مضامین کی فہرست


مارچ ۲۰۱۱

۲۷ جنوری ۲۰۱۱ء پاکستان اور امریکا کے تعلقات کی تاریخ میں ایک اہم موڑ کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کوئی نام نہاد سفارت کار نہیں ہے، بلکہ درحقیقت سی آئی اے کا خون خوار کمانڈو ہے جس کے ہاتھوں پر چار معصوم پاکستانیوں کا خون ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ وہ ایک ایسا آئینہ بن گیا ہے جس میں امریکا کے سامراجی کردار اور ایک دوست ملک کو بلیک میل کرنے، عدم استحکام کا شکار کرنے اور اپنے مذموم مقاصد کے لیے آلۂ کار بنائے جانے کے ناپاک کھیل کی پوری تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔ جس نے پاکستانی قوم اور اس کی مقتدر قوتوں کو نہ صرف جھنجھوڑ دیا ہے، بلکہ ملک اور قوم کے لیے امریکا سے تعلقات کے پورے مسئلے پر بنیادی نظرثانی کو ناگزیر بنادیا ہے۔

۲۷ جنوری کا واقعہ ایک خونیں سانحہ تو ہے ہی، لیکن اس سے زیادہ پوری قوم کے لیے ایک انتباہ کی حیثیت بھی اختیار کرچکا ہے۔ تیونس میں ایک نوجوان کی خودکشی نے تیونس ہی نہیں پورے عالمِ عرب میں بیداری کی اس انقلابِ آفریں لہر کو جنم دیا، جو تاریخ کا رُخ موڑنے کا کارنامہ انجام دے رہی ہے۔ بالکل اسی طرح پاکستان میں امریکی درندگی کا نشانہ بننے والے ان تین نوجوانوں کا خون پاکستان اور عالمِ اسلام کے لیے امریکا کی غلامی سے نجات کی تحریک کی آبیاری اور ملّی غیرت و حمیت میں تقویت کا ایک فیصلہ کن ذریعہ بنتا نظر آرہا ہے۔

پوری ملت اسلامیہ، پاکستان اور اہلِ پاکستان ۲۷ جنوری کے اس اندوہناک اور دل خراش واقعے میں ظلم کا نشانہ بننے والے خاندانوں کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ  ہم سب ان کی حُب الوطنی پر نازاں اور پاکستانی مفادات کے باب میں ان کے لیے استقامت   کے لیے دعاگو ہیں۔ اس واقعے کی روشنی میں انصاف اور قومی اور ملّی مفادات کے تحفظ کے حوالے سے ان پہلوئوں پر چند معروضات پوری قوم اور خصوصیت سے پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کے سامنے پیش کرتے ہیں۔

اصل واقعے کی بیش تر تفصیلات قوم کے سامنے آگئی ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے، اس سلسلے میں سارے دبائو اور ملکی اور بیرونی عناصر کی ریشہ دوانیوں کے علی الرغم، اصل حقائق کو تلاش کرنے اور جرأت سے انھیں بیان کرنے کے لیے جو کردار ادا کیا ہے، اس پر انھیں ہدیۂ تبریک پیش کرتے ہیں۔ یہ اعتراف بھی ضروری ہے کہ عدالت نے بروقت احکام جاری کیے۔ اسی طرح ملک کی دینی و سیاسی قوتوں اور عوام نے امریکا کے حاشیہ برداروں کے سارے کھیل کو ناکام بنانے کے لیے جو مساعی کی ہیں، وہ سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہیں۔ مگر ہم دکھ کے ساتھ اس حقیقت کو بھی ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں کہ مرکزی حکومت کا بحیثیت مجموعی اور اس کے کچھ بڑے نمایاں قائدین کا کردار سخت مشکوک اور تشویش ناک رہا ہے۔ نئی وزیر اطلاعات اور پیپلزپارٹی کی سابقہ سیکرٹری اطلاعات نے تو کھل کر امریکی مفادات کی ترجمانی کی ہے۔ پھر ایوانِ صدر کے کردار پر بھی بڑے بڑے سوالیہ نشان ثبت ہیں۔ پاکستانی وزارتِ خارجہ نے بھی خاطرخواہ طریقے     سے اپنا کردارادا نہ کیا۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی سے تو وزارت کا قلم دان چھین لیا گیا، لیکن       ایک بدیہی حقیقت سے لاہور ہائی کورٹ کو مطلع کرنے کے لیے واقعے کے دو ہفتے کے بعد بھی وزارتِ خارجہ نے مزید تین ہفتے کی مہلت مانگی ہے۔ اس چیز نے وزارتِ خارجہ کے کردار کو خاصا مشکوک بنا دیا ہے۔ لیکن چونکہ عوام، دینی اور کچھ سیاسی قوتیں اور میڈیا بیدار ہیں، اس لیے ہمیں توقع ہے کہ وزارتِ خارجہ اور اعیانِ حکومت حقائق پر پردہ ڈالنے، عوام اور عدالت کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی حماقت سے پرہیز کریں گے، اور اصل حقائق بے کم و کاست عدالت اور قوم کے سامنے پیش کر دیں گے۔

  •  ریمنڈ کا اصل جرم: سب سے پہلا مسئلہ یہ ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کا اصل جرم کیا ہے؟ پنجاب پولیس نے دو ایشوز پر فردِ جرم عائد کی ہے، اوّل: دو پاکستانی نوجوانوں کا جان بوجھ کر اور بلاجواز قتل (naked and deliberate murder)، دوم: ناجائز اسلحے کے قانون کی خلاف ورزی، یعنی ناجائز اسلحہ رکھنا اور اس کا مجرمانہ استعمال ۔ اسی طرح (خواہ بڑی تاخیر کے بعد اور عدالت کے حکم پر) امریکی قونصل خانے کی اس گاڑی کے چلانے والوں پر غیرحاضری میں فردِ جرم، جو غلط سمت سے گاڑی لاکر ایک معصوم نوجوان عبیدالرحمن کی ہلاکت کا باعث بنے۔ پھر اس گھنائونے جرم کا ارتکاب کرکے لاہور میں امریکی قونصل خانے میں پناہ گزین ہوئے اور امریکی حکام کے مجرمانہ تعاون سے غالباً ملک سے باہر روانہ بھی کردیے گئے ہیں۔ اس تیسرے قتل کے مجرموں کے باب میں پنجاب پولیس اور حکومت کا رویہ واضح طور پر نہایت غیرتسلی بخش ہے۔ اور اب بھی اس امر کی ضرورت ہے کہ امریکی قونصل خانے کے ذمہ داروں کو اس جرم کے سلسلے میں اور اس گاڑی، اس کے چلانے والوں اوراس میں بیٹھے ہوئے اعانت مجرمانہ کے شریک کاروں کو قانون کے مطابق آہنی گرفت میں لایا جائے، اور انھیں انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے تمام ذرائع استعمال کیے جائیں۔

ریمنڈ ڈیوس کم از کم چھے جرائم کا مرتکب ہوا ہے اور اس پر ان تمام امور کے بارے میں مقدمے قائم ہونے چاہییں اور قانون کے مطابق بھرپور کارروائی ہونی چاہیے۔ اس کے جرائم یہ ہیں:

۱- دو نوجوانوں فیضان اور فہیم کا دن دہاڑے بلاجوازقتلِ عمد۔

۲- تیسرے نوجوان عبیدالرحمن کی ہلاکت کی ذمہ داری میں شراکت (اسی کے بلانے پر اندھادھند وہ گاڑی آئی، اور اسی کی سازباز سے وہ بھاگنے میں کامیاب ہوسکے)۔

۳- ناجائز اسلحے کا وجود اور استعمال، اور وہ بھی ممنوعہ ۹؍ایم ایم بور کا نیم خودکار پستول مع ۷۵گولیاں، جس کا کوئی لائسنس بھی اس کے پاس نہیں تھا اور جسے اس نے بے دریغ استعمال کیا۔ (اسلحے کا پبلک مقام پر لے کر جانا بذاتِ خود ایک سنگین جرم ہے چہ جائیکہ اس کا خونیں استعمال کیا جائے۔)

۴- اپنی اصل شناخت کو چھپانا(impersonification) ،فرضی نام سے پاسپورٹ بنوانا، اور اس پاسپورٹ اور اس نام پر دوسرے ملک میں نقل و حرکت کرنا اور مراعات حاصل کرنے کی کوشش کرنا۔ امریکا کے سرکاری ترجمان نے ایک بار نہیں دو بار اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ جو شخص اس جرم میں ملوث ہے، اس کا اصل نام ریمنڈ ڈیوس نہیں ہے۔ اس طرح غلط نام پر پاسپورٹ، سفر اور پاکستان میں کارروائیاں کرنا، خود ایک مستقل بالذات جرم ہے اور اس حوالے سے بھی موصوف پر مقدمہ قائم ہونا چاہیے۔

۵- جو آلات اس کی کار سے نکلے ہیں، جو معلومات اس کے دو موبائل ٹیلی فونوں سے حاصل ہوئی ہیں، جو تصاویر اس کے کیمرے میں محفوظ ہیں، یہ سب اس بات کا ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ وہ کسی سفارت کاری میں نہیں بلکہ جاسوسی کے قبیح فعل میں مصروف تھا اور مسلسل دوسال سے یہی کام کرر ہا تھا۔ اس لیے اس پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور جاسوسی کے قوانین کے تحت بھی مقدمہ قائم ہونا چاہیے۔

۶- ایک اوراہم جرم جو اس کے ان تمام آلات اور ریکارڈ سے سامنے آیا ہے، خاص طور پر موبائل ٹیلی فون اور برقی پیغامات ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک میں تخریب کاری میں ملوث کم از کم ۳۲ افراد، ٹھکانوں اور تنظیموں سے اس کا رابطہ تھا، اور اس واقعے سے صرف سات دن پہلے اس نے وزیرستان کی ’تحریک طالبان پاکستان‘ اور کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی کے لوگوں سے رابطہ   قائم کیا تھا۔ گویا وہ دہشت گردی میں خود ملوث تھا اور یا ان لوگوں کے ساتھ منسلک تھا، جن پر امریکا اور پاکستانی حکام دہشت گردی کا الزام عائد کرتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں دہشت گردی، یا دہشت گردی کی سرپرستی یا کم از کم اس میں اعانت مجرمانہ کے تحت بھی اس پر الزام آتا ہے اور  ایک مقدمہ اس کے خلاف اس قانون کے تحت بھی درج ہونا چاہیے۔

یہ چھے وہ کھلے کھلے جرائم ہیں، جن میں اس کے ملوث ہونے کا ثبوت اب تک کی حاصل کردہ معلومات سے سامنے آتا ہے۔ بلاشبہہ اسے اپنے دفاع کا پورا پورا موقع ملنا چاہیے، اور سزا بھی عدالتی عمل کے ذریعے ملنی چاہیے، لیکن صرف قتل اور ناجائز اسلحہ اپنے قبضے میں رکھنے کے الزام ہی نہیں، باقی چاروں جرم بھی تقاضا کرتے ہیں کہ اس پر باضابطہ فردِ جرم قائم کی جائے۔ اس کے علاوہ عبیدالرحمن کے قتل کے جرم میں بھی شراکت کا الزام اس پر آتا ہے۔ یہ تمام امور ایک دوسرے سے منسلک ہیں، اس لیے انھیں ایک ساتھ لینا ضروری ہے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ ملک میں تخریب کاری کے گھنائونے اور خون آشام کاروبار میں شریک تمام قوتوں تک پہنچنا اور ان کا     بے نقاب ہونا ضروری ہے۔ نیز خون بہا اور دیت کی جو باتیں ایوانِ صدر، وزیراعظم اور امریکی اور امریکا نواز عناصر کررہے ہیں اور اسلام کا سہارا لیتے ہوئے کر رہے ہیں، ان کے پس منظر میں بھی یہ بات سامنے آنی چاہیے کہ ریمنڈ ڈیوس کے جرائم ان دو نوجوانوں کے قتل سے زیادہ ہیں۔ اس لیے جب تک تمام جرائم کے بارے میں عدالتی کارروائی مکمل نہیں ہوجاتی، کسی ایک چیز کے بہانے اس سے گلوخلاصی کرانے کی سازش کو ہرگز کامیاب نہیں ہونے دیا جاسکتا۔

  •  سفارتی استثنا: چند حقائق: ریمنڈ ڈیوس کے لیے سفارتی استثنا کی بات پر بھی بہت شوروغوغا ہے۔ امریکی قونصل اور سفیر سے لے کر ارکانِ کانگریس، سرکاری ترجمان، امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ، فوجی کمانڈوز اور خود صدر بارک اوباما پورے غیض و غضب کے ساتھ شعلہ افشانی کر رہے ہیں۔ پاکستان پر بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی اور اسے بین الاقوامی عدالت انصاف میں کھینچنے کی دھمکیاں بھی دے رہے ہیں۔ اس بارے میں اصل فیصلہ تو پاکستان کی عدالتیں ہی کریں گی، لیکن چند حقائق پر نظرڈالنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔

اوّلاً: ۲۷ جنوری کے واقعے کے فوراً بعد لاہور کے امریکی قونصل خانے کا سرکاری بیان، اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کا اعلان، امریکی سرکار کے ترجمان کا بیان اور خود ریمنڈ ڈیوس کا اس کی اپنی زبان سے پولیس کے سامنے آکر اعتراف، یہ سب ایک ہی بات پر گواہ ہیں کہ ریمنڈ ڈیوس لاہور کے قونصل خانے میں ’انتظامی اور فنی معاونت‘ پر مامور تھا۔ ۲۵ جنوری ۲۰۱۱ء کو امریکی سفارت خانے نے سفارتی استثنا کے حامل جن افراد کی فہرست پاکستانی وزارتِ خارجہ کو دی، اس میں ریمنڈ ڈیوس کا نام نہیں تھا۔ اس واقعے کے دو دن بعد ہی پہلی بار اسلام آباد کے سفارت خانے کے کارکن کی حیثیت سے اس کا ذکر کیا گیا۔ جس کی واضح وجہ یہ ہے کہ ویانا کنونشن کی رُو سے قونصل خانے کے اسٹاف کو مکمل استثنا حاصل نہیں ہوتا، اور اگر ان کا عملہ کسی بڑے جرم میں ملوث ہو تو اسے استثنا حاصل نہیں۔ ۲۹جنوری سے جو قلابازی امریکی حکام نے کھائی ہے، وہ ایک مجرم کو دھوکے کے ذریعے سے سفارتی استثنا دلوانے کی ناپاک کوشش ہے۔ یہ ایک المیہ ہے کہ امریکا کے صدر، امریکی وزیرخارجہ کے منصب پر فائز خاتون اور سینیٹر جان کیری جیسے لوگ بھی صریح دھوکے اور غلط بیانی کا پوری ڈھٹائی سے ارتکاب کر رہے ہیں۔ جس طرح عراق پر ایک جانے بوجھے جھوٹ اور دھوکے، یعنی ’بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے اسلحے‘کی موجودگی کو جواز بنایا گیا تھا، بالکل اسی طرح ریمنڈڈیوس کی حیثیت کو جانتے بوجھتے تبدیل کرنے اور دنیا اور قانون و انصاف کی آنکھوں میں دھول جھونکنے  کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ خود ایک جرم ہے جو امریکا کی قیادت کے اخلاقی دیوالیہ پن کا   ناقابلِ تردید ثبوت ہے۔ اب تو امریکی سفارت خانے کے اس خط کی نقل میڈیا میں آگئی ہے جو ۲۰جنوری ۲۰۱۰ء کو امریکی سفارت خانے نے وزارتِ خارجہ کو لکھا تھا کہ:’’ منظورشدہ پرفارما چھے کی تعداد میں منسلک ہیں۔ ان کے ساتھ اس کے پاسپورٹ کی ایک کاپی ہے اور اس کے غیرسفارتی شناختی کارڈ میں استعمال کے لیے چھے تصاویر ہیں‘‘۔ اس کے بعد بھی یہ دعویٰ کہ ریمنڈ ڈیوس ’پاکستان میں ہمارا سفارت کار‘ ہے۔ یہ سب سخن سازی ایک جھوٹ اور افترا کے سوا کچھ نہیں۔

ثانیاً: اب یہ حقیقت کہ ریمنڈ ڈیوس سفارت کار نہیں بلکہ دراصل سی آئی اے کا فعال کارندہ ہے۔ اس کا تعلق پہلے امریکی فوج سے تھا اور گذشتہ ۱۰ سال سے وہ اس پرائیویٹ سیکورٹی کے نظام سے وابستہ ہے، جو امریکا کی افواج اور اس کے اثاثوں اور مفادات کی حفاظت کے لیے سی آئی اے نے تشکیل دیے ہیں، تاکہ وہ انتظامی فریم ورک اور جواب دہی کے نظام سے بچ کر جاسوسی اور تخریب کاری کے کام کو انجام دلوا سکیں۔ یہ بات پہلے دن سے امریکی انتظامیہ اور حکمرانوں کو معلوم تھی اور جیساکہ اب کھلا اعتراف کیا جا رہا ہے کہ امریکی پریس کے پاس یہ تمام معلومات تھیں، مگر امریکی میڈیا نے آزادیِ صحافت کے تمام دعووں کے علی الرغم حکومت کے حکم پر اسے شائع نہیں کیا۔ جب یورپ کے اخبارات میں سارے حقائق آگئے ہیں تو مجبوراً امریکا میں بھی ان کو شائع کیا گیا، اور کھل کر اس امر کا اعتراف کیا گیا کہ ان حقائق کو امریکا کی حکومت کے ایما پر دبایا گیا تھا۔ نیویارک ٹائمز کو مجبوراً یہ اعتراف کرنا پڑا کہ: ’’ڈیوس سی آئی اے کی رہنمائی میں پاکستان کے جنگ جُو گروپوں کی نگرانی کرنے والے خفیہ اہل کاروں کا حصہ تھا‘‘۔ اور یہ بھی کہ موصوف نے ایک ٹھیکے دار کی حیثیت سے کئی برس سی آئی اے میں بھی کام کیا، اور کچھ وقت بلیک واٹر میں بھی گزارا۔

امریکی قیادت اور میڈیا ان حقائق سے واقف تھے، مگر ہفتوں جان بوجھ کر دنیا کو غلط معلومات دیتے رہے اور پاکستان کو دھمکیوں سے نوازتے رہے۔ نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ نے اعتراف کیا ہے کہ ان اخبارات نے حقائق کو امریکی حکومت کے ایما پر چھپایا اور غلط بیانی کی: ’’اوباما انتظامیہ کی درخواست پر لوگوں نے یہ منظور کیا کہ ایجنسی سے ڈیوس کے تعلقات کے بارے میں معلومات کو عارضی طور پر شائع نہ کریں‘‘۔

امریکا کا ایک نام ور وکیل گلین گرینالڈ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتا ہے:

ایک اخبار کے لیے یہ ایک اہم بات ہے کہ وہ کوئی معلومات اس لیے شائع نہ کرے کہ اس سے انسانی جانوں کو خطرہ ہوگا مگر یہاں امریکی حکومت نے کئی ہفتے ایسے بیانات دینے میں گزارے جوانتہائی حد تک گمراہ کن تھے۔

امریکی صدر نے جانتے بوجھتے اس سی آئی اے کے جاسوس اور تخریب کار کو ’پاکستان میں ہمارا ڈپلومیٹ‘ قرار دیا۔ گرینالڈ کے الفاظ میں: ’’یہ معلومات چھپانے سے بھی زیادہ بدتر ہے۔ یہ تو صدر کو جھوٹ بولنے پر آمادہ کرنا ہے۔ نیویارک ٹائمز نے جان بوجھ کر حقائق چھپائے… اسی کو سرکاری پروپیگنڈے کا پرچار کرنا کہا جاتا ہے‘‘۔

امریکی قیادت کی دیانت اور امریکی پریس کی آزادی کی اس سے قبیح مثال اور کیا ہوسکتی ہے کہ ایک قاتل اور مجرم کو بچانے کے لیے انھوں نے ایسے ایسے ہتھکنڈے برتنے میں کوئی    باک محسوس نہیں کی۔ بعد کی معلومات جس سمت میں اشارہ کر رہی ہیں وہ صرف یہی نہیں ہے کہ ریمنڈ ڈیوس اور اس کے نیٹ ورک سے متعلق تمام افراد جن کی تعداد سیکڑوں میں ہے، پاکستان میں تخریب کاری کرنے والے عناصر سے ربط میں ہیں۔ کچھ پتا نہیں کہ فوج، آئی ایس آئی، سرکاری عمارتوں، مساجد، امام بارگاہوں اور بے گناہ انسانوں کو تخریب کاری کا نشانہ بنانے میں اس کا بلاواسطہ یا بالواسطہ کتنا کردار ہے؟ نیز سی آئی اے کے ساتھ ’موساد‘ اور ’را‘ کے کارندوں کا کتنا اشتراک ہے؟

بھارت کے ایک آزاد صحافی ایم کے بھنڈرا کمار نے اخبار ایشین ٹائمز میں وہ سوالات صاف لفظوں میں اٹھائے ہیں جو پاکستان کے سوچنے سمجھنے والے عناصر کو پریشان کیے ہوئے تھے:

اصل حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کافی مدت سے حیران تھا کہ نام نہاد پاکستانی طالبان کو پاکستانی فوج پر اتنے گہرے زخم لگانے پر کوئی اُبھار رہا تھا اور پاکستان کو کمزور کرکے غیرمستحکم کر رہا تھا۔ (دی نیشن، ۱۸ فروری ۲۰۱۱ء)

بلّی تھیلے سے باہر آگئی ہے اور ریمنڈ ڈیوس اور اس کے گروہ کی سرگرمیوں سے پردہ اُٹھتا نظر آرہا ہے بشرطیکہ اس سے مکمل تفتیش ہو اور ہر بات شفاف انداز میں عدالت اور قوم کے سامنے آئے۔یہ مسئلہ ایک فرد کا نہیں، امریکا اور اس کے گماشتوں کے پورے کردار کا ہے کہ جسے غیرناٹو سانجھی (non Nato Ally) کہا جا رہا تھا، جس کو اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ کی افیون کی گولیاں کھلائی جارہی تھیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ایسے یارِ وفاردار کے ساتھ اصل معاملہ کیا کیا جا رہا تھا؟ بقول حفیظ جالندھری   ؎

دیکھا جو تیر کھا کے کمین گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی

lباھمی تعلقات: کشیدگی میں شدت: ۲۷جنوری کے واقعے نے جن حقائق سے پردہ اُٹھایا ہے، ان کے بارے میں اندازے اور شکوک و شبہات تو اوّل روز سے تھے، لیکن اب تو حقائق اس طرح سامنے آگئے ہیں کہ زبانِ خنجر کے ساتھ آستین کا لہو پکار اُٹھا ہے۔یوں آئی ایس آئی اور سی آئی اے کے درمیان ایک ایسی کشیدگی پیدا ہوگئی ہے، جس کا اعتراف دونوں طرف کی قیادت کر رہی ہے۔ اگرچہ امریکا کے بارے میں پاکستان کے عوام کو تو کبھی غلط فہمی نہیں تھی، مگر مقتدر طبقے کی آنکھیں جوں کی توں بند تھیں۔

