مضامین کی فہرست


مئی ۲۰۱۰

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اٹھارھویں دستوری ترمیم پاکستان میں دستور سازی کی تاریخ کا اہم سنگِ میل ہے۔ اپنی چند خامیوں کے باوجود، مجموعی طور پر پاکستان میں جمہوریت کے قیام، دستوری نظام کی اپنی اصل شکل میں بحالی، پارلیمنٹ کی بالادستی، عدلیہ کی آزادی، صوبائی حقوق کی حفاظت، بنیادی حقوق کی عمل داری اور ایک اسلامی، وفاقی اور فلاحی ریاست کے قیام کے تاریخی سفر کا ناقابلِ فراموش باب ہے۔

دستور کسی ریاست اور معاشرے میں بنیادی قانون کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ضابطہ، قوم کی دیرینہ روایات و اقدار، اس کے سیاسی اور اجتماعی عزائم اور منزلِ مراد کا آئینہ ہوتا ہے۔ یہ اس تصورِحیات، اجتماعی نظام اور تاریخی وژن کا امین ہوتا ہے جو ایک قوم اپنے مستقبل کے بارے میں رکھتی ہے، اور اس کی جڑیں معاشرے اور ریاست کے زمینی حقائق میں پیوست ہوتی ہیں۔ اس طرح ایک نظامِ کار اور نقشۂ راہ وجود میں آتا ہے، جو زندگی کے تمام پہلوئوں کی صورت گری میں اساسی کردارادا کرتا ہے۔ دستور اگر ایک طرف اس لنگر کے مانند ہے جو جہاز کو اس کے قیام میں استحکام فراہم کرتا ہے تو دوسری طرف یہ مملکت کی کشتی کے لیے اس چپو کا کردار بھی ادا کرتا ہے، جو کشتی کو اس کی منزل کی طرف کشاں کشاں لے جانے کی خدمت انجام دیتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ دستور، ملک کے پورے نظام کے خطوط کار متعین کرتا ہے۔ ریاست اور قوم کے تشخص کا محافظ و نگہبان اور اس کے تمام کلیدی اداروں کے لیے واضح خطوط کار متعین کرتا ہے۔ اس میں یہ صلاحیت بھی ہونی چاہیے کہ بدلتے ہوئے حالات کا ساتھ دے سکے۔ نئے حقائق اور بدلتی اور نئی اُبھرتی ہوئی ضرورتوں کی روشنی میں مطلوبہ ہدایت اور رہنمائی فراہم کرنے کی خدمت انجام دے سکے۔ یہ ہے وہ ضرورت، جو دستوری ترمیم کے ذریعے پوری کی جاتی ہے۔ دنیا کے تمام ہی دساتیر اس امر پر شاہد ہیں کہ وہ ریاست کے مقاصد اور نظامِ حکومت کے بنیادی ڈھانچے کی حفاظت کا ضامن ہوتے ہیں۔ چونکہ اس کے ساتھ وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگی کی ضرورت باربار رونما ہوتی ہے، اس لیے ریاستی دساتیر ایک زندہ دستاویز کے طور پر ان ضرورتوں کی تشفی کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔

امریکا کے دستور میں گذشتہ دو صدیوں میں درجنوں ترمیمات کی گئی ہیں، جو بنیادی ڈھانچے کی حفاظت کے ساتھ وقت کی ضرورتوں کو پورا کرنے کا ذریعہ بنی ہیں۔ یہی صورت دنیا کے دوسرے ممالک کے دساتیر کی بھی ہے، لیکن پاکستان میں بار بار کی فوجی مداخلت اور دستور کی چیرپھاڑ کے باعث ہمارا مسئلہ بالکل مختلف نوعیت اختیار کر گیا۔ ہمیں دو چیلنج درپیش تھے: ایک یہ کہ دستور کے بنیادی اہداف کی روشنی میں نئے حالات اور مسائل کے تقاضوں کو دستور کے فطری ارتقا کے عمل کا حصہ بنایا جائے۔ نیز یہ کہ گذشتہ ۳۷ برسوں میں دستور میں جو ناہمواریاں اور انمل بے جوڑ تبدیلیاں اربابِ اقتدار اور خصوصیت سے فوجی حکمرانوں نے محض قوت کے نشے میں اور بڑی حد تک ذاتی اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے کی ہیں، ان سے دستورِ پاکستان کو کس طرح پاک کیا جائے۔ یہ بڑا مشکل اور نازک کام تھا، جسے الحمدللہ پارلیمنٹ کی دستوری اصلاحات کی کمیٹی نے بڑی محنت اور حکمت سے انجام دیا۔ اس عمل کے نتیجے میں دستور کی ۹۵ دفعات میں ضروری ترامیم کی گئیں۔

ان سفارشات کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ جس طرح ۱۹۷۳ء کے دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان کو قومی اتفاق راے سے تمام سیاسی جماعتوں کے بھرپور تعاون اور مؤثر حصہ داری سے، افہام و تفہیم کے ذریعے تیار اور منظور کیا گیا تھا، تقریباً اسی طرح ساڑھے نو مہینے کی مسلسل مشاورت اور کوشش کے ذریعے اٹھارھویں ترمیم کو مرتب کیا گیا ہے۔ کمیٹی میں اتفاق راے پیدا کیا  گیا اور پھر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے مکمل اتفاق راے سے انھیں منظور کیا۔ اس طرح یہ ترامیم اب دستور کا جزولاینفک بن گئی ہیں۔ اس کے نتیجے میں دستورِ پاکستان ایک طرف ان حشو و زوائد اور متعدد ناہمواریوں اور تضادات سے پاک ہوگیا ہے، جو دو مارشل لا حکومتوں میں آٹھویں (۱۹۸۵ئ) اور سترھویں (۲۰۰۳ئ) ترامیم کے ذریعے اس میں داخل کر دی گئی تھیں۔ دوسری طرف ان ۳۷برسوں میں جو نئے مسائل اور نئی ضرورتیں سامنے آئیں، ان کی روشنی میں دستور کو اس کی اصل شکل اور روح کے مطابق نہ صرف بحال کیا گیا ہے بلکہ اس کے بنیادی ڈھانچے اور مقاصد کے مطابق مزید ارتقائی منزلوں سے ہم کنار کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ بلاشبہہ کوئی بھی انسانی کوشش ہراعتبار سے مکمل اور خطا سے پاک نہیں ہوسکتی لیکن اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ بحیثیت مجموعی اٹھارھویں دستوری ترمیم ایک مثبت پیش رفت ہے، جس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرناچاہیے۔ البتہ، اس میں اب بھی جو خامیاں رہ گئی ہیں، یا جو امور مزید اصلاح طلب ہیں، یا جو دستوری مسائل حل طلب ہیں، ان کے لیے کوششیں جاری رکھی جائیں تاکہ ہمارے قدم آگے ہی بڑھتے رہیں۔

دستوری کمیٹی کے لیے چیلنج

اس وقت دستور کے بارے میں دستوری کمیٹی، پارلیمنٹ اور پوری قوم کے سامنے بنیادی طور پر دو چیلنج تھے: پہلا یہ کہ دستور میں جو انمل بے جوڑ چیزیں داخل کر دی گئی ہیں، ان سے اس کو پاک کیا جائے۔ لیکن اس پورے عمل میں اگر کچھ چیزیں صحیح اور دستور کے فریم ورک اور مقاصد سے ہم آہنگ ہیں تو ان کو محض اس وجہ سے رد نہ کردیا جائے کہ انھیں دستور کا حصہ بنانے کا عمل خام یا ان کا وجود محلِ نظر تھا۔ اس لیے ضروری تھا کہ ایک طرف جو عمل غلط ہوا ہے، اس کے غلط ہونے کا ادراک ہی نہیں اعلان بھی ہو۔ دوسری طرف تعصب یا ہٹ دھرمی کے راستے سے دامن بچاتے ہوئے خذ ما صفاء ودع ما کدر (جو صحیح ہے اسے قبول کرلو اور جو نادرست ہے، اسے ترک کر دو) کے زریں اصول پر عمل کرتے ہوئے جو تبدیلیاں صحیح مقاصد کے حصول اور دستور کے مزاج اور فریم ورک سے مطابقت رکھتی ہیں، ان کو قبول کرلیا جائے___ اس پس منظر میں اگر آپ اٹھارھویں دستوری ترمیم کی شق ۲ اور شق ۹۵ (ترمیم شدہ دستوری دفعہ ۳۷۰ اے اے) کا مطالعہ کریں، تو اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے نافذ کردہ ایل ایف او کو، جو ایک غلط اور ناجائز اقدام تھا، بجاطور پر غلط اور ناجائز قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح سترھویں دستوری ترمیم کو جو خاص حالات میں منظور کی گئی تھی، اسے بھی دستور کی زبان میں کالعدم قرار دیا گیا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ان میں جو چیزیں دستور کے فریم ورک سے ہم آہنگ یا وقت کی ضرورتوں کو پورا کرنے والی ہیں، ان کو جاری رکھا گیا ہے___کچھ کو تحفظ دے کر اور کچھ کو دوبارہ اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے دستور کا حصہ بناکر۔

اس خاص طریقِ کار کے ذریعے دو مقاصد حاصل کیے گئے ہیں: ایک یہ کہ اصل اقدام کے ناجائز ہونے کا اعلان دستور میں آجائے، تاکہ آیندہ کے لیے دستور میں اس طرح کی دراندازیوں کا دروازہ بند ہو۔ پھر اعلیٰ عدالتوں پر بھی واضح ہوجائے کہ ان کے جواز (validation) کو پارلیمنٹ نے رد کر دیا ہے۔ دوسری طرف قوانین کے تسلسل اور مناسب تبدیلیوں کو محض ضد اور عناد کی بنا پر رد نہیں کیا گیا، بلکہ ان کو حیاتِ نو دے دی گئی ہے، جس کے نتیجے میں ان کو مکمل قانونی جواز حاصل ہوگیا ہے۔

اس عملِ تطہیر اور تصحیح کے ساتھ دستوری کمیٹی نے تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کو نئی تجاویز دینے، دستور کو تازہ دم کرنے اور نئے مسائل کی روشنی میں ترامیم کی نشان دہی کرنے کی دعوت دی۔ ۸۰۰ سے زیادہ تجاویز آئیں، جن کا جائزہ لیتے ہوئے، جو کچھ اس وقت ضروری اور قابلِ عمل سمجھا گیا، اسے اس جامع دستوری ترمیم کا حصہ بنایا گیا ہے۔

دستوری کمیٹی نے اپنے کام کے آغاز ہی میں چند اصولی باتیں طے کیں، جن کو سمجھنا ضروری ہے:

۱- ہم پورے دستور پر نظرثانی نہیں کر رہے اور نہ دستور کے بنیادی ڈھانچے اور فریم ورک ہی میں کوئی تبدیلی ہمارے پیش نظر ہے۔ ہم صرف ان دو ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کریں گے جو اُوپر بیان کی گئی ہیں۔

۲- اس کے لیے ضروری ہے کہ دستور کے فریم ورک کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے۔ پاکستان کا دستور تحریکِ پاکستان کے مقاصد کے پس منظر میں مرتب اور منظور کیا گیا ہے۔ ’قراردادِ مقاصد‘ (مارچ ۱۹۴۹ئ) اس فریم ورک کی بنیاد اور ماخذ ہے۔ پھر ۱۹۷۳ء کے دستور کو منظور کرنے والی دستورساز اسمبلی نے دستور کی بنیادوں کو واضح کر دیا ہے، جنھیں جو اس وقت کے صدرِ مملکت اور دستور ساز اسمبلی کے چیئرمین جناب ذوالفقار علی بھٹو نے دستور کے مسودے کے منظور ہونے کے موقع پر اپنے اختتامی خطاب میں اس طرح بیان کیا تھا:

بہت سے تنازعات کے بعد ۲۵ سال بعد ہم ایسے مقام پر آگئے ہیں جہاں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم ایک دستور رکھتے ہیں اور کوئی اس بات سے انکارنہیں کرسکتا۔ یہ دستور پاکستان کے عوام کی مرضی کی نمایندگی کرتا ہے۔ کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ جمہوریت کی کسی بھی تعریف کے مطابق یہ ایک جمہوری دستور ہے۔ کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ یہ ایک وفاقی دستور ہے۔ کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ یہ اسلامی دستور ہے۔ اس میں پاکستان کے کسی بھی سابقہ دستور یا دنیا کے دوسرے اسلامی ممالک کے دستور جہاں شاہی نظام ہے، زیادہ اسلامی دفعات ہیں۔

موصوف نے ایک بار پھر دستور کی بنیادی خصوصیات اور اس کے اساسی فریم ورک کا اس طرح اظہار کیا:

میرے دوستو! یہ دستور جو جمہوری ہے، جو وفاقی ہے اور اسلامی نظام کا جوہر اپنے اندر رکھتا ہے، اسلامی سیاسی نظام کا تحفظ کرتا ہے۔ یہ دستور عدلیہ کو آزادی فراہم کرتا ہے۔ یہ دستور شہریوں کو بنیادی حقوق فراہم کرتا ہے۔ [نیشنل اسمبلی آف پاکستان (بحیثیت دستورساز اسمبلی) ۱۰؍اپریل ۱۹۷۳ئ، ص ۶۹-۲۴۶۸ سرکاری رپورٹ اور بحث، اپریل ۱۹۷۳ئ۔]

صدر دستور ساز اسمبلی کے ان واضح ارشادات سے دستور کے بنیادی اور اساسی ستون  واضح طور پر سامنے آجاتے ہیں اور وہ یہ ہیں:

ا-  دستور کی بنیاد اسلام اور اسلام کا دیا ہوا سیاسی نظام ہے، جس کی حفاظت اور جس پر عمل پہلا ہدف ہے۔

ب- دستور جمہوری ہے، جو پارلیمانی نظامِ حکومت کے اصول پر قائم ہے۔

ج- دستور ایک وفاقی نظام کا تصور پیش کرتا ہے۔

د- بنیادی حقوق کی حفاظت اس دستور کا ایک ناقابلِ تنسیخ پہلو ہے۔

ہ- عدلیہ کی آزادی دستور کا پانچواں ستون ہے۔

ان پانچوں بنیادوں کو پاکستان کی سپریم کورٹ نے بار بار دستور کا بنیادی فریم ورک قرار دیا ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس حمودالرحمن نے قرارداد مقاصد کو اپنے اس تاریخی فیصلے میں grund-norm [معروف و مقبول ضابطہ] قرار دیا تھا، جس میں جنرل محمد یحییٰ خان کے اقتدار کو غاصبانہ اور ناجائز قبضہ قرار دیا گیا تھا۔ پھر عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے میں، جس میں جنرل پرویز مشرف کے اقدام کو جواز بخشا گیا تھا، اور اسے دستوری ترمیم کا حق بھی بن مانگے عطا کردیا گیا تھا، تاہم یہ بھی واضح کر دیا گیا تھا کہ یہ پانچوں اصول دستور کا بنیادی ڈھانچا ہیں اور ان میں تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔ اسی طرح سپریم کورٹ نے اپنے ۳۱ جولائی ۲۰۰۹ء کے فیصلے میں دستور کے بنیادی ڈھانچے کو ان اصولوں سے عبارت قراردیا ہے اور عدالت عظمیٰ کا یہی احساس ۱۶دسمبر ۲۰۰۹ء کے فیصلے میں بھی پوری شان سے نظر آتا ہے۔

کمیٹی نے ایک اولیں اصول یہ طے کیا: اگرچہ اس کے سامنے ’میثاقِ جمہوریت‘ اور تمام سیاسی جماعتوں کی تجاویز رہیں گی، لیکن اس کا سارا کام دستور کے اس فریم ورک کے اندر ہوگا۔ ترامیم کا رد و قبول اس کسوٹی پر ہوگا۔ کمیٹی نے اپنے دائرۂ کار کا اس طرح تعین کیا:

کمیٹی سترھویں ترمیم، میثاقِ جمہوریت اور صوبائی خودمختاری کو پیش نظر رکھ کر ترامیم تیار کرے گی تاکہ پاکستان کے عوام کی جمہوری اور اسلامی تمنائیں پوری ہوسکیں۔

دستوری کمیٹی نے دوسرا اصول یہ متعین کیا کہ حتی الوسع کوشش ہوگی کہ تمام ترامیم اور تجاویز اتفاق راے سے مرتب کی جائیں، اور اگر یہ ممکن نہ ہو، تو پھر کمیٹی کی کل تعداد کے دو تہائی سے فیصلہ ہوگا جسے اختلاف کرنے والے ارکان اکثریت کے فیصلے کے طور پر قبول کرلیں گے، البتہ انھیں اختیار ہوگا کہ اپنی اصولی اور ’پارٹی پوزیشن کو اعادۂ موقف کے نوٹ‘ (note of reiteration) کے ذریعے ظاہر کر دیں اور مستقبل میں اپنے موقف کے حصول کے لیے کوشش کا حق محفوظ رکھیں۔ بظاہر یہ صرف لفظی کھیل نظر آتا ہے، لیکن حقیقت میں اتفاق اور تعاون کے ایک نئے ماڈل کو ترویج دینے کے لیے اختلافی نوٹ (note of dissent) کے بجاے سب نے اعادۂ موقف کی اصطلاح کو اختیار کیا۔

دستوری کمیٹی نے اپنی تمام کارروائیوں کو بند کمرے کی کارروائی اس لیے رکھا کہ تمام جماعتیں پوری آزادی کے ساتھ افہام و تفہیم کے عمل کو آگے بڑھا سکیں، اور وقت سے پہلے بحث و مباحثے کا بازار گرم نہ ہو۔ اس ذیل میں صرف اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی تقرری کے مسئلے کو استثنا حاصل رہا۔ یہ اسی طریق کار کا نتیجہ تھا کہ اختلافات کے باوجود بڑے بنیادی امور کے بارے میں کمیٹی متفقہ تجاویز مرتب کرسکی اور پارلیمنٹ کی متفقہ منظوری کے ۱۹۷۳ء کے دستور کی ۲۸۰ میں سے ۹۵ دفعات میں مکمل اتفاق راے کے ساتھ تبدیلی کا عمل ممکن ہوسکا۔

دستوری استحکام کی طرف اھم پیش رفت

اٹھارھویں دستوری ترمیم کا سب سے بڑا نمایاں پہلو یہ ہے کہ اس کے ذریعے مکمل اتفاق راے سے ۱۹۷۳ء کے دستور کو اس کے بنیادی ڈھانچے کی مکمل حفاظت اور مزید مضبوطی اور وسعت دینے کے ساتھ ۲۰۱۰ء کی ضرورتوں اور تقاضوں سے ہم آہنگ کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں تقسیم اختیارات اور توازن کے سہ کونی انتظام (triconomy of power) کے بنیادی اصول کی پاسداری کی گئی ہے۔ تمام اداروں کو دستور کے فریم ورک میں اور دستور سے اختیارات حاصل کرنے والے اداروں کی حیثیت سے، اپنے اپنے وظیفے اور ذمہ داری کو ادا کرنے کے لائق بنایا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ایک مشکل اور حساس مسئلے، یعنی مرکز اور صوبوں میں اختیارات اور ذمہ داریوں کی تقسیم کو نئے حالات کی روشنی میں ایک متفق علیہ فارمولے کی شکل دے کر منظوری دی گئی ہے، جس کا مرکزی تصور ملکیت، انتظام، نگرانی اور احتساب میں شراکت ہے۔

اس نئے مثالیے (paradigm) کے نتیجے میں ملک کو ایک ’مرکزیت کے حامل وفاق‘ (centralized federation) کے تصور سے ہٹ کر ایک ’باہم شراکت کے حامل وفاق‘ (participatory federation) کے تصور کی طرف لایا گیا ہے، جو اٹھارھویں ترمیم کا فی الحقیقت ایک اہم کارنامہ ہے۔ اگر اس تصور پر صحیح صحیح عمل ہو تو مرکز اور صوبوں میں جو کھچائو، بے اعتمادی بلکہ تصادم کی فضا بن رہی تھی، وہ ان شاء اللہ تعاون اور اعتماد میں تبدیل ہوجائے گی، اور اس طرح مرکز اور صوبوں کے درمیان زیادہ یک جہتی پیدا ہوسکے گی۔ اس کا ایک نتیجہ یہ بھی متوقع ہے کہ مرکز گریز یا علیحدگی پسندی کی تحریکات اور غیرجمہوری راستے اختیار کرنے کے جو رجحانات سر اُٹھا رہے تھے، وہ ختم ہوسکیں گے۔ یوں معاشرے کے تمام عناصر کو جمہوری عمل کا حصہ بناکر اختیارات کی شراکت کے ذریعے ایک ایسے نظام کو فروغ دیا جاسکے گا، جس میں سب ایک ٹیم بن کر اپنا اپنا کردار ادا کرسکیں گے۔ اس طرح صوبوں کی مضبوطی اور خوش حالی کے ذریعے پورے ملک کی مضبوطی، استحکام اور  خوش حالی کا حصول ایک حقیقت بن سکے گا۔ مگر یہ سب کام خلوصِ نیت، احساسِ ذمہ داری، ایثارکیشی اور پاکستانیت کے حقیقی شعور کے ساتھ ہی ممکن العمل ہے۔ اور اصل چیزیں اصولوں اور ضابطوں پر عمل ہے، محض انھیں کتاب دستور کا حصہ بنانا کافی نہیں۔

اٹھارھویں ترمیم کے پارلیمنٹ سے متفقہ طور پر منظور ہونے کا ایک اور تاریخی اثر یہ ہے کہ اب دستور میں جو بھی ہے، اسے پوری پارلیمنٹ اور قوم کی تائید حاصل ہے۔ جنرل محمدضیا الحق کے نام اور ریفرنڈم کے ذریعے صدر بننے کے ذکر کو دستور سے خارج کرنے اور جنرل پرویز مشرف کے ریفرنڈم اور اقتدار کے جواز سے دستور کے اوراق کو پاک کرنے کا جو مثبت قانونی نتیجہ رونما ہوا ہے، وہ یہ ہے کہ آٹھویں اور سترھویں ترامیم کے جن اجزا کو دستور میں رکھا گیا ہے، وہ پاکستان کی پارلیمنٹ اور قوم کی مکمل تائید سے دستور کا مستقل حصہ بن گئی ہیں اور اب اس کی حفاظت کی ذمہ داری مکمل طور پر پارلیمنٹ اور پاکستانی قوم پر آتی ہے۔ ایسی تمام دفعات اب کسی آمرمطلق کے  نشاناتِ جبر اور کسی عدالت کے جواز کا حاصل نہیں رہے، بلکہ ۱۹۷۳ء کے دستور کا جائز اور مبنی برحق حصہ بن گئے ہیں اور ان پر انگشت نمائی کا کوئی جواز باقی نہیں رہا، جو ایک خاص طبقے کا معمول بن گیا تھا۔

اس سلسلے میں دستور کی دفعہ ۲ (الف) جس کے ذریعے ’قرارداد مقاصد‘ کو دستور کا    قابلِ تنفیذ حصہ بنایا گیا تھا، دفعات ۶۲ اور ۶۳ میں جو تبدیلیاں کی گئی تھیں اور دستور کا باب ۳-الف    بہ سلسلہ وفاقی شرعی عدالت اور اس کی متعلقہ دفعات ۲۰۳-اے سے لے کر ۲۰۳-جے تک فوجی آمر کے سایے سے آزاد ہوکر دستور کی باقی دفعات کی طرح پارلیمنٹ کا فیصلہ قرار پائیں ہیں۔ یہاں پریہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ ایل ایف او اور سترھویں دستوری ترمیم کو تو منسوخ کیا گیا ہے، مگر اس کے برعکس آٹھویں ترمیم سے بالکل مختلف معاملہ کیا گیا ہے۔ اسے صرف ۱۹۸۵ء کی پارلیمنٹ کی توثیق ہی کی بنا پر نہیں، بلکہ ۱۹۸۸ء سے لے کر ۱۹۹۹ء تک کی پارلیمنٹوں کی تائید اور توثیق کی بنیاد پر، ۲۰۱۰ء کی ترمیمات کے ذریعے مکمل سندِجواز اور دستور کی باقی دفعات کے ہم رنگ قرار دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ خود ’میثاقِ جمہوریت‘ میں ۱۲؍اکتوبر ۱۹۹۹ء کی شکل میں دستور کی بحالی کے مطالبے میں بھی اس امرواقعی کو امرقانونی کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا۔

اٹھارھویں ترمیم کے بعد دستور اب ایک مکمل یک جان، یک روح وجود کی حیثیت اختیار کرگیا ہے، اور یہ تجدیدِ عہد دراصل سیکولر لابی کی بڑی شکست ہے، وہ لابی کہ جس نے اس پورے عرصے میں ان دفعات کو نشانہ بنایا ہوا تھا اور خود کمیٹی کے کام کے دوران میں بھی اس طبقے نے انھیں سبوتاژ کرنے کی بھرپور کوشش کی تھی۔ ان کی کوشش تھی کہ: اسلامی دفعات میں جو اضافے ہوئے ہیں، ان کو کسی طرح ختم یا کم از کم تحلیل (dilute) کریں، لیکن الحمدللہ وہ اپنی اس کوشش میں ناکام ہوئے۔

ہم نے ان صفحات میں اٹھارھویں ترمیم کے تین نمایاں قانونی، اخلاقی اور سیاسی پہلوئوں کا ذکر کیا ہے یعنی (۱) ان کا مکمل اتفاق راے سے منظور کیا جانا (۲) اسلامی دفعات کو دستور کے وجود کا جزولاینفک (Integral) بنانا، اور (۳) صوبائی خودمختاری کے ایک نئے ماڈل کو دستوری شکل دینا۔ یہ دستوری کمیٹی، پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں اور تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے ایک عظیم خدمت ہے۔ ایسی خدمت جو تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھی جائے گی اور اس کے نتیجے میں ۱۹۷۳ء کے دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان نے ۲۰۱۰ء میں ایک زیادہ محکم، واضح اور نکھری شکل اختیار کرلی ہے۔ توقع ہے کہ مستقبل کی منزلوں کو طے کرنے میں یہ دستور اپنی اس  ارتقا یافتہ شکل میں زیادہ مؤثر کردار ادا کرسکے گا۔

پاکستان کی دستوری تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ایک افسوس ناک صورت حال سامنے  آتی ہے۔ وہ دستور ساز اسمبلی جسے ۱۹۴۶ء کے انتخابات میں منتخب کیا گیا تھا، اس کے سپرد حصولِ آزادی کے بعد دستور بنانا تھا، مگر افسوس کہ اسے قرارداد مقاصد کو منظور کرنے کے بعد دستور بنانے سے محروم رکھا گیا۔ پھر جب بڑی سخت جدوجہد کے بعد۱۹۵۴ء میں دستور کا مسودہ دستورساز اسمبلی میں لانے کا موقع آیا تو اس اسمبلی ہی کو غیرقانونی طور پر تحلیل کردیا گیا۔ پھر اس کی جگہ ایک نئی اسمبلی نے ۱۹۵۶ء میں پہلا دستور بنایا تو اس دستور کے تحت انتخابات کے انعقاد سے چند ماہ قبل اس دوسری دستورساز اسمبلی کو بھی تحلیل اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے متفقہ دستور کو منسوخ کردیا گیا اور بے رحم فوجی راج کا تاریک دور شروع ہو گیا۔

۱۹۶۲ء میں، وقت کے فوجی آمر نے ایک دستور مسلط کیا، جس سے قرارداد مقاصد حذف کردی گئی تھی اور جمہوریہ کے نام سے بھی ’اسلامی‘ کا لفظ نکال دیا گیا تھا، مگر عوامی دبائو کے تحت دوسال ہی کے اندر ان دونوں اسلامی دفعات کو بحال کرنا پڑا۔ البتہ ملک کا دستوری نظام، پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام میں تبدیل کر دیا گیا۔ فیڈریشن کا نام تو باقی رہا مگر عملاً وحدانی (unitary) نظام ملک پر مسلط کر دیا گیا۔ جنرل آغا یحییٰ خان نے جنرل ایوب خان کے دستور ۱۹۶۲ء کو   منسوخ کردیا اور ایک نئی دستورساز اسمبلی وجود میں لانے کے لیے عام انتخابات کا انعقاد کرایا۔ یہ دستور ساز اسمبلی بدقسمتی سے پورے پاکستان کی جگہ صرف مغربی پاکستان کے لیے دستور بناسکی، کیونکہ ۱۶دسمبر ۱۹۷۱ء کو بھارتی جارحیت اور بنگلہ قوم پرستی کے مشترکہ عمل سے مشرقی پاکستان الگ ہوکر بنگلہ دیش بن گیا تھا۔

ان مایوس کن حالات میں ۱۹۷۳ء کا دستور بنانا ایک بہت بڑی کامیابی تھی، مگر اس پر دیانت داری کے ساتھ عمل کرنے سے حکمرانوں نے پہلوتہی اختیار کیے رکھی۔ بلکہ پہلی سات میں سے چھے ترامیم ایسی تھیں، جن کے ذریعے دستور کے بنیادی ڈھانچے کو مجروح کیا گیا۔ صرف دوسری ترمیم کو استثنا حاصل ہے جس کے ذریعے ’مسلم ‘کی تعریف کی گئی اور وہ پارلیمنٹ سے متفقہ طور پر منظور ہوئی۔ باقی تمام ترامیم کی پوری اپوزیشن نے مخالفت کی اور انھیں محض عددی قوت کے بل بوتے پر زبردستی دستور کا حصہ بنایا گیا۔ آٹھویں ترمیم اور پھر سترھویں ترمیم کے ذریعے پارلیمانی نظام کو عملاً نیم صدارتی نظام میں تبدیل کر دیا گیا۔ صدر مملکت کو نہ صرف پارلیمنٹ کاحصہ بنایا گیا، بلکہ اسے اسمبلی توڑنے اور اہم ترین تقرریوں کا اختیار بھی دے دیا گیا جس سے عملاً صدر کو چیف ایگزیکٹو کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ اٹھارھویں ترمیم کا اوّلیں ہدف دستور کو پارلیمانی نظام کی شکل میں لانا تھا۔ نیز ملک کو ایک ایسے وفاقی نظام کی صورت دینا تھا، جس میں مرکز اور صوبے اختیارات اور ذمہ داریوں میں حقیقی شراکت کرسکیں، مزید یہ کہ ۳۷سال کے تجربات کی روشنی میں دستور کو نئے حالات سے نمٹنے کے لائق بنانا تھا، تاکہ مملکت کے قیام کے مقاصد کو بہتر انداز میں حاصل کیا جاسکے۔

آیئے دیکھیں کہ اس ترمیم کے ذریعے دستور میں کون کون سی اہم تبدیلیاں کی گئی ہیں:

صدر، وزیراعظم اختیارات میں توازن

پارلیمانی نظام کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں فیصلوں، قانون سازی اور جواب دہی کا مکمل اختیار پارلیمنٹ کو حاصل ہوتا ہے۔ انتظامیہ، پارلیمنٹ میں سے وجود میں آتی ہے اور پارلیمنٹ کے سامنے پوری طرح جواب دہ ہوتی ہے۔ وزیراعظم کاانتخاب قومی اسمبلی کرتی ہے، جو بالغ حق راے دہی کی بنیاد پر براہِ راست منتخب ہوتی ہے اور وہی اسمبلی وزیراعظم پر عدمِ اعتماد کا اظہار کرسکتی ہے۔ مملکت کا انتظام، کابینہ کے ذریعے ہوتا ہے جسے پارلیمنٹ ہی میں سے مقرر کیا جاتا ہے اور وہ ’اجتماعی جواب دہی‘ کے اصول پر کام کرتی ہے۔ اہم تقرریاں وزیراعظم کے مشورے کے مطابق کی جاتی ہیں اور صدرمملکت کی حیثیت بڑی حد تک علامتی ہوتی ہے، جس کے لیے اس کا غیرجانب دار ہونا بھی ضروری تصور کیا جاتا ہے۔ کاروبارِ حکومت بالعموم صدر کے نام پر ہوتا ہے، اس لیے کہ وہ ریاست کی علامت اور وفاق کی شناخت تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن عملاً حکومت کی ذمہ داری کابینہ انجام دیتی ہے، جو وزیراعظم، وزرا اور وزراے مملکت پر مشتمل ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ پارلیمانی نظام میں اس بات کا خطرہ رہتا ہے کہ وہ کہیں وزیراعظمی نظام نہ بن جائے۔ اس کے لیے وزیراعظم کو بھی اداراتی مشاورت کے نظام کا پابند کیا جاتا ہے اور ’صواب دیدی اختیارات‘ کو جس حد تک ممکن ہو محدود کیا جاتا ہے۔ فیصلہ سازی اور تقرریوں کے عمل کو زیادہ سے زیادہ شفاف اور اہلیت کے مطابق بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، تاکہ اختیارات کا ارتکاز نہ ہو اور افراد اور اداروں کے درمیان توازن قائم رہ سکے۔

ان مقاصد کے حصول کے لیے ضروری تھا کہ صدر نے جو اختیارات آٹھویں اور سترھویں ترامیم کے ذریعے حاصل کرلیے ہیں، ان کو بطریق احسن وزیراعظم، کابینہ اور پارلیمنٹ کی طرف منتقل کیا جائے، اور ان سے وابستہ تصورات کوغیرمبہم بنانے کے لیے الفاظ بھی وہ استعمال کیے جائیں، جو توازن اختیارات کو حقیقی بناسکیں۔

اس مقصد کے حصول کے لیے اٹھارھویں ترمیم میں حسب ذیل تبدیلیاں ہوئی ہیں:

۱- نمایاں ترین چیز دستور کی دفعہ ۵۸ (۲) ب کی تنسیخ ہے، جس کے ذریعے صدر کو مرکز میں اور صوبوں میں اس کے نمایندہ گورنر کو اسمبلیاں توڑنے کا اختیار دیا گیا تھا (۱۱۲ (۲) ب)۔ بلاشبہہ آٹھویں ترمیم میں صدر کے اس اقدام کو عدالت میں قابلِ مواخذہ بنایا گیا تھا، اور سترھویں ترمیم میں ایسے اقدام کو آپ سے آپ سپریم کورٹ کے ’جائزے‘ (ریویو) کا پابند کر دیا گیا تھا، مگر اصل چیز صدر کا وہ صواب دیدی اختیار تھا، جو اسمبلیوں پر تلوار کی طرح لٹک رہا تھا۔ اب اس اختیار کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا ہے۔

۲- صدر کو اپنے صواب دیدی اختیار سے مسلح افواجِ پاکستان کے تینوں سربراہوں اور جوائنٹ چیف کے تقرر کا اختیار تھا، وہ اَب وزیراعظم کو منتقل ہوگیا ہے۔ اسی طرح چیف الیکشن کمشنر اور کمیشن کے ارکان، اور عبوری حکومت کے سربراہ کا تقرر کا اختیار بھی صدر کو حاصل ہوگیا تھا، لیکن اب اٹھارھویں ترمیم کے تحت یہ تقرریاں وزیراعظم کے ہاتھوں ایک پارلیمانی انتظام کی مشاورت سے واقع ہوں گی۔ گورنروں کے تقرر میں بھی اب وزیراعظم کا مشورہ فیصلہ کن ہوگا۔ اسی طرح ججوں کے تقرر کا بھی نیا نظام تجویز کیا گیا ہے۔ پبلک سروس کمیشن کا سربراہ بھی اب وزیراعظم کے مشورے پر مقرر کیا جائے گا۔

۳- آٹھویں ترمیم کے ذریعے وزیراعظم کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ صدرِ مملکت کو کابینہ کے تمام فیصلوں اور جملہ انتظامی امور اور قانون سازی کی تجاویز کے بارے میں مطلع رکھے، اور صدر کو بھی یہ اختیار تھا کہ وہ کابینہ سے اس کے کسی بھی فیصلے یا کسی بھی دوسرے امر کے بارے میں ازسرِنو غور کا مطالبہ کرسکتا تھا۔ ان تمام حصوں کو اب حذف کردیا گیا ہے، اور اس کے لیے ایک جامع دفعہ رکھی گئی ہے، جس کے تحت وزیراعظم تمام ملکی اور بیرونی امور پر صدر کو عمومی طور پر مطلع رکھے گا۔ مگر محض صدر کے ایما پر کوئی مسئلہ زیرغور نہیں آئے گا۔

۴- ایک اہم تبدیلی یہ کی گئی ہے کہ دفعہ ۹۹ میں انتظامِ حکومت، صدر کے بجاے    مرکزی حکومت کی ذمہ داری ہوگی۔ ایسی ہی تبدیلی گورنر اور صوبائی حکومت کے ذیل میں بھی کی گئی ہے۔ نیز حکومت کی جانب سے ’حکومتی قواعد کار‘ (rules of business) مرتب کرنے اور   ان میں تبدیلی لانے کی ذمہ داری بھی مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو حاصل ہوگئی ہے، جن کے سربراہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ ہوں گے۔ صدر یا گورنر کا دخل اس باب میں بھی ختم کردیاگیا ہے۔

۵- دستور کی دفعہ ۴۸ میں صدر کو وزیراعظم کے مشورے پر ۱۵اور ۱۰ دن کے اندر اندر عمل کرنے کا پابند کردیا گیا ہے۔ ایسی ہی پابندی گورنر پر بھی عائد کی گئی ہے۔

۶- صدر کو ریفرنڈم کا جو صواب دیدی اختیار حاصل تھا، اب وہ بھی ختم کردیا گیا ہے، بلکہ  کسی ایسے فیصلے کے لیے وزیراعظم کو بھی پارلیمنٹ کے مشترک اجلاس کی تائید کا پابند کیا گیا ہے۔

اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کس طرح صدر کے اختیارات کو محدود اور اس کے مقابلے میں وزیراعظم اور پارلیمنٹ کے اختیارات کو مضبوط کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ وزیراعظم پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے، جب کہ صدر کی پارلیمنٹ کے سامنے کوئی جواب دہی نہیں ہے۔ وہ صرف ہر سال سیشن کے آغاز پر پارلیمنٹ سے خطاب کرتا ہے اور پارلیمنٹ اگر چاہے تو اس کا مواخذہ کرسکتی ہے، لیکن صدر کی عمومی جواب دہی کا کوئی نظام نہیں ہوتا۔

صدر آصف علی زرداری صاحب بار بار یہ احسان جتا رہے ہیں کہ: ’’میں نے پارلیمنٹ کو اور وزیراعظم کو اپنے اختیارات منتقل کر دیے ہیں‘‘۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ فوجی صدور نے یہ اختیارات جبراً حاصل کیے تھے اور ان غصب شدہ اختیارات کی واپسی ’میثاقِ جمہوریت‘ اور تمام سیاسی جماعتوں بشمول پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے منشور کا بنیادی حصہ تھا۔ اٹھارھویں ترمیم، صدر زرداری صاحب کا عطیہ نہیں ہے بلکہ عوامی مینڈیٹ کو پورا کرنا ہے۔ صدرموصوف نے دو سال تک ان اختیارات کی منتقلی میں مسلسل لیت و لعل کی، جس کی جواب دہی ان کو کرنا چاہیے، نہ کہ وہ اب دو سال بعد اس تبدیلی کو اپنا ذاتی احسان قرار دیں۔

