ان کی دعا قبول کی جائے گی، اور فضل و شرف یہ ہے کہ بارگاہِ الٰہی میں حاضر مقرب ترین فرشتے تک ان سے محبت کرتے ہیں۔ ان کی طرف متوجہ ہیں اور بارگاہِ الٰہی میں ان کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں۔

غیراللّٰہ سے دعا شرک ھے

چونکہ دعا کی حقیقت عین توحید اور خود دعا عقیدۂ توحید کا ایک بڑا مظہر ہے، اس لیے قرآن نے غیراللہ سے دعا کو شرک قرار دیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو صراحتاً اس سے منع فرمایا ہے۔ اس لیے اس سلسلے کی بھی چند آیتیں یہاں پیش کی جاتی ہیں:

وہ رات کو دن میں اور دن کو رات میں پروتا ہوا لے آتا ہے اور اس نے سورج اور چاند کو مسخر کر رکھا ہے۔ ان میں سے ہر ایک مقررہ مدت کے لیے رواں دواں ہے۔ یہ ہے اللہ تمھارا رب، بادشاہی اسی کی ہے اور اللہ کو چھوڑ کر جنھیں تم پکارتے ہو وہ پرکاہ کے برابر بھی کسی چیز کے مالک نہیں ہیں۔ اگر تم انھیں پکارو تو وہ تمھاری دعا نہیں سنیں گے اور اگر سُن لیں تو تمھیں اس کا جواب نہیں دے سکیں گے اور قیامت کے دن تمھارے شرک کا انکار کریں گے، اور باخبر (اللہ) کی طرح تمھیں اس حقیقت کی صحیح خبر کوئی نہیں دے سکتا۔ (الفاطر ۳۵: ۱۳-۱۴)

سورئہ فاطر کی اس آیت میں غیراللہ سے دعا کو بالفاظِ صریح شرک کہا گیا ہے کیونکہ اس سے پہلے ان کے مشرکانہ اعمال میں سے غیراللہ سے دعا ہی کا ذکر ہے اور اس کے بعد یہ کہا گیا ہے کہ قیامت میں وہ تمھارے شرک کا انکار کریں گے۔ بلاشبہہ شرک میں غیراللہ کی پرستش، نذر ونیاز اور چڑھاوا سبھی داخل ہے لیکن آیت کا سیاق بتا رہا ہے کہ یہاں اس سے اوّلین مراد غیراللہ سے دعا ہی ہے۔

وَ لَا تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لَا یَنْفَعُکَ وَ لَا یَضُرُّکَ فَاِنْ فَعَلْتَ فَاِنَّکَ اِذًا مِّنَ الظّٰلِمِیْنَ o (یونس ۱۰:۱۰۶) اور اللہ کو چھوڑ کر کسی ایسی ہستی کو نہ پکار جو تجھے نہ فائدہ پہنچاسکتی ہے نہ نقصان۔ اگر تو ایسا کرے گا تو ظالموں میں سے ہوگا۔

اس آیت میں غیراللہ سے دعا کرنے اور اس کی دہائی دینے کی صریح ممانعت کے ساتھ وہ حقیقت بھی بتا دی گئی ہے جس کی وجہ سے لوگ ایسا کرتے ہیں۔ انسان اپنی حماقت اور شیطان کے اغوا کی وجہ سے یہ سمجھ لیتا ہے کہ اللہ کے سوا کسی اور کے پاس بھی اختیار واقتدار اور ایسی قدرت ہے کہ وہ کسی دوسرے کو نقصان اور نفع پہنچا سکتا اور اس کی قسمت کو بنا اور بگاڑ سکتا ہے۔ اس لیے    اللہ نے اس آیت میں بھی اور متعدد دوسری آیتوں میں یہ حقیقت واضح کی ہے کہ اس طرح کا اقتدار اللہ کے سوا کسی اور کے پاس نہیں ہے اور اس کی مشیت کے بغیر کوئی کسی کو نفع اور نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اسی طرح اس نے یہ حقیقت بھی کھول دی ہے کہ اگر اللہ کی طرف سے کوئی ضرر پہنچے تو اس کو اس کے سوا اور کوئی دفع نہیں کرسکتا، اور اگر وہ کسی خیرکا ارادہ کرے تو کوئی نہیں جو اسے نفع پہنچانے سے روک سکے۔ قرآن کریم میں کہا گیا ہے:

اگر اللہ کسی مصیبت میں ڈالے تو خود اس کے سوا کوئی نہیں جو اس مصیبت کو ٹال دے۔ اور اگر وہ تیرے حق میں کسی بھلائی کا ارادہ کرے تو اس کے فضل کو پھیرنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ (یونس ۱۰:۱۰۷)

قرآن نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ اگر کوئی شخص غیراللہ کی دہائی دیتا اور اس سے دعائیں مانگتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ اس کو اپنا معبود بنا رہا اور اللہ کے ساتھ اس کو شریک قرار دے رہا ہے۔ غیراللہ کی عبادت کرنے اور اس سے دعا مانگنے میں کوئی فرق نہیں ہے۔ دونوں کی حقیقت ایک ہے۔

فَلاَ تَدْعُ مَعَ اللّٰہِ اِِلٰھًا اٰخَرَ فَتَکُوْنَ مِنَ الْمُعَذَّبِیْنَo (الشعراء ۲۶:۲۱۳) پس اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہ پکارو، ورنہ تم بھی سزا پانے والوں میں شامل ہوجائو گے۔

معلوم ہوا کہ اللہ کے ساتھ کسی اور کو پکارنا، اس کو معبود کی حیثیت دینا ہے، اور اللہ کا قانون بے لاگ ہے، اس شرک میں جو بھی مبتلا ہوگا وہ اللہ کی سزا سے بچ نہیں سکے گا۔

دعا کی فضیلت احادیث میں

دعا کے بارے میں اس کثرت سے احادیث مروی ہیں کہ کتب احادیث میں اس کے لیے مستقل ابواب مخصوص کرنے پڑے ہیں۔ میں پہلے دعا کی اہمیت و فضیلت کے سلسلے میں چند حدیثیں پیش کرتا ہوں:

  • دعا کا تاکیدی حکم: جیساکہ اُوپر ذکر آچکا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس کثرت سے دعائیں مانگی ہیں کہ آپؐ کی دعائوں سے ایک ضخیم کتاب مرتب ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ آیاتِ قرآنی کے پیش نظر آپؐ  نے اپنی اُمت کو اللہ سے دعا کرنے کا موکد حکم دیا ہے:

حضرت ابن عمرؓ نے حضوؐر سے روایت کی ہے کہ دعا ان مصیبتوں اور بلائوں کو دُور کرنے میں بھی نافع ہے جو نازل ہوچکی ہوں، اور ان میں بھی جو نازل نہ ہوئی ہوں۔ اور قضا کو دعا کے سوا کوئی چیز ٹال نہیں سکتی، پس تم پر لازم ہے کہ دعا کرو۔ (ترمذی)

فعلیکم بالدعاء (تم پر لازم ہے کہ دعا کرو) ایک موکد حکم ہے۔

ابن مسعودؓ حضوؐر سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ سے اس کا فضل مانگو۔ اس لیے کہ   اللہ (اپنے بندوں کے) سوال کو پسند کرتا ہے اور تنگی میں کشایش کا انتظار بہترین عبادت ہے۔ (جمع الفوائد بحوالہ ترمذی)

تنگی و ترشی کی حالت میں یا کسی بھی مصیبت و بلا کے وقت کشادگیِ رزق اور دفع بلا کے انتظار کو بہترین عبادت اس لیے کہا گیا ہے کہ بندۂ مومن اپنے آقا و مولا سے اس کے فضل و کرم کی بھیک مانگتا رہتا ہے۔ وہ نہ اس سے تھکتا ہے، نہ اُکتاتا ہے اور نہ کشادگی و رفع بلا کے لیے کوئی غلط ذریعہ یا غلط طریقہ اختیار کرتا ہے، بلکہ صرف اللہ کے فضل کی آس لگائے رہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ  اس حالت میں بندے کا صبروتوکل بہترین عبادت ہے۔

’’جو اللہ سے دعا نہیں کرتا اللہ اس پر  غضب ناک ہوتا ہے‘‘ (ترمذی)۔ اس حدیث میں جو خبر دی گئی ہے وہ دعا کے بارے میں انتہائی مؤکد حکم کا درجہ رکھتی ہے۔ اس حدیث کا صاف مطلب یہ ہے کہ جو مسلمان اپنے آپ کو غضب ِ الٰہی سے بچانا چاہتا ہو، اسے اللہ سے دعا مانگنا چاہیے۔ یہ حدیث ابن ماجہ نے بھی روایت کی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں: من لم یدع اللّٰہ غضب علیہ۔ اسی اہمیت کے پیشِ نظر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف اوقات میں صحابہ کرامؓ کو دعائوں کی باضابطہ تعلیم دی ہے اور ان کے الفاظ تک سکھائے ہیں۔

  • تکثیر دعا کا حکم: حضوؐر نے اپنے مقدس ساتھیوں کو تکثیردعا کی بھی ترغیب دی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سجدے کی حالت میں بندہ اپنے رب سے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے، پس تم بکثرت دعا مانگو‘‘۔ (ریاض الصالحین بحوالہ مسلم)

ایک بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو دعا کے فوائد بتائے تو ان میں سے بعض نے عرض کیا: ’’تب تو یارسولؐ اللہ ہم بکثرت دعا مانگیں گے‘‘۔ حضوؐر نے جواب دیا: ’’اللہ کا فضل تمھاری دعائوں سے بہت زیادہ ہے‘‘، یعنی اللہ کا خزانۂ فضل و کرم بے کراں ہے۔ اس لیے تمھاری کثیر دعائوں کو قبول کرنے کے بعد بھی اس کے خزانے میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ حضوؐر کے اس جواب میں تکثیر دعا کی کتنی دل آویز ترغیب ہے۔ یہ حدیث امام ترمذی نے حضرت عبادہ بن الصامتؓ سے ابواب الدعوات میں روایت کی ہے۔

  • دعا کی فضیلت: اذکار و عبادات میں دعا اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ باوقعت اور مکرم شے ہے۔ ’’اللہ کے نزدیک کوئی چیز دعا سے زیادہ مکرم نہیں ہے‘‘ (ترمذی)۔ یہ حدیث ابن ماجہ، احمد، بخاری (فی الادب المفرد) ابن حبان اور حاکم نے بھی روایت کی ہے۔ دعا کی فضیلت میں اگر اس ایک حدیث کے سوا کوئی دوسری حدیث نہ ہوتی جب بھی یہ کافی تھی۔ دعا کی جو حقیقت اس سے پہلے بیان کی گئی ہے، اس کو سامنے رکھا جائے تو اس حدیث کو سمجھنا دشوار نہیں ہے۔ مختصر بات یہ ہے کہ جس طرح اللہ کو اپنے بندوں کا غرور، گھمنڈ اور تکبر سب سے زیادہ ناپسند ہے، اسی طرح اس کو اپنے سامنے اپنے بندوں کی عاجزی، احتیاج اور عبودیت کا اظہار و اقرار سب سے زیادہ پسند ہے۔

دعا بندۂ مومن کو اللہ کی رحمتوں کا مستحق بناتی ہے: حضرت ابن عمرؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ ’’جس شخص کے لیے دعا کا دروازہ کھول دیا گیا، اس کے لیے رحمت کے دروازے کھل گئے‘‘۔ گویا جس کو اللہ سے دعا مانگنے کی توفیق مل گئی اور جس کو دعا کا ذوق پیدا ہوگیا اس نے اپنے آپ کو اللہ کی رحمتوں کا مستحق بنالیا۔ وہ اس کو اپنی رحمتوں سے نوازے گا۔

دعا سے درجات بلند ہوتے ہیں: ’’حضرت ابوہریرہؓ حضوؐر سے روایت کرتے ہیں کہ  اللہ تعالیٰ اپنے بندے کا درجہ بلند فرماتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ مجھے یہ درجہ کہاں سے ملا۔ اللہ فرماتا ہے کہ اس دعا کے بدلے میں جو تیری اولاد نے تیرے لیے کی‘‘ (جمع، بحوالہ بزار)۔ ظاہر ہے کہ جب دعا سے والدین کے درجے بلند ہوں گے تو کیا دعا کرنے والی اولاد کے اپنے درجات بلند نہ ہوں گے؟ اسی معنے کی ایک حدیث موطا امام مالک میں بھی ہے۔

دین میں دعا کی بڑی اہمیت ہے اور یہ ایک ایسی عبادت ہے جس سے اعراض اللہ رب العالمین کو سخت ناپسند ہے۔ دعا کی تاکید بھی کی گئی ہے کہ اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارو۔ دعا ایک مومن کے لیے پریشان کن حالات اور مصائب و مشکلات میں امید اور حوصلے کا سامان اور مضبوط سہارا ہے اور اسے مایوسی اور نااُمیدی سے محفوظ رکھتی ہے، لہٰذا خشوع و خضوع سے دعا کا اہتمام ایک مومن کا شعار ہونا چاہیے۔ (مصنف: اسلامی تصوف)

بچے کسی بھی معاشرے کی امیدوں، آرزوئو ں اور تمنائوں کا مرکز ہوتے ہیں، اس لیے کہ مستقبل کی تعمیر کا انحصار ان ہی پر ہوتا ہے۔ اس لیے بچے دوسرے تمام طبقات کی بہ نسبت زیادہ توجہ، زیادہ شفقت اور زیادہ محبت چاہتے ہیں۔ معاشرتی حوالے سے بھی بچوں کی اہمیت مسلّم ہے۔ اسی بناپر اسلامی تعلیمات میںجہاں والدین کی اطاعت اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی اہمیت بیان کی گئی ہے وہاں بچوں کے حقوق بھی واضح کیے گئے ہیں۔ اسلام کی معاشرتی زندگی یک رخی نہیں،   ہمہ گیر ہے۔ اس لیے والدین اگر اسلامی معاشرے میں بنیادی اکائی کی حیثیت رکھتے ہیں تو بچے اس اکائی کا نتیجہ اور ثمرہ ہیں۔ یہ دونوں مل کر معاشرے کی صورت گری کرتے ہیں۔ بچے تو اور بھی زیادہ اہمیت رکھتے ہیں، کیوں کہ وہ نہ صرف والدین کی شخصی توسیع ہیں بلکہ معاشرے کے ارتقا اور اس کی متحرک زندگی کا عکس ہیں۔ آج کی اولاد کل کے والدین ہیں، اور آج کے بچے کل کے جو ان اور بزرگ ہوتے ہیں۔ اس بنا پر اسلام نے بچوں کے بارے میں خصوصی ہدایات دی ہیں۔

کوئی معاشرہ بچوں کے بارے میں جو رویہ اختیار کرتا ہے وہی اس کا معاشرتی معیار قرار پاتا ہے۔ اگر ان کے ساتھ حسن سلوک کے بجاے بے اعتدالی روا رکھی گئی تو اس سے نہ صرف یہ کہ معاشرے کا ارتقائی مزاج مجروح ہوگا بلکہ مستقبل کے والدین بھی خطرناک حد تک اولاد کش ثابت ہوں گے۔ (ڈاکٹر خالد علوی، اسلام کا معاشرتی نظام،ص ۲۲۴)

بچے اور اسلام

اسلام کی نظر میں بچوں کی اہمیت کئی وجوہ سے ہے۔ وہ مستقبل کے معمار ہیں، خاندان کی بقا کا ذریعہ ہیں، اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہیں، جماعت کی کثرت اور پہچان کا سبب ہیں، نیز اللہ تعالیٰ کی مدد کی ایک صورت ہیں۔ اسلام اپنے زیر اثر معاشرے میں اولاد کو اپنی معاشرتی اور سماجی اقدار کے تعارف، بقا اور تحفظ کا ذریعہ تصور کرتا ہے۔ اسلام اولاد کو نعمتِ عظمیٰ قرار دے کر اس کی نگہداشت کا حکم دیتا ہے۔ اسلام نے خاندان کا جو تصور دیا ہے اس کی ایک اہم اکائی اولاد کی صورت میں بچے ہیں۔ اسلام اسے ذاتی تسکین کا سامان بھی قرار دیتا ہے۔ نبیِ رحمت صلی اللہ علیہ و سلم نے بچوں کو جو حقوق عطا کیے ہیں اور بچوں پر آپؐ کی شفقت و رحمت کے جو مظاہر کتب حدیث و سیرت میں موجود و محفوظ ہیں، ان کا تذکرہ کرنے سے قبل ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن حکیم کی روشنی میں اسلام کے ہاں بچوں کی کیا حیثیت سامنے آتی ہے؟

جیسا کہ عرض کیا گیا اسلام بچوں کو نعمت ِعظمیٰ قرار دیتا ہے۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ انسان کو اپنے احسانات یاد دلاتے ہوئے کہتا ہے: ’’اور اللہ نے تم ہی میں سے تمھارے لیے جوڑے بنائے اور تمھاری بیویوں سے تمھارے لیے بیٹے اور پوتے پیدا کیے اور تمھیں پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا‘‘(النحل ۱۶:۷۲)۔ ’’دنیا کی رونق بچوں کے دم سے ہے، یہ سامان زینت ہیں۔ فرمایا: ’’مال اور اولاد دنیاوی زندگی کی زینت ہیں‘‘۔(الکھف ۱۸:۴۶)

نظامِ فطرت میں بچے اور اولاد امداد و تعاون کی ایک صورت ہے، جن سے انسان تقویت حاصل کرتا ہے، اور جن کے بل بوتے پر وہ عددی اکثریت حاصل کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کو اپنی نعمتیں یاد دلاتے ہوئے فرماتا ہے: ’’اور تمھیں مال اور اولاد سے قوت دی اور تمھیں بڑی جماعت والا بنا دیا‘‘(بنی اسرائیل ۱۷:۶)۔ اسی طرح حضرت ہود ؑاپنی قوم کو اپنے رب کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اور اس سے ڈرو جس نے ان چیزوں سے تمھاری مدد کی جن کو تم جانتے ہو۔ اس نے چوپایوں اور اولاد سے تمھاری مدد کی ‘‘ (الشعرا ۲۶: ۱۳۲-۱۳۳)۔ حضرت نوح علیہ السلام بھی اپنی قوم کے سامنے جب اللہ تعالیٰ کے انعامات اور انعامات کے وعدے بیان کرتے ہیں تو اولاد کا ذکر خاص طور پر کرتے ہیں: ’’اور تمھیں مال اور اولاد میں ترقی دے گا اور تمھیں باغ عطا کرے گا اور تمھارے لیے نہریں جاری کرے گا‘‘۔(نوح ۷۱:۱۲)

غرض اسلام کا نقطۂ نظریہ ہے کہ چونکہ دیگر نعمتوں کی طرح بچے بھی اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہیں، اس لیے اس نعمت کی قدر کرنی چاہیے۔ ان کی پرورش اور تربیت پوری اہتمام سے کرنی چاہیے پھر ان کا درجہ امانت کا بھی ہے، اس لیے ان کی تربیت پورے معاشرے کی ذمہ داری ہے۔ ان سے بدسلوکی اور ان کی پرورش اور تعلیم و تربیت میں کوتاہی پورے معاشرے کے لیے مضر ہے۔ جب ایک تربیت یافتہ بچہ انسانی معاشرے کے لیے مفید ثابت ہوگا تو ایک غیر تربیت یافتہ بچہ اسی معاشرے کے لیے نقصان دہ بھی ثابت ہوسکتا ہے۔

بچوں کو نبی کریمؐ کی خاص توجہ حاصل رہی ہے۔ آپؐ نے ان کے جو حقوق بیان فرمائے ہیں اور اسلام نے انھیں جو خاص اہمیت دی ہے اسے چند عنوان کے تحت بیان کیا جاسکتا ہے:

حقِ حیات

اسلام نے بچوں پر اہم ترین احسان یہ کیا ہے کہ انھیں زندگی کا حق عطا کیا ہے۔ اسلام کی نظر میں مرد و عورت کا جائز باہمی تعلق محض ایک تفریح نہیں ہے، بلکہ یہ نسلِ انسانی کے تحفظ اور اس کے پھلنے پھولنے کا ذریعہ ہے۔ اس بنا پر اس تعلق کے ثمرے کے طور پر وجود پانے والے بچے کو اسلام یہ حق دیتا ہے کہ وہ زندہ رہے، اور والدین کی یہ ذمہ داری قرار دی گئی ہے کہ وہ اس کی زندگی کو خوشی سے قبول بھی کریں اور اس کی بقا کے لیے ناگزیر و ضروری اقدامات بھی کریں۔

اسلام سے قبل بچوں سے بہت سی صورتوں میں یہ حق حیات چھین لیا جاتا تھا۔ کبھی    نرینہ اولاد کی خواہش ان کی زندگی کے لیے خطرہ بن جاتی۔ کبھی ان کے جیتے جاگتے وجود کو خیالی یا ساکت و جامد معبودوں کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا، اور کبھی معاشی کفالت کا خوف ان کی جان لے لیتا۔ یہ تیسری صورت فیملی پلاننگ کے نام پر آج بھی پوری دنیا پر مسلط ہے، اور اس کے تقاضوں پر سختی سے عمل پیرا ہونے والے ملک چین میں بچوں کا قتل آج عروج پر ہے۔ کثرت آبادی کے خوف سے وہاں کی حکومت عرصے سے ’ایک خاندان ایک بچہ‘ کے اصول پر عمل پیرا ہے، جس کے نتیجے میں اب وہاں ہر خاندان کی خواہش ہے کہ ان کے ہاں لڑکا پیدا ہو۔ چونکہ ان کے پاس صرف ایک موقع ہوتا ہے، اس لیے وہ اولاد نرینہ نہ ہونے کی صورت میں ایسا انتظام کرتے ہیں کہ بچہ دنیا میں آنے ہی نہیں پاتا۔ یہ صورت حال اسلامی معاشرے میں پیدا نہیں ہوسکتی۔ کیوں کہ اسلام ایسے غیر انسانی اقدامات کی مذمت کرتا ہے، اورایسی ہدایات دیتاہے کہ اس قسم کے اقدامات کی بیخ کنی ہو۔

اسلام معاشی بنیادوں پر اولاد کے قتل کو سخت ترین جرم قرار دیتا ہے، کیوں کہ اس کا فلسفہ  یہ ہے کہ اس کائنات کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ اس نے اس کائنات کا نظم و نسق انسان کے حوالے کیا ہے، اسے وسائل دیے ہیں، محنت کا جذبہ اور معنی و کوشش کے دروازے اس پر وا کیے ہیں۔ اسے ذرائع دیے ہیں جن کے ذریعے وہ محنت اور جدوجہد کرکے اپنی دنیاوی زندگی کو مزین اور اُخروی حیات ابدی کو روشن اور ثمر بار کرسکتا ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بعض انسانوں کے ظالمانہ اقدامات اور غیرمنصفانہ رویوں کے باعث وسائل حیات پر چند افراد کا قبضہ ہوجاتا ہے، اور عام افراد کی دست رس سے وسائل نکلنے لگتے ہیں۔ ایسے میں معاشی تنگی پیدا ہوتی ہے، اور انسان اپنے اخراجات کم کرنے کے لیے بعض اوقات ناجائز اقدامات پر بھی اتر آتا ہے، مگر یہ نظام کو صحیح طور پر نافذ نہ کرنے کا نقصان ہے۔ اس کا ذمہ دار خود نظام نہیں ہے، وہ چند غلط کار لوگ اور چند ہاتھ اس کے ذمہ دار ہیں، جو اس نظام کا غلط استعمال کررہے ہیں۔ اسلام اس لیے ایک تو دولت کی منصفانہ تقسیم پر زور دیتا ہے، دوسری جانب معاشی وجوہ سے قتل اولاد کو سنگین ترین جرم قرار دیتا ہے۔ ایک مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور مفلسی کے ڈر سے تم اپنی اولاد کو قتل نہ کرو۔ ہم ان کوبھی رزق دیتے ہیں اور تمھیں بھی۔ بے شک ان کا قتل کرنا بڑی خطا ہے‘‘۔(بنی اسرائیل ۱۷:۳۱)

بچوں کے قتل کا ایک اور سبب اولاد نرینہ کی خواہش ہے۔ اس خواہش کی وجہ سے لڑکیوں کا قتل انسان کی بہت پرانی روایت ہے، اور ہر طرح کی ترقی کا دعویٰ رکھنے اور انسانی حقوق کے   بلند آہنگ دعوئوں کے باوجود ترقی یافتہ قومیں بچوں کے اس قتل عام کو آج تک نہیں روک سکیں۔ بچوں کا یہ قتل آج بھی دنیا بھر میں رائج ہے، اوریہ قبائلی سوچ آج بھی ہمارے درمیان موجود ہے کہ لڑکیوں کو بوجھ سمجھاجاتا ہے۔ آج کے نام نہاد ترقی یافتہ دور میں بھی لڑکیاں جہیز کم لانے کی وجہ سے قتل ہورہی ہیں اور بعض عورتیں، یہ جان کر کہ اس کے ہاں لڑکی پیدا ہو رہی ہے، اسقاط کرا دیتی ہیں۔ لڑکی معاشی بوجھ اور معاشرتی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے، اس لیے اس سے نجات کے راستے تلاش کیے جاتے ہیں۔ انھیں وراثت سے محروم رکھا جاتا ہے، جس کے لیے نہایت گھٹیا طریقے اختیار کیے جاتے ہیں۔ ان کی قرآن سے شادی کردی جاتی ہے۔ کس قدر ظلم ہے کہ اس قرآن حکیم کو لڑکیوں کے حقوق بالجبر مارنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جس نے سب سے پہلے اس کی آواز بلند کی، اور مظلوم بچوں کو ان کا حق دلایا۔ اسلام ان تمام فرسودہ اور گھٹیا رسوم و رواج اور طور طریقوں کی سختی سے ممانعت کرتا ہے۔ قرآن حکیم ان کے اس رویے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتا ہے:

اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی کے پیدا ہونے کی خبر ملتی ہے تو اس کا چہرہ غم کے سبب کالا پڑجاتا ہے اور اس کے دل کو دیکھو تو وہ اندوہ ناک ہو جاتا ہے، اور اس خبر بد کی وجہ سے وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے اور سوچتا ہے کہ آیا ذلت برداشت کرکے لڑکی کو زندہ رہنے دے یا زمین میں گاڑدے۔ دیکھو یہ جو تجویز کرتے ہیں بہت بری بات ہے۔ (النحل ۱۶:۵۸-۵۹)

قرآن مزید کہتا ہے:

اور اسی طرح بہت سے مشرکوں کے خیال میں ان کے معبودوں نے ان کی اولاد کا قتل کرنا مستحسن بنا رکھا ہے تاکہ وہ ان کو ہلاک کردیں اور تاکہ ان کے دین کو ان کے حق میں خلط ملط کردیں۔ (الانعام ۶:۱۳۷)

ابن کثیر رحمہ اللہ اس کی تشریح میں فرماتے ہیں:

ایسا ہی شیاطین نے ان مشرکوں کی نگاہ میں فقر و فاقے کے اندیشے سے اولاد کا قتل اور ننگ و عار کے (خود ساختہ ) خطرے سے بچیوں کا زندہ درگور کرنا محبوب مشغلہ بنا رکھا تھا۔ (التفسیر، عیسیٰ البابی الحلبی، ج۲،ص ۱۸۹)