یہ طبقے ۱۹۶۵ء میں بھارتی جارحیت کے موقع پر امریکا کی طوطاچشمی، ۱۹۷۱ء میں اسی کردار کی تکرار اور پھر ۱۹۹۰ء اور ۱۹۹۸ء کی پابندیوں کے تجربے کی روشنی میں امریکا کی دوستی پر بھروسا کرنے کو تیار نہ تھے۔ ۲۰۰۱ء میں جنرل مشرف امریکی دھمکی کے نتیجے میں امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شریک ہوگئے۔ راے عامہ کے تمام سروے امریکا سے بے زاری کی شہادت دیتے ہیں لیکن افسوس ہے کہ ’زرداری گیلانی حکومت‘ نے تمام تنبیہات کے باوجود نہ صرف جنرل مشرف کی پالیسی کو جاری رکھا، بلکہ امریکا کی غلامی میں اس سے بھی دوچار ہاتھ آگے نکل گئے۔ آج   عالم یہ ہے کہ امریکی گماشتے ملک کے چپے چپے پر اپنا گھنائونا کھیل کھیل رہے ہیں۔ پاکستان کی  مسلح افواج ان کی لگائی ہوئی آگ میں جھلس رہی ہیں۔ گذشتہ ۱۰ برس میں ۳ہزار سے زائد فوجی ہلاک ہوچکے ہیں، ۲۵۰ سے زیادہ آئی ایس آئی کے اہلکار دہشت گردی کی نذر ہوچکے ہیں۔ فوج سے متعلق افراد میں زخمیوں کی تعداد ۱۰ہزار سے متجاوز ہے۔ عام شہریوں کا جانی نقصان، فوج کے نقصان سے کم از کم ۱۰ گنا زیادہ ہے۔ معیشت کا حال دگرگوں ہے۔ وزارتِ خزانہ کے اندازے کے مطابق صرف ۲۰۰۱ء سے ۲۰۰۸ء تک ۴۳/ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے، جو اَب ۵۵اور ۶۰؍ارب ڈالر سے زیادہ ہوگیا ہے۔ اگر جانی نقصان اور ان نقصانات کو اس میں شامل کرلیا جائے، جسے معاشیات کی اصطلاح میں جو مواقع حاصل ہوسکتے ہیں ان سے محرومی کی بنا پر مزید کیا نقصان ہوا ہے، تو یہ نقصانات ۱۰۰؍ارب ڈالر سے کہیں زیادہ ہوں گے۔ اس کے مقابلے میں وہ امریکی امداد اور قرضے جن کا احسان جتایا جاتاہے ۷ تا ۹؍ارب ڈالر سے زیادہ نہیں ہے۔ گویا اس غریب ملک نے امریکا کی ایک جارحانہ اور سامراجی جنگ کو اپنے خون اور پسینے ہی سے نہیں، اپنے غریب عوام کے منہ سے نوالا چھین کر امریکی جنگ کے جہنم میں جھونک دیا ہے۔ اس کے بدلے امریکا نے ہمارے اپنے ملک میں تخریب کاری کا ایک وسیع جال بچھا دیا ہے، جس سے ملک کا استحکام، سلامتی، آزادی، عزت اور معیشت، ہرچیز معرضِ خطر میں ہے۔

ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں جس طرح امریکا کی سیاسی اورفوجی قیادت نے پاکستان کو بلیک میل کیا ہے، اور ایک قاتل اور تخریب کار کو سفارتی استثنا کے نام پر قانون کی گرفت سے نکالنے کی کوشش کی ہے، اس نے امریکا کے اصل چہرے کو بالکل بے نقاب کر دیا ہے، اور امریکا سے   بے زاری کے رجحان کو مزید تقویت پہنچائی ہے۔ ۱۹۵۸ء میں ایک امریکی ناول نگار ولیم لیڈرر نے اپنے ناول Ugly American میں امریکی افواج اور سیاسی قیادت کی، خصوصیت سے مشرقی ایشیا میں کارفرمائیوں کا جو نقشہ کھینچا ہے، اس میں غرور اور تحکم کے علاوہ دوسروں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا اور ان کی آزادی، عزتِ نفس، مفادات، احساسات اور تمدن و روایات سے بے اعتنائی بلکہ تحقیر نمایاں ہے۔ آج نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد حقیقت یہ ہے کہ امریکا کی قیادت کے رویے میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی، بلکہ مزید خرابی ہی آئی ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کے واقعے نے ایک بار پھر امریکا کے اس چہرے کو پاکستان کے سامنے بالخصوص اور پوری دنیا کے سامنے بالعموم بے نقاب کر دیا ہے اور اس وقت پاکستانی قوم کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ امریکا سے اپنے تعلقات کی نوعیت پر نظرثانی کرے، اس علاقے میں امریکا کے مقاصد اور مفادات کو اچھی طرح سمجھے، اور پاکستان کے مقاصد اور مفادات کی روشنی میں ان تعلقات کی نوعیت اور اس کے جملہ پہلوئوں کی ازسرنو صورت گری کرے۔

  •  حکومت کا شرم ناک کردار: یہاں یہ بات بھی اچھی طرح سمجھنے کی ہے، کہ ان حالات کی ساری ذمہ داری صرف امریکا اور اس کی قیادت پر نہیں، بلکہ اس میں خود پاکستان کی سیاسی قیادت اور سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ بھی برابر کی شریک ہے۔ امریکا پر کلّی انحصار ہماری حماقت کا مظہر ہی نہیں بلکہ ہماری کمزوری اور بگاڑ کا اصل سبب ہے۔ اس واقعے نے ایک بار پھر یہ حقیقت کھول کر رکھ دی ہے کہ امریکا کا ہم سے تعلق کسی اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ کی بنیاد پر نہیں ہے، یہ ہمیشہ کی طرح صرف اور صرف وقتی بنیادوں پر ہی استوار رہا ہے۔ امریکا کو ہماری آزادی، خودمختاری، سلامتی، عزت اور مفادات کا رتی بھر بھی احساس نہیں۔ وہ ہمیں صرف اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے اور سمجھتا ہے کہ چند ارب ڈالر کے ذریعے اس ملک سے جس طرح چاہے کام لے اور جس طرح چاہے ہمارے معاملات میں دخل اندازی کرے۔

ایک چھوٹی سی مگر چشم کشا مثال یہ ہے کہ سابق وزیرخارجہ شاہ محمود آج دہائی دے رہے ہیں کہ جان کیری تک نے ان کو اُمید دلائی کہ اگر ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں ان کی ہم نوائی کرے تو وہ دوبارہ وزیرخارجہ بن سکتے ہیں۔ وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن اور صدر اوباما نے صدر زرداری سے کیا کہا؟ اس کی تفصیل میں جانے کی ضروت نہیں۔ نتیجہ سامنے ہے کہ زرداری صاحب نے شاہ محمود قریشی صاحب کو وزارتِ خارجہ سے نکال باہر کیا ہے۔ وزیرداخلہ رحمان ملک نے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو رات کو جگاکر ریمنڈ ڈیوس کے لیے سفارتی استثنا کا حکم دیا، اور ایوانِ صدر کے    ہم نوائوں نے اس قاتل کے سفارتی استثنا کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا لیا۔ امریکی نواز لابی نے میڈیا اور سیاسی ایوانوں میں ’غیرت‘ اور ’حکمت‘ کے سبق پڑھانے شروع کردیے اور بڑے بقراطی انداز میں فرمایا کہ اس مسئلے پر ’جذباتی ردعمل‘ اختیار نہ کیا جائے ورنہ معیشت تباہ ہوجائے گی، فوج کی  رسد ختم ہوجائے گی اور ملک غربت اور انتشار کا شکار ہوجائے گا۔

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پہلے جنرل مشرف نے ملک کے درودیوار کو امریکا کی دخل اندازی کے لیے کھولا، اور اس کے بعد ’زرداری گیلانی حکومت‘ نے امریکا کو دخل اندازی کے اور زیادہ مواقع فراہم کیے، اور تمام سفارتی آداب اور ملک کی سلامتی اور تحفظ کے لیے کیے جانے والی پیش بندیوں کو بالاے طاق رکھ کر امریکا کو یہاں کھل کھیلنے کی پوری چھٹی دیے رکھی۔ ایوانِ صدر اور وزیراعظم کے احکامات کے تحت امریکیوں کے لیے ویزا کی لوٹ سیل کا اہتمام کیا گیا اور کسی تحقیق اور تحفظ کے بغیر تھوک کے بھائو سے ویزے واشنگٹن اور دوبئی سے جاری کیے گئے ہیں۔ غلط نام اور جعلی پتوں پر امریکیوں کو ویزے دیے گئے ہیں، اور سی آئی اے اور غالباً موساد تک کے کارکنوں کے لیے سرزمینِ پاکستان کے دروازے کھول دیے گئے ہیں___ کچھ پتا نہیں کہ کتنے ریمنڈ ڈیوس ہیں جو آج ہماری سرزمین پر دندناتے پھر رہے ہیں۔ باب وڈورڈ کی کتاب Obama's Wars امریکا کے عزائم اور پاکستان کی قیادت میں موجود میرجعفروں اور میرصادقوں کے کردار کا ایک    شرم ناک ریکارڈ ہے۔

ڈرون حملے ہوں یا پاکستان کی سرزمین پر امریکی کارندوں کی کارفرمائیاں، جن کے لیے  ’مشترکہ آپریشن‘ کے نام پر زمین ہموار کی گئی ہے اور جس میں آئی ایس آئی اور سی آئی اے کو مشترکہ زمینی کارروائیاں کرنی تھیں، مگر باب وڈورڈ کے مطابق: پاکستانی مشترکہ آپریشن میں شامل نہ ہوئے۔ اس لیے پاکستان میں داخلے کے لیے سی آئی اے کے لوگوں کو زیادہ ویزے جاری کیے گئے۔ (Obama's Wars ،ص ۲۰۶-۲۰۷)

ریمنڈ ڈیوس اور اس کے نیٹ ورک کے تمام کمانڈوز اس انتظام کا حصہ ہیں۔ موجودہ عوامی اور سابقہ فوجی، دونوں حکومتیں اس صورت حال کی ذمہ دار ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ خود آئی ایس آئی کا عمل دخل کم کر دیاگیا ہے اور ایوانِ صدر، وزارتِ داخلہ اور واشنگٹن میں ہمارا سفارت خانہ باقی اداروں کو نظرانداز کرکے سارا کھیل کھیل رہا ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کے معاملے نے آئی ایس آئی کی غفلت، نااہلی یا اسے تصویر سے باہر یا بے خبر رکھنے کے منظرنامے پر سے بھی پردہ اُٹھا دیا ہے۔    یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا بھر کے معروف سفارتی اصول و آداب کو امریکا کے معاملے میں غیرمؤثر کر دیا گیا ہے۔ امریکا کے سفارت خانے میں ڈیڑھ ہزار سے زیادہ مستقل سفارتی استثنا رکھنے والے افراد ہیں اور اس کے علاوہ ہزاروں افراد ویزے پر ہر سال آرہے ہیں۔ امریکی سفارت خانہ، پاکستانی وزارتِ داخلہ سے براہِ راست معاملات طے کرتا ہے اور یہ اصول کہ تمام سفارت خانے صرف وزارتِ خارجہ کے توسط ہی سے ملک کے تمام اداروں سے ربط قائم کریں، یکسر نظرانداز کردیا گیا ہے۔ امریکا کے سول اور فوجی نمایندوں کو فوج کے اعلیٰ ترین مقامات تک براہِ راست رسائی حاصل ہے۔ سفارت کاری کے تمام آداب کو نظرانداز کرکے امریکا سے جو بھی آتا ہے، اسے صدر، وزیراعظم اور دوسرے اہم مقامات تک براہِ راست رسائی دے دی جاتی ہے۔ امریکی کانگریس کے وفود آتے ہیں مگر پاکستان کی پارلیمنٹ یا اس کے ارکان سے ان کی کوئی     دل چسپی دیکھنے میں نہیں آتی، وہ سیدھے وزیراعظم، صدر مملکت اور چیف آف آرمی اسٹاف سے ملتے ہیں۔ ان سرگرمیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان امریکا کی کالونی بن گیا ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کے سلسلے میں جو رویہ امریکی سفیر سے لے کر امریکی صدر اور دوسرے اعلیٰ عہدے داران نے اختیار کیا، یہ وہی رویہ تھا، جو ایک سامراجی قوت اپنے محکوم ممالک کے ساتھ اختیار کرتی ہے۔

بلاشبہہ یہ لولی لنگڑی جمہوریت ہی کا نتیجہ ہے کہ حکمرانوں کے ایک طبقے کی دلی خواہش اور عیارانہ کوششوں کے باوجود، دینی اور جمہوری قوتوں کے میدان میں موجود ہونے اور میڈیا کی آزادی نے امریکا کے رنگ میں بھنگ ڈال دی اور ساری اُچھل کود کے باوجود، وہ اپنا مقصد پوری طرح حاصل نہیں کرسکے۔ تاہم ان کے عزائم اور حکمرانوں کی کمزوری بالکل الم نشرح ہوگئی ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں ہمیں آیندہ کے لیے خارجہ پالیسی اور خصوصیت سے امریکا سے تعلقات کی نوعیت اوراس کی تفصیلات طے کرتے وقت پاکستان کے قومی مقاصد، مفادات اور ضروریات کو سامنے رکھ کر سوچ بچار اور قومی اتفاق راے سے معاملات کو طے کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ قوم کے تمام متعلقہ حلقے سرجوڑ کر بیٹھیں اور پالیسی کی تشکیلِ نو کریں۔ پارلیمنٹ نے ۲۳؍اکتوبر ۲۰۰۸ء کو جو متفقہ قرارداد منظور کی تھی اور پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کی کمیٹی نے اس پر عمل درآمد کے لیے اپریل ۲۰۰۹ء میں جو تفصیلی نقشۂ کار (road map) مرتب کیا تھا، اس پر حکومت نے ۵ فی صد بھی عمل نہیں کیا، حالانکہ وہ آج بھی بے حد متعلق ہے اور ہماری پالیسی پر نظرثانی کا نقطۂ آغاز بن سکتا ہے۔

  •  پاک امریکا تعلقات: تشکیلِ نو کے خطوط: اس امر کی فوری ضرورت ہے کہ امریکا کو صاف الفاظ میں بتا دیا جائے کہ جو کچھ وہ اب تک کرتا رہا ہے، وہ پاکستانی قوم کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔ امریکا کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ پاکستانی قوم کے عزائم، احساسات اور ملک کی سلامتی، آزادی اور عزت کے سلسلے میں اس کے تصورات کا احترام بھی تعاون کی بنیاد بن سکتا ہے جو برابری کی سطح پر پاکستان کے اقتدارِ اعلیٰ کی پاس داری کے احترام کے بغیر ممکن نہیں۔ پاکستانی قوم امریکا سے تعلقات ختم کرنے کی بات نہیں کررہی، لیکن وہ اس کے لیے ہرگز تیار نہیں ہے کہ امریکا کی غلامی اور امریکا پر انحصار (dependence) کے موجودہ نظام کو کسی بھی صورت میں جاری رکھ سکے۔

ریمنڈ ڈیوس کا کیس ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ اس پر ان تمام جرائم کے سلسلے میں عدالت میں مقدمہ چلے گا، جس کا اس نے ارتکاب کیا ہے اور اس کے بارے میں کسی سفارتی استثنا کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ خون بہا کے سلسلے میں بھی یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ اس خاص معاملے میں اصل معیار قصاص ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کا جرم محض دو افراد کے خلاف نہیں بلکہ پاکستان کی سوسائٹی اور ریاست کے خلاف تھا۔ خون بہا کا تعلق صرف مسئلے کے ایک حصے سے تو ہوسکتا ہے، اس لیے اس کے تمام جرائم کا خون بہا لینا دینا ممکن نہیں۔ نیز پشاور ہائی کورٹ کا ایک تاریخی فیصلہ اس سلسلے میں بہت اہم ہے، جس میں ایسا قتل جو فساد فی الارض کے زمرے میں آتا ہو، اس میں خون بہا نہیں تعزیراصل چیز ہے۔ اس لیے سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ امریکا اس مقدمے میں مداخلت سے یکسر باز رہے اور عدالت کو قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کا پورا موقع ملے۔ پاکستان کی عدالت پر مکمل اعتماد ضروری ہے اور یہ مقدمہ صرف پاکستان میں چلے گا۔

دوسری بات یہ ضروری ہے کہ امریکا اور خصوصیت سے سی آئی اے اور امریکی سفارت خانہ ان تمام افراد کے پورے کوائف حکومت کے علم میں لائے جو ’سلامتی کے کاموں‘ کے عنوان کے تحت پاکستان میں ہیں۔ نیز امریکا سے معلومات کے حصول کا انتظار کیے بغیر پاکستان کی ایجنسیوں کو فوری طور پر ایسے تمام افراد کا کھوج لگانا چاہیے، اور پاکستان میں جتنے بھی غیرملکی ہیں خصوصیت سے امریکی اور ان کے مقامی یا دوسرے کارندے ان پر نگرانی کا مقرر نظام قائم کیا جائے۔

تیسرا، ویزے کے سلسلے میں ’فراخ دلانہ‘ پالیسی کو فوری طور پر ختم کیا جائے اور ہر ویزا پوری چھان بین کے بعد اور تمام ایجنسیوں سے کلیئرنس کے بعد ہی جاری کیا جائے۔

چوتھی چیز فوری طور پر وزارتِ خارجہ، وزارتِ داخلہ اور متعلقہ ایجنسیوں کے تعاون سے امریکی اور یورپی ممالک کے سفارتی عملے کی تعداد پر نظرثانی کی جائے، ان کے نقل و حمل اور سرگرمیوں پر نگاہ رکھی جائے۔ نیز حکومت کے تمام اداروں اور تمام سفارت کاروں کو پابند کیا جائے کہ سارے معاملات دفترخارجہ کے ذریعے انجام دیے جائیں۔ ایوانِ صدر اور ایوانِ وزیراعظم بھی اس سلسلے میں واضح ضابطوں اور آداب کا لحاظ رکھیں۔

پانچویں چیز دہشت گردی کے خلاف امریکا کی اس جنگ کے بارے میں پاکستان کے کردار کو نئے سرے سے واضح اور متعین کیا جائے۔ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کو دونوں ملکوں کے مفادات اور تاریخی رشتوں اور تعلقات کی روشنی میں مرتب کیا جائے۔ امریکا افغانستان میں جنگ ہارچکا ہے اور اس کے لیے واپسی کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ اسے واپسی کا قابلِ قبول راستہ ضرور دیا جائے، لیکن اس طرح نہیں کہ وہ افغانستان کے معاملات کی ڈوریاں اپنے ہاتھ میں رکھے اور افغانستان میں بھارت اس کے قائم مقام کے طور پر یا خود اپنے مفادات کے فروغ کے لیے کوئی مستقل کردار ادا کرنے کی مسند سنبھال لے۔

چھٹی چیز یہ ہے کہ اس امر کی بھی فوری ضرورت ہے کہ امریکا کے ان دعووں کی شفاف انداز میں تحقیق ہو کہ مشرف اور زرداری دور میں کچھ تحریری طور پر اور کچھ زبانی مراعات حکومتِ پاکستان نے امریکا کی حکومت ، اس کی فوج، سی آئی اے اور دوسرے اداروں کو دی ہیں۔ یہ مراعات کیا ہیں؟ یہ تمام معلومات فوری طور پر پارلیمنٹ کے سامنے آنی چاہییں ۔ امریکی اخبارات نے بے نام سرکاری ذرائع کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا ہے کہ ۲۰۰۸ء کے آخر میںایک ۱۱ نکاتی معاہدہ ہوا تھا جس میں سفارتی استثنا، اور بلالائسنس اسلحہ رکھنے کے بارے میں امریکیوں کو ناقابلِ یقین مراعات دی گئی ہیں ۔ اسی طرح ڈرون حملوں اور مشترک کارروائیوںکے نام پر بھی طرح طرح کی اور بے محابا سہولتوں کا بھی دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ اس بارے میں تمام حقائق پارلیمنٹ کے سامنے فوری طور پر آنے چاہییں تاکہ معلوم ہو کہ کون سی سہولت کس نے دی۔ نیز پچھلے ۱۰ برسوں میں جو کچھ بھی کیا گیا ہے اس پر پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کی کمیٹی میں بھرپور غور کیا جائے اور ان تمام سہولتوں اور مراعات کو فی الفور ختم کیا جائے جو ملکی حاکمیت اور خود مختاری کو مجروح کرتی ہیں۔

ساتویں چیز پاکستانی معیشت کی تعمیرنو کی بنیاد خودانحصاری ہو۔ جس طرح آج ملک امریکا اور عالمی اداروں کی گرفت میں آگیاہے، اس سے جلداز جلد نکلنے کا راستہ اختیار کیا جائے۔ ہماری نگاہ میں امریکی امداد ملک کے لیے قوت کا نہیں کمزوری کا باعث ہے۔ ہمیں ایسی معاشی حکمت عملی کی ضرورت ہے جو معاشی ترقی، سماجی انصاف اور عوام کی خوش حالی پرمرکوز ہو۔ امریکا کی جنگ میں شرکت سے ہمیں شدید معاشی نقصان ہوا ہے اور قرضوں کا پہاڑ اس پر مستزاد ہے۔ معاشی استحکام کے لیے بھی ضروری ہے کہ ہم دوسروں پر انحصار کے دھوکے سے نکلیں۔ یہ وقت ایک بڑے فیصلے کا ہے اور اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو وہ وسائل دیے ہیں، جن کے صحیح استعمال سے ہم معاشی ترقی اور سیاسی آزادی دونوں اہداف حاصل کرسکتے ہیں۔ آزاد خارجہ پالیسی اور معاشی ترقی ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ اگر پاکستانی قیادت ایمان دار، باصلاحیت اور جرأت مند افراد کے ہاتھوں میں ہو، تو آج پاکستان کو وہ مقام حاصل ہے کہ ہم اپنی شرائط پر دوسروں سے معاملات طے کرسکتے ہیں۔

دنیا کے حالات کروٹ لے رہے ہیں۔ آمریت کے بت گررہے ہیں اور عوام ہراس نظام سے بے زار ہیں، جس میں ان کی آزادی، عزت اور وسائل پر ان کا کنٹرول، ہرچیز تباہ ہوئی ہے۔ اُمت مسلمہ کے وسائل دوسروں کی چاکری کی نذر ہورہے ہیں۔ صرف مشرق وسطیٰ کی برآمدات کے ذریعے سالانہ آمدنی ۵۰۰؍ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ اگر یہ وسائل اُمت مسلمہ کی ترقی اور استحکام کے لیے صرف ہوں تو پانچ سال میں دنیا کا نقشہ بدل سکتا ہے۔ ضرورت صرف چہروں کے بدلنے کی نہیں، نظام کی تبدیلی کی ہے۔ اس کے لیے نئے وژن کی، صحیح منزل کے تعین کی، دیانت دار اور باصلاحیت قیادت کی، اور زمینی حقائق پر مبنی دوررس نتائج حاصل کرنے والی پالیسیوں کی تشکیل اور ان پر خلوص اور محنت سے عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اور تمام ہی مسلم ممالک کے عوام جس تبدیلی کے خواہاں ہیں، اسے اپنے اپنے ملک کو سامراجی تسلط اور اس کے مقامی کارپردازوں سے نجات کے ذریعے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ امریکا کی غلامی کے چنگل سے نکلے بغیر پاکستان اس منزل کی طرف پیش رفت نہیں کرسکتا۔ اس کے لیے امریکا سے تصادم نہیں بلکہ امریکا سے تعلقات اس نہج پر استوار کرنے کی ضرورت ہے، جس میں اوّلیت پاکستان کے مفادات اور مقاصد و اہداف کو حاصل ہو۔ ریمنڈ ڈیوس کے واقعے نے اصل ایشو کو توجہ کا مرکز بنا دیا ہے۔ اصل چیلنج اس وسیع تر مسئلے کا مناسب حل ہے، محض جزوی امور کے گورکھ دھندے میں اُلجھنا نہیں ہے۔

 

