اسلامی چھاترو شبر کے تین کارکن شہید اور:’’ سیکڑوں کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ یہ گرفتاریاں ڈھاکہ، سلہٹ، چٹاگانگ، راج شاہی، پبنہ، تنگائل، برہمنا باڑیہ، چاندپور، رنگ پور وغیرہ سے عمل میں لائی گئیں‘‘ (دی ڈیلی اسٹار، ۱۳ فروری۲۰۱۰ئ)۔ فروری کا مہینہ بنگلہ دیش میں طالب علموں کی اسلامی تحریک اور جماعت اسلامی کے لیے ابتلاو آزمایش کا کڑا موسم لے کر آیا۔
اگرچہ گذشتہ ڈیڑھ برس کے دوران میں عوامی لیگ کا بنیادی ہدف بنگلہ دیش جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر ہی رہی ہے، لیکن یہ ساری یلغار منفی پروپیگنڈے، بیانات اور دھمکیوں تک محدود تھی۔ تاہم فروری ۲۰۱۰ء کے پہلے عشرے میں لیگی حکومت نے ان پر دائرۂ حیات کو تنگ کرنے کے لیے گوناگوں اقدامات شروع کیے۔ ان واقعات کے ذکر سے ذرا پیچھے نظر دوڑاتے ہیں تو یہ حقائق سامنے آتے ہیں۔
بھارت کا تھنک ٹینک سائوتھ ایشین اینلسز گروپ (SAAG) اپنی ۲۷ جون ۲۰۰۷ء کی تحقیقی رپورٹ نمبر۲۲۷۵ میں بھارت اور بنگلہ دیش کی حکومتوں کو ’خبردار‘ کرتا ہے: ’’بنگلہ دیش میں جمہوریت کے لیے خطرہ: اسلامی چھاترو شبرہے‘‘۔ بھارت کی سرزمین سے اس نوعیت کی پروپیگنڈا رپورٹ میں لکھا ہے: ’’۱۹۷۱ء میں جب بنگالی عوام نے پاکستان کے خلاف مسلح جدوجہد کے لیے ہتھیار اُٹھا لیے تھے، تو اسلامی چھاتروشبر کی پرانی تنظیم اسلامی چھاترو شنگھو (اسلامی جمعیت طلبہ) نے اس کی مزاحمت کی تھی… اسلامی چھاترو شبر فروری ۱۹۷۷ء کوڈھاکہ یونی ورسٹی کی جامع مسجد میں تشکیل دی گئی، اور اس نے ۱۹۸۲ء میں چٹاگانگ یونی ورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کا الیکشن جیت کر تعلیمی اداروں میں اسلامی فکر کی ترویج کا کام شروع کیا۔ آج وہ بنگلہ دیش میں جمہوریت اور سیکولرزم کے لیے خطرہ بن چکی ہے‘‘___ اس طرح بھارت کی طرف سے واضح ہدف دیا گیا کہ آیندہ کیا کرنا مطلوب ہے، یعنی شبر اور جماعت اسلامی کو نشانہ بنانا۔ یہ ہے وہ کھیل جوقدم بہ قدم آگے بڑھتا ہوا آج کے بنگلہ دیش کو ہمارے سامنے لاتا ہے۔ اس کے ساتھ ایک دوسرا منظر بھی دیکھیے۔ ۲۰۰۸ء سے بنگلہ دیش جماعت اسلامی اور چھاترو شبر مسلسل عوامی لیگ کے نہایت زہریلے بلکہ گالیوں اور بے ہودہ الزامات سے آلودہ پروپیگنڈے کی زد میں رہیں، کیونکہ وہ سال انتخابات کا سال تھا۔ اسی سال الیکشن کمیشن نے جماعت اسلامی سے مطالبہ کیا کہ وہ اسلامی نظام کے نفاذ سے متعلق اپنے دستور، منشور اور لائحہ عمل میں تبدیلی کرے۔ یہ نفسیاتی، ابلاغی اور اداراتی سطح پر عجیب نوعیت کا دبائو تھا، جس نے جماعت اور اس کی برادر تنظیمات کے لیے پریشانی پیدا کی۔
۱۹ جنوری ۲۰۱۰ء کو جماعت اسلامی کے امیر مطیع الرحمن نظامی نے ’بنگلہ دیش- بھارت مشترکہ اعلامیے‘ کو اہلِ بنگلہ دیش کی معاشی زندگی کے لیے بُری طرح نقصان دہ معاہدہ قرار دیا اور اعلان کیا کہ ’’جماعت اسلامی: بھارت-بنگلہ دیش معاہدے، آئین میں پانچویں ترمیم کی منسوخی اور مجوزہ تعلیمی پالیسی کے منفی پہلوئوں کے خلاف عوام میں بیداری پیداکرنے کی مہم چلائے گی‘‘(دی ڈیلی اسٹار، ۲۰ جنوری ۲۰۱۰ئ)۔ اس بیان کے صرف پانچ روز بعد، یعنی ۲۴ جنوری کو ’’بنگلہ دیش الیکشن کمیشن نے جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل کو خط لکھا کہ وہ جماعت اسلامی کا چارٹر تبدیل کریں، اپنے پروگرام میں سے اس نکتے کو حذف کریں کہ جماعت، بنگلہ دیش میں منظم جدوجہد کے ذریعے اسلامی نظام کا نفاذ چاہتی ہے۔ پھر جماعت اسلامی کے دستور کی ان بہت سی دفعات کو ختم کیا جائے جو اپنے وابستگان کو اسلامی نظام کے نفاذ کی راہیں دکھاتی ہیں، ایسا لائحہ عمل ریاستی دستور کے مزاج کے یک سر منافی ہے۔ اسی طرح جماعت اسلامی نے اپنے دستور میں اور تمام تنظیمی سطحوں پر قائم شدہ کمیٹیوں میں عورتوں کو ۳۳ فی صد نمایندگی دینے کا بھی اہتمام نہیں کیا ہے۔ پھر جماعت اسلامی نے غیرمسلموں کو پارٹی ممبرشپ دینے کے اعلان کے باوجود انھیں پارٹی پروگرام کا پابند بنایا ہے، اور وہ پروگرام اسلامی نظام کا نفاذ ہے، یہ بات ان غیرمسلموں سے امتیازی سلوک روا رکھنے کی دلیل ہے۔ ان تمام نکات کی روشنی میں اگر جماعت اسلامی نے اپنے معاملات کو دی گئی ہدایات کے مطابق درست نہ کیا توری پریزنٹیشن آف دی پیپلزآرڈر (RPO) کے تحت جماعت اسلامی کی موجودہ حیثیت تحلیل کر دی جائے گی‘‘ (ایضاً، ۲۵ جنوری ۲۰۱۰ئ)
ابھی الیکشن کمیشن کے اس نادر شاہی حکم کی صداے بازگشت ختم نہیں ہوئی تھی کہ آناً فاناً ۳فروری کو ڈھاکہ یونی ورسٹی میں ایم اے کے طالب علم اور اسلامی چھاترو شبر کے کارکن ابوبکر صدیق کو قتل کر دیا گیا۔ ۱۱فروری کو پولیس ہی کی موجودگی میں اسٹوڈنٹس لیگ کے غنڈا عناصر نے راج شاہی یونی ورسٹی میں اسلامی چھاترو شبر کے کارکن اور ایم اے فائنل کے طالب علم حفیظ الرحمن کو گردن میں گولی مار کر قتل کیا، اور دیر تک میت کو گھیرے رکھا مگر پولیس نے کوئی کارروائی نہ کی۔ ۱۲فروری کو چٹاگانگ یونی ورسٹی میں اسلامی چھاترو شبر کے کارکن محی الدین کو قتل کر دیا گیا، اور تادمِ تحریر تدفین کے لیے میت نہیں دی گئی۔ ساتھ ہی اسلامی چھاترو شبر کے کارکنوں کو چٹاگانگ میڈیکل کالج، چٹاگانگ یونی ورسٹی اور محسن کالج سے گرفتار کرنا شروع کیا ،اور پہلے ہی ہلے میں ۹۶کارکنوں کو جیل میں دھکیل دیا گیا۔ ۹فروری کو راج شاہی یونی ورسٹی میں چھاترولیگ کا حامی جاں بحق ہوا، اور اس واقعے کو بنیاد بناکر پورے ملک میں جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر کے کارکنوں کی اندھادھند گرفتاریوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ سرکاری ٹیلی ویژن، اخبارات، وزرا اور پولیس افسران کے بیانات نے فضا کو مزید دھواںدار بنا دیا۔ داخلہ امور کے وزیرمملکت شمس الحق ٹوکو نے کہا: ہم راج شاہی یونی ورسٹی اور راج شاہی شہر سے اسلامی چھاترو شبر اور جماعت اسلامی کو ختم کر کے دم لیں گے‘‘۔ اس کے پہلو بہ پہلو یہ خبر بڑے تسلسل کے ساتھ نشر کرنا شروع کی گئی: ’’امریکا، اسلامی چھاترو شبر کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کا فیصلہ کر رہا ہے‘‘۔
جماعت اسلامی کے امیرمطیع الرحمن نظامی اور جماعت کی مرکزی مجلس شوریٰ نے اپنے بیانات میں مطالبہ کیا کہ ’’راج شاہی یونی ورسٹی کے الم ناک واقعے کے ساتھ دیگر تعلیمی اداروں میں قتل و غارت گری کے تمام واقعات کی عدالتی تحقیقات کرائی جائیں تاکہ ذمہ داران کا تعین ہوسکے، اور اس منفی پروپیگنڈے سے پیدا شدہ فضا کو صاف اور حقائق کو منظرعام پر لایا جاسکے۔ جماعت اسلامی پُرامن، جمہوری، عوامی اور دعوتی پروگرام پر یقین رکھتی ہے، جس میں تشدد کا راستہ اپنانے کی کوئی گنجایش نہیں۔ (ایضاً، ۱۲فروری ۲۰۱۰ئ)
جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے امیر مطیع الرحمن نظامی نے اس کرب ناک صورت حال پر ۱۷فروری کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا: ’’جوں ہی مَیں نے ’بنگلہ دیش بھارت معاہدے‘ پر نقدو جرح کی تو بنگلہ دیش کی اسلامی قوتوں پر ظلم و تشدد کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ اسلامی چھاترو شبر کے کارکنوں کو قتل کیا گیا، جماعت اسلامی اور شبر کے کارکنوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے، کالجوں اور ہاسٹلوں سے پکڑ کر جیل خانوں میں پھینکا گیا ہے۔ حکمران عوامی لیگ نے اپنی پارٹی کے مسلح غنڈوں کو من مانی، پُرتشدد کارروائیاں کرنے کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے‘‘۔ اس مضمون میں بیان کردہ دیگر واقعات کا تذکرہ کرنے کے بعد جناب نظامی نے یہ بھی بتایا کہ: ’’۱۱فروری کو جہاں ایک طرف اسلامی چھاترو شبر کے کارکنوں کو مارا گیا، وہاں دوسری جانب راج شاہی میں جماعت اسلامی کے امیر اور اسکول ٹیچر عطاء الرحمن کو کمرۂ امتحان سے تشدد کرتے ہوئے گرفتار کیا، اور پانچ روزتک ٹارچر سیل میں رکھا گیا۔ ۱۲ فروری کو جماعت اسلامی چٹاگانگ کے امیر اور ممبر پارلیمنٹ شمس الاسلام کو پُرامن احتجاجی جلوس کی قیادت کرنے پر اس حالت میں گرفتار کیا کہ عوامی لیگ کے مسلح کارکنوں نے پولیس کی موجودگی میں جلوس پر دھاوا بول دیا اور ۱۰۰ سے زیادہ کارکنوں کو مارتے پیٹتے ہوئے جیل میں دھکیل دیا۔ ۱۲ فروری ہی کو جماعت اسلامی سلہٹ کے پُرامن اجلاس پر لاٹھی چارج کیا گیا اور عوامی لیگ کے مسلح افراد نے حملہ کرکے بیسیوں کارکنوں کو پکڑپکڑ کر پولیس کے حوالے کیا۔ مسلح غنڈوں نے جماعت اسلامی اور اسلامی شبر کے کارکنوں کے گھروں پر حملے کیے، دکانوں اور تعلیمی اداروں میں گھس کر کارکنوں کو سڑکوں پر لایا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس موقعے پر پولیس خاموشی سے تماشا دیکھتی رہی۔ یہ واقعات فسطائیت کی تصویر اور جمہوریت کی توہین اور انسانیت کی تذلیل ہیں، جنھیں کوئی باشعور فرد برداشت نہیں کرسکتا‘‘۔
۱- سیکولر قوتیں، موجودہ عالمی فضا سے فائدہ اُٹھا کر، دینی قوتوں کو میدان سے باہر نکالنے کے لیے ہرمنفی حربہ استعمال کریں گی۔
۲- اس شاطرانہ عمل کے لیے امریکا اور بھارت سے ہمدردی کا دم بھرتے ہوئے ، ان کی ڈپلومیٹک حیثیت سے فائدہ اٹھائیں گی۔
۳- مسلم دنیا میں چونکہ ایسی پٹھو حکومتوں کو امریکا، بھارت اور اسرائیل وغیرہ کی پشت پناہی حاصل ہے، اس لیے ان کے لیے فسطائی ہتھکنڈے استعمال کرنا سلامتی کونسل کی نظر میں جائز تصور ہوں گے۔
۴- اسلام اور اسلامی پروگرام کی اشاعت و ترویج کے جملہ اداروں کے خاتمے کے لیے مسلم قومی حکومتیں کسی بھی انتہا تک جاسکتی ہیں۔
۵- یہ حکومتیں، اسلامی پارٹیوں کے پروگرام کے چھوٹے سے چھوٹے جملوں تک کے خاتمے کی کوشش کریں گی۔ جہاں جہاں اسلامی تحریک، مقتدر قوتوں کے لیے سیاسی چیلنج بنیں گی، وہاں پر انھیں اسی نوعیت کے اقدامات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
۶- مسلم اُمہ میں اس صورت کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا گیا تو یہی ماڈل دیگر مسلم ممالک میں بھی روبۂ عمل آسکتا ہے۔
اندریں حالات بنگلہ دیش میں اسلامی تحریک کے مظلوم کارکنوں اور حامیوں سے یک جہتی کے ساتھ اس سوال پر غوروفکر کی ضرورت ہے کہ ایسے کسی خطرے کا مداوا کس طرح کیا جائے؟___ اس سوال کا جواب ایک ہی ہے: اور وہ یہ کہ: ’’ایمان اور کردار کی مضبوطی، تنظیم کی پختگی، دعوتِ دین کا شوق، علم و فضل میں گہرائی اور اپنے دائرے میں سمٹنے کے بجاے معاشرے کے اندر پھیل جانے کا جذبہ‘‘۔ اگر یہ چیزیں وافر مقدار میں موجود ہوں گی تو یقینا ایسی یلغار کو روکا بلکہ پسپا ہونے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔
یمن اور سعودی عرب کے درمیان سرحدی جھڑپ سے آغاز ہونے والی لڑائی اب جنگ کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ عراق اور افغانستان میں جاری امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کا اگلا ہدف یمن ہوگا۔ مسئلے میں شدت اس وقت پیدا ہوئی جب نائیجیریا کے ایک مسلمان نوجوان نے ہالینڈ کے شہر ایمسٹرڈیم سے امریکا جاتے ہوئے ایک جہاز کو فضا میں تباہ کرنے کی کوشش کی۔ کہا جاتا ہے کہ اس نوجوان کا تعلق القاعدہ سے ہے اور اس نے یمن میں تربیت حاصل کی تھی۔ امریکا نے یمن پر یہ الزام بھی لگایا کہ القاعدہ افغانستان سے پسپائی اختیار کرکے یمن کو اپنا مرکز بنارہی ہے اور یمن القاعدہ کی محفوظ جنت ہے۔ اس واقعے کے فوری ردعمل کے طور پر امریکا نے جہاں سکیورٹی اقدامات میں اضافے کے نام پر یمن، پاکستان، سعودی عرب اور ایران سمیت ۱۴ ممالک کے مسافروں کی اسکیننگ کا اعلان کیا، جو بے لباس کرنے اور انتہائی تذلیل کے مترادف ہے، وہاں یمن میں القاعدہ کے خاتمے کے لیے اپنی افواج بھیجنے کا اعلان بھی کیا۔ بعدازاں عوامی ردعمل اور دبائو کی بناپر اس موقف میں تبدیلی کے بعد فوج بھیجنے کے بجاے ’دہشت گردی‘ کے خاتمے کے لیے مالی امداد کا اعلان کیا۔
یمن دنیا کے قدیم ترین تہذیبی مراکز میں سے ایک ہے اور اس خطے کو تاریخی اہمیت حاصل ہے۔ محلِ وقوع کے اعتبار سے یمن مشرق وسطیٰ میں جزیرہ نماے عرب کے جنوب مغربی کونے میں واقع ہے۔ اس کے مشرق میں بحیرۂ عرب، شمال مشرق میں سلطنت عمان، شمال میں سعودی عرب، مغرب میں بحیرۂ احمر اور جنوب مغرب میں خلیج عدن واقع ہے۔ ملک کا سرکاری نام جمہوریہ یمن ہے اور کُل رقبہ ۵ لاکھ ۲۷ ہزار ۹ سو ۷۰ مربع کلومیٹر ہے، جب کہ دارالحکومت صنعا ہے۔ ملک میں معدنیات، گیس اور تیل کے وافر ذخائر پائے جاتے ہیں۔
بدقسمتی سے مسلم ممالک کے حکمرانوں کی طرح یمن کے حکمران صدر علی عبداللہ صالح کی آمرانہ حکومت کو امریکا کی بھرپور پشت پناہی حاصل ہے۔ علی عبداللہ صالح پچھلے ۳۱سال سے یمن پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ ۱۹۷۸ء سے ۱۹۹۰ء تک شمالی یمن کے سربراہ رہے اور ۱۹۹۰ء میں شمالی اور جنوبی یمن کے اتحاد کے بعد سے وہ یمن کے صدر ہیں۔ یہی وہ پہلے مسلمان سربراہ ہیں جنھوں نے نائن الیون کے سانحے کے بعد ’دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ‘ کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔
عملاً صورت حال یہ ہے کہ یمن اسامہ بن لادن کا مسکن رہا ہے اور آج بھی یمن کے غریب اور بے روزگار نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اسامہ بن لادن کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھتی ہے۔ موجودہ صدر اور حکومت کی کرپشن اور امریکا کی بے جا حمایت کی بناپر عوام میں نفرت کی لہر پائی جاتی ہے۔ ماضی میں امریکی سفارت خانے پر حملہ بھی ہوچکا ہے، جب کہ بدنامِ زمانہ جیل گوانتانامو میں ۹۰ سے زائد قیدیوں کا تعلق یمن سے ہے۔ جنوبی یمن میں سوشلسٹ عناصر کے اثرات گہرے ہیں اور شمالی یمن کے مقابلے میں احساسِ محرومی بھی پایا جاتا ہے۔ شمال میں زیدی شیعہ سعودی عرب کی سرحد کے قریب رہتے ہیں جہاں ایران کے اثرات زیادہ ہیں اور اسی علاقے میں سرحدی جھڑپیں بھی جاری ہیں۔ صدرصالح اگرچہ امریکا کی حمایت پر ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ جاری رکھے ہوئے ہیں، تاہم ملک کی اندرونی صورت حال کی بنا پر ان کے لیے امریکا کی حمایت میں کوئی بڑا قدم اٹھانا آسان نہیں۔ امریکا کو خود بھی بہت سے خدشات لاحق ہیں۔ خدشہ ہے کہ اس کے کسی بڑے اقدام کے نتیجے میں القاعدہ کے اثرات یمن سے افریقہ تک نہ پھیل جائیں۔ صومالیہ کے بارے میں امریکا کو تشویش ہے اور ۱۹۹۳ء میں جس ذلت کے ساتھ اس کو یہاں سے نکلنا پڑا تھا اس کا بھی اسے تلخ تجربہ ہے۔ امریکا کے خلاف ردعمل کے نتیجے میں یمن میں خانہ جنگی کا بھی خدشہ ہے جو صدرصالح کی حکومت کے لیے بھی خطرہ ثابت ہوسکتی ہے۔
دوسری طرف یمن جہاں علما کا اثرورسوخ ہے، ان کی طرف سے بھی بھرپور ردعمل سامنے آیا ہے۔ یمن کے دارالحکومت صنعاء میں یمن کی علما کونسل کا ایک اجلاس ہوا جس میں ۱۵۰علما نے شرکت کی۔ اجلاس کے بعد علما کونسل نے اعلان کیاہے کہ ملک میں القاعدہ کے خلاف آپریشن میں کسی غیرملکی فوج کے داخل ہونے کی صورت میں جہاد کریں گے۔ اسلامی احکامات کے مطابق کسی غیرملکی فوج کے ملک میں داخل ہونے کی صورت میں جہاد فرض ہوجاتا ہے۔ اس لیے کسی غیرملکی حملے کی صورت میں جہاد کا اعلان کیا جائے گا۔
ایران کے صدر محمود احمدی نژاد نے بھی امریکا پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ امریکا خطے میں اجارہ داری چاہتا ہے اور یمن کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کررہا ہے۔ وہ اپنے اسلحے کے زور پر اس خطے میں مسلمانوں کی خون ریزی میں اضافہ کرنا چاہتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایران سمیت خطے کے تمام ممالک امریکی عزائم کو خاک میں ملا دیں گے۔ صدر احمدی نژاد نے سعودی عرب پر بھی تنقید کی اور کہا کہ وہ خطے میں امریکی اجارہ داری کے خلاف اپنا کردار ادا کرے۔