اسلام بچوں کو ایک عظیم نعمت قرار دیتا ہے، اور ہمیں اس عظیم نعمت کی قدر کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ اسلام نے سب سے پہلے بچوں کے اس طرح قتل کو قانوناً جرم قرار دیا اور انسانیت کو بتایا کہ نوعِ انسانی کی بقا کے لیے بچوں کی قدر کرنا اور ان کی پرورش کرنا، انھیں صحیح تربیت فراہم کرنا ناگزیر ہے۔

شناخت

اسلام کا بچوں پر سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اس نے بچوں کو ایک شناخت اور پہچان  عطا کی ہے۔ اس غرض سے اسلام نے خاندان کی صورت میں جو نظام وضع کیا ہے، وہ بچے کو جہاں ایک مضبوط سائبان عطا کرتا ہے، وہیں اسے ایک شناخت بھی دیتا ہے، اور تیسری جانب خاندان کو اس کی تربیت اور تعلیم کا ذمہ دار بھی ٹھیراتا ہے۔ اگر کوئی معاشرہ یاخاندان یہ ذمہ داری ادا نہیں کرتا تو وہ گناہ گار ہے، جب کہ اس فریضے کی ادایگی کی صورت میں پورا خاندان اپنے اپنے حصے کے مطابق اجر و ثواب کا مستحق ٹھیرتا ہے۔

خاندان کا نظام پہلے سے چلا آرہا ہے، اس کی شکل قدرے تبدیل ہوتی رہی، یوں کہہ سکتے ہیں کہ تدریجاً ارتقا پاتی رہی، مگر اسلام کا احسان یہ ہے کہ اس نے اس نظام کو قانونی شکل عطا کی اور اس کی تمام اکائیوں کے حقوق و فرائض واضح کیے، پھر ان سب کا دائرۂ کار متعین کیا۔ اس نظام سے خاندان کی تمام اکائیاں متمتع ہوتی ہیںلیکن درحقیقت اس سے سب سے زیادہ فائدہ بچوں کا ہے۔ اس لیے جہاں یہ نظام ختم ہوا یاشکست و ریخت سے دو چار ہوا وہاں سب سے زیادہ نقصان بھی بچوں ہی کو اٹھانا پڑا۔ مغرب کی مثال ہمارے سامنے ہے۔

اسی بنا پر اسلام نے اسے ایک اخلاقی معاملہ نہیں رکھا بلکہ اسے ایک قانون اور ضابطے کی شکل دی جس میں خاص طور پر عورتوں کو اس کا پابند بنایا کہ وہ بچوں کی تربیت کے سلسلے میں کسی قسم کی دوسری مصروفیات کو آڑے نہ آنے دیں۔

اسلام کا یہ نظام اس قدر فطری بنیادوں پر قائم ہے کہ اس سے انحراف کی صورت میں جہاں ایک طرف سخت ترین نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہیں اس کے مقابل دوسرا کوئی نظام قائم کرنے میں بھی انسان کو کام یابی نہیں ہوسکی۔ اس کا واضح مفہوم یہی ہے کہ انسانیت کی بقا کے لیے کسی کے پاس اسلام کے تجویز کردہ نظام کے علاوہ کوئی راہ موجود نہیں ہے۔ اسلام کی تعلیمات کے برخلاف ایک غیر فطری تجربے کی داستان ملاحظہ کیجیے۔

مغرب میں آزادیِ نسواں کی تحریک شروع ہوئی تو اسے فلسفیانہ بنیاد عطا کرنے اور  باقاعدہ و باضابطہ بنانے کے لیے جو مشکلات درپیش تھیں، ان میں سرفہرست یہی مسئلہ تھا کہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے کیا خطوط متعین کیے جائیں؟ اس غرض سے ایک فریق نے بچوں کی اجتماعی پرورش کا متبادل اصول متعارف کرایا۔ ہنگری کے مارکسی مصنف وجدہ اور ہیلر یہ تجویز کرتے ہیں کہ ایک اجتماعی خاندان یا کمیون (collective family) یہ فرائض ادا کریں گے اور تمام بالغ افراد بچوں کی پرورش کا فریضہ انجام دیں گے۔ بالغوں کے درمیان تعلقات کی نوعیت یک زوجگی سے لے کر جنسی آوارگی تک موجود ہوگی کیوں کہ کمیون میں جنسی تعلقات اخلاقی قدروں کے ماتحت نہیں ہیں۔ اجتماعی خاندان کمیون سے مختلف ہے، کیوں کہ وہ صرف گھریلو معاملات اور بچوں کی نگہداشت سے متعلق ہے اور یہ پیداواری اکائی نہیں ہوتی۔

اس سے بھی آگے بڑھتے ہوئے ایلون ٹوفلر نے ایک انوکھا متبادل نظام تجویز کیا ہے۔ اس نے پیشہ ور والدین (professional parents) کا تصور پیش کیا ہے۔ یہ ’معاون والدین‘ خاندان کی حیثیت اختیار کریں گے اور ماں، باپ ، چچا، چچی اور دادا، دادی اور نانا، نانی کا کردار ادا کریں گے۔ یہ لوگ بچے کی پرورش کو تنخواہ دار ملازمت کی حیثیت سے اختیار کریں گے۔ اس طرح رضا کارانہ طور پر بچوں کی پرورش کا خاتمہ ہوگا اور بہت سے حیاتیاتی والدین کو خاندانی کردار سے چھٹکارا ملے گا۔ انھیں صرف یہ کرنا ہوگا کہ اپنے بچوں کو پیشہ ور لوگوں کے سپرد کردیں۔

اسی طرح بہت سے مصنفین نے خاندان کے متبادل اداروں کا تصور بھی پیش کیا ہے۔ اشتراکی نسائیت پسند مصنفہ جو لیٹ مشیل نے مختلف تجربات کا تدکرہ کیا ہے جن کا تعلق اجتماعی زندگی (commnunal living) سے ہے جو افراد اور حالات کی مناسبت سے متعین ہوسکے ہیں۔ وہ ایسے ادارے تجویز کرتی ہے جو رضاکارانہ طور پر خدمات انجام دیں اور ان میں مختلف مرد اور عورتیں مصروف خدمت رہیں۔ (Future Shock ، پینگوین، لندن، ۱۹۷۱ئ)

ملاحظہ کیجیے اس طبقۂ فکر کی ذہنی اُپج کہ اصلی والدین کو فیکٹریوں میں جھونک کر کرایے کے والدین حاصل کیے جارہے ہیں۔ یہ بات کم از کم اس امر کی تو واضح دلیل ہے کہ بچوں کی تربیت میں والدین خصوصاً ماں کا کردار ایسا ہے جس کا کوئی متبادل موجود نہیں ہے۔ جب یہ بات ثابت ہوچکی تو پھر جس کا جو وظیفۂ حیات قدرت نے متعین کردیا، عقل کا تقاضا تو یہ ہے کہ اسے وہ ادا کرنے دیا جائے نہ یہ کہ اپنی اختراعات سے کام لے کر اس کا متبادل سامنے لایا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ معاملہ اتنا ہی سادہ ہوتا تو قدرت نے یہ کیوں نہ کردیا کہ بچے بھی پھلوں اور سبزیوں کی طرح درختوں پر اُگتے اور کھیتوں میں ابھرتے، پھر پال لگانے کے لیے اسے متعلقہ اداروں کے سپرد کردیا جاتا اور آخر میں یہ تیار پروڈکٹ والدین کو بھیج دی جاتی۔ ماںبھی سال بھر کی مشقت سے محفوظ رہتی، اور باپ بھی کسی آزمایش سے دوچار نہ ہوتا۔ قدرت کے اس پورے نظام کا مطالعہ کرنے سے جہاں ایک طرف خاندان کی اہمیت واضح ہوتی ہے وہیں یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہ واحد نظام ہے جو بچوں کو احساس تحفظ اور شناخت عطا کرتا ہے، اس بنا پر یہ نظام بچوں کی تربیت کے لیے ناگزیر ہے۔ یہ اسلام کا بچوں پر اس قدر بڑا احسان ہے جس کی اہمیت سے صحیح معنی میں ہم واقف ہی نہیں ہیں۔

پرورش کی ذمہ داری

بچے کا یہ بھی حق ہے کہ اس کی پرورش درست نہج پر کی جائے۔ آپؐ نے والدین کو بچوں کی پرورش کا براہِ راست ذمہ دار ٹھیرایا ہے، جس میں کوتاہی کی صورت میں وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں جواب دہ ہوں گے۔ اس سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اصول بیان کرتے ہوئے فرمایا:

آگاہ ہو جائو! تم میں سے ہر ایک رکھوالا ہے اورہرایک سے اس کی رعایا کے بارے میں (روزِ قیامت) پوچھا جائے گا۔ سو، یادرکھو لوگوں کا امیر بھی رکھوالا ہے، اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا، اور ہر فرد اپنے اہل خانہ کا نگہبان ہے، اور ہر عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کی اولاد کی ذمہ دار ہے، اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا، اور غلام اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہے، اس سے اس بارے میں سوال ہوگا۔ آگاہ رہو، تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔ (مسلم، حدیث ۱۸۲۹، بخاری، حدیث ۵۲۰۰)

بچوں کی پرورش، خوراک، لباس، تعلیم و تربیت، علاج معالجہ، ان کی ضرورتوں کا خیال رکھنا والدین کی ذمہ داری ہے، عموماً ــوالدین یہ فرائض انجام دیتے ہیں، لیکن اسلام انھیں والدین کا مستقل فریضہ قرار دیتا ہے، جس کی ادایگی پر وہ علیحدہ سے اجر و ثواب کے مستحق ہوں گے، اور عدم ادایگی کی صورت میں انھیں اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دہی کا سامنا کرنا ہوگا۔

قرآن کریم کی رُو سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ کسی ماں کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ بچے کو اپنے دودھ سے محروم رکھے، اسلام نے بچے کے لیے دودھ پلانے کی مدت دو سال مقرر کی ہے (البقرہ ۲:۲۳۳)۔ اس سے کم مدت میں اگر دودھ چھڑایا جائے تو یہ پیش نظر رہنا چاہیے کہ بچے  کی صحت اور پرورش پر اس کا کوئی برا اثر تو مرتب نہیں ہوگا۔ اسی آیت نے یہ بھی واضح کیا کہ   دودھ پلانے والی ماں کے حقوق کا بھی خیال رکھا جائے۔ باپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ دودھ پلانے والی ماں کے طعام و لباس کا پورا انتظام کرے، جب کہ باپ کی غیر موجودگی میں یہ خاندان کی   ذمہ داری ہے کہ وہ بچے اور اس کی ماں کی نگہداشت کا پورا انتظام کرے۔ والدین کی علیحدگی کی صورت میں بچے کی رضاعت (دودھ پلوانے) کا انتظام کرنا ضروری ہے۔ ماں کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ بلاوجہ بچے کو دودھ کی نعمت سے محروم کردے، کیونکہ یہ اس کی پرورش میں رکاوٹ ڈالنے کے مترادف ہے۔ اس عمل پر اس سے باز پرس ہوگی۔

ان ہدایات کی وجہ سے مسلمانوں کے ہاں دودھ پلانے کا یہ عمل مسلسل جاری رہا۔ یہ دورِحاضر کی بدعت ہے کہ مائوں نے اپنا دودھ پلانے سے گریز کیا ہے، جس کا نتیجہ مائوں کے حق میں بھی بہتر نہیں نکلا، جب کہ بچوں کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ دور حاضر کی طبی تحقیقات نے ماں کے دودھ کی اہمیت و ضرورت کا ادراک کیا ہے اور مائوں کو یہ مشورہ دینا شروع کیا ہے کہ وہ بچوں کو دودھ پلائیں۔ چونکہ ماں کا دودھ بچے کی صحت، عادات و اطوار اور مستقبل کی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے اس لیے ماں کی صحت، اس کی دینی اور اخلاقی حیثیت کی بڑی اہمیت ہے۔

بچوں کی پرورش بہت نازک معاملہ ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کے جو احکامات اس بارے میں ہمیں تعلیم فرمائے ہیں ان میں ان نزاکتوں کا بھرپور خیال رکھا ہے۔ انسان جو لقمہ اپنے پیٹ میں منتقل کرتا ہے وہ بھی اپنی ایک تاثیر رکھتا ہے، اور اسلام یہ کہتا ہے کہ رزق حرام کسی اچھے مستقبل کی تعمیر نہیں کرسکتا۔ اس لیے والدین کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کی پرورش حلال رزق سے کریں، تاکہ وہ آگے چل کر اچھے مستقل سے لطف اندوز ہو سکیں، ورنہ انجام درست نہیں ہوسکتا۔ قرآن کہتا ہے : کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَارَزَقْنٰکُمْ  (طٰہٰ ۲۰:۸۱)’’تم ہماری دی ہوئی پاکیزہ چیزوں میں سے کھائو‘‘۔ دوسرے مقام پر حرام خوری کو شیطان کا راستہ قرار دیتے ہوئے فرمایا: ’’اے لوگو! زمین کی چیزوں میں سے حلال و پاکیزہ چیزوں کو کھائو اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو، بے شک وہ تمھارا کھلا دشمن ہے‘‘۔ (البقرہ ۲: ۱۶۸)

مساوی سلوک

ابتدا سے یہ رجحان بھی چلا آرہا ہے کہ بعض اوقات تمام بچوں میں مساوات نہیں برتی جاتی۔ کبھی لڑکوں کو لڑکیوں پر ترجیح دی جاتی ہے تو کبھی لڑکوں کے مابین بھی کسی وجہ سے یا بلا وجہ   فرق روا رکھا جاتا ہے۔ یہ تفریق اسلام میں قطعاً پسندیدہ نہیں۔ نبیِ رحمت علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کی سختی سے ممانعت فرمائی ہے، اور سب کے مابین مساوی سلوک کرنے کی تاکید فرمائی ہے، اور ایسے والدین کو اجر و ثواب میں بشارت دی ہے، جو بچوں کی صحیح پرورش کریں اور سب کے درمیان مساوی سلوک کریں۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ’’ ایک عورت میرے پاس آئی اور اس کے   ہم راہ اس کی دو بیٹیاں تھیں۔ اس نے میرے پاس ایک کھجور کے سوا کچھ نہ پایا تو میں نے اسے وہی دے دی۔ پھر اس نے اسے اپنی بیٹیوں میں بانٹ دیا اور اس میں سے خود نہ کھایا، پھر اٹھ کر باہر  چلی گئی۔ اس کے بعد نبی ؐگھر آئے اور میں نے آپؐ کو بتایا تو آپؐ نے فرمایا: ’’جو کوئی ان بیٹیوں کی آزمایش میں ڈالا گیا اور اس نے ان سے اچھا سلوک کیا تو وہ اس کے لیے آگ سے مقابلے میں رکاوٹ ثابت ہوں گی‘‘۔ (بخاری، حدیث ۵۹۹۵)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے دو لڑکیوں کی پرورش کی وہ اور میں جنت میں اس طرح داخل ہوں گے، پھر آپؐ نے اپنی انگلیوں کو باہم ملایا‘‘۔ (ترمذی، حدیث ۱۹۲۱)

جنت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب، نعمتوں سے بڑھ کر نعمت ہوگی، یہ نعمت خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کے مطابق بیٹیوں کی پرورش سے حاصل ہوسکتی ہے۔

آپؐ نے باہم بیٹوں میں بھی کسی قسم کا امتیاز قائم نہیں فرمایا۔ اگر کسی نے اپنے ایک لڑکے کو عطیہ دیا اور دوسرے لڑکے یا لڑکوں کو نہ دیا تو آپؐ نے اسے ظلم قرار دیا۔ چنانچہ روایت میں آتا ہے کہ ایک صحابی نے اپنے لڑکوں میں سے کسی ایک کو ایک غلام ہبہ کیا اور چاہا کہ اس پر آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنائے۔ چنانچہ انھوں نے آپؐ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ آپؐ نے دریافت فرمایاکہ کیا تم نے اپنے سب بچوں کو ایک ایک غلام دیا ہے؟   انھوں نے عرض کیا: نہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ میں سواے حق کے کسی پر گواہ نہیں بنتا (ابوداؤد،   حدیث ۳۵۴۲)۔ اس طرح آپؐ نے نہ صرف ایک ناانصافی پر مشتمل فیصلے میں گواہ بننے سے انکار کیا، بلکہ اپنے عمل سے ایک ایسے معاملے کی شناعت کی جانب ہماری توجہ بھی مبذول کروائی جس میں ایک بہت بڑا طبقہ شامل ہے۔

اسی قسم کے ایک اور واقعے میں ذکر آ تا ہے کہ ایک صحابی کے والد نے انھیں کچھ عطیہ دے دیا تو ان کی والدہ نے کہا کہ میں اس وقت تک راضی نہ ہو ں گی جب تک تم اس پر حضوؐر کی گواہی نہیں لاؤ گے۔ ان کے والد رسولؐ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پورا واقعہ بیان فرما کر    آں حضرتؐ سے اس پر گواہی چاہی، آپؐ نے فرمایا:

کیا تم نے اپنی تمام اولاد کو اسی طرح کا عطیہ دیا ہے ، میں نے کہا کہ نہیں ۔ اس پر رسولؐ اللہ نے فرمایا: اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل سے کام لو، پس وہ صحابی واپس پلٹے اور بیٹے سے عطیہ واپس لے لیا۔(بخاری، کتاب الھبۃ، باب ۱۳)

اچہا نام رکہنا

ناموں کا اثر بچے کی شخصیت پر بھی پڑتا ہے۔ اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کا یہ حق بھی قرار دیا ہے کہ اس کا نام موزوں اور اچھا تجویز کیا جائے، اور والدین پر اولاد کا یہ ایک اہم حق ہے کہ وہ اس کا اچھا نام رکھے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آںحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’باپ پر بچے کا یہ بھی حق ہے کہ اس کا نام اچھا رکھے اور اس کو  حُسنِ ادب سے آراستہ کرے‘‘۔ (مجمع الزوائد، ج۸، ص ۹۳)

اگر کسی کا نام کسی سبب سے مناسب نہ ہو تو اسے بدل دینا چاہیے، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبیح ناموں کو بدل دیا کرتے تھے‘‘ (ترمذی)۔ اسی طرح ایک اور روایت میں آتا ہے ، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خاتون کا نام عاصیہ سے تبدیل کرکے جمیلہ تجویز فرمایا‘‘۔ (ترمذی، ایضاً)

سب سے اہم بات یہ ہے کہ بچے کا نام ایسا رکھا جائے جو اچھے عقائد اور عمدہ اخلاق کا آئینہ دار ہو۔ حدیث میں آیا ہے کہ تم اپنے بچوں کے نام خوب صورت رکھو۔ آں حضرتؐ کا ارشاد ہے: ’’اللہ کے نزدیک سب سے پیارے نام عبد اللہ اور عبد الرحمن ہیں‘‘۔ (ابن ماجہ، ابوداؤد)

شاہ ولی اللہ اس حکم کی حکمت پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’شریعت کے اہم اور عظیم ترین مقاصد میں سے ایک مقصد یہ بھی ہے کہ تمام ضروریاتِ زندگی اور تدابیر معاشیات میں بھی ذکر الٰہی شامل کردیا جائے اور اسے دو چند کردیا جائے تاکہ یہ امور بھی دعوت اسلام کی زبان بن کر حق کی دعوت دیں اور نومولود بچے کو عبد اللہ اور عبد الرحمن سے موسوم کرنا درحقیقت اسے توحید سے آگاہ و باخبر کرنا اور توحید آشنا بنانا ہے۔ نیز اہل عرب اور دیگر ممالک کے باشندے اپنی اولاد کا نام ان لوگوں کے نام پر رکھتے تھے جن کی وہ لوگ عبادت و پرستش کیا کرتے تھے۔ چونکہ آں حضرتؐ کی بعثت کا مقصد ہی مراسم توحید قائم کرنا تھا اس لیے لازم و ضروری ہوا کہ نام رکھنے میں سنت، توحید اور طریق توحید ہی کا اعتبارو لحاظ رکھا جائے‘‘۔ (شاہ ولی اللہ، حجۃ اللّٰہ البالغہ، ج۲،ص ۳۹۱، مصر)

اسی طرح برے ناموں کی ممانعت کرتے ہوئے آپؐ نے فرمایا: ’’ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا کہ قیامت کے روز اللہ کے نزدیک کم بخت نام اس شخص کا ہوگا جو ملک الاملاک کہلائے گا‘‘(ابوداؤد، بخاری)۔ ابو الدردا رضی اللہ عنہ کی روایت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’قیامت کے دن تمھیں اپنے ناموں اور اپنے والد کے    ناموں سے پکارا جائے گا، اس لیے بہترین نام رکھا کرو‘‘۔ (ابوداؤد، حدیث ۴۹۴۸، دارمی، حدیث ۲۶۹۴)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی یہ تاثیر ہے کہ امت مسلمہ میں ہمیشہ اچھے نام مقبول رہے ہیں۔ انبیا و صلحا کی نسبت سے بھی نام رکھے گئے۔ بعض ایسے نام پائے جاتے ہیں جو متنازع رہے ہیں، تاہم امت مسلمہ اچھے ناموں کی وجہ سے پوری دنیا میں منفرد ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بیٹے کا نام ابراہیم رکھا۔ آپؐ  کا یہ ارشاد بھی کتب حدیث میں منقول ہے: ’’پیغمبروں کے نام پر نام رکھو‘‘ (ابوداؤد)۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس بات کی اپنے قول مبارک سے تلقین فرمائی، اپنے عمل سے اس کی تائید بھی امت کے سامنے پیش فرما دی۔

عقیقہ

عقیقے کی روایت عربوں میں پہلے سے موجود تھی۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں اصلاح فرمائی اور اسے بچے کا حق قرار دیا۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ بچے کی پیدایش پر جانور ذبح کیا جاتا اور پھر اس کے خون سے بچے کو رنگ دیا جاتا۔ اسلام نے اس کی ممانعت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عقیقے کی یہ صورت بیان فرمائی:’’جس کسی کے ہاں بچہ پیدا ہو، اور وہ قربانی کرنا پسند کرے تو اسے چاہیے کہ لڑکے کی طرف سے دو اور لڑکی کے لیے ایک بکرا قربان کرے‘‘۔(ابوداؤد، حدیث ۲۸۴۲)

آپؐ کے نواسے حضرت حسن ؓ کی پیدایش کے وقت آپؐ نے خود ان کا عقیقہ کیا، اس کی تفصیل راویت میں یوں مذکور ہے:

حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن کے عقیقے میں ایک بکرا ذبح کیا اور کہا کہ اے فاطمہ! حسن کا سرمونڈا دو اور اس کے بالوں کے ہم وزن چاندی صدقہ کردو۔ ان کا وزن ایک درہم نکلا۔ (ترمذی، حدیث ۱۵۲۴، حاکم، حدیث ۷۵۸۹)

تعلیم

تعلیم بنیادی ضرورت ہے۔ اسلام پہلا مذہب اور پہلی تہذیب ہے، جس نے تعلیم کو ہرانسان کی بنیادی ضرورت قرار دیا ہے، جب کہ اس سے قبل یہ تصور موجود نہ تھا، بلکہ ہرمعاشرہ اور قبیلہ صرف اپنے اعلیٰ طبقے کی تعلیم پر قانع تھا، اور وہ قبیلے کے سردار اور امرا وغیرہ اور مذہبی پیشوائوں کی تعلیم و تربیت کو ضروری قرار دیتا اوراس کا اہتمام کرتا تھا۔ عام افراد اس تعلیمی نظام سے خارج سمجھے جاتے تھے۔ انھیں طبقۂ اشرافیہ کی طرح تعلیم حاصل کرنے کا حق نہ تھا (انسائی کلوپیڈیا برٹانیکا، ۱۹۸۴ئ، ۶/۳۱۷-۳۱۸)۔ یہاں تک کہ یونان اور چین کے ہاں بھی، جنھوں نے   علم و تمدن کے میدان میں نمایاں بلکہ غیر معمولی ترقی کی،تمام انسانوں کی تعلیم کا کوئی تصور نہ تھا، بلکہ وہ اہل علم کے ایک خاص طبقے کی تعلیم کے محرک اور داعی تھے۔ افلاطون بھی فلاسفہ اور اہل نظر کے ایک مخصوص طبقے ہی کو اس امتیاز سے نوازتا ہے۔(پروفیسر خورشیداحمد، اسلامی نظریۂ حیات، ص۴۲۰)

اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے، جس نے سب سے پہلے بلا تفریق طبقات و قبائل و بلاتخصیص مرد و زن سب کے لیے بلاامتیاز و بلا اختصاص عام تعلیم کا آوازہ بلند کیا، اور نبی اُمی   صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’علم کا حصول ہر مسلمان پر فرض ہے‘‘(ابن ماجہ، حدیث ۲۲۴)۔  گویا تعلیم ہر چھوٹے بڑے، امیر و غریب، مرد و عورت اور کالے و گورے ،ہر ایک پر فرض ہے۔  اس باب میں نہ تو طبقۂ فکر کی تخصیص ہے نہ کسی اور بنیاد پر اسلام نے کسی بھی نوعیت کے امتیاز کودرست سمجھا ہے ۔ اس بنا پر اولاد کی تعلیم کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’کوئی والد اپنی اولاد کو اچھے آداب سے بہتر ہدیہ نہیں دے سکتا‘‘۔ (ترمذی، حدیث ۱۹۵۹)

تربیت

تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی ضروری ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جو عصر حاضر کے دیدہ وروں کی نگاہوں سے اوجھل ہے۔ علم کے نام پر جو لاعلمی پھیلائی جارہی ہے، اس کے مفاسد اپنی جگہ پر مگر تربیت کی طرف کوئی ذہن بھی توجہ نہیں کررہا۔ حالانکہ تربیت کے بغیر علم کی حیثیت خام مال سے زیادہ کچھ نہیں۔ جب تک اسے تربیت کی بھٹی سے نہ گزار لیا جائے اس وقت تک اس سے فائدہ نہیں اٹھا جاسکتا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں پر جو شفقت فرمائی ہے، اس کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ان نونہالوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ آپؐ نے ان کی تہذیب اور تربیت کی بھی خاص تلقین فرمائی ہے۔ تربیت میں سب سے پہلے روحانی تربیت کا مرحلہ آتا ہے۔ قرآن میں ہے:

اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اُس آگ سے بچائو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں، جس پر سخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہیں، جو اللہ کے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم دیا جاتا ہے وہ اُس کو بجا لاتے ہیں۔(التحریم ۶۶:۶)

اولاد اور اہل و عیال کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ دعائیں بھی تعلیم فرمائی ہیں۔ کیونکہ یہ بھی تربیت کا حصہ ہے کہ انسان جہاں ان کے اخلاق و کردار پر نظر رکھے، انھیں اچھی باتوں کی تعلیم دے، وہیں  اللہ تعالیٰ سے ان کے لیے دعا بھی کرے۔ قرآن حکیم دعاگو رہنے والے والدین کا ذکر یوں کرتا ہے: ’’اور وہ جو دعا کرتے رہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا امام بنا‘‘(الفرقان ۲۵:۷۴)۔ایک دوسری دعا ہے: ’’اور میرے لیے میری اولاد میں بھی خیر رکھ۔ میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں فرماں برداروں میں سے ہوں‘‘۔ (احقاف ۴۶:۱۵)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کی تربیت کو کس قدر اہمیت دی ہے، اور ان کے اندر خیرخواہی کا مادہ پیدا کرنے پر جس قدر زور دیا ہے، اس کا کچھ اندازہ ان ارشادات سے کیا جاسکتا ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’انسان کا  اپنی اولاد کو ادب سکھانا ایک صاع (ساڑھے تین سیر، تقریباً) صدقہ کرنے سے بہتر ہے‘‘ (ترمذی، حدیث ۱۹۵۸)۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنی اولاد کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرو اور ان کے آ داب کو بہتر بناؤ‘‘۔ (ابن ماجہ، حدیث ۳۶۷۱)