ذرا سی عقل یہ بات سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ انسان کسی ایک شخص یا ایک خاندان یا ایک قوم کا نام نہیں ہے۔ تمام دنیا کے انسان بہرحال انسان ہیں۔ تمام انسانوں کو جینے کا حق ہے۔ سب اس کے حق دار ہیں کہ ان کی ضرورتیں پوری ہوں۔ سب امن کے، انصاف کے، عزت اور شرافت کے مستحق ہیں۔ انسانی خوش حالی اگر کسی چیز کا نام ہے تو وہ کسی ایک شخص یا خاندان یا قوم کی خوش حالی نہیں، بلکہ تمام انسانوں کی خوش حالی ہے، ورنہ ایک خوش حال ہو اور دس بدحال ہوں تو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ انسان خوش حال ہے۔ فلاح اگر کسی چیز کو کہتے ہیں تو وہ تمام انسانوں کی فلاح ہے نہ کہ کسی ایک طبقے کی یا ایک قوم کی۔ ایک کی فلاح اور دس کی بربادی کو آپ انسانی فلاح نہیں کہہ سکتے۔

اس بات کو اگر آپ صحیح سمجھتے ہیں تو غور کیجیے کہ انسانی فلاح اور خوش حالی کس طرح حاصل ہوسکتی ہے۔ میرے نزدیک اس کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں ہے کہ انسانی زندگی کے لیے قانون وہ بنائے جس کی نظر میں تمام انسان یکساں ہوں۔ سب کے حقوق انصاف کے ساتھ وہ مقرر کرے جو نہ تو خود اپنی کوئی ذاتی غرض رکھتا ہو اور نہ کسی خاندان یا طبقے کی یا کسی ملک یا قوم کی اغراض سے اس کو خاص دل چسپی ہو۔ سب کے سب اس کا حکم مانیں۔ جو حکم دینے میں نہ اپنی جہالت کی وجہ سے غلطی کرے، نہ اپنی خواہش کی بنا پر حکمرانی کے اختیارات سے ناجائز فائدہ اٹھائے، اور نہ ایک کا دشمن اور دوسرے کا دوست، ایک کا طرف دار اور دوسرے کا مخالف، ایک طرف مائل اوردوسرے سے منحرف ہو۔ صرف اسی صورت میں عدل قائم ہوسکتا ہے۔ اسی طرح تمام انسانوں ، تمام قوموں، تمام طبقوں اور تمام گروہوں کو اُن کے جائز حقوق پہنچ سکتے ہیں۔ یہی ایک صورت ہے جس سے ظلم مٹ سکتا ہے۔

اگر یہ بات بھی درست ہے تو پھر میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا دنیا میں کوئی انسان بھی ایسا بے لاگ، ایسا غیرجانب دار، ایسا بے غرض، اور اس قدر انسانی کمزوریوں سے بالاتر ہوسکتا ہے؟ شاید آپ میں سے کوئی شخص میرے اس سوال کا جواب اثبات میں دینے کی جرأت نہ کرے گا۔ یہ شان صرف خدا ہی کی ہے۔ کوئی دوسرا س شان کا نہیں ہے۔ انسان خواہ کتنے ہی بڑے دل گردے کا ہو، بہرحال وہ اپنی کچھ ذاتی اغراض رکھتا ہے، کچھ دل چسپیاں رکھتا ہے۔ کسی سے اس کا تعلق زیادہ ہے اور کسی سے کم ، کسی سے اس کو محبت ہے اور کسی سے نہیں ہے۔ ان کمزوریوں سے کوئی انسان پاک نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں خدا کے بجاے انسانوں کے حکم کی اطاعت کی جاتی ہے، وہاں کسی نہ کسی صورت میں ظلم اور بے انصافی ضرور موجود ہے۔

  •  ان شاہی خاندانوں کو دیکھیے جو زبردستی اپنی طاقت کے بل بوتے پر امتیازی حیثیت حاصل کیے ہوئے ہیں۔ انھوں نے اپنے لیے وہ عزت، وہ ٹھاٹھ، وہ آمدنی، وہ حقوق اور وہ اختیارات مخصوص کر رکھے ہیں جو دوسروں کے لیے نہیں ہیں۔ یہ قانون سے بالاتر ہیں۔ ان کے خلاف کوئی دعویٰ نہیں کیا جاسکتا۔ یہ چاہے کچھ کریں ان کے مقابلے میں کوئی چارہ جوئی نہیں کی جاسکتی۔ کوئی عدالت ان کے نام سمن نہیں بھیج سکتی۔ دنیا دیکھتی ہے کہ یہ غلطیاں کرتے ہیں، مگر کہا جاتا ہے اور ماننے والے مان بھی لیتے ہیں کہ ’’بادشاہ غلطی سے پاک ہے‘‘۔ دنیا دیکھتی ہے کہ یہ معمولی انسان ہیں، جیسے اور سب انسان ہوتے ہیں، مگر یہ خدا بن کر سب سے اُونچے بیٹھتے ہیں اور لوگ ان کے سامنے یوں ہاتھ باندھے، سر جھکائے، ڈرے، سہمے کھڑے ہوتے ہیں گویا ان کا رزق، ان کی زندگی، ان کی موت، سب ان کے ہاتھ میں ہے۔ یہ رعایا کا پیسہ اچھے اور بُرے ہرطریقے سے گھسیٹتے ہیں اور اسے اپنے محلوں پر، اپنی سواریوں پر، اپنے عیش و آرام اور اپنی تفریحوں پر بے دریغ لٹاتے ہیں۔ ان کے کتوں کو وہ روٹی ملتی ہے جو کما کر دینے والی رعایا کو نصیب نہیں ہوتی۔ کیا یہ انصاف ہے؟ کیا یہ طریقہ کسی ایسے عادل کا مقرر کیا ہوا ہوسکتا ہے جس کی نگاہ میں سب انسانوں کے حقوق اورمفاد یکساں ہوں؟ کیا یہ لوگ انسانوں کے لیے کوئی منصفانہ قانون بنا سکتے ہیں؟
  •  ان برہمنوں اور پیروں کو دیکھیے۔ ان نوابوں اور رئیسوں کو دیکھیے۔ ان جاگیرداروں اور زمین داروں کو دیکھیے۔ ان ساہوکاروں اور مہاجنوں کو دیکھیے۔ یہ سب طبقے اپنے آپ کو عام انسانوں سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ ان کے زور و اثر سے جتنے قوانین دنیا میں بنے ہیں وہ انھیں ایسے حقوق دیتے ہیں جو عام انسانوں کو نہیں دیے گئے۔ یہ پاک ہیں اور دوسرے ناپاک۔ یہ شریف ہیں اور دوسرے کمین۔ یہ اُونچے ہیں اور دوسرے نیچے۔ یہ لوٹنے کے لیے ہیں اور دوسرے لٹنے کے لیے۔ ان کے نفس کی خواہشوں پر لوگوں کی جان، مال، عزت، آبرو، ہر ایک چیز قربان کر دی جاتی ہے۔ کیا یہ ضابطے کسی منصف کے بنائے ہوئے ہوسکتے ہیں؟ کیا ان میں صریح طور پر خود غرضی اور جانب داری نظر نہیں آتی؟ کیا اس سوسائٹی میں منصفانہ قوانین بن سکتے ہیں جس پر یہ لوگ چھائے ہوئے ہوں؟
  •  ان حاکم قوموں کو دیکھیے جو اپنی طاقت کے بل پر دوسری قوموں کو غلام بنائے ہوئے ہیں۔ ان کا کون سا قانون اور کون سا ضابطہ ایسا ہے جس میں خود غرضی شامل نہیں ہے؟ یہ اپنے آپ کو انسانِ اعلیٰ کہتے ہیں بلکہ درحقیقت صرف اپنے ہی کو انسان سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک کمزور قوموں کے لوگ یا تو انسان ہی نہیں ہیں یا اگر ہیں تو ادنیٰ درجے کے ہیں۔ یہ ہرحیثیت سے اپنے آپ کو دوسروںسے اُونچا ہی رکھتے ہیں اور اپنی اغراض پر دوسروں کے مفاد کو قربان کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ ان کے زور و اثر سے جتنے قوانین اور ضوابط دنیا میں بنے ہیں، ان سب میں یہ رنگ موجود ہے۔

یہ چند مثالیں میں نے محض اشارے کے طور پر دی ہیں۔ تفصیل کا یہاں موقع نہیں۔ میں صرف یہ بات آپ کے ذہن نشین کرنا چاہتا ہوں کہ دنیا میں جہاں بھی انسان نے قانون بنایا ہے، وہاں بے انصافی ضرور ہوئی ہے۔ کچھ انسانوں کو ان کے جائز حقوق سے بہت زیادہ دیا گیا ہے اور کچھ انسانوں کے حقوق نہ صرف پامال کیے گئے ہیں، بلکہ انھیں انسانیت کے درجے سے گرا دینے میں بھی تامل نہیں کیا گیا۔ اس کی وجہ انسان کی یہ کمزوری ہے کہ وہ جب کسی معاملے کا فیصلہ کرنے بیٹھتا ہے تو اس کے دل و دماغ پر اپنی ذات، یا اپنے خاندان، یا اپنی نسل، یا اپنے طبقے یا اپنی قوم ہی کے مفاد کا خیال مسلط رہتا ہے۔ دوسروں کے حقوق اور مفاد کے لیے اس کے پاس وہ ہمدردی کی نظر نہیں ہوتی جو اپنوں کے لیے ہوتی ہے___ مجھے بتایئے، کیا اس بے انصافی کا کوئی علاج اس کے سوا ممکن ہے کہ تمام انسانی قوانین کو دریا بُرد کردیا جائے، اور اس خدا کے قانون کو ہم سب تسلیم کرلیں جس کی نگاہ میں ایک انسان اور دوسرے انسان کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ فرق اگر ہے تو صرف اس کے اخلاق، اس کے اعمال، اور اس کے اوصاف کے لحاظ سے ہے، نہ کہ نسل یا طبقے یا قومیت یا رنگ کے لحاظ سے۔ ( اسلامی نظام زندگی اور اس کے بنیادی تصورات، ص ۷۰-۷۳)

 

یاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِکُمْ وَاَوْلاَدِکُمْ عَدُوًّا لَّکُمْ فَاحْذَرُوْھُمْ وَاِنْ تَعْفُوْا وَتَصْفَحُوْا وَتَغْفِرُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ o اِنَّمَآ اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلاَدُکُمْ فِتْنَۃٌ وَاللّٰہُ عِنْدَہٗٓ اَجْرٌ عَظِیْمٌ o (التغابن ۶۴:۱۴-۱۵) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمھاری بیویوں اور تمھاری اولاد میں سے بعض تمھارے دشمن ہیں، ان سے ہوشیار رہو۔ اور اگر تم عفو و درگزر سے کام لو اور معاف کردو تو اللہ غفور و رحیم ہے۔ تمھارے مال اور تمھاری اولاد تو ایک آزمایش ہیں، اور اللہ ہی ہے جس کے پاس بڑا اجر ہے۔

عمومی ہدایات کے بعد اب مسلمانوں کو کچھ خصوصی ہدایات دی جارہی ہیں۔ ان دونوں آیتوں میں ایک بات تو اگرچہ خاص اس زمانے کے حالات کے لحاظ سے فرمائی گئی لیکن اگر دوسرے زمانوں میں بھی وہی حالات پیش آئیں تو ان کے لیے بھی وہ ہدایت ہے، اور ایک ہدایت ان آیات میں عام ہے۔

منافقانہ طرزِعمل

جو بات خاص حالات کے لیے فرمائی گئی ہے وہ یہ تھی کہ مدینہ طیبہ میں جو لوگ مسلمان ہوئے تھے ان کے اندر بہت سے لوگ ایسے تھے جو خود تو مسلمان ہوگئے تھے لیکن ان کے خاندان کے لوگوں نے اسلام قبول نہیں کیا۔ اگر ایک صاحب نے اسلام قبول کرلیا تھا تو ان کی بیوی مسلمان نہیں ہوئی تھی، یا میاں بیوی دونوں مسلمان ہوگئے تھے لیکن ان کی جوان اولاد مسلمان نہیں ہوئی تھی۔ بہت سے لوگ ایسے بھی تھے جن کی اولاد اور بیویاں بظاہر تو مسلمان ہوگئی تھیں لیکن انھوں نے سچے دل سے اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ شوہر چونکہ مسلمان ہوگیا ہے اس لیے اس کے ساتھ بیوی بھی مسلمان ہوگئی۔ باپ چونکہ مسلمان ہوگیا ہے اس لیے بیٹے بھی مسلمان ہوگئے لیکن ان کی عام روش اور دل چسپیاں اسلام کے مطابق نہیں ڈھلی تھیں۔ ان کے لیے ان کے ذاتی مفادات زیادہ اہمیت رکھتے تھے بہ نسبت اس کے کہ کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے دین کے لیے سرفروشی کرے اور قربانی کی راہ اختیار کرے۔ بیویوں کو یہ بات کھلتی.َ   تھی کہ یہ نبی جو مکّہ سے یہاں آئے ہیں، ان کے ماننے والے ہمارے شوہر صاحب اب اپنی آمدنی کا بڑا حصہ ان کی دعوت اور دین کی تبلیغ کے کاموں میں   خرچ کر ڈالتے ہیں، جب کہ گھر کی ضروریات پوری نہیں ہوتیں۔ اولاد کو یہ بات کھلتی.َ   تھی کہ ہمارے اباجان نے ایک ایسے کام میں اپنے آپ کو ڈال دیا ہے کہ جس میں سواے سرفروشی اور قربانیوں کے اور کچھ نہیں۔ دوسرے نقصانات اور خطرات بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ ان کو اپنی آخرت کی بہت فکر ہے لیکن اپنی اولاد کے مستقبل کی کوئی فکر نہیں ہے۔ یہ ایسے کام میں پڑ گئے ہیں کہ اگر کفار کو مدینے میں غلبہ حاصل ہوجائے تو نہ صرف یہ کہ خود مارے جائیں گے بلکہ زن بچہ کولھو میں پیل دیا جائے گا اور ہم بھی ساتھ ہی لپیٹ میں آجائیں گے۔

یہ تصورات ایک اچھی خاصی تعداد کے اندر موجود تھے۔ یہ منافقت اس زمانے میں اپنا رنگ دکھاتی رہتی تھی۔ آج ہم مدینے کے جن منافقین کا اور ان کے منافقانہ طرزِعمل کا ذکر سنتے ہیں     یہ یونہی کچھ ہوائی چیز نہیں تھی، بلکہ اس کی کچھ جڑیں اور بنیادیں تھیں۔

حقیقت واقعی یہ ہے کہ جب تک ایک آدمی کے دل میں سچا اور پکا ایمان اُترا ہوا نہ ہو وہ ایمان کے تقاضے پورے نہیں کرسکتا، بلکہ وہ شاید ان کا پورا شعور و ادراک بھی حاصل نہیں کرسکتا۔ محض یہ تسلیم کرلینا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، کافی نہیں ہوتا۔ جب تک آدمی کے دل میں آپؐ کی رسالت اور دعوت پر سچا اور پکا ایمان نہ ہو، اس وقت تک آدمی اس کے لیے   راضی نہیں ہوسکتا کہ وہ اپنے سارے مفادات سے بے پروا ہوکر اللہ کے دین کے لیے سب کچھ قربان کردینے پر تیار ہوجائے۔ ہرتکلیف سہ جانے اور ہرنقصان برداشت کرلینے کے لیے آمادہ ہوجائے۔ آدمی کو بے شمار فائدے علی الاعلان حاصل ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں لیکن وہ دین کی خاطر ان کو ٹھکرانے کا فیصلہ کرلے۔ یہ بغیر سچے اور پکے ایمان کے ممکن نہیں ہے۔ منافقین مدینہ کا معاملہ یہی تھا کہ ان کے اندر یہ سچا اور پکا ایمان نہیں اُترا تھا۔ وہ اس کو تو ماننے کو تیار تھے کہ ہاں،  خدا ایک ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسولؐ ہیں۔ وہ یہ بھی ماننے کو تیار تھے کہ اچھا بھئی نماز پڑھ لیں گے، روزہ بھی رکھ لیں گے، ہوسکے گا تو زکوٰۃ بھی دے دیں گے لیکن اس سے آگے بڑھ کر باقی سارے خطرات مول لینے کو ہم تیار نہیں۔ ہم سارے عرب کی دشمنی مول لینے کے لیے تیار نہیں۔ قریش جیسا عرب کا سب سے بڑا طاقت ور قبیلہ، جس کے ساتھ سارے عرب کے مشرکین ہیں، اس کے خلاف لڑائی مول لینے کا مطلب یہ ہے کہ کل ہمارے اُوپر کوئی بڑی آفت آجائے، تب ہمارا کیا حشر ہوگا، ایسا کرنا کوئی دانش مندی اور دُوراندیشی کا کام نہیں۔ اس طرح کے خیالات ان لوگوں کے دماغوں میں تھے۔

پھر چونکہ وہ اپنے ایمان میں راسخ اور جماعت مسلمین کے ساتھ مخلص نہیں تھے، اس لیے ان میں اس وجہ سے بہت سے لوگ ایسے تھے کہ جن کے بیش تر افرادِ خانہ کی دل چسپیاں فریق مخالف کے ساتھ تھیں۔ اس لیے بعض اوقات ان کے گھروں سے راز کی باتیں باہر پھیلتی تھیں۔ اسلام کے دفاع کے سلسلے میں مسلمانوں میں جو مشورے ہوتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلسوں میں جو باتیں طے ہوتی تھیں کہ اب دشمنوں کے مقابلے میں یہ تدابیر اختیار کرنی ہیں، تو اس طرح کی باتیں بعض اوقات سچے اہلِ ایمان اپنے گھروں میں آکر بیان کرتے تھے۔ یہ سمجھتے ہوئے کہ اپنی ہی بیوی اور بال بچے ہیں، ان سے کیا چھپانا۔ لیکن ان کی زبانوں سے نکلی ہوئی بعض باتیں منافقین تک اور دوسرے دشمنوں تک پہنچ جاتی تھیں۔ اس طرح مسلمانوں کے بہت سے راز دشمنوں کو معلوم ہوجاتے تھے۔

اس لیے فرمایا کہ اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِکُمْ وَاَوْلاَدِکُمْ عَدُوًّا لَّکُمْ فَاحْذَرُوْھُمْ ، ’’تمھاری بیویوں اور تمھاری اولاد میں سے بعض تمھارے دشمن ہیں،ان سے ہوشیار رہو‘‘۔ یعنی یہ  وہ کام کر رہے ہیں کہ چاہے ان کا ارادہ تمھیں نقصان پہنچانے کا نہ ہو لیکن عملاً وہ تمھارے دشمن ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ بعض اوقات ایک آدمی کا ارادہ آپ سے دشمنی کا نہیں ہوتا لیکن کام وہ کرتا ہے جو بدترین دشمن کے کرنے کا ہوتا ہے۔ بعض اوقات ایک ملک کا اپنا سربراہ وہ کام کرجاتا ہے جو کسی غدار کے کرنے کا ہوتا ہے۔ آج کے حالات [۱۹۶۷ء] آپ کے سامنے ہیں کہ عربوں اور مسلمانوں کا دشمن اسرائیل بھی وہ کام نہیں کرسکتا تھا جو خود ملک [مصر] کے سربراہ کی حماقتوں سے ہوگیا۔ اس سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہاں بیویوں اور اولاد کے بارے میں عَدُوّ ان معنوں میں نہیں کہا گیا کہ ان کا ارادہ دشمنی کرنے کا ہے، بلکہ اس معنی میں ہے کہ عملاً ان کی طرف سے عداوت ہورہی ہے۔ چنانچہ فرمایا:فَاحْذَرُوْھُمْ، ان سے ہوشیار رہو۔

چشم پوشی سے کام لینا

اس کے بعد فوراً ہی فرمایا کہ: وَاِنْ تَعْفُوْا وَتَصْفَحُوْا وَتَغْفِرُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ’’اور اگر تم عفو و درگزر سے کام لو اور معاف کردو تو اللہ غفور و رحیم ہے‘‘۔ یعنی یہ بات جو ہم بتارہے ہیں کہ تمھاری بیویاں اور تمھاری اولادیں تمھاری دشمن ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اب تم جاکر اپنے ازدواجی تعلقات خراب کرلو، بیویوں سے ڈانٹ ڈپٹ کرو، یا ہر وقت اولاد کے پیچھے پڑے رہو اور سرزنش کرتے رہو۔ یہ مطلب اس کا نہیں ہے۔ یہاں حَذَرْ کا، یعنی ہوشیار رہنے کا حکم دیا جا رہا ہے، یہ حکم نہیں دیا جا رہا ہے کہ جاکر اپنے بیوی بچوں کے ساتھ سختیاں شروع کر دو اور اولاد کے ساتھ تعلقات بگاڑ لو، یا بیوی اور شوہر کے تعلقات کو تلخ کرلو۔ اس کے بعد فرمایا: فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ’، تم اگر چشم پوشی سے کام لو گے تو اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

اس میں یہ بات بھی مضمر ہے کہ ہوسکتا ہے کہ آج جس شخص کے اُوپر دنیوی مفاد کا غلبہ ہے اور وہ غلط روش پر چل رہا ہے، کل اللہ تعالیٰ اسے ہدایت کی توفیق دے دے اور وہ سچے دل سے ایمان لے آئے۔ سامنے کی بات ہے کہ اگر آدمی کسی کے ساتھ سختی برتے اور باہمی تعلقات کو    تلخ کرلے تو اس شخص کا آپ کی کوشش سے ہدایت پانا مشکل ہوجائے گا۔ اگر آدمی چشم پوشی اور نرمی سے کام لے اور اپنی طرف سے جو احتیاط کرنا ضروری ہے وہ پوری طرح کرے تو اس طرح محبت و شفقت اور خوش گوار تعلقات کی فضا میں ان کی اصلاح کی زیادہ توقع کی جاسکتی ہے۔ اسی لیے فرمایا: اگر تم چشم پوشی اور درگزر سے کام لو گے تو اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے۔ اس طرح معاملے کے دونوں پہلو پوری طرح سے واضح فرما دیے گئے۔

اولاد کا دشمن ھونا

دوسری چیز جو عام مشاہدے میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو آدمی کے اصل دشمن اس کی اپنی اولاد اور بیویاں ہی ہیں۔ یہ کس معنی میں؟ اس معنی میں کہ آدمی کے بال بچوں کے مطالبات وہ چیز ہیں جن کو پورا کرنے کے لیے، ان کو راضی کرنے اور ان کو خوش حال دیکھنے، ان کا مستقبل روشن بنانے کے لیے آدمی ۹۹ فی صد حرام خوریاں کرتا ہے۔ ان میں سے بمشکل ایک فی صد وہ اپنی ذات کے لیے کرتا ہے، جب کہ باقی ۹۹ فی صد حرام خوریاں وہ     بیوی بچوں کی خوش نودی کے لیے کرتا ہے۔ لہٰذا اس کے اصل دشمن کون ہیں جن کی وجہ سے آدمی کی عاقبت تباہ ہوتی ہے؟

حدیث شریف میں آتا ہے کہ قیامت کے روز ایک آدمی کو لایا جائے گا، جو مبتلاے عذاب ہوگا۔ لوگ اس کو دیکھ کر کہیںگے اس کی عیال نے اس کے حسنات کھا لیے۔ جو نیکیاں اس نے کی تھیں وہ ان کی وجہ سے برباد ہوئیں، اور ایسے بے شمار گناہ اس کے اُوپر لازم آئے جنھوں نے اس کی عاقبت تباہ کردی___ اس لیے فرمایا کہ تمھارے بیوی بچوں میں سے بعض تمھارے دشمن ہیں، ان سے تم ہوشیار رہو۔ تمھارا کام یہ ضرور ہے کہ ان کے حقوق ادا کرو مگر جائز ذرائع سے ایسا کرو۔ خدا کی بندگی کرتے ہوئے کرو۔ تمھارا کام ہے کہ ان کی حالت کو زیادہ سے زیادہ بہتر بنانے کی کوشش کرو لیکن اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرتے ہوئے یہ کام کرو، کیونکہ اپنے بندوں پر اللہ تعالیٰ کا حق دنیا میں سب سے بڑھ کر ہے۔

