قوم ابھی ۲مئی ۲۰۱۱ء کے ایبٹ آباد پر امریکی حملے کے زخموں سے بے حال تھی کہ ۲۲مئی کو پاکستان نیوی کے مہران بیس پر دشمن نے ایک کاری ضرب لگائی، اور پاک بحریہ اپنے دفاع کے ناقابلِ تسخیر ہونے کے تمام دعووں اور نیول بیس پر ۱۱۰۰ محافظوں کی موجودگی کے باوجود چار یا چھے یا ۱۲سرپھرے نوجوانوں کی ۱۶گھنٹے پر محیط کارروائی کے نتیجے میں اپنے قیمتی ترین دفاعی اثاثوں سے محروم ہوگئی۔ ۱۲ عسکری جوانوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا، ۲۰سے زیادہ زخمی ہوئے، اور پاکستان کی دفاعی صلاحیت پر قوم کو جو ناز تھا اور دشمن جس سے خوف زدہ تھے، اس کے بارے میں ایسے سوالات اُٹھ کھڑے ہوئے جو دن کا چین اور رات کی نیند حرام کردینے والے ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ میں شرکت کے فیصلے سے اب تک ہماری دفاعی تنصیبات اور اداروں پر ۱۲۱حملے ہوچکے ہیں جن میں فضائیہ، بری فوج، بحریہ اور آئی ایس آئی کے حساس ترین مقامات پر دشمن نے کارروائیاں کی ہیں اور ’دہشت گردی کی کمرتوڑ دینے‘ کے باربار کے دعووں کے باوجود دہشت گردی کی کارروائیوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہورہی ہے بلکہ کمیت اور کیفیت دونوں کے اعتبار سے اضافہ ہی ہوتا نظر آرہا ہے۔ کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ ہماری سیاسی اور عسکری قیادت کی آنکھیں کھلیں اور پورے مسئلے کا ازسرِنو جائزہ لے کر ان ۱۰برسوں میں جو کچھ ہوا ہے، اس کا بے لاگ تجزیہ کرکے نفع اور نقصان کا مکمل میزانیہ تیار کیا جائے اور آگ اور خون کے اس جہنم سے نکلنے کے لیے نئی سوچ اور نئی حکمت عملی وضع کی جائے۔
اہلِ نظر اور دانش ور ہر بڑے واقعے کو wake-up call (جاگو! جاگو!!) کہتے ہیں لیکن قیادت ہے کہ امریکا کے طلسم میں مسحور خوابِ غفلت سے بیدار ہونے کو تیار نہیں۔ امریکی ڈرون حملے روز افزوں ہیں۔ بارک اوباما، ہیلری کلنٹن اور امریکا کی عسکری قیادت حتیٰ کہ پاکستان میں امریکا کے سفیر بھی مسلسل اعلان کر رہے ہیں کہ انھیں پاکستان پر اپنے یک طرفہ فوجی ایکشن، ہماری حاکمیت کی پامالی، اور ہمارے شہریوں کی ہلاکت پر نہ صرف کوئی افسوس نہیں اور وہ کسی قسم کی معذرت کے اظہار تک کے لیے تیار نہیں ہیں بلکہ دھڑلّے سے کہہ رہے ہیں کہ جو کچھ ماضی میں کیا ہے، پاکستانی عوام کے سارے احتجاج اور امریکا کی مخالفت کے جذبات کے پُرزور اظہار کے باوجود، وہ پھر ویسے ہی حملے کریںگے اور پاکستان کی پارلیمنٹ نے امریکا کی ان جارحانہ کارروائیوں کے خلاف جو متفق علیہ اعلان ایک بار پھر ۱۴مئی ۲۰۱۱ء کو کیا ہے، اس کی وہ پرِکاہ کے برابر بھی پروا نہیں کرتے۔ دوسری طرف پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کا حال یہ ہے کہ ’’ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم‘‘، اور اس سے بھی زیادہ پریشان کن رویہ ان صحافیوں، دانش وروں، اینکر پرسنز اور سیاست دانوں کا ہے جو معروضی حقائق، عوام کے جذبات اور پارلیمنٹ کی قراردادوں کو یکسرنظرانداز کرتے ہوئے قوم کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ امریکا کی گرفت سے نکلنے کی کوشش تباہ کن ہوگی___ گویا اس قوم کی آزادی، سالمیت، خودمختاری، عزت اور وقار سب غیرمتعلق ہیں اور صرف چند ارب ڈالروں کے لیے ملت اسلامیہ پاکستان نے لاکھوں انسانوں کی قربانی دے کر جو آزادی اور عزت حاصل کی ہے اور ایک ایٹمی طاقت پاور بن کر جو مقام حاصل کیا ہے، اسے چند ٹکوں کی خاطر قربان کردیا جائے۔ یہ وہ غلامانہ ذہنیت اور تباہ کن مفاد پرستی ہے جس کے بارے میں اقبال نے کہا تھا ؎
تھا جو ناخوب ، بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
آج قوم کے سامنے ایک بار پھر وہی سوال ہے جو برطانوی دورِ غلامی میں اس کے سامنے تھا ___ یعنی وقتی مفادات کی پوجا یا آزادی اور عزت کی زندگی کے لیے ازسرِنو جدوجہد، خواہ وہ کیسی ہی کٹھن کیوں نہ ہو۔ ملت اسلامیہ پاکستان نے جس طرح اُس وقت کے مفاد پرست سیاست دانوں اور عافیت کوشوں کے خوش نما الفاظ ان کے منہ پر دے مارے تھے اور ہرقسم کی قربانیاں دے کر آزادی اور عزت کا راستہ اختیار کیا تھا، آج بھی قوم کو اپنی آزادی اور عزت کی حفاظت کے لیے موجودہ سیاسی بازی گروں اور مفاد پرستوں کے چنگل سے نکل کر پاکستان اور اس کے آزادی اور اسلامی تشخص کی حفاظت کے لیے سردھڑ کی بازی لگانا ہوگی، اس لیے کہ بقول اقبال ؎
یا مُردہ ہے یا نزع کے عالم میں گرفتار
جو فلسفہ لکھا نہ گیا خونِ جگر سے
اگر قوم کو اپنی آزادی اور عزت کی حفاظت کے لیے امریکا کی سامراجی گرفت سے نکلنا ہے___ اور حقیقت یہ ہے کہ ہمارے سامنے اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ موجود ہی نہیں ہے___ تو اس کے لیے ضروری ہے کہ پوری دیانت داری کے ساتھ ان عوامل کو سمجھا جائے جن کی وجہ سے ہماری آزادی گروی ہوگئی ہے اور ہماری پالیسیاں واشنگٹن کے اشارے پر اور بہت بڑی حد تک صرف امریکا کے مفاد میں وضع کی جارہی ہیں۔
اس نئی غلامی کے کَسے شکنجوں کو مضبوط تر کرنے کے لیے معاشی زنجیریں روز افزوں ہیں۔ حکمرانوں کو ان کی کرپشن اور مفاد پرستی کی وجہ سے امریکا نے اپنا آلۂ کار بنالیا ہے۔ اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے امریکی سفارت کاروں، امریکی این جی اوز، امریکی ماہرین اور محاسبوں کی فوج ظفر موج، اور ان کے ساتھ ہماری سرزمین پر ا مریکی افواج، سی آئی اے کے اہل کار اور مخبر سرگرم ہیں۔ ریمنڈ ڈیوس کے خون آشام ڈرامے نے اس امریکی نیٹ ورک کو بے نقاب کردیا جو ملک کی باگ ڈور کو اپنی مرضی کے مطابق چلا رہا ہے۔ ڈرون حملوں کی روز افزوں بوچھاڑ اور ہماری سرزمین پر امریکی فوجی قدموں کی چاپ، نیز ہر روز واشنگٹن اور کابل سے امریکی سول اور فوجی آقائوں کی آمدورفت، اس نئے استعماری انتظام کے وہ چند پہلو ہیں جو اب کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ ہمارے حکمران خواہ کیسے ہی خوابِ غفلت میں مبتلا ہوں یا اس خطرناک کھیل میں شریک کار ہوں لیکن پاکستانی قوم اب بیدار ہوچکی ہے اور اس کے سامنے اپنی آزادی اور عزت کی حفاظت کے لیے ہرممکن ذریعے سے اجتماعی جدوجہد کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں رہا ہے۔ یہ معرکہ کس طرح سر کیا جائے، اس پر گفتگو کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ چند حقائق کو ذہنوں میں تازہ کرلیا جائے۔
یہ بات اچھی طرح سمجھنے کی ہے کہ امریکا اور یورپی اقوام ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر ایک دوسرے ہی ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں۔ اصل ایشو دنیا کے، اور خصوصیت سے مسلم اور عرب دنیا کے معدنی، معاشی اور اسٹرے ٹیجک وسائل پر قبضہ اور ان کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنا ہے۔ نیز اس استحصالی بندوبست کو محفوظ کرنے کے لیے مسلم اور عرب ممالک پر ایسی قیادتوں کو مسلط کرنا اور مسلط رکھنا ہے جو امریکا کے آلۂ کار کی حیثیت سے خدمات انجام دے سکیں۔ اس سلسلے میں سیاسی اور عسکری قیادتوں کے ساتھ لبرل دانش ور صحافیوں اور سول سوسائٹی کے اداروں کا استعمال ان کی حکمت عملی کا مرکزی حصہ ہے۔ معاشی طور پر ان ممالک کو اپنی گرفت میں رکھنے کے لیے قرضوں کا جال بچھایا گیا ہے اور ان ممالک کو عالم گیریت (globalization) کے نام پر مغربی اقوام اور اداروں کی محتاجی (dependence) کی زنجیروں میں جکڑ دیا گیا ہے۔ آخری حربے کے طور پر امریکی افواج کو، جو تباہ کن ٹکنالوجی سے آراستہ ہیں، استعمال کیا جا رہا ہے۔ آج دنیا میں ۸۰ سے زائد مقامات پر امریکی فوجی اڈے موجود ہیں۔ افغانستان اور عراق کی جنگ اور عالمِ عرب کے قلب میں اسرائیل کی کیل کانٹے سے لیس افواج اور خفیہ تنظیموں کا کردار اس گیم پلان کا حصہ ہے۔
امریکی سرمایہ دارانہ نظام کے بقا اور ترقی کے لیے جنگ، جنگی امداد اور تجارت ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور اس کی پالیسی پر عمل کا مؤثر ترین ذریعہ ہیں۔ اس گریٹ گیم کو سب سے بڑا خطرہ مسلمان عوام، ان کے دینی شعور اور اُمت مسلمہ کے جذبۂ جہاد سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ جنگ عسکری قوتوں سے لڑی جارہی ہے اور جس ملک سے مزاحمت کا خطرہ ہے، اس کی عسکری اور مزاحمتی قوت کو توڑنا اور وسائل بشمول عسکری اثاثہ جات کو اپنی گرفت اور کنٹرول میں لانا اس حکمت عملی کا مرکزی حصہ ہیں۔
ساتھ ہی ساتھ، نظریاتی اور تہذیبی جنگ کے ذریعے اسلام، اسلامی تحریکات اور اسلامی احیا کے تمام مظاہر کو ہدف بنایا جارہا ہے اور اسلام کے ایک ایسے نمونے (version) کو مسلمانوں میں پھیلانے کی کوشش ہورہی ہے جو سیاسی، معاشی اور تہذیبی میدان میں مغرب کے فکر اور نمونے کو قبول کرلے اور دین کو محض نمایشی رسوم تک محدود کردے۔ اس کے لیے روشن خیالی، موڈریشن، صوفی اسلام اور نہ معلوم کس کس عنوان کو استعمال کیا جارہا ہے اور اسلامی احیا اور سامراج مخالف رجحانات کو دہشت گردی، تشدد، جبر اور خونیں تصادم کے عنوان سے بدنام کرنے کی عالم گیر پیمانے پر منظم کوششیں ہورہی ہیں۔
اس خطرناک کھیل میں دانا دشمنوں کے ساتھ نادان دوست بھی اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ پاکستان چونکہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والا ملک ہے اس لیے وہ خصوصی ہدف بنا ہوا ہے۔ پاکستان عسکری طور پر مضبوط اور جوہری طاقت کا حامل ملک ہے اس لیے اس کی فوجی قوت اور جوہری صلاحیت کو خصوصی نشانہ بنایا جارہا ہے۔ دنیاے اسلام میں مغربی استعمار کو چیلنج کرنے والی جو بھی قوت ہے اسے کمزور اور غیر مؤثر کرنے کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘، مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے جارحانہ کھیل کی مکمل سرپرستی اور مسلم دنیا میں بیرونی افواج کے تسلط کے خلاف ہر مزاحمتی تحریک کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔ مصر، جو عرب دنیا کی ایک مؤثر ترین قوت تھا، اُسے اپنے مہروں کے ذریعے غیرمؤثر کر دیا گیا۔ عراق، جو اسرائیل کے لیے ایک خطرہ تھا، اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ افغانستان، جس نے اپنی بے سروسامانی کے باوجود روسی استعمار کا منہ پھیر دیا، اسے مسلسل خانہ جنگی میں جھونک دیا گیا، پھر القاعدہ پر یلغار کے نام پر اس پر اپنا فوجی تسلط قائم کر دیا گیا اور افغانستان کے ساتھ پاکستان کو بھی نائن الیون کے واقعے کی لپیٹ میں لیتے ہوئے اپنی گرفت میں لے لیا گیا۔ جنرل پرویز مشرف کو جس طرح اپنے قابو میں کیا گیا اور پاکستانی فوج کو عملاً اپنے ہی ملک میں اپنی ہی قوم سے برسرِپیکار کردیا گیا___ یہ سب اس خطرناک کھیل کا حصہ ہے۔
آج جو کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے اس کی اصل حقیقت کا اِدراک، اس پس منظر کے سمجھے بغیر، ممکن نہیں۔ آج پاکستان میں معصوم انسانوں کا خون بہایا جا رہا ہے۔ مسجدوں، امام بارگاہوں، مزاروں، فوجی تنصیبات، حساس اور فوجی اداروں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ یہ ہراعتبار سے قابلِ مذمت اور ایک نقصان کا سودا ہے لیکن اس تباہی سے نجات کے لیے ضروری ہے کہ دہشت گردی سے دنیا کو پاک کرنے کے نام پر امریکا کی مسلط کردہ جنگ اور اس کی معاونت کے لیے کام کرنے والے اداروں، حکومتوں اور کارندوں کے کردار کو سمجھا جائے اور افراد،گروہوں اور حکومتوں، سب کی ان سرگرمیوں کو روکا جائے جو دراصل دہشت گردی کے فروغ کا ذریعہ بن چکی ہیں۔ امریکا اور مغربی اقوام کی ظالمانہ پالیسیوں کی تبدیلی اور عسکری، سیاسی، معاشی اور تہذیبی جنگ کے شعلوں کو بجھانے کی حکمت عملی ہی مسئلے کے سیاسی اور پایدار حل کا راستہ ہموار کرسکتی ہے۔ استعماری قوتوں اور ان کے حامیوں اور آلہ کاروں کی خون آشامیوں کو قابو میں لاکر ہی مزاحمتی قوتوں کو مذاکرات کی میز پر لانا اور معاملات کا سیاسی حل نکالنا ممکن ہوسکتا ہے۔ حقیقی مزاحمت کاروں اور جرائم پیشہ عناصر اور دوسروں کے مفاد کے لیے تباہی مچانے والے عناصر کو ایک دوسرے سے الگ کیا جاسکتا ہے اور پھر قانون اور انصاف کے اصولوں کے مطابق ہر نوعیت کے مجرموں کو سزا بھی دی جاسکتی ہے۔ اس طرح اس علاقے کو ایک بار پھر امن اور سلامتی کا گہوارا بنایا جاسکتا ہے۔
ہماری نگاہ میں حالات کو قابو میں لانے کے لیے مندرجہ ذیل امور ضروری ہیں:
اس امر کا اقرار اور اعلان کہ مسئلے کا حل سیاسی ہے، عسکری نہیں، اور عسکری کی ہرشکل کو بند کرنا ضروری ہے تاکہ اصل اسباب کی طرف توجہ دی جاسکے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جنگ سیاسی مسائل کا حل نہیں۔ امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ نے دہشت گردی کو فروغ دیا ہے اور اسے کچھ حلقوں اور علاقوں میں معتبر بنا دیا ہے۔ ۳ہزار افراد کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے لاکھوں افراد کو لقمۂ اجل بنایا جاچکا ہے، لاکھوں کو ہمیشہ کے لیے اپاہج کردیا گیا ہے، لاکھوں کو بے گھر کیا جارہا ہے، ایک کے بعد دوسرے ملک کو تباہ و برباد کردیا گیا ہے۔ معاشی حیثیت سے پوری دنیا کو تباہی کے دہانے پر لے آیا گیا ہے۔ اس ۱۰سالہ جنگ میں صرف امریکا کو چھے سے ۱۰ ٹریلین ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔عراق اور افغانستان کو تباہ کردیا گیا ہے۔ صرف پاکستان میں ۳۶ہزار معصوم انسانوں، بچوں، بوڑھوں اور خواتین کو ہلاک کیا گیا ہے۔ ۵ہزار سے زائد فوجیوں اور قانون نافذ کرنے والے افراد کو زندگی کی نعمتوں سے محروم کر دیا گیا ہے۔ ایک لاکھ کے قریب افراد مجروح ہوئے ہیں، ۴۰لاکھ افراد اپنے ہی ملک میں بے گھر ہوگئے ہیں اور نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔ معیشت کو ۹۰سے ۱۰۰؍ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ شہروں اور دیہات کا امن تہ و بالا ہوگیا ہے، بھائی بھائی کا گلا کاٹ رہا ہے اور فوج اور قوم کے درمیان محبت، اعتماد اور احترام کا جو رشتہ تھا وہ پارہ پارہ ہوگیا ہے۔ جرائم پیشہ افراد اور ملک کے بیرونی دشمنوں نے اس فضا سے پورا فائدہ اٹھایا ہے اور اپنے مذموم کھیل کے لیے اس دھوئیں کی چادر (smoke screen)کو استعمال کیا ہے۔ حکومت، فوج اور قوم اس دلدل میں پھنستی چلی جارہی ہے۔
ملک میں انتہاپسندی، تشدد، دہشت گردی اور کشت و خون کے اس کھیل کو امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں پاکستان کے کردار سے الگ کر کے نہ سمجھا جاسکتا ہے اور نہ کوئی حل نکالا جاسکتا ہے۔ اگرحکومت اور عسکری قیادت پارلیمنٹ کے متفقہ طور پر منظور شدہ قراردادوں اور پارلیمانی کمیٹی براے قومی سلامتی کے مرتب کردہ نقشۂ کار پر خلوص، دیانت اور حکمت کے ساتھ عمل کرنے کا راستہ اختیار کرے اور تمام سیاسی اور دینی قوتوں اور اس تصادم سے متاثر ہونے والے تمام عناصر کو شریک کر کے قومی سلامتی کے پروگرام پر عمل پیرا ہو، تو ایک مختصر وقت میں ہم اس جنگ سے نکل کر قومی تعمیروترقی کے لیے سرگرم ہوسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں سیاسی قیادت اور عسکری ذمہ داران کو باہم مشاورت سے اور دستور اور سیاسی نظام کی بالادستی کے اصول کے تحت نقشۂ کار بنانا ہوگا۔ اس سلسلے میں یہ بھی بہت ضروری ہے کہ افغانستان سے امریکی اور ناٹو افواج کا انخلا ہو، افغانستان میں قومی سطح کی تمام اہم قوتوں کو باہمی مفاہمت کی بنیاد پر ایک میثاقِ ملّی پر مجتمع کیا جائے اور ایک دوسرے کی حاکمیت کے مکمل احترام کے ساتھ افغانستان اور اس کے تمام ہمسایہ ممالک علاقے کی سلامتی اور استحکام کا نقشہ تیار کرنے میں ایک دوسرے کے ممدومعاون ہوں۔
پاکستان کو امریکا کی گرفت سے نکالنے کے لیے ایک ایسی آزاد خارجہ پالیسی کی تشکیل ناگزیر ہے، جس کا مرکز و محور پاکستان کی آزادی، سلامتی، حاکمیت اور ترقی کے حصول کے لیے اس کے حقیقی مفادات کا تحفظ ہو، اور علاقے کے دوسرے تمام ممالک سے مشترک مفادات، باہمی تعاون اور انصاف اور بین الاقوامی قانون اور کنونشنز کی روشنی میں دوستی اور معاونت کا اہتمام ہو۔ یہ دیوانے کا خواب نہیں، وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے اور یہ پاکستان کی قیادت اور عوام کی ترجیح اوّل ہونی چاہیے۔ اس سلسلے میں یہ بھی ضروری ہے کہ امریکا کے ساتھ تعلقات کی نئی بنیادوں پر تشکیل کی جائے۔ دہشت گردی کی جنگ سے نکلنے کا مقصد اور ہدف دوٹوک انداز میں واضح کردیا جائے۔ امریکا کی معاشی امداد سے، جس کا ہماری معیشت میں کوئی بنیادی کردار نہیں اور جس کے بغیر معیشت کو ٹھوس بنیادوں پر منظم کیا جاسکتا ہے، خوش اسلوبی سے نجات حاصل کی جائے۔ جن شرائط (terms of engagement) پر گذشتہ ۱۰سال سے معاملہ ہو رہا ہے، وہ سراسر پاکستان کے مفادات سے متصادم ہیں اور اس بارے میں دو آرا نہیں کہ پاکستان کی معیشت کو اس جنگ سے، اس امداد کے مقابلے میں جو ملی ہے، کم از کم ۸گنا زیادہ نقصان ہوا ہے۔ اس امداد کا بہت کم حصہ پاکستان اور اس کے غریب عوام کے حصے میں آیا ہے، اور اس کے عوض ہماری آزادی اور عزت دونوں کا سودا ہوگیا ہے۔ ملک کی معیشت ٹھٹھر کر رہ گئی ہے۔ قرضوں کا بوجھ ناقابلِ برداشت حد تک بڑھ گیا ہے۔ ملک پر اس کی تاریخ کے پہلے ۶۱برسوں میں قرض کا جو بوجھ پڑا ہے، وہ ساڑھے چار ہزار ارب روپے تھا، لیکن ان ساڑھے تین برسوں میں یہ بڑھ کر ۱۰ہزار ارب روپے سے تجاوز کرگیا ہے۔ گویا ۶۱برسوں کے قرض ایک طرف، اور صرف ان تین برسوں کے قرض دوسری طرف۔ آج ہر وہ بچہ جو پاکستان میں آنکھیں کھول رہا ہے، ۶۰ہزار روپے سے زیادہ کا مقروض پیدا ہو رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو جن وسائل سے نوازا ہے ، وہ خودانحصاری کی بنیاد پر ایک ترقی یافتہ ملک بننے اور ترقی کی دوڑ میں دوسرے ممالک سے آگے نکلنے کے لیے کافی ہیں۔یہ ہماری ناکام پالیسیاں اور نااہل اور بددیانت قیادتیں ہیں جن کی وجہ سے یہ قدرتی دولت سے مالا مال ملک دوسروں کا دست نگر بن گیا ہے۔ اس وقت بیرونی اور اندرونی قرضوں پر سود اور قسط کی ادایگی پر ۹۰۰؍ارب روپے سالانہ خرچ کرنے پڑرہے ہیں،جب کہ حکومتی سطح پر تمام ترقیاتی منصوبوںپر سال میں بمشکل ۲۸۰؍ارب روپے خرچ ہو رہے ہیں اور ان کا بھی بڑا حصہ بدعنوانی کی نذر ہو رہا ہے۔ اس وقت ۳۲۰۰ ترقیاتی منصوبے نامکمل پڑے ہیں اور ان پر جو اربوں روپے خرچ ہوچکے ہیں وہ خسارے کا سودا ہیں۔
ملک میں کرپشن کا دور دورہ ہے اور اس کا اندازہ بھی کرنا مشکل ہے کہ اس کالے کنویں (black hole) میں کتنی قومی دولت ضائع ہو رہی ہے۔ محتاط اندازہ ۶۰۰ سے ۱۰۰۰؍ ارب روپے سالانہ کا ہے۔ اس پر مستزاد وہ شاہ خرچیاں ہیں جو حکومت اور بیوروکریسی کی پہچان بن گئی ہیں۔ ایسی ایسی ہوش ربا مستند داستانیں ٹی وی چینل پر آئی ہیں کہ یقین نہیں آتا۔ لیکن کوئی گرفت اور سزا نہیں۔ سپریم کورٹ کو بھی ’’احترام، احترام‘‘ کرتے، عملاً بے اثر کر دیا گیا ہے۔ دوسری طرف وزیروں، مشیروں اور خصوصی معاونین کی ریل پیل ہے۔ مرکز میں وزرا کم کرنے کا اعلان کیا گیا مگر جس دن امریکا ایبٹ آباد پر حملہ کر رہا تھا، اس وقت ایوانِ صدر میں ڈیڑھ درجن نئے وزرا حلف لے رہے تھے۔ سب سے غریب صوبے کا یہ حال ہے کہ اس کی اسمبلی میں ۶۰ ارکان ہیں مگر وزیروں اور مشیروں کی تعداد ۵۵ تک پہنچ چکی ہے۔ وزیراعظم نے اعلان کیا تھا کہ غیرترقیاتی اخراجات میں ۳۰ فی صد کمی کی جائے گی مگر عملاً ان میں اضافہ ہوا ہے، براے نام بھی کمی نہیں کی گئی۔
ادھر آمدنی کا یہ حال ہے کہ فیڈرل بیورو آف ریونیو کے مطابق ۱۵۸۰؍ ارب روپے سالانہ وصول ہو رہے ہیں، جب کہ ۱۱۰۰؍ارب روپے سالانہ ٹیکس چوری کی نذر ہو رہے ہیں۔ اگر اس کا تین چوتھائی وصول کرلیا جائے تو بجٹ کا خسارہ ختم ہوسکتا ہے۔ پھر اہلِ ثروت کے بڑے بڑے گروہ ہیں جو ٹیکس کے نیٹ ورک میں آ ہی نہیں رہے۔ ان میں بڑے زمین دار، غیرمنقولہ جایدادوں کے مالک اور تاجر، اہم پیشہ ور افراد، جن میں وکلا، ڈاکٹر، انجینیر، اکائونٹنٹس وغیرہ شامل ہیں۔ اور پھر اسٹاک ایکسچینج کے تاجر اور وہاں حصص کا کاروبار کرنے والے اور اس میں بڑی رقوم کا منافع کمانے والے ہیں۔ اس وقت ٹیکس کی حد ۳لاکھ روپے سالانہ آمدنی ہے، اس حد کو بڑھا کر ۴ یا ۵ لاکھ بھی کیا جاسکتا ہے، مگر جس کی آمدنی بھی ۵لاکھ سالانہ یا اس سے زیادہ ہو، وہ واقعی ٹیکس دے تو حکومت کی آمدنی دگنی ہوسکتی ہے۔ اس وقت ۱۸کروڑ افراد کے ملک میں صرف ۱۸لاکھ افراد ٹیکس ادا کر رہے ہیں، جب کہ یہ تعداد کسی اعتبار سے بھی ۴۰سے ۵۰لاکھ سے کم نہیں ہونا چاہیے۔ اگر ٹیکس کے نیٹ ورک کو ایمان داری اور فرض شناسی کے ساتھ وسیع کیا جائے تو نہ حکومت کو قرضوں کی ضرورت ہو اور نہ بجٹ کا خسارہ ہمارا منہ چڑائے___ لیکن یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب ملک کو دیانت دار اور لائق قیادت میسرہو، کرپشن کا خاتمہ کیا جائے، ملک میں قانون اور انصاف کا بول بالا ہو، احتساب کا مؤثر نظام موجود ہو، تمام ادارے اپنا اپنا کام دستور کے دائرے میں انجام دیں۔ معاشی پالیسیاں عوام دوست ہوں اور ترقی اور فلاحِ عامہ کے لیے بنائی جائیں اور ان پر دیانت سے عمل ہو۔
آج حالات بلاشبہ بہت ہی خراب ہیں، مگر اللہ تعالیٰ نے اس ملک کو ان تمام مادی اور انسانی وسائل سے مالامال کیا ہے جو ترقی اور خوش حالی کے لیے ضروری ہیں___ اصلاحِ احوال کے لیے ضروری ہے کہ اس وقت جو بنیادی خرابیاں ہیں، ان پر قابو پانے کی سرتوڑ کوشش کی جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے ہم اللہ کے حضور اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں اور اصلاحِ احوال کے لیے خلوص اور دیانت سے زندگی کا ایک نیا ورق کھولیں۔ سب سے اہم چیز پاکستان کے قیام کے اصل مقصد اور عوام اور تاریخ سے کیے جانے والے وعدے کا پُرخلوص اعادہ ہے۔ علامہ اقبالؒ اور قائداعظم محمدعلی جناحؒ نے جو وعدہ اللہ اور عوام سے کیا تھا وہ یہ تھا کہ:
پاکستان کے نام سے ہم جو خطۂ زمین حاصل کرنا چاہتے ہیں، وہ اسلام کا گہوارا اور دورِحاضر میں اسلامی نظام کی تجربہ گاہ ہوگا اور ہم اپنے لیے اور پوری دنیا کے لیے دورِ جدید میں اسلام کا نمونہ پیش کرنے کی کوشش کریںگے۔
