مضامین کی فہرست


۲۰۱۱ فروری

ہر سال ربیع الاول کا مہینہ رحمتوں، برکتوں اور روحانی نعمتوںکا تحفہ لے کر آتا ہے اور  ذکرِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اُمت کی زندگی میں نئی روح پھونکنے کا ذریعہ بنتا ہے، لیکن یہ حقیقت بھی ہر لمحے سامنے رکھنا ضروری ہے کہ حب ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق نہ کسی خاص مہینے سے ہے، نہ کسی خاص مقام اور موسم سے۔ یہ تو وہ سدابہار کیفیت ہے جو ایمان کے پہلے لمحے سے زندگی کے آخری سانس تک مومن کا سرمایۂ زیست ہے، شرط ایمان کی ہے۔

شعوری طور پر، حتیٰ کہ صرف رسمی طور پر بھی جب ایک شخص اپنے مسلمان ہونے کا اعلان یہ کہہ کر کرتا ہے کہ وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو اپنا وحدہٗ لاشریک رب مانتا ہے اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا سچا رسول اور بندہ تسلیم کرتا ہے (اشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ وحدہ لاشریک لہ واشھد ان محمداً عبدہٗ ورسولہٗ)، تو وہ اللہ اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک پیمانِ محبت باندھتا ہے اور اپنے آپ کو اپنے رب، مالکِ حقیقی اور اپنے رہنما، قائد، محسن اور ہادی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک ایسے رشتے میں منسلک کرتا ہے جو اسے رنگ و نسل، خون اور مقام کی قید سے آزاد اُمت مسلمہ اور اُمت محمدیہ کا ایک جزولاینفک بنادیتا ہے۔ بلاشبہہ اس رشتے کا اصل لطف شعوری تعلق کی صورت میں ہے لیکن یہ بھی اللہ کا انعام ہے کہ جس شخص نے صرف زبان سے اظہار اور دل سے اقرار کیا ہو، اور اس نے اس رشتے سے وابستہ ہونے کے مطالبات اور شرائط و واجبات پر غور نہ بھی کیا ہو، تب بھی وہ اپنے قائد و رہنما محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو دل کی ہر دھڑکن میں محسوس کرتا ہے اور یہ محبت ساری زندگی اس کی رگوں میں خون کی شکل میں گردش کرتی رہتی ہے۔ وہ ایک دیہاتی ہو، شہری ہو، کوہستانی ہو، صحرا نشین ہو، سمندر میں دن رات سفر کرنے والا مچھیرا ہو، ایک طالب علم ہو یا دانش ور، وہ اپنے آپ کو اس رشتے سے اس طرح وابستہ کردیتا ہے کہ دنیا کی بڑی سے بڑی قوت بھی، حتیٰ کہ جب موت سامنے نظر آرہی ہو، اس وقت بھی وہ نہیں چاہتا کہ اس کے رسولؐ اس کے محسن صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات و شخصیت کو ایک پھانس کے برابر بھی تکلیف پہنچے۔ حضرت خبیبؓ کا واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جب انھیں شہید کرتے وقت ان کے قاتل نے سوال کیا کہ اگر تمھاری جگہ یہ عمل تمھارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر کیا جاتا تو تم کیا محسوس کرتے، تو ان کا جواب قیامت تک کے لیے ہرمسلم و مومن کی طرف سے دیا جانے والا جواب تھا، یعنی میں تویہ بھی نہیں پسند کروں گا کہ اس ہستی کو ایک پھانس کے برابر بھی تکلیف پہنچے۔

یہ محبت، یہ تعلق، یہ وابستگی ربیع الاول میں کچھ زیادہ واضح شکل اس لیے اختیار کرلیتی ہے کہ اس ماہ میں اخبارات ہوں یا ریڈیو اور ٹیلی وژن کے اکثر چینل ۱۲ربیع الاول کو اپنی خصوصی نشریات کا اہتمام کرتے ہیں، میلاد النبیؐ کے جلسے منعقد ہوتے اور جلوس نکلتے ہیں، اسکولوں میں تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔ بعض سرکاری ادارے سیرت پر کتابوں اور مضمون نویسی کے مقابلے منعقد کرا کے انعامات دیتے ہیں۔ یوں اس مہینے کے ۲۹ یا ۳۰ دنوں میں ایک دلی اظہارِ محبت و وابستگی کے بعد پاکستان میں بسنے والی اُمت مسلمہ مطمئن ہوجاتی ہے کہ اُس نے حب ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حق ادا کر دیا۔ بعض عاشقانِ رسولؐ بازاروں میں جھنڈیاں لگاکر پٹاخے چھوڑ کر بھی اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔

حضرت عبدالرحمن بن ابی قرادؓ فرماتے ہیں: ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا۔ آپؐ کے کچھ اصحاب آپؐ کے وضو کا پانی لے کر اپنے چہروں پر مَلنے لگے تو آپؐ نے پوچھا: تمھارے اس کام کا محرک کیا ہے؟ لوگوں نے کہا: اللہ اوررسولؐ کی محبت۔ آپؐ نے فرمایا: جن لوگوں کو اس بات کی خوشی ہو کہ وہ اللہ اور رسولؐ سے محبت کرتے ہیں تو انھیں چاہیے کہ جب بات کریں تو سچ بولیں، جب ان کے پاس کوئی امانت رکھی جائے تو اس کو (بہ حفاظت) مالک کے حوالے کریں، اور پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ (مشکوٰۃ)

حضرت انسؓ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اُس کی نگاہ میں اس کے باپ، اس کے بیٹے اور سارے انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجائوں۔ (بخاری، مسلم)

اگر صرف ان دو احادیث پر غور کیا جائے تو آج ہم جن حالات سے گزر رہے ہیں ان کے حوالے سے ان میں بیش بہا ہدایات موجود ہیں۔

سچ کو اختیار کرنا

سب سے پہلی بات جس کا سمجھنا ضروری ہے وہ یہ ہے۔ بلاشبہہ محبت کے مظاہر ایک  فطری عمل ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق کا منہ بولتا ثبوت ہیں لیکن اس کے ساتھ محبت کی اصل روح اور تقاضوں کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ محبت کی تعریف اور مفہوم یہ نہیں ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس پانی سے وضو فرمایا ہو اس کو تبرکاً اپنے چہرے پر مَل کر یہ سمجھ لیا جائے   کہ اس برکت کے سہارے ربِ کریم ہم پر عنایت فرما دے گا، بلکہ محبت کا تعلق ’عمل‘ سے ہے۔  خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کی قلبی کیفیت اور وابستگی کو حکمت ِ رسالت کے ذریعے تین ایسے اعمال میں بدل دینے کا حکم دیا جو ایک مسلمان کو صحیح معنوں میں مومن بنا سکتے ہیں، چنانچہ پہلی بات یہ ارشاد فرمائی کہ جب بات کریں تو سچ (صدق) کو اختیار کریں۔ یہ صدق محض زبان سے سچی بات کہنے تک محدود نہیں ہے، گو اس کی بھی غیرمعمولی اہمیت ہے، بلکہ اصل مقصد اور ہدف اپنے تمام معاملات میں صدق کو اختیار کرنا مطلوب ہے جس کی مثال حضرت اسماعیل علیہ السلام کے اسوہ میں ہے کہ اللہ کی کتاب میں ان کی زندگی کا مرکزی وصف ہی یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ وعدے کا سچا تھا (سورئہ مریم ۱۹:۵۰)۔ یہی نکتہ اس ارشاد ربانی سے بھی ہمارے سامنے آتا ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے خاندانی زندگی کے آغاز کے موقع پر جو اصطلاح مہر کے حوالے سے پسند فرمائی وہ بھی اسی مادے سے تعلق رکھتی ہے: وَ ٰاتُوا النِّسَآئَ صَدُقٰتِھِنَّ نِحْلَۃً ط (النساء۴:۴) ’’اور عورتوں کے مہر خوش دلی کے ساتھ (فرض جانتے ہوئے) ادا کرو‘‘۔

اہلِ ایمان کی پہچان اسی صدق کو قرار دیا گیا: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ o (التوبہ ۹:۱۱۹) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کا ساتھ دو‘‘۔ مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست کے قیام، حق کے غالب آنے اور باطل کے مٹ جانے کے عمل کو بھی صدق کے ساتھ وابستہ کیا گیا اور ہجرتِ نبویؐ کے حوالے سے قرآن کریم نے     ہادی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو دعا تعلیم فرمائی وہ صداقت اور شہادتِ حق کے ساتھ مشکلات و مصائب کا مقابلہ کرنے کے بعد صداقت اور شہادتِ حق دیتے ہوئے دارالاسلام اور مرکز اُمت کے قیام کی طرف اشارہ کرتی ہے:

وَ قُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّ اجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۸۰) اور دعا کرو کہ پروردگار، مجھ کو جہاں بھی تو لے جا سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنا دے۔

صدق جس کی طرف خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے حب ِ رسول کے حوالے سے متوجہ فرمایا اہلِ ایمان کی صفات کے حوالے سے بارہا قرآن کریم میں بیان کیا جاتا ہے۔ چنانچہ    سورئہ احزاب میں اہلِ ایمان کی جن صفات کا ذکر ہے اس میں صدق کو اعلیٰ مقام حاصل ہے:

اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَ الْمُسْلِمٰتِ وَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ وَالْقٰنِتِیْنَ وَالْقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِیْنَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِیْنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالْخٰشِعِیْنَ وَالْخٰشِعٰتِ وَالْمُتَصَدِّقِیْنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّآئِمِیْنَ وَالصّٰٓئِمٰتِ۔ٓ وَالْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَھُمْ وَ الْحٰفِظٰتِ وَ الذّٰکِرِیْنَ اللّٰہَ کَثِیْرًا وَّ الذّٰکِرٰتِ لا  اَعَدَّاللّٰہُ لَھُمْ مَّغْفِرَۃً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًاo (احزاب ۳۳:۳۵) بالیقین جو مرد اور جو عورتیں مسلم ہیں، مومن ہیں، مطیع فرمان ہیں، راست باز (صادق اور صادقات) ہیں، صابر ہیں، اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں، صدقہ (بشمول زکوٰۃ) دینے والے ہیں، روزے رکھنے والے ہیں، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں، اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے ہیں، اللہ نے ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر مہیا کررکھا ہے۔

صداقت، صالحیت اور شہادت میں ربط اور یگانگت پائی جاتی ہے۔ چنانچہ قولِ صادق  عملِ صالح میں اور عملِ صالح اللہ کے حضور شہادت کا ذریعہ بنتا ہے، اور اس دنیا میں بھی ایک مردِصادق یا ایک صادقہ خاتون اپنے زبانی اعلان و اقرار کو اپنی صالحیت، بھلائی پر قائم رہنے کے ذریعے اپنے مومن یا مومنہ ہونے کی شہادت فراہم کرتے ہیں، حتیٰ کہ جان اور مال کے ذریعے تصدیق کرتے ہوئے شہادت کے اعلیٰ مقام تک پہنچتے ہیں۔

امانت، اھلِ امانت کے سپرد کرنا

رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے جس دوسرے عملِ صالح کے ذریعے حب ِ رسولؐ کے لازمی مظہر کی حقیقت کو بیان فرمایا ہے وہ بھی قرآن و سنت کی بنیادی تعلیمات میں سے ایک اہم  عمل ہے جس کے بغیر ہم موجودہ اخلاقی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی انتشار سے نہیں نکل سکتے۔  خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ویُؤَدِّ امانتہٗ اذائتُمِنَ ، یعنی امانت کو بہ حفاظت مالک کے حوالے کرے۔

قرآن کریم نے امانت کو اہلِ ایمان کی اوّلین صفات کے طور پر جگہ جگہ بیان کیا ہے۔ چنانچہ سورئہ مومنون میں فرمایا گیا: وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِاَمَانٰتِھِمْ وَعَھْدِھِمْ رٰعُوْنَ o (المومنون ۲۳: ۸) ’’اپنی امانتوں اور اپنے عہدوپیمان کا پاس رکھتے ہیں‘‘۔ انبیاے کرام ؑکے حوالے سے   بار بار یہ بات بیان کی گئی ہے کہ وہ امانت دار رسول (رسولٌ امین) یا قوی اور امین ہیں۔ (الشعراء ۲۶: ۱۰۷، ۱۶۳، ۱۹۳، النمل ۲۷:۳۹)

ذمہ داریوں اور قیادت کے حوالے سے یہ صفت شرط کی حیثیت رکھتی ہے، چنانچہ  حضرت موسٰی ؑ کے حوالے سے اس طرف اشارہ ہوتا ہے (القصص ۲۸:۳۶)، اور حکومتی اورفنی امور کے حوالے سے قرآن کریم یہ حکم دیتا ہے: اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا لا (النساء ۴:۵۸) ’’مسلمانو، اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہلِ امانت کے سپرد کرو‘‘۔

اس آیت مبارکہ میں رب کریم نے بطور مشورہ یا تجویز کے نہیں بلکہ بطورِ حکم یہ بات فرمائی ہے کہ اہلِ ایمان اپنے معاملات ایسے افراد کے ہاتھ میں دیں جو اُس ذمہ داری کے اہل ہوں۔ اس کے مضمرات معاشی، سیاسی، معاشرتی اور ثقافتی و ابلاغی شعبوں میں غیرمعمولی اہمیت رکھتے ہیں۔ اگر ایک ایسے شخص کو جو بذاتِ خود اور جس کا قبیلہ اپنی ماضی کی تاریخ کے لحاظ سے چور، بددیانت اور ڈاکو کے طور پر شہرت رکھتا ہو، ملک کی اعلیٰ ترین ذمہ داری سونپ دی جائے اور پھر کفِ افسوس مَلا جائے کہ ملک کے امیر امیر تر اور غریب، غریب تر ہو رہے ہیں، سرکاری خزانے کو دونوں ہاتھوں سے  لوٹا جا رہا ہے، پرائیویٹائزیشن کے نام پر اپنے ہم نوالہ افراد کو کوڑیوں کے مول قومی اثاثے فروخت کیے جارہے ہیں، سیاسی حلیفوں کو اپنے ساتھ رکھنے کے لیے ہزاروں ایکڑ زمین تقریباً مفت دی جارہی ہو، تو یہ قصور صرف چور ہی کا نہیں بلکہ چور کو امانت حوالے کرنے والوں کا بھی ہے۔

اگرابلاغی سطح پر صحافت اور برقی ابلاغِ عامہ کو ایسے افراد کے حوالے کر دیا جائے جو ذہناً یا تو مغرب کے غلام ہوں یا ہندوانہ ثقافت اورمفادات کی حمایت میں اپنی دانش وری کو استعمال کرنے کے لیے مشہور ہوں تو الزام کسے دیا جائے گا؟ اگر تعلیم گاہ میں ایک ایسے شخص کو استاد بنا دیا جائے جو نہ علم رکھتا ہو نہ کردار، تو جو نسل اُس کے زیرتربیت پیدا ہوگی کیا اس میں صداقت اور امانت پیدا ہوسکتی ہے؟ اقبال نے صداقت اور امانت کے حوالے ہی سے کہا تھا کہ ان دو اسلامی اقدار اور احکاماتِ نبویؐ کو جب تک اختیار نہیں کیا جائے گا اس وقت تک قوموں کی امامت کا فریضہ ادا نہیں ہوسکتا    ؎

سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

پڑوسی کا حق

تیسری اہم ہدایت جو حب ِ رسولؐ کے حوالے سے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی وہ پڑوسی کے حقوق کے حوالے سے ہے۔ ہم عموماً اس سے یہ بات سمجھتے ہیں کہ عیدبقرعید کے موقع پر اگر پڑوسی کے ہاں گوشت کا حصہ یا سویاں بھیج دی گئیں تو اس کا حق ادا ہوگیا، حالانکہ اس کا مقصد وہ تمام افراد ہیں جن سے تعلق سکونت کے باب میں مستقل رفاقت کا ہو، یا جو عارضی طور پر رفیقِ سفر بن جائیں۔ اس کا اشارہ اس حدیث سے بھی ملتا ہے، جس میں یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ پڑوسی سے مراد محض فوری پڑوسی نہیں ہے بلکہ ۴۰ گھر سیدھے ہاتھ کی طرف اور ۴۰ گھر بائیں ہاتھ کی طرف پڑوسی شمار کیے جائیں گے۔ ایسے ہی پڑوسی سے مراد وہ شخص بھی ہے جو ہمارا ہم سفر ہو، بس میں، جہاز میں، ٹرین میں،ویگن میں، کہیں بھی۔ گویا اتنے کم عرصے کے لیے بھی اس کے حقوق کا خیال رکھنا حب ِ رسولؐ کا تقاضا اور مطالبہ ہے۔

حب ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے قرآن کریم نے جو اصول طے کر دیا ہے وہ رسمی اظہارِ محبت سے عبارت نہیں۔ دل، زبان اور اعمال سے محبت کے اظہار کے ساتھ اس سے بھی کہیں بڑھ کر قرآن کریم کی تعلیم یہ ہے کہ:

قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَ یَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْط وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ o قُلْ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْکٰفِرِیْنَo (اٰل عمران ۳:۳۱-۳۲) اے نبیؐ! لوگوں سے کہہ دو اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھاری خطائوں سے درگزر فرمائے گا۔ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔ ان سے کہو کہ اللہ اور رسولؐ کی اطاعت قبول کرو۔ پھر اگر وہ تمھاری یہ دعوت قبول نہ کریں تو یقینا یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ ایسے لوگوں سے محبت کرے جو اس کی اور اس کے رسولؐ کی اطاعت سے انکار کرتے ہوں۔

اطاعت، حبِ رسولؐ کا بنیادی تقاضا

محبت ِ رسولؐ کا پہلا مطالبہ اطاعتِ رسولؐ ہے۔ شخصی زندگی میں بھی اور اجتماعی زندگی میں بھی۔ یہ پہلو بھی قابلِ غور ہے کہ جب معاملہ محض زبانی اظہار ہی کا نہیں بلکہ باقاعدہ دستورِ مملکت کے ذریعے بھی یہ اعلان کیا جائے کہ شریعت بالادست ہے اور حکومت اسلامی تعلیمات کے نفاذ کی ذمہ دار ہے اور اس کے باوجود کوئی حکومتی ہرکارہ ناموسِ رسولؐ کے حوالے سے غیرذمہ داری کی بات کرے، تو وہ دستورِ پاکستان کی خلاف ورزی اور قرآن کے واضح حکم کی مخالفت کا مرتکب ہوگا۔

قرآن کریم سے براہِ راست تعلق کی کمی اور سیرتِ رسولؐ سے محض جذباتی وابستگی کے نتیجے میں اکثر مغرب زدہ دانش ور یہ بات بظاہر بڑی معصومیت سے کہتے ہیں کہ قرآن کریم تو اللہ کا کلام ہے اور اللہ تعالیٰ نے خود اس کی حفاظت کا بندوبست کیا ہے۔ اس بنا پر اس کی تعلیمات و احکام کو ماننا فرض ہے لیکن حدیث اور سنتِ رسولؐ ان کے خیال میںایک انسانی عمل ہے جو وقت کی قید کی بنا پر ساتویں صدی میلادی میں تو قابلِ عمل تھا لیکن معاشرتی ارتقا اور حالات کی تبدیلی کے بعد اس کی حیثیت اخلاقی تعلیمات کی تو ہوسکتی ہے لیکن اسے قانون کا درجہ نہیں دیاجانا چاہیے۔ اس مفروضے کی بنیاد تین منطقی مغالطوں پر ہے:

اوّلاً یہ مفروضہ کہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل صرف ساتویں صدی کے عربوں اور عرب معاشرے کے لیے تھا۔ گویا نعوذباللہ آپؐ ایک عرب قبائلی مصلح (ریفارمر) تھے۔ دوسرا مفروضہ یہ ہے کہ حدیث یا سنت، خاتم النبیینؐ کا ذاتی عمل تھا اور اس کی پیروی بعد کے افراد پر واجب نہیں۔ تیسرا مفروضہ یہ ہے کہ آپؐ کا کام محض چند اخلاقی اصول سمجھانا تھا۔ آپؐ کوئی قانون و شریعت لے کر نہیں آئے۔

ان تینوں مفروضوں پر کسی فلسفیانہ، عقل و منطق پر مبنی گفتگو اور دلائل کی ضرورت اس لیے نہیں ہے کہ اگر وہ حضرات جو خود کو اہلِ قرآن کہتے ہیں یا یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمارے لیے  قرآن کافی ہے، قرآن کریم نے خود ان تینوں مفروضوں کا جواب دیا ہے اور جو بات خالق کائنات اور انسانوں کا مالک خود فرمائے اُس سے زیادہ وزنی اور قطعی ثبوت و دلیل اور کوئی نہیں ہوسکتی۔

پہلے اور دوسرے مفروضے کے حوالے سے قرآن کریم یہ فرماتا ہے کہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل میں تمام اہلِ ایمان کے لیے قیامت تک کے لیے بہترین قابلِ عمل نمونہ ہے:

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (احزاب ۳۳:۲۱) درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں بہترین نمونہ ہے۔

یہ نمونہ اور اسوہ محض عبادات میں نہیں ہے بلکہ معاملات اور زندگی کے ہرہر عمل کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اس بات کا رد بھی قرآن کریم نے خود کردیا ہے کہ آپؐ محض عربوں کے لیے نہیں آئے بلکہ جس طرح قرآن تمام انسانوں کے لیے قیامت تک کے لیے ہدایت ہے (البقرہ ۲:۱۸۵) ،اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل تمام انسانوں کے لیے قابلِ عمل اور واجب العمل نمونہ ہے:

قُلْ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَانِ الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ یُحْیٖ وَیُمِیْتُ ص فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَ کَلِمٰتِہٖ وَ اتَّبِعُوْہُ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَo (اعراف ۷:۱۵۸) اے محمدؐ! کہو کہ اے انسانو، میں تم سب کی طرف اس خدا کا پیغمبر ہوں جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے، اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے،وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے، پس ایمان لائو اللہ پر اور اس کے بھیجے ہوئے نبی اُمّی پر جو اللہ اور اس کے ارشادات کو مانتا ہے، اور پیروی اختیار کرو اس کی، امید ہے کہ تم راہِ راست پا لوگے۔

یہاں یہ بات انتہائی واضح الفاظ میں فرما دی گئی کہ آپؐ کی نبوت اور رسالت تمام انسانوں کے لیے ہے اور تمام انسانوں کو آپؐ کی پیروی اختیار کرنا شرطِ کامیابی ہے۔

بعثتِ رسولؐ کا بنیادی مقصد

رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد کئی مقامات پر خود قرآن کریم نے واضح الفاظ میں یوں بیان کیا ہے کہ رسولؐ کا کام محض کتاب پہنچا دینا نہیں ہے، بلکہ وہ اس کتاب کو صحیح طور پر پڑھنے، اس کتاب کی تعلیمات کو سمجھانے، اس کتاب کی تشریح اور وضاحت کے ساتھ ساتھ خود حکمت سمجھانے اور اہلِ ایمان کو تزکیے کا طریقہ سکھانے پر مامور کیاگیا ہے۔ وہ نعوذباللہ محض ڈاکیا نہیں ہے کہ کتاب پہنچا کر اس کا کام ختم ہوگیا، بلکہ وہ نہ صرف شارح بلکہ شارع ہے۔ چنانچہ   سورۂ اعراف میں یہ بات قرآن کریم نے واضح کر دی کہ آپؐ اہلِ ایمان پر سے بوجھ کو ہلکا کرتے ہیں، پاک اور طیب چیزوں کو ان کے لیے حلال کرتے ہیں اور خبائث و منکرات کو حرام قرار دیتے ہیں۔ اس آیت ِ مبارکہ میں تحلیل و تحریم کا اختیار نبیؐ سے وابستہ کیا گیا ہے۔ چنانچہ فرمایا:

اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَھُمْ فِی التَّوْرٰۃِ وَ الْاِنْجِیْلِ ز یَاْمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَ یَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ ط فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وَ عَزَّرُوْہُ وَ نَصَرُوْہُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ لا اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o (اعراف ۷:۱۵۷) (پس آج یہ رحمت ان لوگوں کا حصہ ہے) جو اس پیغمبر، نبی اُمّی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی پیروی اختیار کریںجس کا ذکر انھیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے۔ وہ انھیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، ان کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے، اور ان پر سے وہ بوجھ اُتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔ لہٰذا جو لوگ اِس پر ایمان لائیں اور اس کی حمایت اور نصرت کریں اور اُس روشنی کی پیروی اختیار کریں جو اس کے ساتھ نازل کی گئی ہے، وہی فلاح پانے والے ہیں۔

اسی بات کو سورئہ حشر میں یوں فرمایا گیا:

وَمَآ اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ ق وَمَا نَہٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا ج وَاتَّقُوا اللّٰہَ ط اِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابo(الحشر ۵۹:۷) جو کچھ رسولؐ تمھیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کوروک دے اس سے رُک جائو۔ اللہ سے ڈرو، اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔

رسولؐ کی اس اطاعت و فرماں برداری کو براہِ راست اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی طرف سے حمایت و توثیق حاصل ہے اور اللہ کے حکم کی بنا پر ہی یہ اطاعت کرنا فرض کی گئی ہے۔ چنانچہ     اہلِ ایمان کا صحیح طرزِ عمل قرآن کریم نے رسولؐ کی بات کو سن کر سرتسلیم خم کرنے کوقراردیا ہے:

اِنَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ لِیَحْکُمَ بَیْنَھُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا ط وَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَیَخْشَ اللّٰہَ وَیَتَّقْہِ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفَآئِزُوْنَo(النور ۲۴:۵۱-۵۲) ایمان لانے والوں کا کام تو یہ ہے کہ جب وہ اللہ اور رسولؐ کی طرف بلائے جائیں تاکہ رسولؐ ان کے مقدمے کا فیصلہ کرے تو وہ کہیں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی۔ ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں، اور کامیاب وہی ہیں جو اللہ اور رسول کی فرماں برداری کریں اور اللہ سے ڈریں اور اس کی نافرمانی سے بچیں۔

یہاں یہ بات صراحت سے بیان کر دی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی مقدمے یا معاملے کا جو فیصلہ فرما دیں اسے سن کر فوری طور پر اطاعت کرنا ہی ایمان ہے۔ سورئہ نساء میں اس پہلو کو اس طرح بیان کیا گیا:

وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِط (النساء ۴:۶۴) ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے اسی لیے بھیجا ہے کہ اذنِ خداوندی کی بنا پر اس کی اطاعت کی جائے۔

گویا محض قرآن کے احکامات کی نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر فیصلے، حکم اور عمل کی اطاعت کرنا ایمان کا تقاضا ہے۔ آگے چل کر اسی بات کی مزید تاکید کی گئی:

وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّھَدَآئِ وَ الصّٰلِحِیْنَ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًاo (النساء ۴:۶۹) جو لوگ اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کریں گے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے، یعنی انبیاؑ اور صدیقین اور شہدا اور صالحین۔ کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں۔

سنت کی آئینی حیثیت

قرآن کریم نے جگہ جگہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو شامل کر کے ان تمام مفروضوں کو باطل قرار دیا ہے جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے تشریعی ہونے پر کسی شبہے کا اظہار کیا جاتا ہے۔ چنانچہ فرمایا گیا:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ط ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا (النساء۴:۵۹) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسولؐ کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب ِ امر ہوں۔ پھر اگر تمھارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسولؐ کی طرف پھیر دو اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخر پہ ایمان رکھتے ہو۔ یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے۔

یہاں قرآن کریم نے اہلِ ایمان کا سنت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کن ہونے کے حوالے سے رویہ واضح کرتے ہوئے اس بات کو اللہ اورآخرت پر ایمان سے مشروط کردیا ہے، یعنی اگر کوئی اللہ اور آخرت پر یقین رکھتا ہے تو وہ اپنے تمام معاملات میں آخری فیصلہ صرف     اللہ اور رسولؐ کا مانے گا، حتیٰ کہ وہ لوگ بھی جو اصحابِ علم ہوں اور صاحب ِ مسند قضٰی ہوں۔ اگر ان سے اختلاف ہو تو حاکم، قاضی اور عالم کی بات کوقرآن و سنت پر جانچا جائے گا اور یہ دو غیر متغیر اُصول و مصادر جو فیصلہ کریں وہ عالم اور قاضی یا حاکم کو بھی ماننا ہوگا۔ حاکم اور امیر کی اطاعت صرف اس وقت تک کی جائے گی جب تک وہ اللہ اور رسولؐ دونوں کے احکامات کی پیروی کرتے ہوئے کسی بات کو کرنے کا فیصلہ کرے۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے تشریعی ہونے کے حوالے سے قرآن کریم نے بڑی وضاحت سے یہ فیصلہ کیا ہے کہ چونکہ رسولؐ کی نگرانی ہمہ وقت کی جاتی ہے اور وہ اللہ کے حکم کے بغیر کوئی بات نہ کہتا ہے، نہ کرتا ہے، اس لیے اب تک تو یہ کہا گیا تھا کہ اللہ کی اطاعت کرو اور رسولؐ کی۔ اب انداز بدلتے ہوئے یہ کہا جا رہا ہے کہ:

مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ  وَ مَنْ تَوَلّٰی فَمَآ اَرْسَلْنٰکَ عَلَیْھِمْ حَفِیْظًا(النساء ۴:۸۰) جس نے رسولؐ کی اطاعت کی اس نے دراصل خدا کی اطاعت کی اور جو منہ موڑ گیا تو بہرحال ہم نے تمھیں ان لوگوں پر پاسبان بنا کر تو نہیں بھیجا ہے۔

اگر ایسا نہ کیا گیا تو قرآن وعید سناتا ہے کہ ایسے اہلِ ایمان کے تمام اعمال گویا ضائع ہوں گے، العیاذ باللّٰہ ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ رکھے۔ چنانچہ فرمایا گیا:

یاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَلاَ تُبْطِلُوْٓا اَعْمَالَکُمْ o اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ثُمَّ مَاتُوا وَھُمْ کُفَّارٌ فَلَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَھُمْo(محمد ۴۷:۳۳-۳۴) اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسولؐ کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو برباد نہ کرلو۔ کفر کرنے والوں، راہِ خدا سے روکنے والوں اور مرتے دم تک کفر پر جمے رہنے والوں کو تو اللہ ہرگز معاف نہ کرے گا۔

جس طرح اطاعت میں اللہ اور رسولؐ دونوں کو شامل کیا گیا، ایسے ہی نافرمانی کے حوالے سے بھی قرآن دونوں کی نافرمانی کو مساوی قرار دیتا ہے:

وَ مَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِھِمْ ط وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًاo (احزاب ۳۳:۳۶) کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسولؐ کسی معاملے کا فیصلہ کردے تو پھر اسے اپنے اُس معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے۔ اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کرے وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم اور فیصلے کے بارے میں دل میں معمولی سا بھی شبہہ ہو تو قرآن اسے نفاق سے تعبیر کرتا ہے:

وَ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَاِلَی الرَّسُوْلِ رَاَیْتَ الْمُنٰفِقِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْکَ صُدُوْدًاo (النساء ۴:۶۱) اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آئو  اس چیز کی طرف جو اللہ نے نازل کی ہے اور آئو رسولؐ کی طرف، تو ان منافقوں کو تم دیکھتے ہو کہ یہ تمھاری طرف آنے سے کتراتے ہیں۔

قرآن کریم کی اتنی واضح آیات کے بعد بھی اگر کوئی یہ کہنے کی جسارت کرتا ہے کہ صرف قرآن شریعت ہے اور سنت، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذاتی عمل ہے تو وہ خود قرآن کریم کے واضح احکامات کی خلاف ورزی کرتا ہے۔

حب ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا تقاضا یہی ہے کہ آپؐ کی دی ہوئی ہدایات، آپؐ کے احکامات اور عمل کو جوں کا توں تسلیم کرنے کے بعد اپنے طرزِعمل میں اسے اختیار کرلے۔ مسلمان کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہرہرعمل کو اختیار کرنے کی کوشش ہی میں نجات ہے۔

حدیث میں خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے محبت کے احساس اور قلبی کیفیت کو ایک مسلمان کے قابلِ محسوس عمل سے وابستہ کرنے کے ذریعے محبت کو عمل میں تبدیل کر دیا، اور عمل بھی وہ جو درود و سلام اور عبادات کے ساتھ صداقت، امانت اور حقوق العباد کی شکل میں معاشرے کی فلاح اور ایک ایسی حکومت کے قیام کی بنیاد فراہم کرے جو اسلام کے عادلانہ نظام کو نافذ کرنا چاہتی ہو۔

ایمان اور عمل، لازم و ملزوم

حب ِ الٰہی اور حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ قرآن ہمارے زبانی دعووں کو عمل میں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ چنانچہ وہ بے شمار مقامات پر ہمیں متوجہ کرتا ہے کہ اہلِ ایمان اللہ سے کتنی محبت رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے کن اور کیسے بندوں کو پسند کرتا ہے۔ چنانچہ فرمایا گیا:

وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ ط(البقرہ ۲:۱۶۵) حالانکہ ایمان رکھنے والے سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب رکھتے ہیں۔

پھر یہ بات کہی گئی کہ: اللہ سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ مال کو اپنا رب نہ بنایا جائے نہ مال کی محبت میں ایسا گرفتار ہو کہ کروڑوں، اربوں کے اثاثوں کو ملک کے باہر اور ملک کے اندر اپنے قبضے میں کرنے کے بعد بھی ھل من مزید کی ہوس میں اتنا وارفتہ ہو کہ جیسے اسے شیطان نے ہاتھ لگاکر دولت کا باولا کردیا ہو:

وَ اَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ وَ اَحْسِنُوْا اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَo (البقرہ ۲:۱۹۵) اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ احسان کا طریقہ اختیار کرو کہ اللہ محسنوں کو پسند کرتا ہے۔

وہ اہلِ ایمان بھی جو اللہ کی راہ میں استقامت اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور صبر کے ساتھ حق کی اشاعت اور شہادت میں لگ جاتے ہیں ان کے حوالے سے رب کریم اپنی پسند کا اظہار فرماتا ہے:

بَلٰی مَنْ اَوْفٰی بِعَھْدِہٖ وَ اتَّقٰی فَاِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَo (اٰل عمران۳:۷۶) جو بھی اپنے عہد کو پورا کرے گا اور برائی سے بچ کر رہے گا وہ اللہ کا محبوب بنے گا۔

آگے چل کر اللہ کے ان محبوب بندوں میں ان کا ذکر آتا ہے جو پوری قوت کے ساتھ باطل، ظلم، کفر، طاغوت اور استحصال کا مقابلہ کرنے میں اپنے عمل سے مستقل مزاجی، مسلسل جدوجہد اور صبر کا مظاہرہ کرتے ہیں:

وَ کَاَیِّنْ مِّنْ نَّبِیٍّ قٰتَلَ مَعَہٗ رِبِّیُّوْنَ کَثِیْرٌ فَمَا وَ ھَنُوْا لِمَآ اَصَابَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ مَا ضَعُفُوْا وَ مَا اسْتَکَانُوْا ط وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الصّٰبِرِیْنَo (اٰل عمرٰن ۳:۱۴۶) اس سے پہلے کتنے ہی نبی ایسے گزر چکے ہیں جن کے ساتھ مل کر بہت سے خدا پرستوں نے جنگ کی۔ اللہ کی راہ میں جو مصیبتیں ان پر پڑیں، ان سے وہ دل شکستہ نہیں ہوئے، انھوں نے کمزوری نہیں دکھائی، وہ (باطل کے آگے) سر نگوں نہیں ہوئے۔ ایسے ہی صابروں کو اللہ پسند کرتا ہے۔

حبِ رسولؐ کے عملی تقاضے

ہر مسلمان اور خصوصیت سے تحریکِ اسلامی کے کارکنوں کے لیے یہ بات قابلِ غور ہے کہ اکثر انسانی ذہن اپنے اندازے کے مطابق ایک وقت کا اندازہ (time frame) قائم کرتا ہے اور پھر سوچتا ہے کہ آخر کب تک نظامِ عدل اور نظامِ اسلامی کے قیام کے لیے کوششیں کی جائیں گی؟ منزل قریب کیوں نہیں آرہی؟ مشکلات میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟ کیا ہماری عددی قوت میں مناسب اضافہ ہو رہا ہے؟ اور کیا یہ عددی قوت تناسب کے لحاظ سے کفر کی بڑھتی ہوئی تعداد کا مقابلہ کرسکے گی وغیرہ۔ ان تمام ممکنہ سوالات کا جواب قرآن نے اپنے منفرد انداز میں انبیا ماقبل کے تجربات کی طرف متوجہ کرتے ہوئے یہ کہہ کر دے دیا ہے کہ اللہ کے ان برگزیدہ نمایندوں کے ساتھ بھی اس طرح کے حالات پیش آئے ہیں لیکن انھوں نے صبرواستقامت سے وقت کی قید سے آزاد ہوکر اللہ کی راہ میں اپنا جہاد جاری رکھا اور وہی اللہ کے محبوب بندے ہیں۔ کیا اس سے بڑھ کر کوئی اور کامیابی بھی ہوسکتی ہے کہ ایک بندہ جس کی مخلوق ہو، جس نے اسے اپنے حکم سے پیدا کیا ہو، وہ اپنے بندے کے صبرواستقامت کو دیکھ کر اس کی طرف نگاہ محبت کو ملتفت کردے! کیا اس سے بڑھ کر کوئی کامیابی ہوسکتی ہے کہ ایسے بندوں کا نام وہ اپنے مقربین میں لکھ دے اور انھیں صدیقین، صلحا اور شہدا کی صف میں شامل کرلے!