والدین، اولاد، بیوی بچوں کے حقوق سب بجا، لیکن اللہ تعالیٰ کا حق ان سب سے فائق تر ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حق کو قربان کرکے ان کی خدمت نہ کرو۔ جس شخص نے اپنے اہل و عیال کو خوش کرنے کے لیے اللہ کے حقوق مارے، اس کی نافرمانیاں کیں، اللہ کے دین کے ساتھ غداریاں کیں، اس نے درحقیقت اپنی اولاد اور بال بچوں کے اُوپر اپنی عاقبت قربان کر دی، اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس نے وفا کرنے کے بجاے دغا کی۔ چنانچہ چاہے وہ عَدُوّ اس معنی میں ہوں کہ ان کی وجہ سے جماعت مسلمین کے راز دشمنانِ دین تک پہنچیں، اور چاہے وہ عدو اس معنی میں ہوں کہ  ان کی محبت کا تقاضا آدمی یہ سمجھ بیٹھے کہ وہ ان کے لیے ہر حق اور ناحق کام کرنے پر تیار ہوجائے۔ ان دونوں صورتوں میں وہ عدو ہیں۔ اس لیے فرمایا: یہ تمھارے لیے عدو ہیں، ان سے ہوشیار رہو۔ ساتھ ہی یہ بھی فرمایا: وَاِنْ تَعْفُوْا وَتَصْفَحُوْا وَتَغْفِرُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ’’اور اگر تم عفو و درگزر سے کام لو اور معاف کر دو تو اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے‘‘۔ اس حکم کی وضاحت اُوپر بیان کی جاچکی ہے۔

مال اور اولاد کی آزمایش

اِنَّمَآ اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلاَدُکُمْ فِتْنَۃٌ وَاللّٰہُ عِنْدَہٗٓ اَجْرٌ عَظِیْمٌ(۱۵) تمھارے مال اور تمھاری اولاد تو ایک آزمایش ہیں، اور اللہ ہی ہے جس کے پاس بڑا اجر ہے۔

فتنہ کہتے ہیں آزمایش کو۔ فتنہ یہ ہے کہ آدمی کے سامنے ایسے حالات پیش آجائیں جن کے اندر وہ اس امتحان سے دوچار ہوجائے کہ وہ حق کی طرف جائے یا باطل کی طرف۔ خدا کی اطاعت اختیار کرے یا اس سے بغاوت کی طرف چل نکلے۔ ایسے تمام مواقع فتنے کے مواقع ہیں۔ یہاں آکر آدمی کی اصل آزمایش ہوتی ہے۔ آدمی کی زندگی کا یہ فیصلہ کہ وہ واقعی اللہ تعالیٰ کا فرماں بردار بندہ ہے یا نہیں، پلنگ پر لیٹے لیٹے نہیں ہوجاتا۔ جب آپ دنیا کی زندگی میں قدم رکھتے ہیں اور دنیا کے معاملات سے آپ کو سابقہ پیش آتا ہے، اس وقت قدم قدم پر آدمی کی آزمایش ہوتی ہے کہ آیا یہ واقعی اللہ کا بندہ ہے یا اپنے نفس کا بندہ ہے، اللہ کا بندہ ہے یا دوسرے انسانوں کا بندہ ہے۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ بڑی آزمایش آدمی کو اپنے اموال اور اپنی اولاد کے معاملے میں پیش آتی ہے۔ آدمی کا اپنا مالی مفاد اور اس کی اولاد کا مفاد اس کے سامنے یہ سوال رکھ دیتا ہے کہ آیا وہ حق کی پیروی کرے یا باطل کی پیروی کرے۔ حرام و حلال کے حدود کا لحاظ رکھے یا ان کو پسِ پشت ڈال دے۔ مالی مفاد یہ کہتا ہے کہ حرام ذرائع سے جو کچھ بھی کامیابی ہوسکتی ہے وہ ضرور حاصل کرنی چاہیے۔ کاروبار کو وسعت دینے کے لیے اگر سودی قرض لینا پڑتا ہے تو لے لو کیونکہ اس سے تمھارے لیے کامیابی کے دروازے کھل جائیں گے۔ تمھاری کھیتیاں پھلیں پھولیں گی اور تمھاری تجارت چمکے گی۔ دوسری طرف یہ ہے کہ اگر تم حلال اور حرام کے چکر میں پڑے رہے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ نہ تمھاری تجارت بڑھے گی، نہ زراعت کو ترقی ملے گی۔ اس طرح تمھارا معیار زندگی ان پابندیوں کے ساتھ تو بلند ہونے سے رہا۔

اسی طرح اولاد کے معاملے میں بھی آدمی کو سخت آزمایش پیش آتی ہے۔ ایک طرف اولاد کا دنیاوی مفاد یہ چاہتا ہے کہ آدمی حلال و حرام کے حدود و قیود کو توڑ دے، اور س بات سے بے پروا ہوجائے کہ جائز کیا ہے اور ناجائز کیا ہے۔ کیا چیز اللہ کے دین کے مطابق ہے اور کیا چیز اس کے دین کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کس چیز میں ہے اور اس کی بغاوت کس چیز میں ہے۔ بس وہ صرف یہ سوچے کہ اس کی اولاد کو عیش کس طرح نصیب ہوسکتا ہے، اور اس کا مستقبل کس طرح تاب ناک ہوسکتا ہے اور وہ آنکھیں بند کرکے سب کچھ کرتا چلا جائے۔ دوسری طرف آدمی اپنی آنکھوں سے یہ بھی دیکھتا ہے کہ جو لوگ حدود اللہ کو توڑنے والے ہیں، ان کی اولاد کے لیے ترقی کے کتنے مواقع کھلے ہوتے ہیں۔ وہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ جو شخص حدود اللہ کی پابندی کرنے والا ہے، اس کی اولاد کو آیندہ کیا مشکلات پیش آنے والی ہیں اور ان کا مستقبل کتنا تاریک ہوتا نظر آتا ہے۔ ایسے سخت ماحول کے اندر جب ایسی سخت آزمایشیں آدمی کو پیش آتی ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کے طرزِعمل اور انتخاب کو اس وقت دیکھ کر یہ فیصلہ کرتا ہے کہ آیا یہ آدمی واقعی میرا بندہ ہے یا خودسر اور خودمختار ہے اور اپنی ذات کا اور خواہشات کا بندہ ہے۔ اسی لیے فرمایا گیا کہ تمھارے مال اور تمھاری اولاد فتنہ ہیں لیکن یہ بھی یاد رکھو کہ: وَاللّٰہُ عِنْدَہٗٓ اَجْرٌ عَظِیْمٌ ’’اور اللہ کے پاس بڑا اجر ہے‘‘۔

ان دونوں باتوں کے درمیان ایک پورا خلا ہے جس کو آپ خود بھر سکتے ہیں۔ اس فتنے سے بخیریت نکلو گے تو یہ نہیں ہے کہ تمھارے مفاد سچ مچ قربان ہوگئے اور تمھیں واقعی نقصانات اٹھانے پڑے___ نہیں، بلکہ اللہ کے پاس اجرعظیم ہے۔ وہ اجرعظیم جو نہ دنیا تمھیں دے سکتی اور نہ اولاد دے سکتی ہے۔ اللہ کے پاس جو اجرعظیم ہے وہ دنیا میں کسی کے پاس نہیں ہے۔ اس لیے تمھارا خدا کی خوش نودی اور اس کی راہِ اطاعت اختیار کرنے کا انتخاب خسارے کا سودا نہیں ہوگا، بلکہ اس کے بدلے میں تم اللہ کے ہاں اجرعظیم پائو گے۔ ہاں، اگر تم اس آزمایش کے موقع پر ناکام ہوجاتے ہو تو پھر تم نہ صرف اللہ کے اجرعظیم سے محروم ہوجائو گے، بلکہ اُلٹے اللہ کے ہاں بغاوت اور سرکشی کے جرم میں پکڑے جانے کا سامان بھی کرلو گے۔

استطاعت کا مفھوم

فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوْا وَاَطِیْعُوْا وَاَنْفِقُوْا خَیْرًا لِاَ۔ّ   نْفُسِکُمْ وَمَنْ یُّوقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (۱۶) لہٰذا جہاں تک تمھارے بس میں ہو، اللہ سے ڈرتے رہو، اور سنو اور اطاعت کرو، اور اپنے مال خرچ کرو، یہ تمھارے ہی لیے بہتر ہے۔ جو اپنے دل کی تنگی سے محفوظ رہ گئے بس وہی فلاح پانے والے ہیں۔

یہاں پہلی بات یہ فرمائی گئی کہفَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ،  ’’اللہ سے ڈرو جہاں تک تمھارے بس میں ہو‘‘۔ یہ نہیں فرمایا کہ اللہ سے تقویٰ کرنے کا جو بلند ترین معیار ہے، اس کے مطابق تقویٰ اختیار کرو، بلکہ فرمایا کہ جتنی تمھاری استطاعت ہے اس کی حد تک اللہ سے تقویٰ کرو اور اس میں کمی نہ کرو۔ دیکھیے یہ ایک بہت بڑی رعایت ہے جو انسان کو دی گئی ہے۔ یہ نہیں فرمایا کہ جو کمالِ تقویٰ کا حق ہے وہ ادا کرو کیونکہ اگر یہ مطالبہ عام انسانوں سے کردیا جاتا ہے تو انبیا ؑکے سوا کون اس مرتبے تک پہنچنے میں کامیاب ہوسکتا ہے۔ اس لیے مطالبہ ہم سے یہ کیا گیا ہے کہ جہاں تک تمھارے بس میں ہے، اللہ سے تقویٰ کرو اور اس میں کوتاہی نہ کرو۔ لیکن یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ یہ فیصلہ کرنا کہ آپ کی استطاعت کیا ہے، یہ اللہ کا کام ہے، آپ کا نہیں۔ گویا ایک وہ استطاعت ہے جو آپ خود اپنی جگہ سمجھ لیں، اور ایک استطاعت وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے فیصلے میں آپ کی استطاعت ہے۔ ان دونوں باتوں میں بے انتہا فرق ہے۔

میں آپ کو ایک مثال دے کر بتاتا ہوں کہ آدمی کے سامنے ایک مسئلہ یہ آتا ہے کہ اگر میں حرام طریقے سے یہ قرض حاصل کر کے اپنا سرمایہ بڑھا لوں تو میری صنعت اور تجارت اتنی ترقی کرسکتی ہے۔ لیکن اگر میں یہ کام نہ کروں تو یہ جو میرا چھوٹا سا کاروبار ہے بس اسی میں پڑا رہوں گا اور کبھی ترقی نہیں کرسکوں گا۔ یہ سوچ کر وہ یہ راے قائم کرتا ہے کہ اب میری استطاعت میں یہ نہیں ہے کہ میں اس حرام سے بچوں۔ اب کیا کروں؟ یہ ایک واقعی مجبوری اور اضطرار کی حالت ہے___ یہ محض خود فریبی ہے۔ شریعت کی رُو سے اضطرار اس چیز کا نام ہے کہ آپ پر فاقوں کی نوبت آجائے تب محض جان بچانے کی حد تک حرام کھانے کی اجازت ہوسکتی ہے۔ اگر ایک آدمی اپنی جگہ یہ قرار دے لیتا ہے کہ اسے کاروبار بڑھانے کا اضطرار لاحق ہے۔ دوسری طرف دو وقت کی روٹی چل رہی ہے، کپڑا پہننے کو مل رہا ہے، مکان بھی رہنے کے لیے موجود ہے، لیکن وہ یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ اس کو کاروبار بڑھانے کا اضطرار لاحق ہے اور اس لیے اب اس کی استطاعت میں حرام سے بچنا ممکن نہیں ہے، محض مجبوری کی حالت میں لینا پڑ رہا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا یہ خوداختیار کردہ اضطرار تسلیم نہیں کیا جائے گا کہ ہاں، واقعی تمھاری استطاعت بس اتنی ہی تھی۔ نہیں، بلکہ آخرت کی میزان میں یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ کرے گا کہ واقعی تمھاری استطاعت کیا تھی اور اس کے مطابق تم نے تقویٰ کا حق ادا کیا ہے یا نہیں۔

ایک وہ استطاعت ہے جس کے حدود آدمی اللہ سے ڈرتے ہوئے طے کرے، ایک استطاعت وہ ہے جو آدمی نفس کی بندگی کرتے ہوئے طے کرتا ہے۔ جب آدمی نفس کی بندگی کرتے ہوئے اپنی استطاعت طے کرتا ہے تو وہ ہمیشہ خود کو غلط طور پر حرام کھانے پر قائل کرتا ہے، اپنے نفس کو دھوکا دیتا ہے، اور چاہتا ہے کہ اس کا خدا بھی اس کی اس خودفریبی سے دھوکا کھا جائے۔ جب اپنے دل میں اپنے موقف کی کمزوری کو محسوس کرتا ہے تو پھر مولویوں کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے اس اضطرار کی بنا پر اس حرام کو میرے لیے حلال کر دیجیے کہ میں واقعی ایسا مضطر ہوں جس کی بنا پر یہ میرے لیے حلال ہے۔ لیکن وہ یہ بات بھول جاتا ہے کہ اگر کوئی مولوی صاحب بھی یہ فتویٰ دے دیں کہ ہاں، تم واقعی مضطر ہو اور یہ حرام تمھارے لیے حلال ہے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا حرام حلال نہیں ہوجائے گا، بلکہ جب وہ اس کے فتوے کی بنا پر حلال و حرام کے حدود توڑے گا تو خود وہ مولوی صاحب بھی ساتھ ساتھ پکڑے ہوئے آئیں گے کہ حرام کو حلال قرار دینے کا یہ فیصلہ کرنے والے آپ کون تھے۔ اس طرح اس حرام خور کی دنیا تو بنے گی اور تجارت چمکے گی لیکن    وہ صاحب جنھوں نے یہ فتویٰ دیا ہوگا خواہ مخواہ جوتے کھائیں گے اور شاید کھال بھی کھنچوا بیٹھیں۔ یہ اس بنا پر کہ یہ فیصلہ کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے کہ واقعی آپ کی استطاعت کیا ہے۔ ایک آدمی اگر خود اپنی جگہ اپنی خواہشِ نفس کے پیچھے لگ کر اپنی استطاعت کی حدود مقرر کرے تو وہ فیصلہ کن چیز نہیں ہے___ اسی لیے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو جہاں تک تمھارے بس میں ہے۔

وَاسْمَعُوْا وَاَطِیْعُوْا’’اور سنو اور اطاعت کرو‘‘۔ مراد یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ اپنے رسول کے ذریعے سے تمھیں احکام دیتا ہے ان کو سنو، سمجھو اور ان کے مطابق عمل کرو، اس کی اطاعت اختیار کرو۔ وَاَنْفِقُوْا خَیْرًا لِاَ۔ّ   نْفُسِکُمْ ’’اور اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرو‘‘۔ یہ تمھارے لیے ہی بہتر ہے۔

دل کی تنگی

وَمَنْ یُّوقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۱۶) اور جو اپنے دل کی تنگی سے محفوظ رہ گئے، بس وہی فلاح پانے والے ہیں۔

دل کی تنگی سے مراد یہ ہے کہ آدمی تنگ نظری کے ساتھ یہ فیصلہ کرنے لگے کہ مجھے کیا کام کرنا چاہیے اورکیا نہ کرنا چاہیے۔ جب آدمی تنگ نظری کے ساتھ اپنے راستے کا انتخاب کرتا ہے تو اس کا فیصلہ اس طرح کا ہوتا ہے کہ اگر تمھارے مفاد پر ذرا سی بھی چوٹ پڑتی ہے تو اس کو گوارا نہ کرو بلکہ تمھارے مفاد کی ترقی میں جو رکاوٹ بھی پیش آسکتی ہو، اس کا خطرہ کبھی مول نہ لو۔ یہ تنگ نظری کا فیصلہ ہے۔ اس کے برعکس جو آدمی فراخ حوصلگی اور عالی ظرفی کے ساتھ فیصلہ کرتا ہے وہ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ میرا مال تو سارے کا سارا اللہ کا دیا ہوا ہے۔ میں تو محض امین ہوں، اوراس کو بہرحال مجھے چھوڑ کر جانا ہے۔ آج اگر یہ میرے پاس ہے تو میرے مرنے کے بعد یہ دوسروں کے پاس چلاجائے گا۔ اس میں سے میرے کام صرف وہی کچھ آنا ہے جو میں نے اپنی زندگی میں اللہ کی راہ میں خرچ کر دیا، باقی سب کچھ تو وارثوں کے لیے رہ جائے گا۔ اس طرح سوچ کر جو آدمی فیصلہ کرتا ہے وہ صحیح فیصلہ کرتا ہے لیکن جو آدمی دل کی تنگی میں مبتلا ہو وہ اپنے نہایت چھوٹے اور حقیر مفادات کی خاطر اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں بخل کرتا ہے۔ اس کی راہ میں مال خرچ کرنے سے گریز کرتا ہے۔ اس لیے فرمایا کہ جو لوگ دل کی تنگی سے بچ گئے وہی فلاح پانے والے ہیں۔ اور لازمی بات ہے کہ جو تنگ نظری میں مبتلا ہیں ان کے لیے کوئی فلاح نہیں ہے۔

قرضِ حسن

اِنْ تُقْرِضُوْا اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا یُّضٰعِفْہُ لَکُمْ وَیَغْفِرْلَکُمْ وَاللّٰہُ شَکُوْرٌ حَلِیْمٌ (۱۷) اگر تم اللہ کو قرضِ حسن دو تو وہ تمھیں کئی گنا بڑھا کر دے گا اور تمھارے قصوروں سے درگزر فرمائے گا، اللہ بڑا قدر دان اور بُردبار ہے۔

اس چھوٹے سے فقرے میں دیکھیے ایک وسیع اور عظیم مضمون بیان کر دیا گیا ہے۔ پہلی بات یہ فرمائی گئی کہ اللہ تعالیٰ کو قرض حسن دو، یعنی مال اللہ تعالیٰ کا ہے، تمھارے پاس تو بس بطور امانت ہے لیکن اس کے باوجود تم جو کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہو، اللہ تعالیٰ اس کو اپنے ذمے قرض قرار دیتا ہے۔ حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ کے دیے ہوئے مال کو اس کی راہ میں خرچ کرنا تمھارا فرض تھا۔ ہاں، اس مال میں سے جو کچھ تم اپنے لیے، اپنی ضروریات کے لیے خرچ کرتے ہو، یہ گویا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک رعایت ہے جو اس نے تمھیں دے رکھی ہے کہ میرا یہ مال تیرے حوالے ہے اور تم اپنی ذات پر بھی اس میں سے خرچ کرسکتے ہو۔ اصل میں تو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا آپ کا فرض تھا لیکن یہ اس کی انتہائی فیاضی اور مہربانی ہے کہ وہ اس کو اپنے ذمے قرض قرار دیتا ہے بشرطیکہ وہ قرضِ حسن ہو۔

قرضِ حسن سے مراد یہ ہے کہ وہ قرض کسی غلط نیت کے ساتھ نہ دیا جائے، بطور ریاکاری نہ دیا جائے، کسی پر احسان جتانے کے لیے نہ دیا جائے، بلکہ اس سے خالصتاً اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی مطلوب ہو۔ یہ سمجھتے ہوئے خرچ کیا جائے کہ یہ اللہ کا مال ہے اور اسے اسی کی راہ میں جانا چاہیے۔ پھر قرضِ حسن سے مراد یہ بھی ہے کہ آدمی اس پر صرف اللہ ہی سے اجر کی اُمید رکھتا ہے کسی اور سے اجر کی خواہش یا اُمید نہیں رکھتا۔ یہ ہے وہ قرضِ حسن جس کے متعلق فرمایاکہ یُّضٰعِفْہُ لَکُمْ ’’وہ اس کو تمھارے لیے کئی گنا بڑھائے گا‘‘۔ گویا وہ صرف اس قرض ہی کو واپس نہیں کرے گا بلکہ کئی گنا بڑھا چڑھا کر عطا کرے گا۔

مغفرت کی شرط

اس کے بعد فرمایا: وَیَغْفِرْلَکُمْ’’اور وہ تم سے درگزر کرے گا‘‘۔ یعنی آدمی اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کے لیے کتنا ہی اخلاص اپنے اندر پیدا کرلے، اور کتنی ہی تن دہی کے ساتھ اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کرے، تب بھی اس کے کام میں کوئی نہ کوئی کوتاہی رہ جاتی ہے۔ اور کچھ نہیں تو شیطان ہی ایک کانٹا مار جائے گا کہ میاں، تمھارے کیا کہنے! تم نے خدا کی راہ میں جو اتنا روپیہ خرچ کیا ہے، لوگ واقعی اس پر تمھاری تعریف کر رہے ہیں۔ اللہ تمھاری اس نیکی کی قدر نہیں کرے گا تو اور کس چیز کی کرے گا۔ اب اگر اللہ کے ہاں ان چیزوں کی پکڑ ہوجائے تو آدمی کا سب کیا دھرا خاک میں مل جائے۔ جب تک کہ اللہ تعالیٰ اس کی کوتاہیوں سے درگزر نہ فرمائے، اس کی کوئی نیکی قبول نہیں ہوسکتی۔ وہ یہ دیکھتا ہے کہ آپ کے دل میں آپ کے عمل کا اصل محرک کیا ہے، دنیا کی تعریف حاصل کرنا ہے یا اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی۔ اگر واقعتا اللہ کی رضا جوئی اصل محرک تھی تو بیچ بیچ میں شیطان کے یا کسی انسان کے یا نفس کے ڈالے ہوئے جو وسوسے آئے تھے وہ سب معاف ہوجائیں گے بشرطیکہ بنیادی محرک اللہ کی رضا حاصل کرنا ہی ہو۔

اسی طرح آدمی دنیا میں جتنے اعمال بھی اللہ کی خوش نودی کے لیے کرتا ہے، وہ اپنی حد تک پوری کوشش بھی کرڈالے کہ اللہ تعالیٰ کی صحیح بندگی کا حق ادا کردے، اس کے حدود سے ممکنہ حد تک تجاوز نہ کرے، اس کے باوجود آدمی کے عمل میں بہ تقاضاے بشریت بہت سی کوتاہیاں رہ جاتی ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ درگزر سے کام نہ لے، چشم پوشی نہ فرمائے اور معیارِ مطلوب کے مطابق محاسبہ کرنے پر اُتر آئے تو شاید ہی آدمی کے کسی عمل کے قبول ہونے کی نوبت آسکے۔ ہر عمل کے اندر کوئی نہ کوئی ایسی کھوٹ اور ایسی خامی نکل آئے گی جس کی بنا پر وہ عمل کھوٹے سکّے کی طرح اُٹھا کر پھینک دیا جائے۔ لیکن یہ محض اللہ کا فضل ہے کہ اس نے یہ اصول قائم کر دیا ہے کہ اگر بنیادی طور پر ایک آدمی کے اندر سچی وفاداری ہے، اس کی اطاعت کا حقیقی جذبہ ہے، اور اس کی رضاجوئی کی سچی خواہش ہے تو اس کے بعد اس کی سب کوتاہیاں معاف، اور سارے قصوروں سے درگزر!