۱۹۴۰ء کی قراردادِ پاکستان اور علامہ اقبال کے ۱۹۳۰ء کے الٰہ آباد خطبۂ صدارت کی یہی روح ہے۔ قائداعظم نے ۱۹۴۰ء کے کنونشن سے جو خطاب کیا، حصولِ پاکستان کے مقاصد کے سلسلے میں قیامِ پاکستان سے قبل ایک سو سے ایک اور قیامِ پاکستان کے بعد ۱۴ مرتبہ اعلانات کیے، مزیدبرآں ۱۹۴۶ء کے مسلم لیگ لیجسلٹر کنونشن کی قرارداد، ۱۹۴۹ء کی قرارداد مقاصد اور پھر ۱۹۵۶ء، ۱۹۶۲ء اور ۱۹۷۳ء کے دساتیر میں قرارداد مقاصد اور ریاست کے لیے پالیسی کے رہنما اصولوں کی شکل میں ان وعدوں اور اعلانات کی قانون کی زبان میں تکرار___ ان سب کا خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان میں اسلامی تہذیب و تمدن کا احیا ہوگا اور اسلام عملاً یہاںنافذ ہوگا۔
آج امریکا اور نام نہاد لبرل حلقوں کی طرف سے پاکستان کے اسلامی تشخص کو مجروح کرنے اور ایک نظریاتی کے بجاے محض ’قومی ریاست‘ بنانے کی سرگرمیوں کا سختی سے نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔ یہ ملک میں نظریاتی کش مکش اور انتشار پھیلانے کی سازش ہے اور اس کا بھرپور اور مؤثر مقابلہ ضروری ہے۔
دوسری چیز پاکستان کو امریکا کی سیاسی اور معاشی غلامی سے نکالنا اور آزاد خارجہ پالیسی کی تشکیل ہے۔ نیز ملک کی معیشت، تعلیم اور تہذیبی اور سماجی زندگی کو عوام کے ایمان اور عزائم کے مطابق ڈھالنا اور خاص طور پر معاشی خودانحصاری اور عوام کی فلاح اور خوش حالی پر مرکوز کرنا ہے۔
تیسری چیز دستور کے دیے ہوئے نقشے کے مطابق:
چوتھی چیز سیاسی نظام اور سیاسی قیادت پر عوام کا اعتماد اور ان کے درمیان مکمل ہم آہنگی ہے۔ اس وقت ہمارا المیہ ہی یہ ہے کہ عوام نے حکمرانوں کو جو مینڈیٹ فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں دیا تھا، اسے بُری طرح پامال کردیا گیا ہے۔ عوام نے جن تین باتوں کا اپنے مینڈیٹ کے مرکزی پیغام کے طور پر بہت ہی واضح انداز میں اظہار کیا، وہ یہ تھیں:
۱- جنرل پرویز مشرف کے دور، اس کے طرزِ حکمرانی اور اس کی پالیسیوں پر مکمل عدم اعتماد کا اظہار___ اور صرف چہروں کی نہیںپالیسیوں اور طرزِ حکمرانی کی تبدیلی۔ یہی وجہ ہے کہ کسی ایک جماعت کو اکثریت حاصل نہ ہوئی بلکہ تبدیلی اور ایک نئے دور کے آغاز کی تمنا جس میں ملک کا مفاد، عوام کے حقوق اور حقیقی جمہوری طرزِ حکومت کا فروغ ان کا اصل ہدف تھا۔
۲- امریکا کی گرفت سے آزادی، امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے علیحدگی، آزاد خارجہ پالیسی اور ملکی مفادات، علاقے میں امن اور اُمت مسلمہ کی مضبوطی کو خارجہ امور اور ملکی سیاست کا مرکز و محور بنانا۔
۳- عدلیہ کی آزادی، فوج کے سیاسی کردار کی نفی، مرکز میں صوبوں کے درمیان اختیارات کی منصفانہ تقسیم، دستور کی اس کی اصل اسلامی، جمہوری، وفاقی اور فلاحی شناخت کے مطابق آمرانہ دور کی دراندازیوں سے پاک کرکے بحالی، ملک کو صحیح جمہوری خطوط پر منظم اور مضبوط کرنا، نیز بلوچستان کے ساتھ جو زیادتیاں اس زمانے میں ہوئی ہیں، ان کا فوری تدارک۔
یہ تین چیزیں وہ بنیاد تھیں جن پر عوام نے اپنا فیصلہ دیا۔ یہی وجہ تھی کہ انتخاب کے بعد جب حکومت کی تشکیل کا مرحلہ آیا تو ایک نوعیت کا قومی اتفاق راے پیداکرنے کی کوشش کی گئی۔ وزیراعظم کا انتخاب پارٹی بنیادوں پر کرنے کے بجاے پورے ایوان نے ان کو اعتماد کا ووٹ دیا اور جن جماعتوں نے اصول کی بنیاد پر انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا، انھوں نے بھی نئے قومی ایجنڈے پر حکومت کے کارفرما ہونے پر اسے تعاون کا یقین دلایا۔ لیکن چند ہی مہینوں میں یہ ساری توقعات خاک میں مل گئیں اور صدر زرداری نے مفاہمت کے نام پر مفادات اور منافقت کی سیاست کو فروغ دیا، سیاسی عہدوپیمان کو مذاق بنا دیا، کرپشن اور یاردوستوں کو نوازنے (cronyism) کی بدترین مثال قائم کی۔ اپنی پارٹی کے منشور اور اس میثاقِ جمہوریت کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جسے دورِ نو کا چارٹر بنا کر پیش کیا تھا۔ امریکا کی دراندازی کو اور بھی کھُل کھیلنے کا موقع دیا اور اپنی کرپشن کو تحفظ دینے کے لیے این آر او جیسے کالے قانون کو دستور عمل بنایا، عدالت کی بحالی کے لیے ہر ممکنہ رکاوٹ کھڑی کی اور جب مجبوراً اسے بحال کرنا پڑا تو اس کے بعد سے اس سے تصادم اور عدالت کے ہراہم فیصلے کو ناکام کرنے کے لیے سوچے سمجھے اقدامات کیے۔ امریکا کی مداخلت اتنی بڑھی کہ ڈرون حملے روز کا معمول بن گئے اور کھلے بندوں امریکا نے ایک متوازی نظام ملک میں قائم کرلیا اور اپنی مرضی سے جب چاہا ہماری حاکمیت کو پامال اور ہماری عزت کو داغ دار کیا۔ پھر معیشت کے میدان میں اس حکومت نے پہلے دن سے غلط اقدامات کی بھرمار کر دی، نااہلوں کو آگے بڑھایا اور تمام اداروں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی دوڑ شروع کردی جس نے پوری دستوری اسکیم کو درہم برہم کر دیا۔
معیشت ایک کے بعد دوسرے بحران سے دوچار ہوئی، ترقی کی رفتار دو اور تین فی صد کے درمیان پھنس گئی۔ افراطِ زر اور بے روزگاری نے عوام کی زندگی اجیرن کر دی۔ بجلی کا بحران، گیس کی قلت، پٹرول اور اس کی مصنوعات کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ، اشیاے خوردونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں، لاقانونیت کا دوردورہ ہے اور کسی کی جان، مال اور عزت کوئی چیز محفوظ نہیں ہے۔ خراب حکمرانی (bad governance) اور عوام کے مسائل اور مشکلات کے باب میں مجرمانہ بے حسی اس کا شعاربن گئے۔ حد یہ کہ خود اپنی قائد، جس کے نام پر اقتدار حاصل کیا، اس کے قاتلوں کا سراغ لگانے میں ناقابلِ یقین بے توجہی، بلکہ وہ رویہ اختیار کیا جس کے نتیجے میں قاتلوں کو تحفظ دیے جانے کے شبہات نے جنم لیا۔ جنرل پرویز مشرف سے مفاہمت اور پھر اس کی ملک سے باعزت رخصتی اور جن کو ’قاتل لیگ‘ کہا تھا ان کو شریکِ اقتدار کرنا اور جن کے بارے میں جولائی ۲۰۰۷ء کی لندن کانفرنس میں متفقہ طور پر طے کیاتھا کہ ان کے ساتھ کوئی سیاسی مفاہمت یا شراکت نہیں ہوگی، ان کو نہ صرف گلے سے لگایا بلکہ ان کی خوشنودی کے لیے ہراصول اور ضابطے کا کھلے بندوں خون کیا، جس کے نتیجے میں کراچی لاقانونیت کی بدترین تصویر پیش کرنے لگا۔ ان تین برسوں میں صرف کراچی میں ٹارگٹ کلنگ (ہدفی قتل) کے نتیجے میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے اور وہاں کی معیشت بُری طرح متاثر ہوئی۔
ان سوا تین برسوں میں حکومت نے جو کارنامے انجام دیے ہیں ان کے نتیجے میں جو صورت حال پیدا ہوئی ہے اسے ان چار نکات میں بیان کیا جاسکتا ہے:
۱- سیاسی اور اخلاقی جواز نہیں رہا ہے۔
۲- اعتبار اُٹھ گیا ہے۔
۳- نااہلیت ثابت ہوگئی ہے۔
۴- کرپشن کا دور دورہ ہے۔
یہ وہ چیزیں ہیں جن کی وجہ سے وہ مینڈیٹ جو عوام نے دیا تھا، اپنا جواز کھو چکا ہے۔ مینڈیٹ اچھی حکمرانی (good governance) کے لیے تھا، محض پانچ سال پورے کرنے اور بدترین اور کرپٹ ترین اندازِ حکمرانی کے لیے نہیں تھا۔ ایسے حالات میں دستوری مدت سے قبل انتخابات اور عوام سے نیا مینڈیٹ حاصل کرنے کی ضرورت جمہوریت کا ایک بنیادی اصول ہے۔ بھارت میں گذشتہ ۶۳برس میں نو مرتبہ انتخابات دستوری مدت پوری کرنے سے پہلے ہوئے ہیں۔ اسی طرح انگلستان میں دوسری جنگ کے بعد سے اب تک کئی بار پارلیمنٹ کے وسط مدتی انتخابات منعقد کیے گئے ہیں۔ نئے انتخاب کا انحصار حکومت کی کارکردگی اور عوام کے اعتماد یا بے اعتمادی کی روشنی میں کیا جاتا ہے۔ صاف نظر آرہا ہے کہ یہ حکومت اپنا جواز کھوچکی ہے ، اس لیے ضروری ہے کہ نئے انتخابات کا انعقاد ہو، جو غیر جانب دار اور آزاد الیکشن کمیشن کے تحت نئے انتخابی قواعد کے مطابق ہوں۔ اس لیے کہ ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے موقع پر جو ووٹروں کی فہرست تھی اس میں ۴۵ فی صد بوگس ووٹ تھے جس کا اعتراف نادرا اور عدالتِ عالیہ نے کیا ہے۔
ملک کو سیاسی انتشار، معاشی بدحالی اور امریکا کی غلامی سے نجات دلانے کے لیے یہ سب سے معقول اور جمہوری اعتبار سے معتبر راستہ ہے۔ ٹیکنوکریٹس کی حکومت کی کوشش اور فوج کی کسی بھی شکل میں مداخلت حالات کو بگاڑنے کا ذریعہ تو ہوسکتے ہیں، اصلاحِ احوال کی طرف پیش رفت کا موجب نہیں ہوسکتے۔
اس کے ساتھ اس امر کی ضرورت ہے کہ پارلیمنٹ کے مشترک اجلاس کی متفقہ قرارداد پر اس کے الفاظ اور روح کے مطابق فوری طور پر عمل ہو، جس کے کم از کم تقاضے یہ ہیں:
اوّل: ۲ مئی کے واقعے کے تمام پہلوئوں کا بے لاگ اور غیر جانب دارانہ جائزہ لینے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی آزاد کمیشن کا قیام جو انٹیلی جنس کی ناکامی اور قومی سلامتی کے تحفظ میں ناکامی (security failure) کے تمام پہلوئوں کا جائزہ لے اور پوری پیشہ ورانہ مہارت اور دیانت کے ساتھ تمام حقائق پارلیمنٹ اور قوم کے سامنے لائے۔ عوام کا اعتماد حکومت اور دفاع اور قومی سلامتی کے اداروںپر متزلزل ہوگیا ہے۔ ۲۲مئی کے واقعے نے حالات کی نزاکت اور مخدوش صورت حال کو اور بھی گمبھیر کردیا ہے۔ اس لیے اس کمیشن کا فی الفور قیام ملک کی سلامتی کے لیے ضروری ہے۔
دوم: امریکا سے تعلقات پر مکمل نظرثانی کا آغاز بھی فوری طور پر ہوجانا چاہیے۔ قوم کے سامنے وہ سارے حقائق آنے چاہییں جن پر آج تک پردہ پڑا رہا ہے۔ کچھ حقائق امریکا کے عملی رویے اور جارحانہ کارروائیوں سے اور کچھ وکی لیکس کے انکشافات سے سامنے آرہے ہیں اور کچھ ریمنڈ ڈیوس کے واقعے سے سامنے آئے ہیں۔ ان پس پردہ حقائق نے کچھ بنیادی سوالات کو بھی جنم دیا ہے جن کا جواب قوم اور پارلیمنٹ کے لیے جاننا ضروری ہے۔ ماضی میں جو بھی کھلے عام یا خفیہ مفاہمت تھی، اس کو ختم ہونا چاہیے اور تمام معاملات کو دو اور دو چار کی طرح تحریری طور پر طے ہونا چاہیے اور وہ کابینہ اور پارلیمنٹ کے علم میں لائے جانے چاہییں۔ اس قرارداد اور پارلیمنٹ کی اس سے پہلے کی قراردادوں کی روشنی میں یہ بالکل واضح ہے کہ پارلیمنٹ کی نگاہ میں:
۱- خارجہ پالیسی کو آزاد ہونا چاہیے اور امریکا سے خودمختارانہ برابری (sovereign equality) کے اصول کی بنیاد پر معاملات طے ہونے چاہییں جن کا محور پاکستان کی آزادی، حاکمیت، نظریاتی تشخص، اور اس کے سیاسی، معاشی اور علاقائی مفادات کا مکمل تحفظ ہے۔
۲- دہشت گردی کے خلاف جنگ سے باعزت دُوری اور اس اصول کی بنیاد پر نئی حکمت عملی کا تعین کہ اس مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں۔ اصل حل سیاسی ہے اور اس کے لیے مذاکرات کے سوا کوئی طریقہ نہیں۔ ان مذاکرات میں تمام متعلقہ عناصر (stake holders) کی شرکت لازمی ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مکالمہ (Dialogue) ترقی (Development) اور باز رکھنا (Deterrence) (یعنی تین Ds) ہی صحیح طریقہ ہے۔
سوم: پاکستان کی حاکمیت اور خودمختار سرحدوں (sovereign borders) کا تحفظ اولین اہمیت کا مسئلہ ہے۔ ڈرون حملے ہماری حاکمیت کی کھلی خلاف ورزی ہیں اور امریکا یا کسی کی طرف سے بھی کوئی یک طرفہ مداخلت ہماری حاکمیت اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے جسے کسی صورت میں برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ امریکا کو اس سلسلے میں صاف وارننگ دے دی جائے اور اگر اس کے بعد بھی کوئی ڈرون حملہ ہو یا کسی بھی شکل میں فوجی مداخلت ہوتی ہے تو ناٹو افواج کی راہداری کی سہولتیں فوراً ختم کی جائیں اور تمام دفاعی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال ہو۔ ہم امریکا سے تصادم نہیںچاہتے، لیکن امریکا کو اپنی سرزمین پر اس نوعیت کے جارحانہ فوجی اقدامات کی اجازت بھی نہیں دے سکتے۔ اگر کیوبا ۱۹۶۰ء سے امریکا کی دراندازیوں کا مقابلہ کرسکتا ہے اور جنوبی امریکا کے نصف درجن سے زیادہ ممالک امریکا کو اس کی اپنی حدود میں رکھنے اور اپنی عزت اور آزادی کے تحفظ کے لیے سینہ سپر ہوسکتے ہیں، اگر شمالی کوریا امریکا اور جنوبی کوریا دونوں کو اپنی حدود کو پامال کرنے سے روک سکتا ہے تو پاکستان جو ایک ایٹمی طاقت ہے، جس کے عوام نے اپنی افواج کو دفاع کے لیے ناقابلِ تسخیر قوت کی فراہمی کے لیے اپنا پیٹ کاٹ کر وسائل فراہم کیے ہیں،وہ ملک کی سرحدوں اور قیمتی اثاثوں کا دفاع کیوں نہیں کرسکتیں، جب کہ ہمارے عسکری قائدین پبلک اور پرائیویٹ ہر موقع پر یقین دلاتے ہیں کہ ان شاء اللہ دفاع کا حق ادا کریںگے، ان کو صرف سول حکومت کی اجازت اور اشارے کی ضرورت ہے۔
چہارم: ملک کے سلامتی کی صورت حال (security paradigm) پر بھی ازسرِنو غور کی ضرورت ہے۔ اس میںمشرق اور مغرب ہرسمت سے جو خطرات ممکن ہیں، ان کا ادراک ضروری ہے۔ امریکا کے رویے کی وجہ سے خطرے کے ادراک (threat perception) پرنظرثانی کی جو ضرورت ہے، اس پر عسکری اور سیاسی قیادت دونوں کو فوری طور پر توجہ دینے اور سلامتی کی حکمت عملی کو ازسرِنو مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے نکلنے کے ساتھ ساتھ اس پر بھی غور کرنا ہوگا کہ پاکستان کی سرزمین ملک کے اندر یا ملک کے باہر، دوسروں کے لیے کسی نوعیت کی بھی دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دیا جائے، اور اس کے لیے دہشت گردی کے خلاف جس حکمت عملی، اختیار اور قانون سازی کی ضرورت ہے اس پر فوری توجہ دی جائے۔ دہشت گردی اور جنگ آزادی دو لگ الگ چیزیں ہیں لیکن حقیقی دہشت گردی کسی بھی ملک کے لیے قابلِ برداشت نہیں۔ البتہ ان اسباب کی اصلاح بھی ضروری ہے جو جمہوری اور قانونی راستوں کو غیرمؤثر بناتے ہیں اور لوگوں کو غلط راستوں کی طرف دھکیلتے ہیں۔ اس کے لیے سیاسی، نظریاتی، اخلاقی اور قانونی تمام پہلوئوں کو سامنے رکھ کر ایک جامع حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔
پنجم: پارلیمنٹ کی قراردادوں کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ پاکستان اور اس کے سفارت کار پاکستان کے موقف کو دنیا کے سامنے دلیل کے ساتھ اور مؤثر ترین انداز میں پیش کریں اور سفارتی فعالیت (activism) کا راستہ اختیارکیا جائے۔ آج پاکستان کے امیج کو خراب کرنے اور اسے ایک ناکام یا ناکامی کی طرف بڑھتی ہوئی ریاست کی شکل میں بڑے منظم انداز میں پیش کیا جا رہا ہے۔ بلاشبہہ ہمیں اپنے گھر کی اصلاح کرنی ہے لیکن اس کے ساتھ اپنے موقف کے ابلاغ اور دنیا میں دوستوں کو متحرک کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
ہمارے بعض دانش ور، میڈیا کے بعض حلقے اور وہ عناصر جو پاکستان کو امریکا کے زیراثر رکھ کر عوام کی آرزوئوں کے برخلاف سیکولر اباحیت پسند معاشرہ چاہتے ہیں ملک کے خیرخواہ بن کر یہ نقشہ کھینچ رہے ہیں اور ڈرا رہے ہیں___ اگر امریکی امداد بند ہوگئی تو ہماری معیشت بالکل بیٹھ جائے گی اور پاکستان ختم ہوجائے گا۔ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس سے پہلے چار دفعہ: ۱۹۶۵ء، ۱۹۷۱ء، ۱۹۸۹ء اور ۱۹۹۸ء میں امریکا نے اپنی ہر طرح کی معاشی اور عسکری معاونت ختم کر دی تھی لیکن الحمدللہ! پاکستانی معیشت پر کوئی منفی اثر نہیں پڑا اور ترقی کا سفر جاری رہا۔ موجودہ حالات میں یہ حکومت یا کوئی دوسری حکومت عزت و وقار کے ساتھ امریکی امداد کو ٹھکرا دے تو پاکستان کے عوام کے لیے خیروبرکت کا باعث ہوگا اور ہماری معیشت اپنے پائوںپر کھڑی ہوجائے گی۔ عوام بھی ایک جذبے سے بڑھ کر اپنا حصہ ادا کریں گے، ٹیکس بھی زیادہ ملیں گے اور کرپشن میں بھی کمی آئے گی۔
سب سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ ہم دنیا کے مظلوم انسانوں اور مسلم اُمت کے عام نفوس تک پہنچیں اور ان کی قوت کو اپنے لیے مسخرومنظم کریں۔ ایسے حکمرانوں سے تائید ہماری قوت کا ذریعہ نہیں جو خود ظلم و استبداد کے مرتکب ہوں۔ ہماری اصل ہم آہنگی اپنے ملک کے عوام اور تمام دنیا کے عوام سے ہونی چاہیے جو اس ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے برأت کا اعلان کرتے ہیں۔ مسلم دنیا کے ۹۰ فی صد عوام اس جنگ کو ایک ناحق جنگ سمجھتے اور امریکا کو اس کی مسلم کش پالیسیوں کی وجہ سے اپنا دوست نہیں سمجھتے۔ اب خود امریکی راے عامہ کے تازہ ترین جائزوں کی روشنی میں آبادی کے ۶۲ فی صد نے اس جنگ سے امریکا کے نکلنے کے حق میں راے کا اظہار کیا ہے۔
آخری چیز ملک کی معیشت کو سنبھالنا، نئی معاشی پالیسی کی تشکیل اور اس پر عمل درآمد کا انتظام ہے۔ معیشت کی اصلاح کا بڑا قریبی تعلق سیاسی تبدیلی اور آزاد خارجہ پالیسی اور علاقائی امن و سلامتی کے لیے علاقے کے ممالک کے ساتھ مل کر نئے دروبست کے قیام پر ہے، اور حالات اسی طرح اشارہ کر رہے ہیں۔ اس تبدیلی کے لیے موجودہ قیادت سے توقع عبث ہے۔ اس کا راستہ عوام کو متحرک کرنے اور عوام کی قوت سے دستور کے مطابق جمہوری عمل کے لیے نئی قیادت کو زمامِ کار سنبھالنے کا موقع فراہم کرنا ہے۔ آج پاکستان ہم سے اس جدوجہد کا مطالبہ کر رہا ہے۔
اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو انتخاب اور ارادے کی آزادی بخشی ہے، اور اسی آزادی کے استعمال میں اُس کا امتحان ہے۔ اِس حقیقت کو اگر آپ ذہن نشین کرلیں تو آپ کو یہ سمجھنے میں کوئی زحمت پیش نہ آئے گی کہ کسی ملک یا قوم یا زمانے کے انسانوں میں اگر کوئی دعوتِ باطل فروغ پاتی ہے، یا کوئی نظامِ باطل غالب رہتا ہے، تو یہ اُس دعوت اور اُس نظام کی کامیابی نہیں بلکہ اُن انسانوں کی ناکامی ہے جن کے اندر ایک باطل دعوت یا نظام نے عروج پایا۔ اِسی طرح دعوتِ حق اور اس کے لیے کام کرنے والے اگر اپنی حد تک صحیح طریقے سے اصلاح کی کوشش کرتے رہیں اور نظامِ حق قائم نہ ہوسکے تو یہ نظامِ حق اور اس کے لیے کام کرنے والوں کی ناکامی نہیں، بلکہ ان انسانوں ہی کی ناکامی ہے جن کے معاشرے میں صداقت پروان نہ چڑھ سکی اور بدی ہی پھلتی پھولتی رہی۔
دنیا میں حق اور باطل کی کش مکش بجاے خود ایک امتحان ہے، اور اس امتحان کا آخری نتیجہ اِس دنیا میں نہیں بلکہ آخرت میں نکلنا ہے۔ اگر دنیا کے انسانوں کی عظیم اکثریت نے کسی قوم، یا ساری دنیا ہی نے حق کو نہ مانا اور باطل کو قبول کرلیا تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ حق ناکام اور باطل کامیاب ہوگیا، بلکہ اس کے معنی دراصل یہ ہیں کہ انسانوں کی عظیم اکثریت اپنے رب کے امتحان میں ناکام ہوگئی جس کا بدترین نتیجہ وہ آخرت میں دیکھے گی۔ بخلاف اس کے وہ اقلیت جو باطل کے مقابلے میں حق پر جمی رہی اور جس نے حق کو سربلند کرنے کے لیے جان و مال کی بازی لگا دی، اِس امتحان میں کامیاب ہوگئی اور آخرت میں وہ بھی اپنی اِس کامیابی کا بہترین نتیجہ دیکھ لے گی۔ یہی بات ہے جو نوعِ انسانی کو زمین پر اُتارتے وقت اللہ تعالیٰ نے صاف صاف بتادی تھی کہ فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ھُدًی فَمَنْ تَبِعَ ھُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لاَ ھُم یَحْزَنُوْنَ o وَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَکَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَآ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ o (البقرہ ۲:۳۸-۳۹) ’’پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمھارے پاس پہنچے، تو جو لوگ میری اُس ہدایت کی پیروی کریں گے، اُن کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا، اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے، وہ آگ میں جانے والے ہیں، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے‘‘۔
اس حقیقت کو آپ جان لیں تو یہ بات بھی آپ کی سمجھ میں بخوبی آسکتی ہے کہ اہلِ حق کی اصل ذمہ داری یہ نہیں ہے کہ وہ باطل کو مٹا دیں اور حق کو اس کی جگہ قائم کر دیں، بلکہ ان کی اصل ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی حد تک باطل کو مٹانے اور حق کو غالب و سربلند کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ صحیح اور مناسب و کارگر طریقوں سے کوشش کرنے میں کوتاہی نہ کریں۔ یہی کوشش خدا کی نگاہ میں ان کی کامیابی و ناکامی کا اصل معیار ہے۔ اس میں اگر ان کی طرف سے دانستہ کوئی کوتاہی نہ ہو تو خدا کے ہاں وہ کامیاب ہیں، خواہ دنیا میں باطل کا غلبہ ان کے ہٹائے نہ ہٹے اور شیطان کی پارٹی کا زور اُن کے توڑے نہ ٹوٹ سکے۔
بسااوقات آدمی کے ذہن میں یہ اُلجھن بھی پیدا ہوتی ہے کہ جب یہ دین خدا کی طرف سے ہے، اور اس کے لیے کوشش کرنے والے خدا کا کام کرتے ہیں، اور اس دین کے خلاف کام کرنے والے دراصل خدا سے بغاوت کرتے ہیں، تو باغیوں کو غلبہ کیوں حاصل ہوجاتا ہے اور وفاداروں پر ظلم کیوں ہوتا ہے؟ لیکن اُوپر جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس پر غور کرنے سے آپ اس سوال کا جواب بھی خود پاسکتے ہیں۔ درحقیقت یہ اُس آزادی کا لازمی نتیجہ ہے جو امتحان کی غرض سے انسانوں کو دی گئی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت یہ ہوتی کہ زمین میں صرف اس کی اطاعت فرماں برداری ہی ہو اور سرے سے کوئی اس کی رضا کے خلاف کام نہ کرسکے، تو وہ تمام انسانوں کو اُسی طرح مطیعِ فرمان پیدا کردیتا جس طرح جانور اور درخت اور دریا اور پہاڑ مطیعِ فرمان ہیں۔ مگر اس صورت میں نہ امتحان کا کوئی موقع تھا اور نہ اس میں کامیابی پر کسی کو جنت دینے اور ناکامی پر کسی کو دوزخ میں ڈالنے کا کوئی سوال پیدا ہوسکتا تھا۔
اس طریقے کو چھوڑ کے جب اللہ تعالیٰ نے یہ طریقہ اختیار فرمایا کہ نوعِ انسانی اور اس کے ایک ایک فرد کا امتحان لے، تو اس کے لیے ضروری تھا کہ ان کو انتخاب اور ارادے کی (بقدرِ ضرورتِ امتحان) آزادی عطا فرمائے، اور جب اُس نے ان کو یہ آزادی عطا فرما دی تو اب یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اُوپر سے مداخلت کرکے زبردستی باغیوں کو ناکام اور وفاداروں کو غالب کردے۔ اس آزادی کے ماحول میں حق اور باطل کے درمیان جو کش مکش برپا ہے اس میں حق کے پیرو، اور باطل کے علَم بردار اور عام انسان (جن میں عام مسلمان بھی شامل ہیں)، سب امتحان گاہ میں اپنا اپنا امتحان دے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وفاداروں کی ہمت افزائی اور باغیوں کی حوصلہ شکنی ضرور کی جاتی ہے، لیکن ایسی مداخلت نہیں کی جاتی جو امتحان کے مقصد ہی کو فوت کردے۔ حق پرستوں کا امتحان اس میں ہے کہ وہ حق کو غالب کرنے کے لیے کہاںتک جان لڑاتے ہیں۔ عام انسانوں کا امتحان اس میں ہے کہ وہ حق کے علَم برداروں کا ساتھ دیتے ہیں یا باطل کے علَم برداروں کا۔ اور باطل پرستوں کا امتحان اس میں ہے کہ وہ حق سے منہ موڑ کر باطل کی حمایت میں کتنی ہٹ دھرمی دکھاتے ہیں اور حق کی مخالفت میں آخرکار خباثت کی کس حد تک پہنچتے ہیں۔ یہ ایک کھلا مقابلہ ہے جس میں اگر حق اور راستی کے لیے سعی کرنے والے پِٹ رہے ہوں تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ حق ناکام ہورہا ہے اور اللہ تعالیٰ خاموشی کے ساتھ اپنے دین کی مغلوبی کو دیکھ رہا ہے، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ حق کے لیے کام کرنے والے اللہ کے امتحان میں زیادہ سے زیادہ نمبر پا رہے ہیں۔ اُن پر ظلم کرنے والے اپنی عاقبت زیادہ سے زیادہ خراب کرتے چلے جارہے ہیں، اور وہ سب لوگ اپنے آپ کو بڑے خطرے میں ڈال رہے ہیں جو اس مقابلے کے دوران میں محض تماشائی بن کر رہے ہوں، یا جنھوں نے حق کا ساتھ دینے سے پہلوتہی کی ہو، یا جنھوں نے باطل کو غالب دیکھ کر اس کا ساتھ دیا ہو۔