واضح رہے کہ تیرھویں ترمیم کے موقع پر بھی یہ اختیارات اس وقت کے صدر جناب فاروق احمد خاں لغاری سے وزیراعظم کو منتقل ہوئے تھے اور صدر مملکت نے بخوشی اس ترمیم پر دستخط کردیے تھے، تب انھوں نے کوئی احسان نہیں جتایا تھا۔

پارلیمان کی بالادستی کے لیے نیا نظام

پارلیمنٹ کی بالادستی کے قیام اور اہم تقرریوں کو خود وزیراعظم کے صوابدیدی اختیار کے دائرے سے نکال کر اداراتی مشاورت کے ذریعے انجام دینے والے نظام کا اختیار کیا جانا، اٹھارھویں ترمیم کے حوالے سے یہ ایک اہم تبدیلی ہے۔ اس کے لیے جو نیا نظامِ کار اختیار کیا گیا ہے، وہ پارلیمنٹ کو زیادہ کارفرما قوت بنانے اور وزیراعظم کے اختیارات کو محدود کرنے کا باعث ہوگا:

۱- سب سے اہم تبدیلی الیکشن کمیشن کے تصور اور اس کے تقرر کے طریق کار میں ہے، جس کے نتیجے میں الیکشن کا نظام زیادہ غیر جانب دار اور شفاف ہوسکے گا، جو جمہوریت کی روح ہے۔ اس سلسلے میں پہلی تبدیلی یہ ہے: اب الیکشن کمیشن ایک مستقل ادارہ ہوگا اور اس میں مرکزی کردار صرف الیکشن کمشنر کا نہیں بلکہ پورے کمیشن کا ہوگا، جو چیف الیکشن کمشنر اور چار ججوں پر مشتمل ہوگا، اور وہ چاروں صوبوں سے لیے جائیں گے۔ ان کا تقرر وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف باہمی مشورے سے کریں گے اور وہ تین نام ایک پارلیمانی کمیٹی کو دیں گے، جو ۱۲ افراد پر مشتمل ہوگی، جس میں ایک تہائی ارکانِ سینیٹ ہوں گے اور یہ کمیٹی تجویز کردہ ناموں میں سے ایک کا انتخاب کرے گی۔ اسی طرح کمیشن کا تقرر پانچ سال کے لیے ہوگا اور اس میں توسیع نہیں ہوسکے گی۔

۲- پبلک سروس کمیشن کے سربراہ کا تقرر بھی وزیراعظم، قائد حزب اختلاف کے مشورے سے کرے گا۔ یوں، الیکشن کے نظام کو شفاف اور قابلِ اعتماد بنانے اور سروسز کے انتخاب کے عمل کو حکومتِ وقت کی گرفت سے نکالنے اور معیار و قابلیت کے نظام کو ترویج دینے کی کوشش کی گئی ہے۔

۳- اسی طرح ججوں کے تقرر کے نظام کو ہرسطح کے ’صواب دیدی اختیار‘ سے پاک کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سب سے سینیر جج کے چیف جسٹس بننے کے اصول کے تسلیم کیے جانے اور اس اہم ترین تقرری میں انتظامیہ کی مداخلت کو ختم کر دیا گیا ہے۔ نئے ججوں کے تقرر کر لیے برتری عدالت کو حاصل ہے، جس میں عدالتی کمیشن کا سربراہ چیف جسٹس آف پاکستان ہوگا۔ اس میں سپریم کورٹ کے دو سب سے سینیر جج اور سپریم کورٹ کا ایک ریٹائرڈ چیف جسٹس یا جج ہوگا، جسے چیف جسٹس آف پاکستان باقی دو ججوں کے مشورے سے مقرر کریں گے۔ باقی تین افراد وزیرقانون، اٹارنی جنرل اور سپریم کورٹ کا ایک سینیرایڈووکیٹ جسے پاکستان بار کونسل نامزد کرے گی۔ اس طرح سات میں سے چار جج ہوں گے۔ یہ عدالتی کمیشن، نئے ججوں کے لیے جو نام تجویز کریں گے، وزیراعظم اپنے صواب دیدی اختیار سے تقرر کے لیے صدر کو نہیں بھیجیں گے، بلکہ ایک پارلیمانی کمیٹی کو بھیجیں گے، جس میں چار ارکان حکومتی پارٹی سے اور چار حزبِ اختلاف سے ہوں گے۔ نیز اُن میں سے چار قومی اسمبلی اور چار سینیٹ کے ارکان ہوں گے، جنھیں ۱۴ دن کے اندر اندر تجویز کردہ نام کی توثیق کرنا ہوگی اور صرف تین چوتھائی اکثریت سے انھیں نام رد کرنے کا اختیار ہوگا۔ گویا کہ اس طرح ہرسطح پر صواب دیدی اختیار کو ختم کرکے اداراتی مشاورت کا نظام قائم کیا جا رہا ہے اور نئے ججوں کے ناموں کا اوّلیں انتخاب عدلیہ کے توسط سے ہوگا۔

ججوں کے تقرر پر اعتراض کی حقیقت

اٹھارھویں ترمیم کی اس تجویز پر کچھ حلقوں کی طرف سے سخت اعتراضات کیے جارہے ہیں اور اسے عدلیہ کی آزادی کے تصور سے بھی متصادم قرار دیا جا رہا ہے۔ اس لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان اعتراضات کا مختصر جائزہ لے لیا جائے:

پہلی اصولی بات یہ ہے کہ عدلیہ کی آزادی اور عدالت کے لیے ججوں کا تقرر دو الگ الگ امور ہیں۔ عدلیہ کی آزادی کا عمل ججوں کا عدلیہ کا حصہ بننے کے بعد شروع ہوتا ہے، اس کا تعلق ججوں کے تقرر سے نہیں۔ ججوں کے تقرر میں دو ہی چیزیں دیکھی جاتی ہیں: ایک قابلیت، دوسرے کردار، دیانت داری اور راست بازی___ عدلیہ کی آزادی کی ایک قابلِ ذکر مثال امریکا سے سامنے آتی ہے۔ یاد رہے امریکا میں ججوں کا تعین صدرِ مملکت کی تجویز پر سینیٹ کے ذریعے ہوتا ہے، لیکن تقرر کے اس طریقے کو آج تک کسی نے عدلیہ کی آزادی سے متصادم قرار نہیں دیا اور عدلیہ نے بھی اپنی آزادی کو برقرار رکھا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ دنیا کے دوسرے جمہوری ممالک میں ججوں کے تقرر کے طریق کار میں پارلیمنٹ کا کردار ایک واضح حقیقت ہے۔ جرمنی میں تومرکزی اور صوبائی اسمبلیاں باقاعدہ ووٹ سے ان کو منتخب کرتی ہیں۔ فرانس، اٹلی، ہالینڈ، جنوبی افریقہ، سنگاپور، تقریباً ۲۰ممالک میں کسی نہ کسی شکل میں وزیرقانون، پارلیمنٹ کے نمایندوں اور قانون سے وابستہ اداروں کے نمایندوں کا اس میں دخل ہے لیکن اسے کہیں بھی عدلیہ کی آزادی سے متصادم قرار نہیں دیا گیا اور نہ ججوں کے کسی بھی عمل کے ذریعے منتخب یا مقرر ہوجانے کے بعد انھوں نے اپنی آزاد حقیقت کو مجروح ہونے دیا ہے۔

تیسری بات یہ ہے کہ ججوں کے تقرر کے سلسلے میں پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو بدقسمتی سے صرف چیف جسٹس کی سفارش پر تقرر، یا وزیراعظم اور وزیرقانون کی تجویز پر تقرر، دونوں ہی کا ریکارڈ کوئی بہت قابلِ فخر مثال پیش نہیں کرتا۔ سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ صاحب نے اپنی خودنوشت میں خود اپنے تقرر کا جو احوال بیان کیا ہے، اور اس میں خود زرداری صاحب کا کردار ناقابلِ رشک رہا ہے۔ اسی طرح خود ’ججوں کے کیس‘ (۱۹۹۶ئ) نے جو ایک کلاسیک حیثیت حاصل کرچکا ہے، جو معیار مقرر کیا تھا، اس پر اس فیصلے دینے والے جج بھی پورے نہیں اُتر رہے تھے۔

ان حالات میں ایک نئے تجربے کی تجویز کو ابتدا ہی میں اس طرح مطعون کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ اس پر تجربے کی ضرورت ہے اور اگر تجربے کی روشنی میں کسی رد و بدل کی ضرورت ہو تو اس کا دروازہ بھی کھلا ہے۔ خود پاکستان بار کونسل نے کمیٹی کو جو تجویز بھیجی تھی، اس میں ۱۹افراد پر مشتمل کمیشن کی تجویز دی گئی تھی، جن میں سے سات جج اور چھے وکیل اور چھے ارکانِ پارلیمنٹ رکھے گئے تھے۔ گویا اس کمیشن میں جج اقلیت میں ہوتے اور وکیل اور پارلیمنٹ کے ارکان سات ججوں کے مقابلے میں ۱۲ بن جاتے ہیں۔ اگر پارلیمنٹ کے چھے ارکان کو اس کمیشن میں رکھا جاسکتا ہے تو ایک پارلیمانی کمیٹی کے بننے سے کون سی انہونی ہو جائے گی۔

اس مسئلے پر جذباتی، گروہی یا طبقاتی انداز میں غور نہیں ہونا چاہیے اور اٹھارھویں ترمیم کی تجویز پر کھلے دل سے عمل کرنا چاہیے۔ بلاشبہہ پارلیمنٹ کی کمیٹی کی بھی ذمہ داری بہت بڑی ہے اور پارلیمنٹ کے ارکان کو میرٹ اور اصول پرستی کا مظاہرہ کرنا ہوگا، لیکن چشم زدن میں اس نظام کو دستور کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم قرار دینا مبالغہ آمیز حد تک زیادتی ہے۔

اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے عدلیہ کی آزادی کو زیادہ مؤثر بنانے کی تجاویز دی گئی ہیں، اور اس سلسلے میں دستور کی دفعہ ۲۰۰ اور ۲۰۳ میں جو ترامیم کی گئی ہیں، ان سے ان شاء اللہ عدلیہ مستحکم اور آزاد ہوگی اور ججوں کے تبادلوں کے سلسلے میں اگر وہ دو سال سے کم مدت کے لیے ہو تو ان کی مرضی کے خلاف تبادلہ اور تبادلہ قبول نہ کرنے پر ریٹائرمنٹ، عدلیہ کی آزادی کے اصول کے خلاف تھا  اور اسے اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے ختم کیا گیا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کے ججوں کو جس طرح  بے توقیر کیا گیا تھا، ان کا تقرر، تبادلہ، برخاستگی جیسی ذلت آمیزی اور ان کو اپنی گرفت میں رکھنے  کے لیے، بطور سزا ان کی مرضی کے بغیر ان کو اس عدالت میں بھیجنے کے تمام امکانات کو تبدیل کردیا گیا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کے جج اب عدالت عالیہ کے باقی تمام ججوں کے مساوی ہوں گے اور ان کو وہی تحفظ حاصل ہوگا جو دوسروں کو حاصل ہے۔ جس کے بغیر عدلیہ کی آزادی کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ یہ تمام پہلو مثبت ہیں اور ان کو نظرانداز کرنا قرینِ انصاف نہیں۔

بنیادی حقوق کا تحفظ

اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے عوام کے بنیادی حقوق کو مضبوط اور مستحکم کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے اہم تبدیلی دستور کی دفعہ ۲۵-اے کا اضافہ ہے، جس کی رُو سے اب ملک کے ہر بچے کے لیے بنیادی تعلیم (۵ سے ۱۶ سال تک) مفت اور لازمی قرار دی گئی ہے اور یہ حق حاصل کیا جاسکے گا۔ یہ محض پالیسی کی سفارش نہیں ہے۔ اسی طرح حصولِ اطلاعات کا حق بھی کرپشن کو روکنے کے نظام کو شفاف بنانے کی طرف ایک اہم قدم ہے۔اسی طرح right to fair trial and dur process of law پہلی مرتبہ ایک دستوری حق کے طور پر کتابِ دستور میں لکھا گیا ہے۔ دستور توڑنے یا معطل کرنے یا اس میں معاونت کرنے والوں اور اس عمل کو سندِجواز دینے والوں کو دستور کی دفعہ ۶ کی گرفت میں لایا گیا ہے۔ بلاشبہہ صرف دستور میں ’غداری کا ارتکاب‘ جیسے الفاظ کے اندراج سے فوجی طالع آزمائوں اور ان کے سیاسی اور خود عدالتی پشتی بانوں کا خاتمہ نہیں ہوسکتا۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس جرم کے ان تمام پہلوئوں کے دستور میں آنے کا ایک ’سدِجارحانہ‘ (deterrent) کردار ضروری ہے۔ البتہ آمریت کا راستہ روکنے کا اصل ذریعہ تو راے عامہ کی قوت، اداروں کا استحکام، سیاسی جماعتوں کا اپنی ذمہ داری کو پورا کرنا، اور سب سے بڑھ کر اچھی حکمرانی کا وجود ہے۔ آزاد ذرائع ابلاغ بھی اس سلسلے میں بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس پس منظر میں دفعہ ۶ کو وسعت دینا اور اس جرم کے تمام پہلوئوں پر اس کو محیط کردینا ایک مفید خدمت ہے۔

صوبائی خودمختاری

اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے ایک انقلابی اقدام ’مشترک لسٹ‘ کا خاتمہ اور مرکز اور صوبوں کے درمیان تعلقاتِ کار کی نئی بساط بچھانا، ایک مستحسن قدم ہے جس کے نتیجے میں اختیارات اور وسائل، صوبوں کی طرف منتقل ہوں گے۔ قانون سازی کی مرکزی فہرست کے حصہ دوم کو وسعت دی گئی ہے اور مشترکہ مفادات کی کونسل (CCI) کو ایک مؤثر اور کارفرما ادارہ بناکر حکمرانی اور فیصلہ سازی میں مرکز اور صوبوں کے اشتراک کا ایک نیا نظام تجویز کیا گیا ہے۔ قومی اقتصادی کونسل (NEC)کو بھی مؤثر اور متحرک بنایا گیا ہے۔ ’قومی مالیاتی اوارڈ‘ کو صوبوں کو وسائل کی فراہمی کے لیے ایک نیاآہنگ دیا گیا ہے۔ ملک کے وسائل پر مرکز اور صوبوں میں ملکیت اور انتظام و انصرام کے اشتراک کا بندوبست تجویز کیا گیا ہے۔ پن بجلی کے منصوبوں کے سلسلے میں متعلقہ صوبے سے مشاورت لازم کی گئی ہے اور مرکز اور صوبوں میں تعلقاتِ کار کے نظام کو بالکل ایک نئی جہت دی گئی ہے۔

اگر ان تجاویز پر ایمان داری سے عمل ہوتا ہے اور مرکز اور صوبے اپنے اپنے کام ذمہ داری سے انجام دیتے ہیں، تو اگلے چند برسوں میں ملک کی قسمت بالکل بدل سکتی ہے۔ وسائل کا بہائو مرکز سے صوبوں کی طرف مڑسکتا ہے۔ بالکل نچلی سطح پر معاشی اور سیاسی گرمیوں میں غیرمعمولی اضافہ واقع ہوسکتا ہے، جو محرومیوں کو دُور کرنے کا ذریعہ ہوسکتا ہے۔ اسی طرح صوبوں کی نمایندگی، مرکز ہی نہیں تمام مرکزی اداروں میں یقینی بنانے اور ماضی کی زیادتیوں کا ازالہ کرنے کا انتظام بھی دستوری ترامیم میں تجویز کیا گیا ہے۔

صوبائی خودمختاری کا نیا مثالیہ جو ان دستوری سفارشات میں دیا گیا ہے، اپنی اصل کے اعتبار سے ۱۹۷۳ء کے بعد ایک انقلابی آئینی اقدام ہے۔ خدا کرے کہ اس پر صحیح خطوط پر عمل ہوسکے۔ نتائج کا اصل انحصار عمل پر ہے اور ان ترامیم کے بعد اب مرکز اور صوبوں، سب کا       بڑا امتحان ہے۔

اسلامی دفعات

دستور کی اسلامی دفعات کے سلسلے میں اٹھارھویں ترمیم کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے ۱۹۷۳ء اور ۱۹۸۵ء کی دفعات کو باہم یک جان کردیا ہے، اور اس طرح دستور کی اسلامی دفعات زیادہ مؤثر ہوگئی ہیں۔ سیکولر قوتوں کو اس سلسلے میں جو پسپائی ہوئی ہے، وہ اسلامیانِ پاکستان کی ایک بڑی کامیابی ہے، لیکن اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے صرف ان دفعات کو مستحکم ہی نہیں کیا گیا ہے، بلکہ کئی چیزیں ایسی ہیں جو شدید مزاحمت کے باوجود حاصل کی گئی ہیں، مثلاً:

۱- وزیراعظم کے لیے مسلمان ہونا دستور کے متن میں شامل کردیا گیا ہے۔ اس سے پہلے صرف وزیراعظم کے حلف میں اس کا ذکر تھا، جو ایک بالواسطہ کیفیت تھی۔

۲- سب سے اہم چیز وفاقی شرعی عدالت کی حیثیت، اس کے ججوں کی آزادی اور ان کو توہین آمیز حد تک جس بے وقعتی کا نشانہ بنایا گیا تھا، اسے ختم کرنا ہے۔ حکومت جس جج کو چاہے اس عدالت میں اُس کی مرضی کے خلاف بھیج سکتی تھی۔ اس عدالت میں اگر حکومت کسی جج سے ناخوش ہے، تو جس وقت چاہے اس کوتبدیل کرسکتی تھی، فارغ کرسکتی تھی، کوئی دوسرا کام اس کو  سونپ سکتی تھی۔ ان کو ملازمت کا کوئی تحفظ حاصل نہ تھا اور عملاً بھی یہ سب کچھ ماضی میں کیا گیا۔ جس جج حتیٰ کہ چیف جسٹس نے بھی اگر حکومت کے اشاروں کو نظرانداز کیا، تو اسے یک بینی و دوگوش فارغ کر دیا گیا۔ اب شرعی عدالت کے جج بھی عدالت عالیہ کے ججوں کے مساوی ہوں گے۔ ان کا حلف بھی وہی ہوگا۔ ان کے تقرر، تبادلے اور برطرفی کے لیے وہی قانون لاگو ہوگا۔ پہلی مرتبہ وفاقی شرعی عدالت ایک حقیقی، آزاد اور بااختیار عدالت بن سکے گی۔

۳- اس کے ساتھ وفاقی شرعی عدالت میں علماے کرام سے بطور جج تقرر کے لیے جو مطلوبہ دینی اور علمی صلاحیت درکار تھی، اسے بھی بہتر بنایا گیا ہے۔ پہلے کسی بھی شخص کو جسے اسلامی علوم کا ماہر قرار دیا جائے جج مقرر کیا جاسکتا تھا۔ اب اس کے لیے وہی استعداد اور صلاحیت مقرر کردی گئی ہے جو دستور میں ’اسلامی نظریاتی کونسل‘ (IIC) کے علما ارکان کے لیے ہے، یعنی ۱۵سال کا تجربہ، اسلامی قانون کی تعلیم، تحقیق یا افتا کا تجربہ۔

۴- اسلامی نظریاتی کونسل کے سلسلے میں بھی ایک ترمیم یہ کی گئی ہے کہ کونسل میں علما ارکان کی تعداد کل تعداد کا کم از کم ایک تہائی (۳/۱) ضروری ہے۔ پہلے ان کی زیادہ سے زیادہ تعداد چار تھی، جو اس وقت تو مناسب تھی جب کونسل کے کُل ارکان آٹھ ہوتے تھے، مگر اب جب کہ وہ ۲۰ہیں، ان میں چار کی تعداد بہت کم تھی۔ اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے علما کی کم سے کم تعداد ایک تہائی مقرر کی گئی ہے۔ اسی طرح علما اور مختلف مکاتبِ فکر کی بہتر نمایندگی کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔

۵- دستور کی دفعہ ۶۲ اور ۶۳ سیکولر لابی کا خاص ہدف تھے، لیکن نہ صرف یہ کہ ان میں اسلامی نقطۂ نظر سے کوئی تبدیلی یا تخفیف نہیں کی جاسکی، بلکہ دفعہ ۶۳ -ایف میں، جس کو بہت   نشانہ بنایا گیا، ایسی ترمیم کی گئی ہے جس سے اس کے غلط استعمال کا دروازہ بند ہوگیا ہے۔ ایک شخص کی امانت، دیانت اور اچھی شہرت کے سلسلے میں نااہلی کو عدالتی فیصلے سے وابستہ کر دیا گیا ہے۔

آرڈی ننس سے قانون سازی کی حوصلہ شکنی

پارلیمنٹ کا اصل کام قانون سازی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں قانون سازی کے لیے بے محابا آرڈی ننس جاری کرنے کا آسان راستہ اختیار کرلیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں پارلیمنٹ ایک قسم کی ربڑ اسٹیمپ بن کر رہ گئی ہے۔ دنیا کے بیش تر جمہوری ممالک میں انتظامیہ کو آرڈی ننس کے ذریعے قانون سازی کا اختیار حاصل نہیں۔ امریکا اور یورپ میں تو اس کی ایک بھی مثال نہیں ملتی۔ برعظیم پاک و ہند میں برطانیہ نے اپنے دورِاقتدار میں آرڈی ننس کے ذریعے حکمرانی کا راستہ اختیار کیا۔ نتیجتاً جب اُن کے جانشین یہاں پر حکمران بنے تو انھوں نے بھی پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں قانون سازی کی یہ قبیح صورت جاری رکھی۔ تاہم اس میں ایک فرق ضرور ہے اور وہ یہ کہ بھارت میں ۱۰۰ میں سے بمشکل ۱۰ قوانین، آرڈیننس کے ذریعے اور ۹۰ معمول کی قانون سازی کے ذریعے کتابِ قانون کا حصہ بنتے ہیں، جب کہ پاکستان میں یہ تناسب بالکل اُلٹ ہے، یعنی ۸۰فی صد سے زیادہ قوانین آرڈی ننس کے ذریعے مسلط کیے جاتے ہیں اور ایک ہی آرڈی ننس کو بلاترمیم یا کچھ نمایشی تبدیلی کے بعد بار بار نافذ کیا جاتا رہتا ہے۔ بڑے مفصل قوانین کو نافذ کرنے کے لیے اسمبلی کے اجلاس کی برخاستگی کا انتظار کیا جاتا ہے۔ پھر اسمبلی کے اجلاس کے ختم ہونے کے ۲۴گھنٹے کے اندر ہی آرڈی ننسوں کی بارش شروع ہوجاتی ہے۔ سیاسی جماعتیں جب حزب اختلاف کا کردار ادا کرتی ہیں تو قانون سازی بذریعہ آرڈی ننس کی مخالفت کرتی ہیں اور جب اقتدار میں آتی ہیں تو بڑی ڈھٹائی اور سخت بے رحمی کے ساتھ اس مکروہ طریقے کو روا رکھتی ہیں۔ میں نے پوری  دل سوزی کے ساتھ دستوری کمیٹی میں آرڈی ننس کے اس طرح مسلط کرنے کا دروازہ بند کرنے کی تجویز پیش کی، لیکن بڑی مشکل سے جو کچھ حاصل کیا جاسکا، وہ یہ ہے:

۱- پہلے جب سینیٹ برسرِکار (in session) ہو، اس وقت بھی آرڈی ننس نافذ کیا جاسکتا تھا۔ صرف اسمبلی کے سیشن کے دوران یہ پابندی تھی کہ آرڈی ننس نہیں لاگو کیا جاسکتا (دفعہ ۸۹)۔ اب فرق یہ پڑا ہے کہ اگر سینیٹ بھی سیشن میں ہو تو آرڈی ننس نہیں آسکے گا۔

۲- ایک ہی آرڈی ننس کو بار بار نافذ کرنا پارلیمنٹ کے ساتھ مذاق ہی نہیں، اس کی توہین بھی ہے۔ عدالتِ عظمیٰ نے بھی اس کے بارے میں اپنے تحفظات کا کئی بار اظہار کیا ہے، مگر لاحاصل۔ اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے کم از کم یہ پابندی لگ گئی ہے کہ حکومت ایک ہی آرڈی ننس کو دوبارہ اپنی مرضی سے جاری نہیں کرسکتی۔ اگر اس کی مدت میں توسیع ناگزیرہے تو اس کے لیے پارلیمنٹ  کے کم از کم ایک ایوان کی قرارداد لازم قرار دی گئی ہے، اور پارلیمنٹ کو بھی پابند کردیا گیا ہے کہ وہ ایک سے زیادہ مرتبہ توسیع نہیں دے سکتی۔

توقع ہے کہ اس کے بعد پارلیمنٹ کے ذریعے قانون سازی کے عمل میں اضافہ ہوگا اور آرڈی ننس کے ذریعے قانون سازی میں کمی واقع ہوگی۔

سینیٹ کے اختیارات میں اضافہ

پارلیمنٹ کا ایوانِ بالا (سینیٹ) فیڈریشن کا مظہر اور صوبوں سے برابری کی بنیاد پر نمایندگی کی وجہ سے ان کے حقوق کے محافظت میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے سینیٹ کو قومی اسمبلی کے مساوی حیثیت تو نہیںدی جاسکی، لیکن نصف درجن سے زیادہ ترامیم کے ذریعے اس کے اختیارات اور کردار میں خاطرخواہ اضافہ ضرور کیا گیا ہے۔ اب سینیٹ سال میں ۹۰دن کے بجاے ۱۱۰ دن لازمی سیشن میں رہے گا۔ متعدد سرکاری اور پارلیمانی رپورٹوں کے بارے میں بھی یہ لازم کیا گیا ہے کہ ان کو قومی اسمبلی کے ساتھ سینیٹ میں بھی پیش کیا جائے، تاکہ  سینیٹ ان پر اپنی راے دے سکے۔

جیساکہ اُوپر عرض کیا گیا ہے، سینیٹ جب سیشن میں ہوتو اس وقت بھی آرڈی ننس کے اجرا پر پابندی لگادی گئی ہے۔ اہم حکومتی پارلیمانی کمیٹیوں میں سینیٹ کو نمایندگی دی گئی ہے، یعنی ججوں کے تقرر کی کمیٹی اور الیکشن کمیٹی کے ارکان کی نامزدگی کی ذمہ دار کمیٹی وغیرہ میں۔ اسی طرح بجٹ، فنانس بل اور منی بل کے لیے بھی اب سینیٹ میں غوروبحث اور اپنی تجاویز دینے کے لیے سات کے مقابلے میں ۱۴ دن مقرر کیے گئے ہیں۔ قومی اسمبلی کے لیے لازم کیا گیا ہے کہ وہ سینیٹ کی سفارشات پر غور کرے گی، گو اس پر پابندی لازم نہیں ہے۔

اپنے جوہر کے اعتبار سے ایک بڑی اہم ترمیم یہ کی گئی ہے کہ اب مرکزی کابینہ اور وزیراعظم، قومی اسمبلی کی طرح سینیٹ کے سامنے بھی جواب دہ ہوں گے۔ گو وزیراعظم کے انتخاب کا فریضہ صرف قومی اسمبلی ہی ادا کرے گی، لیکن حکومت کی جواب دہی کو اب پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوںتک وسعت دے دی گئی ہے___ اس سلسلے کی تمام ترامیم کے نتیجے میں توقع ہے کہ سینیٹ کا کردار بڑھے گا، قانون سازی کا عمل بہتر ہوسکے گا اور صوبوں کی آواز کو زیادہ وقعت اور اہمیت حاصل ہوسکے گی۔ صوبائی خودمختاری کے نئے ماڈل پر عمل درآمد کے لیے سینیٹ کا کردار بہت کلیدی اہمیت کا حامل ہے اور ان سب ترامیم کا حاصل فیڈریشن کے باہم اور متوازن تعلقاتِ کار کے تصور کو ایک قابلِ عمل صورت دینا ہے۔

ترمیم پر اعتراضات

اٹھارھویں دستوری ترمیم پر پانچ اہم اعتراضات سیاسی، صحافی، اور قانونی حلقوں کی طرف سے ہو رہے ہیں۔ اس لیے ان کے بارے میں چند گزارشات پیش ہیں۔

  • ججوں کے تقرر کا نیا نظام: سب سے بڑا اعتراض ججوں کے تقرر کے نئے نظام پر کیا جا رہا ہے۔ گو اس سلسلے میں سیاسی اور قانونی حلقوں کی راے منقسم ہے لیکن ایک قابلِ ذکر حلقے نے اس پر اعتراض کیا ہے۔ خود دستوری کمیٹی نے ان اعتراضات پر سنجیدگی سے غور کیا اور جوڈیشل کمیشن کو ترکیب میں ایسی تبدیلیاں کیں، جن کی وجہ سے چیف جسٹس اور ججوں کی راے کو بالاتر حیثیت حاصل ہوسکی، جو ایک مثبت پیش رفت ہے۔ ہماری نگاہ میں یہ ایک اچھا تجربہ ہے، تاہم اس بارے میں جن خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے ان کو یکسر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

بدقسمتی سے ماضی میں ججوں کے تقرر کے سلسلے میں دو انتہائی صورتیں رہی ہیں، یعنی: وزیراعظم کی سفارش پر تقرر یا چیف جسٹس کی سفارش پر تقرر۔ ان کے ذریعے اچھے جج بھی آئے ہیں اور ایسے جج بھی مقرر کیے گئے ہیں جو اعلیٰ عدلیہ کے لیے نیک نامی کا باعث نہیں بنے۔ اس لیے اس نئے تجربے کو جس کے خدوخال اور اس کے دلائل کا ذکر ہم اُوپر کرچکے ہیں، پوری احتیاط سے آگے بڑھانا ہوگا اور دونوں اداروں (جوڈیشل کمیشن اور پارلیمنٹ کی جوڈیشل تقرر کی کمیٹی) کو اپنی ذمہ داری پوری دیانت اور امانت سے ایک شفاف عمل کے ذریعے انجام دینا ہوگی۔ عدلیہ کی آزادی کا باب ججوں کے تقرر کے بعد شروع ہوتا ہے، اور کمیٹی کی کوشش رہی ہے کہ ہرسطح پر ’صواب دید‘ کی جگہ اداراتی مشاورت کے نظام کو رائج کیا جائے۔ اس نظامِ کار کو تجویز کرتے وقت جمہوری ممالک کے تجربات کو سامنے رکھا گیا ہے۔ البتہ اب کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی دونوں کی آزمایش اور امتحان ہے۔ گو ہماری نگاہ میں جو نظام تجویز کیا ہے، ان خطرات اور منفی پہلوئوں کے علی الرغم جن کی نشان دہی کی جارہی ہے، ماضی کے برعکس اس نظامِ کار میں خوبی کے امکانات زیادہ ہیں۔ کوشش یہ ہونی چاہیے کہ جن خطرات کے بارے میں متنبہ کیا جا رہا ہے، متعلقہ ادارے اور ذمہ داران ان کا پورا ادراک کریں اور ان سے بچنے کی ہرممکن کوشش کریں۔ نیتوں پر حملہ صحیح رویہ نہیں۔

  • صوبہ سرحد کا نیا نام: دوسرا مسئلہ صوبہ سرحد کے نئے نام کا ہے۔ بلاشبہہ یہ ایک مشکل مسئلہ تھا۔ نام کی تبدیلی پر کسی کو بھی اعتراض نہیں تھا۔ البتہ کیا نام ہو، اس پر اتفاق راے موجود نہیں تھا، اور بالآخر جو نام مسلم لیگ (ن) اور عوامی نیشنل پارٹی کی مشترک تجویز پر اختیار کیا گیا، اس کو صوبے کے ایک بڑے حصے نے خوشی سے قبول کیا، اور دوسرے حصے نے اس پر شدید ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ اس ردعمل میں اتنی شدت سامنے آئی جس کا پہلے سے کسی کو بھی ادراک نہیں تھا۔    ہم لسانی اور علاقائی قومیت کی بنیاد پر صوبوں کی تشکیل کو صحیح نہیں سمجھتے، لیکن نام کے معاملے میں علاقے کے لوگوں کی پسند کو اہمیت دیتے ہیں۔

قرآن پاک میں بھی یہ اشارہ موجود ہے کہ باہمی تعارف اور پہچان کے لیے گروہوں اور قوموں کے نام ہوسکتے ہیں، لیکن معاشرے کی بنیاد اور معیار اور کمال کا تعلق شناخت کے لیے مقرر کردہ ناموں سے نہیں تقویٰ اور اخلاقی بالیدگی پر ہے (وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا ط اِِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ طالحجرات ۴۹:۱۳) چونکہ صرف ’پختون خواہ‘ سے ایک خاص زبان اور قوم کا گہرا تعلق تھا، اس لیے مسلم لیگ (ن) کی تجویز پر جب کمیٹی کے ارکان کی اکثریت نے خیبرپختون خواہ پر اتفاق کرلیا تو اختلافی نقطۂ نظر رکھنے کے باوجود ہم نے بھی اسے قبول کرلیا۔

اس معاملے میں اے این پی نے دستوری ترمیم کی مکمل منظوری سے بھی پہلے جس طرح فتح کے شادیانے بجائے، ان کے اس عاجلانہ اور فاتحانہ انداز سے صوبے کے دوسرے لوگوں کو دُکھ پہنچا اور اشتعال انگیز فضا بن گئی۔ ساتھ ہی ہزارہ کے لوگوں کا سخت ردعمل سامنے آیا، جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس پر ستم بالاے ستم کہ صوبائی انتظامیہ نے ہزاروںلوگوں کی طرف سے اظہار راے کے جمہوری حق کو کچلنے کے لیے جس طرح قوت کا وحشیانہ استعمال کیا، اس نے حالات کو تیزی سے بگاڑ دیا۔ اس لیے ہم مرکزی اور صوبائی حکومتوں اور تمام سیاسی جماعتوں سے اپیل کرتے ہیں کہ مسئلے کا سیاسی حل افہام و تفہیم اور مذاکرات کے ذریعے تلاش کریں اور، فاتح اور مفتوح کی ذہنیت سے بالاتر ہوں۔ کوئی مسئلہ لاینحل نہیں، جذبات کا اظہار بجا، لیکن ان کو حدود میں رکھنا بھی ضروری ہے۔ نام کے مسئلے پر بھی مزید مذاکرات ہوسکتے ہیں اور ہزارہ کے لوگوں کے دوسرے تحفظات اور مطالبات کی روشنی میں تبدیلیاں بھی ممکن ہیں بلکہ وقت کی ضرورت ہیں۔

  • پارٹی کے اندر انتخاب کی پابندی:تیسرا مسئلہ دستور کی دفعہ ۱۷ (۴) کا ہے، جو سترھویں ترمیم کے ذریعے دستور کا حصہ بنی تھی اور جس کے ذریعے سیاسی جماعتوں کے اندر انتخاب کی پابندی کو لازمی قرار دیا گیا تھا۔ یہ ایک اچھی تجویز تھی اور سیاسی جماعتوں کے قانون میں بھی یہ شرط موجود ہے۔ کمیٹی نے قانون میں اس شرط کے موجود ہونے کو کافی سمجھا اور سترھویں ترمیم سے نجات کے شوق میں اس دفعہ کو خارج کر دیا۔ میں اپنے آپ کو اس تساہل کی ذمہ داری سے مبرا نہیں کہہ سکتا۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس شق پر کمیٹی نے اس زمانے میں فیصلہ کیا، جب میں علاج کے لیے انگلستان گیا ہوا تھا۔ میری نگاہ میں اس شرط کو دوبارہ دستور میں لانا مفید ہوگا اور قانون میں جو شرط موجود ہے، وہ اس طرح اور بھی مستحکم ہوجائے گی۔ اس سہو کا دفاع یا جواز پیش کرنا غیرضروری ہے اور آیندہ دستوری ترمیم کے ذریعے اس کی بہرصورت اصلاح کرنی چاہیے۔
  • اسمبلی سے رکنیت کے خاتمے کا اختیار: چوتھا مسئلہ سیاسی جماعت کے سربراہ کے اس اختیار سے متعلق ہے کہ وہ پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کی شکل میں ایک رکن اسمبلی کو سیٹ سے محروم کرنے کی سفارش سینیٹ کے چیئرمین یا اسمبلی کے اسپیکر کو کرسکتا ہے، اور ایسی صورت میں ایک متعین مدت کے اندر چیئرمین سینیٹ یا اسپیکراسمبلی کو اسے الیکشن کمیشن کو بھیجنا ہوگا۔

ہمارے خیال میں اس شق پر تنقید پوری ذمہ داری سے نہیں کی جارہی۔ جس طرح سیاسی جماعتوں میں قیادت کا انتخاب اور جمہوری روایات کا احترام ضروری ہے، اسی طرح پارٹی میں ڈسپلن بھی ایک ضروری شے ہے۔ دستور میں دفعہ ۶۳ (اے) کا اضافہ، پارٹی سے ’بغاوت‘ یا    ’بے وفائی‘ کو قانون کی گرفت میں لانے کے لیے کیا گیا تھا۔ اس میں جو ترامیم اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے کی گئی ہیں، وہ صرف دو ہیں: ایک یہ پارٹی کے پارلیمانی لیڈر کی جگہ پارٹی کے سربراہ کو  یہ اختیار دیا گیا ہے۔ اس کے بارے میں دو آرا ہوسکتی ہیں، لیکن پارٹی ڈسپلن کے نقطۂ نظر سے پارٹی کے سربراہ کو اس کا اختیار دینا کسی اعتبار سے بھی جمہوری اصولوں سے متصادم قرار نہیں دیا جاسکتا۔ واضح رہے کہ اس دفعہ میں یہ بات بھی وضاحت سے لکھی گئی ہے کہ:

بشرطیکہ اعلان کرنے سے پہلے پارٹی کا سربراہ ایسے ممبر کو موقع فراہم کرے گا کہ وہ وجہ بتائے کہ اس کے خلاف ایسا اعلان کیوں نہ کیا جائے۔

اس طرح یہ اعلان دفاع کا حق دیے جانے سے مشروط ہے۔ لیکن دوسری شرط اور بھی اہم ہے کہ یہ اقدام محض اختلاف راے یا عام معاملات، حتیٰ کہ قانون سازی کے معاملات میں اختلاف کی بنیاد پر نہیں ہوسکتا۔ اس اقدام کا جواز صرف اس وقت ہے، جب ایک رکن پارٹی کے فیصلے کے خلاف صرف چار امور پر ووٹ دیتا ہے یا پارٹی کی ہدایت کے باوجود ووٹ دینے سے احتراز کرتا ہے، اور وہ یہ ہیں: lوزیراعظم یا وزیراعلیٰ کا انتخاب l حکومت پر اعتماد یا عدمِ اعتماد کاووٹl منی بل کے بارے میں ووٹl دستوری ترمیم پر ووٹ۔