اللّٰہ کی قدردانی اور بُردباری

وَاللّٰہُ شَکُوْرٌ حَلِیْمٌ ’’اور اللہ تعالیٰ بڑا قدردان اور بُردبار ہے‘‘۔

اللہ تعالیٰ نے یہاں اپنی یہ دو صفتیں بیان فرمائیں۔ شکور شکر سے مبالغہ کا صیغہ ہے، یعنی بڑا شاکر۔ شکریہ کا لفظ اسی ’شکر‘ سے ہے جو ہم اپنی زبان میں بولتے ہیں۔ تب اللہ تعالیٰ کا شکریہ کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ کی طرف سے شکریہ اللہ کی قدردانی ہے۔ مثلاً آپ کا کوئی خادم ہے جس کو آپ پوری تنخواہ دیتے ہیں، اس کے اُوپر ہر طرح کی عنایات کرتے ہیں اور اس کے ساتھ بہتر سے بہتر حُسنِ سلوک کرتے ہیں۔ اگر اس کے مقابلے میں وہ خادم اپنی حد تک آپ کی پوری پوری اطاعت کرتا ہے اور کمالِ ذمہ داری کے ساتھ کرتا ہے، مزید یہ کہ اپنی استطاعت کی حد تک آپ کے مفاد کی زیادہ سے زیادہ حفاظت کرنے کی کوشش کرتا ہے، تب یہ ایک فطری بات ہے کہ آپ کے دل میں لامحالہ اس کے لیے قدر پیدا ہوگی۔ اسی قدر کا نام شُکر ہے۔ آپ اس کے دل ہی دل میں شکرگزار ہوں گے کہ آپ نے اس پر جو عنایات کی ہیں، اس کو تنخواہ پوری اور بروقت دی ہے اور اس پر ہرطرح سے مہربان رہے ہیں، تو اس نے بھی آپ کی ان عنایات کا جواب نمک حرامی سے نہیں دیا، کام چوری سے نہیں دیا بلکہ اس نے ان احسانات کا جواب واقعی سچے دل سے وفادارانہ خدمت کے ذریعے سے دیا ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کے مشکور ہونے کا ترجمہ دراصل قدردان ہونا چاہیے نہ کہ شکرگزار۔ اگر یہ لفظ بولا جائے تو یہ اصل مفہوم کو عجیب رنگ دے دیتا ہے اور غلط فہمی پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔ چنانچہ عربی زبان میں اس کا صحیح مفہوم قدردانی ہی سے ادا ہوتا ہے۔ اس لیے ہم نے اس کا ترجمہ ’قدردان‘ کیا ہے۔

دوسری چیز فرمائی کہ وہ حلیم ہے۔ اُوپر فرمایا کہ مَنْ یُّوقَ شُحَّ نَفْسِہٖ ’’جو شخص دل کی تنگی سے بچ گیا وہی فلاح پانے والا ہے‘‘۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا مطالبہ اپنے بندوں سے یہ ہے کہ وہ دل کی تنگی سے بچیں، اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حِلم اور بُردباری ہے، سخت گیری اور  خُروہ گیری نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ بات بات پر اپنے بندوں کو پکڑے۔ وہ درگزر سے، بُردباری اور حلیمی سے کام لیتا ہے۔ تم بھی وسیع القلب بنو، تنگ دل مت بنو کیونکہ اللہ تعالیٰ حلیم ہے۔ وہ تمھارے ساتھ سخت گیری کا معاملہ نہیں کرتا، بلکہ نرمی اور شفقت برتتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کا یہ رویّہ ہوتا کہ آپ نے جو جو قصور کیے ہیں ان کی سزا دیتا چلا جائے اور جو جو نیک کام کیے ہیں ان کا اجر دیتا چلا جائے، تو کون آدمی ایسا ہے جو سزا سے بچ سکے گا۔ دراصل اللہ تعالیٰ کا طریقہ یہ ہے کہ اگر آپ سچے دل سے اللہ تعالیٰ کو اپنا مالک اور آقا اور فرماں روا مان کر اطاعت کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں، تو اس کے بعد جتنی کوتاہیاں آپ سے اس کام میں رہ گئی ہوں وہ ان پر گرفت کرنے کے بجاے ان سے درگزر سے کام لیتا ہے اور آپ کو معاف کر دیتا ہے، بلکہ ہوسکتا ہے کہ قیامت میں وہ نامۂ اعمال ہی سے خارج کر دی جائیں اور وہاں آدمی کو رسوا ہی نہ کیا جائے کہ تم دنیا میں یہ یہ کچھ کر کے آئے ہو۔ خود قرآن مجید میں اور احادیث میں اس کی وضاحت موجود ہے کہ ایک سچے اور مخلص و وفادار مومن کا حساب دنیا ہی میں صاف کر دیا جاتا ہے۔ ایک کانٹا بھی اس کو چبھا تو اس کی کوئی غلطی معاف کر دی گئی، بیمار ہوا تو کوئی اور خطا معاف کر دی گئی، کوئی نقصان ہو تو کوئی اور گناہ معاف کر دیا گیا۔ الغرض ایک ایک خطا، قصور اور گناہ کا حساب یہیں صاف کر دیا جاتا ہے۔ آخر میں اگر پھر بھی کچھ بچ گیا تو اس کی وفاداریوں اور اعلیٰ خدمات کو دیکھ کر معاف کر دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا یہ معاملہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو اللہ تعالیٰ کے سچے وفادار بندے بن کر زندگی گزاریں اور اس کے ساتھ جان بوجھ کر کوئی بے وفائی کا کام نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ حلیم ہے۔ وہ اپنے بندوں کے ساتھ تنگ دلی اور تنگ نظری کے ساتھ معاملہ کرنے والا نہیں ہے۔ جو کام انھوں نے اس کی خوش نودی کے لیے کیے ہیں ان کے لیے وہ شکور ہے، یعنی ان کی قدردانی کرتا ہے اور جو کوتاہیاں ان سے ہوگئیں وہ ان سے درگزر کرے گا، ان کے ساتھ حلم کا برتائو کرے گا۔

عٰلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (۱۸) حاضر اور غائب ہر چیز کو جانتا ہے، زبردست اور دانا ہے۔

یعنی اس کے لیے کوئی چیز غیب نہیں ہے۔ جو چیز آپ کے لیے غیب ہے وہ بھی اس کے لیے شہادۃ، اور جو چیز آپ کے لیے شہادۃ ہے وہ بھی اس کے لیے شہادۃ ہے۔ یہ غیب کے الفاظ دراصل ہمارے علم کے لحاظ سے استعمال کیے گئے ہیں۔ مخلوق کے لیے جو کچھ غیب ہے وہ بھی اس پر عیاں ہے، اور جو کچھ مخلوق کے لیے عیاں ہے وہ بھی اس کے لیے عیاں ہے۔ تم جو کچھ کام بھی کرتے ہو ان کی حقیقت کو وہ خوب اچھی طرح جانتا ہے اور اس کے ساتھ وہ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ہے، یعنی زبردست اور حکیم۔ اس کے ارادوں اور فیصلوں کی تکمیل میں کوئی طاقت حائل نہیں ہوسکتی، اور اس کے ساتھ وہ حکیم ہے، یعنی اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ وہ اپنی طاقت اور قدرت کو ہمیشہ حکمت اور دانائی کے ساتھ استعمال کرتا ہے۔ تمھارا معاملہ اس ہستی سے ہے اس لیے خوب اچھی طرح سمجھ لو کہ تمھارے لیے سلامتی اور فلاح کی راہ کون سی ہے۔ (جمع و تدوین: حفیظ الرحمن احسن)

 

۶۲ سال پہلے، ۱۲ فروری ۱۹۴۹ء کا سورج غروب ہورہا تھا تو کرایے کے غنڈوں نے قاہرہ میں اللہ کے ایک ولی حسن البنّا کو گولیاں مارکر شہید کردیا۔ اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کا خیال تھا کہ الاخوان المسلمون کے بانی اور قائد کو راستے سے ہٹا دیں گے تو پوری تحریک خود بخود ختم ہوجائے گی۔ ٹھیک ۶۲ سال بعد ۱۲ فروری ۲۰۱۱ء کا سورج طلوع ہورہا تھا تو کئی عشروں سے مصری قوم کی گردنوں پر سوار ڈکٹیٹر اپنی آمریت کی لاش اُٹھا رہا تھا، اور دوست دشمن سب کہہ رہے تھے کہ: ’’الاخوان المسلمون آج مصر کی سب سے بڑی قوت ہے۔ مصر کا مستقبل اب اخوان کے ہاتھ میں ہے‘‘۔

برطانوی اشاروں پر حسن البنا کو شہید کرنے والا شاہ فاروق، ۱۹۵۲ء میں چلا گیا۔ اس کے بعد بریگیڈیئر نجیب نے اقتدار سنبھالا۔ ۱۹۵۴ء میں اس کا تختہ اُلٹ کر کرنل جمال ناصر برسرِاقتدار آگیا۔ ۱۹۷۰ء میں اس کی موت کے بعد جنرل انور السادات نے حکومت سنبھالی اور ۱۹۷۹ء میں اس کے قتل کے وقت ساتھ والی کرسی پر براجمان مصری فضائیہ کا افسر اعلیٰ حسنی مبارک آگیا،      اب وہ سب چلے گئے۔ فَمَا بَـکَتْ عَلَیْہِمُ السَّمَآئُ وَالْاَرْضُ وَمَا کَانُوْا مُنْظَرِیْنَo (الدخان ۴۴:۲۹) ’’نہ زمین ان پرروئی اور نہ آسمان اور نہ انھیں باقی چھوڑا گیا‘‘۔ اگر باقی رہے تو کمزور سمجھے جانے والے اس کے مخلص بندے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ایک بار پھر مجسم حقیقت کی صورت میں سامنے آگیا: کَذٰلِکَ یَضْرِبُ اللّٰہُ الْحَقَّ وَ الْبَاطِلَ ط فَاَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْھَبُ جُفَآئً وَ اَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْاَرْضِط کَذٰلِکَ یَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَالَo(الرعد ۱۳:۱۷) ’’اللہ حق اور باطل کے معاملے کو اسی طرح واضح کرتا ہے۔ جو جھاگ ہے وہ اڑجایا کرتا ہے اور جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھیر جاتی ہے۔ اس طرح اللہ مثالوں سے اپنی بات سمجھاتا ہے‘‘۔

تین ہفتے پہلے تک کسی کے سان گمان میں بھی نہ تھا کہ ۳۰ سال سے سیاہ و سفید کامالک بنا بیٹھا، فرعونِ مصر، نیل کی عوامی موجوں میں غرقاب ہونے والا ہے۔ اپنے فرار سے تقریباً ۱۹ گھنٹے پہلے، رات گئے قوم سے خطاب کرتے ہوئے وہ خود بھی یہی کہہ رہا تھا ’’مصری قوم جانتی ہے کہ محمدحسنی مبارک کون ہے، مجھے کہیں نہیں جانا، مجھے یہیں (اقتدار ہی میں) جینا مرنا ہے‘‘۔ لیکن پھر شہرشہر اور قصبے قصبے میں سڑکوں پر جمع یہ کروڑوں افراد غصے سے پھٹ پڑے۔ پورا ملک چلّا چلّا کر ایک ہی لفظ دہرانے لگا: اِرحَل ۔۔اِرحَل ۔۔اِرحَل ۔۔ ’’چلے جاؤ --- چلے جاؤ --- چلے جاؤ‘‘۔ پھر صرف ۱۹گھنٹے بعد ہی اس کا نائب صدر اور انٹیلی جنس کا سربراہ عمر سلیمان پردۂ سکرین پر نمودار ہوا اور مختصر ترین خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا: ’’جناب صدر نے منصب صدارت سے سبکدوش ہونے کا فیصلہ کیا ہے‘‘۔ سب نے سُکھ اور آزادی کا سانس لیا۔ بندوق اور بندوق بردار شکست کھا گئے، مقہور و مظلوم عوام فتح یاب قرار پائے!

تیونس کی تحریک کے نتیجہ خیز ہونے میں تقریباً ایک ماہ لگا تھا اور اس دوران ۷۸ افراد نے جام شہادت نوش کیا۔ مصر کا جابر حکمران سفاک بھی زیادہ تھا، اقتدار میں بھی زیادہ عرصے سے تھا، مشرق وسطیٰ میں اس کا کردار اہم ترین تھا۔ دنیا کے اکثر شیطان، بالخصوص اسرائیل اسے بچانے کے لیے بے تاب و متحرک بھی تھا۔ اس کے خلاف تحریک کو کامیابی حاصل کرنے میں ۱۸ روز لگے، اس دوران سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۳۶۷؍ افراد شہید، ۵ہزار سے زائد زخمی ہوئے، لیکن عوام کو فتح حاصل ہوئی تو قوم نے یہ سارے دکھ مسکراتے ہوئے جھیل لیے۔ تیونس کے دُور دراز قصبے سیدی بوزید، میں ایک بے نوا ٹھیلہ بردار کا ٹھیلہ کیا الٹایا گیا کہ پورے عالم عرب میں تخت اُلٹنے کا آغاز ہوگیا۔ تاریخ کے اس اہم ترین موڑ اور اہم ترین تبدیلیوں کے اثرات و نتائج بہت دور رس ہوں گے۔ آئیے اس عوامی تحریک کے کچھ حقائق اور اس کے نتائج کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔

پس منظر اور محرکات

  •  یہ عوامی تحریکیں ان ممالک میں حکمرانوں کے ظلم و جبر اور استبداد کا منطقی نتیجہ ہیں۔ گذشتہ صدی میں استعمار سے آزادی کے بعد یہ سورما، خطے میں استعماری مفادات کے سب سے بڑے محافظ تھے لیکن اپنے عوام کو بھیڑ بکریوں سے زیادہ اہمیت نہ دیتے تھے۔ اپنے عوام کو اونچی آواز میں سانس تک لینے کی اجازت نہیں تھی۔ فی ظلال القرآن جیسی عظیم تفسیر لکھنے والے سید قطب جیسے قدسی نفوس کو اسی جرم کی پاداش میں پھانسی چڑھا دیا۔ اللہ کی طرف بلانے والوں کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے ہزاروں لوگوں کو بدترین تعذیب و عقوبت کی نذر کردیا۔ مختلف اوقات میں الاخوان المسلمون کے درجنوں افراد کو شہید اور ۳۰ ہزار سے زائد کارکنان کو جیلوں میں بند کردیا گیا۔ لیکن دوسری طرف یہی حکمران مکمل امریکی غلامی اور تابع داری کو دوام اقتدار کی ضمانت سمجھتے تھے۔ لاکھوں فلسطینیوں کی ہڈیوں پر کھڑی کی جانے والی صہیونی ریاست کی خدمت و حفاظت کو فرضِ منصبی اور تمغۂ اعزاز و افتخار گردانتے تھے۔ اب ان حکمرانوں کا روز حساب آیا ہے تو سب سے زیادہ تشویش کا شکار بھی اسرائیل ہی ہے کہ اس کا اصل خطِ دفاع شکست سے دوچار ہورہا ہے۔
  •  استعمار کی غلامی کے بعد ان حکمرانوں کی دوسری سب سے بڑی صفت، ان کی کرپشن، لوٹ مار اور بے حساب قومی سرمایے کو شیرِ مادر سمجھ کر ہڑپ کرنا تھی۔ تیونسی جلاد کی لوٹ مار کے قصے ابھی ختم نہیں ہوئے تھے کہ اب فرعونِ مصر کی دولت و ثروت کے انبار ایک ایک کرکے ظاہر ہونے لگے ہیں۔ عوامی انقلابی تحریک کے دوران خود مغربی ذرائع نے تصدیق کی کہ ۸۲سالہ حسنی مبارک کی دولت ۷۰ ارب ڈالر سے متجاوز ہے۔ دو بیٹوں جمال اور علاء اور بیگم سوزان مبارک کی دولت کتنی ہے، ابھی کسی کو معلوم نہیں۔ ایک سابق وزیر ہاؤسنگ حسب اللہ کفراوی اس کی ایک جھلک دکھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ: ایک روز علاء مبارک میرے پاس آیا اور کہنے لگا مجھے قاہرہ سے ۳۸کلومیٹر دُور، نئے تعمیر کیے جانے والے جدید ترین شہر ’’۶؍اکتوبر‘‘ میں ایک ہزار ایکڑ جگہ چاہیے۔ میں نے حیران ہوکر کہا: بیٹے آپ شاید ہزار میٹر (ایک کنال) کی بات کررہے ہیں؟ کہنے لگا: نہیں ، ایک ہزار ایکڑ۔ میں نے اسے کہا کہ اچھا اپنے بابا (صدر جمہوریہ) سے کہیں کہ مجھ سے اس بارے میں بات کرلیں۔ کچھ ہی عرصے بعد حسنی مبارک سے کچھ اختلاف ہونے پر میں نے وزارت سے استعفا دے دیا اور اس سے اگلے روز ہزار ایکڑ زمین علاء حسنی مبارک کے نام لگ گئی۔

مصری ’مرکز براے اقتصادی و معاشرتی حقوق‘ نے محتسب اعلیٰ عبد المجید محمود کو ایک خط ارسال کیا ہے جس کے ساتھ ٹھوس دستاویزی ثبوت بھی لگائے گئے ہیں۔ ریفرنس نمبر ۱۶۲۲ کے ساتھ اس خط میں بتایا گیا ہے کہ ۱۱ فروری ۱۹۸۲ء کو محمد حسنی مبارک کے ذاتی نام پر ۱۹ ہزار ۴سوکلو  قیمتی پلاٹینیم سوئٹزر لینڈ کے سوئز یونین بنک کے پاس رکھا گیا ہے تب اس کی مالیت ۱۴؍ارب ڈالر لگائی گئی تھی۔ خط میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ان دستاویزات کے مطابق حکومت مصر سوئس بنک سے یہ ثروت واپس لے۔ یہ سب اربوں ڈالر تو ابھی دیگ کے چند چاول ہیں، ابھی قوم کے غم میں گھلنے والے ان حکمرانوں کے مکروہ چہروں سے ایک ایک کرکے کئی نقاب اترنا ہیں۔ لیکن یہ معلوم نہیں ہے کہ ان کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے پہلے کھلتا ہے یا کفن کے پردے میں پہلے لپیٹ دیا جاتا ہے۔ اقتدار سے جاتے ہی خبریں آنا شروع ہوگئی ہیں کہ حسنی مبارک کومے میں چلا گیا۔

غربت کے مارے مسلم ممالک کے عوام میں اگر صرف حکمران طبقے کی یہی لوٹی ہوئی دولت ہی تقسیم کردی جائے تو وہ خوش حال ہوجائیں۔ لیکن دولت کا سارا ارتکاز چند لٹیرے لیڈروں اور ان کے حواریوں میں ہوکر رہ گیا ہے۔ اکثر مسلم ممالک کی ۸۰ فی صد سے زائد آبادی کو غربت کے کانٹوں میں رگیدا جارہا ہے۔ یہ طبقاتی تفاوت تیسرا بنیادی سبب ہے کہ جس نے بالآخر پوری قوم کو سڑکوں پر لا کھڑا کیا۔

  •  اس تحریک کا ایک اور اہم پہلو یہ تھا کہ یہ پوری قوم کی تحریک تھی۔ اگر یہ کسی ایک گروہ، جماعت یا مخصوص طبقے کی تحریک ہوتی تو شاید ان تمام مظالم کے سامنے ڈٹے رہنا بہت مشکل ہوتا۔ تحریک میں شامل تمام عناصر بھی اس حقیقت سے آشنا تھے۔ اس لیے کسی نے بھی اس تحریک کو اپنے نام لگانے کی کوشش نہیں کی۔ ۱۹ روز کی عوامی تحریک میں کروڑوں افراد سڑکوں پر آئے لیکن سب شرکا صرف قومی پرچم لے کر آئے، سب نے اصل قومی مطالبات پر مشتمل نعرے ہی لگائے۔ سب کی زبان پر ایک ہی نعرہ تھا: الشَّعبُ یُرید اِسقاطَ النِّظام، ’’قوم نظام (Regime) سے نجات چاہتی ہے‘‘۔ یہی نعرہ مختلف اوقات میں مختلف تبدیلیاں بھی دیکھتا رہا۔ جب صدر نے اپنے دوسرے خطاب میں بھی کرسی نہ چھوڑنے پر اصرار کیا تو نعرہ ہوگیا: الشَّعبُ یُرید اعدامَ الرَّئیس،’’ قوم صدر کو پھانسی دینا چاہتی ہے‘‘۔ عوام کامیاب ہوگئے اور ۱۸ فروری کو جمعۃ النصر منایا گیا تو لوگ نعرے لگا رہے تھے: الشَّعبُ یُرید تطہیر البِلَاد، ’’قوم (تمام فاسد عناصر کی) تطہیر چاہتی ہے‘‘۔ عالم عرب کے اہم ثقافتی و علمی مرکز مصر نے اس تحریک کے دوران عوامی نعروں کے سلسلے میں     اتنی زرخیز ذہنی کا ثبوت دیا کہ اب وہاں صرف ان نعروں، دل چسپ و جان دار بینروں اور اشتہارات و تصاویر پر مشتمل ایک پورا یادگاری میوزیم تشکیل دیا جارہا ہے۔ الشَّعبُ یُرید …کا نعرہ تو اب تمام عوامی تحریکوں کا شعار بن گیا ہے۔ بحرین، یمن، لیبیا، مراکش… ہرجگہ گونج رہا ہے۔
  •  تیونس اور مصر میں تحریک کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ ان کے حکمرانوں نے ہمیشہ کی طرح اس موقع پر بھی دنیا کو یہ دھمکی دی کہ ہم نہ رہے تو یہاں شدت پسند اسلامی تحریکیں قابض ہوجائیں گی۔ کوئی اخوان سے ڈرا رہا تھا، کوئی القاعدہ سے اور کوئی امارت اسلامی سے۔ مصر میں آنے والی کوئی بھی تبدیلی براہِ راست اسرائیل سلامتی پر اثر انداز ہوتی ہے۔ حسنی مبارک نے دورانِ تحریک بار بار واویلا مچایا کہ مصر میں یہ ساری احتجاجی تحریک الاخوان المسلمون چلا رہی ہے، مجھے نہ رکھا گیا تو یہاں ان ہی کی حکومت بنے گی، جس کا مطلب ہے کہ یہاں حماس کی حکومت ہوگی۔ اسرائیلی ذمہ داران نے بھی حسنی مبارک کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے بار بار یہی دُہائیاں دیں کہ اس کا رہنا ناگزیر ہے، لیکن الحمد للہ مصری عوام نے اتحاد کو اپنی کامیابی کا مضبوط زینہ بنائے رکھا، اور بالآخر پوری دنیا کو ان کا ساتھ دینا پڑا۔

جمعہ ۱۱ فروری کی شام مصر کو حسنی مبارک سے نجات ملی، لیکن ایک شخص کے چلے جانے سے قوم واپس گھروں میں جا کر نہیں بیٹھ گئی۔ مزید دو روز ایام تشکر منانے کے بعد اعلان کیا گیا کہ جمعہ ۱۸ فروری کو میدان آزادی میں دوبارہ ملین مارچ ہوگا۔ اسے جمعۃ النصرکا نام دیا گیا۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ کی نماز جنازہ کی امامت کرنے والے علامہ یوسف القرضاوی کو جمعۃ النصر   کا خطبہ دینے کے لیے خصوصی طور پر قطر سے مصر آنے کی دعوت دی گئی۔ اس روز مصر کی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع دیکھنے میں آیا۔ ۳۰ لاکھ مردو خواتین تاحد نگاہ صف آرا تھے۔ علامہ قرضاوی نے قُلِ اللّٰھُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآئُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآئُ کی تلاوت کرتے ہوئے خطبے کا آغاز کیا اور جامع خطبے میں مصری عوام اور اُمت مسلمہ کے جذبات کی ترجمانی کی۔ سبحان اللہ! ایک وقت تھا کہ یوسف القرضاوی صاحب پر سرزمینِ مصر اپنی تمام تر وسعتوں کے باوجود تنگ کردی گئی تھی۔ وہ پہلے مصری جیلوں میں قید رہے اور پھر مصر سے ہجرت کرجانے پر مجبور ہوئے، آج کروڑوں مسلمانوں کی ترجمانی کرتے ہوئے فوج، حکومت اور پوری قوم سے مخاطب ہورہے تھے۔ فوج نے بھی عوامی اکثریت کا فیصلہ دیکھتے ہوئے جمعۃ النصر کے اجتماع میں لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے قومی پرچم تقسیم کیے۔