یمن میں عوامی ردعمل کے پیش نظر یمنی وزیرخارجہ نے بی بی سی ٹیلی ویژن کو ایک انٹرویو میں اس بات کی وضاحت کی کہ یمن القاعدہ کی محفوظ جنت نہیں ہے اور یہاں امریکیوں کی آمد مسئلے کے حل کے بجاے نئے مسائل پیدا کرے گی۔ امریکا یمن کو ’دہشت گردی‘ سے نمٹنے کے لیے صرف امداد فراہم کرے۔ امریکا کے لیے بھی عراق اور افغانستان کی جنگوں میں ۳ئ۱ ٹرلین ڈالر کے اخراجات اُٹھانے اور بڑی تعداد میں فوجیوں کی ہلاکت کے بعد، جب کہ اس کی معیشت بھی زبوں حالی کا شکار ہے، یمن میں فوج بھیج کر ایک نیا محاذ کھولنا بظاہر آسان نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا نے یمن میں فوج بھیجنے کے موقف پر نظرثانی کرتے ہوئے مسلم عسکریت پسندوں کے خلاف یمن کو دفاعی امداد دینے کا اعلان کیا ہے جس میں ماہرین کا تعاون، اسلحے اور دیگر جنگی سازوسامان کی فراہمی شامل ہے۔ اس ضمن میں امریکا کے چیف آف سنٹرل کمانڈ ملٹری فورسز جنرل ڈیوڈ پیٹرس نے صدر صالح سے ملاقات کے بعد امریکی امداد کو فوری طور پر دگنا، یعنی ۶۷ملین ڈالر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ غالباً امریکا کے پیش نظر سردست براہِ راست فوجی مداخلت کرنے کے بجاے امریکی امداد اور ڈرون حملوں کے ذریعے ’دہشت گردی‘ کے خاتمے کی حکمت عملی ہے۔
امریکا اور برطانیہ یمن میں فوجی کارروائی کو فی الحال مسترد کررہے ہیں لیکن مستقبل میں ان سے کسی مہم جوئی کے امکانات کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ عالمی سطح پر استعماری طاقتوں کی کوشش ہے کہ عالمِ اسلام میں فساد پھیلاکر اسلامی ممالک میں برسرِاقتدار طبقے کو ان اسلام پسند قوتوں سے ٹکرا دیں جو ان کے مذموم مقاصد کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ اُمت مسلمہ کے لیے بھی چیلنج ہے کہ وہ باہمی اتحاد اور یک جہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان سامراجی عزائم کو ناکام بنا دے۔ خاص طور پر یمن کی اسلام پسند قوتوں کو ان حالات میں بہت سوچ سمجھ کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ عالمِ عرب میں سعودی عرب کو نمایاں مقام حاصل ہے، لہٰذا اسے بھی آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ تاہم، یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر امریکا یمن میں نیا محاذ کھولتا ہے اور افغانستان میں جس طرح اسے پسپائی کا سامنا ہے، ’دہشت گردی‘ کے خلاف جاری اس نام نہاد جنگ کی دلدل میں وہ مزید دھنستا چلا جائے گا۔
بنگلہ دیش: اسلامی پارٹیوں کے نام پر پابندی؟
سلیم منصور خالد
مسلم دنیا کی سیکولر قوتوں کا عجب معاملہ ہے۔ دنیا بھر کے وسائل، بڑی طاقتوں کی سرپرستی اور ذرائع ابلاغ کی معاونت کے باوجود، میدان میں کھلے اور پُرامن مقابلے سے جی چرانا ان قوتوں کا کلچر ہے۔ ریاستی مشینری پر قبضہ جماکر مدمقابل قوتوں کو باندھ کر اُکھاڑے میں اُترنا،ان سورمائوں کا طرزِ حکمرانی ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کا ہے۔
وہ عوامی لیگ جو پاکستان توڑنے کے لیے بھارت کی فوجی امداد کے ساتھ میدان میں اُتری، اب اسی عوامی لیگ نے مقامی ہندو آبادی کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے ایک اور اوچھا ہتھکنڈا استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر ایک جانب مغربی ملک سویزرلینڈ میں اینٹوں سے بنے چند فٹ بلند میناروں سے یورپی سیکولرزم لرزہ براندام ہے تو دوسری جانب بنگلہ دیش جیسے مشرقی اور مسلم اکثریتی ملک میں لفظ اسلام کی پہچان سے کام کرنے والی سیاسی یا دینی پارٹیوں کا وجود ناقابلِ قبول ہے۔ کیا یہ اتفاقِ زمانہ ہے یا شرارِ بولہبی کی نفرت بھری آگ؟
عوامی لیگ نے اگرچہ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کے لیے ہندوئوں، کمیونسٹوں اور بھارت کی مدد لی تھی، مگر اس پارٹی کے دل میں یہ خوف گہری جڑیں پیوست کرچکا ہے کہ اس نے اسلامیانِ بنگال سے بے وفائی کرکے اسے بھارت کا طفیلی ملک بنایا ہے، سو اس کے خلاف ردعمل بہرحال اسلامی قوتوں ہی کی جانب سے اُٹھے گا۔ اس لیے ان کے خلاف مسلسل پروپیگنڈا کرنے کے بعد اگست ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں یہ نعرہ بلند کیا گیا کہ وہ بنگلہ دیش کی منظم ترین اسلامی پارٹی: جماعت اسلامی کے کارکنوں پر ۳۷ سال پہلے سقوطِ مشرقی پاکستان کے دنوں میں پاکستان کا ساتھ دینے کے اقدام کے خلاف مقدمے چلائے گی۔
انتخابات میں کامیابی کے بعد بدترین انتظامی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے والی عوامی لیگ سے کچھ اور بن نہ پایا تو اس نے اعلان کر دیا: بنگلہ دیش میں کوئی پارٹی، مذہبی پہچان کا نام نہیں رکھ سکے گی۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ ۴؍جنوری ۲۰۱۰ء کو عوامی لیگ حکومت کے وزیرقانون شفیق احمد نے کہا: ’’سپریم کورٹ نے ۵ویں ترمیم کو غیر قانونی قرار دینے کے ہائی کورٹ کے فیصلے کو قانون سے ماورا قرار دیا ہے، جس کے نتیجے میں جو پارٹی بھی مذہبی پہچان کا نام رکھے گی، اس پر پابندی عائد کردی جائے گی‘‘۔ اس اعلان پر بنگلہ دیش کے عام شہری ششدر رہ گئے۔
وہ جانتے ہیں کہ بنگلہ دیش کی بنیاد دوقومی نظریے پر وجود پانے والی تقسیم بنگال کے فیصلے پر رکھی گئی ہے۔ دو قومی نظریے کا مرکزی نکتہ ہی یہ ہے کہ مسلم اور ہندو دو الگ قومیں ہیں، اور اسی مقصد کے حصول کے لیے ۱۹۰۶ء میں خود ڈھاکہ میں آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا تھا۔ گویا کہ اس آزادی کو وجود بخشنے والی پارٹی کا نام ہی مذہبی پہچان، یعنی ’مسلم‘ کے لفظ سے موسوم ہے۔ پہلے پہل، یعنی قیامِ پاکستان کے بعد انھی بنگالی قوم پرستوں کا ایک دھڑا جب مسلم لیگ سے الگ ہوا تو اس نے اپنا نام ’عوامی مسلم لیگ‘ رکھا اور کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ہندوئوں کے زیراثر لفظ ’مسلم‘ کو اُڑا کر اسے عوامی لیگ بنا دیا۔
خود عوامی لیگ بھی یہ جانتی ہے کہ ۹۱ فی صد مسلم آبادی کے اس ملک میں مسلمانوں کے علاوہ دوسرے کسی مذہب کے حوالے سے کوئی سیاسی پارٹی موجود نہیں ہے، اور بجاطور پر مسلمان وطن عزیز کی بنیاد اور پہچان کی مناسبت سے اپنی پارٹیوں کے ناموں میں ’اسلام‘، ’مسلم‘، ’اسلامی‘ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں، جو ان کا آئینی اور دنیابھر میں مانا ہوا مسلّمہ حق ہے۔ اس خانہ زاد فیصلے کی روشنی میں، جو بہرحال سیاسی دبائو میں کیا گیا ہے، عوامی لیگ چاہتی ہے کہ دنیا میں آبادی کے لحاظ سے تیسرے سب سے بڑے مسلم ملک میں مذکورہ پارٹیوں پر پابندی عائد کرے۔
’اسلام‘ نہ عوامی لیگ کا وضع کردہ ہے اور نہ لفظ ’مسلمان‘عوامی لیگ کی ٹکسال میں گھڑا گیا ہے۔ یہ لفظ اللہ، اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن عظیم نے عطا کیا ہے اور انھی کے احکام کی اِتباع میں دنیا کے گوشے گوشے میں لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ اسلام اپنا ایک مکمل نظامِ عبادات، بھرپور نظامِ فکر، قابلِ عمل نظام زندگی رکھتا ہے۔ جس کے نفاذ کی کوشش کرنے اور ان کی تنظیم و رہنمائی کے لیے اجتماعی کوششوں کی پہچان بہرحال اسلام،اسلامی اور مسلم وغیرہ الفاظ ہی سے متعین ہوگی۔ اس لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ چند سیاسی طالع آزما اپنے دل کے چور کی تسکین کے لیے اسلامیانِ عالم اور اسلامیانِ بنگلہ دیش اپنے حقِ شناخت سے دست بردار ہوجائیں؟
دوسری جانب بنگلہ دیشی وزیرقانون کے اسی بیان میں یہ حصہ متضاد حوالہ رکھتا ہے کہ: ’’دستور کے آغاز میں ’بسم اللہ‘ اور ریاست کے مذہب کا ’اسلام‘ ہونا برقرار رکھا جائے گا‘‘۔ ایک جانب اسلامی پہچان کے ناموں سے پارٹیوں پر پابندی اور دوسری جانب ان دو چیزوں کو برقرار رکھنے کی بات، اسلامیانِ بنگلہ دیش کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ دراصل وزیرموصوف کے اعلان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عوامی لیگ، اسلامی افکار و اقدار کی علَم بردار جماعتوں کو قومی زندگی اور سیاست سے باہر نکال دینے کے شیطانی منصوبے پر عمل کرنا چاہتی ہے۔
جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے اس اعلان کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے: ’’اگر بہت سے نظریات پر مشتمل سیاسی پارٹیاں کام کرسکتی ہیں تو صرف اسلام کے مقاصد حیات اور طرزِ زندگی کو پیش کرنے والی پارٹیوں پر کیوں پابندی لگائی جائے گی؟ خود بنگلہ دیش کے ہمسایے میں بھارت اور یورپ کے کتنے ممالک میں، برطانیہ و جرمنی میں مذہب کی شناخت سے پارٹیاں برسرِکار ہیں۔ اس لیے ایسی کوئی بھی حکومت، جو جمہوریت اور جمہوری عمل پر یقین رکھتی ہو، بنگلہ دیش میں اسلامی پارٹیوں پر پابندی عائد نہیں کرسکتی، جہاں متعدد پارٹیاں سیاسی میدان میں موجود ہیں۔ یہ ایسا ملک ہے جس کے شہریوں نے جمہوریت کے پودے کو سینچنے اور جمہوری حقوق کے تحفظ کے لیے اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ اس لیے یہاں کے شہری ایسے کسی غیرجمہوری فیصلے کو ہرگز قبول نہیں کریں گے‘‘۔
_______________
مسلم دنیا کی سیکولر قوتوں کا عجب معاملہ ہے۔ دنیا بھر کے وسائل، بڑی طاقتوں کی سرپرستی اور ذرائع ابلاغ کی معاونت کے باوجود، میدان میں کھلے اور پُرامن مقابلے سے جی چرانا ان قوتوں کا کلچر ہے۔ ریاستی مشینری پر قبضہ جماکر مدمقابل قوتوں کو باندھ کر اُکھاڑے میں اُترنا،ان سورمائوں کا طرزِ حکمرانی ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کا ہے۔
وہ عوامی لیگ جو پاکستان توڑنے کے لیے بھارت کی فوجی امداد کے ساتھ میدان میں اُتری، اب اسی عوامی لیگ نے مقامی ہندو آبادی کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے ایک اور اوچھا ہتھکنڈا استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر ایک جانب مغربی ملک سویزرلینڈ میں اینٹوں سے بنے چند فٹ بلند میناروں سے یورپی سیکولرزم لرزہ براندام ہے تو دوسری جانب بنگلہ دیش جیسے مشرقی اور مسلم اکثریتی ملک میں لفظ اسلام کی پہچان سے کام کرنے والی سیاسی یا دینی پارٹیوں کا وجود ناقابلِ قبول ہے۔ کیا یہ اتفاقِ زمانہ ہے یا شرارِ بولہبی کی نفرت بھری آگ؟
عوامی لیگ نے اگرچہ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کے لیے ہندوئوں، کمیونسٹوں اور بھارت کی مدد لی تھی، مگر اس پارٹی کے دل میں یہ خوف گہری جڑیں پیوست کرچکا ہے کہ اس نے اسلامیانِ بنگال سے بے وفائی کرکے اسے بھارت کا طفیلی ملک بنایا ہے، سو اس کے خلاف ردعمل بہرحال اسلامی قوتوں ہی کی جانب سے اُٹھے گا۔ اس لیے ان کے خلاف مسلسل پروپیگنڈا کرنے کے بعد اگست ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں یہ نعرہ بلند کیا گیا کہ وہ بنگلہ دیش کی منظم ترین اسلامی پارٹی: جماعت اسلامی کے کارکنوں پر ۳۷ سال پہلے سقوطِ مشرقی پاکستان کے دنوں میں پاکستان کا ساتھ دینے کے اقدام کے خلاف مقدمے چلائے گی۔
انتخابات میں کامیابی کے بعد بدترین انتظامی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے والی عوامی لیگ سے کچھ اور بن نہ پایا تو اس نے اعلان کر دیا: بنگلہ دیش میں کوئی پارٹی، مذہبی پہچان کا نام نہیں رکھ سکے گی۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ ۴؍جنوری ۲۰۱۰ء کو عوامی لیگ حکومت کے وزیرقانون شفیق احمد نے کہا: ’’سپریم کورٹ نے ۵ویں ترمیم کو غیر قانونی قرار دینے کے ہائی کورٹ کے فیصلے کو قانون سے ماورا قرار دیا ہے، جس کے نتیجے میں جو پارٹی بھی مذہبی پہچان کا نام رکھے گی، اس پر پابندی عائد کردی جائے گی‘‘۔ اس اعلان پر بنگلہ دیش کے عام شہری ششدر رہ گئے۔
وہ جانتے ہیں کہ بنگلہ دیش کی بنیاد دوقومی نظریے پر وجود پانے والی تقسیم بنگال کے فیصلے پر رکھی گئی ہے۔ دو قومی نظریے کا مرکزی نکتہ ہی یہ ہے کہ مسلم اور ہندو دو الگ قومیں ہیں، اور اسی مقصد کے حصول کے لیے ۱۹۰۶ء میں خود ڈھاکہ میں آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا تھا۔ گویا کہ اس آزادی کو وجود بخشنے والی پارٹی کا نام ہی مذہبی پہچان، یعنی ’مسلم‘ کے لفظ سے موسوم ہے۔ پہلے پہل، یعنی قیامِ پاکستان کے بعد انھی بنگالی قوم پرستوں کا ایک دھڑا جب مسلم لیگ سے الگ ہوا تو اس نے اپنا نام ’عوامی مسلم لیگ‘ رکھا اور کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ہندوئوں کے زیراثر لفظ ’مسلم‘ کو اُڑا کر اسے عوامی لیگ بنا دیا۔
خود عوامی لیگ بھی یہ جانتی ہے کہ ۹۱ فی صد مسلم آبادی کے اس ملک میں مسلمانوں کے علاوہ دوسرے کسی مذہب کے حوالے سے کوئی سیاسی پارٹی موجود نہیں ہے، اور بجاطور پر مسلمان وطن عزیز کی بنیاد اور پہچان کی مناسبت سے اپنی پارٹیوں کے ناموں میں ’اسلام‘، ’مسلم‘، ’اسلامی‘ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں، جو ان کا آئینی اور دنیابھر میں مانا ہوا مسلّمہ حق ہے۔ اس خانہ زاد فیصلے کی روشنی میں، جو بہرحال سیاسی دبائو میں کیا گیا ہے، عوامی لیگ چاہتی ہے کہ دنیا میں آبادی کے لحاظ سے تیسرے سب سے بڑے مسلم ملک میں مذکورہ پارٹیوں پر پابندی عائد کرے۔
’اسلام‘ نہ عوامی لیگ کا وضع کردہ ہے اور نہ لفظ ’مسلمان‘عوامی لیگ کی ٹکسال میں گھڑا گیا ہے۔ یہ لفظ اللہ، اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن عظیم نے عطا کیا ہے اور انھی کے احکام کی اِتباع میں دنیا کے گوشے گوشے میں لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ اسلام اپنا ایک مکمل نظامِ عبادات، بھرپور نظامِ فکر، قابلِ عمل نظام زندگی رکھتا ہے۔ جس کے نفاذ کی کوشش کرنے اور ان کی تنظیم و رہنمائی کے لیے اجتماعی کوششوں کی پہچان بہرحال اسلام،اسلامی اور مسلم وغیرہ الفاظ ہی سے متعین ہوگی۔ اس لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ چند سیاسی طالع آزما اپنے دل کے چور کی تسکین کے لیے اسلامیانِ عالم اور اسلامیانِ بنگلہ دیش اپنے حقِ شناخت سے دست بردار ہوجائیں؟
دوسری جانب بنگلہ دیشی وزیرقانون کے اسی بیان میں یہ حصہ متضاد حوالہ رکھتا ہے کہ: ’’دستور کے آغاز میں ’بسم اللہ‘ اور ریاست کے مذہب کا ’اسلام‘ ہونا برقرار رکھا جائے گا‘‘۔ ایک جانب اسلامی پہچان کے ناموں سے پارٹیوں پر پابندی اور دوسری جانب ان دو چیزوں کو برقرار رکھنے کی بات، اسلامیانِ بنگلہ دیش کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ دراصل وزیرموصوف کے اعلان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عوامی لیگ، اسلامی افکار و اقدار کی علَم بردار جماعتوں کو قومی زندگی اور سیاست سے باہر نکال دینے کے شیطانی منصوبے پر عمل کرنا چاہتی ہے۔
جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے اس اعلان کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے: ’’اگر بہت سے نظریات پر مشتمل سیاسی پارٹیاں کام کرسکتی ہیں تو صرف اسلام کے مقاصد حیات اور طرزِ زندگی کو پیش کرنے والی پارٹیوں پر کیوں پابندی لگائی جائے گی؟ خود بنگلہ دیش کے ہمسایے میں بھارت اور یورپ کے کتنے ممالک میں، برطانیہ و جرمنی میں مذہب کی شناخت سے پارٹیاں برسرِکار ہیں۔ اس لیے ایسی کوئی بھی حکومت، جو جمہوریت اور جمہوری عمل پر یقین رکھتی ہو، بنگلہ دیش میں اسلامی پارٹیوں پر پابندی عائد نہیں کرسکتی، جہاں متعدد پارٹیاں سیاسی میدان میں موجود ہیں۔ یہ ایسا ملک ہے جس کے شہریوں نے جمہوریت کے پودے کو سینچنے اور جمہوری حقوق کے تحفظ کے لیے اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ اس لیے یہاں کے شہری ایسے کسی غیرجمہوری فیصلے کو ہرگز قبول نہیں کریں گے‘‘۔
ناشپاتی شکل کا جزیرہ سری لنکا، بھارت کے جنوب مشرقی ساحل سے ۳۱ کلومیٹر دُور واقع ہے۔ رقبہ ۶۵ ہزار ایک سو ۶۰ مربع کلومیٹر، جب کہ آبادی ۲ کروڑ سے زائد ہے۔ ۴۵ فی صد رقبہ جنگلات پر مشتمل ہے۔ ملک میں شرح خواندگی ۹۱ فی صد سے زیادہ ہے۔ کولمبو دارالحکومت ہے۔ ملک میں ۶۵ فی صد بدھ، ۱۵ فی صد ہندو، ۹ فی صد مسلمان اور ۸ فی صد عیسائی ہیں۔ نسلی اعتبار سے سنہالی ۷۴ فی صد، تامل ۱۷ فی صد اور عربی النسل مسلمان ۷ فی صد ہیں۔