اللہ کی راہ میں حُب ِ رسولؐ سے آراستہ تحریکِ اسلامی کے کارکن قیامِ عدل اور اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد میں اسی وقت کامیاب ہوسکتے ہیں جب وہ اپنی طرف سے کوشش میں کسی کمی کے شکار نہ ہوں اور ساتھ ہی وہ اپنے رب پر مکمل توکل رکھتے ہوں۔ ربِ کریم اپنے ایسے بندوں کو اپنے محبوب بندوں میں شامل کرلیتا ہے اور دعوتِ دین کی جدوجہد میں ہونے والی بعض لغزشوں کو معاف کردتیا ہے:

فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ وَ لَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ فَاعْفُ عَنْھُمْ وَ اسْتَغْفِرْلَھُمْ وَ شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ ط اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَo اِنْ یَّنْصُرْکُمُ اللّٰہُ فَلَا غَالِبَ لَکُمْ وَ اِنْ یَّخْذُلْکُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِیْ یَنْصُرُکُمْ مِّنْم بَعْدِہٖ وَ عَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ o (اٰل عمرٰن ۳:۱۵۹-۱۶۰) (اے محمدؐ!) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم اِن لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو، ورنہ اگر کہیںتم تندخو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمھارے گردوپیش سے چھٹ جاتے۔ ان کے  قصور معاف کر دو، ان کے حق میں دعاے مغفرت کرو اور دین کے کام میں ان کو بھی شریکِ مشورہ رکھو۔ پھر جب تمھارا عزم کسی راے پر مستحکم ہوجائے تو اللہ پر بھروسا کرو۔ اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اسی کے بھروسے پر کام کرتے ہیں۔ اللہ تمھاری مدد پر ہو تو کوئی طاقت تم پر غالب آنے والی نہیں، اور وہ تمھیں چھوڑ دے تو اس کے بعد کون ہے جو تمھاری مدد کرسکتا ہو؟ پس جو سچے مومن ہیں ان کو اللہ ہی پر بھروسا رکھنا چاہیے۔

  •  اہلِ ایمان اور خصوصیت سے تحریکِ اسلامی کے کارکنوں کے لیے ان آیات میں خصوصی ہدایات ہیں۔ قیادت کے حوالے سے سمجھایا جارہا ہے، اسے متحمل مزاج، نرم خُو، طنزواستہزا سے احتراز اور رفقا کے ساتھ محبت کا رویہ رکھنا ہوگا۔ اپنے مزاج کی شوخی، کسی کی بات سن کر چبھتے ہوئے جواب کی جگہ نرمی، قولِ لیّن اور قولِ بلیغ کو اختیار کرنا ہوگا ورنہ دل جڑنے کے بجاے    دلوں میں دُوری پیدا ہوگی۔ اپنے معاملات میں مشاورت کو اختیار کرنا ہوگا جس کا واضح مطلب اختلاف راے کو رحمت سمجھ کر پورا موقع دینا، اختلاف راے کا احترام کرنا اور اپنی بات کو دلائل کے ساتھ رکھنے کے باوجود اگر اس پر اتفاق نہ ہو رہا ہو تو دوسروں کی راے کا احترام کرنا ہوگا۔ یہاں پر عزم الامور کے الفاظ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ فیصلے محض ووٹ کی بنا پر نہیں بلکہ اتفاق راے سے ہونے چاہییں۔ اس میں جتنا وقت لگے اس کی پروا نہ کی جائے اور دلوں کو ہاتھ میں لے کر سب کو ساتھ لے کر چلا جائے۔

اس حوالے سے ہمیں آج جو عملی مشکلات پیش آتی ہیں وہ کوئی آج کی پیداوار نہیں ہیں۔ دورِ نبویؐ ہو یا دورِ خلفاے راشدین، تمام کلیدی معاملات میں ایک سے زائد آرا کا وجود اسلامی ریاست میں ایک معروف عمل تھا۔ اس لیے شورائیت کا مطلب یہ قطعاً نہیں ہے کہ ایک راے پہلے سے قائم کرلی جائے اور پھر اس پر راے کو ہموار کر دیا جائے، بلکہ ہر راے کو پوری آزادی اور توجہ سے سنا جائے اور معاملے کے مثبت و منفی پہلو پر غور کرنے کے بعد اتفاق راے سے معاملات کو چلایا جائے۔ اس عمل سے گزرنے کے بعد، جو اہم بات سمجھائی جارہی ہے وہ توکل ہے، یعنی اپنی طرف سے مقدور بھر منصوبہ بندی، افرادی قوت اور دیگر وسائل کا جائزہ لینے کے بعد جب ایک معاملے میں یکسو ہوجائو تو پھر نتائج اللہ پر چھوڑ دو۔ توکل کا یہ مطلب نہیں کہ اپنی طرف سے کوئی حکمت عملی نہ بنائی جائے اور محض ردعمل کے طور پر وقتاً فوقتاً اپنے موقف کو بیان کردیا جائے۔

  •  مشاورت سے معاملات طے کرنے اور اجتماعی کیفیت پیدا کرنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے کامیابی کی خصوصی درخواست، اس کے حضور حاضری دے کر اپنے منصوبوں میں اس کی برکت و رحمت کی درخواست، اور نتائج سے بے پروا ہوکر جس بات پر اتفاق راے ہوچکا ہو، اس پر قائم ہوجانے کا نام ہی توکل ہے۔ یہی وہ اجماع ہے جس پر اللہ کی رحمت اور نصرت ہوتی ہے۔
  •  حب ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اہم مطالبہ یہ ہے کہ ان کاموں سے بچا جائے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ناپسند ہیں، یا اس کے غضب کو دعوت دینے والے ہیں۔ یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ شرک ایسے تمام معاملات میں سرفہرست ہے۔ شرک کا ایک عام مفہوم یہ لیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات میں کسی کو شامل کیا جائے، جیسے عیسائیت کا غالب عقیدہ کہ خدا، روح القدس اور حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام تینوں مل کر ایک اکائی یا وحدت بناتے ہیں اور اس بنا پر اس عقیدے کے ماننے والے اپنے آپ کو موحد (monotheist)کہتے ہیں۔

ظاہر ہے یہ فکر اسلام کی بنیاد توحیدِ خالص کے منافی اور ضد ہے لیکن اس کے ساتھ اگر   اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کو رب ماننے کے ساتھ یہ تصور بھی پایا جاتا ہو کہ فلاں بڑی عالمی طاقت ہمیں غذا، اسلحہ اور حمایت و نصرت فراہم کرے گی تو ہم زندہ رہیں گے ورنہ ہمارا وجود خطرے میں پڑ جائے گا، تو یہ اُس شرک سے کسی طرح بھی مختلف نہیں ہے جسے ایک غیرتعلیم یافتہ مسلمان بھی غلط سمجھتا ہے۔

اگر کوئی قوم ہر نماز میں اور پھر ہر جمعہ کے دن مسجد میں جاکر یہ اعلان کرے کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ آپ اکبر، عظیم اور اعلیٰ ہیں، نہ کوئی آپ سے بڑا ہے نہ بلند، نہ طاقت ور، اور ابھی نماز مکمل ہی ہوئی ہو اور وہ باہر آکر اپنی معیشت کو کسی سرمایہ دارانہ طاقت سے وابستہ، اپنی معاشرت کو کسی یورپی یا ایشیائی ملک کی جاہلانہ اور مشرکانہ روایات سے متعلق کردے، اور اپنی سیاست کو لادینی جمہوریت سے منسلک کردے، تو مسجد میں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کو وحدہٗ لاشریک ماننے کے باوجود یہ اس کی صفات میں ہی نہیں اس کی ذات میں بھی شرک کے مترادف ہے۔

گویا، اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا آسان سا مفہوم ان کی ہرمعاملے میں اطاعت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ ایسے ہی حب رسولؐ بھی صرف ایک مفہوم رکھتی ہے، یعنی صدق و سچائی کے ساتھ اور ایک امانت دار شخص کی طرح وہ تمام حقوق جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم پر واجب ہیں، ان کی ادایگی، ورنہ نہ ہم نے صدق کی پیروی کی نہ امانت کا رویہ اختیار کیا۔

  •  تیسری اہم ہدایت جو ہادی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی وہ حقوق العباد سے تعلق رکھتی ہے۔ اگر ایک گروہ اقتدار پر قابض ہو اور اللہ کی خلق کے پاس نہ کھانے کو ہو، نہ روزگار ہو،   نہ بجلی ہو، نہ پانی، اور اس پر غضب یہ کہ اپنے ملک میں ان کا اپنا گھر ڈرون حملوں سے محفوظ نہ ہو، تو کیا اس پامالیِ حقوق کے ذمہ دار اور جو ان کو یہ کام کرتے ہوئے دیکھ رہے ہوں اور مذمت اور مزاحمت سے یک سر غافل ہوں، حُب ِ رسولؐ کا دعویٰ کرسکتے ہیں؟

حُبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے شرطِ ایمان ہونے پر وہ حدیث بھی ہماری رہنمائی کرتی ہے جس میں یہ فرمایا گیا ہے کہ لا یومن احدکم حتّٰی اکون احب الیہ من والدہ و ولدہ والناس اجمعین (بخاری، مسلم)،یعنی تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کی نگاہ میں اس کے باپ، اس کے بیٹے اور سارے انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجائوں۔

حب ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے غالب ہونے کا مفہوم اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ اولاد کے لیے والدین اور والدین کے لیے اولاد کے مفاد سے زیادہ انھیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور اسوہ کی پیروی کرنے کی فکر ہو۔ وہ گھریلو معاملات ہوں یا ملکی سیاسی، معاشی مسائل، ہرہرفیصلہ کرتے وقت یہ دیکھیں کہ کیا ایسا کرنے سے اللہ کے رسولؐ کی اطاعت ہورہی ہے یا بغاوت کے مرتکب ہورہے ہیں۔

اس مختصر وضاحت کے بعد یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ موجودہ ملکی حالات میں وہ کون سے اقدامات ہیں جو حب ِ رسولؐ کے مظہر ہوسکتے ہیں:

___ صدق کا تقاضا ہے کہ سب سے پہلے تجدید ایمان کرتے ہوئے ہم اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ اور خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے مطیع و فرماں بردار ہونے کے عہد کو شعوری طور پر تازہ کریں اور ان تمام اداروں اور افراد کی غلامی و محکومیت سے اپنے آپ کو نکالیں جو اس تعلق پر اثرانداز ہورہے ہوں۔

___ دوسرا تقاضا یہ ہے کہ اس ملکِ عزیز کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک قدر والی رات میں عطیہ اور میراث کو ایک امین کی طرح سے اصل مالک کی مرضی کے مطابق اور اس کی شریعت کے مطابق معاشی، معاشرتی، ثقافتی، تعلیمی، قانونی اور سیاسی معاملات کو ترتیب دیں۔

___ تیسرا تقاضا یہ ہے کہ اس ملک کی سربراہی اور قیادت ایسے افراد کے ہاتھ میں دیں جو امین اور صادق ہوں اور ایسے افراد سے نجات حاصل کریں جو خائن اور کاذب ہوں۔

___ چوتھا تقاضا یہ ہے کہ ایسے معاملات میں اور افرادِ کار کے انتخاب میں صلاحیت اور قابلیت کو معیار بنائیں، اور خاندانوں کی حکومت، مصاحبوں کی بادشاہ گری اور ذاتی مفادات کی غلامی سے نکل کر اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے سامنے جواب دہی کا خوف رکھنے والے افراد کو ملک کی زمامِ کار سونپیں۔

___ پانچواں تقاضا یہ ہے کہ نظامِ اسلامی کے قیام کی جدوجہد میں اپنا وقت، صلاحیت، دولت، غرض جو کچھ ہمارے اختیار میں ہو، لگاتے وقت صبرواستقامت کے رویے کو اختیار کریں اور حالات کی نزاکت سے گھبرا کر یہ کبھی نہ سوچیں کہ اب تو یہ ملک ٹوٹنے کے قریب ہے۔ نااُمیدی کفر ہے اور رات کے بعد صبح کا نور اللہ کی سنت اور وعدہ ہے۔ ہماری ذمہ داری بس اتنی ہے کہ اپنی جانب سے کوششوں میں کوئی کسر نہ چھوڑیں اور سعی و جہد کے ساتھ اللہ پر توکل کریں اور یاد رکھیں کہ ہماری مساعی میں اضافہ ہی مسائل کا حل ہے    ؎

کی محمدؐ سے وفا  ُتو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں


(کتابچہ دستیاب ہے، قیمت: ۹ روپے۔ منشورات، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور-۵۴۷۹۰)

انیسویں دستوری ترمیم کے حوالے سے میں چاہوں گا کہ سب سے پہلے اس بات کو   واضح کردوں کہ ملک عزیز میں اداروں کے درمیان تصادم کی ایک فضا بن رہی تھی۔ اس فضا میں   سپریم کورٹ آف پاکستان کا ۲۱؍اکتوبر ۲۰۱۰ء کا فیصلہ ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے کہ اس میں اس تصادم کو راہ پانے کا کوئی موقع نہیں دیا گیا، بلکہ ملک میں دستور، دستوری اداروں اور طاقت کے تکون (trichotomy of power) کو جو سیاسی استحکام کے لیے ضروری ہے، بڑے مؤثرانداز میں تقویت دی گئی۔ اس کے لیے میں سپریم کورٹ کو اس کی دانش مندی، دُوراندیشی اور حقیقت پسندی پر خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔ یہاں پر یہ بات بھی ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ اس فیصلے کی رو سے     یہ بات طے ہوگئی ہے کہ پاکستان کا دستور سپریم ہے اور دستور میں قانون سازی، پالیسی سازی اور دستوری ترامیم کا حق صرف پارلیمنٹ کو حاصل ہے۔

بھارت کی سپریم کورٹ کے فیصلوں کی وجہ سے وہاں دستوری فلسفۂ قانون (jurisprudence) میں دو اصول تسلیم کیے گئے ہیں: ایک یہ کہ دستور کا ایک بنیادی ڈھانچا (basic structure of the constitution) ہوتا ہے جسے عام دستوری ترمیم کے طریقے سے تبدیل نہیں کیا جاسکتا،    اور دوسرا یہ کہ سپریم کورٹ کو یہ اختیار ہے کہ وہ دستور کی کسی ترمیم کو بھی ڈھانچے کی بنیاد پر کالعدم (null and void) قرار دے سکتی ہے۔ پاکستان کے دستوری فلسفۂ قانون میں اس کا تصور نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے جہاں دستور کے بنیادی ڈھانچے  کی بات کی ہے، وہیں یہ اصول بھی واضح کر دیا ہے کہ اس اسٹرکچر (ڈھانچے) کا اہتمام اور تحفظ بھی پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے۔ عدالت نے اس بنیاد پر کوئی مداخلت نہیں کی۔ اس سلسلے میں یہ امر بھی پیش نظر رکھنا   مفید ہوگا کہ اپنے فیصلے میں عدالت عظمیٰ کے جس فیصلے کا حوالہ دیا ہے، یعنی ۱۹۹۲ میں حاکم خان کیس، اس کا ایک پیراگراف سامنے رکھنا بہت ضروری ہے تاکہ یہ بحث مباحثہ اور تنازع (controversy) ختم ہوجائے۔ اس میں کہا گیا ہے:

اس کے مطابق، اس کیس میں، اگر عدالت عالیہ یہ سمجھے کہ دفعہ ۴۵ کی شقیں بعض لحاظ سے اسلامی احکامات کے خلاف ہیں، تو اسے یہ عدم مطابقت پارلیمنٹ کے علم میں   لانا چاہیے، اس لیے کہ صرف یہی دستور میں ترمیم کرنے کا اختیار رکھتی ہے، اور ایسی قانون سازی کا آغاز کرسکتی ہے جو زیربحث شق کو اسلامی احکام کے مطابق کردے۔

دستور میں ترمیم کے اختیار کے سلسلے میں اس اصول کو تسلیم کیا جانا ایک بڑی قابلِ ذکر کامیابی ہے۔ دوسری بات جس کو اچھی طرح سمجھنا ضروری ہے جو اسلام اور جمہوریت دونوں کا تقاضا ہے اور جسے ۱۹ویں ترمیم میں ایک مرکزی تصور کے طور پرتسلیم کیا گیا ہے، وہ عدلیہ کی آزادی کا تصور ہے۔ دورِ خلافت راشدہ میں نظامِ قضا کو جس اصول پر قائم کیا گیا، اس میں بلاشبہہ قاضی کا تقرر خلیفہ کرتا تھا، لیکن تقرر کے بعد قاضی مکمل طور پر آزاد اور خودمختار ہوتا تھا اور  قضا کا پورا نظم اس کی نگرانی میں کام کرتا تھا۔ ہماری پوری تاریخ میں عدلیہ کی آزادی اسلامی قضا کی روایات کا ایک مرکزی تصور رہی ہے۔ آزادی کا سب سے زیادہ انحصار جج کی صلاحیت اور اس کے کردار پر ہے۔ بلاشبہہ ججوں کے تقرر کے طریقۂ کار کا بھی اس میں ایک حصہ ہے، لیکن اصل عامل جج کا کردار اور دستور اور اللہ کے سامنے جواب دہی کا تصور ہے۔ یہاں میں بھارتی سپریم کورٹ کا ایک حوالہ آپ کی خدمت میں پیش کروں گا جس میں وہاں کے ایک چیف جسٹس نے صاف الفاظ میں تحریر کیا ہے:

یہ جج کا کردار ہے جو عدلیہ کی آزادی کو یقینی بناتا ہے نہ کہ تقرر کا طریقہ۔ بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے مزید کہا کہ عدلیہ کی آزادی براہِ راست اس شخص کے کردار سے مربوط ہے جس کو جج کی حیثیت سے مقرر کیا گیا ہے۔ حلف اُٹھانے کے بعد امید کی جاتی ہے کہ جج آزادی سے کام کرے گا۔

یہ بات ہمیں اپنے سامنے رکھنی چاہیے کہ عدلیہ کی آزادی کا آغاز ججوں کے صحیح تقرر سے ہوتا ہے، لیکن بالآخر اس کا انحصار جج کے کردار اور شخصیت پر ہے۔ اب ججوں کے تقرر کے طریق کار کے بارے چند اصولی باتیں سمجھنا ضروری ہیں: اگر پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو نظر آتا ہے کہ جو قانون اور روایات ہمارے ملک میں کارفرما رہی ہیں، وہ کوئی اچھی مثال پیش نہیں کرتیں۔

برطانیہ کے نوآبادیاتی دور سے چیف ایگزیکٹو، چیف جسٹس کے مشورے سے ججوں کا تقرر کیا کرتاتھا۔ یہ سلسلہ ۵۰ کے عشرے تک جاری رہا اور مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ بالعموم ججوں کا تقرر اہلیت کی بنیاد پر ہوا، اور یہی وجہ ہے کہ اس دور میں عدلیہ آزاد تھی۔ اس میں دیانت تھی اور کردار تھا۔ انھوں نے بالعموم اپنی ذمہ داریوں کا حق ادا کیا، لیکن بدقسمتی سے جسٹس محمد منیر کے دور سے حالات بدلنے لگے۔ فیلڈمارشل ایوب خان کی صدارت کے زمانے میں ججوں کے تقرر کے لیے جو طریقہ اختیار کیا گیا تھا، اس میں ذاتی پسند، قرابت داری اور سیاسی وفاداریوں کا عمل دخل شروع ہوگیا۔ اس معاملے میں ہماری تاریخ میں پچھلے ۴۰سال خاصے تاریک رہے ہیں۔ آپ جناب حامدخان کی کتاب Constitutional and Political History of Pakistan (پاکستان کی دستوری اور سیاسی تاریخ) کو دیکھیں، جس میں نام لے لے کر ایک ایک واقعہ دیا گیا ہے کہ کس طریقے سے ججوں نے جو تجاویز دیں، ان میں ایک بڑی تعداد کی سفارش جس بنیادپر ہوئی، وہ ذاتی پسند وناپسند، قرابت داری اور دوستیوں اور مفادات کے اشتراک کی بنیاد پر تھیں، جن میں اہلیت و صلاحیت اور کردار کو نظرانداز کردیا گیا۔ پھر سیاست دانوں نے بھی اپنے اپنے دور میں بدقسمتی سے یہی کام کیا۔ میں نام نہیں لینا چاہتا لیکن جن حضرات کی نگاہ سے سابق سینیٹر جسٹس (ر) عبدالرزاق تھہیم کی کتابjudiciary and Judges(عدلیہ اور جج) گزری ہے، وہ گواہی دیں گے کہ یہ داستان بڑی تلخ اور شرم سار کرنے والی ہے کہ ماضی میں ججوں کے تقرر کے سلسلے میں کیا کچھ کیا جاتا رہا ہے۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ صاحب کی خودنوشت پڑھیے۔ آپ سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں کہ کس طریقے سے اس وقت کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے اپنے شوہر جناب آصف علی زرداری کو ان سے یہ بات کرنے کے لیے بھیجا کہ حکومت انھیں دو ججوں کو نظرانداز (supersede)  کرکے چیف جسٹس بنانا چاہتی ہے، لیکن مطالبہ یہ تھا کہ پہلے وہ وزیراعظم صاحبہ کو اپنا استعفا لکھ کر دے دیں، جس پر کوئی تاریخ درج نہ ہو، تاکہ جب چاہیں وہ ان کو نکال سکیں۔ خواہ معاملہ سیاست دانوں کا ہو یا ججوں کی سفارش کا، دونوں کی مثالیں اچھی نہیں ہیں۔ یہ وہ     پس منظر ہے جس میں ۱۸ویں اور ۱۹ویں ترمیم کے ذریعے کچھ تبدیلیاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

پہلی بات یہ ہے کہ ججوں کے تقرر کے سلسلے میں کسی کو صواب دیدی اختیار (discretion)  حاصل نہیں ہے، نہ چیف جسٹس کو، نہ چیف ایگزیکٹو کو۔ دوسری یہ کہ تقرر کے طریقۂ کار کو اداروں سے مشاورت کی شکل دی گئی ہے، تاکہ کسی ایک فرد یا ادارے کو بالادستی حاصل نہ ہو۔ ہرمعاملے کے تمام پہلوئوں کا جائزہ لے کر جو بھی سفارش مرتب کی جائے، وہ دو چھلنیوں سے گزرے گی:     ایک جوڈیشل کمیشن اور دوسری پارلیمانی کمیٹی۔ اس طرح ہرپہلو سے بحث کی بنیاد پر فیصلے ہوں گے جو میرٹ پر ہوں گے اور توقع ہے کہ شفاف ہوں گے۔

تیسری چیز یہ کہ اس میں عدلیہ اور پارلیمنٹ دونوں کا حصہ ہوگا، محض کسی ایک کا نہیں۔ اس پر بہت سے اعتراضات کیے گئے ہیںاور مجھے دکھ سے یہ بات کہنی پڑتی ہے کہ بہت سے وکلا نے جو لائق بھی ہیں اور محترم و معتبر بھی، ان میں سے بعض نے اپنے بیانات اور خصوصیت سے میڈیا ٹاک شوز میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ: ’’دنیا میں کہیں بھی پارلیمنٹ کا کردار نہیں پایا جاتا اور یہ کہ ان نامزدگیوں کو خالص عدلیہ کی تجویز پر منحصر ہونا چاہیے‘‘۔ یہ بات امرواقعہ کے خلاف ہے۔ Parliaments of The Worldکی جلددوم کا آخری باب اسی موضوع سے متعلق ہے۔ اس کی رو سے دنیا کے ان ۷۰ممالک میں جن کے جمہوری نظام کی تفصیلات اس میں دی گئی ہیں، ۳۲ ایسے ہیں جہاں پر پارلیمنٹ کا کوئی نہ کوئی واضح کردار ہے، مثلاً جرمنی، اٹلی، فرانس اور ہالینڈ میں پارلیمنٹ باقاعدہ عدلیہ کو منتخب کرتی ہے۔ دنیا کی دو بڑی جمہوریتوں امریکا اور برطانیہ کی پوزیشن یہ ہے کہ امریکا میں سینیٹر حضرات صدر کو نجی طور پر نام تجویز کرتے ہیںاور پھر باضابطہ طور پر صدر نام تجویز کرتا ہے جسے سینیٹ منظور کرتا ہے۔ اسی طرح ججوں کی معزولی کا بھی سینیٹ ہی کو اختیار ہے۔

برطانیہ کی مثال لیجیے: برطانیہ میں صدیوں سے لارڈ چانسلر جو ایک سیاسی منصب ہے، جو دارالامرا  کا اسپیکر ہوتا ہے وہ ساری سفارشات دیا کرتا تھا۔ برطانیہ میں ۲۰۰۵ء میں نیا دستوری ایکٹ  منظور کیا گیا ہے، جس کے تحت اب یہ اختیار ایک جوڈیشل کمیشن کو سونپا گیا ہے۔ اس جوڈیشل کمیشن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ۹ لیگل ممبر، ۳سینیر جج، ایک سرکٹ جج، ایک        عام مجسٹریٹ، ایک ڈسٹرکٹ جج، ایک عام مجسٹریٹ (non-judicial)، ایک رکن ٹریبونل کے حلقے سے، ایک بیرسٹر، ایک مشیر (وہ وکیل جو عدالت میں پیش نہیں ہو مگر قانونی رہنمائی و معاونت کا کام انجام دیتا ہے) اور چھے عام شہریوں پر مشتمل ہوگا جس کی سربراہی ایک جج نہیں کرے گا، بلکہ ایک عمومی ممبر کرے گا۔ عملاً اس کمیشن کی پہلی سربراہ جو خاتون بنی ہے اس کا نام بیروینس اوشا پراشا ہے۔ یہ دارالامرا کی ایک ممبر ہے، کوئی جج نہیں ہے۔ گویا کہ اس میں پارلیمنٹ کی بھرپور نمایندگی موجود ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ یہ کمیشن ججوں کے ناموں کی تجویز لارڈ چانسلر کو  کرے گا اور لارڈ چانسلر کمیشن کی کسی تجویز کو مستردکرسکتا ہے، یا دوبارہ غور کرنے کے لیے بھیج سکتا ہے۔ دوبارہ غور کرنے کے بعد اولین طور پر تجویز کردہ نام دوبارہ آسکتا ہے، لیکن اگر لارڈ چانسلر  کسی نام کو مسترد کرتا ہے تو کمیشن دوبارہ وہی نام نہیں بھیج سکتا۔ اس کو دوسرا نام بھیجنا پڑے گا۔   البتہ یہ ضرور ہے کہ لارڈ چانسلر دو سے زیادہ نام مسترد نہیں کرسکتا۔ ایک بار پھر واضح کر دیا جائے کہ لارڈ چانسلر کوئی جج نہیں ہوتا، بلکہ یہ ایک سیاسی عہدہ ہے اور ہائوس آف لارڈز کا سربراہ بھی لارڈ چانسلر ہی ہوتا ہے۔ تیسرا نام اسے قبول کرنا پڑے گا۔

ان تمام معلومات کی روشنی میں، مَیں یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ اصل اصول یہ ہے کہ عدلیہ کے تمام تقرر اہلیت اور صلاحیت کی بنیاد پر ہونے چاہییں۔ یہ صواب دیدی نہ ہوں اور تمام تقرریوں میں عدلیہ اور پارلیمنٹ دونوں کا کردار ہو۔ ۱۹ویں ترمیم میں ان اصولوں کا اہتمام کیا گیا ہے کہ ۱۸ویں ترمیم کے مجوزہ نظام میں جو خامیاں رہ گئی تھیں عدالت عظمیٰ کی تجاویز کی روشنی میں  ان کی اصلاح بھی کردی گئی ہے۔میری نگاہ میں یہ ایک تاریخی پیش رفت ہے۔

 

حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنی خالہ میمونہؓ کے گھر میں اس لیے رات گزاری کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھوں کہ کیسے قیام اللیل فرماتے ہیں۔ کہتے ہیں: آپؐ بیدار ہوئے، پیشاب کیا، پھر اپنے ہاتھوں اور چہرے کو دھویا، پھر سوگئے۔ اس کے بعد پھر کھڑے ہوئے، مشکیزہ کی طرف گئے، اسے کھولا۔ پھر اس سے پیالے میں پانی ڈالا، اور ہاتھ سے اس کو  اس کے ڈھکن کے ساتھ بند کر دیا۔ پھر ہلکا پھلکا وضو کیا، درمیانہ وضو، اور نماز پڑھنے کھڑے ہوئے۔ پھر میں آیا اور آپؐ کی بائیں جانب کھڑا ہوگیا تو آپؐ نے مجھے دائیں طرف کھڑا کر دیا۔ پھر آپؐ نے ۱۳ رکعت نماز پڑھی، پھر سوگئے یہاں تک کہ آپؐ نے خراٹے لینا شروع کیے۔ ہم آپؐ کو آپؐ کے سونے کے خراٹوں سے پہچان لیتے تھے۔ پھر آپؐ نماز کے لیے نکلے، اور آپؐ نے نماز پڑھی۔ آپؐ اپنی نماز میں یا اپنے سجدے میں یوں دعا کر رہے تھے: اے اللہ! میرے دل میں نور ڈال دے، میرے کان میں نور ڈال دے، اور میری آنکھوں میں نور ڈال دے، اور میرے دائیں نور ڈال دے، میرے بائیں نور کر دے، میرے آگے نور کر دے، میرے پیچھے نور کر دے، میرے نیچے نور کردے، میرے اُوپر نور کردے اور مجھے نور کردے‘‘۔ (مسلم، حدیث ۷۶۳)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعا کو اللہ تعالیٰ نے پورا کر دیا۔ آپؐ نے نور کے دائرے میں زندگی بسر کی اور آپؐ نور ہی نور بن گئے۔ اپنے صحابہ کرامؓ کو بھی ’نور‘ میں چھوڑ گئے، جو سارے عالم میں پھیلا اور پھیلتا ہی جارہا ہے۔ایک وقت آئے گا کہ تاریکی ساری دنیا سے چھٹ جائے گی، نور کا دور دورہ ہوگا اور اسلام کا جھنڈا ساری دنیا میں بلند ہوجائے گا۔ورفعنا لک ذکرک!


حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تبارک و تعالیٰ کے کچھ بلندمرتبہ فرشتے ہیں جو زمین میں چلتے پھرتے ذکر کی مجالس تلاش کرتے ہیں۔ پھر جب کوئی مجلسِ ذکر پا لیتے ہیں تو ان کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں اور ایک دوسرے کو اپنے پروں سے ڈھانپ لیتے ہیں۔ یہاں تک کہ آسمان دنیا تک پہنچ جاتے ہیں۔ جب مجلس ختم ہوجاتی ہے تو وہ آسمان کی طرف چلے جاتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتے ہیں، درآں حالیکہ اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں زیادہ جانتے ہیں، تم لوگ کہاں سے آرہے ہو، تو وہ جواب دیتے ہیں: ہم تیرے ایسے بندوں کے پاس سے آرہے ہیں جو تیری تسبیح و تحمید کرتے ہیں، تکبیریں پڑھتے اور لا الٰہ الااللہ کہتے ہیں اور تجھ سے سوال کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ پوچھتے ہیں: وہ مجھ سے کیا سوال کرتے ہیں؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ: تجھ سے تیری جنت کا سوال کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ پوچھتے ہیں: کیا انھوں نے میری جنت کو دیکھا ہے؟ وہ جواب دیتے ہیں: نہیں، اے رب! اللہ تعالیٰ پوچھتے ہیں: وہ کس چیز سے پناہ مانگتے ہیں؟ فرشتے جواب دیتے ہیں: آپ کی دوزخ سے۔ اللہ تعالیٰ پوچھتے ہیں: کیا انھوں نے میری دوزخ کو دیکھا ہے؟ وہ جواب دیتے ہیں: نہیں، اے رب! اللہ تعالیٰ پوچھتے ہیں: پھر ان کا کیا حال ہوگا اگر وہ میری آگ کو دیکھیں؟ وہ جواب دیتے ہیں: وہ آپ سے استغفار کرتے ہیں۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے ان کو بخش دیا اور ان کے سوال کو پورا کر دیا اور جس چیز سے پناہ مانگتے ہیں اس سے انھیں پناہ دے دی۔ وہ کہتے ہیں: اے ہمارے رب! ان میں ایک خطاکار آدمی بھی ہے جوراہ گزر رہا تھا کہ ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اسے بھی بخش دیا، یہ وہ لوگ ہیں جن کا ہم نشین ناکام نہیں ہوتا۔ (مسلم، حدیث ۶۸۳۹)

اللہ کا ذکر کرنے والوں کا اتنا اُونچا مقام ہے کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے ان کے فضائل کو بیان فرماتے ہیں، اور ان کا درجہ اس قدر بلند ہے کہ ان کے ساتھ ان کے ہم نشین کی بھی بخشش ہوجاتی ہے۔ پس جو اللہ کے ہاں اپنا ذکر کرانا چاہیں انھیں چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کریں، اس کی اطاعت و بندگی میں لگ جائیں۔ اس مقصد اور مشن میں لگ جائیں جس کی خاطر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، جس طرح رسولؐ اللہ نے ذکر کیا اس طرح سے ذکر کریں۔ آپؐ نے اللہ تعالیٰ کے دین کو قائم کیا، اسے غالب کیا، اسے ریاست کا دین بنایا۔ یہ ذکر کامل ذکر ہے، جو اس کامل ذکر کو اپنی راہ بنائیں۔ اللہ کے ہاں ان کا ذکر شروع ہوجائے گا اور وہ اللہ تعالیٰ کے مقبول بندوں میں شامل ہوجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ اپنے ذکر اور اطاعت کی توفیق عطا فرمائے، آمین!


حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ تین آدمی ایسے ہیں جن کی نماز قبول نہیں ہوتی: ۱- جو کسی قوم کی امامت کے لیے آگے بڑھے درآں حالیکہ لوگ اسے ناپسند کرتے ہوں، ۲-جو آدمی نماز کو بلاعذر قضا کرنے کے بعد پڑھے، ۳- تیسرا وہ شخص جو آزاد آدمی کو اپنا غلام بنا لے۔ (ابوداؤد، حدیث ۵۹۳)

آدمی کو چاہیے کہ کسی بھی ایسے کام سے پرہیز کرے جو اس کی نماز کی قبولیت کی راہ میں رکاوٹ بن جائے۔ ان تین برائیوں کو بطور مثال کے ذکر کیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ بہت سی برائیوں کا بھی ذکر آیا ہے کہ ان کے مرتکب کی نماز قبول نہیں ہوتی، مثلاً شراب، جوابازی وغیرہ۔ اس لیے تمام برائیوں سے بچنا چاہیے تاکہ نماز کی قبولیت کی راہ میں کوئی بھی رکاوٹ نہ رہے، کیونکہ نماز تمام بے حیائیوں اور منکرات سے روکتی ہے (القرآن)۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کی نماز اسے بے حیائی اور برائی سے نہ روکے، اس کی نماز کوئی نماز نہیں ہے۔


حضرت ابوامامہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت زیادہ دعائیں کیں۔ ہمیں ان میں سے کچھ بھی یاد نہ ہوسکا۔ اس صورت حال کی آپؐ سے شکایت کی۔ آپؐ نے فرمایا: میں تمھیں ایسی دعا نہ بتلائوں جس میں یہ ساری دعائیں جمع ہوجائیں؟ تم یوں دعا کرو:

اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْئَلُکَ مِنْ خَیْرُ مَا سَأَلَکَ مِنْہُ نَبِیُّکَ مُحَمَّدٌ وَنَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّعَا اسْتَعَاذ مِنْہُ نَبِیُّکَ مُحَمَّدٌ وَاَنْتَ الْمُسْتَعَانَ وَعَلَیْکَ الْبَلَاغُ وَلَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہ (ترمذی، حدیث ۳۵۲۱) اے اللہ! ہم آپ سے وہ تمام بھلائیاں مانگتے ہیں جو تجھ سے تیرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مانگی ہیں، اور ان تمام برائیوں سے جن سے تیرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ مانگی ہے، پناہ مانگتے ہیں۔ تُو ہی مددگار ہے، مرادوں تک پہنچانا بھی تجھ پر ہے اور کسی طرف پھرنا اور قوت نہیں مگراللہ کی مدد سے۔

کیسی جامع دعا ہے! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی اُمت کے ساتھ کیسا پیار ہے، اور آپؐ نے اُمت کے لیے کس قدر آسانیاں فراہم کر دی ہیں۔ یہ حدیث اس کا بہترین نمونہ ہے۔


حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: ایک شخص اللہ تعالیٰ کے لیے ایک کام کرتا ہے اور لوگ اس سے اس کام کی وجہ سے محبت کرتے ہیں، تو آپ ؐ نے فرمایا: یہ مومن کے لیے دنیا میں نقد بشارت ہے۔ (ابن ماجہ، حدیث ۴۲۲۵)

جو لوگ نیکی اور بدی اور نیک و بد میں تمیز کا مادہ رکھتے ہیں وہ نیک لوگوں سے محبت کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ تعلق قائم کرتے اور ان کے ساتھ ہمدردی و غم گساری کرتے ہیں۔ ان کی مدد کرتے اور    ان سے مدد لیتے ہیں۔ ان کو دوسروں سے آگے کرتے ہیں، بدکاروں کو پیچھے کرتے ہیں۔ اس طرح پورے معاشرے کو اسلامی بنانے کی راہ پر چلتے ہیں۔ جن اہلِ ایمان سے لوگ محبت، اعزاز و اکرام کا سلوک کریں انھیں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے، اور انھیں اللہ تعالیٰ کی بندگی پر اپنی کمرہمت باندھ کر رکھنی چاہیے کہ یہی اصل شکرگزاری ہے۔


حضرت سھل بن حنیفؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اللہ تعالیٰ سے سچے دل سے شہادت کا سوال کرے، اللہ تعالیٰ اسے شہادت کے مرتبے پر فائز کر دیں گے، اگرچہ اسے اپنے بستر پر موت آئے۔ (ترمذی، کتاب الجہاد، حدیث ۱۶۵۳)

یہ اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت ہے کہ وہ بندے کو محض کام کے ارادے پر اس کام سے سرفراز فرما دیتے ہیں چاہے وہ عملاً اس کام کو سرانجام دے سکا ہو یا نہ دے سکا ہو۔ شہادت کے سچے طلب گار کو شہیدوں کی صفوں میں شامل کر دیا جاتا ہے۔ شہادت کے مرتبے پر فائز ہونا کسی مومن کے لیے کتنا مشکل ہے۔ کیا وہ کام جو محض ارادے سے حاصل ہوجائے مشکل شمار ہوتا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے بڑے بڑے  بلند درجات کو کس قدر آسان بنا دیا ہے۔ بس خلوص، ہمت اور جذبے کی ضرورت ہے۔ بے شمار   خوش نصیب اپنے گھر اور ماحول میں چلتے پھرتے، اُٹھتے بیٹھتے شہادت کا مقام حاصل کرلیتے ہیں۔

 

[رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپؐ کا پہلا عظیم الشان کارنامہ    انصار و مہاجرین کے درمیان نظامِ مواخات کا قیام تھا۔ اس کے ساتھ ہی مکّے کے اہلِ ایمان کو مدینے (دارالاسلام) کی طرف ہجرت کا حکم دیا گیا، کیوں کہ مدینۂ طیبہ ایک شہری ریاست بن چکا تھا، جس میں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان چند واضح شرائط پر ایک معاہدہ میثاقِ مدینہ طے پاگیا کہ کوئی کسی کے حقوق پر دست درازی نہ کرے گا، اور بیرونی دشمنوں کے مقابلے میں دونوں فریق متحد ہوکر مدینے کا دفاع کریں گے۔ میثاقِ مدینہ مسلمانوں کے نزدیک اس لیے اہم تھا کہ اس معاہدے کے مطابق قوت و اقتدار کا مرکزی کردار آنحضوؐر کی ذات کو تسلیم کرلیا گیا تھا۔

یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہود کی تاریخ اور یہود حجاز کے طرزِعمل پر ایک نگاہ ڈالی جائے تاکہ اندازہ ہوسکے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کے ساتھ جو معاہدہ کیا، وہ کیوں ضروری تھا، اور اس کے حقیقی اسباب کیا تھے؟]

یھودِ مدینہ کی تاریخ

عرب کے یہودیوں کی کوئی مستند تاریخ دنیا میں موجود نہیں ہے۔ انھوں نے خود اپنی کوئی ایسی تحریر کسی کتاب یا کتبے کی شکل میں نہیں چھوڑی ہے جس سے ان کے ماضی پر کوئی روشنی پڑسکے۔ اور عرب سے باہر کے یہودی مؤرخین و مصنفین نے اُن کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے، جس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جزیرۃ العرب میں آکر وہ اپنے بقیہ ابناے ملّت سے بچھڑگئے تھے ، اور دنیا کے یہودی سرے سے اُن کو اپنوں میں شمار ہی نہیں کرتے تھے، کیونکہ انھوں نے عبرانی تہذیب، زبان، حتیٰ کہ نام تک چھوڑ کر عربیت اختیار کر لی تھی۔ حجاز کے آثار قدیمہ میں جو کتبات ملے ہیں، اُن میں پہلی صدی عیسوی سے قبل یہودیوں کا کوئی نشان نہیں ملتا، اور ان میں بھی صرف چند یہودی نام ہی پائے جاتے ہیں۔ اس لیے یہودِ عرب کی تاریخ کا بیش تر انحصار اُن زبانی روایات پر ہے جو    اہلِ عرب میں مشہور تھیں، اور ان میں اچھا خاصا حصہ خود یہودیوں کا اپنا پھیلایا ہوا تھا۔

حجاز کے یہودیوں کا یہ دعویٰ تھا کہ سب سے پہلے وہ حضرت موسٰی علیہ السلام کے آخر عہد میں یہاں آکرآباد ہوئے تھے۔ اس کا قصّہ وہ یہ بیان کرتے تھے کہ حضرت موسٰی ؑنے ایک لشکر یثرب کے علاقے سے عَمالِقَہ کو نکالنے کے لیے بھیجا تھا اور اسے حکم دیا تھا کہ اس قوم کے کسی شخص کو زندہ نہ چھوڑیں۔ بنی اسرائیل کے اس لشکر نے یہاں آکرفرمانِ نبی کی تعمیل کی، مگر عَمالقہ کے بادشاہ کا ایک لڑکا بڑا خوب صورت نوجوان تھا، اسے انھوں نے زندہ رہنے دیا اور اس کو ساتھ لیے ہوئے فلسطین واپس پہنچے۔ اُس وقت حضرت موسٰی ؑکا انتقال ہو چکا تھا۔ اُن کے جانشینوں نے اِس بات پر سخت اعتراض کیا کہ ایک عمالیقی کو زندہ چھوڑ دینا نبی کے فرمان اور شریعت ِ موسوی کے احکام کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اس بنا پر انھوں نے اِس لشکر کو اپنی جماعت سے خارج کر دیا، اور اسے مجبوراً یثرب واپس آکر یہیں بس جانا پڑا (کتاب الاغانی، ج ۱۹، ص ۹۴)۔ اس طرح یہودی گویا اس بات کے مدعی تھے کہ وہ ۱۲ سو برس قبل مسیح سے یہاں آباد ہیں۔ لیکن درحقیقت اس کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں ہے،اور اغلب یہ ہے کہ یہودیوں نے یہ افسانہ اس لیے گھڑا تھا کہ اہلِ عرب پر اپنے قدیم الاصل اور عالی نسب ہونے کی دھونس جمائیں۔

دوسری یہودی مہاجرت، خود یہودیوں کی اپنی روایت کے مطابق ۵۸۷ قبلِ مسیح میں ہوئی، جب کہ بابِل کے بادشاہ بُختِ نَصَّر نے بیت المَقدِس کو تباہ کر کے یہودیوں کو دنیا بھر میں تتربتر کر دیا تھا۔ عرب کے یہودی کہتے تھے کہ اُس زمانے میں ہمارے متعدد قبائل آکر وادی القُریٰ، تَیماء اور یثرب میں آباد ہوگئے تھے (فُتوح البُلدان، البلاذُرِی)۔ لیکن اِس کا بھی کوئی تاریخی ثبوت نہیں ہے۔ بعید نہیں کہ اس سے بھی وہ اپنی قدامت ثابت کرنا چاہتے ہوں۔