اس یومِ نصر کی ایک اور اہم بات یہ تھی کہ خطبہء جمعہ سے قبل اسی سٹیج سے مصری مسیحیوں نے بھی اپنی عبادت کی۔ واضح رہے کہ اسکندریہ شہر میں واقع ایک عیسائی چرچ کے باہر ایک دھماکہ کرواتے ہوئے مسیحی مسلم فسادات کروانے کی کوشش کی گئی تھی۔ اپنے مسیحی ہم وطنوں کو عبادت کا  پورا موقع دے کر ملّی یک جہتی کا مظاہرہ کیا گیا۔ خطبۂ جمعہ کے بعد اعلان کیا گیا کہ ہماری تحریک صرف ایک شخص نہیں، بلکہ پورے نظام کی تبدیلی کے لیے ہے۔ جب تک ہمارے بنیادی مطالبات تسلیم نہیں ہوتے ہم میدان عمل میں رہیں گے اور یہ حالیہ عوامی تحریک کا ایک اور اہم پہلو ہے۔

اگلے ہی روز اعلان ہوا کہ آیندہ مظاہرہ پیر ۲۱ فروری کو مصر کے دوسرے بڑے شہر اسکندریہ میں ہوگا۔ اس مظاہرے کی خاص بات یہ تھی کہ اس کا اعلان جامع مسجد القائد ابراہیم کے ۸۶ سالہ امام احمد المحلاوی نے کیا تھا۔ جناب محلاوی کو ۱۵سال قبل حسنی انتظامیہ نے إخوان سے تعلق کی وجہ سے خطبۂ جمعہ دینے سے منع کردیا تھا۔ تحریک کے دوران پورا شہر مل کر انھیں واپس مسجد ابراہیم کی خطابت کے لیے لے آیا۔ ۸۶ سالہ بزرگ عالم دین نے پوری تحریک کے دوران میں لاکھوں لوگوں کی قیادت کی اور ۱۸ فروری کے جمعۃ النصر میں اعلان کیا کہ اسکندریہ شہر میں بھی ۲۱فروری بروز پیر یوم تشکر منایا جائے گا۔ تمام حضرات و خواتین اس میں بھی اسی جوش و خروش سے شریک ہوں اور چوں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پیر اور جمعرات کو عموماً روزہ رکھا کرتے تھے اس لیے ریلی کے شرکا بھی پیر کا نفلی روزہ رکھ کر آئیں۔ پیر کے مسنون روزے کا اعلان کوئی وقتی یا سطحی اقدام نہیں تھا۔ نفلی روزوں اور مسلسل تلاوت قرآن کا اہتمام، اخوان کے تربیتی نظام کا ایک مستقل حصہ ہے۔ ملک میں تبدیلی کے لیے قومی تحریک کے دوران بھی اس روحانی تربیت کا اہتمام کرنا، اس تحریک کا ایک اور انتہائی روشن اور سب کے لیے قابل تقلید گوشہ ہے۔ میدان التحریر میں اکثر ایسے مناظر دکھائی دیے کہ دو ہفتے سے زائد عرصے سے لوگ میدان میں دھرنا دیے ہوئے تھے۔ آغاز میں پولیس اور کرایے کے غنڈوں کے ساتھ مڈبھیڑ کے نتیجے میں زخمی ہونے والوں کی ایک بڑی تعداد بھی ان میں شامل تھی۔ سخت سردی، زخموں کی تکلیف اور طویل کش مکش کے دوران بھی، جس کو جب موقع ملا، اس نے جیب سے اپنا قرآن نکالا اور اپنے رب سے گفتگو شروع کردی۔

میدان التحریر سے آنے والے ایک معروف نوجوان اسکالر ڈاکٹر وصفی عاشور سے ۹فروری کو ملاقات کا موقع ملا۔ وہ بتارہے تھے کہ دن گزرنے کے ساتھ ساتھ شہدا کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے، لیکن لوگوں میں کوئی مایوسی، اضمحلال یا جھنجھلاہٹ نہیں ہے۔ وہاں مسلم مسیحی، بچے بوڑھے، مرد عورتیں، امیر غریب، سب شریک ہیں اور سب ایک کنبے کی طرح ہیں۔ ضرورت پڑے تو پی ایچ ڈی ڈاکٹر بھی جھاڑو اٹھا کر اپنے حصے کی صفائی میں حصہ لیتا ہے۔ لوگوں نے ڈیوٹیاں اور باریاں بانٹی ہوئی ہیں۔ خواتین گھروں سے کھانا تیار کرکے لاتی اور شرکا میں تقسیم کرتی ہیں۔ ہمیں تو بعض اوقات یقین نہیں آتا کہ یہ وہی مصری قوم اور یہ وہی مصر ہے جہاں ہم ۲۵ جنوری سے پہلے بھی رہتے تھے۔ پوری قوم محبت و اخوت کے گہرے رشتے میں پروئی گئی ہے۔ نوجوانوں کا کردار سب سے نمایاں ہے۔ پوری تحریک کو بجاطور پر نوجوانوں ہی کی تحریک قرار دیا جارہا ہے۔ مجھے یاد آیا کہ گذشتہ سال انھی مصری نوجوانوں میں اخلاقی انحطاط کا بدترین واقعہ بھی اسی میدان التحریر کے ایک گوشے میں وقوع پذیر ہوا تھا۔ جب حکومتی سرپرستی میں نئے سال کا جشن مناتے ہوئے نوجوانوں کے ایک گروہ نے آدھی رات کی تقریبات کے بعد سرراہ، ایک مسلمان خاتون کی آبروریزی کرڈالی تھی۔ آج وہی نوجوان یہاں اپنی ماؤں بہنوں کی عزت کے رکھوالے کے طور پر موجود تھے۔ حسنی مبارک کے رخصت ہوجانے کے بعد اب یہی نوجوان مختلف شہروں کے گلی محلوں میں جاکر گھروں میں اشتہارات اور اسٹکر تقسیم کررہے ہیں کہ ’’بنیادی اہداف حاصل ہونے تک تحریک جاری رہے گی‘‘۔ گویا تحریک انقلاب پیغام دے رہی ہے کہ امت خیر سے معمور ہے، اسے روشن خیالی کے نام پر تباہ کرنے والی قیادت کی بجاے روزہ و قرآن سے محبت رکھنے والی قیادت مل جائے تو دنیا کی کایا بدل دے۔

خدشات و خطرات

تحریک انقلاب کے ان تمام روشن پہلوؤں اور کامیابیوں کے ساتھ ساتھ بہت سے گمبھیر اور سنگین چیلنج درپیش ہیں۔ ابھی کامیابی کا صرف پہلا ہدف حاصل ہوا ہے۔ فتنے کا سرکچلا جا چکا ہے لیکن باقی پورے کا پورا نظام جوں کا توں موجود ہے۔ عوامی تحریک کے دباؤ کے پیش نظر حکومت نے بعض وزرا کو جیلوں میں بند کردیا ہے۔ وزیر داخلہ کی حیثیت سے ہزاروں بے گناہ افراد کو     موت و ہلاکت سے دوچار کرنے والے وزیر داخلہ سمیت، تین وفاقی وزرا کو مکافات عمل نے  اخوان کے قیدیوں کے لیے معروف ’طرہ‘ جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچا دیا ہے، لیکن سابق نظام کے تقریباً تمام کل پرزے جوں کے توں اپنی اپنی جگہ برقرار ہیں۔ فوج نے عارضی طور پر اقتدار سنبھالتے ہوئے دستور اور پارلیمنٹ کو تو معطل کردیا، لیکن گذشتہ ۳۰ برس سے مسلط ایمرجنسی کو اب بھی نہیں ہٹایا گیا۔ سیکڑوں سیاسی قیدی اب بھی جیلوں میں بند ہیں۔ حسنی مبارک کا ذاتی دوست اور اسی کی طرف سے وزیراعظم مقرر کیا جانے والا فضائیہ کا سابق سربراہ احمد شفیق اب بھی حکومت چلا رہا ہے۔ سابق نظام ہی سے ۱۱؍ افراد کو وزیر مقرر کر دیا گیا ہے جسے ظاہر ہے عوام نے مسترد کردیا۔ فوج نے اگرچہ اخوان کے سابق رکن اسمبلی، معروف قانون دان صبحی صالح سمیت، جید ماہرین قانون پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی ہے اور ایک معتدل، اسلام دوست اور معروف قانون دان ڈاکٹر طارق البِشری اس کے سربراہ ہیں۔ فوج کے سربراہ نے اس کمیٹی کی تجویز کردہ ترامیم پر دو ماہ کے اندر اندر ریفرنڈم کروانے اور چھے ماہ کے اندر قومی انتخابات کروانے کا وعدہ کیا ہے، لیکن یہ خدشہ بدستور موجود ہے کہ ۱۹۵۲ء سے اقتدار کے ایوانوں میں براجمان فوج اب بھی اقتدار کی راہ داریوں سے باہر آنے سے انکار کردے۔ ان کے پیش رو کرنل ناصر بھی انقلاب کے بعد بہت خوش نما دعوے اور وعدے کیا کرتے تھے۔ سادات نے آکر اخوان کے مرشدعام عمرتلمسانی اور ان کے بہت سے ساتھیوں کو جیلوں سے رہا کیا۔ دستور میں یہ ترمیم شامل کی کہ ’’قرآن و سنت تمام قوانین کا اصل مآخذ ہوں گے‘‘، اور بھی کئی اقدامات کیے لیکن پھر جو پینترا بدلا تو اپنے سارے پیش روؤں کو پیچھے چھوڑ گیا۔ حسنی مبارک نے بھی آکر اخوان سے مذاکرات کیے۔

مصری قوم کو یہ سارے تلخ حقائق یاد ہیں۔ اگر فوج اور سابق نظام کے فساد زدہ کل پرزوں نے بیرونی آقاؤں کے اشاروں پر، پوری تحریک انقلاب کے ثمرات اکارت کرنے کی کوشش کی ،تو یہ ایک بڑی بدقسمتی ہوگی جو عوام کو کسی صورت قبول نہ ہوگی۔ انھی خدشات کے پیش نظر عوام نے اپنی تحریک کو مسلسل جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ ہرجمعے کو بڑے بڑے اجتماعات، ریلیاں اور ملین مارچ جاری رہیں گے۔ تمام تجزیہ نگار اور سیاسی وقومی رہنما اس پر متفق ہیں کہ انقلاب کو لٹیروں سے محفوظ رکھنا انقلاب کی بڑی آزمایش ہوتی ہے۔ سب بخوبی سمجھتے ہیں کہ اگرچہ کسی انقلاب کا آغاز کرنا بھی ایک مشکل کام ہوتا ہے لیکن اسے کامیابی کے ساتھ تکمیل تک پہنچانا اس سے بھی کہیں زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ اگر خدانخواستہ انقلاب کو ادھورا یا بے نتیجہ چھوڑ دیا جائے تو نہ صرف یہ کہ دوبارہ کھڑے  ہونا دشوار تر ہوتا ہے، بلکہ شہدا کے خون سے غداری آخرکار ہر طرف خون کی ندیاں بہا دیتی ہے۔

شیطانی ترکش میں ایک خطرناک اور زہریلا تیر یہ بھی ہے کہ مختلف غلط فہمیاں پھیلاکر اور اپنے گماشتوں کو مختلف نام دے کر اس عدیم النظیر عوامی اتحاد میں رخنہ اندازی کی جائے۔ تحریک کے دوران بھی وہ یہ ہتھکنڈا آزما چکا ہے۔ پولیس اور دیگر سیکورٹی فورسز کی ناکامی کے بعد اس نے ان اداروں کے ملازمین کو سادہ کپڑوں میں ملبوس کرکے اور انھیں حسنی مبارک کے حامیوں کا نام دے کر مظاہرین پر حملہ کروادیا (ان میں سے اکثر پکڑے جانے والوں سے ملازمت کے کارڈ برآمد ہوئے)۔ حملہ آوروں کے پاس خنجر، بھالے، سریے اور ڈنڈے تھے۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد گھوڑوں اور اونٹوں پر سوار تھی۔ انھوں نے آتے ہی بھگدڑ مچادی۔ بڑی تعداد میں مظاہرین کو زخمی کردیا۔ ان کا اور انھیں بھیجنے والوں کا خیال تھا کہ یوں سراسیمگی پھیلانے سے مظاہرین چھٹ جائیں گے، اور دنیا میں بھی یہ تاثر دیا جاسکے گا کہ پوری قوم حکومت کی مخالف نہیں، اس کے حامی بھی شدید جذبات رکھتے ہیں۔ یہ گھٹیا ڈراما سراسر ناکام رہا۔ ایک ڈیڑھ روز کی ماردھاڑ کے بعد ہی ان حملہ آوروں کی ایک تعداد فرار ہوگئی اور ایک تعداد مظاہرین سے جاملی۔ اقتدار جاتا دیکھ کر ملک میں خانہ جنگی پھیلانے کی یہ ایک رذیل کوشش تھی، جسے اللہ نے ناکام بنا دیا۔ اقتدار میں بیٹھے لالچی اب بھی قوم میں اختلاف و انتشار پھیلانے کی کوئی اور سعی کرسکتے ہیں، لیکن مقام شکر ہے کہ اب تک تمام افراد نے بہت ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے۔

کچھ لوگ ان خدشات کا بھی اظہار کر رہے ہیں کہ یہ ساری تحریک امریکا، اس کے حواریوں اور خفیہ طاقتوں کی برپا کردہ تو نہیں؟ کیوں کہ یہ سب کچھ اچانک اور غیرمتوقع طور پر ہوا۔ اس کا کوئی ایک لیڈر نہیں ہے اور عملاً ابھی بہت سے سابق حکمران ہی براجمان ہیں۔ لیکن بہت سے حقائق کی روشنی میں یہ امر ایک واضح حقیقت ہے کہ تمام مغربی طاقتوں کے لیے بھی یہ ساری تحریک بالخصوص تیونس کی تحریک اتنی ہی اچانک اور غیرمتوقع تھی کہ جتنی خود بن علی کے لیے۔ تیونس اور مصر میں امریکا اور مغربی ممالک کی پالیسی تحریک کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتی رہی ہے۔ آغاز میں سب نے یہی کہا کہ عوام پُرامن رہیں، حکمران ان سے گفت و شنید کریں۔ معاملات آگے بڑھے تو کہا کہ عوام اور حکمران تشدد سے گریز کریں اور جب واضح ہوگیا کہ اب ان کا رہنا ممکن نہیں تو مکمل طور پر آنکھیں پھیر لیں اور تبدیلی کی حمایت شروع کر دی۔ اب پھر مغرب آزمایش کی بھٹی پر ہے۔ اس کی خواہش اور کوشش ہوگی کہ نیا نظام بھی انھی کی مرضی کا ہو، تابع فرمان رہے اور اسرائیلی مفادات کا محافظ ہو۔ کسی حد تک وہ اپنے ان مقاصد کو حاصل بھی کرسکتے ہیں، لیکن اب عوام بھی اپنی قوت اور اپنی جدوجہد کی برکات سے آشنا ہوچکے ہیں۔ حکمت و تدبر، احتیاط لیکن سرگرمی اور جہدِمسلسل سے کام لیا گیا تو ان شاء اللہ ایک حقیقی تبدیلی کو کوئی نہیں روک سکتا۔

الاخوان المسلمون

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مخلص اُمتیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یکثرون عند الفزع ویقلون عند الطمع، خوف و آزمایش کے لمحات ہوں تو وہ سب کثیر تعداد میں آن موجود ہوتے ہیں، لیکن جب غنائم اور فوائد تقسیم ہورہے ہوں تو بہت تھوڑے ہوتے ہیں۔ حالیہ تحریک نے اخوان کا یہ تعارف بھی بدرجۂ اتم کروادیا۔ پوری تحریک کے دوران صدر اوباما سے لے کر صہیونی ذمہ داران تک اور میدان آزادی میں جمع ایک ایک فرد سے لے کر دنیا کا      ہر تجزیہ نگار کہہ رہا تھا کہ اخوان مصر کی سب سے بڑی اور سب سے منظم طاقت ہیں۔ اخوان ہی اس تحریک کی اصل طاقت اور ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ مصری حکومت جب بار بار مذاکرات کے ذریعے مسائل کے حل کی ضرورت پر زور دے رہی تھی تو ایک روز وزیر دفاع (حالیہ فوجی صدر) خود  میدان آزادی میں جا پہنچا اور وہاں جمع لوگوں سے کہنے لگا: اپنے مرشد عام سے کہو کہ عمر سلیمان سے مذاکرات کرلے۔ خود عمر سلیمان نے بھی ٹی وی پر آکر کہا اخوان مذاکرات کرلے، یہ اس کے لیے سنہری موقع ہے۔ اخوان نے اس سے انکار کردیا۔ لیکن بعدازاں سیاسی جدوجہد کے ساتھ ساتھ سفارت کاری کے اصول پر عمل کرتے ہوئے، میدان التحریر میں جمع دیگر افراد کے ساتھ مل کر ۱۰ رکنی وفد میں اپنے بھی دو ذمہ داران کو شامل کیا اور میدانِ عمل کے علاوہ میز پر بیٹھ کر بھی اپنے اسی مضبوط موقف کا اعادہ کیا جو عوام کے جذبات کا صحیح عکاس تھا۔

پوری تحریک کے دوران مرشد عام اور مرکزی ذمہ داران دن رات اخوان کے مرکز میں بیٹھ کر تحریک کی قیادت و رہنمائی کرتے رہے۔ لیکن چونکہ فیصلہ تھا کہ اخوان نے پوری تحریک کو خود سے موسوم نہیں کرنا ہے ان مرکزی ذمہ داران میں سے کوئی میدان التحریر میں نہیں آیا۔ وہاں ان میں سے کوئی ایک ذمہ دار بھی آجاتا تو پوری دنیا کے ذرائع ابلاغ اس پر ٹوٹ پڑتے، اور عوامی اور قومی تحریک کو ایک بنیاد پرست تحریک ثابت کرکے اس کے خلاف پروپیگنڈا شروع کردیا جاتا۔ تحریک کے بعد مغربی میڈیا نے پھبتی کستے ہوئے کہا: ’’اخوان نے بہت کامیابی سے سیاسی تقیہ کیا‘‘۔

تحریک کے دوران اخوان کی طرف سے بہت نپے تلے الفاظ کے ساتھ گنتی کے چند بیانات جاری ہوئے۔ اس وقت تک کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ مصر میں آتش فشاں پھٹنے کی گھڑی آن پہنچی ہے۔ اس ضمن میں مزید احتیاط کرتے ہوئے تحریک کے دوران اور حسنی مبارک کے فرار ہوجانے کے بعد یہ واضح اعلان کیا گیا کہ اخوان کی طرف سے صرف مرشد عام، نائب مرشدین عام اور اخوان کے تین ترجمانوں کے علاوہ کسی کا بیان، اخوان کا باقاعدہ موقف نہ سمجھا جائے۔ کسی بھی سیاسی کارکن کے لیے بہت دشوار ہوتا ہے کہ وہ محنت بھی کرے اور اس کی پارٹی کا کوئی نام     یا تعارف تک بھی نہ ہو، لیکن نظم کی پابندی اور اپنی ذات کی نفی کا یہ شان دار مظہر تھا۔ مرشد عام نے  فتح و نصرت کے بعد اپنے ایک تفصیلی بیان سے ھذہ مصر ، ’’یہ ہے مصر‘‘ میں مصری عوام بالخصوص نوجوانوں اور اپنے کارکنان کی حوصلہ افزائی اور تحدیث نعمت کرتے ہوئے خاص طور پر ذکر کیا کہ ’’جب ساری سیکورٹی فورسز بھاگ گئیں اور کچھ عناصر نے ملک میں کئی جگہ لوٹ مار شروع کردی تو انھی نوجوانوں نے ملک بھر میں امن کمیٹیاں بناتے ہوئے ملک و قوم کی حفاظت کی‘‘۔

میدان التحریر کے قریب ہی مصر کا قومی عجائب گھر واقع ہے۔ اس کا شمار دنیا کے انتہائی نادر عجائب گھروں میں ہوتا ہے۔ یہاں ہزاروں سال پرانے اصل اور نایاب نوادرات محفوظ ہیں۔ فرعون کی ممی بھی یہیں ہے۔ یہاں لوٹ مار مچتی تو یہ یقینا ایک بڑا قومی خسارہ ہوتا۔ اس نازک موقع پر یہ اخوان ہی تھے کہ جنھوں نے پورے ملک میں قومی اثاثوں، سرکاری دفاتر اور رہایشی علاقوں کی حفاظت کی۔ سڑکوں پر ٹریفک کنٹرول کی، کرفیو لگنے کے باعث گھروں میں مقید ہوکر رہ جانے والوں تک کھانا پانی پہنچایا۔ صحت وصفائی کی کمیٹیوں نے شہریوں کی خدمت کی۔ میدانِ آزادی سے آنے والا ایک دوست بتارہا تھا کہ رات کے وقت دھرنے دینے والوں کی ایک بڑی تعداد، بالخصوص خواتین گھروں کو چلی جاتی ہیں۔ مظاہرین پر حکومتی گماشتوں کے مسلح حملے کے بعد وہاں رات گزارنے والے، رات بھر پہرہ بھی دیتے ہیں۔ میدانِ آزادی بذاتِ خود ایک چھوٹے سے شہر کی حیثیت رکھتا ہے اور اتنے بڑے میدان کا مسلسل پہرہ معمولی بات نہیں ہے۔ وہاں رات گزارنے والوں اور حفاظتی انتظام کرنے والوں کی بڑی اکثریت اخوان ہی کے ساتھیوں کی ہے جن کے دن کا آغاز میدان التحریر میں نمازِتہجد سے ہوتا ہے۔

ان تمام قربانیوں اور جدوجہد کے باوجود اس پوری قربانی کا سہرا اپنے سر نہ سجانا، مستقبل کے سیاسی نقشے میں بھی خود کو مبالغہ آمیز طریقے سے بڑھا چڑھا کر پیش نہ کرنا اخوان جیسی فنافی اللہ تحریک ہی کے لیے ممکن ہوسکتا تھا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اخوان دنیا جہان سے بے خبر سادہ لوح درویشوں کا کوئی گروہ ہے۔ اخوان نے دورانِ تحریک ہی یہ اعلان کردیا کہ وہ آیندہ صدارتی انتخاب میں اپنا کوئی امیدوار نہیں لائیں گے، اس اعلان کے سیاسی فوائد اور دُوراندیشی کی داد ہر اپنے پرائے نے دی ہے۔ دوسری طرف اخوان کے مرشدعام نے اعلان کیا ہے کہ وہ الحریۃ والعدالۃ (آزادی و انصاف پارٹی - Freedom and Justice Party) کے نام سے ایک سیاسی جماعت تشکیل دے رہے ہیں، جو انتخابات میں مصری عوام کے حقیقی جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے ملک میں حقیقی انصاف و آزادی کا حصول یقینی بنائے گی۔ اخوان اپنی دعوتی،تربیتی اور تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ اس سیاسی پارٹی کے پلیٹ فارم سے تعمیرواصلاحِ معاشرہ کا فریضہ سرانجام دیں گے۔ اس طرح اہم موڑ پر دو اہم سیاسی فیصلے کرتے ہوئے انھوں نے اپنی گہری سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کیا۔ صدارتی اُمیدوار نہ لانے کے اعلان سے اخوان کے نام سے ڈرنے اور ڈرانے والوں کواطمینان دلایا اور ایک عوامی پارٹی کی تشکیل کا اعلان کرکے ہرشہری کے لیے اپنے دروازے کھول دیے۔ اخوان کی سرگرمیوں کی ایک اور مختصر جھلک دیکھنا چاہیں تو یہی دیکھ لیں کہ اس وقت اخوان کی مرکزی ویب سائٹ کے علاوہ ۳۲ شہروں اور شعبوں کی الگ الگ فعال ویب سائٹس کام کر رہی ہیں جو ہردم اپنے لوگوں کی رہنمائی کررہی ہیں۔ تازہ ترین سروے کے مطابق اخوان کی ویب سائٹ پوری دنیا کی کروڑوں ویب سائٹس میں اُوپر کی چند ہزار سائٹس میں شمار ہونے لگی ہے۔