یہ خیال کرنا صحیح نہیں ہے کہ جو لوگ مسلمانوں میں شمار ہوتے ہیں وہ اس امتحان سے مستثنیٰ ہیں، یا محض مسلمان کہلایا جانا ہی اس امتحان میں ان کی کامیابی کا ضامن ہے، یا مسلمان قوموں اور آبادیوں میں دین سے انحراف کا فروغ پانا اور کسی فاسقانہ نظام کا غالب رہنا کوئی عجیب معمّا ہے جو حل نہ ہوسکے اور ذہنی اُلجھن کا موجب ہو۔ خدا کی اس کھلی امتحان گاہ میں کافر، مومن، منافق، عاصی اور مطیع، سب ہی ہمیشہ اپنا امتحان دیتے رہے ہیں اور آج بھی دے رہے ہیں۔ اس میں فیصلہ کُن چیز کوئی زبانی دعویٰ نہیں بلکہ عملی کردار ہے۔ اور اس کا نتیجہ بھی مردم شماری کے رجسٹر دیکھ کر نہیں بلکہ ہرشخص کا، ہر گروہ کا اور ہر قوم کا کارنامۂ حیات دیکھ کر ہی ہوگا۔ (رسائل و مسائل، پنجم، ص ۳۲۷-۳۳۱)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں سمیت سخت جاڑے اور بھوک کی حالت میں غزوئہ احزاب کے موقعے پر جہاد میں حصہ لیا۔ اس وقت آپؐ نے اس بے چارگی کی حالت میں دعا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے دعا قبول فرمائی، تیز آندھی چلا دی جس نے کفارِ قریش کے خیمے اُلٹ دیے اور وہ شکست سے دوچار ہوکر بھاگ کھڑے ہوئے۔ آج بھی کفار کے مقابلے میں سینہ سپر ہوکر مقابلہ کرنے والوں کا بڑا ہتھیار دعا ہے۔ دعا کرنے والے کو مایوسی نہیں ہوتی بشرطیکہ دعا کے ساتھ عمل بھی ہو۔ اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗ (الفاطر۳۵:۱۰)۔ ’’اسی کی طرف پاکیزہ کلمے چڑھتے ہیں اور نیک عمل ان کو اٹھاتا ہے‘‘۔
قیامت کے روز وضو کے آثار سے اعضاے وضو میں چمک دمک ہوگی اور اعضاے وضو کی چمک دمک کو دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نمازیوں کو اپنے حوض پر بلائیں گے لیکن وہ لوگ جو دین میں تبدیلی کے مرتکب ہوں گے وہ حوضِ کوثر کے ٹھنڈے اور میٹھے جاموں سے محروم ہوں گے۔ نماز اور وضو کی برکت اپنی جگہ برحق ہے لیکن دین میں تبدیلیوں کا جرم ان برکتوں کے اثرات میں رکاوٹ بن کر کھڑا ہوجائے گا۔ دین میں تبدیلیوں کے اس جرم کی راہ کو روکنا ضروری ہے، چاہے انفرادی سطح پر ہو یا حکومتی سطح پر۔ حکومتی سطح پر دین کی شکل کو بگاڑنے کی جو مذموم کوشش ہو رہی ہے اسے روکنے کی ہرممکن کوشش کرنی چاہیے۔
یہ حدیث اُمت مسلمہ کے لیے اُمید کی ایک کرن ہے۔ کفار ساری دنیا سے آج اُمت مسلمہ پر حملہ آور ہیں لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکیں گے۔ عالمِ اسلام پر مستقل طور پر ان کا تسلط نہ ہوسکے گا، البتہ وقتی طور پر وہ مسلمانوں کو نقصان پہنچا سکیں گے لیکن آخری فتح اسلام اور اہلِ اسلام کو حاصل ہوگی۔ آج اس بات کی ضرورت ہے کہ کفار کے مقابلے کے لیے جامع منصوبہ بندی کی جائے۔ فکری اور عسکری دونوں محاذوں پر صف بندی کی جائے۔ ان شاء اللہ کفار اپنے عبرت ناک انجام سے دوچار ہوں گے۔
جو عمل مسلسل ہو وہ خصوصی اثر رکھتا ہے۔ وہ تسلسل کی وجہ سے زیادہ بھی ہوجاتا ہے اور مداومت کی وجہ سے اس میں پختگی بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کی دنیاوی برکات و منافع بھی زیادہ ہوتے ہیں اور اجر بھی زیادہ ہوتا ہے۔ تہجد کی طرح باقی امور خیر کا بھی یہی حکم ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بہتر عمل وہ ہے جس پر مداومت کی جائے (یعنی مستقل کیا جائے) اگرچہ وہ تھوڑا ہو‘‘۔
نماز اور تمام عبادات کے سلسلے میں اس اصول کی پابندی کی جائے تو اس کے نتیجے میں آدمی زیادہ عبادت گزار ہوجاتا ہے۔
حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ جو شخص فرائض ادا کرے اورمنکرات اور کبائر سے بچے، اس کے لیے جنت ہے۔ چند کبائر کا ذکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بطورِ نمونہ فرمایا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد حجۃ الوداع کے موقعے پر تھا۔ اس حکم کی اہمیت کی خاطر اسے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا گیا۔ آج اس حکم کی خلاف ورزی ہورہی ہے۔ حجۃ الوداع کی اس وصیت کو اپنا نصب العین بنا کر اس کی تعمیل کرنا چاہیے اور اس کی خاطر اجتماعی کوشش کرنا چاہیے۔
مسلمان کے خلاف اسلحہ لے کر نکلنا ایمان اور اسلام کے منافی ہے۔ جو مسلمان ہوگا وہ مسلمان کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کرے گا۔ اس کا خون گرانے کے درپے نہ ہوگا۔
یہ فضیلت قتال فی سبیل اللہ اور دعوت الی اللہ دونوں کو شامل ہے۔ اقامت دین کی جو جدوجہد کی جائے وہ دنیا و مافیہا سے بہتر ہوگی۔ اس لیے کہ اس کے عوض میں جنت ملے گی جو دنیا ومافیہا سے بہتر ہے۔
اس دنیا میں ہماری زندگی ایک حقیقت ہے، اور جتنی بڑی حقیقت دنیا کی یہ زندگی ہے، اتنی بڑی حقیقت یہ ہے کہ اس زندگی کو لازماً ختم ہوجانا ہے۔ کسی بات کے بارے میں بھی بحث، گفتگو یا اختلاف ہوسکتا ہے، لیکن اس بارے میں کوئی اختلاف یا بحث کی گنجایش نہیں ہے کہ یہ زندگی ختم ہوگی___ یہ بڑی واضح اور اٹل بات ہے۔ اور پھر جتنی بڑی حقیقت یہ ہے کہ یہ زندگی اللہ کی بخشی ہوئی ہے اور اسی نے اس کو پیدا کیا ہے، اتنی ہی بڑی حقیقت یہ بھی ہے کہ ہم اس کے سامنے حاضر ہوں گے۔ مخلوق کی خالق سے ملاقات ہوگی۔ اس سے ملاقات نہ ہو تو یہ سارا سلسلہ محض ایک واہمہ اور ایک تخیل بن کر رہ سکتاہے___ اللہ موجود ہے، وہ یہ سب کچھ دیکھ رہا ہے اور یہ کہ واقعی وہ ہے، اس کی آخری تصدیق اسی وقت ہوسکتی ہے جب اس سے ملاقات ہو۔ ساری زندگی اللہ کی بندگی اور اس کی غلامی میں گزارنے کے لازمی معنی یہ ہیں کہ موت کے بعد آنے والی زندگی میں اس سے ملاقات ہو، اور اس کی بندگی اور غلامی کی راہ میں جو ہماری کوششیں ہوں، ان کو وہ قبول فرمائے اور وہ اس کی خوشنودی اور اس کی رضامندی کی مستحق ٹھیریں۔ پس جو آدمی اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان کا دعویٰ کرے، اس کو ان دونوں کو ملا کر چلنا ہوگا۔ اس لیے کہ اللہ پر ایمان کا دعویٰ آخرت کے یقین کے بغیر، عملی زندگی میںکوئی وزن نہیں رکھتا۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم نے جس ہستی کو ہر جگہ محسوس کیا ہو، ہر جگہ پایا ہو، موت کے ساتھ ہی اچانک وہ ہم سے لاتعلق ہوجائے۔ اگر اللہ سے ملاقات، آنے والی زندگی، اس کا احتساب، اس کی رضا اور اس کا انعام، یہ ساری چیزیں حقیقت نہ ہوں تو پھر بندگی، اطاعت، اس کی راہ میں جان لڑانے اور جہاد فی سبیل اللہ کے معنی کیا رہ جاتے ہیں، بلکہ وہ آدمی بڑا احمق ہے جو نیکی کرے اور یہ یقین نہ رکھتا ہو کہ آخرت میں اللہ سے ملاقات ہونی ہے، یعنی خدا کو مانتا ہو، آخرت کو نہ مانتا ہو۔ صاحب ِ ایمان تو صاحب ِ شعور بھی ہوتا ہے، اور ایمان کو بہرطور کامل ہونا چاہیے۔ یہی شعور کا تقاضا ہے___ یہ بنیادی مقدمات ہیں، جنھیں ذہن میں صاف ہونا چاہیے۔
دوسری بات یہ ہے کہ عبادت، غلامی اور بندگی کی دعوت جہاں بھی آئی ہے اس میں آخرت کو مطلوب و مقصود قرار دینے اور اس کی کامیابی کو سمجھ کر جینے کی دعوت بھی شامل ہے۔ انبیا علیہم السلام کی ساری دعوت کا خلاصہ بھی یہی ہے کہ زندگی اگر غلامی میں بسر کرنا ہے تو یہ سمجھ کر بسر کرو کہ جب اس سے ملاقات ہوگی تو وہی اس فیصلے کا دن بھی ہوگا کہ ہم نے فی الواقع زندگی اس کی غلامی میں بسر کی یا نہیں۔
تیسری بات یہ ہے کہ ہمیں ایک مشکل کا سامنا ہے___ دنیا ہماری نگاہوں کے سامنے ہے۔ اس کو ہم دیکھتے ہیں، محسوس کرتے ہیں۔ اس کی لذات سے ہم آگاہ ہیں۔ اس کی تکالیف سے اور درد اور الم کی کیفیات سے گزرتے ہیں۔ یہ ایسی حقیقتیں ہیں جن سے انکار ممکن نہیں ہے۔ آخرت ایک وعدہ ہے، نگاہوں سے اوجھل ہے۔ اس کی لذتیں ہم محسوس نہیں کرتے۔ دیکھتے نہیں، سنتے ہیں کہ وہ ایسی ہوں گی۔ اس کی تکلیفوں سے ہم واقف نہیں ہیں۔ اور یہ ہماری فطرت ہے کہ ہم کل کے اُوپر آج کو، دُور کے مقابلے میں قریب کو، اور غیرمحسوس چیز کی جگہ محسوس چیز کو ترجیح دیتے ہیں اور اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ یہ معاملہ دنیا اور آخرت کے بارے میں ہی نہیں ہے بلکہ خود دنیا میں ہمارا یہ حال ہوتا ہے کہ کل آنے والی چیز اور کچھ مدت بعد ملنے والی شے کو ہم ٹال دیتے ہیں اور جو چیز فوری طور پر مل رہی ہو، اس کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ فی الحقیقت ہمارے امتحان کا ایک حصہ ہے۔
یہ بیماری کہ آدمی دنیا کو ترجیح دے، دنیا سے محبت کرے، نقد کو حاصل کرے، اُدھار کو ٹال دے اور آج جو کچھ ہے اس کو قیمتی جانے، اور جو کچھ کل آنے والا ہے اس کو محسوس نہ کرے___ یہ جس طرح کافروں کے ساتھ لگی ہوئی ہے اسی طرح ان کے ساتھ بھی لگی رہتی ہے جو ایمان کی راہ پر آتے ہیں۔ ایک ہی دنیا ہے۔ کافر بھی اس میں رہتے ہیں اور مسلمان بھی اسی میں رہتے ہیں۔ دونوں کو ایک ہی قسم کے حالات سے سابقہ پیش آتا ہے۔
جہاں جہاں بھی مسلمان ایمان کے دعوے میں اور اس کے تقاضے پورے کرنے میں کمزوری دکھاتے ہیں وہاں اللہ تعالیٰ نے اس بیماری کی نشان دہی کردی ہے۔ یہ دراصل دُکھتی رگ ہے اور ساری خرابیوں کی جڑ ہے۔ غزوئہ بدر ہوا تو فرمایا: تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا (الانفال ۸:۶۷) ’’تم لوگ دنیا کے فائدے چاہتے ہو‘‘۔ غزوئہ اُحد میں ڈسپلن کی کمزوری ظاہر ہوئی تو فرمایا: مِنْکُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الدُّنْیَا وَ مِنْکُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ، (اٰل عمرٰن ۳:۱۵۲) ’’تم میں سے بعض دنیا کے طلب گار تھے اور بعض آخرت کے طلب گار تھے‘‘۔ غزوئہ تبوک میں جن لوگوں نے کمزوری دکھائی ان کا ذکر سورئہ توبہ میں یوں ہوا: ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، تمھیں کیا ہوگیا کہ جب تم سے اللہ کی راہ میں نکلنے کے لیے کہا گیا تو تم زمین سے چمٹ کر رہ گئے؟ کیا تم نے آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو پسند کرلیا؟ ایسا ہے تو تمھیں معلوم ہو کہ دنیوی زندگی کا یہ سب سروسامان آخرت میں بہت تھوڑا نکلے گا‘‘ (۹:۳۸)۔ گویا ہرجگہ ایک ہی بات کہی گئی۔ ایسے معاملات میں خرابی کی جڑ یہ دنیا کی محبت ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے بگڑی ہوئی مسلمان اُمتوں کو اپنی طرف بلایا تو اس میں اس بات کو بنیادی اہمیت دی کہ ہر وہ چیز جس سے آخرت میں اپنے اعمال کی جواب دہی کا احساس کمزور ہوتا ہو، یا جس سے دنیا کی محبت ظاہر ہوتی ہو، اس کو ختم کیا جائے، اس کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکا جائے۔
ہماری دعوت کے اندر اس کی حیثیت ایک مرکزی نکتے کی ہونی چاہیے۔ جب دنیا کی محبت دل سے نکل جائے گی اور آخرت کی طلب دل کے اندر ڈیرہ ڈال لے گی اور وہاں کی کامیابی ہی اصل کامیابی ٹھیرے گی تو ہمیں صحیح عمل کرنے کے لیے یقین اور قوت بھی حاصل ہوگی، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جن عوام کو ہم پکارتے ہیں اور جن کی عدم توجہی کی ہم شکایت کرتے ہیں، ان کے بھی سارے امراض کا علاج اسی میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عوام کو بھی پکارا اور جب بھی پکارا تو یہی پکارا کہ وہ ایسے فریب اور دھوکے سے باہر نکل آئیں جو ان کو نیک عمل سے غافل کرتے ہیں۔
یہ حدیث آپ کی بار بار کی سنی ہوئی ہوگی جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا ہے کہ ایک وقت آئے گا دنیا کی قومیں اس اُمت کے اُوپر اس طرح سے ٹوٹ پڑیں گی جس طرح سے بھوکے دسترخوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں، تو صحابہؓ نے پوچھا کہ کیا ہم تعداد میں بہت کم ہوجائیں گے؟ آپؐ نے فرمایا: نہیں، تمھاری تعداد تو ریگستان کے ذروں اور درخت کے پتوں کی طرح ہوگی۔ انھوں نے کہا: پھر کیا وجہ ہوگی، تو آپؐ نے فرمایا: تمھارے اندر وہن پیدا ہوجائے گا۔ صحابہ ؓ نے پوچھا: وہن کیا ہوگا؟ آپؐ نے فرمایا: دنیا کی محبت اور موت سے نفرت___ گویا جب یہ پیدا ہوجائے تو انسانوں کی ساری استعداد اور قوت ختم ہوجاتی ہے، اور اگر انسان میں وہن نہ رہے تو اس کی جدوجہد اور اس کے عمل میں نئی زندگی پیدا ہوجاتی ہے۔ اس نکتے سے غافل ہوکر جو کوششیں ہوں گی، ہوسکتا ہے وہ پوری طرح بارآور نہ ہوں۔
اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ جو آدمی آخرت کو مقصود بنائے وہ دنیا سے دستبردار ہوجائے گا___ مطلب یہ ہے کہ دنیا اس کے لیے مطلوب، محبوب اور مقصود کی حیثیت نہیں رکھے گی بلکہ یہ آخرت کو حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہوگی۔ اس کی رشتہ داریاں، اس کی دوستیاں، اس کی محبتیں، اس کی جدوجہد، سب ایک ذریعے کی حیثیت اختیار کرجائیں گی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اس کو بار بار واضح کیا ہے، مختلف مثالوں سے سمجھایا ہے۔ یہ جاننے کے باوجود کہ آخرت کو مطلوب ہونا چاہیے، کئی جگہ بتایا ہے کہ دنیا کی حقیقت کیا ہے، آخرت کی حقیقت کیا ہے، دنیا سے کیا ملتا ہے، آخرت کیا دیتی ہے، اور اس لیے ان دونوں میں سے کس چیز کو تمھیں اختیار کرنا چاہیے۔ دنیا کا نفع دنیا کی چیزیں ہیں، مثلاً مال، اولاد، جاہ و حشمت، مقبولیت۔ دوسری طرف آخرت کا فائدہ اللہ تعالیٰ کی رضا ہے، اور وہاں کا نقصان اس کی طرف سے دیا ہوا عذاب ہے۔
دنیا اور آخرت کی حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے مختلف پہلوئوں سے واضح کیا ہے۔ ان میں پہلی بات یہ ہے کہ دنیا کی ہرچیز، نعمت ہو یا تکلیف، گزر جانے کی چیز ہے۔ چونکہ وقت نہیں ٹھیرسکتا، اس لیے تکلیف بھی نہیں ٹھیرسکتی اور آرام بھی نہیں ٹھیرسکتا۔ اب اس صورت میں کہ وقت کا گزرنا یا رُک جانا ہمارے بس میں نہیں ہے، ہم اس کو روک کے نہیں بیٹھ سکتے۔ اس لیے یہاں کی خوشی، یہاں کا آرام، یہاں کی تکلیف، یہاں کا الم، اور یہاں کا درد، یہ سب چیز گزر جانے والی ہیں۔ یہ ہمارا روز کا تجربہ ہے کہ خوشی کا بڑا انتظار رہتا ہے۔ ہم اس کی تمنا ہی نہیں کرتے، خواب دیکھتے ہیں۔ خوشی آتی ہے اور بالآخر گزر جاتی ہے۔ تکلیف سے ہم ڈرتے رہتے ہیں۔ تکلیف بڑھتی ہے اور پھر آہستہ آہستہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی اب گزر ہی جائے گی۔
دنیا کی مثال تفصیل کے ساتھ دو تین جگہ دی گئی ہے۔ ایک جگہ فرمایا کہ دنیا کی مثال ایک بارش کی سی ہے۔ بارش ہوتی ہے، فصل اُگتی ہے، ہری بھری ہوتی ہے، بہار آتی ہے، اس کے بعد زرد پڑتی ہے اور چورا چورا ہوکر زمین کے اندر مل جاتی ہے۔ سورئہ کہف میں، سورئہ حدید میں اور سورئہ یونس میں تین جگہ اس مثال کے مختلف پہلو مختلف انداز سے اُجاگر کیے گئے ہیں۔ ان سب میں یہی بتایا گیا ہے کہ جس طرح کھیتی باڑی ہوتی ہے، انسان کھیتی کرتا ہے، وہ کچھ نتائج دیکھتا ہے لیکن پھر بالآخر سب کچھ مٹی میں مل جاتا ہے۔ دنیا کے معاملات اسی طرح ہیں۔
آخرت کے بارے میں یہ بات بالکل صاف کہی گئی ہے کہ وہاں پر موت نہیں آئے گی۔ عذاب ہوگا تو وَ یَاْتِیْہِ الْمَوْتُ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ وَّ مَا ھُوَ بِمَیِّتٍ ط (ابراہیم ۱۴:۱۷) ،یعنی وہ عذاب تو ایسا ہوگا کہ جیسے ہر طرف سے موت آرہی ہے مگر انسان مرنے نہ پائے گا۔ دنیا میں جب درد و الم بہت بڑھتا ہے تو آدمی یہ آرزو کرتا ہے کہ بس اب موت آجائے تاکہ یہ درد و اَلم ختم ہو اور موت آبھی جاتی ہے، اور درد و اَلم ختم ہو بھی جاتا ہے۔ لیکن وہاں کا عالم ایسا ہے جو موت ہی کی طرح ہوگا کہ موت آرہی ہے، لیکن آدمی مرے گا نہیں۔ یہ عذاب کی بڑی تکلیف دہ صورت ہوگی۔ لیکن انعام پانے والے بھی ایک موت کے بعد کسی دوسری موت کا مزا نہیں چکھیں گے۔
قرآنِ مجید نے دنیا کو اس لحاظ سے اہم قرار دیا ہے کہ آخرت کی پوری راہ دنیا سے ہوکر جاتی ہے۔ یہی راہ، یہی مال، اور یہی نعمتیں آخرت کے حصول کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ اسی لیے دنیا کے مال کو خیر بھی کہا گیا۔ اس میں کوئی تضاد نہیں۔ اگر یہی مال آخرت بنانے کے لیے استعمال ہو تو یقینا وہ خیر ہے۔ گویا یہ دو دھاری تلوار ہے۔ جو اس کے پیچھے چلتا ہے وہ برباد ہوگیا، اور جس نے اس کو اپنے پیچھے چلایا اور آخرت کی منزل کی طرف لے گیا تو وہ کامیاب ہوگیا۔ جو انسان ان حقائق سے واقف ہو، اس کو اپنی منزلِ مقصود آخرت ہی کو قرار دینا چاہیے۔ لیکن اگر یہ سب کچھ چھوڑ کر آپ دنیا کو مقصود بنائیں اور اس کے پیچھے دوڑیں تو آپ خود ہی سوچیں کہ اس سے بڑی غلطی کیا ہوسکتی ہے۔
یہاں جو بات کہی گئی ہے وہ یہ ہے کہ یہ مہلتِ عمل مختصر بھی ہے اور یہ بغیر کسی نوٹس کے ختم ہونے والی بھی ہے۔ اور یہ بھی دعوت دی گئی ہے کہ ا س سے پہلے کہ وہ وقت آئے جب تم دنیا سے رخصت ہو، اس سے پہلے ہی اس کی تیاری کرلو۔ یہی دعوت اس انداز سے بھی دی گئی ہے کہ اس سے پہلے کہ تم کو پکڑ لیا جائے اور موت تمھارے اُوپر آجائے، اس مہلت سے فائدہ اٹھا لو۔ اس لیے کہ اس کے بعد پھر کوئی اور عمل کی مہلت نہیں ہوگی۔
اگر آخرت مقصود بن جائے تو پوری دنیا کا رُخ متعین ہوجاتا ہے۔ شادی ہو، عائلی زندگی ہو، کیریئر ہو، اولاد ہو، کارخانے ہوں، کھیت ہوں، پیداوار ہو، تجارت اور مالِ تجارت ہو، بنک بیلنس ہو، سب چیزیں موجود ہوں گی اور آدمی کا ان سے تعلق بھی یقینا ہوگا۔ لیکن اب سب سے برتر اور ہمیشہ باقی رہنے والی چیز ہی اس کی منزلِ مقصود ہوگی۔ یہی طاقت کا اصل سرچشمہ اور قوت کا اصل منبع ہے۔ (ایک خطاب کی تلخیص) (کتابچہ منشورات سے دستیاب ہے، منصورہ، لاہور)
تحریکوں اور تنظیموں پر جب ایک طویل مدت گزر جاتی ہے تو اُن کے اصل مقصد کے ساتھ دوسرے مقاصد بھی شامل ہوتے چلے جاتے ہیں۔ بعض اوقات تو صرف ڈھانچا رہ جاتا ہے، روح غائب ہوجاتی ہے۔ دستور میں درج شدہ نصب العین اور طریقۂ کار سے یا تو رشتہ کٹ جاتا ہے یا پھر کمزور ہوجاتا ہے۔ اگر یہ سانحہ فرد کے ساتھ ہو تو فرد ناکام ہوتا ہے اور اگر یہ حادثہ تحریک کے ساتھ ہو تو تحریک ناکام ہوتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ وقتاً فوقتاً ہم جائزہ لیتے رہیں کہ جس تحریک سے ہم جڑے ہوئے ہیں، اس کے نصب العین سے ہمارا رشتہ کتنا اور کیسا ہے؟ یہی جائزہ اور احتساب ہمیں اور ہماری تحریک کو صحیح خطوط پر گامزن رکھ سکتا ہے۔
تحریک کا اوّلین تقاضا یہ ہے کہ اس کا ایک واضح نصب العین ہو،اور قائدین اور وابستگان کو اس کا صحیح شعور ہو۔ اسلامی تحریک میں لفظ ’اسلامی‘ اس تحریک کے نظریے (Ideology)، اس کے رُخ اور تحریک کے ہر پہلو (dimension) کی نشان دہی اور رہنمائی کرتا ہے۔ یہ تحریک اللہ کے بندوں کو ان کے رب سے جوڑتی ہے، اُسی کی رضاجوئی اور خوشنودی کے لیے جینے اور مرنے کا سبق سکھاتی ہے، اور اپنے جیسے انسانوں سے رشتے اور تعلق کا پیمانہ اور اصول بتاتی ہے۔ ایک ایسے معاشرے کو وجود میں لاتی ہے، جس میں افراد صرف اپنی ہی فکر نہیں کرتے بلکہ موجود اور آنے والی نسلوں کو بھی اس راہ پر لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ تحریک ایسے ادارے اور نظامِ حیات کو وجود میں لاتی ہے، جس میں اس کے نظریے اور اصول کا غلبہ ہوتا ہے اور پوری انسانیت اس سے فیض یاب ہوتی ہے۔ انسان اپنے نفس اور اپنے جیسے انسانوں کی غلامی سے نجات پاتا ہے، اسے سچی آزادی اور ابدی راحت و سکون نصیب ہوتا ہے۔
یہ تحریک ایک ایسی انقلابی تحریک ہے، جو انسان کو اندر سے لے کر باہر تک بدل کر رکھ دیتی ہے۔ مثبت اور منفی دونوں پہلوئوں سے اسے نکھارتی ہے۔ ایک اللہ کی بندگی، غیراللہ کا انکار، انبیاؑ کی غیرمشروط اطاعت اور دوسری تمام قیادتوں سے بغاوت اور ان کی اطاعت سے انکار اس کی انقلابیت کی روح ہے۔ اس روح کی برقراری و پرورش اصل داخلی استحکام ہے۔
اس دعوت کا ایک پہلو جہاں یہ ہے کہ اللہ کی بندگی کا ماحول بنے، وہیں اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسانوں کی زندگی انصاف کے اُوپر قائم ہو: لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ج (الحدید ۵۷:۲۵) ’’ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوںاور ہدایات کے ساتھ بھیجا، اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں‘‘۔ یہ نہایت اہم بات ہے۔ اس کو نظروں سے کبھی اوجھل نہیں ہونا چاہیے کہ یہ دین عدل و انصاف کے لیے آیا ہے اور یہ دنیا سچے عدل و انصاف کی محتاج ہے۔
دعوت کے یہ وہ پہلو ہیں جو بنیادی اور مستقل نوعیت کے ہیں۔ یہ دعوت اور تحریک خلا میں کام نہیں کرتی، بلکہ یہ ٹھوس زمین اور زندہ معاشرے میں کام کرتی ہے۔ اس لیے بندگیِ رب کی دعوت کے ساتھ ساتھ معاشرے کے زندہ مسائل میں دل چسپی رکھتی ہے اور انھیں حل کرنے کی کوشش بھی کرتی ہے۔ یہ تحریک ایک ہمہ گیر نوعیت کی تحریک ہے۔ اگرچہ ہم یہ ضرور چاہتے ہیں کہ علم عام ہو، لیکن اسلامی تحریک کسی مدرسے کا نام نہیں ہے۔ ہم نفوس کے تزکیے کو بنیادی اہمیت دیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تزکیہ ہو، لیکن اسلامی تحریک کسی خانقاہ کا نام نہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اسلامی ریاست قائم ہو اور اقتدار صالحین کے ہاتھ میں ہو، لیکن اسلامی تحریک کسی مجرد سیاسی پارٹی کا نام نہیں۔ اسی طرح محض ادارے اور تنظیمیں بنانا اور ان کو چلاتے رہنا بھی اسلامی تحریک کا مقصد نہیں رہا ہے۔ اسلامی تحریک کا مقصد تو یہ ہے کہ اللہ کی بندگی قائم ہو اور لوگ اللہ کی خوشنودی حاصل کرکے آخرت کی کامیابی اور جنت کے مستحق بنیں۔ دنیا میں عدل وانصاف قائم ہو، لوگ امن و سکون اور خوش حالی و ترقی سے ہم کنار ہوں۔ اگر تحصیل علم ہو تو اسی مقصد کے لیے، تزکیہ ہو تو اسی نصب العین کے لیے، سیاست ہو تو اسی لیے، اور اگر ادارہ بنایا جائے تو اسی غرض کے لیے، الغرض اگر یہ ہمہ گیر مقصد سامنے ہو تو جزوی کام بھی اپنی جگہ پر ہوسکتے ہیں۔