سری لنکا کے مسلمانوں کے بارے میں مسلم دنیا کا عام طور پر یہ تاثر ہے کہ وہ وہاں امن و سکون سے زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کو چین، برما، بھارت، تھائی لینڈ جیسے مسائل کا سامنا نہیں ہے۔ بلاشبہہ حکومتی پالیسی میں مذہباً اور نسلاً کوئی تعصب نہیں پایا جاتا مگر سنہالی بدھ اور ہندوئوں نے عملاً مسلمانوں کا جینا حرام کیا ہوا ہے۔ ایک لاکھ سے زائد مسلمان گھروں سے بے گھر ہوکر گذشتہ کئی برس سے خانہ بدوشوں کی سی زندگی گزار رہے ہیں۔
سری لنکا سے مسلمانوں کا تعلق پہلی صدی ہجری ہی میں قائم ہوگیا تھا اور مسلمان عربوں نے یہاں ساحل پر بستیاں قائم کیں۔ سندھ پر محمد بن قاسم کے حملے کی وجہ سری لنکا کے مسلمان ہی بنے تھے جن کے جہاز کو سندھ کے ساحل پر راجا داہر کے ڈاکوئوں نے لوٹ لیا تھا۔
سری لنکا کی ایک اور وجۂ شہرت حضرت آدم علیہ السلام سے منسوب پائوں کا ایک نشان بھی ہے۔ آٹھویں صدی عیسوی میں اسلام سری لنکا میں تیزی سے پھیلنے لگا۔ شروع میں وہ عورتیں مسلمان ہوئیں جنھوں نے عرب تاجروں سے شادی کی۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں برطانوی اور ولندیزی حملہ آوروں کے ذریعے ملایا اور انڈونیشیا سے بھی مسلمان یہاں لائے گئے۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں ہندستان سے بھی مسلمان یہاں پر آئے۔
نسلی طور پر عرب مسلمان سری لنکا میں کُل مسلم آبادی کا ۹۵ فی صد ہیں اور ان کا تعلق شافعی مسلک سے ہے۔ سری لنکا کے مشرقی علاقے میں آباد یہ مسلمان تامل زبان بولتے ہیں، جب کہ مغربی ساحل پر آباد مسلمان، سنہالی اور انگریزی بولتے ہیں۔ یہ لوگ زیادہ تر تجارت اور زراعت سے وابستہ ہیں۔ مشرقی ساحل پر آباد مسلمان ماہی گیر اور تاجر ہیں۔ ملائی مسلمانوں کی تعداد ۵۰ہزار سے زیادہ ہے جو زیادہ تر ملایا سے ولندیزی فوج میں بھرتی ہوکر آئے اور یہیں آباد ہوگئے۔ ۱۹۸۰ء کی دہائی میں یہ کُل مسلم آبادی کا ۵ فی صد تھے۔
سری لنکا میں آئینی طور پر مسلمانوں کو مکمل مذہبی آزادی ہے اور اہم مذہبی تہواروں پر سرکاری تعطیل ہوتی ہے۔ مسلمانوں کو اپنے مذہبی قانون کے مطابق شریعت کورٹس میں تنازعات کے فیصلے کرانے کا حق بھی حاصل ہے۔ حکومت نے اسکولوں میں اسلامی تعلیم کی تدریس کا بھی اہتمام کیا ہے۔ مسلمانوں کی اپنی سیاسی جماعتیں بھی ہیں اور وہ دوسری سیاسی جماعتوں میں بھی شامل ہیں۔
مسلمانوں، تامل ہندوئوں اور سنہالی بدھوں میں صدیوں تک کسی قسم کے نسلی اور مذہبی تنائو کا ذکر نہیں ملتا۔مذہبی و نسلی تعصب کا بیج یورپی حملہ آوروں نے بویا اور سب سے پہلا مسلم کش فساد جون ۱۹۱۵ء میں ہوا اور یہ مرکزی صوبوں سے مغربی اور شمال مشرقی صوبوں تک پھیل گیا۔ اس فساد کے دوران ۱۴۶ مسلمانوں کو شہید، اور ۴۰۰ سے زائد مسلمانوں کو زخمی کر دیا گیا، کئی سو خواتین کی عصمت دری ہوئی۔
۴ فروری ۱۹۴۸ء کو آزادی کے بعد سنہالی، بدھ حکومت نے جو پالیسی بنائی اس سے تامل مطمئن نہ تھے مگر مسلمانوں نے کسی بھی تنازع سے دُور رہنے کی پالیسی اپنائی۔ اور یہی پالیسی ان کے لیے آنے والے دنوں میں وبالِ جان بن گئی۔
سنہالی حکومت میں تنازع کی ابتدا اس وقت شروع ہوگئی جب تامل زبان کو نظرانداز کرکے سنہالی کو قومی اور سرکاری زبان قرار دیا گیا۔ سنہالی تعصب کا مزید مظاہرہ اُس وقت ہوا جب جزیرے کا نام سیلون کی جگہ سنہالی زبان میں سری لنکا رکھ دیاگیا۔ تاملوں نے آزادی کی تحریک شروع کر دی اور بھارت نے اس کی پشت پناہی کی کیونکہ بھارت میں ۶۳ ملین تامل ہیں۔
حکومت نے ایک خاص پالیسی کے تحت سنہالیوں کو مسلمان علاقوں میں آباد کرنا شروع کردیا۔ اس اقدام کو مسلمانوں نے اپنے لیے خطرہ سمجھا اور انھوں نے بھی تامل علیحدگی پسندوں کی حمایت کردی۔ ۱۹۷۶ء میں تامل یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ بنا۔ اس کے بعد لبریشن ٹائیگرز آف تامل وجود میں آگئی جس نے بلاامتیاز تمام مذاہب کی نمایندہ تنظیم ہونے کا دعویٰ کیا۔ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد بھی اِن میں شامل ہوگئی۔ مسٹر گاندھی کی کانگریس کی طرح لبرشن ٹائیگرز کا یہ دعویٰ بھی غلط نکلا اور تامل مسلمان مایوس ہوگئے۔
کولمبو حکومت نے بھی تامل ہندوئوں اور تامل مسلمانوں میں خلیج بڑھانے کی حکمت عملی اپنائی۔ اس طرح تامل ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان فسادات شروع ہوگئے۔ مسلمان بستیوں پر حملے، قتل، اغوا اور لوٹ مار شروع ہوگئی۔
۱۹۸۰ء کی دہائی میں حکومت نے مسلمانوں کا تحفظ کرنے کے بجاے مسلمانوں سے کہا کہ تاملوں کے حملوں کے خلاف خود اپنی حفاظت کریں۔ اس سلسلے میں حکومت نے مسلمانوں کو ہتھیار بھی فراہم کیے۔ ان ہتھیاروں کی فراہمی کا ایک مقصد تامل ہندوئوں میں خلیج کو بڑھانا تھا۔ تامل ہندوئوں اور سنہالی بدھوں نے مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ مشرقِ وسطیٰ کے مسلم ممالک اور بعض مسلمان تنظیمیں مسلمانوں کی عسکری تربیت کے لیے اسلحہ اور رقوم فراہم کر رہی ہیں۔ جس کی وجہ سے مسلمانوں میں اپنی حفاظت کے نقطۂ نظر سے عسکری گروپوں نے جنم لیا جس سے مسلمانوں تامل ہندوئوں اور سنہالی بدھوں کے درمیان فسادات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ مسلمانوں کو اقلیت میں ہونے کی وجہ سے بھی مظالم کا سامنا کرنا پڑا۔ پُرامن رہنے والے مسلمانوں کو ایک اندھی جنگ میں جھونک دیا گیا اور اب مسلمانوں کے خلاف یہ پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ عسکریت پسند مسلمانوں کا تعلق القاعدہ سے ہے۔ ان حالات میں جہاں سری لنکا کے مسلمانوں کو صبر اور حکمت سے معاملات کو لے کر چلنے کی ضرورت ہے وہاں اپنے مسائل کے حل کے لیے اسلامی دنیا کی بھی توجہ چاہتے ہیں۔
ایک منٹ کی وڈیو فلم کا آغاز ہوا تو اسکرین پر ’فلسطین‘ نام کا اخبار تھا۔ چند سیکنڈ بعد اس کی تاریخ ۲۰۰۹ء؍۹؍۱۴ دکھائی گئی اور پھر اخبار کے اُوپری کنارے سے جھانکتی ہوئی دو آنکھیں دکھائی دیں، آہستہ آہستہ اخبار ہٹ گیا اور سامنے اغوا شدہ یہودی فوجی گلعاد شالیط کا چہرہ تھا۔ شالیطکو تین سال قبل حماس کے عسکری بازو نے اغوا کیا تھا۔ حماس کا مطالبہ تھا کہ اسرائیلی جیلوں میں گرفتار ہزاروں فلسطینی قیدیوں کورہا کیا جائے ،وگرنہ ایک کے بعد دوسرا شالیط گرفتار کیا جاتا رہے گا۔ صہیونی حکومت نے اس اغوا پر انتہائی شدید ردعمل ظاہر کیا۔ ۲۰۰۶ء میں مختلف فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی جارحیت اور پھر ۲۰۰۸ء کے اختتام پر غزہ کی خوفناک تباہی کا اصل مقصد بھی شالیط کو اغوا کرنے والی حماس کا مکمل خاتمہ تھا۔ گذشتہ ساڑھے تین سال سے جاری غزہ کے مسلسل حصار سمیت، حماس کے خلاف ہر ممکن دبائو اور دھمکیوں نے کام نہ کیا تو حماس کے ساتھ مذاکرات اور گفت و شنید کا دروازہ بھی کھولا گیا۔ شالیط کے بارے میں طویل مذاکرات کا نتیجہ بالآخر درج بالا وڈیو فلم کی صورت میں نکلا۔
اسرائیل اپنی تمام تر جاسوسی، چالاکیوں اور اپنے ایجنٹوں کی فوج ظفرموج کے باوجود شالیط کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں کرسکا تھا۔ حماس کے ساتھ حالیہ معاہدے میں طے پایا کہ اگر وہ شالیط کے زندہ یا مُردہ ہونے کا ناقابلِ تردید ثبوت دے دے تو صہیونی انتظامیہ کچھ فلسطینی قیدیوں کورہا کردے گی۔ فلسطینی مذاکرات کاروں نے میدانِ جہاد واستقامت کے ساتھ ساتھ مذاکرات کی میز پر بھی بڑی کامیابی حاصل کی اور ایک دو فلسطینی قیدیوں کی نہیں، پوری ۲۰ فلسطینی خواتین قیدیوں کی رہائی کی شرط منظور کروائی۔ یہ خواتین سالہا سال سے صہیونی جیلوں میں مختلف عقوبتیں اور سزائیں جھیل رہی تھیں۔ ان کی رہائی ۲۰ فلسطینی گھرانوں ہی کے لیے نہیں ہرفلسطینی اور ہرانسان دوست کے لیے مسرت کا باعث بنی۔ رہائی پانے والی خواتین کے ساتھ دنیا کا سب سے کم سن قیدی دوسالہ یوسف الزق بھی رہا ہوگیا۔ یوسف الزق نے جیل ہی میں جنم لیا تھا، اس کی والدہ شادی کے چند ماہ بعد ہی گرفتار کر لی گئی تھی اور اب دوسالہ بیٹے کے ساتھ رہاہوئی۔
حماس کے ساتھ گفت و شنید کا سلسلہ اب بھی مکمل طور پر نہیں رُکا۔ اس ایک منٹ کی وڈیو میں حماس نے اعلیٰ پیمانے کی فنی نفسیاتی اور سیاسی مہارت کا ثبوت دیا ہے۔ زندہ ہونے کا ناقابلِ تردید ثبوت دینے کے لیے اس روز کے تازہ اخبار کا سہارا لیا گیا۔ اخبار کا انتخاب کرتے ہوئے روزنامہ فلسطین کا انتخاب کیا گیا۔ تین سال بعد اپنے فوجی، اپنے شہری اور اپنے عزیز کا چہرہ دیکھنے کے لیے ہرصہیونی اور یہودی بے تاب تھا لیکن اس کا چہرہ دیکھنے سے پہلے انھیں جو نوشتۂ دیوار پڑھنا پڑا وہ تھا: فلسطین۔ پھر شالیط نے عبرانی زبان میں لکھا ہوا اپنی خیریت کا جو پیغام پڑھا، اس میں اداسی کے سایے تو تھے لیکن یہ بھی مکمل طور پر واضح تھا کہ حماس اپنے قیدی کے ساتھ حسنِ سلوک کا برتائو کرر ہی ہے۔ حماس کی قیادت نے وڈیو جاری کرنے کے موقع پر ایک بار پھر اپنے اس موقف کا اعادہ کیا کہ اگر صہیونی جیلوں میں قید ۱۰ ہزار سے زائد قیدیوں کو رہا نہ کیا گیا تو صہیونی ریاست کو ایک کے بعد دوسرے شالیط کا صدمہ سہنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
اس پوری کارروائی میں ایک بہت اہم اور قابلِ ذکر پہلو یہ ہے کہ حماس نے رہائی کے لیے جن ۲۰ خواتین کی فہرست پیش کی، ان میں صرف چار کا تعلق خود حماس سے تھا، باقی ۱۶ خواتین کا تعلق الفتح سمیت مغربی کنارے اور غزہ کی دیگر فلسطینی تنظیموں سے تھا۔ گویا حماس کہہ رہی ہے کہ ہمارے لیے تمام فلسطینی شہری بالخصوص قیدی یکساں حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک طرف سے تو خیرسگالی کے یہ پیغامات ہیں لیکن دوسری طرف مصری دارالحکومت قاہرہ میں حماس اور الفتح کے مابین جاری مذاکرات سنگین سے سنگین تر صورت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ ان مذاکرات کے دسیوں رائونڈ ہوچکے ہیں لیکن ابھی تک اُمید کی کوئی کرن دکھائی نہیں دے رہی۔ الفتح اور بالخصوص صدر محمودعباس (ابومازن) کی بنیادی سوچ فلسطینی تحریکِ آزادی سے عسکریت، یعنی جہاد کا خاتمہ ہے۔ حالیہ مذاکرات اور معاہدے میں بھی بنیادی اختلاف اسی نکتے پر ہے۔ مذاکرات کے درجنوں دَور ہوچکے ہیں لیکن کسی متفق علیہ سوچ پر پہنچنا ممکن نہیں ہورہا۔ جس مسودے پر حماس سمیت تمام فلسطینی دھڑوں کا اتفاق ہوا، اسے بھی جب دستخطوں کے لیے پیش کیا گیا تو پوری کی پوری عبارتیں اور جملے اس میں سے غائب تھے۔ اس تحریف کی تمام تر ذمہ داری محمود عباس اور مصری حکومت کے سر آتی ہے لیکن جب حماس نے تحریف شدہ تحریر پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تو مذاکرات ناکام کرنے کی ساری ذمہ داری حماس کے سر ڈالی جارہی ہے۔ نہ صرف تنقید بلکہ دھمکیوں کا سلسلہ بھی جاری و ساری ہے۔ حماس کی مرکزی قیادت سے اس بارے میں استفسار کیا تو اس کا کہنا تھا کہ معاہدے کے موجودہ، یعنی تحریف شدہ مسودے پر دستخط کرنا بلاجواز موت کی سزا قبول کرنے کے مترادف ہے۔
حماس اور الفتح کے مابین اختلاف کا ایک نکتہ آیندہ انتخابات بھی ہے۔ بدقسمتی سے اس وقت فلسطین کے دونوں علاقے غزہ اور مغربی کنارہ ایک دوسرے سے مکمل طور پر کٹے ہوئے ہیں۔ محمودعباس نے تقریباً ڈیڑھ برس پہلے منتخب فلسطینی حکومت اور پارلیمنٹ معطل کرنے کا اعلان کر دیا اور سلام فیاض نامی ایک غیرمنتخب شخص کو عبوری حکومت کا سربراہ بناکر حکومتی سیکرٹریٹ غزہ سے مغربی کنارے منتقل کر دیا۔ ادھر حماس نے اس غیردستوری اور غیراخلاقی حکم کو ماننے سے انکار کر دیا۔ تب سے فلسطینی علاقوں میں دو الگ الگ حکومتیں قائم ہیں۔ غزہ میں منتخب وزیراعظم اسماعیل ھنیہ کی اور مغربی کنارے میں محمود عباس کی۔ ۸جنوری کو محمود عباس کی مدت صدارت ختم ہوجانے کے باوجود انھوں نے یہ منصب چھوڑنے سے انکار کردیا۔ اسرائیلی انتظامیہ سمیت مغربی ممالک نے بھی نہ صرف ان کی مکمل سرپرستی کی، بلکہ بھرپور مالی اور سیاسی سرپرستی جاری رکھی۔ دوسری طرف ۱۵لاکھ نفوس پر مشتمل آبادی کا علاقہ غزہ مسلسل اور مکمل حصار سے دوچار ہے۔ دوا اور غذا سمیت کوئی چیز جانے کی اجازت نہیں ہے۔ لیکن پوری دنیا یہ راز جاننے سے قاصر ہے یا خود جاننا ہی نہیں چاہ رہی کہ اس قدر ناگفتہ بہ حالات کے باوجود اہل غزہ حماس کا ساتھ چھوڑنے کے لیے تیار کیوں نہیں ہیں۔
غزہ ہی نہیں خود مغربی کنارے میں جتنے سروے ہورہے ہیں، ان میں بھی محمود عباس کا گراف مسلسل گر رہا ہے، جب کہ حماس کی تائید میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ محمود عباس کی بدنامی میں ماہِ رواں میں اس وقت اور اضافہ ہوگیا، جب اس نے اقوام متحدہ میںجسٹس گولڈسٹون کی وہ رپورٹ پیش کرنے پر اعتراض کیا جو اس نے غزہ کی جنگ کے دوران میں اسرائیلی مظالم کے خلاف تیار کی تھی۔ جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے اس یہودی الاصل جج جسٹس ریٹائرڈ گولڈسٹون کو جب عالمی ادارے کی طرف سے غزہ کی جنگ کے دوران میں ہونے والے جرائم کی رپورٹ تیار کرنے کا کہا گیا تو کسی کو اس منصفانہ راے کا اندازہ نہیں تھا۔ جب رپورٹ آئی تو اس نے شالیط کے اغوا اور یہودی آبادی پر حماس کے میزائلوں کا ذکر بھی کیا لیکن جس سفاکیت اور درندگی کا مظاہرہ اسرائیل نے کیا تھا اس کا پردہ چاک کرکے رکھ دیا، جس پر کہرام مچ گیا۔ صہیونی انتظامیہ ہسٹیریائی انداز سے چلّانے لگ گئی۔ لیکن اصل رکاوٹ اس وقت سامنے آئی جب خود محمود عباس انتظامیہ نے جنیوا میں یہ رپورٹ پیش کرنے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اس کے لیے یہ وقت مناسب نہیںہے۔ قدرت نے شاید کچھ لوگوں کا اصل چہرہ دنیا کو دکھانا تھا۔ جب فلسطینی آبادی اور عالمِ عرب سے فلسطینی انتظامیہ پر لعنت ملامت میں اضافہ ہوتا چلا گیا تو بالآخر محمود عباس نے اعتراض واپس لے لیا۔ گولڈسٹون رپورٹ سرکاری طور پر دنیا کے سامنے آگئی اور اب اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کمیشن کے بعد اسے سیکورٹی کونسل میں پیش کرنے کی بات ہو رہی ہے۔ محمود عباس نے سو پیاز بھی کھا لیے اور سو جوتے بھی۔
اس تناظر میں قاہرہ مذاکرات کی میز سجی ہے۔ ۲۲؍اکتوبر کو خالدمشعل سے ایک ملاقات کے موقع پر ان سے جب مذاکرات کے بارے میں دریافت کیا تووہ کہہ رہے تھے کہ ہم تو اپنی بہت سی شرائط سے دست بردار ہوکر بھی صلح کے لیے کوشاں ہیں۔ لیکن ہر بار کوئی نہ کوئی رکاوٹ کھڑی کردی جاتی ہے۔ وہ اس خدشے کا اظہار بھی کررہے تھے کہ تقسیم و اختلاف کی اسی صورت حال میں انتخابات کا ڈول ڈال دیا جائے اور اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرتے ہوئے ایک نیا بحران کھڑا کر دیا جائے۔ ابھی ان کی اس گفتگو کی بازگشت کانوں میں باقی تھی کہ ۲۴؍اکتوبر کی شام محمود عباس نے ’صدارتی فرمان‘ جاری کرتے ہوئے اعلان کر دیا کہ ۲۴؍ جنوری ۲۰۱۰ء کوفلسطین میںصدارتی اور پارلیمانی انتخابات منعقد کروا دیے جائیں گے۔ صدارتی فرمان اسی صدر نے جاری کیا ہے جس کی اپنی صدارت ۹ماہ اور ۱۶ روز پہلے ختم ہوچکی ہے اور وہ اپنے ساتھیوں سمیت غزہ سے عملاً لاتعلق ہیں۔ لیکن اگر معاملات اسی دھارے پر آگے بڑھے تو من مرضی کے یک طرفہ نتائج پر مشتمل انتخابات وقوع پذیر ہوجائیں گے اور گذشتہ انتخابات میں دو تہائی سے زائد نشستیں حاصل کرنے والی اسلامی تحریکِ مزاحمت (حماس) کم از کم کاغذوں سے ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
ایک طرف مقبوضہ فلسطین کو تقسیم در تقسیم کرنے اور اہلِ فلسطین کو باہم دست و گریباں کرنے کا یہ سلسلہ جاری ہے اور دوسری جانب صہیونی ریاست خطے میں اپنے زہریلے پنجے مزید گاڑ رہی ہے۔ ادھر قاہرہ مذاکرات میں تعطل کا اعلان ہو رہا تھا اور ادھر امریکا اور اسرائیل اپنی سب سے بڑی فوجی مشقوں کا آغاز کر رہے تھے۔ ان مشقوں میں دونوں فریقوں نے جو اصل میں ایک ہی فریق کی حیثیت رکھتے ہیں جدید ترین ہتھیاروں بالخصوص اینٹی میزائل سسٹم کے خصوصی تجربات کیے۔ ۲۰۰۶ء میں لبنان پر اور ۲۰۰۸ء کے اختتام پر غزہ کی جنگ کے دوران میں اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود صہیونی ریاست اپنی طرف آنے والے میزائلوں کا راستہ نہیں روک سکی تھی۔ حالیہ مشقوں میں اس جانب خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔
اس حوالے سے ایک اہم اور حوصلہ افزا پہلو یہ ہے کہ یہ مشترکہ مشقیں بنیادی طور پر اسرائیل، امریکا اور ترکی کے درمیان ہونا تھیں۔ ترک افواج گذشتہ کئی سال سے ان سالانہ مشقوں میں شریک ہوتی رہی لیکن اس بار منتخب ترک حکومت نے احتجاجاً ان سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔
حالیہ مشقوں کے حوالے سے اصل تشویش ناک پہلو یہ سوال ہے کہ کیا صہیونی ریاست خطے میں کسی نئی جارحیت کی بنیاد رکھنے جارہی ہے؟ گذشتہ ہفتوں میں مسجداقصیٰ کو شہید کرنے کی کوششوں میں بھی اچانک اضافہ کردیاگیا ہے۔ اگر ہزاروں کی تعداد میں نہتے فلسطینی مسجداقصیٰ کے اندر زبردستی جاکر دو ہفتے سے زائد عرصے کے لیے وہاں ایک انسانی ڈھال نہ بنا لیتے تو خدانخواستہ اب تک کوئی اور بڑا سانحہ بھی روپذیر ہوچکا ہوتا۔
مقامِ معراج مصطفیؐ کو شہید کرکے وہاں یہودی عبادت گاہ تعمیر کرنے کی مسلسل اور بے تابانہ کوششیں اور ساتھ ہی ساتھ امریکی اسرائیلی وسیع تر فوجی مشقیں اُمت کو اور بالخصوص اہلِ فلسطین کو اہم پیغام دے رہی ہیں۔ کیا اسرائیل سے بھی زیادہ اسرائیل کے وفادار حکمران اور خود فلسطینی قائدین یہ پیغام سمجھنے کی تکلیف گوارا کریں گے؟ کیا وہ یہ حقیقت فراموش کردیں گے کہ چند روزہ نام نہاد اقتدار یا چند ارب ڈالر کی بھیک کی خاطر، مسجداقصیٰ کے محافظ اپنے ہی فلسطینی بھائیوں پر فتح حاصل کرنے کا خواب، نہ صرف دنیا میں رسوائی کا سبب ہوگا بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کی ہلاکت کا بھی۔
ایف اے کے نتائج کا اعلان ہوا تو اسراء ضیاء فرحات نے پورے ملک میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔ پورے خاندان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ مبارک باد دینے والوں اور ذرائع ابلاغ کے نمایندوں کا تانتا بندھ گیا۔ صحافی نے مصری لہجے میں پوچھا: باباک فین؟ آپ کے بابا کہاں ہیں؟ جواب کے بجاے دو آنسو اُبھرے اور پلکوں پر ٹک گئے۔ اسراء نے فوراً ہی خود کو سنبھال لیا اور کہا: میرے بابا معروف سرجن، ڈاکٹر ضیاء فرحات گذشتہ اڑھائی سال سے بلاوجہ گرفتار ہیں۔ وہ علاقے کی انتہائی نیک نام اور ہر دلعزیز شخصیت ہیں۔ ان کا گناہ صرف یہ ہے کہ وہ اخوان المسلمون کے رکن ہیں۔ اخوان کا نام سنتے ہی انٹرویو لینے والا بھی گھبرا گیا۔ اِدھر اُدھر کی ایک آدھ بات کے بعد انٹرویو ختم ہوگیا لیکن ساری دنیا کو معلوم ہوگیا کہ پورے مصر میںاول آنے والی اسراء کے والد بے گناہی کی سزا کاٹ رہے ہیں۔
سب اس بات پر حیران تھے کہ والد گرفتار تھے، پورا گھرانا بحران و اذیت کا شکار تھا، اس ماحول میں اسراء نے اتنی نمایاں کامیابی کیسے حاصل کرلی؟ اسراء نے ان کی حیرت کا جواب دیتے ہوئے کہا: بابا گرفتار ہوئے تو سب اہلِ خانہ کا پریشان، اداس اور مضطرب ہونا فطری امر تھا، لیکن ہم نے خود کو دکھ اور صدمے کی نذر نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہم سب کے لیے اصل تشفی یہ تھی کہ ہمارے بابا کا صرف اور صرف گناہ ان کی اسلامی تحریک سے وابستگی ہے۔ امتحانات کا مرحلہ آیا تو میں نے سوچا کہ میں اپنے بابا کو کوئی ایسا تحفہ ارسال کروں گی جو شاید آج تک کسی قیدی کو نہ ملا ہو۔ میں نے خاموشی سے ایک فیصلہ کیا اور الحمدللہ آج میں اپنی کامیابی کا تحفہ اپنے قیدی بابا کو پیش کر رہی ہوں۔ اسراء نے مزید بتایا کہ میرے بابا کی یہ چوتھی گرفتاری ہے جو ۱۷ جنوری ۲۰۰۷ء سے شروع ہوئی۔ انھیں اس سے پہلے ۱۹۹۵ء تا۲۰۰۵ء اور ۲۰۰۶ء میں بھی گرفتار کیا جاچکاہے کیونکہ وہ اپنے مریضوں کا جسمانی ہی نہیں فکری، نظریاتی اور روحانی علاج بھی کرتے ہیں۔ وہ زمانۂ طالب علمی ہی سے اسلامی تحریک سے وابستہ ہیں اور میڈیکل کالج یونین کے صدر بھی منتخب ہوچکے ہیں۔
ایک اسراء ہی کا گھر نہیں، اس وقت مصر کے تقریباً ساڑھے چار سو گھرانے اپنے اپنے پیاروں کی گرفتاری کا دکھ سہہ رہے ہیں۔ اخوان المسلمون کی تشکیل کے بعد سے لے کر اب تک شاید ہی کوئی وقت ایسا ہو کہ اخوان کے سیکڑوں کارکنان و ذمہ داران پسِ دیوار زنداں نہ ہوں۔ ایک وقت میں تو یہ تعداد اڑھائی ہزار تک جا پہنچی تھی۔ شاہ فاروق کا زمانہ تھا تو مرشد عام امام حسن البنا کو شہید کردیا گیا۔ ۱۹۵۲ء میں فوجی انقلاب کے بعد جنرل جمال عبدالناصر کا زمانہ آیا تو مفسرقرآن سیدقطب سمیت سیکڑوں افراد کو شہید اور ہزاروں کو گرفتار کرلیا گیا۔۲۹ستمبر ۱۹۷۰ء کو دنیا سے اُٹھ جانے سے جمال کا اقتدار ختم ہوا تو ایک اور فوجی ڈکٹیٹر انورالسادات کا عہدِ سیاہ شروع ہوگیا۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدے سمیت کئی قومی خیانتوں اور بے گناہوں کو عذاب و اذیت سے دوچار کرنے کا بوجھ لادے، ۱۴؍ اکتوبر ۱۹۸۱ء کو سادات قتل ہوا تو قتل کے وقت اس کے پہلو میں بیٹھا تیسرا فوجی ڈکٹیٹر قوم کی گردن پر سوار ہوگیا۔ وہ دن اور آج کا دن، مصر سے حسنی مبارک کی عائدکردہ ایمرجنسی بھی ختم نہیں ہوئی۔ اس ۲۸ سالہ ’عہدنامبارک‘ میں بھی اخوان کے ذمہ داران و کارکنان کو جبر کے کولہو میں مسلسل کچلا جا رہا ہے۔ کوئی دن نہیں جاتا کہ مصر کے کسی نہ کسی شہر میں چھاپے مار کر درجنوں افراد کی آزادی سلب نہ کی جاتی ہو۔
اڑھائی سال قبل اسراء کے والد سمیت ۲۵ معزز افراد گرفتار ہوئے۔ تقریباً سب کے سب گرفتارشدگان انجینیرہیں یا ڈاکٹر۔ ان میں سے نمایاں ترین ہستی اخوان کے نائب مرشدعام انجینیر خیرت الشاطر ہیں۔ سب پر ایک نام نہاد عسکری عدالت میں مقدمہ چلا گیا اور سب کو ۱۰ سے ۳سال تک گرفتاری کی سزائیں سنا دی گئیں۔ انجینیر خیرت کو سات سال، جب کہ متعدد ضعیف افراد کو ۱۰سال قید کا پروانہ عطا کیا گیا۔ اسراء کے والد ڈاکٹر ضیاء کو تین سال کی سزا سنائی گئی۔ اس بار عمومی گرفتاریوں کے ساتھ ساتھ مزید ظلم یہ ڈھایا جارہا ہے کہ اخوان سے تعلق رکھنے والے نسبتاً متمول افراد کے کاروباری اثاثہ جات، تجارتی کمپنیاں اور ذاتی مال و متاع بھی ضبط کیا جا رہا ہے۔ ملک کی درجنوں بڑی اور اہم کمپنیاں اس ’جرم‘ میں بند کردی گئی ہیں کہ یہاں سے اخوان کو مالی امداد فراہم کی جارہی تھی۔ حکومتی ذرائع کے مطابق اس خطرناک جماعت کے تمام مالی سوتے خشک کرنا وقت کا اہم تقاضا ہے۔ واضح رہے کہ دینی جماعتوں کے مالیاتی سوتے خشک کرنا، امریکا کی عالمی جنگ کا اہم ترین جزو ہے۔
ابھی ان معزز افراد کی سزائوں اور ان کے اثاثہ جات ضبط کرنے پر ہی احتجاج ہو رہا تھا کہ ۲۸ جون کو پوری عرب دنیا کے ڈاکٹروں کی یونین کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمنعم ابوالفتوح اور ان کے پانچ اہم ساتھیوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ ڈاکٹر ابوالفتوح عرب یونین کے منتخب سربراہ ہی نہیں، دنیا بھر میں ریلیف اور امدادی سرگرمیوں میں بھی ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے۔ گذشتہ چند برسوں میں ان کی تین بار پاکستان آمد ہوئی۔ پہلے افغانستان پر امریکی حملے کے دوران افغان مہاجرین کے لیے امدادی سامان اور ادویات لے کر آئے۔ پھر پاکستان میں زلزلے کے وقت ڈاکٹروں کی ایک ٹیم لے کر آئے۔ مصری عوام کی طرف سے ان کے توسط سے آنے والی ایمبولینس کا تحفہ اب بھی زلزلہ زدہ علاقے میں ان کی اور مصری بھائیوں کی یادیں مسلسل تازہ کرتا ہے، اور تیسری بار سوات آپریشن کے دوران میں مہاجرین کی مدد کے لیے ان کی طرف سے امداد موصول ہوئی۔
ڈاکٹر ابوالفتوح عرب یونین کے منتخب صدر کی اہم ذمہ داری پر فائز ہونے کے باوجود ہروقت دستیاب اور مستعد رہتے۔ غزہ پر تباہ کن بم باری کی صورت میں صہیونی عذاب نازل ہوا تو غزہ جانے کے تمام راستے بند تھے۔ ڈاکٹر ابوالفتوح اپنے ساتھی ڈاکٹروں کے ہمراہ کئی روز تک مصر، غزہ بارڈر پر رفح کے پھاٹک کے باہر کھڑے رہے۔ جیسے ہی کوئی گنجایش نکلتی، فوراً ادویات اور طبیب غزہ بھجوا دیتے۔ ان کا وہاں مسلسل رہنا پوری عرب دنیا میں بڑی خبر بنا۔ جسے نہیں معلوم تھا اس نے بھی جان لیا کہ اسرائیلی حصار کے ساتھ ہی ساتھ مصری حکومت بھی اہلِ غزہ کا دانہ پانی بند کیے ہوئے ہے۔
ڈاکٹر ابوالفتوح اور ساتھی ڈاکٹروں پر اصل الزام بھی یہی اہلِ غزہ کی طبی و انسانی امداد کا لگایا گیا ہے۔ مصری حکومت کے ارشادات کے مطابق: ’’ڈاکٹر ابوالفتوح نے کئی ملین ڈالر غیر قانونی طور پر غزہ ارسال کیے‘‘۔ ڈاکٹر صاحب نے اس الزام کے جواب میں کہا کہ اگرچہ کئی ملین ڈالر کی بات صرف صہیونی ریاست کو خوش کرنے کے لیے اور زیب داستاں کی خاطر کہہ دی گئی ہے لیکن مجھے یہ الزام لگنے پر فخر ہے، البتہ مصری حکومت کو بھی سوچ لینا چاہیے کہ وہ اپنے رب کی عدالت میں لاکھوں بے گناہ فلسطینیوں کے حصار اور انھیں رمضان میں بھی تمام ضروریاتِ زندگی سے محروم رکھنے کے جرم کا کیا جواب دے گی؟ بجاے اس کے کہ لاکھوں انسانوں کو موت کے منہ میں دھکیل دینا جرم سمجھا جاتا، کسی نہ کسی طرح ان کی مدد کرنے کی کوشش کو جرم بنایا جارہا ہے۔
اہلِ غزہ کی مدد کے الزام کو اپنے لیے فخر قرار دینے پر ڈاکٹر ابوالفتوح اور ان کے ساتھیوں پر دوسرا الزام یہ لگایا گیا کہ وہ ’کالعدم‘ اخوان المسلمون کی عالمی تنظیم کے اہم ذمہ دار ہیںاور دیگر ممالک میں اخوان کی شاخوں کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس الزام کی حقیقت بھی پوری دنیا پر واضح ہے کہ ایک توجس پیشہ ورانہ تنظیم کے وہ منتخب سربراہ ہیں، اس کی ذمہ داریوں کا تقاضا ہے کہ پورے عالمِ عرب میں فعال رہیں۔ دوسرے وہ اتنی بڑی اور اہم تنظیم کے رہنماکی حیثیت سے متعارف ہوں گے، تو عالمی روابط یقینا ان کی زندگی کا لازمی حصہ بنیں گے۔ محترم میاں طفیل محمدصاحب اللہ کو پیارے ہوئے تو ہم نے دنیا بھر میں ای میل اور ایس ایم ایس کے ذریعے اطلاعات دیں۔ مصر سے سب سے پہلا تعزیتی فون ڈاکٹر ابوالفتوح کا آیا۔ ایک عالمی رہنما کی حیثیت سے ان سے یہی توقع تھی۔ اس فون کے تیسرے روز انھیں گرفتار کرلیا گیا۔ شاید یہ فون بھی ان کے خلاف فردِ جرم کا حصہ بنا ہو، لیکن یہاں تیسرا سوال سامنے آتا ہے کہ کیا اپنے بھائیوں کے ساتھ، اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے امتیوں کے ساتھ یہ روابط جرم ہیں؟ یورپ میں مقیم ایک اور مصری عالمِ دین ڈاکٹر ابوالمجد پر بھی اسی طرح کے الزام لگنے کی بات کی گئی تو انھوں نے کہا کہ جو نہیں جانتا وہ بھی جان لے کہ اخوان المسلمون کی تنظیم دنیا کے ۶۰ ملکوں میں قائم ہے، ان میں سے کسی کے ساتھ یا دنیا کے کسی بھی مسلمان ادارے کے ساتھ رابطہ، میرے ایمان کا حصہ ہے۔
ڈاکٹر ابوالفتوح کی گرفتاری پر مصری حکومت دنیا بھر میں مطعون ہو رہی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں ان گرفتاریوں پر اظہار تشویش اور مذمت کی گئی ہے۔ خود مصر کے سابق وزیرخارجہ اور عرب لیگ کے حالیہ سیکرٹری جنرل عمرو موسیٰ نے ان کی گرفتاری پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا ہے کہ وہ ذاتی طور پر ان کی رہائی کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن افسوس کہ حکومت مصر نے اس ضمن میں ابھی تک کوئی قدم نہیںاٹھایا بلکہ ۲۳؍اگست کو انھیں اور ان کے پانچ ساتھیوں کو مزید ۱۵ روز کے ریمانڈ پر فوجی جیل خانے بھیج دیا ہے۔
طرفہ تماشا یہ ہے کہ ایک طرف تو یہ ظالمانہ گرفتاریاں ہیں اور ساتھ ہی ساتھ یہ پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ اخوان نے حکومت کے ساتھ سازباز شروع کر دی ہے، خفیہ مذاکرات کر رہی ہے۔ یہ شوشے اس لیے چھوڑے جا رہے ہیں تاکہ ایک طرف تو اخوان کے کارکنان اور گرفتارشدگان اپنی قیادت کے بارے میں شکوک و شبہات اور غلط فہمیوں کا شکار ہوں، اور دوسری طرف مصری راے عامہ کو دھوکا دیا جاسکے کہ گرفتاریاں کوئی سنگین بحران نہیں ہیں، ظالم حکومت اور مظلوم اخوان باہم گٹھ جوڑ میںمصروف ہیں۔ اخوان کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر محمود عزت سے اس بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے ان شوشوں کی تردید کرتے ہوئے ایک واقعہ سنایا۔ انھوں نے کہا: ۱۹۷۳ء کے اواخر میں ہم گرفتار تھے، ہمارے درمیان ایسے ساتھی بھی تھے جو ۲۰سال سے قید تھے۔ کئی اپنی قیدکے نو سال پورے کرچکے تھے۔ ایک روز ایک اہم سرکاری ذمہ دار فواد علام جیل آیا۔ ہم سب کو جیل کے صحن میں ایک درخت کے نیچے اکٹھا کیا گیا۔ فواد نے کہا کہ صدر سادات آپ سب کو رہا کرنا چاہتا ہے لیکن آپ اس سلسلے میں ان کی مدد کریں۔ ہمارے ساتھ حامد ابوالنصر صاحب بھی گرفتار تھے وہ ابھی اخوان کے مرشد منتخب نہیں ہوئے تھے، بیماری کے باعث وہ قطار کے آخر میں کرسی پر بیٹھے تھے، وہیں سے پکارے: ’’جناب فواد صاحب! کیا اخوان کے کسی قیدی نے آپ سے اپنی تکلیفوں کی شکایت کی ہے؟ اخوان جیل سے نکل کر بھی اخوان ہی رہیں گے۔ جو بھی درست کام کرے گا ہم اسے کہیںگے تم نے ٹھیک کیا اور جو کوئی بھی غلط کام کرے گا ہم اسے کہیں گے تم نے غلط کیا۔ اگر اس اصول کے مطابق اخوان کو رہا کرنا چاہتے ہو، تو خوش آمدید، اور اگر یہ منظور نہیں تو ہم میں سے کسی نے تم سے کوئی شکایت نہیں کی‘‘۔ سیکرٹری جنرل نے یہ واقعہ یاد دلاتے ہوئے کہا کہ اب بھی کسی سازباز یا اپنے موقف سے دست بردار ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
اخوان المسلمون کے خلاف گرفتاریوں میں اچانک تیزی آجانے پر سب تجزیہ نگار حیرانگی کا شکار ہیں۔ مختلف اندازے لگائے جارہے ہیں۔ اکثر افراد کا دو نکات پر اتفاق ہے۔ ایک تو وہی مسئلہ فلسطین کہ مصری انتظامیہ اخوان کے خلاف کارروائیوں سے صہیونی انتظامیہ کی خوشنودی چاہتی ہے اور اہلِ غزہ کو مزید مایوس و پریشان کرنا چاہتی ہے۔ دوسرے، خود مصر میں تبدیلی کے امکانات اور آیندہ برس ہونے والے عام انتخابات میں اخوان کو مزید کنٹرول کرنے کی خواہش۔
بڑھاپے کی آخری حدوں کو چھوتا حسنی مبارک (پ: ۱۹۲۸ء) اب اپنا ۲۸ سالہ اقتدار اپنے وارث جمال حسنی مبارک کو سونپنا چاہتا ہے۔ اس خواہش کی راہ میں اخوان ہی سب سے بڑی، بلکہ اکلوتی رکاوٹ ہیں۔ گذشتہ انتخابات میں تمام تر رکاوٹوں کے باوجود اخوان نے ۸۸نشستیں حاصل کرلی تھیں۔ آیندہ اس منظرنامے کو ہر صورت روکنا، مصری حکومت کا سب سے بڑا خواب بن چکا ہے۔ سیکرٹری جنرل ڈاکٹر محمود عزت سے دریافت کیا گیا کہ: ’’سنا ہے کسی حکومتی ذمہ دار نے مرشدعام کو پیش کش کی ہے کہ آیندہ انتخاب سے باہر رہیں تو تمام گرفتار شدگان رہا کیا جاسکتے ہیں…؟ انھوں نے کہا: جو بات ہوئی وہ یہ ہے کہ ایک صاحب مرشدعام سے ملنے کے لیے آئے، انھوں نے دعویٰ کیا کہ وہ ایک اہم حکومتی ذمہ دار سے رابطے میں ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اخوان آیندہ انتخاب سے باہر رہیں تو ہم تمام قیدی چھوڑنے کے لیے تیار ہیں، لیکن مرشدعام کا جواب واضح تھا۔ انھوں نے کہا: ’’پہلی بات تو یہ ہے کہ اس اہم حکومتی ذمہ دار نے اگر کوئی بات کرناہے تو براہِ راست ہم سے کرے، تاکہ ہمیں بھی معلوم ہو کہ ان کی پوری اور اصل بات کیا ہے۔ دوسرے انھیں یہ یقین رہنا چاہیے کہ اگر وہ کوئی بھی ایسی تجویز پیش کریں گے جو مصر کے قومی مفاد میں ہو تو ہم حکومت سے تمام تر اختلاف کے باوجود اسے قبول کرسکتے ہیں، اور تیسری بات یہ کہ ہم ایک منظم جماعت ہیں جس میں فیصلے مشاورت سے کیے جاتے ہیں۔ اگر کوئی سنجیدہ اور مبنی بر اخلاص تجویز سامنے آئے گی تو ہماری شوریٰ ہی اس بارے میں حتمی فیصلہ کرنے کی مجاز ہوگی‘‘۔ مرشدعام کی یہ بات سن کر وہ شخص چلا گیا اور پھر لوٹ کر نہیں آیا۔
مجموعی طور پر جائزہ لیا جائے تو حالیہ گرفتاریوں کی تینوں ممکنہ وجوہات درست ہیں۔ مسئلہ فلسطین، مصر میں تبدیلی کے امکانات اور آیندہ انتخابات۔ اس تناظر میں خدشہ ہے کہ گرفتاریوں کا سلسلہ مزید دراز اور وسیع ہوگا لیکن یہ حقیقت بھی سب ہی جانتے ہیں کہ اخوان کو جتنا بھی کچلا گیا وہ اتنا ہی زیادہ توانا و مضبوط اور کامیاب ہوئے۔ اب بھی گرفتاریوں کا نتیجہ یقینی طور پر یہی نکلے گا کہ آزمایشیں اخوان کو مزید کندن بنائیں گی۔ یہی تاریخ کا سبق ہے، یہی سنتِ الٰہی ہے اور یہی اسلام کی فطرت ہے۔