حقیقت کیا ھے؟

درحقیقت جو بات ثابت ہے وہ یہ ہے کہ جب سنہ ۷۰ء میں رومیوں نے فلسطین میں یہودیوں کا قتلِ عام کیا، اور پھر سنہ ۱۳۲ء میں انھیں اس سرزمین سے بالکل نکال باہر کیا، اُس دَور میں بہت سے یہودی قبائل بھاگ کر حجاز میں پناہ گزین ہوئے تھے، کیونکہ یہ علاقہ فلسطین کے جنوب میں متصل ہی واقع تھا۔ یہاں آکر انھوں نے جہاں جہاں چشمے اور سرسبز مقامات دیکھے، وہاں ٹھیر گئے اور پھر رفتہ رفتہ اپنے جوڑ توڑ اور سُودخواری کے ذریعے سے اُن پر قبضہ جما لیا۔ اَیلہ، مَقنا، تبوک، تَیماء، وادی القُریٰ، فَدَک اور خیبر پر اُن کا تسلّط اسی دَور میں قائم ہوا۔ اور بنی قُرَیَظہ، بنی نَضِیر، بنی بَہدَل اور بنی قَینُقَاع بھی اُسی دور میں آکر یثرب پر قابض ہوئے۔

یثرب میں آباد ہونے والے [تین] قبائل میں سے بنی نَضِیر اور بنی قُرَیَظہ زیادہ ممتاز تھے ، کیونکہ وہ کاہنوں (Cohens یا Priests) کے طبقے میں سے تھے، انھیں یہودیوں میں [بنوقَینُقاع کے مقابلے میں] عالی نسب مانا جاتا تھا اور ان کو اپنی ملّت میں مذہبی ریاست حاصل تھی۔ یہ لوگ جب مدینے میں آکر آباد ہوئے، اُس وقت کچھ دوسرے عرب قبائل یہاں رہتے تھے جن کو انھوں نے دبا لیا اور عملاً اِس سرسبز و شاداب مقام کے مالک بن بیٹھے۔ اس کے تقریباً تین صدی بعد سنہ ۴۵۰ء یا ۴۵۱ء میں یمن کے اُس سیلابِ عظیم کا واقعہ پیش آیا جس کا ذکر سورئہ سبا کے دوسرے رکوع میں [آیا] ہے۔ اِس سیلاب کی وجہ سے قومِ سبا کے مختلف قبیلے یمن سے نکل کر عرب کے اطراف میں پھیل جانے پر مجبور ہوئے۔ ان میں سے غَسّانی شام میں، لَخمی حِیرَہ (عراق) میں، بنی خُزاعہ جدّہ و مکّہ کے درمیان، اور اَوس و خَزرَج یثرب میں جاکر آباد ہوئے۔ یثرب پرچونکہ یہودی چھائے ہوئے تھے، اس لیے انھوں نے اوّل اوّل اَوس و خَزرَج کی دال نہ گلنے دی اور یہ دونوں عرب قبیلے چارو ناچار بنجر زمینوں پر بس گئے، جہاں اُن کو قُوتِ لایمُوت بھی مشکل سے حاصل ہوتا تھا۔ آخرکار ان کے سرداروں میں سے ایک شخص اپنے غَسّانی بھائیوں سے مدد مانگنے کے لیے شام گیا اور وہاں سے ایک لشکر لا کر اس نے یہودیوں کا زور توڑ دیا۔ اس طرح اَوس و خَزرَج کو یثرب پر پورا غلبہ حاصل ہو گیا۔ یہودیوں کے دو بڑے قبیلے، بنی نَضِیر اور بنی قُرَیَظہ شہر کے باہر جاکر بسنے پر مجبور ہوگئے۔ تیسرے قبیلے بنی قَینُقاع کی چونکہ اِن دونوں یہودی قبیلوں سے اَن بن تھی، اس لیے وہ شہر کے اندر ہی مقیم رہا، مگر یہاں رہنے کے لیے اُسے قبیلۂ خَزرَج کی پناہ لینی پڑی۔ اور اُس کے مقابلے میں بنی نَضِیر و بنی قُرَیَظہ نے قبیلۂ اَوس کی پناہ لی، تاکہ اطرافِ یثرب میں امن کے ساتھ رہ سکیں…

یھودِ یثرب کے نمایاں خدوخال

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی تشریف آوری سے پہلے، آغازِ ہجرت تک، حجاز میں عموماً اور یثرب میں خصوصاً یہودیوں کی پوزیشن کے نمایاں خدوخال یہ تھے:

  •  عربیت کا رنگ: زبان، لباس،تہذیب، تمدّن، ہر لحاظ سے انھوں نے پوری طرح عربیت کا رنگ اختیار کرلیا تھا، حتیٰ کہ ان کی غالب اکثریت کے نام تک عربی ہوگئے تھے(ایضاً، ص ۹۲-۹۴)۔ یہودی قبیلے جو حجاز میں آباد ہوئے تھے، ان میں سے بنی زَعُورا کے سوا کسی قبیلے کا نام عبرانی نہ تھا۔ ان کے چند گنے چُنے علما کے سوا کوئی عبرانی جانتا تک نہ تھا۔ زمانۂ جاہلیت کے یہودی شاعروں کا جو کلام ہمیں ملتا ہے، ان کی زبان اور خیالات اور مضامین میں شعراے عرب سے الگ کوئی امتیازی شان نہیں پائی جاتی جو انھیں مُمیَّز کرتی ہو۔ اُن کے اور عربوں کے درمیان شادی بیاہ تک کے تعلقات قائم ہو چکے تھے۔ درحقیقت ان میں اور عام عربوں میں دین کے سوا کوئی فرق باقی نہ رہا تھا۔ لیکن اِن ساری باتوں کے باوجود وہ عربوں میں جذب بالکل نہ ہوئے تھے، اور انھوں نے شدّت کے ساتھ اپنی یہودی عصبیّت برقرار رکھی تھی۔ یہ ظاہری عربیت انھوں نے صرف اس لیے اختیار کی تھی کہ اس کے بغیر وہ عرب میں رہ نہ سکتے تھے۔
  •  اسرائیلیت کا شدید تعصب: ان کی اِس عربیت کی وجہ سے مغربی مُستشرقین کو   یہ دھوکا ہوا ہے کہ شاید یہ بنی اسرائیل نہ تھے بلکہ یہودی مذہب قبول کرنے والے عرب تھے، یا کم از کم ان کی اکثریت عرب یہودیوں پر مشتمل تھی۔ لیکن اس امر کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں ملتا کہ یہودیوں نے حجاز میں کبھی کوئی تبلیغی سرگرمی دکھائی ہو، یا ان کے علما نصرانی پادریوں اور مشنریوں کی طرح   اہلِ عرب کو دین یہود کی طرف دعوت دیتے ہوں۔

اس کے برعکس ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے اندر اسرائیلیت کا شدید تعصب اور نسلی فخر و غرور پایا جاتا تھا۔ اہلِ عرب کو وہ اُمّی (gentiles) کہتے تھے، جس کے معنی صرف اَن پڑھ کے نہیں بلکہ وحشی اور جاہل کے تھے۔ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ ان اُمّیوں کو وہ انسانی حقوق حاصل نہیں ہیں جو اسرائیلیوں کے لیے ہیں اور ان کا مال ہر جائز و ناجائز طریقے سے مار کھانا اسرائیلیوں کے لیے حلال و طیب ہے۔ سردارانِ عرب کے ماسوا، عام عربوں کو وہ اس قابل نہ سمجھتے تھے کہ انھیں دین یہود میں داخل کرکے برابر کا درجہ دے دیں۔ تاریخی طور پر اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، نہ روایاتِ عرب میں ایسی کوئی شہادت ملتی ہے کہ کسی عرب قبیلے یا کسی بڑے خاندان نے یہودیت قبول کی ہو۔ البتہ بعض افراد کا ذکر ضرور ملتا ہے جو یہودی ہوگئے تھے۔ ویسے بھی یہودیوں کو تبلیغ دین کے بجاے صرف اپنے کاروبار سے دل چسپی تھی۔ اِسی لیے حجاز میں یہودیت ایک دین کی حیثیت سے نہیں پھیلی بلکہ محض چند اسرائیلی قبیلوں کا سرمایۂ فخروناز ہی بنی رہی۔ البتہ یہودی علما نے تعویذ گنڈوں اور فال گیری اور جادُوگری کا کاروبار خوب چمکا رکھا تھا، جس کی وجہ سے عربوں پر اُن کے ’علم‘ اور ’عمل ‘کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔

  •  مضبوط معیشت اور سود خواری: معاشی حیثیت سے ان کی پوزیشن عرب قبائل کی بہ نسبت زیادہ مضبوط تھی۔ چونکہ وہ فلسطین و شام کے زیادہ متمدن علاقوں سے آئے تھے، اس لیے وہ بہت سے ایسے فنون جانتے تھے جو اہلِ عرب میں رائج نہ تھے، اور باہرکی دنیا سے ان کے کاروباری تعلقات بھی تھے۔ اِن وجوہ سے یثرب اور بالائی حجاز میں غلّے کی درآمد اور یہاں سے چھواروں کی برآمد ان کے ہاتھ میں آگئی تھی۔ مرغ بانی اور ماہی گیری پر بھی زیادہ تر انھی کا قبضہ تھا۔ پارچہ بافی کا کام بھی ان کے ہاں ہوتا تھا۔ جگہ جگہ مے خانے بھی انھوں نے قائم کر رکھے تھے، جہاں شام سے شراب لاکر فروخت کی جاتی تھی۔ بنی قَینُقاع زیادہ تر سُنار اور لوہار اور ظروف سازی کا پیشہ کرتے تھے۔ اس سارے بَنجَ بیوپار میں یہ یہودی بے تحاشا منافع خوری کرتے تھے۔ لیکن ان کا سب سے بڑا کاروبار سودخواری کا تھا، جس کے جال میں انھوں نے گردوپیش کی عرب آبادیوں کو پھانس رکھاتھا، اور خاص طور پر عرب قبائل کے شیوخ اور سردار، جنھیں قرض لے لے کر ٹھاٹ جمانے اور شیخی بگھارنے کی بیماری لگی ہوئی تھی، ان کے پھندے میں پھنسے ہوئے تھے۔ یہ بھاری شرح سُود پر قرضے دیتے، اور پھر سُوددر سُود کا چکر چلاتے تھے، جس کی گرفت میں آجانے کے بعد مشکل ہی سے کوئی نکل سکتا تھا۔ اِس طرح انھوں نے عربوں کو معاشی حیثیت سے کھوکھلا کر رکھا تھا، مگر اِس کا فطری نتیجہ یہ بھی تھا کہ عربوں میں بالعموم ان کے خلاف ایک گہری نفرت پائی جاتی تھی۔
  • دوغلی پالیسی: ان کے تجارتی اور مالی مفادات کا تقاضا یہ تھا کہ عربوں میں کسی کے دوست بن کر کسی سے نہ بگاڑیں اور نہ ان کی باہمی لڑائیوں میں حصہ لیں۔ لیکن دوسری طرف ان کے مفاد ہی کا تقاضا یہ بھی تھا کہ عربوں کو باہم متحد نہ ہونے دیں، اور انھیں ایک دوسرے سے لڑاتے رہیں، کیونکہ وہ اس بات کو جانتے تھے کہ جب بھی عرب قبیلے باہم متحد ہوئے، وہ اُن بڑی بڑی جایدادوں اور باغات اور سرسبز زمینوں پر انھیں قابض نہ رہنے دیں گے جو انھوں نے اپنی منافع خوری اور سُودخواری سے پیدا کی تھیں۔ مزیدبرآں اپنی حفاظت کے لیے ان کے ہر قبیلے کو کسی نہ کسی طاقت ور عرب قبیلے سے حلیفانہ تعلقات بھی قائم کرنے پڑتے تھے، تاکہ کوئی دوسرا زبردست قبیلہ ان پر ہاتھ نہ ڈال سکے۔ اس بناپر بارہا انھیں نہ صرف ان عرب قبائل کی باہمی لڑائیوں میں حصہ لینا پڑتا تھا، بلکہ بسااوقات ایک یہودی قبیلہ اپنے حلیف عرب قبیلے کے ساتھ مل کر کسی دوسرے یہودی قبیلے کے خلاف جنگ آزما ہو جاتا تھا جس کے حلیفانہ تعلقات فریق مخالف سے ہوتے تھے۔ یثرب میں بنی قُرَیَظہ اور بنی نَضِیر اَوس کے حلیف تھے اور بنی قَینُقاع خَزرَج کے۔ ہجرت سے تھوڑی مدّت پہلے اَوس اور خَزرَج کے درمیان جو خوں ریز لڑائی بُعاث کے مقام پر ہوئی تھی، اُس میں یہ اپنے اپنے حلیفوں کے ساتھ مل کر ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوئے تھے۔

میثاقِ مدینہ

یہ حالات تھے جب مدینے میں اسلام پہنچا اور بالآخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی  تشریف آوری کے بعد وہاں ایک اسلامی ریاست وجود میں آئی۔ آپؐ نے اس ریاست کو قائم کرتے ہی جو اوّلین کام کیے، ان میں سے ایک یہ تھا کہ اَوس اور خَزرَج اور مہاجرین کو ملاکر ایک برادری بنائی، اور دوسرا یہ تھا کہ اس مسلم معاشرے اور یہودیوں کے درمیان واضح شرائط پر ایک معاہدہ طے کیا، جس میں اس امر کی ضمانت دی گئی کہ کوئی کسی کے حقوق پر دست درازی نہ کرے گا اور بیرونی دشمنوں کے مقابلے میں یہ سب متحدہ دفاع کریں گے۔

اس معاہدے کے چند اہم فقرے یہ ہیں، جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ [نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سربراہی میں] یہود اور مسلمانوں نے ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات میں کن اُمور کی پابندی قبول کی تھی:

اِنَّ عَلَی الْیَہُوْدِ نَفَقَتُہُمْ وَعَلَی الْمُسْلِمِیْنَ نَفَقَتُہُمْ ، وَ اِنَّ بِیْنَہُمُ النَّصْرُ عَلٰی مَنْ حَارَبَ اَہْلَ ہٰذِہِ الصَّحِیْفَۃِ ، وَ اِنَّ بَیْنَھُمْ النُّصْحُ وَالنَّصِیْحَۃُ وَالْبِرُّ دُوْنَ الْاِثْمِ ، وَاِنَّہُ لَمْ یَاثَمْ اِمْرَؤٌ بِحَلِیْفِہٖ ، وَ اِنَّ النَّصْرَ لِلْمَظْلُوْمِ، وَ اِنَّ الْیَہُوْدَ یُنْفِقُوْنَ مَعَ الْمُؤْمِنِیْنَ مَا دَامُوا مُحَارِبِیْنَ ، وَ اِنَّ یَثْرَبَ حَرَامٌ جَوْفُھَا لِاَہْلِ ہٰذِہِ الصَّحِیْفَۃِ …… وَ اِنَّہُ مَا کَانَ بَیْنَ اَہْلِ ہٰذِہِ الصَّحِیْفَۃِ مِنْ حَدَثٍ اَوْ اِشْتَجَارِ یُخَافُ فَسَادُہُ فَاِنَّ مَرَدَّہُ اِلَی اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ وَاِلٰی مُحَمَّدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ …… وَ اِنَّہُ لَا تُجَارُ قُرَیْشٌ وَلَا مَنْ نَصَرَہَا، وَ اِنَّ بَیْنَہُمُ النَّصْرُ عَلٰی مَنْ دَہِمَ یَثْرِبَ - عَلٰی کُلِّ اُنَاسٍ حِصَّتَہُمْ مِنْ جَانِبِھِمْ الَّذِیْ قِبَلَہُمْ (ابن ہشام، ج ۲ ، ص ۱۴۷ تا ۱۵۰)

یہ کہ یہودی اپنا خرچ اٹھائیں گے اور مسلمان اپنا خرچ، اور یہ کہ اس معاہدے کے شرکا، حملہ آور کے مقابلے میں ایک دوسرے کی مدد کے پابند ہوں گے۔ اور یہ کہ وہ خلوص کے ساتھ ایک دوسرے کی خیرخواہی کریں گے اور ان کے درمیان نیکی و حق رسانی کا تعلق ہوگا نہ کہ گناہ اور زیادتی کا۔ اور یہ کہ کوئی اپنے حلیف کے ساتھ زیادتی نہیں کرے گا، اور یہ کہ مظلوم کی حمایت کی جائے گی، اور یہ کہ جب تک جنگ رہے ، یہودی مسلمانوں کے ساتھ مل کر اُس کے مصارف اٹھائیں گے۔ اور یہ کہ اس معاہدے کے شرکا پر یثرب میں کسی نوعیت کا فتنہ و فساد کرنا حرام ہے۔ اور یہ کہ اس معاہدے کے شرکا کے درمیان اگر کوئی ایسا قضیہ یا اختلاف رونما ہو جس سے فساد کا خطرہ ہو تو اس کا فیصلہ اللہ کے قانون کے مطابق محمد رسول اللہ کریں گے… اور یہ کہ قریش اور اس کے حامیوں کو پناہ نہیں دی جائے گی، اور یہ کہ یثرب پر جو بھی حملہ آور ہو، اس کے مقابلے میں شرکاے معاہدہ ایک دوسرے کی مدد کریں گے… ہر فریق اپنی جانب کے علاقے کی مدافعت کا ذمہ دار ہوگا۔

یہ ایک قطعی اور واضح معاہدہ تھا جس کی شرائط یہودیوں نے خود قبول کی تھیں۔ لیکن بہت جلدی انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف معانِدانہ روش کا اظہار شروع کر دیا اور ان کا عناد روز بہ روز سخت سے سخت تر ہوتا چلا گیا۔ اس کے بڑے بڑے وجوہ تین تھے:

 ___ایک یہ کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کو محض ایک رئیسِ قوم دیکھنا چاہتے تھے جو اُن کے ساتھ بس ایک سیاسی معاہدہ کرکے رہ جائے اور صرف اپنے گروہ کے دنیوی مفاد سے سروکار رکھے، مگر انھوں نے دیکھا کہ آپؐ تو اللہ اور آخرت اور رسالت اور کتاب پر ایمان لانے کی دعوت دے رہے ہیں (جس میں خود اُن کے اپنے رسولوں اور کتابوں پر ایمان لانا بھی شامل تھا)، اور معصیت چھوڑ کر اُن احکام الٰہی کی اطاعت کرنے اور اُن اخلاقی حُدود کی پابندی کرنے کی طرف بلا رہے ہیں جن کی طرف خود ان کے انبیا بھی دنیا کو بلاتے رہے ہیں۔ یہ چیز ان کو سخت ناگوار تھی۔ اُن کو خطرہ پیدا ہو گیا کہ یہ عالم گیر اصولی تحریک اگرچل پڑی تو اس کا سیلاب ان کی جامد مذہبیت اور ان کی نسلی قومیت کو بہا لے جائے گا۔

 ___دوسرے یہ کہ اَوس و خَزرَج اور مہاجرین کو بھائی بھائی بنتے دیکھ کر، اور یہ دیکھ کر کہ گردوپیش کے عرب قبائل میں سے بھی جو لوگ اسلام کی اِس دعوت کو قبول کر رہے ہیں وہ سب مدینے کی اِس اسلامی برادری میں شامل ہو کر ایک ملّت بنتے جا رہے ہیں، انھیں یہ خطرہ پیدا ہو گیا کہ صدیوں سے اپنی سلامتی اور اپنے مفادات کی ترقی کے لیے انھوں نے عرب قبیلوں میں پھوٹ ڈال کر اپنا اُلّو سیدھا کرنے کی جو پالیسی اختیار کر رکھی تھی، وہ اب اِس نئے نظام میں نہ چل سکے گی، بلکہ اب ان کو عربوں کی ایک متحدہ طاقت سے سابقہ پیش آئے گا، جس کے آگے ان کی چالیں کامیاب نہ ہو سکیں گی۔

 ___تیسرے یہ کہ معاشرے اور تمدّن کی جو اصلاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کر رہے تھے، اس میں کاروبار اور لین دین کے تمام ناجائز طریقوں کا سدّباب شامل تھا، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سُود کو بھی آپؐ ناپاک کمائی اور حرام خوری قرار دے رہے تھے، جس سے انھیں خطرہ تھا کہ اگر عرب پر آپؐ  کی فرماں روائی قائم ہوگئی تو آپؐ  اسے قانوناً ممنوع کر دیں گے۔ اِس میں ان کو اپنی [معاشی اور سماجی] موت نظر آتی تھی۔

حضوؐر کی مخالفت: یھود کا قومی نصب العین

ان وجوہ سے انھوں نے حضوؐر کی مخالفت کو اپنا قومی نصب العین بنا لیا۔ آپؐ  کو زک دینے کے لیے کوئی چال، کوئی تدبیر اور کوئی ہتھکنڈا استعمال کرنے میں ان کو ذرّہ برابر تأمُّل نہ تھا۔ وہ آپؐ کے خلاف طرح طرح کی جھوٹی باتیں پھیلاتے تھے، تاکہ لوگ آپؐ  سے بدگمان ہو جائیں۔ اسلام قبول کرنے والوں کے دلوں میں ہر قسم کے شکوک و شبہات اور وسوسے ڈالتے تھے، تاکہ وہ اِس دین سے برگشتہ ہو جائیں۔ خود جھوٹ موٹ کا اسلام قبول کرنے کے بعد مرتد ہو جاتے تھے، تاکہ لوگوں میں اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کے خلاف زیادہ سے زیادہ غلط فہمیاں پھیلائی جا سکیں۔ فتنے برپا کرنے کے لیے منافقین سے سازباز کرتے تھے۔ ہر اُس شخص اور گروہ اور قبیلے سے رابطہ پیدا کرتے تھے جو اسلام کا دشمن ہوتا تھا۔ مسلمانوں کے اندر پھوٹ ڈالنے اور ان کو آپس میں لڑا دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے تھے۔ اَوس اور خَزرَج کے لوگ خاص طور پر اُن کے ہدف تھے، جن سے اُن کے مدت ہاے دراز کے تعلقات چلے آ رہے تھے۔ جنگ بُعاث کے تذکرے چھیڑ چھیڑ کر وہ اُن کو پرانی دشمنیاں یاد دلانے کی کوشش کرتے تھے، تاکہ ان کے درمیان پھر ایک دفعہ تلوار چل جائے اور اُخوت کا وہ رشتہ تار تار ہو جائے جس میں اسلام نے ان کو باندھ دیاتھا۔ مسلمانوں کو مالی حیثیت سے تنگ کرنے کے لیے بھی وہ ہر قسم کی دھاندلیاں کرتے تھے۔ جن لوگوں سے ان کا پہلے سے لین دین تھا، ان میں سے جوں ہی کوئی شخص اسلام قبول کرتا، وہ اس کو نقصان پہنچانے کے درپے ہو جاتے تھے۔ اگر اس سے کچھ لینا ہوتا تو تقاضے کر کر کے اس کا ناک میں دم کر دیتے، اور اگر اسے کچھ دینا ہوتا تو اس کی رقم مار کھاتے تھے اور عَلانیہ کہتے تھے کہ جب ہم نے تم سے معاملہ کیا تھا اس وقت تمھارا دین کچھ اور تھا، اب چونکہ تم نے اپنا دین بدل دیا ہے اس لیے ہم پر تمھارا کوئی حق باقی نہیں ہے۔(تفہیم القرآن ،جلد پنجم،ص ۳۷۰-۳۷۷)

[رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور دعوتِ اسلامی سے یہود کے مُعانِدانہ طرزِعمل کا اظہار تو مکی زندگی میں بھی ہوتا رہتا تھا، اور قرآن مجید کی مکی سورتوں میں اس کے شواہد بھی موجود ہیں، لیکن حضوؐر کی مدینہ تشریف آوری پر ایک معاہدے کی پابندی قبول کرلینے کے باوجود، حضوؐر اور آپؐ کے صحابہ کرامؓ کے خلاف ان کا عناد ایک تدریج کے ساتھ ظاہر ہونا شروع ہوا۔ آغاز اس معاہدے کے فوراً بعد ہوا، پھر اس کی شدت میں روز بہ روز اضافہ ہوتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ غزوئہ بدر (سنہ ۲ ہجری) تک پہنچتے پہنچتے ان کا یہ طرزِعمل معاہدے کی کھلی کھلی خلاف ورزی اور دشمنی میں تبدیل ہوگیا۔   غزوئہ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو قریش پر جو فتحِ مبین حاصل ہوئی، اس نے انھیں اور زیادہ مشتعل اور بے قابو کردیا اور ان کے بُغض کی آگ اور زیادہ بھڑک اُٹھی۔ یہود کی اس کھلی کھلی معاندانہ روش کی بنا پر آگے چل کر حضوؐر نے ان کے تینوں بڑے قبائل (بنوقَینقُاع، بنونَضیر اور بنوقُرَیَظہ) کے خلاف جو سخت اقدامات فرمائے ان کی تفصیل آیندہ صفحات میں اپنے اپنے مقام پر آئے گی۔]

یھودِ مدینہ کا طرزِعمل ___ قرآن کی روشنی میں

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور کتابُ اللہ کے خلاف یہود کی دشمنی، ان کا بُغض، ان کی نفرت اور ان کی مُعانِدانہ روش کس درجے کی تھی؟ اس کا نقشہ مدنی زندگی کے آغاز میں نازل ہونے والی سورتوں میں بڑی وضاحت کے ساتھ کھینچا گیا ہے، قرآن حکیم، خاص طور سے سورۃ البقرہ کے حوالے سے، یہود کے مُعانِدانہ طرزِعمل کی ایک جھلک سطورِ ذیل میں پیش کی جا رہی ہے:

اَوس اور خَزرَج کے نومسلموں (یعنی گروہِ انصار) سے خطاب کرکے فرمایا گیا: اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ یُّؤْمِنُوْا لَکُمْ وَ قَدْ کَانَ فَرِیْقٌ مِّنْھُمْ یَسْمَعُوْنَ کَلٰمَ اللّٰہِ ثُمَّ یُحَرِّفُوْنَہٗ مِنْ م بَعْدِ مَا عَقَلُوْہُ وَھُمْ یَعْلَمُوْنَ o (اے مسلمانو! اب کیا اِن لوگوں سے تم یہ توقع رکھتے ہو کہ یہ تمھاری دعوت پر ایمان لے آئیں گے؟ حالانکہ ان میں سے ایک گروہ کا شیوہ یہ رہا ہے کہ اللہ کا کلام سنا اور پھر خوب سمجھ بُوجھ کر دانستہ اس میں تحریف کی۔)

(الف)نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان [لانے سے پہلے قبائلِ مدینہ اَوس اور خَزرَج کے] لوگوں کے کان میں پہلے سے نبوت،کتاب، ملائکہ ،آخرت، شریعت وغیرہ کی جو باتیں پڑی ہوئی تھیں، وہ سب انھوں نے اپنے ہمسایہ یہودیوں ہی سے سنی تھیں۔ اور یہ بھی انھوں نے یہودیوں ہی سے سنا تھا کہ دُنیا میں ایک پیغمبر اور آنے والے ہیں، اور یہ کہ جو لوگ ان کا ساتھ دیں گے وہ ساری دُنیا پر چھاجائیں گے۔ یہی معلومات تھیںجن کی بنا پر اہلِ مدینہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا چرچا سن کر آپؐ  کی طرف خود متوجہ ہوئے اور جُوق در جُوق ایمان لائے۔ اب وہ متوقع تھے کہ جو لوگ پہلے ہی سے انبیا اور کتب ِآسمانی کے پیرو ہیں اور جن کی دی ہوئی خبروں کی بدولت ہی ہم کو نعمت ِ ایمان میسّر ہوئی ہے، وہ ضرور ہمارا ساتھ دیں گے، بلکہ اس راہ میں پیش پیش ہوں گے۔ چنانچہ یہی توقعات لے کر یہ پُرجوش نومسلم اپنے یہودی دوستوں اور ہمسایوں کے پاس جاتے تھے اور ان کو اسلام کی دعوت دیتے تھے۔ پھر جب وہ اس دعوت کا جواب انکار سے دیتے تو منافقین اور مخالفینِ اسلام اس سے یہ استدلال کرتے تھے کہ معاملہ کچھ مُشتَبہ ہی معلوم ہوتا ہے، ورنہ اگر یہ واقعی نبی ہوتے تو آخر کیسے ممکن تھا کہ اہلِ کتاب کے علما اور مشائخ اور مقدس بزرگ جانتے بُوجھتے ایمان لانے سے منہ موڑتے اور خواہ مخواہ اپنی عاقبت خراب کر لیتے۔ اس بنا پر [سورۂ بقرہ کی متعدد آیات میں] بنی اسرائیل کی تاریخی سرگذشت بیان کرنے کے بعد [یہاں] ان سادہ دل مسلمانوں سے کہا جارہا ہے کہ جن لوگوں کی سابق روایات یہ کچھ رہی ہیں، ان سے تم کچھ بہت زیادہ لمبی چوڑی توقعات نہ رکھو، ورنہ جب ان کے پتھر دلوں سے تمھاری دعوتِ حق ٹکرا کر واپس آئے گی، تو دل شکستہ ہوجائو گے۔ یہ لوگ تو صدیوں کے بگڑے ہوئے ہیں۔ اللہ کی جن آیات کو سن کر تم پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے، انھی سے کھیلتے اور تمسخر کرتے ان کی نسلیں بیت گئی ہیں۔ دین ِ حق کو مسخ کر کے یہ اپنی خواہشات کے مطابق ڈھال چکے ہیںاور اسی مسخ شدہ دین سے یہ نجات کی اُمیدیں باندھے بیٹھے ہیں۔ ان سے یہ توقع رکھنا فضول ہے کہ حق کی آواز بلند ہوتے ہی یہ ہر طرف سے دَوڑے چلے آئیں گے۔

(ب) [سورئہ بقرہ کی مذکورہ بالا آیت میں]’ایک گروہ‘ سے مراد [یہود] کے علما اور حاملینِ شریعت ہیں۔ ’کلام اللہ‘ سے مراد تورات، زَبور اور وہ دوسری کتابیں ہیں جو ان لوگوں کو ان کے انبیا کے ذریعے سے پہنچیں۔ ’تحریف‘ کا مطلب یہ ہے کہ بات کو اصل معنی و مفہوم سے پھیر کر اپنی خواہش کے مطابق کچھ دوسرے معنی پہنا دینا، جو قائل کے منشا کے خلاف ہوں۔ نیز الفاظ میں تغیر و تبدل کرنے کو بھی تحریف کہتے ہیں ___ علماے بنی اسرائیل نے یہ دونوں طرح کی تحریفیں کلامِ الٰہی میں کی ہیں۔( تفہیم القرآن ،جلد اوّل، ص ۸۷)

یھود کی دینی اور اخلاقی پستی

[نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ تشریف آوری پر یہودی پیشوائوں کے اندر یہ مرض شدت اختیار کرگیا تھا۔ اسی سورئہ بقرہ کی آیت ۷۶ تا ۱۲۱ میں یہود اور ان کے مذہبی پیشوائوں کی حالت پر جو تبصرہ کیا گیا ہے، اس کے درج ذیل نِکات سے اندازہ ہوگا کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے رسولؐ، اس کی کتاب اور اس کے دین کے ساتھ کس قسم کا برتائو کر رہے تھے اور اُن کی دینی اور اخلاقی پستی کس انتہا کو پہنچ چکی تھی۔]

۱- اللّٰہ کے متعلق ان کا فاسد عقیدہ: [اُن کے علما] وہ آپس میں ایک دُوسرے سے کہتے تھے کہ تورات اور دیگر کتبِ آسمانی میں جو پیشین گوئیاں اِس نبی کے متعلق موجود ہیں، یا جو آیات اورتعلیمات ہماری مقدّس کتابوں میں ایسی ملتی ہیں جن سے ہماری موجودہ روش پر گرفت ہو سکتی ہے، انھیں مسلمانوں کے سامنے بیان نہ کرو، ورنہ یہ تمھارے رب کے سامنے ان کو تمھارے خلاف حجت کے طور پر پیش کریں گے۔ یہ تھا اللہ کے متعلق ان ظالموں کے فسادِ عقیدہ کا حال۔ گویا وہ اپنے نزدیک یہ سمجھتے تھے کہ اگر دُنیا میں وہ اپنی تحریفات اور اپنی حق پوشی کو چھپا لے گئے، تو آخرت میں ان پر مقدّمہ نہ چل سکے گا۔ اِسی لیے بعد کے جملۂ معترضہ میں ان کو تنبیہ کی گئی ہے کہ کیا تم اللہ کو بے خبر سمجھتے ہو۔

۲- کلام اللّٰہ میں تحریف اور آمیزش: اُن کے علما--- نے صرف اتنا ہی نہیں کیا کہ کلامِ الٰہی کے معانی کو اپنی خواہشات کے مطابق بدلا ہو، بلکہ یہ بھی کیا کہ بائبل میں اپنی تفسیروں کو، اپنی قومی تاریخ کو، اپنے اوہام اور قیاسات کو، اپنے خیالی فلسفوں کو، اور اپنے اجتہاد سے وضع کیے ہوئے فقہی قوانین کو کلامِ الٰہی کے ساتھ خلط ملط کردیا اور یہ ساری چیزیں لوگوں کے سامنے اس حیثیت سے پیش کیں کہ گویا یہ سب اللہ ہی کی طرف سے آئی ہوئی ہیں۔ [مزید برآں ]ہر تاریخی افسانہ، ہر مُفسر کی تاویل، ہرمُتکلم کا الٰہیاتی عقیدہ، اور ہر فقیہ کا قانونی اجتہاد، جس نے مجموعۂ کتبِ مقدسہ (بائبل) میں جگہ پا لی، اللہ کا قول (Word of God) بن کر رہ گیا۔ اُس پر ایمان لانا فرض ہوگیا اور اس سے پھرنے کے معنی دین سے پھر جانے کے ہوگئے۔(ایضاً، ص ۸۸-۸۹)

[اس پر فرمایا گیا:] فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ یَکْتُبُوْنَ الْکِتٰبَ بِاَیْدِیْھِمْ ق ثُمَّ یَقُوْلُوْنَ ھٰذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ لِیَشْتَرُوْا بِہٖ ثَمَنًا قَلِیْلاً ط فَوَیلٌ لَّھُمْ مِّمَّا کَتَبَتْ اَیْدِیْھِمْ وَ وَیلٌ لَّھُمْ مِّمَّا یَکْسِبُوْنَ o (پس ہلاکت اور تباہی ہے اُن لوگوں کے لیے جو اپنے ہاتھوں سے شرع کا نَوِشتہ لکھتے ہیں، پھر لوگوں سے کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس سے آیا ہوا ہے، تاکہ اس کے معاوضے میں تھوڑا سا فائدہ حاصل کرلیں۔ ان کے ہاتھوں کا یہ لکھا بھی ان کے لیے تباہی کا سامان ہے اور ان کی یہ کمائی بھی ان کے لیے موجبِ ہلاکت۔(ایضاً)

۳- یھودی عوام کی خوش خیالیاں: [رہے عوام تو ان کا یہ ] حال تھا، علمِ کتاب سے کورے تھے۔ کچھ نہ جانتے تھے کہ اللہ نے اپنی کتاب میں دین کے کیا اُصول بتائے ہیں، اخلاق اور شرع کے کیا قواعد سکھائے ہیں، اور انسان کی فلاح و خُسران کا مدار کن چیزوں پر رکھا ہے۔ اس علم کے بغیر وہ اپنے مفروضات اور اپنی خواہشات کے مطابق گھڑی ہوئی باتوں کو دین سمجھے بیٹھے تھے اور جھوٹی توقعات پر جی رہے تھے(ایضاً)۔ [ان کے بارے میں فرمایا:] ان میں ایک دوسرا گروہ اُمّیوں کا ہے، جوکتاب کا تو علم رکھتے نہیں، بس اپنی بے بنیاد اُمیدوں اور آرزوئوں کو لیے بیٹھے ہیں اور محض وہم و گمان پر چلے جارہے ہیں۔

۴- خود فریبی کی انتھا: [کلامِ الٰہی کے ساتھ یہ معاملہ کرنے اور خوفِ خدا سے   بے نیاز ہوجانے کے بعد اُن کی خود فریبی اور جسارت اس حد تک بڑھی ہوئی تھی کہ بمطابق ارشاد الٰہی] وہ کہتے تھے: دوزخ کی آگ ہمیں ہرگز چھونے والی نہیں، اِلاَّ یہ کہ چند روز کی سزا مل جائے تو مل جائے۔ [اس پر فرمایا گیا:] اِن سے پوچھو: کیا تم نے اللہ سے کوئی عہد لے لیا ہے، جس کی    خلاف ورزی وہ نہیں کرسکتا؟ یا بات یہ ہے کہ تم اللہ کے ذمّے ڈال کر ایسی باتیں کہہ دیتے ہو    جن کے متعلق تمھیں علم نہیں ہے کہ اُس نے ان کا ذمہ لیا ہے؟ آخر تمھیں دوزخ کی آگ کیوں نہ چھوئے گی؟ جو بھی بدی کمائے گا اور اپنی خطاکاری کے چکّر میں پڑا رہے گا،وہ دوزخی ہے اور دوزخ ہی میں وہ ہمیشہ رہے گا۔(ایضاً، ص ۸۸-۹۰)

یہ یہودیوں کی عام غلط فہمی کا بیان ہے، جس میں ان کے عامی اور عالم سب مبتلا تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ ہم خواہ کچھ کریں، بہرحال چونکہ ہم یہودی ہیں، لہٰذا جہنم کی آگ ہم پر حرام ہے، اور بالفرض اگر ہم کو سزا دی بھی گئی، تو بس چند روز کے لیے وہاں بھیجے جائیں گے اور پھر سیدھے جنت کی طرف پلٹا دیے جائیں گے۔

۵- کتابُ اللّٰہ پر جزوی ایمان:نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کی آمد سے پہلے مدینے کے اطراف کے یہودی قبائل نے اپنے ہمسایہ عرب قبیلوں (اَوْس اور خزْرَج) سے حلیفانہ تعلقات قائم کر رکھے تھے۔ جب ایک عرب قبیلہ دُوسرے قبیلے سے برسرِجنگ ہوتا، تو دونوں کے حلیف یہودی قبیلے بھی اپنے اپنے حلیف کا ساتھ دیتے اور ایک دُوسرے کے مقابلے میں نبردآزما ہو جاتے تھے۔ یہ فعل صریح طور پر کتاب اللہ کے خلاف تھا اور وہ جانتے بوجھتے کتاب اللہ کی خلاف ورزی کر رہے تھے۔ مگر لڑائی کے بعد جب ایک یہودی قبیلے کے اسیرانِ جنگ دُوسرے یہودی قبیلے کے ہاتھ آتے تھے، تو غالب قبیلہ فدیہ لے کر انھیں چھوڑتا اور مغلوب قبیلہ فدیہ دے کر انھیںچھڑاتا تھا، اور اس فدیے کے لین دین کو جائز ٹھیرانے کے لیے کتاب اللہ سے استدلال کیا جاتا تھا۔ گویا وہ کتاب اللہ کی اس اجازت کو تو سر آنکھوں پر رکھتے تھے کہ اسیرانِ جنگ کو فدیہ لے کر چھوڑا جائے، مگر اس حکم کو ٹھکرا دیتے تھے کہ آپس میں جنگ ہی نہ کی جائے۔(ایضاً، ص ۹۱-۹۲)

[چنانچہ ارشادِ ربانی ہے:] اَفَـتُؤْمِنُوْنَ بِـبَعْضِ الْکِتٰبِ وَتَکْفُرُوْنَ بِـبَعْضٍ، تو کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کُفر کرتے ہو؟ (ایضاً، ص ۹۱)

۶- جبریل علیہ السلام سے یھود کی دشمنی: یہودی صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپؐ پر ایمان لانے والوں ہی کو بُرا نہ کہتے تھے، بلکہ خدا کے برگزیدہ فرشتے جبریل ؑکو بھی گالیاں دیتے تھے اور کہتے تھے کہ وہ ہمارا دشمن ہے۔ وہ رحمت کا نہیں عذاب کا فرشتہ ہے(ایضاً، ص ۹۶)۔ [فرمایا گیا:] اِن سے کہو کہ جو کوئی جبریل ؑ سے عداوت رکھتا ہو، اسے معلوم ہونا چاہیے کہ جبریل ؑ نے اللہ ہی کے اِذن سے یہ قرآن تمھارے قلب پر نازل کیا ہے---اس بنا پر تمھاری گالیاں جبریل ؑ پر نہیں، بلکہ خداوندِ برتر کی ذات پر پڑتی ہیں۔ [پھر] یہ قرآن سراسر تورات کی تائید میں ہے، لہٰذا تمھاری گالیوں میں تورات بھی حصے دار ہوئی۔۱۰؎