جب انسان کے حوصلے صرف دُنیوی کامیابی کے ہونے یا نہ ہونے سے بلند اور پست ہونے لگیں تو اس کے معنی یہی ہیں کہ مقصود و مطلوب کے اندر فرق آگیا ہے، اور اُسے اس پیمانے سے ناپا جاسکتا ہے کہ اس میں اسلامی تحریک کی خصوصیات موجود ہیں یا اس میں کوئی کمی واقع ہوگئی ہے۔ تحریک داخلی طور پر مستحکم ہے یا کمزور ہوئی ہے۔
فرد کا مقصود تو رضاے الٰہی اور فلاحِ اُخروی کا حصول ہے اور یہ ہمیشہ تازہ اور تابندہ رہنا چاہیے۔ لیکن جماعت اور تحریک کا مقصد یہ ہے کہ وہ افراد کی سعی و جہد کو اس طرح بروے کار لائے کہ فرد آخرت میں کامیاب ہو اور تحریک دنیا کے اندر کامیابی حاصل کرسکے۔ اس چیز کو قرآن نے ’فتح‘ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔ ’’وہ تجارت جو تمھیں عذابِ الیم سے نجات دے‘‘ کے مخاطب وہ افراد ہیں، جن کی آخری منزل جنت ہے۔ تحریک کی ذمہ داری محض اتنی نہیں ہے کہ وہ افراد تحریک کو اللہ کی رضا کی طلب میں مصروف دیکھ کر یہ سمجھ لے کہ اس کا کام پورا ہوگیا۔ تحریک کی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ اپنے افراد و وسائل کو بہترین طریقے سے صرف کرے، تاکہ دنیا میں جسے ’فتح قریب‘ کہا گیا ہے، اس کے حاصل ہونے کے امکانات پیدا ہوجائیں۔ اللہ کا ارشاد ہے: وَاُخْرٰی تُحِبُّونَھَاط نَصْرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌ ط (الصف ۶۱:۱۳) ’’اور وہ دوسری چیز جو تم چاہتے ہو، (اللہ) وہ بھی تمھیں دے گا۔ اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی میں حاصل ہونے والی فتح‘‘۔
اگر فرد اپنا سب کچھ اخلاص کے ساتھ اللہ کی راہ میں لگا دے ، لیکن جماعت اپنی منزل تک نہ پہنچ سکے تب بھی فرد کامیاب ہے۔ لیکن اگر فرد کی نیت خالص نہ ہو تو جماعت و تحریک اگر اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہوجائے تب بھی فرد ناکام و نامراد ہے۔ اگر ہم نے کامیابی کے ان دونوں معیاروں کو اپنے سامنے رکھا تو داخلی استحکام کے تعلق سے اپنے جائزے اور احتساب میں ہمیشہ آسانی ہوگی، بلکہ سچی بات یہ ہے کہ جائزہ اور احتساب کا صحیح رُخ یہی ہے۔ اگر رضاے الٰہی کے مقصد کے شعور اور وابستگی میں نقص ہے تو فرد خواہ کتنے ہی نعرے لگائے، جلسے کرلے، تقریریں کرلے، پوسٹر لگا لے، خدمت خلق کرے، بہرحال وہ ناکام ہوگا۔ اسی طرح جماعت کی حیثیت سے افراد کتنا ہی اچھا کام کر رہے ہوں، وہ قربانی کے جذبے سے بھی سرشار ہوں، اور نظم و ضبط کے بھی پابند ہوں، لیکن جماعت اگر افراد کے جذبے کو صحیح راہوں پر، صحیح حکمت عملی سے، صحیح رُخ پر نہ لگائے تو بہرحال جماعت اس دنیا کے اندر ناکام ہوگی۔ ممکن ہے کہ جماعت کے قائدین اس بات کے ذمہ دار ٹھیریں کہ انھوں نے کیوں ان وسائل و ذرائع کو ضائع کیا اور صحیح مصرف میں نہیں لگایا۔
انسانی زندگی باہمی تعلقات کا مجموعہ ہے اور نام ہے معاشرے اور جماعت کا۔ اس لیے جماعت کے بغیر انسان اپنے مقصد کو حاصل نہیں کرسکتا۔ جماعت نظم اور ڈسپلن کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی۔ نظم اور ڈسپلن کی پابندی سے فرد کی آزادی پر پابندیاں عائد ہوتی ہیں۔ دوسری طرف فرد کی تعمیر وترقی میں اس کی آزادی اور اختلاف راے کا حق بہت معاون ہوتا ہے اور انھی دونوں کے درمیان تصادم و تنازعات پیدا ہوتے ہیں۔اس کا حل یہی ہے کہ فرد اور جماعت اپنی کوششوں سے مستقل طور پر اس میں توازن پیدا کرتے رہیں۔ فرد اتنا آزاد نہ ہوجائے کہ نظم و ضبط برقرار نہ رہ سکے اور نظم و ضبط اتنا سخت نہ ہوجائے کہ فرد کی آزادی پر قدغن لگ جائے۔
اقامت دین کا فریضہ ہر مسلمان پر فرض ہے اور یہ فریضہ تنظیم اور اجتماعی زندگی کے بغیر ادا نہیں ہوسکتا۔ اسلامی انقلاب کا کام تنظیم کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اس لیے دینی و تحریکی لحاظ سے جماعت کی جو اہمیت ہے وہ ہمارے ذہنوں میں محفوظ رہنی چاہیے۔ افراد کی قوتیں، طاقتیں اور صلاحیتیں تنظیم میں جمع ہوکر کئی گنا بڑھ جاتی ہیں۔ یہاں ایک اور ایک دو نہیں بلکہ ایک اور ایک گیارہ ہوجاتے ہیں۔ اس لیے مختلف قوتوں اور صلاحیتوں کے حامل افراد اگر الگ الگ ہوں تو وہ کارنامہ انجام نہیں دے پاتے، جو ایک اجتماعیت میں باہم مل کر انجام دے جاتے ہیں۔ جماعت کا کام یہ ہے کہ وہ خواب کو حقیقت بنائے۔ تمنائوں اور آرزوئوں کے حصول کو ممکن بنائے۔ جو چیز اُسے ناممکن نظر آتی ہو، وہ ممکن بن جائے اور حقیقت کا روپ دھار لے۔
تنظیم کا کام زیادہ تیزرفتاری سے ہونا چاہیے۔ جتنی تیزرفتاری سے کام ہوگا، تنظیم اتنی ہی مؤثر سمجھی جائے گی۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہماری تحریک ہمہ جہت تحریک ہے، اس لیے اس کے کام کی رفتار کم معلوم ہوتی ہے۔ کچھ کہتے ہیں کہ ایک فرد کا ذاتی کام ہو تو وہ جلد انجام پاتا ہے اور زیادہ نفع بخش ہوتا ہے۔ جماعت کا کام سُست بھی ہوتا ہے اور اس میں خسارہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔ اس طرح کی سوچ پیشۂ تدریس سے وابستہ لوگوں کی ہوتی ہے یا کاروباری لوگوں کی۔ صحیح بات یہ ہے کہ اس طرح کی صورت حال اسی تنظیم یا جماعت کی ہوتی ہے جو داخلی طور پر مستحکم نہیں ہوتی۔ تجزیہ ہمیشہ حقیقت پسندانہ ہونا چاہیے۔ خوش فہمی اور قنوطیت سے بچنا چاہیے۔ حقیقت پسند تجزیہ بتاتا ہے کہ تنظیم اگر مستحکم ہو تو کم سے کم محنت اور کم سے کم خرچ سے زیادہ سے زیادہ نفع حاصل ہوتا ہے۔ بڑی سے بڑی صلاحیت رکھنے والا فرد بھی بڑا سرمایہ لگا کر وہ نتیجہ حاصل نہیں کرسکتا جو ایک مؤثر اور کارگر تنظیم کرتی ہے کیونکہ یہاں تھوڑی سی محنت اور سرمایہ جمع ہوکر غیرمعمولی اور بابرکت ثابت ہوتے ہیں۔ اسلامی تحریک کا اصل سرمایہ اس کا عقیدہ، اس کا اخلاقی نظام اور اس کے افراد کا باہم شیروشکر اور ایک دوسرے کے لیے محبت و ایثار کا پیکر ہونا، اور اپنے دین و تحریک کے لیے قربان ہونے کا جذبہ ہوتا ہے۔ اس کے اثرات و نتائج کا مقابلہ فرد اورافراد الگ الگ نہیں کرسکتے۔ اگر تنظیم مؤثر نہ ہو اور اسے وہ حکمت میسر نہ ہو، جس سے تنظیم کو مؤثر بنایا جاسکتا ہے تواس کا امکان ہے کہ وسائل تو موجود ہوں، افراد بھی میسر ہوں، بھاگ دوڑ اور کوششیں بھی جاری ہوں، اس کے باوجود نفع حاصل نہ ہوسکے۔
اسلامی تحریک کی کامیابی کے لیے ایسی تنظیم کارگر نہیں ہوسکتی ہے جو صرف چلتے ہوئے کاموں اور اداروں کو چلاتی رہتی ہو، بلکہ اسے ایسی تنظیم درکار ہوتی ہے جو رسمی امور پر قناعت کرنے سے زیادہ ارتقا اور پیش رفت پر نظر رکھتی ہو۔ اس کے پیش نظر معاشرے کو مسخر کرکے اس پر غلبہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اگر تحریک اپنے مقصد کو حاصل کرلے یا کامیابی کے قریب پہنچے تو وہ کارگر کہلائے گی۔ لیکن اگر تحریکی تنظیم یا جماعت انسانی وسائل کو اسلامی انقلاب کی منزل قریب لانے میں نہیں لگا پاتی ہے تو اپنی کوتاہی سے ان وسائل اور اوقات کو ضائع کرتی ہے۔ ان کی قوتوں اور صلاحیتوں کو کم تر کاموں اور مقاصد میں لگاتی ہے تو یہ ایک غیر مؤثر اور غیرکارگر تنظیم کہلائے گی۔ اس لیے تنظیم کے لیے ا س کا وہ نصب العین اس کی روح کی حیثیت رکھتا ہے، جو ہمیشہ شعور میں واضح رہے، نگاہیں اسی پر مرکوز رہیں اور تمام وسائل، اقدامات اور مساعی اسی کے لیے ہوں۔
تحریکی تنظیم کے لیے وہی کام اصل کام ہے، جو آنے والے کل کی تشکیل، اس کے منصوبے اور اس کے مقاصد کے مطابق کرسکے۔ ورنہ تحریک ہمیشہ آج ہی میں گردش کرتی رہے گی اور کل کبھی نہیں آئے گی۔ ہماری ہرپالیسی، ہمارے ہر فیصلے، ہمارا ہر اقدام، ہمارے ہر ضابطے اور دستور کی ہرشق کو اسی کل (مستقبل) کے لیے ہی وقف ہونا چاہیے۔ جس طرح ایک فرد کی زندگی میں وہی کام کارگر ہے جو آخرت میں نافع ہو، اسی طرح تنظیم کو بھی اپنے کام، فیصلے اور اقدامات وہی کرنے چاہییں جو کل کے لیے نفع بخش ہوں۔
فرد ہو یا تنظیم، اس کا صرف متحرک ہونا یا نظر آنا کافی نہیں۔ فرد کی اُخروی کامیابی اور تنظیم کی نصب العین سے قربت اور معاشرے پر اس کے مثبت اثرات کا ہونا ضروری ہے۔ اجتماع میں لوگوں کی کثرت، تربیت گاہ میں بڑے بڑے پروگرام کا انعقاد، اخبارات و رسائل کی اشاعت میں اضافے پر تحریک کو مطمئن نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے لیے اطمینان کی بات اس وقت ہوسکتی ہے، جب نتائج معاشرے کے اندر سے نمودار ہوں۔ معاشرے میں دعوت کتنی مقبول ہو رہی ہے، نصب العین کو اپنانے والے کتنا آگے آرہے ہیں،ملت کے اندر نصب العین کے شعور کی بیداری کی رفتار کیا ہے؟ تعلیم یافتہ طبقے نے کتنا اثر قبول کیا؟ عوام میں کتنا نفوذ ہوا؟ نوجوانوں کی کتنی ذہن سازی ہوئی اور وہ کس قدر تحریک کے دست و بازو بنے؟ حکومت کے ایوانوں میں کتنی کھلبلی مچی؟ تحریک کو سمجھ کر کتنی آوازیں حمایت میں اور کتنی مخالفت میں اُٹھنے لگیں؟ میڈیا کی نگاہیں کتنا پیچھا کرنے لگیں؟ اور جن افراد کی تربیت کی جارہی ہے انھوں نے ان محاذوں پر کتنے جوہر دکھائے؟ ان تمام پہلوئوں کا جائزہ بتائے گا کہ تحریک اپنے مقصد سے کتنا قریب اور اس کا داخلی نظام کتنا مؤثر اور مستحکم ہے۔
انسان کے اوقات اور صلاحیتیں ان چیزوں میں شامل ہیں جن سے تحریک پھیلتی اور معاشرے کو مسخر کرتی ہے۔ ان کا بڑا حصہ انھی کاموں پر صرف ہونا چاہیے۔ اگر ان کا بڑا حصہ تنظیم پر خرچ ہونے لگے تو اس خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے کہ داخلی استحکام پر زیادہ قوت صرف کی جارہی ہے، کیونکہ اس خوش فہمی کے نتیجے میں تحریک کی معاشرے کو مسخر کرنے کی قوت کم ہوجاتی ہے۔ لہٰذا ایسی کوشش ہونی چاہیے کہ اپنی قوت کا استعمال متناسب ہو۔ اس کا کوئی متعین فارمولا پیش نہیں کیا جاسکتا۔ قیادت اور افراد جماعت کی سوجھ بوجھ اور تجربے سے ہی اسے درست کیا جاسکتا ہے۔ داخلی استحکام کا اہم تقاضا ہے کہ اس مسئلے پر خصوصی توجہ صرف کی جائے___ گہرائی سے اس بات کا جائزہ لینا ہوگا کہ ہمارے اوقات، وسائل اور صلاحیتوں کا کتنا بہتر استعمال ہورہا ہے۔ بہت سارے کام جو ہم کر رہے ہیں وہ کیوں کر رہے ہیں، اور ان سے کیا حاصل ہو رہا ہے؟ نصب العین کی طرف پیش قدمی میں ان سے کیا مدد مل رہی ہے؟ اگر ہم نے اس جائزے کی روشنی میں تحریک اور تنظیم کے تناسب کو درست کرلیا تو ان شاء للہ تحریک داخلی طور پر مستحکم بھی ہوگی اور منزل کی طرف پیش قدمی میں تیزی بھی آئے گی۔
ذمے داری چھوٹی ہو یا بڑی، یہ اسی عظیم الشان ذمے داری کا ایک حصہ ہے، جسے شہادت علی الناس کہا گیا ہے۔ جماعت نے جو دائرہ بھی طے کر دیا ہے، اس کے لحاظ سے اسے اپنی ذمہ داری کا جائزہ لینا چاہیے کہ وہ کہاں تک اسے ادا کر رہا ہے۔ اسے اِس بات کا بھی احساس ہونا چاہیے کہ اپنے ہرعمل کے سلسلے میں وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہے۔ اگر خلقِ خدا کی نگاہوں سے بچ بھی گیا تو اللہ تعالیٰ کی نگاہوں سے وہ نہیں بچ سکے گا۔
اسلامی تحریک میں منصب کی طلب تو کجا اس کا خواہش مند ہونا بھی بڑے خسارے کا سودا ہے۔ یہ خودکشی کا اقدام ہے، جو یقینا حرام ہے۔ لیکن اگر کوئی منصب یا ذمے داری بغیر کسی خواہش اور طلب کے کسی کے حوالے کی جائے تو اسے اللہ پر اور اس کی نصرت و تائید پر اعتماد کر کے خوداعتمادی کے ساتھ اسے قبول کرنا چاہیے اور بہتر سے بہتر انداز میں اس کی ادائی کے لیے اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرتے رہنا چاہیے۔ اُسے چاہیے کہ وہ اپنے لیے بھی روئے اور گڑگڑائے اور دعائیں کرے اور اپنے اُن رفقا کے لیے بھی گڑگڑا کر دعائیں کرے جو اس کے ساتھ کام کررہے ہیں۔ یہ خیرخواہی اور اخوت اسلامی کا عین تقاضا ہے۔
ذمے دار کو چاہیے کہ وہ اپنی اور اپنے ساتھیوں کی صلاحیتوں کا صحیح ادراک کرے اور اپنے رفقا میں کام کی تقسیم ان کی صلاحیتوں کے اعتبار سے کرے۔ ایک اچھی ٹیم کے افراد کی گرچہ یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ انھیں جو کام بھی تفویض کیا جائے، اسے ذمے دارانہ طور پر انجام دینے اور کامیاب بنانے کی کوشش کریں، خواہ وہ کام ان کی پسند کا ہو یا نہ ہو۔ لیکن ایک صحت مند اور خوش گوار اجتماعیت کے لیے بہتر یہی ہے کہ صلاحیتوں کے اعتبار سے ہی کام تقسیم کیے جائیں اور ہرفرد کی اس کے کام کی مناسبت سے تربیت کی جائے اور صلاحیتوں کو پروان چڑھایا جائے۔
جائزے اور احتساب کا ایسا نظام ہو، جس میں امیر و مامور سبھی ایک دوسرے کے سامنے جواب دہ ہوں۔ یہ عمل ٹیم اسپرٹ کو برقرار رکھتا ہے اور اجتماعیت کو مستحکم کرتا ہے۔ یہ عمل جتنا کمزور ہوگا، اجتماعیت اتنی ہی کمزور ہوگی۔ اگر قیادت کا احتساب نہ ہو تو قیادت کمزور ہوگی اور اگر ٹیم کا بھی احتساب نہ ہو تو ایسی ٹیم بھی کمزور ہوگی۔ قیادت کو چاہیے کہ اپنی ٹیم میں جائزے اور احتساب کی فضا کو نہ صرف بحال رکھے بلکہ پروان چڑھائے اور دوسروں کے احتساب سے پہلے خود اپنا احتساب کرے اور خود کو دوسروں کے سامنے احتساب کے لیے پیش کرے۔ احتساب کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ ہرفرد خواہ وہ ذمے دار ہو یا کارکن، اپنا احتساب خود کرے اور بے دردی کے ساتھ کرے اور اپنے ساتھیوں کا احتساب نرمی اور درد کے احساس کے ساتھ کرے۔
درس قرآن و حدیث اور دوسرے ذرائع سے ہماری تربیت کے لیے جو غذائیں ملتی ہیں، اگر جماعت کے فیصلوں اور رہنمائی میں ان کی جھلک نہ ہو اور اس سے مطابقت نہ پائی جائے تو متضاد ذہن کے ساتھ تحریک کی پیش رفت معیارِ مطلوب کے مطابق نہیں ہوگی۔ اس سے داخلی استحکام بھی متاثر ہوگا۔ ضرورت ہے کہ ذمے دار اور قائدین اس بات پر خصوصی نظر رکھیں کہ جو باتیں وہ اپنے دروس، تقاریر اور تربیتی پروگراموں میں کہہ رہے ہیں، تنظیم کا ماحول اور رُخ بھی اسی سمت میں ہونا چاہیے۔ جو کچھ کہا جا رہا ہو یہ تو ممکن نہیں کہ تنظیم ہوبہو اس کا نمونہ ہو لیکن کم از کم اس بات کا اہتمام کیا جائے کہ مجموعی طور پر تنظیم کا ماحول اور رُخ انھی تعلیمات کی سمت میں ہو۔
اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًا وَّھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَo (اٰل عمرٰن ۳:۹۶) بے شک سب سے پہلی عبادت گاہ جو انسانوں کے لیے تعمیر ہوئی وہ وہی ہے جو مکّہ میں واقع ہے۔ اس کو خیروبرکت دی گئی تھی اور تمام جہان والوں کے لیے مرکزِ ہدایت بنایا گیا تھا۔
مشہور تاریخ دان ایڈورڈ ڈگبن نے اپنی کتاب The Decline And Fall of The Roman Empire(انحطاط و زوال رومۃ الکبریٰ) میں خانہ کعبہ کا ذکر عیسائیت کی ابتدا سے پہلے کیا ہے جس کی وجہ وہ یہ بتاتا ہے کہ یونانی تاریخ دان ڈیوڈ ورس نے خانہ کعبہ کا ذکر ثمود اور سبا کے واقعات کے ساتھ کیا ہے، لہٰذا اس کا وجود عیسائیت سے پہلے تھا۔ A.J Wensick نے لکھا ہے کہ دوسری صدی عیسوی میں کلائوٹس پٹولمی نے جو شہر مکروبہ کا ذکر کیا ہے وہ دراصل مکہ ہی ہے۔ یہ پٹولمی بھی یونانی تاریخ دان تھا اور اس کا انتقال ۱۶۸ء میں مصر کے شہر اسکندریہ میں ہوا (انسائی کلوپیڈیا آف اسلام)۔ G.E. Grunebaum نے بھی لکھا ہے کیونکہ مکراب کا لفظ عربی زبان میں معبد (temple) کے لیے استعمال ہوتا ہے اس لیے کلاؤٹس پٹولمی نے مکروبہ کا جو لفظ مکہ کے لیے ہی استعمال کیا ہے، (Classical Islam)۔ Edward Glaser جو جرمن تاریخ دان تھا، نے بھی کہا ہے کہ کعبہ کا لفظ مکراب سے نکلا ہے کیونکہ جنوبی عرب میں مکراب معبد کو کہتے ہیں۔ تورات میں اسے بیت ایل کہا گیا ہے، یعنی بیت اللہ۔
تاریخ کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ کعبہ کی تعمیر بارہ مرتبہ ہوئی جس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے: ۱- فرشتوں کی تعمیر ۲- حضرت آدم ؑ کی تعمیر ۳- حضرت شیث ؑکی تعمیر ۴- حضرت ابراہیم ؑ کی تعمیر ۵-عمالقہ کی تعمیر ۶- جرہم کی تعمیر ۷- قصی بن کلاب کی تعمیر ۸- قریش کی تعمیر ۹- حضرت عبداللہ بن زبیر کی تعمیر۔ ۱۰- حجاج بن یوسف کی تعمیر ۱۱- سلطان مراد رابع ابن سلطان احمد کی تعمیر ۱۲- خادمِ حرمین شریفین فہد بن عبدالعزیز کی تعمیر۔
خانہ کعبہ کی لمبائی ۱۸ فٹ، چوڑائی ۱۴ فٹ اور اُونچائی ۳۵ فٹ ہے۔ دروازہ عام سطح سے ۶،۷ فٹ بلند ہے۔ کعبہ کی چھت پر پرنالہ نصب ہے جسے میزاب رحمت کہتے ہیں۔ کعبہ کے اندر تین ستون ہیں۔ خانہ کعبہ کی چھت کے ساتھ ایک رسی کے ذریعے تحفے میں آئے ہوئے قدیم برتن جن میں سے کچھ پانچ سو سے چھے سو سال پرانے ہیں، لٹکا دیے گئے ہیں اور دروازے کے سامنے درازوں والی ایک الماری رکھی ہوئی ہے۔ باب توبہ پر آیاتِ توبہ لکھی ہوئی ہیں۔ دیواروں پر بہت خوب صورت کتبے لگے ہوئے ہیں۔ خانہ کعبہ کی اس تعمیر کا کام پانچ ماہ کے عرصے میں ختم ہوا اور ایسی حکمت عملی اختیار کی گئی کہ ان پانچ ماہ میں طواف نہیں رُکا۔ کام کرنے والوں میں دو پاکستانی انجینیرز خالد وحید اور جاوید گل کا کام نمایاں رہا۔ خانہ کعبہ سال میں صفائی کے لیے دو دفعہ کھلتا ہے۔ پہلی دفعہ ۱۵محرم کو اور دوسری دفعہ پہلی شوال کو۔ غلافِ کعبہ عرفات والے دن بدلا جاتا ہے۔ خانہ کعبہ اور مقامِ ابراہیم کی چابی شروع سے لے کر آج تک الشیبی خاندان کے پاس ہے، کیوں کہ فتحِ مکہ کے وقت حضور پاکؐ نے خود یہ چابی ان کو دی تھی اور فرمایا تھا: ’’جو ان سے یہ چابی چھینے گا اس سے بڑا ظالم کوئی نہ ہوگا‘‘۔
مکہ میں بت پرستی کی ابتدا عمرو بن لحی نے کی۔ یہ بنوخزاعہ کا سردار تھا اور اس کا زمانہ رسولؐ اللہ کی بعثت سے ۴۰۰ سال پہلے کا بتایا جاتا ہے۔ روایات میں آتا ہے کہ عمرو بن لحی کے تابع ایک جن تھا جس کے ذریعے اس نے یغوث، یعوق اور نسر نامی بتوں کو جدہ کے قریب دریافت کیا۔ سورئہ نوح (۷۱:۲۲) میں بھی ان بتوں کا ذکر ہے۔ لات بھی ایک بت تھا جس کے معنی ستو گھولنے والے کے ہیں۔ یہ ایک شخص تھا جو حاجیوں کو ستو پلایا کرتا تھا۔ بعد میں عمرو بن لحی نے بت بنا کر اس کی پوجا شروع کر دی۔ اس کے علاوہ بھی وہ شام سے بت لے کر آیا تھا۔ ہبل قریش کا سب سے بڑا دیوتا تھا۔ یہ بت قریش کو انسانی مورت میں ملا تھا جو سرخ عقیق سے تراشا گیا تھا۔ اس کا دایاں ہاتھ ٹوٹا ہوا تھا۔ قریش نے وہ سونے کا بنوا کر لگا دیا۔ ہبل خاص خانہ کعبہ میں نصب تھا۔ فال کے پانسے اسی کے آگے ڈالے جاتے تھے۔ قریش جنگوں میں اعل ہبل (ہبل کی جے) کا نعرہ لگاتے تھے۔ فتح مکہ کے موقع پر حضرت علیؓ نے ہبل اور منات کو اور حضرت خالد بن ولیدؓ نے العزیٰ کو توڑا تھا۔
مؤرخین کہتے ہیں کہ جب بنوجرہم نے کعبہ کی توہین کی تو اللہ تعالیٰ نے انھیں منتشر کر دیا۔ پھر بنوخزاعہ اس کے پاسبان بنے۔ ان کے بعد قصی بن کلاب اس کا پاسبان بنا۔ کعبہ کی پاسبانی کے ساتھ ساتھ اس نے مکہ کی حکومت بھی سنبھال لی۔ پھر اس نے اپنے بیٹے عبدالدار کو کعبہ کی پاسبانی، دارالندوہ اور جھنڈا سپرد کیا۔ عبدالدار نے اپنے بیٹے عثمان کو کعبہ کی پاسبانی سونپ دی۔ یوں نسل در نسل یہ عہدہ اسی کی اولاد میں منتقل ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ عثمان بن طلحہ پاسبان بنے۔ فتح مکہ کے وقت آپؐ نے عثمان بن طلحہؓ سے چابی طلب کی۔ وہ چابی دیتے ہوئے جھجک رہے تھے کیونکہ حضرت عباسؓ بھی اس چابی کو طلب کر رہے تھے۔ اس پر نبی کریمؐ نے عثمانؓ سے فرمایا: ’’اگر تو اللہ تعالیٰ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے تو چابی مجھے دے دے‘‘۔ وہ کہنے لگے: اے اللہ کے رسولؐ! یہ حاضر ہے لیکن یہ اللہ کی امانت ہے۔ آپؐ نے چابی پکڑ لی، بیت اللہ کا دروازہ کھولا تو حضرت جبرئیل ؑ یہ وحی لے کر اُترے: اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا(النساء ۴:۵۸) ’’اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے مالکوں کے سپرد کرو‘‘۔ آپؐ نے اس آیت کی رو سے حضرت عثمانؓکو چابی دے دی اور یہ بھی کہہ دیا کہ قیامت تک اب یہ چابی تمھارے پاس رہے گی۔ اگر کوئی اسے لے گا تو ظلم کرے گا۔ حضرت عثمانؓ نے اپنی وفات کے وقت اپنے چچا کے بیٹے شیبہ بن عثمان بن ابی طلحہؓ کو دے دی۔ اس وقت سے پاسبانی کا منصب شیبہ کی اولاد میں جاری ہے۔ آج کل چابی عبدالقادر بن طہ الشیبی کے پاس ہے۔ خانہ کعبہ ہمیشہ یہی لوگ کھولتے ہیں۔ غزوئہ بدر کے سلسلے میں ذکر آتا ہے کہ جب رسولؐ اللہ نے سنا کہ قریش کا جھنڈا عبدالدار خاندان کے ایک مشرک کے ہاتھ میں ہے، تو فرمایا کہ حق رسانی اسلام کا فریضہ ہے اور یہ کہہ کر اپنا جھنڈا حضرت مصعب بن عمیر العبدیؓ (جو اسی خاندان کے ایک مسلمان تھے) کے سپرد فرمایا۔
سب سے پہلے جس نے کعبہ کو مکمل غلاف چڑھایا وہ تبع اسعد الحمیری تھے۔ آپ کا زمانہ رسولؐ اللہ کی بعثت سے ۷۰۰ سال پہلے بتایا جاتا ہے۔ ان کو خواب میں نظر آیا کہ وہ کعبہ کو غلاف چڑھا رہے ہیں، لہٰذا انھوں نے چمڑے کا غلاف چڑھایا۔ پھر انھیں خواب میں دکھائی دیا کہ اور غلاف چڑھائیں تو انھوں نے یمن کے بنے ہوئے سرخ دھاری دار کپڑے کا غلاف چڑھایا۔ امام محمد بن اسحاق کی اس روایت کی تصدیق ایڈورڈ گبن نے بھی اپنی تاریخ میں کی ہے۔ تبع کے بعد دورِجاہلیت میں بہت سے لوگوں نے اپنے اپنے وقت میں غلاف چڑھائے۔ کعبہ کو مختلف قسم کے کپڑوں کے غلاف چڑھائے جاتے رہے، مثلاً چمڑے کا غلاف، سرخ دھاری دار کپڑے کا غلاف۔ یمن کے کامدار کپڑے کا غلاف یہاں تک کہ ابوربیعہ بن مغیرہ مخزومی نے شہر جند سے دھاری دار کپڑے کا غلاف تیار کروایا اور خانہ کعبہ پر چڑھایا۔ بعدازاں دو غلاف چڑھائے جانے لگے۔ ایک ریشمی اور دوسرا قباطی۔ ناصر عباسی نے سب سے پہلے سیاہ رنگ کا غلاف خانہ کعبہ پر چڑھایا۔ اس وقت سے آج تک سیاہ رنگ کا غلاف ہی چڑھایا جا رہا ہے۔
۷۵۱ء میں مصر کے بادشاہ اسماعیل بن ناصر بن قلوون نے کعبہ کے غلاف کے لیے ایک مخصوص وقف قائم کر دیا لیکن خدیوی محمد علی نے تیرھویں صدی میں یہ وقف ختم کردیا اور غلاف سرکاری وقف پر تیار ہونے لگا۔ ۸۱۰ھ میں کعبہ کے دروازے کے لیے ایک الگ منقش پردہ تیار کیا گیا جسے غلافِ کعبہ کا برقع کہا جاتا تھا اور اب تک یہ پردہ بھی غلاف کے ساتھ ہی تیار کیا جاتا ہے۔ شاہ سعود بن عبدالعزیزؒ نے غلافِ کعبہ تیار کرنے کے لیے مکہ مکرمہ میں ایک الگ کارخانہ لگانے کا حکم دیا۔ ۱۳۸۲ھ میں شاہ فیصل شہیدؒ نے اس کارخانے کی تعمیرِنو کا حکم دیا تاکہ غلاف انتہائی مضبوط اور عمدہ تیار ہو، نیز وہ کعبہ مشرفہ کے تقدس کے شایانِ شان ہو۔ ۱۳۹۷ھ میں مکہ مکرمہ کے مقام اُم الجود میں اس کارخانے کی نئی عمارت کا افتتاح ہوا۔ اس میں غلاف کی تیاری کے لیے مشینی آلات کے ساتھ ساتھ دستی کشیدہ کاری کا انداز بھی قائم رکھا گیا کیونکہ فنی لحاظ سے دستی کشیدہ کاری کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ یہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے!