نبی کریمؐ نے بچوں کی تربیت کے حوالے سے چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھی انتہائی اہمیت دی جو بہ ظاہر تو چھوٹی نظر آ تی ہیں مگرمستقبل میں انسانی شخصیت و کردارپر ان کے بہت گہرے اور پایدار اثرات دیکھنے میں آ تے ہیں۔چناں چہ نبی کریمؐ بچوں کو سلام کی تلقین فرماتے تھے ۔ روایت میں آ تا ہے کہ نبی کریمؐ نے حضرت انسؓ سے فرمایا: ’’اے بیٹے ! جب اپنے گھر میں داخل ہو تو اہل خانہ کو سلام کرو ، یہ تمھارے اور اہل خانہ دونوں کے لیے باعث برکت ہو گا۔(ترمذی، حدیث ۲۷۰۷)

بچوں کی فطرت میں تھوڑی ضد اور ہٹ دھرمی ہوتی ہے اور وہ اس کا مظاہرہ اپنے بچپن میں زیادہ کرتے ہیں۔اس لیے اگر چہ اسلام میں بچوں پر شفقت و رحمت کے حوالے سے زیادہ زور دیا گیا ہے لیکن اس قسم کے بچوں کے لیے اور بنیادی اسلامی فرائض کی انجام دہی میں سستی کرنے والے بچوں کے لیے تربیت کا یہ اصول بتا یا گیا ہے:’’اپنی اولاد کو سات سال کی عمر میں نماز کا حکم دو ، اور دس سال کی عمر میں نماز نہ پڑھنے پر مارو اور ان کے بستر علیحدہ کر دو‘‘۔(ابوداؤد، حدیث ۴۹۵)

تعلیم و تربیت کی کثیر الجہت اہمیت اور مفہوم کی بنا پر اسلام کی تعلیمات اس باب میں بہت زیادہ اور مختلف پہلوؤں کی حامل ہیں۔بچوں کو اچھائی اور ادب کی تعلیم دینے کے سلسلے میں ارشاد نبویؐ ہے: ’’خود کو اور اپنے اہل خانہ کو اچھائی کی تعلیم دو اور انہیں ادب سکھاؤ‘‘۔(روح المعانی، ج۲۸،ص ۱۵۶)

بچوں کو قرآ ن کریم کی تعلیم دینے پر زور دیا گیا ہے اور دینی فرائض سیکھنے کا بھی حکم دیا گیا ہے: ’’فرائض اور قرآن کی تعلیم خود بھی حاصل کرو اور دوسرے لوگوں کو بھی سکھاؤ، کیوں کہ میں     (عن قریب)دنیا سے چلا جاؤں گا‘‘( ترمذی، حدیث ۲۰۹۸)۔ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: ’’قرآن کا علم حاصل کرو ، اس کو پڑھو اور اس کے ساتھ سوؤ (یعنی سونے سے پہلے تمھارا آخری کلام قرآن مجید ہونا چاہیے)‘‘۔ (الجامع الصغیر للسیوطی، حدیث ۳۳۲۷)

اسلامی تعلیمات کے برعکس مغرب کا المیہ یہ ہے کہ وہ آزادی اور خود مختاری کے ایک ایسے نظریے کے شکنجے میں آچکا ہے، جو اسے بے لگام آزادی کی طرف دھکیل رہا ہے، حالانکہ آزادی کا یہ مفہوم شاید اس فکر کو پروان چڑھانے والوں کے ذہنوں میں بھی موجود نہیں ہوگا۔ بچوں کے سلسلے میں اس نظریے کے ثمرات ایک ایسے بے ترتیب، غیر منظم، بے ادب اور بدلحاظ گر وہ کی شکل میں سامنے آئے ہیں جسے اپنی ذات کے علاوہ کسی چیز سے کوئی دل چسپی نہیں ہے۔ یہ گروہ انسانی معاشرے کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔ یہ تربیت کے فقدان کا نتیجہ ہے۔ اس بنا پر اسلام بچوں کی درست تعلیم وتربیت کی جانب متوجہ کرتا ہے۔

حضرت شاہ ولی اللہ اس امر کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’چونکہ بچوں کی زندگی میں استقلال نہیں ہوتا، اس لیے وہ اپنے والدین کی نگرانی میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے ماں باپ کے دلوں میں بے پناہ شفقت اور ہمدردی کا جذبہ پیدا کیا تاکہ وہ تربیت اولاد کا کام خوشی سے انجام دیں اور ہر طرح ان کے نگران حال رہیں۔ وہ ان کی تربیت ایسے طریقے پر کریں جس سے ان کی آیندہ زندگی سنور جائے اور وہ ضروریات زندگی پورا کرنے کے لیے جائز اور باعزت طریقے پر کمانا جان سکیں‘‘۔(حجۃ اللّٰہ البالغہ، ج۲، ص ۳۹۱)

بچے کی تعلیم و تربیت اس لیے بھی اہم ہے کہ وہ معاشرے کی اساس ہے۔ فرد سے خاندان اور خاندان سے معاشرہ وجود میں آتا ہے۔ اچھے افراد جو تربیت یافتہ اور زیور علم سے آراستہ ہوں گے وہ معاشرے کو جنت کا نمونہ بنائیں گے۔ وہ ایسا ماحول تشکیل دیں گے جس میں تمام افراد خوش حال زندگی بسر کرسکیں۔ غیر تربیت یافتہ افراد کے نتیجے میں غیر مہذب معاشرہ وجود میں آتا ہے جو مزید انتشار اور فساد کا باعث بنتا ہے۔ اس لیے اسلام نے بچے کی تعلیم و تربیت دونوں پر زور دیا ہے اور اسے آزاد اور بے مہار نہیں چھوڑا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تربیت کے حوالے سے یہ بنیادی اصول بیان فرمایا کہ بچہ فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے۔ اس کے بعد اس کے والدین اس کی تشکیل و تعمیر کرتے ہیں اور اسے جس رنگ میں چاہیں ڈھال دیتے ہیں(اسلام کا معاشرتی نظام، ص ۲۳۷)۔ حدیث کے الفاظ ہیں، آپؐ نے فرمایا: ’’ہر بچہ فطرتِ سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے، اس کے والدین اسے یہودی، مجوسی یا نصرانی بناتے ہیں‘‘۔ (بخاری، حدیث ۱۳۸۵، ابوداؤد، حدیث ۴۷۱۴)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کو جو حقوق عطا کیے ہیں، اور اپنی رحمت و شفقت پر مبنی جو احکامات ان کے لیے دیے ہیں یہ اس کا ایک خلاصہ ہے۔ جس کی روشنی میں ہمیں یہ باور کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیںآتی کہ انسانی معاشرے میں بچوں کو آج سے ڈیڑھ صدی قبل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو حقوق عطا فرمائے تھے آج بھرپورترقی کے دعوئوں کے باوجود جدید معاشرہ اس سے کہیں دور کھڑا ہے، اور جن پہلوئوں سے اس نے اصلاحات قبول بھی کی ہیں تو وہ بھی اسلام کے صدقے میں، اور یہ اسلام کی اصلاحات کا تسلسل ہے۔

اگر ان تعلیمات کو عمل کے لیے اپنالیا جائے تو اس سلسلے میں پائے جانے والی کوتاہیاں دُور ہوسکتی ہیں، اور ان کوتاہیوں کے نتیجے میں ہمارے معاشرے کو جو مسائل درپیش ہیں ان کو ہم حل  کرسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق ارزانی فرمائے۔ آمین! [نائب مدیر ششماہی السیرۃ عالمی، کراچی، ای میل:info@rahet.org ]

ہر طرف ہا ہا کار مچ گئی ہے___ صہیونی ریاست کے دشمن ہی نہیں، اس کے دوست بھی دہائیاں دینے لگے ہیں کہ صہیونی ریاست کو باقی رکھنا ناممکن ہوگیا ہے۔ سرزمین فلسطین سے اس کے اصل باشندوں کو دنیا بھر کی خا ک چھاننے پر مجبور کردینے، لاکھوں انسانوں کو تنگ و تاریک اور متعفن مہاجر کیمپوں میں محبوس کردینے اور لاکھوں کو غزہ و مغربی کنارے میں محصور کردینے کے بعد، وہاں قائم کی جانے والی نام نہاد ریاست کیا واقعی اپنے خاتمے کے سفر کا آغاز کرچکی ہے؟

یہ تو ابھی کل کی بات ہے کہ اپنے تئیں کچھ ’دُور اندیش‘ مسلمان حکمرانوں میں دوڑ لگی ہوئی تھی۔ ہر کوئی اس ناجائز ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے دلیلیں گھڑ رہا تھا۔ پاکستان میں امریکی جنگ کے پشتی بان جنرل پرویز مشرف بھی اپنے وزیر خارجہ کو اس اُمید سے خلافت عثمانیہ کے آخری مرکز بھیج رہے تھے کہ صہیونی استعمار کا دل جیت سکے۔ کئی پاکستانی جبہ پوش بھی بیت المقدس کی زیارت کے بہانے چوری چھپے جاکر وہاں عملاً اسرائیلی قبضہ تسلیم کرنے کا اعلان کررہے تھے۔ بہت سے  نام نہاد دانش ور اپنے دانش گریز ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے، اسرائیل سے دوستی کو امریکی اعتماد حاصل کرنے اور بھارت کے مقابلے میں زیادہ امریکی امداد حاصل کرنے کا آسان راستہ بتارہے تھے۔ صہیونی قلم کار اور پالیسی ساز دنیا بھر کو ان کی حیثیت کے طعنے دے رہے تھے۔

ان کا کہنا تھا ’’پاکستان سمیت سب مسلمان ممالک ہم سے اس لیے دوستی چاہتے ہیں کہ امریکا جانے کے لیے ہم ٹکٹ گھر کی حیثیت رکھتے ہیں‘‘۔ مصر اور اُردن جیسے پڑوسی ممالک اپنے عوام کے منہ سے نوالے چھین کر ناجائز صہیونی انتظامیہ کی ناز برداریاں کررہے تھے۔ ان دونوں ملکوں نے اس سے ایسے معاہدے کررکھے ہیں، جن سے خود ان کی اپنی کپڑے کی صنعت تباہ ہورہی ہے۔ مصر اب بھی اسرائیل کو اپنے عوام کی نسبت ۹۰ فی صد کم قیمت پر قدرتی گیس فراہم کررہا ہے۔ غزہ میں تو اور بھی ناقابلِ یقین صورت حال سامنے آتی ہے۔ تین اطراف سے سفاک صہیونی دشمن نے ایک مدت سے ۱۵لاکھ انسانوں کو محصور کر رکھا ہے۔ مسلمان، عرب اور پڑوسی ہونے کے باوجود مصر نے چوتھی طرف سے اس سے بھی کڑا محاصرہ کر رکھا ہے۔ تھوڑا بہت غذائی سامان یا ادویات لے جانے کے لیے کھودی جانے والی سرنگوں کو بند کرنے کے لیے ’غزہ مصر سرحد‘ کے درمیان ۹۰فٹ گہری زیر زمین فولادی دیوار کی تفصیل آپ انھی صفحات پر ملاحظہ کرچکے ہیں۔ غزہ پر مسلط کی جانے والی مہلک ترین صہیونی جنگ کے دوران میں اسے ملنے والی مصری پشت پناہی اور فلسطینی زخمیوں تک کو بھی مصر آنے نہ دینے کی داستانیں بھی دل دہلا دینے والی ہیں۔ لیکن یہ کیسا مسلمان، کیسا عرب اور کیسا ہمسایہ ملک ہے کہ ادھر اسرائیل، غزہ جانے والے قافلہء حریت پر ہلہ بول رہا تھا، اور دوسری طرف مصری انتظامیہ غزہ اور مصر کے مابین بچی کھچی سرنگوں میں زہریلی گیسیں چھوڑ کر امدادی سامان لے جانے والے کارکنان کو شہید کررہی تھی۔

غزہ میں طبی امداد مہیا کرنے کے منتظم ادھم ابو سلمہ کے بقول اب تک ۴۰ فلسطینی شہری مصر کی ان زہریلی گیسوں سے جاں بحق ہوچکے ہیں۔ ان کے بقول مجموعی طور پر ان سرنگوں میں اب تک ۲۴۵ افراد شہید ہوچکے ہیں۔ دیگر افراد کو ان سرنگوں پر گولہ باری کرکے یا بلڈوزروں سے سرنگیں ڈھا کر شہید کیا گیا ہے۔ سیکڑوں کی تعداد میں شہید ہوجانے کے باوجود، فلسطینی نوجوان آخر کیوں سرنگیں کھودنے اور ان میں کود جانے پر اصرار کر رہے ہیں؟ دنیا اس سوال کا جواب بخوبی جانتی ہے۔ لیکن اسرائیل کی ناز برداریوں میں مدہوش مصری حکومت کو ان سوالات کی کوئی پروا نہیں ہوگی، لیکن خود اسرائیل کے اندر سے اُٹھنے والی آواز بہت سے افراد اور حکومتوں کا نشہ ہرن کردینے کے لیے کافی ہونی چاہیے۔ آیئے، ایک نظر صرف گذشتہ دو روز کے اسرائیلی اخبارات پر ڈالتے ہیں۔

’نیتن یاہو کے کھیل‘ کے عنوان سے معروف یہودی تجزیہ نگار عکیفادار نے لکھا ہے:  ’’جس بچے نے بھی سائیکل چلانے کا تجربہ کیا ہے وہ جانتا ہے کہ اگر پیڈل چلانا بند کر دیا جائے تو سائیکل سوار بالآخر گر جاتا ہے۔ اگر اسرائیلی حکمران نے فلسطینیوں کے ساتھ دو متوازی ریاستوں کی تشکیل کے لیے مذاکرات بند کردیے تو وہ اپنے پوتوں کا نہیں اپنے بیٹوں کا مستقبل بھی تاریک کر دے گا‘‘۔ (ھآرٹز، ۲۱جون ۲۰۱۰ئ)

’ترکی فلم کے مطابق زندگی‘ کے عنوان سے روزنامہ یدیعوت احرونوت اپنے اداریے میں لکھتا ہے: ’’ہم جنگ کے عروج پر ہیں اور ہم یہ جنگ ہار رہے ہیں، اس لیے نہیں کہ ہم کمزور ہیں، احمق ہیں یا غیرمنصف ہیں، بلکہ اس لیے کہ ہم عقلی اور تنظیمی اعتبار سے خود کو کھیل کے نئے ضابطوں کے مطابق نہیں ڈھال سکے… جن کتابوں میں اسرائیل کے خاتمے کی بات لکھی جاتی ہے ان میں تین اہم پہلو بیان کیے جاتے ہیں: ۱- اقتصادی جنگ جس میں اسرائیلی سامان کا بائیکاٹ، سیاحت کی ناکامی، اسرائیل کے دفاع اور امن و امان پر بیش بہا اخراجات شامل ہیں۔ ۲-سیاسی اور نفسیاتی جنگ، جس میں اسرائیل سے اس کا حق وجود چھین لیا جائے۔ حالیہ بحری قافلے اسی کا حصہ تھے، اور ۳-عسکری لحاظ سے اسرائیل کو کمزور و دیمک زدہ کرنا۔ ہمارے دشمن پہلے دونوں پہلوئوں پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا مقابلہ کرنے والے بھی انھی دو میدانوں سے ہونے چاہییں نہ کہ فوج اور اس کے ترجمان… ترکوں نے ہمارے لیے فلم کا منظرنامہ تیار کرکے پیش کیا ہے اور ہم نے ترک پروڈیوسر کی مرضی کے مطابق اس فلم میں اپنا کردار ادا کرڈالا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آج پوری دنیا آنسو بہاتے ہوئے ہم سے اظہارِ نفرت کر رہی ہے‘‘۔ (یدیعوت، ۲۰جون ۲۰۱۰ئ)

روزنامہ ھآرٹز میں ’ایہود! صبح بخیر‘ کے عنوان سے بوئیل مارکوس لکھتا ہے: ’’اب ہم اس آخری حد کے انتہائی قریب آپہنچے ہیں، جہاں ہم پر کوئی اور فارمولا ٹھونسا جائے گا۔ لڑھکنیوں کے اس سفر سے نکلنے کا اب صرف ایک ہی راستہ بچا ہے کہ (اپوزیشن) کادیما پارٹی کو بھی ساتھ ملائیں، دو الگ الگ ریاستوں (اسرائیل اور فلسطین) پر مشتمل حل پر عمل کریں اور سارے کوڑھ اور    برص زدہ لوگوں کو اپنی پشت سے اُتار پھینکیں‘‘۔ (۲۰ جون ۲۰۱۰ئ)

’مزید بحری قافلے‘ کے عنوان سے سمڈار بیری لکھتا ہے: ’’گذشتہ مرحلے میں بلاشبہہ حماس کامیاب رہی ہے، ساری دنیا ہمیں مطعون کررہی ہے۔ سفینے کے بارے میں ہماری جاری کردہ وڈیو فلموں کو کسی نے قابلِ توجہ نہیں سمجھا، آخر اب ہماری بات کون سنے گا… آج صورت یہ ہے کہ خود روشن خیال دنیا بھی حماس سے مذاکرات کرنے پر اصرار کررہی ہے۔ مصر ہمارا حلیف ہے،وہ خود غزہ کے گرد مضبوط دیوار تعمیر کر رہا ہے، لیکن اب وہ بھی اسرائیل سے حصار ختم کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے… دنیا میں کوئی طاقت ایسی نہیں ہے، جو تین سمندری بارودی سرنگوں (نئے آنے والے تین نئے بحری قافلوں) کے مقابلے میں کامیاب ہوجائے۔ اگر کسی کو پاگل پن کا دورہ پڑا ہوا ہے، تو اسے اپنے ان بھیانک خوابوں کے ساتھ ساتھ خطے میں ایک وسیع تر جنگ بھڑک اُٹھنے کے امکانات پر بھی غور کرلینا چاہیے‘‘۔(یدیعوت احرونوت، ۲۰ جون ۲۰۱۰ئ)

’اسرائیلی نیشنلسٹ کیا چاہتا ہے‘ کے عنوان سے جدعون لیوی ۲۱ جون کے روزنامہ میں لکھتا ہے: ’’اسرائیل یہ چاہتا ہے کہ دنیا ہم سے غیرمشروط اور غیرمحدود محبت کرے، ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ وہ پوری دنیا کا مذاق اڑائے، عالمی اداروں، اس کے قوانین اور اس کے نظریات کے منہ پر حقارت سے تھوک دے۔ وہ ترکی سے فعال سیاحت کا معاہدہ چاہتا ہے، لیکن ترکی کی کسی بات پر کان بھی نہیں دھرنا چاہتا۔ وہ چاہتا ہے کہ غزہ پر سفید فاسفورس کے بم برسا کر دنیا سے کہے کہ  یہ تو خوش گوار سفید بارش ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ دنیا بھی اس کے ساتھ یہی گنگنانا شروع کردے‘‘۔

’قافلۂ حریت جیت گیا‘ کے عنوان سے الوف بُن نے لکھا ہے: ’’ترک وزیراعظم   رجب طیب اردگان اب اپنی کامیابی کا بڑا سا نشان بلند کرسکتا ہے۔ غزہ جانے والا ترکی کا قافلہ غزہ تو نہیں پہنچ سکا، لیکن اس نے اپنا ہدف حاصل کرلیا ہے۔اس نے حماسستان کے گرد کھڑی کی گئی اسرائیلی حصار کی دیواریں منہدم کردی ہیں… اب اسرائیل میں مزید قافلوں کا انتظار ہے۔ ان کا خیال ہے کہ حصار میں کچھ کمی کرکے، اسرائیل اپنے حق میں سفارتی کوششوں کا جواز حاصل کرے گا، لیکن اگر یہ خوش فہمی برمحل بھی ہو، تب بھی حکومت نے بہت کچھ کھو دیا ہے۔ نیتن یاہو نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ بہت بڑی سیاسی قیمت ادا کیے اور بہت بڑا دبائو آجانے کے بغیر وہ کوئی فیصلہ نہیں کرپاتا‘‘۔ (ھآرٹز، ۲۱جون ۲۰۱۰ئ)

’انھیں تحقیقاتی کمیٹی دے دو‘ کے عنوان سے ٹسیفی بارئیل نے تحریر کیا ہے: ’’جب غزہ پر حصار عائد کیا گیا اس وقت یہ لوگ کہاں تھے۔ اقوام متحدہ کے شان دار حقوق انسانی کے چارٹر پر دستخط کرنے والے یہ سب اُس وقت کہاں تھے، جب یہ حصار لوگوں کا دم گھونٹنے میں کامیاب ہوگیا؟ اسرائیلی بے وقوفیوں کا جائزہ لینے کے لیے بین الاقوامی تحقیقاتی کمیٹی کا قیام زائد از ضرورت شغل ہے۔ یہ کام بھی کسی بین الاقوامی تحقیقاتی کمیٹی کا نہیں کہ وہ ترک باشندوں کے قتلِ عام کی تحقیق کرے، یہ کام ترکی اور اسرائیل مل کر کرسکتے ہیں۔ بین الاقوامی کمیٹی کو تو یہ دیکھنا چاہیے کہ اسرائیل یہ تباہ کن پالیسی نافذ کرنے کے لیے پوری دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کیسے کامیاب ہوگیا؟ یہ لوگ ۱۵لاکھ انسانوں کا گلا گھونٹنے کے لیے کیسے چل نکلے؟ (ھآرٹز، ۲۰جون ۲۰۱۰ئ)

یہ اور اس طرح کے لاتعداد کالم، مقالے اور اداریے دنیا بھر کی اخبارات میں شائع ہورہے ہیں، لیکن یہاں صرف اسرائیلی اخبارات سے چند اقتباسات دیے گئے ہیں، تاکہ اندازہ ہوسکے کہ خود اسرائیل کے اندر ماحول کیا اور کیسا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ یہ اخبارات بھی سانحہ گزر جانے کے تین ہفتے بعد کے ہیں۔ اس وقت دنیا میں خود یہودیوں کی ایک بڑی تعداد، اسرائیلی ریاست سے نجات حاصل کر کے اپنے یہودی بھائیوں کو بچانے کے لیے میدان میں آچکی ہے۔ ان یہودی علما، یہودی دانش وروں اور سیاسی رہنمائوں کے بقول اسرائیلی ریاست کا وجود بالآخر پوری یہودی آبادی کے خاتمے کا باعث بنے گا۔ ان کے بقول ان کی مذہبی کتب میں بھی واضح طور پر لکھا ہے کہ یہودیوں کی حتمی تباہی سے پہلے دنیا بھر کے یہودیوں کو ایک جگہ جمع کر دیا جائے گا، اسرائیل اس انتباہ کی عملی تصویر ہے۔

دوسرے درجے میں اسرائیل کی مخالفت وہ یہودی کر رہے ہیں، جو سمجھتے ہیں کہ اسرائیلی ریاست کی پالیسیاں صرف اس کے ہی نہیں، دنیا میں تمام یہودیوں کے خلاف نفرت کے جذبات میں اضافہ کرتی ہیں۔ یورپ میں ’جے کال‘ (J Call)نامی نوتشکیل یہودی تنظیم نے ’عقل کی پکار‘ کے عنوان سے اپنا بیان جاری کیا ہے۔ بیان میں یورپی یونین کے سیاست دانوں، ارکانِ پارلیمنٹ اور حقوقِ انسانی کی تنظیموں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اسرائیل پر اپنے دبائو میں اضافہ کرتے ہوئے اسے اپنی موجودہ پالیسیاں تبدیل کرنے پر مجبور کریں۔ دو معروف فرانسیسی دانش ور برنارڈ ہزی لیوی اور ایلن فنکل کرائوٹ اس نئی تنظیم کے روحِ رواں ہیں، اور معروف سیاست دان ڈینیل کون بنڈیٹ اور جرمنی میں سابق اسرائیلی سفیر آفی پریمور ان کے شانہ بشانہ ہیں۔

کئی بار اسرائیلی پارلیمنٹ کا اسپیکر رہنے والا اور ایک بڑے یہودی رِبی کا بیٹا ابرہام پورگ اپنی کتاب ہٹلر کے خلاف کامیابی میں لکھتا ہے: ’’صہیونی خواب کا خاتمہ ہمارے دروازوں کی دہلیز سے آن لگا ہے۔ اب خدشہ حقیقت میں ڈھل رہا ہے کہ ہماری نسل آخری صہیونی نسل ہوگی‘‘۔ پورگ کے بقول: ’’اسرائیل کے موجودہ حالات جرمنی میں ہٹلر کی آمد کے وقت کے حالات سے مشابہ ہوچکے ہیں، امپریلزم اور فتنہ و فساد کا اتحاد ریاست پر مسلط ہے‘‘۔

یہاں پر امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کی وہ رپورٹ بھی ذہن میں رکھنا ہوگی، جس میں خدشہ و امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ ۲۰۲۰ء کے بعد دنیا میں اسرائیل نام کی کوئی ریاست نہ رہے گی۔ یہ بات شہید شیخ احمد یاسین کی روح نہیں، خود سی آئی اے کہہ رہی ہے۔ شیخ شہید تو آج سے کئی برس پہلے فرما چکے کہ اکیسویں صدی کی پہلی چوتھائی میں صہیونی ریاست کی تجہیزو تکفین مکمل ہوجائے گی۔

اس طرح کے درجنوں یا سیکڑوں نہیں ہزاروں تجزیے اور تحریریں دنیا کو ایک نئے دور اور نئے عالمی نقشے کی خبر دے رہی ہیں۔ فی الحال موجودہ دور یقینا امریکی تسلط اور اس کی سرپرستی میں اسرائیلی جبروت کا دور دکھائی دیتا ہے۔ اسرائیل نے اسی غرور کا شکارہوکر ۴۰ کے قریب ممالک اور ان کے سیکڑوں اہم افراد کو کیڑے مکوڑوں سے زیادہ اہمیت نہ دی۔ بین الاقوامی پانیوں میں کھڑے بحری جہاز پر حملہ کرتے ہوئے اس کی متکبر سیاسی و عسکری قیادت کو کوئی تردّد یا خدشہ لاحق نہ ہوا۔ ۱۰ترک باشندوں کو اس طور شہید کیا گیا کہ ان میں سے اکثریت کے ہاتھ پشت پر بندھے ہوئے تھے اور ان کے سر کے پچھلے حصے میں، قریب سے گولیاں چلائی گئی تھیں۔ جرم کیا تھا؟ صرف یہ کہ یہ ہماری عائد کردہ پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوتے موت کے کنارے کھڑے ۱۵ لاکھ فلسطینیوں تک دوا اور غذا پہنچانا چاہتے ہیں۔ اسرائیل اس زعم کا شکار تھا کہ ساری دنیا خوف زدہ بھیڑوں کی طرح اس کے سامنے ممیانے لگے گی اور آیندہ اس بھیڑیے کی سلطنت میں قدم نہ رکھنے کی قسمیں کھانے لگے گی، لیکن یہاں تو منظر ہی دوسرا ہے۔