واضح رہے کہ ۶۳-اے کا اضافہ ۱۹۹۷ء میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی قیادت میں ہوا تھا، اور اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے صرف دستوری ترمیم پر ووٹ کو اس فہرست میں شامل  کیا گیا ہے، نیز پارٹی سربراہ کو یہ اختیار دیا گیا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوجانی چاہیے کہ اس ’بے وفائی‘ (defection ) کا تعلق صرف ان چار امور سے ہے___محض اختلاف راے یا ضمیر کے مطابق اظہارِ خیال سے نہیں ہے، جیساکہ میڈیا میں بہ تکرار کہا جا رہا ہے۔

نیز یہ بات بھی سامنے رکھنا ضروری ہے کہ پارٹی کا سربراہ صرف ایک اعلان (declaration) کرے گا جسے چیئرمین سینیٹ یا اسپیکراسمبلی الیکشن کمیشن کو بھیج دے گا۔ فیصلہ الیکشن کمیشن کرے گا جو ایک عدالتی ادارہ ہے اور معاملے کے سارے پہلوئوں کا احاطہ کرکے اور متعلقہ فرد کو صفائی کا موقع دے کر کوئی فیصلہ کرے گا اور قانون کے مطابق اس فیصلے کو بھی سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ آخری فیصلہ سپریم کورٹ کرے گی۔

جماعت اسلامی کا نقطۂ نظر

جہاں تک جماعت اسلامی کا تعلق ہے اس کے نمایندہ نے اٹھارھویں دستوری ترمیم سے عمومی اتفاق کے ساتھ اپنے موقف کا اعادہ کرتے ہوئے مفصل نوٹ دیا ہے، جو رپورٹ کا حصہ ہے۔ اس میں جن اہم امور کا ذکر کیا گیا ہے، وہ مختصراً یہ ہیں:

۱- تعلیم کے حق کے بارے میں ہماری کوشش تھی کہ اس پر مکمل عمل درآمد کے لیے زمانی حد زیادہ سے زیادہ ۱۰ سال مقرر کی جائے، جس پر اتفاق نہ ہوسکا۔ اسی طرح ہم نے تعلیم کے ساتھ غربت کے خاتمے اور ہرشہری کو بنیادی ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کو بھی ایک دستوری حق کے طور پر شامل کرانے کی کوشش کی، جسے موجودہ دستوری ترمیم میں شامل کرنے پر اتفاق نہیں ہوسکا۔

۲- دستور کی دفعہ ۴۵ میں صدر کو سزا میں تخفیف کا غیرمحدود اختیار حاصل ہے، جس کا حال ہی میں صدرزرداری نے اپنے منظورِنظر افراد کو قانون کی گرفت سے نکالنے کے لیے اس وقت استعمال کیا، جب کہ ابھی اٹھارھویں ترمیم کو نہ سینیٹ نے منظور کیا تھا اور نہ خود صدر ہی نے اس پر دستخط ثبت کیے تھے۔ ہماری تجویز تھی کہ یہ امتیازی، صواب دیدی اور اخلاق سے ماورا اختیار ختم کیا جائے اور عدالت کسی مجرم کے لیے جو بھی سزا طے کرے، اسے پورا ہونا چاہیے۔ لیکن اگر یہ تجویز قبول نہ ہو تو کم از کم حددو کے باب میں تخفیف کا اختیار تو لازماً ختم کیا جائے کہ شریعت اس کی اجازت نہیں دیتی۔ ہماری یہ تجویز بھی منظور نہ کی گئی۔

۳- ہم نے سینیٹ میں غیرمسلموں کی نشستوں کے اضافے پر بھی اصولی اعتراض کیا تھا۔ ہماری نگاہ میں ’جداگانہ انتخاب‘ کا طریقہ حق و انصاف پر مبنی اور ملک کی نظریاتی اساس سے      ہم آہنگ ہے۔ اس کے تحت غیرمسلموں کو اپنی آبادی کے تناسب سے نمایندگی مل جاتی ہے۔ لیکن جب اقلیتوں اور سیکولر لابی کے اصرار پر ’مخلوط طرزِ انتخاب‘ کا اصول تسلیم کیا گیا ہے تو پھر غیرمسلموں کے لیے علیحدہ نشستوں کا وجود ان کو دوہری نمایندگی دینے کے مترادف ہے اور یہ حق کسی سیکولر، جمہوری یا مغربی ملک میں بھی نہیں دیا جاتا۔ پاکستان میں غیرمسلم کسی ثانوی درجے کے محروم طبقے کی حیثیت نہیں رکھتے۔ یہ سیاسی پارٹیوں کا کام ہے کہ ان کو ٹکٹ دیں اور اس طرح وہ منتخب اداروں میں آئیں۔ چور دروازے سے داخل ہونا صحیح نہیں۔ ہم نے یہ بھی کہا کہ اس وقت بھی سینیٹ میں دو غیرمسلم سینیٹر موجود ہیں، اس لیے الگ نشستوں کا کوئی جواز نہیں۔

۴- ہماری نگاہ میں ججوں کے تقرر کے لیے جو، جوڈیشل کمیشن بنایا گیا ہے، اس میں حکومت کی نمایندگی کے لیے صرف وزیرقانون کا ہونا کافی تھا۔ ہم نے اٹارنی جنرل کی رکنیت کی مخالفت کی تھی۔

۵- ہم نے سول سروس کو سیاسی اثرورسوخ سے آزاد کرنے کے لیے ان کے لیے ان دستوری ضمانتوں کے اختیار کی تجویز بھی دی تھی، جو انھیں ۱۹۵۶ء کے دستورِ پاکستان میں حاصل تھیں۔

۶- ہم نے یہ بھی تجویز دی تھی کہ ملک کے اہم اداروں کے سربراہوں کی ملازمت کے سلسلے میں توسیع کا طریقہ ختم کیا جائے، چاہے ان کی مدت ملازمت میں کچھ اضافہ کردیا جائے۔ فوج اور دستوری سول اداروں کے سربراہوں کی مدت ملازمت میں توسیع کے بڑے تلخ نتائج سامنے آئے ہیں جو آج تک ملک بھگت رہا ہے۔ تمام سروسز چیف، پبلک سروس کمیشن اور الیکشن کمیشن وغیرہ کے سربراہوں کی مدت مقرر اور ناقابلِ توسیع ہونی چاہیے۔ صرف چیف الیکشن کمیشن کے سلسلے میں ہماری تجویز منظور ہوئی۔ فوج کے سربراہوں اور دوسرے دستوری اداروں کے بارے میں اسے قبول نہیں کیا گیا، حالانکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ بھارت میں آزادی کے حصول سے آج تک کسی ایک بھی سروس چیف کی مدت ملازمت میں توسیع نہیں کی گئی۔ اس طرح ہرشخص کو علم ہوتا ہے کہ اسے ایک متعین مدت میں اپنے کام کو مکمل کرنا اور پھر دوسروں کے لیے جگہ خالی کردینا ہے۔ ہمارے ملک میں ملازمت میں توسیع کا جو سخت مکروہ سلسلہ جنرل ایوب خان کے دور میں شروع ہوا، وہ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف تک جاری رہا، اور اب بھی ہر ایک کی نگاہ توسیع ہی پر ہوتی ہے۔

۷- جہاں ہم نے قانون سازی کی ’مشترک فہرست‘ کے خاتمے کی تجویز پیش کی، وہیں ہم نے یہ بھی کہا کہ ایک نظریاتی ملک کی حیثیت سے ضروری ہے کہ ملک میں یکساں نظامِ تعلیم ہو، کہ  قومی یک جہتی کے لیے یہ نہایت ضروری ہے۔ اس لیے تعلیمی پالیسی اور نصاب کی یکسانی ضروری ہے۔ بلاشبہہ تعلیمی پالیسی کی تشکیل اور نصاب کی صورت گری میں ہرصوبے کے لوگوں کی شرکت ضروری ہے اور جہاں جہاں علاقائی ضرورتوں کے لیے مقامی ادب اور تاریخی روایات کو نصاب کا حصہ بننا ضروری ہو، وہ لازماً ہونا چاہیے، لیکن اس کے ساتھ قومی اور ملکی ضروریات کے لیے یکسانی اور وحدت بھی ضروری ہے۔ اعلیٰ تعلیم اور تحقیق کے معاملات کو تو ’وفاقی فہرست‘ (حصہ دوم) میں شامل کیا جاسکا، لیکن یکساں نظامِ تعلیم اور یکساں نصاب کے لیے ہم کمیٹی کی تائید حاصل نہ کرسکے۔

۸-قومی زبان کے ساتھ جو مجرمانہ سلوک کیا جا رہا ہے اس کے خاتمے کی تجویز بھی ہم نے پیش کی اور مطالبہ کیا پانچ سال کے اندر اُردو کو سرکاری زبان کے طور پر لازماً نافذ کیا جائے، اور دستور کی دفعہ ۲۵۱ کی جو مسلسل خلاف ورزی ہورہی ہے، اسے ختم کیا جائے، لیکن ہماری یہ تجویز بھی مقتدر سیاسی پارٹیوں سے شرفِ قبولیت حاصل نہ کرسکی۔

۹- ہم نے یہ تجویز بھی دی تھی کہ سینیٹ کا انتخاب متناسب نمایندگی کے اصول پر ہرصوبے سے بلاواسطہ (direct) طور پر کیا جائے، اور سینیٹ کو وزیراعظم کے انتخاب اور بجٹ اور منی بل  کے باب میں قومی اسمبلی کے مساوی حیثیت دی جاسکے۔ اس پر ہمیں خاصی تائید حاصل ہوئی، مگر مطلوبہ اکثریت حاصل نہیں ہوسکی۔

۱۰- ہم نے یہ تجویز بھی دی تھی کہ تمام اہم کارپوریشنوں، فیڈرل اتھارٹیز اور مقتدر اداروں کے سربراہوں اور ’غیرپیشہ ورانہ سفارتی عہدے داروں‘ کے تقرر کی توثیق کم از کم سینیٹ کی کمیٹی سے حاصل کی جائے، کم و بیش اسی اصول پر جس پر ججوں کے تقرر میں پارلیمنٹ کے کردار کو شامل کیا گیا ہے۔ دنیا کے بیش تر جمہوری ممالک میں اور خصوصیت سے جہاں وفاقی نظام قائم ہے وہاں پارلیمنٹ یا ایوانِ بالا کا ایک کردار ہوتا ہے، لیکن یہ تجویز بھی شرفِ قبولیت نہ پاسکی۔

۱۱- ہم نے یہ تجویز بھی دی تھی کہ تمام بین الاقوامی معاہدات اور کنونشنز کو پارلیمنٹ میں آنا چاہیے اور ان کے لیے پارلیمان کی توثیق ضروری قرار دی جائے۔ اس وقت یہ سارا اختیار محض کابینہ کو حاصل ہے، پارلیمنٹ کو ان کی ہوا بھی نہیں لگتی۔ یہ تجویز بھی قبول نہ کی گئی۔

۱۲- ہماری یہ بھی تجویز تھی کہ بنیادی حقوق میں اس حق کو بھی شامل کیا جائے کہ کسی شخص کو خواہ وہ پاکستان کا شہری ہو، یا پاکستان میں مقیم ہو، ہائی کورٹ کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے ملک کے سپرد نہیں کیا جائے گا، لیکن یہ بھی متفقہ دستاویز کا حصہ نہ بن سکی۔

۱۳- ہم نے یہ بھی تجویز دی تھی کہ جس طرح تمام وزرا، ارکانِ پارلیمنٹ حلف لیتے ہیں اسی طرح دستور کے تحت مقرر کیے جانے والے تمام مشیروں (advisors) سے بھی حلف لیا جائے بشمول حلف رازداری۔ اس وقت یہ تمام مشیر کسی حلف کے بغیر کابینہ اور پارلیمنٹ میں شرکت کرتے ہیں، جو بڑی بے قاعدگی ہے، جلداز جلد اس بے قاعدگی کا خاتمہ ہونا چاہیے، مگر اسے بھی متفقہ سفارشات کا حصہ نہ بنایا گیا۔

۱۴- ہم نے فاٹا کے علاقے میں سیاسی حقوق کی حفاظت، سیاسی پارٹیوں کی سرگرمیوں کی آزادی، اور اس علاقے کے لوگوں کو فراہمیِ انصاف اور قانون کے باب میں پاکستان کے باقی تمام علاقوں کے مساوی قرار دینے اور ان کے اپنے منتخب نمایندوں کو علاقے کے مستقل انتظام کو طے کرنے کا موقع دینے کی تجویز بھی پیش کی۔ اس تجویز کے ایک حصے کو پالیسی کے لیے اپنی سفارشات میں تو شامل کرلیا گیا، مگر دستوری ترمیم کا یہ تجویز حصہ نہ بن سکی۔

ان تمام امور کو دستور کا حصہ بنانے کے سلسلے میں ہماری جدوجہد ان شاء اللہ جاری رہے گی۔

ہماری نگاہ میں اٹھارھویں ترمیم مجموعی طور پر ایک مثبت پیش رفت ہے اور اگر اس پر خلوص اور دیانت سے عمل کیا گیا تو حالات کی اصلاح اور حقیقی جمہوری اقدار کے فروغ، سماجی انصاف کے قیام اور علاقائی توازن کے پیدا کرنے میں اس کا کردار کلیدی ہوگا۔ ملک اور قوم، قیامِ پاکستان کے اصل مقاصد کی طرف مؤثر پیش قدمی کرسکیں گے، لیکن اس کا انحصار نیت، ادراک، اخلاص اور عمل پر ہے۔ دستور کے الفاظ ہمارے مسائل کا حل نہیں۔

اب مرکز، صوبے، سیاسی جماعتیں، تمام دستوری اداروں اور پوری قوم ایک عظیم امتحان میں ہے۔ وقت کی اصل ضرورت مسائل کا حل اور ان اہداف کا حصول ہے، جو دستور میں ان ترامیم کے بعد قوم کی آرزو اور تمنا کے طور پر واضح شکل میں سامنے آگئے ہیں۔ بلاشبہہ جو خامیاں رہ گئی ہیں، آیندہ دستوری ترامیم کے ذریعے ان کو دُور کرنا بھی ایک اہم ضرورت ہے، لیکن فوری ضرورت ان دستوری ترامیم پر مؤثر عمل درآمد ہے۔ اس سلسلے میں ذرا سی کوتاہی بھی تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔ دستوری کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں اور خود اٹھارھویں دستوری ترمیم کی شق ۹۵ میں نئی دستوری دفعہ ۲۷۰ اے اے کے ذریعے ایک نقشۂ کار دیا ہے اور ایسے ادارات کے قیام اور کارفرمائی کی سفارش کی ہے جو ان تبدیلیوں کو حقیقت کا روپ دے سکیں۔ اب اصل امتحان میدانِ عمل میں   قومی قیادت کی کارگزاری اور مرکز اور صوبوں کے نظام میں بنیادی تبدیلیوں کو حقیقت کے روپ میں ڈھالنے کا ہے۔ ہم اس کے سوا کیا کہہ سکتے ہیں   ع

پیش کر غافل اگر کوئی عمل دفتر میں ہے

درس قرآن سورئہ جمعہ (۱)

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ الْمَلِکِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْمِ o (الجمعۃ ۶۲: ۱) اللہ کی تسبیح کر رہی ہے، ہر وہ چیز جو آسمانوں میں ہے اور ہر وہ چیز جو زمین میں ہے___ بادشاہ ہے، قدوس ہے، زبردست اور حکیم ہے۔

سورئہ جمعہ مدنی ہے اور اس کے دو رکوع ہیں۔ پہلے رکوع کے مخاطب یہودی ہیں، جب کہ دوسرے رکوع کے مخاطب مسلمان ہیں۔ دونوں رکوعوں کا زمانۂ نزول مختلف ہے لیکن ایک حکمت کے تحت ان کو ایک ہی سورت میں یک جا کردیا گیا ہے۔ پہلا رکوع فتحِ خیبر (۷ ہجری) کے بعد کسی وقت نازل ہوا، جب کہ دوسرا رکوع ہجرت کے بعد ابتدائی زمانے میں نازل ہوا۔

اس سورہ میں مسلمانوں کے ایک گروہ کی ایک کوتاہی پر گرفت کی گئی ہے جس کا ظہور ان کی طرف سے نمازِ جمعہ کے خطبے کے دوران میں ہوا۔ یہ واقعہ ہجرت کے بعد ابتدائی زمانے میں    پیش آیا۔ نمازِ جمعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ طیبہ تشریف لانے کے بعدہی اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق قائم کر دی گئی تھی اور جس واقعے کی طرف اس میں اشارہ کیا گیا ہے، وہ بھی ہجرت کے بعد ابتدائی زمانے میں پیش آیا۔

مدینہ طیبہ پہنچنے کے بعد کچھ ابتدائی خطابات ہوئے ہیں جو سورئہ بقرہ میں بیان کیے گئے ہیں۔ سورئہ بقرہ کے ابتدائی حصے میں سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں آباد یہودیوں کو خطاب کر کے اللہ تعالیٰ کی آیات سنائی تھیں۔ بعد کی سورتوں میں بھی یہود کو جگہ جگہ خطاب کیا گیاہے۔ سورئہ جمعہ کے پہلے رکوع کا خطاب، غالباً یہودیوں سے اللہ تعالیٰ کا آخری خطاب ہے۔ قبائلِ یہود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو ناکام کرنے کی کوششوں میں اپنے بُرے انجام کو پہنچ چکے تھے۔ ان کا ایک قبیلہ (بنوقریظہ) تو بالکل برباد ہوگیا (اس کے تمام مرد حضرت سعد بن معاذؓ کے فیصلے کے مطابق قتل کردیے گئے) اور دوسرے دو قبائل (بنوقینقاع اور بنونضیر) اُجڑ کر دوسرے علاقوں میں جابسے تھے۔ خیبر ان کا سب سے بڑا گڑھ تھا جو ۷ہجری میں فتح ہوا اور اس کے بعد اُن کے دوسرے شہر بھی اسلامی حکومت کے زیرنگیں آگئے۔

اس سورت کی یہ شانِ نزول سمجھ لینے سے اس کے پہلے رکوع کا مطلب آسانی سے سمجھ میں آجاتا ہے۔

خدا کی تسبیح

فرمایا گیا کہ اللہ کی تسبیح کرتی ہے ہر وہ چیز جو آسمانوں اور زمین میں ہے۔ اس خدا کی تسبیح جو بادشاہ ہے اور قدوس ہے اور زبردست ہے اور حکیم ہے۔

تسبیح کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو زمین و آسمان میں ہے، خواہ زبانِ حال سے خواہ زبانِ قال سے، اس بات کا اظہار اور اعلان کر رہی ہے کہ اس کا پیدا کرنے والا اور اس کا پروردگار ہر عیب، نقص، کمزوری اور خطا سے پاک ہے۔ کوئی غلطی اس سے سرزد نہیں ہوتی اور کوئی عیب اور نقص اس کے اندر نہیں ہے___ اور وہ بادشاہِ حقیقی ہے۔ زبردست ہے اور حکیم ہے۔

بادشاہ ہے، یعنی ساری کائنات کا اکیلا فرماں روا ہے اور قُدوس ہے، یعنی تمام کمزوریوں اور عیوب سے بالکل پاک ہے۔ مقدس اور مُنزّہ ہے۔ بادشاہ کے ساتھ جب لفظ قُدوس آتا ہے   تو اس میں واضح طور پر یہ مفہوم آتا ہے کہ اس ہستی کو اقتدار اعلیٰ (sovereignty) حاصل ہے۔ اس کو کوئی ایسی کمزوری لاحق نہیں جس کی وجہ سے اس کے اقتدارِ اعلیٰ میں کوئی دخل دیا جاسکتا ہو۔ اس کے اقتدارِ اعلیٰ کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔

یہاں اللہ تعالیٰ کی تعریف میں دو باتیں فرمائی گئی ہیں: ایک یہ کہ وہ الملک القدوس ہے، یعنی ایسا بادشاہ ہے جو تمام کمزوریاں اور عیوب سے مُنزّہ ہے، دوسرے یہ کہ وہ العزیز الحکیم ہے، وہ زبردست اور غالب ہے اور اس کے ساتھ وہ حکیم ہے، حکمت رکھتا ہے___ ان دونوں چیزوں کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ بادشاہی اس چیز کا نام ہے کہ جو ہستی بھی بادشاہ ہو، اس کو اپنی رعیت پر کامل اقتدار حاصل ہو۔ کسی کو اس کے مقابلے میں چون و چرا کرنے کا یارانہ ہو۔ اس کی زبان قانون ہو۔ وہ کسی کے سامنے جواب دہ نہ ہو۔ کوئی اس کے حکم پر نظرثانی کرنے والا نہ ہو۔ اس کا فیصلہ آخری فیصلہ ہو۔ یہ ہے بادشاہی کا تصور___ موجودہ زمانے میں بھی، جن لوگوں نے پولیٹیکل سائنس (political science) پر لکھا ہے، یہی بات کہی ہے کہ جہاں بھی حاکمیت اور اقتدارِ اعلیٰ ہے، بادشاہی پائی جاتی ہے، وہاں لازماً کامل اقتدار ہوگا، ایسا اقتدار جس کے مقابلے میں کسی کو  چون و چرا کرنے کا حق نہ ہو۔

اب آپ دیکھیے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا جس ہستی کے متعلق بھی اس طرح کے کامل اقتدار کا تصور کیا جائے اس کے بارے میں فوراً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ واقعتا غلطی سے پاک ہے؟ کیا وہ حقیقتاً بے خطا اور بے عیب ہے؟ اگر کوئی ہستی ایسی ہو جو بے خطا نہ ہو اور پھر اس کو کامل اقتدار حاصل ہو اور اس کا فیصلہ آخری فیصلہ ہو اور کسی کو اس کے مقابلے میں چون و چرا کرنے کا حق نہ ہو، اس کی زبان سے جو نکلے وہ قانون ہو، کوئی اس کے قانون پر نظرثانی کرنے والا نہ ہو تو پھر اس سے بڑا ظلم اس کائنات کے اندر کوئی نہیں ہوسکتا۔ لامحالہ جس کو ایسا اقتدار اعلیٰ حاصل ہو اس کو لازماً مقدس ہونا چاہیے___ اگر وہ مقدس نہیں ہے تو اس کا اقتداراعلیٰ سراسر ظلم کے ہم معنی ہوگا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ اپنی تعریف میں یہ فرماتا ہے کہ وہ الملک القدّوس ہے، بے خطا بادشاہ ہے جس کے اندر کوئی عیب اور نقص نہیں ہے۔

پھر دوسری چیز یہ فرمائی کہ وہ العزیز الحکیم ہے۔

عزیز اس کو کہتے ہیں جس کے حکم کو نافذ ہونے سے کوئی دوسری طاقت روک نہ سکتی ہو۔ جو اس کا فیصلہ ہو، لازماً نافذ ہوکر رہے۔ کسی میں یہ طاقت نہ ہو کہ اس کے فیصلے کی مزاحمت کرسکے___ یہاں پھر وہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی صاحب ِ اقتدار ایسازبردست ہو کہ اس کی مرضی ہرحال میں نافذ ہوکر رہے اور کسی میں مزاحمت کرنے کی طاقت نہ ہو اور اس کے ساتھ وہ نادان بھی ہو، تو اس سے بڑا ظلم پھر دنیا میں کوئی نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ فرمایا گیا کہ وہ عزیز ہے اور اس کے ساتھ   حکیم ہے، زبردست ہے اور حکمت والا ہے۔ اپنے اقتدار کو، اور جو زور اس کو حاصل ہے اس کووہ حکمت کے ساتھ استعمال کرتا ہے، کیونکہ بادشاہی کی اصل یہ ہے کہ وہ بے خطا اور بے عیب ہو۔

انسان بادشاہی کے ساتھ بے عیبی کو اس قدر اہمیت دیتا ہے کہ جہاں بھی وہ بادشاہی فرض کرتا ہے وہاں اس کے ساتھ لازماً یہ بھی فرض کرتا ہے کہ وہ بالکل بے خطا ہے۔ اسی وجہ سے وہ کہتے ہیں کہ بادشاہ غلطی نہیں کرتا (king can do no wrong)، حالانکہ بادشاہ غلطی کرتا ہے۔  اس کے باوجود ان کو یہ فرض کرنا پڑا کہ بادشاہ غلطی نہیں کرتا کیونکہ اگر وہ کسی کو بادشاہ بھی مانیں اور  یہ بھی مانیں کہ وہ غلطی کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ انھوں نے ایک ظالم کو شاہی کا مالک مان لیا۔   اس لیے یہاں اللہ تعالیٰ کی یہ دو تعریفیں بیان فرمائی گئیں: ایک یہ کہ وہ الملک القدوس ہے اور دوسرے یہ کہ وہ العزیز الحکیم ہے۔

اب یہ بات کہ اس سورہ کی یہ تمہید کیوں اُٹھائی گئی ہے، وہ آگے کے مضمون سے واضح ہوتی ہے۔

بعثتِ رسولؐ کی حکمت

ھُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیِّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَاِِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ o  وَّاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ o (۲-۳)وہی ہے جس نے اُمّیوں کے اندر ایک رسول خود اُنھی میں سے اٹھایا، جو اُنھیں اُس کی آیات سناتا ہے، اُن کی زندگی سنوارتا ہے، اور اُن کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے، حالانکہ اِس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔ اور (اس رسولؐ کی بعثت) اُن دوسرے لوگوں کے لیے بھی ہے جو ابھی ان سے نہیں ملے ہیں۔ اللہ زبردست اور حکیم ہے۔

فرمایا گیا کہ اللہ نے اُمّیوں کے درمیان انھی میں سے ایک رسولؐ کو مبعوث کیا۔ یہودی تمام غیریہودی لوگوں کو gentile کہا کرتے تھے۔ عربی زبان میں اسی مفہوم کو اُمّی کا لفظ ادا کرتا ہے۔ اس کے معنی صرف اَن پڑھ کے نہیں، بلکہ یہودیوں کے ہاں اس کے معنی یہ تھے کہ سارے عرب جاہل ہیں، وحشی اور ناشائستہ ہیں، غیرمہذب ہیں اور اس قابل نہیں ہیں کہ ان کے ساتھ مہذب انسانوں کا سا برتائو کیا جائے۔ یہودیوں کا یہ تصور دنیا کے تمام غیریہودی لوگوں کے لیے تھا اور اسی بنا پر ان کا یہ قول تھا کہ لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْاُمِّیّٖنَ سَبِیْل (جسے قرآن مجید نے نقل کیا ہے)، یعنی اُمّیوں کے معاملے میں ہم پر کوئی گرفت نہیں ہے۔ ہم ان کا مال کھائیں تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ان کے ہاں یہودی عدالتوں میں جو قوانین نافذ تھے، ان کے اندر ایک یہودی کے حقوق اور اُمّی کے حقوق الگ الگ رکھے گئے تھے۔ اگر یہودی کسی اُمّی کا مال چرا لے تواس کے لیے قانون اور تھا، اور اگر کوئی اُمّی یہودی کا مال چرا لے تو اس کے لیے قانون اور تھا۔ ایک اُمّی دوسرے اُمّی کا مال چرائے تو اس کے لیے قانون اور تھا۔ لیکن اگر یہودی، یہودی کا مال چرائے تو اس کے لیے قانون اَور تھا۔ یہ ان کے تصورات تھے۔ قرآن میں یہ بات یہودیوں کے اسی طرزِعمل کے بارے میں آئی ہے۔ اسی خودساختہ تفوق کی وجہ سے یہودیوں کا یہ کہنا تھا کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم نبی کیسے ہوسکتے ہیں___ کہاں یہ اُمّی قوم اور کہاں یہ نبوت اور عالم گیر ہدایت کا مقام۔ یہ شخص رسول ہو ہی نہیں سکتا، نہ ہمارے سوا کسی قوم میں رسول آسکتا ہے اور نہ ہمارے سوا کسی قوم میں اللہ کی کتاب آسکتی ہے۔ یہ ان کے غرور کا حال تھا اور اسی غرور کی بناپر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ماننے کو تیار نہیں تھے۔

ان کے اسی زعمِ باطل کو توڑنے کے لیے فرمایاگیا کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کرنے والا اللہ ہے۔ وہ بادشاہ ہے اور عزیز ہے، اس کو یہ اقتدارِاعلیٰ حاصل ہے اور وہی یہ اختیار رکھتا ہے کہ جہاں چاہے اپنا رسول بھیجے اور جس کو چاہے اپنا رسول بنائے۔ تم نہیں مانو گے تو اپنی شامت بلائوگے۔ تم اس کے حکم اور فیصلے کو جھٹلاکر اس کا کچھ نہیں بگاڑو گے۔ وہ قُدوس ہے اور ایسا بادشاہ ہے جو غلطی سے مبّرا ہے۔ اس نے اگر اُمّیوں میں رسول بھیجا ہے تو کوئی غلطی نہیں کی ہے۔ تم نہیں مان رہے ہو تو تم غلطی کر رہے ہو۔ وہ زبردست ہے اور اس کی مزاحمت تم نہیں کرسکتے۔ جس رسول کو اس نے بھیجا ہے اس کی رسالت چلے گی تمھاری مزاحمت نہیں چلے گی۔ وہ زبردست ہے اور   اس کے ساتھ حکیم بھی ہے۔ اس نے یہ کام حکمت کے ساتھ کیا ہے، نادانی کے ساتھ نہیں کیا ہے۔  اسی لیے فرمایا گیا ہے کہ وہ بادشاہ اور عزیز ہے۔ اس کے فیصلے کی مزاحمت نہیں کی جاسکتی۔اور یہ سراسر اس کی حکمت ہے کہ اس نے اُمّیوں کے اندر یہ رسولؐ پیدا کیا ہے۔

اب آگے اس حکمت کو واضح طور پر بیان کیا گیا جس کی بنا پر یہ رسول بھیجا گیا۔ وہ حکمت یہ ہے کہ یہ قوم اس سے پہلے ضلالت میں پڑی ہوئی تھی مگر ہمارے رسولؐ کی آمد کے بعد تم دیکھ لو کہ اب اس کا کیا حال ہے:

یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ(۲) ہمارا رسولؐ ان کو    اللہ تعالیٰ کی آیات سناتا ہے، ان کا تزکیہ کرتا ہے۔ وہ ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔

تلاوتِ آیات

اللہ تعالیٰ کی آیات سنانے سے مراد یہ ہے کہ وہ انھیں قرآن سنا رہا ہے۔ اس کے ساتھ وہ ان کا تزکیہ کرتا ہے، یعنی ان کے دلوں میں اخلاص کی صفت کو پروان چڑھا رہا ہے۔ ان کا بگڑا ہوا تمدّن، ان کی بگڑی ہوئی معاشرت اور ان کی زندگی کا بُرا ہنجار، ان سب چیزوں کو وہ تمھاری آنکھوں کے سامنے درست کر رہا ہے۔ یہ اُمّی قوم جس ضلالت میں پڑی ہوئی تھی وہ بھی تمھاری آنکھوں کے سامنے ہے، اور جن لوگوں نے اس نبی سے آیاتِ الٰہی کو سن کر اپنی اصلاح کی اور اس کے تزکیے سے فائدہ اٹھایا وہ بھی تمھارے سامنے ہیں۔ ان کے اخلاق بھی تمھارے سامنے ہیں اور ان کے معاملات بھی تمھارے سامنے ہیں۔ اس طرح ان کا جو تزکیہ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ  علیہ وسلم کررہے تھے، وہ اندھے کو بھی نظرآرہا تھا۔ اس رسولؐ کی بعثت سے پہلے جاہلیت کی سوسائٹی کی جو کیفیت تھی، اور اس معاشرے میں، جو اَب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت سے قائم ہورہا تھا، دونوں میں جو فرق واقع ہوا ہے، وہ تمھاری آنکھوں کے سامنے ہے۔

تزکیہ و تربیت

تزکیہ کے معنی یہ ہیں کہ آدمی کے اندر جو برائیاں ہیں ان کو دُور کیا جائے اور جو بھلائیاں ہیں ان کو نشوونما دی جائے۔ اس طرح تزکیہ کا کام دوہرا کام ہے، برائیوں کو دُور کرنا اور بھلائیوں کو ترقی دینا۔ یہ دونوں کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت و رہنمائی کے تحت آیاتِ الٰہی کی تعلیمات کے مطابق اس وقت علانیہ ہورہے تھے۔ ان کی تفصیل بیان کرنے کی حاجت نہیں تھی۔ صرف یہ بتانا کافی تھا کہ دیکھو ہمارا رسول لوگوں کو فقط آیات الٰہی ہی نہیں سنا رہا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کا تزکیہ بھی کر رہا ہے۔

حکمتِ دین

اس کے بعد فرمایا:

وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ (۲) وہ ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔

یہاں الکتاب کا جو لفظ استعمال کیا گیا ہے وہ تمام کتب ِ آسمانی کے مجموعے کے لیے بولا جاتا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ کی طرف سے جتنی کتابیں آئی ہیں وہ قرآنِ مجید کی زبان میں الکتاب ہیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ ایک ہی کتاب ہے جس کے بہت سے ایڈیشن بہت سی زبانوں میں آتے رہے ہیں۔ یہ سب کتابیں ایک ہی تعلیم اور ایک ہی ہدایت لے کر آئی تھیں۔ اس طرح لفظ الکتاب کے استعمال سے مقصود یہاں یہودیوں کو یہ بتانا تھا کہ ہمارا رسول کوئی نئی اور نرالی چیز لے کر نہیں آیا ہے بلکہ آدم علیہ السلام کے وقت سے لے کر اس وقت تک، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تک جتنی کتب ِآسمانی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہیں، ان سب کا علم وہ اس قرآن کے ذریعے سے لوگوں کو دے رہا ہے۔

جو شخص بھی کتب ِ آسمانی سے واقفیت رکھتا ہو وہ بڑی آسانی سے اس بات کو سمجھ سکتا ہے، اور آج بھی یہود و نصاریٰ اس بات کو مانتے ہیں، لیکن وہ یہ بات ایک دوسری زبان میں کہتے ہیں۔ بجاے اس کے کہ وہ اس بات کو مانیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم وہی تعلیم لے کر آئے جو تمام انبیا کی تعلیم تھی، وہ اس کو اس طرح سے بیان کرتے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے سب کچھ یہود و نصاریٰ سے چرایا ہے اور اب اسے اپنی طرف سے پیش کر رہے ہیں۔ اس طرح اس بات کو نہیں مانتے کہ جو کچھ اسلام میں ہے وہ وہی کچھ ہے کہ جو تمام انبیا علیہم السلام اور تمام کتب ِ آسمانی کی تعلیمات ہیں۔ چنانچہ یہاں بیان فرمایا گیا کہ یہ اُمّی قوم جس کو کبھی کتب ِ آسمانی کی ہوا نہیں لگی تھی ان کا علم اب اس کو اس نبیؐ کے ذریعے سے حاصل ہو رہاہے۔ اس قوم کے اندر وہی تعلیم پھیل رہی ہے جو ساری کتب ِآسمانی لے کر آئی تھیں۔

اس کے بعد چوتھی چیز یہ بتائی گئی ہے کہ ہمارا رسولؐ ان لوگوں کو حکمت کی تعلیم دے رہا ہے۔ حکمت کی تعلیم کے معنی یہ ہیں کہ کسی قوم میں یہ دانائی پیدا ہوجائے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی ہدایات کے مطابق زندگی کے معاملات کو چلانے کے قابل ہوجائے۔ ظاہر بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو ہدایت آتی ہے وہ تفصیلات (details) میں نہیں آتی، وہ جزئیات کے بجاے کلیات اور اصول پیش کرتی ہے۔ تاہم، بعض بڑے بڑے اہم معاملات میں جزئی احکام اس غرض کے لیے دیتی ہے تاکہ نشاناتِ راہ متعین ہوجائیں۔ اب جو چیز آدمی کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ کتب ِ آسمانی کی ہدایات سے اصول اور کلیات اور قواعد کو سمجھ کر روزمرہ زندگی میں پیش آمدہ معاملات کے اُوپر ان کا انطباق کرے اور یہ معلوم کرے کہ ان معاملات میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کی ہدایات کے مطابق صحیح طرزِعمل کیا ہونا چاہیے، کیا چیز غلط ہے اور کیا چیز صحیح ہے، یہ وہ حکمت ہے جو کسی قوم کو صرف باقاعدہ تعلیم و تربیت سے حاصل ہوتی ہے۔ اس تعلیم و تربیت سے ایک قوم اس قابل ہوسکتی ہے کہ جس وقت بھی اس کے سامنے دنیا کا کوئی معاملہ پیش آئے تو وہ اس کے بارے میں خدا کی کتاب کی ہدایات اور اس کے رسولؐ کی سنت کو سامنے رکھ کر فوراً یہ راے قائم کرلے کہ اس معاملے میں جو کئی مختلف طریق کار ہوسکتے ہیں ان میں سے کون سا طریقِ کار ایسا ہے جو دینِ الٰہی کے مزاج کے مطابق ہے اور کون سا طریق کار اس کے مطابق نہیں ہے۔

یہ وہ حکمت ہے جو اللہ کے رسولؐ نے مسلمانوں کو سکھائی تھی اور یہ اسی حکمت کا یہ نتیجہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس اُمّی قوم کے یہ صحابہ کرامؓ جنھوں نے کسی یونی ورسٹی میں تعلیم نہیں پائی تھی، کسی کالج میں نہیں گئے تھے، ان میں سے بہت سے تو کتاب خواں بھی نہیں تھے، لیکن یہ لوگ دنیا کے ایک بہت بڑے حصے کے حکمران بنے اور اتنی بڑی سلطنت کے جو عظیم الشان اور ہمہ پہلو مسائل ان کو پیش آئے ان سب کو انھوں نے کتابِ الٰہی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے دیے ہوئے اصولوں کے مطابق حل کر کے اور چلا کر دکھایا۔ یہ وہی حکمت تھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سکھائی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تعلیم وتربیت کے ذریعے سے ایک روحِ اسلامی ان کے اندر ایسی اُتار دی تھی کہ جس کی بدولت زندگی کے جو معاملات بھی انھیں پیش آئے انھوں نے بے تکلف ان کا حل معلوم کرلیا۔

اسی لیے فرمایا گیا کہ یہ اُسی کی حکمت ہے کہ اس نے ایک اُمّی قوم کے اندر اپنے رسولؐ کو بھیجا اور اس رسولؐ سے یہ کام لیا، جب کہ اس اُمّی قوم کی حالت یہ تھی کہ وہ کھلی کھلی گمراہی میں پڑی ہوئی تھی۔ علم و دانش سے بہرہ وَر ہر شخص ایک نظر میں اس قوم کو دیکھ کر یہ معلوم کرسکتا تھا کہ یہ قوم سخت گمراہی میں پڑی ہوئی لیکن اُسی قوم کو اللہ تعالیٰ نے اس نبی کے ذریعے سے تعلیم و تربیت سے آراستہ کر کے ایک مہذب اور غالب و حکمران قوم بنا دیا۔