۴ سالہ فر.اس کا ایک ہاتھ اس کی والدہ کے ہاتھ میں تھا۔ وہ گاہے اسے سہلاتی اور گاہے اپنے بیٹے کی بند آنکھوں میں جھانکنے کی کوشش کرتی۔ جو انجکشن نرس کے پاس تھا وہی بار بار لگاکر اس کی تکلیف کم کرنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی، حالانکہ اسے علم تھا کہ یہ انجکشن اس کا علاج نہیں ہے۔ اس کے والد کو معلوم تھا کہ نسخے میں درج ادویات نہیں مل سکیں گی، لیکن بے تاب ہوکر وہ مزید تلاش کے لیے ہسپتال کے باہر بھاگ دوڑ کر رہا تھا۔ اسی دوران میں اچانک فر.اس کی سانس اکھڑی اور پھر چند لمحوں میں، والدہ کے ہاتھ میں تھامی ہوئی اس کی کلائی کسی مرجھائی ہوئی شاخ کی طرح جھولنے لگی۔ ماں باپ آنسوئوں کی جھڑی میں بیٹے کی لاش سنبھالنے لگ گئے۔ یہ منظر غزہ کے ایک ہسپتال کا تھا جہاں ایک فر.اس نہیں، روزانہ کئی فر.اس صرف اس وجہ سے علاج نہیں کروا پاتے کہ ان کے لیے مطلوب ادویات غزہ میں نہیں پہنچائی جاسکتیں۔ اس لیے کہ غزہ کو تین اطراف سے یہودی ملک اسرائیل نے گھیر رکھا ہے اور چوتھی جانب سے مسلم ملک مصر نے دروازے بند کر رکھے ہیں۔
فر.اس کی رخصتی کا یہ پورا منظر، براہِ راست الجزیرہ ٹی وی پر اس لیے آگیا کہ وہ فلسطین پر صہیونی قبضے کے ۶۱ برس پورے ہونے، اور پوپ مقرر کیے جانے کے بعد پہلی بار کسی مسلمان علاقے کے دورے پر آئے ہوئے عیسائی پیشوا کی مصروفیات پر غزہ سے ایک رپورٹ دے رہا تھا۔ اُردن اور پھر مقبوضہ فلسطین کے اپنے ۸ روزہ دورے میں پوپ بینی ڈِکٹ شانزدہم نے کئی خطبے اور بہت سے اہم پیغامات دیے۔ پوپ بینی ڈِکٹ کا یہ دورہ ابتدا ہی سے متنازع تھا۔ سب سے پہلا اعتراض اُردن کی سیاسی اور دینی جماعتوں کی طرف سے کیا گیا کہ: پوپ یا مسیحیوں سے ہماری کوئی دشمنی نہیں ہے، لیکن پوپ نے اپنا یہ مذہبی منصب سنبھالنے کے فوراً بعد ہی اپنے ایک لیکچر میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کرکے پوری اُمت محمدیؐ کے دل زخمی کیے تھے۔ اسلام کو بزور تلوار پھیلنے والا مذہب قرار دیا تھا، اور ۱۴ویں صدی عیسوی کے ایک بازنطینی حکمران کے وہ قبیح الفاظ دہرائے تھے، جو اس نے ایک مسلمان فلسفی سے مناظرہ کرتے ہوئے آں حضوؐر کے بارے میں کہے تھے۔ اب اگر پوپ واقعی عالمِ اسلام کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں تو رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارک کے بارے میں کہے ہوئے الفاظ واپس لے لیں۔ مگر افسوس کہ پوپ نے کوئی معذرت نہیں کی اور صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا تھا کہ: ’’مجھے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہونے پر افسوس ہے‘‘۔
اپنے تین روزہ دورۂ اُردن اور پانچ روزہ دورۂ مقبوضہ فلسطین کے دوران میں پوپ نے اپنی تمام گفتگوئوں میں یہودیوں کو خوش کرنے کی بار بار کوشش کی۔ اُردن میں واقع جبل نیبو جو کہ عیسائیوں اور یہودیوں دونوں کے نزدیک مقدس مقام تھا، کے دورے سے ہی انھوں نے محبت ناموں کا آغاز کردیا تھا۔ مثال کے طور پر سب سے پہلے تو اپنے دورئہ مشرق وسطیٰ کو ’سفرِحج‘ قرار دیتے ہوئے کہا: ’’سرزمین مقدس کا حج ہماری قدیم روایت ہے اور یہ سفر ہمیں مسیحی کنیسے اور یہودی قوم کے درمیان وحدت اور ناقابلِ انقطاع تعلقات کی یاد دہانی کرواتا ہے‘‘۔
انھوں نے مسیحی پیشوا ہونے کے ناتے اپنا مغفرت و معافی کا اختیار استعمال کرتے ہوئے یہودی قوم کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی (نام نہاد) پھانسی کی سزا سے بھی بری الذمہ قرار دے دیا۔ انھوں نے یہودیوں پر نازیوں کے (مبالغہ آمیز) جرائم پر اپنے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس کی مذمت کی اور دیوارِ گریہ کا دورہ کرتے ہوئے یہودی عبادات کی پیروی کی اور یہودی روایات کے مطابق دیوار کے شگافوں میں سے ایک شگاف میں اپنی دعائوں اور آرزوئوں پر مشتمل پرچی ٹھونس دی۔ پھر توازن پیدا کرنے کے لیے بعض مسلم مقامات مقدسہ کا دورہ بھی کیا۔ اُردن میں شاہی مسجد، مسجدحسین بن طلال اور بیت المقدس میں گنبد صخرہ بھی گئے لیکن نہ جانے اسے غفلت کہا جائے یا عمداً کی گئی غلطی کہ انھوں نے مسجدحسین کے اندر جاتے ہوئے جوتے اتارنے تک کا تکلف نہیں کیا اور جب یہ عمل احتجاج کا سبب بنا تو ان کے دفتر نے یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ ’’کسی نے انھیں جوتے اتارنے کا کہا ہی نہیں‘‘۔
سوال یہ ہے کہ پوپ نے اپنے اس ’حج‘ کے لیے فلسطین پر یہودی قبضے اور اسرائیلی ناجائز ریاست کے قیام کی ’برسی‘ کا انتخاب ہی کیوں کیا؟ خود فلسطینی عیسائی باشندوں کے مطابق یہ دورہ سال کے کسی بھی دوسرے موقع پر ہوسکتا تھا۔ پوپ اور ان کا دفتر شاید اپنے تئیں اس کی کوئی تاویل رکھتا ہو لیکن ’’شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے‘‘ کے مصداق، وقت کے اس انتخاب نے ان کے سیاسی مقاصد کو پوری طرح بے نقاب کر دیا۔ اپنے اس دینی دورے میں انھوں نے اسرائیلی ذمہ داران اور یہودی مذہبی پیشوائوں سے ملاقاتیں کیں اور ساتھ ہی ساتھ تقریباً چار سال قبل اغوا ہونے والے یہودی فوجی گلتاد شالیط کے گھر جاکر ان کے اہلِ خانہ سے بھی اظہار ہمدردی و یک جہتی کیا۔ معلوم تو انھیں بھی تھا کہ اس وقت صہیونی جیلوں میں ۱۱ ہزار فلسطینی باشندے قید ہیں، جن میں ۳۰۰ بچے اور ۲۹ خواتین بھی ہیں۔ ۴۳ منتخب ارکان اسمبلی اور حماس کے وزرا بھی ہیں اور ان ہزاروں قیدیوں میں نائل البرغوثی (ابوالنور) نامی ایک قیدی ایسا بھی ہے، جو گذشتہ ۳۵ سال سے مسلسل قید میں ہے۔ ۵۰سالہ نائل ۱۵برس کی عمر میں قید ہوا اور اب وہ دنیا کا سب سے طویل قید بھگتنے والا قیدی بن چکا ہے۔ اس کے ماں باپ اپنے قیدی بیٹے سے ملاقات کا خواب آنکھوں میں سجائے دنیا کی قید سے آزاد ہوگئے لیکن ابوالنور آزادی کا نور نہیں دیکھ سکا۔ پوپ ان ہزاروں مسلم قیدیوں کی رہائی نہ سہی، صرف عیسائی قیدیوں کی رہائی کے لیے ہلکا سا اشارہ کر دیتے، مگر یہودیوں کے مقابلے میں وہ اپنے ہم مذہبوں کے لیے بھی یہ ہمت نہ دکھا سکے۔
اس عدمِ توازن کا سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ نازی جرائم کی مذمت، اور ان پر پوری یہودی قوم سے معذرت تو کر لی گئی، حالانکہ یہ کہانی اپنی انتہائی مبالغہ آمیزی کے باعث متنازع ہے۔ اس کے برعکس جن جرائم کے وقوع پذیر ہونے پر کوئی اختلاف نہیں ہے، جن جرائم کو پوری دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ غزہ پر گذشتہ دسمبر اور جنوری میں توڑی جانے والی قیامت تو آج بھی غزہ کے حصار کی صورت میں جاری ہے، جہاں نہ جانے کتنے بچے صرف دوا نہ ملنے کے باعث مائوں کی آغوش میں دم توڑ رہے ہیں، اس اکیسویں صدی کے ’نازی ازم‘ کے بارے میں پوپ کے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں ادا ہوسکا۔ بس اتنا فرمایا کہ: فلسطینی اور یہودی شدت پسندی چھوڑ کر بقاے باہمی کی راہ اختیار کریں۔ گویا صہیونی ریاست کی طرف سے فاسفورس بموں کی بارش، گذشتہ ۶۱ برسوں سے جاری بے محابا مظالم، فلسطین کے لاکھوں باشندوں کو اجنبی قرار دے کر انھیں بے گھر کردینا، غزہ کے ۱۵ لاکھ باشندوں کا مسلسل محاصرہ، اور یہودی غاصبوں کے مقابلے میں بچوں کا پتھرائو، غلیلیں لے کر آجانا، اپنی جان پر کھیل کر احتجاج کرنا کیا شدت پسندی ہے…؟ چلیے ۶۱سال کے جرائم کو بھی چھوڑ دیتے صرف غزہ میں وقوع پذیر حالیہ درندگی کی مذمت اور اس پر افسوس ہی ظاہر کردیتے کہ جس میں ۱۳۱۲ فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، جن میں ۴۱۰ بچے بھی تھے۔ ۵۳۴۰ زخمیوں کی بیمارپرسی کرلیتے، جن میں سے ۳۵فی صد بچے تھے، ۲۰ ہزار تباہ شدہ گھر نہ دیکھتے ان میں سے ۲۳ مساجد اور ۶۰ اسکولوں کی تباہی پر ہی احتجاج کرلیتے۔
جناب پوپ نے اہلِ فلسطین کی حمایت میں جو کلماتِ دل پذیر ادا کیے اور جن پر عالمِ اسلام کے کئی مقتدر لوگوں نے تعریف و ستایش کے ڈونگرے برسائے ہیں، بلکہ یہاں پاکستانی اخبارات میں بھی اداریے لکھے گئے، حالاں کہ ان کلماتِ دلنشیں میں، ’جناب پوپ‘ کا ایک بیان یہ بھی تھا کہ: ’’فلسطینی اور یہودی دو ریاستوں کی بنیاد پر اپنے تنازعات حل کرلیں‘‘۔ یہ دو ریاستی فلسفہ سادہ الفاظ میں یہ ہے کہ فلسطینی اور مسلمانانِ عالم یہودی ریاست اسرائیل کو تسلیم کرلیں اور اسرائیلی، فلسطین نام کی ایک ریاست بناکر اسے تسلیم کرلیں۔ یہ فلسفہ جناب پوپ ہی نہیں ایہود باراک، ایہود اولمرٹ اور سیبی لیفنی سمیت متعدد حالیہ اور سابقہ ذمہ داران کئی بار دہرا چکے ہیں۔ ۱۹۹۳ء میں اوسلو معاہدے کی بنیاد بھی اسی فلسفے پر رکھی گئی تھی، لیکن اس فلسفے کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ اوسلو معاہدہ اور متعدد روڈمیپ آجانے کے ۱۶ برس بعد بھی یہ نہیں بتایا جا رہا کہ فلسطینی ریاست کی حدود کیا ہوں گی اور صہیونی ریاست کی سرحدیں کہاں جاکر رکیں گی۔ اگر غزہ اور مغربی کنارے کے کٹے پھٹے علاقے پر فلسطینی ریاست کی تہمت لگا کر کوئی سمجھتا ہے، کہ وہ کوئی مبنی برانصاف یا قابلِ قبول حل پیش کر رہا ہے تو بصد افسوس عرض ہے کہ وہ اپنے تمام تر مذہبی رتبے اور دعوی ہاے پارسائی کی توہین کے علاوہ کچھ بھی نہیں کر رہا۔
باعث ِ تشویش امر یہ ہے کہ ایک طرف تو مسلم دنیا کو دو ریاستی فارمولے کے کھلونے سے بہلایا جا رہا ہے اور دوسری طرف انھی دنوں بیت المقدس میں ظلم و تعدّی کا نیا بازار گرم کیا جا رہا ہے۔ بیت المقدس کو مکمل یہودی شہر بنانے کے منصوبے پر ایک بار پھر پورے زوروشور سے کام شروع کردیا گیا ہے۔ اس وقت بھی بیت المقدس میں ۶۰ ہزار فلسطینی بستے ہیں۔ وہ خود کو مسجداقصیٰ کے محافظ و خادم سمجھتے ہیں۔ صہیونی ریاست نے بیت المقدس کو ہمیشہ اپنا ابدی دارالحکومت قرار دیا ہے۔ قیامت ِ غزہ کے بعد اب تہویدِ قدس کے نام سے ان ۶۰ ہزار فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کا آغاز کردیا گیا ہے۔ ایک ایک کرکے ان کے گھر چھینے جارہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ مسجداقصیٰ کو شہید کرکے وہاں نام نہاد ہیکل سلیمانی لاکھڑا کرنے کی نئی تاریخیں دی جارہی ہیں۔ مگر جناب پوپ کو یہ چیخیں، ظلم کی داستانیں اور حق و انصاف کی پامالیوں پر مبنی اقدامات دکھائی نہیں دیتے۔
یہ پوپ ہوں یا صہیونی قیادت اور اس کے ناپاک ارادے ہوں، ان سے تو شکوہ نہیں کیا جاسکتا۔ اصل شکوہ تو مسلم دنیا کے حکمرانوں سے ہے۔ ۱۰ مئی کو نئے صہیونی وزیراعظم نتن یاہو نے خود بیماری کی اصل جڑ کی نشان دہی کردی۔ اس نے مصری صدر حسنی مبارک اور اُردنی شاہ عبداللہ سے ملاقات کے بعد بیان دیا کہ ’’صہیونیت کی تاریخ میں پہلی بار عربوں کے ساتھ ہمارا ایسا وسیع تر اتفاق ہوا ہے کہ جس میں مشترکہ خطرات کی نشان دہی کی گئی ہے۔ یہ خطرہ ہم سب کے لیے باعث ِ تشویش ہے‘‘۔ وہ ایران کے ایٹمی پروگرام پر تبصرہ کر رہا تھا۔ اس سے پہلے اس کا وزیرخارجہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو عالمی امن کے لیے اصل خطرہ قرار دے چکا ہے۔
ہر آنے والا دن جعفر و صادق کے پردے میں چھپے غداروں کو بے نقاب کر رہا ہے۔ ۴سالہ فر.اس کی ماں صدمے کے باوجود، تدفین کے بعد کہہ رہی تھی: ’’فِراس زندہ ہے، وہ مجھے اور مجھ جیسی کروڑوں مائوں کو جدوجہد کا پیغام دے رہا ہے، جدوجہد اور مسلسل جدوجہد ہی اصل علاج ہے‘‘۔
۲۹ مارچ کو ہونے والے ترکی کے بلدیاتی انتخابات کی بازگشت ابھی جاری تھی کہ ۹ اپریل کو انڈونیشیا کے عام انتخابات نے دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا لی۔ پھر اپریل کو الجزائر میں بھی صدارتی انتخابات کا رسمی اہتمام و غوغا دکھائی اور سنائی دیا، جس کے نتائج اکثر عرب ممالک کے معمول کے مطابق موجودہ صدر بوتفلیقہ کے حق میں نکلے۔ ۹۰فی صد ووٹ اپنے نام سے منسوب کرکے وہ اپنے تئیں آیندہ مزید پانچ برس کے لیے صدر منتخب ہوگئے۔
انھی دنوں کویت کے امیر نے ایک بار پھر پارلیمنٹ کی معطلی کے بعد ۱۶مئی کو نئے عام انتخابات کا اعلان کردیا۔ یہ گذشتہ ۳ سالوں کے دوران چوتھے انتخابات ہیں۔ ہر بار اپوزیشن میں موجود مختلف اسلامی گروپوں کے افراد نے متعدد وزرا اور ذمہ دارانِ حکومت کے خلاف تحریکاتِ مواخذہ پیش کیں اور انھیں مزید زیربحث آنے سے بچانے کے لیے پارلیمانی بحران کا آسان حل پارلیمنٹ کی تحلیل اور نئے انتخابات سمجھا گیا۔ انتخابات تو شاید پوری دنیا میں ہی پیسے کا کھیل بن گئے ہیں، لیکن کویت کے متمول معاشرے میں انتخابی اسراف میں مسابقت نے خود اہلِ کویت کو بھی حیرت زدہ کر دیا ہے۔ یہ کثیر اخراجات اس کے باوجود ہیں کہ وہاں انتخاب میں اصل فیصلہ کن عنصر، پارٹیوں اور قبیلوں سے نسبت قرار پاتا ہے۔ اب تک کے تجربات کے مطابق آدھی سے زیادہ پارلیمانی نشستیں مختلف اسلامی دھڑوں کے حصے میں آتی ہیں جن میں سرفہرست ’دستوری تحریک‘ کے نام سے اسلامی تحریک اور سلفی و شیعہ دھڑوں کے افراد ہوتے ہیں۔ آیندہ انتخابات میں بھی کم و بیش یہی نتائج رہنے کی توقع ظاہر کی جارہی ہے البتہ چہرے شاید تبدیل ہوجائیں۔
انھی دنوں لبنانی انتخابات کا غلغلہ بھی عروج پر ہے۔ شیعہ، سنی اور عیسائی آبادیوں میں عمومی تقسیم کے باعث یہ انتخابات بھی علاقائی و عالمی توجہ حاصل کر رہے ہیں۔ اس کا اہم ترین سبب حزب اللہ ہے۔ حزب اللہ کی اہمیت کی وجہ اپنی منظم قوت کے علاوہ اس کے شام اور ایران سے مضبوط تعلقات، ماضی قریب میں رفیق حریری کی جماعت سے اور حال ہی میں مصر سے ہونے والے اختلافات و تنازعات بھی ہیں۔ مصر نے صحراے سینا سے کچھ لبنانی باشندوں کو گرفتار کرتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ یہ حزب اللہ کے دہشت گرد ہیں جو غزہ کو ہتھیار سمگل کرنے کے علاوہ مصر میں بھی دہشت گردی پھیلانا چاہتے تھے۔
۱۶ اپریل سے شروع ہونے والے اور ۱۳مئی تک جاری رہنے والے بھارتی انتخابات بھی ذرائع ابلاغ میں خوب جگہ پا رہے ہیں۔ اگرچہ بی جے پی یا کانگریس اور ان کی حلیف جماعتوں میں سے کسی کی بھی کامیابی سے بھارت کی عمومی پالیسیوں میں عملاً کوئی خاص فرق رونما نہیں ہوتا لیکن ہار اور جیت کے بعض نفسیاتی اثرات ملک کے اندر اور باہر اہم سمجھے جاتے ہیں۔ ان انتخابات میں اندرا گاندھی کے پوتے رُوَن گاندھی کی مسلمان دشمنی پر مبنی ہرزہ سرائی نے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعوے داروں کے حقیقی چہرے سے کچھ پردہ سرکایا ہے۔ مسلمانوں کو قابلِ گردن زدنی قرار دینے کے باوجود حرام ہے کہ اس ’گاندھی زادے‘ کو لگام دینے اور کروڑوں بھارتی مسلمانوں کو احساس تحفظ دینے کے لیے سب سے بڑی جمہوریت نے کوئی بھی مؤثر کارروائی کی ہو۔ البتہ ان انتخابات کی ایک اہم بات یہ ہے کہ مسلمانوں میں ووٹ دینے کی اہمیت کا احساس بڑھا ہے، اگر مؤثر و معقول قیادت اور باہمی یک جہتی بھی نصیب ہوجائے تو کسی کو دھمکیاں دینے کی ہمت نہ ہو۔
انتخابی موسم میں ۶ جون کو ہونے والے موریتانیا کے صدارتی انتخابات کا ذکر اس حوالے سے دل چسپ ہے کہ چند ماہ قبل ایک منتخب حکومت کا تختہ اُلٹ کر برسرِاقتدار آنے والے جنرل محمد بن عبدالعزیز نے فوجی وردی اُتارنے کا اعلان کردیا ہے۔ اس وقت ملک پر ایک فوجی کونسل کا اقتدار مسلط ہے۔ جنرل صاحب خود اس کے سربراہ تھے۔ اب اگرچہ استعفا دے کر سینیٹ کے سربراہ کو دو ماہ کی عبوری حکومت سونپنے کا اعلان کیا گیا ہے لیکن فوجی کونسل کا وجود باقی رہے گا۔ اب اس کی ذمہ داری ملک میں امن و امان برقرار رکھنا قرار دی گئی ہے۔ اسی کے زیرسایہ ۶جون کے انتخابات ہوں گے تاآنکہ ریٹائرڈ جنرل صاحب عوام کے پُرزور اصرار اور شاید اِسی ۹۰ فی صد والے تناسب سے کامیاب ہوکر منتخب ’سویلین‘ صدر ہوجائیں۔