ترکی میں ایک احتجاجی مظاہرے کا حال لکھتے ہوئے ایک عرب صحافی نے بیان کیا ہے: مجھے کسی سے اسرائیلی سفارت خانے کا پتا معلوم کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ سارے پُرجوش قافلے ادھر ہی جارہے تھے۔ گائون، اسکارف، ہلکی داڑھیوں اور صوفیوں جیسے ڈھیلے ڈھالے لباسوں میں ملبوس لوگ تو تھے ہی، میرے سامنے جو نوجوان نعرے لگوا رہا تھا، اس نے گھٹنوں سے پھٹی ہوئی جینز پتلون، پیٹ تک کھلے بٹنوں والی شرٹ اور کانوں میں بالیاں پہنی ہوئی تھیں۔ اس نے اپنے بالوں پر سپرے کر کے کسی نوک دار جھاڑی کی طرح انھیں سر پر کھڑا کیا ہوا تھا اور گلے میں بڑے سے لاکٹ پر دوست کا نام لکھا ہوا تھا۔ پورا مجمع اسی کی جانب متوجہ تھا، کیونکہ اس حلیے کے ساتھ وہ پوری قوت سے نعرے لگوا رہا تھا…’’ تکبیر اور پورا مجمع جواب دے رہا تھا: اللہ اکبر۔ اسلام و سیکولرزم، صوفی و مجاہد سب یک آواز تھے: اسرائیل مُردہ باد!‘‘

ترک حکومت نے اس پورے مسئلے کو جس طرح اپنی آیندہ پالیسیوں کا آئینہ دار بنایا ہے، اس نے عالمی سیاست کو ایک نیا رُخ دے دیا ہے۔ ترک وزیرخارجہ کے الفاظ میں یہ واقعہ ترکی کے لیے نائن الیون کی حیثیت رکھتا ہے۔ ترک صدر اور وزیراعظم پورے عالمِ اسلام کے ہیرو اور اُمیدوں کا مرکز بن گئے ہیں۔ اس وقت دنیا بھر سے کئی نئے قافلے غزہ جانے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ تین قافلے تو لبنان ہی سے جا رہے ہیں۔ جولیا، کنواری مریم اور ناجی العلی کے ناموں سے موسوم ان قافلوں میں سے ایک صرف خواتین کے لیے مخصوص ہے۔ حضرت مریم سے منسوب سفینہ تمام مذاہب کے نمایندوں پر مشتمل ہے اور معروف فلسطینی کارٹونسٹ ناجی العلی شہید کے نام سے تیسرے سفینے میں دیگر افراد کے ساتھ مختلف فن کار بھی شامل ہیں۔ علامہ یوسف قرضاوی کی طرف سے علما کا ایک قافلہ لے جانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ایک قافلہ ۱۵ سے ۱۸ سال کے بچوں کا تیار ہورہا ہے۔ اسلامی ارکانِ پارلیمنٹ کا عالمی اتحاد ایک قافلہ تیار کر رہا ہے، جس میں پاکستان     سے جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ کی سربراہی میں بھی وفد شریک ہو رہا ہے۔  تین قافلے یورپی ممالک سے آرہے ہیں۔ ایران اور الجزائر سے قافلے تیاریاں کر رہے ہیں۔ رمضان المبارک کے دوران ’غزہ میں افطار‘ کے عنوان سے کئی نام… غرض ایک طویل فہرست ہے۔ سب کو گذشتہ قافلے میں جان قربان کردینے والوں کا حال معلوم ہے، لیکن جوش و جذبہ مزید توانا و جوان ہوگیا ہے۔

جوان ہی نہیں بوڑھے، مرد ہی نہیں خواتین، مسلمان ہی نہیں مسیحی و یہودی، سب اسرائیل کے مظالم پر سراپا احتجاج ہیں۔ گذشتہ ۵۰ سال سے امریکی وائٹ ہائوس میں صحافتی ذمہ داریاں   ادا کرنے والی ۸۰سالہ باوقار خاتون ہیلن تھامس جس نے جان ایف کینیڈی سمیت ۱۰سابق امریکی صدور کے ساتھ صحافتی فرائض انجام دیے ہیں، اور وائٹ ہائوس ہی کے نہیں دنیا کے صحافیوں کے لیے ایک مثالی کردار رکھتی ہیں، سے رابی لایف نامی یہودی ویب سائٹ کے نمایندے نے آہستگی سے پوچھا: قافلۂ حریت…؟ ہیلن کے جواب نے سب کو ششدر کر دیا: ’’ان سے کہو فلسطین سے نکل جائیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ان لوگوں نے فلسطین پر قبضہ جما رکھا ہے۔  فلسطین ان کا گھر نہیں ہے۔ انھیںبولونیا،امریکا، جرمنی اور دوسرے ملکوں میں اپنے گھروں کو لوٹ جانا چاہیے‘‘۔وائٹ ہائوس پر غالب یہودی لابی ہیلن کو اس کی ۵۰سالہ خدمات خاطر میں نہ   لاتے ہوئے وہاں سے نکلوانے میں کامیاب ہوگئی ہے، لیکن اس شائستہ و معمر ۸۰ سالہ خاتون کے وقار و مقام میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ اہلِ غزہ کو ایک نہیں کروڑوں توانا آوازیں نصیب ہوگئی ہیں۔

۳۵کلومیٹر لمبی اور سات سے ۱۴ کلومیٹر چوڑی غزہ کی پٹی میںگھرے ۱۵ لاکھ عوام کی آزمایشیں ختم ہونے کا وقت یقینا قریب آن لگا ہے۔ غیور ترک بھائیوں کے خون سے سرخ ان کا قومی پرچم اعلان کر رہا ہے: ’’دنیا والو! لوہا مکمل طور پر گرم ہے اور آخری ضرب کا منتظر۔ یقین رکھو ایک قدم اٹھائو گے ربِ کائنات دس قدم تمھاری طرف آئے گا۔ تم چلنا شروع کرو گے اس کی رحمت و نصرت دوڑ کر تمھیں اپنے سایے میں ڈھانپ لے گی‘‘  ع

منزل کے لیے دوگام چلوں اور سامنے منزل آجائے

گذشتہ دو عشروںسے پاکستان سمیت عالم اسلام پرالیکٹرانک میڈیاکی یلغارہے۔ نجی سطح پر ٹی وی چینلوں کے سیلاب کے ذریعے معاشرتی واخلاقی اقدارکوبدل کررکھ دیا ہے۔ اگرچہ اخبارات ورسائل میں بھی روزافزوںترقی کاعمل جاری رہالیکن نجی ٹی وی چینلوں نے اسلامی ثقافت پرگہری ضرب لگانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

مغرب کا ہدف کیا ہے؟اس کا اندازہ ایک فرانسیسی رسالے لے موندڈپلومیٹ میں شائع شدہ مضمون سے ہوسکتا ہے جس میںیہ واضح طورپرلکھاگیا ہے کہ ’’اسلام کے خلاف جنگ صرف فوجی میدان میںنہیںہوگی بلکہ ثقافتی اورتہذیبی میدان میںبھی معرکہ آرائی ہوگی‘‘۔ امریکی فلمی مرکز ہالی ووڈ اسلام مخالف سازشوںکا مرکز گردانا جاتاہے۔ ایک صدی سے زائد مدت سے یہاں فلموں کے ذریعے اسلام اور مسلمانوںکے خلاف نفرت و کدورت، بغض وکینہ پوری دنیامیںپھیلایا جارہا  ہے۔ بیسویں صدی کی آخری دودہائیوں میںہالی ووڈنے مسلم دشمنی پرمبنی فلمیں ’ڈیلٹافورس‘ ، ’انتقام‘، ’آسمان کی چوری‘ بنائیں، جب کہ ورلڈٹریڈ سنٹرکا تجرباتی ڈراما اسٹیج کرنے کے لیے ۱۹۹۲ء میں’حقیقی جھوٹ‘ اور ’حصار‘ وغیرہ نامی فلمیں تیار کی گئیں۔ ان فلموںمیںاسلام اور مسلمانوں کا تشخص بری طرح مجروح کیاگیاہے۔ مسلمانوںکو  امن دشمن اوردہشت گردبناکرپیش کیا گیاہے۔ نائن الیون کے بعدامریکا اور مغربی ممالک نے اسلحہ ٹکنالوجی کے ساتھ ساتھ جدیدمیڈیاٹکنالوجی کاسہارالے کر اسلام اور مسلمانوںکے خلاف پروپیگنڈا مہم شروع کر رکھی ہے۔ امریکا عالم اسلام کے وسائل، معدنیات اورتیل پرقبضے کاخواہاںہے۔ افغانستان اورعراق پرقبضہ اور نائن الیون کا خودساختہ ڈراما اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ عالم اسلام پرامریکی جارحیت اور مغربی میڈیاکا بے بنیاد اورمن گھڑت پروپیگنڈا چہاراطراف سے امتِ مسلمہ کے گردگھیراتنگ کرنے کے لیے کیاجارہاہے۔

مغرب نے دنیابھرکی معیشت اورمیڈیا پراپناقبضہ جمارکھاہے۔مصرسمیت کئی مسلم ممالک کے ٹی وی چینلز اور اخبارات مغرب کے زیراثرہیں۔ اسلام کے خلاف پروپیگنڈا مہم مغربی میڈیا کا مستقل موضوع ہے۔ کبھی مغربی ممالک کے اخبارات میں توہین آمیز خاکے شائع کیے جاتے ہیں اور کبھی ہالینڈمیںقرآن اور اسلامی شعائرکے خلاف فلمیں بنائی جاتی ہیں۔ مغربی میڈیا وقتاً فوقتاً مسلمانوںکو’دہشت گرد‘، ’جہادی‘ اور’بنیادپرست‘ ثابت کرنے کے لیے اپنی مہم چلائے رکھتاہے۔

مسلم حکومتوںاوراداروںکا فرض ہے کہ وہ مغربی میڈیاکی یلغارکامقابلہ کرنے کے لیے جامع پالیسی تشکیل دیں۔ عالم اسلام کے حکمرانوںکی بے حسی کایہ عالم ہے کہ اس اہم مسئلے سے پہلوتہی برتی جا رہی ہے۔ آج میڈیاکے محاذ پرسرجوڑکربیٹھنے کی ضرورت ہے۔ مسلم تنظیموں اور اسلامی تحریکوںکو میڈیاکے میدان میںسرگرم عمل ہوناچاہیے اور اپنے اپنے دائرے میں ایسے افراد تیارکرنے چاہییں جو میڈیاٹکنالوجی کوسمجھ سکیںاورتعمیری جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔

وقت کا تقاضا ہے کہ مسلم ممالک اپنی روایات، ثقافت اورنظریاتی اساس کے پیش نظر اپنی میڈیا پالیسی ترتیب دیں۔ حالات حاضرہ کے پروگرام ’ٹاک شو‘قومی ونظریاتی تقاضوںسے ہم آہنگ ہونے چاہییں۔ پرنٹ والیکٹرانک میڈیاکومغرب کی اندھی تقلیداورنقالی نہیںکرنی چاہیے۔ ٹی وی ڈراموں میںاسلامی تاریخ وثقافت کوپروان چڑھانا چاہیے۔ اگر احساس زندہ ہو تو آج بھی مثبت اور تعمیری تفریح کومسلم ممالک میںفروغ دیاجاسکتاہے۔ تعمیری، اصلاحی، تاریخی اورمعلوماتی پروگرام تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ فلم کے میدان میںایران نے خاصی ترقی کی ہے اور عالمی ایوارڈ بھی حاصل کیے ہیں۔ ایسی فلمیںجو اصلاح وتطہیرکافریضہ سرانجام دیں اورجن کے ذریعے اسلامی معاشرے میںتعلیم وتربیت کاعمل بڑھ سکے ان کو مسلم ممالک میں رواج دینے کی ضرورت ہے۔

مغرب کی یہ حکمت عملی رہی ہے کہ وہ امتِ مسلمہ کے جذبات کوجانچنے کے لیے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میںایشوزاٹھاتارہتاہے۔ اسلامی شعائرکی توہین کی جاتی ہے، تو مسلم دنیا میں احتجاجی مظاہروںکے ذریعے ہی ردِعمل سامنے آتاہے، لیکن میڈیا کے ذریعے اس کا جواب نہیں دیا جاتا۔ مسلم دنیاکوالیکٹرانک میڈیااورانٹرنیٹ پراسلامی تشخص کوعام کرنے اورمغربی پروپیگنڈے کا مؤثر جواب دینے کے لیے اپنے دائرہ کاراورکاوشوںکو مؤثراورمنظم اندازمیں بڑھانے کی ضرورت ہے۔

مسلم ممالک اورمغرب میںموجودمسلم تنظیمیں بڑے محدوددائرے میںمیڈیاکاکام کررہی ہیں۔ مغرب نے جس سطح پر میڈیاسے کام لیا ہے، وہ مغربی ایجنڈا دنیا پرمسلط کرنے کے لیے خاصا کارگرثابت ہواہے۔مسلم تنظیموں، اداروں اور تحریکوںکے لیے بے حد ضروری ہے کہ میڈیا کے لیے مناسب بجٹ مختص کریں۔ الیکٹرانک میڈیا بالخصوص ٹی وی چینلوں کوہدف بناکر کام کیا جائے۔ ’پروڈکشن ہاؤس‘کے ذریعے اینکرپرسنز اور پروڈیوسرزکی تربیت کابندوبست کیا جائے۔ آیندہ ۱۰سال کا منظرنامہ سامنے رکھا جائے تو مسلم دنیا میں الیکٹرانک میڈیامیںایسے افراد بڑی تعداد میںدستیاب ہوسکیںگے جوقومی ودینی سوچ اور نظریاتی شناخت کے حامل ہوںگے۔

مسلم ممالک میںتنظیموںاوراداروںکو’میڈیاتھنک ٹینک‘ کاقیام عمل میںلاناچاہیے، ایسے ’میڈیاتھنک ٹینک‘ جو مغرب سے مکالمہ کرسکیں۔ امریکا اوریورپ کے ’میڈیاتھنک ٹینک‘ اسلام مخالف پروپیگنڈے میںپیش پیش ہیں۔ میڈیاتھنک ٹینک کے ذریعے مغربی پروپیگنڈے کا توڑ کیا جاسکتاہے اورحالات وواقعات کی اصل تصویردنیاکے سامنے پیش کی جاسکتی ہے۔

مسلم دنیاکے ذرائع ابلاغ کے منتظمین اپنی سطح پرمحدود دائرے میںکام کررہے ہیں۔ مکمل ادراک (وژن) نہ ہونے اور مؤثرحکمتِ عملی سے تہی دامن ہونے کی وجہ سے اس کے اثرات صحیح طور پر مرتب نہیںہو رہے۔ مسلم ممالک کی تنظیموں، اداروںاورتحریکوںکے میڈیاسے متعلق افراد کے نیٹ ورک کومنظم اورمربوط کرنے کی اشدضرورت ہے جس کے لیے انٹرنیشنل میڈیاکانفرنس کا انعقاد کیا جائے۔ اگرعالم اسلام کی ’میڈیاکانفرنس‘ کا انعقاد ایک تسلسل سے ہو تو نہ صرف میڈیا کے میدان میں پیش رفت کا جائزہ لیا جاسکتا ہے بلکہ درپیش چیلنجوں کے لیے مؤثر حکمت عملی بھی تشکیل دی جاسکے گی۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیامیںالیکٹرانک میڈیااورانٹرنیٹ کی ٹکنالوجی پھیلنے سے مطالعے کا رجحان کم ہو گیاہے۔ اب لوگ ٹی وی چینلوں اورانٹرنیٹ کے ذریعے معلومات اورتفریح حاصل کرتے ہیں۔ پاکستان سمیت مسلم دنیاکے لیے ناگزیر ہے کہ جدید ٹکنالوجی کے ذریعے دنیابھر میںاسلام کے حقیقی پیغام کوعام کریں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے جدید خطوط پر پروگراموں کی تیاری کے لیے ’پروڈکشن ہاؤس‘ بنانے چاہییں۔ اس کی ایک کامیاب مثال Peace TVکی ہے، جہاں سے نشر ہونے والے پروگرامات پاکستان سمیت دنیا بھر میں بڑے پیمانے پرپھیل چکے ہیں۔ مختلف ممالک میںایسے ٹی وی چینلوں کوقائم کرنے کی طرف توجہ دینے کی بھی ضرورت ہے جومعاشرے کی تعلیم وتربیت اورشعوروآگہی کوپروان چڑھاسکیں۔

اسلامی دنیامیںمیڈیاسے وابسطہ افرادکی فنی تربیت اور میڈیا کو عصرحاضر کے تقاضوںسے ہم آہنگ کرنے کے لیے ایسے معیاری ’میڈیاانسٹی ٹیوٹ‘قائم کرنے بھی ضرورت ہے جو ایسے افرادتیارکرسکیںجواسلامی تہذیب وثقافت کو پروان چڑھانے میںاپناکرداراداکرسکیں۔

امریکا اوریورپ میںالیکٹرانک میڈیاکے میدان میںجدید ٹکنالوجی کااستعمال بڑھتا جارہاہے۔ اب توامریکا اوریورپ میںشہروںکی سطح پرحکومت اوراین جی اوزکی سرپرستی میںپبلک براڈکاسٹنگ سنٹربنائے جا رہے ہیں۔ ان ٹریننگ سنٹروں میں میڈیاسے دل چسپی رکھنے والے افراد کو اینکرپرسنز، پروڈیوسرز، سکرپٹ رائٹرزاورکیمرہ و ایڈیٹنگ کی تربیت دی جاتی ہے۔ اس تناظر میں پاکستان سمیت مسلم ممالک میںبھی ایسے پبلک براڈکاسٹنگ سنٹرزکاقیام ضروری ہے۔ ان  نشری تربیتی مراکز سے بہترین اینکر پرسنز، پروڈیوسراوردیگر باصلاحیت افرادتیارکیے جاسکتے ہیں جو مسلم دنیامیںگہرے شعور و ادراک کے فروغ کے لیے کام کرسکیں۔

مغربی میڈیاکی جدیدٹکنالوجی کے جواب میںاگرچہ عالم اسلام میں بھرپور پیش رفت نہیں ہوسکی، تاہم سعودی عرب، کویت، قطر اور ترکی نے میڈیاکے میدان میں پیش رفت کی ہے۔ انٹرنیٹ اورٹی وی چینلوں کے ذریعے اسلام کی دعوت احسن اندازمیںپیش کی جارہی ہے۔ تاہم مسلم ممالک میںجدید میڈیاٹکنالوجی سے ابھی تک خاطرخواہ استفادہ نہیںکیاجا سکا۔ الیکٹرانک میڈیاکے میدان میں پیش رفت کے لیے مؤثراورجامع حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔ اسلامی تحریکیں، میڈیا ادارے    اور مسلم تنظیمیںہرسطح پراس کے لیے بھرپورکرداراداکرسکتے ہیں۔ مسلم دنیا اگر مجوزہ سفارشات اور خطوط پرمنظم اور احسن انداز میںاقدامات اُٹھائے تو اُمت مسلمہ میڈیا کے محاذ پر درپیش چیلنج کا بھرپور اور مؤثر جواب دے سکے گی۔

محمد اسد اُمت مسلمہ کی ایک جانی پہچانی شخصیت تھی جس نے علمی اور فکری میدان میں گراں قدر خدمات انجام دیں اور پاکستان کے قیام اور تعمیر میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اس جرمن نومسلم نے جب اسلام کے دائرے میں قدم رکھا تو پھر اس کی زندگی کا مقصد اسلام اور اُمت مسلمہ کی خدمت ہوگیا۔ قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں شریک تھا اور تقسیم ملک کے بعد اس نے بھی دوسرے لٹے پٹے مہاجرین کی طرح  اپنے خوابوں کی سرزمین کی طرف مراجعت کی۔ پاکستان ایک حقیقی اسلامی ریاست بنے، اس کے دل کی آرزو تھی۔ اس نے اس وقت کی حکومت پنجاب کے ایک اعلیٰ افسر کی حیثیت سے پاکستان کی نظریاتی تعمیر کے لیے ایک روشن کردار ادا کیا، اور پھر سفارت کے محاذ پر پاکستان کی ترجمانی کرتا رہا۔ افسوس کہ بعد کی پاکستانی قیادت نے اسے مایوس کیا۔

محمداسد کی خودنوشت داستان شاہراہِ مکّہ فکرودانش اور علم و ادب کا ایک شاہکار ہے۔ بدقسمتی سے اس کی دوسری جِلد نامکمل رہی اور ان کے نوٹس کی مدد سے موصوف کی بیوہ نے مرتب کی ہے، جو انگریزی سے بھی پہلے اُردو میں جناب محمد اکرام چغتائی کی محنت سے بندہ صحرائی کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ اس کا ایک حصہ ہم قارئین ترجمان القرآن کی نذر کر رہے ہیں۔ اس سے ایک طرف ان جذبات اور مقاصد کا صحیح صحیح ادراک کیا جاسکتا ہے جو قیامِ پاکستان کا اصل محرک تھے تو دوسری طرف قیادت کی نااہلی اور دشمنوں کی عیاری کی ایک کرب ناک داستان بھی سامنے آتی ہے۔ تیسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ جموں و کشمیر کے مسلمانوں نے بھارت کی غلامی کو کبھی بھی قبول نہیں کیا اور آج بھی وہ اس کے تسلط سے نجات پانے کے لیے جان کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ کس طرح ۴۹-۱۹۴۸ء میں ہماری سیاسی قیادت نے دھوکا کھایا اور جیتی ہوئی بازی ہار گئی اور کس طرح آج کے حکمران طبقے پھر انھی دشمن قوتوں کے چکمے میں آنے کے لیے بے تاب ہیں۔. خورشیداحمد

اکتوبر ۱۹۴۷ء کی صبح کو نواب افتخار حسین ممدوٹ نے مجھے اپنے دفتر بلایا۔ اس وقت ان کی عمر ۴۵سال کے لگ بھگ تھی۔ درازقد، صحت مند، خاموش طبع اور صاف ستھرے ذہن کے مالک اور تقسیمِ ہند سے قبل وہ ایک چھوٹی سی ریاست یا بالفاظ دیگر جاگیر کے کرتا دھرتا تھے۔ یہ جاگیر سترھویں صدی عیسوی [ان کے آبا کو] میں ایک مغل حکمران نے دی تھی۔ نواب صاحب تحریکِ پاکستان کے اکابرین میں شامل رہے اور اپنی ذاتی دولت کا بڑا حصہ اس تحریک کی نذر کر دیا۔ یہ جاگیر  مشرقی پنجاب میں واقع تھی، چنانچہ تقسیم کے وقت اسے ہندستان ہی میں چھوڑ آئے اور لاہور آکر یہاں ایک متوسط درجے کے گھر میں سکونت پذیر ہوگئے۔ ان کی وفاداری اور راست بازی کے  پیش نظر محمدعلی جناح نے پاکستان کے قائم ہوتے ہی انھیں مغربی پنجاب کا پہلا وزیراعلیٰ مقرر کر دیا۔ اس بنا پر انھیں قائداعظم کے قریب ترین رفقا میں شمار کیا جانے لگا۔

جونہی میں ان کے دفتر میں داخل ہوا، ممدوٹ صاحب رسمی تکلفات کی پروا کیے بغیر کہنے لگے: ’’اسد صاحب! میرے خیال میں اب ہمیں نظریاتی مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدام اُٹھانے چاہییں۔ آپ نے ان کے بارے میں تقریراً اور تحریراً بہت کچھ کیا۔ اب آپ کیا تجویز کرتے ہیں؟ کیا ہمیں وزیراعظم سے رجوع کرنا چاہیے؟‘‘

کئی روز سے مجھے ایسے سوال کاانتظار تھا، چنانچہ میں نے پہلے ہی سے اس کا جواب سوچ رکھا تھا:’’ابھی مرکزی حکومت نے ان مسائل کا ذکر نہیں کیا، اس لیے نواب صاحب! آپ ہی اس ضمن میں پہل کیجیے۔ میری راے میں آپ ہی کو پنجاب میں ایک ایسا خصوصی ادارہ قائم کرنا چاہیے، جو ان نظریاتی مسائل کو زیربحث لاسکے، جن کی بنیاد پر پاکستان معرضِ وجود میں آیا ہے۔ خدا نے چاہا تو آیندہ حکومتِ کراچی بھی اس اہم فریضے کی جانب متوجہ ہوگی۔ اس وقت وہ اپنی خارجہ پالیسی کو تشکیل دینے میں مصروف ہے۔ ان حالات میں شاید وزیراعظم یا قائداعظم اِدھر زیادہ توجہ نہ دے سکیں‘‘۔

نواب صاحب فوری قوتِ فیصلہ کی صلاحیت کے مالک تھے، چنانچہ انھوں نے مجھ سے اتفاق کرتے ہوئے پوچھا: ’’آپ کے اس مجوزہ ادارے کا کیا نام ہونا چاہیے؟‘‘

میں نے جواباً عرض کیا: ’’اس کا نام ’محکمہ احیاے ملّت اسلامیہ‘ مناسب رہے گا، کیونکہ اس سے ہمارے مقصد کی بھرپور ترجمانی ہوگی، یعنی صحیح اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اپنی معاشرتی زندگی اور فکر کی تعمیرنو‘‘۔

ممدوٹ صاحب نے بلاتوقف کہا: ’’بالکل درست، ایسا ہی ہوگا۔ آپ اس ادارے کے قیام کا منصوبہ اور اس کے اخراجات کا ایک تخمینہ تیار کیجیے۔ آپ کو سرکاری طور پر اس ادارے کا ناظم مقرر کیا جاتا ہے اور آپ کی ماہوار تنخواہ شعبۂ اطلاعات کے ناظم جتنی ہوگی۔ مجھے امید ہے، آپ اسے قبول کرلیں گے‘‘۔

مجھے امید نہیں تھی کہ اتنی جلدی فیصلہ ہوجائے گا، لیکن نواب آف ممدوٹ کے فیصلوں کا یہی انداز تھا۔ چند دنوں کے اندر اندر اس ادارے کا رسمی میمورنڈم تیار ہوگیا۔ اس کے اخراجات کے تخمینے پر بحث ہوئی۔ شعبۂ مالیات کے سربراہ کے صلاح مشورے سے یہ منظور ہوگیا، اور سرکاری اطلاع نامہ بھی جاری کر دیا گیا۔ یوں دیکھتے دیکھتے محکمہ احیا ملّت اسلامیہ کا قیام عمل میں آیا۔ پوری اسلامی دنیا میں یہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے پہلا ادارہ تھا۔