پھر فرمایا: وَّاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ ط وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ o (۳) ’’اور جو لوگ ابھی آکر ان سے نہیں ملے ہیں اُن کے لیے بھی اس کو رہنما اور ہادی بناکر بھیجا، اور وہ زبردست ہے اور حکیم ہے‘‘۔ گویا اس امر کا فیصلہ کہ خدا کس شخص کو نبی بنائے، اس پر نظرثانی کرنے والی کوئی طاقت نہیں۔ کسی کا یہ زور نہیں ہے کہ اس کے فیصلے کو بدلوا سکے اور وہ حکیم ہے۔ جو کچھ اس نے کیا ہے نہایت حکمت اور دانائی کے ساتھ کیا ہے۔

یھود کا حسد اور اس کا جواب

ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ ط وَاللّٰہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِo (۴) یہ اللہ کا فضل ہے، جسے چاہتا ہے دیتا ہے، اور وہ بڑا فضل فرمانے والا ہے۔

یہ اس حسد کا جواب ہے جو یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رکھتے تھے۔ وہ حسد کی بنا پر یہ کہتے تھے کہ جاہل، وحشی اور غیرمہذب قوم کے اندر نبوت اور رسالت کیسے ہوسکتی ہے۔ یہ تو صرف ہم بنی اسرائیل کے اندر ہونی چاہیے تھی۔ اللہ تعالیٰ اس کے جواب میں ان کے حسد کا ذکر کیے بغیر فرماتا ہے کہ یہ اللہ کا فضل ہے، اس کو اختیار ہے جس کو چاہے عطا کردے۔ اس کے فضل کے تم ٹھیکے دار نہیں ہو اور نہ اس پر تمھاری کوئی اجارہ داری ہے۔

تورات کے ساتھ یھود کا سلوک

مَثَلُ الَّذِیْنَ حُمِّلُوْا التَّوْرٰۃَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوْھَا کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ اَسْفَارًاط  بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ ط وَاللّٰہُ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَo (۵) جن لوگوں کو تورات کا حامل بنایا گیا تھا مگر انھوں نے اس کا بار نہ اُٹھایا، اُن کی مثال اُس گدھے کی سی ہے جس پر کتابیں لدی ہوں۔ اس سے بھی زیادہ بُری مثال اُن لوگوں کی ہے جنھوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلا دیا ہے۔ ایسے ظالموں کو  اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا۔

یہودی اس بات پر فخر کرتے تھے کہ ہم کتب ِ آسمانی کے حامل ہیں۔ عرب قوم جاہل اور اُمّی ہے، اس کے اندر رسول آنے کا کیا کام ہے۔ اگر رسالت ہوگی تو ہمارے اندر ہوگی۔ ان کے اس فخر کا ان کو جواب دیا گیا کہ تمھارے بقول عرب کے لوگ تو اُمّی ہیں لیکن تم جو حاملِ کتاب بنے ہوئے ہو اور اس پر فخر کرتے ہو، تمھاری حالت تو جاہلوں سے بھی بدتر ہے، تم پر کتاب کی ذمہ داری ڈالی گئی تھی لیکن تم نے اس کا حق ادا نہ کیا۔ اس لیے اس وقت تمھاری مثال اس گدھے کی سی ہے جس پر محض کتابیں لدی ہوں اور اسے کچھ معلوم نہ ہو کہ اس پر کیا چیز لدی ہوئی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ اگر کسی کے پاس کتابِ الٰہی موجود ہو لیکن وہ یہ بات نہیں سمجھتا کہ یہ کتاب اسے کیا ہدایت دیتی ہے، کس چیز سے وہ اس کو روکتی ہے اور کس راستے پر چلانا چاہتی ہے، کس راستے کو وہ انسان کی بربادی کا سبب قرار دیتی ہے اور کس راستے کو وہ فلاح کا راستہ بتاتی ہے۔ اس کے بعد اس کا کتاب اُٹھائے پھرنا ایسا ہی ہے جیسے گدھا کتاب اُٹھائے پھرتا ہو۔ گدھے پر کتابیں رکھی ہوں تو اس کے اُوپر بوجھ تو ہوگا لیکن اس کو یہ علم نہیں ہوگا کہ ان کتابوں میں کہا کیاگیا ہے۔ ایسا ہی تمھاراحال ہے کہ تم بوجھ تو اللہ کی کتاب (تورات) کا اُٹھائے پھرتے ہو اور اس پر تمھیں فخر بھی ہے لیکن درحقیقت تم کو اس کتاب سے کچھ حاصل نہیں، تم اس کتاب کے اندر کوئی بصیرت نہیں رکھتے، تمھیں کچھ پتا نہیں ہے کہ یہ کتاب تم سے کیا چاہتی ہے۔ اس کے بعد فرمایا:

بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ ط وَاللّٰہُ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ o (۵) اس سے بھی زیادہ بُری مثال ہے ان لوگوں کی جنھوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا ہے۔ ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا۔

دوسرے الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ گدھے کی مثال سے بھی بدتر مثال اُن لوگوں کی ہے جو اللہ کی آیات کی تکذیب کرتے ہیں اور یہی کام اُس وقت یہود کر رہے تھے۔

جب واقعہ یہ ہے کہ جو تورات کی تعلیم تھی اسی کو لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور وہی ان کے سامنے پیش کی اور وہ یہ بات خود بھی مانتے تھے کہ یہ آیات تورات کی تعلیم کے مطابق ہیں، پھر بھی انھوں نے ان کو جھٹلایا۔ ایک تو ہے آدمی کا کسی چیز سے ناواقف ہونا، اور دوسری بات یہ ہے کہ اس کے اندر بصیرت، ایمان اور اخلاص کا ایسا فقدان ہونا کہ وہ حق کو جانتے ہوئے بھی اس کا انکار کردے۔ اس کی وجہ اس کے سوا کیا ہوسکتی ہے کہ یا تو وہ اس بات کو جانتے نہیں تھے کہ کتب آسمانی کا منشا کیا ہے،اور یا وہ اتنے خبیث اور بدطینت تھے کہ یہ جان لینے کے بعد کہ یہ رسولؐ وہی بات پیش کر رہا ہے جو ہماری کتابوں میں ہے، اس رسول کو انھوں نے جھٹلایا۔ اس بات کو اس طرح سمجھیے کہ ایک شخص آپ کے سامنے آکر، خواہ وہ دنیا کے کسی کونے سے آئے، وہ باتیں پیش کرے جو قرآن میں لکھی ہوئی ہیں۔ اس کے بعد اگر آپ اس کی بات کو جھٹلاتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ قرآن کو جھٹلا رہے ہیں۔ گویا ان کا حال یہ تھا کہ جو تعلیمات تورات کے اندر  موجود تھیں اور انھیں قرآن میں پیش کیا جا رہا تھا، ان کو انھوں نے جھٹلایا۔ اسی لیے فرمایا گیا کہ بدترین مثال ہے ان لوگوں کی جنھوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا۔ مزید فرمایا: وَاللّٰہُ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ (۵)’’اور اللہ تعالیٰ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا‘‘۔

گویا جو شخص جان بوجھ کر، ایمان اور حق اور راستی اور انصاف کے خلاف چلتا ہے وہ ظالم ہے، اور جو لوگ یہ ظلم کریں تو اللہ تعالیٰ کا یہ قاعدہ نہیں ہے کہ ایسے لوگوں کو ہدایت دے۔ اللہ تعالیٰ ہدایت انھی لوگوں کو دیتا ہے جو راہِ راست سے ناواقف ہوں لیکن اخلاص کے ساتھ راہِ راست معلوم کرنا چاہیں، اور اخلاص کے ساتھ اس بات کے لیے تیار ہوں کہ جب راہِ راست ان کے سامنے واضح ہوجائے تو بلاکسی تعصب کے اس کو قبول کرلیں، کیونکہ ان کا اپنا مفاد اس میں ہے کہ وہ     راہِ راست پر چلیں۔ لیکن اگر کوئی شخص ایک طرف تو راہِ راست پر خود نہ چلے اور دوسری طرف جو شخص اس کے سامنے راہِ راست پیش کرے، اس سے لڑنے کو آئے اور اس کے خلاف لوگوں میں غلط فہمیاں پھیلائے، اس کو بدنام کرنے کی کوشش کرے اور ہرطریقے سے اس کے راستے میں کانٹے بچھائے تووہ ظالم ہے۔ پھر اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ وہ بدطینت اور خبیث ہے۔ پھر ایسے آدمی کو راہِ راست دکھانا اللہ تعالیٰ کا کام نہیں ہے۔ اللہ کو کوئی غرض نہیں پڑی ہے کہ وہ اس کے پیچھے ہدایت کو لیے پھرتا رہے۔ ایک شخص جب اللہ کی ہدایت کو قبول کرنے سے انکار کرتا ہے بلکہ اس کے ساتھ عداوت اور دشمنی پر اُتر آتا ہے، تو اللہ بھی پھر ایسے ظالم کو بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیتا ہے کہ جہاں چاہے بھٹکتا پھرے۔ (جمع و تدوین: حفیظ الرحمٰن احسن)

اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر بڑا فضل اور احسان ہے ، اس کی نعمتیں بے پایاں ہیں،     کرم نوازیاں اور اپنی مخلوق کے ساتھ اس کے تعلق کی نوعیتیں ہر چہار طرف بکھری ہوئی ہیں، اپنے آپ کو منواتی اور چار دانگ عالم میں محبت اور الفت کاپیغام لے کر آتی ہیں۔ لیکن اس کے مقابلے میں بندوں کا معاملہ عجیب ہے کہ اس کے وہ بندے بھی جو بظاہراس کو جانتے پہچانتے ہیں، اس کی کبریائی کے گن گاتے، اس کی بڑائی کو مانتے ہیں،اور اس کے اول و آخر اور ملجا و ماوی ہونے کو  تسلیم کرتے ہیںمگران کے اعمال و افعال ان کے ایمان، عقیدے اور ان کے ذہن وفکر کی نفی کررہے ہوتے ہیں۔ آدمی اگر دور نہ جائے اور خود اپنے اندرجھانک کردیکھے تو یہ بات دواوردو چار کی طرح واضح ہو کر سامنے آجاتی ہے کہ بندگی کے راستے پر چلنے والے بھی بار بار بار ڈگمگاتے،راہ سے بے راہ ہوجاتے ہیں، منزل کو گم کربیٹھتے ہیںاور خود اپنی ہی شناخت اور تعارف سے محروم ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ اس کے نتیجے میں یہ سوال اٹھتاہے اور اٹھایا جانا چاہیے کہ ان اسباب و علل پر کیسے قابو پایا جائے جو بحیثیت مجموعی بندوں کی گمراہی اور اپنے رب سے دُورہونے کا سبب بنتے ہیں۔

قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں اس موضوع پر تفصیلی ہدایات موجود ہیں،اور جزئیات تک میں رہنمائی کی گئی ہے۔ جہاںیہ بتایا گیاہے کہ انسان ناشکرا واقع ہواہے،بھول اور غفلت کا شکار ہوجاتاہے، سر سے لے کر پیر تک احسان فراموش بن جاتا ہے،وہیں یہ حقیقت بھی بیان کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت اوراس کی جبلت میں رجوع کے، اپنے رب کی طرف لوٹنے پلٹنے کے بھی کئی عنوانات سجائے ہوئے ہیں۔اسی وجہ سے طبیعت اور مزاج میں ایک ندامت کی کیفیت ،اورہر غلط کام کے اوپر اپنے آپ کو ٹوکنے کا ایک جذبہ ہمیشہ موجودرہتاہے۔ ہر برائی اورگناہ پر ملول ہونے، تأسف کا اظہارکرنے اور طبیعت کے اندر ایک ہیجان کی کیفیت کے کئی حوالے سامنے آتے ہیں۔اسی کو توبہ واستغفار بھی کہا جاتاہے اور رجوع الی اللہ بھی۔ قرآن پاک میں اہل ایمان کی جو صفات بیان ہوئی ہیں ان میں پلٹنے والے، لوٹنے والے ، اپنے رب کی طرف بار بار رجوع کرنے والے، اور توبہ استغفار کرنے والے کاتذکرہ بار بار ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندے کی یہ ادا بے حد پسند ہے کہ وہ بار بار راہ سے بے راہ ہواور بار بار اپنے رب سے رجوع کرے ، اس کی طرف واپس لوٹ آئے اور وہ اس کو معاف کردے۔اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اگر تم سب (ملائکہ کی طرح)بے گناہ ہو جائو اور تم سے کوئی گناہ سرزد نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اور مخلوق پیدا کرے گا جن سے گناہ بھی سرزد ہوں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت کا فیصلہ فرمائے گا (اور یوں اپنی شان غفاریت کا اظہار فرمائے گا)۔ (مسلم)

بخاری اور مسلم میں یہ واقعہ بیان ہواہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں اور صحابہ کرام ؓ حلقہ بنائے بیٹھے ہیں تاآنکہ لوگوں نے سنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک پر یہ کلمہ جاری ہوا کہ اس شخص کی خوشی کا کیا حال ہوگا ، اس شخص کی مسرت کا کیا حال ہوگا؟  یہ فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے۔ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ہم کچھ سمجھ نہیں سکے کہ کس شخص کی خوشی اور مسرت کا آپ تذکرہ فرمارہے ہیں۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص ہے ، جنگل بیابان ریگستان میں چلا جاتا ہے۔ وہ ہے اور اس کا اونٹ ہے، وہ خود ہے اور اس کی سواری ہے، اور اس سواری کے اوپر اس کی ساری کائنات لدی ہوئی ہے۔اس کے کپڑے، دانہ پانی، کھانے پینے کا سامان، اور اس کی ضرورت کی تمام چیزیں اس اونٹ کے اوپر موجود ہیں۔ وہ مسافر جب چلتے چلتے تھک جاتا ہے تو یہ سوچ کر کہ کچھ دیر آرام کرلے، اونٹ سے نیچے اترتا ہے، اس کو کھڑا کرکے قریب ہی لیٹ جاتا ہے اور اس کی آنکھ لگ جاتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کچھ دیر بعد جب وہ شخص بیدار ہوتا ہے تو کیا دیکھتا ہے کہ اس کا اونٹ تو وہاں ہے ہی نہیں، وہ چاروں طرف دوڑتا، گھومتاپھرتا اپنے اُونٹ کو تلاش کرتا ہے لیکن وہ کہیں ملتا ہی نہیں۔ہر چہار طرف اپنے اونٹ کو پکارنے کے بعد بھی جب اس کا نام و نشان نہیں ملتاتو وہ تھک ہار کر اپنی جگہ پر واپس بیٹھ جاتا ہے۔ چاروں طرف موت کے مہیب سایے اسے اپنی طرف بڑھتے نظر آتے ہیں۔ یہ خیال اسے ستانے لگتا ہے کہ اس ریگستان میں دن کی گرمی میں ہلاک ہو جاؤں گا، رات کی سردی میں مارا جاؤں گا،بھوک اورپیاس کی شدت سے اپنی جان گنوا بیٹھوں گا۔ چاروں طرف موت ہی موت اس کو نظر آتی ہے تاآنکہ زندگی سے مایوس ہو کروہ اپنے ہاتھ کو تکیہ بناتاہے اور پھراسی جگہ پر پڑ رہتاہے۔ اسی اثنا میں اس کی آنکھ لگ جاتی ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چند لمحے بعد جب وہ شخص دوبارہ بیدا ر ہوتا ہے اور آنکھ کھول کے دیکھتا ہے تو کیا دیکھتا ہے کہ اس کا اونٹ تو وہیں کھڑاہے،واپس آگیاہے۔ پھر آپؐ نے اس بات کو دہرایا کہ اس شخص کی خوشی کا کیا حال ہوگا، اس شخص کی مسرت کا کیاعالم ہوگا     جسے جنگل بیابان میں اپنا کھویا ہوا اونٹ واپس مل جائے۔ گویا زندگی اس کے اوپر مہربان ہوجائے، اور موت کے منڈلاتے ہوئے مہیب سایے اس سے رخصت ہوجائیں۔

ذرا غور کیجیے کہ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واقعہ کیوں سنایا؟جو بات آپ اس سے آگے ارشاد فرمانے والے ہیں، جس امر سے لوگوں کو آگاہ کرنے والے ہیں۔ اصل تووہ ہے۔آپؐ نے صحابہ کرام ؓ کی طرف رخ کرکے فرمایا کہ لوگواللہ تبارک وتعالیٰ کواس مسافر سے جسے جنگل بیابان میں اپنا کھویا ہوااُونٹ واپس مل جائے ، کہیں زیادہ خوشی ہوتی ہے جب اس کا ایک بھولا بھٹکا ہوا بندہ ، راہ سے بے راہ ہوجانے والا غفلت کا شکار بندہ ،اطراف کے حالات میں اپنے آپ کو گم کردینے اور اپنی شناخت کھو دینے والا بندہ پھر اس کی طرف لوٹتا ہے، پھر اس کی طرف پلٹتا ہے۔ پھر ندامت کے آنسو ہیں جو اس کی آنکھوں میں تیرتے ہوئے نظر آتے ہیں،اور وہ اَن گنت حوالوں سے اپنے رب کو راضی کرنے کے بہانے تلاش کرتا ، طور طریقے اپناتا ہے۔

قرآن پاک اور احادیث میں تفصیل کے ساتھ یہ بات آئی ہے بالخصوص انبیاے کرام کے حوالے سے تو یہ بات بالکل دوٹوک ہے ، انھی لفظوں کے اندر قرآن پاک میں موجودہے کہ جب اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف کوئی بندہ رجوع کرتاہے ، اپنی کسی خطااور کوتاہی کے حوالے سے معافی کا طلب گارہوتا ہے تو یہ ادا اس کواس قدر پسند آتی ہے کہ اس کی طبیعت اور کیفیت کے لحاظ سے    اللہ تعالیٰ اس کی زبان پر وہ کلمات جاری کردیتا ہے، اس کے جسم و جان کے اوپر اس عمل کو طاری کردیتاہے جو خود اس کو بڑا مقبول ہے۔ اس کے نتیجے میں اس کی توبہ بھی قبول ہوتی ہے،اور بارگاہ رب العزت میں درجات کی بلندی بھی اس کو مل جاتی ہے۔قرآن پاک میں نبوی دعائوں سے اس امرکا اشارہ ملتاہے:

رَبَّنَا ظَلَمْنَـآ اَنْفُسَنَا وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ o (الاعراف۷: ۲۳) اے رب ہم نے اپنے اوپر ستم کیا، اب اگر تو نے ہم سے درگزر   نہ فرمایا اوررحم نہ کیا تو یقینا ہم تباہ ہوجائیں گے۔

یہ کس کی دعا ہے؟حضرت آدم علیہ السلام اور اماں حواکی زبان پر یہ کلمات جاری ہیں، اپنے رب سے رجوع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم نے اپنی جانوں پر بڑا ظلم کیاہے، اور تیری ہی ایک ذات ہے جو مغفرت کرنے والی ہے، معاف کرنے والی ہے۔ انبیاے کرام کی جتنی بھی دعائیں ہیں، ان میں اسی کا حوالہ ملتا ہے۔

اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ o (الانبیاء ۲۱: ۸۷) نہیں ہے کوئی خدا مگر تو، پاک ہے تیری ذات، بے شک میں نے قصور کیا۔

یہ حضرت یونس علیہ السلام کی دعاہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی زبان پر وہ کلمات جاری کرا دیے جو   اس کو پسند ہیں، پھر ان کو قبول کرلیا۔

ہم اس موضوع کو کتابوں میں پڑھتے ہیں، بزرگوں سے سنتے ہیں تو خیال یہ ہوتا ہے کہ یہ کوئی دقیق علمی موضوع ہے، اورکبھی یہ گمان گزرتا ہے کہ یہ توبڑے لوگوں کی باتیں ہیں۔بلاشبہہ بڑے لوگوں کی باتیں تو ہیں ہی،اور علمی موضوع ہونے سے بھی کوئی انکار نہیںکرسکتا۔لیکن اگر ہربندے کا اپنے رب کے ساتھ تعلق ہے،اور ہر بندے کے لیے اللہ تعالیٰ نجات کے اَن گنت عنوانات چاروں طرف بکھیرتا ہے تو پھریہ تو میرا اور آپ کا موضوع ہے۔ کس سے گناہ نہیں سرزد ہوتا؟ کون ہے جو خطا کاپیکر ہونے سے انکار کرسکے؟ کس کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ      وہ خیرونیکی اور بھلائی و فرمانبرداری کا  سراپاہے؟ سب اس بات سے واقف ہیں کہ بڑے بڑے عابدو زاہد اور مجاہد، اور قبولیت کا شرف حاصل کرنے والے کو بھی گناہ سے مفر نہیں ہے۔ نافرمانی کے راستے پرنہ چلنا، اس پر کسی کا قابو نہیں ہے۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :

ہر آدمی خطار کار ہے(کوئی نہیں ہے جس سے کبھی کوئی خطا اور لغزش نہ ہوئی ہو)، اور خطاکاروں میں وہ بہت اچھے ہیں جو(خطا اور قصور کے بعد)مخلصانہ توبہ کریں( اور  اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرلیں)۔ (ترمذی)

انسان سے گناہ تو سرزد ہوتے ہیں، دل و دماغ بار بارنافرمانی کی آماجگاہ بن جاتے ہیں، جسم و جان کی دنیا میں ان گنت مواقع پر ایسے طوفان اٹھتے ہیں جو معصیت کی طرف لے جاتے ہیں۔پھر اس کے بعد کیا ہوتا ہے؟ اگر انسان گنا ہ کر بیٹھے تو طبیعت پر کیا کیفیت طاری ہوتی ہے؟  وہ اصل مطلوب ہے۔اگر گناہ انسان کو ملول کرے اور طبیعت کے اندر ملال کی کیفیت پیدا کرے، مزاج کے اندر محرومی کا احساس پیدا کرے تو یہ توبہ اور اپنے رب کی طرف رجوع کرنے کی کیفیت ہے۔ اس کی قدر کرنی چاہیے،اور یہ محسوس کرنا چاہیے کہ اپنے رب کی طرف سے مجھے یہ توفیق    مل رہی ہے۔ اس توفیق ہی کے نتیجے میں پھر نیک اعمال کا صدور ہوتاہے اور گناہ کے مقابلے میں انسان نیکی کی طرف بڑھتاہے۔

ایک موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں ، صحابہ کرام ؓ  آپ کے ارد گردبیٹھے ہیں اور ایک جنگ کے قیدی پکڑ کر لائے جارہے ہیں۔اسی اثنا میں صحابہؓ نے دیکھا کہ ان قیدیوںمیں ایک عورت بھی پکڑ کر لائی گئی ہے جوچیخ رہی ہے، چلارہی ہے، اور بآواز بلند مسلسل کہے جارہی ہے کہ ہاے میرا بچہ!ارے میرا بچہ کہیں پیچھے رہ گیاہے، میرا لخت جگر کہیں گم ہوگیا ہے؟ ماں کی مامتا اپنے بچے کے لیے بے چین ہے اورکہہ رہی ہے کہ مجھے تو تم یہاں قید کرکے یہاں لے آئے ہو، اس کو بھی قید کرو۔ گویا فرط محبت میں اپنے بچے کے لیے قید کی دہائی دے رہی ہے۔  صحابہ کرام ؓاس منظر کو دیکھ رہے تھے اوراس عورت کی چیخیں ان کے دل تک پہنچ رہی تھیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو ایسے تمام مواقع پر حکمت و دانائی کے ساتھ لوگوں کی رہنمائی فرمایا کرتے تھے۔ آپؐ کی آواز فضا کے اندر گونجی، اور اس خاص لمحے جب لوگ عورت کی چیخ و پکار سن رہے تھے،  آپؐ نے فرمایاکہ اے لوگو !کیا کوئی ماں اپنے بچے کو آگ میں ڈالنا پسند کرے گی؟جب ایک ماں کی دلدوزچیخیں سنائی دے رہی ہیں، ماں کی اپنے جگر گوشے کے لیے اٹھتی ہوئی آوازیں ہیں، اس موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام ؓ کو متوجہ کرکے فرمایاکہ کیا کوئی ماں اپنے بچے کو آگ میں ڈالنا پسند کرے گی؟ صحابہ کرام ؓ حیران رہ گئے اور عرض کیا کہ یارسول اللہ کوئی ماں اپنے بچے کو کیسے آگ میں ڈال سکتی ہے، بھلا یہ کیسے ممکن ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگو! کوئی ماں اپنے بچے سے جس قدر محبت کرسکتی ہے،پیار اور وابستگی کا اظہار کر سکتی ہے،اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس سے کہیں زیادہ مہربان ہے۔بھلا وہ اپنے بندوں کو آگ میں ڈال دے گا؟ہاں، بندے اس سے رجوع تو کریں، اس سے کچھ طلب تو کریں، ہاتھ پھیلا کر اس سے کچھ عرض تو کریں، دل و دماغ کی دنیا میں اسے جگہ تو دیں،سمائیں اور بسائیں تو سہی۔ گویا بندہ ایک قدم چلے تو سہی پھر دیکھے کہ اس کا رب کیسے دس قدم چل کر اس کے پاس آتا ہے۔

ہم جس ماحول اور معاشرے میں رہ رہے ہیں، اورگناہوں نے جس طرح ہرچہار طرف اپنا جال بچھا رکھا ہے، اس میں یہ اور بھی ضروری ہے کہ اپنے رب کی طرف پلٹا جائے۔ اس کو آپ رجوع الی اللہ کہیں، توبہ و استغفار کہیں،اپنے رب کی طرف لوٹنا پلٹنا کہیں،بار بار گناہوں کی طرف جانا اور بار بار نیکیوں کی طرف آنا کہیں،لیکن یہ وہ کیفیات ہیں کہ جن سے ہمیں لازماً گزرنا چاہیے۔

یہاںپر ایک سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ نے ہم کو انفرادی دائرے کے اندر  کش مکش کے لیے پیداکیاہے؟ ظاہر ہے کہ ایسا نہیںہے۔ انبیاے کرام کی تعلیمات اور خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جو اسوہ نظر آتا ہے، وہ انفردایت کے ساتھ اجتماعیت کو بھی اللہ کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دیتا ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آخری حج پر تشریف لائے ہیں، عرفات کے میدان میں ہزارہا ہزارلوگ موجود ہیں، الوادعی خطبہ اورآخری ہدایات ہیں جو رہتی دنیا تک آنے والے انسانوںکے لیے آپؐ ارشاد فرمارہے ہیں۔جب آپؐ اپنی بات مکمل فرمالیتے ہیں تو خطبے کے آخر میںپوچھتے ہیں کہ اے لوگوکیا میں نے رسالت اور دعوت کا حق ادا کردیا ہے؟ سب لوگ بآواز بلند پکار کر کہتے ہیںکہ حضور آپ نے دعوت بھی پہنچا دی، پیغام بھی پہنچا دیا۔نمونہ اس کا بتا دیا، عمل اس پر کرکے دکھا دیا۔چاروں طرف انسانوں کا سمندر مجسم گواہی ہے، بزبان حال بھی اور بزبان قال بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات کی تصدیق کررہاہے۔ آپ صلی علیہ وسلم جب یہ سنتے ہیں تو شہادت کی انگلی کوبلندتے ہیں، کبھی آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں اور کبھی مجمع کی طرف، اور فرماتے ہیں: اللّٰھم اشھد، اللّٰھم اشھد،اے اللہ گواہ رہنا، اے اللہ گواہ رہنا۔

یہاں ایک لمحے کو ٹھیریں اورسوچیں کہ کیا یہ کام صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مختص تھا؟اور ہم انفرادی اور چھوٹے چھوٹے دائروں میں وہ کام کرتے رہیں جو ہم کررہے ہیں۔اگرحضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ کامل نمونہ ہے تو لازم ہے کہ اس کی مکمل اتباع اورپیروی کی جائے۔ اس حوالے سے یہ بات ہمارے سامنے رہنی چاہیے کہ یہ کامل نمونہ خالص انسانی سطح پر ہے۔ ایسا نہیں تھا کہ پوری زندگی معجزات میں گزر گئی ہو،خوارق عادت چیزوں کا نمونہ بن گئی ہو۔ کون واقف نہیں ہے کہ آپؐ غم اور اندوہ کا شکار ہوتے تھے،اور ایک سال توحزن و ملال کا سال کہلایا کہ جس میں حضرت خدیجۃ الکبری ؓ اورجناب ابوطالب کا انتقال ہوا۔ آپؐ  صدمات سے دوچار ہوئے ہیں۔ آپؐ  کے نوزائیدہ بیٹے اس دنیا سے رخصت ہوئے توآنکھوں میں نمی آئی اور آنسو رواں ہوئے ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ کوئی پتھر مارے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چوٹ نہ لگتی ہو۔کوئی کانٹے بچھائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم آرام سے گزر جاتے ہوں اور کانٹے چبھتے نہ ہوں۔ کانٹے چبھتے تھے، اپنا اثر دکھاتے تھے،پتھرائو کے نتیجے میں جسم اطہر لہولہان ہوتا تھا، دندان مبارک شہید ہوتے تھے۔اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنوں کے لیے مسرت اور کبھی غصے کااظہار کیا ہے۔

ایک موقع پر حضرت ابی ابن کعبؓ نے پوچھ لیا کہ آپ ہمارے لیے دعا نہیں کرتے، نصرت الٰہی کب آئے گی؟پوچھنے والے صحابی وہ ہیں جنھوں نے شدید ترین آزمائشیں جھیلی ہیں۔ آپؐ کعبے کی دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے، سیدھے ہو کربیٹھ گئے، چہرہ انور غصے سے تمتما اٹھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے ابھی دیکھا ہی کیاہے،تم سے پہلے جو لوگ ہو گزرے ہیں، ان کو آدھا زمین کے اندر گاڑ دیا جاتا تھا،اور باقی آدھے جسم کو آروں سے دو حصوں میں تقسیم کردیا جاتا تھا۔ لوہے کی کنگھیوں سے گوشت کو ان کی ہڈیوں سے جدا کردیا جاتا تھا۔تم جلدی کرتے ہو، عجلت کا مظاہرہ کرتے ہو۔ان واقعات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی خالص انسانی سطح پر اگر نہ گزرتی تو اسوہ کیسے بنتا کہ جس کا اتباع کیا جاتا، جس کی پیروی کی جاتی۔

انسانی سطح پر ہی یہ بات آتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تھکے ہوئے گھر پہنچے ہیںاور اطلاع ملتی ہے کہ ایک قافلہ آیا ہے۔ آپؐ فوراً تیار ہو کر اس کی طرف جانا چاہتے ہیںکہ اس کو اللہ کی طرف بلائیں، توحید کا پیغام اس تک پہنچائیں، بندگی رب کا درس اس کو دیں۔ گھر والوں نے عرض کیا کہ دن بھر کے آپ تھکے ہوئے گھر لوٹے ہیں، کل چلے جائیے گا، صبح دیکھ لیجیے گالیکن بالکل انسانی دائرے میں آپ بات بیان فرما رہے ہیںکہ کیا عجب کہ یہ قافلہ راتوں رات ہی واپس چلا جائے یا آگے نکل جائے،یا جو مہلت عمل مجھے ملی ہے اور دعوت اور پیغام پہنچانے کی جو آزادی مجھے میسر ہے، صبح ہونے سے پہلے ہی وہ ختم ہوجائے۔

کیا یہ صرف علمی واقعات ہیں جو میں نے بیان کیے اور آپ نے پڑھے ہیں۔علم تو ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے، اس میں تو کوئی دو رائے ہو ہی نہیں سکتیںلیکن ان میں عمل کی ایک پوری دنیا بھی آبادہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے شروع ہو کر آپ پر ختم نہیں ہوتی،بلکہ آپ کے بعد آپ کی امت کو اس کامکلف بنایا گیا ہے اور اس کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے امت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی اس خصوصیت کو قرآن میں بیان فرمایا ہے:

کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ (اٰل عمرٰن۳: ۱۱۰) اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیاہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پرایمان رکھتے ہو۔

اور فرمایا:

وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ ط وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَo (اٰل عمران۳: ۱۰۴) تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہونے چاہییں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں۔ جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے۔

ان آیات اور حضورنبی کریمؐ کی سیرت کی روشنی میں ہمیں خود سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ  کیا ہم اپنے اعزہ واقارب، اہل خانہ، برادری اور خاندان کے بارے میں،اپنے دوست احباب کے بارے میں،سینے پر ہاتھ رکھ کر یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ ان تک ہم نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا ہے،دعوت کا حق ادا کردیا ہے، غلط راہوں پر جانے والوں کو بار بار متوجہ کیا اور ادھر جانے سے روکنے کی کوشش کی ہے؟حقیقت یہ ہے کہ اس کے بارے میں پوچھا جائے گا، سوال کیا جائے گا۔

توبہ و استغفار ،رجوع الی اللہ اور بندوں کو بندوں کے رب کی طرف ہنکانے کا دائرہ ساری انسانیت کو محیط ہے۔ بلاشبہہ ہم اپنے آپ کو نظر انداز نہیں کرسکتے کہ جو واقفیت مجھے اپنی ذات سے ہے اور جو تعارف مجھے اپنے سراپا کے ساتھ ہے، وہ کسی اور کو نہیں ہے۔ اپنی اچھی اور بری عادتوں کے بارے میں ہم جانتے ہیں۔ اپنے اچھے اور برے اعمال کی فہرست ہمارے سامنے ہے۔ نفس کی جو فرمایشیں روز سامنے آتی رہتی ہیں، ان سے ہم بخوبی واقف ہیں۔تو ہمیں اپنے لیے بھی یہ متعین کرلینا چاہیے کہ تذکیر کے جتنے عنوانات ہو سکتے ہیں وہ قلب و ذہن کی دنیا میں سجائے جائیں اوراپنے رب کی طرف پلٹنے اور اس سے رجوع کرنے کے جتنے حوالے ہوسکتے ہیںان سب کو  مضبوط کیا جائے، لیکن پورے معاشرے کو اللہ کی طرف رجوع کرانابھی ہماری ذمہ داری ہے اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کا تقاضا ہے۔

یہ کہنا آسان ہے کہ معاشرہ بگڑ گیا ہے لیکن جس زبان سے یہ جملہ نکلتا ہے اسی کی یہ سب سے زیادہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس بگاڑ کو دور کرے۔اس نے تو تشخیص کر لی کہ معاشرہ      بگڑا ہواہے،اور حالات کی خرابی کا شکار ہے۔یہ کہہ کر گھر میںسکون کے ساتھ بیٹھ جانا داعی کے شایانِ شان نہیں ہے۔ یہ لوگوں سے دوری اور بے زاری کی کیفیت ہے جو اسوہ حسنہ کی پیروی کرنے والے کے لیے زیبا نہیں ہے۔معاشرے کی خرابی کی اصل وجہ ہی یہ ہے کہ نصیحت ختم ہوگئی ہے اوروعظ و تلقین کا راستہ ترک اورمنکر پر ٹوکنا بند کردیاگیا ہے۔ ایسی محفلوں میں ہم شریک ہوتے ہیں جن میں برائیاں ’جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے ‘کاعنوان ہوتی ہیں، منکرات چاروں طرف دکھائی دیتی ہیں ۔ طبیعت اور مزاج کے اندر تھوڑی بہت گرانی تو پیدا ہوتی ہے لیکن رویے اور زبان کے اندر کم کم کوئی ایسی چیزسامنے آتی ہے جو لوگوں کو اصلاح کی طرف لے جاسکے،ان میں حالات کی خرابی کا ادراک پیدا کرسکے۔

ہم جن دنیوی مسائل کا رونا روتے ہیں۔ ایک شخص دوسرے شخص سے ملتا ہے تو کہتا ہے کہ صاحب چار گھنٹے بجلی نہیں تھی،رات کو تو نیند ہی نہیں آئی۔اس قدر شدید حبس تھا کہ کیا بتلائوں، اور ابھی تو اپریل کا معاملہ ہے، جون جولائی میں پتا نہیں کیا کیفیت ہوگی۔ جواب ملتا ہے کہ میرے ہاں بھی پانچ گھنٹے بجلی نہیں تھی،نہ پوچھو کہ میرا کیا حال ہوا۔ آدمی حیرانی سے منہ تکنے لگتا ہے کہ اچھا  تمھارا بھی یہی معاملہ ہے۔یہ جو بجلی کے بحران کی ہم بات کرتے ہیں، گیس کی لوڈشیڈنگ،   مہنگائی و بے روزگاری اور بد امنی کے عفریت کا رونا روتے ہیں، صنعتوں کے بندہونے، تجارت کے ختم ہونے اور کسانوں کے بے حال ہونے کی دکھ بھری کہانیاں سنتے سناتے ہیں۔ تنخواہ دارکہتے ہیں کہ گھرکے اندر تین تین تنخواہیں آتی ہیں لیکن گزارہ نہیں ہوتا۔ چادر پیرکی طرف لے جائو تو سر  کھل جاتے ہیں، سر کی طرف لے جائو تو پیر کھل جاتے ہیں، اس لیے کہ تنخواہیں جتنی ہیں اتنی ہی رہتی ہیں اور مہنگائی صبح اور شام میں اپنے آپ کو دوگنا چوگنا کرلیتی ہے۔ یہ تو چند مسائل کا ذکر ہے لیکن ان کی فہرست تو طویل ہے جس سے میں اور آپ واقف ہیں،لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان کاکوئی دنیوی حل ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ توبہ و استغفاراور رجوع الی اللہ ہی ان تمام مسائل کااصل حل، اور زندگی کو بہتر رخ پر ڈالنے اور حالات کو کل سے بہتر آج اور آج سے بہتر کل کا عنوان بنانے کا راستہ ہے۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادہے:

جوبندہ استغفار کو لازم پکڑلے (اللہ تعالیٰ سے برابر اپنے گناہوں کی معافی مانگتا رہے)تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہر تنگی اور مشکل سے نکلنے اور رہائی پانے کا راستہ بنا دے گا۔ اس کی ہر فکر اور پریشانی کو دور کرے گا،اسے کشادگی اور اطمینان عطا فرمائے گااور ان طریقوں سے رزق دے گا جن کا اس کو خیال و گمان بھی نہ ہوگا۔(احمد)

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اللہ تعالیٰ نے میری امت کے لیے دو امانیں مجھ پر نازل فرمائیں۔ (سورۂ انفال میں ارشا فرمایا گیا)کہ اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کرے گا کہ تم ان کے درمیان موجود ہو اور ان پر عذاب نازل کردے۔اور اللہ انھیں عذاب میں مبتلا نہیں کرے گا جب کہ وہ استغفار کرتے ہوں گے، معافی اور مغفرت کے طلبگار ہوتے ہوں گے۔آپؐ نے فرمایا: پھر جب میں گزر جائوں گا تو قیامت تک کے لیے تمھارے درمیان استغفار کو(بطور امان) چھوڑ جائوں گا۔(ترمذی)

توبہ و استغفار اوررجوع الی اللہ کی یہ تحریک ہی ہمیں مسائل کی دلدل سے نکال سکتی ہے۔ یہ تحریک کسی دکھاوے اور نمود و نمایش اورکسی خانہ پری اور رپورٹ کی تیاری کے لیے نہیں بلکہ طبیعت کے ابال اوربندوں کو آگ سے بچانے کے داعیے کے ساتھ ہونی چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ     اگر انفرادی دائرے میں اپنے رب سے رجوع کا کوئی حوالہ موجودہو تو چاروں طرف کے حالات میں جب لوگ راہ سے بے راہ ہورہے ہیںتوان کے لیے بھی یہ کیفیت خود بخود پیدا ہوجائے گی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے جس کا قرآن پاک میں ذکر کیا گیا ہے:

طٰہٰ o مَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰٓی o اِلَّا تَذْکِرَۃً لِّمَنْ یَّخْشٰی o (طٰہٰ ۲۰: ۱-۳) ہم نے یہ قرآن تم پر اس لیے نازل نہیں کیا ہے کہ تم مصیبت میں پڑ جائو۔   یہ تو ایک یاددہانی ہے ہر اس شخص کے لیے جو ڈرے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کومخاطب کرکے اللہ تعالیٰ فرمارہاہے کہ یہ قرآن پاک ہم نے اس لیے نازل نہیں کیا کہ تم مشقت کے اندر پڑ جائو،تمھارا حال تو یہ ہوگیا ہے کہ لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ (الشعرا ۲۶:۳) ’’شاید تم اس غم میں اپنی جان کھو دوگے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے‘‘۔یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کیفیت ہے کہ لوگوں کے غم کے اندر گھلے جارہے ہیںکہ یہ راہ سے بے راہ اور گمراہ ہوگئے ہیں، یہ بات کو سنتے اورجانتے نہیں ہیں، مانتے اور پہچانتے نہیں ہیں۔ عمل کی دنیا میں کسی انقلاب کے لیے آمادہ و تیار نہیں ہوتے ہیں۔گویا اپنی اور لوگوں کی دنیا اور آخرت کی فکر کرنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہے۔ناگزیر ہے کہ انفرادی دائرے میں بھی اس کی پیروی کی جائے، اوراجتماعی دائرے میں بھی ہر شخص اپنی اس ذمہ داری کو محسوس کرے، اور دعوت اور رجوع الی اللہ کی تحریک کا دست و بازوبنے۔اسی میں ہمارادنیا وی مستقبل محفوظ ہے، اسی کے اندر آخرت کی کامیابی، اللہ تعالیٰ کی رضا اور جنت کی ضمانت ہے، اور اسی کے نتیجے میں شفاعت مصطفی اوردیدار الٰہی کی توقع کی جاسکتی ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والاصفات ہر لحاظ سے جامع ومکمل ہے اور پوری انسانیت کے لیے اس میں اسوہ ہے۔یہی وہ دنیا کی واحد عظیم ہستی ہے جس کی آمد اور مبعوث کیے جانے کی بشارت بشمول ہندوؤں کی مذہبی کتابوں کے سابقہ آسمانی کتابوں میں دی گئی ہے، اور ان کے کاموں کو بھی متعین کیا گیا ہے اور پوری انسانیت سے کہاگیا ہے کہ جب ان کا زمانہ پاؤ تو ان کی اتباع کرو۔اسی بات کو قرآن مجید میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:’’وہ آپ کو اس طرح پہچانتے ہیں جس طرح اپنی اولاد کو‘‘(البقرہ ۲:۱۴۶)، کیوں کہ حضوؐر کی نبوت بہ مقابلہ اپنی اولاد کی پہچان کے بھی زیادہ واضح ہے (حافظ ابن کثیر،تفسیرالقرآن العظیم، دیوبند، ۲۰۰۲ئ، ج ۱، ص۲۲۵)۔ اس لیے یہ بات سرے سے ہی بے بنیاد ہے کہ نبی آخرالزماںؐ کی بعثت اور ان کے مقام ومرتبہ سے دنیا ناواقف ہے۔

مشرکین کے اعتراضات اور احترامِ رسولؐ

آپؐ انتہائی نازک دور میں انسانیت کی ہدایت وفلاح کے لیے مبعوث کیے گئے تاکہ اخلاقی قدروں کو بحال کیا جاسکے اور دین اسلام کو تکمیل کے آخری مرحلے تک پہنچایا جاسکے۔ اس کے بعد کوئی حجت باقی نہ رہے۔’’آج کے دن تمھارادین مکمل ہوگیا اور ہم نے اپنی نعمتوں کو تم پر تمام کردیا‘‘(المائدہ ۵:۳)، اور’’محمدؐ مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں،لیکن وہ اللہ کے رسول اور خاتم الانبیا ہیں‘‘ (الاحزاب ۳۳:۴۰ ) کا یہی مطلب ہے۔ خود نبی اکرمؐ نے فرمایا: ’’میری اور مجھ سے پہلے گزرے ہوئے نبیوں کی مثال اس عمارت کی سی ہے کہ جس نے ایک  خوب صورت حسین وجمیل عمارت بنائی مگر ایک کونے میںایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی ،لوگ اس عمارت کو دیکھ کر حیرت کرتے اور کہتے ہیں کہ یہ اینٹ بھی کیوں نہ رکھ دی گئی۔آپ ؐ نے فرمایا: ’’وہ اینٹ میں ہوں اور میں خاتم النبیینؐ ہوں‘‘ (بخاری،کتاب المناقب)۔ دوسرے کئی مواقع پر بھی آپؐ نے خود کو خاتم النبیینؐ ہونے کی خبر دی ہے۔(مسلم،کتاب الفضائل، ترمذی،ابواب الفتن، مسند احمد بن حنبل، ج ۲، ص ۳۹۸، ۴۱۳، ج ۳، ص ۷۹، ۲۴۸، ج ۴، ص ۸۱، ۸۴، ۱۳۷)

نبی اکرمؐ نے پہلی بار اپنی نبوت کااعلان کیا تو سواے چند ایک کے پورا مکہ آپؐ کا مخالف اور درپے آزار ہوگیا۔یہ عداوت آپؐ تک ہی محدود نہ تھی بلکہ ان لوگوں کے ساتھ بھی شقاوت کا مظاہرہ کیا گیا جو حلقۂ اسلام میں داخل ہوتے تھے۔کفارو مشرکین نے اپنے عقائد کے مینار کو، زمیں بوس ہوتا ہوا دیکھ کر ضرور بے تُکے پن کا اظہار کیا، لیکن کیا تمام لوگوں نے آپؐ کی باتوں سے منہ پھیر لیاتھا اور کانوں میں روئی ٹھونس لی تھی؟نہیں،بلکہ ان کی مثال اس عاشق کی تھی کہ نفرت اور غصے کی حالت میں بھی اپنے معشوق کو دزدیدہ اور ترچھی نگا ہ سے دیکھتا اور اپنے من کی دنیا کو سرشار کرتا ہے۔

مکی دور کا مطالعہ کریں تو یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ آپؐ جہاں کہیں بھی تشریف لے جاتے کفار ومشرکین وہاں پہنچ جاتے اوراپنے منشا کے خلاف کوئی بات سنتے توہڑ بونگ مچادیتے۔ قرآن مجید میں اسی بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:’’اس قرآن کو نہ سنو اور اس میں شور وغل کرو شاید کہ تم غالب آجاؤ‘‘(فصلت ۴۱:۲۶)۔ ان اوچھی حرکتوں کے باوجود چھپے دل سے وہ اس بات کو بھی تسلیم کرتے تھے کہ آپؐ کے کلام میں صداقت اور عجیب طرح کی حلاوت ہے۔بعض وقت   یہ لوگ چھپ چھپاکر رات کے ا ندھیرے میں قرآن کریم کو سننے کے لیے وہاں پہنچ جاتے جہاں  نبی ؐ اس کی تلاوت کررہے ہوتے (محمد بن عبداللہ بن ہشام،سیرت النبیؐ،مطبع حجازی، قاہرہ، ج۱، ص۳۳۷-۳۳۸)۔ کفار مکہ نے آپؐ کے متعلق مختلف نظریات قائم کیے،توہمات کو منسوب کیا اور لوگوں میں اس کی تشہیر کی،مگر آپؐ کی سیرت وشخصیت اور آپؐ کے کردا رپر کبھی کوئی حملہ نہ کیا، اور   نہ یہ کہا کہ آپؐ فلاں برائی کے عادی اور اس میں ملوث ہیں۔

حج کے موقع پر کفار نے مل کر ایک لائحہ عمل تیار کیا ،تاکہ نوواردوں کو آپؐ کی باتیں سننے سے روکا جاسکے ۔ سب لوگوں نے اپنی اپنی راے پیش کی کہ ان لوگوں کے سامنے ایساویسا کہا جائے لیکن ولید بن مغیر ہ نے یک لخت ان کی راے کو کالعدم کر دیا ۔اس نے کہا: اس کے کلام کی جڑیں وسیع اور مستحکم ہیں اور اس کی شاخیں ثمردار ہیں، اس کے متعلق تم جوبھی راے قائم کروگے،        وہ تمھارے خلاف جائے گی۔بہترین بات جو تم محمد کے متعلق کہہ سکتے ہو وہ یہ کہ یہ شخص جادو گر ہے اور جو باتیں وہ کہتا ہے وہ ایسا سحر ہے کہ اپنوں کواپنوں سے بے گانہ اور خاندان کو خاندان سے    جدا کردیتا ہے۔(ایضاً ،ص ۲۸۳-۲۸۴)

عتبہ بن ربیعہ سرداران قریش کے مشورے سے حضوؐر کی خدمت میں پہنچا اوراپنا مدعا ظاہر کیا۔ یہ بھی پیش کش کی کہ اس کے عوض آپؐ کو جو مطلوب ہو اسے واضح کریں ہم اسے پورا کیے دیتے ہیں۔ اللہ کے رسولؐ نے اس کی باتوں کو سننے کے بعد سورۂ حم سجدہ کی تلاوت کی ۔اس کے بعد فرمایا: آپ نے میری باتوں کو بہ غور سن لیا ۔اب آپ جانیں اور وہ۔عتبہ وہاں سے اٹھا اور سیدھے قریش کی مجلس میں پہنچا۔ لوگوں کی نظر میںاب عتبہ وہ نہ رہا جو جاتے وقت تھا۔عتبہ نے اپنا تاثر لوگوں کے سامنے جس انداز اور الفاظ میں ظاہرکیا اس سے بہ خوبی واضح ہوتا ہے کہ اس نے حضوؐر کی کا میابی اور ناکامی کو ہر دو اعتبار سے اپنی اور اپنی قوم ہی کی کامیابی پر محمول کیا۔(ایضاً، ص ۳۱۳-۳۱۴)

دین کی توسیع واشاعت کے لیے اللہ کے رسول ؐ نے طائف کا سفر کیا۔وہاں کے سرداروں میں سے ایک نے یہ بھی کہا:’’اگر تو واقعی اللہ کا نبی ہے تو اپنی زبان سے تیری بے ادبی کرکے میں اپنی عاقبت خراب نہیں کرسکتا‘‘ (ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، دارالکتاب العربی، بیروت، ۱۹۸۶ئ، ج ۲،ص ۶۳-۶۴)۔ ایسااس نے اس وقت کہا، جب کہ اس پر ابھی نبوت کی حقیقت پوری طرح واضح نہیں ہوئی تھی، مگر اب صورت حال دوسری ہے۔حق واضح ہوگیا ہے اور اس کی تفصیلات کتب معتبرہ میں موجود ہیں۔ اسے تسلیم کرنے کے لیے ایمان کامل اور یقین راسخ کی ضرورت ہے۔

شاہ حبشہ کے دربار میںکفار کے سفیر نے آپؐ کے متعلق مختلف قسم کی باتیں کہیں، مگر اس نے آپؐ کے اخلاق وکردارپر جارحانہ حملہ نہیں کیا (سیرت النبیؐ،ج ۱،ص ۳۵۸- ۳۶۴)۔  ہرقل شاہ روم نے صرف مکہ کے کچھ لوگوں کی زبانی جو آپؐ پر ایمان نہیں لائے تھے آپؐ کے احوال سنے تھے، آپؐ کا گرویدہ ہوگیا مگر وہ بعض وجوہ سے ایمان نہ لاسکا۔اپنی آسمانی کتاب کی بشارت کی روشنی میں وہ فوراً ہی سمجھ گیا کہ آپؐ نبی برحق ہیں،جس کا پوری دنیا کو شدت سے انتظار ہے (بخاری، کتاب الوحی، باب کیف کان بدء الوحی۔ حافظ ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، ج۱، ص۳۱-۳۵)۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ آپؐ کا تعار ف جس آدمی نے کرایا وہ آپؐ کا جانی دشمن تھا۔ اس نے وہی بات بادشاہ کے سامنے دہرائی جس کا تعلق حقیقت سے تھا،حالاں کہ ایک لحظے کے لیے اس کے دل میں خیانت کرنے کی بات بھی آئی ، مگر وہ ایسا نہ کرسکا۔

حضوؐر کے متعلق کفارو مشرکین نے جو نظریات قائم کیے اور آپؐ کے سلسلے میں خود ان کی ذاتی راے کیا تھی، اس پر روشنی ڈالتے ہوئے ایک ہندو دانش ور لکھتے ہیں: ’’تاریخ گواہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام معاصرین خواہ وہ دوست ہوں یا دشمن ،زندگی کے ہرشعبے اور انسانی سرگرمیوں کے ہر میدان میں پیغمبرؐ اسلام کی اعلیٰ خوبیوں ،ان کی بے داغ ایمان داری،  اخلاقی اوصاف ،بے پناہ خلوص اور شبہے سے بالاتر امانت ودیانت کے معترف تھے۔یہاں تک کہ یہودی اور وہ لوگ جو آپ کی دعوت پر ایمان نہیں لائے تھے ،ذاتی معاملات میں آپؐ کو ثالث بناتے تھے کیوں کہ وہ آپؐ کی غیر جانب داری پر کامل یقین رکھتے تھے۔حتیٰ کہ آپؐکے پیش کردہ دین کو قبول نہ کرنے والے بھی کہتے تھے:’’اے محمدؐ!ہم تمھیں جھوٹا نہیں کہتے لیکن ہم اس کا انکار کرتے ہیں جس نے تم پر کتاب اتاری اور تمھیں رسول بناکر بھیجا ‘‘۔وہ سمجھتے تھے کہ آپؐپر کسی    جِن یا بھوت کا اثر ہے ۔ آپؐ کو اس اثر سے چھڑانے کے لیے وہ تشدد پر آمادہ ہوگئے۔لیکن ان کے بہترین انسانوں نے دیکھا کہ آپ ایک انوکھی بصیرت کے مالک ہیں اور پھر وہ اس بصیرت کو حاصل کرنے کے لیے دوڑ پڑے‘‘۔(راماکرشنا راؤ،اسلام کے پیغمبر محمدؐ،دہلی،۲۰۰۶ئ،ص ۱۴)

مغرب کی عداوت اور اعتراضات

جیسے جیسے مدینہ کے یہودیوں کو علم ہوتا گیا کہ نبی کریمؐ بنی اسماعیل میں سے ہیں ،ان کی عداوت بڑھتی چلی گئی۔ حضوؐر کو جانی ومالی اذیت پہنچانے کے ساتھ انھوں نے آپؐ کی سیرت اور شخصیت پر پروپیگنڈے کی شکل میں اعتراضات کیے۔ تقریباً یہی صورت اس وقت تک برقرار رہی جب تک مغربی دنیا نے اسلامی علوم سے واقفیت نہ حاصل کرلی تھی۔مذہبی رہنماؤں کے ذریعے برپاکی ہوئی صلیبی جنگوں میں ناکامی نے یورپ کے بُغض وعناد کو مزید بھڑکادیا۔اس کے بعد انھوں نے اپنی شکست کو فتح میں بدلنے کے لیے انتہائی تکلیف دہ باتیں نبیؐ سے منسوب کیں ۔ زمانے کے تغیر کے ساتھ مغرب میں دور دانش کی ہواچلی تو انھوں نے اپنی حکمت عملی بدلی اور علمی بنیادوں پر سیرتِ رسولؐ پر اعتراضات اٹھانا شروع کیے ،نہایت کم زور اور فرضی دلائل کے ساتھ۔ ہر بری بات کو آپؐ سے منسوب کیا:صنمیات وضع کیں،چڑیا اور چڑے کی کہانیاں گھڑیں، وحوش وبہائم کی دل خراش داستانیں ترتیب دیں۔ کنویں کا افسانہ تراشا،بیماری کے قصے تیار کیے،نزول وحی کی کیفیات کو صرع سے تعبیرکیااوروحی کو لاشعوری واہمہ ٹھیرایا،تعدد ازواج کو نفس پرستی پر محمول کیا، آپؐ کی تنگی وترشی کو عیش وعشرت سے تعبیر کیا،اسلام کو پر تشدد مذہب ثابت کیا اور نبی ؐ کواس کا علم بردار،چنگیز کے اسلاف سے تعلق ثابت کرنے کے لیے خراسان کی وطنیت موسوم کی ،ہسپانیہ کے مفروضہ سفر کے اہتمام کیے، راہبوں سے نام نہاد تعلیم کے حصول کے ڈھول پیٹے،عیسائی فوج میں تربیت کی داستان تراشی،فرضی حکم رانوں کے خون کا الزام رکھا،عیسائی عہدہ داری اور الوہیت کی تہمت دھری،پھر جو کروٹ بدلی تو جہنم کے شیاطین کو بھی پناہ مانگنے پر مجبور کردیا۔منفی جذبات ہمیشہ انصاف کا خون کرتے ہیں۔ مغرب کو حقائق کاعلم ہوچکا ہے ،لیکن تعصب اور دشمنی ابھی تک ذہن سے چمٹے ہوئے ہیں۔(ڈاکٹر عبدالقادر جیلانی، اسلام ، پیغمبرؐ اسلام اور مستشرقین مغرب کا انداز فکر، ۲۰۰۷ئ،ص ۱۶۲ و ۳۱۹)

پرانے الزامات کو نئے روپ میں اور اسی قدیم نظریے کو نئے الفاظ کے کے قالب میں ڈھالاجاتا ہے۔ ان باتوں کو اشاعت کے لیے فلموں ، ڈراموں اور کارٹونوں کا بھی سہارا لیاجاتا ہے۔ ڈاکٹر عبدالقادر جیلانی لکھتے ہیں: ’’کائنات کی کوئی اور شخصیت اس قدر موضوع گفتگو نہیں بنی، جس قدر کہ سرور کائناتؐ کی ہمہ جہت شخصیت۔عالم اسلام میں قلم ان کے عشق ومستی میں سرشار تو عالم عیسائیت کا قلم بُغض وعناد میں ڈوبا ہوا۔ابو جہل وابو لہب نے اگر انھیں شاعرو ساحر ومجنون ومفتون قراردیا تو صادق و امین وحلیم وکریم بھی تسلیم کرتے تھے۔لیکن مغرب کی نظر یںعرب جاہلیہ کے تعادل سے بھی عاری تھیں۔انھیں سواے قبح کے کوئی حسن نظر نہیں آتا۔اپنی کورچشمی کو وہ ان کی شخصیت کا عکس سمجھے، اپنی ذہنی قبح کو الفاظ میں ڈھالااور اسے سیرت نگاری تصور کرتے رہے‘‘۔ (ایضاً،ص ۱۹۱-۱۹۲)

منصوبہ بند طریقے سے جو اعتراضات سیرتِ نبویؐ پرکیے گئے،اسے چند لوگوں کی کوشش بھی نہیںکہی جا سکتی،بلکہ ایسے لوگوں کی بڑی تعدا دہے۔خاص طور پراٹھارھویں اور انیسویں صدی عیسوی میںان بھدے اور دل شکن اعتراضات کو جلی سرخیوں کے ساتھ دہرایاگیا ۔ جوزف وہائٹ، ہمفرے پریڈو، ریسکی،ریلانڈ، ریسکی ،ایڈ منڈ ڈوٹے،سینٹ ہلری،دی انکونا،سائمن اوکلے، ایڈورڈ گبن،جارج سیل، گوئٹے ، تھامس کارلائل،دیون پوٹ، باس ورتھ اسمتھ، اسٹینلے لین پول، رینان،واشنگٹن ارونگ،ایچ جی ویلز،کائتانی، بکر،گرم، ولہاوزن، جان کریمر، نولدیکی، اسپرنگر، دوزی، گولڈ زیہر،وبر،ڈیوڈ مارگو لیتھ،ہنری لیمن،ولیم میور وغیرہ نے کم وبیش سیرتِ رسولؐ کو موضوع بحث بنایا۔ تفصیل میں جائے بغیر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان میں بہت سے لوگوں نے سیرتِ رسولؐ پر گفتگو کرتے ہوئے دانستہ یا غیر دانستہ ٹھوکریں کھائی ہیں اورکہیں نہ کہیں اپنے خبث باطن کا اظہار کیا ہے۔ ’’ان کے اعتراضات میں شاطرانہ مہارت پائی جاتی ہے جسے رد کرنا عام انسان کے لیے آسان نہیں۔یہ اعتراضات عیسائی دنیا کے لیے دل خوش کن،عالم اسلام کے لیے کرب انگیز اور غیرجانب دار لوگوں کے لیے گم راہ کن ہیں‘‘۔ یہ سب مغربی معاشرے کے ہی پروردہ ہیں، اس لیے ان سے بہتر توقع نہیں کی جاسکتی۔

بہ قول علامہ اسد: ’’یورپین کا رویہ اسلام کے بارے میں اورصرف اسلام ہی کے بارے میں دوسرے غیر مذاہب اور تمدنوں سے بے تعلقی کی ناپسندیدگی ہی نہیں، بلکہ گہری اور تقریباً بالکل مجنونانہ نفرت ہے ۔یہ محض ذہنی نہیں ہے، بلکہ اس پر شدید جذباتی رنگ بھی ہے۔ یورپ بدھشٹ اور ہندو فلسفوں کی تعلیمات کو قبول کرسکتا ہے اور ان مذہبوں کے متعلق ہمیشہ متوازن اور مفکرانہ رویہ اختیار کرسکتا ہے،مگر جیسے ہی اسلام کے سامنے آتا ہے، اس کے توازن میں خلل پڑ جاتا ہے اور جذباتی تعصب آجاتا ہے۔بڑے سے بڑے یورپین مستشرقین بھی اسلام کے متعلق لکھتے ہوے غیرمعقول جانب داری کے مر تکب ہو گئے ہیں … اس طریقۂ عمل کا نتیجہ یہ ہے کہ یورپ کے مستشرقین کے ادب میں ہمیں اسلام اور اسلامی تعلیمات کی بالکل مسخ شدہ تصویر ملتی ہے۔یہ چیز کسی ایک خاص ملک میں محدود نہیں،بلکہ جرمنی، روس، فرانس، اٹلی،ہالینڈ،غرض ہر جگہ جہاں یورپین مستشرقین نے اسلام سے بحث کی ہے ، انھیں جہاں کہیں بھی کوئی واقعی یا محض خیالی ایسی بات نظر آتی ہے جس پر اعتراض کیا جاسکے ،وہاں ان کے دل میں بدنیتی کی مسرت کی گدگدی ہونے لگتی ہے‘‘۔(محمد اسد،اسلام دوراہے پر،۱۹۶۸ئ،ص ۴۶-۴۷)

عصرِحاضر میں اعتراضات

۲۰ویں اور رواں صدی میں بھی منفی رجحان کی اشاعت کے لیے مغرب سرگرم عمل ہے۔ یہاں تک کہ مادیت کا لالچ دے کر ضعیف الاعتقاد مسلمانوں کو بھی اس کام کے لیے گھسیٹا جاتا ہے۔ سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین کے علاوہ کئی مسلمان مردو خواتین ہیں جو مغرب کے منصوبوں کو تقویت پہنچارہی ہیں۔ یہ بات بھی بڑی دل چسپ ہے کہ کچھ لوگوں نے اسلام اور بانی اسلام ؐ پر اعتراضات کیے ہیں وہ خودبھی بعض وقت اس سے ایسے بے زار ہوئے کہ سواے قبول اسلام      یا مدافعت اسلام کے ان کے سامنے کوئی دوسری راہ ہی نہ تھی۔اس طرح کے واقعات سے    تاریخ وتذکرہ کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔

علومِ اسلامیہ کے مطالعے کے لیے مغرب میں باضابطہ ادارے قائم کیے گئے۔مقصد یہ نہیں کہ اسلام کی خوبیوں کو تلاش کرکے اسے قابل استفادہ بنایاجائے اور اس سے رہنمائی حاصل کی جائے،بلکہ اس غرض سے اس کام کو انجام دیا گیا کہ کم زور پہلوؤں کو تلاش کرکے اور فرضی   حوالوں کے ساتھ اسلام اور نبی اکرمؐ پر اعتراضات کیے جاسکیں۔مثال کے طور پرکلیسا کے زیر اثر  پیٹر ونیریبل (Peter the Venerable) کے ایماپر ترجمہ قرآن کریم کی ناقص کوشش ۱۱۴۳ء میں سامنے آئی ۔ اس کا سہرا ایک انگریز ’رابرٹ‘ کے سر جاتا ہے۔اس نے قرآن کریم کا لاطینی زبان میں ترجمہ کیا۔اس کا مقدمہ ونیریبل نے لکھا۔اس گروہ کے بعض لوگوں نے اسے خوب پسند کیا، جب کہ اسی حلقے کے بعض دوسرے افراد نے اسے عیسائیت کے لیے ایک بد نما داغ قرار دیا ،  کیوں کہ اس میں حقیقت سے چشم پوشی اور فرضی باتوں کو غیر معمولی اہمیت دی گئی تھی۔

وینریبل نے ان لوگوںکو جس بات کے ذریعہ خاموش کرانے کی کوشش کی اس سے اس کا تعصب اور لائحۂ عمل کھل کر سامنے آجاتاہے۔کم وبیش یہی رویہ مستشرقین نے بعد کے ادوار میں اختیار کیا۔چنانچہ اس نے اپنے مقدمے میں صراحت کی ہے: ’’اگر میری مساعی صرف اس لیے لاحاصل نظر آرہی ہیں کہ دشمن پر اس سے کوئی اثر نہیں ہوگا تو عرض یہ ہے کہ ایک عظیم بادشاہ کے ملک میں کچھ کام ضرورتوں کے پیش نظر اور کچھ کام آرایش وزیبایش کے لیے اور کچھ دونوں کے لیے کیے جاتے ہیں ۔ صاحب امن سلیمان نے دفاع کے لیے ہتھیار بنوائے جن کی ضرورت اس کے دور میں نہیں تھی۔داؤد نے ہیکل کی آرایشی اشیا تیار کروائیں،جب کہ یہ اشیا ان کے عہد میں استعمال نہیں کی جاسکیں ۔میں سمجھتا ہوں کہ میرا کا م لاحاصل نہیں کہا جاسکتا ،کیوں اگر گم راہ مسلمان اس سے راہ حق پر نہیں لائے جاسکتے تو وہ محقق جو تلاش حق میں سرگرداں ہیں ،چرچ کے ان کم زور اراکین کو آگاہ کرنے سے ہرگز گریز نہیں کریں گے جو بہ آسانی متزلزل ہوجاتے ہیں یا غیر ارادی طور پر معمولی باتوں سے ہراساں ہوجاتے ہیں‘‘۔ (ڈاکٹر عبدالقادر جیلانی، اسلام ،پیغمبرؐ اسلام اور مستشرقین مغرب کا انداز فکر، ص ۱۳۹-۱۴۰)

اس طرح کی بے ہودہ کوششوں کا ایک تاریخی سلسلہ ہے۔جارج سیل کا ترجمہ قرآن علمی حلقوں میں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔لیکن اس کے مقدمے میں جس دریدہ دہنی کا مظاہرہ کیا گیا ہے وہ علم وتحقیق کے نام پر انتہائی شرم ناک بات ہے۔ مستشرقین کے علمی کام کی نوعیت کیا ہے اور اس کے پیچھے کون سے عوامل کار فرماہیں ،اس کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا   سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ لکھتے ہیں: ’’یہ بد طینت لوگ علم کے نام سے جو تحقیقات کرتے ہیں ،اس میں پہلے اپنی جگہ طے کرلیتے ہیں کہ قرآن کو بہرحال منزل من اللہ تو نہیںماننا ہے ۔اب کہیںنہ کہیں سے اس امر کا ثبوت بہم پہنچانا ضروری ہے کہ جو کچھ محمد ؐنے اس میں پیش کیا ہے یہ فلاں فلاں مقامات سے چرائے ہوئے مضامین اور معلومات ہیں۔اس طرز تحقیق میں یہ لوگ اس قدر بے شرمی کے ساتھ کھینچ تان کر زمین اور آسمان کے قلابے ملاتے ہیں کہ بے اختیار گھن آنے لگتی ہے اور آدمی کو  مجبوراً کہنا پڑتا ہے کہ اگر اسی کا نام علمی تحقیق ہے تو لعنت ہے اس علم پر‘‘۔(سید ابوالاعلیٰ مودودی،   سیرت سرور عالمؐ، دہلی، ج ۱،ص ۴۲۳)

متشرقین کا اعتراف عظمتِ رسولؐ

دنیا میں بے شمار مذاہب ہیں ،مگر خود انھیں اپنے بانیانِ مذہب اور ان کی تعلیمات کا صحیح علم نہیں ہے، جب کہ نبی اکرمؐ کی شخصیت ساری دنیا کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے ۔’مارگو لیتھ‘ نے سیرتِ رسولؐ پر کتاب لکھی۔ اس کی ابتدا ہی وہ اس طرح کرتاہے: ’’حضرت محمدؐ کے سیرت نگاروں کا ایک طویل سلسلہ ہے جس کو ختم کرنا ممکن نہیں ،لیکن ان میں جگہ پانا شرف کی بات ہے‘‘۔ (ڈاکٹر ایس مارگولیوتھ، Mohammad and the Rise of Islam Condon,, ۱۹۲۳ئ، نیویارک، ص ۱۱۱)

  • بیروت کے مسیحی اخبار الوطن نے ۱۹۱۱ء میں لاکھوں عرب عیسائیوںسے سوال کیا کہ دنیا کا سب سے بڑا انسان کون ہے؟اس کے جواب میں ایک عیسائی عالم’ داور مجاعض ‘نے مختلف محاسن کے ذریعے ثابت کیا کہ محمدؐ دنیا کی سب سے عظیم ہستی ہیں ۔
  • ’مائکل ہارٹ‘ نے دنیا کی ۱۰۰ عظیم ہستی‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے ۔اپنے انتخاب میں اس نے نبی اکرمؐ کو سب سے اونچا مقام دیا ہے اور سب سے پہلے آپؐ کا ذکر کیا ہے۔وہ اپنے مضمون کی ابتدا ان الفاظ میں کرتا ہے:

محمد تاریخ کے واحد شخص تھے جنھوں نے اعلیٰ ترین کامیابی حاصل کی، مذہبی سطح پر بھی اور دنیاوی سطح پر بھی۔ محمد نے معمولی حیثیت سے آغاز کرکے ایک عظیم ترین مذہب کی بنیاد رکھی اور اس کو پھیلایا۔وہ انتہائی موثر سیاسی لیڈر بن گئے ۔ان کی وفات کے ۱۳ صدیوں بعد آج بھی ان کے اثرات غالب اور طاقت ور ہیں‘‘۔ (مائیکل ہارٹ، The 100، ۱۹۷۸ئ، نیویارک)

  • مغرب کے دوش بہ دوش یا اس کی برپا کی ہوئی تحریک کے زیر اثر ہندستان میں بھی ایسے غیر مسلم مفکرین کی کمی نہیں، جنھوں نے سیرت رسولؐ کا مطالعہ ہر دو پہلو سے کیا ہے۔موقع ومحل سے فائدہ اٹھاکر انھوں نے بھی محمدؐ پر زبان طعن دراز کی ہے۔گنگا پرساد اوپادھیاے بھی انھی لوگوں میں ایک ہیں۔انھوں نے اسلام کامطالعہ تعصب کی عینک لگاکر کیا ہے۔ان کی معروف کتاب مصابیح الاسلام اس کی آئینہ دار ہے۔اس میں انھوں نے اسلام کے بہت سے موضوعات سے بحث کی ہے اور جگہ جگہ اسلامی اصول واقدار پر نشتر زنی کی ہے۔کتاب کے مقدمے میں   اپنی لچھے دار باتوں سے ہر دو فریق کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے اور خود کو غیر جانب دار بتایا ہے۔ باوجود اپنی عناد کے وہ نبیؐ کے متعلق لکھتا ہے: ’’حضرت محمد صاحب کے لیے یہ کچھ کم عزت کی بات نہیں ہے کہ ان کی حسین حیات میں ان کی عظمت کا سکہ سارے عرب میں بیٹھ گیا اور روے زمین کی آبادی کا ایک حصہ آج بھی حضرت محمد صاحب کا معتقد ہونے میں اپنا فخر سمجھتا ہے… جب میں قرآن شریف پڑھنے لگتا ہوں تو حضرت محمدؐ کے خرد مندی اور حوصلے کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا، اگرچہ میرے اعتقادات اور مروجہ مسلمانوں کے اعتقادات میں مشرق و مغرب کا بُعد ہے‘‘۔ (گنگا پرساد اوپادھیائے، مصابیح الاسلام، الٰہ آباد،۱۹۶۳ئ،ص ۹-۱۰)

بحث اس سے نہیں کہ اس طرح کی نگارشات میں مثبت یا منفی پہلو کا تناسب کتنا ہے۔ بددیانتی بہر حال مذموم چیزہے۔وہ بھی اس عظیم ہستی کے حق میں جس نے دنیا کو گل زار بنادیا۔ہم سمجھتے ہیں کہ ہر دوپہلو سے نبیؐ کی مقبولیت ہی واضح ہوتی ہے۔کیوں کہ اس کے منفی عزائم سے اسلام اور سیرتِ نبویؐ کے بعض ایسے گوشے سامنے آئے ہیں جو پردۂ اخفا میں تھے، البتہ اس سے مسلمانوں کی دل آزاری ضرور ہوتی ہے۔اس کی اجازت دنیا کا کوئی مذہب نہیں دیتا۔ پیغمبر خدا کا نمایندہ ہوتا ہے اور اس کی شخصیت ہر قسم کے عیوب سے پاک ہوتی ہے ۔اس لیے اس کی تکریم اور تعظیم ضروری ہے ۔بالخصوص مغرب نے اہانتِ رسولؐ کی جو تاریخ رقم کی ہے، وہ انتہائی شرم ناک ہے۔

  • مئی ۱۸۴۰ء میں ایک عیسائی دانش ور’کارلائل‘نے اپنے طویل خطبہ سیرت میں   خاص طور پر اہلِ مغرب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا: ’’وہ لوگ جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار پر انگشت نمائی کرتے ہیں،آپ کو جاننا چاہیے کہ وہ اپنے جھوٹ کا جالا کہاں بُنتے ہیں؟ ان لوگوں کے حسد پر جنھوں نے دوتین صدیوں بعد اس مقدس ہستی کے بارے میں کہانیاں گھڑیں ۔خدا کی قسم!محمدؐ اتنے عظیم انسان تھے کہ اگر انھوں نے کوئی غلطی بھی کی ہوتی تو زمانے بھر کے لیے بھلائی اور خوبی کا معیار بن جاتی۔میں ایک راز کی بات بتاتا ہوں۔ نسل درنسل دنیا میں لوگ آتے رہیں گے،جاتے رہیں گے ،صحرا کے اس فرزند کی عظمت کو پوری طرح ایک شخص بھی سمجھ نہ سکے گا ۔  ریت کے سمندر میں پیدا ہونے والی ہستی دنیا بھر کو گلزار بنانے کا درس دے گئی۔(کارلائل کا خطبہ ’ششماہی مجلہ السیرۃ (شمارہ ۱۷،مارچ ۲۰۰۷ئ،ص ۳۶۶)

مقبولیتِ رسولؐ میں اضافہ

اہلِ مغرب نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جو اعتراضات کیے ہیں، اس سے دنیا کا ہرسنجیدہ آدمی واقف ہے ۔ اس کی اصلیت بھی بڑی حد تک اس پر آشکارا ہوچکی ہے۔کارلائل نے بھی کہا تھا کہ مغربی تعصب نے نبی کو ایک مکروہ صفت انسان بنانے کی جو جنگ چھیڑ رکھی ہے،اس سے مفید نتیجہ برآمد نہیں کیا جاسکتا،اس طرح تو ان کی مقبولیت میںہی اضافہ ہواہے: ’’محمدؐ کے بارے میں ہمارے موجودہ خیالات (۱۸۴۰ئ) کہ وہ (نعوذ باللہ) ایک جعلی پیغمبر تھے،اور ان کا  پیش کردہ مذہب بے سروپا عقیدوں کا مجموعہ ہے،غوروفکر کی روشنی میں یہ خیال صاف پگھلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔جس طرح دروغ گوئی کا انبار ہم نے اس مقدس ہستی کے گرد لگادیا ہے وہ عظیم ہستی کے لیے نہیں مسیحیوں کے لیے باعث شرم ہے۔ گذشتہ ۱۲ صدیوں کے نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے اس پیغمبر عالی مقام کا پیغام آج بھی ۱۸؍کروڑ انسانوں کے لیے مشعل راہ ہے ۔  کیا یہ ۱۸ کروڑ انسان خدا کے بنائے ہوئے نہیں ہیں؟اگر ہم ان تمام افراد کو بھٹکے ہوئے اور گم کردہ راہ سمجھیں تو سوچنے کا مقام ہے۔کیا جعلی پیغام بارہ صدیوں تک اس کامیابی سے آگے بڑھ سکتا ہے؟کیا میرے ہم مذہب بھائی بہن یہ بات نہیں جانتے کہ آج بھی کرۂ ارض میں قرآن کریم کے اصول آگے بڑھ رہے ہیں۔ بناوٹ بناوٹی ہوتی ہے اور اسے ظاہر ہونے میں صدیا ںنہیں لگتیں‘‘۔ (ایضاً، ص ۳۶۵)

ایک نبی جو انسانوں کی ہدایت کے لیے مبعوث کیا گیا ہے اس میں اس قدر تناقص کا جمع ہونا محال ہے۔ چنانچہ مغرب کی طرف سے اب جو اعتراضات اٹھائے گئے ان میں وہ بات نہ رہی جو پہلے سے چلی آرہی تھی، پھربھی اس کی نیت پاک نہیں رہی۔اب ان کے دعووں کے دبدبے طنطنے میں بدل گئے،لے وہی رہی، سُروں میں فرق آگیا۔اس جدا گانہ طریق کار سے بھی جو بات نکل کرسامنے آئی وہ بھی اہانت رسولؐ پر ہی مبنی ہے ۔

ایسا کبھی نہیں ہواکہ قابل ملامت شخصیت پر دنیا کی توجہ ہمیشہ مرکوز رہی ہو۔ اگر (نعوذباللہ) نبیؐ ایسے تھے تو دنیا نے اس کے ذکر میں اپنا وقت کیوں صرف کیااورنتائج اخذ کرنے میں اپنے صاف وشفاف ذہن پر بوجھ کیوں ڈالا؟اس سے اس بات کا بھی پتا چلتا ہے کہ آپؐ ایک کامیاب انسان تھے ،جس کی کوئی نظیر نہ پہلے تھی اور نہ بعد میں ہوسکتی ہے۔چند لوگوں پر پاگل پن اور دیوانہ پن کا الزام لگا یا جاسکتا ہے ،مگر آج دنیا میں محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں کی جو تعداد ہے اور  اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنھیں مغرب کا بہترین دماغ کہا جاسکتا ہے ،ان سب پر دیوانہ پن کا الزام کیسے درست ہوسکتا ہے۔تاریخ کے ہر دور میں آپ کے ماننے والوں کی تعداد میں حیرت انگیز طریقے سے اضافہ ہی ہوا ہے، کمی کبھی نہیں آئی۔ بڑی تعدا دمیں لوگوں نے سیرتِ رسولؐ کو اپنے مطالعہ کا موضوع بنایا اور اس پر خاطر خواہ کام کررہے ہیں۔

اس ضمن میں ڈاکٹر محمد حمیداللہ لکھتے ہیں: ’’دنیا کی مختلف زبانوں میں بانیِ اسلام کی سوانح پر ہزاروں کتب موجود ہیں۔ان کے مصنفوں میں اسلام کے دوست اور دشمن سبھی شامل ہیں۔تمام مصنف خواہ وہ رسول اسلام کو پسند کریں یا محض اس بات پر نا پسند کریں کہ ان مصنفوں کا تعلق اسلام کے مخالف مذاہب سے ہے، اس بات پر متفق ہیں کہ محمدؐ ایک عظیم انسان تھے۔ جن مصنفوں نے جان بوجھ کر رسولِؐ اسلام کی زندگی اور تعلیمات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے ، ایسے مصنفوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔دراصل وہ بھی انھیں بالواسطہ طور پر خراج عقیدت پیش کررہے ہیں۔ وہ رسولِؐ اسلام کی تعلیمات کو مسخ کرکے پیش کرتے ہیں ،کیوں کہ وہ اس بات سے خوف زدہ ہیں کہ اگر انھوں نے اسلام کی صحیح تصویر پیش کردی تو ان کے ہم مذہب گم راہ ہوجائیں گے،جنھیں وہ قبولِ اسلام سے روکنے کے لیے بانیِ اسلام کے متعلق بے سروپا کہانیاں گھڑ کر سناتے رہتے ہیں۔اس طرح کی ذہنی بددیانتی آج بھی جاری ہے۔ یہ بات تحیر خیز ہے کہ جدید مغرب کے زبر دست مادی اور دوسرے وسائل کے باوجود حضرت محمدؐ کی ذات کے خلاف پروپیگنڈا کوئی نتائج پیدا کرنے میں ناکام رہا ہے،جن کی توقع اتنی بڑی تعداد میں کتابوں کی اشاعت ،ریڈیو،ٹی وی نشریات اور فلموں کی نمایش کے بعد کی جاسکتی ہے۔ہم نہیں جانتے کہ جتنے وسائل عیسائی مشنریوں اور کمیونسٹوں کو حاصل ہیں ،اگر اسلام اتنے ہی وسائل سے بہرہ ور ہوتا تو دنیا کا کیا رخ ہوتا۔لیکن اس کے باوجود یہ ایک عیاں حقیقت ہے کہ مسیحی کمیونسٹ مغرب دونوں میں اسلام نہایت تیزی سے پھیل رہا ہے ۔دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد ۳۰ سال کے دوران انگلستان میں کوئی ایک ۱۰۰ سے زائد مساجد تعمیر ہوئی ہیں،جرمنی اور فرانس بھی اس میدان میں انگلستان سے پیچھے نہیں ۔امریکی سفید فاموں میں بھی قبول اسلام کے واقعات کی کمی نہیں ۔چنانچہ اسلام کو گلے لگانے والوں میں سفرا،پروفیسر اور دیگر معزز پیشوں سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ہر سال سیکڑوں سیاح استنبول میں مشرف بہ اسلام ہوتے ہیں، جہاں اناطولیہ کی نسبت مذہبی جو ش و خروش زیادہ نہیں‘‘۔ (ڈاکٹرمحمد حمیداللہ،محمدؐ رسول اللّٰہ، ۲۰۰۳ئ،ص ۲۵۳-۲۵۴)

ایک خوش آیند پھلو!