۷- انبیا کے مقابلے میں سرکشی اور سنگ دلی: [سورۂ بقرہ کی آیت ۸۷ میں ان کے ایک سنگین جرم کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے:] پھر یہ تمھارا کیا ڈھنگ ہے کہ جب بھی کوئی رسول تمھاری خواہشاتِ نفس کے خلاف کوئی چیز لے کر تمھارے پاس آیا، تو تم نے اس کے مقابلے میں سرکشی ہی کی، کسی کو جھٹلایا اور کسی کو قتل کر ڈالا۔ [اس کے بعد اگلی آیت ۸۸ میں ان کا یہ قول نقل کیا گیا ہے:] وہ کہتے ہیں: ہمارے دل محفوظ ہیں۔ نہیں، اصل بات یہ ہے کہ ان کے کفر کی وجہ سے ان پر اللہ کی پِھٹکار پڑی ہے، اس لیے وہ کم ہی ایمان لاتے ہیں۔(ایضاً، ص ۹۲-۹۳)

[گویا اُن کا کہنا یہ ہے کہ] ہم اپنے عقیدہ و خیال میں اتنے پختہ ہیں کہ تم خواہ کچھ کہو، ہمارے دلوں پر تمھاری بات کا اثر نہ ہوگا۔ یہ وہی بات ہے جو تمام ایسے ہٹ دھرم لوگ کہا کرتے ہیں جن کے دل و دماغ پر جاہلانہ تعصّب کا تسلط ہوتا ہے۔ وہ اسے عقیدے کی مضبوطی کا نام دے کر ایک خوبی شمار کرتے ہیں، حالانکہ اس سے بڑھ کر آدمی کے لیے کوئی عیب نہیں ہے کہ وہ اپنے موروثی عقائد و افکار پر جم جانے کا فیصلہ کر لے، خواہ ان کا غلط ہونا کیسے ہی قوی دلائل سے ثابت کردیا جائے۔

۸- کتابُ اللّٰہ اور رسولؐ اللّٰہ کی تکذیب:[آیت ۸۹ میں قرآن کے بارے میں ان کے طرزِعمل کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا:] اور اب جو ایک کتاب اللہ کی طرف سے ان کے پاس آئی ہے، اس کے ساتھ ان کا کیا برتائو ہے؟ باوجودیکہ وہ اس کتاب کی تصدیق کرتی ہے جو ان کے پاس پہلے سے موجود تھی، باوجودیکہ اس کی آمد سے پہلے وہ خود کفار کے مقابلے میں فتح و نصرت کی دُعائیں مانگا کرتے تھے، مگر جب وہ چیز آگئی، جسے وہ پہچان بھی گئے، تو انھوں نے اسے ماننے سے انکار کر دیا۔

[پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ] نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کی آمد سے پہلے یہودی بے چینی کے ساتھ اُس نبی کے منتظر تھے جس کی بعثت کی پیشین گوئیاں ان کے انبیا نے کی تھیں۔ دُعائیں مانگا کرتے تھے کہ جلدی سے وہ آئے تو کفار کا غلبہ مٹے اور پھر ہمارے عروج کا دَورشروع ہو۔ خود اہلِ مدینہ اس بات کے شاہد تھے کہ ِبعثتِ محمدیؐ سے پہلے یہی ان کے ہمسایہ یہودی آنے والے نبی کی اُمیّد پر جِیا کرتے تھے اور ان کا آئے دن کا تکیۂ کلام یہی تھا کہ ’’اچھا، اب تو جس جس کا جی چاہے ہم پر ظلم کرلے، جب وہ نبی آئے گا تو ہم ان سب ظالموں کو دیکھ لیں گے‘‘۔ اہلِ مدینہ یہ باتیں سنے ہوئے تھے، اسی لیے جب انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کے حالات معلوم ہوئے تو انھوں نے آپس میں کہا کہ دیکھنا، کہیں یہ یہودی تم سے بازی نہ لے جائیں۔ چلو، پہلے ہم ہی اس نبی پر ایمان   لے آئیں۔ مگر ان کے لیے یہ عجیب ماجرا تھا کہ وہی یہودی ، جو آنے والے نبی کے انتظار میں گھڑیاں گن رہے تھے، اس کے آنے پر سب سے بڑھ کر اس کے مخالف بن گئے۔

اور یہ جو فرمایا کہ ’وہ اس کو پہچان بھی گئے‘ تواس کے متعدد ثبوت اسی زمانے میں مل گئے تھے۔ سب سے زیادہ معتبر شہادت امّ المومنین حضرت صَفِیَّہ کی ہے، جو خود ایک بڑے یہودی عالم کی بیٹی اور ایک دُوسرے عالم کی بھتیجی تھیں۔وہ فرماتی ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے ، تو میرے باپ اور چچا دونوں آپؐ سے ملنے گئے۔ بڑی دیرتک آپ ؐسے گفتگو کی۔ پھر جب گھر واپس آئے، تو میں نے اپنے کانوں سے ان دونوں کو یہ گفتگو کرتے سنا:

چچا: کیا واقعی یہ وہی نبی ہے، جس کی خبریں ہماری کتابوں میں دی گئی ہیں؟ والد: خدا کی قسم، ہاں۔ چچا: کیا تم کو اس کا یقین ہے؟ والد: ہاں۔ چچا: پھر کیا ارادہ ہے؟ والد: جب تک جان میں جان ہے، اس کی مخالفت کروں گا اور اس کی بات چلنے نہ دوں گا۔ (ابن ہشام، جلد دوم، ص۱۶۵، طبع جدید)

[علماے یہود کی اس بے جا ضد اور انکارِ حق پر تبصرہ کرتے ہوئے آیت ۹۰ میں فرمایا گیا:] خدا کی لعنت اِن منکرین پر! کیسا بُرا ذریعہ ہے جس سے یہ اپنے نفس کی تسلّی حاصل کرتے ہیں کہ جو ہدایت اللہ نے نازل کی ہے، اس کو قبول کرنے سے صرف اِس ضد کی بنا پر انکار کر رہے ہیں کہ  اللہ نے اپنے فضل (وحی و رسالت) سے اپنے جس بندے کو خود چاہا، نواز دیا، لہٰذا اب یہ غضب بالاے غضب کے مستحق ہوگئے ہیں اور ایسے کافروں کے لیے سخت ذلّت آمیز سزا مقرر ہے۔

[اس ارشادِ الٰہی کے مطابق:] یہ لوگ چاہتے تھے کہ آنے والا نبی ان کی قوم میں پیدا ہو، مگر جب وہ ایک دُوسری قوم میں پیدا ہوا، جسے وہ اپنے مقابلے میں ہیچ سمجھتے تھے، تو وہ اس کے انکار پر آمادہ ہو گئے۔ گویا ان کا مطلب یہ تھا کہ اللہ ان سے پوچھ کر نبی بھیجتا، جب اس نے ان سے نہ پوچھا اور اپنے فضل سے خود جسے چاہا، نواز دیا، تو وہ بگڑ بیٹھے۔(ایضاً، ص ۹۳-۹۵)

[اس تفصیل سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ تشریف آوری پر،  گروہِ یہود، یثرب کے اندر معاشی، معاشرتی اور سیاسی اعتبار سے ایک قابلِ لحاظ حیثیت رکھتا تھا۔ اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مناسب خیال فرمایا کہ چند شرائط کے ساتھ اُن سے ایک معاہدہ کرلیا جائے۔ نیز درج بالا تفصیل سے یہودِ مدینہ کی مختصر تاریخ، اُن کی اخلاقی اور مذہبی حالت،  ان کے قومی نصب العین (آنحضوؐر سے دشمنی)، اسلام سے ان کے تعصّب اور عناد اور بحیثیت مجموعی ’’ہمچو ما دیگرے نیست‘‘ پر مبنی ان کے منفی رویوں کا بھی اندازہ ہوجاتا ہے۔] (انتخاب، ترتیب و تدوین: عبدالوکیل علوی، حفیظ الرحمٰن احسن، رفیع الدین ہاشمی)

 

بلوچستان، پاکستان کا چوتھا اور رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے۔ یہ کُل پاکستان کا تقریباً ۴۴ فی صد ہے۔ اس اعتبار سے یہ نصف پاکستان کہلانے کا مستحق ہے۔ اپنے منفرد محلِ وقوع کے باعث اس کی جغرافیائی اہمیت میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ دنیا کے مغرب کو مشرق سے ملانے اور وسط ایشیا کے ذخائرِ توانائی کو مغربی منڈیوں تک پہنچانے کا مختصر راستہ فراہم کرتا ہے۔  اس کی طویل سرحدیں افغانستان اور ایران کے ساتھ ملتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سرزمینِ بلوچستان کو بے بہا معدنی دولت اور وسائلِ حیات سے سرفراز کیا ہے۔

بلوچستان میں حالیہ شورش، اضطراب اور بدامنی کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ اس کے    پس منظر کو جاننے کے لیے یہ نکات پیش نظر رہیں تو صورتِ حال کا ادراک کرنا آسان ہوسکتاہے:

 ___بلوچستان کے علاقے سوئی سے معدنی گیس ۱۹۵۳ء میں دریافت ہوئی۔ چند ہی برسوں میں یہ گیس لاہور، اسلام آباد اور پشاور تک پہنچا دی گئی لیکن صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں    یہ گیس ۳۲سال بعد ۱۹۸۵ء میں پہنچ سکی۔ بلوچستان کے کئی چھوٹے بڑے شہر آج تک اس   معدنی دولت سے محروم ہیں،بلکہ خود سوئی شہر کے کئی محلے اور آبادیاں بھی اس نعمت کو ترس رہی ہیں۔

 ___بلوچستان سے نکلنے والی معدنی گیس کی فی مکعب فٹ قیمت دوسرے صوبوں سے دریافت ہونے والی گیس کے مقابلے میں کم رکھی گئی۔ یہ قیمت حالیہ قومی مالیاتی اوارڈ میں یکساں کی گئی۔ اس طرح صوبے کا تقریباً نصف صدی تک استحصال جاری رکھا گیا۔

 ___وفاقی ملازمتوں میں بلوچستان کا کوٹہ صرف ۳ء۳ فی صد تھا جسے چند ماہ پیش تر بڑھا کر ۵ فی صد کر دیا گیا ہے، لیکن اکثر ان ملازمتوں کو دوسرے صوبوں کے افراد سے پُر کر لیا جاتا ہے۔

 ___اکثر علاقوں میں پرائمری اسکول نہ ہونے کے باعث بلوچستان کے ۴۵ فی صد سے بھی کچھ کم بچے پرائمری اسکولوں میں داخل ہوپاتے ہیں۔ ہائی اسکول اور کالج کی سطح پر تعلیم کا اس سے بھی بُرا حال ہے۔ اسی بنا پر بلوچستان میں شرح خواندگی پورے ملک میں سب سے کم ہے۔ سرکاری اعداد و شمار میں ۳۶ فی صد لیکن حقیقت میں اس سے بھی بہت نیچے۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے پورے صوبے کا انحصار صرف صوبائی دارالحکومت کوئٹہ پر ہے۔

 ___بلوچستان میں پینے کے صاف پانی تک صرف ۲۳ فی صد آبادی کو رسائی حاصل ہے، جب کہ ملک کے دوسرے صوبوں میں یہ شرح ۵۵ فی صد کے قریب ہے۔ صوبے میں آج بھی ایسی لاتعداد آبادیاں موجود ہیں، جہاں انسان اور مویشی ایک ہی تالاب سے مہینوں پرانا پانی پیتے ہیں۔ اسی بنا پر بلوچستان میں کالے یرقان کی شرح پورے ملک میں سب سے زیادہ ہے۔

 ___سینی ٹیشن کی سہولت بلوچستان میں صرف ۱۸ فی صد لوگوں کو میسر ہے۔

 ___بجلی صوبے کے ۱۲ فی صد علاقے تک پہنچ پائی ہے، اور گیس کی سہولت والا علاقہ ۵فی صد سے زائد نہیں۔ گویا صوبے کا ۸۸ فی صد بجلی سے اور ۹۵ فی صد گیس سے محروم ہے۔

 ___مواصلات کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ صرف پانچ شاہراہوں سے مستفید ہورہا ہے۔ ان شاہراہوں کی حالت بھی سخت ناگفتہ بہ ہے، جب کہ بین الاضلاعی سڑکیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔

 ___صوبے میں صحت کے معیار کا حال یہ ہے کہ ۳۱ اضلاع میں ماسواے کوئٹہ، کہیں بھی متوسط درجے کی سہولتوں کے حامل ہسپتال نہیں پائے جاتے۔ پورے صوبے کے علاوہ جنوب غربی افغانستان کے پانچ چھے شہروں کا بوجھ بھی کوئٹہ شہر کے چند ہسپتال برداشت کر رہے ہیں۔ دُور دراز سے بغرض علاج کوئٹہ تک کا سفر نہایت پُرصعوبت ہونے کے باعث بہت سے مریضوں بالخصوص حاملہ عورتوں کی اموات کا سبب بنتا ہے۔ دورانِ حمل اور زچگی کی حالت میں خواتین کی اموات بلوچستان میں سب سے زیادہ ریکارڈ کی جاتی ہیں۔

 ___صوبے کے اعلیٰ انتظامی عہدے، مثلاً: آئی جی پولیس، ڈی آئی جی، آئی جی ایف سی، چیف سیکرٹری وغیرہ، نیز اعلیٰ آئینی عہدہ، گورنر صوبہ کے لیے غیربلوچستانی لوگوں کوتعینات   کیا جاتا رہا۔ چند استثنائی صورتوں کے علاوہ آج تک یہ صورت حال برقرار ہے۔ اسے صوبے کے سیاسی و عوامی حلقوں میں وفاق کی طرف سے بے اعتمادی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

 ___بلوچستان کے کم از کم چھے اضلاع (گوادر، تربت، پنج گور، خاران، واشک، چاغی) ایسے ہیں جہاں بنیادی اشیاے ضرورت اور روز مرہ استعمال کی اشیا ناپختہ اور طویل مسافتوں کے باعث پاکستانی منڈیوں سے نہیں پہنچائی جاسکتیں۔ ان اضلاع کے لوگوں کی زندگی کا انحصار ہمسایہ ملک ایران کے ساتھ سرحدی تجارت پر قائم ہے۔ شکر، انڈے اور آٹا تک ایران سے لانا پڑتا ہے۔ کسی وجہ سے یہ تجارت رک جائے تو زندگی مفلوج اور لوگوں کو قحط کا سامنا ہوجاتا ہے، مگر اس کے باوجود پاکستان کی وفاقی ایجنسیوں (کسٹم، ایف آئی اے وغیرہ) کو یہ تجارت پسند نہیں۔ ان ایجنسیوں اور ایف سی کی فائرنگ سے آئے دن ہلاکتیں ہوتی رہتی ہیں۔

یہ وہ چند اہم عوامل ہیں جنھوں نے اہلِ بلوچستان کو وفاق سے بدظن اور دُور لاکھڑا کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صوبے کی اس بدحالی اور پس ماندگی میں خود بلوچستان کے سردار و نواب، بدعنوان سیاست دان، نااہل حکومتیں اور سول و فوجی بیورو کریسی پوری طرح شریک رہی ہیں۔ لیکن وفاقی اداروں کی بے توجہی اور استحصالی کردار بھی اتنا واضح ہے کہ انھیں بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ حقیقت یہی ہے کہ عسکری کارروائی مسئلے کا حل نہیں ورنہ شاید پہلے آپریشن میں ہی مسئلہ حل ہوچکا ہوتا اور ۲۰۰۵ء میں پانچویں فوجی آپریشن کی ضرورت پیش نہ آتی۔

میگا پروجیکٹس اور اُن کی مخالفت

بلوچستان کے بڑے منصوبوں (میگا پراجیکٹس) کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ ان بڑے منصوبوں میں گوادر میں گہرے سمندر کی بندرگاہ، گوادر تا چمن تا وسط ایشیا ریلوے لائن اور شاہراہ کی تعمیر ، ریکوڈک اور سیندک میں سونے اور تانبے کا اخراج، دل بند کے مقام پر لوہے کی دریافت، ایران، پاکستان، بھارت گیس پائپ لائن، چمالنگ میں کوئلے کے لیے کان کنی، اور اب ترکمانستان، افغانستان، پاکستان، بھارت گیس پائپ لائن کی تنصیب کے علاوہ بھی کچھ منصوبے شامل ہیں۔  ان میں سے ہر ایک منصوبہ ٹھیکے دار کمپنیوں کے ساتھ معدنی جنس کی دریافت سے لے کر فروختگی تک مختلف معاہدات کی بے شمار تفصیلات رکھتا ہے۔ اگرچہ یہ تفصیلات معلومات افزا ہیں، تاہم ان کا احاطہ کرنا اس وقت ممکن نہیں۔

 ___ان منصوبوں کے بارے میں بلوچستان کے تمام سیاسی و سماجی حلقے بشمول قوم پرست اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ ان کی دریافت، اخراج اور تجارت پرصوبے کا حق فائق ہے۔

 ___گوادر پورٹ کو چلانے، سیندک اور ریکوڈک سے سونا اور تانبا نکالنے کے حوالے سے وفاق نے اب تک جو معاہدات کیے ہیں اُن میں بلوچستان کو مشاورت میں شریک نہیں کیا گیا۔

اس اصول کی بنا پر بلوچستان کی حالیہ حکومت نے نہ صرف گوادر پورٹ کا حقِ نگرانی   وفاق سے واپس حاصل کرلیا بلکہ ریکوڈک اور وفاق کے درمیان معاہدے کو بھی مسترد کردیا ہے۔ صوبائی حکومت نے قومی مالیاتی و ترقیاتی ادارے کے گذشتہ اجلاس سے ریکوڈک کے نئے منصوبے کی منظوری بھی حاصل کرلی ہے اور وفاق نے یہ منصوبہ صوبائی حکومت کے سپرد کر دیا ہے۔ البتہ  اس وقت یہ معاملہ سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے تحت اُس کے ایک بنچ کے سامنے زیرسماعت ہے۔ پاکستان کے مایہ ناز ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے ریکوڈک کے ذخائر کو صوبے اور ملک کے لیے نہایت قیمتی سرمایہ قرار دیا ہے اور انھیں خود ملکی سطح پر نکالنے کے عزم کا بھی اظہار کیا ہے۔

ایران، پاکستان، بھارت گیس پائپ لائن کے بارے میں مرکزی حکومت کا ابتدائی موقف یہ تھا کہ اس کی گیس بلوچستان کے کسی علاقے کو نہیں دی جائے گی ،بلکہ اسے نیشنل لائن سے جوڑا جائے گا۔ اس بے حکمت موقف کے سامنے آنے پر بلوچستان سے اس پائپ لائن کے تحفظ پر دھمکی آمیز انتباہ جاری کیا گیا۔ ان دھمکیوں کے بعد ہی مرکزی حکومت نے اپنے موقف میں تبدیلی کرتے ہوئے اعلان کیا کہ پائپ لائن کے راستے میں موجود آبادیوں کو یہ گیس فراہم کی جائے گی۔ البتہ تاحال اس منصوبے کے پاکستانی حصے پر کاغذات سے نکل کر برسرِ زمین کام شروع نہیں کیا جاسکا۔

بلوچستان کا ایک سخت گیر حلقہ ان منصوبوں کو لوٹ کھسوٹ اور بلوچ وسائل پر قبضہ گیری سے تعبیر کرتا ہے۔ بالخصوص گوادر بندرگاہ کی مخالفت میں یہ دلیل بھی دی جاتی رہی کہ اس منصوبے سے بلوچ اپنے ہی علاقے میں اقلیت بن جائیں گے۔ بیرونِ صوبہ سے سرمایہ کار، ہنرمند اور مزدور گوادر کی ترقی کے لیے اتنی بڑی تعداد میں لائے جائیں گے کہ مقامی آبادی اُن میں گم ہوکر رہ جائے گی۔ اب اس مخالفت میں تشدد کا عنصر بھی شامل ہوگیا ہے۔ دوسری طرف ان کے تدارک کے لیے  حکومتی کوششیں محض رسمی کارروائی ہیں۔

بلوچستان میں بیرونی مداخلت

صوبے میں جاری تشویش اور بدامنی کے ضمن میں بیرونی مداخلت کی بات مرکزی و صوبائی حکومتوں کے ساتھ ساتھ متعدد سیکورٹی ادارے بھی تواتر سے کر رہے ہیں۔ فی الواقع یہ مسئلہ عوام اور سیاسی جماعتوں سے زیادہ خفیہ اداروں کے دائرۂ فرائض میں آتا ہے۔ وہی اس مداخلت کا کھوج لگانے اور اس کا سدِباب کرنے کے ذمہ دار ہیں، لیکن اُن کی طرف سے غفلت برتی جارہی ہے۔

تاریخی و جغرافیائی تجزیے کے دوران بیرونی مداخلت کے ضمن میں امریکا، بھارت، روس، ایران اور عرب امارات کا نام لیا جاتا ہے۔ ہر ایک ملک کی مداخلت کے لیے وجۂ جواز کے طور پر کئی عوامل بھی پیش کیے جاتے ہیں، البتہ امریکا و بھارت کی مداخلت کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں۔ وسط ایشیائی ریاستوں کو بلوچستان کا تجارتی راستہ مل جانے کی صورت میں روس کی اہمیت بالکل ختم ہوجاتی ہے۔ امریکا خطے میں چین کے اثرورسوخ کو برداشت نہیں کرسکتا اور بھارت کی ازلی دشمنی کا اظہار ناروا مداخلت کی صورت میں ہی ہوتا ہے۔ تاہم، کچھ حلقوں کا تجزیہ ہے کہ گوادر پورٹ کی فعالیت سے چاہ بہار، بندرعباس اور دبئی کی بندرگاہیں غیرمؤثر ہونے کا قوی امکان موجود ہے۔

ٹارگٹ کلنگ، لاپتا افراد اور مسخ شدہ لاشیں

جنرل پرویز مشرف کے دورِحکومت میں بلوچستان کے حالات میں کشیدگی پیدا ہوگئی تھی۔ ابتدا میں قومی تنصیبات پر حملے کیے جاتے تھے۔ بیورو کریسی کی سرپرستی میں تخریبی عناصر کو بھتوں کی ادایگی کے بعد حملے رُک جاتے۔ کچھ عرصے بعد دوبارہ یہ سلسلہ عود کر آتا، بالآخر پالیسی کی تبدیلی کے ساتھ معاملہ کھلی جنگ کی صورت اختیار کر گیا اور سرکاری ایجنسیوں کے اہل کاروں کی    ٹارگٹ کلنگ شروع ہوگئی۔ اسی دوران ۲۰۰۷ء میں نواب محمد اکبر خان بگٹی کو ہلاک کردیا گیا۔    اس اندوہناک واقعے کے بعد جگہ جگہ شورش پھوٹ پڑی۔ اس قتل کو ’پنجابی حملہ‘ قرار دیا گیا اور بلوچستان سمیت کوئٹہ میں پنجابی اور اُردو بولنے والے صدیوں سے آباد افراد پر حملے شروع ہوگئے۔ ۲۰۰۷ء سے لے کر ۲۰۱۰ء تک سیکڑوں آبادکار بے دردی سے ٹارگٹ بنا کر قتل کیے گئے۔ ہزاروں گھرانے خوف و ہراس کا شکار ہوکر نقل مکانی کرگئے۔ ان آباد کار مقتولین میں اعلیٰ تعلیم یافتہ، پیشہ ورانہ ماہرین، اساتذہ، صحافی، ڈاکٹر، انجینیر، سیاست دان اور مزدور شامل تھے۔ انتظامی مشینری پولیس، لیویز اور دوسرے سیکورٹی ادارے مکمل طور پر ناکام رہے اور ٹارگٹ کلنگ روکنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ اس عرصے میں صوبے کے تین آئی جی پولیس اور اتنے ہی آئی جی ایف سی تبدیل کیے گئے۔ ان واقعات کی ذمہ داری چار علیحدگی پسند مسلح تنظیمیں قبول کرتی ہیں جن کا سراغ نہ لگایا جاسکا۔

ان پُرآشوب برسوں میں اغوا نما گرفتاریوں کے ذریعے لوگوں کو غائب کیا جاتا رہا۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ بلوچستان میں گم شدہ افراد کے لیے قائم تنظیم (وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز) نے دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے گیارہ سو سے زائد لاپتا افراد کی فہرست اُس حکومتی کمیشن کے حوالے کی ہے جو ان کی بازیابی کے لیے بنایا گیاہے۔ اس کمیشن نے اپنے قیام یکم مئی ۲۰۱۰ء سے لے کر اب تک صرف ۲۲۵ کیس نمٹائے ہیں جن میں بلوچستان کے محض ۲۳ افراد ہیں۔

حکومت بلوچستان ، انتظامیہ کے افسران اور آئی جی ایف سی، ایک ہزار سے زائد افراد کی فہرست کو مبالغے پر مبنی قرار دیتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اس فہرست میں کئی ایک فرضی نام ہیں، یا وہ مزاحمتی تنظیموں کی طرف سے افغانستان ٹریننگ کے لیے جاچکے ہیں۔ تعجب خیز بات یہ ہے کہ ان گم شدہ افراد کے اغوا یا گرفتاری کی ذمہ داری کوئی حکومتی ادارہ یا مسلح تنظیم قبول کرنے کو تیار نہیں۔

مزید یہ کہ گذشتہ چھے ماہ سے بعض لاپتا افراد کی مسخ شدہ لاشیں ویرانوں سے ملنا شروع ہوگئی ہیں۔ ان کو سر میں گولی ماری گئی تھی یا جسمانی تعذیب کے ذریعے قتل کیا گیا تھا۔ ان میں مزاحمتی تنظیموں کے اہم لوگ اور قوم پرست سیاسی جماعتوں کے کلیدی رہنما بھی شامل ہیں۔    قوم پرست اس کارروائی کا سارا الزام خفیہ ایجنسیوں پر لگاتے ہیں۔ اس دوران میں چند نئی مسلح تنظیمیں بھی سامنے آئی ہیں جنھوں نے ان لاپتا افراد کے قتل کی ذمہ داری یہ کہہ کر قبول کی ہے کہ یہ لوگ وطن دشمن اور بے گناہوں کے قاتل تھے، لہٰذا ہم نے انھیں بطور سزا اغوا کر کے ہلاک کر دیا ہے۔ قوم پرست جماعتیں اور مزاحمتی تنظیمیں اس عمل کو بھی حکومت اور فوج کی سازش قرار دیتی ہیں۔ آبادکاروں کے قتل کے بعد ٹارگٹ کلنگ کا یہ ایک نیا رُخ ہے جس میں بلوچ لیڈرشپ نشانہ بن رہی ہے۔ یہاں تک کہ بلوچستان کے گورنر اور وزیراعلیٰ دونوں پر قاتلانہ حملے ہو چکے ہیں۔

علیحدگی پسندی کا رجحان

اس وقت صوبے کے بلوچ اضلاع میں علیحدگی پسندی کی تحریک پائی جاتی ہے۔ خفیہ ایجنسیوں کے پیچیدہ کردار اور حکومت کی غیرحکیمانہ روش کے باعث دُوریاں بڑھ رہی ہیں۔ بزورِ قوت معاملات کنٹرول کرنے کی پالیسی تنائو میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ حکومت ’آغازِ حقوق بلوچستان‘ جیسے نمایشی اقدامات کرکے مطمئن ہے کہ مسئلہ بلوچستان حل ہوگیا ہے، بالخصوص نوجوانوں اور خواتین میں اس فکر کے اثرات بڑھتے ہوئے محسوس ہورہے ہیں۔ ملکی اداروں اور مختلف شعبوں میں پنجاب کی واضح نمایندگی کے باعث مقتدرہ کو ’پنجابی‘ کی نسبت کے ساتھ ہی یاد کیا جاتا ہے۔

صوبے کے پشتون اضلاع میں یہ تحریک نہیں پائی جاتی اور وہاں امن و امان کی کیفیت بھی خاصی بہتر ہے۔البتہ پشتون قوم پرستوں کی جانب سے اس تحریک کو ایک خاموش حمایت حاصل ہے، اگرچہ مزعومہ آزاد علاقوں کا جغرافیہ پشتون و بلوچ قوم پرستوں کے درمیان سخت متنازع ہے اور کوئٹہ شہر پر طرفین کا دعویٰ اس نزاع کا بنیادی سبب ہے۔ خود بلوچ قومیتیں بھی بہت زیادہ تقسیم کا شکار ہیں۔ قبائل کی باہمی دشمنیاں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہیں۔ سیاسی بلوچ قوت، نوابی و سرداری نظام کی حمایت اور اس کی مخالفت کے اصول پر منقسم ہے۔ اسی طرح اپنے مقاصد اور حقوق کے حصول کے لیے سیاسی جدوجہد یا ریاست کے ساتھ مسلح ٹکرائو کا نظریہ بھی باہمی اختلاف کا باعث ہے۔

سیاسی و سماجی اندازِ فکر

فکری اور تنظیمی دائرۂ کار کے لحاظ سے بلوچستان کی سیاسی جماعتیں دو طرح کی ہیں۔ ایک تو وہ جماعتیں ہیں جن پر علاقائی اور محدود قومی سیاست کا غلبہ ہے، جب کہ دوسری وہ ہیں جو ملک گیر سیاست میں سرگرم ہیں اور بلوچستان کے مسائل پر بھی اپنا نقطۂ نظر رکھتی ہیں۔ اوّل الذکر میں جناب محمود خان اچکزئی کی نیشنل پارٹی نمایاں ہے، جب کہ ثانی الذکر میں پاکستان پیپلزپارٹی،  مسلم لیگ (ن)، مسلم لیگ (ق)، جمعیت علماے اسلام اور جماعت اسلامی قابلِ ذکر ہیں۔

خوش آیند بات یہ ہے کہ یہ سب جماعتیں سیاسی جدوجہد پر یقین رکھتی ہیں اور گفت و شنید اور آئینی اقدامات کے ذریعے مسائل کے حل کی قائل ہیں۔ ملکی آئین کے مطابق انتخابات میں حصہ لیتی ہیں۔ یہ تمام قومی و صوبائی جماعتیں قطعاً ملکی سالمیت کے خلاف نہیں، البتہ پشتون خواہ ملّی عوامی پارٹی ۱۹۴۰ء کی قرارداد کے مطابق پاکستان میں موجود قومیتوں کے درمیان ایک نئے عمرانی معاہدے کا مطالبہ کرتی ہے۔ اس کے خیال میں موجودہ آئین قومیتوں کے حقوق اور تشخص کی حفاظت میں ناکام ہوگیا ہے۔ اس موقف کو اگرچہ ’پونم‘ کی بیش تر جماعتوں کی حمایت حاصل ہے، تاہم حیرت ہے کہ پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی بھی بڑے شدّومد سے اس مطالبے کا اظہار کرچکے ہیں۔ اسی طرح سردار اختر مینگل کی جماعت کشمیر کی مانند ’حق خود ارادیت‘ کا تقاضا کرتی ہے۔ غالباً اس مطالبے کے پس منظر میں بلوچستان کے پاکستان کے ساتھ الحاق کو متنازع نظر سے دیکھنا ہے۔

ہرصوبائی جماعت کے اپنے زاویۂ نظر اور مخصوص طرزِ سیاست کے باوجود، یہ سب جماعتیں وفاقی پارلیمانی نظام کو درست سمجھتی ہیں، تاہم اس نظام میں اصلاحات کی ضرورت محسوس کرتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کا یہ صلح جُو رویہ وفاق کے لیے ایک قیمتی اثاثہ ہے۔ چنانچہ وفاق کو اس اثاثے کے تحفظ کی فکر کرنی چاہیے اور انھیں ردعمل کی طرف دھکیلنے والے اقدامات سے گریز کرنا چاہیے۔

صوبائی جماعتوں کے بالمقابل ملک گیر سیاسی و دینی جماعتوں کی خوبی یہ ہے کہ بلوچستان میں اُن کا اثرونفوذ بلوچ و پشتون سمیت دیگر تمام قومیتوں میں پایا جاتا ہے۔ بہت بااثر قبائلی شخصیات علما، دانش ور اور صحافی ان پارٹیوں میں شامل ہیں۔ ان کے وابستگان میں علیحدگی پسندی یا شدت آمیز فکری عنصر نہیں پایا جاتا۔ دوسری طرف صوبے میں غیرسیاسی معتدل مزاج اور امن پسند عناصر ایک بڑی اکثریت کی صورت میں موجود ہیں۔ صوبے کی تقسیم یا علیحدگی جیسے خیالات سے ان کا کوئی واسطہ نہیں۔

مسئلے کے حل کے لیے سفارشات

افسوس کی بات یہ ہے کہ اس سارے پیچیدہ اور گنجلک ماحول میں سلجھائو کی کوئی معتبر کوشش نظر نہیں آرہی۔ فرائضِ منصبی کے لحاظ سے پارلیمان، مرکزی و صوبائی حکومتیں، عسکری ادارے، انٹیلی جنس ایجنسیاں نہ جانے کیوں معاملے کی حساسیت کا ادراک نہیں کر رہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خطے میں موجود بڑی استعماری قوت امریکا، پوری پاکستانی مشینری کو اپنے نقشۂ کار کے مطابق چلنے پر مجبور کیے ہوئے ہے۔ بھارت و اسرائیل اُسی کی سرپرستی میں افغانستان میں براجمان ہیں اور ایرانی و پاکستانی بلوچستان میں آزادی اور فرقہ پرستی کی فکر کو فروغ دے رہے ہیں۔

پاکستان مخالف قوتیں اس فضا کو اسی وقت اپنے مفاد میں استعمال کرسکتی ہیں جب ان کے لیے حالات سازگار اور بگاڑ موجود ہو، اور مسائل کو بروقت اور صحیح طریقے پر حل کرنے کی کوشش نہ کی جائے، اور یہ سمجھ لیا جائے کہ بس قوت کے ذریعے سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا مسئلے کے پُرامن اور دیرپا حل کے لیے درج ذیل امور پیش نظر رہنے چاہییں:

 ___ اس ضمن میں بنیادی بات جو ہمیشہ پیش نظر رہنی چاہیے وہ یہ ہے کہ استحکامِ پاکستان کی اساس و بنیاد اسلام ہے۔ اسلام کے نام پر ہی یہ ملک بنا تھا اور لوگوں نے عظیم قربانیاں دی تھیں۔ اگر نظریہ پاکستان کو بنیاد نہ بنایا جائے تو پھر اس ملک کی یک جہتی، استحکام اور سالمیت خطرے میں پڑسکتی ہے۔ اس کے نتیجے میں قومیت، علاقائیت، عصبیت اور لسانیت کو فروغ ملے گا اور ملکی استحکام کی مشترکہ اساس منہدم ہوکر رہ جائے گی۔ پھر ہر قومیت اور ہرصوبہ اپنے مفادات کو ترجیح دے گا اور مقدم رکھے گا۔ لہٰذا بلوچستان کی پریشان کن صورت حال کا تقاضا ہے کہ اسلام اور نظریۂ پاکستان کی فکر کا احیا کیا جائے اور لوگوں کو مشترکہ اساس اور دین وایمان کے بنیادی تقاضوں اور اخوت و ایثار کے جذبے کی طرف مؤثر اور بھرپور انداز میں دعوت دی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ قومیت کے استحصال کے خاتمے اور صوبے کے جائز حقوق ترجیحی بنیادوں پر دیے جائیں۔ تمام اسلام پسند اور محب ِ وطن عناصر کو اس کے لیے بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔

 ___ مسئلے کا فوجی حل ممکن نہیں۔ مسئلہ سیاسی ہے اور اس کا حل بھی سیاسی ہی ہوسکتا ہے۔

 ___ تمام متعلقہ عناصر کو افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کرنا ہوگا، اور کوشس کرنا ہوگی کہ مکمل اتفاق راے اور بصورت دیگر اکثریت کے مشورے سے معاملات کو طے کیا جائے۔

 ___ یہ اصول تسلیم کیا جانا چاہیے کہ محض ’مضبوط مرکز‘ کا فلسفہ غلط اور انصاف کے  اصول کے منافی ہے۔ ’مضبوط مرکز‘ اسی وقت ممکن ہے جب صوبے مضبوط ہوں اور کامل ہم آہنگی سے ایک دوسرے کے لیے مضبوطی کا ذریعہ اور وسیلہ بنیں۔

 ___ اس سلسلے میں فوج کا کردار بھی اہم مسئلہ ہے۔ فوج کے لیے ضروری ہے کہ وہ صرف اور صرف دفاعِ وطن کی ذمہ داری سول حکمرانی کے تحت انجام دے۔ساری خرابیوں کی جڑ سیاسی اور اجتماعی معاملات میں فوج کی مداخلت اور ایک مقتدر سیاسی قوت بن جانا ہے۔ چھائونیوں کی ضرورت اگر ملک کے دفاع اور سلامتی کے لیے ہے تو وہ مسئلہ میرٹ پر طے ہونا چاہیے، لیکن  اگر لوگوں کو یہ خطرہ ہو کہ یہ چھائونیاں سول نظام کو اپنے قابو میں کرنے کے لیے ہیں تو پھر اس کے نتیجے میں سول عناصر اور فوجی قوت کے درمیان کش مکش ناگزیر ہوجاتی ہے۔ تحکمانہ انداز بگاڑ پیدا کرتا ہے، اس سے خیر رونما نہیں ہوسکتی۔ اس سے لازماً اجتناب کیا جانا چاہیے۔

 ___ بلوچستان کی کشیدہ فضا اور پاکستان گریز ماحول کو سازگار بنانے کے لیے بڑے پیمانے پر وسیع القلبی، غم خواری اور سخاوت و فیاضی کا رویّہ اپنانے کی ضرورت ہوگی۔ اس بنیاد پر کچھ آئینی و سماجی اقدامات لازمی ہوں گے۔ این ایف سی اوارڈ میں تقسیم وسائل کے اصول کو مزید وسعت دے کر رقبے اور پس ماندگی کو نمایاں اہمیت دینا ہوگی۔ ۱۹۷۳ء کے آئین میں کنکرنٹ لسٹ کی صوبوں کو منتقلی ۱۰ سال بعد ہونا طے تھی، تاہم یہ کام اب ۳۷برس بعد اٹھارھویں آئینی ترمیم کے ذریعے کیا گیا۔ اس پر خلوصِ نیت کے ساتھ فوری عمل درآمد کی ضرورت ہے تاکہ صوبائی خودمختاری کا تصور زیادہ نمایاں ہوسکے۔ اس سلسلے میں مزید آئینی اقدامات کی بھی ضرورت ہوگی۔

 ___ سیاسی فضا کو خوش گوار بنانے کے لیے ہر طرح کے عسکری تشدد کا راستہ بند کیا جائے، مذاکرات سے معاملات طے کیے جائیں، اور جو سیاسی کارکن گرفتار ہیں، ان کی رہائی کا اہتمام کیا جائے۔

 ___ صوبے کو اپنے وسائل پر اختیار دیا جائے اور مرکز سے جو وسائل منتقل ہوتے ہیں، ان میں انصاف اور ضرورت کو ملحوظ رکھا جائے۔ اس سلسلے میں گیس اور معدنیات کی رائلٹی کو نئے فارمولے کی روشنی میں انصاف کے مطابق مقرر کیا جائے۔

 ___ معاشی ترقی کے ثمرات کو علاقے کے عوام تک پہنچانے کا بندوبست ہو۔ اس کے لیے معدنی وسائل کو دریافت کرنے اور ترقی دینے والی کمپنیوں سے جو معاہدے کیے جائیں، ان میں قومی مفادات کو ملحوظ رکھا جائے اور اپنی دولت غیرملکی کمپنیوں کے حوالے نہ کی جائے، بلوچستان کی ترقی اور تعلیم و صحت اوردوسری سہولتوں کو عوام تک پہنچانے میں استعمال کی جائے۔ امید ہے کہ ریکوڈک منصوبے کے بارے میں سپریم کورٹ سے مناسب فیصلہ آئے گا۔

 ___ صوبے میں تعلیم‘ صحت‘ پانی، بجلی اور گیس کی فراہمی وغیرہ کا خصوصی اہتمام کیا جائے اور ملازمتوں پر مقامی آبادی اور صوبے کے لوگوں کو ترجیح دی جائے‘ اور یہ سب کام میرٹ کی بنیاد پر انجام دینے کے لیے مقامی آبادی کی تعلیم‘ پیشہ ورانہ تربیت اور ہنر سکھانے کا انتظام کیا جائے۔

 ___ فرنیٹر کور اور کوسٹل گارڈ کو صرف ساحلی علاقوں اور سرحدوں کی حفاظت کے لیے مختص کیا جائے اور ان کا سول کردار ختم کیا جائے، نیز اسمگلنگ روکنے کے نام پر جو ۵۰۰سے زیادہ چوکیاں قائم کر دی گئی ہیں‘ ان کو ختم کیا جائے۔ اسمگلنگ روکنے کا کام فرنٹیرکانسٹیبلری اور کوسٹل گارڈ سے نہ لیا جائے بلکہ یہ ایکسائز ڈیپارٹمنٹ کی ذمہ داری ہو۔