میں نے لاہور کے بعض معروف علماے دین بالخصوص مولانا دائود غزنوی امیرجماعت  اہلِ حدیث سے رابطہ قائم کیا اور ان سے درخواست کی کہ وہ ایسے دو اصحاب کے نام بتائیں جو میرے تحت کام کرسکیں، عربی اچھی جانتے ہوں اور میری آیندہ کی تجاویز کو عملی شکل دینے میں جن ضروری حوالوں کی ضرورت پڑے، انھیں احادیث کے ضخیم مجموعوں میں سے تلاش کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ جلد ہی ایسے دو نوجوان اور باصلاحیت علما دستیاب ہوگئے اور انھیں یہ کام تفویض کردیا گیا۔ علاوہ ازیں مجھے پنجاب یونی ورسٹی کے ایک پُرجوش طالب علم کی جزوقتی خدمات بھی حاصل ہوگئیں۔ دفتر کے دیگر انتظامی اور مالیاتی امور کو بحسن و خوبی نبٹانے کے لیے مجھے اپنے قریبی دوست ممتاز حسن کا تعاون حاصل تھا، جو مغربی پنجاب کے شعبہ مالیات کے ایک اہم عہدے پر فائز تھے اور بعد میں اس کے سربراہ مقرر ہوگئے۔

اب میں باقاعدہ طور پر سرکاری ملازم تھا، اس لیے مجھے دو رویہ درختوں کے ایک خوب صورت علاقے چمبہ ہائوس میں بلاکرایہ گھر بھی مل گیا (یہ لین مہاراجا آف چمبہ کے نام سے موسوم تھی۔ یہ ریاست کوہِ ہمالیہ کے دامن میں واقع تھی اور تقسیم ہند سے پہلے مہاراج کا یہاں محل تھا)۔ اس گھر کے اردگرد چاروں طرف چھوٹا سا باغ تھا۔ یہ ایک تجارت پیشہ ہندو کی ملکیت تھا، جو ہندستان نقل مکانی کر گیا تھا۔ ممکن ہے،وہاں اسے کسی ایسے مسلمان کا گھر مل گیا ہو، جو اپنا سب کچھ چھوڑچھاڑ کر پاکستان آگیا ہو۔ نظربندی کیمپ سے میری رہائی کے بعد میرا بیٹا طلال کیتھولک اسکول میں بطور اقامتی طالب علم زیرتعلیم تھا۔ یہ لاہور کا اعلیٰ ترین ادارہ تھا جس کو آئرلینڈ کے ڈومینیکن چلا رہے تھے۔ اب میں اپنی بیوی کے ساتھ لاہور ہی میں مستقلاً رہایش پذیر تھا،اس لیے طلال اس گھر میں منتقل ہوگیا اور یہیں سے ہر روز اسکول جانے لگا۔ اب میرے لیے یہ نئی صورت حال خاصی اطمینان بخش تھی۔

۳۰ جنوری ۱۹۴۸ء کی صبح کو میں دفتر جانے کے لیے بذریعہ کار گھر سے نکل ہی رہا تھا (میں نے ایک متروکہ کار اپنے نام الاٹ کرا لی تھی) کہ اپنے ہمسائے اور دوست سرسکندر حیات خاں کے بھتیجے سردار شوکت حیات خاں سے میری ملاقات ہوگئی۔ وہ اس وقت خاصے پریشان دکھائی دے رہے تھے۔ انھوںنے بتایا: ’’میں نے ابھی ریڈیو پر یہ خبر سنی ہے کہ گاندھی کو قتل کردیا گیا ہے۔ خدا کاشکر ہے کہ قاتل کوئی مسلمان نہیں ہے‘‘___ میں اس کی پریشانی میں برابر کا شریک تھا۔ ہم دونوں جانتے تھے کہ اگر قتل کرنے والا مسلمان ہوتا، تو ہندستانی حکومت اپنی مسلمان رعایا کے ساتھ کیا سلوک کرتی۔ بہرحال چند گھنٹوں بعد آل انڈیا ریڈیو نے واضح بیان جاری کردیا کہ گاندھی کا قاتل راشٹریہ سیوک سنگھ کا رکن ہے۔ یہ انھی متعصب ہندوئوں کی جماعت تھی، جس نے ڈلہوزی کے مسلمانوں کا قتل عام بھی کیا تھا۔

محکمہ احیاے ملّت اسلامیہ کا کام آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا تھا۔ ہم زکوٰۃ اور عشر کے اہم موضوع پر پورے انہماک سے تحقیق کر رہے تھے، کیونکہ کسی بھی اسلامی مملکت میں شرعی اعتبار سے محصولیات کی بنیاد انھی دو پر ہے۔ ابھی تلاش و تفحص کا یہ مرحلہ طے ہو رہا تھا کہ ممدوٹ صاحب نے دوبارہ اپنے دفتر بلایا۔ میرے داخل ہوتے ہی وہ حسب معمول کسی تکلف کے بغیر گویا ہوئے: ’’میں نے ابھی ابھی آپ کا مضمون ’اسلامی دستورسازی کی جانب‘ پڑھا ہے، جو عرفات کے تازہ شمارے میں شائع ہوا ہے۔ آپ انھی خطوط پر قدرے شرح و بسط کے ساتھ ایک میمورنڈم تیار کیجیے۔ میں اسے مغربی پنجاب کی حکومت کی جانب سے شائع کرائوں گا اور اس کو دیکھ کر ممکن ہے، مرکزی حکومت بھی اس جانب متوجہ ہو‘‘۔ چنانچہ ۱۹۴۸ء میں میرا یہی انگریزی مضمون مع اُردو ترجمہ مغربی پنجاب کی حکومت کی زیرنگرانی طبع ہوا۔ کچھ ہفتوں بعد وزیراعظم کی جانب سے مجھے کراچی آنے کا پیغام موصول ہوا۔

لیاقت علی خاں سے یہ میری پہلی ملاقات نہیں تھی۔ میں قیامِ پاکستان سے قبل ان سے گاہے گاہے ملتا رہتا تھا۔ ان سے جب بھی گفتگو کا موقع ملتا، وہ کھلے ذہن اور پوری توجہ سے میری باتیں سنتے اور ساتھ ساتھ متواتر سگریٹ نوشی کرتے رہتے (میں نے جب بھی انھیں دیکھا، انھوں نے اسٹیٹ ایکسپریس کے ۵۰ سگریٹوں کا پیکٹ ہاتھ میں پکڑا ہوتا یا ان کے میز پر پڑا رہتا)۔ اس ملاقات میں بھی وہ سگریٹ سے سگریٹ سلگائے جا رہے تھے۔ انھوں نے مجھے بھی سگریٹ پیش کیا، چائے منگوائی اور مجھے اسلامی دستور پر قدرے تفصیل سے لکھنے کا مشورہ دیا۔ ہماری ابتدائی دو ملاقاتوں میں بھی وہ اس اہم مسئلہ پر سنجیدگی سے گفتگو کرتے تھے۔ انھوں نے سلسلۂ کلام کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا: ’’لیکن ہم اس موقع پر خود دستورسازی کا عمل شروع نہیں کرسکتے۔ ہمیں اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔ کشمیر پر ہندستان نے قبضہ کرلیا ہے اور ہمارے پٹھان بھائیوں کی سری نگر پر قبضہ کرنے کی کوشش ناکام ہوچکی ہے۔ یہ بھی امرمسلّمہ ہے کہ فوجی اعتبار سے ہندستان ہم سے بہت مضبوط ہے۔ ہم تو ابھی حکومتی مشینری کے کُل پرزے درست کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہوئے۔ اس کے لیے وقت اور سعی پیہم کی ضرورت ہے۔ ہم ایک ساتھ سارے کام شروع نہیں کرسکتے۔ میں مانتا ہوں کہ دستور سازی کا عمل اہم اور دور رس نتائج کا حامل ہے، لیکن اسے بھی فی الحال مؤخر کرنا پڑے گا‘‘۔

میں وزیراعظم کی اس گفتگو سے متاثر ہوا، کیونکہ انھوں نے بلاتکلف حکومت کو درپیش تمام مسائل کا کھل کر اظہارِ خیال کیا۔ میں جانتا تھا کہ میری طرح وہ بھی پاکستان کے اسلامی تشخص کو اُجاگر کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے، لیکن ابھی حالاتِ حاضرہ کے دبائو کے تحت اِدھر توجہ دینے سے گریز کرر ہے تھے۔ میں نے ان کے مؤقف سے اتفاق کیا اور رخصت ہوتے وقت انھوں نے مجھے کہا: ’’فی الحال ہمیں خود کو اس مسئلے پر سوچ بچار کرتے رہنا چاہیے‘‘۔

اس کے بعد کابینہ کے سیکرٹری چودھری محمدعلی سے کئی ملاقاتیں ہوئیں اور مجھے اندازہ ہوا کہ حکومت کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ان میں سب سے بڑا مسئلہ معاشی استحکام کا ہے۔ انھوں نے بتایا: قائداعظم نے امیرترین مسلمان حکمران نظام حیدرآباد دکن سے درخواست کی ہے کہ وہ پاکستان کو سونے چاندی کی شکل میں چند لاکھ پائونڈ سٹرلنگ اُدھار دیں اور انھیں اپنے نام پر ہی بنک میں جمع کرا دیں، تاکہ پاکستانی کرنسی کو تحفظ مل سکے۔ لیکن نظام دولت کے انبار کو اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں، اس لیے انھوں نے قائداعظم کی درخواست کو رد کر دیا ہے۔ چند ماہ بعد ہی ہندستان نے حیدرآباد ریاست کی خودمختار حیثیت ختم کر کے اسے اپنے ملک کا حصہ بنا لیا اور نظام کے سونے چاندی کے تمام ذخیرے بھی ہندوستانی حکومت کے تصرف میں چلے گئے۔ نظام کے ساتھ ساتھ خود ان کی آل اولاد اور پاکستان بھی ہمیشہ کے لیے ان خزانوں سے محروم ہوگئے۔

جب میں چودھری محمدعلی سے گفتگو کر رہا تھا، معاً مجھے نظام کے ذاتی خزینوں کی یاد آگئی۔ ۱۹۳۹ء میں، مَیں دوسری بار حیدرآباد گیا تھا اور اس وقت ریاست کے وزیرمالیات نے مجھے اس خزانے کا صرف ایک حصہ دکھایا تھا۔ متعدد کمروں میں قطار اندر قطار صندوق رکھے تھے اور یہ سب سونے اور قیمتی پتھروں سے بھرے پڑے تھے۔ ہیرے جواہرات سے بھرے لوہے کے تھال فرش پر رکھے تھے۔ مال و دولت کا ایک ناقابلِ یقین اور مُردہ ڈھیر، جو ایک فانی شخص کی مریضانہ اور عجیب وغریب حرص کا نمونہ تھا۔

لیاقت علی خاں نے اپنی گفتگو میں آزادیِ کشمیر کی جس جدوجہد کا ذکر کیا تھا، وہ ہمیشہ میری اور ہرپاکستانی کی سوچ پر غالب رہی ہے۔ اس کی جغرافیائی، نسلی اور مذہبی وضع قطع کے باعث اس حسین و جمیل سرزمین کو لازماً پاکستان کا حصہ بننا تھا۔ یہاں کی آبادی کی اکثریت مسلمان ہے۔ تمام بڑے دریا (سندھ، جہلم، چناب اور راوی) مغربی پنجاب کی زمینوں کو سیراب کرتے ہیں اور یہاں کی معیشت کا انحصار مکمل طور پر انھی دریائوں پر ہے۔ ہندستانی حکومت اور مہاراجا کے مابین اقرارنامہ کی وجہ سے ریڈکلف نے صریحاً دھوکے بازی سے مسلمانوں کی اکثریت کا ضلع گورداسپور ہندستان کے حوالے کر دیا۔ ریڈکلف کی یہ ’نوازش‘ تقسیم ہند کے طے شدہ بنیادی اصول کی خلاف ورزی تھی اور اسے کوئی پاکستانی تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھا۔ اس وقت پاکستان اپنی سربریدہ فوج کے سبب ہندستان سے جنگ کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا تھا، اس لیے قائداعظم نے کسی فوجی مداخلت کے امکان کو بالکل رد کر دیا۔ حکومت پاکستان کی اس واضح پالیسی کے بعد صوبہ سرحد اور افغانستان کے ملحقہ علاقوں کے پٹھانوں کے قبائل پاکستان کے نام پر کشمیر کو فتح کرنے چل پڑے۔

اکتوبر ۱۹۴۷ء میں محسود، وزیری اور آفریدی قبیلوں کے بڑے بڑے جتھوں نے کشمیر کی سرحد عبور کرکے بارہ مولا اور مظفرآباد پر بلامقابلہ قبضہ کرلیا۔ سری نگر کے اردگرد جو فوج تعینات تھی، اس میں زیادہ تعداد مسلمانوں کی تھی۔ انھوں نے بھی بغاوت کردی اور پٹھان بھائیوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر آگے بڑھنے کو تیار ہوگئے۔ قبائلیوں کی پیش قدمی جاری تھی اور سری نگر تک پہنچنا انھیں آسان دکھائی دے رہا تھا، لیکن اس دوران میں ایک تکلیف دہ واقعہ رُوپذیر ہوگیا۔    یہ قبائل اپنی صدیوںپرانی غارت گری کی جبلت پر قابو نہ پاسکے اور سری نگر کی جانب قدم بڑھانے کے بجاے انھوں نے مظفرآباد کے شہریوں کو لوٹنا شروع کر دیا۔ دو دن تک لوٹ مار کا یہ بازار  گرم رہا۔ یہ بڑا نازک وقت تھا، جسے ان قبائلیوںنے ضائع کر دیا۔ چنانچہ اس عرصے میں    مائونٹ بیٹن اور جواہر لال نہرو کی ملی بھگت سے جوابی حملے کے انتظامات مکمل کرلیے گئے۔ نئی دہلی میں برطانوی فوج کے تعاون سے ہندوئوں اور سکھوں پر مشتمل فوجی دستوں کو جلدی جلدی منظم کیا گیا۔ انھیں ہتھیار فراہم کیے گئے اور ایک ہلکے توپ خانہ کا بھی انتظام کر دیا گیا، تاکہ وہ سری نگر پر قبضہ کرکے وہاں کے ہوائی اڈے کو بھی اپنے دائرۂ اختیار میں لے آئیں۔ اس طرح فوجی اور غیرفوجی جہازوں کے ذریعے ہندستانی فوج کی خاصی بڑی تعداد کو سری نگر پہنچا دیا گیا، جہاں سے وہ ریاست کشمیر  کے دوسرے حصوں پر بھی اپنا تسلط جما لیں۔ آہستہ آہستہ پٹھانوں کو نکال باہر کیا گیا اور پھر ان کا جذبۂ جہاد مدہم پڑتے پڑتے ختم ہوگیا۔

تاہم کشمیر کی جنگ ختم نہیں ہوئی۔ اسی اثنا میں نئے قبائلی مجاہد اور ناگزیر طور پر پاکستانی فوج کے دستے بھی اس جنگ میں شامل ہوگئے۔ ہندستان نے وادیِ کشمیر پر قبضہ جمائے رکھا اور سرحد کے ساتھ ساتھ دُور تک پناہ گاہیں اور خندقیں بنالیں۔ آج تک ہندستان کشمیر کے اس حصے پر قابض ہے، جو گلگت سے لداخ اور کارگل کے برفانی پہاڑوں تک پھیلا ہوا ہے۔ بالآخر پاکستان مسئلہ کشمیر کو مجلس اقوام متحدہ میں لے گیا،۱؎ جہاں استصواب راے کی قرارداد منظور کی گئی، جو اس علاقے کی قسمت کا فیصلہ کرے گی۔ حکومت ہندستان نے اس قرارداد کو بڑی بے دلی سے قبول کیا، کیونکہ

۱- یہاں مضمون نگار کو اشتباہ ہوا ہے، اقوام متحدہ میں یہ مسئلہ بھارت لے کر گیا تھا۔ مدیر                                           

 یہ کھلی ہوئی حقیقت تھی کہ اس قرارداد پر عمل درآمد کا نتیجہ پاکستان کی فتح کی صورت میں نکلے گا۔ چنانچہ ہندستان حیلے بہانے سے بار بار اس مسئلے کو ملتوی کرتا رہا۔ اب یہی مسئلہ کشمیر، پاکستان اور ہندستان کے اچھے ہمسایہ ممالک جیسے تعلقات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکا ہے۔ دونوں ملکوں کے سپاہی خندقوں میں ایک دوسرے پر حملہ کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔

ستمبر ۱۹۴۸ء میں مون سون کی بارشیں رُکتے ہی میں نے کشمیر محاذ پر جانے کا فیصلہ کرلیا۔

مغربی پنجاب کے فوجی افسران نے مجھے ایک جیپ اور دو سپاہی بطور محافظ مہیا کردیے اور میں کوہِ ہمالیہ کی جانب روانہ ہوگیا۔ مری کے بعد سڑک تنگ اور ڈھلوانی ہوتی گئی۔ کہیں کہیں اسے تھوڑا سا چوڑا کیاگیا تھا،تاکہ وہاں سے مقابل سمتوں سے آنے والی دو گاڑیاں گزر سکیں۔ اس سڑک پر ہندستان کے جنگی جہازاچانک یلغار کرتے اور مشین گنوں سے گولیاں بھی برساتے چلے جاتے تھے، اس لیے ہم رات کو روشنی کے بغیر سفر کرتے تھے۔ ہماری رفتار سُست تھی۔ پہاڑ اور ڈھلوان کے درمیان سرکتے ہوئے ہم آگے بڑھ رہے تھے اور کبھی کبھی چند لمحات کے لیے جیپ کی بڑی بتیاں جلا لیتے تھے۔

ہم مظفرآباد کے اردگرد چکر لگاتے ہوئے سورج طلوع ہونے سے پہلے بلندوبالا برف پوش چوٹیوں میں واقع پہلی فوجی چوکی تک پہنچ گئے۔ وہاں سے ہم پیدل چلتے ہوئے فوج کے ایک سپاہی کی رہنمائی میں اُونچی نیچی ڈھلوانوں سے گزرتے ہوئے خاصی بلندی پر آگئے۔ یہاں ایک چرواہے کی پرانی سی جھونپڑی تھی، جو اب فوجیوں کو اسلحہ بھجوانے کے لیے بطور ڈاک چوکی استعمال کی جارہی تھی اور محاذ پر لڑتے ہوئے جو فوجی زخمی ہوجاتے تھے، انھیں ابتدائی طبی امداد بھی یہیں فراہم کی جاتی تھی۔

یہ جھونپڑی پتھروں سے بنائی گئی تھی۔ اس کی چھت پتھریلے ٹکڑوں اور درختوں کی ٹہنیوں سے تیار کی گئی تھی اور یہ چٹان کی دو عمودی دیواروں کے درمیان شگاف میں واقع تھی۔ جب ہم اندر داخل ہوئے تو یہ جھونپڑی سپاہیوں سے بھری پڑی تھی۔ کچھ ابھی اگلے محاذ کے مورچوں سے واپس آئے تھے اور کچھ وہاں جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ نچلی چھت کے وسط میں پیرافن کا ایک لیمپ لٹک رہا تھا اور اس کی مدھم سی روشنی کئی چارپائیوں پر پڑ رہی تھی۔ چارپائی مخصوص پاکستانی بستر ہے، جو لکڑی اور انترچھال کی رسیوں سے بنایا جاتا ہے۔ ان چارپائیوں پر زخمی سپاہی آرام کررہے تھے۔ کمپنی کا طبی عملہ یہاں ان کا عارضی علاج معالجہ کر رہا تھا اور یونہی گاڑی پہنچتی، انھیں نیچے وادی میں قائم کردہ ہسپتال پہنچا دیا جاتا۔

یہاں دو آدمیوں نے مجھے اپنی جانب متوجہ کیا۔ وہ ساتھ ساتھ پڑی ہوئی دو چارپائیوں پر لیٹے تھے۔ مجھے پتہ چلا کہ وہ شدید زخمی تھے اور ان کے بچنے کی اُمید بہت کم تھی۔ اس کے باوجود وہ ہشاش بشاش اور ایک دوسرے سے ہنسی مذاق کر رہے تھے۔ میرے جیسے کمزور دل شخص کے لیے یہ عجیب و غریب منظر تھا۔ ان میں ایک کہنے لگا: ’’یار! میں تمھیں بہت جلد دوزخ میں ملوں گا‘‘۔ اور دوسرے نے جواب دیا: ’’نہیں، ہم دوزخ میں نہیں جائیں گے۔ اگر ہم مرگئے تو یہ شہید کی موت ہوگی، کیونکہ ہم نے اللہ کی راہ میں جان قربان کی ہے‘‘۔ اسی لمحے سیکٹر کمانڈر کا بھیجا ہوا ایک ماتحت افسر آیا اور ہمیں مورچوں کی طرف لے گیا۔

میری سمجھ سے باہر ہے کہ کس طرح برف سے ڈھکی زمین پر دستی بیلچوں سے یہ مورچے بنائے گئے۔ یہ اتنے گہرے تھے کہ میرے جیسا درازقد شخص سر اور کندھوں کو جھکائے بغیر بآسانی ان میں چل پھر سکتا تھا۔ وہاں جگہ جگہ جال کے نیچے مشین گنیں نصب تھیں، جن کے بیرل عمودی پوزیشن میں تھے اور وہ اس لیے کہ دشمن کے جہاز نچلی پرواز کرتے ہوئے جو حملے کرتے تھے، اُن سے اِن مورچوں کو محفوظ کیا جائے۔ اس وقت یہاں بالکل خاموشی تھی، البتہ فوجی جوان تیار کھڑے تھے۔ بیش تر سپاہی آرام سے بیٹھے گپ شپ لگا رہے تھے یا سگریٹ نوشی کر رہے تھے۔ جب کہ کچھ اپنی بندوقوں کی نالیاں صاف کرنے میں مصروف تھے یا کارتوس لگانے والی پیٹیوں کی مرمت کر رہے تھے۔ اس سیکٹر کے تمام فوجی پنجابی تھے اور ان کا تعلق جہلم اور راولپنڈی سے تھا۔ یہ اعلیٰ قسم کے انسان ہیں۔ درازقد، دبلے پتلے، بعض چہرے مہرے یونانی دکھائی دیتے ہیں۔ فوراً مجھے یاد آیا کہ سکندراعظم اور اس کے وارثوں کی کئی نسلیں پنجاب کے اسی علاقے میں مستقلاً اقامت پذیر رہیں۔ ممکن ہے یہ لوگ انھی سے نسلی تعلق رکھتے ہوں۔

میں تقریباً ایک گھنٹہ سیکٹر کمانڈر سے گفتگو کرتا رہا۔ وہ ایک نوجوان میجر تھا۔ میں نے اس کے ساتھ چائے پی۔ وہ اور اس کے فوجی ساتھی مجھ جیسے ایک ایسے مہمان سے مل کر بہت خوش ہوئے جو ان کے بلند حوصلوں کا معترف تھا اور ان کے اس جذبے کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتا تھا، جس  کے تحت وہ ملکی سرحدوں کی حفاظت کر رہے تھے۔ میں نے انھیں مغربی پنجاب کے وزیراعلیٰ   [افتخار حسین ممدوٹ] اور ان کے توسط سے پاکستانی لیڈروں کی نیک خواہشات پہنچائیں۔ یہ کوئی راز کی بات نہیں بلکہ ہر کوئی جانتا ہے کہ دنیا میں پنجابی فوجیوں کا کوئی ثانی نہیں اور وہ اپنے فوجی اوصاف جن سے وہ خود کماحقہٗ آگاہ نہیں، کی اس قدر افزائی کو خوش دلی سے قبول کرتے ہیں۔ میں پہلی بار ان اگلے مورچوں تک آیا تھا اور یہاں کے ماحول نے مجھے اتنا متاثر کیا کہ میں نے خود سے یہاں دوبارہ آنے کا وعدہ کرلیا۔

اب مجھے صحیح تاریخ کا تو علم نہیں، لیکن غالباً دسمبر ۱۹۴۸ء یا ۱۹۴۹ء کے اوائل میں مجھے غیرمتوقع طور پر یہاں آنے کی دعوت موصول ہوئی۔ایک روز لاہور کے سب سے بڑے کتب فروش کی دکان میں نئی مطبوعات کو اُلٹ پلٹ کر دیکھ رہا تھا کہ میری نظر میجر جنرل حمید پر پڑی۔ وہ بھی میری طرح ایسی کتابوں کی ورق گردانی میں مصروف تھے۔ لاہور کی بیش تر نام وَر شخصیات کی طرح میں انھیں بھی جانتا تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ مجھ سے عمر میں چھوٹے تھے (اس وقت ان کی عمر ۴۰ سے کچھ زیادہ تھی)، لیکن وہ کشمیر کے محاذ پر ایک اہم عہدے پر فائز تھے۔ میں نے انھیں پوچھا کہ وہ لاہور میں کیا کر رہے ہیں؟ تو انھوں نے بتایا: ’’محاذجنگ کی گھن گرج سے دُور چند روز کے لیے تعطیلات گزارنے یہاں آیا ہوں اور کل صبح واپس جا رہا ہوں‘‘۔ انھوں نے مجھے اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دی جو میرے لیے خاصی پُرکشش تھی، لیکن میں اتنی جلدی اپنے محکمہ احیا ملّت اسلامیہ کے کاموں کو یک لخت چھوڑ کر نہیں جاسکتا تھا۔ میں نے جواباً عرض کیا: ’’ابھی نہیں، لیکن ہفتے عشرے میں ایسا ممکن ہے‘‘۔

جنرل حمید کہنے لگے: ’’ٹھیک ہے اگلے ہفتے ضرور آجایئے۔ میں روانگی سے قبل جہلم سے محاذِ کشمیر تک آپ کے لیے گاڑی اور حفاظتی دستے کا انتظام کروں گا۔ میں نہیں جانتا کہ آپ کی آمد کے وقت میں کہاں ہوں گا۔ میں سیکٹر کمانڈروں میں کسی ایک کے نام آپ کو خط دے دوں گا اور وہ آپ کو ہرطرح کی سہولت مہیا کر دے گا۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اسے پسند کریں گے‘‘۔

ایک ہفتے بعد میں جیپ میں سوار جہلم سے مشرق کی جانب جا رہا تھا، اور ڈرائیور کے ساتھ والی نشست پر بیٹھا تھا۔ وہ پنجاب کی آٹھویں رجمنٹ میں دفع دار تھا۔ دوسرا فوجی پیچھے جیپ کے فرش پر تختوں پر مشین گن جمائے بیٹھا تھا۔ اس سفر کے دوران ہمارا رُخ پہاڑوں کی جانب نہیں تھا۔ ہماری سڑک آہستہ آہستہ دل کش مناظر سے گزرتی ہوئی کشمیر کے صوبہ پونچھ تک جاتی تھی، اور موصولہ اطلاعات کے مطابق وہاں تقریباً ایک لاکھ ہندستانی فوجی قبضہ جمائے بیٹھے تھے۔

پنجاب اور کشمیر کی براے نام سرحد عبور کرتے ہی ہم پاکستانی فوج کے پڑائو پر جاپہنچے۔ یہاں سیکڑوں خیمے نصب تھے اور پیدل فوج کی خاصی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔ یہ لشکرگاہ صوبہ پونچھ ہی کا حصہ تھی اور بھاری مشین گنیں اور چھوٹی توپیں اس کی حفاظت کے لیے لگائی تھیں۔ بظاہر ہندستانی فوج کوئی بڑا حملہ کرنے کے لیے تیار نہیں تھی، اسی لیے یہاں کا عمومی ماحول قدرے پُرسکون تھا۔ کیمپ میں فوجیوں اور اسلحہ کی نقل و حرکت میں ڈسپلن کی کمی کہیں نظر نہیں آتی تھی۔ یہاں میں نے پٹھان اسکائوٹوں کے کچھ گروہ بھی دیکھے، جو اپنی پوشاک یعنی ڈھیلی شلوارکُرتہ اور پگڑی سے بالکل الگ تھلگ نظر آتے تھے۔ سینوں پر کارتوسوں سے بھری ہوئی چمڑے کی پیٹیاں، کندھوں پر لٹکتی ہوئی بندوقیں اور کمربند میں خنجر۔ ان ہتھیاروں سے لیس جان کی پروا نہ کرنے والے یہ جنگجو، اب حقیقی فوجی ضابطوں کے آہستہ آہستہ پابند ہوتے جا رہے تھے۔ (درحقیقت اس وقت پاکستان کے سرحدی محافظ یہی قبائل پٹھان تھے، جنھوں نے قیامِ پاکستان کے بعد ابتدائی برسوں کے دوران میں انتہائی مؤثر کردارادا کیا)۔