۲ فروری کا دن حسنی مبارک کے خلاف تحریک کا ایک اہم دن تھا۔ قاہرہ کے میدان التحریر میں لاکھوں افراد جمع تھے۔ اکثر لوگوں نے میدان التحریر کو آنے والے مختلف راستوں پر باقاعدہ مورچے لگائے ہوئے تھے۔ اس سے پہلے حکومت کی طرف سے بھیجے گئے مسلح غنڈے مظاہرین پر حملہ آور ہوکر بڑی تعداد میں لوگوں کو شہید کرچکے تھے۔ ایک ’مورچے‘ پر مصر کے معروف عالمِ دین اور دانش ور صفوت حجازی بھی تھے۔ وہ بتا رہے تھے کہ ہم نے ساری رات پہرہ دے کر گزاری۔ لوگ باری باری نیند اور تہجد و عبادت میں مصروف تھے۔ مجھے نہ جانے کیوں بار بار لگ رہا تھا کہ آج مجھے بھی شہید ہوجانا ہے۔ نمازِ فجر کا وقت ہوا تو غنڈوں کے حملے کے خوف سے ہم نے نماز بھی باری باری ادا کی۔ میرے ساتھ ہی ایک نوجوان عبدالکریم بھی تھا۔ اس سے وہیں تعارف ہوا۔ وہ جامعہ الازہر سے فارغ التحصیل تھا۔ ۲۵ پارے حفظ کیے ہوئے تھے اور زیادہ وقت تلاوت میں مصروف تھا۔ اس کی تلاوت میں ایک عجیب تاثیر تھی۔ میں نے اسے ہی امامت کے لیے کہہ دیا۔ نماز پڑھ کر وہ مجھے مخاطب ہوتے ہوئے بولا: میں اگر اس میدان میں ماراجائوں تو کیا شہادت کا درجہ ملے گا؟ میں نے کہا: ضرور ملے گا۔ کہنے لگا: دلیل کیا ہے؟ میں نے کہا: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: سید الشھداء حمزہ ورجل قام اِلی امام جائر فامرہ ونھاہ فقتلہ ’’(حضرت) حمزہ سیدالشہدا ہیں اور ہر وہ شخص بھی کہ جو ظالم حکمران کے سامنے ڈٹ گیا اسے (نیکی کا) حکم دیا اور (برائی سے) منع کیا اور اس نے جواباً اسے قتل کر دیا‘‘۔
کچھ دیر مزید بات ہوئی جس میں، مَیں نے اپنا یہ احساس بھی بتایا کہ مجھے لگتا ہے کہ مجھے بھی شہادت کی سعادت ملے گی۔ عبدالکریم فوراً بولا: اگر مجھ سے پہلے چلے گئے تو سیدالشہدا حضرت حمزہؓ کو میرا سلام کہیے گا۔ میں نے کہا: اور اگر آپ چلے گئے توآپ میرا سلام پہنچا دیجیے گا۔ عبدالکریم یہ سنتے ہی اُٹھ کر چل دیا۔ میں نے پوچھا: کدھر چل دیے؟ ہنستے ہوئے کہنے لگا: سیدالشہدا کو آپ کا سلام پہنچانے… ابھی عبدالکریم نے ایک قدم بھی نہیں اُٹھایا تھا کہ وہیں ڈھیر ہوگیا۔ ہم نے دیکھا تو دُور گھات لگائے بیٹھے سرکاری غنڈے کی دُوربین لگی بندوق کی ایک گولی عبدالکریم کے سر میں چھید کرتی ہوئی نکل گئی تھی اور ہر طرف کستوری کی مہک پھیل رہی تھی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ عبدالکریم کا تعلق الاخوان المسلمون سے تھا۔
تقریباً نصف صدی عذاب و اذیت میں تو گزر گئی، لیکن الاخوان المسلمون نے اس عرصے میں لاکھوں افراد پر مشتمل ایک ایسی نسل تیار کر دی ہے کہ جو بلند مقاصد کی خاطر ہرطرح کی قربانی دینے کے لیے ہرلمحے تیار رہتی ہے۔ اللہ ہمارا مقصود ہے،قرآن ہمارا دستور ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے رہنما ہیں، کے بعد الجہاد سبیلنا، ’’جہاد ہمارا راستہ ہے‘‘ اور الشہادۃ فی سبیل اللّٰہ اسمی امانینا، ’’اللہ کی راہ میں شہادت ہماری سب سے بلندپایہ آرزو ہے‘‘ کا شعار اس ربانی نسل کا پورا تعارف کروا دیتا ہے۔ تیونس اور مصر کے فرعونوں سے نجات کے لیے اس نوجوان نسل کی قربانیوں نے عالمِ عرب کے ہر نوجوان کو ایک نئی روح سے سرشار کر دیا ہے۔ اس کا ایک مظہر تو یمن، شام اور لیبیا میں دکھائی دے رہا ہے، لیکن اس کا ایک تازہ اور حیران کن مظہر ۱۵مئی کو دکھائی دیا۔ لیکن آیئے پہلے ۱۵ مئی کا تھوڑا سا پس منظر ذہن میں تازہ کرلیجیے۔
آج سے ۶۳ سال پہلے، ۱۵ مئی ۱۹۴۸ء کو سرزمینِ اقصیٰ میں ایک قیامت برپا ہوئی تھی۔ فلسطینی شعبہ شماریات کے مطابق اس وقت فلسطینی عوام کی کُل تعداد ۱۴ لاکھ تھی۔ پورے فلسطین میں ان کے ۱۳۰۰ شہر، قصبے اور بستیاں آباد تھیں۔ یہودیوں نے برطانوی سرپرستی اور مسلمان حکمرانوں کی خیانت کے باعث فلسطینی عوام کا قتلِ عام شروع کر دیا۔ ۷۷۴ شہروں اور بستیوں پر قبضہ کرلیا، ان میں سے ۵۳۱ شہر اور بستیاں مکمل طور پر تباہ کردیے۔ ۱۵ہزار فلسطینی قتل کردیے اور ۸لاکھ فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے گھر کر کے مہاجر کیمپوں اور پڑوسی ملکوں میں دھکیل دیا۔ تب سے ۱۵مئی کو یومِ نکبت کہا جاتا ہے۔ گذشتہ ۶۳برس سے ہرسال اس یومِ نکبت کی یاد منائی جاتی ہے۔
مصر اور تیونس میں عوامی جدوجہد کی کامیابی کے بعد یومِ نکبت قریب آنے لگا تو مصر سمیت فلسطین کے تمام پڑوسی ملکوں کے نوجوانوں نے اس دن کو ایک منفرد انداز میں منانے کا اعلان کیا۔ انھوں نے اعلان کیا کہ اس برس ہم یہ دن سرزمین انبیا فلسطین کی سرحدوں پر جاکر منائیں گے۔ اس اعلان نے مصر، فلسطین، اُردن، لبنان اور شام سمیت ہر جگہ نوجوانوں کو ایک نئے جذبے سے سرشار کردیا۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ کے ذریعے ایک دوسرے کو پیغامات دیے جانے لگے اور ۱۵مئی ۲۰۱۱ء کا دن واقعی ایک تاریخی دن بن گیا۔ اس روز بوڑھے، بچے، مرد و زن سب بڑی تعداد میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قبلۂ اول اور اپنے آباواجداد کی سرزمین کی طرف دیوانہ وار چل نکلے۔ ۱۵مئی کو اتوار کا دن تھا لیکن مصر اور اُردن میں لوگ جمعے کے روز سے ہی جمع ہونے لگے۔ پھر اتوار کے روز لبنان کے علاقے مارون الراس اور شام کے مقبوضہ علاقے جولان کی سرحدی بستیوں القنیطرۃ اور مجدل الشمس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ جمع ہونے لگے۔ ہرشخص جذبات سے اس طرح سرشار تھا کہ گویا یہ فلسطین کی آزادی کا دن ہے۔ بہت سے لوگوں نے اپنے ہاتھوں میں لکڑی کی بنی ہوئی بڑی بڑی چابیاں اُٹھائی ہوئی تھیں۔ چابی کا نشان بے دخل کیے جانے والے فلسطینیوں کے حقِ واپسی کی علامت بن چکا ہے۔ مظاہرین سرحدوں پر ہی جمع ہوکر مظاہرے کرتے تو صورت حال مختلف ہوتی۔ صبح تقریباً ۱۰ بجے سے جمع ہونے والے مظاہرین کی تعداد جب ہزاروں میں ہوگئی تو انھوں نے سرحد پر بچھی بارودی سرنگوں اور گشت کرتی اسرائیلی فوجی گاڑیوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے، اپنے اور فلسطین کے مابین حائل خاردار تاروں اور آہنی جنگلوں کو روند ڈالا۔ بڑی تعداد میں لوگ فلسطینی دھرتی کی آغوش میں آنے اور وہاں سجدہ ریز ہونے کے لیے بے تاب تھے۔ آگے بڑھتے ہوئے انھوں نے یہودیوں پر پتھرائو بھی شروع کر دیا۔
آیئے اس صورت حال کی مزید جھلک بڑے اسرائیلی روزنامے یدیعوت کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے: ’’اسرائیلی سرزمین میں گھس جانے والے فلسطینی پتھرائو کرنے لگے۔ کچھ لوگوں نے وہاں زیرتعمیر ایک گھر میںپناہ لے لی، اور وہاں سے پتھرائو شروع کر دیا۔ پتھروں کی بارش یہودیوں یا دُرزی قبیلے کے افراد میں کوئی تمیز نہیں کر رہی تھی، نہ ہی انھوں نے یہودی فوجیوں اور شہریوں میں کوئی تمیز کی۔ مجھے ایک اسرائیلی شہری نے ۱۶مئی کو بتایا کہ ’’میں اپنی پوری زندگی میں اتنا خوف زدہ نہیں ہوا جتنا کل ہوا تھا‘‘۔ ہم نے فلسطینیوں سے کہا کہ پتھرائو بندکر دو، وگرنہ فوج فائر کھول دے گی۔ انھوں نے جواب دیا: ’’پرواہ نہیں، ہم یہاں مرنے کے لیے آئے ہیں‘‘۔ جو کچھ جولان میں ہوا، لبنانی سرحدوں پر بھی وہی ہوا۔ اسرائیلی فوج اور حزب اللہ کے ٹی وی چینل ’المنار‘ کی بنائی ہوئی تصاویر میں آپ واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ فلسطینی جوق در جوق مارون الراس کے ٹیلوں سے اُتر کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ ان پر اسرائیلی فوج نے بھی فائرنگ کی اور خود لبنانی فوج نے بھی۔ کچھ افراد زخمیوں اور مرنے والوں کی لاشیں اُٹھا کر پیچھے جاتے لیکن ان سے زیادہ اور آگے آجاتے۔ یہ لوگ سرحد پر لگے آہنی جنگلے کی طرف یوں بڑھ رہے تھے، جیسے کسی نشے سے سرشار ہوں۔ ہم نے یہ مناظر گذشتہ مہینوں میں (قاہرہ کے) میدان التحریر، (لیبیا کے شہر) بن غازی اور (شام کے شہر) درعا اور بانیاس میں تو دیکھے تھے لیکن اسرائیلی سرحدوں پر یہ مناظر اس ہفتے پہلی بار دیکھنے میں آئے۔ یہ لوگ حماس کے خودکش حملہ آور نہیں تھے بلکہ فیس بک کے حملہ آور تھے… یہ لوگ دوبارہ پھر آئیںگے اور یہ اس ہفتے کے واقعات سے سیکھا جاسکنے والا پہلا سبق ہے (مظاہرین کے مطابق) آیندہ ستمبر میں یہ مناظر دوبارہ دہرائے جاسکتے ہیں‘‘۔ (یدیعوت احرونوت، ۲۰ مئی ۲۰۱۱ء)
لبنان اور شام کی سرحدوں پر اسرائیلی فائرنگ سے درجنوں فلسطینی شہید ہوگئے، سیکڑوں زخمی ہوگئے لیکن عرب بالخصوص فلسطینی عوام اس تازہ وجدان و روح سے سرشار ہوگئے ہیں کہ بالآخر ایک روز ہم ان خاردار اسرائیلی جنگلوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے روند ڈالیں گے۔ فیس بک کے ذریعے تحریک چلانے والے نوجوان اعلان کر رہے ہیں کہ ۶۳ سال بعد یہ پہلا موقع تھا کہ تین اطراف سے چار عرب ممالک کے عوام فلسطینی سرزمین کی جانب بڑھے۔ اس سال ان کی تعداد ہزاروں میں تھی، لیکن شہادتوں اور قربانیوں کی پرواہ کیے بغیر اگر کئی ملین کی تعداد میں لوگ نکل آئے، خود فلسطین کے اندر سے بھی اتنی ہی تعداد میں فلسطینی باہر آگئے تو عرب عوام کے سمندر میں گِھرا صہیونی جزیرہ اپنا وجود باقی نہ رکھ سکے گا۔ خود اسرائیلی تجزیہ نگار اور عسکری ماہرین ان واقعات کا مسلسل جائزہ لے رہے ہیں۔ یہ بحث بھی عروج پر ہے کہ ہم ان واقعات کا اندازہ پہلے سے کیوں نہ لگا سکے؟ کیا یہ انٹیلی جنس کی ناکامی ہے یا فوج صورت حال پر قابو نہیں پاسکی؟
اس بارے میں بھی ایک اہم ترین تبصرہ خود یدیعوت احرونوت کے الفاظ ہی میں ملاحظہ فرمایئے: ’’انٹیلی جنس کی ناکامی کے اسباب کا جائزہ لینا بھی اہم ہے لیکن اتوار کے روز ہونے والے واقعات کچھ اور اسباب کی بنا پر بھی بہت اہم ہیں۔ پہلا یہ کہ اسرائیل فلسطین تنازع اب دوبارہ پورے خطے کا تنازع بن چکا ہے۔ اب اسرائیل کی کوئی بھی سرحد محفوظ نہیں رہ گئی۔ نہ شام، نہ مصر اور نہ لبنان، کسی طرف سے بھی ہماری سرحد محفوظ نہیں ہے۔ دوسرا یہ کہ اسرائیلی فوج غیرمسلح شہریوں کی تحریک نافرمانی کا مقابلہ نہیں کرسکتی، بالخصوص اس وقت کہ جب اس میں خواتین اور بچے بھی شریک ہوں۔ تیسرا یہ کہ اب ہم عرب ممالک کی حکومتوں پر یہ بھروسا نہیں کرسکتے کہ وہ اسرائیلی سرحدوں کی حفاظت کرسکیں گے۔ چوتھا (اہم ترین) سبب یہ ہے کہ خوف کے حصار سے نجات، ایک متعدی مرض ہے، جو عوام بشارالاسد کے ٹینکوں کے خوف سے آزاد ہوگئے ہیں، وہ اسرائیلی فوج کی بارودی سرنگوں سے بھی نہیں ڈریں گے‘‘ (یدیعوت، ۲۰ مئی ۲۰۱۱ء)۔ اسرائیلی تجزیہ نگار کے یہ دونوں نکات پوری بحث کا خلاصہ بتا رہے ہیں کہ عرب حکمران اسرائیل کا مزیددفاع کرنے کے قابل نہیں رہے اور اگر عوام خوف کی دیوار ڈھا دیں تو پھر کوئی قوت ان کا راستہ نہیں روک سکتی۔
تھا تو یہ ایک روز کا مظاہرہ، لیکن چند ہزار افراد کے سرحدوں پر اُمڈ آنے سے چہار جانب خطرے کی گھنٹیاں بج اُٹھی ہیں۔ اسرائیل کے علاوہ خود امریکا میں اس پر بحث ہورہی ہے۔ کانگریس میں ری پبلکن پارٹی کے اہم یہودی رہنما ایرک کینٹر (Eric Cantor) نے گذشتہ دنوں معروف یہودی ادارے ’ایپاک‘ AIPAC سے خطاب کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ ’’ہمارے خواب خطرات سے دوچار ہیں‘‘۔ ’’اسرائیل کی بقا کی ضمانت دینے کے لیے اب ہمیں ہرممکن کوشش کرنا ہوگی‘‘، ’’اسرائیل نہ رہا تو ہم میں سے کوئی بھی باقی نہ رہے گا‘‘۔ امریکا میں یہودی لابی کے معروف ادارے جے سٹریٹ میں بھی دہائی دی جارہی ہے کہ ہمیں فلسطینیوں کے ساتھ فوری طور پر صلح کرلینی چاہیے، وگرنہ اسرائیل کا وجود خطرات سے دوچار ہوجائے گا۔ (اسرائیل ٹوڈے، ۲۵ مئی ۲۰۱۱ء)
یہ ساری تشویش صرف شام اور لبنان کے مظاہروں کے باعث پیدا ہوئی ہے۔ اُردن میں، جس کی نصف آبادی فلسطینیوں پر مشتمل ہے، ابھی بڑے پیمانے پر مظاہرے نہیں ہوسکے، جو مظاہرے ہوئے وہ بھی مخصوص علاقوں تک محدود رہے، جب کہ مصر میں عبوری دور کے باعث حکومت اور سیاسی جماعتوں نے انھیں ایک مختلف رُخ دے دیا۔ اس تحریک کو تیسری تحریک انتفاضہ کا نام دیا جا رہا ہے، اور اس کے اعلان و انتظام میں مصری نوجوانوں نے بنیادی کردار ادا کیا تھا، لیکن ۱۵مئی آنے سے پہلے مصر میں دو اہم واقعات رُوپذیر ہوگئے۔ ایک تو وہاں اچانک مسلمانوں اور(قبطی) مسیحیوں کے درمیان فسادات شروع ہوگئے۔ ان فسادات کا آغاز اس وقت ہوا جب ایک مسیحی طالبہ عبیرطلعت نے اپنے وڈیو پیغام میں بتایا کہ اس نے اسلام قبول کرلیا تھا، جس کی پاداش میں مسیحی پیشوائوں نے اسے اِمبابہ شہر کے ایک چرچ میں قید کر دیا اور اس پر دبائو ڈالا کہ وہ دوبارہ مسیحی ہونے کا اعلان کرے۔یہ سن کر بڑی تعداد میں مسلمان نوجوان چرچ کے باہر جمع ہوگئے جس پر عبیر کو رِہا کردیا گیا، لیکن اسی اثنا میں فائرنگ اور خوں ریزی کے واقعات بھڑک اُٹھے۔ کئی جانوں کے ضیاع، توڑ پھوڑ اور آتش زدگی کے نتیجے میں بھاری نقصانات دیکھنے میں آئے۔ بعد میں وزیرداخلہ نے بتایا کہ سب سے پہلے حسنی مبارک کی کالعدم پارٹی کے ایک مسیحی تاجر نے خود اِمبابہ چرچ کے باہر جمع مسلمان نوجوانوں پر فائرنگ کی اور پھر اپنے متعدد غنڈوں کے ذریعے ہلہ بول دیا۔ ان سابق حکمرانوں کی کوشش تھی کہ پورے ملک میں مسلم مسیحی فسادات بھڑکا دیے جائیں، لیکن بالآخر سیاسی جماعتوں کی کوششوں سے ان فسادات کی آگ پر قابو پالیا گیا۔
دوسرا اہم واقعہ یہ ہوا کہ دو اہم فلسطینی جماعتوں ’الفتح‘ اور ’حماس‘ کے درمیان ایک صلح نامہ طے پا گیا۔ حسنی مبارک کے اقتدار میں کئی بار دونوں جماعتوں کے مابین مذاکرات ہوئے، کئی بار صلح نامے کے مسودے تیار ہوئے، لیکن ہربار صلح کی کوششیں ناکام رہیں۔ اس مرتبہ نہ لمبے چوڑے مذاکرات کے دور چلے، نہ ذرائع ابلاغ میں کوئی شور سنائی دیا۔ اچانک معلوم ہوا کہ ’حماس‘ اور ’الفتح‘ نے قاہرہ میں صلح کے جامع معاہدے پر دستخط کردیے ہیں۔ مصری عوام نے اس مناسبت سے ۱۵مئی کویومِ نکبت یا یومِ وحدت ہی نہیں، بلکہ یوم الوحدۃ والمناصرۃ (یومِ وحدت و نصرت) کا عنوان دے دیا۔
قاہرہ کے میدان التحریر کے علاوہ دیگر کئی شہروں میں بھی لاکھوں کی تعداد میں عوام سڑکوں پر جمع ہوئے۔ ’مسیحی مسلم بھائی بھائی‘ اور ’حماس الفتح بھائی بھائی‘ کے نعروں سے اپنے جذبات کا اظہار کیا اور ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا کہ چونکہ مصر ایک عبوری دور سے گزر رہا ہے، بہت سی اندرونی و بیرونی طاقتیں اب بھی مصری عوام سے ان کی قربانیوں کا ثمر چھیننا چاہتی ہیں، اس لیے ہم کسی کو اس طرح کی سازش کا موقع نہیں دیں گے۔ اعلان کیا گیا کہ ہم ۱۵مئی کو رفح بارڈر پر جانے کے بجاے ۱۳، ۱۴ اور ۱۵مئی تینوں دن اہلِ فلسطین کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کے لیے ملیونیۃ الفجر (ملین نمازِ فجر) کا اہتمام کریںگے۔ پھر بالفعل یہی ہوا۔ تینوں دن لاکھوں کی تعداد میں عوام قاہرہ کے میدان التحریر اور دیگر میدانوں اور پارکوں میں فجر کے وقت جمع ہوئے اور یومِ نکبت کی سرگرمیوں میں اپنی شرکت کا ایک نیا ایمان افروز رنگ پیش کیا۔ ہزاروں کی تعداد میں مظاہرین قاہرہ میں اسرائیلی سفارت خانے کے سامنے بھی جمع ہوئے۔ انھوں نے وہیں نمازِ فجر ادا کی اور یومِ وحدت و نصرت منایا۔ اب اس بات کا اندازہ لگانا کسی کے لیے بھی مشکل نہیں ہے کہ اگر کسی روز یہی لاکھوں عوام وادیِ سینا عبور کرتے ہوئے رفح بارڈر پر جمع ہوگئے تو تیسری تحریکِ انتفاضہ کیا رُخ اختیار کرسکتی ہے۔ اسرائیلی دانش ور اور بحث و تحقیق کے ادارے اپنے مستقبل کا جائزہ لینے کے لیے مصروشام کے مستقبل کا بھی گہرا مطالعہ کر رہے ہیں۔
خود اخوان نے اس مرحلے پر بہت محتاط پالیسی اختیار کی ہے۔ اپنا صدارتی اُمیدوار اور ۵۰ فی صد سے زائد نشستوں پر اپنے اُمیدوار نہ لانے کا اعلان اسی پالیسی کا حصہ ہے، لیکن اس تمام تر احتیاط کے باوجود فلسطین کے بارے میں اپنا موقف پوری قوت و ثبات سے پیش کیا جا رہا ہے۔ مرشدعام ڈاکٹر محمد بدیع نے اس موقع پر اپنے دوتفصیلی بیانات میں یومِ نکبت اور مسئلۂ فلسطین پر روشنی ڈالی ہے۔ ایک بیان میں فلسطین کے بارے میں اخوان کی تاریخ کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں: ۱۹۲۸ء میں الاخوان المسلمون کی تاسیس کے وقت ہی امام حسن البنا نے مسئلۂ فلسطین کو مرکزی حیثیت دی تھی۔ انھوں نے مئی ۱۹۴۸ء کو لبنان کے شہر عالیہ میں جمع عرب حکمرانوں کو پیش کش کی تھی کہ فلسطین کی آزادی کے لیے اخوان شہادت کے لیے بے تاب اپنے ۱۰ہزار نوجوان پیش کرنے کے لیے تیار ہیں…اخوان نے صہیونیوں کے خلاف جہاد میں باقاعدہ حصہ لیا۔ ۲۶مئی ۱۹۴۸ء کو ایک بہت مشہور معرکہ ’’رامات رحیل‘‘ کے مضبوط صہیونی قلعے پر ہواتھا۔ اخوان کے مجاہدین نے اس میں ۲۰۰؍اسرائیلی فوجی قتل کیے… لیکن ان تمام قربانیوں کے باوجود جنگ بند ہونے کے بعد، ۱۹۴۸ء ہی میں ایک فوجی حکم کے نتیجے میں اخوان پر پابندی لگادی گئی اور پھر ۱۲فروری ۱۹۴۹ء کو حسن البنا کو شہید کر دیا گیا‘‘۔ اخوان کی یہ تمام قربانیاں کسی سے مخفی نہیں ہیں لیکن اس اہم موقع پر اخوان کے مرشدعام کی طرف سے اس کا ذکر کرنا اس امر کی دلیل ہے کہ احتیاط و حکمت مومن کی شان ہوتی ہے، لیکن اپنے اصولی موقف پر ثابت قدم رہنا بھی کامیابی کی اصل بنیاد ہوتی ہے۔ اب اسرائیلی تجزیہ نگار اپنے عوام کو تسلی دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ الاخوان المسلمون کو ۲۰ فی صد سے زیادہ ووٹ نہیں ملیں گے۔ وہ اگر حکومت میں آئے بھی تو یہ ایک مخلوط حکومت ہوگی جس کی ساری پالیسیاں اخوان کے ہاتھ میں نہیں ہوں گی اس لیے خوف زدہ نہ ہوں۔
اس وقت مصر اور تیونس میں اسلامی تحریک کی تمام تر توجہ نئے مرحلے میں اپنا کام منظم و مربوط کرنے پر مرکوز ہے۔ گذشتہ تقریباً نصف صدی سے ان دونوں تحریکوں کو عذاب و ابتلا کا سامنا تھا۔ سارا تنظیمی ڈھانچا اور تمام دعوتی و تربیتی سرگرمیاں زیرزمیں چلی گئی تھیں۔ اب پورا کام دوبارہ برسرِزمین آرہا ہے۔ اخوان نے ۵۰سال کے بعد پہلی بار اپنی شوریٰ کا اجلاس علانیہ طور پر کیا ہے۔ اس تاریخی اجلاس میں دیگر امور کے علاوہ اپنی سیاسی جماعت حزب الحریۃ والعدالۃ ’آزادی و انصاف پارٹی‘ کے قیام کی منظوری بھی دی گئی ہے۔
پہلے اخوان کا نام تک غیرقانونی تھا۔ اب انھوں نے قاہرہ کے قلب میںاپنے شان دار مرکز کا باقاعدہ افتتاح کر دیا ہے۔ جون میں الحریۃ والعدالۃ پارٹی بھی اپنے مرکز کا باقاعدہ افتتاح کردے گی۔ اخوان کی مجلس شوریٰ میں ہونے والے فیصلوں کے مطابق یہ سیاسی پارٹی اپنی پالیسیوں اور سرگرمیوں میں مکمل طور پر آزاد و خودمختار ہوگی لیکن اپنے اہم فیصلوں میں اخوان سے بھی رہنمائی لے گی۔ پارٹی کے ذمہ داران کا تعین بھی باہم مشاورت سے ہی کیا گیا ہے۔ اخوان کے ایک اہم رہنما محمد مرسی اس کے صدر اور گذشتہ سیشن میں اخوان کے پارلیمانی لیڈر سعد الکتاتنی (۲۰۰۸ء میں مینارِ پاکستان پر منعقدہ جماعت اسلامی کے اجتماعِ عام میں اخوان کی نمایندگی کے لیے آئے تھے) اس کے سیکرٹری جنرل ہوں گے۔ ایک انقلابی اور دُوررس فیصلہ یہ بھی کیا گیا ہے کہ ایک قبطی مسیحی سیاسی لیڈر رفیق حبیب کو بھی الحریۃ والعدالۃ کے نائب صدور میں شامل کیا گیا ہے جس سے عوام میں یہ تاثر گہرا ہوا ہے کہ یہ جماعت سب مصری عوام کے لیے ہے۔
ادھر تیونس میں بھی انتخابات کی تاریخ قریب تر آتی جارہی ہے۔ ۲۴جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں شرکت کے لیے اب تک ۶۳ سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہوچکی ہیں، لیکن ان میں نمایاں جماعتیں انگلیوں پر گنی جاسکتی ہیں۔ تحریک نہضت ان میں سرفہرست ہے۔ بعض جائزہ کار آیندہ اسمبلی میں اس کا حصہ ۵۰ فی صد کے قریب بتارہے ہیں، جب کہ کم از کم بتانے والے بھی یہ تناسب ۲۰ فی صد بتاتے ہیں۔ تیونس میں فرانس اور مصر میں امریکا کی سربراہی میں بیرونی اثرورسوخ بھی نئے سرے سے اپنے پائوں جمانے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ صدر اوباما نے اپنے حالیہ تاریخی خطاب میں تبدیل شدہ مصر کو بھی مالی امداد جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ مختلف امریکی تحقیقی ادارے تسلسل سے لکھ رہے ہیں کہ عالمِ عرب کی اسلامی تحریکیں ایک حقیقت ہیں، ہمیں ان کے ساتھ تعاون کی راہ نکالنا ہوگی۔ لیکن بدقسمتی سے یہ ساری حقیقت پسندی اس وقت کافور ہوجاتی ہے جب معاملہ فلسطین یا اسرائیل کا ہو۔ اسی خطاب میں صدر اوباما نے حماس اور الفتح کی مصالحت پر کڑی تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ جو تحریک اسرائیل کا وجود ہی تسلیم نہیں کرتی، الفتح نے اس کے ساتھ کیوں صلح کی۔ ایک مہم یہ بھی چلائی جارہی ہے کہ حماس نے اپنے پروگرام میں اسرائیل نام کی کوئی چیز تسلیم نہ کرنے کا جو اعلان کیا ہوا ہے وہ اسے حذف کر دے۔ گویا کہ خود گل ہی بوے گل سے براء ت کا اظہار کردے۔
۱۵مئی کے مظاہروں اور مصر و تیونس کے انقلابات نے پوری دنیا کو پیغام دیا ہے کہ ظلم کی طویل رات جس قدر بھی طویل ہوجائے اسے بالآخر چھٹنا ہے۔ خالق کائنات بھی ظالم کی رسی دراز تو کرتا ہے لیکن جب مقہور و مظلوم نہتے، پُرامن عوام، خوف کا پردہ چاک کرتے ہوئے قربانیوں کے سفر پہ چل نکلیں تو تمام فرعونی نظام ریت کی دیوار ثابت ہوتے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی جانب رہنمائی فرمائی تھی کہ وہن، یعنی ’’دنیا سے محبت اور موت سے نفرت‘‘ تمھارا وتیرا ہوگا۔ تو جھاگ کی طرح کثیر تعداد میں ہونے کے باوجود ساری دنیا تم پر بھوکوں کی طرح پل پڑے گی۔ آج یہ حدیث نبوی مدرسۂ رسالت کی سچائی پر گواہی دینے کے ساتھ ساتھ مظلوم و مقہور قوم کے لیے راہ نجات بھی واضح کر رہی ہے۔