 ___ گوادر پورٹ کی اتھارٹی میںصوبے کو مناسب نمایندگی دی جائے‘ اس کی ترقی کے پورے پروگرام میں صوبے کی ضرورتوں کو ملحوظ رکھا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ   علاقے کے لوگوں کو ان کا حق ملے‘ زمینوں پر باہر والے قبضہ کر کے علاقے کی شناخت کو تبدیل نہ کر دیں اور جو متاثرین ہیں ان کو قریب ترین علاقے میںآباد کیا جائے۔ نیز اراضی کے بڑے بڑے قطعے جس طرح فوج‘ نیوی اور دوسرے بااثر افراد اور اداروں نے ہتھیا لیے ہیں ان کو سختی سے    روکا جائے اور انصاف پر مبنی شفاف انداز میں پورے علاقے کا ماسٹر پلان ازسرِنو تیار کیا جائے۔

یہی وہ راستہ ہے جس سے بلوچستان ہی نہیں‘ تمام صوبوں اور ملک کے سب علاقوں اور متاثرہ افراد کے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ یہ سب صرف اسی وقت ممکن ہے جب اصل فیصلے پارلیمنٹ میں ہوں، عوام کے مشورے سے ہوں، اور مکالمے کے ذریعے سیاسی معاملات کو طے کیا جائے۔ مخصوص مفادات اور فوجی اور سول مقتدرہ  کی گرفت کو ختم کیا جائے، اور عوام اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے جمہوری اداروں کے ذریعے اپنی قسمت کا فیصلہ خود کریں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ماضی کے تلخ تجربات سے عبرت حاصل کی جائے۔ ملک کی نظریاتی اساس، اسلام جو ملکی استحکام کی واحد بنیاد ہے کو مضبوط بنایا جائے اور بلوچستان کے مسائل کو منصفانہ بنیادوں پر فوری حل کیا جائے، نیز عوام کا استحصال فوری طور پر بند کیا جائے۔ عسکریت یا جبر کے بجاے مذاکرات اور افہام و تفہیم کے ذریعے مسائل کا حل نکالا جائے۔ بلوچستان کی خوش حالی اور استحکام، مستحکم پاکستان میں مضمر ہے نہ کہ علیحدگی پسندی میں۔ اہلِ بلوچستان اسلام پسنداور محب ِ وطن ہیں۔ ان کے دل محبت، اخوت اور جذبۂ ایثار سے ہی جیتے جاسکتے ہیں۔


مولانا عبدالحق ہاشمی ، جماعت اسلامی صوبہ بلوچستان کے سابق امیر ہیں۔

پاکستان میں ہر سال۵فروری کو پاکستان کی مختلف سیاسی پارٹیاں اور خودحکومت بھی  کشمیری عوام کی تحریک آزادی سے اظہار یک جہتی کے لیے  جلسے جلوس، ریلیاں اور دوسرے پروگرام تشکیل دیتی ہیں۔ اخبارات میں مضامین شائع ہوتے ہیں۔ٹی وی پر دستاویزی فلمیں دکھائی جاتی ہیں۔ یہ دن پہلی مرتبہ۵فروری ۱۹۹۰ ء کو منایا گیاتھا۔ اس سے صرف چند ماہ پہلے مقبوضہ جموں وکشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کے لیے جدوجہد شروع ہوئی تھی۔یہ وہ دن تھے کہ جب مجاہدین آزادی جوق درجوق کنٹرول لائن سے آزاد خطے میں داخل ہو رہے تھے۔ یہ وہ نوجوان تھے جو ہندستانی فوج کے آئے دن کے مظالم سے تنگ آچکے تھے۔ انھیں پاکستان کے حکمرانوں سے بھی مایوسی ہی ملی۔

بے نظیر بھٹو نے۱۹۸۸ء میں حکومت سنبھالتے ہی بھارت سے دوستی کی پینگیں بڑھائیں اور جموں وکشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ علانیہ بے وفائی کی ۔ کشمیریوں کے قاتل راجیو گاندھی کا اسلام آباد میں زبردست استقبال کیا گیااور اس کے راستے سے کشمیر نام کے بورڈ تک ہٹوا دیے گئے،تاکہ اس کے ماتھے پر بل نہ آ جائے۔ بھارت کے ظلم و ستم کے باعث سرحد پار کر کے پاکستان آنے والے بے خانماں کشمیریوں کی امداد بند کر دی گئی۔مسلمانانِ کشمیر کے لیے یہ سخت مایوسی کے دن ہوتے اگر کشمیر کی حریت پسند قوم بالخصوص نوجوانوں کو امید اور حوصلے کا پیغام دینے کے لیے جماعتِ اسلامی موجود نہ ہوتی۔یہ ۲۲ برس پہلے کی بات ہے ۔کشمیری حریت پسندجنگ بندی لائن عبور کر کے جیسے ہی آزاد کشمیر پہنچے، جماعت اسلامی انھیںسینے سے لگانے کو موجود تھی۔

اس موقعے پر اس وقت کے امیر جماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین احمدنے کشمیر کی حریت پسند قوم کو حوصلے اور یقین کا پیغام دینے کے لیے اعلان کیا کہ ۵ فروری۱۹۹۰ء کا دن  کشمیری قوم سے یک جہتی کے دن کے طور پر منایا جائے گا۔ حکومت کی مخالفت کے باوجود عوام نے یہ دن بڑے جوش و خروش سے منایا۔اس سے کشمیر کے کونے کونے میںجہاد کا غلغلہ ہو گیا۔یہ جہاد ہی کی برکت تھی کہ مسئلہ کشمیر جو ایک بھولی بسری داستان بن چکا تھاایک بارپھر بین الاقوامی ایشو بن گیا۔

کنٹرول لائن کے اُس پار بھی جماعت اسلامی ہی تھی کہ جس کے تعلیمی اداروں سے پڑھ کر وہ نوجوان نکلے جنھوں نے ڈیڑھ دو صدی کی مجبور و محکوم مسلمان قوم کو آزادی کی راہ دکھائی۔کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ اس بجھی ہوئی خاکستر میں چھپی چنگاریاںیوں شعلہ فشانی شروع کر دیں گی۔ افغان جہاد سے دنیا بھر میں مسلمانوں کا مورال بلند ہونے کے ساتھ ساتھ کشمیری قوم میں بھی آزادی کی تڑپ اورعزم و حوصلہ پیدا ہو ا ۔افغان جہاد نسبتاً آسان تھا ،پاکستان اور ایران نے افغانستان کی آدھی آبادی کو پنا ہ دے رکھی تھی اور ساری دنیاکی سیاسی،سفارتی ، مالی اور جدید ترین اسلحے کی امداد ان کو حاصل تھی۔کشمیریوں کے لیے تو جہاد جوے شیر لانے کے مترادف تھا۔بدی کے محور تین ممالک بھارت، امریکا اور اسرائیل مل کر ان کے خلاف سازشوں کے جال بن رہے تھے۔ دنیا بھر میں   ان کاواحد وکیل ___پاکستان بھی ان کا ساتھ دینے کے لیے تیار نہ تھا۔ وہ ۱۴،۱۵ ہزار فٹ کے بلندو بالا برفانی پہاڑی سلسلے اوربھارت کی سفاک سپاہ کے مورچوں کے بیچوں بیچ سفر کرتے تھے۔ آفرین ہے ان کے حوصلوں کو،پھر بھی وہ سر بکف ہو کرنکلتے اور بھارتی استعمارکا مقابلہ کرتے رہے۔

۵ فروری۔۔۔ پاکستانی قوم سے ایک درد مندانہ اپیل تھی کہ وہ مظلوم اور مقہور قوم جس کا ساتھ دینے کے لیے کوئی تیار نہیں،پاکستان کے عوام اس کی حمایت اور پشتی بانی کے لیے سڑکوں پر نکلیں۔جماعت اسلامی پاکستان کی یہ پکارایسی پر تاثیر ثابت ہوئی کہ ہر شہر اور ہر قریے سے لبیک کی صدائیں آنے لگیں ۔کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھاکہ یہ پکار آن کی آن میں پوری پاکستانی قوم کے اس طرح یک آواز ہو جانے کا سبب بن جائے گی ۔پاکستانی عوام کے دلوں میں کشمیریوں کے لیے محبت اور ہمدردی ہمیشہ سے موج زن رہی ہے۔تاہم حکومت اور سیاسی قائدین اپنے مفادات سے وابستہ رہتے ہیں۔ لیکن۵فروری کی آنچ تیز ہوتی رہی، عوامی جوش وخروش بڑھتا رہا،سیاسی لیڈر بھی اس کو محسوس کیے بغیرنہ رہے۔ پاکستان کی سیاسی پارٹیاں اور بعد میں ہر آنے والی حکومت اس دن کو منانے لگی اور آج بھی یہ عمل جاری و ساری ہے۔ ۵فروری آج ایک قومی دن بن چکا ہے،اس میں مرکزی کردارآج بھی جماعت اسلامی ہی اداکرتی ہے۔اب۵فروری کوسرکاری سطح پر چھٹی ہو تی ہے۔پاکستانی عوام اپنی حکومتوں کی بے حسی کے باوجوداہل کشمیر کو اپنی محبت ،اخلاص اوروفا کا یقین دلاتے ہیں۔اس موقعے پر پاکستان اور آزادکشمیر میں سیاسی اور دینی جماعتوں کی طرف سے پاکستان کو کشمیر کے ساتھ ملانے والے راستوں پر یک جہتی کی علامت کے طور پر انسانی زنجیر بنائی جاتی ہے۔

پاکستانیوں کی اہل کشمیر سے یک جہتی کا اظہارمحض روایتی نوعیت کی ہمدردی نہیں،بلکہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔اہل ِ پاکستان کو اچھی طرح معلوم ہے کہ مسئلہ کشمیر دو مملکتوں کے درمیان کوئی سرحدی تنازع نہیں بلکہ کشمیریوں کی ’حق خودارادیت‘ کی جدوجہد پاکستان کی بقا کی جنگ ہے۔ ۵ فروری نے کشمیریوں کے حوصلوں میں بھی اضافہ کیا۔بھارت کے لیے ہر بستی اوربستی کا ہر گھر مورچہ بن گیا۔ مجاہدین سے مقابلے کے لیے بھارت نے اپنی ۷ لاکھ سے زائد فوج کو کشمیر میں تعینات کر دیا۔اس جدوجہد کے نتیجے میں ایک لاکھ سے زائد کشمیری اور ان کے پاکستانی انصارشہید ہوئے، اس سے زائد زخمی ہوئے اور ہزاروں کو ٹارچر سیلوں میںناقابل بیان اذیتیں دی گئیں اور سیکڑوں خواتین کی بے حرمتی کی گئی ۔ جبروتشدد کرنے والوں نے اذیتوں اور موت سے ڈرانے کی بہت کوشش کی،مگرکشمیریوں کو ان کی اِیمانی توانائی نے موت سے نبرد آزما ہونے کی جرات عطا کی ۔ اللہ کی راہ میں آنے والی موت میں خوف نہیں لذت ہوتی ہے، اور جذبۂ ایمانی کا کیف اس لذّت کو مزید نکھارتا ہے۔ اہل کشمیر اب اس لذّت کے خوگر ہو چکے ہیں۔ وہ آج حق خودارادیت کی جنگ لڑنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے استحکام کی جنگ بھی لڑ رہے ہیں۔

کشمیرکی حریت پسند قوم نے گذشتہ ۲۲ برس سے نہ صرف تحریک آزادی کے جذبے کو ماند نہیں پڑنے دیا بلکہ اسے بحسن وخوبی اپنی چوتھی نسل کو بھی منتقل کردیا ہے۔کشمیری نوجوانوں کی سرفروشی کی اس تحریک نے ایک بار پھر سری نگر سے دلّی اور واشنگٹن کے ایوانوں کو لرزا دیا ہے۔ ۱۷جولائی کوبی بی سی اْردو کی ویب سائٹ پر ایک رپورٹ شائع کی گئی جس میں احتجاجی تحریک میں شامل چند نوجوانوں سے بھارتی فوج پر پتھر برسانے پر رائے لی گئی ۔مائسمہ بازارکے رہنے والے ایک ۱۵سالہ نوجوان ماجد نے بتایاکہ حالیہ تحریک کے دوران اس کے قریبی دوست ۱۷برس کے ابرارکو اس کی آنکھوں کے سامنے گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔ ابرار نے ماجد کی گود میں دم توڑا ، اس کے بعد ماجد نے پڑھائی ترک کر دی اور اس تحریک میں شریک ہو گیا۔

بھارت جسے دنیا کی ’سب سے بڑی جمہوریت‘ اور ’سیکولر‘ ملک ہونے کا دعویٰ ہے کشمیر کے مسئلے پر جمہوریت اور سیکولرازم کے تمام تر اصولوں کو پس پشت ڈال رہا ہے۔ کشمیرکو آزادی دینے سے انکار اور انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی بھارت کے لیے کلنک کا ٹیکا ہے۔ وہ کشمیریوں کو ان کا پیدایشی حق دینے کے لیے کسی طرح تیار نہیں۔ بھارت کشمیریوں کی حق خودارادیت کے حصول کی جنگ کو ’دہشت گردی‘ کہتا، جب کہ خود بھارت انسانیت کو پامال کر رہا ہے۔

نائن الیون کے بعد سابق صدر پرویز مشرف کے دور اقتدار میں کشمیر کی پالیسی کو بھارت کی خاطر تبدیل کر کے تحریک آزادی کشمیر کو شدیدنقصان پہنچایا گیا ۔مشرف نے اقوام متحدہ کی قرارداد وں سے انحراف کی پیش کش کر ڈالی اور تقسیم کشمیر کے فارمولے بھی پیش کیے۔کنٹرول لائن پر کشمیریوں کی نقل وحرکت روک دی گئی اوربھارت کوغیر قانونی باڑ لگا نے کی اجازت دے دی ۔اس طرح مجاہدین آزادی کو ہاتھ پائوں باندھ کر دشمن کے آگے ڈال دیاگیا۔

۲۰۰۸ء میںشرائن بورڈ کے معاملے میںتحریک آزادی نے نئی کروٹ لی ،نوجوانوں کے ہاتھوں میں گن کے بجاے پتھر آگئے۔ مقبوضہ کشمیر میں ہندوؤں کی امرناتھ یاترا کے منتظم ادارے شری امرناتھ شرائن بورڈ کی طرف سے زمینوں پر غیر قانونی قبضے کی کوشش تنازعے کاباعث بن گئی۔ لاکھوں لوگ سڑکوں پر آگئے۔اس کے نتیجے میںباہمی اختلافات کا شکار آزادی پسند قائدین متحد ہوگئے۔بھارت کے غاصبانہ قبضے سے نجات کے لیے تحریک میں اچانک شدت آگئی ۔بھارتی فوج کی گولیوں سے ان گنت نوجوان شہید ہوئے جن میںپیپلز لیگ کے سربراہ شیخ عبدالعزیز بھی شامل تھے۔اس کے باوجود سڑکوں پر نعرے بلند ہوتے رہے: ’’بھارتیو! کشمیر چھوڑ دو‘‘۔ گذشتہ برس جون میں ایک بار پھر تحریک میں شدت آئی۔کئی ماہ تک پوری وادی میں کرفیو نافذ رہا ،۱۱۵ نوجوان فوج کی گولیوں کا نشانہ بن گئے، کاروبار زندگی معطل ہوا ،مگر تحریک وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتی رہی۔سب کا ایک ہی نعرہ ہے: ’’بھارتیو! کشمیر چھوڑ دو‘‘ اور’’پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ‘‘۔ بھارتی یوم آزادی کی تقریب کے دوران وزیراعلیٰ عمر عبداللہ پر جوتا پھینکنے کا واقعہ اہل کشمیر کی نفرت کا اظہار ہے۔اس سے کٹھ پتلی حکمرانوں اور بھارتی ریاست کی دلالی اور غلامی کرنے والوںکے خلاف کشمیر کی نوجوان نسل کی نفرت اور غیظ وغضب کا اظہار ہو تا ہے۔

آزاد کشمیر کو بیس کیمپ کہا گیا تھا ،لیکن بدقسمتی سے اسے مظفرآباد کی کرسی کا ’ریس کیمپ‘ بنادیاگیاہے۔کشمیر میں آزادی کی تحریک عروج پر ہے،لیکن آزاد کشمیر کے سیاست دان آج بھی موجودہ استحصالی نظام کے کل پرزے بنے ہوئے ہیں۔ مفاد پرست طبقے کے ہاتھوںاس خطے میں ادارے تباہ حال اورمفلوج ہوچکے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام اس مرتبہ ایسی قیادت کو ووٹ دیں جو آزاد کشمیر کو واقعی بیس کیمپ بنائے اور آزادی کے لیے جدوجہد میں اپنا حصہ ادا کرے۔

موجودہ انتفاضہ میں یہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ ریاست جموں و کشمیر کاایک ہی لیڈر ہے اور وہ ہے۔۔۔سید علی شاہ گیلانی۔بھارتی میڈیا انھیں نظر انداز کرنے کی کوشش میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ بدقسمتی سے گیلانی صاحب کے ساتھ پاکستانی میڈیا بھی انصاف نہیں کرتااورکشمیر کے قائد کو ان کا جائز حق دینے کے لیے تیار نہیں۔ ۲۰۱۰ء میں کشمیر میںجو بے مثال تحریک چلی، اس میں علی گیلانی کا مرکزی کردار تھااور آج بھی ہے۔یہ کم ظلم نہیں کہ اس  تحریک کو اس کے نظریے اور اس کے قائد سے کاٹ کر دکھایا جارہا ہے ۔مقبوضہ کشمیر سے آنے والے کہتے ہیں کہ پاکستان کا میڈیا اس عظیم عوامی طوفان سے بے خبر کیوں ہے؟ پاکستان میں بھی لوگوں کے سامنے حقائق مسخ کر کے پیش کیے جاتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ میں جو لوگ دیانت دار ہیں وہ کیوں کشمیرکو فراموش کیے بیٹھے ہیں؟

نائن الیون کا بھوت اپنی موت آپ مر چکا ہے ۔اب ہمارے حکمران کیوںبزدلی کا مظاہرہ کر رہے ہیں!!آزاد کشمیر کے مفاد پرست سیاست دانوں کی طرح قومی سیاست دان بھی کشمیرسے لاتعلق نظر آنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب تو کشمیری بچوں کے سامنے بھارت لرزتا کانپتا نظر آتا ہے۔ ابابیلیں اپنی چونچوں میںکنکر لے کرہاتھی والوں پر پل پڑی ہیں۔عنقریب ان کو کھائے ہوئے بھوسے کی طرح کر دیں گی۔ دوسری جانب افغانستان میں بھی مجاہدین نے امریکا اور اس کے اتحادیوں کا بھر کس نکا ل کر رکھ دیاہے۔ عالمی استعمارکو ہر محاذ پر شکست ہو رہی ہے۔ ان شاء اللہ جلد ہی دنیا بھر میں مسلمانوں کو فتح و نصرت کی خوش خبری ملے گی ۔


محترم عبدالہادی احمد ، پندرہ روزہ جہادِ کشمیر راولپنڈی کے مدیر ہیں۔

لورین بوتھ نے جو ایک معروف تجزیہ نگار اور سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیر کی خواہرنسبتی ہیں، حال ہی میں اسلام قبول کیا ہے۔ اس حوالے سے ان کا ایک انٹرویو قدرے اختصار سے پیش ہے جو انھوں نے پریس ٹی وی کے پروگرام ’فیس ٹو فیس‘ میں محمد سعید بھامن کو دیا۔ ترجمہ اویس احمد نے کیا۔ (ادارہ)

قبولِ اسلام کا سفر کیسا رہا۔۔۔آپ کا وہ روحانی سفر کب شروع ہوا تھا جو آج سے چھے ہفتے قبل اسلام کی قبولیت پر منتج ہوا؟

  •  یہ سفربہت دل چسپ رہا۔ عام طور پر جب آپ سفر پر نکلتے ہیں تو آپ کے علم میں ہوتا ہے کہ آپ سفر میں ہیں اور آپ کہاں جا رہے ہیں۔ مجھے تو یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ میں اسلام کی طرف محوِسفر ہوں، پھر اچانک چھے ہفتے قبل منزل مقصود پر پہنچ بھی گئی۔ اس لیے مجھے اندازہ لگاناہو گا کہ میرے سفر کی ابتدا کہاں سے ہوئی تھی کیوں کہ اس کے بارے میں شروع میں بالکل لا علم تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ جب میں نے پہلی بار فلسطین میں قدم رکھا تھا تو وہ علاقہ مجھے اپنا اپنا سالگاتھا، میں نے اس علاقے میں کوئی خاص بات محسوس کی تھی۔ آپ کو کسی علاقے سے انسیت محسوس ہو اور وہاں کے لوگ بھی اپنے لگیں تو یہ بلا وجہ نہیں۔۔۔اس لیے میں سمجھتی ہوں کہ وہی میرے سفر کی ابتدا تھی۔

کسی دوسرے علاقے میں رہتے ہوئے آپ کے لیے یہ محسوس کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا رہن سہن کیسا ہے، حالانکہ اس مقدس سرزمین میں عیسائی بھی رہتے ہیں اور ہمیشہ سے رہتے آئے ہیں۔ وہ بھی آپ کو اسی طرح خوش آمدید کہتے ہیں جو اپنے آپ میں ایک مضبوط تعلق ہے۔ میں نے فلسطین آنا جانا شروع کیا اور خصوصاً مسلمانوں کے گھروں میں گئی وہاںجوکچھ دیکھااسے اُس تصور سے بالکل مختلف پایا، جو مسلمانوں کے بارے میں مغربی نقطۂ نظر سے لکھا اور بیان کیا جاتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ پہلی بار جب میں فلسطین گئی تو سوچ رہی تھی کہ انگریز نسل سے تعلق کی بنا پر مجھے نفرت اور تذلیل کا سامنا کرنا پڑے گا اور مغرب سے ہونے کے باعث مجھے شک کی نگاہ سے دیکھا جائے گا، لیکن میرے شکوک یکسر غلط ثابت ہوئے بلکہ جو کچھ ہوا وہ اس کے بالکل برعکس تھا۔ میں پہلی بار فلسطین گئی تو مجھے وہاں کے بارے میں کتنا کم علم تھا اس کا اندازہ اس بات سے کریں کہ میں جنوری میں وہاں گرم موسم کے لباس میں چلی گئی۔ اس لیے کہ یہ تک نہیں جانتی تھی کہ اس موسم میں وہاںسخت سردی پڑتی ہے۔ میں وہاں پہنچی تو اسرائیلیوںنے میراسامان قبضے میںلے لیا، چوں کہ میں فلسطینی علاقے میںجا رہی تھی۔ اسرائیلوں کو اگر پتا چل جائے کہ آپ ویسٹ بینک یا غزہ جا رہے ہیںتو یہ ایک عمومی کارروائی ہوتی ہے۔ غزہ پہنچی توبارش ہو رہی تھی۔ میں ایک پینٹ شرٹ میں کھڑی کانپ رہی تھی اور ارد گرد بہت سارے عرب مسلمان آجا رہے تھے۔ ایک عرب خاتون میرے پاس آئی اور مجھے اپنے گھرجانے کی دعوت دی۔ اس نے کپڑے بدلنے کے لیے اپنی بیٹی کے کپڑوں سے بھرا ایک سوٹ کیس مجھے پیش کر دیا۔ اسے لوگ کچھ بھی سمجھیں، لیکن یہ واقعہ میرے لیے مسلمانوں کی اس سخاوت کا ایک خوب صورت تعارف تھا، جس کا اس کے بعد مجھے اکثر مسلمان علاقوں میں تجربہ ہوتا رہا۔

آپ کو مسلمانوں کے اچھے برتاؤ نے اسلام کی طرف مائل کیا یا اس کا محرک کچھ اور بھی تھا؟

  •  مجھے علم نہیں تھا کہ میں اسلام کی طرف کھچی چلی جا رہی ہوں۔ میں صرف یہ سوچ رہی تھی کہ فلسطینی بہت اچھے لوگ ہیں۔ ان کا دوستانہ انداز اور ان کی وسعت قلبی میرے لیے ایک نیا تجربہ تھا۔ پھر میری اس سوچ کا دائرہ وسیع تر ہوتا گیا۔ میں دوسرے مسلمان علاقوں میں بھی گئی اور خود برطانیہ میں بھی۔ جب میں غزہ کے بارے کسی تقریر کے دوران اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکتی تھی اور خاموش ہو جاتی تھی (تواکثر صحافی اسے پیشہ ورانہ روایات کے خلاف سمجھتے تھے) لیکن یہ میرے اختیار میں نہیں تھا۔ ایسا ہی جب مسلمان سامعین کے سامنے ہوا تو میں نے عجیب منظر دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ مردبغیر شرمائے اپنے آنسو پونچھ رہے ہیں اور خواتین گرم جوشی سے مجھے گلے لگا لیتی ہیں۔ ان کی یہ گرم جوشی اس سے پہلے میرے لیے وجود ہی نہیں رکھتی تھی اور مجھے ان کا یہ انداز بہت ہی پیارا لگا۔

ہمیں کچھ اس روحانی لمحے کے بارے میںبتائیں جب آپ نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کیا؟

  •  اسلام قبول کرنے کا فیصلہ میں نے نہیں کیا۔ ہوا کچھ یوں کہ میں ستمبر ۲۰۱۰ء میں   القدس ریلی کی رپورٹنگ کے لیے ایران گئی اور وہاں آٹھ دن تک رکی۔ اپنی صحافتی ذمہ داریوں کے بعد آخری دن مجھے تاریخی شہر اصفہان کی سیر کا موقع ملا۔ میری ایک مقامی ساتھی نے کہا : ہم کچھ دیر گھر پر رک جاتے ہیں اور شام کو شہر کی سیر کے لیے نکلیں گے جب شہر کا نظارہ زیادہ خوب صورت ہو گا۔ شام کے وقت میں ایک خانقاہ کو دیکھنے گئی، وہاں میں نے دیکھا کہ بہت ساری خواتین دیوار کی جالیوں کو پکڑے رو رہی ہیں۔ انھیں یوں دیکھ کر مجھے لگا شاید ان کے گھر میں کوئی بیمار ہے یا پھر انھیں کوئی اور مسئلہ درپیش ہے۔ پھر میںنے چند ادھیڑ عمر خواتین کو دیکھا، ان کے آنسو گالوں پر بہہ رہے تھے، مگران کے چہرے دمک رہے تھے، امن و سکون ان کے چہروں سے عیاں تھا۔ میں بھی ان جالیوں کے ساتھ کھڑی ہو گئی اور آنکھیں بند کر کے میں نے سوچا تیرا شکر ہے اللہ تو نے مجھے اس سفر کا موقع عطا کیا۔ میں تو اس کی توقع نہیں رکھتی تھی۔ میں وہا ں مسجد میںبیٹھ گئی۔ سوچا تھاکچھ دیر رُک کر چلی جائوں گی، لیکن جب میں بیٹھ گئی تو مجھے خوشی، امن اور سکون کے ایسے جذبے نے گھیر لیا کہ اب میں وہاں سے ہلنا بھی نہیں چاہ رہی تھی۔ میں ساکت بیٹھی فرش پر نگاہیں گاڑے سوچ رہی تھی کہ درد بھی کوئی چیز ہے؟ کیوں کہ مجھے کبھی زندگی میں اس قدر خوشی اور سکون محسوس نہیں ہوا تھا۔

اسی دوران ایک نوجوان ایرانی لڑکی میری ساتھی کے پاس آئی اور اس سے پوچھنے لگی کہ مجھ سے پوچھے کہ کیا میں اس وقت سکون کی حالت میں ہوں؟ مجھے یاد ہے کہ میں نے سوچا کہ کتنا عجیب سوال ہے، میں سکون کی حالت میں ہی تو ہوں۔ سکون کے علاوہ بھی دنیا میں کچھ ہے؟ اس نے کہا: ہاں، میں جانتی ہوں۔ میں نے تمھیں مسجد میں دیکھا تھا اور مجھے تمھاری کیفیت محسوس ہورہی تھی۔ اس نے پوچھا: کیا میں تمھارے ساتھ بیٹھ سکتی ہوں؟ میں نے کہا: ہاں، کیوں نہیں۔ وہ میرے سامنے بیٹھ گئی۔ کچھ دیر میں اس کی دیگر ساتھی لڑکیاں بھی میرے گرد دائرے میں بیٹھ گئیں۔ ہم وہاں کافی دیر بیٹھے رہے۔۔۔خاموش۔ مجھے نہیں پتا کتنی دیر گزری ہو گی۔ ہم نے مزید کوئی بات نہیں کی، بس بیٹھے رہے۔ پھر اس نے میرے ساتھ تصویر بنوائی کہ وہ اپنے خاوند کو دکھائے گی کہ مسجد میں میرے ساتھ کیا کیفیت گزری۔ کافی دیر بعد میری ساتھی نے کہا کہ اب ہمیں کھانا کھانے جانا ہو گا۔ میں کھڑی ہو گئی اور سوچ رہی تھی کہ اب وہ کیفیت ختم ہو جائے گی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا، میری کیفیت برقرار رہی۔ کچھ کم ضرور ہوئی جب ہم ادھر ادھر چلے پھرے، لیکن خوشی کا وہ احساس اور ہلکا پھلکا پن ساتھ رہا۔ ہم نے کھانا کھایا اورمسجد کے دوسرے حصے دیکھے لیکن میں اس دوران واپس اسی جگہ جانے کے بارے میں سوچتی اور اپنی ساتھی سے پوچھتی رہی کہ ہم وہیں واپس جا رہے ہیں نا۔ میری ساتھی نے بتایاکہ ہمیں واپس اصفہان ہوٹل میں جانا ہے۔ تم کیا کرنا چاہتی ہو؟ میں نے کہا: میں اسی جگہ فرش پر سونا چاہتی ہوں، کیا ایسا ممکن ہے؟ اس نے کہا: ہاں، بالکل ممکن ہے۔ ہم واپس گئے، قرآن پاک پڑھتے رہے اور وہیں اسی فرش پر باقی تمام رات سوتے جاگتے گزار دی۔

کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ کوئی چیز آپ کو اندر سے کھینچ رہی تھی امن اور سکون کی طرف، جسے بعد میں آپ نے سمجھا کہ آپ کو ایک نئے دین کی طرف جانا ہے؟

  •  اگلے دن جب ہم اٹھے تو میں نے اسی مسجد میں فجر کی نماز ادا کی اور وہ میرے لیے واقعی ایک عجیب تجربہ تھا۔ مجھے نماز ادا کرنے کا طریقہ آتا تھا۔ میں نے پہلے سے نماز کا طریقہ سیکھ رکھا تھا کیوں کہ میں برسوں سے مسجدوں میں جاتی رہی تھی اور میں نے جذبۂ احترام کی نیت سے نماز کا طریقہ سیکھ لیا تھا، لیکن اس دن نماز کی ادایگی نے مجھے حیران کر دیا کیوں کہ میں نے کبھی بھی نہیں سوچا تھا کہ میں اسلام قبول کروں گی۔ نماز کے بعد جب ہم مسجد سے نکلے تو میں ایک ہی چیز کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ مجھے اس کیفیت سے نجات حاصل کرنی ہے، کیوں کہ میں جانتی تھی کہ اسلام قبول کرنا بہت مشکل کام ہے اور اگر میری یہ کیفیت جاری رہی تو میرے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہو گا۔ میرے اندر سے ایک اور آواز نے کہا کہ تم اس کیفیت سے نجات کیوں حاصل کرنا چاہتی ہو؟ کیا تم عام دنیا والی اس بھاگ دوڑ والی کیفیت میں واپس جانا چاہتی ہو؟ نہیں۔۔۔میں نے فیصلہ کر لیا کہ نہیں، میں اسی کیفیت میں رہنا چاہتی ہوں۔

گویا اس کیفیت نے آپ کی روح کو جکڑ لیا تھا۔۔۔ لیکن کیا وہ کیفیت اب بھی باقی ہے؟

  •  ہاں۔۔۔کچھ نہ کچھ تو ہر وقت رہتی ہے اورکبھی بڑھ بھی جاتی ہے۔ ایران سے واپس جانے کے تقریباً ایک ہفتے بعد تک میں خوف زدہ تھی۔ میں اپنے اندر کی آواز کو دبا رہی تھی اور کلمہ شہادت پڑھنے سے اپنے آپ کو روک رہی تھی۔ میں خوف کا شکار تھی، میں بہت پریشان تھی کیوں کہ میں نہیں جانتی تھی کہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ پھر ایک دن میں نے غزہ میں مقیم الکفانہ نامی عرب خاندان سے’ سکائیپ‘ پر (بذریعہ کمپیوٹر) رابطہ کیا۔ میں جب غزہ میں تھی تو میں اس خاندان کے ساتھ مقیم رہی تھی۔ وہاں میری ایک بہت پیار کرنے والی ماں ہے، ایک بھائی یاسر اور بھابی ہیں۔ میں نے یاسر سے کہا کہ میرے ساتھ یہ کیفیت ہو رہی ہے اور میں اسلام قبول کرنے کا سوچ رہی ہوں۔ میں ویب کیم پر دیکھ رہی تھی کہ وہ اور اس کی بیوی خوشی سے اچھل پڑے۔ اس نے کہا: جو بھی کرنا ہے سکون سے کرو کیوں کہ تم پرکوئی زبردستی نہیں کر رہا۔

کیا آپ نے اپنے قبولِ اسلام کے ردعمل کے بارے میں سوچا تھا جو یہاں برطانیہ میں ہو گا۔ لورین بوتھ صحافتی دنیا میں ایک بڑا نام ہے۔ وہ اسلام قبول کرلے گی تو میڈیا کا کیا ردعمل ہوگا؟

  •  ایران میں ہونے والی اس خصوصی کیفیت کو دبانے کی کوشش میں اس خوف کا حصہ بھی تھا، لیکن ساتھ ساتھ میرے اندر کی آواز دبتی بھی نہیں تھی۔ مجھے نماز کے درست الفاظ نہیں آتے تھے لیکن میں تین چار مرتبہ نماز پڑھتی تھی۔ صرف سبحان اللہ اور اللہ اکبر کہتی تھی اور رکوع و سجود کرتی جاتی تھی، کیوں کہ مجھے اس کی طلب ہوتی تھی، ہر روز رات کو بھی۔ جہاں تک ردعمل کا تعلق ہے اُس وقت تک میں میڈیا کے بارے میں پریشان نہیں تھی لیکن میں سوچتی تھی کہ اگر میں مذہب تبدیل کرتی ہوں تو مجھے کس حد تک تبدیل ہونا پڑے گا۔ مغربی معاشرے سے اسلامی معاشرت تک کا سفر بہت بڑی تبدیلی کا متقاضی ہو گا۔ میں جانتی تھی کہ اسلام قبول کرنے کے بعد مجھے کس حد تک اندرونی اور بیرونی طور پر تبدیل ہونا ہو گا۔ مجھے اسی کا خوف تھاکہ لوگ کیا کہیں گے، میرے دوست کیا کہیں گے اور اسی وجہ سے میں اپنے آپ کو روک رہی تھی۔ جہاں تک میڈیا کا تعلق ہے وہ بعد کی بات تھی کیوں کہ جب آپ اتنے بڑے مقصد کے لیے جاتے ہیں تو پھر آپ کے پاس زیادہ راستے نہیں ہوتے۔

قبولِ اسلام پر آپ کو اپنے گھر والوں، دوستوں اور رشتے داروں کی طرف سے کس قسم کے ردعمل کا سامنا کرنا پڑا؟

  •  سب سے اہم تو میرا خاندان تھا۔ اس لیے میں نے قبولِ اسلام سے پہلے اپنی ماں اور بہن سے بات کر لی تھی۔ میں نے اپنی والدہ کو اس رات مسجد میں اپنے اوپر طاری ہونے والی کیفیت کے بارے میں بتایا تو وہ انتہائی جذباتی ہو گئیں جیسے کہ وہ میری اس کیفیت کو سمجھ رہی ہوں۔ میری بہن نے اس پر یہ کہا کہ تمھارے دل میں مسلمانوں کے لیے جو عزت اور احترام ہے یہ کیفیت اسی وجہ سے ہے۔ لیکن اگلے ہفتے جب میں واپس گھر میں داخل ہوئی، تومیں نے سر پر اسکارف لیا ہوا تھا۔ ماں نے حیرانی سے پوچھا، تو میں نے کہا: میں نے آپ کو بتایا تھا ناںکہ میں مذہب تبدیل کرنے کا سوچ رہی ہوں، تو میں نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ ان کا ردعمل شدید تھا۔ ان کے لہجے میں حیرت اور غصے کا امتزاج تھا۔۔۔’’اسلام؟ ارے میں تو سمجھی تم بدھ مت کی بات کر رہی ہو‘‘۔ وہ بہت غصے میں تھیں۔ پھر میں نے اپنی والدہ کو بڑی نرمی سے اسلام کے بارے میں بتایا اور مسلمانوں کے اپنے ساتھ رویے کے بارے میں بھی بات کی۔ اس کے بعدوہ کافی حد تک پر سکون ہو گئیں، لیکن میں سمجھتی ہوں کہ وہ اب بھی میرے نئے مذہب کے بارے میں تذبذب اورشک میں مبتلا ہیں۔

کیا اسکارف پہننے کے حوالے سے آپ پر آپ کے ساتھی مسلمانوں نے کوئی دباؤ ڈالا تھا یا پھر یہ آپ کا اپنا فیصلہ تھا؟

  • نہیں۔۔۔بالکل نہیں۔۔۔ کسی نے دبائو نہیںڈالا۔ میری زندگی میں اسلام کے حوالے سے آنے والی کسی بھی تبدیلی میں کسی قسم کے دبائو کا ہر گز کوئی دخل نہیں۔ قبولِ اسلام کے فیصلے اور اس پر عمل کے دوران جو کچھ مجھے بتایا گیا وہ صرف اتنا تھا کہ تم اپنے اللہ کے ساتھ ایک معاہدہ کر نے جارہی ہو اور وہی تمھاری سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرے گا۔ تمھیںکسی سے خوف زدہ ہونے، دبائو محسوس کرنے یا پریشان ہونے کی بالکل بھی ضرورت نہیںاور تمھاری بہترین رہنمائی  اللہ کی کتاب کرے گی جو اللہ کا کلام ہے۔

چند سال پہلے آپ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں ایک تصور رکھتی تھیں، اب جب کہ آپ خود دائرۂ اسلام میں داخل ہو چکی ہیں، تو وہ نظریہ اور تصورکس حد تک تبدیل ہوا؟

  •  میں نے اس سے پہلے اس موضوع پر بات نہیں کی، لیکن یہی وہ بات تھی جس نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا کہ اسلام کس قدر روحانی خوب صورتی کا حامل دین ہے۔ باہر سے دیکھنے والے کے لیے دن میں پانچ وقت نماز ادا کرنا جنونیت، پاگل پن، مشکل اور خوف ناک نظر آتا ہے۔ نماز کے بارے میں میرا نظریہ بھی کچھ اسی قسم کا تھا۔ میں سوچتی تھی اسلام اور مغرب کے درمیان رابطے کے لیے ایک ڈکشنری ہونی چاہیے۔ اس لیے کہ جب مسلمان اللہ اکبر کہتے ہیں، تو سننے والے غیرمسلم اس کا فوری مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم تمھیں قتل کر دیں گے، ہم تم سے نفرت کرتے ہیں،کیوں کہ تم لادین ہو۔ حالانکہ جب مسلمان اللہ اکبر کہتا ہے تو وہ دراصل کہہ رہا ہوتا ہے کہ اللہ سب سے بڑا ہے۔ یہ اپنے اندر ایک انتہائی خوب صورت بات ہے کہ ایک اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی خدا نہیں۔ یہ احساس اور ایمان ہمیں اتنا پر سکون کر دیتا ہے کہ دنیا ایک بہت پرسکون جگہ معلوم ہونے لگتی ہے۔ نہ جانے مغرب میں بیٹھے ہوئے ہمیں یہ کیوں سنائی نہیں دیتا؟ اسی نے اسلام کے بارے میں میرا تصور مکمل طور پر تبدیل کر دیاہے۔

کیا آپ سجھتی ہیں کہ آپ اسلام کا پیغام دوسروں تک پہنچا سکتی ہیں، جو اسلام کے بارے میںغلط تصور رکھتے ہیں لیکن وہ اس پیغام کی سچائی کو سمجھنے والا دل رکھتے ہیں؟

  • میرے خیال میں اُن بہت سارے لوگوں تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے جو کھلا دل رکھتے ہیں اور بات سننا اور اسلام کے بارے میں اس غلط فہمی کو دور کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن میں سمجھتی ہوں بہت سارے لوگ ایسے بھی ہیں جو اس دنیا میں اس قدر مگن ہیں اور ان کے دل نفرت سے اس قدر بھرے ہوئے ہیں کہ میں ان کے بارے میں کچھ زیادہ پرامیدنہیں۔ وہ کبھی یقین نہیں کریں گے کہ ہم مسلمان اس طرح خوش و خرم زندگی بھی گزار سکتے ہیں۔ میں یہاں کہنا چاہتی ہوں کہ گذشتہ ۴۸ گھنٹوں میں مجھے میرے فیس بک، موبائل اور فون پر ۶۰۰ کے لگ بھگ پیغامات موصول ہوئے۔ تقریباً سب کے سب کا آغاز ایک خوب صورت فقرے سے ہوتا ہے:’’ السلام علیکم۔۔۔۔۔اسلام میں خوش آمدید۔۔۔۔ہم سب تم سے بہت محبت کرتے ہیں۔۔۔۔تمھارے قبولِ اسلام سے ہمیں بہت خوشی ہوئی ہے‘‘۔ یہ وہ زبان ہے جو ہم نے کبھی بھی استعمال نہیں کی۔۔۔ اپنے گھر کے افراد میں بھی نہیں اور ہمیں۔۔۔۔برطانیہ اور امریکہ میں رہنے والوں کو اس کا استعمال کس قدر مشکل لگتا ہے۔ میں اسے بچوں کی جیسی معصوم شفقت کہوں گی، کیوں کہ یہ بچوں جیسا معصوم، نازک اور خوب صورت اظہار ہے۔