اعدادو شمار سے پتا چلتا ہے کہ دنیا میں ہر روز کم وبیش ۴لاکھ ۳۲ ہزار افراد اسلام قبول کرتے ہیں۔ اس میں۳ ہزار۵ سو عیسائی ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ اچھی خاصی تعداد ان گرجوں کی ہے جومسجدوں میں تبدیل ہوگئی ہیں اور وہاں سے نداے توحید بلند ہورہی ہے۔ برطانیہ میں ۱۹۹۵ء کے اعداد وشمارکے مطابق چرچ جانے والے عیسائیوں کی تعداد ۸ لاکھ ۵۴ہزار تھی ، جب کہ پابندی سے مسجد میں نماز پڑھنے والوں کی تعداد۵ لاکھ ۳۶ ہزار ہے۔کرسچین ایسوسی ایشن کے سروے کے مطابق چرچ سے تعلق رکھنے والے عیسائیوں کی تعداد سالانہ ۱۴ ہزار کم ہورہی ہے، جب کہ مسجد جانے والے مسلمانوں کی تعداد میں سالانہ ۳۲ ہزار کا اضافہ ہورہا ہے (مولانا خالد سیف اللہ رحمانی،      شمع فروزاں، ۲۰۰۷ئ،ج ۱،ص ۲۲۹)۔ یہ اعدادو شمار بالکل صحیح ہیں تواسلامی دنیا کے لیے     یہ بڑاہی خوش آیند پہلو ہے۔

پوری دنیا کوبالعمو م اور خاص طور پرمغربی دنیاکو بالخصوص اپنی تہذیبی اقدار کے فنا ہوجانے کا جس سے خطرہ لاحق ہے ،وہ اسلام اور مسلمان ہے۔یہی وجہ ہے کہ عالم اسلام کو مٹانے کی منظم کوشش کی جارہی ہے۔لیکن کیا اس کے ذریعے وہ اپنے منصوبے میں کامیاب ہوںگے ؟اس کی نفی کرتے ہوئے کے۔ ایل۔ گابا نے بجا طور پر لکھا ہے: ’’اسلام اب تک نہ صرف ایک زبردست زندہ قوت کی حیثیت سے موجود ہے،بلکہ روز بروز ترقی کی جانب گامزن ہے،جس کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے لیے بلقانیوں کا حسد،یہودیوں کی نفرت،ہندوؤں کا تعصب اور روس کی مخاصمت بھی روز بروز بڑھتی جارہی ہے‘‘۔(کے ایل گابا،پیغمبر صحرا (اُردو ترجمہ)،ص ۸)

جارج برناڈشا اپنے زمانے کے مغربی مصنفین کی فہرست میں اول جگہ پانے کا مستحق ہے، اس کے قلم نے کوئی میدان ایسا نہیں چھوڑا ،جہاں اس نے جولان گاہی نہ دکھائی ہو اور اس کے قلم کے حملوں سے شایدہی کوئی مذہب بچا ہو۔اس کے زورِ قلم کا یہ عالم ہے کہ جو کچھ لکھا دنیا میں پھیل گیا۔ اس نے ایک کتاب لکھی جس میں تمام مذاہب کے علما کی مجلس کے بحث ومباحثہ کی تفصیل درج ہے۔ اس مجلس کا وہ خود روح رواں اور اس میں شریک تھا۔سب نے ایک دوسرے کے مذہب کا خوب مذاق اڑایا۔اس کے بعد برناڈشا جس نتیجے پر پہنچتا ہے ،اس کااظہار وہ اس طرح کرتا ہے: ’’۱۰۰ برس کے اندر اندر اور بالخصوص انگلستان کو کوئی ایسامذہب اختیار کرنا پڑے گا جو یاتو اسلام ہوگا یا اسلام سے بہت کچھ ملتا جلتا ہوگا‘‘۔ (ماہ نامہ دارالعلوم، دیوبند، فروری ۲۰۰۱ئ،ج ۸۵، شمارہ۲، ص ۴۳-۴۴)

بالفرض اگر نبوت سے ہٹ کر ایک عام انسان کی طرح نبی اکرمؐ کفار مکہ کو وعظ وپند کرتے اور انھیں برائیوں سے روکنے کی تلقین کرتے تو وہ آپ ؐ کی مخالفت کرنے کے بجاے آپ ؐ کو دیوتا بناکر آپ کی پوجا شروع کردیتے اور کوئی بعید نہ تھا آپ ؐکا بھی ایک بت تراش کر خانہ کعبہ میں آویزاں ۳۶۰ بتوں کے ساتھ کردیتے اور طواف کے وقت ان کے نام کا ورد کرتے۔یا پھر آپؐ  ان کے عقائد اور ان کے افعال شرک کی مذمت نہ کرتے تو بھی وہ آپ ؐکی مخالفت نہ کرتے۔ لیکن چونکہ اسلام اسی شرک اور برائی کو مٹانے کے لیے آیا تھا، اس لیے نبیؐ کی ذات سے اس بات کی توقع ہرگز نہیں کی جاسکتی کہ آپؐ مصالحت کرلیتے۔اس کے برخلاف معاندین اسلام نے عقائد وایمان کے باب میں اپنے دماغ کو نہیں کھپایا،کیوں کہ انسان کی زندگی میں اس کی کیا اہمیت ہے وہ اس پر واضح ہے۔   یہ الگ بات ہے کہ اس سے بے اعتنائی برتی جاتی ہے مگر آپؐ کی سیرت وشخصیت پر حددرجہ رکیک حملے کیے تاکہ مسلمان اپنے نبیؐ سے برگشتہ ہوجائیں اور دوسرے لوگ بھی اس کے قریب نہ جائیں۔

اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کی ذات کو ہر پہلو سے پوری انسانیت کے لیے اسوہ اور نمونہ بنادیا اور ’’آپ کے ذکر کو سارے جہان میں بلند کردیا‘‘(الم نشرح:۴)۔دوست ہوں یا دشمن، کافر ہوں یا مشرک،مسلمان ہوں یا غیرمسلم، ہر کوئی اس سے رہ نمائی حاصل کرسکتا ہے اور اپنی زندگی کو جنت نشان بناسکتا ہے۔لیکن یہ عمدہ صفات مغرب ہی نہیں ،ہر کسی کو اس لعنت سے دور رکھتی ہیں جس میں گھر کر وہ اپنی انسانیت کو بھول جاتا ہے اور برائیوں میں ملوث ہوجاتا ہے۔چونکہ انسان کی فطرت بھی کچھ اس طرح کی ہے کہ زیادہ دنوں تک وہ برائیوں کو برداشت بھی نہیں کرسکتی، اور اپنی زندگی کے کسی مرحلے میں بھی مذہب سے بے گانہ ہونے اور اس کی تعلیمات کو فراموش کردینے کے باوجود ان برائیوں کو قبول کرنے یا تسلیم کرنے سے مانع ہوجاتی ہے۔جب یہ باتیں کسی بھی سنجیدہ انسان کے قلب وذہن میں آسکتی ہیں تو اس بات کو تسلیم کرلینے میں کیا قباحت ہے کہ نبی ؐ کا نافذکردہ دین اور آپ ؐ کے خصائص اور آپ ؐ کی تعلیمات سے دنیا میں انقلاب بر پا ہوسکتا ہے جس کی متقاضی خود فطرت انسانی ہے۔کیا دنیا نے یہ نہیں دیکھا کہ مختصر عرصے میں خاص کر عرب معاشرہ گوناں گوں صفات کا حامل ہوگیا جنھیں دیکھ کر قوموں اور ملکوں کی تقدیر بدل گئی اور خود ان کی زندگی روشن اور تابناک۔ لیکن یہ باتیں تسلیم کرنے کے ساتھ ہی ان کے مفاد مجروح ہونے لگتے ہیں، اس لیے مغرب نے اپنی عارضی اور بہ ظاہر خوش نما زندگی کو نکھارنے کا پیمانہ ہی بدل دیا،جس پر کوئی دوسرا  پورا ہی نہیں سکتا۔ڈاکٹر عبدالقادر جیلانی: ’’مغرب اپنی عیسائی قدروں پر دیگر عظام کو پرکھنے کی کوشش کرتا ہے۔اس کے نزدیک ہرعظیم آدمی کو گوری رنگت کا ہونا چاہیے۔مذہباً وہ عیسائی ہو اور صرف عیسائی ہی نہیں کیتھولک عیسائی ہو۔ اس کی زبان لاطینی ہو ،اس کی فکر افلاطونی ہو، رہن سہن مغربی ہو ،کردار افسانوی ہو۔ اگر یہ سب اس میں نہ ہوتو اس کی عظمت ناقابل تسلیم رہتی ہے۔ظاہر ہے کہ ان خودساختہ پیمانوں پر کوئی غیرمغربی اتر ہی نہیں سکتا ۔یہ خامی پیمانے کی ہے اور جب تک پیمانے کی خامی دور نہ ہوگی پیمایش کی صحت کا تصور بھی نہیں پیدا ہوسکتا‘‘۔ (ڈاکٹر عبدالقادر جیلانی، اسلام ،پیغمبرؐ اسلام اور مستشرقین مغرب کا انداز فکر،ص ۳۲۱)

مغرب اپنے عزائم اور منصوبوں میں کامیاب ہوگا کہ نہیں، اس کا ہلکاسا اشارہ مذکورہ اعدادو شمار میں کیا جاسکتا ہے۔دین اسلام غالب ہونے کے لیے آیا ہے۔مسلمانوں کے پاس جب تک قرآن اور اس کے نبی کی تعلیمات موجود ہیں، اسے کوئی طاقت یا کوئی بھی پروپیگنڈا دبا نہیں سکتا۔ یہی بات نبی آخرالزماں ؐ نے اپنے آخری وقت میں فرمائی تھی:’’میں تمھارے درمیان دو چیزوں کو چھوڑے جارہاہوں ،جب تک اسے مضبوطی سے پکڑے رہوگے کبھی گم راہ نہ ہوگے۔ایک قرآن اور دوسری اپنی سنت‘‘ (عبدالرؤف المناوی،فیض القدیرشرح جامع الصغیر، ۱۹۳۸ئ،ج ۲،  ص ۲۴۰)۔ دین کے دشمن خدا کے نور انی چراغ کو پھونکوں سے بجھانا چاہتے ہیں،وہ اس میں ہرگز کامیاب نہیں ہوں گے اور یہ نورانی چراغ ہمیشہ روشن اور چمکتا رہے گا۔ اللہ نے آپ ؐ کے ذکر کو ہمیشہ کے لیے بلند کردیاہے ،کیوں کہ آپ نبی برحق اور آخرالزماںؐ ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اِِنَّ الَّذِیْنَ یُحَآدُّونَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ اُولٰٓئِکَ فِی الاَذَلِّیْنَ o کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ اِِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ o (المجادلہ ۵۸:۲۰-۲۱) بے شک وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسولؐ کی مخالفت کررہے ہیں وہی ذلیل ہوں گے ۔اللہ نے  لکھ رکھا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب رہیں گے ۔بے شک اللہ قوی ہے،      بڑا زبردست ہے۔

(مقالہ نگار محقق ہیں اور ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی، علی گڑھ سے وابستہ ہیں)۔

بھارت کے سرکاری ادارے ’قومی انسانی حقوق کمیشن‘ نے ایک استفسار کے جواب میں بتایا ہے کہ ملک میں اکتوبر ۱۹۹۳ء سے اب تک ۲ہزار ۵سو ۶۰ پولیس مقابلے ہوئے، ان میں سے    ایک ہزار۲ سو۲۴ مقابلے جعلی تھے۔ اترپردیش کے ریٹائرڈ آئی جی پولیس ایس آر دارپوری نے اس رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ: ’’اگر تمام معاملات کی جانچ کی جائے تو بمشکل ۵ فی صد مقابلے درست پائے جائیں گے بلکہ میرے خیال میں تو ۹۹ فی صد مقابلے فرضی اور جعلی ہوتے ہیں۔ میں نے ۳۲ سال کی ملازمت کے دوران صرف ایک اصلی پولیس مقابلے (encounter) کا سامنا کیا تھا‘‘ (سہ روزہ دعوت، دہلی، یکم اپریل ۲۰۱۰ئ)۔ اقتصادی ابحاث کے ایک بھارتی ادارے NCAER اور امریکی میری لینڈ یونی ورسٹی کے ایک مشترکہ سروے کے مطابق بھارت کی ایک چوتھائی سے زائد آبادی (۷ئ۲۵ فی صد) خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرتی ہے۔ خطِ غربت کا معیار بھی ملاحظہ ہو۔ دیہی آبادی میں ماہانہ آمدنی ۳۵۵روپے سے کم اور شہری علاقے میں ۵۳۸ روپے ماہانہ سے کم۔ ۴۱ہزار خاندانوں میں کیے جانے والے اس سروے کے مطابق بھارت کی مسلم آبادی میں یہ تناسب اور بھی زیادہ ہے، یعنی ۳۱فی صد۔ ان اعداد و شمار کے مطابق بھارت کے بعض علاقوں میں غربت کا تناسب ناقابلِ یقین حد تک زیادہ ہے، مثلاًچھتیس گڑھ میں ۳ئ۶۳ فی صد، جھاڑکھنڈ میں ۴۹ فی صد، مدھیہ پردیش میں ۵ئ۴۵ فی صد اور اڑیسہ میں ۳ئ۴۱ فی صد۔

ایک جانب تو یہ تلخ حقائق ہیں اور دوسری طرف دنیا میں یہ تصویر اور تصور گہرا کیا جا رہا ہے کہ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے، مستقبل کی سوپرپاور ہے۔ ۲۰۵۰ء میں چار عالمی قوتیں چین، جاپان، بھارت اور برطانیہ عالمی پیداوار کا ۶۰ فی صد پیدا کر رہی ہوں گی۔ امریکا میں ہونے والی حالیہ توانائی کانفرنس میں وزیراعظم من موہن سنگھ نے بھی یہی لَے بلند کرتے ہوئے کہا ہے کہ عنقریب ہماری سالانہ ترقی کی شرح ۹ سے ۱۰ فی صد، بچت کی شرح ۳۵ فی صد اور سرمایہ کاری کا تناسب ۳۷ فی صد ہونے کو ہے۔ واضح رہے کہ بھارت میں اقتصادی ترقی کی شرح ۱۹۸۰ء سے ۲۰۰۰ء کے درمیان تقریباً ۶ فی صد، ۲۰۰۰ء کے بعد تقریباً ۶ئ۸ فی صد، ۲۰۰۷ء میں ۴ئ۹ فی صد، ۲۰۰۸ء میں ۸ئ۷ فی صد اور ۲۰۰۹ء میں ۷ئ۶ فی صد رہی ہے۔

تعمیر و ترقی اور امن و استحکام ہرقوم اور ملک کی بنیادی ضرورت ہی نہیں اس کا حق بھی ہے۔ ایک اہم اور بڑا پڑوسی ملک ہونے کی حیثیت سے ہم بھارت کے اس حق کو تسلیم کرتے ہیں۔     یہ مسلّمہ حقیقت ہے کہ امن و ترقی کے ثمرات کسی ایک خطے میں محدود نہیں رہ سکتے۔ کسی بھی انسان کا امن و استحکام (اگر وہ واقعی انسان ہو تو) یقینی طور پر اس کے پڑوسیوں کے لیے بھی مثبت اثرات رکھتا ہے۔ لیکن یہ حقیقت بھی پوری دنیا کے سامنے رہنا چاہیے کہ دروغ گوئی پر قائم کیا جانے والا کوئی تاثر اور تصویر کا صرف ایک پہلو سامنے رکھ کر کیے جانے والے فیصلے اور پالیسیاں، کبھی کسی کو حقیقی کامیابی تک نہیں پہنچا سکتیں۔

بھارت یقینا وسیع و عریض رقبے اور (۲۰۰۹ء کے اندازوں کے مطابق) ۱۶ئ۱ ارب کی آبادی پر مشتمل ملک ہے۔ بھارت میں دستور کے مطابق انتخابی عمل بھی تسلسل سے جاری ہے اور وہ مارشل لا کے سایے سے محفوظ رہا ہے۔ اقتصادی ترقی کا سفر بھی بالخصوص ۱۹۹۱ء کے بعد تیز تر ہوا ہے۔ سردجنگ کے دوران روس اور سردجنگ کے بعد امریکا کے علاوہ باقی عالمی قوتیں بھی بھارت کی بھرپور سرپرستی اور مدد کر رہی ہیں۔ اسرائیلی تعاون تو روزِ اوّل سے جاری اور مسلسل روز افزوں ہے۔ روسی سرپرستی بھی ہنوز جاری ہے۔ گذشتہ مارچ میں دلی آنے والے روسی وزیراعظم پوٹین نے عسکری معاہدوں سمیت مجموعی طور پر ۱۰؍ ارب ڈالر کے مزید معاہدے کیے ہیں۔ کم اُجرت اور  پیشہ ورانہ صلاحیت رکھنے والی بھارتی افرادی قوت نے ایک دنیا کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے۔    (آئی ٹی) معلوماتی ٹکنالوجی کی ۵۰۰ بڑی عالمی کمپنیوں میں سے ۱۲۵ کمپنیوں نے اسی وجہ سے بھارت کو اپنی سرگرمیوں اور تحقیقات کا مستقل مرکز بنالیا ہے۔ ۷ ہزار ۵سو ۱۷ کلومیٹر طویل ساحل اور تیل سپلائی کے عالمی روٹ پر واقع ہونے اور امریکی و اسرائیلی منصوبہ بندی کے مطابق وسیع تر علاقائی دفاعی نظام میں بھی بھارت کو نمایاں طور پر شریک کیا جا رہا ہے۔ بھارتی ترقی اور خزانے میں ۳۰۰ ارب ڈالر سے زائد کے ذخائر کی حکایت بھی طویل ہوسکتی ہے، لیکن سادہ سا سوال یہ ہے کہ اگر بھارت میں ایسی ہی دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں تو وہاں ساڑھے تین یا چار سو روپے ماہانہ آمدن رکھنے والے ۲۶کروڑ سے زائد افراد کو اس سے جینے کا سہارا کیوں نہیں مل رہا؟ درجن بھر سے زائد علیحدگی کی تحریکیں کیوں وجود رکھتی ہیں؟ جرائم کے بارے میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۱۹۹۵ء اور ۲۰۰۷ء کے درمیان ایک لاکھ ۸۴ہزار بھارتی کسانوں نے بھوک اور غربت کے باعث خودکشی کرلی۔ ان میں ایک بڑی تعداد ان کسانوں کی تھی جنھوں نے زرعی آلات، ادویات اور ضروریات خریدنے کے لیے بنکوں سے قرض لیے ہوئے تھے جو سوددرسود جمع ہوجانے کے باعث خودہلاکتی ہی کے ذریعے ادا کیا جاسکتے تھے۔ ترقی و خوش حالی کا پیغام ان غریب کسانوں اور اب ان کے وارثوں تک کیوں نہ پہنچ سکا؟

ترقی کے لیے جس داخلی استحکام کی ضرورت ہے، اس میں بنیادی رکاوٹ اور دعواے ترقی سے متصادم ایک حقیقت خود ہندو طبقاتی عقیدہ و تقسیم بھی ہے۔ ۸۲ فی صد ہندو اکثریت میں سے، رام کے سر سے پیدا ہونے والے اعلیٰ براہمن طبقے کا تناسب صرف ۳فی صد ہے۔ ۴۳فی صد   بے چارے اچھوت تو اعلیٰ طبقات کے لیے مخصوص مندروں تک کو بھی آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھ سکتے۔ ہیں تو یہ بھی انسان ہی، لیکن دیہاتی علاقوں میں یہ اُونچی ذات والوں کے سامنے بیٹھنے کی جسارت بھی نہیں کرسکتے۔ ان کے لیے مخصوص کھانے پانی سے پیٹ کی آگ نہیں بجھاسکتے۔ روشن، چمکتے بھارت (Shining India) میں یقینا اس وقت ۱۰۰ سے زائد ایسی کمپنیاں ہیں جن کا سرمایہ  ایک ارب ڈالر سے زیادہ ہے، لیکن یہ ساری دولت و ثروت چندمخصوص طبقات اور علاقوںتک محدود ہے۔ ۲۰۰۷ء میں جاری ہونے والی اقوام متحدہ کی رپورٹ میں دنیا کے ۱۷۸ ممالک کا جائزہ لیا گیا تھا۔ اس جائزے میں ملکی آبادی کو میسر ہونے والی مختلف بنیادی ضروریات، جیسے پینے کا پانی،  تعلیمِ بالغاں، تعلیمی ادارے، مجموعی قومی ترقی میں عام افراد کا حصہ وغیرہ جیسے سوالات شامل تھے۔ نتائج آئے توبھارت ۱۲۸ویں نمبر پر کھڑا منہ بسور رہا تھا۔

کسی بھی انسان کے لیے دیگر اقوام کی ترقی اور کامیابی تکلیف کا باعث نہیں ہونی چاہیے۔ اسی طرح کسی کی غربت و تکالیف پر خوشی محسوس کرنا بھی انسانیت کی نفی اور توہین ہے، لیکن بے بنیاد پروپیگنڈے کے ذریعے اپنی دکان چمکانے کی کوشش بھی بعینہٖ اتنی ہی معیوب اور باعثِ ملامت و نفرت ہے۔ اس وقت دنیا بالخصوص عرب ممالک میں اسی طرح کا یک طرفہ بھارتی اور بھارت نواز پروپیگنڈا عروج پر ہے۔ کشمیر میں ۷ لاکھ مسلح افواج کے ذریعے لاکھوں افراد کو موت، تشدد یا قید کی نامعلوم وادیوں میں اُتار دینے والا بھارت ’’دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت‘‘ کی خودساختہ کلغی سجائے، خود کو مستقبل کی اہم عالمی طاقت منوانے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہے۔ کئی مسلم ملک اور مسلم شخصیات بھی اس فریب کا شکار ہوچکی ہیں۔ عرب بالخصوص خلیجی تجزیہ نگار اس صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے کھلم کھلا اقرار و اظہار کر رہے ہیں کہ اب ہماری خارجہ پالیسی صرف اور صرف دوطرفہ مفادات کی بنیاد پر طے پارہی ہے۔ اب ہم بھارت کے ساتھ اپنے باہمی تعلقات کو پاکستان کے تناظر میں نہیں دیکھتے، اور نہ اب مجرد قومی خواہشات، کسی نظریاتی اعتبار یا دینی و نسلی شناخت کو اس راہ میں آڑے آنے دیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں کشمیر کا ’ذکرِخیر‘ خصوصی طور پر کیا جاتا ہے کہ بالآخر عرب ممالک نے مسئلۂ کشمیر کو نظرانداز کردیا ہے۔ اس تبدیل شدہ عرب پالیسی کی دیگر وجوہات میں سے ایک اہم وجہ خود پاکستان کی پالیسی میں تبدیلی بتائی جاتی ہے۔ پرویز مشرف کے اکتوبر ۲۰۰۴ء میں دیے گئے اس بیان کو خصوصی طور پر نمایاں کیا جاتا ہے کہ ’’مسئلۂ کشمیر کے حل کے لیے ہم اقوام متحدہ کی قراردادوں کے پابند نہیں ہیں‘‘۔ نائن الیون کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال اور مجموعی طور پر جہادی تحریکوں کے خلاف کیے جانے والے پروپیگنڈے کو تبدیلی کا ایک اور سبب بتایا جاتا ہے۔

بھارت کے ساتھ عالمِ عرب بالخصوص خلیجی ریاستوں کے تعلقات کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بھارت کے ساتھ عرب ممالک کی تاریخ بیان کرتے ہوئے پوری تاریخِ اسلامی کے حوالے جمع کردیے جاتے ہیں۔ ۷۱۲ عیسوی میں محمد بن قاسم کی براستہ سندھ برعظیم پاک وہند میں آمد کے ساتھ ہی ساتھ، بھارتی ساحلی علاقے کیرالا میں مسلمان تاجروں کی آمد کا ذکر کیا جاتا ہے۔ بعض عرب تاریخ نویس تو لکھتے ہیں کہ ’کیرالا‘ بنیادی طور پر عرب تاجروںکا دیا ہوا نام ’خیراللہ‘ تھا، جو بعد میں کیرالا بن گیا، لیکن عجیب امر یہ ہے کہ برعظیم کے ساتھ عالمِ عرب کے ان تمام تاریخی بندھنوں کو بالآخر آج کے بھارت سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی یہ مفت مشورہ بھی دیا جاتا ہے کہ بھارت سے تعلقات کو پاکستان حتیٰ کہ بنگلہ دیش کے تناظر میں نہ دیکھا جائے۔ گویا کہ باہمی تعلقات میں مسلمان اور اسلام نام کی کوئی بنیاد باقی نہ رہنے دی جائے۔ اس حوالے سے سب سے مسموم پروپیگنڈا یہ کیا جاتا ہے کہ ’’مسلمانوں نے اپنی قوت کو تین حصوں میں تقسیم کرکے خود ہی کو کمزور کرلیا۔ مسلمان برطانوی سازش کا شکار ہوگئے‘‘۔ اکھنڈ بھارت کے اس نظریے کو بعض اسلام پسند طبقات کے مابین بھی اس شکر میں لپیٹ کر پھیلایا جاتا ہے کہ ’’مسلمانوں کے لیے راہِ نجات ہی یہ ہے کہ پھر سے یک جا ہو جائیں‘‘۔ ظاہر ہے کہ اس منطق میں پھر آزادیِ کشمیر کی کیا گنجایش رہ جاتی ہے۔

ہندو ذہنیت کی براہِ راست یا بالواسطہ ترجمانی کرتے ہوئے عالمِ عرب میں ایک اور منطق اسرائیل کے بارے میں بھی پیش کی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے یہ منطق بھی بعض مسلمان رہنمائوں کے ذریعے ہی پیش کی جارہی ہے۔ کبھی خود بھارتی ذمہ داران کو یہ خدشہ درپیش رہتا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ اس کے تعلقات منظرعام پر نہ آپائیں وگرنہ عرب ممالک کی ناراضی مول لینا پڑے گی۔ اب اس خدشے کا دور لَدچکا۔ اب تو خود عرب ممالک اور اسرائیل مخالف عناصر کاایک گروہ بھی بھارت اسرائیل تعلقات کی ایک ایک تفصیل کامل جزئیات کے ساتھ بیان کرتا ہے اور پھر اس درست اور تلخ حقیقت سے یہ غلط اور مزید تلخ نتیجہ نکالتا ہے کہ ’’ہم عربوں نے بھارت کو اسرائیل کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ اسرائیل کے شر سے بچنے کا اصل راستہ یہ ہے کہ ہم بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط سے مضبوط کریں۔ اب تو ویسے بھی وہ مستقبل کی بڑی طاقت ہے۔ اسے سیکورٹی کونسل میں مستقل ممبر بنوانا چاہیے۔ اسے مسلمان ممالک کی تنظیم اوآئی سی میں بھی مبصر کی حیثیت سے شامل کرلینا چاہیے‘‘۔

اس وقت صرف خلیجی ممالک میں بھارتی باشندوں کی تعداد ۵۰ لاکھ سے متجاوز ہے۔ ہرسال بیرونِ ملک مقیم ہندستانیوں کی طرف سے بھیجے جانے والے ۵ئ۴۳ ارب ڈالر میں سے ۱۸ارب ڈالر صرف یہی خلیج میں مقیم افراد بھیجتے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کئی خلیجی ریاستوں میں ہندستانی افرادی قوت کی اکثریت مسلمان ہے۔ یہ پُرامن ہندستانی مسلمان بھارت کے ساتھ خلیجی ریاستوں کے تعلقات کی مضبوطی کی اہم بنیاد ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ان کا مسلمان ہونا ان کے بارے میں منفی پروپیگنڈے کا سبب بنادیا جاتا ہے۔ ویسے تو بات صرف خلیج میں مقیم مسلمانوں کی نہیں ہے، اکثر بھارتی مسلمانوں کو الزامات کے اسی ترشول کی زد میں رکھا جاتا ہے۔ ’دہشت گرد‘، ’جاسوس‘، ’شدت پسند‘ اور نہ جانے کیا کیا القابات ان کے لیے مخصوص کردیے گئے ہیں، لیکن خلیج کے مخصوص حالات اور حساس نظامِ حکومت میں یہ الزامات بالکل ہی ناقابل فہم ہیں۔

بظاہر یہ ایک متضاد حقیقت ہے کہ ایک طرف مسلم ممالک سے تعلقات کی مضبوطی کا اہم ذریعہ، بھاری زرمبادلہ اور دوسری جانب الزامات کا تانتا؟ بدقسمتی سے بھارتی حکمرانوں، نمایاں مذہبی پیشوائوں اور دانش وروں کا ایک مؤثر طبقہ مسلمانوں کے خلاف ہمیشہ تعصباتی تیشے کی یہی ضربیں لگانے کے لیے بے تاب رہتا ہے۔ انھوں نے بعض خلیجی تجزیہ نگاروں کے منہ میں بھی     یہ الفاظ دے دیے ہیں۔ ایک مثال ملاحظہ ہو: ’’اگرچہ بھارت کو جس دہشت گردی کا سامنا ہے، اسے عمومی طور پر پاکستان کے اندر سے امداد ملتی ہے لیکن بھارتی تحقیقاتی ایجنسیوں نے اس جانب توجہ دلائی ہے کہ ان شدت پسند دہشت گردوں کو خلیج میں مقیم بھارتی کمیونٹی سے تعاون ملتا ہے۔ انھیں وہاں اس نیٹ ورک میں شامل کیا جاتا ہے، ٹریننگ دی جاتی ہے اور پھر بھارت میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے کے لیے بھیج دیا جاتا ہے‘‘۔ بھارت کی طرف سے مختلف خلیجی رفاہی اداروں کے بارے میں بھی اسی طرح کے شکوک پھیلائے جاتے ہیں اور خلیجی جامعات میں زیرتعلیم بھارتی طلبہ کے بارے میں بھی انھی شبہات کو ہوا دی جاتی ہے۔

شر میں سے خیر کی سبیل نکالنا الٰہی سنت ہے۔ اپنے ہی شہریوں کے بارے میں اس تشکیکی ذہنیت نے خلیج میں عمومی طور پر بھارتی مسلمانوں کے بارے میں اظہارِ ہمدردی پیدا کیا ہے۔ بھارت کے ساتھ مضبوط سے مضبوط تر تعلقات کی وکالت کرنے والے عرب دانش ور بھی    بھارتی حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ مسلم ممالک سے تعلقات مضبوط کرنے کے لیے بھارت اپنے ہاں ہندو تعصب کا سدباب کرے۔ گجرات میں ۲ہزار مسلمانوں کی شہادت اور اس سے پہلے  بابری مسجد کی شہادت جیسے واقعات اور مسلمانوں کی عمومی پس ماندگی جیسے حقائق آج کے دور میں کسی سے مخفی نہیں رہ سکتے۔ اگرچہ فی الحال یہ کہنا دشوار ہے کہ بھارت عالمِ اسلام کی اس تشویش کے ازالے کے لیے کوئی عملی اقدام اُٹھا رہا ہے۔

بھارتی حکومت دانش وروں اور پالیسی سازوں کا ایک بہت بڑا طبقہ اپنی تمام تر مشکلات و مصائب کی ذمہ داری اپنے پڑوسی ممالک کے گلے ڈال دیتا ہے۔ ممبئی واقعات کے بعد سے مسلسل کیا جانے والا واویلا اس کا سب سے واضح ثبوت ہے۔ دلی کے ایک معروف تھنک ٹینک سے متعلق دانش ور براھما چیلانی ’’تبدیل شدہ دنیا میں بھارتی خارجہ پالیسی‘‘ کے عنوان سے الجزیرہ کے لیے لکھی گئی اپنی تحریر میں رقم طراز ہیں: اس سب کچھ (یعنی ترقی) کے باوجود بھارت کے جغرافیائی محل وقوع کا ایک انتہائی اہم عنصر، اس کے گرد تنی شورش زدہ کمان ہے۔ جیوپولیٹییکل تناظر میں یہ بھارت کا سب سے کمزور پہلو ہے۔ بھارت کا پڑوس مستقل طور پر اور انتہائی درجے کا فسادزدہ علاقہ ہے۔ بھارت کو ناکام اور استبدادی ممالک نے گھیرا ہوا ہے جو ایک یا پھر دوسرے راستے سے بھارت کے سیکولرزم، اس کی کثیرالقومی اور کثیرثقافتی شناخت کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ بھارت کے گرد تنی یہ شورش زدہ کمان، لبنان سے پاکستان تک پھیلی ہوئی ہے اور علاقائی و عالمی امن پر گہرے منفی اثرات مرتب کر رہی ہے‘‘۔

یہ ایک حیرت انگیز حقیقت ہے کہ بھارت اپنے تمام پڑوسی ممالک سے شاکی ہے۔ ۱۲مبسوط صفحات پر پھیلے اسی سابق الذکر مقالے سے اپنے پڑوسیوں کے بارے میں چنیدہ حصے ملاحظہ کیجیے:’’بین الاقوامی سیاست اس نئی صورت حال کو ماننے پر آمادہ نہیں ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سیاسی سرحدیں معدوم ہوچکی ہیں۔ ڈیورنڈ لائن ویسے بھی برطانوی استعمار کی سازش اور ایک مصنوعی لائن تھی جس نے دونوں طرف کے پشتونوں کو تقسیم کر کے رکھ دیا تھا۔    آج اس سرحد کا وجود صرف نقشوں میں باقی ہے… افغانستان اور پاکستان کے درمیان واقع     یہ سرحدی علاقہ جہادیوں کاگڑھ بن چکا ہے۔ دونوں ملکوں کے مابین اس سرحد کا سیاسی، اقتصادی   یا نسلی حوالے سے کوئی وجود و کردار نہیں بچا۔ اس کا نتیجہ کیا ہوگا…؟ ’پشتونستان‘ کاقیام۔ وہ   سیاسی وجود جس کے لیے پشتونوں نے طویل قربانیاں دیں اس کا سورج طلوع ہوکر رہنا ہے خواہ   وہ اس علاقے میں موجود مسلح اسلامی تحریکوں کے خاتمے کے بعد ان کے ملبے تلے سے طلوع ہو‘‘۔

مقالہ نگار امریکا کی جانب سے پاکستان کے لیے اعلان کردہ مالی امداد پر اظہارِ تشویش کے بعد گویا ہیں: ’’مزید بدقسمتی یہ ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ دہشت گردی کو کچلنے کے بجاے اسے رام کرنا چاہتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا کے خطرات سے یوں آنکھیں موند لینے نے بھارتی سلامتی کو تباہی کے کنارے لاکھڑا کیا ہے۔ بھارت کے لیے اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ اپنے مغرب سے آنے والے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے مکمل تیاری کرے‘‘۔