مجھے سیدھے سیکٹر کمانڈر لیفٹیننٹ کرنل یعقوب خاں کے خیمے میں لے جایا گیا۔ وہ عمر میں مجھ سے چھوٹے تھے۔ غالباً اس وقت ان کی عمر ۳۵سال ہوگی۔ انھوں نے میرا پُرتپاک طریقے سے استقبال کرتے ہوئے کہا۔ ’’آپ میرے خیمے ہی میں رہیں گے۔ مجھے امید ہے آپ یہاں خوش رہیں گے‘‘۔ یعقوب خاں ہندستان کی امیرترین اور انتہائی اہم شمال مغربی مسلم ریاست رام پور (جو اَب ہندستان میں ضم ہوچکی ہے) کے موروثی وزیراعظم کے فرزند ہیں۔ وہ بڑے مہذب، دل کش اور خوش مزاج شخص ہیں، اس لیے ہم جلد ہی ایک دوسرے سے بے تکلف ہوگئے۔ یہاں میں یہ بتاتا چلوں کہ برسوں گزر جانے اور فاصلوں کے باوجود ابھی تک ہماری دوستی میں فرق نہیں آیا۔ کئی سال بعد وہ جنرل کے عہدے پر فائز رہے۔ پھر وہ سفیرپاکستان کی حیثیت سے واشنگٹن میں تعینات ہوئے اور بالآخر صدر ضیاء الحق نے انھیں حکومت ِ پاکستان کے وزیرخارجہ کا قلم دان سونپا۔

لیفٹیننٹ کرنل یعقوب خاں نے بتایا: ’’میجر جنرل حمید آپ سے فوری ملنا چاہتے ہیں۔ اگر آپ کو زحمت نہ ہو تو میں آپ کو کل صبح سویرے ان کے ہیڈکوارٹر روانہ کردوں گا‘‘۔ میں نے ان کی تجویز سے اتفاق کیا، کیونکہ اس طرح میں یہاں کے محاذ کی صورت حال کا بھی سرسری جائزہ لے لوں گا۔

رات کا کھانا سادہ، لذیذ اور پُرتکلف تھا۔ دیر تک سگریٹ نوشی اور چائے کے دور چلتے رہے۔ اس کے بعد میں سونے چلاگیا۔ اگلے روز علی الصبح میں تیار ہوگیا۔ سیکڑوں فوجیوں کے ساتھ نمازِ فجر ادا کی۔ یعقوب خاں کے ساتھ ڈبل روٹی، نمکین پنیر اور چائے کا ناشتہ کیااور ان سے عارضی رخصت لے کر اسی جیپ پر اور انھی محافظوں کے ساتھ ہیڈکوارٹر کی جانب روانہ ہوگئے۔

ایک گھنٹہ بعد وہاں پہنچے۔ اس وقت میجر جنرل حمید اپنے افسروں سمیت صوبہ پونچھ کے ایک بڑے نقشے کا جائزہ لے رہے تھے۔ میں نے ان کی محویت دیکھ کر ذرا پیچھے ہٹنا چاہا تو انھوں نے مجھے روکتے ہوئے کہا: ’’نہیں، آپ مت جایئے، آپ سے ہماری کوئی رازداری نہیں۔ درحقیقت آج میں آپ کو کچھ اور رازوں سے مطلع کروں گا‘‘۔

اس کے بعد میجر جنرل حمید صاحب نے مجھے اپنی جیپ میں بٹھا لیا اور ہم پونچھ اور ہندستان سے ملحقہ سرحدی علاقے کی طرف چل پڑے۔ کچھ دیر ہماری جیپ شمال کی طرف چلتی رہی۔ چند کلومیٹر کے بعد مغرب کی جانب مڑ گئی اور پھر بڑے سے نصف دائرے میں ذیلی سڑکوں سے ہوتی ہوئی، دوبارہ بڑی سڑک پر آگئی۔ پونچھ کا شہر پیچھے رہ گیا۔ اب نظروں سے بھی اوجھل ہوچکا تھا شاید اس نصف دائرے کے درمیان میں کہیں تھا۔ سڑک پر آمدورفت کم تھی۔ اِدھر اُدھر فوجی ٹولیوں میں سڑک کے کنارے بیٹھے وقت گزار رہے تھے۔ ایک بار مخالف سمت سے آتی ہوئی ایک فوجی گاڑی ہمارے پاس سے گزری۔ دائیں جانب دُور فاصلے پر میں نے ایک گھنا جنگل دیکھا، لیکن وہاں بھی کوئی چلتا پھرتا نظر نہیں آتا تھا۔

یہاں سے آگے بڑھے تو میجر جنرل صاحب نے میری طرف منہ پھیرا اور پوچھا: ’’کیا آپ نے اس جنگل میں کوئی دل چسپ چیز دیکھی؟‘‘ میں نے جواب دیا: ’’کچھ خاص نہیں، صرف درخت ہی تو ہیں‘‘۔

میجر جنرل صاحب مسکرائے: ’’آپ کو دیکھنا چاہیے تھا۔ اس چھوٹے سے جنگل میں پاکستان کے توپ خانے کا نصف حصہ چھپا بیٹھا ہے۔ جو سڑک پونچھ اور اس سے آگے جاتی ہے، وہ مکمل طور پر ہماری زد میں ہے اور جب ہم کل حملہ کریں گے، پونچھ میں مقیم ہندستانی فوجوں کا دونوں اطراف سے رابطہ منقطع ہوجائے گا۔ چونکہ ہمارا توپ خانہ ان سے بدرجہا بہتر ہے، اس لیے وہ مزاحمت نہیں کرسکیں گے۔ وقت کی کمی کے باعث انھیں کمک بھی نہیں پہنچ سکے گی۔ ہم نے اب اپنے تمام فوجی دستوں کو یہاں تعینات کر دیا ہے۔ ان حالات میں ہندستانی فوج ہتھیار ڈال دے گی یا تہس نہس ہوجائے گی۔ اس کے بعد ہم سری نگر کی طرف پیش قدمی کریں گے، ان شاء اللہ۔ ہمارے لیے اب یہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہے‘‘۔

میجر جنرل حمید کی اس پُرامید گفتگو میں کوئی مبالغہ بھی نہیں تھا۔ جوں ہی ہم واپس ہیڈکوارٹر پہنچے، انھیں ایک شدید دھچکا محسوس ہوا۔ اسی شام افواجِ پاکستان کے کمانڈر انچیف کے توسط سے انھیں وزیراعظم لیاقت علی خاں کا بذریعہ تار ایک خفیہ پیغام موصول ہوا کہ: ’’اگلے روز حملے کا پروگرام منسوخ کردیا جائے‘‘۔

کئی ہفتوں بعد مجھے اصل صورت حال کا علم ہوا۔ ہندستان کی اعلیٰ فوجی کمان کو جونہی پاکستانی فوج کے اس متوقع حملے کا پتا چلا، اس نے فوراً اپنے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کو تمام صورتِ حال اور اس کے مضر اثرات سے آگاہ کردیا۔ پنڈت صاحب نے اسی وقت برطانوی وزیراعظم کلیمنٹ اٹیلی سے فون پر رابطہ قائم کیا اور ان پر زور دیا: ’’پاکستان کو ہرقیمت پر اس حملے سے روکنا ہوگا، کیونکہ اتنے مختصر وقت میں ہندستان کے لیے بذریعہ جہاز پونچھ کمک پہنچانا ممکن نہیں ہے۔ اگر انھیں پاکستانی افواج سے ہزیمت اُٹھانا پڑی تو وہ احتجاجاً دولت مشترکہ کی رکنیت چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں گے (کہیں اور کا اشارہ اشتراکی روس کی جانب تھا)۔ اگر پاکستان کو اپنا حملہ منسوخ کرنے پر آمادہ کرلیا جائے اور ضلع پونچھ ہندستان ہی کا حصہ رہے تو وہ یعنی پنڈت صاحب اگلے سال کشمیری عوام کو استصواب راے کا حق دے دیںگے‘‘۔

تمام رات نئی دہلی اور لندن کے درمیان ٹیلی فون کی تاریں بجتی رہیں۔ وزیراعظم اٹیلی کو ہندستان جیسا بڑا ملک ہاتھ سے نکلتا دکھائی دینے لگا۔ اس نے فوراً لارڈ مائونٹ بیٹن (جو ۱۹۴۸ء کے آخر میں ہندستان کے گورنر جنرل کے عہدے سے مستعفی ہوکر اب انگلستان میں اپنی گذشتہ کامیابیوں پر شاداں و فرحاں زندگی گزار رہے تھے) سے مشورہ کیا اور کہا کہ برصغیر کے امورمختلفہ کے تجربہ کار ماہر کی حیثیت سے وہ نہرو کی تشویش دُور کرنے کی کوشش کریں اور اس مقصد کے حصول کے لیے اپنا اثرورسوخ استعمال کریں۔ چند گھنٹوں بعد لارڈ مائونٹ بیٹن نے پاکستان کے وزیرخارجہ محمد ظفراللہ خاں کو فون کیا اور انھیں بتایا کہ پنڈت صاحب نے کشمیری عوام کو حق راے دہی کا یقین دلایا ہے اور برطانوی وزیراعظم اٹیلی نے بھی اس حملے کی منسوخی کے لیے ذاتی طور پر درخواست کی ہے۔ اس وقت وزیراعظم لیاقت علی خاں سوئے تھے۔ ظفراللہ نے انھیں جگاکر یہ پیغام پہنچایا اور انھیں اٹیلی کی معروضات پر خصوصی توجہ دینے کی استدعا کی۔

اثر و رسوخ کے ان الجھیڑوں میں وزیرخارجہ سرظفراللہ خاں نے جو کردار ادا کیا، اس کی تفہیم کے لیے ان کے سابقہ واقعات اور مخصوص وفاداریوں کا مختصراً تذکرہ ضروری ہے۔ وہ جماعت احمدیہ کے سرگرم رکن تھے۔ تمام مسلمان اس جماعت کو دائرۂ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں۔ اس جماعت کے بانی قادیان کے مرزا غلام احمد تھے، جو پہلے پہل ایک عالمِ دین کی حیثیت سے مشہور تھے، لیکن بعد میں ان کے ذہن میں یہ خیال جاگزیں ہوگیا: وہ خدا کے بھیجے ہوئے پیغمبر ہیں اور جس کام کو حضوراکرمؐ نامکمل چھوڑ گئے ہیں، اس کی ’تکمیل‘ کے لیے انھیں مبعوث کیا گیا ہے۔ یہ ایک دعویٰ ہے جس کو ہندستان کے تمام مسلمانوں نے چاہے وہ سُنّی ہیں یا شیعہ، قطعی طور پر مسترد کردیا۔ نصِ قرآنی سے یہ بالکل واضح ہے کہ حضور اکرمؐ خاتم الانبیاء ہیں اور ان کے بعد کوئی پیغمبر کرئہ ارض پر مبعوث نہیں ہوا۔ مرزا غلام احمد قادیانی کا دعویٰ نبوت اسلام کے بنیادی عقیدے کی نفی ہے، اس لیے وہ اور ان کے پیروکار اسلام کی حدود سے باہر ہیں۔ ہندستان کے برطانوی حکمران، تحریکِ احمدیت کو بڑی پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے تھے، کیونکہ مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنے پیروکاروں کو ہمیشہ برسرِاقتدار اسلامی یا غیراسلامی حکومت کی اطاعت اور فرماں برداری کی سخت تاکید کررکھی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ برطانوی حکومت کے مقتدر اصحاب، جماعت احمدیہ کے اراکین کی ہرطرح سے حمایت کرتے تھے۔ سر محمدظفراللہ خاں بھی ایک بااثر شخص تھے اور غلام احمد قادیانی سے گہری عقیدت رکھتے تھے، اس لیے وہ تمام عمر انگریزوں سے زیادہ برطانیہ کے خدمت گزار رہے۔

ظفراللہ خاں باصلاحیت وزیرخارجہ تھے اور وزیراعظم لیاقت علی خاں بھی ان کی خوبیوں کے معترف تھے۔ مزید یہ کہ وہ کشمیر میں استصواب راے کرانے کے بارے میں نہرو کے وعدہ پر پختہ یقین رکھتے تھے۔ انھیں توقع تھی کہ جس مسئلے نے عرصۂ دراز تک پاکستان کی توانائیوں کو ضائع کردیا ہے، اس کا کوئی مستقل اور پاے دار حل تلاش کیا جاناچاہیے۔ یہی سوچ کر انھوں نے پاکستانی افواج کو پونچھ سے ہٹاکر بین الاقوامی سرحد پر بھجوانے کا حکم دے دیا۔ یہ خطرہ ٹلتے ہی بھارتی وزیراعظم نہرو فوری استصواب راے کرانے کے وعدے سے منحرف ہوگیا اور یہ مسئلہ کشمیر غیرمعینہ عرصہ کے لیے معرض التوا میں ڈال دیا گیا۔

یہ اتنا بڑا قومی المیہ تھا کہ جس کی تلافی نہیں ہوسکتی تھی۔ پونچھ میں ہندستانی افواج نے خود کو مضبوط کرلیا، جب کہ پاکستان نے ایک نادر موقع کھو دیا، جو قوموں کی زندگی میں کبھی کبھار آتا ہے۔

وزیراعظم لیاقت علی خاں کا حکم نامہ پونچھ کے گردونواح محاذِ جنگ پر تعینات پاکستانی فوجیوں پہ بم بن کر گرا۔ جب انھیں علم ہوا کہ حملہ منسوخ کردیا گیا ہے، تو وہاں موجود بہت سے افسر اور جوان پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ کشمیر کو ہندوئوں کے تسلط سے آزاد کرانے اور اسے پاکستان کا حصہ بنانے کا انھوں نے جو خواب دیکھا تھا، وہ چکنا چُور ہوگیا۔ کوئی سنجیدہ شخص یہ بات ماننے کو تیار نہیں تھا کہ یہاں مستقبل بعید میں بھی کبھی کشمیریوں کو موعودہ حق راے دہی مل جائے گا۔

[اس صدمے کے بعد] میجر جنرل حمید نے خود کو ہیڈ کوارٹر میں بند کرلیا۔ پھر کئی مہینے تک ان سے میری ملاقات نہ ہوسکی۔ اس کے بعد وہ فوج سے مستعفی ہوگئے۔ (ماخوذ: محمد اسد، بندۂ صحرائی (خودنوشت سوانح عمری)، مرتب: پولااسد، محمداکرام چغتائی، ناشر: دی ٹروتھ سوسائٹی، ۲-اے،۸۱، گلبرگ III، لاہور)

حکومت کے معاملات اور نظامِ کار کو چلانے کی واحد ذمہ داری حکومت پر نہیں، بلکہ یہاں کے تمام اداروں اور شہریوں پر بھی آتی ہے۔ لیکن پالیسیوں کے نفاذ، نظم و ضبط کو قائم کرنے اور عدل و انصاف کے ساتھ متوازن انداز سے روزمرہ معاملات کو چلانے کی آخری ذمہ داری حکومت ِ وقت ہی پر آتی ہے۔ تاہم حکومت ِصوبہ پنجاب کے مشیروں کی غالب تعداد، درحقیقت حکومت کے  مسائل اور عوام کی مشکلات دُور کرنے کے بجاے،انھیں اُلجھانے کی جانب دھکیل رہی ہے۔ یہاں پر تعلیمی شعبے کے ساتھ کیے جانے والے ظلم و زیادتی پر مبنی کھیل اور تجربات کی بھینٹ چڑھانے کی روش کی جانب توجہ مبذول کرائی جاتی ہے (رفتہ رفتہ یہ آگ پورے پاکستان کے تعلیمی نظام کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی)۔

  • گذشتہ برس پنجاب ۲۶ کالجوں میں بی اے کے کمزور نتائج پر، ان کالجوں کے مسائل کو سمجھنے اور ذمہ داری کا تعین کرنے کے بجاے ۲۶ پرنسپلوں کو بہ یک جنبش قلم معطل کر دیا گیا۔ اس چیز نے اصلاح سے زیادہ خوف اور بددلی پھیلانے کا کام کیا اور آخری قیمت خود طالب علموں کو دینا پڑی۔ یوں بہت سے طلبہ و طالبات داخلہ بھیجنے سے محروم رہ گئے۔
  • اس سال کے شروع میں یک لخت یہ اعلان کر دیا گیا کہ صوبہ پنجاب کے تمام اسکولوں میں انگریزی، پہلی کلاس سے لازم کردی گئی ہے۔ اعلان کرنے سے کون کسے روک سکتا ہے، مگر زمینی حقائق یہ ہیں کہ خود کالجوں میںانگریزی کے استاد نہایت قلیل تعداد میں موجود ہیں، کہاں پنجاب کے ہزاروں اسکولوں میں، انگریزی کے ایسے بخار کو مسلط کر دینا کہ جس کے جواز اور عمل کے بارے میں بے شمار سنجیدہ سوالات جواب طلب ہیں، جہاں تربیت یافتہ اساتذہ کا فقدان اور سہولیات کا فقدان پھن پھیلائے ناگ کی طرح کھڑا ہے، وہاں پر ایسا غیرحقیقت پسندانہ اعلان ایک عاجلانہ اقدام تھا۔ نتیجہ یہی ہوا کہ ایک دو ماہ بعد حکومت کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ جس چیز کا بہرحال حکومتی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔ (یاد رہے ایسا ہی اعلان ۱۹۹۴ء میں پیپلزپارٹی کے حمایت یافتہ وزیراعلیٰ منظوروٹو نے کیا تھا اور چار ماہ خاک اُڑانے کے بعد اس غیر دانش مندانہ فیصلے کو واپس لیا تھا)۔
  • آمرمطلق جنرل پرویز مشرف کے زمانے ۲۰۰۲ئ-۲۰۰۳ء میں، سابق فوجیوں، بیوروکریٹوں اور این جی اوز کے مالی و نظریاتی شکاریوں کو نوازنے کے لیے، کالجوں اور ہسپتالوں میں بورڈ آف گورنرز مسلط کرنے، اور اس پردے میں درحقیقت ان تعلیمی اداروں کو پرائیویٹائز کرنے کے احمقانہ منصوبے پر کام شروع کیا گیا۔ لیکن ڈاکٹروں، پروفیسروں اور طالب علموں کی بھرپور جدوجہد کے نتیجے میں، اس ڈاکا زنی کا راستہ روک دیا گیا۔ تمام سیاسی قوتوں بہ شمول پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ (ن)، جماعت اسلامی نے استادوں، ڈاکٹروں اور طالب علموں کی اس تحریک کی بھرپور حمایت کی اور مزاحمت کے لیے اپنا کردار ادا کیا۔

اب، جب کہ جمہوری حکومت، باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہے، معلوم نہیں اس میں شامل وہی پارٹیاں، جو بجاطور پر ماضی میں اس گھنائونے کھیل کی مخالف تھیں، انھوں نے کس طرح خود ۲۶کالجوں میں بورڈ آ ف گورنرز قائم کر کے، اور پھر اس راستے پر چلتے ہوئے مزید اداروں کا تیاپانچا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پھر یہ کہ  انھیں ایک ایسی انتظامیہ کے رحم و کرم پر چھوڑنے اور اس علاقے کے ہزاروں طالب علموں کے تعلیمی مستقبل کو تاریک کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ کیا واقعی کوئی جمہوری حکومت ایسے تعلیم دشمن اقدام کا فیصلہ کرسکتی ہے؟

  • ان کالجوں میں بورڈ آف گورنرز قائم کرکے، چار سالہ بی ایس ڈگری کورس کے اجرا کا خوش نما خواب دکھایا گیا ہے۔ یہاں پر حکومت کے مشیروں کو اس امر کی وضاحت کرنی چاہیے کہ جن چند تعلیمی اداروں کو گذشتہ ۱۵ برس کے اندر اس نوعیت کے تجربے کی بھینٹ چڑھایا گیا ہے، وہ ادارے اپنا شاندار ماضی رکھنے، اساتذہ کی بڑی تعداد اور وسائل کا اچھا خاصا اثاثہ رکھنے اور بے تحاشا قومی وسائل ہڑپ کرنے کے باوجود، تعلیمی زبوں حالی کا شکار کیوں ہیں۔ بہت سی جگہوں پر اب تک کورس کی آئوٹ لائن نہیں بن سکی، کہیں سمسٹرسسٹم کے نام پر دھاندلی اور انتقام کی آگ بھڑک رہی ہے، اور کہیں سہولیات کا فقدان سوالیہ نشان ہے۔ پھر ان مذکورہ اداروں کا اصل زور پڑھائی پر نہیں وسائل کے مالِ غنیمت کو جمع کرنے پر ہے، جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ کثیرتعداد غیرتربیت یافتہ اور چند ہزار روپوں پر استادوں کی بھرتی یا ریٹائرڈ اساتذہ کو کچھ وظیفہ دے کر کام چلانے کا کلچر روزافزوں ہے۔ چونکہ کسی مقتدرہ یا اتھارٹی کے پاس ان سے سوال جواب کرنے کی فرصت نہیں، اس لیے آخری ہدف بے چارے طالب علم کا وقت، اس کے والدین کی جیب اور پاکستان کا مستقبل ہے۔ اگر لاہور جیسے بڑے شہر کے بڑے کالجوں میں یہ تجربہ عبرت کا نشان بن چکا ہے، تو پھر مضافات میں اور وہ بھی تھوک کے حساب سے کالجوں میں یہ نظام لانا، کس تعلیمی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔

یہاں پر یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ پنجاب یونی ورسٹی جیسے باوقار تعلیمی ادارے نے بھی دوچار سال بعد، سالِ رواں سے بہت سارے شعبہ جات میں سمسٹرسسٹم ختم کر دیا ہے۔ لیکن حکومت کے مشیر، وزیراعلیٰ پنجاب کو یہ سبق دے رہے ہیں کہ: ’’آپ بورڈ آف گورنرز اور چار سالہ ڈگری کورس مع سمسٹر سسٹم پنجاب بھر میں پھیلا دیجیے۔ اس طرح ایشیائی ٹائیگر بن جائیں گے‘‘۔  یاد رہے اس سسٹم میں جو پڑھاتا ہے، وہی پرچہ بناتا ہے اور خود ہی پرچے کے نمبر لگاتا ہے۔ نمبروں کے اس جمعہ بازار کے بل پر ڈگریاں لینے والے لوگوں کے سامنے تو کئی غیرڈگری یافتگان کے   سر فخر سے بلند ہوجائیں گے، کہ بھائی ہم تم سے بہتر ہیں۔

  • اس سسٹم کو نافذ کرنے کے نتیجے میں، ان کالجوں میں دو سالہ ڈگری کورس کے جن   طلبہ و طالبات کا داخلہ ختم ہوجائے گا، ان کے مستقبل کا کیا بنے گا؟ نئے استاد، ڈاکٹریٹ کی جعلی ڈگریوں کے ساتھ کس اعزازیے پر تشریف لائیں گے اور چار سالہ ڈگری کے طلب گار طالب علم، کیسا فیضِ علم پائیں گے، اس کا فیصلہ تو سال بھر میں ہوجائے گا، لیکن ہزاروں طالب علموں کے تعلیمی مستقبل کو جو صدمہ پہنچے گا، اس کی تلافی کوئی پنجاب اسمبلی اور کوئی سپریم کورٹ نہ کرسکے گی، جب کہ اس ڈگری کے لیے ہر بورڈ آف گورنر اپنی من مانی کے ساتھ مہنگی فیسوں کا طوفان برپا کرتا رہے گا۔ کیا حکومت پنجاب، عوام کے نام پر، عوام کے بچوں کے تعلیمی اداروں کو نئے ساہوکاری نظام کی نذر کرنا چاہتی ہے؟ عقل اس منطق کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ اسی طرح یہ سوال بھی اہمیت اختیار کر جائے گا کہ دو سالہ ڈگری حاصل کرنے والے طالب علموں کا کیا مستقبل ہے؟ کیونکہ ۲۵،۳۰ کالجوں میں مہنگی تعلیم اور من مانے نمبر حاصل کرنے والے امیرزادے تو ان بے زر   طالب علموں کو پچھاڑ کر آگے نکل چکے ہوں گے۔
  • اسی طرح مبینہ طور پر حکومت اس فیصلے کو بھی آخری شکل دے رہی ہے کہ پنجاب کے ۴ہزار کالج پروفیسروں کوجبری طور پر ریٹائر کردیا جائے، تاکہ خزانے پر سے بوجھ کم ہو۔ ایک طرف خزانے سے بوجھ ہٹانے کا یہ ظالمانہ منصوبہ اور دوسری جانب ٹھیکے (یعنی کنٹریکٹ) پر غیر تربیت یافتہ اور اپنے تدریسی مستقبل کے بارے میں خوف زدہ استادوں کی بھرتی___ کیا اس نوعیت کے فیصلے سے پنجاب میں علم و ہنر کے پھول کِھلیں گے یا تعلیم و دانش کا دیوالیہ نکلے گا؟
  • شریف حکومت اپنے مرکزی حلیفوں کے ساتھ مل کر متضاد رویوں کی عکاس ایک تعلیمی پالیسی کو نافذ کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جس میں انٹر کی کلاسیں رفتہ رفتہ اسکولوں میں منتقل کردی جائیں گی، جہاں نہ لیبارٹریاں موجود ہیں اور نہ اس درجے کا تربیت یافتہ عملہ۔ دوسری جانب سوال یہ ہے کہ کالجوں کے اتنے بڑے رقبوں اور عمارتوں کا کیا بنے گا؟ جواب صاف ظاہر ہے کہ انھیں کوئی بیکن ہائوس، کوئی سٹی ٹائپ یا کوئی اور گروپ آف کالجز وغیرہ اُچک لیں گے۔ رسمی سا کرایہ دیں گے اور کسی کنگرو اسمبلی کی چھوٹی سی قرارداد سے وہ رسمی رقم بھی ہمیشہ کے لیے معاف کرا لیں گے۔ کیا اس اندھیرنگری کی طرف اسی جمہوری دور میں سفر کرنا تھا؟ یاد رہے ریلوے کے بڑے بڑے اسکول، جہاں مزدوروں کے بچے پڑھا کرتے تھے۔ آج ان کی ملکیت یا کنٹرول تبدیل ہوجانے کے سبب وہ بچے ان اسکولوں کے قریب سے بھی نہیں گزر سکتے۔
  • پنجاب حکومت کی جانب سے مبینہ طور پر ایک ٹاسک فورس اس سلسلے میں بھی کام کررہی ہے کہ جن جن کالجوں میں بی کام کی تعلیم دی جارہی ہے، اس بی کام کی تعلیم کو نجی شعبے کے حوالے کردیا جائے۔ کیا حکومت نے پولیس اور عدلیہ کو بھی رفتہ رفتہ نجی شعبے کے ہاتھوں بیچنے کا فیصلہ کرلیا ہے!