قبولِ اسلام کے بعد آپ کا اپنی ذات کا تجربہ کیا رہا، کیاروحانی محسوسات رہے؟

  •  میں ایران سے واپس آئی، تو شروع کے دنوں میں جب میں سو کر اٹھتی تھی تو میرے ذہن میں بہت سارے سوالات سر اٹھاتے تھے، مثلاًمیں مسلمان ہوں اس لیے آج کے دن کے لیے میری زندگی کا مقصد کیا ہو؟ میں کیا پہنوں؟ ایک ماں ہونے کے ناتے میرا عمل کیسا ہونا چاہیے؟ یہ سوال خاص طور پر اس وقت ابھرتے جب میں نیند سے جاگتی تھی، لیکن جلد ہی مجھے احساس ہونے لگا کہ میری زندگی کی ڈگر خود بخود درست ہو چلی ہے، مجھے اپنا آپ ہلکا پھلکا لگنے لگا۔ خود بخود میرا رجحان زیادہ حیادار لباس کی طرف ہو گیا۔ میںساری زندگی شراب پیتی رہی ہوں، اسے یکسر چھوڑدیا، اور اس وقت میں زندگی کے اس موڑ پر پہنچ چکی ہوں کہ میں شراب اپنے ہونٹوں سے چھونے کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ ایک رات میں دوستوں کے ساتھ تھی۔ ان کے ساتھ میں نے بھی شراب کی ایک بوتل خرید لی لیکن جب میں نے پہلا گھونٹ لیا تو میں برداشت نہیں کر سکی اور اسے تھوک دیا۔ صرف اس لیے نہیں کہ وہ حرام تھی بلکہ اب میں اسے پینا ہی نہیں چاہتی تھی۔ میرے خیال میں میرے اندریہ ایک بڑی تبدیلی تھی۔۔۔۔اور یہ تبدیلی ایسے آئی جیسے سرے سے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔

آپ کے بچوں کا مذہب کی تبدیلی پر کیا ردعمل تھا؟

  •  میری دو پیاری بچیاں ہیں۔ وہ مجھ سے فلسطین کے بارے میں بہت کچھ سنتی رہتی تھیں۔ ہم تینوں آپس میں بات چیت کرتے تھے کہ غزہ میں کیا ہو رہا ہے؟ فلسطینیوں کے ساتھ کیا مظالم ہورہے ہیں؟ اس لیے وہ میری ملازمت کی زندگی کے حوالے سے کافی حد تک پہلے سے آگاہ تھیں۔ اب جب گذشتہ دنوں میں ایران سے واپس آئی اور اپنے تجربے کے بارے میں ان کو بتایا تو انھیں بھی بہت خوشی ہوئی۔ لیکن جب میں نے ان سے پوچھا: ’’ اگر میں مسلمان ہو جائوں تو؟‘‘ اس پرانھوں نے کہا: ٹھیک ہے لیکن ہمارے کچھ سوالات ہیں۔ انھوں نے بہت سنجیدگی سے میرا انٹرویو لیا ۔ انٹرویو کا ماحصل یہ تھا کہ مسلمان ہونے کے ناتے میں کیسی ماں ثابت ہوں گی۔ پہلا سوال یہ تھا: کیاآپ شراب پیئیں گی؟ میں نے کہا: نہیں۔ اس پر انھوں نے بہت خوشی کا اظہار کیا۔ دوسرا سوال۔۔۔سگرٹ  پیئیں گی؟ میں نے جواب دیا: میں یہ بری عادت ترک کرنے کی بھی پوری کوشش کروں گی، اس پر ان کی خوشی دیدنی تھی۔ تیسرا سوال یہ تھا کہ آیا میںتنگ مغربی لباس پہناکروں گی؟ میں نے پوچھا ،کیا مسلمان ایسا لباس پہنتے ہیں؟ تو میری بیٹیوں نے کہا: نہیں، لیکن آپ پہنتی رہی ہیں اور ہمیں یہ بالکل اچھا نہیں لگتا۔ میں نے کہا کہ ایک مسلمان کی حیثیت سے میں ہمیشہ باحیا لباس پہنوں گی اور یہ میرا تم سے وعدہ ہے۔ اس پردونوں نے مل کرنعرہ لگایا: We Love Islam (ہمیں اسلام سے پیار ہے)۔ اب میری سات سالہ بیٹی فجر کی نماز کے لیے صبح چھے بجے اٹھتی ہے۔ ویسے ان کے لیے اسلام کوئی بالکل نئی چیز نہیں تھا۔ ان کی ماں بہت عرصے سے مسلمان علاقوں میں جا کر کام کرتی تھی اور انھیں پتا تھا کہ وہاں کوئی خطرے کی بات نہیں، بلکہ ان کی ماں وہاں جانے کے باعث ایک بہتر ماں بن گئی ہے اور اس سے بڑھ کر انھیں کیا چاہیے تھا۔

قبولِ اسلام کے بعد آپ مختلف علما سے ملی ہوں گی ، تو انھوں نے آپ کو کیا بنیادی نصیحت کی؟

  •  مجھے جو سب سے اہم اور بنیادی نصیحت کی گئی وہ یہ ہے کہ آہستہ آہستہ آگے بڑھنا ہے۔ ہر گز یہ امید نہ رکھو کہ تم ایک رات میں ہی اسلام کے بارے میں سب کچھ جان لو گی اور نہ کوئی اور تم سے یہ امید رکھے۔ مجھے جوکچھ ابتدا میں سمجھ نہیں آیا وہ یہ تھا کہ در اصل اسلام کا ۹۰ فیصد حصہ ہائی جین اور صفائی پر مشتمل ہے۔ جہاں تک میری سمجھ میں آیا ہے اگر اسلام کو یک دم سمجھ لینے کی کوشش کی جائے تو انسان گھبر ا سا جاتا ہے۔ جس عالم کے ہاتھ پر میں نے لندن کی ایک مسجد میں اسلام قبول کیا، انھوں نے مجھ سے کہا: لورین!جلد بازی مت کرنااور آہستہ آہستہ آگے بڑھنا،اللہ تمھارا انتظار کر رہا ہے۔ ان لوگوں کی ہر گز پروا نہ کرو جو تمھیں کہیں کہ تمھیں ہر حال میں یہ کرنا پڑے گا، یہ پہننا پڑے گا، بال ایسے رکھنے ہوں گے،اس کے بجاے اپنے دل کی آواز کی پیروی کرنا۔قرآن کی پیروی کرو اور اللہ سے ہدایت طلب کرتی رہنا۔

میں نماز ادا کر رہی ہوتی ہوں تو نماز میں میرا سب سے پسندیدہ عمل سجدہ کرنا ہوتا ہے۔ میں سجدے میں جاتی ہوں اور دنیا سے رابطہ کٹ کر اللہ سے تعلق استوار ہو جاتا ہے تو میں ایک عجیب سا سکون محسوس کرتی ہوں۔اسلامی دنیا سے باہر کوئی بھی سکون کے اس تجربے کامشاہدہ نہیں کرسکتا۔ (مسکراتے ہوئے) آپ مسلمانوں نے ایک بہت بڑاراز چھپا کے رکھا ہوا ہے ۔ کسی نے مجھ سے پوچھا،تم نے مستقبل کے بارے میں کیا سوچ رکھا ہے، تو میں نے جواب دیا: جب میں نماز پڑھ رہی ہوتی ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے ،کوئی اور میرے مستقبل کے بارے میں منصوبہ بندی کررہا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں خود کچھ نہیں کرتی۔ میں روزمرہ کے سارے کام کرتی ہوں۔ میں بیک وقت ایک ماں، ایک صحافی اور ایک اچھی ساتھی کے طور پر بہترین خدمات سر انجام دینے کی کوشش کرتی ہوں، لیکن جہاں تک مستقبل کی منصوبہ بندی کا سوال ہے، تو میں کوئی منصوبے نہیں بناتی۔ میں صرف یہ کہتی ہوں کہ اے اللہ! میرے بارے میں تیرے جو بھی فیصلے ہیں وہ مجھے منظور ہیں اور یہی میری زندگی میں آنے والی سب سے بڑی تبدیلی ہے۔ اب میں جس حقیقت میںرہ رہی ہوںوہ فلموں میں دکھائی جانے والی مغربی حقیقت سے بالکل مختلف ہے۔ میں نے اس عظیم جھوٹ کا مشاہدہ بھی کر لیا جو ہماری جدید مغربی زندگیوںکاظاہری چہرا ہے؛ جہاں مادہ پرستی، جنسی اختلاط  اور نشے میں ابدی سکون حاصل کیا جاتا ہے۔

ایک عیسائی کے طور پر بھی انسانیت کے لیے آپ کی خدمات قابل قدر ہیں۔ اب، جب کہ آپ مسلمان ہو چکی ہیں تو آپ کے ذہن میں کیا نقشہ ہے کہ ایک مسلمان کے طور پر آپ کیا کرنا چاہیں گی؟

  • میں سوچتی ہوں اللہ مجھے ہمت دے کہ میں فلسطین کی وہ کہانی دنیا کے سامنے لائوں جو ۱۹۴۸ء سے اب تک دنیا سے پوشیدہ ہے، کیوں کہ فلسطینیوں کی کہانی تب سے اب تک کسی نے نہیں سنی، کسی نے نہیں چھاپی اور نہ دنیا ہی اسے ہضم کرنے کو تیار ہے۔

برطانیہ میں بہت سارے اہم اور اچھے مسلمان رہنما موجود ہیں جو بہت اہم کام کر بھی رہے ہیں ۔ ہمارے پاس بہت سے اچھے مسلمان ماہرین تعلیم ، علما، سیاست دان اور پارلیمنٹ کے اراکین موجود ہیں۔ برطانیہ میں مسلمانوں کے بارے میں معلومات کی کمی ہے۔ میری کوشش ہوگی کہ میں برطانوی عوام کو یہ باور کرا سکوں کہ مسلمان کوئی عجیب قبیلے کے لوگ نہیں نہ ان کے ہاں کوئی خوف ناک قسم کی چیزیں ہی ہو رہی ہیں۔ وہ تو ایک اچھے خاندان کی مانند ہیں اور اسلام ایک قدرتی دین ہے جو ساری دنیا کو خوش رکھ سکتا ہے۔ بس یہی وہ چیز ہے جو  مجھے کرنی چاہیے۔

کیا آپ پہلے سے مذہبی رجحان رکھتی تھیں؟ کیا آپ اللّٰہ پر ایمان رکھتی تھیں یا یہ سب اچانک ہو گیا؟

  •  میں نے جس گھرانے میں پرورش پائی ہے وہ کچھ زیادہ مذہبی گھرانہ نہیں تھا۔ میرا باپ کیتھولک عیسائیت چھوڑ چکا تھا اور میری ماں کسی حد تک خدا کے وجود پر یقین رکھتی تھی۔ جہاں تک مجھے یاد ہے میں بہت زور و شور سے دعائیں مانگا کرتی تھی۔ جب میں سونے کے لیے لیٹتی تھی تو میں اہتمام سے دعائیں مانگتی تھی اور مجھے ہمیشہ سے یقین تھا کہ خدا کہیں موجود ضرور ہے۔ مجھے ایک واقعہ یاد ہے کہ میں نے ’برائونیز‘ نامی ایک عیسائی کلب میں شمولیت اختیار کی تھی۔ ایک دن میں چرچ میں صلیب کے نشان کے پاس گئی اور پھر ایک دم ایسے پیچھے ہٹ گئی جیسے میں کسی عظیم ہستی کے سامنے موجود ہوں، جیسے سب عیسائی کرتے ہیں۔اس نظریے کا اسلام میں کوئی وجود نہیں۔ یہ عیسائیت کا حصہ ہے، لیکن میں سمجھتی ہوںکہ میرے اندر ابتدا ہی سے ایک عظیم ہستی کے وجود کا احساس تھا۔

کیا آپ سمجھتی ہیںآپ کا وہ احساس اور یقین کسی بہتر نظریے میں تبدیل ہو گیا ہے؟

  •  ہاں، یہ ایک بہت خوب صورت احساس اور ایمان میں تبدیل ہو گیا ہے۔ ایک اور اہم بات یہ ہوئی کہ مجھے حضرت عیسٰی ؑ کو بھی نہیں چھوڑنا پڑا۔ میں سمجھتی ہوںحضرت عیسیٰ ؑکو سب سے زیادہ جاننے والے لوگ مسلمان ہیں، کیوں کہ جن نام نہاد عیسائیوں کو میں جانتی ہوں مسلمان اس عظیم پیغمبر کے بارے ان سے زیادہ جانتے ہیں۔ یہ میرے لیے بہت حیران کن تھا کہ میں نے حضرت مریم ؑ ،حضرت عیسٰی ؑ اور دنیا میں گزرے ان کے وقت کے بارے میں جو کچھ اب جانا ہے ، عیسائی ہوتے ہوئے نہیں جانتی تھی۔

کیا آپ کو اپنائیت کا احساس ہوتا ہے کہ آپ مسلم امہ کا حصہ بن گئی ہیں، کیوں کہ آپ نے کہا ہے قبولِ اسلام سے پہلے آپ کا مسلم معاشرے کے بارے میں نظریہ کچھ اور تھا؟

  •  میرے خیال میں تو یہی حقیقت میں اصل امت اوراصلی معاشرہ ہے۔جب میں ایران کی مسجد میں تھی اور مجھ پر سکون کی کیفیت طاری تھی اور ایک نوجوان لڑکی جس نے میری کیفیت کو بھانپ لیا اور مجھ سے ملی، جانے سے قبل مجھ سے گلے ملی اور مجھے کہا :I love you (میں تم سے محبت کرتی ہوں)۔ میں اس سے پہلے کبھی اسے نہیں ملی تھی اور جب میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا تو مجھے لگا کہ وہ میری بیٹی ہے، میرے لیے سب کچھ ہے اور ہم ایک ہیں۔ میں کہوں گی کہ ہم ایک اُمت کا حصہ تھے۔۔۔۔۔ایک اصل امت کا۔ ہمارے درمیان جس محبت کا اظہار ہو رہا تھا اس نے میرے اندر احساس پیدا کیا کہ میں سیر کرنے آئی ہوئی، بیرونی دنیا کی انسان نہیں، اسی امت کا حصہ ہوں۔

آپ کی یہ کیفیت قبولِ اسلام سے قبل ہوئی تھی؟

  •  یہ میرے قبولِ اسلام سے قبل ہوا۔ اس وقت میں نے کلمۂ شہادت نہیں پڑھا تھا ، لیکن شایدوہی میرا قبولِ اسلام تھا یا پھر اس عمل کا ایک حصہ تھا۔ اب میں کہہ سکتی ہوں کہ میرا دل اسی وقت مسلمان ہو گیا تھا، لیکن میں نے اس کا فیصلہ نہیں کیا تھا۔ مجھے اتنا احساس ضرور تھا کہ کوئی بہت اہم بات ہو گئی ہے اور اس سے جدا ہونا بہت مشکل ہو گا۔ ایسا ہی ہوا جب میں واپس لندن چلی گئی اور مجھے بار بار نماز ادا کرنے کی طلب ہوتی تھی ، میں نے سوچا مجھے کیا ہو رہا ہے۔ میں نے کچھ علما سے مشورے کے لیے رابطہ کیا تو انھوں نے پوچھا کیا تم نماز ادا کر رہی ہو؟میں نے کہا: ہاں۔ پوچھا کتنی بار؟ میں نے کہا: دن میں پانچ بار۔ انھوں نے پوچھا کیا تم اللہ کی عبادت کر رہی ہو ؟میں نے کہا: ہاں۔ تو جواب ملا پھر ہمارے پاس کیا کرنے آئی ہو،تم اللہ کی عبادت کرتی ہو اور قبولِ اسلام کے بارے میں سوال کر رہی ہو، تم توپہلے ہی سے مسلمان ہو۔

مغرب میں اسلام فوبیا، اسلام کے خلاف نفرت کے رویے کو کم کرنے یا اسے ختم کرنے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے؟

  •  میرے خیال میں مغرب میں جس اتحاد کا مظاہرہ بہت سارے جلسوں جلوسوں میں کیا گیا ہے، جیسے عراق جنگ کے خلاف مارچ جس میں لگ بھگ ۱۰ لاکھ لوگوں نے شرکت کی تھی اور وہ مختلف مذاہب، رنگوں اور نسلوں سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے، میرے خیال میں اسی قسم کا اتحاد تبدیلی لائے گا۔ اس کے علاوہ ان سیاست دانوں کے خلاف حمایت حاصل کی جائے جو مسلمانوں کو نشانہ بنانے میں زیادہ تیزی دکھاتے ہیں، جیسے اس نظریے کے تحت کہ مسلمان نوجوان دہشت گرد ہوسکتا ہے’روکو اور تلاشی لو‘ جیسے قوانین میں مسلمانوں کو نشانہ بنانا وغیرہ۔ اگر ہم ایسے لابی گروپ بنالیں یا ان میں شمولیت اختیار کریں اور متحد ہو کر کہیں کہ پارلیمنٹ کو صرف شہری حقوق پرزور دینا چاہیے، صرف انسانیت کو فوقیت دی جائے، آئیں! اس غیر انسانی رویے کو روکیں، یہاں صرف انسانی حقوق کی بات ہونی چاہے؛ تو ہم کافی تبدیلی لا سکتے ہیں۔

ترقی پسند اور کامیاب برطانوی خواتین کیوں اسلام قبول کررہی ہیں؟ آپ اس پر کیا تبصرہ کریں گی؟

  •  میرے خیال میں یہ اُس مغربی سوچ سے بغاوت اور تردید ہے جو عورت کی آزادی کا مطلب یہ لیتی ہے کہ اسے حق ہے کہ وہ ہر ممکن حد تک ، ہر ممکن موقعے پر ممکن حد تک مختصر لباس پہنے۔ ہم نے اپنے آپ کو ایسا ہی بنا لیا ہے۔ یہ رجحان ۵۰ کی دہائی میں پھیلنا شروع ہوا جب عورتوں نے کارکن طبقے میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ پھر اگلے دو عشروں میں گلیمر آ گیا۔ اس کے بعد جنسی انقلاب آ گیا۔اس عمل میں خاندان کا ادارہ بہت حد تک پسِ منظر میں چلا گیا اور اس سارے عمل نے ماں کے کردار کو بُری طرح متاثر کیا۔ کیوں کہ اگر ہم اپنے ایک معاشرتی ستون کے کردار کو چھوڑیں گے تو اس کا مطلب ہے ہم دراصل کسی اور کردار کو اپنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مغرب میں جو دوسرا کردار ہم نے اختیار کیا، بلکہ مکمل طور پر اپنا لیا  اس کا تقاضا یہ ہے کہ ہم جب اور جہاں تک ممکن ہو مردوں کے لیے جاذب نظر دکھائی دیںاور جب تک ممکن ہو اپنی ملازمتوں میں کامیابیاں حاصل کرتے رہیں۔یہ سب کچھ حاصل کرتے کرتے ہم نے اپنے خاندان کے ادارے، اپنی ذاتی زندگیوں اور اپنے معاشرے کو غیر اہم بنا دیا ہے۔ اس لیے ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج کل بہت ساری خواتین اس مصنوعی زندگی کے دائرے سے نکل کر اپنے اصلی کردار کی طرف آرہی ہیں۔

مغرب میں حجاب کسی حد تک خواتین کے لیے تعلیم کے حصول یا زندگی میں آگے بڑھنے اور ترقی میں رکاوٹ ہے ، آپ کی رائے کیا ہے؟

  •  یہ بہت اہم سوال ہے۔ ہمارے ملک میں موجود قوانین ، خصوصاً وہ جو مختلف مذاہب اور کلچر کے لوگوں کو مغربی معاشرے میں ضم کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں ، باحجاب خواتین کے لیے مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ میں اگر اپنا تجربہ بیان کروں تو اپنے ۱۳ سالہ صحافتی تجربے کے باوجود میں پچھلے ایک ہفتے میں دو ملازمتیں صرف اس وجہ سے کھو چکی ہوں کہ میں حجاب لیتی ہوں۔میں  اس پر مزید تبصرہ نہیں کروں گی کیوں کہ مجھے ابھی اسے ثابت کرنے میں وقت لگے گا،لیکن مجھے   ان دواداروں نے ملازمت سے فارغ کردیا ہے جن کے ساتھ میں لمبے عرصے سے کام کر رہی تھی، کیوں کہ میں نے حجاب لینا شروع کردیا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ معاشرہ حجاب قبول کرنے سے انکاری ہے؟

  •  ہمارے معاشرے میں باپردہ خواتین کے بارے میں دو نظریات ہیں: ایک تو یہ کہ مسلمان خواتین اپنے گھروں میں دبائو والے ماحول کی وجہ سے دبی ہوئی اور شرمیلی ہوتی ہیں۔ دوسرا یہ کہ اپنے اسلامی پس منظر کی وجہ سے دہشت گرد اور خطرہ سمجھی جاتی ہیں۔ تاہم مجھے نوکری سے نکالنے کے لیے بہانہ یہ بنایا گیا کہ معلوم نہیںتمھیں دیکھ کر ہمارے قارئین کس ردعمل کا اظہار کریں۔مجھ سے کہا گیا کہ وہ ’پیغام‘ جو تم دے رہی تھیں اب بدل گیا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ یہ دراصل مذہبی نفرت اور مذہبی تعصب کا اظہار ہے۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ رکاوٹ اس وجہ سے ہے کہ اللہ نہیں چاہتا کہ ہم یہ کام کریں اور جونئے دروازے ہمارے لیے کھلیں گے وہی اس کے پسندیدہ ہوں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ میں کہوں گی کہ اس ملک میں یہ تعصب موجود ہے اور میں اس کی گواہ ہوں۔

آپ باحجاب خواتین کو کیا مشورہ دیں گی کہ وہ اس صورت حال سے کیسے نمٹیں؟

  • میرا پہلا مشورہ تو یہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ حجاب لینے والی خواتین سے لوگ سوال کرتے ہیں کہ وہ حجاب کیوں پہنتی ہیں؟ خواتین جواب نہیں دیتیں یا ایسے لوگوں سے کتراتی ہیں کہ یہ ایسے فضول سوال کیوں کر رہے ہیں، کیوں کہ آپ خود جانتی ہیں کہ آپ ایسا کیوں کر ہی ہیں۔ دراصل یہ لوگ ہمیں اور ہمارے حق کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں،تاہم یہ چاہتے ہیں کہ انھیں اصل بات پتا چلے ۔ میرے خیال میں انھیں مطمئن کیا جانا چاہیے ۔ مسکرا کر پورے اعتماد سے انھیں جواب دینا چاہیے۔ یہ ایک بات چیت سارا ماحول تبدیل کر سکتی ہے۔ وہ آپ سے پوچھیں گے کہ آپ کیا کرتی ہیں، تو انھیں بتایا جائے کہ آپ یونی ورسٹی جاتی ہیں اور اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہیں وغیرہ۔ پھر وہ آپ سے مزید سوال کریں گے اوریوں معاشرے میں وہ تبدیلی آئے گی جو اس وقت رابطے کی کمی کی وجہ سے ممکن نہیں ہے اور میڈیا کی غلط سلط معلومات کی وجہ سے ایک غلط تاثرعام ہوچکا ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ وہ بے چارے برطانوی لوگ جو مسلمانوں کے بارے میں شدید رویہ رکھتے ہیں سارے شدت پسند نہیں، بلکہ کنفیوزہیںاور ان کی کنفیوژن دُور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم جب یہ کہتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں تعصب ہے، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم کوشش ہی نہ کریں۔ ہمیں ملازمتوں کے لیے کوشش کرنی چاہیے، ہو سکتا ہے کہ اس طرح      ہم مغرب کا مسلمانوں کے بارے میں غلط تاثر ختم یا کم کرنے میں مددگار بن سکیں۔ یقیناآپ اپنی صلاحیت اور دانش مندی سے کسی نہ کسی کو تو مطمئن کر پائیں گے ۔ اس لیے اپنا اعتماد بحال رکھیں، تعلیم حاصل کریں ، لوگوں سے کھلے ذہن سے ملیں، آپ یقینا مجھ جیسے لوگوں تک پہنچ جائیں گے۔

آپ کے قبولِ اسلام پر مغربی میڈیا نے تنقید کی- کیا آپ سمجھتی ہیں کہ آپ جیسی کامیاب خواتین کے قبولِ اسلام سے کوئی مثبت تبدیلی رونماہو سکے گی؟

  • ہاں، میرے قبولِ اسلام پر بہت سارے تبصرے سننے کو ملے۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ میری زندگی میں کوئی مسائل تھے اس لیے میں نے اسلام قبول کیاہے، جیسے کہ شاید صرف وہی لوگ اسلام قبول کرتے ہیں جن کی زندگی مسائل کا شکار ہو جاتی ہے۔ بعض کا تبصرہ اس سے بھی زیادہ شدید تھا کہ یہ تو ہمیشہ سے ہی شدت پسند تھی، اسی لیے مشرق وسطیٰ کے دورے کرتی تھی اور فلسطین کے مسلمانوں کی کہانیاں لکھتی تھی۔ لیکن میں سمجھتی ہوں ایک بار جب ردعمل تھمے گا ، گرد   بیٹھ جائے گی اور اصل بحث کا آغاز ہو گا، تو عورتوں کا ہمارے غیر مسلم معاشرے میں مقام متعین ہوگا۔ تب میں کہوں گی کہ اپنے معاشرے پر نظر ڈالواوردیکھو کہ تم عورتوں کے ساتھ کیسا سلوک کررہے ہو۔ صرف برطانیہ میں اوسطاً ہر ہفتے دو خواتین شوہروں اور ساتھیوں کے ہاتھوں قتل ہو جاتی ہیں۔ یہ مسلمان تو نہیں کر رہے، یہ تو ہم ہیں بلکہ مغربی معاشرہ ہے جس نے اس کی اجازت دے رکھی ہے۔ ساری دنیا میں عورتوں کے ساتھ زیادتی کے مقدمات میں سب سے کم سزائیں یورپ دے رہا ہے۔ کیا ہم اس بارے میں غور کر سکتے ہیں؟ کیا ہمیں عورتوں کے ساتھ اس زیادتی پر بھی غصہ آتا ہے؟ (بہ شکریہ جہاد کشمیر، راولپنڈی، دسمبر ۲۰۱۰ء، جنوری ۲۰۱۱ء)

اللہ سے غافل اہلِ دولت و ثروت اور حکومت اپنی قوت، حکمت اور عیارانہ سیاست کے زعم میں، اور اپنے سرپرستوں کی دنیوی طاقت اور تائید کے بھروسے پر، اپنے اقتدار کو ناقابلِ شکست سمجھ لیتے ہیں، اور ساری منصوبہ بندیاں اس طرح کرتے ہیں کہ جیسے ان کی حکمرانی اور بالادستی کو دوام میسر رہے گا۔ وہ تاریخ کے نشیب و فراز سے بے پروا ہوکر اصل بالاتر قوت کی تدبیر کے امکانات کو ایک لمحے کے لیے بھی لائقِ توجہ نہیں گردانتے، اور قوت کے نشے میں مست ہوکر اپنی  من مانی کرنے میں مصروف رہتے ہیں اور ایسے ایسے کھیل کھیلتے ہیں کہ انسان تو کیا فرشتے بھی ششدر رہ جاتے ہیں۔ لیکن پھر قدرت کا ایک جھٹکا ان کے سارے شیش محل کو چکنا چور کردیتا ہے، اور ان کی ساری تدبیریں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ زمین و آسمان کے خالق و مالک نے سچ کہا ہے کہ وَ مَکَرُوْا وَمَکَرَ اللّٰہُ وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَo(اٰل عمرٰن ۳:۵۴) ’’وہ اپنی چالیں چلتے ہیں اور اللہ اپنی تدبیر کرتا ہے اور اللہ ہی کی تدبیر غالب رہتی ہے‘‘۔ تاریخ گواہ ہے کہ بڑے بڑے اربابِ قوت و اقتدار کا حال ہمیشہ یہ رہا ہے کہ 

سامان سو برس کا ہے پَل کی خبر نہیں

اس کی تازہ ترین مثال تیونس میں رونما ہونے والے ان واقعات کے آئینے میں دیکھی جاسکتی ہے، جو ۱۷دسمبر ۲۰۱۰ء کو ایک چھوٹے سے قصبے سیدی بوزید میں ایک ۲۶سالہ گریجویٹ نوجوان محمد البوعزیزی کی خودسوزی کی کوشش سے شروع ہوئے اور احتجاج کی لہروں نے دیکھتے ہی دیکھتے چار ہفتوں میں پورے تیونس میں ایسی ہلچل مچا دی کہ تاحیات صدارت کا مدعی اور بعدِحیات جانشین کے تقرر کا خواب دیکھنے والا کُلی اختیارات کا مالک، صدر زین العابدین بن علی اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگیا۔ اقتدار، دولت، پولیس، فوج اور ذاتی ملیشیا، کچھ بھی اس کے کام نہ آسکا۔ تیونس کے طول و عرض میں تبدیلی کے نقارے بجنے لگے، بن علی کی شخصی اور حزبی آمریت کا قلعہ زمین بوس ہوگیا اور ملک میں ایک نئے دور کے آغاز کی راہیں کھل گئیں جسے ’انقلابِ یاسمین‘ کا نام دیا جا رہا ہے۔ توقع کی جارہی ہے کہ یہ تبدیلی عرب اور اسلامی دنیا میں دُور رس تبدیلیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔ بلاشبہہ انقلاب کا یہ عمل ابھی جاری ہے اور اپنی تکمیل کی منزل کی طرف رواں دواں ہے، اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انقلاب دشمن قوتیں اپنی چالوں میں مصروف ہیں اور اسے پٹڑی سے اُتارنے کا کھیل کھیل رہی ہیں، لیکن تمام قرائن اشارہ کر رہے ہیں کہ ان شاء اللہ تیونس اور اس کے بعد عرب اور مسلم دنیا کے متعدد ممالک کی زندگیوں میں ایک نیا دور شروع ہونے والا ہے۔ تبدیلی کی جو مضبوط لہر اُٹھی ہے اس کی کامیابی اور صحیح سمت میں پیش رفت کی دعائوں کے ساتھ اس بات کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ اس انقلابی رُو کے بارے میں غوروفکر کے چند گوشوں پر روشنی ڈالی جائے۔

تیونس ایک مسلمان ملک ہے جس کی تاریخ تیرہ سو سال پر محیط ہے۔ اسلام کی روشنی افریقہ کے اس علاقے میں پہلی ہجری صدی (۶۹۸ء) میں پہنچی اور ۱۸۸۳ء میں فرانس کے غلبے تک یہ حسین و جمیل ملک اسلامی قلمرو میں ایک نگینے کے مانند دمکتا رہا۔ درمیان میں یورپ کی عیسائی یلغار (Crusade) کے زمانے میں اسے نصف صدی (۱۵۲۴ء-۱۵۷۴ء) کے لیے ہسپانیہ کے تسلط کا تلخ تجربہ بھی ہوا۔ اوّلین بارہ سو سال میں تیونس نے مسلمان حکمران خاندانوں (عرب، بربر، فاطمی، موحدون اور عثمانیہ سب ہی) کے اقتدار کا مزا بھی چکھا۔ عوامی سطح پر تصوف کے تمام ہی بڑے سلسلوں کے اثرات اس سرزمین پر رہے۔ خاص طور پر قادریہ، الرحمانیہ، عیساویہ، تیجانیہ اور عروسیہ۔ اسلام کی آمد کے ساتھ ہی جامع الزیتونیہ دینی، اصلاحی اور علمی سرگرمیوں کا مرکز رہی اور ابن خلدون جیسا نابغۂ روزگار مفکر اور سیاسی مدبر بھی اسی سرزمین کا گلِ سرسبد تھا۔ ابتدا ہی سے اہلِ تیونس    مالکی مذہب کے پیرو تھے۔ گو عثمانی دور میں آبادی کے ایک حصے نے حنفی مسلک اختیار کیا اور اس طرح مالکی اور حنفی فقہ دریا کے دو دھاروں کی طرح اس علاقے کو سیراب کرتے رہے اور بڑی    ہم آہنگی کے ساتھ یہ کام انجام دیتے رہے۔ واضح رہے کہ جامع الزیتونیہ نے ۱۲۰۷ء میں باقاعدہ جامعہ الزیتونیہ (زیتونیہ یونی ورسٹی) کا درجہ حاصل کرلیا تھا جہاں تمام دینی علوم کے ساتھ لغت، سائنس اور طب کے ہرشعبے کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ نیز زیتونیہ کے مدارس کا سلسلہ ملک کے  طول وعرض میں قائم تھا اور مرکزی جامعہ میں ہزاروں طلبہ علم کے چشمے سے فیض یاب ہوتے تھے۔

تیونس کی تاریخ کا تاریک دور فرانس کا نوآبادیاتی زمانہ تھا، جو ۱۸۸۳ء میں معاہدہ لومارسک (Treaty of Lu marsc)کی چھتری تلے شروع ہوا اور ۱۹۵۵ء تک جاری رہا۔ مارچ ۱۹۶۵ء میں تیونس آزاد ہوا، مگر آزادی کے ساتھ ہی اہلِ تیونس کی آزمایش کا دوسرا دور شروع ہوگیا۔ جس میں اقتدار بیرونی حکمرانوں سے منتقل ہوکر اپنی ہی سرزمین کے دو آمروں کے ہاتھوں میں مرکوز ہوگیا، یعنی حبیب بورقیبہ (۱۹۵۶ء-۱۹۸۷ء) اور زین العابدین بن علی (۱۹۸۷ء-۲۰۱۱ء)۔ فرانس نے اپنے زمانۂ تسلط میں تیونس کے شریعت کے قانون کو ذاتی زندگی کے امور تک محدود کردیا۔ اس کے ساتھ تیونس پبلک لا کو بھی فرانس کے نظام قانون کے مطابق ڈھال دیا گیا۔ یوں زبان، تعلیم، تہذیب و تمدن اور معیشت اور سیاست، ہر شعبۂ زندگی کو فرانس کی تہذیب کے رنگ میں رنگنے کے سامراجی ایجنڈے کو بڑی بے دردی اور قوت سے آگے بڑھایا گیا۔ اس دور میں دین کی روشنی اگر کہیں سے میسر تھی تو وہ خانقاہیں اور مساجد اور مدرسے تھے۔

فرانسیسی سامراج کے خلاف جو عوامی تحریک رونما ہوئی وہ دینی اور خود دنیوی تعلیمی اداروں ہی کی مرہونِ منت تھی۔ حبیب بورقیبہ اگر جدید تعلیمی اداروں کی پیداوار تھا، تو عبدالحمید ابن بادیس، توفیق مدنی اور خود حوری بومدیان زیتونیہ ہی کے تعلیم یافتہ رہنما تھے۔ یہ امر پیش نظر رہنا چاہیے کہ استعمار سے آزادی کی تحریک کے دوران میں، آزادی کی تحریک کا ہدف صرف فرانسیسی سامراج  سے نجات ہی نہ تھا بلکہ تیونس کے اسلامی تشخص کی حفاظت اور دینی اقدار کی سربلندی بھی تھا۔ حبیب بورقیبہ کی ۱۹۲۹ء اور اس کے بعد کی تقاریر اس پر شاہد ہیں کہ خود اس نے اسلام کو تیونس کی شناخت کے طور پر پیش کیا اور بار بار مسلمان عورت کے حجاب کو اس شناخت کا مظہر قرار دیا۔ لیکن یہ ایک عظیم بدقسمتی تھی کہ آزادی کے حصول کے فوراً بعد اس (حبیب بورقیبہ) کی دستور پارٹی اور   اس کی قیادت نے رنگ بدلا اور اپنے اقتدار کے پہلے ہی سال میں ملکی سیاست، قانون اور  تہذیب و ثقافت کا رشتہ اسلام سے کاٹنے کا ’کارنامہ‘ انجام دیا۔ کبھی ’اسلامی اصلاحات‘ کا تقاضا قرار دیا اور کبھی بڑی ڈھٹائی سے ترقی اور جدیدیت کا سہارا لے کر ملک کے قانون، تعلیم اور اجتماعی زندگی کے تمام ہی شعبوں پر سیکولر تہذیب اور قانون کو مسلط کیا۔ اس طرح جدیدیت کے نام پر لادینیت اور مغربیت کا کھیل شروع ہوگیا۔ تعددِ ازدواج پر پابندی اور عائلی قانون بشمول قانونِ وراثت کی تبدیلی سے اس ’سیکولر یلغار‘ کا آغاز ہوا۔ مسجدو محراب اور مدرسہ اور خانقاہ کو سرکاری نظام کے تسلط میں لایا گیا۔ شخصی اور سیاسی آزادیاں مفقود اور بنیادی حقوق پامال کیے جانے لگے۔ قوت کا ارتکاز ایک مطلق العنان حکمران کے ہاتھ میں ہوگیا جس نے روزے جیسی فرض عبادت تک پر شب خون مارتے ہوئے اسے معاشی ترقی سے متصادم قرار دے کر منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا۔ گو، بالآخر اس آخری اقدام کی حد تک بورقیبہ کو منہ کی کھانی پڑی لیکن بحیثیت مجموعی اجتماعی زندگی کے پورے نظام، بشمول حجاب پر پابندی اور شراب اور جوے کی ترویج اور سیاحت کے فروغ کے نام پر مغربی اقوام کے تمام گندے اور مذموم کاروبار کی کالک اپنے منہ پر مل گیا۔

قوم کے اجتماعی ضمیر اور حکمرانوں کے مقاصد اور اہداف میں تناقض اور تصادم نے اس ملک کو، جو قدرتی وسائل سے مالا مال تھا، حکومت اور عوام کی مسلسل کش مکش کی آگ میں جھونک دیا۔ یک جماعتی آمریت نے ملک کو پولیس اسٹیٹ میں تبدیل کردیا اور اسلامی قوتوں اور اشتراکی تصورات کے تحت کام کرنے والی جماعتوں اور گروہوں کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ روحانی اور صوفی سلسلوں کو بھی نہ بخشا گیا۔ ان سلسلوں سے وابستہ ہزاروں نوجوانوں، اور اسی طرح اسلامی تحریک کے کارکنوں کو پابندسلاسل کیا گیا۔ اس صورت حال کے نتیجے میں اسلام کے نام لیوا ہزارہا لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ اس ریاستی استبداد سے تبلیغی جماعت جیسی غیرسیاسی مذہبی تحریک بھی محفوظ نہ رہی۔

ان نامساعد حالات میں دینی غیرت رکھنے والے نوجوانوں نے جامعہ تیونس کے   پروفیسر شیخ راشد الغنوشی اور ان کے معاون عبدالفتاح مورو کی قیادت میں پہلے الانتجاہ الاسلامی اور پھر حزب النہضہ کے پرچم تلے جمہوریت کے قیام، بنیادی حقوق کے تحفظ، معاشی انصاف کے حصول، قانون کی بالادستی، کثیرجماعتی سیاست کے فروغ اور اسلامی اقدار اور شعائر کی ترویج    کے لیے منظم جدوجہد کا آغاز کیا۔ اسلامی تحریک نے فکری، دعوتی اور سیاسی تبدیلی کے محاذوںپر بیک وقت کام کیا۔ ان کے جاری کردہ رسالوں المعارفہ، مستقبل اورالفجر کے مضامین نے فکری انقلاب برپا کیا۔ اس دعوت اور پیغام کو اقتدار نے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا۔بورقیبہ اور اس کی خفیہ ایجنسی (مخابرات) کے سربراہ زین العابدین بن علی نے جو ۱۹۸۷ء میں بورقیبہ کو ہٹاکر خود صدرِ مملکت بن گیا، ساری قوت اسلامی تحریک کو کچلنے اور اس کی آواز کو خاموش کرنے کے لیے استعمال کی۔ مغربی اقوام خصوصیت سے فرانس اور امریکا نے تیونس کے اس استبدادی ٹولے کی پوری پوری پشت پناہی کی۔ شیخ راشدالغنوشی نے بھی برسوں جیل کی صعوبتیں برداشت کیں، انھیں عمرقید تک کی سزا دی گئی جس کی گرفت سے نکل کر انھیں جلاوطنی کی زندگی اختیار کرنا پڑی۔ وہ ابھی تک برطانیہ میں مقیم اور وطن واپسی کے منتظر ہیں!