حسنی مبارک کے رخصت ہوجانے کے بعدعالمی ذرائع ابلاغ میں اخوان کے بارے میں مختلف غلط فہمیاں پھیلائی جارہی ہیں۔ پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ اخوان میں اختلافات پیدا ہوگئے، انقلابی تحریک میں اخوان کا کوئی کردار نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔ اخوان کے لوگ کسی بحث میں نہیں  اُلجھ رہے۔ خاموشی اور صبر سے کام میں لگے ہیں اور حسنی مبارک کی رخصتی نے ثابت کر دیا کہ بالآخر صبر ہی ثمربار ہوتا ہے۔ اپنے اور ملک و قوم کے مخالفین کے لیے اخوان کے مرشدعام نے اپنے ایک پیغام میں اسی آیت کو موضوع گفتگو بنایا ہے کہ وَ لَا یَحِیْقُ الْمَکْرُالسَّیِّیُٔ اِلَّا بِاَھْلِہٖ (فاطر۳۵:۴۳) ’’بُری چالیں اپنے چلنے والوں ہی کو لے بیٹھتی ہیں‘‘۔ وہ اپنے ایک اور پیغام کا اختتام اس آیت سے کرتے ہیں: وَ یَوْمَئِذٍ یَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ o بِنَصْرِ اللّٰہِ ط یَنْصُرُ مَنْ  یَّشَآئُ ط وَھُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ o وَعْدَ اللّٰہِ ط لَا یُخْلِفُ اللّٰہُ وَعْدَہٗ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ o (الروم۳۰:۴-۶) ’’اور وہ دن وہ ہوگا جب کہ اللہ کی بخشی ہوئی فتح پر مسلمان خوشیاں منائیں گے۔ اللہ نصرت عطا فرماتا ہے جسے چاہتا ہے اور وہ زبردست اور رحیم ہے۔ یہ وعدہ اللہ نے کیا ہے۔ اللہ کبھی اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں‘‘۔

مصر اور تیونس میں کامیابی کی خوشیاں ابھی تکمیل کی منتظر ہیں کہ بحرین، یمن اور پھر لیبیا میں بھی بڑی عوامی تحریکوں کا آغاز ہوگیا۔ بحرین اور یمن میں برپا تحریکوں کے پس منظر میں کچھ اور عوامل بھی اہم ہیں۔ اس لیے ان کی حیثیت فی الحال وہ نہیں ہوسکی جو دیگر عرب ممالک میں ڈکٹیٹرشپ کے خلاف پوری قوم کو اُٹھ کھڑا ہونے سے بنی اور بن رہی ہے۔ بحرین کی ساری   کش مکش میں مذہبی (شیعہ سُنّی) تقسیم کو بہت اہمیت حاصل ہے، جب کہ یمن میں حکومت مخالف مظاہرے زیادہ تر جنوبی یمن میں ہورہے ہیں جو کبھی الگ ملک ہوتا تھا۔ حالیہ مظاہروں میں بھی  کبھی کبھار شمالی یمن سے علیحدگی کے نعرے شامل ہوجاتے ہیں، جو اس تحریک کے ایک قومی تحریک بننے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ اگر اس علیحدگی پسندی کا خناس نکل گیا اور پوری قوم ڈکٹیٹرشپ کے خاتمے، ملک میں حقیقی جمہوری و شورائی نظام، امریکی غلامی سے نجات اور کرپشن سے نجات جیسے بنیادی اہداف پر متفق ہوگئی تو پھر یقینا وہاں بھی تبدیلی ضرور آئے گی۔ وہاں کی اسلامی تحریک التجمع الیمنی لاصلاح ملک کی دوسری بڑی سیاسی جماعت ہے۔

لیبیا کی صورت حال انتہائی سنگین، افسوس ناک اور قیامت خیز ہے۔ وہاں کرنل معمرالقذافی ۱۹۶۹ء، یعنی گذشتہ ۴۲سال سے برسرِاقتدار ہے اور اپنے بعد اپنے بیٹے کو اقتدارکے لیے تیار کررہاتھا۔ لیبیا کے دونوں پڑوسیوں، تیونس اور مصر میں عوام نے ظالم ڈکٹیٹروں سے نجات حاصل کی تو سب سے افسوس ناک موقف قذافی ہی کا سامنے آیا۔ اس نے زین العابدین بن علی کے فرار کے بعد اس فیصلے پر اس کا مذاق اڑایا۔ ٹی وی پر خطاب کرتے ہوئے تیونسی عوام کو بھی لعنت ملامت کی کہ اس نے ایک قانونی صدر کی مخالفت کی۔ حسبِ عادت طویل تقریر میں اس نے تیونسی عوام کو یہ مشورہ بھی دیا کہ معزول صدر کو عزت و تکریم سے واپس بلالو، وہ اب بھی تمھارا صدرہے۔ پھر جب مصر میں حسنی مبارک کا راج سنگھاسن ڈولنے لگا تو قذافی صاحب نے باربار حسنی مبارک کو فون کرکے اور ٹی وی پر تقاریر کرکر کے عوام کے مقابل جمے رہنے پر اس کی حوصلہ افزائی کی۔ ۱۰فروری کو رات گئے اپنے آخری خطاب میں حسنی مبارک نے ڈھٹائی سے ڈٹے رہنے کا اعلان کیا تو پورا مصر مشتعل تھا۔ لیکن قذافی صاحب نے فوراً فون کرکے حسنی مبارک کو شاباش دی۔ اس نے مصری عوام کو مخاطب کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ حسنی مبارک پر ۷۰ ارب ڈالر کے اثاثوں کا الزام نرا الزام ہے۔ اسے تو اپنے کپڑوں کے لیے بھی ہم پیسے دیتے ہیں۔ قذافی صاحب خود کو شہنشاہِ افریقہ،   مَلِکُ مُلوکِ اِفریقیا کہا کرتے تھے۔ مصری دیوار بھی ڈھے گئی تو قذافی صاحب کواپنی فکر پڑگئی۔ اگلے ہی روز صحافیوں کو بلا کر ڈرایا، دھمکایا اور ساتھ ہی یہ بزرجمہرانہ راے دی کہ اب دنیا کے لیے کوئی بڑا مسئلہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے مناسب مسئلہ یہ ہوسکتا ہے کہ دنیا بھر میں بھٹکنے والے فلسطینیوںکو بحری جہازوں میں بھر کر اسرائیلی پانیوں میں پہنچا دیا جائے۔ اسرائیلی انھیں فلسطین نہیں جانے دیں گے اور تشدد بھی کریں گے لیکن وہ اگر ان پر ایٹم بم بھی گرا دیں تب بھی   دنیا میں ایک انسانی بحران پیدا ہوجائے گا۔ گویا عرب عوام کو جذبۂ آزادی سے ہٹانے کے لیے پاگل پن کا کوئی ایسا مظاہرہ کیا جائے کہ لوگ اپنی آزادی و حقوق کی جنگ بھول جائیں۔

اس کی نوبت نہیں آئی اور یہ جاننے کے باوجود کہ لیبیا میں کرنل قذافی کے خلاف  صداے احتجاج بلند کرنے کا مطلب ہے ناقابلِ تصور جانی و مالی نقصانات، لیبیا کے عوام سڑکوںپر نکل آئے۔ ابھی تک تو نتیجہ وہی نکلا ہے کہ جس کا خدشہ تھا۔ پہلے ہی ہفتے میں ۹۹۵؍افراد شہید، ہزاروں زخمی اور ہزاروں لاپتا ہوگئے ہیں، لیکن ہمیشہ کی طرح اس ساری خون ریزی نے حکومت مخالف جذبات و تحریک میں کمی کے بجاے مزید تیزی پیدا کر دی ہے۔ قذافی صاحب اس کے نتیجے میں اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھے ہیں، انھوں نے ٹی وی پر لمبی تقریر میں اپنے عوام کو چوہے، لال بیگ، نشئی، القاعدہ، امارت اسلامی تشکیل دینے والے (طالبان) اور نہ جانے کیا کیا قرار دے کر ان کے خلاف باقاعدہ جنگ شروع کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ جنگی جہازوں، توپوں اور ٹینکوں سے رہایشی آبادیوں کو ملیامیٹ کرنا شروع کر دیا ہے اور یہی ان کے ۴۲سالہ اقتدار کا نقطۂ اختتام ہے۔ مظلوم عوام پر مزید آزمایش تو آسکتی ہے لیکن اب معمر قذافی کی رخصتی یقینی ہے۔ اب تک بیرونِ ملک درجنوں لیبین سفرا، ظلم کی چکّی کے اصل ذمہ دار وزیرداخلہ اور بہت سارے فوجی افسروں سمیت مملکت کے کئی اہم افراد نے قذافی کا ساتھ چھوڑ کر عوام کے شانہ بشانہ کھڑا ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ ابھی مصر میں شہید ہونے والے ۳۶۷ شہدا کا خون تازہ تھا کہ اب ہزاروں لیبین شہدا کے مقدس خون نے پوری اُمت کے دل خون خون کردیے، لیکن عالمِ اسلام یہ نوشتۂ دیوار پڑھ چکا ہے کہ اب ہماری دنیا کبھی محمدالبوعزیزی کا ٹھیلا اُلٹائے جانے سے پہلے کی دنیا نہیں ہوسکتی۔

پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک کے حکمرانوں اور عوام کو بھی اس کا یہ پیغام بخوبی پہنچ چکا ہے کہ جو قوم اپنے لیے آزادی اور عزت و وقار کی زندگی کا انتخاب کرلے تو پھر خدا خود بندے کی رضا کے مطابق فیصلہ کردیتا ہے۔ ظلم و جبر، کرپشن اور امریکی غلامی کی تکون تیونس اور مصر میں بھی رزقِ خاک ہورہی ہے اور باقی مسلم دنیا میں بھی اس کے اثرات یقینا پہنچیں گے۔ اب اپنی قسمت کا فیصلہ عوام کو خود کرنا ہے۔ ظالم و جابر، امریکا کے غلام، کرپٹ اور فساد زدہ حکمران آج نہیں تو کل قصۂ پارینہ بن جائیں گے۔ باقی وہی بچے گا جو رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے عطا کردہ نظام کے سایے تلے اور عوام کے شانہ بشانہ کھڑا ہوگا۔ عوام سے بھی انصاف کرے گا اور خود اپنی ذات سے بھی انصاف کرے گا۔ اب ایک نیا عالمی اسٹیج تیار ہورہا ہے جس کی حتمی صورت بہت جلد پوری دنیا دیکھ لے گی۔ روحِ اقبال پکار پکار کر کہہ رہی ہے  ع جہانِ نو ہورہا ہے پیدا،وہ عالمِ پیر مر رہا ہے! رب کا فرمان کسی صورت غلط نہیں ہوسکتا: وَکَلِمَۃُ اللّٰہِ ھِیَ الْعُلْیَا ، ’’اللہ کا کلمہ ہی سربلند ہوکر رہنا ہے‘‘۔

 

اسوئہ دعوت کا آغاز غارِ حرا کے اس واقعے سے ہوتا ہے کہ جبرئیل امین ؑ آکر فرماتے ہیں: ’’پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا‘‘ (العلق:۹۶:۱) ۔ہیبت و جلال کے باوجود نبی صلی اللہ علیہ وسلم معذرت کرتے ہیں کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ جبرئیل امین ؑ دوبارہ کہتے ہیں، دوبارہ عذر پیش ہوتا ہے: میں پڑھ نہیں سکتا، اور تیسری بار آپؐ سہمے ہوئے پڑھتے ہیں۔ گویا پہلا سبق اور پہلا کام پڑھنے کا، علم حاصل کرنے کا دیا گیا۔

وحی آتی ہے: راتوں کو اُٹھو، رب کو یاد کرو (المزمل ۷۳:۲)، کہ یہ داعی کے لیے ضروری    توشہ ہے۔ اگلی وحی آتی ہے: اے اوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے، اُٹھو اور خبردار کرو۔ اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرو… اپنے رب کے لیے صبر کرو (المدثر ۷۴:۱-۷)۔ یہ کام چونکہ رب کا ہے،    رب کے لیے ہے، اور اس کام کو رب کی پشتی بانی بھی حاصل ہے، لہٰذا رب کے راستے پر چلتے ہوئے صبر کرنا ہے۔ اس طرح داعی کو ناگزیر ضروریات اور تقاضوں سے آگاہ کر دیا گیا۔

  •  ھمہ جھت دعوت: دعوت کا آغاز قریبی حلقے میں دعوت پہنچانے سے کیا جاتا ہے۔ تین سال میں چند ساتھی میسر آجاتے ہیں۔ دوسرے مرحلے میں اس وقت کے مروج طریقے استعمال کرتے ہوئے دعوت کو بڑے پیمانے پر پھیلانے کا آغاز ہوتا ہے۔ کوہِ صفا سے پکارا جاتا ہے،   مجمع اکٹھا کیا جاتا ہے، جلسہ ہوتا ہے۔ خاندان اور رشتہ داروں کو کھانے پر بلایا جاتا ہے۔مکہ کے  گلی بازار ہوں یا کوئی مجمع، کوئی تقریب ہو یا عکاظ کا میلہ یا حج کا موقع، ہر موقع پر دعوت پہنچانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ دعوت، میدانِ عمل میں چلتے پھرتے مصروف و متحرک رہ کر پھیلائی جاتی ہے۔
  •  مخالفانہ پروپیگنڈا، توسیع دعوت کا ذریعہ:یہ لازم و ملزوم ہے کہ جب بھی دین کی دعوت پھیلتی ہے تو مخالفانہ پروپیگنڈا بھی سر اُٹھاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب نبی کریمؐ نے اسلام کی دعوت پیش کی تو مخالفانہ پروپیگنڈے کی ایک متحرک لہر پیدا ہوگئی۔ حج کا موقع ہو یا عکاظ کا میلہ، داعی سے پہلے اس کے مخالفین پہنچے، اور جاکر لوگوں کو سمجھایا گیا کہ تم ہمارے شہر میں آئے ہو،  یہاں محمد(ﷺ) کی سرگرمیاں ہمارے لیے ناقابلِ برداشت بنی ہوئی ہیں۔ اندیشہ ہے کہ کہیں تم اس کا شکار نہ ہوجائو۔ ایک صحابی طفیل دوسیؓ اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے اس وقت تک سمجھایا جاتا رہا جب تک کہ میں قائل نہیں ہوگیا۔ مسجدحرام جاتا تو روئی کانوں میں ڈال کر جاتا۔ اتفاقاً ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عبادت کے لیے کھڑے ہوئے تھے، پہلی مرتبہ اللہ کا کلام سنا۔ دل میں اپنے آپ کو ڈانٹا کہ آخر عقل مند ہوں، قوتِ تمیز رکھتا ہوں چنانچہ مکان پر جاکر درخواست کی: پیغام سنایئے۔ نتیجتاً اسلام قبول کرلیا اور مکہ سے واپس جاکر پورے قبیلے تک اسلام کی دعوت پہنچائی۔ یہ پروپیگنڈا محمد(ﷺ) کے تعارف اور دعوت کی توسیع کا ذریعہ بنا___ آج بھی اسلام کے خلاف پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے، مگر یہ پروپیگنڈا دنیا کی توجہ اسلامی تعلیمات کی طرف مبذول کرانے کا ذریعہ ہے۔
  •  ظلم و ستم کا حربہ: دوسرا حربہ ظلم وستم اور تشدد ہے۔ دعوت کی توسیع کے لیے   یہ بھی معاون ثابت ہوئے۔ حضرت عمرؓ تلوار لے کر نکلتے ہیں اور بہن اور بہنوئی پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ لہولہان بہن کہتی ہیں: عمر جو کرسکتے ہو کرلو، لیکن اب اسلام ہمارے دل سے نہیں نکل سکتا۔ ایمان، احتجاج اور عزم سے بھرپور جملہ سن کر عمرؓ مفتوح ہوجاتے ہیں۔

حضرت حمزہؓ کے سامنے چار سال کے عرصے میں کئی مواقع آئے، خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت پیش کی، مگر براہِ راست دعوت سے متاثر ہوکر اسلام قبول نہ کیا۔ حضرت حمزہؓ چچا تھے۔ ایک روز کوہِ صفا کے پاس ابوجہل نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر دست درازی کی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صبر سے اذیت برداشت کرتے رہے اور کوئی جواب نہ دیا۔ اتفاق سے عبداللہ بن جذعان کی لونڈی نے یہ سارا ماجرا دیکھا۔ جب حضرت حمزہؓ شکار سے واپس آئے تو انھیں یہ واقعہ سنایا اور کہا کہ ہائے! تم خود دیکھ سکتے کہ تمھارے بھتیجے پر کیا گزری! یہ سننا تھا کہ رگِ حمیت جاگ اُٹھی۔ سیدھے قریش کی مجلس میں جاپہنچے۔ ابوجہل سے کہا: میں محمد کے دین پر ایمان لے آیا ہوں، جو وہ کہتا ہے وہی میں کہتا ہوں، کرلو جو کرسکتے ہو___ داعیِ حق کا صبر، اذیتوں پر رویہ اور کردار، دعوت کا ذریعہ، اس کا تعارف، اور اس کے پھیلائو میں معاون بنتا رہا۔

آج بھی یہی صورت ہے کہ ایک برطانوی صحافی خاتون ایوان ریڈلے طالبان کی جاسوسی کے لیے جاتی ہے۔ اتفاق سے گرفتار ہو جاتی ہے اور قید میں طالبان کے کردار کا مطالعہ کرتی ہے۔ قید سے چھوٹنے پر قرآنِ مجید پڑھتی ہے اور نتیجتاً اسلام کی پُرجوش مبلغہ بن جاتی ہے۔ برطانیہ میں اسلام چینل کے ذریعے، اسلام کی دعوت اور اس کے بارے میں شکوک و شبہات کو دُور کرتی ہے۔ ایک مسلمان عورت ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہے، جو امریکا کی قید میں صعوبتیں برداشت کر رہی ہے۔

  •  ثقافتی یلغار: رحمۃ للعالمینؐ کو بطور داعی اس کا بھی سامنا ہے جو نضر بن حارث کہا کرتا تھا کہ آخر محمد(ﷺ) کی باتیں کس پہلو سے میری باتوں سے زیادہ خوش آیند ہیں۔ یہ تو اساطیر الاولین (داستانِ پارینہ) ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ گانے بجانے والی ایک فنکار لونڈی خریدی جاتی ہے جس کو اُس شخص پر متعین کر دیا جاتا جو دعوت سے متاثر نظر آتا۔ نضر بن حارث لوگوں کو جمع کرتا، کھلاتا پلاتا، گانے سنواتا اور عیش و عشرت کا سامان کرتا___ آج کے موبائل، انٹرنیٹ، کیبل سروس اور ٹی وی چینل، کلچرل شو وغیرہ لغویات میں مشغول کرنے کا ذریعہ ہیں۔ وہ ماحول جس میں ساری توجہ کھانے پینے، جنسی تسکین، گانے بجانے، تفریحات اور فنونِ لطیفہ، بسنت،ویلنٹائن ڈے کی طرف مبذول ہوجائے وہ دعوتِ حق کے لیے سازگار نہیں رہتی۔ مگر کل بھی اس ’ثقافتی یلغار‘ کے علی الرغم دعوتِ حق پھیلی، آج بھی پھیل رہی ہے اورپھیل کر رہے گی۔
  •  نئے حربے اور نفسیاتی جنگ: علماے یہود نے داعیِ حق کو ہر وقت زچ کیے رکھا۔ داعی کی ذات کے بارے میں شکوک پیدا کرنا، ہر وقت کوئی نہ کوئی اعتراض اور سوال اُٹھائے رکھنا: اس شخص سے پوچھو کہ اصحابِ کہف کون تھے؟ ذوالقرنین کا قصہ کیا ہے؟ روح کی حقیقت پوچھو؟___ آج کے داعی کے لیے بھی ایسے ہی، ہروقت نت نئے سوال، تبصرے اور مشورے ہیں: یہ پالیسی کیا ہے؟ اس پر کیا کرنا ہوگا؟ یہ غلط فیصلہ ہے؟دعوت کو روکنے کے لیے سودے بازی،  شرائط و مصلحت: اس قرآن کو تو بالاے طاق رکھ دو۔ کوئی اور قرآن لائو۔ ’ لا الٰہ‘ کا جزو ساقط کردیجیے۔ اللہ کو الٰہ مانیے مگر ہمارے معبودوں کو بُرا نہ کہیے، مراسمِ عبادت ادا کیجیے، دعوت دیجیے مگر ہمارے بتوں کو کچھ نہ کہیے، یعنی جن باطل تصورات پر نظامِ تمدن کھڑا ہے ان کو نہ چھیڑا جائے۔ دین حق کا سیاسی جزو معطل ہوجائے اور اجتماعی نظام کو انھی بنیادوں پر قائم رکھ کر، اس کے سایے میں روحانی نوعیت کی اصلاح معاشرہ کی جاتی رہے___ آج کی اصطلاح میں ریاست کے دستور کو سیکولر ہونا چاہیے۔ یہاں دین کی ترجیحات کا ذکر نہ ہو۔ دین لوگوں کا انفرادی معاملہ ہو اور وہ ذاتی زندگی اور اصلاح تک محدود رہے۔ یہ بقاے باہمی کا فارمولا ہے۔ نصاب میں سے جہاد کا ذکر نکال دیجیے۔ تم اپنا کام کرو، دعوت دو، بڑے بڑے اجتماع کرو، صدارتی ایوانوں میں، سپرپاور کے عین مراکز میں، مساجد تعمیر کرو۔ یوں رواداری کے ساتھ دین پر عمل کریں۔

مصالحت کی راہ نکالنے کے لیے، مخالفین تحریک نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے   ایک مطالبہ یہ بھی رکھا۔ اگر آپؐ اپنے حلقے سے ہمارے معاشرے کے گھٹیا لوگوں کو، ہمارے غلاموں اور لڑکوں بالوں کو نکال دیں تو پھر ہم آپؐ کے پاس آکر بیٹھیں گے اور آپؐ کی تعلیمات کو سنیں گے۔ موجودہ حالت میں یہ ہمارے مرتبے سے فروتر ہے کہ ہم نچلے طبقے کے لوگوں کے ساتھ نشست و برخاست کریں۔ مطلوب یہ تھا کہ تحریک کو ان جان نثاروں کی خدمات سے محروم کر دیا جائے۔ غرض جو جو حربے اختیار کیے گئے، وحی کے ذریعے ان کے لیے رہنمائی آتی گئی: وَ لَا تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہٗ (انعام ۶:۵۲) ’’جو لوگ اپنے رب کو رات دن پکارنے میں لگے ہوئے ہیں، انھیں اپنے سے دُور نہ پھینکو‘‘۔