۱۲ جون کو منعقد ہونے والے ایرانی صدارتی انتخابات کی تیاریاں بھی جاری ہیں، لیکن ابھی اس کا ناک نقشہ پوری طرح واضح نہیں ہوا۔ امیدواروں کے ناموں کے حوالے سے متضاد اطلاعات آرہی ہیں البتہ ایک بات طے شدہ لگتی ہے کہ ایران میں اصل حکمران طاقت یعنی علماے کرام، رہبر آیت اللہ علی خامنہ ای کی سربراہی میں اپنا سفر اسی نفوذ و ثبات کے ساتھ جاری رکھیں گے۔ امریکی صدر اوباما کی طرف سے ایران کے ساتھ بات چیت اور اچھے تعلقات کی خواہش پر مبنی بیانات نے ایرانی قیادت کو مزید توانائی فراہم کی ہے۔ حماس و حزب اللہ کی تائید اور اسرائیل کی مخالفت سے بھی پذیرائی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ان تمام انتخابات میں ترکی کے بلدیاتی اور انڈونیشیا کے پارلیمانی انتخابات اس لحاظ سے خصوصی اہمیت کے حامل ہیں کہ دونوں ممالک میں اسلامی طاقتوں نے اپنے قدم مزید آگے بڑھائے ہیں۔ ترکی کی حکمران، ’انصاف و ترقی (جسٹس و ڈویلپمنٹ) پارٹی‘ کو ووٹوں کا ۳۹ فی صد حصہ ملا ہے اور تمام بڑے شہروں سمیت بلدیاتی اداروں کا ۴۶ فی صد۔ ان کے یہ ووٹ عام انتخابات میں انھیں ملنے والے (۴۷ فی صد) ووٹوں سے کم ہیں لیکن وہ اپنے تئیں مطمئن نہ ہونے کے باوجود سمجھتے ہیں کہ بلدیاتی انتخابات میں عام طور پر ووٹ زیادہ تقسیم ہوجاتے ہیں اور قومی سے زیادہ مقامی سیاست اور تعلقات اثرانداز ہوتے ہیں۔
دوسری طرف پروفیسر ڈاکٹر نجم الدین اربکان کی ’سعادت پارٹی‘ نے پارٹی کے نئے صدر ڈاکٹر نعمان کور تلموش کی سربراہی میں لڑے جانے والے انتخابات میں عام انتخابات میں حاصل ہونے والے ۳ فی صد ووٹوں میں ۱۰۰ فی صد اضافہ کرتے ہوئے ۶ فی صد ووٹ حاصل کیے ہیں۔ ان کے بقول یہ ووٹ ہماری توقعات سے کم ہیں لیکن پھر بھی دگنے تو ہوگئے، آیندہ عام انتخابات میں ہم بہرصورت اسمبلی میں اپنا کردار ادا کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ واضح رہے کہ پارلیمانی انتخابات میں ۱۰ فی صد سے کم ووٹ لینے والی پارٹی کے ووٹ بھی بڑی پارٹیوں میں تقسیم کرتے ہوئے اسے اسمبلی میں جانے سے روک دیا جاتا ہے۔
عین انتخابات کے دنوں میں ناٹو کے نئے سربراہ کا انتخاب بھی ہوگیا جس کے لیے ڈنمارک کے وزیراعظم اینڈرس فوگ راسموسن کا نام پیش کیا گیا تھا۔ ترکی نے اس کے نام پر اعتراض کیا لیکن امریکی و یورپی اصرار پر اسی کو سیکرٹری جنرل بنا دیا گیا، البتہ ترکی کو اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل کا عہدہ دے دیا گیا جو یقینا راسموسن کے شر کو کم کرنے اور ترکی کے کردار میں اضافے کا ذریعہ بنے گا۔ واضح رہے کہ سیکرٹری جنرل کے انتخاب کے لیے ناٹو کے تمام ۲۸ ارکان کا اجماع ضروری ہے۔ منتخب ہونے کے بعد راسموسن نے بیان دیا ہے کہ وہ مسلمانوں کا احترام کرتا ہے اور ان سے مذاکرات کرے گا۔ بلدیاتی انتخابات کے فوراً بعد امریکی صدر اوباما نے ترکی کا اہم دورہ کیا۔ اس دورے کی بازگشت کئی ہفتوں سے سنی جارہی تھی اور کہا جا رہا تھا کہ امریکی صدر عالمِ اسلام بلکہ اُمت مسلمہ کو اہم پیغام دے گا۔ صدر منتخب ہونے کے بعد ان کا کسی بھی مسلم ملک کا یہ پہلا دورہ تھا۔ اوباما نے ترکی میں وزیراعظم اردگان کے ہمراہ تاریخی مساجد اور عثمانی آثار کا دورہ یا ’سیر‘ کرتے ہوئے عالمِ اسلام سے دوستی کی خواہش کا اظہار بھی کیا۔ انھوں نے کہا کہ میں واضح طور پر اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ امریکا عالمِ اسلام کے ساتھ حالت ِ جنگ میں نہیں ہے… ہم باہمی احترام اور مشترک مفادات کی بنیاد پر وسیع تر تعاون کی راہ نکالیں گے۔ ہم دھیان سے بات سنیں گے، غلط فہمیوں کا ازالہ کریں گے اور مشترکات کی تلاش جاری رکھیں گے‘‘۔ خدشہ ہے کہ خلافت عثمانی کے دارالحکومت سے دیے گئے یہ بیانات نقش برآب ثابت ہوں گے کیونکہ اصل فیصلہ اقوال نہیں اعمال کی بنا پر ہوتا ہے۔
انڈونیشیا کے حالیہ انتخابات جولائی ۱۹۹۸ء میں صدر سوہارتو کے ۳۲ سالہ اقتدار کے خاتمے کے بعد تیسرے عام انتخابات تھے۔ ۳۸ چھوٹی بڑی پارٹیوں اور گروہوں نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے ۱۸ لاکھ امیدوار میدان میں اُتارے تھے۔ ۱۷ کروڑ ووٹروں کو ووٹ کا حق حاصل تھا۔ تجزیہ نگاروں نے پانچ سیاسی پارٹیوں کو فیصلہ کن قوتیں قرار دیا تھا، نتائج کے بعد اکانومسٹ کے مطابق جیتنے والا صرف ایک تھا اور ہارنے والے کئی۔ موجودہ صدر (ریٹائرڈ جنرل) سوسینو بامبانگ یودھویونو کی ’ڈیموکریٹک پارٹی‘ ۲۰ فی صد ووٹ لے کر سب سے بڑی قوت بن گئی۔ ۲۰۰۴ء میں ہونے والے انتخابات کی نسبت اس پارٹی کے ووٹ ۳ گنا زیادہ ہوگئے۔ میگاوتی سوئیکارنو پتری کی پارٹی نے ۱۵ فی صد، جب کہ سابق صدر سوہارتو کی ’گولکر پارٹی‘ کے موجودہ سربراہ اور ملک کے حالیہ نائب صدر یوسف کالا نے ۱۴ فی صد ووٹ حاصل کیے۔ نائب صدر آیندہ صدارتی انتخابات میں صدر سوسینو کے مدمقابل صدارتی امیدوار بننے کی کوشش کر رہے ہیں، جب کہ چوتھے نمبر پر وہاں کی اسلامی تحریک ’جسٹس پارٹی‘ آئی ہے، اسے ۴ء۸ فی صد ووٹ حاصل ہوئے۔
انتخابات کے باقاعدہ نتائج کا اعلان ۹مئی کو ہوگا۔ ابھی تک صرف یہی تناسب بتانے پر اکتفا کیا گیا ہے، سیٹوں کی تعداد بعد میں ہی بتائی جائے گی۔ جسٹس پارٹی نے سوہارتو کی ۳۲ سالہ طویل ڈکٹیٹرشپ کے بعد ۱۹۹۹ء کے انتخابات میں پہلی بار شرکت کی اور ۴ء۱ فی صد ووٹ حاصل کیے۔ پھر ۲۰۰۴ء کے انتخابات میں ۳ء۷ فی صد ووٹ لیے اور اب ۴ء۸ فی صد۔ پارٹی کے سربراہ ہدایت نور وحید کے مطابق جو گذشتہ پارلیمنٹ کے اسپیکر اور انتہائی قابلِ احترام شخصیت ہیں، ووٹوں کی نسبت سیٹوں کی تعداد میں زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ ملک کی چالیس سے زائد پارٹیوں میں جسٹس پارٹی ہی واحد جماعت ہے جس کے ارکان اور ذمہ داران پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے۔ اسلامی پارٹیاں کہلانے والی جماعتوں کے کل ووٹ گذشتہ انتخابات کی نسبت کافی کم ہوئے ہیں۔ گذشتہ بار انھیں ۳۹ فی صد ووٹ ملے تھے جب کہ اب تقریباً ۳۰ فی صد۔ مجموعی کمی کے باوجود ’عدالت پارٹی‘ کو نہ صرف یہ کہ کوئی نقصان نہیں ہوا بلکہ اس کی سیٹوں اور ووٹوں میں اضافہ ہوا ہے۔
اب آیندہ مرحلے میں صدارتی انتخاب ہونا ہیں، نئے نئے اتحاد وجود میں آرہے ہیں۔ قوانین کے مطابق ہر صدارتی امیدوار کے لیے کسی نہ کسی ایسی پارلیمانی جماعت یا اتحاد کے ساتھ اتحادبنانا ضروری ہے جو ۵۶۰ ارکان کے ایوان میں کم از کم ۱۲ نشستیں رکھتا ہو۔ عام انتخابات کے بعد ہونے والی ملاقاتوں اور کئی بیانات سے یہ امکان قوی تر ہو رہا ہے کہ صدر سوسینو کی ڈیموکریٹک پارٹی اور اسلامی تحریک جسٹس پارٹی کے درمیان انتخابی اتحاد وجود میں آجائے۔ خود صدر کی طرف سے بار بار اس خواہش کا اظہار کیا گیا ہے، لیکن جسٹس پارٹی کے سربراہ ہدایت نور وحید نے ایک پالیسی بیان میں کہا ہے کہ سیاسی اتحاد صرف سرکاری مناصب کی تقسیم کے لیے نہیں، بلکہ اس بنیاد پر بننا چاہیے کہ جیتنے والا اپنے اعلان کردہ پروگرام اور منشور پر عمل درآمد کرسکے، ووٹروں کے اعتماد پر پورا اُتر سکے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہم چند ووٹوں کے فرق سے جیتنے والے صدر کے بجاے مضبوط بنیادوں پر قائم اور مضبوط ارادوں کا مالک صدر چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ماضی کے ایسے تجربات دوبارہ نہ دہرائے جاسکیں کہ کسی بھی چھوٹے سے سیاسی مسئلے کو بنیاد بناکر صدر اور نائب صدر کو اپنے پروگرام پر عمل درآمد نہ کرنے دیا جائے۔ حالیہ انتخابی نتائج بعض لوگوں کے لیے انتہائی غیرمتوقع ثابت ہوئے۔ ایک سیاسی لیڈر نے تو حرام موت ہی کا انتخاب کرلیا اور خودکشی کی نذر ہوگیا جب کہ دو کے لیے دل کا دورہ جان لیوا ثابت ہوا۔
انڈونیشیا کو بھی اگست ۱۹۴۷ء ہی میں ہالینڈ کے استعمار سے آزادی حاصل ہوئی تھی۔ تقریباً ۲۴ کروڑ نفوس پر مشتمل ہونے کے باعث آبادی کے لحاظ سے دنیا میںچوتھے اور عالمِ اسلام میں پہلے نمبر پر آنے والا انڈونیشیا، ڈکٹیٹرشپ اور مالی بدعنوانیوں کے باعث دنیا میں اپنا اصل مقام حاصل نہیں کر سکا۔ ۹۰ فی صد آبادی مسلمان ہے، ۷ فی صد عیسائی، ۲ فی صد ہندو اور ایک فی صد دیگر مذاہب سے ہیں۔ سوہارتو سے نجات کے بعد لگاتار تیسرے انتخاب منعقد ہوجانا اور بدعنوانیوں سے نجات کے مطالبے کا مرکزی حیثیت حاصل کر جانا اِس اُمید کو روشن تر کر رہا ہے کہ انڈونیشیا اپنے وسیع رقبے (ایک لاکھ ۹۱ ہزار ۹ سو ۴۰ مربع کلومیٹر)، بڑی آبادی اور کرپشن سے نجات کی دعوے دار اصلاحی تحریکوں کی کامیابی سے دنیا میں اپنا حقیقی کردار ادا کرسکے گا۔
حالیہ انتخابات سے پہلے ’کرپٹ لیڈروں کے خلاف قومی تحریک‘ کے عنوان سے ایک نمایاں سرگرمی سامنے آئی۔ جماعتی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر وجود میں آنے والے اس پلیٹ فارم نے ان لیڈروں کی فہرست تیار کی جن کی کرپشن کے باقاعدہ ثبوت ان کے پاس تھے۔ اس فہرست کو بڑے پیمانے پر عوام میں پھیلایا گیا۔ اس تحریک کے ایک ذمہ دار عدنان توبان نے رائٹر سے گفتگو میں کہا کہ ’’ہمارا مقصد ایسے افراد کو دوبارہ پارلیمنٹ جانے سے روکنا ہے جو ماضی میں اپنے دامن کو بدعنوانی سے نہیں بچاسکے‘‘۔ ایک سابق وزیر کے بقول: ’’اب حکومت اور عوام کے ساتھ ساتھ خود سیاسی پارٹیوں کی اصلاح کا وقت بھی آگیا ہے‘‘۔
عالمی انتخابی موسم میں عوام کا یہ روز افزوں احساسِ زیاں اطمینان کا باعث ہے۔ ترکی کے بعد انڈونیشیا کے انتخاب نے بھی اس حقیقت کو نمایاں کیا ہے کہ اگر پُرامن، شفاف، آزادانہ اور مسلسل انتخابات کا عمل جاری رکھا جائے تو نہ صرف تعمیر و ترقی اور اصلاح کو یقینی بنایا جاسکتا ہے بلکہ بہت سے ناقابلِ فہم، جلدباز اور لٹھ مار رجحانات کا راستہ بھی روکا جاسکتاہے جو نہ صرف اسلامی تعلیمات کا چہرہ مسخ کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں بلکہ اُمت کی وحدت و سالمیت کو بھی خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔
سچ فرمایا رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے: ’’جلدبازی کے لٹھ سے سواری کو ہلاک کرڈالنے والے نے نہ تو منزل حاصل کی اور نہ اپنی سواری ہی باقی رہنے دی‘‘۔ ان المنبت لا أرضاً قطع ولا ظھراً أبقی۔
سوڈان کے بارے میں مغرب کے عزائم کوئی خفیہ راز نہیں۔ وہی مغرب جسے غزہ میں انسانی حقوق کی پامالی، جارحیت، قتل و غارت، سفاکی و بے رحمی کچھ نظر نہیں آتا، دارفور میں ایسا کچھ نہ ہونے پر بھی، تمام عالمی اداروں کو حکومتِ سوڈان کے خلاف صف آرا کردیتا ہے۔ اقوامِ متحدہ نے ۲۰۰۴ء سے لے کر اب تک پوری ۱۱قراردادیں منظورکرڈالیں کہ حقوقِ انسانی کی صورت حال خراب ہے۔ سیکورٹی کونسل نے ۲۰۰۵ء میں اپنی قرارداد نمبر ۱۵۹۳ کے ذریعے یہ معاملہ عالمی عدالتِ جرائم میں بھیج دیا۔ ۱۴ جولائی ۲۰۰۸ء کو اٹارنی جنرل اوکامبو نے یہ الزام لگاتے ہوئے کہ ’’سوڈانی باشندے وزیر انسانی امور احمد محمد ہارون اور جنجا وید ملیشیا کے سربراہ علی قشیب دارفور میں قتلِ عام کے اصل ذمہ دار ہیں اور سوڈانی صدر انھیں ہمارے حوالے نہیں کر رہے، مطالبہ کیا کہ خود صدر کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کیے جائیں۔ ۴ مارچ ۲۰۰۹ء کو عدالت نے خود صدرعمرالبشیر ہی کو اس قتلِ عام کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے باقاعدہ وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔ اب اوکامبو کا کہنا ہے کہ جیسے ہی سوڈانی صدر ملک سے باہر نکلے گا انھیں گرفتار کرلیا جائے گا۔ امریکا اور فرانس نے بھی اس بارے میں بڑھ چڑھ کر دھمکیاں دی ہیں۔
دارفور کا بحران آخر ہے کیا؟عرب اور افریقی قبائل کے درمیان چراگاہوں کے مسئلے پر جھگڑا ہوا جسے فتنہ جو طاقتوں نے ہوا دے کر حکومت کے خلاف بغاوت کی شکل دی۔ تحریکِ آزادیِ سوڈان قائم کی جسے ہر طرح کی پشت پناہی اور مدد فراہم کی گئی۔ اس کے اسرائیل سے باقاعدہ روابط قائم ہیں۔ عالمی سطح پر بے بنیاد پروپیگنڈے کے ذریعے عمرالبشیر کو مجرم قرار دلوانے کی کوشش کی گئی۔
سوڈان کے دوست اور دشمن سب جانتے ہیں کہ یہ کوئی عدالتی نہیں، سراسر سیاسی مسئلہ ہے اور اصل ہدف سوڈانی صدر نہیں، سوڈان کی ریاست ہے۔ جس عدالت سے وارنٹ جاری کیے گئے ہیں اس کی تشکیل کے وقت دو باتیں طے کی گئیں: ایک تو یہ کہ یہ عدالت اپنی تاریخِ تشکیل (یکم جولائی ۲۰۰۲ء) سے پہلے کے واقعات کے بارے میں خاموش رہے گی۔ دوسرے یہ کہ جو ممالک اس عدالت کی تشکیل کی دستاویز پر دستخط اور ان دستخطوں کی توثیق نہیں کریں گے، عدالت ان ممالک کے بارے میں بھی کوئی مقدمہ نہیں سن سکے گی۔ یہی وجہ تھی کہ حال ہی میں ۴۰ سے زائد عراقی درخواست گزاروں نے عراق میں ہونے والے قتلِ عام اور ابوغُرَیب کے واقعات کے بارے میں مقدمہ درج کروانے کی کوشش کی تو اٹارنی جنرل اوکامبو نے یہ کہہ کر درخواستیں مسترد کردیں کہ عراق نے عدالت کو تسلیم ہی نہیں کیا اس لیے وہاں کا کوئی مقدمہ نہیں سن سکتے۔ یہی جواب غزہ کے بارے میں دی جانے والی درخواستوں کا بھی دیا گیا کہ اسرائیل نے عدالت کو تسلیم نہیں کیا۔ لیکن جب پوچھا گیا کہ سوڈان نے بھی تو اس عدالت کو تسلیم نہیں کیا…؟ (No comments) ،اس پر کوئی تبصرہ نہیں۔
یہ ہے عالمی عدالت کے انصاف اور انسان دوستی کی حقیقت! اس کے اٹارنی جنرل لوئیس مورینو اوکامبو نے یہ سارا بحران کھڑا کرنے اور ایک مسلمان حکمران کے خلاف مقدمہ قائم کرنے کے لیے اتنی زحمت بھی گوارا نہیں کی کہ خود دارفور جاکر حقائق و شواہد کا جائزہ لیتا۔ اس نے صرف بعض غیرسرکاری تنظیموں این جی اوز اور کچھ برسرِپیکار عناصر کی گواہیوں پر ہی مقدمے کی پوری عمارت کھڑی کر دی۔ ان ’عناصر‘ کی قلعی بھی خود صہیونی اخبارات کھول رہے ہیں۔
اس وارنٹ گرفتاری اور عالمی عدالت جرائم کے دائرۂ کار اور طریق کار کے بارے میں مزید کئی قانونی و اخلاقی پہلو بہت اہم ہیں، لیکن بنیادی طور پر چونکہ یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے اس لیے حکومت سوڈان بھی اسے سیاسی انداز ہی سے حل کر رہی ہے۔ ابھی تک سوڈان کی طرف سے اس عدالت میں نہ کوئی پیش ہوا، نہ کسی طرح مقدمے کی پیروی ہی کی گئی ہے۔ ہاں دارفور کی صورت حال کا سنجیدگی سے جائزہ لیتے ہوئے اصلاح احوال کی متعدد اہم کوششیں کی گئی ہیں۔ دارفور میں تعمیروترقی کے کئی منصوبے مکمل ہوچکے ہیں، مزید کئی پر کام جاری ہے۔ دارفور کے مختلف دھڑوں اور حکومت کے درمیان مذاکرات کے کئی ادوار ہوچکے ہیں۔ مختلف قبائل کے درمیان بھی مصالحت کروائی گئی ہے اور بعض اہم قبائل اور حکومت کے مابین بھی۔ اس ضمن میں اہم ترین کامیابی قطر کے دارالحکومت دوحہ میں حکومت سوڈان اور دارفور کے بعض نمایاں متحارب دھڑوں کے درمیان بین الاقوامی گارنٹی کے ساتھ طے پانے والا معاہدہ ہے۔ ۴ مارچ کو وارنٹ گرفتاری آنے کے چار روز بعد ہی سوڈانی صدر شمالی دارفور کے دارالحکومت فاشر پہنچ گئے۔ لاکھوں کی تعداد میں اہلِ دارفور نے ان کا استقبال کیا۔ اگلے ہفتے وہ جنوبی دارفور کے شہر سبدو پہنچ گئے یہاں بھی ایسا ہی منظر تھا۔ عمرالبشیر نے ان اجتماعات میں اس عدالت اور اس کی پسِ پشت قوتوں کو مخاطب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ’’آپ کے وارنٹ کو جوتے کی نوک پر رکھتا ہوں اور ان شاء اللہ اپنے عوام کے تعاون سے تعمیروترقی کا سفر جاری رکھوں گا‘‘۔ سوڈانی صدر نے ان اجتماعات ہی میں اعلان کرتے ہوئے ایسی کئی عالمی تنظیموں کو سوڈان سے نکل جانے کا حکم دیا جو ان کے بقول امدادی سرگرمیوں کے لیے نہیں، جاسوسی کے لیے آئی ہوئی تھیں۔ ان کے اس اعلان پر سب سے زیادہ ہنگامہ ہیلری کلنٹن نے برپا کیا‘‘۔
اسرائیلی داخلی سلامتی کے وزیر ’آفی ڈیخٹر‘ بغیر کسی لاگ لپٹ کے واضح طور پر کہہ چکے ہیں: ’’ہمارا ہدف سوڈان کے حصے بخرے کرنا اور وہاں خانہ جنگی کی آگ بھڑکائے رکھنا ہے، کیونکہ سوڈان اپنی وسیع و عریض سرزمین، بے تحاشا معدنی و زرعی وسائل اور بڑی آبادی کے ذریعے ایک طاقت ور علاقائی قوت بن سکتا ہے۔ سوڈان کے ہم سے دُور دراز ہونے کے باوجود عالمِ عرب کی قوت میں اضافے کا سبب نہیں بننے دینا چاہیے۔ اگر سوڈان میں استحکام رہا تو وہ اپنے وسائل کے ذریعے ایسی قوت بن جائے گا جس کا مقابلہ ممکن نہیں رہے گا۔ سوڈان سے اس کی یہ صلاحیت سلب کرلینا اسرائیلی قومی سلامتی کی ایک ناگزیر ضرورت ہے‘‘۔(۱۰ اکتوبر ۲۰۰۸ء کے اسرائیلی اخبارات)