ڈنمارک شمال مغربی یورپ میں واقع ہے۔ اس کے ہمسایہ ممالک میں سویڈن ، ناروے اور جرمنی شامل ہیں۔ اس کے دار الحکومت کا نام کوپن ہیگن ہے۔ اس کی آبادی تقریباً ۵۵ لاکھ ہے، جب کہ اس میں مقیم مسلمانوں کی تعداد اڑھائی لاکھ کے قریب ہے۔ یہاں بسنے والے مسلمانوں میں اکثریت عربوں ، ترکوں اور پاکستانیوں کی ہے ، جب کہ کچھ عرصے سے صومالیوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے ۔ ڈنمارک میں ۱۸۴۹ء سے علامتی طور پر دستوری بادشاہت ہے، جب کہ نظام ریاست چلانے کے لیے پارلیمانی جمہوری نظام رائج ہے، جس میں پارلیمنٹ بالا دست ہے۔
ڈنمارک کا شمار ایک فلاحی ریاست (welfare state) میں ہوتا ہے، جہاں بنیادی ضروریات مفت فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے ، مثلاً تعلیم ، صحت ، بے روز گاری کی صورت میں وظائف وغیرہ (اگرچہ اب ان سہولیات میں بتدریج کمی واقع ہو رہی ہے)۔ لہٰذا اس ملک کا پبلک سیکٹر کافی وسیع ہے ، لیکن کچھ تبدیلیاں لائی جا رہی ہیں اور مختلف شعبہ جات میں نج کاری کا دائرہ وسیع کیا جا رہا ہے۔ دیگر مغربی ممالک کی طرح آج ڈنمارک کو بھی معاشی مسائل کا سامنا ہے۔
۱۹۷۰ء کے عشرے میں روزگار کے لیے مسلم ممالک سے بھی لوگ ڈنمارک آنے لگے اور اکثر ایسے کام کاج سنبھال لیے، جو خود ڈینش بھی کرنا پسند نہیں کرتے، یعنی شعبۂ خدمت میں۔ پھر ان محنت کش پردیسی مسلمانوں نے اپنے اہل خانہ کو بھی بلانا شروع کر دیا اور یہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ ان کے بچوں نے یہیں پرورش پائی اور ڈینش سکولوں و کالجوں میں تعلیم حاصل کی۔ چنانچہ عام طور پر ان کی دوسری نسل مغربی تہذیب میں رنگی گئی۔ اگر ان کے والدین کے کچھ اسلامی رجحانات ہوتے بھی تو زیادہ سے زیادہ انھیں اسلامی رسومات سے متعارف کرا دیتے، لیکن عموماً باقاعدہ اسلامی ذہن سازی نہ ہوپائی۔ نتیجتاً اسلام ان کے لیے چند رسومات یا علامتوں کی حد تک محدود ہوکر رہ گیا، جب کہ فکری طور پر مغربی پیمانے اور اقدار ان کے ذہنوں پر غالب آگئے۔
۱۹۹۰ء کے عشرے میں اشتراکیت کے انہدام کے بعد اسلام کے خلاف عمومی فضا قائم کرنے کا آغاز ہو گیا تھا لیکن نائن الیون کے بعد یہ رجحان کھل کر سامنے آیا۔ اسی دوران موجودہ ڈینش حکومت بھی برسراقتدار آئی جسے دائیں بازو کی انتہا پسند ڈینش عوامی پارٹی کی حمایت حاصل ہے۔
ملک کو معاشرتی مسائل اور بڑھتے ہوئے جرائم کا بھی سامنا ہے، مثلاً بیرون ملک سے جسم فروشی کے لیے خواتین کی تجارت ، قتل و غارت ، چوریاں اور ڈاکے ، منشیات اور اس کی منڈی پر قابو کے لیے جرائم پیشہ گروہوں کی لڑائیاں ، بچوں سے جنسی زیادتی اور خودکشیوں وغیرہ کے علاوہ نفسیاتی امراض میں روز افزوں اضافہ۔ ان تمام مسائل کے حل میں ناکامی پر انتظامیہ نے، زیادہ تر مسلم اقلیت کو ہدف بنایا۔ بالخصوص ، توہین آمیز خاکوں کی اشاعت پر عالمی سطح پر مسلمانوں کی جانب سے رد عمل کے نتیجے میں ، مخصوص میڈیا کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف ایک منظم مہم برپا کی گئی، اور ڈینش عوام کو مسلمانوں اور اسلام کے خلاف بھڑکانے اور خوف و نفرت کی فضاقائم کی کرنے کی کوششیں ہوئیں۔
ڈینش حکومت کی خلافِ اسلام پالیسی کا اصل ہدف اس معاشرے میں مسلمانوں کو ایک کُل میں جذب کرنا ہے ۔ اس مقصد کے لیے ہم آہنگ کرنے یا integration کی اصطلاح استعمال کی جارہی ہے۔ حالانکہ علمِ عمرانیات میں اس اصطلاح کی تعریف یہ ہے : اکٹھے رہنے کے لیے وہ عمل جس میں مختلف گروہ مشترکہ بنیاد بنائیں۔ اسی کے تحت ڈینش حکومت مسلمانوں کو اپنے معاشرے میں ضم کرنا اور انھیں ڈینش قوم بنانا چاہتی ہے۔ چنانچہ اس کی جانب سے مسلمانوں کی اسلامی شناخت مٹانے کے لیے اقدامات کیے گئے۔ سکولوں میں طلبہ کی ذہن سازی کی جاتی ہے تاکہ وہ ڈینش تاریخ اور مغربی اقدار و نظریات سے مانوس ہوں۔ مسلمانوں کے لیے خاص رول ماڈلز قائم کرنا اور انھیں فروغ دینا تاکہ نوجوان نسل کو ان کا پرستار بنایا جا سکے ، مثلاً ایسے ’مسلم ‘ سیاستدان یا گلوکار جو مغربی تہذیب کے دلدادہ ہوں۔ اسی طرح مسلمانوں کی ’ترجمانی‘ کے لیے جمہوری مسلمان (Demokratiske Muslimer) جیسی جماعت کو تشکیل دینا جس کا مقصد مسلمانوں میں ’مغرب زدہ اسلام ‘ کا فروغ ہے، تاکہ اجتماعی مسائل میں مسلمان انھی کی طرح سیکولر موقف اختیار کریں۔
ڈنمارک کی جانب سے افغانستان اور عراق پر امریکی قبضے کے لیے وہاں اپنی فوجیں بھیجنے کے علاوہ ، خود اس ملک کے اندر بھی انسانی حقوق کی پامالی قابل غور ہے۔ ڈنمارک میں انسانی حقوق کا ادارہ (Institute for Menneskerettigheder) کے مطابق ڈنمارک میں انسانی حقوق کی پامالی کئی مرتبہ کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر مسلم خواتین سے حجاب کے مسئلے میں امتیازی سلوک، مسلم ممالک میں شادی کے نتیجے میں اپنے شریک حیات کو ڈنمارک بلانے میں قانونی رکاوٹیں کھڑی کرنا ، نفرتی جرائم (hate crimes) پر تساہل برتنا ، مخصوص علاقوں میں فقط شک کی بنا پر عام لوگوں کو روک کر کھلے عام ان کی تلاشی لینے کا پولیس کا حق، مستحقین کو جاے پناہ دینے سے انکار اور خطرے و جنگ کے باوجود انھیں جبری طور پر اپنے آبائی ممالک کو واپس بھیج دینا وغیرہ ۔ اسی طرح حالیہ عدم شہریت کے حامل (فلسطینی مسلم) افراد کو شہریت دینے سے انکار ، ڈینش حکومت کی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی فہرست میں شامل ہیں۔
’دہشت گردی‘ کے بارے میں ڈینش قانون تعزیر کی دفعہ نمبر ۱۱۴ میں لکھا ہے: ’’دہشت گردی پر عمر قید کی سزا اُس کے لیے ہے جو قصداً عوام کو انتہائی خائف کرنے یا نا حق طور پر ڈینش یا بیرونی پبلک اتھارٹیز یا کسی بین الاقوامی تنظیم کے کسی فعل کو انجام دینے یا ترک کرنے پر مجبور کرے‘‘۔ پھر شق میں ان مخصوص افعال کا ذکر کیا گیا ہے، مثلاً قتل وغیرہ ۔ مگر اس سلسلے میں دل چسپ دفعہ وہ ہے جس میں یہ مذکور ہے کہ وہ شخص جو ان افعال کی دھمکی دے گا وہ بھی ویسے ہی سزا کا مستحق ہوگا، جیسے اس کا مرتکب ! نیز اس سلسلے میں وہ قوانین بھی قابل ذکر ہیں، جن کے تحت ڈینش خفیہ ادارہ (PET) معلومات حاصل کرنے کے لیے لوگوں کی نجی زندگی میں جاسوسی کرنے کا مجاز قرار دیا گیا ہے ، مثلاً فون ، میل وغیرہ حتیٰ کہ کمپنیاں بھی پولیس کو مطلوبہ معلومات دینے کی پابند ہیں۔
اسی طرح دفعہ نمبر ۷۸۳ بھی قابل غور ہے : ’’جب عدالتی سند کے انتظار کی وجہ سے کارروائی کرنے کا موقع گنوا یا جا رہا ہو تو پولیس کارروائی کا فیصلہ کرنے کی مجاز ہے‘‘۔ گویا معاملہ اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ ’دہشت گردی‘ کی آڑ میں پولیس بغیر کسی عدالتی سند کے کسی بھی مشکوک شخص کے خلاف کارروائی کر سکتی ہے۔ اسی لیے کچھ ڈینش مبصرین نے اس ’فلاحی ریاست‘ کو بجا طور پر ’پولیس اسٹیٹ ‘ کی مانند قرار دیا ہے۔ یہ بات ناقابلِ فہم ہے کہ بائیں بازو کے وہ انتہا پسند نوجوان جو کئی مرتبہ پولیس سے کھلے عام لڑائیوں اور لوگوں کی ملکیتوں کی غارت گری میں ملوث رہے ہیں ، انھیں تو دہشت گردی کی شقوں کے مطابق سزا نہیں دی گئی ، جب کہ اُس مسلمان کو انھی شقوں کے تحت نو سال قید کی سزا سنائی گئی ہے، جس نے توہین آمیز خاکے بنانے والے پر قاتلانہ حملہ کیا تھا! یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ فردِ واحد پر حملے کو ریاستی سلامتی کے خطرے سے کیسے تعبیر کیا جا سکتا ہے !
ان حربوں کے باوجود بھی الحمد للہ مسلمان بالعموم دین اسلام پر کاربند ہیں اور ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ تاہم ایسے منصوبے بنتے رہیں گے خواہ ان کی نوعیت کتنی ہی مختلف ہو۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ لِیَصُدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَسَیُنْفِقُوْنَھَا ثُمَّ تَکُوْنُ عَلَیْھِمْ حَسْرَۃً ثُمَّ یُغْلَبُوْنَ ط وَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی جَھَنَّمَ یُحْشَرُوْنَo (الانفال ۸: ۳۶) ’’بلا شبہ کافر لوگ اپنے مالوں کو اس لیے خرچ کر رہے ہیں کہ اللہ کی راہ سے روکیں، سو یہ لوگ تو اپنے مالوں کو خرچ کرتے ہی رہیں گے ، پھر وہ مال ان کے حق میں باعثِ حسرت ہو جائیں گے ، پھر مغلوب ہو جائیں گے اور کافر لوگوں کو دوزخ کی طرف جمع کیا جائے گا‘‘۔
ڈنمارک یا بالعموم مغرب میں اپنی اسلامی شناخت کو بر قرار رکھنے کا تقاضا یہ ہے کہ وہاں کے معاشرے اور حکومتی پالیسیوں سے بخوبی واقف رہا جائے ، تاکہ مسلمانوں کو اس سے آگاہ اور متنبہ کیا جا سکے۔ مسلمان انٹی گریشن (ہم آہنگی) کے لیے جس حد تک اسلام خود ڈینش یا مغربی معاشرے سے تعامل (interaction) کی اجازت دیتا ہے ، وہ اس کی پابندی کریں۔ اسی طرح اسلام کی دعوت پیش کرنے کے لیے اسلام کا گہرا علم لازمی ہے، تاکہ اسلامی نظریات کو موجودہ واقعات پر منطبق کرتے ہوئے ، وہاں کے حالات میں حکمت عملی وضع کرکے کام کرنے والی فعال اسلامی تحریک برپا کی جاسکے۔ اس کے لیے قابل مسلمان نوجوانوں پر مشتمل ایک ایسی تنظیم کی ضرورت ہے، جو ایک طرف یہاں پر مسلمانوں کے مسائل کو اچھی طرح سمجھتے ہوئے انھیں اُجاگر کرسکے، اور دوسری طرف اس کے ارکان اسلامی تعلیمات سے آراستہ ہوں تاکہ صرف مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ مؤثر طریقے سے وہاں کے غیرمسلم شہریوں کو بھی اسلام کی دعوت پہنچا سکیں۔ یوں وہ ڈینش معاشرے کو اسلام سے مالا مال بھی کریں گے اور اس کی خدمت بھی۔
بیسویں صدی کی دوسری دہائی اپنے اختتام کو پہنچ رہی تھی، شعبان المعظم کا مہینہ تھا۔ یوپی کے شہر بریلی میں نواب مجتبیٰ علی خان کے گھر ایک بچی نے آنکھیں کھولیں۔ اس بچی کے پیدا ہونے پر گھر کے ہرفرد کی آنکھ اشک بار تھی۔ وجہ یہ تھی کہ بچی کے والد اس کی پیدایش سے چھے ماہ قبل محض ۳۵برس کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوچکے تھے۔ اس وقت اس یتیم بچی کی بے نصیبی پر رونے والے یہ نہ جان سکتے تھے کہ خداے رحمن و رحیم اپنی قدرتِ کاملہ سے اس بچی کو خاندان کی سب سے خوش نصیب لڑکی بنا دیں گے اور روے زمین پر ہونے والے سب سے مبارک کام، اعلاے کلمۃ الحق اور شھدا علی الناس کے فریضے میں اس بچی سے مقدور بھر کام لیں گے، اور ۱۹مئی ۲۰۱۱ء کو جب اپنی بندی کو اپنی طرف واپس بلائیں گے، اس وقت ہزاروں لوگ ان کی جدائی میں آنسو بہانے کے ساتھ ساتھ ان کی خوش نصیبی پر رشک کررہے ہوں گے___ اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُo (ھود ۱۱:۱۰۷) ’’ایسی بخشش ان کو ملے گی جس کا سلسلہ کبھی منقطع نہ ہوگا‘‘۔
میری والدہ (مریم بیگم جنھیں لوگ بنت مجتبیٰ مینا کے نام سے جانتے ہیں) نے ساری زندگی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیدایشی یتیم ہونے کی نسبت کو اپنا سرمایۂ جاں سمجھا۔ وہ کہا کرتیں کہ جب میں سورئہ ضحی کی یہ آیات: اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًا فَاٰوٰی o وَوَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی o وَوَجَدَکَ عَآئِلًا فَاَغْنٰی o (کیا اس نے تم کو یتیم نہیں پایا اور پھر ٹھکانا فراہم کیا؟ اور تمھیں ناواقف راہ پایا اور پھر ہدایت بخشی۔ اور تمھیں نادار پایا اور پھر مال دار کر دیا۔ الضحٰی ۹۳:۶-۸)، پڑھتی ہوں تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میرا رب مجھ ہی سے مخاطب ہے۔
میں جب اپنی امی کی زندگی پر ایک غائرانہ نگاہ ڈالوں تو مہربان رب کے انتظامات دیکھ کر دل احساسِ تشکر سے معمور ہوجاتا ہے۔ امی کا تعلق ایک ایسے خاندان سے تھا جس میں سیاسی بیداری، انگریز سے نفرت اور اپنی دینی اقدار کی حفاظت کا احساس کوٹ کوٹ کر بھراتھا۔ امی کے دادا نواب شفیع علی خاں کا تعلق صاحب ِ حیثیت مسلمانوں کے اس گروہ سے تھا جنھوں نے انگریز سے وفاداری کا تعلق استوار کرنے کے بجاے بغاوت کا راستہ اپنایا تھا۔ نتیجے میں تمام جایداد، مال اسباب ضبط ہوگیا تھا اور الٰہ آباد کے خسرو باغ میں پھانسی کا حکم سننے والوں میں شامل تھے۔
اس سیاسی بیداری اور دین سے محبت کا تسلسل مسلم لیگ سے والہانہ تعلق کی صورت میں ظاہر ہوا۔ امی کے بچپن میں جب قائداعظم محمدعلی جناح تحریکِ پاکستان کے دوران یوپی کا طوفانی دورہ کر رہے تھے تو امی کے چچا نواب سخاوت علی خان صاحب نے اپنے گھر کے احاطے میں مسلم لیگ کا جلسہ منعقد کروایا۔ امی کے بڑے بھائی نے ایک ریشمی رومال پر پاکستان کا نقشہ بنایا جسے امی کی چچازاد بہن نے کاڑھ کر قائداعظم کی خدمت میں پیش کیا تھا۔
حساس دل، مسلمانوں کے لیے کچھ کرنے کی تڑپ رکھنے والی، فطری ادبی و تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال اس لڑکی کو اللہ رب العزت نے اپنی ایک صالح بندی محترمہ آپا حمیدہ بیگم تک پہنچانے کا بندوبست اس طرح کیا کہ ۱۹۵۲ء میں امی اپنی والدہ اور بھائی کے ہمراہ پاکستان ہجرت کرکے آگئیں۔ امی اپنے تایازاد بھائی جناب ناصر سلطان علی خان کو اپنا بہت بڑا محسن اس لیے سمجھتی تھیں کہ نہ صرف انھوں نے اپنی چچی (امی کی والدہ کو) اپنے ساتھ رہنے پر آمادہ کیا بلکہ جماعت اسلامی سے تعارف اور تعلق کی بنیاد بھی بنے۔
ناصر سلطان صاحب سول انجینیرتھے اور محکمہ انہار میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ ملازمت کے سلسلے میں وہ پانچ سال بہاول نگر رہے۔ یہیں سے امی نے جماعت اسلامی کے ساتھ عملی کام کی ابتدا کی اور بہاول نگر میں حلقۂ خواتین کی داغ بیل ڈالی۔ اسی زمانے میں تسنیم اور کوثر میں امی کا کلام چھپنا شروع ہوا۔ محترم نصراللہ خاں عزیز نے امی کی بے حد حوصلہ افزائی کی اور کئی دفعہ امی کی نظمیں سرورق پر بھی چھاپیں۔ یہاں ایک دفعہ پھر خوش قسمتی نے امی کا دامن تھاما اور ان کے لکھے ہوئے مضامین و اشعار محترمہ آپا حمیدہ بیگم کی نظر میں آگئے۔ انھوں نے فوری طور پر ان سے قلمی تعلق قائم کیا اور ان کو اپنی محبت کی زنجیر میں ایسا جکڑا کہ وہ اپنی زندگی کے آخری زمانے تک اس محبت و شفقت و تربیت کی اسیر رہیں۔ ۱۹۵۲ء سے لے کر ۱۹۵۷ء تک یہ تعلق (سواے چند ملاقاتوں کے) قلمی طور پر قائم رہا۔ امی اس تعلق کو اپنے الفاظ میں یوں بیان کرتی ہیں کہ ایک نرم دل مصوّرہ نے اپنا بُرش اُٹھایا اور بڑی خوب صورتی سے میری شخصیت میں رنگ بھرنا شروع کیے۔ آپا حمیدہ بیگم نے ایک دفعہ ان کو خط میں لکھا: ’’مجھے بار بار آپ ہی کا خیال آتا ہے کہ آپ کی زندگی اچھی طرح گزرے۔ آپ اپنی شاعری کی وجہ سے لوگوں کا کھلونا نہ بن جائیں۔ حضرت فاطمہ بھی شاعرہ تھیں لیکن ان کی شاعری اپنے باپ کی محبت اور اطاعت کے لیے وقف تھی۔ پھر ان کی زندگی، دل چاہتا ہے کہ آپ کی زندگی میں بھی وہی چیز ہو‘‘۔
آگے مزید لکھتی ہیں: ’’میرا خیال ہے جس کسی کو کسی شاعر سے سچی محبت ہوگی وہ اس کو یہی مشورہ دے گا کہ اپنی اعلیٰ صلاحیتوں کو اسلام کی راہ میں لگائو۔ اس کی حدود کا پابند بنائو۔ اس وقت مجھے حلقۂ خواتین کی طرف سے دو جہاد بڑے اہم دکھائی دیتے ہیں۔ ایک تو گھریلو زندگی اختیار کرنے پر رضامند ہوجانا اور دوسرے بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت کے لیے پوری طرح تیار ہوجانا۔ علمی ادبی کام اپنی جگہ بہت اہمیت رکھتا ہے لیکن بنیادی نہیں۔ بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ ہمارا اصل مالک، ہمارا سب سے بڑا محسن، سب سے بڑا خیرخواہ اور ہماری محبت کا سب سے بڑھ کر جواب دینے والا ہم سے کیا چاہتا ہے کہ ہم کیسی زندگی گزاریں؟ اور پھر اس کے عائد کردہ فرائض کو نبھانا‘‘۔
انھوں نے اپنی مُرشد کی باتوں کو ایسی عقیدت سے تسلیم کیا کہ کبھی بطور شاعرہ اپنے کیریئر کو نہ اہم سمجھا نہ اس کے لیے محنت کی۔ اشعار وہ ساری زندگی ضرور کہتی رہیں مگر وہ بھی بتول اور نور کی ہی زینت بنے۔ ۱۹۵۷ء میں اپنی شادی کے بعد انھوں نے اپنے آپ کو تن من دھن سے گھر کے محاذ پر مصروف کرلیا اور ایک قابلِ رشک شریکِ حیات، بامروت، متحمل مزاج بہو اور ایک آئیڈل ماں بن کر دکھایا، الحمدللہ۔
۱۹۵۷ء سے ۱۹۷۳ء تک امی نے لاہور میں سسرال ہونے کے باعث آپا حمیدہ بیگم کی صحبت سے فیض اُٹھایا۔ ’نئی نسل کی تربیت‘ امی کی ترجیحات میں سرفہرست تھی۔ اسی لیے آپا حمیدہ بیگم نے نور رسالے کی ذمہ داری ان کے سپرد کردی۔ اللہ کی خاص رحمت سے کم و بیش ۳۵سال تک انھوں نے اس رسالے کی ادارت کا فریضہ سرانجام دیا (ان کا دن گھر کے کاموں اور جماعت کے کاموں کے لیے مختص تھا تو راتیں نور کے کام کے لیے)۔ چند برسوں سے بڑھاپے اور خرابیِ صحت کے باعث انھوں نے یہ کام چھوڑ دیا تھا مگر صدشکر کہ اللہ کی مہربانی سے ان کی اکلوتی بہو ذروہ احسن نے جو آپا سعیدہ احسن کی بیٹی اور آپا بنت الاسلام کی بھانجی بھی ہیں، اس کام کو بہت اچھے طریقے سے سنبھالا ہوا ہے۔
لاہور میں انھوں نے اپنی ازدواجی زندگی کے ۴۰سال گزارے۔ میرے والد محترم عبدالسلام خان امی کے لیے نیک طینت شوہر کے ساتھ ساتھ جماعتی محاذ پر بھی ہم مزاج ساتھی اور بہترین رفیقِ کار ثابت ہوئے۔ جب میں نے ہوش سنبھالا تو اباجی مرحوم کو حلقۂ خواتین کا نگران اور والدہ کو جماعت میں ادبی، دعوتی، تنظیمی اور سیاسی محاذوں پر ہمہ وقت سرگرم پایا۔ میری والدہ میرے فطری میلان کو دیکھتے ہوئے باوجود کم عمر ہونے کے مجھے اکثر اپنے ساتھ رکھتیں۔ ۱۹۷۷ء کی تحریک نظامِ مصطفیؐ سے لے کر ۱۹۸۵ء میں غیرجماعتی بنیادوں پر ہونے والے الیکشن تک، میری آنکھوں میں اپنی والدہ اور والد کی سرگرمیاں اور مصروفیات ایک فلم کی صورت میں گھوم رہی ہیں۔ کبھی جلوس پر گولی چلائے جانے کے نتیجے میں زخمیوں کو دیکھنے ہسپتال جایا جارہا ہے۔ کہیں جلسۂ عام میں خطاب ہو رہا ہے۔ کہیںلوگوں کو بیلٹ پیپر پر صحیح طریقے سے مہر لگانے کا طریقہ بتایا جا رہا ہے۔ کبھی وارڈز اور زون کی فائلیں بنائی جارہی ہیں۔ کبھی ووٹر لسٹوں کی پڑتال ہورہی ہے۔ کبھی پولنگ ایجنٹوں کو بریفنگ دی جارہی ہے۔ این اے ۸۵ کے گلی کوچوں کا چپہ چپہ روزِ قیامت ان شاء اللہ میری والدہ کے قدموں کی گواہی دے گا۔ نوازشریف کے مقابلے میں سید اسعد گیلانی تھے۔ اس انتخابی مہم میں امی اور اباجی کا انہماک، لگن، محنت اور تگ و دو دیکھنے سے تعلق رکھتے تھے۔
۸۰ کی دہائی میں میری والدہ محترمہ بیگم زبیدہ واصل کے ساتھ میونسپل کارپوریشن لاہور کی کونسلر بھی رہیں۔ حریم ادب کی محفل کا بھی دوبارہ سے اجرا کیا۔ اسلامی جمعیت طالبات سے خصوصی تعلق رکھنے کے باعث جمعیت کے پروگراموں اور مشاعروں میں ہمیشہ شرکت کی۔ جماعت اسلامی کی خواتین کی نمایندگی کرتے ہوئے ایوانِ صدر بھی گئیں۔ سیرت کانفرنسوں اور خواتین کانفرنسوں میں بھی شریک رہیں۔ جنگ فورم میں حدود آرڈی ننس پر اعتراضات کے حوالے سے حناجیلانی، عاصمہ جہانگیر اور مہناز رفیع جیسی خواتین کے مقابل بھی ڈٹی رہتیں۔ مقابل باوجود ڈھٹائی کے ان کے باوقار اور پُرسکون انداز سے مرعوب ہوئے بغیر نہ رہتا۔
۱۹۸۹ء میں مینارِ پاکستان پر ہونے والا اجتماعِ عام غالباً وہ آخری پروگرام تھا جس میں امی اور اباجی نے اپنے روایتی جوش و خروش سے حصہ لیا۔ قیمہ کے کیمپ میں بطور نائب قیمہ پاکستان ان کی موجودگی اور تمام پاکستان سے آئی ہوئی خواتین کا ان سے والہانہ ملنا آج بھی میرے دل کے البم میں محفوظ ہے۔
اس کے بعد امی نے دورِ آزمایش بھی دیکھا۔ غلط فہمیوں، خدشات، بدگمانیوں کی کچھ ایسی ہوا چلی کہ والدہ کے عزیز از جان شریکِ حیات اور امی کی دیرینہ ساتھی مخالف کیمپ میں جاکھڑے ہوئے۔ لیکن اس موقع پر بھی انھوں نے اپنی فہم و فراست کے مطابق جس بات کو اور موقف کو درست سمجھا اس پر قائم رہیں۔
۱۹۹۷ء میں میرے والد اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلٰیہِ رٰجِعُون۔ اس اصولی اختلاف کے باوجود امی نے اباجی کی خدمت اور خیال رکھنے میں ذرہ برابر کمی نہ آنے دی اور ان کی رحلت کے بعد بھی جنت الفردوس میں ان سے ملاقات کی دعائیں کرتی رہیں۔ امی کا کہنا تھا کہ’’ اللہ رب العالمین ہرایک سے اس کی نیت کے مطابق معاملہ کرے گا اور میں گواہی دیتی ہوں کہ تمھارے والد ایک نیک آدمی تھے‘‘۔
میرے شوہر ڈاکٹر عاصم پلاسٹک سرجری کے ایف سی پی یس پارٹ ٹو کی ٹریننگ کے سلسلے میں چار سال لاہور میں میوہسپتال میں تعینات رہے۔ ۱۹۹۶ء سے ۲۰۰۱ء تک مَیں امی کے ساتھ ہی رہی۔ جب ہماری فیصل آباد واپسی کا وقت ہوا تو والدہ نے کمالِ ہمت سے اپنے گھر کو ہمیشہ کے لیے بند کرنے کا فیصلہ کیا۔ اپنی زندگی کے آخری ۱۰ سال انھوں نے اپنے بیٹے کے پاس گزارے۔ کبھی کراچی، کبھی اسلام آباد (گو دل میں لاہور اور اہلِ لاہور کی یاد آخر وقت تک چٹکیاں لیتی رہی)۔