بھارت کے مشرق میں برما اور بنگلہ دیش واقع ہیں۔ ان میں سے پہلی ریاست میں   فوجی نظام کے جبروسفاکیت، امریکی پابندیوں میں توسیع اور انسانی تباہی عروج پر ہے، جب کہ دوسری میں اسلامی بنیاد پرستی کے مضبوط تر ہوتے چلے جانے کے باعث اس کے دوسرا پاکستان بننے کے خطرات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ بنگلہ دیش آبادی کے اعتبار سے دنیا کا ساتواں بڑا ملک ہے اور اس کی خوں ریز ولادت سے لے کر آج تک وہاں سیاسی اتھل پتھل جاری ہے… پاکستان کی طرح بنگالی فوج کے خفیہ اداروں نے بھی جہادی جماعتوں کی سرپرستی اور آبیاری کی اور انھیں اندرون و بیرون ملک، اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے کے علاوہ احمدی جماعت پر مظالم ڈھالنے کے لیے بھی استعمال کیا۔ بنگالی خفیہ اداروں کے خفیہ پاکستانی اداروں کے ساتھ گہرے خفیہ تعلقات ہیں اور اس نے بنگالی سرزمین کو بھارت کے خلاف ہونے والی کارروائیوں کے لیے استعمال ہونے دیا، ساتھ ہی ساتھ شمال مشرقی بھارت میں علیحدگی پسندوں کی مدد کی‘‘۔

اس مقالے میں برما پر شدید الفاظ میں تنقید کے ساتھ ہی ساتھ اس کے چین کی گود میں چلے جانے، اس کے ذریعے بھارتی علاقوں میں چینی مداخلت کے خدشات کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔ پھر اس سے ملتے جلتے خدشات نیپال اور سری لنکا کے بارے میں بھی ظاہر کیے گئے ہیں۔ سری لنکا میں باغیوں کو کچلنے کے لیے حکومتی کارروائیوں پر تو اظہارِ اطمینان ہے لیکن اس امر پر افسوس کیا گیا ہے کہ یہ کارروائی چین سے ملنے والے اسلحے اور ہتھیاروں کے ذریعے کی گئی ہے۔ اب چین اس کے مقابل سری لنکا میں ایک ارب ڈالر کی مالیت سے بننے والی ھامبن ٹوٹا (hambantota) نامی بندرگاہ بنانے کا منصوبہ حاصل کرچکا ہے۔

یہ طویل اور مسموم مقالہ صرف ایک تجزیہ ہی نہیں، بھارتی ذہنیت اور پالیسیوں کا صحیح عکاس ہے۔ اپنے تمام پڑوسی ممالک کے بارے میں دشمنی کی حد تک سوء ظنی کے جذبات، امریکا سمیت پوری عالمی برادری کو طعنے اور کوسنے دے دے کر اسے ان ممالک کے خلاف اُکسانا، اور ان ممالک میں بھارتی عزائم کی تکمیل کو احسانِ عظیم قرار دینا خواہ وہ ’پشتونستان‘ کے خواب کی تکمیل ہو یا افغانستان کے لیے ۲ئ۱ ارب ڈالر کی بھارتی امداد کے جواب میں وہاں بھارتی نفوذ میں اضافے کا خواب، اس مقالے کی نہیں، بھارتی پالیسیوں کی اصل روح بھی ہے۔

ان تلخ حقائق کے باوجود، عالمِ عرب کے مخلص دوستوں کی طرح ہماری بھی دلی دعا ہے کہ، بھارت واقعی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بن جائے۔ بھارت واقعی ترقی یافتہ اور مستقبل کی ایک اہم عالمی طاقت بن جائے۔ بھارت میں امن و استحکام کا خواب منہ بولتی حقیقت بن جائے۔ لیکن بھارتی حکومت، پوری سیاسی قیادت اور اس کے ہر شہری کو یہ نوشتۂ دیوار ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اس کے لیے نفرت اور دشمنیوں کو نہیں اخلاص و محبت کو پروان چڑھانا ہوگا۔۶۳سال کے مشکل سفر کے بعد اب تو یہ بات خود کو سمجھانا ہوگی کہ مسئلۂ کشمیر کسی ضد اور ہٹ دھرمی کی بات نہیں لاکھوں کشمیری عوام کے جذبۂ آزادی کا نام ہے۔ فوج کشی اور زور زبردستی نہ پہلے کام آسکی نہ آیندہ کبھی کام آسکے گی۔ جنگ، فوج کشی اور ترقی و کمال دو متصادم و متضاد فلسفے ہیں___ تمام بھارتی شہری خواہ وہ مسلمان ہوں یا سکھ عیسائی اور کم ذات ہندو جب تک سب کو یکساں حقوق و مواقع نہیں دیے جائیں گے جمہوریت کا ہر دعویٰ باطل قرار پائے گا۔ اپنی ہی سچّرکمیٹی کی رپورٹ ملاحظہ فرمالیجیے یا گجرات و بابری مسجد کی تحقیقاتی رپورٹوں کو دیکھ لیجیے۔ بھارتی مسلمانوں کے ساتھ سوتیلوں کا سا سلوک خود واضح ہوجائے گا___ بھارت کو خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ بظاہر صورت حال کچھ بھی ہو، ۲۰کروڑ بھارتی مسلمانوں سمیت پوری مسلم اُمت کے حالات و واقعات دنیا کے ہرمسلمان کو اپنی جانب ضرور متوجہ کرتے ہیں۔ بالآخر سب مسلمان ایک ہی سچے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے ہیں___ بھارت کو یہ بھی سوچنا ہوگا کہ اس کے تمام پڑوسی کسی نہ کسی حوالے سے اس سے کیوں نالاں اور شکوہ کناں ہیں۔ رقبے اور آبادی میں کسی کا بڑا ہونا اقوام و ممالک کے درمیان برابری کے مسلّمہ اصول کی نفی نہیں کرتا۔ جمہوریت کا دعویٰ اس اصول کی آبیاری کا سب سے زیادہ متقاضی ہے۔ یہ بات بھارت سے زیادہ کون سمجھتا ہوگا کہ صرف آشائوں سے امن حاصل نہیں ہوتا، نفرت کی بھاشا اور مبنی بر منافقت پالیسی ترک کرنا امن کا پہلا زینہ ہوتا ہے۔

کیا خوب صورت نام ہے، ’’پاکستان‘‘ …پاک لوگوں کا وطن۔ یہ مملکت خداداد دور حاضر کے مسلمانوں کے لیے یقینا خالق کائنات کی عظیم نعمت ہے جسے صرف خوب صورت نام ہی عطا نہیں کیا گیا بلکہ کلمہ طیبہ اس کا جواز ٹھیرا، اوررمضان المبارک کی ستائیسویں شب، یعنی شب ِ قدر کو اسے وجود بخش کر، گویا اس مملکت کے مبارک و مقدس ہونے کی بشارت دی گئی، اور جس کے بارے میں دور حاضر کے عظیم مفکر، مدبر اور مفسر قرآن سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے فرمایا کہ ’’یہ ملک ہمارے لیے مسجد کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کے ایک ایک انچ کا دفاع ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں‘‘۔

مالک الملک نے پاکستان کو ہر لحاظ سے بے پناہ وسائل سے بھی مالا مال کیا ہے، مگر اسے یہاں کے مقتدر طبقے کی نا اہلی اور بے تدبیری ہی کہا جا سکتا ہے کہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی بھوک اور ننگ کو یہاں کے عوام کا مقدر بنا دیا گیا ہے اور زبردست صلاحیتوں کی حامل یہ قوم عملاً بھکاری اور عالمی استعمار کی غلام بن چکی ہے۔ آج یہ ملک بحران در بحران کی کیفیت سے دوچار ہے۔ ہرطرف مہنگائی و بے حیائی، بے کاری و بے روز گاری، بے عملی و بدامنی، بد انتظامی و بدعنوانی اور  ان سب پر مستزاد بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا راج ہے اور ان میں سے ہر ایک خرابی دوسری میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ بجلی اور توانائی کی عدم دستیابی کے باعث کارخانے اور فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں، جس کے نتیجے میں جہاں پیداوار میں کمی و اشیا کی نایابی اور مہنگائی و گرانی میں اضافہ ہوتا ہے وہیں بے چینی اور بے روز گاری بھی بڑھتی ہے۔ ایسی صورت حال میں بے بس، بے کس اور بے روزگار لوگوں کو   اس کے سوا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا کہ وہ مایوسی کا شکار ہو کر بیوی بچوں سمیت خودکشی کرلیں یا پھر سڑکوں پر آ کر احتجاج کی راہ اختیار کریں، چنانچہ ملک بھر میں مہنگائی اور لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاج جاری ہے۔ محنت کش مزدور، کسان، تاجر، طلبہ، اساتذہ اور کلرک، غرض یہ کہ تمام ہی طبقات احتجاج میں شامل ہیں کہ سنگین سے سنگین تر ہوتے ہوئے بحران نے تمام ہی طبقوں کو بری طرح متاثر کر رکھا ہے۔ احتجاجاً دکانیں، اور مارکیٹیں، کاروبار اور دفاتر بند کیے جا رہے ہیں۔ سڑکوں پر آکر نعرہ بازی، دھرنوں، سینہ کوبی، ہنگامہ آرائی، توڑ پھوڑ اور جلائو گھیرائو کا سلسلہ شہر شہر اور    گائوں گائوں جاری ہے… جس کا جواب حکمرانوں کی جانب سے مسائل کے حل کی یقین دہانی اور عملی اقدامات کے بجاے ریاستی تشدد سے دیا جا رہا ہے اور مظاہرین کو لاٹھیوں، گولیوں اور    آنسو گیس کی اندھا دھند شیلنگ کا نشانہ بنا کر طاقت سے عوامی احتجاج کو دبانے کا حربہ آزمایا جا رہا ہے، جو ماضی میں کبھی کا رگر ہوا ہے نہ اب ہو گا۔

ایسے میں ہونا تو یہ چاہیے کہ حکمران عوامی غم و غصہ کا سبب بننے والے مہنگائی و بے روز گاری اور لوڈشیڈنگ جیسے مسائل حل کرنے پر فوری توجہ دیں، لیکن عملاً صورت حال اس کے برعکس ہے۔ اوّل تو حکمران اس صورت حال سے مکمل طور پر لاپروا ہیں اور اپنے عیش و عشرت میں مگن دکھائی دیتے ہیں، یا اگر کبھی اس جانب توجہ فرماتے بھی ہیں تو مسائل کے حل کی جانب کسی پیش رفت کا ذکر کرنے کے بجاے لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑکتے دکھائی دیتے ہیں۔ ۱۹ اور ۲۰؍اپریل کو    اسلام آباد میں دو روزہ قومی توانائی کانفرنس منعقد کی گئی جس میں وزیر اعظم، چاروں صوبوں کے وزراے اعلیٰ اور دیگر متعلقہ اعلیٰ حکام نے شرکت کی مگر اس کانفرنس میں مسئلے کے حل کے لیے کوئی ٹھوس لائحہ عمل مرتب کرنے کے بجاے پرانی گھسی پٹی تجاویز پر بحث مباحثے میں وقت ضائع کیا گیا۔ ان رنگ برنگی تجاویز کے بجاے اگر وزیر اعظم ، وزراے اعلیٰ اور دیگر اعلیٰ حکام اپنے اپنے دفاتر اور رہایش گاہوں میں ائر کنڈیشنر، بجلی کے دیگر آلات اور آرایش اور غیر ضروری روشنیاں وغیرہ بند کر کے بجلی کا خرچ ۵۰ سے ۷۵فی صد کم کرنے کی عملی مثال پیش کرتے تو پھر عوام سے بھی بجلی کی بچت میں اپنی تقلید کی اپیل کرتے اچھے لگتے۔ اسی طرح بجلی کی پیداوار بڑھانے کے لیے اقدامات کی پیش رفت سے بھی عوام کو آگاہ کیا جاتا تو خاصے حوصلہ افزا اثرات برآمد ہو سکتے تھے۔ یوں محسوس ہوتاہے کہ جان بوجھ کر صورت حال کو خراب سے خراب تر کیا جا رہا ہے اور سوچ سمجھ کر ملک کو تباہی کے گہرے غار کی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔ گویا عوام کو پاکستان کے مستقبل سے مایوس کر کے دشمنوں کا کام آسان کرنا مطلوب ہے… ورنہ حقائق تو اس جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ ملک ہر طرح کے وسائل سے مالا مال ہے اور یہاں کسی چیز کی کمی نہیں۔ ضرورت صرف خوف خدا سے سرشار مخلص اور اہل و دیانت دار قیادت کی ہے جو عوام کے مسائل کو اپنے مسائل اور قومی وسائل کو امانت سمجھ کر استعمال کرے، اور جسے ہر وقت یہ احساس دامن گیر رہے کہ اس زندگی کے ایک ایک لمحے اور ایک ایک پائی کا حساب آخرت میں رب کے حضور پیش ہو کر دینا ہے۔

ذرائع ابلاغ کی بیداری کے موجودہ دور میں حقائق کو جھٹلانا اور عوام کی آنکھوں میں   دھول جھونکنا اب ممکن نہیں رہا، چنانچہ خود حکومت کے فراہم کردہ اعدادو شمار یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ توانائی کا موجودہ بحران مصنوعی ہے اور گرانی کی ناقابل برداشت حالیہ لہر بھی اپنے اللے تللوں کے لیے حکمرانوں کی پیدا کردہ ہے۔ اس وقت دستیاب وسائل میں بھی ملک میں بجلی پیدا کرنے صلاحیت ۲۰ ہزار میگاواٹ ہے، جب کہ ملک کی تمام ضروریات ملا کر بجلی کی مجموعی ضرورت ۱۵ہزار میگاواٹ ہے، لیکن اس وقت بجلی کی مجموعی پیداوار ساڑھے نو سے ۱۰ ہزار میگاواٹ بتائی جارہی ہے۔ ملک میں ۱۳پاور اسٹیشن بند پڑے ہیں اور نظام کے اندر موجود ۳ہزار۸ سو میگاواٹ  بجلی واپڈا یا پیپکو نے از خود نظر انداز کر رکھی ہے۔ بند پاور اسٹیشنوں میں پانچ رینٹل پاور پراجیکٹس، تین انڈی پینڈنٹ پاور پراجیکٹس، اور پانچ تھرمل پاور اسٹیشن شامل ہیں۔ اگر بجلی کی تقسیم کی    ذمے دار کمپنیاں ان پہلے سے موجود توانائی کے ذرائع سے استفادہ کے لیے سنجیدگی سے کوشش کریں اور ان کی طویل عرصے سے روکی گئی ادایگیاں کر دی جائیں تو بجلی کی قلت فوری طور پر ختم ہو سکتی ہے اور ۱۵ہزار میگاواٹ بجلی کی ضرورت کے مقابل ۱۷ہزار میگاواٹ بجلی دستیاب ہو سکتی ہے۔ کیا    ان اعداد و شمار کے بعد بھی اس امر میں کوئی شک رہ جاتا ہے کہ بجلی کا بحران حکمرانوں نے اپنے مخصوص اور مذموم مقاصد کی خاطر از خود پیدا کر رکھا ہے۔

سرکاری طور پر جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق بجلی کی پیداوار اور طلب میں فرق     ۲۳ فی صد ہے۔ گویا ضرورت اگر ۱۰۰ یونٹ کی ہے تو ۷۷یونٹ بجلی دستیاب ہے۔ حساب کو سادہ اور آسان بنانے کے لیے ہم اگر کمی کو ۲۵ فی صد بھی تسلیم کر لیں تو خود سرکار کے فراہم کردہ ان حقائق کی روشنی میں ایک چوتھائی بجلی کی کمی ہے۔ اب ذرا حساب لگایئے کہ دن کے ۲۴ گھنٹے میں اگر اس کمی کو تمام علاقوں میں یکساں تقسیم کیا جائے تو دن میں چھے گھنٹے بجلی بند اور ۱۸ گھنٹے بجلی سب کو دستیاب ہونی چاہیے لیکن یہاں تو معاملہ برعکس ہے۔ اخبارات میں ۱۸ سے ۲۲ گھنٹے تک بجلی کی بندش کی خبریں شائع ہو رہی ہیں… گویا دال میں لازماً کچھ کالا ہے…!!!

ذرا آگے چلیے، ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ خالق کائنات نے پاکستان کو بے پناہ قدرتی وسائل سے مالا مال کر رکھا ہے۔ نہایت کار آمد اور شان دار دھوپ سارا سال دستیاب ہے، آبی ذخائر کے لیے انتہائی موزوں مقامات کی نشان دہی ماہرین بار ہا کر چکے ہیں، کوئلے کے وسیع و عریض ذخائر سے قدرت نے ہمیں نواز رکھا ہے اور ایٹمی صلاحیت کے ہم مالک ہیں___  ان سب وسائل سے توانائی کے حصول میں آخر کیا رکاوٹ ہے؟ حکمران انھیں فوری طور پر استعمال میں لا کر عوام کی پریشانی کا ازالہ کیوں نہیں کرتے، اسے بدنیتی یا نا اہلی قرار دیا جائے تو کیا یہ بدگمانی ہو گی یا حقیقت بیانی؟

برادر ہمسایہ ملک ایران انھی وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے نہ صرف اپنی ضرورت کے مطابق بجلی پیدا کرتا ہے بلکہ وافر بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ ایران کی حکومت نے  پیش کش کی ہے کہ بجلی کے بحران سے نکالنے کے لیے فوری طور پر ایک ہزار میگاواٹ بجلی سستے داموں پاکستان کو فراہم کرنے پر تیار ہے مگر پاکستانی حکومت ہے کہ اس پیش کش پر توجہ ہی نہیں دے رہی، حالانکہ ایرانی بجلی کے حصول میں کوئی تکنیکی رکاوٹ بھی در پیش نہیں۔ پاکستان بھر میں بجلی کی ترسیل کا مربوط نیٹ ورک موجود ہے جس کے ذریعے ایرانی بجلی نہایت آسانی سے ملک بھر میں پہنچائی جا سکتی ہے۔ کیا امریکا بہادر کے دبائو کے علاوہ کوئی حقیقی رکاوٹ ایرانی بجلی کے حصول میں ہے؟ رینٹل پاور پلانٹس کی درآمد پر اربوں ڈالر خرچ کرنے کے بجاے ہمارے حکمران ایران کی اس دوستانہ پیش کش سے استفادہ کیوں نہیں کرتے! ہم اپنے قومی مفادات کی خاطر ڈٹ جانے کی ہمت اپنے اندر آخر کب پیدا کریں گے!!

اس امر کا تذکرہ بھی شاید نامناسب نہ ہو کہ گذشتہ دنوں امریکا اور پاکستان کے مابین جن اسٹرے ٹیجک مذاکرات کی بہت دھوم رہی، ان کے بارے میں اطلاعات یہ ہیں کہ ملک میں توانائی کے بحران سے متعلق جو دستاویز دوران مذاکرات امریکی آقائوں کو پیش کی گئی اس میں یہ اعتراف یا انکشاف خود حکومت کی جانب سے کیا گیا کہ آیندہ سالہا سال تک توانائی کے بحران میں کمی کا کوئی امکان نہیں۔ اس حکومتی دستاویز کے مطابق ۲۰۰۷ء میں ملک میں توانائی کی قلت ۳ہزار۳سو میگاواٹ تھی جو اَب بڑھ کر ۵ہزار ۴ سو ۷۶ میگاواٹ تک پہنچ چکی ہے۔ ۲۰۱۵ء میں یہ ۹ہزار،  ۲۰۲۰ء میں ۱۴ ہزار ۲۰۲۵ء میں ۱۶ہزار۵سو اور ۲۰۳۰ء میں ۲۳ہزار میگاواٹ تک پہنچ جائے گی۔ گویا سرکاری طور پر یہ تسلیم کیا جا رہا ہے کہ اصلاح احوال کا ابھی دور دور تک کوئی امکان نہیں!

جماعت اسلامی وطن عزیز کی منظم ترین سیاسی جماعت ہے جو دین کی اساس پر ملک کے نظام کو چلانے کی داعی ہے۔ اس جماعت کی فکر سے اختلاف رکھنے والے بھی اس کی قیادت اور کارکنوں کے اخلاص، امانت و دیانت کا برملا اعتراف کرتے ہیں۔ جماعت کی قیادت نے وقت کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہوئے پہلے ’گو امریکا گو‘ تحریک کے ذریعے عوام میں بیداری کی ایک لہر برپا کی، پھر قوم کو اس کے خالق و مالک کی جانب متوجہ کرتے ہوئے ’رجوع الی اللہ‘ مہم کے ذریعے عوام تک رسائی کی سبیل پیدا کی، اور عوامی مسائل کا بروقت ادراک کرتے ہوئے مہنگائی، بے روز گاری اور لوڈشیڈنگ جیسے مسائل اور ان پر حکومتی بے حسی کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے جو یقینا وقت کی آواز ہے۔ جماعت اسلامی نے اپنی اس تحریک کا باقاعدہ آغاز کر دیا ہے، جب کہ ۱۹؍اپریل کو پشاور کے قصہ خوانی بازار میں ایسے ہی ایک بڑے مظاہرے میں دو درجن کارکنوں کی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے اور اس کے بعد بھی پروگرام کے مطابق احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رکھ کر اپنے اخلاص اور سنجیدگی کا ثبوت پیش کر دیا ہے۔ عوام اپنے طور پر پہلے سے سڑکوں پر ہیں۔ اگر انھیں جماعت اسلامی کی صورت میں منظم، متحرک، امانت دار اور باکردار قیادت فراہم ہو گئی تو یہ تحریک برگ و بار لانے میں زیادہ وقت نہیں لے گی…!!!

وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ ہمارے ارباب اقتدار کو عوام کے مسائل اور مصائب پر سنجیدگی سے توجہ دینی چاہیے ورنہ حقیقت یہی ہے کہ اب پاکستان کے حالات کرغیزستان سے بہت زیادہ مختلف نہیں جہاں عوام نے ریاستی تشدد کے باوجود مہنگائی اور بدعنوانی کے خلاف مظاہروں کے ذریعے صدر قربان بیگ کو ملک سے فرار اور وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کے ارکان کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کر دیا ہے۔ طاقت کے زور پر عوام کو زیادہ دیر تک دبائے رکھنا ممکن نہ ہوگا … فاعتبروا یا اولو الابصار!

۱۴؍اپریل ۲۰۱۰ء میں سینیٹ کے اجلاس میں شرکت کے لیے ابھی راستہ ہی میں تھا کہ موبائل فون سے ’مختصر پیغام‘ پڑھ کر دل سے ایک آہ نکلی___ اسرار بھائی ایک عالم کو سوگوار چھوڑ کر خالقِ حقیقی سے جاملے___ اِنَّا لِلّٰہ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔

’مختصر پیغام‘ بھیجنے والے نے ڈاکٹر اسرار احمد کی حرکت ِ قلب کے بند ہونے سے انتقال کی خبر اور نمازِ جنازہ میں شرکت کی دعوت دی تھی۔ اسلام آباد میں ہونے کی وجہ سے آخری دیدار اور نمازِجنازہ میں شرکت سے محروم رہا، لیکن دل کی گہرائیوں سے ان کی مغفرت اور بلندی درجات کے لیے دعائیں کرتا رہا۔ اللہ تعالیٰ ان کی عمر بھر کی مساعی کو شرفِ قبولیت سے نوازے، بشری لغزشوں سے عفوودرگزر فرمائے، ان کی قبر کو گوشۂ فردوس بنادے اور ابدی زندگی میں ان کو جنت کے اعلیٰ ترین مقامات سے نوازے، آمین، ثم آمین!

اسلامی جمعیت طلبہ کے ہم پر بے شمار احسانات ہیں۔ بلاشبہہ ان میں سب سے اہم زندگی کے اعلیٰ مقاصد اور اہداف کا شعور اور رب کی رضا کے حصول کے لیے اس کے بتائے ہوئے طریقے پر چلنے کا عزم، شوق، کوشش اور دین حق کی شہادت اور اس کے قیام کی جدوجہد کے لیے زندگی کو وقف کرنے کا عہد ہے۔ تاہم عام لوگوں کی نظر میں بظاہر ایک معمولی اور حقیقت میں بڑا ہی قیمتی احسان یہ بھی ہے، کہ اس کی آغوش میں شعور کی منزلیں طے کرنے والے ایک ایسے رشتۂ اخوت میں جڑ جاتے ہیں، جسے زمانے کی کروٹیں اور اختلافات کے طوفان بھی کمزور نہیں کرپاتے۔ یہی وجہ ہے کہ ساری دنیا کے لیے ڈاکٹر اسرار احمد ایک عالمِ دین، ایک داعیِ خیر، ایک معتبر شخصیت ہونے کے ساتھ’ڈاکٹر اسرار‘ ہی ہوں گے، لیکن میرے لیے اور جمعیت کی پوری برادری کے لیے        وہ اوّل و آخر اسرار بھائی تھے، ہیں اور رہیں گے  ع

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

میری اور اسرار بھائی کی پہلی ملاقات ۱۹۵۰ء میں اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے سالانہ اجتماع منعقدہ لاہور میں ہوئی۔ میں جمعیت کا نیا نیا رکن بنا تھا اور ساتھ ہی کراچی جمعیت کی نظامت کا بار ڈال دیا گیا تھا۔ اسراربھائی کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور کے غالباً پہلے سال میں تھے۔ برادرم ظفراللہ خان جمعیت کے ناظم اعلیٰ تھے اور ہماری سرگرمیوں کا گہوارا محترم نصراللہ خان عزیز صاحب کا گھر تھا۔ اس ملاقات میں جن تین ساتھیوں نے بہت متاثر کیا ان میں نسیم بھائی، اسراربھائی اور مسلم سرحدی نمایاں تھے۔ اخوت کا جورشتہ اس موقع پر قائم ہوا، اس نے ساری عمر ہم کو ایک دوسرے کے لیے اسراربھائی اور خورشید بھائی ہی رکھا___ اگرچہ ۶۰سال کے اس طویل عرصے میں اتفاق اور اختلاف، قربت اور عدمِ ارتباط کے شیریں اور تلخ لمحات سفینۂ حیات کو ہچکولے دیتے رہے۔ جمعیت میں ہم نے چار سال ساتھ گزارے۔ ۱۹۵۰ء میں نسیم بھائی ناظم اعلیٰ بنے، ۱۹۵۱ء میں خرم بھائی، ۱۹۵۲ء میں اسرار بھائی، اور ۱۹۵۳ء میں یہ ذمہ داری میرے کاندھوں پر ڈال دی گئی۔ پھر جماعت اسلامی میں بھی ہمارا ساتھ رہا۔ ماچھی گوٹھ کے اجتماع میں میرے اور ان کے موقف میں بڑا فرق تھا، لیکن ذاتی محبت کا وہ رشتہ جو ۱۹۵۰ء میں قائم ہوا تھا وہ کبھی نہ ٹوٹا: الْحَمْدُلِلّٰہ عَلٰی ذٰلِکَ۔

اسرار بھائی اور مَیں ایک ہی سال اس دنیا میں آئے۔ وہ جمعیت میں میرے سینیر رہے۔ تقسیم سے قبل اسرار بھائی رہتک، ہریانہ میں ابتدائی تعلیم اور تحریکِ پاکستان میں شرکت کے مراحل سے گزرے۔ میں نے دہلی میں آنکھیں کھولیں اور وہاں تحریکِ پاکستان میں بھرپور شرکت کی۔ ہمارے یہ ابتدائی تجربات زندگی کے رُخ کو متاثر کرنے کا ذریعہ بنے لیکن اصل فیصلہ کن دور، اسلامی جمعیت طلبہ میں گزارے ہوئے چند سال ہی رہے۔ پہلے دن سے اسرار بھائی کی خطابت اور خوداعتمادی کا نقش دل پر ثبت ہوگیا۔

اللہ تعالیٰ نے اسرار بھائی کو دل و دماغ کی بہترین صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ علمی، دعوتی اور تنظیمی، تینوں اعتبار سے وہ منفرد شخصیت کے حامل تھے۔ قرآن سے شغف اور زبان و بیان پر قدرت کے باب میں وہ اپنی مثال آپ تھے۔ بے پناہ خوداعتمادی کے حامل تھے جو کبھی کبھی   شدتِ اظہار میں غلط فہمی کا باعث بھی ہوجاتی تھی اور قائدانہ صلاحیت جو ان کو نمبر ایک پوزیشن سے کم پر ٹھیرنے نہیں دیتی تھی، ان کے مزاج اور کردار کی امتیازی شان تھے۔

وہ ایک اچھے اور مہربان ڈاکٹر تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان سے طبّی علاج معالجے سے کہیں بڑا کام لینا تھا۔ علامہ اقبال، مولانا مودودی اور مولانا ابوالکلام آزاد نے ان کی فکر اور شخصیت کی صورت گری میں اہم کردار ادا کیا۔ دین کا جامع تصور ان کے رگ و پے میں سماگیا تھا۔ پھر اپنی محنت اور اللہ تعالیٰ کے خصوصی فیضان سے انھوں نے قرآن کریم کے پیغام کو اللہ کے بندوں تک پہنچانے کے لیے اپنی زندگی وقف کردی۔ اسلامی انقلاب کے طریق کار کے بارے میں انھوں نے مولانا مودودی کے تجزیے اور عملی جدوجہد سے اختلاف کیا، لیکن یہ حقیقت ہے جماعت سے رشتہ توڑ لینے کے باوجود وہ زندگی کے ہردور میں، اور اپنے آخری لمحے تک اسلام کے انقلابی تصورِ دین کے   علَم بردار رہے۔ اپنے علم اور ادراک کے مطابق پورے خلوص، یکسوئی اور جانفشانی کے ساتھ قرآن کے پیغام کو انسانوں تک پہنچانے اور دین کو غالب قوت بنانے کی جدوجہد میں شریک رہے۔ اسی جہاد زندگانی میں جاں جانِ آفریں کے سپرد کی۔

اسرار بھائی نے جدید اور قدیم، دونوں علوم سے بھرپور استفادہ کیا اور اس علم کو دعوتِ دین کے لیے بڑی کامیابی سے استعمال کیا۔ ان کی شخصیت کے سب سے اہم پہلو ان کی یکسوئی، خوداعتمادی اور خدمتِ دین کے لیے خطابت تھے۔ قرآن کو انھوں نے اپنا وظیفۂ حیات بنا لیا تھا۔ اس کے پیغام کو گہرائی میں جاکر سمجھا تھا اور جس بات کو حق جانا اس پر نہ صرف خود قائم ہوئے، بلکہ دوسروں کو بھی اس کے قیام کی منظم جدوجہد میں شریک کیا۔ ان کے درسِ قرآن کے پروگرام ملک اور ملک سے باہر دعوت کا اہم ذریعہ بنے۔ پھر الیکٹرانک میڈیا پر قرآن کے پیغام کو پھیلانے   کے لیے انھوں نے منفرد خدمات انجام دیں۔ بلاشبہہ ان کو اللہ تعالیٰ نے تحریر کی صلاحیت سے بھی نوازا تھا، تاہم ان کی تحریر میں بھی خطابت کی شان نمایاں رہی۔ جو کتابیں انھوں نے جم کر لکھی ہیں،       وہ ہراعتبار سے علمی شاہکار ہیں۔ البتہ ان کے لٹریچر کا بڑا حصہ ان کی تقاریر اور دروسِ قرآن کا مرہونِ منت ہے۔

اللہ تعالیٰ نے انھیں اعلیٰ تنظیمی اور قائدانہ صلاحیتوں سے نوازا تھا اور انھوں نے     اسلامی جمعیت طلبہ، انجمن خدام القرآن، تنظیم اسلامی اور عالمی تحریکِ خلافت کے ذریعے      اپنی بہترین صلاحیتیں دین کی خدمت میں صَرف کیں۔ یہ بھی ان پر اللہ تعالیٰ کا بڑا انعام تھا اور بلاشبہہ ان کی شعوری کوششوں کا بھی اس میں بڑا دخل تھا کہ ان کا پورا خاندان دین حق کی خدمت میں ان کا شریکِ سفر تھا۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان کی خدمات کو قبول فرمائے اور جو چراغ انھوں نے جلائے ہیں وہ ہمیشہ روشن رہیں۔ گذشتہ کئی سال سے ہمیں ایک دوسرے سے ملنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ میری آخری ملاقات ان سے امریکا میں ہارٹ فورڈ سیمینری میں ہوئی، جہاں مجھے لیکچرز کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ ان کے حلقے سے چند نوجوانوں کے ذریعے جو میرے لیکچرز میں بھی شریک تھے، ان کے ساتھ ایک شام گزارنے کا موقع ملا۔ پروفیسر ابراہیم ابوربیعہ کے گھر پر ہم نے اکٹھے کھانا کھایا اور پرانے تعلقات کی تجدید کی۔

اختلافی امور پر بھی ملک میں اور ملک سے باہر بھی بارہا بات ہوئی، لیکن محبت اور اعتماد  کا جو رشتہ ۱۹۵۰ء میں قائم ہوا تھا، وہ زندگی بھر قائم رہا۔ یہ سب اللہ کا فضلِ خاص اور طریق کار      کے بارے میں اختلاف کے باوجود اصل مقصد کے اشتراک اور باہمی اخوت اور اعتماد کا نتیجہ تھا۔ اللہ تعالیٰ انھیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے    ؎

ساز دل چھیڑ کے بھی، توڑ کے بھی دیکھ لیا

اس میں نغمہ ہی نہیں کوئی محبت کی

گذشتہ ماہ سید جلال الدین عمری کی تصنیف : تحقیقاتِ اسلامی کے فقہی مباحث پر تبصرہ شائع کیا تھا۔ اس پر کتاب کے فاضل مصنف کی طرف سے موصولہ چند توضیحات افادئہ قارئین کے لیے ذیل میں پیش کی جارہی ہیں۔(ادارہ)

’’آج کے دور میں اجتہاد کی کیا اہمیت ہے؟‘‘___ تبصرے کے آغاز میں اس طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ اس مجموعے کے پہلے ہی مضمون ’اسلامی شریعت میں اجتہاد کا عمل‘ میں تفصیل سے یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اجتہاد کی کیا اہمیت ہے اور احکامِ شریعت میں اجتہاد کی کتنی اور کہاں گنجایش ہے؟ اجتہاد کی مختصر سی تاریخ، تقلید اور اس کی مخالفت، دورِ جدید کے تقاضوں اور اجتماعی غوروفکر کی ضرورت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ مگر اس تبصرے میں اس کا حوالہ نہیں دیا گیا ہے، حالانکہ یہ تبصرے کی تمہید کا تقاضا تھا۔

مبصر نے ایک مقام پر توجہ دلائی ہے کہ: ’’مولانا عمری اصولی مباحث میں ائمہ اور اکابر علما کی آرا اور قدیم علوم سے نظائر تو بڑی خوبی سے پیش کردیتے ہیں لیکن موجودہ (خصوصاً بھارت کی) صورت حال میں ان اصول و نظائر کا عملی اطلاق کیسے ہوگا، اس سلسلے میں وہ کوئی واضح اور دوٹوک فیصلہ نہیں دیتے‘‘۔ اس کی مثال یہ دی گئی ہے کہ ’’غیرمسلموں سے ازدواجی تعلقات کے ضمن میں بھارت میں ہندو مسلم شادیوں کا مسئلہ سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ عمری صاحب نے اہلِ کتاب سے شادی پر تو اظہارِ خیال کیا ہے مگر ہندو مسلم شادیوں کا تذکرہ نہیں چھیڑا ہے۔ غالباً اس لیے کہ بہت سی پیچیدگیاں ہونے کا احتمال تھا‘‘۔ یہ بات صحیح نہیں ہے۔ اس مضمون کا ابتدائی حصہ ہندستان (یا جہاں کہیں یہ صورت حال ہو) ہی کے پس منظر میں لکھا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ’’اس طرح کے تعلقات مسلم نوجوانوں میں بھی شاذونادر نہیں رہے بلکہ کثرت سے دیکھے جا رہے ہیں۔ مسلمان لڑکے اور لڑکیاں غیرمسلم لڑکے اور لڑکیوں سے ازدواجی رشتے میں منسلک ہوجاتے ہیں۔ کورٹ میرج کے ذریعے اسے قانونی تحفظ بھی حاصل ہوجاتا ہے‘‘۔ (ص ۱۰۷)

اس کے بعد کہا گیا ہے: ’’اسلام نے ازدواجی رشتوں کے سلسلے میں عقیدے کو بنیادی اہمیت دی ہے وہ توحید کا علَم بردار ہے، اس لیے اس نے اہلِ شرک سے ازدواجی رشتے کو حرام قرار دیا ہے، اس لیے کہ دونوں عقیدوں کے درمیان جوہری اور اساسی فرق ہے‘‘ (ص ۱۰۸)۔ اس کے ثبوت میں قرآن کا حوالہ دیا گیا ہے اور یہ بتایاگیا ہے کہ عہدِرسالتؐ میں مشرکین سے جورشتے قائم تھے وہ ختم کردیے گئے۔ اسی مضمون میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اہلِ کتاب کی عورتوں سے نکاح کا جواز ہے لیکن پسندیدہ نہیں ہے اور آخر میں عرض کیا گیا ہے کہ ’’جہاں تک بت پرست و آفتاب پرست، ستارہ پرست، آتش پرست اور اس طرح کی مشرک قوموں کا تعلق ہے، ان کی عورتیں مسلمانوں کے لیے حلال نہیں ہیں۔ یہ نص قرآن اور اجماع سے ثابت ہے‘‘ (ص ۱۳۵)۔ کیا اس کے بعد بھی مزید کسی وضاحت کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور کیا یہ بات کہی جائے گی کہ ہندستان کے پس منظر میں اس پر گفتگو سے احتراز کیا گیا ہے۔ غالباً یہ پوری بحث کسی وجہ سے تبصرہ نگار کو اپنی طرف متوجہ نہیں کرسکی ہے۔

اس کے علاوہ میں نے اپنی کتاب غیرمسلموں سے تعلقات اور ان کے حقوق کا حوالہ دیا ہے۔ اس میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ جو لوگ اس طرح کے رشتوں کی حمایت کرتے ہیں ان کے کیا دلائل ہیں اور ان دلائل کی کیا کمزوریاں ہیں؟اس طرح کے رشتوں کی قانونی حیثیت کو واضح کرتے ہوئے کہا گیا ہے : ’’اسلام جس ازدواجی تعلق کو صحیح نہیں تسلیم کرتا، اس کی بنیاد پر حقوق اور ذمہ داریوں کا سوال بھی اس کے نزدیک بے معنی ہے۔ جب کوئی عورت اسلامی قانون کی رُو سے کسی کی بیوی اور وہ اس کا شوہر نہیں ہے تو دونوں کے حقوق اور ذمہ داریاں ازخود ختم ہوجاتی ہیں۔ عورت نہ تو اپنے حقوق کا مطالبہ کرسکتی ہے اور نہ مرد کے مطالبات کی تعمیل اس کے لیے لازمی ہوگی۔ اس تعلق کے نتیجے میں جو اولاد ہوگی وہ بھی اپنے نان و نفقہ، تعلیم و تربیت جیسے قانونی حقوق سے محروم ہوگی۔ ان کے درمیان قانونِ وراثت نافذ نہیں ہوگا۔ اس سے آگے کی بات یہ ہے کہ اس ناجائز تعلق پر عورت اور مرددونوں پر اسلامی ریاست میں حدِ شرعی نافذ ہوگی‘‘۔(ص ۹۷-۹۸)