اسرائیلی وزیر نے تاریخ سے ایک حوالہ دیتے ہوئے کہا: ’’۱۹۶۸ء سے ۱۹۷۰ء کے دوران جب مصر اور اسرائیل حالت ِ جنگ میں تھے تو سوڈان نے مصری فضائیہ کی اصل قوت اور بری افواج کے تربیتی مراکز کے لیے اپنی سرزمین فراہم کی تھی۔ اس صورت حال کے اعادے سے بچنے کے لیے اسرائیلی ذمہ داران کا فرض تھا کہ وہ سوڈان کے لیے ایسی مشکلات کھڑی کریں جن سے نکلنا اس کے لیے ممکن نہ رہے‘‘۔ وزیرداخلی سلامتی کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے سوڈان کے پڑوسی ممالک ایتھوپیا، یوگنڈا، کینیا اور زائیر میں سوڈان مخالف مراکز قائم کیے، اور اسرائیل کی تمام حکومتوں نے ان مراکز کو فعال رکھا ہے تاکہ سوڈان عالمِ عرب اور عالمِ افریقہ میں کوئی مرکزی حیثیت نہ حاصل کرسکے۔
اسی ترنگ میں دارفور کا ذکر کرتے ہوئے آفی ڈیخٹر کہتا ہے: ’’دارفور میں ہماری موجودگی ناگزیر تھی۔ یہ سابق اسرائیلی وزیراعظم شیرون کی دوربینی اور افریقی معاملات پر دسترس تھی کہ اس نے دارفور میں بحران کھڑا کرنے کی تجویز دی۔ ان کی تجویز پر عمل کیا گیا، عالمی برادری خاص طور پر امریکا و یورپ نے ساتھ دیا اور بالکل انھی وسائل، ذرائع اور اہداف کے مطابق دارفور میں ’کام شروع ہوگیا‘ جو ہم نے تجویز کیے تھے۔ آج یہ امر ہمارے لیے باعث ِ تشفی ہے کہ دارفور کے بارے میں ہمارے طے شدہ اہداف و مقاصد اب تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں‘‘۔
دھمکیوں اور سازشوں کے سامنے ہتھیار ڈال دینا تباہی کا سفر تیز کردیتا ہے۔ اپنے حق پر ڈٹ جانا اور اپنی آزادی و وحدت کا ہر ممکن قوت سے دفاع کرنا ہی راہِ نجات ہے۔ سوڈانی صدر اور عوام نے یہی راستہ اختیار کیا ہے۔ وارنٹ جاری ہونے کے بعد اوکامبو نے دھمکی دی تھی کہ سوڈانی صدر بیرون ملک گئے تو گرفتار کرلیے جائیں گے۔ ۲۸مارچ کو دوحہ میں عرب لیگ کا سربراہی اجلاس ہو رہا ہے۔ سوڈانی صدر نے سب سے پہلے اعلان کیا ہے کہ میںوہاں ضرور جائوں گا۔ اس اعلان پر خود سوڈان میں بھی ایک راے یہ پائی جاتی ہے کہ وہاں نہ جایا جائے۔ علماکی ایک تنظیم نے فتویٰ جاری کر دیا ہے کہ اس وقت سفر خلافِ مصلحت ہے لیکن سوڈانی صدر ۲۸ مارچ کا انتظار کیے بغیر ۲۳مارچ ہی کو اریٹریا کی دعوت قبول کرتے ہوئے وہاں کے دارالحکومت اسمرہ پہنچ گئے تاکہ دنیا کو بھی ایک پیغام دیں اور اپنے عوام کو بھی نفسیاتی مخمصے سے نجات دلائیں۔
ابھی اس بحران کی بوتل سے صہیونی اشاروں پر بہت کچھ برآمد ہونے کی توقع ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ مسلمان ممالک اور اُمت ِ مسلمہ اس عالمی توہین کا کیا بدلہ لیتی ہے۔ اگر مسلمان ممالک نے افغانستان و عراق کی تذلیل کی طرح یہ اہانت بھی برداشت کر لی تو پھر یقینا ایک ایک کرکے سب کی باری آئے گی۔
صومالیہ میں خد ا خدا کر کے ایک ایسی حکومت وجود میں آگئی ہے جس سے صومالی اور دیگر افریقی ممالک کے لوگوں کو امید بندھ گئی ہے کہ طویل خانہ جنگی، افراتفری اور انتشار کے بعد صومالیہ کے حالات سنبھل جائیں گے اور نفاذِ شریعت کی طرف بھی پیش رفت ہوسکے گی۔نئی حکومت کے سربراہ ۴۵ سالہ شیخ شریف احمد معتدل، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور روحانی سلسلے اویسیہ کے راہ نما ہیں۔ انھوں نے اپنی پارلیمان سے مشاورت کے بعد ایک اور نوجوان عمر عبدالرشید علی شرمارکے، کو وزیراعظم نامزد کیا ہے۔ وہ بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ، ماہر سفارت کار، اور ملک کے پہلے صدر عبدالرشید علی شرمارکے، کے فرزند ہیں۔ صدر شرمارکے، کو فوجی انقلاب کے دوران قتل کر دیا گیا تھا۔ مرحوم کے بارے میں عام صومالی اب تک اچھی رائے رکھتے ہیں۔ نئی حکومت کے سامنے بہت بڑے چیلنج ہیں۔ موجودہ حالات میں صومالیہ پر حکومت کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ یہ فی الحقیقت کانٹوں کا تاج ہے جو ان دونوجوانوں نے سر پر سجالیا ہے۔ اللہ ان کی مدد کرے۔
صومالیہ براعظم افریقہ کا پس ماندہ ترین ملک ہے، جس کی آبادی ۱۰۰ فی صد مسلمان ہے۔ قرنِ افریقہ میں واقع یہ ملک ۶ لاکھ ۳۷ ہزار ۶سو ۵۷ مربع کلومیٹر رقبے کو محیط ہے، جس میں سے بہت بڑا حصہ صحرائی اور بالکل بنجر ہے۔ کچھ پہاڑی علاقے بھی ہیں اور ساحلِ سمندر کے ساتھ بھی ۶ہزار ۳ سو کلومیٹر لمبی پٹی لگتی ہے، جس میں خلیج عدن، بحیرہ عرب اور بحرہند کے ساحل شامل ہیں۔ جوبا اور شبلی نامی دو دریا بھی اس ملک سے گزرتے ہیں لیکن ان سے کوئی خاطرخواہ زرعی و صنعتی فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ اُونٹ، بھیڑبکری اور گائے پالتو جانور ہیں۔ بیش تر لوگ چرواہے ہیں۔ یورینیم اور تیل کے وسیع ذخائر موجود ہیں مگر ابھی تک انھیں حاصل کرنے کا کوئی جامع منصوبہ عمل میں نہیں لایا جاسکا۔
صومالیہ کو برطانوی اور اطالوی استعمار سے ۱۹۶۰ء میں آزادی ملی۔ آزادی کے فوراً بعد صومالیہ کی اپنے ہمسایے کینیا سے سرحدی علاقوں کے تنازع پر جنگ چھڑ گئی جس میں دونوں ملکوں کا خاصا نقصان ہوا مگر صومالیہ کے متنازع علاقوں پر برطانیہ، امریکا اور عالمِ مغرب کی اشیرباد سے کینیا کا قبضہ تسلیم کرلیا گیا۔ صومالیہ کا پہلا صدر عبدالرشید علی شرمارکے، ایک صاف ستھرا سیاست دان تھا مگر طبعاً کمزور تھا۔ اس لیے ملک میں بدنظمی اور کرپشن کی وجہ سے عدمِ اطمینان پیدا ہوا۔ ان حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فوج کے سربراہ میجر جنرل محمد زیاد برّے نے ۱۵ اکتوبر ۱۹۶۹ء کو بغاوت کرکے ملک پر قبضہ کرلیا اور صدر شرمارکے، کو قتل کردیا گیا۔ یوں ملک پر فوجی آمریت مسلط ہوئی جو ۱۹۹۱ء تک قائم رہی اور جب اس کا خاتمہ ہوا تو صومالیہ بدترین خانہ جنگی کی لپیٹ میں تھا۔
آمریت ملکوں اورقوموں کے لیے ہمیشہ زہرِقاتل ثابت ہوتی ہے۔ زیاد برّے کے ملک سے فرار ہو جانے کے بعد اب تک کوئی متحدہ حکومت صومالیہ میں قائم نہیں ہوسکی۔ وقتاًفوقتاً مختلف مسلح گروہ اور قبائلی لشکر دارالحکومت مقدیشو پر قابض ہوتے رہے مگر پورا ملک ایک حکومت کے تحت متحد ہونے کے بجاے مختلف گروپوں کے زیرتسلط رہا۔ کینیا کے ساتھ صومالیہ کے تعلقات معمول پر آئے تو بدقسمتی سے اس کے شمالی ہمسایے ایتھوپیا سے نئی جنگ چھڑ گئی۔ ادھر ایتھوپیا میں ہیلے مینگستو کا تختہ اُلٹ کر میلس زیناوی (Meles Zenawi) برسرِاقتدار آگیا، اور یہ اسی طرح امریکی مہرہ ہے جس طرح پاکستان اور افغان حکمران۔ امریکا کے اشارے پر ایتھوپیا کی فوجیں اگست ۲۰۰۱ء میں صومالیہ میں امن قائم کرنے کے بہانے داخل ہوئیں جوچند ماہ قبل تک وہاں موجود رہی ہیں اور بے پناہ قتل و غارت گری اور لوٹ مار کا ارتکاب کرتی رہی ہیں۔
صومالیہ میں بہت سے جنگ جُو سردار اپنی چھوٹی چھوٹی ریاستیںقائم کیے بیٹھے تھے۔ فرح عدید ۱۹۹۲ء میںمقدیشو پر قابض تھا۔ اس نے امریکی فوجیوں کو پکڑ کر مقدیشو کی سڑکوں پر گھسیٹا تھا جس کے نتیجے میں امریکی تو وہاں سے دم دبا کے بھاگ گئے مگر انھوں نے ایتھوپیا کے ذریعے صومالیہ سے خوب انتقام لیا۔ افریقی اتحاد کی تنظیم (OAU) اور دوسری عالمی تنظیموں نے کوشش کی کہ صومالیہ میں اتفاق راے پیدا ہوجائے اور امن و امان کی کوئی صورت بن سکے مگر یہ تمام کوششیں صومالیہ کے اسلام پسند حلقوں کو مجوزہ سیٹ اَپ سے خارج کرنے پر مرتکز رہیں۔ صومالی اپنی طبیعت کے لحاظ سے افغانوں سے بہت مشابہت رکھتے ہیں۔ اگر ہم صومالیہ کو افریقہ کا افغانستان کہیں تو یہ غلط نہ ہوگا۔ صومالی جفاکش اور بہادر قوم ہیں اور اسلام سے محبت ان کی گھٹی میں پڑی ہے۔
اگست ۲۰۰۴ء میں عالمی اداروں کے دبائو کے تحت مختلف گروپوں کے درمیان کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں ایک معاہدہ طے پایا جس میں ۲۷۵ نامزد ارکان پرمشتمل ایک پارلیمان وجود میںآئی۔ دو ماہ بعد نیروبی ہی میں صومالیہ کے نیم خودمختار صوبے ارض البنط (pant land) کے راہنما عبداللہ یوسف کو وفاقی حکومت کا عبوری صدر بنا دیا گیا جو امریکا کا منظورِنظر تھا۔ صاحب ِموصوف نے نیروبی ہی میں اپنے منصب کا حلف اٹھایا اور اسی دن افریقی یونین سے درخواست کردی کہ وہ ۲۰ہزار فوجی صومالیہ میں امن قائم کرنے کے لیے بھیجے۔ چونکہ اس نئے صدر کی ذاتی شہرت بھی اچھی نہیں تھی اور ملک میں عمومی حمایت سے بھی وہ محروم تھے، اس لیے زیادہ دیر اپنا مصنوعی اقتدار قائم نہ رکھ سکے۔ اس عرصے میں نفاذِ شریعت کے لیے ملک میں اسلامی عدالتوں کے نام سے ایک تحریک چل رہی تھی جو دن بہ دن لوگوں میں مقبول ہورہی تھی۔ اسلامی عدالت اتحاد نے صرف ۴ ماہ کی لڑائی کے بعد جون ۲۰۰۶ء میں دارالحکومت مقدیشو اور دیگر اہم مقامات پر قبضہ کرلیا۔ ان لوگوں نے تھوڑے عرصے میں امن و امان کی حالت بہت بہتر بنا دی۔
اس دور میں بھی موجودہ صدرِ مملکت، اسلامی عدالت یونین کے چیئرمین شیخ شریف احمد کو وسیع تر مشاورت میں صدرِ مملکت بنانے کا فیصلہ ہوا تھا مگر امریکی سرپرستی میں قائم عبوری پارلیمنٹ مقیم نیروبی نے اسلامی انتظامیہ کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور ایتھوپیا اور امریکا کو مداخلت کی دعوت دی۔ اس کے بعد حبشہ کی فوجی پیش قدمی شروع ہوئی۔ امریکا کی مکمل سرپرستی میں دسمبر ۲۰۰۶ء میں حبشہ کے زمینی حملے کے ساتھ ہی امریکی گن شپ ہیلی کاپٹرز کے ذریعے فضائی حملے شروع ہوگئے اور یوں صومالیہ کا امن پھر تباہ و برباد ہوگیا۔ اس طرح ایتھوپیا (عملاً) اور امریکا (بالواسطہ) ملک پر مسلط ہوگئے۔ اسی عرصے میں مسلم نوجوانوں کی ایک تنظیم ’الشباب‘ کے نام سے وجود میں آئی۔ امریکا نے اسے القاعدہ کی ایک شاخ قرار دیا۔ بدقسمتی سے الشباب اور اسلامی عدالت اتحاد نے اپنے اپنے راستے الگ کرلیے جس سے اسلام پسند قوتیں کمزور ہوئیں۔ صومالیہ کے حالات سے باخبرتجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ الشباب میں کچھ عناصر باہر سے داخل (induct) کیے گئے تھے جو اس اختلاف کے شعلوں پر تیل چھڑک رہے تھے۔ یوں مفاہمت کی ہر کوشش دم توڑ گئی۔
ستمبر ۲۰۰۷ء میں اریٹیریا کے دارالحکومت اسمارا میں اسلام پسندوں کا ایک نیا اتحاد وجود میں آیا، جسے انھوں نے اتحاد براے آزادیِ نو صومالیہ (Alliance for the Re-liberation of Somalia) کا نام دیا۔ امریکا کے منظورِنظر صدر عبداللہ یوسف نے نومبر ۲۰۰۷ء میں نورحسن حسین کو وزیراعظم نامزد کیا لیکن صومالیہ پر کوئی حقیقی رٹ قائم کرنے میں یہ حکومت بُری طرح ناکام رہی۔ صدر اور وزیراعظم ایک دوسرے سے برسرِپیکار ہوگئے۔ دسمبر ۲۰۰۸ء میں صدر نے وزیراعظم کو معزول کردیا اور محمود محمد گلید کو وزیراعظم نامزد کیا گیا مگر پارلیمان نے اس کے تقرر کو مسترد کردیا۔ اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی ادارے اس نتیجے پر پہنچ گئے تھے کہ اتحاد براے آزادیِ نو صومالیہ کی شرکت کے بغیر مسائل حل نہیں ہوسکتے۔
صدر عبداللہ یوسف، ذلیل و رسوا ہوکر ۲۹دسمبر ۲۰۰۸ء کو صدارت چھوڑ کر گوشہ نشین ہوگیا۔ نئے فارمولے کے تحت ۳۱ جنوری ۲۰۰۹ء کو جبوتی میں ایک نئی عبوری پارلیمنٹ وجود میں آئی، جس میں ۲۰۰ ارکانِ اسمبلی اسلامی گروپوں سے اور ۷۵ مختلف قبائل سے نامزد کیے گئے۔ ہرقبیلے کو اس کے حجم کے مطابق نمایندگی دی گئی۔ اس اجلاس میں کثرت راے سے شیخ شریف احمد کو صومالیہ کا نیا صدر چن لیا گیا۔ اپنے انتخاب کے بعد انھوں نے متوازن اور معتدل انداز میں ملکی بحران کو قومی اتفاق راے سے حل کرنے کا اعلان کیا۔ ۱۹۹۱ء کے بعد سے یہ اس شورش زدہ ملک کی پندرھویں حکومت ہے۔ اس کی کامیابی و ناکامی کے بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے کیونکہ ’الشباب‘ نے اس نئے سیٹ اَپ کو قبول نہیں کیا اور بعض علاقوں میں ان کازور ہے۔ الشباب کی قیادت ایک نوجوان شیخ حسن ظاہر اویس کر رہے ہیں جو ایک بہادر اور جنگ جُو نوجوان ہیں اور امریکا نے ان کے سر کی قیمت مقرر کر کے انھیں اشتہاری ’دہشت گرد‘ قرار دیا ہوا ہے۔
۷ فروری ۲۰۰۹ء کو شیخ شریف احمد مقدیشو میں اپنی عبوری پارلیمنٹ کے ساتھ تشریف لائے تو ہزاروں لوگوں نے ان کا والہانہ استقبال کیا۔ شیخ شریف البغال قبیلے سے ہیں جو معروف اور محترم سمجھا جاتا ہے۔ وہ جولائی ۱۹۶۴ء میں پید ا ہوئے۔ انھوں نے اپنی تعلیم لیبیا اور سوڈان میں مکمل کی۔ سوڈان میں قیام کے دوران وہ اخوان کی دعوت سے بھی متاثر ہوئے۔ وہ معتدل مزاج اور نیک نفس انسان ہیں۔ بیش تر صومالیوں کی طرح شیخ شریف بھی حافظ قرآن ہیں اور اویسی سلسلے کے روحانی پیشوا ہیں۔ انتہائی ملنسار، بُردبار اور اعلیٰ تعلیم یافتہ صومالی صدر خود کو استاد (معلم) کہلانے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ ان کا تخصص علومِ جغرافیہ میں ہے۔ شیخ شریف کے بارے میں عام تجزیہ نگار پُرامید ہیں کہ وہ مسائل کو حل کرلیں گے۔
شیخ شریف نے حلف اٹھانے کے بعد جبوتی میں ارکانِ پارلیمنٹ کا اجلاس بلایا اور اتفاق راے سے ایک نوجوان عمر عبدالرشید علی شرمارکے، کو پارلیمنٹ کا وزیراعظم نامزد کیا ہے۔ موصوف ایک سابق سفارت کار ہیں جو اقوام متحدہ میں بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ وہ امریکا کے تعلیم یافتہ ہیں اور صومالیہ کے ناگفتہ بہ حالات کی وجہ سے کینیڈا میں منتقل ہوگئے تھے۔ انھیں ایک ماہ کے اندر کابینہ نامزد کرنا ہوگی، جس کی منظوری پارلیمنٹ سے ضروری ہے۔ ان کا تعلق ایک بڑے قبیلے دارود سے ہے۔ وہ آزاد صومالیہ کے پہلے صدر کے بیٹے ہیں۔ صدر اور وزیراعظم کو عمومی طور پر لوگوں کی حمایت حاصل ہے مگر ’الشباب‘ تنظیم نے صدر کے بارے میں تو زیادہ سخت تبصرہ نہیں کیا تھا البتہ نامزد وزیراعظم پر شدید الفاظ میں تنقید کی ہے۔ دوسری جانب یہ بھی سنا جا رہا ہے کہ امریکا نامزد وزیراعظم کوقبول کر لے گا مگر شاید نومنتخب صدر کو زیادہ عرصہ برداشت نہ کرسکے۔ شیخ شریف ایتھوپیا کو بھی سخت ناپسند ہیں۔ حبشہ کی فوجوں کی یلغار کے بعد شیخ شریف کو جلاوطنی اختیار کرنا پڑی تھی۔
تقریباً ۹۰ لاکھ آبادی پر مشتمل یہ وسیع و عریض خطہ بدحالی، خانہ جنگی، قحط سالی اور قتل و غارت گری کی وجہ سے بدترین بحران کا شکار ہے۔ صومالیہ کو بحری قزاقی کا بھی سامنا ہے جو تجارتی بحری جہازوں کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صومالیہ کے انتہائی دگرگوں حالات نے ہی ان لوگوں کو جرائم پر مجبور کردیا ہے۔ پوری دنیا کو صومالیہ کے مسائل پر سر جوڑ کر اس کا کوئی حل تلاش کرنا ہوگا۔ اگر یہاں امن قائم نہ ہوسکا تو بحرہند اور خلیج عدن کے تجارتی راستے مستقل خطرات کی زد میں رہیں گے۔ موجودہ حکومت سے قیامِ امن اور نفاذِ شریعت کے لیے بہت سی توقعات وابستہ ہیں۔
بنگلہ دیش ہمارا برادر اسلامی ملک ہے جو ۱۶؍دسمبر۱۹۷۱ء تک پاکستان کے مشرقی بازو کے طور پر ہمارا ایک صوبہ تھا۔ اس کے بعد اس نے پاکستان سے علیحدگی اختیار کرلی اور اب ایک آزاد ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر موجود ہے۔ بنگلہ دیش کی آبادی تقریباً ۱۵کروڑ افراد پرمشتمل ہے۔ یہاں گذشتہ ۳۷ برسوں کے دوران کئی مرتبہ فوج نے براہِ راست انقلاب برپا کیا اور مارشل لا لگا کر حکومت پر قبضہ کیا۔ بعد میں فوجی جرنیلوں نے خود کو سیاسی شخصیت بنانے کے لیے اپنی سیاسی پارٹیاں بنائیں اور ان کے ذریعے سے کئی سال حکومت کرتے رہے۔
شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی حسینہ واجد اور جنرل ضیا الرحمن کی بیوہ خالدہ ضیا بنگلہ دیش کی عوامی لیگ اور بی این پی کی راہ نما ہیں۔ دونوں خواتین یکے بعد دیگرے وزراے اعظم رہ چکی ہیں۔ خالدہ ضیا نے یہ منصب دو مرتبہ حاصل کیا۔ ان کی حکومت کو فوج نے پُرتشدد ہنگاموں کے بعد ۲۰۰۶ء کے آخر میں برخاست کردیا تھا۔ فوج نے اس مرتبہ براہِ راست حکومت پر قبضہ کرنے کے بجاے پسِ پردہ رہ کر کٹھ پتلی حکومت کے ذریعے بالواسطہ حکمرانی کا راستہ اپنایا۔ اصل اختیارات فوج ہی کے پاس ہیں۔ اس عبوری حکومت نے ملک کے بڑے بڑے تمام لیڈروں کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات قائم کیے۔ خالدہ ضیا، حسینہ واجد اور بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے امیر مطیع الرحمن نظامی سب پابندِ سلاسل ہوئے۔مطیع الرحمن نظامی نے چیلنج کیا کہ عام عدالت میں ان کا مقدمہ چلایا جائے۔ عدالت سے انھیں رہائی ملی مگر ایک ماہ بعد انھیں دوبارہ جماعت کے سیکرٹری جنرل، سابق وفاقی وزیر علی حسن مجاہد کے ساتھ گرفتار کر لیا گیا۔ ان کی گرفتاری پر شدید احتجاج ہوا تو عبوری حکومت نے ایمرجنسی قوانین کے تحت جلسے جلوسوں پر پابندی عائد کردی۔ ۱۶نومبر کو دونوں قائدین کی عدالت سے ضمانت ہوگئی ہے اور وہ رہا ہوچکے ہیں۔