یہ بھی حُسنِ اتفاق ہے کہ ۲۰۰۱ء تک امی نے عملی طور پر جماعت میں کام کیا اور اسی سال سے مَیں نے ان کی دیرینہ خواہش کے پیش نظر جماعت اسلامی میں عملی طور پر اپنا سفر شروع کیا۔ وہ جب بھی فیصل آباد آتیں، نہ صرف جماعت کے پروگراموں میں شریک ہوتیں بلکہ حریم ادب کا انعقاد بھی کرواتیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی زندگی کا آخری حصہ بہت سکون، آسانی اور خوشی کے ساتھ گزروایا۔ وہ کبھی کسی کے لیے وجۂ تکلیف نہ بنیں (الحمدللہ)۔ آخر وقت تک جماعت اور جماعت کے کاموں سے ان کادلی تعلق رہا۔
۲۲مارچ کو وہ دبئی بڑی بہن کے پاس ان کے شدید اصرار کے نتیجے میں گئی تھیں۔ انٹرنیٹ پر گاہے بہ گاہے ان سے طویل گفتگو رہتی۔ آخری دفعہ غالباً ایک ہفتہ پہلے ان سے بات کی تو حسبِ معمول شگفتہ انداز میں بات کرتی رہیں۔ الوداع کہتے ہوئے اپنا پسندیدہ شعر دُہرایا ؎
خیری کن ای فلاں و غنیمت شمار عمر
زاں پیشتر کہ بانگ در آید فلاں نماند
اللہ نے ان کی خواہش کے مطابق ان کو چلتے ہاتھ پیر، آخر وقت تک کی نماز پڑھوا کر اور بے ہوش ہونے سے پہلے تک کلمۂ طیبہ پڑھواتے ہوئے اپنے پاس بلایا۔ ان کے انتقال کی خبر سن کر سب مجھے صبر کی تلقین کر رہے ہیں، ان کے نیک اعمال اور کردار کی گواہی دے رہے ہیں اور ان کے بلند درجات کی دعائیں کر رہے ہیں۔ لیکن میرا دل امی کے اس شعر کی تصویر بنا ہوا ہے ؎
گرداب سے بچنا مانجھی تم، پتوار سنبھالو نیا کے
اب ہر چہ بادا باد کہو کشتی سے کنارا چھوٹ گیا
قبولِ اسلام سے قبل عفیفہ ایک آزاد خیال ہندو لڑکی اور ہاکی کی کھلاڑی تھی۔ مگر جب اس نے اسلام کو فطرت کے قریب اور اپنے ضمیر کی آواز پایا تو اسے قبول کرلیا۔ قبولِ اسلام کے بعد معروف مبلغ محمد کلیم اللہ صدیقی کی بیٹی اسما نے ان سے انٹرویو کیا جو پیش ہے۔ (ادارہ)
ہماری ٹیم ایک ٹورنامنٹ کھیلنے ڈنمارک گئی۔ وہاں مجھے معلوم ہوا کہ ڈنمارک کی ٹیم کی سنٹرفارورڈ کھلاڑی نے ایک پاکستانی لڑکے سے شادی کرکے اسلام قبول کرلیا ہے، اور ہاکی کھیلنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ لوگوں میں یہ بات مشہور تھی کہ اس نے شادی کے لیے اس لڑکے کی محبت میں اسلام قبول کیا ہے۔ مجھے یہ بات عجیب سی لگی۔ ہم جس ہوٹل میں رہتے تھے، اس کے قریب ایک پارک تھا، اس پارک سے ملا ہوا ان کا مکان تھا۔ میں صبح کو اس پارک میں سیر کر رہی تھی کہ ڈنمارک کی ایک کھلاڑی نے مجھے بتایا: وہ سامنے برٹنی کا گھر ہے جو ڈنمارک کی ہاکی کی مشہور کھلاڑی رہی ہے۔ اس نے اپنا نام اب سعدیہ رکھ لیا ہے اور گھر میں رہنے لگی ہے، مجھے اس سے ملنے کا شوق ہوا۔ میں ایک ساتھی کھلاڑی کے ساتھ اس کے گھر گئی۔ وہ اپنے شوہر کے ساتھ کہیں جانے والی تھی، بالکل موزے ، دستانے اور پورے برقعے میں ملبوس۔ میں دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئی اور ہم دونوں ہنسنے لگیں۔ میں نے اپنا تعارف کرایا تو وہ مجھے پہچانتی تھی۔ وہ بولی میں نے تمھیں کھیلتے دیکھا ہے۔ سعدیہ نے کہا: ’ہمارے ایک سسرالی عزیز کا انتقال ہوگیا ہے، مجھے وہاں جانا ہے، ورنہ میں آپ کے ساتھ کچھ باتیں کرتی۔ میں تمھارے کھیلنے کے انداز سے بہت متاثر رہی ہوں۔ ہاکی کا کھیل عورتوں کی فطرت سے میل نہیں کھاتا۔ میرا دل چاہتا ہے کہ تمھاری صلاحیتیں فطرت سے رچائو رکھنے والے کاموں میں لگیں۔ میں تم سے ہاکی چھڑوانا چاہتی ہوں‘۔ میں نے کہا: ’آپ میرے کھیل کے انداز سے متاثر ہیں اور مجھ سے کھیل چھڑوانا چاہتی ہیں، جب کہ میں تو آپ کا ہاکی چھوڑنا سن کر آپ سے ملنے آئی ہوں کہ ایسی مشہور کھلاڑی ہوکر آپ نے کیوں ہاکی چھوڑ دی؟ میں آپ کو فیلڈ میں لانا چاہتی ہوں‘۔ سعدیہ نے کہا:’اچھا آج رات کو میرے ساتھ کھانے کی دعوت قبول کرو‘۔ میں نے کہا کہ آج تو نہیں، کل ہوسکتا ہے، اور یہ طے ہوگیا۔
میں ڈنر پر پہنچی، تو سعدیہ نے اپنے قبولِ اسلام کی روداد مجھے سنائی اور بتایا کہ میں نے شادی کے لیے اسلام قبول نہیں کیا بلکہ اپنی شرم اور اپنی عصمت کی عزت و حفاظت کے لیے اسلام قبول کیا ہے اور اسلام کے لیے شادی کی ہے۔ سعدیہ نہ صرف ایک مسلم خاتون تھی بلکہ اسلام کی بڑی داعیہ تھی۔ اس نے فون کرکے دو انگریز لڑکیوں کو اور ایک معمر خاتون کو بلایا، جو ان کے محلے میں رہتی تھیں، اور سعدیہ کی دعوت پر مسلمان ہوگئی تھیں۔ وہ مجھے سب سے زیادہ اسلام کے پردے کے حکم کی خیر و برکت بتاتی رہیں اور بہت اصرار کر کے مجھے برقع پہنا کر باہر جاکر آنے کو کہا۔ میں نے برقع پہنا۔ ڈنمارک کے بالکل مخالف ماحول میں، میں نے برقعے پہن کر گلی کا چکر لگایا، مگر برقع میرے دل میں اُتر گیا۔ بیان نہیں کرسکتی کہ میں نے مذاق اڑانے یا زیادہ سے زیادہ اُس کی خواہش کے لیے برقع پہنا تھا، مگر مجھے اپنا انسانی قد بہت بڑھا ہوا محسوس ہوا۔ اب مجھے اپنے کوچ کی بے شرمانہ شہوانی چٹکیوں سے گھن بھی آرہی تھی۔ میں نے برقع اُتارا اور سعدیہ کو بتایا کہ مجھے واقعی برقع پہن کر بہت اچھا لگا، مگر آج کے ماحول میں جب برقعے پر مغربی حکومتوں میں پابندی لگائی جارہی ہے، برقع پہننا کیسے ممکن ہے، اور غیرمسلم کا برقع پہننا تو کسی طرح ممکن نہیں؟ وہ مجھے اسلام قبول کرنے کو کہتی رہیں اور بہت اصرار کرتی رہیں۔ میں نے معذرت کی کہ میں اس کے لیے تیار نہیں ہوں۔ ابھی مجھے دنیا کی نمبر ون ہاکی کی کھلاڑی بننا ہے، یوں میرے سارے ارمانوں پر پانی پھر جائے گا۔ سعدیہ نے کہا: ’مجھے آپ کو ہاکی کی فیلڈ سے برقعے میں لانا ہے۔ میں نے اپنے اللہ سے دعا بھی کی ہے اور بہت ضد کرکے دعا کی ہے‘۔ اس کے بعد ہم ۱۰روز تک ڈنمارک میں رہے۔ وہ مجھے فون کرتی رہی، دوبار ہوٹل میں ملنے آئی، اور مجھے اسلام پر کتابیں دے کر گئی۔
سوال: مذاہب کا پروگرام اگر انسانی فطرت کے لیے کشش رکھتا تھا تو متقی لوگوں نے کسی بھی ملک و قوم میں بہتر سوسائٹی بنانے میں کیوں کامیابی حاصل نہیں کی؟ اگر انسانیت کی پوری تاریخ میں بھی مذہب کامیاب نہ ہوسکا تو آج کیوں کر اس سے امن و ترقی کی اُمیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں؟ یہ کہہ دینا کہ انسانی فطرت ہی میں خرابی مضمر تھی، مفید نہیں ہوسکتا۔ مذاہب حق کو زندہ کرنے اور باطل کو مٹانے کے لیے کام کرتے رہے مگر نتیجہ تھوڑے تھوڑے وقفے کو چھوڑ کر ہمیشہ اُلٹا ہی نکلا اور تاریخ کے سیلاب کا رُخ نہ بدلا، یا بالفاظِ دیگر شیطان کی طاقت شکست نہ کھا سکی؟
جواب: آپ کا یہ سوال جتنے مختصر لفظوں میں ہے، اتنے مختصر لفظوں میں اس کا جواب نہیں دیا جاسکتا۔ تاہم اگر محض اشارات سے آپ کی تشفی ہوسکے تو جواب یہ ہے کہ اوّل تو آپ لفظِ مذہب کے نام سے جس چیز کو مُراد لیتے ہیں اس کا تعین کریں۔ اگر مذہب کا لفظ آپ جنس کے طور پر استعمال کر رہے ہیں جس میں ہرقسم کے مذاہب شامل ہیں تو اس کی طرف سے جواب دہی کرنا میرا کام نہیں ہے۔ اور اگر مذہب سے آپ کی مراد دین حق، یعنی وہ دین ہے جس کی تعلیم ابتداے آفرینش سے انسان کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی جاتی رہی ہے اور جس کا نام عربی زبان میں اسلام ہے، تو وہ مجموعہ ہے اُن اصولوں کا جو کائنات کی واقعی حقیقتوں پر مبنی ہیں اور بجاے خود صحیح ہیں، خواہ انسان ان کو مانے یا نہ مانے۔
ان کی مثال ایسی ہے، جیسے مثلاً حفظانِ صحت کے اصول ہیں کہ وہ انسان کے جسم کی ساخت اور اس کے اعضا کی حقیقی فعلیت اور اس کے طبعی ماحول کی واقعی حقیقتوں پر مبنی ہیں۔ ان اصولوں کے مطابق کھانا، پینا، سانس لینا، آرام کرنا وغیرہ لازمی طور پر انسان کو تندرست رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص یا ساری دنیا مل کر بھی ان اصولوں کی خلاف ورزی کرے تو نہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ حفظانِ صحت کے اصول باطل ہیں، نہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کی پابندی کرنا انسانی فطرت کا تقاضا نہیں ہے، نہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ اصول ٹوٹ گئے اور شکست کھاگئے، اور نہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ انسانوں کی اس خلاف ورزی نے ان اصولوں کا کوئی نقصان کیا ہے، بلکہ درحقیقت اگر انسان ان اصولوں کے خلاف چلتے ہیں تو یہ ان کی ناکامی ہے اور نقصان ان کا اپنا ہے نہ کہ ان اصولوں کا۔
پس آپ جس چیز کو مذہب کی ناکامی کہہ رہے ہیں، وہ مذہب کی ناکامی نہیں، انسانوں کی ناکامی ہے۔ مثال کے طور پر مذہب ہم کو امانت کی تعلیم دیتا ہے۔ اب اگر تمام دنیا کے انسان مل کر بھی خیانت شروع کر دیں اور امانتوں کو ضائع کرنے لگیں تو کیا آپ یہ کہیں گے کہ مذہب ناکام ہوا؟ مذہب کی ناکامی تو اس صورت میں ہوسکتی ہے، جب کہ یا تو یہ ثابت ہوجائے کہ فطرتِ کائنات اور فطرتِ انسان امانت کی نہیں خیانت کی مقتضی ہے، یا یہ ثابت ہوجائے کہ انسانی زندگی کا حقیقی امن اور تمدنِ انسانی کا قابلِ اعتماد استقلال اور تہذیب کا تسلسلِ ارتقا امانت سے نہیں بلکہ خیانت سے قائم ہوتا ہے۔ لیکن اگر یہ ثابت نہیں ہوتا اور نہیں ہوسکتا تو انسانوں کا امانت چھوڑ کر خیانت کو اختیار کرنا اور اس سے اخلاقی، روحانی اور تمدنی نقصانات اُٹھانا انسانوں کی ناکامی کا ثبوت ہے، نہ کہ ’مذہب‘ یا دین کی ناکامی کا۔ اسی طرح اور جتنے اصول ’دین‘ نے پیش کیے ہیں یا بالفاظِ دیگر جن اصولوں کے مجموعے کا نام ’دینِ حق‘ ہے ان کو جانچ کر دیکھیے کہ وہ حق ہیں یا نہیں؟ اگر وہ حق ہیں تو ان کی کامیابی و ناکامی کا فیصلہ اس بنا پر نہ کیجیے کہ انسانوں نے ان کی پابندی کی ہے یا نہیں۔ انسانوں نے جب ان کی پیروی کی تو وہ خود کامیاب ہوئے اور اگر ان کی پیروی نہ کی تو وہ خود ناکام ہوئے۔(سیدابوالاعلیٰ مودودی، رسائل و مسائل، سوم، ص ۱۴۵-۱۴۸)
س: قرآن مجید کی تمام سورتوں کی ابتدا میں بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھی جاتی ہے، ماسوا سورئہ توبہ کے۔ مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں کہ ’’حضوؐر کی وفات کے بعد حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں جب قرآن مجید کو مرتب کرنے کا ارادہ کیا گیا تو اس تھیلے کو نکالا گیا اور تمام سورتوں کی ترتیب، جیسے کہ رسولؐ اللہ نے بتائی تھی، وہ قائم رکھ کر ان کی نقل تیار کی گئی۔ تو چوں کہ حضوؐر کی لکھوائی ہوئی سورئہ توبہ کے شروع میں بسم اللہ درج نہیں تھی، اس وجہ سے صحابہ کرامؓ نے بھی اسے درج نہیں کیا۔ باقی کوئی سورت قرآنِ مجید کی ایسی نہیں ہے، جس کا آغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم سے نہ ہوا ہو‘‘۔
دراصل سورئہ توبہ کی ابتدا میں بسم اللہ کیوں نہ پڑھی جائے؟ اس کا سبب تشنہ رہ جاتا ہے۔ ازراہِ کرم اس جانب رہ نمائی فرمائیں یا کسی تفسیر کا حوالہ دیں تاکہ تشنگی دُور ہوسکے۔
ج: تفہیم القرآن ، جلد دوم، سورئہ توبہ کے شروع میں مولانا مودودیؒ نے جو نوٹ لکھا ہے، اس میں ’بسم اللہ نہ لکھنے کی وجہ‘ کے ذیلی عنوان کے تحت فرمایا ہے: ’’اس سورہ کی ابتدا میں بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھی جاتی۔ اس کے متعدد وجوہ مفسرین نے بیان کیے ہیں، جن میں بہت کچھ اختلاف ہے۔ مگر صحیح بات وہی ہے جو امام رازیؒ نے لکھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس کے آغاز میں بسم اللہ نہیں لکھوائی تھی، اس لیے صحابہ کرامؓ نے بھی نہیں لکھی اور بعد کے لوگ بھی اسی کی پیروی کرتے رہے۔ یہ اس بات کا مزید ایک ثبوت ہے کہ قرآن کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جوں کا توں لینے، اور جیساتھا ویسا ہی اس کے محفوظ رکھنے میں کس درجہ احتیاط و اہتمام سے کام لیا گیا ہے‘‘۔
سورئہ توبہ کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کیوں نہیں لکھی گئی؟ اس سلسلے میں مفسرین نے متعدد اقوال نقل کیے ہیں۔ لیکن ان کی حیثیت بس نکات و لطائف کی ہے۔ علامہ قرطبیؒ نے ایک قول یہ نقل کیا ہے کہ اہلِ عرب جب کسی قوم سے کیے ہوئے اپنے معاہدوں کو منسوخ کرتے تھے تو منسوخی کے اعلان کے لیے تیار کردہ تحریر پر بسم اللہ نہیں لکھتے تھے۔ سورئہ توبہ میں بھی مشرکین سے کیے گئے معاہدے کی منسوخی کا اعلان ہے، اس لیے اس کا آغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم سے نہیں کیا گیا اور جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ کو بھیجاکہ حج کے موقع پر ان آیات کو علی الاعلان سنا دیں تو انھوں نے بھی شروع میں بسم اللہ نہیں پڑھی۔
ایک دوسرا قول انھوں نے حضرت علیؓ سے نقل کیا ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم اصلاً امان اور رحمت کا مظہر ہے، جب کہ اس سورت سے اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور غضب کا اظہار ہوتا ہے (تفسیر قرطبی، طبع مصر، ۱۹۸۷ء، ۸/۶۳)۔ لیکن اس تاویل کو علامہ آلوسی نے ضعیف بتایا ہے۔ اس لیے کہ بعض دیگر سورتوں، مثلاً مطففین، ہمزہ اور لہب وغیرہ کا آغاز بھی اللہ کے غضب سے ہوا ہے، مگر ان کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھی جاتی ہے۔ (روح المعانی، طبع مصر، ۱/۴۱)
اس سلسلے میں قولِ فیصل وہی ہے جسے علامہ قرطبیؒ نے امام قشیریؒ کے واسطے سے نقل کیا ہے: ’’صحیح بات یہ ہے کہ یہاں بسم اللہ الرحمن الرحیم اس لیے نہیں لکھی جاتی کیوں کہ حضرت جبرئیل ؑجو قرآن لے کر نازل ہوئے تھے، اس میں یہاں وہ نہیں تھی‘‘۔(تفسیر قرطبی، ۸/۶۳)
یہ تو بسم اللہ الرحمن الرحیم نہ لکھے جانے کی بات ہے۔ جہاں تک اس کے پڑھنے یا نہ پڑھنے کا معاملہ ہے، تو اس سلسلے میں علما فرماتے ہیں کہ چوں کہ یہاں وہ لکھی ہوئی نہیں ہے، اس لیے اسے پڑھنا بھی نہیں چاہیے۔ لیکن بعض علما اس کے پڑھنے کی اجازت دیتے ہیں۔ اس موضوع پر علامہ آلوسی نے کسی قدر تفصیل سے لکھاہے، جسے نقل کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ وہ امام سخاویؒ کے حوالے سے فرماتے ہیں: ’’مشہور ہے کہ سورئہ توبہ کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم نہ پڑھی جائے۔ عاصمؒ سے مروی ہے کہ پڑھنی چاہیے۔ یہ بات انھوں نے قیاساً کہی ہے۔ کیوں کہ اس کے لکھے نہ جانے کا سبب یا تو یہ ہے کہ اس میں مشرکینِ مکہ سے جنگ کی بات کہی گئی ہے یا یہ ہے کہ صحابہ قطعی طور پر طے نہیں کرپائے تھے کہ یہ مستقل سورت ہے یا سورئہ انفال کا حصہ ہے۔ پہلی صورت میں اس کا حکم ان لوگوں کے ساتھ خاص ہوگا جن کے بارے میں یہ سورت اُتری تھی اور ہم تو اسے برکت حاصل کرنے کے لیے پڑھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر ان آیتوں سے قرآن پڑھنے کا آغاز کیا جائے جن میں مشرکین سے جنگ کرنے کا حکم ہے تو ان سے پہلے بسم اللہ پڑھنا بالاتفاق جائز ہے۔ دوسری صورت میں بھی بسم اللہ پڑھی جاسکتی ہے جس طرح سورتوں کے شروع میں بسم اللہ پڑھنی چاہیے۔ روایت میں ہے کہ مصحفِ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے شروع میں وہ لکھی ہوئی تھی‘‘۔ (روح المعانی، ۱۰/۴۲)
علامہ آلوسیؒ مزید فرماتے ہیں: ’’ابن منادر کی راے ہے کہ بسم اللہ (سورئہ توبہ کے شروع میں) پڑھنی چاہیے۔ الاتناع میں بھی اس کے جواز کی بات کہی گئی ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ اسے نہ پڑھنا مستحب ہے، اس لیے کہ مصحف میں وہ درج نہیں ہے اور اس معاملے میں کسی دوسرے کی تقلید نہیں کی جائے گی۔ لیکن اس جگہ بسم اللہ پڑھنے کو حرام قرار دینا اور نہ پڑھنے کو واجب کہنا، جیساکہ بعض مشائخ شافعیہ کا خیال ہے، تو ظاہر ہے کہ یہ بات صحیح نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جو شخص درمیانِ سورہ سے تلاوت شروع کرے، اس کے لیے بسم اللہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے واللّٰہ تعالٰی اعلم‘‘۔ (روح المعانی، ۱۰/۴۲)
اس موضوع پر مولانا مفتی محمد شفیع عثمانیؒ نے اپنی تفسیر میں صحیح رہ نمائی کی ہے: ’’حضرات فقہا نے فرمایا ہے کہ جو شخص اُوپر سے سورئہ انفال کی تلاوت کرتا آیا ہو اور سورئہ توبہ شروع کر رہا ہو وہ بسم اللہ نہ پڑھے، لیکن جو شخص اس سورت کے شروع یا درمیان سے اپنی تلاوت شروع کر رہا ہے، اس کو چاہیے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر شروع کرے۔ بعض ناواقف یہ سمجھتے ہیں کہ سورئہ توبہ کی تلاوت میں کسی حال میں بسم اللہ پڑھنا جائز نہیں۔ یہ غلط ہے اور اس پر دوسری غلطی یہ ہے کہ بجاے بسم اللہ کے، یہ لوگ اس کے شروع میں اعوذ باللّٰہ من النار پڑھتے ہیں، جس کا کوئی ثبوت آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ سے نہیں ہے‘‘ (معارف القرآن، طبع دیوبند، ۴/۷۷)۔ (رضی الاسلام ندوی، زندگی نو، نئی دہلی، مئی ۲۰۱۱ء)
س: ایسا ناقص الخلقت جنین، جس کے بارے میں الٹراسائونڈ سے یقین ہوگیا ہو کہ وہ پیدا ہوگا تو مختصر عرصے میں مرجائے گا یا زندہ رہے گا تو معمول کی زندگی نہیںگزار سکے گا۔ کیا اس کا اسقاط کراناجائز ہے؟
ج: اسلامی شریعت نے جنین کو وہی حیثیت دی ہے جو زندہ انسان کی ہوتی ہے۔ اسی لیے اس نے ان تمام صورتوں کو ممنوع قرار دیا ہے جن سے جنین کو ضرر لاحق ہوسکتا ہے۔ اگر جنین کو کسی قسم کا خطرہ ہو تو حاملہ یا مرضعہ (دودھ پلانے والی) عورت کو رمضان کے روزے نہ رکھنے کا حکم ہے۔ اسی طرح اس پر حد جاری نہیں کی جاسکتی، جب تک کہ وہ بچے کو جنم نہ دے لے اور وہ دودھ چھڑانے کی عمر کو نہ پہنچ جائے۔
اسی بنا پر علما نے روح پھونکے جانے کی مدت کے بعد اسقاط کو ناجائز قرار دیا ہے۔ یہ مدت بخاری و مسلم کی ایک حدیث کے مطابق ۱۲۰ دن ہے۔ اس سے قبل اس کے جواز یا عدم جواز کے سلسلے میں ان کا اختلاف ہے۔ بعض علما کے نزدیک بہ وقت ِ ضرورت جائز ہے۔ کیوں کہ روح پھونکے جانے سے قبل جنین محض ایک بے جان لوتھڑا ہے، لیکن بعض علما اس وقت بھی اسقاط کو حرام نہیں تو مکروہ ضرور قرار دیتے ہیں۔ اس لیے کہ اگر اسے چھوڑ دیا جائے تو آیندہ اس میں روح پڑ جائے گی۔
بعض علما کے نزدیک روح پھونکے جانے کی مدت کے بعد بھی ناگزیر حالت میں اسقاط کروایا جاسکتا ہے۔ یہ ناگزیر صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جنین میں کوئی ایسا تخلیقی نقص پیدا ہوجائے کہ پیدا ہونے کے بعد اس کی زندگی اجیرن ہوجائے۔ الٹراسائونڈ سے ایسے نقائص کا پتا لگ جاتا ہے۔ علامہ یوسف القرضاوی نے ایک سوال کے جواب میں اس موضوع پر تفصیل سے لکھا ہے اور ان علما کی راے سے اپنے اختلاف کا اظہار کرتے ہوئے بعض دلائل دیے ہیں۔
آخر میں لکھا ہے: ’’میری نظر میں صرف ایک ہی ایسی صورت ہے جس میں اسقاط کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ وہ یہ کہ اسقاط نہ کرایا گیا تو ماں کی جان کو خطرہ لاحق ہوجائے۔ ایسی صورت میں ماں کی جان بچانے کے لیے حمل کو ساقط کرایا جاسکتا ہے۔ کیوں کہ ماں کی جان بہرحال بچے کی جان سے زیادہ اہم ہے (فتاویٰ یوسف القرضاوی، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی، جلد دوم، ص ۲۲۵)۔ (رضی الاسلام ندوی، زندگی نو، نئی دہلی، مئی ۲۰۱۱ء)
س: بعض اوقات انسان کے ذہن میں عجیب و غریب قسم کے سوالات و وسوسے آنے لگتے ہیں ، کیا ان وسوسوں پر مواخذہ کیا جائے گا؟
ج: دل میں خیالات و وساوس کا آنا خاصۂ انسانی ہے۔ نماز کے دوران اگر وسوسے آئیں تو کوشش کرکے انھیں جھٹک دینا چاہیے۔ عام حالات میں بھی وسوسے مطلوب نہیں لیکن بہرحال یہ انسانی کمزوری ہے۔ اسی لیے نبی رئوف و رحیم نے امت کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ رب العالمین نے اپنی رحمت خاص سے میری امت پر سے دل میں گزرنے والے خیالات و وساوس پر مواخذہ نہ کرنے کی بشارت دی ہے، جب تک کہ اس وسوسے کو زبان پر نہ لایا جائے اور نہ اس کے مطابق کوئی عمل ہی کیا جائے۔ صحیح حدیث میں یہ بھی ثابت ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریمؐ سے صحابہؓ نے یہ سوال کیا کہ ان کے دل میں خیالات و وسوسے آتے ہیں، تو آپؐ نے فرمایا کہ ہاں یہ وسوسے آنے کا عمل انسانی کمزوری ہے۔ یہ عمل بعض اوقات انسان کو اس مقام پر لے آتا ہے کہ وہ سوچتا ہے ساری مخلوق کو اللہ نے پیدا کیا ہے تو اللہ کو کس نے پیدا کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا جب ایسا خیال ذہن میں آئے تو سمجھو کہ یہ شیطان ہے۔ اس لیے وسوسوں کو ذہن سے فوراً جھٹک کر یہ کہیے: اٰمنت باللّٰہ ورسلہ۔ ایک دوسری روایت میں آں حضورؐ نے فرمایا: ایسی کیفیت میں انسان کو شیطان سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے اور ان خیالات کو یکسر ترک کرنا چاہیے (مسلم)۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔ (شیخ عبدالعزیز بن بازؒ،ترجمہ: حافظ محمدادریس، المجتمع، کویت، شمارہ ۱۹۵۳، ۲۱مئی ۲۰۱۱ء)
س: قرآن مجید اگر غلطی سے ہاتھ سے گر جائے تو اس کا کیا کفارہ ہے، اور کیا ایسی صورت میں اسے چوم کر اونچی جگہ پر رکھنا چاہیے؟
ج: صحابی جلیل حضرت عکرمہؓ بن ابی جہل کے بارے میں یہ روایت بیان کی گئی ہے کہ وہ مصحف شریف کی تلاوت کرتے ہوئے اسے چوما کرتے تھے اور ساتھ کہا کرتے تھے کہ یہ میرے رب کریم کا عظیم الشان کلام ہے۔ اس لیے قرآن مجید کو چومنے میں کوئی حرج نہیں مگر قرآن مجید غلطی سے نیچے گر جائے تو اس پر کوئی کفارہ نہیں۔ اسی طرح یہ بات بھی سامنے رہنی چاہیے کہ قرآن مجید کو چومنا واجباتِ شرعیہ میں سے بھی نہیں ہے۔ پس قرآن مجید کی عظمت کے پیش نظر گرجانے کی صورت میں یا اس کے بغیر بھی قرآن کو عقیدت و محبت سے چوما جائے تو ہمارے نزدیک اس میں کوئی حرج کی بات نہیں۔(ایضاً)