اس مجموعے کا دوسرا مضمون ہے: ’ہندستان کی شرعی و قانونی حیثیت‘۔ تبصرے کی روشنی میں یہ خیال ہوسکتا ہے کہ معاملہ ہندستان کا ہے، اس لیے اس سلسلے میں کوئی واضح بات نہیں کہی گئی ہوگی۔ چونکہ یہ ایک اہم موضوع اور ایک بڑے ملک اور اس کی سب سے بڑی اقلیت سے متعلق ہے، اس لیے اس بارے میں بھی اس مضمون کے حوالے سے کچھ باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔

اس مضمون میں پہلے تو یہ بتایا گیا ہے کہ فقہاے کرام نے ’دار‘ کی تین قسمیں بیان کی ہیں: دارالاسلام، دارالحرب اور دارالبغی۔ پھر اِس بات کا بھی امکان ہے کہ دارالاسلام اور دارالحرب کے درمیان معاہدئہ صلح ہو۔ جب تک صلح ہے دونوں کے درمیان جنگ نہیں ہوسکتی۔ اس اصولی بحث کے بعد ہندستان میں مسلمانوں کے دورِ اقتدار، انگریزوں کے دورِ حکومت، ملک کی آزادی اور بعد کی صورت حال کا ذکر ہے۔ اسی ذیل میں اس کے سیکولر دستور اور اس کے تسلیم کردہ حقوق بیان ہوئے ہیں۔ اس کی بنیاد پر کہا گیا ہے کہ ہندستان گو دارالاسلام نہیں ہے، لیکن فقہا کی اصطلاح میں دارالحرب بھی نہیں ہے۔ فقہا کے نزدیک دارالہجرت سے ہجرت لازم ہے لیکن ساتھ ہی انھوں نے لکھا ہے کہ دارالحرب میں اگر ’’آدمی کو دین پر عمل اور دعوتِ دین کی آزادی حاصل ہو، وہ ظلم و زیادتی سے محفوظ ہو، ظلم ہو تو اسے دفاع کا حق حاصل ہو، اس کا قیام وہاں اُمت مسلمہ کے لیے مفید ہو تو اس کے لیے ہجرت صحیح نہیں ہے، وہاں قیام واجب ہے۔ یا کم از کم وہاں سے ہجرت کو فرض نہیں قرار دیا جاسکتا ہے۔ بہ ظاہر ہندستان کا شمار اسی دوسری قسم میں ہوتا ہے‘‘۔ (ص ۴۹)

مسلمانانِ ہند کی دستوری حیثیت اور یہاں مسلمانوں (اقلیتوں) کو جو دستوری حقوق حاصل ہیں ان کی بنیاد پر کہا گیا ہے کہ ’’مسلمانوں کا اس ملک کو اپنا وطن بنانے اور یہاں رہنے، بسنے کا فیصلہ محض قانونی یا سیاسی مجبوری نہیں ہے بلکہ شرعی حکم اور دین کا تقاضا ہے‘‘ (ص ۵۱)۔ آگے عرض کیا گیا ہے کہ ’’جب ہندستان شرعاً و قانوناً مسلمانوں کا وطن ہے اور وہ یہاں اپنے مسلمہ حقوق کے ساتھ رہ رہے ہیں تو انھیں ممکنہ حد تک شرعی زندگی گزارنی لازم ہے۔ وہ شریعت کے ان تمام احکام کے مکلف ہیں جن کو وہ انجام دے سکتے اور جن کو وہ انجام نہیں دے سکتے، ان کے سلسلے میں کوئی کوشش کرنی ہوگی تاکہ اس کے مواقع انھیں حاصل ہوسکیں۔(ص ۵۱)

اس سلسلے میں یہ بات بھی واضح کی گئی ہے کہ آج کے جمہوری ممالک یا ہندستان جیسے جمہوری ملک کی صورت حال ماضی میں نہیں تھی، اس لیے قدیم فقہا کے ہاں اس پر بحث نہیں ملتی، البتہ انھوں نے دارالاسلام اور دارالحرب پر جو بحثیں کی ہیں، ان سے اس سلسلے میں مدد اور رہنمائی ضرور ملتی ہے۔ پھر اس کی کچھ تفصیل فراہم کی گئی ہے۔ بہرحال یہ ایک نازک بحث ہے۔ میں نے اس میں اپنی راے وضاحت سے پیش کی ہے۔ امید ہے اصحابِ علم اس پر غور کریں گے۔

اس مجموعے کے دوسرے مضامین ہیں: دارالاسلام اور دارالحرب کا تصور، اسلامی ریاست میں غیرمسلموں پر اسلامی قانون کا نفاذ، اسلامی ریاست میں غیرمسلموں پر حدود کا نفاذ، اسلام کا قانونِ قصاص، قذف اور لعان کے احکام۔ یہ عنوانات آج کے دور میں اسلامیات کے طالب علم کے لیے دل چسپی اور غوروفکر کا موضوع بن سکتے ہیں۔ ان موضوعات کی طرف کوئی توجہ نہیں کی گئی ہے۔ اگر مختصراً ہی اظہارِ خیال فرماتے تو استفادہ کیا جاسکتا تھا۔

تعزیت کا صحیح طریقہ

سوال: شریعت میں تعزیت کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ اور کب تک تعزیت کرنا چاہیے؟

جواب: تعزیت عربی زبان کا لفظ ہے، اس سے مراد کسی کے انتقال پر اُس کے رشتہ داروں اور پس ماندگان کو حوصلہ دینا، اور اظہارِ ہمدردی کرکے اُن کا غم غلط کرنا اور رنج و تکلیف کو کم کرنا ہے۔ جب کوئی شخص فوت ہوتا ہے تو اُس کے عزیزوں اور بال بچوں کو صدمہ اور غم ہوتا ہے، لہٰذا اُن سے اظہارِ ہمدردی مستحب اور پسندیدہ ہے۔ انھیں تسلی اور تشفی دینا اور صبروشکر کی تلقین کرنا سنتِ نبویؐ ہے۔ تعزیت اور ہمدردی کے موقع پر پس ماندگان سے مل کر دُعا کی تلقین کرنا پسندیدہ ہے:

غَفَرَاللّٰہُ لِمَیِّتِکَ وَتَجَاوَزَ عَنْ سَیِّاتِہٖ بِرَحْمَـتِہٖ وَرَزَقَکَ الصَّبْرَ عَلٰی مُصِیْبَـتِہٖ وَاَجَرکَ عَلٰی مَوْتِـہٖ، اللہ تعالیٰ مرنے والے کی مغفرت فرمائے، اُس کی خطائوں سے درگزر کرے۔ اُس کو اپنے دامنِ رحمت میں جگہ دے اور آپ کو اس حادثے پر صبر سے نوازے اور اُس کی موت کا رنج سہنے پر آپ کو اجروثواب عطا فرمائے۔

رسولؐ اللہ سے اِس موقع پر جو الفاظ منقول ہوئے ہیں، وہ یوں ہیں:اِنَّ لِلّٰہِ مَآ اَخَذَ وَلَہٗ مَآ اَعْطٰی وَکُلُّ شَیْئٍ عِنْدَہٗ بِاَجَلٍ مُّسَمًّی، یعنی جو کچھ اللہ تعالیٰ نے لے لیا ہے، وہ بھی اُسی کا ہے اور جو دیا ہے، وہ بھی اُسی کا ہے، اور ایک مقررہ وقت پر ہرشے کو اُسی کی طرف جانا ہے۔ گویا سب کچھ اللہ کا دیا ہے۔ اُس کے ہاں ہرچیز نپی تُلی ہے، یعنی اُس کے فیصلے پر راضی رہنا چاہیے۔

تعزیت کرنے کا صحیح وقت تو تدفین کے بعد ہی ہے لیکن تدفین سے پہلے تعزیت کرنے پر کوئی پابندی نہیں۔ میت کے تمام رشتہ دار، چھوٹے ہوں یا بڑے، سب سے تعزیت کی جاسکتی ہے۔ تعزیت کے لیے باقاعدگی سے بیٹھ کر انتظار کرنا ضروری نہیں۔ لیکن اگر لوگ اظہارِ ہمدردی  کے لیے آرہے ہوں، تو بیٹھنے میں کوئی حرج بھی نہیں۔ تین روز کے بعد تعزیت کے لیے جانا نامناسب ہے کہ اس سے اہلِ خانہ کو تکلیف بھی ہوتی ہے اور موت کا احساس بھی طول پکڑتا ہے، البتہ کوئی شخص اگر سفر وغیرہ سے آئے تو اُس کے لیے تعزیت کی خاطر تین روز بعد جانا بھی جائز ہے۔

میت کے جنازے کے موقع پر یا فوراً بعد میں مویشی ذبح کرنا، یا اس میں سے کھانا تقسیم کرنا، دعوتِ عام کرنا، ناپسندیدہ اعمال ہیں۔ بالخصوص اگر میت کے وارثوں میں ایسے لوگ ہیں جو نابالغ ہوں یا غیرموجود ہوں تو میت کے ترکے میں سے صدقہ و خیرات کرنا یا دعوت کرنا مکروہ ہی نہیں بلکہ قطعاً حرام ہیں کیونکہ پرائے مال کو تقسیم کرنا بلااجازت جائز نہیں ہے۔

پسندیدہ عمل یہ ہے کہ میت کے ورثا اور اہلِ خانہ کے لیے پڑوسی اور دوست احباب کھانے پینے کا اہتمام کریں کیونکہ بسااوقات رنج و غم کی وجہ سے اہلِ میت خود اپنے کھانے پینے کا انتظام کرنے کے قابل نہیں ہوتے ہیں۔ حضرت جعفر طیارؓ کی وفات پر رسولؐ اللہ نے مسلمانوں سے بالعموم اور اپنی بیٹی حضرت فاطمۃ الزہرائؓ سے بالخصوص فرمایا تھا کہ جعفر کے گھروالوں کے لیے کھانا تیار کرو کیونکہ اُن پر جو مصیبت آپڑی ہے اُس کے رنج و غم کی وجہ سے وہ کھانا بھولے ہوئے ہیں۔ اس لیے اہلِ بیت کے پڑوسیوں کو چاہیے کہ وہ اُن کو کھانے کے لیے اپنے ساتھ بٹھائیں، اُن کے گھر کھانا بھیجیں اور اس تکلیف کے برداشت کرنے میں اُن کا ہاتھ بٹائیں۔

مسلمان کسی بھی تکلیف کو برداشت کرنے میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور غم غلط کرنے اور تکلیف برداشت کرنے میں ہاتھ بٹاتے ہیں۔ تعزیت کا پُرسا دینا یا اظہار ہمدردی کرنا بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے اور اُمت کے جسدِ واحد ہونے کی طرف واضح اشارہ ہے۔تعزیت کے موقع پر میت کی خوبیوں کا ذکر کرنا بھی اچھا ہے۔ اس کے نقائص سے اعراض کرنا چاہیے اور بہتر ہے کہ ان مواقع کو باہمی تذکیر، وعظ و نصیحت اور دینی رہنمائی کے لیے استعمال کیا جائے۔ فضول گفتگو اور غیبت و چغلی اور یاوہ گوئی سے بالخصوص اس موقع پر اجتناب کیا جائے۔ (مصباح الرحمٰن یوسفی)


زکوٰۃ کی ادایگی سے فرار کا حیلہ

س: میری اہلیہ کے پاس سونے کے زیورات ہیں جن پر ایک مدت سے زکوٰۃ ادا نہیں کی گئی ہے۔ اگر میری اہلیہ اس سونے کے نصف کو اپنی بچی کے نام کردے، اور اس کے جوان ہونے تک اس کو خود استعمال کرتی رہے تو کیا یہ جائز ہوگا؟ کیا اس طرح زکوٰۃ کی ادایگی سے معافی مل جائے گی؟

ج: سونا اگر نصاب کے مطابق ہوتو اس پر زکوٰۃ ادا کرنا فرض ہے۔ جتنی مدت کی زکوٰۃ آپ کی اہلیہ نے ادا نہیں کی ہے، وہ ادا کی جانی چاہیے۔ یہ اللہ کا حق ہے،اور اِس سے فرار کی راہ نہیں ڈھونڈنی چاہیے۔ اگر آپ کی اہلیہ محض زکوٰۃ سے جان چھڑانے کے لیے آدھا سونا یا زیورات بچی کے نام منتقل کرتی ہیں، تو یہ ایک ناجائز حیلہ سازی ہے۔ اس بہانہ بازی سے اللہ کی پناہ مانگیے اور زرپرستی یا مال و دولت کی ہوس میں اللہ کے قانون کے ساتھ مذاق کرنے سے گریز کیجیے۔

اگر واقعی آپ کی اہلیہ اس سونے کے نصف حصے کو اپنی بچی کی ملکیت بنانا چاہتی ہیں اور اس سے مراد دھوکا دہی نہیں ہے، تو اس صورت میں آیندہ نصابِ زکوٰۃ سے کم ہونے کی وجہ سے دونوں پر زکوٰۃ لاگو نہیں ہوگی، تاہم اس سونے کے علاوہ کچھ اور مالیت کی وجہ سے اگر زیورات زکوٰۃ    کے نصاب کو پہنچ جائیں تو ان پر زکوٰۃ عائد ہوگی۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے ارادوں کو بخوبی جانتا ہے۔ یَعْلَمُ خَائِنَۃَ الْاَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْر، یعنی وہ تو دلوں کے اندر گزرنے والے خیالات سے بھی واقف ہے اور چھپی ہوئی باتوں سے بھی واقف ہے۔ آپ کی اہلیہ خود یا اُس کی طرف سے آپ سابقہ مدت کی زکوٰۃ یک مشت یا قسط وار ادا کریں خواہ اس کے لیے اُنھی زیورات میں سے کچھ کو فروخت ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ اگر آپ اِن زیورات کو یا اِن کے کسی حصے کو فروخت کرکے کسی کاروبار میں لگائیں یا ضروریات کی چیزیں خریدیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔

دراصل اسلام سرمایہ کو استعمال میں لانے یا گردش میں رکھنے کی ترغیب دیتا ہے۔ جب آپ کا سرمایے استعمال میں ہوگا تو اس سے آپ کو بھی اور کئی دوسرے لوگوں کو بھی فائدہ ہوگا لیکن اگر آپ اس کو جمع کرکے ناقابلِ استعمال بنائیں گے تو اس پر زکوٰۃ ادا کرنا ضروری ہوگا۔ اس سے فرار کا کوئی راستہ ڈھونڈنا ایک مسلمان کو زیب نہیں دیتا، بالخصوص جب کہ وہ یہ ایمان رکھتا ہو کہ میرا مال اور میری جان اللہ تعالیٰ کی امانت ہیں۔ اب اللہ تعالیٰ کے اپنے مال میں سے اُس کے کہنے کے مطابق ادایگی نہ کرنا بہت بڑی بددیانتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ فرمائے۔(م - ی)

مدینۃ النبیؐ، ڈاکٹر رانا محمد اسحاق، ڈاکٹر رانا خالد مدنی۔ ناشر: ادارہ اشاعت اسلام،         ۴۰۸-گلشن بلاک، علامہ اقبال ٹائون، لاہور-۵۴۵۷۰۔ فون: ۳۶۱۲۱۸۵۶-۰۴۲۔ ملنے کا پتا: ادبستان، ۴۳- ریٹی گن روڈ عقب سنٹرل ماڈل سکول، لوئرمال، لاہور۔ صفحات: ۴۶۴۔ قیمت: ۱۵۰۰روپے۔

زیرنظر کتاب کے مؤلف نے ایک صحیح حدیث کا ترجمہ ان الفاظ میں نقل کیا ہے: ’’اے  اللہ تعالیٰ! مدینہ بھی ہمیں مکہ مکرمہ کی طرح محبوب کردے بلکہ اس سے بھی زیادہ محبوب کردے‘‘۔ مؤلف نے مدینہ طیبہ کی برکت، پاکیزگی اور فضائل کے بارے میں مذکورہ بالاحدیث کے علاوہ بھی متعدد احادیث کا ذکر کیا ہے۔

فاضل مصنف نے مدینۃ النبیؐ کے موضوع پر بلکہ اس کے متعلقات پر بھی نئی پرانی تصاویر سمیت بمقدارِ کثیر لوازمہ جمع کردیا ہے۔ بلاشبہہ اسے مدینہ منورہ پر ایک انسائیکلوپیڈیا یا دائرہ معارف قرار دینا غلط نہیں ہوگا۔ کتاب کے موضوعات و محتویات کی فہرست ۱۴ صفحوں پر پھیلی ہوئی ہے۔ مدینہ طیبہ کے مختلف نام، قرآن اور حدیث میں مدینہ کے صفاتی اسما، حدودِ حرمِ نبویؐ سے متعلق احادیث، مدینہ سے نبی اکرمؐ کی محبت، مدینہ کی عجوہ کھجور کی فضیلت، مسجدنبویؐ کی تعمیر اوّل سے  لے کر اس میں ہونے والی ۱۹۸۴ء تک توسیعات اور تبدیلیوں کی تفصیل (از سنہ ایک ہجری تا ۱۴۰۵ھ مطابق ۱۹۸۴ئ)۔ مسجد نبویؐ کے فضائل، اس کے مختلف حصے، ستون، حجرے، نقشے، تصویریں، زیارتِ قبرنبویؐ سے متعلق احادیث کا تجزیہ وغیرہ۔

مدینہ طیبہ کی ان تفصیلات کے ساتھ سیرتِ طیبہ کی تفصیلات، خصوصاً آنحضوؐر کے مدنی دور کے بعض واقعات، شہداے اُحد، جنگ ِ احزاب، مدینہ کی مختلف مساجد، پہاڑوں، کنوئوں، چشموں، معروف ڈیموں، جنگلات، مدینہ میں زراعت، مدینہ کی مارکیٹیں، معروف لائبریریاں، شاہ فہد قرآن کریم پرنٹنگ کمپلیکس سٹی، مدینہ یونی ورسٹی، حتیٰ کہ مدینہ کے باشندوں کے معاشرتی طورطریقے، خوشی اور غمی کی رسومات، شادی کی تقریب، حق مہر، دلھن کا انتخاب، مدینہ کے معروف شادی گھر، عید کی تقریب، تعزیت کا طریقہ وغیرہ وغیرہ کی تفصیل بھی بیان کی گئی ہے۔

فاضل مصنف مدینہ یونی ورسٹی میں زیرتعلیم رہے۔ بعد میں بھی حجازِ مقدس میں کئی سال تک قیام کیا۔ زیرنظر تحقیق موصوف کے زمانۂ قیامِ حجاز کی یادگار ہے جسے اُن کی وفات (۲مئی ۱۹۹۷ئ) کے بعد اُن کے لائق بیٹے، ڈاکٹر رانا خالد مدنی نے بلاشبہہ بڑی کاوش اور اہتمام سے شائع کیا ہے۔ اس کتاب کی تحریر و تصنیف، طباعت و اشاعت اور پیش کش میں علم و تحقیق سے مصنف اور ناشر کی لگن کا انداز ہوتا اور ان کا تحقیقی و جمالیاتی ذوق بہت واضح نظر آتا ہے۔     مدینۃ النبی اور مسجدنبویؐ کے تعلق سے اتنی مختلف النوع اور اتنی کثیرتعداد میں تصویریں شاید ہی کسی کتاب میں یک جا ملیں گی۔ یہ سب کتاب کے حُسن اور وقار و وقعت میں بھی اضافہ کرتی ہیں۔

کتاب کے آخر میں آیاتِ قرآنی اور احادیث کے اشاریے، اور مصادر و مراجع کی   ایک مفصل فہرست شامل ہے۔ اس کے علاوہ قرآنی آیات و احادیث بلکہ جملہ عربی عبارات پر اِعراب لگانے کا التزام کیا گیا ہے۔ اُردو والے کہہ سکتے ہیں کہ اب مدینہ طیبہ پر ایسی خوب صورت، جامع اور وقیع کتاب اُردو میں بھی موجود ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


رسول اکرمؐ اور تعلیم، ڈاکٹر یوسف قرضاوی، ترجمہ: ارشاد الرحمن۔ ناشر: دارالتذکیر، رحمن مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۷۲۳۱۱۱۹-۰۴۲۳۔ صفحات: ۲۶۱۔ قیمت: درج نہیں۔

علامہ ڈاکٹر یوسف قرضاوی کا شمار دورِ حاضر کے جید علما میں کیا جاتا ہے۔ آپ نے دورِحاضر کے مشکل ترین موضوعات و مسائل پر تحقیق کی ہے اور قرآن و سنت کی روشنی میں اعتدال کی راہ اپناتے ہوئے اُمت مسلمہ کو عمل کی راہ دکھائی ہے۔ اس کتاب میں سنت کو بنیاد بناکر تعلیم کی اہمیت کو اُجاگر کیا گیا ہے۔ جناب ارشاد الرحمن نے اصل کتاب الرسول والعلم کا بامحاورہ اور سلیس و رواں اُردو ترجمہ کیا ہے۔

مصنف نے ایک وسیع موضوع کو پانچ ابواب میں سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ ابتدا میں علم کی فضیلت اور اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے اُمت مسلمہ کی اصل کمزوری کی نشان دہی کی گئی ہے۔  تحقیق کا شعبہ پوری اُمت مسلمہ میں زوال کا شکار ہے اور تحقیق خواہ دینی مسائل میں ہو یا دنیاوی علوم و فنون کے بارے میں، علم کی نقل تو ہو رہی ہے لیکن تحقیق و تجربے سے گریز اُمت مسلمہ کا وتیرہ ٹھیرا ہے۔ اس موضوع پر بحث کرتے ہوئے تحقیق کو جِلا بخشنے، مشاہدہ و تجربے کے ذریعے نتائج اخذ کر کے علم میں اضافے کی جانب سنت رسولؐ سے بڑے مضبوط دلائل فراہم کیے گئے ہیں۔ علم کی اخلاقیات اور حصولِ علم کے آداب اور تعلیم کی اقدار و مبادیات جیسے موضوعات پر گراں قدر مواد جمع کیاگیا ہے۔ اُمت مسلمہ کی پستی کا سبب علم و تحقیق سے دُوری ہے۔ ایک طرف کم شرح خواندگی، معیاری تعلیمی اداروں کی کمی، تحقیق کی کمیابی اور علمی وسائل کا فقدان ہے تو دوسری طرف اُمت مسلمہ کے حکمرانوں کے علم دشمن رویے ہیں۔

کتاب کے مطالعے سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مصنف اکیسویں صدی کے علوم اور مسائل سے بخوبی واقف ہیں اور آج کے انسان کو قرآن وسنت کی روشنی میں مخاطب کرتے ہیں۔ ڈاکٹر یوسف قرضاوی کی یہ کتاب تعلیم کے موضوع پر ایک جامع دستاویز ہے اور اساتذہ، خطبا، علما اور تحقیق کے طلبہ کی ضرورت ہے۔ (معراج الھدٰی صدیقی)


مشرق تاباں، ڈاکٹر معین الدین عقیل۔ ناشر: پورب اکادمی، اسلام آباد۔ فون: ۵۸۱۹۴۱۰-۰۵۱ صفحات: ۱۶۸۔ قیمت: ۱۹۵ روپے۔

ڈاکٹر معین الدین عقیل اُردو دنیا کی معروف شخصیت ہیں اور ادبی تحقیق کے شعبے میں   ایک ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ کئی برس تک اٹلی اور جاپان کی جامعات میں اُردو زبان و ادب کی تدریس کرتے رہے۔ کراچی یونی ورسٹی سے بطور صدرشعبہ اُردو سے سبک دوشی کے بعد ان دنوں  بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد میں، کلیہ علومِ عمرانی کے ڈین اور پروفیسر شعبۂ اُردو کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔

جاپان میں سات سالہ قیام کے دوران میں انھوں نے تصنیف و تحقیق کا سلسلہ برابر جاری رکھا، اور وقتاً فوقتاً ہفت روزہ تکبیر، کراچی میں علمی اور ادبی کالم بھی لکھتے رہے۔ زیرنظر مجموعے میں جاپان سے متعلق ثقافتی اور علمی و ادبی موضوعات پر لکھے گئے کالموں کو جمع کیا گیا ہے۔ (جاپانی سیاست و معاشرت سے متعلق مصنف کے کالم بعدازاں کسی اور مجموعے میں شامل ہوں گے)۔

اس کتاب میں شامل ۱۷ مضامین ادب، تاریخ، تعلیم، خطاطی اور علومِ اسلامیہ کے مختلف اور متنوع پہلوئوں کا احاطہ کرتے ہیں۔ بیش تر مضمون قلم برداشتہ لکھے ہوئے معلوم ہوتے ہیں مگر ان میں بھی مصنف کا تحقیقی ذہن اور علمی رویّہ واضح طور پر نظر آتا ہے۔ کچھ مضامین جاپان کی نمایاں شخصیات پر ہیں، مثلاً پروفیسر سوزوکی تاکیشی جو اُردو کے ایک بڑے خدمت گزار تھے، جدید جاپانی ادب کے ایک رجحان ساز شاعرہاگی وارسکوتارویا، جاپانی خطاط کوٹتشی ہوندا اور سرراس مسعود وغیرہ۔ سر راس مسعود کے سفرجاپان، اسی طرح اُردو کا اوّلین سفرنامۂ جاپان اور سورج کو ذرا دیکھ جیسی کتابوں، پھر جاپان میں اُردو زبان، لسانیات، غالب اور اقبال کے تراجم جیسی تصنیفی کاوشوں کا ذکر ہے۔ جاپان میں اسلام اور دنیاے اسلام کے بارے میں مصنف کے بقول تحقیقی اور علمی کام جو اتفاقِ باہمی اور مشترکہ منصوبہ بندی کے ساتھ انجام دیے جا رہے ہیں اس کی نظیر اسلامی دنیا میں بھی کہیں نظر نہیں آتی (ص ۱۵)۔ ایک مضمون میں یہ بتایا گیا ہے کہ پاکستان اور جنوبی ایشیا پر نہ صرف مضامین اور کتابوں کی شکل میں بلکہ جامعاتی تحقیق کے حوالے سے بھی قابلِ رشک کام ہو رہے ہیں۔ دو مضامین میں چین کے فرضی سفرناموں کا ذکر ہے۔ ایک مضمون میں معروف سیاح ابن بطوطہ کے سفرچین کے بارے میں بھی شبہہ ظاہر کیاگیا ہے۔

مجموعی طور پر یہ مضامین اپنے موضوعاتی تنوع اور اندازِ بیان کی وجہ سے نہایت دل چسپ اور معلومات افزا ہیں۔ ہرسطح کے اساتذہ، صحافی اور میڈیا سے وابستہ خواتین و حضرات اگر اس کتاب کا مطالعہ کریں گے تو انھیں احساس ہوگا کہ وقت ضائع نہیں ہوا۔(ر- ہ )


ڈاکٹر عبدالقدیرخان کا مقدمہ، نصرت مرزا۔ ناشر: رابطہ پبلی کیشنز، ۷۱۰-سیونتھ فلور،    یونی شاپنگ سنٹر، صدر کراچی۔ فون: ۳۵۲۱۲۷۳۱۔۰۲۱ صفحات: ۴۳۱۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔

نصرت مرزا پاکستان کے ان نام وَر صاحب ِعلم و صاحب ِ درد کالم نگاروں میں شامل ہیں جو خونِ جگر میں انگلیاں ڈبو کر علمی، دینی اور تہذیبی مسائل کے بارے میں قوم کو شعور دیتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا مقدمہ، دردِ دل کے ساتھ لکھے جانے والے مضامین کی کتابی صورت ہے۔ پاکستان کو عالمِ اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت بنانے میں کلیدی کردار ادا کرنے والے شخص کے ساتھ اغیار ہی نہیں، اپنوں نے بھی محسن کشی کا ثبوت دیا ہے۔

کتاب سات حصوں پر مشتمل ہے۔ مقدمے میں ڈاکٹر قدیرخان اور دیگر ایٹمی سائنس دانوں پر الزامات کا تجزیہ ہے۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی معلومات اور اس کے خلاف ہونے والے پروپیگنڈے کا مناسب جواب دیا گیا ہے۔ وہ وثائق و خطوط بھی شامل کیے گئے ہیں جو پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی ابتدائی کہانی سناتے ہیں۔

کتاب کا مطالعہ جذبۂ حب الوطنی اور دینی تعلق کو توانا کرتا ہے۔ چُست محاوروں کے استعمال اور برموقع اشعار نے کتاب میں دل چسپی کے عنصر میں اضافہ کر دیا ہے۔ یہ کتاب   تاریک دور کے روشن کرداروں کی تاریخ میں گراں قدر اضافہ ثابت ہوگی۔ (م- ص)


ساحرہ کے افسانے، مرتبہ: سعیدہ احسن۔ ناشر: ادارہ بتول، ۱۴-ایف، سید پلازہ، ۳۰-فیروز پور روڈ، لاہور۔ فون: ۳۷۵۸۵۴۴۹-۰۴۲۔ صفحات: ۴۴۰۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔

۳۹ افسانوں کا یہ مجموعہ اُن ’قلم کاروں کے نام‘ کیا گیا ہے ’جنھوں نے حُرمت ِ قلم کا پاس رکھا‘۔ سعیدہ احسن کے یہ افسانے آج سے تقریباً نصف صدی پیش تر ہفت روزہ قندیل میں ’ساحرہ‘ کے قلمی نام سے چھپتے رہے کیوں کہ اس زمانے میں (بعض گھرانوں کی روایات کے مطابق) کسی خاتون کا اپنے اصل نام سے افسانے لکھنا معیوب تصور کیا جاتا تھا۔

سعیدہ احسن کے افسانوں کا بنیادی موضوع ’عورت‘ ہے چنانچہ ان افسانوں میں عورت کی زندگی کے مختلف روپ ملتے ہیں۔ یہ کہانیاں صنفِ نازک کے احساسات و جذبات اور ناسمجھی اور  کم عمری کی وجہ سے جذباتیت کی رو میں بہہ کر کیے گئے فیصلوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ سب کہانیاں معاشرے میں جابجا بکھری نظر آتی ہیں۔ افسانہ نگار نے بہن بھائی کی محبت، میاں بیوی اور ساس بہو کے رشتوں کی نزاکتوں، بھابی، نند، دیورانی، جٹھانی، ملازم اور مالک، اولاد، ہمسایے اور سہیلیوں کے حوالے سے معاشرے کی رنگا رنگ تصویریں پیش کی ہیں۔ سعیدہ احسن نے ان رشتوں اور تعلقات کی اُونچ نیچ کو فن کی چھلنی سے گزار کر الفاظ کا روپ دیا ہے۔ وہ زندگی کے    تلخ حقائق کا گہرا ادراک رکھتی ہیں۔ اگر کوئی افسانہ نویس سرما کی نیم خنک دوپہر سے سورج کی جھلملاتی کرنیں لے لے اور اس کے ساتھ وہ قوسِ قزح کے رنگ بھی جمع کرلے، اور پھر دونوں کو اپنی تحریر میں جذب کرکے رات کی تاریکیوں سے اُجالے کی اُمید دلا دے تو اصلاح کی طرف جانے کا راستہ واضح اور روشن نظر آنے لگتا ہے۔

۱۹۵۰ء سے ۱۹۶۰ء تک کے عرصے میں لکھے گئے ان افسانوں میں قیامِ پاکستان کے بعد ٹوٹتی ہوئی اقدار اور مادہ پرستی پر مبنی معاشرے کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ پرانی اقدار پر ضرب پڑ رہی تھی اور نئی اقدار اپنا راستہ بنا رہی تھیں مگر ابھی اس کے فاسد اثرات پوری طرح ظاہر نہ ہوئے تھے۔ سعیدہ احسن جو اُس وقت نوعمر تھیں، انھوں نے ان مضمرات کو محسوس کیا، ان کے کچھ جملے ان کی گہری سوچ کی عکاسی کرتے ہیں: ’’جان دے کر بھی وہ اپنی کانفرنس کا کفارہ ادا نہ کرسکی تھی‘‘(ص ۷۶)۔ ’’بھڑوں کے ڈنک سے ہونے والی سوجن تو آہستہ آہستہ کم ہونے لگی مگر کسی کی زہریلی زبان کے ڈنک نے اُس کی روح تک کو اس طرح نیلا کر دیا تھا کہ پھر زیست نے آنکھیں کھول کر کسی کو نہ دیکھا‘‘(ص ۲۸۸)۔ ان جملوں کے اندر ایک گہرا پیغام چُھپا ہوا ہے۔

ساحرہ کے کچھ افسانے، زندگی کے روزمرہ مشاہدات پر مبنی ہیں۔ ان کا اسلوب بیانیہ اور سیدھا سادا ہے۔ بظاہر ایک معمولی بات کو جو بظاہر توجہ طلب نہ ہو، اس طرح بناکر پیش کرنا کہ وہ زندگی کی سنگین حقیقت معلوم ہو، لکھنے والے کے ذہنِ رسا کی علامت ہے۔ ساحرہ کی کہانیاں اس کی ذہانت کی عکاس ہیں۔ افسانوں کے وہ قارئین جو روایات و اقدار پر یقین رکھتے ہیں،ان افسانوں کو دل چسپ پائیں گے۔ یہ مجموعہ خواتین کے تعمیری ادب میں ایک عمدہ اضافہ ہے۔ (زبیدہ جبیں)


تعارف کتب

  • رحمت عالمؐ ، علامہ سید سلیمان ندویؒ۔ ناشر: دعوۃ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد۔ صفحات: ۱۶۲۔ قیمت: ۸۰ روپے۔ [علامہ سید سلیمان ندوی کا نام برعظیم کے دینی و علمی حلقوں میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ زیرنظر کتاب بنیادی طور پر کم پڑھے لکھے افراد اور عام نوجوانوں کے لیے آسان پیرایۂ بیان میں لکھی گئی ہے۔بقول مصنف: ’’اس (کتاب) میں عبادت کی سادگی، طرزِ ادا کی سہولت اور واقعات کے سلجھائو کا خاص خیال رکھا گیا ہے تاکہ چھوٹی عمر کے بچے اور معمولی سمجھ کے لوگ بھی اس سے فائدہ اُٹھا سکیں اور اسکولوں اور مدرسوں کے کورسوں میں رکھی جاسکے (ص ۹)۔بلاشبہہ کتاب اسکولوں کے نصاب میں شامل کیے جانے کے لائق ہے۔ بھارت کے صوبہ بہار میں اسلامی مکتبوں میں اسے بطور نصابی کتاب پڑھایا جارہا ہے۔ اس نوعیت کی کتابوں کی اشاعت دعوۃ اکیڈمی کی قابلِ تحسین خدمت ہے۔]
  • ہمارے نبیؐ ، سید احمد علی شاہ۔ ملنے کا پتا: ادار ہ مطبوعات طلبہ، ۱-اے ذیلدار پارک،اچھرہ، لاہور۔ فون: ۴۴۵۵۷۴۸-۰۳۲۲۔ صفحات:۸۰۔ قیمت: درج نہیں۔ [بچوں کے لیے مختصر، جامع اور آسان الفاظ میں سیرتِ رسولؐ کے ساتھ ساتھ مفید جغرافیائی و تاریخی معلومات کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ آخر میں ’سارا جہاں جن کی تعریف کرے‘ عنوان کے تحت مشاہیر عالم (مسلم و غیرمسلم) کے نذرانۂ عقیدت کا تذکرہ بھی ہے۔ ہر باب سے پہلے سوالات کی فہرست دی گئی ہے تاکہ لوازمہ پڑھنے سے پہلے بچوں کو اہداف(حاصلاتِ تعلّم) معلوم ہوسکیں۔ وضاحت کے لیے حسب ِ ضرورت نقشوں کا استعمال بھی کیا گیا ہے۔]
  • اُجالوں کا سفر، حکیم محمد منیر بیگ۔ ناشر: شافی پبلی کیشنز، لاہور۔ ملنے کا پتا: کتاب سراے، الحمدمارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۹۵۔ قیمت: درج نہیں۔ [زیرنظر کتاب مختصر مگر بامقصد تحریروں کا مجموعہ ہے جس میں فاضل مصنف نے زندگی بھر کے تجربات و مشاہدات کو قلم بند کرتے ہوئے زندگی کو بہتر انداز میں بسر کرنے کے گُر بتائے ہیں۔ بعض واقعات مصنف کے قیامِ جاپان کے ہیں۔ انھوں نے دل چسپ واقعات سے مثبت اور سبق آموز نتائج اخذ کیے ہیں۔ اندازِ بیان سادہ مگر دل چسپ اور دل کش ہے۔]

دین و سیاست کی تفریق

عین اس حالت میں کہ سیاست نے دین کو زندگی کے میدان سے دھکیل کے باہر نکال رکھا تھا، مغربی فلسفۂ سیاست اور مغربی امپیریلزم کا دَور ہمارے اُوپر مسلط ہوگیا۔ اس دَور نے ذہنی طور پر دین و سیاست کی علیحدگی کے تصور کی جڑیں بہت گہرائی تک اُتار دیں، اور داد دیجیے ساحرِ افرنگ کے کمالِ فن کی کہ اُس نے بے شمار مسلمان وکلا اپنے لغو نظریے کی تبلیغ کے لیے تیار کردکھائے۔ دوسری طرف اُس نے حکومت و سیاست کا کام چلانے کے لیے ذہین لوگوں کو چھانٹ چھانٹ کر ایسی تربیت دی کہ دین و سیاست کی وحدت کا تصور ان کے دل و دماغ میں کسی جانب سے نہ اُتر سکے، جیسے ٹیڑھے سوراخ میں کوئی سیدھی چیز داخل نہیں ہوسکتی۔

چنانچہ جس فضا میں آج ہم جی رہے ہیں___ اور کئی قرنوں سے جی رہے ہیں___  اس میں اگرچہ بعض بلندپایہ مفکرینِ اسلام کی کوششوں سے دین و سیاست کے ایک ہونے کے چرچے عام ہیں، لیکن اس کے باوجود موجودہ فضا اُس تصور کے پنپنے کے لیے حددرجہ ناسازگار ہے۔ یہ فضا ہمہ تن اُن آثار سے پٹی پڑی ہے جو ذہنوں کو خواہ مخواہ دین و سیاست کی تفریق کے تصور کی طرف دھکیلتے ہیں۔ ستم یہ کہ بڑے بڑے علماے دین اور سربراہ کارانِ سیاست عملاً اسی تصور کا شکار ہیں....

اس فضا میں جماعت اسلامی انبیا ؑکے مشن کی خادم بن کر اُٹھی ہے اور وہ دین و سیاست کو عملاً ایک کردینے کا ایک پروگرام اختیار کیے ہوئے ہے۔ وہ زندگی کے کسی شعبے میں بھی ادنیٰ سے ادنیٰ درجے میں مروّجہ ثنویت (dualism) کو گوارا کرنے پر تیار نہیں ہے، بلکہ یہ ثنویت جہاں کہیں جس شکل میں پائی جاتی ہے، جماعت اسلامی کی اُس سے جنگ ہے۔ (’اشارات‘، ادارہ ترجمان القرآن، جلد۳۳، عدد۶، جمادی الثانی ۱۳۶۹ھ، مئی ۱۹۵۰ئ، ص ۲۹۹-۳۰۳)