عبوری حکومت کی کوشش تھی کہ دونوں سابق وزراے اعظم خالدہ ضیا اور حسینہ واجد کو میدانِ سیاست سے خارج کردیا جائے لیکن اس میں انھیں کامیابی حاصل نہیں ہوپائی۔ اب ۲۹دسمبر۲۰۰۸ء کو عام انتخابات ہونا ہیں۔ گذشتہ پارلیمنٹ میں خالدہ ضیا کی پارٹی بی این پی کے ساتھ جماعت اسلامی اور دیگر دو پارٹیوں نے اتحاد کیا تھا، جب کہ عوامی لیگ کے ساتھ ۱۰چھوٹی پارٹیاں اتحادی تھیں۔ بنگلہ دیش پارلیمنٹ میں کُل ۳۴۵ نشستیں ہیں، جن میں سے ۳۰۰ نشستیں براہِ راست انتخاب کے ذریعے پُر کی جاتی ہیں اور خواتین کے لیے ۴۵ مختص نشستیں منتخب ارکانِ پارلیمنٹ کے تناسب سے پارٹیوں کو ملتی ہیں۔ جنرل نشستوں پر بھی خواتین انتخاب لڑ سکتی ہیں۔ بنگلہ دیش کا یومِ آزادی ۱۶دسمبر کو منایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان، جماعت اسلامی، البدر، الشمس اور پاک فوج کے خلاف خوب پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ اس کے پیچھے عوامی لیگ اور بھارت نواز عناصر کا ہاتھ ہوتا ہے۔ میڈیا پر زہریلا پروپیگنڈا، در و دیوار پر چاکنگ، غرض ایک عجیب ماحول ہوتا ہے۔ ظاہر ہے ایسی فضا میں انتخابی معرکہ عوامی لیگ ہی کے مفاد میں ہوسکتا ہے۔ جماعت اسلامی اور بی این پی دونوں جماعتیں چند ماہ کے لیے انتخابات کے التوا کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
خالدہ ضیا اور ان کی پارٹی کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ عوامی لیگ کی حامی حکومت میں مشیرداخلہ (تمام وزرا مشیر ہی کہلاتے ہیں) حسین ظل الرحمن نے کافی مہارت سے عوامی لیگ کے حق میں فضا ہموار کردی ہے۔ بی این پی کے ۱۴۰ انتخابی حلقوں کو خراب کردیا گیا ہے۔ ۱۰۰ حلقے ایسے ہیں جہاں سے بی این پی کے مضبوط امیدواروں کو مختلف الزامات کے تحت نااہل قرار دے دیا گیا ہے، جب کہ ۴۰ حلقوں کی حدبندیاں اس طرح بدلی گئی ہیں کہ عوامی لیگ کو زبردست فائدہ پہنچے۔ اس وجہ سے بی این پی کے سیکرٹری جنرل خوندکر دلاور حسین نے انتخابات کے بائیکاٹ کی بھی دھمکی دی ہے۔ اب حکومت نے عندیہ دیا ہے کہ انتخابات کچھ ہفتوں کے لیے ملتوی ہوسکتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے مطابق ۳۲ سیاسی پارٹیوں نے رجسٹریشن کرا لی ہے۔
خالدہ ضیا کی بی این پی کی اتحادی جماعتوں میں جماعت اسلامی، قومی مدارس کی تنظیم، تنظیم اتحاد الاسلامی اور جنرل ارشاد کی نیشنل پارٹی کا ایک گروپ(ناجی الرحمن) شامل تھے۔ انتخابات میں خالدہ ضیا کی پارٹی نے ۲۰۱ نشستیں جیتیں۔ جماعت اسلامی نے ۱۷ (خواتین کی نشستیں ملا کر کُل ۲۰)، اتحاد الاسلامی نے ۳ اور نیشنل پارٹی(ناجی الرحمن) نے ۴ نشستیں جیتیں۔ عوامی لیگ کو صرف ۵۷ نشستیں ملیں۔ اس کے اتحادی صرف ۲ نشستیں حاصل کرسکے۔ باقی چند نشستیں جنرل ارشاد کی نیشنل پارٹی اور چند ایک آزاد امیدواروں کو ملیں۔ خالدہ ضیا کے اتحاد کو پارلیمنٹ میں ۲۳۵ارکان کی حمایت حاصل تھی۔ خالدہ ضیا کی کامیابی کا دارومدار پہلے بھی جماعت اسلامی کی حمایت پر تھا اور آیندہ انتخابات میں بھی جماعت ہی کے تعاون سے وہ نشستیں جیت سکیں گی۔
ملک میں راے عامہ کے سروے یہ بتاتے ہیں کہ عوامی لیگ کی حمایت تقریباً ۳۵ فی صد ہے۔ دوسرے نمبر پر ۲۹ فی صد کے ساتھ نیشنل پارٹی ہے۔ تیسرے نمبر پر جماعت اسلامی ہے جس کے حامی ۱۷ فی صد ہیں۔ جنرل حسین محمد ارشاد کی نیشنل پارٹی چند اضلاع تک محدود ہے۔ غالباً وہ ۸سے ۱۰ نشستیں حاصل کرپائیں گے۔ باقی آبادی چھوٹی پارٹیوں اور ضلعی گروپوں کے درمیان تقسیم ہے۔ بی این پی کی دیگر دو اتحادی جماعتیں بھی مجموعی طور پر ۵سے ۶ فی صد تک حمایت رکھتی ہیں۔ عوامی لیگ کے ساتھ اتحاد میں شامل جماعتیں تعداد میں تو بہت ہیں لیکن عملاً وہ محض خانہ پُری ہے۔
عبوری حکومت کے مخصوص عزائم ہیں۔ ان کی ترجیح اول تو یہ ہے کہ اہم سیاسی شخصیات کو میدانِ سیاست سے خارج کردیا جائے اور پاکستان میں پرویز مشرف کے تجربے کے مطابق کٹھ پتلی حکومت کے ذریعے اپنی من مانی کی جائے۔ اگر یہ نہ ہوسکے تو ان کی دوسری ترجیح یہ ہے کہ بی این پی اور جماعت اسلامی کا اتحاد کسی صورت برسرِاقتدار نہ آسکے۔ موجودہ آرمی چیف جنرل معین الدین احمد بھارت کا حامی ہے اور جواب میں بھارتی حکومت بھی اس کے بارے میں خاصا نرم گوشہ رکھتی ہے۔ ان جرنیل صاحب اور عوامی لیگ کے درمیان سیکولر سوچ کے علاوہ بھارت نوازی بھی ایک قدرِ مشترک کی حیثیت رکھتی ہے۔ خالدہ ضیا اور حسینہ واجد کے درمیان گذشتہ ۱۵برس سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی بلکہ بول چال تک بند رہی ہے۔ اب دونوں راہ نمائوں کے درمیان ملاقات کا عندیہ دیا جا رہا ہے۔ عوامی لیگ چاہتی ہے کہ بی این پی بائیکاٹ نہ کرے کیونکہ اس صورت میں انتخابات کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا اور بی این پی کے سیکرٹری جنرل کے مطابق ایسی حکومت ایک ماہ بھی قائم نہ رہ سکے گی۔
بی این پی کوئی دینی سوچ رکھنے والی جماعت نہیں لیکن عوامی لیگ اور بی این پی کا موازنہ کیا جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ جماعت بھارت کے مقابلے میں پاکستان سے زیادہ قریب ہے اور لادینی خیالات کی حمایت کرنے کے بجاے زبانی کلامی حد تک ہی سہی، اسلامی اقدار وشعائر کو ترجیح دیتی ہے۔ عوامی لیگ پاکستان مخالف ہے اور جماعت اسلامی کو آج تک غدارِ وطن قرار دیتی ہے۔ ان حالات میں جماعت اسلامی کی قیادت نے بنگلہ دیش کے قیام کے بعد سے اب تک بڑی حکمت کے ساتھ اپنا راستہ متعین کیا ہے اور ملک کی تیسری بڑی پارٹی کا مقام حاصل کرلیا ہے۔
سابقہ کابینہ میں جماعت اسلامی کے دو وزرا تھے: امیر جماعت مطیع الرحمن نظامی اور قیم جماعت علی حسن محمد مجاہد۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر عالمی اداروں کی رپورٹوں کے مطابق انھی دووزرا کی وزارتوں میں قاعدے اور ضابطے کی مکمل پابندی کی گئی۔ عبوری حکومت نے بدعنوانی کے مقدمات قائم کرنے کے لیے ریکارڈ کی خوب چھان بین کی لیکن ان وزرا کے خلاف کوئی شواہد نہ تلاش کرسکی۔ ان کی وزارتوں کی کارکردگی کے اپنے اور غیر سب ہی قائل رہے۔ جماعت کی موجودہ بڑھتی ہوئی حمایت میں ان وزرا کی کارکردگی کا نمایاں حصہ ہے۔
جماعت اسلامی نے اسلامی بنک بنگلہ دیش کے ذریعے غیرسودی بنکاری کا قابلِ تحسین تجربہ کیا ہے۔ یہ بنک ملک کے تمام بنکوں کے مقابلے میں زیادہ کامیاب، اکاؤنٹ ہولڈرز کے نزدیک زیادہ قابل اعتماد اور مالیاتی امور اسلامی اصولوں کے مطابق انجام دینے کی وجہ سے انتہائی مقبول ہے۔ بنک نے اپنے حصہ داروں کو اچھا منافع دینے کے ساتھ ساتھ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں اس قدر رفاہی کام کیا ہے کہ تمام مخالفانہ پروپیگنڈا اس کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوا ہے۔
جماعت اسلامی نے عوامی سطح تک کسانوں اور مزدوروں کے اندر اپنی تنظیم کو منظم کیا ہے اور ملک کا کوئی حصہ ایسانہیں، جہاں انھیں مؤثر قابلِ لحاظ حمایت حاصل نہ ہو۔ جماعت اسلامی نے اپنی تنظیم میں خواتین کو بھی بڑی تعداد میں شامل کیا ہے۔ بنگلہ دیش بننے کے وقت جماعت اسلامی پاکستان کے ارکان تقریباً ۲۵۰ تھے۔ ان میں سے کئی شہید ہوگئے، جب کہ بہت سے جلاوطن بھی ہوئے۔ اس وقت مرد ارکان کی تعداد ۱۷ ہزار ۷ سو ۱۳ ہے، جب کہ خواتین ارکان کی تعداد ۶ہزار ۲سو ۱۱ ہے۔ یوں کُل تعداد ۳۰ہزار ۹ سو ۲۴ ہے۔
جماعت اسلامی نے تنظیمی اور مالیاتی شعبے کے علاوہ شعبہ ابلاغ عامہ میں بھی کامیاب پیش رفت کی ہے۔ ملک میں موجود سرکاری اور غیرسرکاری تمام ٹی وی چینل لادین اور ہندونواز عناصر کی آماجگاہ ہیں۔ ان سب میں قدرِ مشترک اسلام، پاکستان اور جماعت اسلامی کی مخالفت ہے۔ جماعت نے کچھ عرصہ قبل اپنا چینل شروع کیا ہے جو دیگانتو(آفاق) کے نام سے پروگرام پیش کررہا ہے اور روز بروز مقبول ہوتا چلا جارہا ہے۔ یہ چینل اپنا ایک روزنامہ بھی اسی نام سے شائع کررہا ہے، جس کی اشاعت اس وقت ایک لاکھ ۵۰ ہزار ہے۔
اگر مجوزہ انتخابات میں عبوری حکومت اور فوج زیادہ مداخلت نہیں کرتی تو بی این پی، جماعت اسلامی اتحاد واضح اکثریت حاصل کرسکتا ہے۔ پچھلے انتخابات میں جماعت اسلامی کو اتحاد کی طرف سے ۳۰نشستیں دی گئی تھیں جس میں سے جماعت نے ۱۷ جیتیں۔ اس مرتبہ جماعت کا مطالبہ ہے کہ اسے کم از کم ۵۰ نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے کرنے کی اجازت دی جائے۔ دیکھیے اگلے انتخابات میں برادر مسلم ملک بنگلہ دیش کی تقدیر کا کیا فیصلہ ہوتا ہے۔
شرق اوسط میں تبدیلیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک طرف شام پر ۲۶ اکتوبر ۲۰۰۸ء کو کیا جانے والا امریکی حملہ ہے جو امریکی عزائم کی نشان دہی کر رہا ہے تو دوسری طرف سفارتی عمل کے ذریعے نئی صورت حال سامنے آتی نظر آرہی ہے۔ سفارتی سطح پر تبدیلی کا آغاز ۲۹ مارچ ۲۰۰۸ء کو دمشق میں ہونے والی عرب سربراہ کانفرنس سے ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ اس کانفرنس کے اعلامیے میں عرب پالیسی کا ایک نیا رخ سامنے آیا۔ عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل عمرو موسیٰ نے جو اعلامیہ پڑھ کر سنایا اس میں کہا گیا تھاکہ: ’’اسرائیل اگر اپنا رویہ تبدیل کرنے پر تیار ہو تو پھر عرب ملک بھی امن کی پیش کش پر ازسرِنو غور کرنے کو تیار ہوں گے‘‘۔ یہ ’ازسرِنو غور‘ ایک نئی شرط اور ایک نیا عندیہ تھا جو پہلی بار اس کانفرنس میں سامنے آیا۔ اس وقت اس کی وضاحت نہیں کی گئی۔
’ازسرِنو غور‘ نے جلد ہی پَر پُرزے نکالنے شروع کردیے۔ ۲۲ مئی کو ترکی کی وساطت سے انقرہ میں بالواسطہ شام اسرائیل مذاکرات ہوئے۔ ۲۰۰۰ء کے بعد پہلی بار جولان کی پہاڑیاں موضوع بنیں۔ انقرہ مذاکرات کا کھوکھلاپن اس وقت واضح ہوگیا جب جون کے اوائل میں اسرائیل کے سابق آرمی چیف اور موجودہ نائب وزیراعظم شال موفاز (Shaul Mofaz) نے صحافیوں کو بتایا کہ: ’’جولان شام کے حوالے نہیں کیا جاسکتا‘‘۔
اب تک شام اور اسرائیل میں بالواسطہ مذاکرات کے چار دور ہوچکے ہیں لیکن کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ اس کے باوجود صدر بشارالاسد بڑے پُرامید ہیں۔ انھوں نے حکمران بعث پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو بتایا کہ شام اور اسرائیل میں جولان کے بارے میں بلاواسطہ امن بات چیت دوبارہ شروع کرنے کے لیے پیغامات کا تبادلہ ہوا ہے۔ انھوں نے کسی تفصیل کے بغیر بتایا کہ: ’’اسرائیل اچھی طرح سے جانتا ہے کہ شام کا مطالبہ کیا ہے اور اسے کیا قبول ہے اور کیا ناقابلِ قبول‘‘۔
اسی سال چار جون کو امریکا کی طرف سے دھمکی آئی کہ اب شام کو بین الاقوامی جوہری نگران ادارے (IAEA) سے اپنی جوہری تنصیبات کا معائنہ کرانا ہوگا۔ مسلسل شامی تردید کے باوجود، امریکا کا اصرار ہے کہ شام ایران کا اتحادی ہے اوروہ شمالی کوریا کی مدد سے الکبر کا جوہری پلانٹ بنا رہا ہے۔ واضح رہے کہ یہ وہ پلانٹ ہے جو گذشتہ سال ستمبر میں اسرائیل کی فضائی بم باری سے تباہ ہوچکا ہے۔ اس حملے کے لیے یہ بہانہ گھڑا گیا کہ اسرائیل کے جاسوس سیارچے نے اس پلانٹ کی جو تصویریں بھیجی تھیں وہ شمالی کوریا کی تنصیبات سے ’ملتی جلتی‘ تھیں۔ بعد میں پتا چلا کہ یہ شام کی سرحدی فوجی چھائونی تھی جو زیر تعمیر تھی۔ چونکہ شام کا موقف واضح تھا اس لیے اس نے بین الاقوامی جوہری انسپکٹروں کی آمد میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی۔ یہ انسپکٹر ۲۲ سے ۲۴ جون تک شام میں اپنی مرضی سے گھومتے پھرتے رہے، لیکن انھیں کہیں بھی کسی جوہری تنصیب کے آثار نہ ملے۔
امریکا اور اس کے یورپی اتحادیوں کو ایک اور تدبیر سوجھی کہ اگر شام اور لبنان سفارتی تعلقات قائم کرلیں تو ایران تنہا رہ جائے گا اور فلسطینی تحریک حماس بھی کمزور پڑ جائے گی۔ واضح رہے کہ ۱۹۴۱ء میں لبنان اور ۱۹۴۶ء میں شام فرانس سے آزاد ہوئے لیکن وہ سفارتی تعلقات قائم نہ کرسکے (تنازع ’عظیم تر شام‘ کے نظریے کا تھا)۔ تاہم یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ لبنان طویل عرصے تک براہِ راست شام کے زیرِاثر بلکہ زیرِ تصرف رہا ہے۔ حریری کے قتل کے بعد شامی فوجوں کو نکلنے پر مجبور ہونا پڑا۔ ان تعلقات کے قیام کے لیے فرانسیسی صدر نکولس سرکوزی کو ذمے داری دی گئی۔ انھوں نے اسی سال ۱۲ جولائی کو پیرس کے صدارتی محل ایلیزیہ میں شام کے صدر بشارالاسد اور لبنانی صدر مائیکل سلیمان کے درمیان مذاکرات کا اہتمام کیا اور انھیں سفارتی تعلقات کے قیام پر رضامند کرلیا۔ فرانسیسی صدر نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ بشارالاسد ایران کو اس کے جوہری پروگرام میں پیش رفت سے باز رکھیں گے۔ دوسری طرف بشارالاسد نے صدر سرکوزی کے سامنے جولان کا مسئلہ پیش کیا کہ وہ امریکا سمیت شام اور اسرائیل کے درمیان بلاواسطہ مذاکرات کے لیے راہ ہموار کرنے میں مدد دیں۔ ۳ستمبر کو فرانسیسی صدر دمشق آئے۔ دوسرے دن قطر کے امیر شیخ حمد بن خلیفہ الثانی اور ترک وزیراعظم طیب اردوگان بھی آئے۔ اس سربراہ کانفرنس میں بشارالاسد نے اسرائیل کے ساتھ قیامِ امن کے لیے تجاویزپیش کیں جس سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی کہ وہ اسرائیل کے ساتھ بلاواسطہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ اسرائیل کی طرف سے بھی کڑی شرائط سامنے آئیں کہ اگر شام ایران، حزب اللہ اور حماس سے تعلقات پر نظرثانی کرنے کو تیار ہو تو اس صورت میں اسرائیل کو باہمی مذاکرات سے کوئی عذر نہیں ہوگا۔
۱۴ اکتوبر کو صدر بشارالاسد نے صدارتی حکم نامہ نمبر ۳۵۸ جاری کر کے لبنان کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا اعلان کیا۔ اسی دن شام کی وزارتِ خارجہ نے اقوامِ متحدہ کو ایک خط کے ذریعے مطلع کیا کہ اس نے لبنان کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرلیے ہیں۔ نہ صرف عرب ملکوں بلکہ ایران نے بھی اس اقدام کو خوش آیند قرار دیا۔ حزب اللہ کے رہنما شیخ حسن نصراللہ نے اسے ایک بہت بڑی تبدیلی قرار دیا۔ مرحوم رفیق حریری کے بیٹے تحریک المستقبل کے مرکزی رہنما اور ممبر پارلیمنٹ سعد حریری نے سفارتی تعلقات کے قیام کو ایک مثبت قدم قرار دیا اور ساتھ ہی یہ تبصرہ کیا کہ یہ لبنان کے ثورہ الارز (انقلابِ صنوبر) کی فتح ہے۔ واضح رہے کہ شام کی فوجی موجودگی کے خلاف شروع کیے گئے مظاہروں کو یہ نام دیا گیا تھا۔
سفارتی تعلقات کے قیام کے بعد لبنان ایک نئے جذبے سے سرشار نظر آرہا ہے لیکن مسائل بے شمار ہیں۔ شام کے ساتھ اس کی سرحدیں ابھی تک غیرمتعین ہیں۔ ۲۵ مربع کلومیٹر پرمشتمل شَبْعافارمز کا زرخیز علاقہ اسرائیل کے قبضے میں ہے۔ شام اور لبنان دونوں اس کے دعوے دار ہیں۔ جولان اور شَبْعا فارمز جیسے مسائل لاینحل نہیں۔ اگرچہ اسرائیل کی ہٹ دھرمی نے انھیں پیچیدہ ضرور بنا دیا ہے۔ سردست ان کی واپسی کے لیے کسی نظام الاوقات کا تعین مشکل دکھائی دیتا ہے۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اب شام سفارتی روپ میں لبنان پر اثرانداز ہوگا، بلکہ اس کا سفارت خانہ سفارت کاری کے روپ میں انٹیلی جنس کا مرکز بنے گا۔ یہ اور اس قسم کے دوسرے شبہات فریقین کے قلب و ذہن سے جب تک دُور نہیں ہوں گے، بدگمانیاںباقی رہیں گی۔ لبنان کے ساتھ سفارتی تعلقات کے قیام سے بظاہر شام کا جھکائو امریکا کی طرف ہوگیا ہے لیکن اسرائیل اور امریکا دونوں شام کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ حالیہ امریکی حملہ اس کی تازہ مثال ہے جو شامی حدود کے اندر ۴ کلومیٹر گھس کر کیا گیا اور جس کے نتیجے میں ۸ بے گناہ شہری ہلاک ہوگئے۔
شرق اوسط عالمی طاقتوں کا اکھاڑہ ہے۔ سب کے اپنے اپنے مہرے ہیں۔ چالیں چلی جارہی ہیں۔ نقشہ کیا بنتا ہے، آنے والا وقت ہی بتائے گا۔