سیاسی اور بین الاقوامی مسائل پر اسلام کی رہنمائی زیادہ تر اصولی ہدایات پر مبنی ہے۔ اس کی تفصیلات سے بہت زیادہ بحث نہیں کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے مسائل کے بارے میں ہمارے فقہی ذخیرے میں آرا کا ایک تنوع موجود ہے۔ گویا یہ مسائل ہر عہد کے اہلِ اسلام کو اسلام کی فراہم کردہ اصولی ہدایات کی روشنی میں خود حل کرنے ہوں گے جس کی مثالیں فقہا کی آرا کی صورت میں موجود ہیں۔ ’فقہی مباحث‘ میں بعض ایسے ہی اہم اور نازک مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ آٹھ عنوانات میں منقسم یہ کتاب بہت جامعیت کے ساتھ اسلامی شریعت میں اجتہاد کے عمل، دارالاسلام اور دارالحرب کا تصور (جدید عالمی تناظر میں)، اسلامی ریاست میں غیرمسلموں پر اسلامی قانون اور حدود کا نفاذ، غیرمسلموں سے ازدواجی تعلقات، اسلام کا قانونِ قصاص و دیت اور قذف و لعان کے احکام پر بھرپور رہنمائی فراہم کرتی ہے۔
کتاب کی یہ خوبی خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہے کہ مصنف نے ذاتی تبصرے کا دخل بہت کم رکھا ہے۔ قرآن و حدیث کے نصوص اور فقہاے اسلام کی آرا ہی سے موضوع پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اگرچہ فقہی مباحث کے مسائل خالص فقہی نوعیت کے ہیں مگر جامع علمی اسلوب کی بنا پر عام فہم انداز میں سامنے آتے ہیں۔ غیرمسلم ممالک میں مقیم مسلمانوں اور مسلم ممالک میں مقیم غیرمسلموں کے لیے اسلامی شریعت نے جو رہنمائی فراہم کی ہے، اُردو قارئین کے لیے اس سے استفادے کی ایک صورت اس کتاب کا مطالعہ ہوسکتی ہے۔ مصنف نے انکسار کے ساتھ اس بات کا اظہار کیا ہے کہ’’ ان مسائل کی نوعیت ایک طالب علم کے قلم سے زیربحث موضوعات کے تعارف اور ان پر اظہارِ خیال کی ہے۔ یہ کسی فرد یا ادارے کی ترجمانی نہیں ہے‘‘۔ (ص ۹)
مجلہ تحقیقاتِ اسلامی میں شائع شدہ مزید ایسے علمی و فقہی ذخیرے کو کتابی صورت میں شائع کرنے کی ضرورت ہے۔ بایں ہمہ زیرنظر کتاب کسی محقق و عالم کی بنیادی ضرورت کو بھی بخوبی پورا کرتی ہے۔ (ارشاد الرحمٰن)
تجوید جیسے فنی موضوع پر ایک خاتون کی جانب سے اتنی عمدہ معیاری کتاب مسلمان خواتین کی درخشاں علمی روایت کا تسلسل ہے۔ اس کتاب کی مؤلفہ شاہدہ قاری نے اس سے قبل فضیلتِ قرآن اور قواعد فنِ تجوید کے نام سے بھی کتابیں لکھی ہیں۔
جَوّدِ القرآن ۱۰ ابواب پر مشتمل بڑے سائز کی ضخیم مجلّد کتاب ہے جس میں علم التجوید کے مشکل مباحث کو نہایت سلیس انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ پہلا طویل باب ’تعارف قرآنِ مجید‘ (۷۲صفحات) ایک منفرد کاوش قرار دیا جاسکتا ہے۔ متعلقہ احادیث ترجمہ اور قابلِ توجہ نکات کے ساتھ، آدابِ قرآن، آدابِ تلاوت، حقِ قرآن (عمل پر تاکید) تجوید، ترتیل، عیوبِ تلاوت، معلومات، جمع قرآن، قراے سابعہ اور ان کے راویوں کے حالات، اس میں سب ہی کچھ ہے۔ بعد کے آٹھ ابواب میں حروف کے مخارج اور صفات کی پہچان کے لیے نقشوں، چارٹس اور تصاویر سے مدد لی گئی ہے۔ مختلف رنگوں کے استعمال سے تفہیم کا انداز مزید سہل بنا دیاگیا ہے۔ ایسے وقت میں کہ ملک میں تجوید کے ساتھ قراء ت کرنے کا مبارک رجحان روز افزوں ہے، اس طرح کی دل کش کتابیں ایک بڑی ضرورت کو پورا کرتی ہیں۔یہ کتاب دینی مدارس اور عصری تعلیمی اداروں کے طلبہ و طالبات کے لیے انتہائی مفید ہے۔ کتاب کی ترتیب اس طرح ہے کہ اسے نصاب کے طور پر بھی پڑھایا جاسکتا ہے۔ اپنے شوق سے تجوید سیکھنے والے افراد بھی اس سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ اگر قرآن انسٹی ٹیوٹ اس کا آڈیو وڈیو کیسٹ تیار کر دے تو کیا کہنا۔ طباعت اور پیش کش کا معیار اعلیٰ ہے۔ (حافظ ساجد انور)
سیرتِ رسولؐ ایک نہ ختم ہونے والا موضوع ہے۔ روایتی مضامین اور کتب شائع ہوتی ہیں، ان کی اپنی کشش اور ضرورت ہے۔ لیکن کبھی غیرروایتی پیش کش بھی سامنے آجاتی ہے۔ زیرتبصرہ خصوصی اشاعت اسی زمرے سے ہے۔
یہ کہا تو جاتا ہے کہ سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں آج کے دور کے انسان کی زندگی کے ہرطرح کے مسائل کا حل ہے لیکن اس حوالے سے مسائل کا تعین کرکے خصوصی مطالعے پیش کرنا اور وہ بھی یک جا، ایسا کام ہے جس کی تحسین نہ کرنا زیادتی ہوگا۔
اس خصوصی اشاعت کو نو ابواب میںتقسیم کیا گیا ہے، مثلاً شخصی ارتقا، لائف اسٹائل، سماج کے کمزور طبقات، عالمی مسائل، تمدنی مسائل، معاشی اور معاشرتی مسائل۔ ان کے تحت ۴۹ مقالات پیش کیے گئے ہیں۔ چند عنوانات یہ ہیں: انسانی وسائل کا فروغ، صارفین کا مسئلہ، مالیاتی بحران، آرٹ کلچر اور تفریحات، خواتین کے مسائل، معذوروں کا مقام، جنگی اخلاقیات، جنگی قیدی، ماحولیاتی بحران، وطن پرستی، حقوق انسانی، فحاشی و عریانی، معاشی پس ماندگی، urbanisation، (شہرکاری) بین المذاہب ڈائیلاگ وغیرہ۔ کئی مقالات عمومی نوعیت کے ہیں۔ لکھنے والوں میں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، ڈاکٹر محمد رفعت، رضی الاسلام ندوی، یٰسین مظہرصدیقی، پروفیسر عبدالواسع اور بہت سے دوسرے شامل ہیں۔ یہ اشاعت معنوی اعتبار سے وقیع اور دستاویزی ہونے کے ساتھ ساتھ ظاہری طور پر دیدہ زیب اور دل کش ہے۔ (مسلم سجاد)
جنیدثاقب ۲۰۰۸ء میں شدید بیمار ہوگئے۔ کہتے ہیں یوں لگا کہ میرا سفر زندگی تمام ہوا، مجھے شدید پچھتاوا ہوا کہ استطاعت کے باوجود حج نہیں کرسکا۔ اب اگر میں اس دنیا سے رخصت ہوتا ہوں تو اپنے رب کے سامنے کیا منہ لے کر جائوں گا (ص ۱۳)۔ یہی پچھتاوا ان کے لیے سفرِحج کا محرّک بن گیا۔ چنانچہ ۲۰۰۹ء کے سفرِحج کی روداد انھوں نے اپنے استاد (پروفیسر محمد اکرم طاہر) کے شوق دلانے پر لکھ ڈالی۔ طاہرصاحب نے ’پیش لفظ‘ میں اسے ’حج کے سفرناموں میں ایک نہایت قابلِ قدر اضافہ‘ قرار دیا ہے (ص۹)۔ (اضافہ ہے یا نہیں؟ اس کا فیصلہ تاریخِ ادب کرے گی مگر) سفرنامہ دل چسپ ضرور ہے۔
حج اور عمرے کے بیش تر معاصر سفرناموں میں جو کچھ ہوتا ہے، مثلاً جدہ کیسے پہنچے؟ ہوائی اڈے پر حجاج سے کیا سلوک ہوا؟ مکّہ پہنچنے میں غیرمعمولی تاخیر، معلّم کی بے حسی، وزارتِ مذہبی امور کی بے نیازی، حرم سے قیام گاہوں کی دُوری، طواف کی لذت، مِنٰی اور عرفات کی سختیاں اور پریشانیاں، شیطانوں پر کنکرزنی، اپنے خیمے کا راستہ بھولنا، طوافِ وداع میں غیرمعمولی ہجوم وغیرہ، غرض سفرِحج کی تمام آزمایشوں کا ذکر اس سفرنامے میں بھی موجود ہے لیکن اس کے چند پہلو قاری کو متاثر کرتے ہیں، مثلاً زائر کی صاف گوئی ، حرم میں زیادہ سے زیادہ وقت گزار کر، ’نیکیاں کمانے‘ کی معصومانہ خواہش (جس پر جنید ثاقب نے دوستوں کے ساتھ جدہ جانے کا پروگرام بھی قربان کردیا) (ص ۶۳)۔ اسی طرح حرمین کے مختلف مقامات کی یادیں جوان کی رومانوی افتادِ طبع سے چمٹ کر بار بار تازہ ہوتی ہیں۔ اسی طرح اتباعِ سنت کی قابلِ تعریف کوشش۔ (ص ۸۴)
نام مکّہ میں نیا جنم اس لحاظ سے معنی خیز ہے کہ اس سفر میں جنید ثاقب کو دو اعتبار سے نئی زندگی ملی۔ اوّل اس لحاظ سے کہ حج قبول ہوا (تو حقوق العباد کو چھوڑ کر) زائر نے گناہوں سے پاک و صاف ہوکر گویا ’نیا جنم‘ لیا۔ دوم: روزِ عرفات انھیں جسمانی طور پر بھی نئی زندگی عطا ہوئی۔ وہ موت کے بہت قریب پہنچ کر بچ نکلے۔ مسجد نمرہ سے نکلتے ہوئے ایک بھگدڑ کی زد میں آگئے تھے۔ کہتے ہیں کہ میرے اللہ نے مجھے ’’اُس بھیڑ اور خوف ناک بھگدڑ سے نکال دیا جس میں گیارہ لوگ شہید ہوئے اور لاتعداد زخمی۔ مجھے نہیں معلوم کہ میںکیسے وہاں سے نکل آیا؟‘‘ (ص ۴۷)۔ بارھویں یہ بھی ہوسکتے تھے، اس لیے واقعی یہ ان کا ’نیا جنم‘ تھا۔ تین صفحات پر مشتمل مسجدنمرہ پہنچنے اوروہاں سے نکلنے کی اس روداد میں افسانے کا ساتحیّر(suspense) ہے۔ اسی طرح کے افسانوی بیانات سفرنامے کے بعض دوسرے حصوں میں بھی ملتے ہیں، مثلاً مدینہ منورہ میں ان کی بیلٹ کسی تیزدھار آلے سے کاٹی گئی۔ بیلٹ میں واپسی کی ہوائی ٹکٹ، پاسپورٹ کی نقل اور دوہزار ریال تھے مگر ’’خدا نے میری جان اور مال دونوں کو محفوظ رکھا، مجھے بچا لیا گیا‘‘۔ (ص ۱۱۴)
بیش تر نئے قلم کاروں کی طرح جنید ثاقب کے ہاں بھی زبان و بیان کی خامیاں موجود ہیں۔ سب سے تکلیف دہ انگریزی لفظوں کا بلاضرورت استعمال ہے اور اس طرح کے جملے ہیں: ’فاسٹ فوڈ کے ہوٹلز کی ایک چین ہے‘‘ یا ’’فاسٹ فوڈ کھانے کا موڈ ہوتا‘‘ (ص ۳۷)۔ کیا اُردو زبان کی آلودگی میں اضافہ کرنے والے انگریزی الفاظ کی جگہ اُردو میں موجود متبادل الفاظ استعمال نہیں کیے جاسکتے؟براہ کرم ’انگریزیت‘ سے بچنے کی شعوری کوشش کیجیے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
تاریخ جہاں مختلف واقعات و حوادث کا مرقع ہے وہیں پر مردانِ بے باک و جری کے تذکرۂ جانفزا کا نام ہے___ تاریخ دراصل قوموں کے حافظے کا نام ہے جس سے قومیں اپنے مستقبل کا لائحہ عمل متعین کرتی اور آگے بڑھنے کا موقع پاتی ہیں۔
تاریخِ اسلام میں اپنی جدوجہد اور معرکہ آرائی کے اَنمٹ نقوش ثبت کرجانے والے چار مردانِ ذی وقار کا خوب صورت اور ایمان افروز تذکرہ درس و عبرت کے عنوان سے (جو مناسبت نہیں رکھتا) محسن فارانی نے ترتیب دیا ہے جن میں امیر عبدالقادر جزائریؒ، مہدی سوڈانیؒ، غازی انورپاشاؒ اور عمرمختار السنوسی کے دل چسپ تذکرے شامل ہیں۔
سید بادشاہ کے مصنف آباد شاہ پوری نے عالمِ اسلام کی ان چار افسانوی شخصیات کا احوال شگفتہ طرزِ تحریر اور جذبۂ ایمانی کے ساتھ رقم کیا ہے۔ مزاحمت کی علامت سمجھی جانے والی تاریخِ اسلام کی ان بلندپایہ اور بلندقامت شخصیات پر طبع ہونے والے یہ مضامین جہاں ان کے کارناموں کو اُجاگر کرتے ہیں وہیں فرانسیسی، روسی، برطانوی اور اطالوی سازشوں، ریشہ دوانیوں، وحشت ناک مظالم اور دہرے معیارات کا پردہ چاک کرتے نظر آتے ہیں۔ موجودہ صدی میں اہلِ مغرب بالخصوص امریکا اور یورپ کی مرضی سے عالمِ اسلام کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک اور اس کا پس منظر سمجھنے میں یہ مختصر کتاب ایک اچھا موقع فراہم کرتی ہے۔ آج ہم کو سوپر پاور سے ڈرانے والے دیکھیں کہ ان مجاہدوں سے سوپرپاور ڈرا کرتی تھیں۔ ان نوجوانوں کے لیے جنھیں پاکستان کا مستقبل تعمیر کرنا ہے، یہ کتاب ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ (عمران ظہور غازی)
ایک عام سے موضوع پر بظاہر ایک عام سی کتاب ہے لیکن ہاتھ میں لے کر ورق گردانی کریں تو محسوس ہوگا کہ پروفیسر ارشد جاوید صاحب نے ۱۰۰ سے بھی کم صفحات میں ۲۱ عنوانات کے تحت ایک خزانہ جمع کر دیا ہے۔ بڑوں کا خیال ہوتا ہے کہ آداب سیکھنا بچوں کا کام ہے، بڑوں کو اس سے کیا کام! لیکن جیساکہ سرورق پر لکھا گیا ہے کہ یہ ’’ہرپاکستانی کے لیے ضروری‘‘ ہے۔ پاکستانی لکھ کر مصنف نے تکلف سے کام لیا ہے۔ یہ ہر اُردو پڑھنے والے کے لیے ہے اور دیگر زبانوں میں ترجمہ ہوجائے تو ان زبانوں کے قارئین کے لیے بھی___ مسلمان ہونے کی بھی شرط نہیں، اس لیے کہ یہ آداب کسی بھی انسانی معاشرے کو شائستگی، باہمی احترام اور سکون دے سکتے ہیں۔پہلے باب میں اخلاقی آداب کے حوالے سے اخلاقی خوبیوں اور خرابیوں پر سب سے طویل تحریر ہے۔ جھوٹ، ایمان داری، قَسم، وعدہ، معاہدہ، غیبت، چغلی، بدگمانی، مذاق اُڑانا، طعنہ زنی، فحش گوئی، لڑائی جھگڑا، نرم مزاجی، چوری اور غصہ کے عنوانات سے آپ اس کی جامعیت کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔ اس کے بعد سونے جاگنے کے، کھانے پینے کے، لباس کے، مجلس کے، سفر کے، ٹریفک کے، حتیٰ کہ جنازے کے آداب، نیز صفائی اور پاکیزگی، صحت، شکرگزاری، پھر پڑوسی کے حقوق، راستے کے حقوق، والدین کے حقوق، ہر ایک پر اختصار لیکن جامعیت سے گفتگو کی گئی ہے اور آج کے حالات کا پورا لحاظ رکھاگیا ہے۔ آخری خوب صورت باب دعائوں کے موضوع پر ہے۔ ابتدائی ضروری گفتگو کے بعد خاص موقعوں کی دعائیں ترجمے کے ساتھ درج کر دی گئی ہیں۔
یہ مختصر کتاب ہرگھر کی ضرورت ہے۔ ہر بچے اور بڑے کی ضرورت ہے۔ اس کے ابواب رسائل میں بطور مضمون شائع ہوسکتے ہیں۔ بچوں کے رسائل تو باری باری سب کچھ نقل کرسکتے ہیں۔
کوئی کمی نہ بتائی جائے تو تبصرہ مکمل نہیں ہوتا۔ اگر ٹیلی فون کے آداب، انٹرنیٹ اور ای میل کے آداب اور فیس بُک کے آداب پر بھی ابواب ہوتے تو یہ کتاب زمانے کے تقاضوں کو پورا کرتی (اب بھی کرتی ہے)۔ ان مشاغل میں بڑے اور بچے اپنا بہت زیادہ وقت صَرف کر رہے ہیں۔ اس بارے میں انھیں کچھ آداب سکھانے کی ضرورت ہے۔ واضح رہے کہ یہ آداب پر روایتی کتاب نہیں، قرآن اور حدیث پر ضرور مبنی ہے لیکن عملی اِطلاق میں کارگرنکات نے اسے ایک عام کتاب نہیں بلکہ جیسا کہ ابتدا میں کہا گیا ایک غیرمعمولی کتاب بنا دیا ہے۔ اگر ہمارا معاشرہ خواندہ اور زندہ معاشرہ ہوتا تو ایسی کتاب چند دنوں میں ایک ملین فروخت ہوتی۔(م- س)
اسلام ایمان و عمل ہے اور تحریک و تہذیب بھی۔ اس مناسبت سے وہ انسانی زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھتا ہے اور ان کی مثبت تشکیل کا فریضہ بھی انجام دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے اسلام صرف مسجد اور عبادت گاہوں کا دین نہیں بلکہ وہ کھیتوں، کھلیانوں، صنعت گاہوں اور ایوانِ اقتدار کے باسیوں سے بھی مخاطب ہوتا ہے۔ انقلابِ فرانس کے بعد جوں ہی صنعتی انقلاب کے دائرے میں وسعت آئی، تو سرمایے کا چند ہاتھوں میں ارتکاز ہوا اور انسانی محنت و مشقت کا استحصال اپنی انتہائوں کو چھونے لگا۔ یہی کچھ ہمارے سماج میں بھی ہوا۔
سید مودودی علیہ الرحمہ نے جب معاشرے کو خطاب کیا تو ان میں ایک مظلوم ترین طبقہ، پسے ہوئے مزدوروں کی صورت میں سامنے آیا، جس کا خون پسینہ ایک طرف سرمایہ دار نچوڑ رہا تھا تو دوسری جانب اشتراکی مزدور تحریک سرخ انقلاب کے خواب دکھلا کر سودے بازی کر رہی تھی۔ اسی مؤخر الذکر طبقے نے ان کی قیادت پر اجارہ داری بھی قائم کررکھی تھی۔ تحریکِ اسلامی نے مولانا مودودی کی رہنمائی میں ظلم کی اس دوہری زنجیر کو کاٹنے کے لیے اسلامی مزدور تحریک کا ڈول ڈالا۔ پہلے پہل اسے ایک اجنبی آواز کی طرح سنا گیا، مگر تحریکِ اسلامی سے وابستہ مزدور تحریک کے اَن تھک کارکنوں نے بہ یک وقت ظالم سرمایہ دار اور سرخ پیشہ ور لیڈرشپ، دونوں سے نبردآزما ہوئے۔ یہ کتاب اس حوالے سے کی جانے والی جدوجہد اور پیش آنے والے اُتارچڑھائو کا قیمتی ریکارڈ پیش کرتی ہے اور مولانا مودودی کی معاشی فکر کے بھولے بسرے گوشوں کو بھی نمایاں کرتی ہے۔ کتاب کا دیباچہ محترم سید منور حسن نے تحریر کیا ہے۔(سلیم منصور خالد)
آزاد کشمیر میں جماعت اسلامی ایک بھرپور دینی و سیاسی جماعت کے طور پر اپنا کردار ادا کررہی ہے۔ کرنل محمد رشید عباسی مرحوم نے اس ننھے سے پودے کو تناور درخت میں تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ زیرتبصرہ کتاب اسی تفصیل پر مبنی ہے۔
مرتب محمد صغیر قمر کو مرحوم کے قریب رہنے کا وافر موقع ملا اور اُن کا خیال ہے کہ کرنل مرحوم نے آزاد کشمیر کے کونے کونے میں عوام الناس تک تحریکِ اسلامی اور تحریکِ جہاد کا پیغام پہنچایا۔
کرنل محمد رشید عباسی مرحوم ۱۹۸۰ء میں جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے امیر بنے اور اپنی تمام صلاحیتیں اپنی دعوت کو پھیلانے میں کھپا دیں۔ یہاں تک کہ ۱۹۸۹ء میں وہ اپنے رب سے جاملے۔ رحلت سے قبل اُنھوں نے ایک بڑی ٹیم ایسے باصلاحیت نوجوانوں کی تیار کردی جنھوں نے غلبۂ اسلام اور استصواب راے کا علَم بلند رکھا، اور یہ جدوجہد ایک تسلسل سے آج بھی جاری ہے۔
جناب عبدالرشید ترابی، جناب الیف الدین ترابی، جناب حافظ محمد ادریس، جناب یعقوب شاہق کے مضامین خصوصی معلومات کے حامل ہیں۔ دیگر حضرات کے مضامین میں بھی قابلِ قدر معلومات ملتی ہیں۔ دو صد سے زائد صفحات میں مرحوم کے اہلِ خانہ کے علاوہ تحریکِ آزادیِ کشمیر کے اہم رہنمائوں اور اُن کے زیرتربیت رہنے والے کارکنوں کے احساسات کو بھی شاملِ اشاعت کیا گیا ہے۔ کتاب میں آزادی کی جدوجہد کے مختلف مراحل پر کشمیر کا نقشہ اور دیگر تفصیلات پر مبنی مضمون بھی شامل ہوتا تو اس کی قدروقیمت میں مزید اضافہ ہوجاتا۔ عالمی اسلامی تحریکات، تحریکِ آزادیِ کشمیر اور تحریکِ اسلامی کے موضوعات سے دل چسپی رکھنے والے حضرات کے لیے مفید کتاب ہے۔ (محمد ایوب منیر)
مولانا مودودیؒ نے آج سے ۷۸ سال قبل دین اسلام کی خدمت کے سلسلے میں ترجمان القرآن جاری کیا تھا۔ آپ نے اُن کی باقیات و صالحات کو زندہ رکھنے کا عزم کیا ہے، اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو، آمین! آپ نے عالمی ترجمان القرآن کے نام سے رسالے کا اجرا کر کے مولانا مودودیؒ کی روح کو سکون بہم پہنچایا ہے اور آپ کا یہ اقدام ہرلحاظ سے قابلِ تحسین ہے۔
الحمدللہ! عالمی ترجمان القرآن کا پہلا شمارہ آگیا۔ خوشی اس بات کی ہے کہ سید مودودیؒنے جس مشن کے لیے جماعت اسلامی قائم کی تھی، عالمی ترجمان القرآن اسی مشن کی تکمیل کے لیے کی جانے والی جدوجہد کا ایک تسلسل ہے۔ اللہ تعالیٰ اس رسالے کے ذریعے اس جدوجہد کو جاری رکھے، آمین!
نیا سرورق صوری و معنوی لحاظ سے خوب صورت اور معنی خیز ہے۔ بحیثیت مجموعی پرچہ اچھا ہے۔ تمام مضامین بالخصوص ’امریکی جارحیت: پاکستان کے لیے فیصلہ کن لمحہ‘ بروقت اور صحیح سمت میں رہنمائی ہے۔ مولانا گوہر رحمان مرحوم کی تحریر: ’نفاذِ شریعت کا راستہ؟‘ ایک اہم عملی مسئلے پر قرآن و سنت کی روشنی میں مدلل تحریر ہے۔ پروفیسر نجم الدین اربکان فی الواقع ایک تاریخ ساز شخصیت تھے۔ پروفیسر خورشیداحمد کی تحریر سے ان کی خدمات اور جدوجہد کی حقیقی تصویر سامنے آئی ہے، اور مخدوش حالات میںجہدِمسلسل اور اُمید اور حوصلے کا پیغام دیتی ہے۔
’امریکی جارحیت: پاکستان کے لیے فیصلہ کن لمحہ‘ (مئی ۲۰۱۱ء) عمدہ تجزیہ و تجاویز ہیں۔ ایبٹ آباد آپریشن کی آڑ میں امریکا نے پاکستان کی آزادی، خودمختاری اور عزت پر حملہ کیا ہے، مگر المیہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران اس کھلی جارحیت سے سبق حاصل کرنے کے بجاے دشمنوں کے ہم نوا بنے ہوئے ہیں۔ انھیں ملک و قوم سے کوئی ہمدردی نہیں۔ ان کا ہدف صرف لوٹ مار کرنا ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے ذاتی مفاد کے لیے پورے ملک کو دائو پر لگا دیا ہے، جب کہ دشمن کی نظریں ہماری ایٹمی تنصیبات پر لگی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب دشمن برملا کہہ رہا ہے کہ پاکستان میں دوبارہ یک طرفہ کارروائی سے گریز نہیں کریں گے۔ دشمن کی یہ دھمکی حکومت کے لیے کھلا چیلنج اور پوری قوم کے لیے لمحۂ فکریہ ہے!
کوئی تہذیبی و تمدنی حرکت جمود کی چٹانوں سے نہیں روکی جاسکتی۔ اس کو اگر روک سکتی ہے تو ایک مقابل کی تہذیبی و تمدنی حرکت ہی روک سکتی ہے۔ ہمارے ہاں اب تک سیلابوں کا مقابلہ چٹانیں کرتی رہی ہیں۔ اسی لیے ہمارے ملک سمیت قریب قریب تمام مسلمان ملک مغرب کے فکری و تہذیبی سیلابوں میں غرق ہوتے چلے گئے ہیں۔ اب ہم حرکت کا مقابلہ حرکت سے اور سیلاب کا مقابلہ جوابی سیلاب سے کر رہے ہیں.... ہماری تحریک کسی ایک گوشے یا ایک میدان میں ان ضلالتوں کا مقابلہ نہیں کررہی ہے بلکہ ہرمیدان میں ہمارا اور ان کا تصادم ہے۔ ہم نے ان کے تمام نظریات اور عملی طریقوں پر تنقید کی ہے اور ان کی کمزوریاں کھول کھول کر سامنے رکھ دی ہیں۔ ہم نے ہرمسئلۂ زندگی کا حل ان کے حل کے جواب میں پیش کیا ہے اور دلائل سے اس کو معقول ثابت کردیا ہے۔ ہم ان کے ادب کے مقابلے میں ایک صالح ادب لائے ہیں، ان کے فلسفے کے مقابلے میں ایک بہتر فلسفہ لائے ہیں، ان کی سیاست کے مقابلے میں ایک زیادہ مضبوط سیاست لائے ہیں،اور ہماری صفوں میں ان کا مقابلہ کرنے کے لیے صرف قال اللّٰہ وقال الرسول جاننے والے ہی نہیں ہیں بلکہ اس کے ساتھ قال ہیگل وقال مارکس وقال فرائڈ بھی انھی کے برابر جاننے والے ہیں۔ درس گاہوں میں جہاں ان کی فکر اور تہذیب کی اشاعت کرنے والے موجود ہیں، وہیں انھی کی ٹکّر کے فکری و تہذیبی مبلغ ہماری طرف سے بھی موجود ہیں.... سوسائٹی کے ہرطبقے میں ان کے اثرات کے بالمقابل ہمارے اثرات بھی کم یا زیادہ کارفرما ہیں.... اور ایک طاقت ور راے عام غیراسلامی افکار و اخلاق و اطوار کے خلاف تیار ہوتی جارہی ہے.... جماعت اسلامی بھی خالی خولی تقریریں اور تحریریں اور اجتماعی سرگرمیاں لیے ہوئے سامنے نہیں آگئی ہے بلکہ وہ انفرادی سیرت اور جماعتی اخلاق بھی ساتھ لائی ہے جو اسلام کی اگر مکمل نہیں تو کم از کم صحیح نمایندگی ضرور کرتا ہے۔ اس کے اثرات جہاں جہاں بھی پہنچ رہے ہیں، وہاں اسلامی خیالات کے ساتھ اسلامی تہذیب اور اسلامی اطوار کا مظاہرہ پورے فخر کے ساتھ سر اُونچا کرتے ہوئے کیا جا رہا ہے، اور وہ کیفیت دُور ہورہی ہے کہ ماڈرن سوسائٹی میں ایک شخص نماز تک پڑھتے ہوئے شرماتا تھا اور ایک خاتون بُرقع اوڑھنے پر لاکھ معذرتیں کرکے بھی ڈرتی تھی کہ نہ معلوم تاریک خیالی کا دھبہ اس کے دامن سے مٹا یا نہیں۔ (’اشارات‘، سید ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۳۶، عدد ۲، شعبان ۱۳۷۰ھ، جون ۱۹۵۱ء،ص ۷-۸)