تیونس کا اصل مسئلہ ، متعدد دوسرے عرب اور مسلمان ممالک کی طرح یہی ہے کہ مغربی سامراج سے آزادی کے بعد بھی وہ مغرب کی گرفت سے آزاد نہیں ہوسکے اور سامراجی استبداد کا ایک نیا دور شروع ہوگیا، جس میں اصل کارفرما قوت مغربی اقوام ہی ہیں۔ البتہ اب وہ بلاواسطہ حکمرانی کے بجاے بالواسطہ حکمرانی کا کام انجام دے رہے ہیں، اور ان ممالک کی مفاد پرست اشرافیہ ان کے آلۂ کار کا کردار ادا کرر ہی ہے۔ ان کا مقدر ان چار مصیبتوں سے عبارت ہے:   ذہنی غلامی، سیاسی محکومی، معاشی گرفت اور تہذیبی جال۔ یہ چوہری غلامی کی وہ لعنت ہے جس کے خلاف عرب اور بیش تر اسلامی دنیا کے عوام آج نبردآزما ہیں۔ تیونس ہویا مصر، لیبیا ہویا مراکش، اُردن ہویا شام، بنگلہ دیش ہو یا پاکستان، ہمارا اصل مسئلہ ہی عالمی سامراجی قوتوں اور مقامی اشرافیہ کے آمرانہ نظام کا گٹھ جوڑ ہے، اور تیونس میں رونما ہونے والی انقلابی تحریک نے ایک بار پھر اس بنیادی حقیقت کو مرکز توجہ بنادیا ہے۔ لندن کے اخبار دی گارڈین کی ایک تازہ اشاعت میں تیونس کے ایک دانش ور ہشام مطار نے پورے عالمِ عرب کے دل کی کیفیت کو اس طرح بیان کیا ہے:

میری پیدایش سے بھی پہلے ہم عرب، دو طاقتوں کی گرفت میں ہیں جو بظاہر ناقابلِ شکست ہیں۔ ایک ہمارے بے رحم آمر جو ہم پر جبر کرتے ہیں اور ہماری تحقیر کرتے ہیں، اور دوسرے مغربی طاقتیں، جو یہ پسند کرتی ہیں کہ ہم پر ان کے وفادار مجرم حکومت کریں، بجاے اس کے وہ منتخب راہنما جو ہمارے سامنے جواب دہ ہوں۔ ہم اس تاریک انجام کی طرف بڑھتے رہے کہ ہم ہمیشہ ان درندوں کی گرفت میں رہیں گے۔ تیونس کے عوام نے ہمیں تباہی کے گڑھے کے کنارے سے پیچھے کھینچ لیا ہے۔

تیونس، عالمِ عرب اور مسلم دنیا کے کرب ناک حالات میں تیونس کے ’انقلابِ یاسمین‘ کا یہی وہ پیغام ہے جس کا ادراک ضروری ہے اور جس کی وجہ سے امریکا اور یورپ کے ساتھ خود عرب اور اسلامی دنیا کے حکمرانوں کے ایوانوں میں ایک زلزلہ سا آگیا ہے اور ہر طرف کہرام مچا ہوا ہے۔ ہم نہایت اختصار سے تبدیلی کے اس منظرنامے کے چند پہلوئوں کی وضاحت ضروری سمجھتے ہیں:

۱- سب سے پہلی بات مسئلے کی اصل نوعیت کو سمجھنا ضروری ہے۔ آج ہم جس مصیبت میں مبتلا ہیں اس کی جڑ وہ بگاڑ ہے جس نے آزادی کے بعد تیونس ہی نہیں، بیش تر مسلم ممالک پر    تسلط حاصل کرلیا ہے اور وہ ہے دہری غلامی جس کی ایک مثال تیونس ہے، یعنی:

(ا) مغربی استعماری اقوام کی ہمارے سیاسی، معاشی، قانونی اور تہذیبی نظام پر گرفت  اور جدیدیت، سیکولرزم، معاشی ترقی، روشن خیالی ، آزاد روی (لبرلزم)، مارکیٹ اکانومی اور نام نہاد عالم گیریت کے حسین عنوانوں کے ذریعے ہمارے فکرونظر، ہمارے میڈیا، ہماری تعلیم، ہمارا    نظامِ حکومت اور ہماری معیشت کو اپنی گرفت میں لانا اوراپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا۔

(ب) اس نوسامراجی انتظام میں خود ہمارے اپنے ملک کے بااثر عناصر اور اشرافیہ کو  آلۂ کار بنانا خواہ ان کا تعلق سول قیادت سے ہو یا فوج اور بیوروکریسی کے افراد ہوں یا ادارے، خصوصیت سے این جی اوز۔ جمہوریت، معاشی امداد اور عالم گیریت وہ خوش نما عنوان ہیں، جن کے تحت مغرب کے ایجنڈے پر مقامی کارندے یہ کھیل کھیلتے ہیں، اپنی قوم اور اس کے وسائل کو بری طرح لوٹتے ہیں تاکہ جب بھی ان کا پردہ چاک ہو تو اپنی محفوظ پناہ گاہوں کا رُخ کرلیں۔ فسطائی نظام اور بدعنوانی پر مبنی اس انتظام کا لازمی حصہ ہیں۔ جمہوریت اور قانون کی حکمرانی ان کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ اس لیے بھی کہ مسلمان اُمت کی روح میں اس کا دین و ایمان رچے بسے ہیں، صرف جبرواستبداد ہی وہ طریقہ ہے جس سے ان پر ان کے دین، ان کی اخلاقی اقدار اور ان کی تہذیبی روایات سے متصادم کوئی نظام مسلط کیا جاسکتا ہے۔ حقیقی جمہوریت کا نفاذ و ترویج (democratization) اور اسلامائزیشن ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں اور مغرب کے ایجنڈے کا فروغ ممکن ہی ہے صرف ایک آمرانہ نظام اور فسطائی قیادت کے ذریعے۔ جگرمرادآبادی نے   اس طرف اشارہ کیا تھا جب انھوں نے کہا    ؎

جمہوریت کا نام ہے، جمہوریت کہاں
فسطائیت حقیقت عریاں ہے آج کل

مسلم ممالک میں آمرانہ حکمرانی (autocratic rule) اور من مانی اور استبدادی قوت (arbitrary power)کا نظام اور قیادتوں کا اپنے شخصی مفادات کے حصول کے لیے مغربی اقوام، ان کے مقاصد، تہذیب اور مفادات کا خادم ہونا ایک دوسرے سے مربوط اور لازم و ملزوم ہیں اور جس تبدیلی اور انقلاب کے لیے مسلمان عوام بے چین اور مضطرب ہیں، وہ ان دونوں مصیبتوں سے نجات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس انقلاب کا ہدف چہرے بدلنا نہیں ہے، اس پورے انتظام اور دروبست کو تبدیل کرنا ہے، اور انقلاب اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک اس اصل مسئلے کا حل نہ تلاش کرلیا جائے۔

تیونس میں انقلاب کی ابھی ابتدا ہوئی ہے اور مغربی اقوام اور مقامی مفاد پرست عناصر کی پوری کوشش یہ ہوگی کہ چند نمایشی تبدیلیاں کرکے پرانے نظام کے لیے نئی زندگی حاصل کرنے کی کوشش کریں، اور جب تک اس خطرے کا سدباب نہ کرلیا جائے انقلاب نامکمل ہوگا اور تبدیلی کا عمل پٹڑی سے اُتر سکتا ہے جس کی پیش بندی ضروری ہے۔

۲- دوسری بنیادی بات یہ سمجھنے کی ہے کہ مغربی اقوام کا مقصد اپنے مفادات اور اہداف کا حصول ہے، جن کی خاطر وہ بڑی سے بڑی قلابازی کھا سکتے ہیں۔ تیونس میں حبیب بورقیبہ جب تک ان کے مقاصد کی خدمت کرتا رہا، وہ ان کا پسندیدہ شخص تھا، لیکن انھوں نے دیکھا کہ اس کی گرفت کمزور ہونے لگی ہے تو اپنا دوسرا مہرہ زین العابدین بن علی کی شکل میں آگے بڑھا دیا۔ وہ بورقیبہ کا قریبی ساتھی اور خفیہ سروس کا سربراہ تھا۔ اس طرح ایک غیرخونیں انقلاب کے ذریعے اس نئے مہرے کو ملک کی کمانڈ کے مقام پر لے آئے اور بورقیبہ کو ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیا۔ پھر بن علی نے ۲۳سال تک ان کے مقاصد کے حصول میں اپنا کردار ادا کیا اوراس دور میں اس کی تمام بدعنوانیاں، عوام دشمنیاں اور حقوق کی پامالیاں ان کو نظر نہ آئیں، حتیٰ کہ جب دسمبر۲۰۱۰ء میں احتجاجی لہریں بڑھیں تو فرانس کے وزیرداخلہ نے فرانس سے فسادات کو روکنے اور ہنگاموں کو فرو کرنے کے لیے خصوصی تربیت یافتہ پولیس (Riot Police) تک بھیجنے کی بات کی، لیکن جب  بن علی کے پائوں تلے سے زمین نکل گئی تو فرانس کے صدر سرکوزی نے پناہ تک دینے سے   معذرت کرلی، بالکل اسی طرح جس طرح اس سے پہلے شاہِ ایران کو امریکا نے پناہ دینے سے  انکار کیا تھا۔ جس دوستی کی بنیاد مفاد پر ہوتی ہے اس کا انجام اس سے مختلف ہو نہیں سکتا، لیکن   اقتدار کے نشے میں مست کتنے ہی حکمران ہیں جو اپنے سامنے کی ایسی بات کا بھی ادراک نہیں رکھتے، فاعتبروا یااولی الابصار۔

۳- مغربی اقوام اور مقامی حکمران دونوں ہی ایک اور بھی کھیل کھیل رہے ہیں جس کا مظہر یہ حکمت عملی ہے کہ ایک قوم کے ایمان، اس کے نظریاتی عزائم اور تہذیبی تمنائوں کو محض مادی ترقی، مال و متاع کی خیرات اور ترغیب و ترہیب کے ہتھکنڈوں سے ہمیشہ کے لیے اپنے قابو میں رکھا جاسکتا ہے۔ یہ توقع انسانی فطرت کے خلاف ہے اور تاریخ اس پر گواہ ہے کہ ایسی حکمت عملی بالآخر ناکام ہوتی ہے۔ لیکن ہردور کے ظالم اور جابر حکمران اس تاریخی حقیقت کو نظرانداز کرتے ہیں۔ تیونس کے حالیہ واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ حکمت عملی تارِ عنکبوت کے مانند ہے، لیکن کم لوگ ہیں جو ایسے واقعات سے سبق لیتے ہیں۔ زین العابدین بن علی کو اپنی فوج اور سوا کروڑ کے اس ملک میں ایک لاکھ ۳۰ہزار امریکا کی تربیت یافتہ مسلح پولیس فورس اور میڈیا اور معلومات کے تمام ذرائع پر سرکاری کنٹرول کے زعم میں کسی عوامی ردعمل کا کوئی خطرہ نہیں تھا۔ لیکن بظاہر بے بس انسانوں کی اس بستی میں اندر ہی اندر جو لاوا پک رہا تھا اس کا کسی کو ادراک نہ تھا۔ مگر راکھ کے ڈھیر سے پھر ایک ایسی چنگاری نکل آئی جس نے پورے ملک میں مزاحمت اور بغاوت کی آگ بھڑکا د ی۔

ایک مشہور عرب صحافی اور دانش ور رامی جی خوری (Rami G. Khouri) نے اس طرف متوجہ کیا ہے جب وہ کہتا ہے: ’’کس طرح بن علی کی پولیس اسٹیٹ کو جب دیرپا عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تو تیزی سے بکھر کر رہ گئی‘‘۔ (ہیرالڈ ٹریبون، ۲۲ جنوری ۲۰۱۱ء)

صرف پولیس اسٹیٹ ہی کے پاے چوبیں نہیں، مغربی اقوام کی پوری حکمت عملی ہی   کسی حقیقی اور مضبوط بنیاد سے عاری ہے، چنانچہ حقیقی عوامی ردعمل کے آگے اس کی ناکامی ایک تاریخی حقیقت ہے۔

۴- تیونس کے حالیہ واقعات نے مسلمان ممالک میں سیکولرزم، سرمایہ داری اور مغربیت کی ہر طرح سے ترویج اور اسلامی لہر کو ’دہشت گردی‘ کے نام پر قوت کے ذریعے روکنے کی حکمت عملی کی ناکامی کے بارے میں غوروفکر کے لیے نئے زاویے فراہم کیے ہیں۔ تیونس میں یہ تجربہ فرانسیسی سامراجی اقتدار کے ۸۰سال اور بورقیبہ، بن علی ٹولے کے تسلط کے ۵۵سال سے جاری ہے لیکن تیونس کے عوام کے حصے میں اپنے دین اور تہذیب سے دُوری کے ساتھ غربت، بے روزگاری، مہنگائی، قرضوں کی لعنت اور آزادی اور عزتِ نفس سے محرومی ہی کی سوغات آئی ہے۔ ۱۵ سے ۲۵ سال کے نوجوان جو آبادی کا ۲۵فی صد ہیں، ان میں بے روزگاری کا تناسب ۳۰ فی صد سے متجاوز ہے۔ مارکیٹ اکانومی جسے معاشی ترقی اور خوش حالی کا مجرب نسخہ قرار دیا جاتا ہے، وہ مریض کو اور بھی محرومیوں کا شکار کرنے کا باعث ہوا ہے۔ سیکولر قیادت نے استبدادی نظام کے ساتھ معاشی استحصال، دولت کی ظالمانہ حد تک غیرمنصفانہ تقسیم اور اس کے نتیجے میں اقتصادی ناہمواریوں اور ملک و ملّت کی بیرونی دنیا پر محتاجی کے تحائف عطا کیے ہیں۔ یہی وہ حالات ہیں جو انقلاب کو جنم دیتے ہیں۔ جب قوم کروٹ لیتی ہے تو پھر بڑے سے بڑے آمر کے پائوں اُکھڑ جاتے ہیں۔ تیونس کی انقلابی رَو کا یہ پیغام دنیا کے تمام مظلوم انسانوں کے لیے ہے۔ یہ دوسرے ممالک کے مصیبت زدہ عوام کے لیے نئی زندگی کا پیغام اورغاصب حکمرانوں اور ان کے مغربی آقائوں کے لیے بھی ایک ’صداے ہوش‘ (wake up call) کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس طرح قدرت کا قانون ہے کہ رات کے بعد صبح کی روشنی نمودار ہوتی ہے، اسی طرح ظلم کی رات بھی جو چھوٹی یا لمبی تو ہوسکتی ہے مگر ہمیشہ کے لیے سورج کی روشنی کا راستہ نہیں روک سکتی:

یوں اہلِ توکّل کی بسر ہوتی ہے
ہر لمحہ بلندی پہ نظر ہوتی ہے

گھبرائیں نہ ظلمت سے گزرنے والے
آغوش میں ہر شب کے سحر ہوتی ہے

ایک قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ جس طرح پہاڑوں کی سنگلاخ زمین پر پانی اپنا راستہ بنا لیتا ہے اسی طرح انسانی تخیل، اُپج اور سوچ بچار کی صلاحیت ہزاروں دروازوں کو کھولنے کی صلاحیت پیدا کرلیتی ہے۔ تیونس میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر حکومت کا عملی تسلط تھا۔ مسجد ومنبر پر حکومتی فکر کی حکمرانی تھی، لیکن موبائل فون، انٹرنیٹ اور فیس بک کی اعانات، جنھیں آبادی کا ۱۸ فی صد استعمال کررہا ہے، مزاحمت کی تحریک کو منظم اور مربوط اور مؤثر ہونے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

بلاشبہہ آج کے پاکستان کے حالات تیونس کے حالات سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ یہاں بھی امریکا کی گرفت ہماری قیادت، ہماری پالیسیوں اور ہمارے سیاسی اور معاشی نظام پر اتنی بڑھ چکی ہے کہ اب ملک کی آزادی ایک نمایشی شے بنتی جارہی ہے۔

جنرل پرویز مشرف کے دور میں جس طرح امریکا کے مطالبات کے آگے سپر ڈالی گئی اور زرداری گیلانی حکومت نے اس غلامانہ پالیسی کو اور بھی وفاداری کے ساتھ آگے بڑھایا ہے، اس کے نتیجے میں قومی عزت اور غیرت کا تو خون ہوا ہی ہے، اور ملک کی آزادی بُری طرح مجروح ہوئی ہے، لیکن اس کے ساتھ ملک کا امن و امان تہ و بالا ہوگیا ہے۔ لاقانونیت کا دور دورہ ہے، فوج اور عوام میں تصادم اور ٹکرائو بڑھ رہا ہے، ’دہشت گردی‘ کا دائرہ وسیع تر ہورہا ہے، امریکی ڈرون حملے اور ان کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر معصوم انسان شہید اور وسیع وعریض علاقے تباہ و برباد ہورہے ہیں۔ معیشت کا یہ حال ہے کہ صرف اس جنگ میں شرکت کی وجہ سے ۵۰ سے ۱۰۰ ارب ڈالر تک کا نقصان پہنچ چکا ہے۔ غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے اور اشیاے ضرورت کی قلّت نے زندگی اجیرن کر دی ہے۔ اس کے ساتھ حکمرانوں کی عیاشیاں، بدعنوانیاں روز افزوں ہیں اور ہر طرف بدعنوانی کا دور دورہ ہے۔ قیادت کے ایک اہم حصے کے مفادات اور اثاثے ملک سے باہر ہیں اور ان کو اپنے اقتدار کے لیے ہی نہیں اب تو ذاتی حفاظت کے لیے بھی بیرونی قوتوں کا سہارا درکار ہے۔ ملک میں حکمرانی کا عمل مفقود ہورہا ہے اور مفادات کی پرستش کا بازار گرم ہے۔ حکمرانی اور معیشت کی حالت یہ ہے کہ    ؎

رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے، نہ پا ہے رکاب میں

کیا ہماری قیادت تیونس کے ’انقلابِ یاسمین‘ سے کوئی سبق لینے کے لیے تیار ہے یا اس لمحے کا انتظار کر رہی ہے، جب:

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارا

برصغیر میں مطالعہ قرآن، (بعض علما کی تفسیری کاوشوں کا جائزہ)، محمد رضی الاسلام ندوی۔ ناشر: اسلامک بُک ہائوس، ۱۷۸۱ حوض سوئی والان، نئی دہلی،بھارت۔ صفحات: ۲۶۴۔ قیمت: ۱۶۰ روپے۔

قرآن کریم کا مطالعہ فرض ہے اور خوش بختی بھی۔ جن لوگوں نے اس پیغامِ ربانی کی تعلیم اور لوگوں کو اس سے وابستہ کرنے کے لیے کوششیں کیں، ان کے احسان کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ دنیا کے ہرخطے اور ہر زمانے میں یہ خدمت انجام دینے والے فرزانے اپنا فرض ادا کرتے رہے ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب اس اعتبار سے اہمیت کی حامل ہے کہ اس نے برعظیم پاک و ہند میں گذشتہ ڈیڑھ سو سال میں ہونے والی خدمت ِ قرآنی کے چند مرکزی دھاروں کو اپنی توجہ کا موضوع بنایا ہے۔

جناب رضی الاسلام نہ صرف ایک محقق اور دینی امور پر غوروفکر کرنے والے ہیں بلکہ اپنے نتائج فکر کو خوب صورتی سے بیان کرنے میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔ اس کتاب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن اُن کی فکرمندی اور تدبر کا محور ہے۔ کتاب چار حصوں میں تقسیم ہے۔

پہلے باب میں سرسیداحمد خاں کی تفسیر پر تنقید اور محاکمے کے ساتھ اس چیز کا تعین بھی کیا گیا ہے کہ خود یہ تفسیر مابعد تفاسیر پر کس پہلو سے اثرانداز ہوئی۔ دوسرے باب میں ایک مقالہ اس حوالے سے معلومات افزا ہے کہ خود یہاں بیسویں صدی میں عربی میں کس قدر تفسیری کام ہوا۔ مصنف کے مطابق بیسویں صدی میں پہلی مکمل عربی تفسیر مولانا ثنا اللہ امرتسری (م:۱۹۴۸ء) نے لکھی، اور مولانا سید سلیمان ندوی نے اس کے بارے میں فرمایا: ’’جلالین کی جگہ اس تفسیر کو رواج دیا جائے‘‘ (ص ۳۸)۔ ’’ازاں بعد مولانا حمیدالدین فراہی (م: ۱۹۳۰ء) نے عربی تفسیر میں نمایاں کام کیا، جو جامعیت، زورِ بیان اور قوتِ استدلال میں اپنا ہم سر نہیں رکھتا (ص۴۰)‘‘۔ اسی طرح  مولانا اشرف علی تھانوی (م: ۱۹۴۳ء) نے قابلِ ذکر حواشی لکھے۔ اس مقالے میں برعظیم کے عربی میں تفسیری ادب کا تعارف کرایا گیا ہے اور حروفِ مقطعات پر معلومات افزا بحث کی گئی ہے۔

تیسرے باب میں سید سلیمان ندوی کی خدمتِ قرآن کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے: ’’قرآنیات میں ان کی خدمات سیرت اور تاریخ کے مقابلے میں کسی طرح بھی کم اہمیت کی حامل نہیں ہیں، بلکہ یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ ان کا خاص میدان قرآنیات کا ہے‘‘ (ص ۷۱)۔     پھر ان کی لفظی تحقیق کی دل چسپ مثالیں پیش کی ہیں۔ مولانا امین احسن اصلاحی (م: ۱۹۹۷ء)  کے کلامِ عرب سے استشہاد اور لغوی تجزیے پر قیمتی مباحث اور حوالوں سے روشنی ڈالی ہے۔    مولانا سیدابوالحسن علی ندوی (م: ۱۹۹۹ء) کی قرآنی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ:  ’’وہ الفاظِ قرآنی کی لغوی و لسانی تشریح کر کے قرآن کا اعجاز آشکارا کرتے ہیں--- کاش! انھوں نے پورے قرآن کی تفسیر لکھی ہوتی‘‘۔ (ص ۱۴۴)

آگے چل کر مولانا صدر الدین اصلاحی کی قرآنی خدمات پر سیرحاصل معلومات دی ہیں، جن سے عام طور پر لوگ ناواقف ہیں، اور یہ تفصیلات تجزیاتی اعتبار سے نہایت قیمتی ہیں۔ یاد رہے کہ مولانا صدر الدین اصلاحی نے تفسیر تیسیرالقرآن لکھی اور تفہیم القرآن کی تلخیص مرتب کی۔ انھوں نے لکھا ہے: ’’مولانا مودودیؒ نے قرآن مجید کا جو ترجمہ مختصر حواشی کے ساتھ شائع کیا، اس کے حواشی اگرچہ تفہیم القرآن ہی کے حواشی کا اختصار ہیں، لیکن انھوں نے کچھ حواشی بالکل نئے سرے سے بھی لکھے ہیں۔ اسی طرح ترجمہ اگرچہ تفہیم القرآن ہی کا دیا گیا ہے، مگر اس میں کہیں کہیں مولانا مودودی نے چھوٹی موٹی لفظی ترمیمیں کی ہیں‘‘۔ (ص ۱۸۳)

چوتھے باب میں قرآنی علوم اور موضوعات پر وہ ۳۲ تبصرے پیش کیے ہیں ، جنھیں فاضل مصنف نے بڑی دیدہ ریزی سے تحریر کیا ہے۔ یہ حصہ اس اعتبار سے ایک قیمتی دستاویز ہے جس میں ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ خدمتِ قرآن کے باب میں کن عشاق نے کس پہلو اور کس ندرت کے ساتھ اپنا حصہ ادا کیا ہے۔ جناب رضی الاسلام کی اس کتاب کے مطالعے میں موضوع پر ان کی جانب سے کسی رورعایت کا شائبہ نہیں ملتا ہے۔ یوں نظر آتا ہے کہ وہ ہر لفظ کو گہری فکر کے ساتھ لکھ رہے ہیں، اور ایسا کیوں نہ ہو؟ کلامِ ربانی کی پیش کاری کا مقدمہ ہے۔ (سلیم منصور خالد)


The Muslim Delusion: Islam between Orthodoxy and Enlightenment [مسلم فریب خیالی: اسلام، قدامت پرستی اورروشن خیالی کے درمیان] ، ڈاکٹر اقبال سید حسین۔ ناشر: ہائر ایجوکیشن کمیشن،  اسلام آباد۔ اشاعت: ۲۰۱۰ء۔ صفحات: ۱۴۴۔قیمت: ۵۰۰ روپے۔

کسی ملک کے شہریوں خصوصاً نوجوانوں کی تعلیم و تربیت، حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے۔ پاکستانی حکومت اور اس کے ذیلی ادارے اس ذمہ داری کو کس خوبی اور تندہی سے ادا کررہے ہیں، اس کی ایک مثال یہ تصنیف ہے۔ نصابِ تعلیم میں اسلام کے اساسی تصورات کی کتربیونت،   جہاد کا اخراج، ’روشن خیالی‘ اور ’آزاد رَوی‘ کا بگھار اور ’جدیدیت کی چاشنی‘ تو نئی درسی کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ گریجویشن کی سطح پر ’مطالعۂ پاکستان‘ کے ذریعے بعض اداروں سے اسلامیات کے مضمون کا تقریباً اخراج اس کے مظاہر ہیں۔ پچھلے چند برسوں سے ابتدائی مدارس سے لے کر جامعات تک میں نئی نسل کی ’آب یاری‘ کس تندہی سے کی جارہی ہے، یہ سنجیدہ تحقیق کے لیے ایک دل چسپ اور چشم کشا موضوع ہوسکتا ہے۔

اسلام، قدامت پسندی، جہاد اور دہشت گردی وہ عنوان ہیں جن پر سماجیات کے علما سے عامی تک سبھی زور شور سے گفتگو کرر ہے ہیں۔ پاکستان میں دوسرے سرکاری اداروں کی طرح    اعلیٰ تعلیم کی نگہباں مقتدرہ (ہائر ایجوکیشن کمیشن: HEC) بھی ’دہشت گردی کو جنم دینے والی قدامت پسندی‘ کے خلاف اس ’مقدس جنگ‘ کی حامی ہے۔

مصنف کہتے ہیں: ’’ہم اکیسویں صدی میں داخل ہوچکے ہیں، مگرتعجب ہے کہ مسلمان ابھی تک دیومالائی داستانوں (myths)، عقیدوں (dogmas) اور شدت پسندی (orthodoxy) اور قدامت پسندی (conservatism) کی بھول بھلیوں کے اسیر ہیں اور اپنی فہم وفراست کوترقی دینے کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے‘‘ (ص۱۷)۔ مصنف کے نزدیک   حالیہ دور میں روشن خیال اور ترقی پسند حلقوں کی طرف سے معاشرے کو راہ پر ڈالنے کی جو کوششیں کی جارہی ہیں، ’نظریاتی اسٹیبلشمنٹ‘ اور ’مذہبی قدامت پسندی‘ کی طرف سے اس کی سخت مزاحمت کی جارہی ہے۔

مصنف بجا طور پر یہ کہتے ہیں کہ اسلام نے پرانے قبائلی نظام کی جگہ عدل و انصاف اور حقوقِ انسانی کی پاس داری کرنے والا ایک روشن خیال نظامِ حیات پیش کیا جس نے قدیم دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر دیا تھا، اور ایک مہذب، تعلیم یافتہ اور ثمرآور معاشرے کی راہ ہموار کی تھی، مگر آج مسلم دنیا میں عقیدہ پرستی، اور عدم برداشت کا دور دورہ ہے (ص ۲۲)۔ اُن کے خیال میں ’ترقی‘ ایک سیکولر یا غیر مذہبی تصورہے، جو قرونِ وسطیٰ کی اُس فکر سے مطابقت نہیں رکھتا، جس میں ہم ڈوبے ہوئے ہیں (ص ۲۶)۔ وہ کہتے ہیں کہ ۱۴ صدیاں بیت گئیں لیکن آج بھی مسلمان جدید فکر سے اُسی طرح دُور ہیں، جیسے قرونِ اولیٰ کے غاروں میں بسنے والے (ص ۲۹)۔ دینی مدارس، محبت اور بصیرت سے عاری ہیں (ص ۳۶)۔ روشن خیالی جو مسلمانوں کا ورثہ تھی، مُلّاوں کے تاریک حجروں میں تحقیر اور استہزا کا نشانہ بنی ہوئی ہے… جب کہ جدیدیت میں حُسن و آہنگ کی تمام انسانی جہات کا فروغ ہے(ص ۳۹)۔ اُن کے نزدیک سائنس اور صنعتی انقلاب نے روشن خیالی کے لیے جو راہ ہموار کی ہے، اس نے انسانی تہذیب کو ایک نئے راستے پر ڈال دیا ہے مگر مسلمان ترقی کے اس تصور سے بے بہرہ ہیں۔ (ص ۴۰)

مصنف ایک طرف تو مغربی مصنفین کے حوالے سے یہ دکھاتے ہیں کہ عرب، شرقِ اوسط اور ہسپانیہ کے مسلم علما اور سائنس دانوں کی فکر و تحقیق سے یورپ میں علم کی شمع روشن ہوئی، جن میں جابر بن حیان سے لے کر ابن سینا کے نام آتے ہیں، اور اسلامی فکر کو نکھارنے میں غزالی اور شیخ احمد سرہندی سے لے کر مولانا مودودی (پندرھویں صدی ہجری) تک کا حصہ ہے (ص۵۴-۵۵)۔ ’’تاہم آج کے مسلمان فکری بلوغ سے محروم ہیں… وہ غیرصحت مند اور غیراخلاقی سرگرمیوں میں مصروف ہیں… بددیانتی، کرپشن، دھوکے بازی، ان کے کردار کی صورت گری کرتے ہیں (ص۱۲۰)۔ انھوں نے خیال کرلیا ہے کہ سائنس، مذہب کے خلاف ہے، اور اس طرح کی کہانیوں پر یقین کرلیا ہے جو بتاتی ہیں کہ دنیا ایک بَیل کے سینگوں پر کھڑی ہے‘‘ (ص ۱۲۲)۔ ’’مسلمان اگرچہ قرآن اور نبی [صلی اللہ علیہ وسلم] کی روایات پر ایمان رکھتے ہیں، لیکن اپنی زندگی میں اُن اصولوں کو نافذ نہیں کرتے… یوں مُلّا کی قدامت پرستی، انسانی فکر اور حیات کے اعلیٰ مقاصد کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن گئی ہے‘‘ (ص۱۲۴)۔ مصنف بار بار اس بات پر افسوس کرتے ہیں کہ مسلمانوں نے قرآن کی طرف رجوع کو ترک کردیا ہے،اس لیے وہ آج کے معاشرے کو پیش آمدہ چیلنج کا جواب نہیں دے سکتے (ص ۱۲۶)۔ قرآنی احکام کو چھوڑ کر وہ خود پرست مُلّائوں کے دکھائے ہوئے خوابوں اور داستانوں میں کھوئے ہوئے ہیں، جن کے خیالات سے ذرا سی رُوگردانی اسلام سے انحراف اور کفر کے فتوے کی طرف لے جاتی ہے (ص ۱۲۶)۔ ان قدامت پسندوں کا خیال ہے  کہ ساری دنیا ان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے۔ اسی ذہنیت سے وہ جہادی کلچر اور  دہشت گردی وجود میں آتی ہے، جس کا ظہور امریکا کے ٹریڈ سینٹر کی تباہی اور خودکش حملوں میں ہوتا ہے۔ (ص ۱۳۲-۱۳۳)

اس میں شک نہیں کہ آج کے بیش تر ممالک میں بحیثیت مجموعی مسلم معاشرہ ہماری اصل اسلامی روایات اور اقدار سے بہت دُور جاچکا ہے، لیکن پاکستان جیسے ملکوں میں اس کی وجہ مذہب سے لگائو نہیں، بلکہ اس سے دُوری اور وہ نام نہاد’روشن خیالی‘ ہے، جس نے انسان کو ایک ’جبلّی حیوان‘ بنادیا ہے۔ ہمارے روایتی مدارس اور علما اگرچہ عصری تقاضوں کو پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں، تاہم انھوں نے اس اسلامی ورثے کو محفوظ رکھنے میں ایک کردار ضرور ادا کیا ہے، جو اگر ضائع ہوجاتا، تو مستقبل میں کوئی نشاتِ ثانیہ بھی ممکن نہ ہوتی۔ دینی اور غیرمذہبی دونوں طرح کے تعلیمی ادارے،  قومی تشخص کو بحال کرنے اور روحانی اور مادّی اقدار کو ہم آہنگ کرکے ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ دردمند اصحاب کو اس کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔ ہماری پستی اور زوال کے لیے یک طرفہ طور پر دینی مدارس اور ’مُلّائوں‘ کو موردِ الزام قرار دینا، مصنف کی ناانصافی ہے، کیوں کہ زمامِ کار جس مقتدرہ کے ہاتھ میں ہے وہ مذہبی نہیں بلکہ سیکولر ہے۔ بیش تر مسلم ملکوں میں پالیسی ساز ادارے ’جدید تعلیم یافتہ‘ غیرمذہبی اربابِ کار کے قبضے میں ہیں۔ اس لیے صرف دینی طبقات کو اس افسوس ناک صورتِ حال کا ذمہ دار کہنا درست نہ ہوگا۔

اکیسویں صدی کے پہلے عشرے میں اس کتاب کو ہائر ایجوکیشن کمیشن نے باقاعدہ نصابی و درسی کتب تو قرار نہیں دیا ہے لیکن گریجویشن کے تمام طلبہ کے لیے اس کے مطالعہ کی سفارش کی ہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کمیشن اسلام کی مسخ شدہ تصویر پیش کرکے نئی نسل کی تعمیر   کس رُخ پر کرنا چاہتا ہے۔ (پروفیسر عبدالقدیر سلیم)


پچپن سالہ مراسلت کے چند نقوش، نعیم صدیقی، مقبول الٰہی ۔ ناشر: الفیصل ناشران کتب، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۲۳۰۷۷۷۔ صفحات: ۱۶۰۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

مولانا مودودیؒ نے دعوتِ دین کے لیے برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کو پکارا تو اگرچہ ان کی پکار پر لبیک کہنے والی سعید روحیں گنتی میں کم تھیں، مگر یہ سب ایمان، جذبے اور فکرودانش سے سرشار تھیں۔ انھی حضرات میں ایک نمایاں نام جناب نعیم صدیقی کا ہے، جن کی ساری زندگی ہم سفری میں گزری، پھر وہ ۲۵ ستمبر ۲۰۰۲ء کو خالقِ حقیقی سے جاملے۔ وہ بیک وقت ایک دانش ور، منصوبہ ساز اور شاعر و ادیب بھی تھے اور ایک مربی و استاد بھی۔

یہ کتاب اُنھی کے نقوشِ فکر کا ایک جان دار حوالہ ہے، جو جناب مقبول الٰہی اور نعیم صدیقی مرحوم کے مابین خط کتابت پر مشتمل ہے۔ مقبول الٰہی سول سروس کے اُن گنے چُنے افسران میں سے ہیں جنھوں نے سرکاری مصروفیات کے باوجود قلم و قرطاس سے رشتہ برقرار رکھا۔ اُردو اور انگریزی کے ساتھ عربی اور فارسی پر دسترس رکھتے ہیں۔ علامہ اقبال کی متعدد کتابوں کے مترجم بھی ہیں۔   علم و ادب اور فکرودانش نعیم صاحب سے ان کی دوستی کا سب سے اہم حوالہ ہے۔کہنے کو تو یہ خطوط ہیں، مگر حقیقت ہے کہ ان خطوط کا دامن فکرودانش اور احساس کے موتیوں سے معمور دکھائی دیتا ہے۔ عام لوگ خطوط کی اہمیت کو نظرانداز کرتے ہیں، حالانکہ خطوں پر مشتمل ان اکثروبیشتر چھوٹے چھوٹے ادب پاروں میں مشاہدے کا نچوڑ اور علم کا عطر سمٹ کر آجاتا ہے (افسوس کہ آیندہ نسلیں خط نویسی کی اس نعمت سے محروم رہ جائیں گی کہ برقی ڈاک [ای میل] اور برقی پیغامات [ایس ایم ایس]نے اس صنفِ ادب و علم کا گلا گھونٹ کر رکھ دیا ہے)۔

نعیم صدیقی کے خطوں کے بعض حصے دعوتِ فکر دیتے ہیں، مثلاً: ’’عقائد اسلامی اگر موجود ہوں گے تو ان کا نیچرل اثر انسان کی عملی زندگی میں ضرور ظاہر ہوگا، اور اگر یہ اثر نمودار نہ ہو رہا ہو تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ ان عقائد میں کوئی ایسی تبدیلی یا ایسا ضعف آگیا ہے، یا ان کے ساتھ ایسے اضداد جمع ہوگئے ہیں، یا ان کا شعور اتنا مُردہ ہوگیا ہے کہ ان سے ان کے اثرات ظاہر نہیں ہورہے… اب یہ ہرآدمی کا اپنا کام ہے کہ وہ قرآن کھول کر دیکھ لے کہ ایمان، شرک، فسق، نفاق وغیرہ حالتوں میں سے کس حالت میں وہ مبتلا ہے، اور اللہ کے ہاں کس نوعیت کے لوگوں کے ساتھ اس کا شمار ہوگا‘‘ (ص۱۷)۔ ان سطور میں خود احتسابی کا معیاری اور آسان پیمانہ ہر کلمہ گو کو فراہم کردیا گیا ہے۔

آشوبِ عصر کو وہ ان لفظوں میں بیان کرتے ہیں: ’’شرافت، دین داری اور تقویٰ کے لبادوں میں نفسانیت کے دیووں اور پریوں کو رقصاں دیکھا۔ مجھے اب اندازہ ہوا کہ ہمارا قحطِ انسانیت کتنی وسعتیںاختیار کرگیا ہے۔ اسی کا نتیجہ ملک (اور پوری دنیا) کے دردناک اور خطرناک حالات ہیں۔ معلوم نہیں، کب کیا ہوجائے‘‘ (ص ۷۹)۔ پھر اپنے بارے میں لکھتے ہیں: ’’میں خود ’ٹاٹ سکول‘ کا تعلیم یافتہ ہوں‘‘( ص ۱۵۱)۔ ایک خط میں اپنے مخاطب سے کہتے ہیں: ’’صرف مشورہ دوں گا، استادی کا شوق ہے نہ صلاحیت، خود بہت غلطیاں کرتا ہوں‘‘ (ص۲۲)۔ اپنے رفقا کی صلاحیت کا اعتراف کرنے میں ان کا یہ جملہ دیکھیے: ’’رفیع الدین ہاشمی صاحب، اقبال اور اقبال سے متعلق شائع ہونے والے لٹریچر پر اتھارٹی ہیں‘‘۔ (ص ۹۴)

ان خطوط میں ہمیں غم روزگار کا ماتم نہیں بلکہ آشوبِ شہر کا نوحہ پڑھنے کو ملتا ہے۔ جذبے کی آنچ کی میٹھی گرماہٹ اور مقصد سے بھرپور زندگی گزارنے والے فرد کی دلی کیفیات کو جاننے کا موقع ملتا ہے۔ درحقیقت یہ خطوط ایک طرح کی خود کلامی بھی ہیں اور دعوتِ فکر بھی۔ ہم سب جناب مقبول الٰہی کے شکریے کے مستحق ہیں کہ ان قیمتی خطوط کو محفوظ رکھا اور پیش فرمایا۔ (س- م - خ)


میری تحریکی یادداشتیں، چودھری محمد اسلم۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور۔ صفحات: ۳۴۴۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔

اللہ کی راہ میں جدوجہد میں گزرنے والے تمام لمحے، سعادت کے لمحے ہیں، جن سے راہروانِ شوق جذبہ حاصل کرتے ہیں، جب کہ غیروابستگان کے ذہنوں میں ان لوگوں کو دیکھ کر تجسّس اور حیرت کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ جماعت اسلامی کے قیام کے ساتھ ہی ایسے سعادت مند لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے معاشرے کے عقائد و افکار کے زنگ آلودہ قفل کھولے اور زندگی کو اسلام سے نسبت دینے کا پیغام عام کرنے کے لیے ذاتی آرام و آسایش کو تج دیا۔ ایسے ہی ایک فرد چودھری محمد اسلم ہیں، جنھوں نے کارزارِ حیات کی کچھ جھلکیوں کو زیرتبصرہ کتاب میں رقم کیا ہے۔

یہ کتاب تین دائروں کا احاطہ کرتی ہے: ذاتی مشاہدات و تجربات، ضلع گوجرانوالہ کے علاقے میں جماعت اسلامی کے کام کے پھیلائو کے خدوخال اور چیلنجوں کا ذکر اور پاکستان کی تاریخ کے کچھ ابواب پر اظہارخیال۔ پہلے دو امور پر تو ایک حد تک معلومات میں ندرت و دل چسپی کا عنصر موجود ہے، جب کہ تیسرے باب کے لیے الگ سے بحث کی جاتی تو اور زیادہ بہتر ہوتا۔ بہرحال اسی وسیلے کو استعمال کرتے ہوئے ملکِ عزیز کے دوسرے علاقوں سے بزرگ بھی اگر اپنی یادداشتیں قلم بند کرلیں تو یہ مفید مشق ثابت ہوسکتی ہے، کہ جس میں گئی رُتوں کی خوشبو سے فکروذہن کو معطر کیا جاسکتا ہے۔ (س- م - خ)