اگر پنجاب حکومت کے اعلیٰ دماغ ایسا نہیں چاہتے، تو پھر سوال یہ ہے کہ وہ ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے والا یہ کھیل کیوں کھیل رہے ہیں؟

 

جِن کا سایہ ہونے کی حقیقت

سوال: قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’ہم نے جنوں اور انسانوں کو عبادت کے لیے پیدا کیا‘‘۔ اس سے ظاہر ہے کہ جنات کا وجود ہے۔ مزید یہ کہ جنات نے رسول کریمؐ کے ہاتھ پر ایمان بھی قبول کیا اور اسے جنوں میں جاکر پھیلایا۔ کیا الگ مخلوق ہونے کے باوجود جِن انسانوں پر حاوی ہوجاتے ہیں؟ اگر کسی انسان پر جِن آجائے جیساکہ عام لوگوں کا اعتقاد ہے اور اکثر دورے پڑنے والے مریضوں کو عاملوں کے پاس علاج (جِن نکلوانے) کے لیے لے جاتے ہیں، اس کی کیا حقیقت ہے؟جادو کے علاج کے بارے میں تو احادیث سے رہنمائی ملتی ہے۔ کیا نبی کریمؐ نے جِن کا سایہ ہوجانے کا علاج بھی کیا ہے؟ کیا چلّے کاٹ کر انسان جنوں کو اپنا مطیع کرسکتے ہیں؟

جواب: جنات الگ مخلوق ہیں اور انھیں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ ان میں سے ایک تعداد نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان بھی رکھتی ہے۔ جنات عام طور پر انسانوں سے خوف کھاتے ہیں۔ اس لیے ان کی بستیوں میں نہیں پائے جاتے بلکہ جنگل و بیابان میں بسیرا کرتے ہیں اور شہروں سے کسی قدر دُور علاقوں میں آباد ہوتے ہیں۔جہاں تک ان کے انسان پر حاوی ہونے کا تعلق ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ عموماً انسانوں کا معاشرہ اور جِنوں کا معاشرہ الگ الگ ہیں، اور وہ عموماً ایک دوسرے کے کام اور راہ میں حائل نہیں ہوتے، لیکن جزوی طور پر ایسا ہوسکتا ہے کہ کوئی جِن کسی انسان کو کسی وجہ سے نقصان پہنچانے کی کوشش کرے یا کوئی انسان بعض شریر جنات کو شر سے روکنے کا کوئی عمل کرے۔ اس کی طرف قرآن پاک میں بھی اشارات ملتے ہیں، مثلاً اَلَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا کَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ (البقرہ۲: ۲۷۵) ’’وہ لوگ جو سود کھاتے ہیں قیامت کے روز نہیں اُٹھیں گے مگر ان لوگوں کی طرح جو خبطی ہوجاتے ہیں شیطان کے لپٹ جانے سے‘‘۔ یہاں شیطان سے سرکش جِن مراد ہے اور خبطی ہونے کا سبب شیطان کا اس انسان سے لپٹ جانا، مس کرنا ہے۔

بخاری، مسلم، مسنداحمد وغیرہ کتب احادیث میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک سرکش جِن نے گذشتہ رات مجھ پر حملہ کیا تاکہ مجھے نماز سے نکال دے۔ اللہ نے مجھے اس پر قابو دے دیا۔ میں نے اسے پکڑا اور اسے پکڑ کر زور سے دبوچا اور ارادہ کیا کہ اسے مسجد کے ستونوں میں سے کسی ایک ستون کے ساتھ باندھ دوں تاکہ تم سب صبح کے وقت اسے دیکھو۔ پھر مجھے اپنے بھائی سلیمان کی دعا یاد آئی: ’’اے میرے رب مجھے ایسی حکومت عطا فرما، جو میرے بعد کسی کے لیے مناسب نہ ہو، تب میں نے یہ ارادہ چھوڑ دیا اور اللہ تعالیٰ نے اسے ذلیل کر کے لوٹا دیا‘‘(الفتح الربانی لترتیب مسنداحمد الشیبانی، ج۲۰، ص ۲۴، باب ماجاء فی خلق الجن)۔ عفریتاً من الجن کے الفاظ مسند احمد میں ہیں۔ بخاری میں اس کے لیے شیطان کا لفظ آیا ہے۔ (بخاری، باب مایجوز من العمل فی الصلاۃ، ج۱، ص۱۶۱، طبع کراچی، حدیث نمبر ۱۲۰۹، طبع دارالسلام)

جنات پر اللہ تعالیٰ نے سلیمان علیہ السلام کو جو تسلط دیا، اس کا ذکر سورئہ نمل اور سورئہ سبا میں تفصیلاً مذکور ہے۔ تختِ بلقیس مجلس کے خاتمے سے پہلے لے آنے کا اعلان جس جِن نے کیا اسے قرآن پاک میں عفریت من الجن کہا گیا ہے۔ لیکن صاحب ِ علم نے کہا: میں آنکھ جھپکنے سے پہلے تخت لے آتا ہوں چنانچہ تخت آگیا۔ جنات اس وقت تک بیت المقدس کی تعمیر میں لگے رہے جب تک سلیمان علیہ السلام کی لاٹھی کو دیمک نے نہ کھا لیا اور وہ گر نہ گئے۔ اس وقت جنات پر واضح ہوگیا کہ وہ غیب دان نہیں۔ انھوں نے کہا کہ اگر ہمیں غیب کا علم ہوتا تو ہمیں سلیمان علیہ السلام کی موت کا علم ہوجاتا اور ہم ان کی وفات کے بعد تعمیری کاموں کے سبب اس قدر تکلیف نہ اٹھاتے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم چھے مرتبہ جنات کو تعلیم و تربیت دینے کے لیے ان کے علاقے میں گئے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے وقت اٹھایا تاکہ میں آپؐ کے ساتھ جائوں۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم چلتے گئے یہاں تک کہ فلاں فلاں مقام پر پہنچے تو وہاں پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ مجھے بٹھایا اور اس جگہ کے اردگرد ایک گول خط کھینچا اور فرمایا: اس خط کے اندر رہنا اگر اس خط کے باہر نکلے تو ہلاک ہوجائو گے۔ وہ کہتے ہیں کہ پھر میں اسی خط کے اندر رہا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اتنے دُور چلے گئے جتنا دُور ایک کنکر پھینکا جائے تو جاکر گرے، یا اس سے کچھ زیادہ دُور۔ پھر میں نے لمبے تڑنگے دبلے پتلے اور ننگے بدن والے لوگ دیکھے لیکن ان کا ستر نظر نہیں آتا تھا۔ وہ کثیر تعداد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیڑ بن کر جمع ہوگئے جیساکہ ایک دوسرے پر چڑھے ہوئے ہوں۔ اس پر میں بہت زیادہ خوف زدہ ہوگیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم انھیں قرآن پاک سنا رہے تھے اور وہ آپ پر ہجوم کرتے جاتے تھے۔ میری طرف آتے اور میرے دائرے کے اردگرد گھومتے اور میرے درپے ہونے کا ارادہ کرتے۔ میں ان سے بہت زیادہ خوف زدہ ہوا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے پیش نظر اپنی جگہ پر بیٹھا رہا۔ جب صبح ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح تشریف لائے جیسے کہ بہت تھکے ہوئے ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: میں اپنے آپ کو بوجھل محسوس کرتا ہوں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سرمبارک میری گود میں رکھا اور سو گئے۔ (الفتح الربانی، باب خلق الجن، حدیث ابن مسعود، ج ۲۰، ص ۲۶)

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے صدقہ فطر کی حفاظت پر مامور کیا۔ ایک رات دیکھتا ہوں کہ ایک شخص غلے سے مٹھیاں بھربھر کر اپنی چادر میں ڈال رہا ہے۔ میں آیا اور اسے پکڑ لیا۔ اس نے کہا کہ میں غریب آدمی ہوںاور عیال دار ہوں، مجھے چھوڑ دے۔ میں نے کہا: نہیں میں تجھے صبح رسولؐ اللہ کے حضور پیش کروں گا۔ اس نے کہا: مجھے چھوڑ دو میں آیندہ نہیں آئوں گا، چنانچہ میں نے اسے چھوڑ دیا۔ صبح جب میں رسولؐ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؐ نے پوچھا: ابوہریرہ تمھارے قیدی کا کیا بنا؟ میں نے واقعہ بیان کر دیا۔ آپؐ نے فرمایا: وہ پھر آئے گا۔ مجھے رسولؐ اللہ کے فرمان کی وجہ سے یقین تھا کہ وہ پھر آئے گا، چنانچہ میں انتظار میں تھا۔ وہ پھر آگیا اور اسی طرح مٹھیاں بھرنے لگا۔ میں نے اسے پکڑا تو پھر اس نے کہا: میں محتاج ہوں، اہل وعیال زیادہ ہیں، مجھے چھوڑ دو آیندہ نہیں آئوں گا۔ مجھے ترس آیا۔ میں نے اسے پھر چھوڑ دیا۔ صبح جب رسولؐ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؐ نے پھر اسی طرح پوچھا کہ آپ کے رات کے قیدی کا کیا ہوا؟ میں نے پھر واقعہ بیان کیا۔ آپؐ نے فرمایا: اس نے تجھ سے جھوٹا وعدہ کیا ہے، وہ پھر آئے گا، چنانچہ وہ تیسری رات پھر آگیا۔ اب جو میں نے پکڑا تو کہا کہ اب نہیں چھوڑوں گا۔  صبح رسولؐ اللہ کی خدمت میں پیش کروں گا۔ اس نے کہا: آج پھر مجھے چھوڑ دو، میں تمھیں ایسے کلمے بتلاتا ہوں کہ وہ پڑھ لیا کرو تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمھاری حفاظت ہوگی اور کوئی شیطان تمھارے قریب نہیں آئے گا۔

راوی بیان کرتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ کو اس طرح کی معلومات حاصل کرنے کا بہت شوق تھا اس لیے ابوہریرہؓ نے اس سے پوچھ لیا کہ وہ کلمات کیا ہیں؟ اس نے آیت الکرسی پڑھ کر سنائی اور کہا کہ آیت الکرسی پڑھ لو تو کوئی آکر چوری نہ کرسکے گا، چنانچہ ابوہریرہؓ نے اسے پھر چھوڑ دیا۔ صبح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے تو آپؐ نے پھر پوچھا: ابوہریرہؓ! تمھارے رات کے قیدی کا کیا بنا؟ ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ میںنے پورا ماجرا سنا دیا تو آپؐ نے فرمایا: وہ ہے تو جھوٹا، لیکن یہ نسخہ جو تمھیں بتلایا ہے اس میں اس نے سچ کہا ہے۔ پھر پوچھا: جانتے ہو یہ کون تھا؟ عرض کیا: یارسولؐ اللہ، نہیں۔ آپؐ نے فرمایا: وہ شیطان تھا۔

امام بخاری نے اس واقعے پر باب باندھا ہے کہ جب کسی کو وکیل بنایا ہو اور وکیل نے کوئی چیز کسی کو چھوڑ دی اور موکل نے اس کی اجازت دے دی تو ایسا کرنا صحیح ہے (بخاری، کتاب الوکالۃ، باب۱۰، حدیث نمبر ۲۳۱۱، ص ۴۵۵، طبع دارالسلام)۔ حضرت ابوہریرہؓ کی صدقہ الفطر پر ڈیوٹی تھی۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے صدقۃ الفطر کے غلہ پر وکیل تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم موکل تھے۔ جب رات کو چوری کرنے والے نے چوری کی، تو حضرت ابوہریرہؓ نے اس کی فریاد سن کر تینوں دن اسے جانے دیا۔ اس پر رسولؐ اللہ نے ابوہریرہؓ سے مواخذہ نہ کیا بلکہ اجازت دے دی۔ اس سے ثابت ہوا کہ وکیل کا فیصلہ موکل کی اجازت پر موقوف ہے۔ موکل اجازت دے دے تو فیصلہ نافذ ہوجاتا ہے۔ جس طرح حضرت ابوہریرہؓ کا فیصلہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بعد نافذ ہوگیا۔

اس سے معلوم ہوا کہ شیطان کو بھی پتا ہے کہ اسے کس طرح روکا جاسکتا ہے، اور روکنے کا عمل کیا ہے۔ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شیطان کی یہ بات سچی ہے کہ آیت الکرسی شیطان کے لیے روک ہے۔

حدیث کی تمام کتابوں میں کتاب الاذان کے اندر اذان کی یہ کیفیت بیان کی گئی ہے کہ اسے سن کر شیطان بھاگ کھڑا ہوتا ہے اور اس کی ریح نکل جاتی ہے۔ یہاں تک کہ ایسی جگہ پہنچ جاتا ہے جہاں اذان کی آواز نہ پہنچے۔ لہٰذا آیت الکرسی اوراذان دونوں شیطان کو بھگانے کے عمل ہیں۔

حضرت عثمان بن ابی العاصؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے طائف کے علاقے میں عامل بناکر بھیجا۔ میں نے محسوس کیا کہ نماز کے دوران کوئی چیز آکر میرے اور نماز کے درمیان حائل ہوجاتی ہے جس کے سبب مجھے پتا نہیں ہوتا تھا کہ میں کیا پڑھتا ہوں۔ میں نے جب ایسا محسوس کیا تو رسولؐ اللہ کے پاس واپس آگیا۔ آپؐ نے پوچھا: ابن ابی العاص ہو؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں، یارسولؐ اللہ۔ آپؐ نے پوچھا: کس وجہ سے واپس آئے ہو؟ میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ نماز میں کوئی چیز رکاوٹ بن کرکھڑی ہوجاتی ہے۔ میں نہیں جانتا کہ میں کیا پڑھ رہا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: یہ شیطان ہے۔ پھر فرمایا: قریب ہوجائو۔ میں قریب ہوا اور پائوں کی انگلیوں پر دوزانو ہوکر بیٹھ گیا۔ پھر آپؐ نے میرے سینے پر ہاتھ مارا اور میرے منہ میں اپنا لعاب لگایا اور فرمایا: اے اللہ کے دشمن نکل، آپؐ نے تین مرتبہ ایسا عمل کیا۔ اس کے بعد فرمایا: جائواپنی ڈیوٹی پر۔ حضرت عثمانؓ کہتے ہیں کہ میں واپس چلا آیا، اس کے بعد مجھے کبھی بھی اس طرح کی تکلیف سے واسطہ نہیں پڑا۔ (ابن ماجہ، باب الفزع والارق)

عبدالرحمن ابن ابی لیلیٰ اپنے والد ابی لیلیٰ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک دیہاتی آیا اور عرض کیا: میرا ایک بھائی تکلیف میں ہے۔ آپؐ نے پوچھا: تیرے بھائی کو کیا تکلیف ہے؟ میں نے کہا: اسے جِن لگ گئے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: اسے میرے پاس لے آئو۔ وہ آگیا تو آپؐ نے اسے اپنے سامنے بٹھایا پھر اس پر فاتحہ، سورئہ بقرہ کی پہلی چار آیات اور دو آیات درمیان سے وَاِلٰھُکُمْ اِلٰـہٌ وَاحِدٌ اور آیت الکرسی اور تین آیات آخر کی اور ایک آیت آل عمران کی پڑھی۔ میرا گمان ہے کہ وہ آیت شہادۃ ہے، شَھِدَ اللّٰہُ اَنَّہٗ لَا اِلٰہَ اِلاَّ ھُوَ…الخ۔ اور ایک آیت اعراف کی اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ، اور ایک آیت مومنون کی وَمَنْ یَدْعُ مَعَ اللّٰہِ اِلٰھًا آخَرَ لَابُرْھَانَ لَہٗ بِہٖ، اور ایک آیت سورئہ جن کی وَاَنَّہٗ تَعَالٰی جَدُّ رَبِّنَا، اور   ۱۰آیات صافات کے شروع سے اور تین آیات سورئہ حشر کے آخر سے اور قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ    اور معوذتین پڑھ کر دم کیا۔ پھر وہ اعرابی اس حالت میں اُٹھا کہ اسے کوئی بھی تکلیف نہ تھی۔   (ابن ماجہ، باب الفزع، والارق)

یہ چندمثالیں ہیں۔ ان سے اتنا پتا چلتا ہے کہ بعض اوقات جِن انسان کو کسی درجہ میں تکلیف دے سکتے ہیں لیکن ایسا شاذونادر ہوتا ہے اور اس کا علاج قرآن و حدیث میں موجود ہے۔ جیساکہ ابن ماجہ کے مذکورہ دو واقعات سے ہوتا ہے اور ابوہریرہؓ کا واقعہ بھی اس بات کا ثبوت ہے۔ رہی یہ بات کہ چلّہ کشی وغیرہ کا اس میں کچھ دخل ہے۔ کیا اس طرح سے کوئی شخص جنات نکالنے کے قابل ہوجاتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جس شخص کا قرآن و سنت پر پختہ یقین ہو اور اس کی قوت ارادی اور تعلّق باللہ مضبوط ہو، تو اسے چلاکشی کی ضرورت نہیںہے لیکن اگر قوتِ ارادی کمزور ہو تو پھر اسے مضبوط کرنے کے لیے عبادات میں انہماک پیدا کرکے قوتِ ارادی اور تعلّق باللہ کو مضبوط کیا جائے تاکہ دم کااثر بیمار تک پہنچایا جاسکے۔

علامہ ابن قیم فرماتے ہیں: ’’الرُّقْیَۃُ بَالَّراقِیٌ، دم کی تاثیر دم کرنے والے کی قوت پر موقوف ہے۔ وہی سورئہ فاتحہ صحابہ کرامؓ نے بچھو کے کاٹے ہوئے پر پڑھ کر پھونکی تو وہ بالکل تندرست ہوگیا، ایسا جیسا کسی چیز نے کاٹا نہیں، اور وہی سورئہ فاتحہ دوسرے لوگوں کے پاس بھی ہے اور وہ اسے پڑھ کر پھونکتے ہیں تو کچھ اثر نہیں ہوتا۔ اس کا سبب دم کرنے والے کی روحانی قوت کا فرق ہے۔ صحابہ کرامؓ نے تو نہ چلّہ کشی کی تھی، نہ انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا ہی تھا کہ   سورئہ فاتحہ دم ہے۔ انھوں نے اپنے اجتہاد سے دم کیا اور دم نے اثر دکھلا دیا۔ اس طرح کے دموں کی تاثیر ان اہلِ علم وعمل کی زبانوں میں بھی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے دنیا میں دعوت، تعلیم وتربیت اور اقامت ِدین کی جدوجہد کرتے ہیں۔ جِن ان کے قریب نہیں پھٹکتے، وہ ان سے خوف زدہ رہتے ہیں اور اگر کبھی بھول کر ان کے پاس آجائیں جس طرح حضرت عثمان بن ابی العاص کے پاس آگئے تھے، تو اس کا دفاع اور دم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی پیروی کی توفیق عطا فرمائے، آمین!

یہ اہم بات بھی ذہن میں رکھیے کہ اکثر لوگ جِنوں کے آسیب کے وہم میں مبتلا ہوتے ہیں، حقیقتاً آسیب نہیں ہوتا اور پیشہ ور عامل ان لوگوں کے وہم کو اور زیادہ کردیتے ہیں، اور اس طرح سے مال و دولت جمع کرتے ہیں۔ اس طرح کے لوگوں سے بچنے کی ضرورت ہے۔ (مولانا عبدالمالک)


اشراق،چاشت اور اوابین : ایک نماز کے تین نام؟

س: احادیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اشراق، اوابین اور چاشت (صلوٰۃ الضحیٰ) ایک ہی نماز کے تین نام ہیں، البتہ سورج نکلنے کے وقت نماز ادا کرنے اور ۱۰ یا ۱۱بجے دن نماز ادا کرنے پر ثواب مختلف ہے۔ الجھن یہ ہے کہ سعودی عرب میں اوّابین کے نوافل صبح ۱۰ یا ۱۱بجے ادا کیے جاتے ہیں، جب کہ پاکستان میں ان نوافل کو بعد      نمازِ مغرب ادا کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے احادیث کے حوالے بھی دیے جاتے ہیں۔

صوفی عبدالحمید خان سواتی نے اپنی کتاب: نماز مسنون کلاں میں ایک باب: صلٰوۃ الضحٰی (چاشت کی نماز جو صلٰوۃ الاوابین بھی ہے) کے تحت لکھا ہے کہ: ’’یہ تقریباً ۹ تا۱۰ بجے پڑھی جاتی ہے، اس کی کم سے کم دو رکعت اور زیادہ سے زیادہ ۱۲ رکعات ہیں۔ صحیح احادیث میں صلٰوۃ الضحٰی کو ہی صَلَاۃُ الْاَوَّابِیْنَ کہا گیا ہے۔ حضرت زید بن ارقمؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  ’’یہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع رکھنے والوں کی نماز ہے۔ اس کا وقت وہ ہے جب اُونٹوں کے بچوں کے پائوں ریت میں گرم ہونے لگتے ہیں‘‘ (مسلم، ج۱، ص ۲۵۷، مع نووی، ص ۲۵۰)، (نماز مسنون کلاں ،ص ۵۶۱)

اسی کتاب کے ایک دوسرے مقام پر صوفی عبدالحمید صاحبؒ نمازِاشراق قرار دیتے ہوئے حدیث روایت کرتے ہیں: ’’حضرت انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے صبح کی نماز باجماعت پڑھی، پھر وہ بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا رہا، یہاں تک کہ سورج طلوع ہوگیا۔ پھر اس نے دو رکعت نماز (اشراق) ادا کی تو اس کو حج و عمرہ کا پورا پورا ثواب ملے گا‘‘۔ (الترغیب والترہیب، ج۱، ص۱۶۴)، (ایضاً، ص۵۵۹)

آگے چل کر وہ مزید لکھتے ہیں کہ: ’’نمازِ مغرب کے بعد چھے رکعات نوافل کی بھی احادیث میں بہت فضیلت آئی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے مغرب کے بعد چھے رکعات نماز پڑھی اور ان کے درمیان اس نے کوئی بُری بات زبان سے نہیں نکالی تو اس کو بارہ سال کی عبادت کے برابر ثواب ملے گا (ترمذی، ص۸۹، ابن ماجہ، ص ۹۸)۔ بعض لوگ اس نماز کو بھی صَلَاۃُ الْاَوَّابِیْنَ کہتے ہیں۔

اس سلسلے میں بھی صحابہ کرامؓ سے آثار ملتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا: صلاۃ الاوّابین جب مغرب کی نماز پڑھ کر نمازی فارغ ہوں تو اس سے لے کر اس وقت تک ہوتی ہے جب عشاء کا وقت آجائے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ بے شک فرشتے ان لوگوں کو گھیر لیتے ہیں جو مغرب اور عشاء کے درمیان نماز پڑھے ہیں اور یہ بھی صلاۃ الاوّابین ہے (شرح السنۃ، ج۳، ص۴۷۴، کنزالعمال، ج ۸، ص ۳۵، بحوالہ ابن زنجویہ)۔ لغوی اعتبار سے اس کو بھی صلاۃ الاوّابین یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والوں کی نماز کہہ سکتے ہیں، لیکن حقیقی صلاۃ الاوّابین، وہ چاشت ہی کی نماز ہے‘‘ (ایضاً، ص ۵۶۶)۔ اس حوالے سے حقیقی صورت حال کیا ہے، واضح فرما دیں۔

ج: صلٰوۃ الاشراق ، صلٰوۃ الضحٰی اور صلٰوۃ الاوّابین کے بارے میں احادیث کی روشنی میں علما کے درمیان علمی اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک یہ ایک ہی نماز کے تین نام ہیں، اور بعض کے نزدیک اشراق اور چاشت ایک ہیں اور اوّابین مغرب کے بعد ہے۔ بعض کے نزدیک جیسے صوفی عبدالحمید صاحبؒ نے نقل کیا ہے جو علامہ سیوطی اور علی متقی کی راے ہے کہ اشراق الگ نماز ہے، اور چاشت اور اوّابین الگ ہیں اور مغرب کے بعد اوّابین لغوی معنی میں اوّابین ہے۔ علامہ انور شاہ کشمیری کی بھی یہ راے ہے کہ مغرب کے بعد اوّابین لغوی اور عرفی معنی میں اوّابین ہے۔ تفصیل درج ذیل ہے: صلٰوۃ الاشراق اور صلٰوۃ الضحٰی (چاشت) کے بارے میں علامہ انور شاہ کشمیریؒ لکھتے ہیں: فقہا اور محدثین کے نزدیک دونوں ایک ہیں، البتہ علامہ سیوطیؒ اور علی متقی (صاحب کنزالعمال) کے نزدیک دونوں الگ الگ ہیں۔ وہ ایک روایت سے استدلال کرتے ہیں جو حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اشراق پڑھی جب سورج اتنا بلند تھا جتنا عصر اور مغرب کے درمیان ہوتا ہے، اور ضحی اس وقت پڑھی جب سورج اتنا بلند تھا جتنا ظہر اور غروب کے درمیان ہوتا ہے۔ اس روایت کو انھوں نے حسن قرار دیا ہے (العرف الشذی باب ماجاء فی صلٰوۃ الضحٰی، ص ۲۱۹، طبع مکتبہ رحمانیہ، لاہور)۔ اس روایت کے پیش نظر صلٰوۃ الاشراق اور صلٰوۃ الضحٰی (چاشت)دو قرار پائیں ہیں۔ اس لیے اس کو مدنظر رکھنے والوں پر اعتراض مناسب نہیں۔

مولانا محمد منظورنعمانیؒ نے بھی معارف الحدیث میں جمہور فقہا و محدثین کی طرح   اشراق اور ضحی کو ایک قرار دیا ہے۔ انھوں نے عنوان قائم کیا ہے: ’’چاشت یا اشراق کے نوافل‘‘۔   اس عنوان کے تحت جو روایات نقل کی ہیں ان میں اُم ہانیؓ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر چاشت کے وقت آٹھ رکعات پڑھیں۔ دوسری روایت حضرت ابوہریرہؓ کی ہے کہ مجھے میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے تین چیزوں کی وصیت فرمائی کہ ہر مہینے میں تین دن کے روزے رکھو، اور چاشت کی دو رکعتیں اور سونے سے پہلے وتر پڑھوں۔ (معارف الحدیث، ج ۳ ، ص ۳۵۵)