مسئلہ کشمیر کی نظریاتی اور آئینی بنیادیں، تحریکِ آزادیِ کشمیر اور کشمیری نیشنلزم، پروفیسر الیف الدین ترابی۔ ناشر: انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرے ٹیجک اسٹڈیز اینڈ ریسرچ،   آئی ٹین فور، اسلام آباد۔ صفحات (بالترتیب): ۳۲، ۶۰۔ قیمت: ۸۰ روپے، ۱۲۵ روپے۔

مسئلہ کشمیر، جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی مظلومانہ غلامی، بھارت کی مکارانہ ڈپلومیسی اور حکومت ِ پاکستان کی ایک قدم آگے دو قدم پیچھے پالیسی کا عنوان ہے۔ ڈوگرہ راج سے شروع اس المیے کا حل تو دُور کی بات ہے، ہر آنے والا دن ان سے نظرانداز کرنے کی سعی و نامسعود کا حوالہ بنتا ہے، مگر وہاں مسلمانوں میں آتشِ حریت تیز سے تیز تر ہوتی چلی جارہی ہے۔ یہ دو مختصر مگر جامع کتابیں، مسئلے کی نظریاتی، آئینی اور قومی شناخت کے معاملے کو زیربحث لاتی ہیں۔ محترم مؤلف نصف صدی سے اسی موضوع پر تحقیق و تصنیف سے وابستہ ہیں۔ انھوں نے جامعیت کے ساتھ زیربحث موضوع کا احاطہ کیا ہے۔ پاکستان کے اہلِ فکرونظر میں مسئلے کی اہمیت اور ان کی ذمہ داریوں کو اُجاگر کرنے کے لیے ان کتابچوں کا مطالعہ مفید ہوگا۔ (س- م - خ)


 

عمران ظہور غازی ، لاہور

نئے سال کا پہلا شمارہ موصول ہوا، سرورق گذشتہ سال سے کافی بہتر لگا، اللھم زد فزد!     ’رسائل و مسائل‘ میں برکت کے مفہوم کے عنوان سے علامہ یوسف القرضاوی کے فتاویٰ میں سے انتخاب پیش کیا گیا ہے جو اہم ہے۔ اس بارے میں کوئی مضمون ہو تو مناسب ہوگا۔

احمد علی محمودی ، حاصل پور

’اختلاف اور آدابِ اختلاف‘ (جنوری ۲۰۱۱ء) بلندپایہ تحریر ہے۔ صحابہ کرامؓ اور آئمہ عظامؒ نے اختلافی مسائل میں ہمیشہ رواداری، وسیع القلبی اور وسعت نظری کا مظاہرہ کیا۔ موجودہ دور میں بھی اگر اہلِ علم اکابر کے نقشِ قدم پر عمل پیرا ہوتے ہوئے فروعی اختلافات کو صرف راے کے اختلاف تک محدود رکھیں، تو معاشرے میں شدت پسندی کے جذبات پر قابو پاکر باہمی محبت، امن و رواداری کی فضا پیدا کی جاسکتی ہے۔

عابد آر صدیقی ،نیویارک

’توہین رسالتؐ کا مقدمہ‘ (دسمبر ۲۰۱۰ء) ،خرم مراد مرحوم کا مضمون نظر سے گزرا۔ مولانا مودودیؒ نے اس اہم موضوع پر سورئہ منافقون کی تفسیر میں اہم نکات اُٹھائے ہیں۔غزوہ بنی المصطَلِق کے موقع پر جب عبداللہ بن ابی نے گستاخانہ کلمات ادا کیے تو حضرت عمرؓ نے حضوؐر سے اسے قتل کرنے کی اجازت چاہی لیکن آپؐ نے اسے مؤخر کردیا:’’اس سے دو اہم شرعی مسئلوں پر روشنی پڑتی ہے۔ ایک یہ کہ جو طرزِعمل ابن اُبی نے اختیار کیا تھا، اگر کوئی شخص مسلم ملّت میں رہتے ہوئے اس طرح کا رویّہ اختیار کرے تو وہ قتل کا مستحق ہے۔ دوسرے یہ کہ محض قانوناً کسی شخص کے مستحق قتل ہوجانے سے یہ لازم نہیں آتا کہ ضرور اُسے قتل ہی کر دیا جائے۔ ایسے کسی فیصلے سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ آیا اس کا قتل کسی عظیم ترین فتنے کا موجب تو نہ بن جائے گا۔ حالات سے آنکھیں بند کرکے قانون کا اندھا دھند استعمال بعض اوقات اُس مقصد کے خلاف بالکل اُلٹا نتیجہ پیدا کردیتا ہے جس کے لیے قانون استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر ایک منافق اور مفسد آدمی کے پیچھے کوئی قابلِ لحاظ سیاسی طاقت موجود ہو تو اسے سزا دے کر مزید فتنوں کو سر اُٹھانے کا موقع دینے سے بہتر یہ ہے کہ حکمت اور تدبیر کے ساتھ اس اصل سیاسی طاقت کا استیصال کر دیا جائے جس کے بل پر وہ شرارت کر رہا ہو۔ یہی مصلحت تھی جس کی بنا پر حضوؐر نے عبداللہ بن اُبی کو اس وقت بھی سزا نہ دی جب آپؐ اسے سزا دینے پر قادر تھے، بلکہ اس کے ساتھ برابر نرمی کا سلوک کرتے رہے، یہاں تک کہ دو تین سال کے اندر مدینہ میں منافقین کا زور ہمیشہ کے لیے ٹوٹ گیا‘‘۔(تفہیم القرآن، ج۵، ص ۵۱۴-۵۱۵)


ابونعمان ،بحرین

’کلام نبویؐ کی کرنیں‘ (دسمبر ۲۰۱۰ء) میں سود کے بارے میں حدیث کی تشریح کرتے ہوئے عملی اقدام اُٹھانے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ اس ضمن میں پیش رفت پر مبنی مضامین بھی ترجمان القرآن میں شائع کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کے ہر مکتب ِ فکر کے ۳۱علما نے جنوری ۱۹۵۱ء میں اسلامی مملکت کے لیے بنیادی اصول متفقہ طور پر منظور کیے۔ ان کے متن کی اشاعت کے ساتھ مدیر کی تعارفی تحریر پیش کی جارہی ہے۔(ادارہ)

شاید تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ مسلمانوں کے تمام بڑے بڑے فرقوں کے اکابر علما نے بالاتفاق وہ اصول مرتب کیے ہیں جن پر قرآن و سنت کے منشا کے مطابق ایک اسلامی ریاست کی عمارت تعمیر کی جاسکتی ہے۔ اس سے پہلے اشخاص اور افراد متفرق طور پر تو بارہا ان مسائل کے متعلق اپنی تحقیقات بیان کر رہے ہیں، لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ ایک مجلس میں بیٹھ کر مختلف عقائد و مسالک کے نمایندہ علما نے خالص علمی بحث و تحقیق کے بعد اسلامی مملکت کے تصور اور اس کے بنیادی اصولوں کے متعلق اس قدر واضح اور مستند بیان تیار کیا ہو۔ یہ ایک ایسا عظیم کارنامہ ہے جس کی نظیر اب تک کی اسلامی تاریخ میں نہیں ملتی اور توقع کی جاسکتی ہے کہ ان شاء اللہ ہماری آیندہ تاریخ کی تشکیل میں اس کا حصہ نہایت اہم ہوگا۔ اب کسی کے لیے یہ کہنا ممکن نہیں ہے کہ مسلمان جیسی کچھ بھی حکومت بنابیٹھیں وہ ’اسلامی حکومت‘ ہے۔ اب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اسلام ایک دین کی حیثیت سے ریاست اور سیاست کے لیے اپنے کچھ مخصوص اصول رکھتا ہی نہیں ہے۔ اب کسی کے لیے یہ موقع باقی نہیں رہا ہے کہ اپنے خودساختہ بنیادی اصولوں اور دستوری خاکوں پر ’اسلامی‘ لیبل لگا کر جعلی نوٹوں کی طرح انھیں بازار میں چلا سکے۔ اب یہ دعویٰ کرنے کی بھی گنجایش نہیں ہے کہ مسلمان فرقوں کے مذہبی نزاعات ایک اسلامی حکومت کے قیام میں مانع ہیں۔ اب اس جاہلانہ بدگمانی کے فروغ پانے کا بھی امکان نہیں رہا ہے کہ دورِجدید میں ایک ترقی پذیر ریاست کے لیے اسلام کے اصولِ سیاست موزوں نہیں ہیں۔ اب یہ جھوٹ بھی نہیں چل سکتا کہ ایک اسلامی ریاست میں غیرمسلموں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ علماے پاکستان کے مستند اور متفق علیہ بیان نے ان تمام غلط فہمیوں کا دروازہ بند کر دیا ہے۔ یہ بیان ایک ایسا چارٹر ہے جو خدا کے فضل سے صرف پاکستان ہی کی حکومت کا سنگِ بنیاد ثابت نہ ہوگا، بلکہ دوسرے مسلمان ملکوں کے لیے بھی مشعلِ راہ بنے گا۔ جن مسلمان ملکوں میں اس وقت تک لادینی ریاستوں کی نقل اُتاری جارہی ہے، وہ سب ان شاء اللہ اس چارٹر سے ہدایت پائیں گے۔(’اسلامی مملکت کے بنیادی اصول‘، ترجمان القرآن، جلد۳۵، عدد ۴، ربیع الاول، ربیع الآخر، ۱۳۷۰ھ، جنوری، فروری ۱۹۵۱ء، ص ۵۷-۵۸)

 

’’جیل میں ہم پر اکثر تشدد ہوا، لیکن سب سے زیادہ تشدد اس وقت ہوتا جب ہم میں سے کوئی وہاں نماز پڑھتے ہوئے پکڑا جاتا‘‘___ تیونس کی جیل سے رہائی پانے والا نوجوان راقم کو آپ بیتی سنا رہا تھا۔ میں نے حیرانی سے پوچھا: ’’ایک مسلمان ملک میں نماز ادا کرنا کیوں کر جرم ٹھیرا؟‘‘ کہنے لگا: ’’مجموعی طور پر تو نماز جرم نہیں ہے، لیکن نماز چونکہ دین داری کی علامت بھی ہے اور اگر کسی نوجوان میں دین داری کی کوئی علامات پائی جائیں تو یہ اس کی ’بنیاد پرستی‘ اور ’دہشت گردی‘ کی علامت ہے۔ اس لیے نوجوانوں کا نماز ادا کرنا جرم قرار پایا۔ ایک وقت تو ایسا بھی آیا کہ    نماز کے وقت مساجد میں جماعت کھڑی ہوجاتی تو اچانک مساجد کے دروازوں کے باہر پولیس کی لاریاں کھڑی کردی جاتیںاور نمازیوں میں سے نوجوانوں کو الگ چھانٹ کر لاریوں میں ٹھونس کر   لے جاتیں۔ کبھی یہ بھی ہوتا کہ فجر کے وقت رہایشی آبادیوں کا جائزہ لیا جاتا کہ کس کے گھر میں بتیاں روشن ہیں۔ اس وقت اگر کوئی اُٹھ کر نماز پڑھنے لگ جاتا ہے تو یقینا پکا بنیاد پرست ہے۔

جیل بیتی دوبارہ شروع کرتے ہوئے پوچھا کہ: پھر آپ لوگوں نے تشدد کے خوف سے نماز چھوڑ دی؟ ہنس کر کہنے لگا: ’’یہ کیسے ممکن ہے؟ ہم نے مختلف تدبیروں سے نماز پڑھنا شروع کردی، کبھی اشاروں سے، کبھی کوٹھڑی میں چھپ کر… لیکن جلاد بھی بضد تھا کہ ’دہشت گردی‘ کے خلاف کارروائیاں جاری رکھنا ہیں۔ انھوں نے کوٹھڑی کی چھت میں سوراخ کروا کے اُوپر عارضی تختے رکھ دیے۔ دن رات کے کسی وقت وہ کوٹھڑی کے پچھواڑے سے اُوپر چڑھتے اور اچانک   تختہ ہٹاکر چھاپہ مارتے کہ کہیں کوئی ’دہشت گردی‘ کا ارتکاب تو نہیں کر رہا۔ ہم نے باری باری کمبل میں لیٹ کر نماز پڑھنا شروع کر دی۔ جلاد آتے تو حیرانی سے پوچھتے: یہ اتنی گرمی میں کمبل کیوں اوڑھ رکھا ہے؟ ہم بتاتے طبیعت ٹھیک نہیں ہے‘‘۔

تیونس میں دین کے خلاف مخاصمانہ روش کا آغاز صدر حبیب بورقیبہ کے دور میں ہوا تھا۔ سابق صدر زین العابدین بن علی اس کا وزیرداخلہ تھا۔ ملک میں اسلامی عناصر کے خلاف اس ساری کارروائی کا ذمہ دار وہی تھا۔ صدر حبیب بورقیبہ اپنی یہ تمام تر کارروائیاں ’روشن خیالی‘ کے عنوان سے کر رہا تھا۔ اس نے حجاب (سر پر اسکارف رکھنے) کو جرم قراردیتے ہوئے کسی بھی باحجاب خاتون کو تعلیمی اداروں میں داخلے، سرکاری دفاتر میں ملازمت، یا ہسپتال سے علاج کروانے پر پابندی عائد کردی۔ اس کی ظالم پولیس اہل کار سر پر اسکارف رکھنے والی کسی بھی خاتون کا حجاب سرراہ نوچ ڈالتے۔ حبیب بورقیبہ نے ایک بار خود بھی اس روشن خیال کارروائی میں حصہ لیا۔ اس نے ایک ہال میں اجتماع منعقد کیا، جس میں کچھ خواتین کو سر پر اسکارف رکھ کر شریک کروایا گیا اور پھر صدر بورقیبہ نے دورانِ تقریب ان میں سے ایک خاتون کو اسٹیج پر بلایا اور اس کا اسکارف سر سے نوچ کر پائوں تلے روندتے ہوئے کہا: ’’آیندہ اس رجعت پسندی کا ارتکاب نہ کرنا‘‘۔

’روشن خیال‘ بورقیبہ اور اس کا وزیرداخلہ زین العابدین بن علی یہ تمام کارروائیاں ’اسلام کے حقیقی پیروکار بلکہ دینی پیشوا‘ ہونے کے دعوے کے ساتھ کرتے تھے۔ موسمِ گرما میں رمضان المبارک آیا تو ایک روز اعلان ہوا کہ صدر مملکت ریڈیو، ٹی وی پر قوم سے براہِ راست خطاب فرمائیں گے۔ دوپہر کے وقت صدر صاحب سرکاری ٹی وی کی اسکرین پر نمودار ہوئے اور اعلان فرمایا: ’’میں صدر مملکت ہونے کے ناتے مسلمانوں اور ان کے تمام امور کا ذمہ دار اور ان کے مفادات کا محافظ ہوں، اور گرمی کی شدت کی وجہ سے چونکہ لوگوں کی قوتِ کار متاثر ہورہی ہے، اس لیے میں ’ولی امرالمسلمین‘ ہونے کے ناتے اعلان کرتا ہوں کہ لوگ اس سال رمضان میں روزے نہ رکھیں۔ یہ کہنے کے بعد براہِ راست خطاب کے دوران کچھ نوش کرتے ہوئے روزہ چھوڑ دینے کا عملی مظاہرہ کیا۔

چند مزید مناظر بھی ملاحظہ کیجیے: ’ولی امرالمسلمین‘ ہونے کے دعوے دار صدر مملکت نے اعلان فرمایا کہ قرآن میں وراثت کے اصولوں کے مطابق مرد کا حصہ خواتین سے دگنا بتایا گیا ہے۔ جب یہ آیات نازل ہوئیں، اس وقت خواتین معاشی زندگی میں عملاً شریک نہیں تھیں، اس لیے یہ حصے رکھے گئے۔ آج ہماری خواتین ترقی کی دوڑ میں مردوں کے شانہ بشانہ حصہ لے رہی ہیں، اس لیے اب وراثت میں مردوں اور خواتین کا حصہ برابر ہوگا۔ اب یہ وہاں کا باقاعدہ قانون ہے۔

’روشن خیال‘ بورقیبہ کے نزدیک عدم مساوات کا ایک یہ پہلو بھی بہت قابلِ اعتراض تھا کہ مرد کو تو چار بیویاں رکھنے کی اجازت دے دی گئی لیکن عورت کے ساتھ زیادتی ہوگئی کہ اسے چار شوہر رکھنے کی اجازت نہ ملی، اس لیے اس نے مردوں پر بھی پابندی عائد کر دی۔ قانون بن گیا کہ مرد بھی صرف ایک ہی شادی کرسکتا ہے، خلاف ورزی کرنے والے کو جیل جانا پڑے گا۔

حبیب بورقیبہ کی اس ’روشن خیالی‘ کے خلاف جس نے بھی آوازِ احتجاج بلند کی اسے   ’لاپتا افراد‘ میں شامل کر دیا گیا۔ پھر ایک روز اچانک اعلان ہوا کہ وزیرداخلہ زین العابدین بن علی نے صدر بورقیبہ کا تختہ اُلٹ دیا ہے۔ کہا گیا: صدر اپنے بڑھاپے اور بیماری کے باعث امورِ مملکت انجام دینے کے قابل نہیں رہا، اور مزید چند برس گمنامی میںگزارکر، اسے بھی قبر میں اُترنا پڑا۔

زین العابدین نے اپنے آقا کا تختہ اُلٹا تو یہ ۷نومبر ۱۹۸۷ء کا دن تھا۔ مکمل اقتدار سنبھالنے کے بعد اس نے اعلان کیا کہ ملک میں جمہوریت کی داغ بیل ڈالیںگے۔ مگر کہاں؟ وہی جبر کا نظام قائم رہا۔ زین العابدین کے ۲۳ سالہ دورِ اقتدار میں پانچ بار انتخابات ہوئے اور ہرمرتبہ ہردل عزیز صدر کو ۹۰ فی صد سے زائد ووٹ حاصل ہوئے۔ حجاب، داڑھی اور نماز روزے سمیت دینی شعائر کی اسی طرح تضحیک و توہین ہوتی رہی۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۲۳سالہ دورِاقتدار میں ساڑھے تین لاکھ سے زائد افراد کو ان کے خیالات و نظریات کی سزا کے طور پر جیلوں کی ہوا کھانا پڑی۔ اسلامی تحریک ’تحریکِ نہضت‘ کے سربراہ شیخ راشد الغنوشی سمیت ہزاروں کی تعداد میں تیونسی شہری کسی نہ کسی طرح ملک سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے اور گذشتہ تقریباً دو عشروں سے ملک بدری کی زندگی ہی گزار رہے ہیں۔ ’تحریک نہضت‘ کے جن ہزاروں کارکنان اور قائدین کو گرفتار کیا گیا ان میں تحریکِ نہضت کے سابق صدر محمد عاشور بھی تھے۔ انھیں ۱۰برس کی قید کے بعد ڈیڑھ سال قبل رہا کیا گیا لیکن رہائی پانے کے چند ہی روز بعد ایک صحافی نے انٹرویو کرتے ہوئے سوال کیا: کیا آپ ۱۰برس کی اس قیدبامشقت کے بعد بھی ’تحریک نہضت‘ کا ساتھ دیں گے؟ پیرانہ سالی کا شکار ہوتے ہوئے محمدعاشور نے کہا: اسلامی تحریک میں شمولیت کا فیصلہ دنیا کی کسی جزا یا سزا سے تبدیل نہیں ہوسکتا۔ یہ سودا تو خالق کائنات کے ساتھ کیا ہے۔ اگلے ہی روز محمدعاشور کو ’تحریک نہضت‘ سے وابستگی کے الزام میں اُٹھا کر پھر سے جیل میں بند کر دیا گیا۔ مزید ڈیڑھ سال، یعنی مجموعی طور پر ساڑھے گیارہ برس کی قید کے بعد انھیں گذشتہ نومبرکو رہا کیا گیا تھا۔

ایک محمد عاشور ہی نہیں ضمیر کے ہزاروں قیدی، قلم بردار ہزاروں صحافی اور اپوزیشن قرار دیے جانے والے بے حساب شہری جیلوں میں سڑتے رہے۔ سیکڑوں افراد نے مسلسل بھوک ہڑتال کیے رکھی۔ بڑی تعداد میں قیدیوں کے اہلِ خانہ کو یہی معلوم نہ تھا کہ ان کے پیارے دنیا میں ہیں یا قیدِحیات سے ہی گزر چکے۔ اگرچہ کسی بھی غیر جانب دار صحافی یا تیونسی حکومت کی ’روشن خیالی‘ کے بارے میں منفی راے رکھنے والے کسی معروف شخص کے لیے تیونس کے دروازے بند تھے، لیکن  گذشتہ کئی سال سے وہاں حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے تھے۔ حجاب پر تمام تر پابندیوں کے باوجود حجاب کے تناسب میں واضح اضافہ ہو رہا تھا۔ نمازوں میں نوجوانوں کی شرکت کو جرم بنا دیا گیا تھا لیکن رمضان المبارک اور نمازِ جمعہ میں مساجد اتنی بارونق ہونا شروع ہوگئی تھیں کہ نماز کے وقت سے کافی پہلے مساجد نہ پہنچ سکنے والوں کو باہر سڑک پر نماز پڑھنا پڑتی تھی۔

ایسے میں جب تیونس کے شہر میں ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوان نے بھوک اور فاقوں سے تنگ آکر خودسوزی کرنے کی کوشش کی، اور وہ اس کوشش میں شدید زخمی ہوگیا، تو پورے شہر میں اس سے اظہارِ ہمدردی اور حکومت کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ڈکٹیٹر کی ملیشیا نے مظاہرین کے خلاف حسب ِ سابق طاقت کا استعمال کرنا چاہا تو عوام مزید بپھر گئے۔ موبائل فون کے کیمروں اور انٹرنیٹ کی مدد سے یہ مناظر مختلف عرب ٹی وی چینلوں بالخصوص الجزیرہ پر آنا شروع ہوگئے، اور پھر تیونس کے مظلوم و مقہور عوام نے ایک دنیا کو حیرت زدہ کر دینے والی تاریخ رقم کردی۔ سفاک حکمران سمجھتاتھا: ’’اس کی کرسی بہت مضبوط ہے‘‘ لیکن نہتے عوام کے دو ہفتے کے مظاہروں کے بعد ہی سٹم گم ہونے لگی۔ پہلے اعلان کیا: بے روزگار نوجوان پریشان نہ ہوں، جلد ہی ان کے لیے ۳ لاکھ نوکریوں کا انتظام ہوجائے گا۔ یہ اعلان کرنے اور گولیاں چلانے کے باوجود مظاہرے جاری رہے تو حکومت کے تین وزرا کو فارغ کر دیا گیا۔ دوبارہ اعلان کیا بدعنوانی برداشت نہیں کروں گا، حالانکہ ملکی نظام میں بے تحاشا بدعنوانی کی کہانیاں بچے بچے کی زبان پر تھیں۔ مظاہرے پھر بھی جاری رہے تو اعلان کیا: عوام پریشان نہ ہوں چھے ماہ بعد عام انتخابات میں انھیںاپنی مرضی کی حکومت بنانے کا موقع دیا جائے گا۔ مظاہروں کا سلسلہ قصرین اور سیدی بوزید سے باہر پھیلتے پھیلتے دارالحکومت تیونس تک پہنچ گیا۔ اب تک ۵۰ شہری شہید ہوچکے تھے، سیکڑوں زخمی تھے۔ سفاک ڈکٹیٹر نے اعلان کیا: آیندہ انتخاب میں چھٹی بار امیدوار بننے کا کوئی ارادہ نہیں، عوام چند ماہ صبر کرلیں۔ ترقی کا نیا دور شروع ہوجائے گا۔ لیکن مظاہروں کا ریلا تھا کہ کہیںتھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔

ایک روز اچانک خبر آئی: صدر نے اپنی بیوی لیلیٰ اور باقی سب اہلِ خانہ کو بیرونِ ملک بھیج دیا۔ مظاہرے جاری تھے۔ صدر نے سختی سے نمٹنے اور فوج کو سڑکوں پر بلا کر گولی چلانے کا حکم دیا۔ ۷۷؍افراد پہلے ہی جاں بحق ہوچکے تھے۔ بری فوج کے سربراہ جنرل رشیدعمار نے عوام پر گولی چلانے سے انکار کرتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفا پیش کردیا۔ حالات تیزی سے بدلنے لگے اور اچانک خبر آئی کہ صدر زین العابدین بن علی ملک سے فرار ہوگیا۔ لوگ دیوانہ وار سڑکوں پر نکل آئے۔ فوج اور پولیس کے سپاہی عوام سے گلے ملنے لگے۔ لوگوں کو تو جیسے یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ جو خود کو فرعون سمجھتا اور عوام کی جان کا مالک گردانتا تھا، اتنی جلد ڈھ گیا۔ صرف تقریباً تین ہفتے کی عوامی تحریک، جس میں عوام نے گولیاں برداشت تو کیں لیکن خود کوئی گولی نہیں چلائی، اور اتنی بڑی کامیابی تیونس ہی نہیں پوری دنیا میں لکھا اور پکارا جانے لگا: تیونسی جلاد چلا گیا، ڈکٹیٹر سے نجات   مل گئی، شاہِ تیونس بھاگ گیا، تیونسی مارکوس، تیونسی چائو شسکو… تیونسی دارالحکومت کی خالی سڑکوں پر ایک شخص دیوانہ وار چلّا رہا تھا:’’تیونس آزاد ہوگیا‘‘۔ آج اسے اپنے دل کی بات کہنے سے روکنے والا کوئی نہیں تھا۔ آج اسے اور اس کے ضمیر کو قید رکھنے والا خود سر چھپانے کو جگہ تلاش کر رہا تھا۔

سبحان اللّٰہ… تعز من تشاء وتذل من تشاء… وتلک الایام نداولھا بین الناس … ہم اس سلسلۂ ایام کو لوگوں کے درمیان بدلتے رہتے ہیں۔ وہ جو نماز اور شعائر دین کو دہشت گردی کے مترادف قرار دیتا تھا، اس کے جاتے ہی نماز کا وقت ہونے پر سرکاری ٹی وی پر پہلی بار باقاعدہ اذان کی آواز سنائی دی۔ لوگوں کے لیے یہ اسی طرح کے لمحات تھے جیسے کمال اتاترک کے جانے اور ترک زبان میں اذان کے بجاے پھر دوبارہ سے عربی زبان میں بلالی اذان بلند ہوئی تھی، اور لوگ بے اختیار سڑکوں پر ہی رب کے حضور سجدہ ریز ہوگئے تھے۔ آج تیونسی عوام سرکاری ٹی وی پر اذان سن کر اسے اپنا اعلان فتح قرار دے رہے تھے۔

اس کے بعد وزیراعظم محمدالغنوشی نے خود کو خود ہی عبوری صدر مقرر کرنے کا اعلان کر دیا۔ عوام نے اسے مسترد کر دیا۔ اگلے ہی روز اسپیکر کو عبوری صدر قرار دے دیا۔ عوام نے اسے بھی مسترد کر دیا۔ ملک میں موجود براے نام چھوٹی اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ مذاکرات کرتے ہوئے ایک قومی حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا گیا، جس کے اکثر وزرا پرانی کابینہ سے ہی تھے اور تین وزیر اپوزیشن جماعتوں سے، لیکن عوام نے اسے بھی مسترد کر دیا اور اپنے مظاہرے جاری رکھے۔ اگلے ہی روز اپوزیشن جماعتوں نے اپنے وزرا واپس ہونے کا اعلان کر دیا۔ اپوزیشن جماعتوں، سابق نظام کے باقی ماندہ کل پُرزوں سے زیادہ یہ فیصلہ کن اور حساس مرحلہ خود تیونسی عوام کا امتحان ہے۔ انھیں فیصلہ کرنا ہے کہ کیا وہ اپنی قربانیوں اور ادھوری کامیابی کو ہی اصل کامیابی سمجھ کر بیٹھ جاتے ہیں، یا پوری مسلم دنیا میں اُمید کے دیپ روشن کردینے کے بعد خود اپنی جدوجہد کو بھی اس کے منطقی نتیجے تک پہنچاتے ہیں اور عالمِ اسلام کو بھی مایوسی کے آسیب سے نجات دلانے کا سبب اور ذریعہ بنتے ہیں۔

تیونس میں عوامی جدوجہد کے پہلے مرحلے میں کامیابی کے اثرات فوراً ہی دیگر عرب ممالک میں بھی اپنا آپ منوانے لگے۔ پڑوسی ملک الجزائر میں بھی عوامی مظاہروں کا دھیما دھیما آغاز ہونے لگا۔ تیونسی نوجوان محمد البوعزیزی کی خودسوزی کی کوشش اور احتجاج سے تیونس میں عوامی انقلاب کا آغاز ہوا تھا۔ مختلف عرب ممالک میں اب تک کئی عرب ممالک میں نوجوانوں نے اسی کی تقلید شروع کر دی ہے۔ اب تک الجزائر میں چار، موریتانیا، مصر اور یمن میں ایک ایک نوجوان خودسوزی کرچکا ہے۔ ان کوششوں سے ایک بات تو ثابت ہوگئی کہ اصل بات خود سوزی میں نہیں۔ یہ تو محمد البوعزیزی کے غصے اور مایوسی کا ایک ایسا مظہر تھا کہ اسلامی تعلیمات جس سے سختی کے ساتھ روکتی اور خبردار کرتی ہیں۔ تعلیم یافتہ محمد البوعزیزی کے سبزی کے ٹھیلے کو بھی جب شہر کی انتظامیہ نے اُٹھاکر پھینک دیا تو اس نے دوبارہ ٹھیلا بنا لیا مگر اسے بھی اُٹھا لیا گیا اور البوعزیزی کو بھی پولیس اسٹیشن لے گئے۔ وہاں گالم گلوچ کے ساتھ ساتھ خاتون کانسٹیبل نے اس کے منہ پر طمانچے بھی رسید کیے۔ اس توہین اور زیادتی پر احتجاج کرنے وہ ڈپٹی کمشنر کے دفتر پہنچا۔ اس نے بھی بری طرح دھتکار دیا تو اس نے اس کے دفتر کے سامنے ہی خودسوزی کرلی۔ اس کی ماں ایک انٹرویو میں بتارہی تھی کہ محمد تین سال کی عمر میں یتیم ہوگیا تھا۔ لٹتے پٹتے، محنت کرتے اب وہ گھر سنبھالنے کے قابل ہوا تھا کہ اس کی ساری جمع پونجی لوٹ لینے کے ساتھ ہی ساتھ اس کی توہین و بے عزتی بھی کی گئی۔ ظلم و جبر کے اس ماحول میں اس کے آنسو پونچھنے والا کوئی بھی نہ تھا، نہ انصاف فراہم کرنے کا کوئی ادارہ ہی باقی بچا تھا۔ وہ جان سے گزر گیا، لیکن اس کی یہ کوشش پوری قوم کی آزادی کی بنیاد بن گئی۔

عرب ممالک میں خود سوزی کرنے والے بلکہ پوری مسلم دنیا کے نوجوانوں کے سامنے اصل بات یہی رہنی چاہیے کہ پوری قوم کا اُٹھ کھڑے ہونا، بندوق اُٹھانے یا خود کش حملوں کے ذریعے انارکی پھیلانے کے بجاے گولیوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہو جانا، لاشوں پہ لاشے گرتے چلے جانے کے باوجود اپنے احتجاج کو جاری رکھنا اور ثابت قدم رہنا ہی بالآخر انقلاب کی بنیاد بنتا ہے۔ تیونس میں انقلاب آنے کے بعد اب تمام عرب ممالک کے حکمرانوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے کہ کہیں ان کے عوام بھی ڈکٹیٹرشپ، کرپشن، بے روزگاری، مہنگائی اور حکمرانوں کی لوٹ مار کے خلاف نہ اُٹھ کھڑے ہوں۔ فوراً ہی کئی ممالک نے ’احتیاطی تدابیر‘ کا آغاز کر دیا ہے۔ پڑوسی ملک الجزائر میں اشیاے خوردونوش کی قیمتیں فوراً آدھی کر دی گئی ہیں۔ شام میں فوراً تنخواہیں دگنی کردی گئی ہیں۔ مصر میں تیل کی قیمتوں میں مجوزہ اضافہ واپس لے لیا گیا ہے۔ کویت میں تو سارے کویتی شہریوں کو ایک ایک ہزار دینار (یعنی تقریباً تین لاکھ روپے) فی کس اور ۱۴ ماہ کے لیے غذائی اشیا مفت کردینے کا اعلان کر دیا ہے۔

روزنامہ لی مونڈ کے مطابق صدر زین العابدین بن علی کے فرار سے پہلے اس کی بیوی بیگم لیلی الطرابلسی نے اسٹیٹ بنک سے ڈیڑھ ٹن سونا نکلوایا اور پھر دیگر دولت کے ساتھ وہ سونا بھی ساتھ لے کر دبئی چلی گئی۔ تیونسی ذمہ دار بتا رہے تھے کہ بیگم صاحبہ کا حکم جب بنک کے گورنر کو پہنچا کہ ڈیڑھ ٹن سونا فوراً بھجوادو تو اس نے تصدیق کرنے کے لیے صدرمملکت کو فون کیا کہ خاتونِ اوّل کا یہ حکم موصول ہوا ہے کیا کروں؟ صدر مملکت نے جواب میں فرمایا: اگر تمھیں یہ یقین ہوگیا تھا کہ حکم بیگم صاحبہ ہی کا ہے تو پھر دیر کیوں کی؟ مجھ سے پوچھنے کی کیا ضرورت تھی؟ فوراً سونا بھجوا دو۔ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ بیگم صاحبہ ۱۹۹۲ء میں بن علی سے شادی سے پہلے ایک بیوٹی پارلر چلاتی تھیں، شادی کے بعد ملک چلانے لگ گئیں۔ صدر کی دولت کا ابتدائی اندازہ ۱۲ ارب ڈالر، یعنی ۱۰کھرب روپے سے بھی زائد کا لگایا جا رہا ہے۔ لیکن اب معلوم نہیں اس میں سے کتنی ہاتھ آتی ہے، سوئٹزرلینڈ کے بنکوں نے مظاہروں کا بہانا بناکر اپنے بنکوں میں موجود اثاثے منجمد کر دیے ہیں۔

بن علی تو فرانس ہی میں زیرتعلیم رہا۔ اسکول اور کالج کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد سیکورٹی اور انٹیلی جنس میں اعلیٰ تعلیم امریکا سے حاصل کی۔ مغرب کے نزدیک ان دونوں حکمرانوں کی سب سے اہم کارکردگی یہ تھی کہ انھوں نے اسلام پسندی، یعنی رجعت پسندی اور دہشت گردی کے ساتھ سختی سے نمٹا۔ اسلامی تعلیمات مسخ کرنے اور ہزاروں کی تعداد میں بے گناہوں کو جیلوں میں بند کرتے ہوئے حقیقی معنوں میں خود کو ڈکٹیٹر اور فرعون بنائے رکھا، لیکن جیسے ہی غریب عوام نے عزت و آزادی کا راستہ اختیار کرتے ہوئے اسے بھاگنے پر مجبور کر دیا، تمام مغربی آقائوں نے منہ موڑ لیا۔ ملک سے فرار کا بھی کوئی راستہ نہیں مل رہا تھا، رات کی تاریکی میں لیبیا کے صدر قذافی نے گاڑیوں کے قافلے میں لیبیا آنے کا راستہ دیا، وہاں سے اٹلی پہنچا۔ مگر اٹلی، مالٹا اور فرانس سب نے پناہ دینے سے انکار کر دیا۔ پھر مصری صدر کی وساطت سے سعودیہ میں پناہ ملی۔

تیونس میں عوامی مظاہروں کا آغاز ہوا تھا تو سب سے پہلے فرانسیسی وزیرخارجہ نے پیش کش کی تھی کہ اگر ملک میں’امن و استحکام‘ کے لیے خصوصی پولیس فورس کی ضرورت ہو تو فرانس بھجوا سکتا ہے۔ پھر جب آتش و آہن سے اپنے عوام کو کچلنے والا اچانک ریت کے گھروندے کی طرح ڈھے گیا تو اس کے لیے اپنے تمام در بند کرتے ہوئے اسی فرانسیسی وزیرخارجہ نے بیان دیا: ’’ہم تیونسی عوام کی راے کا احترام کرتے ہیں اور اسے کامیابی حاصل کرنے پر مبارک باد پیش کرتے ہیں‘‘۔

عملاً دیکھا جائے تو فرانس نے اب بھی تیونسی عوام کی راے کا کوئی احترام نہیں کیا ہے۔ اس کی اب بھی پوری کوشش ہے کہ سابقہ نظام کے زیادہ سے زیادہ افراد ہی آیندہ بھی حکمران رہیں۔ اس وقت بھی سابق اسپیکر فواد المبزع کو صدر اور سابق وزیراعظم محمدالغنوشی کو پہلے صدر اور پھر وزیراعظم بنایا گیا ہے۔ عوام کو مطمئن کرنے کے لیے تمام حکومتی ذمہ داران نے سابق حکمران پارٹی ’التجمع الدستوری‘ سے استعفا دے دیا ہے اور وزیراعظم نے بیان دیا ہے کہ ’’ماضی سے مکمل براء ت کا اظہار کرتے ہیں۔ ساتھ ہی تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ اب تک ۱۸۰۰سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جاچکا ہے لیکن بہت سے خاندان اب بھی اپنے گم شدہ افراد خانہ کی بازیابی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

تیونس کے حالیہ عوامی انقلاب سے پہلے تیونس میں حالات بظاہر معمول پر تھے۔ ۱۴دسمبر کو لبنان سے شائع ہونے والے معروف پندرہ روزہ سیکولر سیاسی رسالے نے ’بن علی کے تیونس‘ کے عنوان سے ٹائٹل اسٹوری شائع کرتے ہوئے اس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے تھے اور ساری عرب دنیا کو اس کی تقلید کی دعوت دی تھی۔ ان معمول کے حالات میں بھی اتنی بڑی تعداد میں سیاسی قیدی جیلوں میں بند تھے۔ اسی لیے عبوری حکومت کے تمام ظاہری اقدامات کے باوجود عوام نے اپنے مظاہرے بند نہیں کیے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ سابقہ حکومت کے تمام افراد کو ایوانِ اقتدار سے نکال کر قرار واقعی سزا دی جائے۔

تحریکِ اسلامی تیونس بھی عوام کے شانہ بشانہ میدان میں ہے۔ اگرچہ عوامی تحریک کا کوئی قائد نہیں اور پوری قوم ہی یک جا ہوکر سڑک پر ہے، اب ملک بدر سیاسی قیادت واپس آرہی ہے۔ زیرزمین قیادت بھی سامنے آرہی ہے۔ سیکولر رجحانات والے اپوزیشن لیڈر منصف المرزوقی آچکے ہیں اور اسلامی تحریک، تحریکِ نہضت کے سربراہ شیخ راشد الغنوشی بھی جلد واپسی کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ ان کے خلاف تین بار عمرقید کے عدالتی احکامات بھی موجود ہیں۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ جلاد کے ساتھ اس کے سارے جائرانہ احکامات کا بھی خاتمہ ہوگیا ہے، اس لیے وہ بہرصورت ملک جائیں گے۔ مغربی ذرائع ابلاغ نے واویلا شروع کر دیا ہے کہ راشد الغنوشی خمینی کی طرح واپس آنا چاہتے ہیں۔ شیخ راشد کا کہنا ہے کہ نہیں، ہر شہری کی طرح انھیں بھی ایک آزاد ملک میں سانس لینے کا حق ہے۔ میں خمینی بننے یا کسی صدارتی انتخاب میں حصہ لینے نہیں جا رہا۔ تحریک کی قیادت بھی تحریک کے سپرد کر دوں گا اور اپنے عوام کے ساتھ مل کر قوم کی کشتی کو منزل تک پہنچانے میں سعی کرکے انقلابی جدوجہد میں دیگر بہت سے عوامی نعروں کے علاوہ نوجوان معروف تیونسی شاعر ابوالقاسم الشابی کی نظم بآواز بلند گا رہے ہیں:

اذا الشعب یوماً أراد الحیاۃ
فلا بد أن یستجیب القدر

ولا بد للیل أن ینجلی
ولا بد لقید أن ینکسر

(جب قوم زندہ رہنے کا فیصلہ کرلے تو پھر تقدیر بھی ضرور اس کا ساتھ دیتی ہے۔ پھر (ظلم کی) تاریک رات چھٹ جاتی ہے اور قید کی زنجیریں ٹوٹ گرتی ہیں۔)

تیونس کے عوام نے ثابت کر دیا کہ پورے عالمِ اسلام کے عوام کی تقدیر خود ان کے اپنے ہاتھ میں ہے۔