جناب صوفی عبدالحمید خاں سواتی کا حوالہ آپ نے نقل کیا ہے کہ ان کے نزدیک اشراق اور چاشت الگ الگ نمازیں ہیں، اور چاشت اور اوّابین کو انھوں نے ایک قرار دیا ہے۔    انھوں نے عنوان قائم کیا ہے:’’صلٰوۃ الضحٰی، چاشت کی نماز جو صلٰوۃ الاوّابین بھی ہے‘‘۔ علامہ نوویؒ کے نزدیک اشراق، ضحی اور اوّابین ایک ہیں۔ انھوں نے ریاض الصالحین میں   صلٰوۃ الضحٰی کے دو باب قائم کیے ہیں۔ ایک باب کے الفاظ یہ ہیں: یہ باب صلٰوۃ الضحٰی کی فضیلت اور اس کی کم سے کم، درمیانی اور اکثر رکعتوں اور اس پر پابندی کے بیان میں ہے‘‘۔ دوسرے باب میں اس کے وقت کا بیان ہے کہ وہ سورج کے بلند ہونے سے لے کر زوال تک ہے، اور اس کا اس وقت پڑھنا افضل ہے جب گرمی زیادہ ہوجائے اور سورج اچھی طرح بلند ہوجائے۔ پھر زید بن ارقمؓ کی روایت نقل کی ہے جس کا آپ نے حوالہ دیا ہے۔ امام ترمذیؒ نے مغرب کے بعد چھے رکعتوں کا تذکرہ کیا ہے، اور حضرت ابوہریرہؓ کی روایت نقل کی ہے کہ ’’جو شخص چھے رکعتیں پڑھے گا اور درمیان میں کوئی بُری بات نہیں کرے گا، تو یہ ۱۲ سال کی عبادت کے برابر شمار ہوگی۔ امام ترمذیؒ فرماتے ہیں کہ جس راوی پر اس روایت کا انحصار ہے وہ عمر بن عبداللہ بن ابی خثعم ہے اور اسے انھوں نے منکرالحدیث قرار دیا ہے۔ حضرت عائشہؓ سے بھی روایت نقل کی ہے کہ جو شخص ۲۰ رکعتیں پڑھے گا، اس کے لیے جنت میں اللہ تعالیٰ الگ گھر بنا دیں گے لیکن اس پر تنقید نہیں کی۔ لیکن یہ بھی ضعیف ہے۔

اس بحث کا خلاصہ یہ ہے: علامہ نووی اور ان کے ہم خیال علما کا مسلک یہی ہے کہ سورج نکلنے کے بعد جب مکروہ وقت نکل جائے تو اس وقت سے لے کر زوال سے پہلے تک ایک نماز ہے جس کے تین نام اور تین اوقات ہیں۔ اس نماز کا افضل وقت وہ ہے جس وقت تپش اچھی خاصی ہوجائے، یعنی ۱۰ بجے سے لے کر ۱۱بجے کے درمیان کا وقت جسے اوّابین کی نماز کہا گیا ہے اور مغرب کے بعد چھے رکعتوں کا بھی ذکر ہے۔ ان میں سے ایک روایت پر تو امام ترمذیؒ نے تنقید کی ہے لیکن دوسری بھی ضعیف ہے۔ علامہ انور شاہ کشمیریؒ نے فرمایا: اس کے بارے میں کوئی بھی صحیح حدیث نہیں ہے۔ لوگوں کے عرف میں اس کو اوّابین کہا جاتا ہے اور اس کے ضعف کے باوجود اس پر عمل کیا جاتا ہے (العرف الشذی علی الترمذی، ج۱، ص ۲۰۹)۔ اس لیے کہ فضائل اعمال میں ضعیف حدیث بھی قابلِ عمل ہے۔ اس لیے کہ نفسِ عمل تو قطعی دلیل سے ثابت ہوتا ہے۔ مثلاً نوافل توتین اوقات کے علاوہ ہر وقت پڑھے جاسکتے ہیں لہٰذا جب ان تین اوقات کے علاوہ باقی اوقات میں نوافل کی فضیلت کسی حدیث میں جو ضعیف ہو ذکر ہوگی تو اس کی بنیاد پر اس وقت نوافل کو دوسرے اوقات کے مقابلے میں ترجیح اسی حدیث کی وجہ سے دی جاسکتی ہے۔ مغرب کے بعد کی اوّابین کی یہی اصولی بنیاد ہے۔ اس لیے اگر کوئی شخص اس وقت چھے نوافل ادا کرتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اس لیے کہ نفل صرف طلوع، غروب اور نصف النہار میں منع ہیں۔ باقی اوقات میں ممنوع نہیں ہیں۔ اسی طرح اس بات کی بھی گنجایش ہے کہ اشراق اور ضحی (چاشت) کو الگ الگ قرار دیا جائے، مگر ضحی اور اوّابین کے ایک ہونے پر اتفاق نظر آتا ہے، جیساکہ امام نوویؒ نے ذکر کیا ہے۔ (ع - م)


دو منزلہ مکان کی تعمیر کا جواز

س: مدینہ میں ایک صحابیؓ نے حضوؐر کے ناراض ہونے پراپنا دو منزلہ مکان ڈھا دیا۔ پھر حضوؐر اُن سے راضی ہوگئے۔ حضوراکرمؐ کی ازواجِ مطہراتؓ کے حجروں کی کُل لمبائی شاید نو میٹر تھی۔ ایک صاحب نے درج بالا واقعے کی تشریح یوں کی کہ اُس وقت اسلام کو زندگی اور موت کا مسئلہ درپیش تھا۔ کسی دوسری طرف مال اوروقت صَرف کرنا اسلام کی کمزوری کا باعث بن سکتا تھا۔ اس لیے حضوؐر نے اسے ناپسند فرمایا تھا۔ اگر دیکھا جائے تو موجودہ حالات بھی کچھ ایسے ہی ہیں۔ اِن حالات میں ہمارا پختہ دو منزلہ مکانات میں رہنا شرعی نقطۂ نظر سے کیسا ہے؟ کیا یہ تغیر و تبدل احکام بلحاظِ احوال میں آئے گا؟

ج: پختہ یا دو منزلہ مکان کی تعمیر کا تعلق ایک فرد کی ضرورت کے ساتھ ہے اور ضرورت کا  پورا کرنا دین کے مقاصد میں سے ہے۔ دوسری اگر ایک شخص کی ضرورت تو ہو دو کمروں کی اور وہ بنائے ۲۰کمرے تو یہ اسراف ہونے کی بناپر قرآن و سنت کے منافی ہوگا۔ شارعِ اعظم علیہ السلام کو اپنے اصحاب کے بارے میں معلوم تھا کہ عموماً ان کی ضروریات کیا ہیں۔ اس لیے اگر کسی صحابیؓ نے ضرورت سے زیادہ کسی کام کو کرنا چاہا تو آپؐ نے اسے اللہ کی گرفت سے بچانے کے لیے متوجہ کیا جو آپؐ کے فرائض (الدین نصیحۃ) میں شامل تھا۔

دو منزلہ مکان بعض صورتوں میں ایک خاندان کی رہایشی ضرورت ہوگی اور بعض صورتوں میں مالی ضرورت۔ ثانی الذکر شکل میں اگر مکان کی ایک منزل کرایے پر دی ہو اور ایک میں صاحب ِ مکان خود رہتا ہو تو کرایے کی شکل میں آنے والی آمدنی سے وہ اپنا گزارا کرسکتا ہے۔ لیکن اگر دو منزلہ نہیں ایک منزلہ مکان بنانے کا مقصد بھی دنیا کو دکھانا ہو کہ وہ کتنا مال دار ہے تو یہ سراسر ریا و تکبر میں شمار کیا جائے گا جس کی قرآن وسنت شدت سے ممانعت کرتے ہیں۔

جیساکہ آغاز میں عرض کیا گیا کہ اصول زمین کی پیمایش کا نہیں ہے کہ کتنے لمبے اور کتنے چوڑے پلاٹ پر مکان بنانا اسلامی ہے اور اُس سے مختلف پیمایش پر پلاٹ بنانا ناجائز، بلکہ اس کا تعلق ایک خاندان کی ضروریات سے ہے۔ اس بنا پر رقبے کی کوئی قید نہیں لگائی جاسکتی۔ ہر فرد کی ضروریات کے لحاظ سے بغیر اسراف کے مکان بنانا اس کا اسلامی حق ہے۔(ڈاکٹر انیس احمد)

تذکرۂ معاصرین، مالک رام۔ ناشر: الفتح پبلی کیشنز، ۳۹۲-اے، سٹریٹ ۵-اے، لین۵، گلریز ہائوسنگ سکیم-۲، راولپنڈی۔ فون: ۵۱۷۷۴۱۳-۰۳۲۲۔ صفحات: ۱۰۶۰۔ قیمت:۱۵۰۰ روپے۔

مالک رام (۱۹۰۶ئ-۱۹۹۳ئ) اُردو کے معروف محقق، ادیب اور مصنف تھے۔ انھیں ’ماہرغالبیات‘ بھی کہا جاتا ہے مگر وہ خود عمربھر نام و نمود سے بے نیاز رہتے ہوئے، ایک سنجیدہ مزاج قلم کار کی طرح کام کرتے رہے۔ انھوں نے مولانا ابوالکلام آزاد کی غبارِخاطر، خطباتِ آزاد اور ترجمان القرآن پر بڑی لگن کے ساتھ عالمانہ حواشی لکھے۔ مذکورہ کتابیں،بھارت کے بعد پاکستان میں بھی کئی بار شائع ہوچکی ہیں۔ بسلسلہ ملازمت وہ طویل عرصے تک قاہرہ میں مقیم رہے۔ اس دوران اُنھیں ترکی، اور بیش تر عرب ملکوں کے دورے کرنے کا موقع ملا۔ مالک رام علومِ اسلامیہ سے بھی دل چسپی رکھتے تھے۔ ان کی ایک معروف تصنیف عورت اور اسلامی تعلیم (۱۹۵۱ئ) کے عربی اور انگریزی تراجم شائع ہوچکے ہیں۔ ان کی دل چسپی کا ایک اور اہم موضوع ’وفیات نگاری‘ تھا۔ تذکرہ ماہ و سال (۱۹۹۱ئ) میں انھوں نے اُردو ادب سے متعلق مرحوم شخصیات کی تواریخ ولادت و وفات یک جا کی تھیں مگر بکثرت غلطیوں کی وجہ سے اسے دنیاے ادب و تحقیق میں اعتبار حاصل نہ ہوسکا۔ اس سلسلے کی ان کی دوسری زیرنظر کتاب چار حصوں پر مشتمل تھی۔ اب پہلی بار ایک نئی ترتیب سے اس کا یک جِلدی اڈیشن شائع کیا گیا ہے۔ اس مفید اور معلومات افزا کتاب میں ۲۱۹ ایسے ادیبوں اور شاعروں کے سوانحی حالات مع نمونۂ کلام ملتے ہیں جو ۱۹۶۷ء سے ۱۹۷۷ء تک کے عرصے میں راہی ملکِ بقا ہوئے۔ ان میں رشید احمد صدیقی، حمید احمد خاں، امتیاز علی تاج، سید وقارعظیم، باقی صدیقی، سجاد ظہیر، عبدالرحمن چغتائی، دیوان سنگھ مفتون، ملک نصراللہ خاں عزیز اور غلام رسول مہر جیسے معروف مشاہیرِ ادب کے ساتھ ہزار لکھنوی، ماچس لکھنوی، لالہ لال چند فلک، صوات ٹونکی، محشر مرزا پوری، طالب رزاقی، شمس منیری، صوفی بانکوٹی، لائق لکھنوی جیسے غیرمعروف اہلِ قلم کا تذکرہ بھی شامل ہے۔

یہ کتاب فقط وفیات نامہ نہیں، اچھے خاصے سوانحی تعارفی مضامین کا مجموعہ ہے۔ مصنف نے یہ مضامین علمی مجلس دہلی (جو انھی کی قائم کردہ تھی) کے سہ ماہی جریدے تحریر میں لکھنا شروع کیے تھے۔ اسی طرح کے تعزیتی مضامین مرحوم ماہرالقادری فاران کراچی میں لکھا کرتے تھے، مگر فاران کے اس نوع کے مضامین اپنے معیار اور درجہ بندی میں شاید مالک رام کے مضامین سے اُوپر جگہ پائیں گے۔ ایک فروگذاشتوں کے باوجود، تاریخ ادب اُردو، خصوصاً سوانحی ادب میں مالک رام کے ان مضامین کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ طالب علم تحقیق کاروں کے لیے خاص طور پر یہ بہت راہ نما اور مفید ہیں۔ ڈاکٹر عقیل نے تذکرۂ معاصرین کو ’’اپنے دور کے حوالے سے ممتاز اہلِ قلم اور اہلِ علم و دانش کے تعارف و مطالعے کا ایک بنیادی اور ناگزیر ماخذ‘‘ قرار دیا ہے۔ (ص ۳۸)

زیرنظر یک جِلدی اڈیشن کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ ابتدا میں ’وفیات نویسی کی روایت‘ کے عنوان سے فارسی کے معروف محقق ڈاکٹر عارف نوشاہی اور اُردو کے معروف محقق ڈاکٹر معین الدین عقیل کے تفصیلی مقدمے شامل ہیں (ڈاکٹر نوشاہی ماہرالقادری کے تعزیتی مضامین کی دو حصوں پر مشتمل کتاب یاد رفتگان کا ذکر کرنا بھول گئے)۔ ان مقدموں میں نہ صرف اُردو بلکہ عربی، فارسی اور ترکی وفیات نگاری کی پوری تاریخ آگئی ہے۔ کتاب کا دوسرا امتیازی پہلو، اس کے آخر میں شامل دو ضمیمے ہیں۔ پہلا ضمیمہ ۲۱۹ شخصیات کی سنہ وار تاریخ ہاے وفات پر مشتمل ہے، اور دوسرا ضمیمہ کتب و رسائل کے اشاریے پر مبنی ہے۔ ناشر نے یہ کتاب بصد ذوق و شوق اور نہایت اہتمام سے عمدہ معیار پر شائع کی ہے۔ قیمت زیادہ ہے یا مناسب؟ اس کا انحصار اول: خریدار کی ضرورت اور دوم: اس کی قوتِ خرید پر ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


میرے تجزیات (تحریکِ آزادیِ کشمیر)،عبدالرشید ترابی۔ ناشر: کشمیر انفارمیشن اینڈ ریسرچ سنٹر، چنار چیمبرز، گلی نمبر ۴۸، بی سکس- ون/ون، اسلام آباد۔ فون: ۵۵۱۱۴۱۷-۰۵۱۔ صفحات: ۳۱۷۔ قیمت: ۳۵۰ روپے۔

تحریک آزادیِ کشمیر مختلف مراحل سے گزری اور خطرات سے دوچار ہوئی، لیکن اہلِ کشمیر کے پاے استقامت میں کوئی لغزش نہیں آئی۔ عالمی قوتوں کے دبائو، بھارتی حکومت کی چالوں اور حکومتِ پاکستان کی کشمیر پالیسی میں اُتارچڑھائو، بالخصوص دوستی کے نام پر وفود کی آمدورفت، مسئلہ کشمیر کے روایتی موقف سے انحراف کے لیے مختلف حل، کشمیری قیادت کا المیہ اور تحفظات وغیرہ___ جدوجہد آزادیِ کشمیر کے مختلف مراحل اور غوروفکر کے پہلو ہیں۔ عبدالرشید ترابی تحریک آزادیِ کشمیر کے ان مراحل کو اُجاگر کرنے، خطرات کی نشان دہی اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے   اہلِ کشمیر کی وکالت کا فریضہ انجام دینے کے لیے وقتاً فوقتاً ملکی اخبارات و رسائل میں مضامین سپردِقلم کرتے رہے۔ زیرنظر کتاب انھی تجزیات پر مشتمل ہے۔

یہ کتاب ایک ایسا آئینہ ہے جس میں حکمران، پالیسی ساز اور ہر کردار اپناچہرہ دیکھ سکتا ہے۔ ہم سب خوداحتسابی کرتے ہوئے ایسی جامع اور حکیمانہ پالیسی تشکیل دے سکتے ہیں جو جلد منزل کے حصول کا ذریعہ بن سکے۔ (عمران ظہور غازی)


تعارف کتب

  • حکمت الفرقان، مؤلف: ڈاکٹر سید امان اللہ ترمذی۔ ملنے کا پتا: کتاب سراے، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۳۰۸۔ قیمت: درج نہیں۔ [قرآن حکیم کے مضامین کا عصری تقاضوں کے تناظر میں انتخاب اور دعوت فکروعمل۔قرآنی تعلیمات کو پانچ عنوانات یعنی توحید، رسالت، آخرت، فہم قرآن اور دعوت و جہاد کے تحت بیان کیا گیا ہے۔ آخر میں انفرادی اور اجتماعی جائزے کے لیے خوداحتسابی کا چارٹ دیا گیا ہے۔]

 شمشیر و سناں اوّل (عظیم سپہ سالاروں کی عظیم داستان) ، مرتب: خواجہ امتیاز احمد۔ ناشر: ہارون شہید اکیڈمی، پیپلزکالونی، گوجرانوالہ۔ صفحات: ۲۴۸۔ قیمت: درج نہیں۔[ ۲۱ نام وَر مسلمان سپہ سالاروں کے تذکرے پر مبنی کتاب جس میں مبالغہ آرائی کے بجاے مستند حوالوں اور معیاری کتب تاریخ کی مدد سے حقائق بیان کیے گئے ہیں۔ ان سپہ سالاروں میں خالد بن ولیدؓ، سعد بن ابی وقاصؓ، عقبہ بن نافع فہریؒ، جلال الدین خوارزم شاہ، موسیٰ بن نصیر، یوسف بن تاشفین، حجاج بن یوسف ثقفی، محمود غزنوی، شہاب الدین غوری وغیرہ کے حالات شامل ہیں۔ اس بے بنیاد الزام کا بھی مدلل جواب دیا گیا ہے کہ ’اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے‘۔]

  • شوق کا اُجالا ، محمد اظہر علی۔ ناشر: اسلامک کلچرل سنٹر ناروے۔ صفحات: ۴۰۰۔ قیمت: ۲۰۰ کرائون۔ [اسلامک کلچرل سنٹر ناروے (اوسلو) کی تعمیر کے منصوبے، جدوجہد کے صبرآزما مراحل اور ۲۰۰۹ء میں ایک  دیدہ زیب جدید عمارت، دفاتر، اسلامی سکول، جدید سہولیات پر مبنی لائبریری اور خوب صورت مسجد کی تکمیل کی روداد۔ ۱۹۷۴ء سے ۲۰۰۹ء تک روشنی کے سفر کی داستان۔ کتاب بیرونِ ملک مقیم لوگوں کے لیے ایک قابلِ تقلید مثال ہے۔]

عبداللّٰہ ،لاہور

’فتح بیت المقدس کا جشن‘ (جون ۲۰۱۰ئ) میں حضرت عمرؓ کے معاہدے کی تحریر پڑھ کر مسلمانوں کی عظمت اور اس تاریخ ساز لمحے کی یاد ایک بار پھر تازہ ہوگئی۔ آج کے ’مہذب‘ مغرب کے لیے اس معاہدے میں بڑا سبق ہے۔ اس تاریخ ساز دن کو ہرسال منایا جائے۔ اس تقریب کا انعقاد اُمت مسلمہ کے لیے ایک نئے  عزم اور ولولۂ تازہ کا باعث ہوگا۔ ایک غلطی کی تصحیح بھی کرلیں کہ بحرمُردار ’جاے عبادت‘ (ص ۷۷) نہیں بلکہ جاے عبرت ہے۔ ’بنگلہ دیش: عوامی لیگ کی اسلام دشمنی‘ بھی مفید تحریر ہے اور اہم معلومات سامنے آئیں۔ ان دگرگوں حالات میں جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی جدوجہد یقینا ایمان و استقامت اور عزم و حوصلے کا ثبوت ہے۔


ڈاکٹر محمد اسحاق منصوری ،کراچی

’علوم کو اسلامیانے کے نام پر‘ (جون ۲۰۱۰ئ) ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی کا ایک اچھا ناقدانہ مضمون ہے، تاہم اس کا اسلوب جارحانہ ہے۔ اگر انداز ناصحانہ ہوتا تو شاید اس سے بھی بہتر تاثیر ہوتی۔


محمد طارق فاروق بھٹی ، وہاڑی

’سیرتِ رسولؐ پر اعتراضات کا جائزہ‘ (مئی ۲۰۱۰ئ) بروقت اور اہم تحقیقی مقالہ ہے۔ نبی کریمؐ کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے توہین آمیز خاکے بنانے کا اصل محرک سامنے آتا ہے۔ ’بھارت اور عالمِ اسلام‘ سے بھارت کے بڑھتے ہوئے اثرات کا اندازہ ہوا جو باعث ِ تشویش ہے۔ امیرجماعت کا مضمون ’رجوع الی اللہ___ وقت کی اہم ترین ضرورت‘ سوزاور تڑپ لیے ہوئے ہے۔


شفیق الرحمٰن انجم ، قصور

’سیرتِ رسولؐ پر اعتراضات کا جائزہ‘ (مئی ۲۰۱۰ئ) گستاخانِ نبوت کی مذموم حرکتوں کا بہترین احاطہ کرتا ہے۔ لیکن اصل میں یہ ہمارا امتحان ہے۔ ہم پر واجب ہے کہ سنتِ نبویؐ پر عمل پیرا ہوکر اہلِ مغرب کو   اپنی فیس بُک پر حضور کا پیغام پیش کریں۔

تصحیح: میرے مضمون: ’علامہ اقبال اور مسئلہ فلسطین‘ (جون ۲۰۱۰ئ) میں یہودی لیڈر کا نام ’تھیوڈور ہرزل‘ چھپاہے۔ اس کا صحیح تلفظ اور املا ’تیوڈور ہرسل‘ ہے، براہِ کرم تصحیح فرما لیں۔(رفیع الدین ہاشمی)


حافظ محمد ایوب ، اسلام آباد

مولانا معین الدین خٹک سے ایک بار پوچھا کہ تحریک کے ابتدائی کارکنان کے بارے میں کچھ بتائیں۔ کچھ سوچ کر بولے۔ ۱۹۵۲ء کراچی میں جماعت ِ اسلامی کا اجتماعِ عام منعقد ہوا۔ رفقا کے قافلے بسوں اور ٹرینوں کے ذریعے جوق در جوق کراچی کی طرف چل پڑے۔ موضع شیخ سلطان ٹانک (سرحد) کے تین ساتھیوں نے جو بے انتہا غریب تھے، اجتماع میں شرکت کا ارادہ کرلیا۔ کسی دوسرے ساتھی سے نہ مالی تعاون لیا اور نہ جماعت کے بیت المال ہی پر بوجھ بنے۔ یہ مذکورہ تینوں ساتھی کراچی کی جانب پیدل چل پڑے۔ ایک آنہ کی دو روٹیاں اور جی ٹی روڈ پر ایسے ہوٹل بھی ہوا کرتے تھے جہاں آنہ روٹی دال مفت بھی مل جایا کرتی تھی۔ دن بھر سفر کرتے، رات کسی مسجد میں نمازِ عشاء کے بعد آرام کرتے اور نماز فجر پڑھ کر سفر جاری رکھتے۔ استقبالیہ کیمپ سہراب گوٹھ لبِ سڑک تھا۔ ناظم استقبالیہ نے آمدہ قافلہ سے دریافت کیا کہ جناب آپ کہاں سے اور کیسے پہنچے؟ جواب سن کر کیمپ میں موجود کارکنان حیران رہ گئے۔ اجتماع گاہ میں قائد تحریک سیدمودودیؒ کو اطلاع  دی گئی۔ مولانا استقبالیہ میں تشریف لائے اور اس قافلے کا خود استقبال کیا۔ اِس قافلے کو قافلۂ سخت جان کا نام سیدصاحب نے دیا۔ ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھ گئے۔ سب کی آنکھوں سے موتی چھلک پڑے: ’’یااللہ! یہ تیرے بندے صرف تیری رضا اور تیرے دین کی بقا کے لیے جوتکالیف اُٹھا رہے ہیں ان کی قربانیوں کو قبول فرما، آمین!

ایک غلط فہمی

پانچ دن کم بیس مہنے کی جبری غیرحاضری کے بعد میں اور میرے دونوں رفیق ۲۸؍مئی ۱۹۵۰ء کو پھر اُسی زندگی کی طرف واپس آگئے جس سے ۴؍اکتوبر ۴۸ء کو ہمیں خارج کیا گیا تھا۔ اس مدت میں جن وجوہ سے ہم قید رکھے گئے…ترجمان القرآن کے ناظرین اس کے محتاج نہیں ہیں کہ انھیں اس معاملے کا کچھ بتایا جائے، کیونکہ اس ملک میں ان سے زیادہ میرے ’جرم‘ کا جاننے والا اور کوئی نہیں ہے۔ ان کو خوب معلوم ہے کہ پچھلے ۱۷، ۱۸ سال سے میں کیا کچھ کرتا رہا ہوں۔ اسی طرح مولانا امین احسن اصلاحی صاحب اور میاں طفیل محمد صاحب کے ’جرائم‘ بھی سب سے بڑھ کر انھی کے مشاہدے میں آتے رہے ہیں۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ انھوں نے ہماری گرفتاری کی خبر پاتے ہی سارا معاملہ خود سمجھ لیا ہوگا۔ شاید ان میں سے کسی کو بھی پہلی مرتبہ یہ سن کر حیرت نہ ہوئی ہوگی کہ ہم پکڑے گئے، بلکہ اگر وہ کبھی حیران ہوئے ہوں گے تو اس بات پر کہ آخر شیطان اتنی مدت تک ہم جیسے ’قصورواروں‘ کو برداشت کیسے کرتا رہا....

ممکن ہے اس کارروائی کا فیصلہ کرتے وقت یہ مقصد بھی پیش نظر رہا ہو کہ اِس طرح اُس کام کو روکا جائے جو میں اور میرے ساتھی کر رہے تھے۔ اگر میرا یہ قیاس درست ہے تو میں کہوں گا کہ اس مقصد کے لیے ہماری گرفتاری کا فیصلہ کرنے والے خود ایک غلط فہمی میں گرفتار تھے اور مجھے امید ہے کہ اب ان کی غلط فہمی دُور ہوگئی ہوگی۔ انھوں نے شاید یہ سمجھا تھا کہ جماعت اسلامی چند مٹھی بھر سرپھروں کی ایک جماعت ہے، جو اتفاقاً جمع ہوگئی ہے اور اس کا سارا کام بس دو تین آدمیوں کے بل پر چل رہا ہے، اُن کو میدان سے ہٹا دیا جائے گا تو جماعت ختم اور اس کی دعوت نسیاً منسیاً ہوجائے گی۔ اس غلط گمان کی بنا پر انھوں نے ایک غلط قدم اُٹھا دیا اور ٹھوکر کھائی۔ اب اگر انھوں نے خود اپنے اقدام کے نتائج کا جائزہ لے کر دیکھا ہوگا تو ان پر منکشف ہوچکا ہوگا کہ اس حرکت سے جو فوائد     وہ اُٹھانا چاہتے تھے ان میں سے کوئی فائدہ بھی انھیں حاصل نہیں ہوسکا ہے، اور جن نقصانات سے وہ بچنا چاہتے تھے وہ سب مع شیٔ زائدٍ اُن کو پہنچ گئے ہیں۔ اگرچہ میں اِن حضرات کی عقل و دانش کے بارے میں کچھ بہت زیادہ خوش گمان نہیں ہوں، تاہم میں توقع رکھتا ہوں کہ اس تجربے کے بعد وہ جماعت اسلامی اور اس کی تحریک کو، اور اُن بنیادوں کو جن پر یہ تحریک قائم ہے اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کریں گے اور آیندہ کوئی قدم ناکافی معلومات اور سرسری اندازوں کی بنا پر نہ اُٹھائیں گے۔(’اشارات‘، سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، ترجمان القرآن، جلد۳۴، عدد۲، شعبان ۱۳۶۹ھ، جولائی۱۹۵۰ئ، ص ۲-۴)