جب ایک ذی اثر مخالف سے گفتگو کے دوران ایک ساتھی کی مداخلت کو ناپسند فرمایا تو  داعیِ اعظمؐ کو تنبیہہ آگئی: عَبَسَ وَتَوَلّٰی۔ٓ  ٓ o اَنْ جَآئَہُ الْاَعْمٰی (عبس ۸۰:۱-۲) ’’ترش رو ہوا اور بے رُخی برتی، اس بات پر کہ وہ اندھا اس کے پاس آگیا‘‘۔

اہلِ قریش وفد بنابنا کر آئے اور کہا کہ بادشاہ بنا لیتے ہیں، علاج کروا دیتے ہیں، دولت جمع کردیتے ہیں، کسی امیر خاتون سے شادی کرا دیتے ہیں۔ غرض انسانی فطرت کے جتنے کمزور پہلو ہوسکتے ہیں سب کے ذریعے وار کیا، اور بار بار کیا مگر داعیِ حق دعوت سے باز نہیں آئے، مداہنت نہیں برتی۔ اپنے راستے پر، پُرسکون اور کامل اطمینانِ قلب کے ساتھ چلتے رہے۔ اپنی دعوت بہ بانگِ دہل بیان کرتے رہے۔ نہ نظر جھکی، نہ زبان لڑکھڑائی، نہ پاے ثبات میں لغزش آئی___ آج کے داعی کے لیے، اس میں بڑا سبق اور رہنمائی و نمونہ ہے۔

  •  اُمید اور حوصلہ: خدا کا پیغام سنانے مکہ کی گلی کوچے میں گھومے۔ جب دعوت کے لیے کان بند کر لیے گئے تو طائف کا سفر کیا۔ ایک ماہ کی مسافت کے بعد، اس سرسبز خطے کے    خوش حال مکینوں کے پاس پہنچے اور دعوت دی۔ سرداروں نے دعوت کا تمسخر اُڑایا اور بازار کے غلاموں اور لونڈوں کو پیچھے لگا دیا جو شورمچاتے اور پتھر مارتے یہاں تک کہ لہولہان ہوجاتے ہیں اور ایک باغ میں پناہ لیتے ہیں اور دعا کرتے ہیں: ’’مجھے تیری رضا اور خوشنودی کی طلب ہے۔ تو ہی میرا مالک ہے مجھے کس کے حوالے کرنے والا ہے‘‘۔

پہاڑوں کا فرشتہ حاضر ہوتا ہے۔ اشارہ کریں تو طائف کے لوگوں کو ان پہاڑوں کے درمیان پیس کر رکھ دوں، مگر اس عالم میں بھی داعی کی شفقت اور محبت اس کی اجازت نہیں دیتی کہ یہ نسل تو نہیں لیکن ان کی اولاد شاید دین کو قبول کر لے۔ اسی سفر میں جنوں کی جماعت قرآن سنتی اور ایمان  لاتی ہے۔ قیامِ مکّہ کے دوران میں سورئہ یوسف نازل ہوتی ہے اور حدیث دیگراں کے پردے میں،  داعیِ حق کو بشارت دی جاتی ہے کہ حالات آج ناسازگار ہیں مگر انجامِ کار غلبہ تمھارا ہے___ آج کے داعی کے لیے بھی یہ بشارتیں قرآن پاک میں محفوظ ہیں مگر کوئی ان پر کان تو دھرے اور سمجھے تو سہی۔

انتہائی ناسازگار ماحول میں، صاف صاف الفاظ اور فیصلہ کن انداز میں، ایک نعرہ لگایا: ’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے والا ہی ہے‘‘ (بنی اسرائیل ۱۷:۸۱)۔ اگر آج کوئی کہے کہ امریکا شکست کھائے گا، روس کی طرح ٹوٹے گا اور نہتے مسلمان کامیاب ہوں گے، تو لوگ کہیں گے کہ یہ کسی دیوانے کی بڑ ہے۔ خوش فہمی میں نہ رہیں اور زمینی حقائق دیکھیں۔ اس وقت بھی یہی کہا گیا اور اُمید کا دامن تھامنے اور کوشش میں لگے رہنے کا سبق ہے جو داعی نے دیا۔

  •  ھجرت کا مرحلہ: یہ اطلاع دے دی گئی کہ اہلِ مکہ آپؐ کو مکّے سے نکال دینے کے درپے ہوں گے۔ دعاے ہجرت بھی سکھا دی گئی کہ ’’اے میرے رب! مجھ کو صدق کی راہ ہی سے نکال اور مجھے اپنی بارگاہ سے اقتدار کی صورت میں مدد عطا کر‘‘۔ دعا میں اقتدار کی طلب کو شامل کیا۔

تشدد کسی متزلزل نظام کا آخری ہتھیار ہوتا ہے۔ تمام قبائل سے نمایندے لیے جاتے ہیں اور گروہ براے حملہ تشکیل دیا جاتا ہے۔ داعیِ اعظمؐ کے گھر کا محاصرہ کرلیا جاتا ہے۔ ایک تدبیر، تدبیر کرنے والے کرتے ہیں، اور ایک تدبیر خیرالماکرین کرتا ہے___ ان تدبیر کرنے والوں کو پیدا کرنے والا اور ان سے اچھی تدبیر کرنے والا۔ پھر ان کی تدبیریں اکارت جاتی ہیں___ کل مکہ سے ہجرت کی رات یہ ہُوا اور آج بھی یہ ہوتا ہے اور یہ ہوتا رہے گا۔ اس سفرہجرت کی صعوبتوں میں بھی لَاتَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا (غم نہ کر، اللہ تمھارے ساتھ ہے۔ التوبہ ۹: ۴۰) کا پیغام دیا جاتا ہے۔

داعیِ اعظمؐ مدینہ پہنچتے ہیں۔ دعوت کا اسلوب کیا ہے۔ جگہ حاصل کی جاتی ہے اور گارے اور گھاس پھونس سے مسجدنبویؐ کی تعمیر کی جاتی ہے۔ یہ مسجد محض عبادت گاہ اور معبد نہیں ہے۔ یہ حکومت کے کاروبار، مشورے کا ایوان، پارلیمنٹ، سرکاری مہمان خانہ، سپریم کورٹ، جی ایچ کیو، جمہوری دارالعوام اور قومی لیکچرہال ہے۔ یہ مرکزی دفاتر ہیں۔ یوں اسلامی ریاست کی تاسیس ہوتی ہے۔ سیاسی لحاظ سے اہم تعمیری اقدام، میثاقِ مدینہ کیا جاتا ہے۔ ریاست چلانے کے لیے مدینہ کے یہود و مشرکین اور مسلمانوں کی سوسائٹی کو ایک نظم میں پرو دیا جاتا ہے۔ ایک تحریری معاہدہ ہوتا ہے جس کو دنیا کا پہلا تحریری دستور کہا جاسکتا ہے۔

مدینہ کے منظم ہونے والے معاشرے میں خدا کی حاکمیت اور اس کے قانون کو سیاسی اہمیت حاصل ہوگئی۔ سیاسی، قانونی اور عدالتی لحاظ سے اتھارٹی، یعنی آخری اختیار، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں آگیا۔ دفاعی لحاظ سے مدینہ اور اس کے گردونواح کی پوری آبادی ایک متحد طاقت بن گئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بطورِ داعی، مدینے کے معاشرے کا سب سے بڑا معاشی مسئلہ، سیکڑوں مہاجرین کی بحالی کا مسئلہ، مواخات مدینہ کے ذریعے حل کرتے ہیں۔

داعی کا کردار، صرف ایک صوفی درویش کا نہیں بلکہ اجتماعی معاملات کو سنبھالنے، سنوارنے، ماہرانہ حکمت سے پورا کرنے کا نظر آتا ہے۔ تمدنی نظام میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوئی جزوی اصلاح چاہتے تھے یا ہمہ گیر؟ دعوت مذہبی و اخلاقی تھی یا سیاسی اہمیت بھی رکھتی تھی؟ نعرہ یہ دیا گیا اور اس کی وضاحت یہ دی گئی: ’’وہی تو ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کردے، خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو‘‘۔ (الصف ۶۱:۹)

  •  منافقین کا کردار: تاریخِ اسلام کا ایک عجیب المیہ ہے کہ اس وقت کے گدی نشین اہلِ مذہب یہود اور مشرکینِ مکّہ مخالفت میں سب سے آگے تھے۔ مکاری و عیاری کی سرگرمیاں جاری تھیں، نجویٰ اور سازش تھی اور پھر اس میں منافقین بھی شامل ہوگئے۔ مدینے کے اس دور میں یہ دو قوتیں آستین کا سانپ بنی رہیں۔ ہجرت کے ایک سال بعد بدر کا معرکہ آتا ہے۔ پھر اُحد کا میدان سجتا ہے۔ ایک ہزار کا لشکر ہے ایک تہائی منافقین چلے جاتے ہیں۔ نبی کریمؐ کی تربیت کردہ اُمت میں، اس کردار کے حامل تھے___ مگر اس کے علی الرغم یہ دعوت پھیلتی رہی ہے۔

یہ بھی کہا گیا کہ ’’اگر قیادت کے اختیارات میں ہمارا بھی کچھ حصہ ہوتا تو ہم نہ مارے جاتے، اگرہمارے مشورے پر عمل کیا ہوتا تو یہ دن دیکھنا نہ پڑتا‘‘۔ غزوئہ احزاب شروع ہوتا ہے، ۱۷روز سے محاصرہ جاری ہے، طرفین پڑائو ڈالے بیٹھے ہیں۔ سارا عرب اکٹھا ہوکر اُمڈ آیا ہے۔ گویا اس وقت ناٹو کی مانند اتحادی فوجیں، آخری ضرب لگانے کے لیے آئی تھیں۔ اس موقع پر یہود کی ریشہ دوانیاں اور غداریاں عروج پر ہیں۔ غزوئہ تبوک سے واپسی پر واقعۂ افک پیش آتا ہے۔    اُم المومنین حضرت عائشہؓ پر رکیک الزام لگتا ہے، اور جب معاملہ داعی، تحریک کے قائد کی بیوی سے متعلق ہو تو اس کی نوعیت اور بھی سنگین ہوجاتی ہے۔ اس بہتان اور الزام تراشی کا معاملہ ایک ماہ تک چلتا رہا۔ اس ہنگامہ خیز طوفان سے گزرتے ہوئے حضرت عائشہؓ کے ساتھ ساتھ بڑی مظلوم ذات داعیِ حق، نبیِ رحمتؐ کی تھی۔ داعیِ اعظم کی اعلیٰ ظرفی، حوصلہ مندی اور صبروتحمل کا عظیم مظاہرہ ہوتا ہے۔ نبی کریمؐ نے غیرجذباتی اور پُروقار طرزِعمل اختیار کیا۔ قصور کیا تھا کہ وہ انسانیت کا نجات ہندہ، ان کو ان کے رب کی طرف بلاتا تھا۔

  •  پختہ یقین اور اعتماد: داعیِ اعظمؐ کی شخصیت کا ایک اور اہم پہلو ہے جو آج کے داعیانِ دین کی تربیت کے لیے اختیار کیا گیا۔ مدینہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم امیرالمومنین تھے۔ مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ اردگرد کے قبائل کے ساتھ بھی میثاقِ مدینہ کے بعد، سیاسی اعتبار سے فیصلے کا آخری اختیار نبی کریمؐ کے پاس ہی تھا۔ ان پر اپنے ساتھیوں کو ایسا اعتماد تھا کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ میں آج رات سفرمعراج میں آسمانوں پر گیا ہوں تو کسی نے جاکر حضرت ابوبکرؓ سے کہا کہ: لو آج تو تمھارے ساتھی یہ دعویٰ کر رہے ہیں، یعنی ایسی مافوق الفطرت، عجیب و غریب بات! حضرت ابوبکرؓ ایک لمحے توقف کیے بغیر فرماتے ہیں: اگر وہ یہ کہہ رہے ہیں تو  ٹھیک کہہ رہے ہیں۔
  •  مشاورت سے فیصلے: اللہ تعالیٰ نے ہدایت فرمائی کہ معاملات باہم مشورے سے طے کریں۔ اس طرح مشاورت کا راستہ دکھایا اور آمریت کا راستہ روکا گیا۔ یہ بھی ہوا کہ ساتھیوں سے غلطیاں ہوئیں، ان کے رویوں سے دل گرفتگی بھی ہوئی، مگر حکم ہوا کہ ان کو شریکِ مشورہ رکھو، اور ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے معافی بھی مانگتے رہو۔ جب مشاورت سے فیصلہ ہوجائے تو پھر اللہ تعالیٰ پر بھروسا رکھو۔ اسی بنا پر یہی سکھانے کے لیے، احد میں، احزاب میں، بنونضیر کا فیصلہ کرتے ہوئے اور کئی مثالیں ہیں، کہ مشورہ اپنی راے کے علی الرغم قبول کیا___ جس کا مطلب یہ ہے کہ آج بھی فیصلے مشاورت کے ذریعے کرنا اور پھر مطمئن و ثابت قدم رہنا ہوگا۔
  •  دعوت کی وسعت کا تسلسل: دعوت کا ایک میدان، مدینہ میں سیاسی قیادت کا منصب حاصل ہونے کے بعد، ملحقہ سلطنتوں کے حکمرانوں کو اسلامی نظام کا پیغام بھجوانا تھا۔ ان حکمرانوں کو خطوط لکھتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طرف تو مروجہ آداب کا اہتمام کیا، ہرقل قیصر، رومی سلطنت کا تاج دار تھا۔ پرویز کسریٰ ایران کی بہت بڑی سلطنت کا حکمران تھا۔ بحرین، عمان، یمامہ، سکندریہ کے بادشاہوں کو خطوط بھجوائے کہ عالمی سطح پر ایک تسلسل سے دعوت دی جاسکے۔
  •  غلبہ دین کی ترجیح: اُمہات المومنین اور صحابیات کے ساتھ سلوک اور ان کے ذریعے ۵۰ فی صد آبادی میں دعوت کا نفوذ ہوا۔ معاشی تعلیمات دیں اور سود کے خاتمے، وراثت، زکوٰۃ، معاشرے کے یتیم و مسکین افراد کی ضرورتوں کو پورا کروانے کی تلقین دعوت کا حصہ رہا ہے۔ حج وِداع ہوا۔ انسانوں کا جمِ غفیر تھا۔ دعوت کے اس تکمیلی مرحلے پر، اپنی خدائی جمانے کے ادنیٰ اظہار کے بجاے، پہلے سے بڑھ کر شکروحمد کے ترانے تھے۔ انسانیت کے نام پیغام دیا۔ بین الاقوامی انسانی منشور پیش کیا اور یہ بھی فرما دیا کہ جو موجود ہے، اس دعوت کو اس تک پہنچائے جو موجود  نہیں، یعنی دعوت کے اس کام کو جاری رکھا جائے۔ یہ داعی کی فکر کی توسیع تھی اور جہدِ مسلسل کی دعوت۔ پُرفتن دور میں یہی اسوئہ دعوت ہے___ بلاشبہہ آج کے ہرداعی کے لیے داعیِ اعظمؐ رہنما ہیں:

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ(الاحزاب ۳۳:۲۱) درحقیقت  تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ ہے۔

 

قیامِ پاکستان کے بعد پہلی دستور ساز اسمبلی نے ۱۲مارچ ۱۹۴۹ء کو قرارداد مقاصد منظور کی۔ اس دستور ساز اسمبلی کے ارکان کی بڑی تعداد قائداعظم محمدعلی جناح کے رفقاے کار پر مشتمل تھی، جب کہ وزیراعظم لیاقت علی خاں ان کے دستِ راست تھے۔ حالیہ برسوں میں پاکستان کا سیکولر اور مغرب زدہ طبقہ ’قراردادمقاصد‘ کو مذموم مقاصد کے تحت تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے۔ یہاں پر جناب لیاقت علی خاں کی وہ تقریر پیش کی جارہی ہے جس میں انھوں نے قراردادِ مقاصد کا مسودہ پیش کرتے ہوئے، اس کی وضاحت کی تھی۔ ساتھ ہی قائداعظم کے ساتھی مولانا شبیراحمد عثمانی مرحوم کا اس موقعے پر خطاب بھی پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)

صدر محترم، جناب والا!

میں حسب ذیل قرارداد مقاصد پیش کرتا ہوں۔یہ قرار داد مقاصد ان خالص اصولوں پر مشتمل ہے، جن پر پاکستان کا دستور اساسی مبنی ہو گا:

جناب صدرمجلس، تحریک پیش ہے:

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

چونکہ اﷲ تبارک و تعالیٰ ہی کل کائنات کا بلا شرکت غیرے حاکم مطلق ہے، اور اسی نے جمہور کی وساطت سے مملکت پاکستان کو اختیارِ حکمرانی اپنی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کے لیے نیابتاً عطا فرمایا ہے، اور چونکہ یہ اختیارِ حکمرانی ایک مقدس امانت ہے،

لہٰذا  --

  •                             جمہور پاکستان کی نمایندہ یہ مجلس دستور ساز فیصلہ کرتی ہے ،کہ آزاد اور خود مختار مملکت پاکستان کے لیے ایک دستور مرتب کیا جائے۔
  •                            جس کی رو سے مملکت تمام حقوق و اختیاراتِ حکمرانی، عوام کے منتخب کردہ نمایندوں کے ذریعے استعمال کرے۔
  •                           جس میں اصول جمہوریت و حریت، مساوات و رواداری اور سماجی عدل کو، جس طرح اسلام نے ان کی تشریح کی ہے، پورے طور پر ملحوظ رکھا جائے۔
  •                          جس کی رو سے مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے، کہ وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر، اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات و مقتضیات کے مطابق جو قرآن مجید اور سنت رسول میں متعین ہیں، ترتیب دے سکیں۔
  •                              جس کی رو سے اس امر کا قرار واقعی انتظام کیا جائے، کہ اقلیتیں آزادی کے ساتھ اپنے مذہبوں پر عقیدہ رکھ سکیں، اور ان پر عمل کر سکیں، اور اپنی ثقافتوں کو ترقی دے سکیں۔
  •                              جس کی رو سے وہ علاقے جو اب پاکستان میں داخل ہیں یا شامل ہو گئے ہیں، اور ایسے دیگر علاقے جو آیندہ پاکستان میں داخل یا شامل ہو جائیں ایک وفاق بنائیں، جس کے ارکان مقرر کردہ حدود اربعہ و متعینہ اختیارات کے ماتحت خود مختار ہوں۔
  •                                جس کی رو سے بنیادی حقوق کی ضمانت دی جائے، اور ان حقوق میں قانون و اخلاق عامہ کے ماتحت مساوات، حیثیت و مواقع، قانون کی نظر میں برابری، سماجی، اقتصادی اور سیاسی عدل، اظہار خیال، عقیدہ، دین، عبادت اور ارتباط [میل جول اور باہمی تعلق] کی آزادی شامل ہو۔
  •                                جس کی رو سے اقلیتوں اور پس ماندہ و پست طبقوں کے جائز حقوق کے تحفظ کا قرار واقعی انتظام کیا جائے۔
  •                                جس کی رو سے عدلیہ کی آزادی مکمل طور پر محفوظ ہو۔
  •                                جس کی رو سے وفاق کے علاقوں کی حفاظت، اس کی آزادی اور اس کے جملہ حقوق کا  جن میں اس کے بر و بحر اور فضا پر سیادت کے حقوق شامل ہیں، تحفظ کیا جائے۔

                تاکہ ____

                                اہل پاکستان فلاح اور خوش حالی کی زندگی بسر کر سکیں، اور اقوام عالم کی صف میں اپنا جائز اور ممتاز مقام حاصل کر سکیں، اور امن عالم کے قیام اور بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود میں کماحقہ اضافہ کر سکیں۔


جناب والا، میں اس موقعے کو ملک کی زندگی میں بہت اہم سمجھتا ہوں۔ اہمیت کے اعتبار سے صرف حصول آزادی کا واقعہ ہی اس سے بلند تر ہے، کیونکہ حصول آزادی سے ہی ہمیں اس بات کا موقع ملا ،کہ ہم ایک مملکت کی تعمیر اور اس کے نظام سیاست کی تشکیل اپنے نصب العین کے مطابق کر سکیں۔ میں ایوان کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ باباے قوم قائداعظم محمد علی جناح نے اس مسئلے کے متعلق اپنے خیالات کا متعدد موقعوں پر اظہار فرمایاتھا ،اور قوم نے ان کے خیالات کی غیرمبہم(unmistakable) الفاظ میں تائید کی تھی۔

پاکستان اس لیے قائم کیا گیا ہے کہ اس برصغیر کے مسلمان اپنی زندگی کی تعمیر اسلامی تعلیمات اور روایات کے مطابق کرنا چاہتے تھے۔ اس لیے کہ وہ دنیا پر عملاً واضح کر دینا چاہتے تھے، کہ آج حیات انسانی کو جو طرح طرح کی بیماریاں لگ گئی ہیں، ان سب کے لیے صرف اسلام ہی اکسیر اعظم (panacea) کی حیثیت رکھتا ہے۔ ساری دنیا اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ ان برائیوں کا اصل سبب یہ ہے کہ انسان اپنی مادی ترقی کے ساتھ قدم نہ بڑھا سکا، اور انسانی دماغ نے سائنسی ایجادات کی شکل میں جو خود ساختہ بھوت(Frankenstein Monster) اپنے اوپر مسلط کر لیا ہے، اب اس سے نہ صرف انسانی معاشرے کے سارے نظام اور اس کے مادی ماحول کی تباہی کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے، بلکہ اس مسکن خاکی کے بھی تباہ و برباد ہونے کا اندیشہ ہے، کہ جس پر انسان آباد ہے۔

یہ عام طور پر تسلیم کیا جاتا ہے: اگر انسان نے زندگی کی روحانی قدروں کو نظر انداز نہ کیا ہوتا، اور اگر اﷲ تعالیٰ کے وجود پر اس کا ایمان کمزور نہ ہو گیا ہوتا، تو اس سائنسی ترقی سے خود اس کی ہستی ہرگز خطرے میں نہ پڑتی۔ یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ وجود باری تعالیٰ کا احساس ہی انسانیت کو تباہی سے بچا سکتا ہے۔ جس کا منشا یہ ہے کہ انسان کو جو قوتیں حاصل ہیں، ان سب کو ایسے اخلاقی معیارات کے مطابق استعمال کرنا لازمی ہے، جو وحی الٰہی سے فیض یاب ہونے والے ان معلّموں نے متعین کر دیے ہیں، جنھیںہم مختلف مذاہب کے جلیل القدر پیغمبر مانتے ہیں۔ ہم پاکستانی ہوتے ہوئے اس بات پر شرمندہ نہیں ہیں، کہ ہماری غالب اکثریت مسلمان ہے، اور ہمارا اعتقاد ہے کہ ہم اپنے ایمان اور نصب العین پر قائم رہ کر ہی دنیا کے فوز و فلاح میں حقیقی اضافہ کر سکتے ہیں۔

جناب والا، آپ ملاحظہ فرمائیں گے کہ اس قرارداد کی تمہید میں صاف اور صریح الفاظ میں یہ تسلیم کیا گیا ہے، کہ تمام اختیار اور اقتدار کا ذات الٰہی کے تابع ہونا لازمی ہے۔ یہ بالکل درست ہے کہ یہ نظریہ مغربی حکیم میکیاولی کے خیالات کے بالکل برعکس ہے، جس کا تصور مملکت یہ ہے کہ:

spiritual and ethical values should play no part in the governance of the people

(نظام سیاست و حکومت میں روحانی اور اخلاقی قدروں کا دخل نہیں ہونا چاہیے۔)

اس لیے شاید اس بات کا خیال بھی رواج کے کسی قدر خلاف ہی سمجھا جاتا ہے کہ مملکت کے وجود کو خیر کا آلہ ہونا چاہیے، نہ کہ شر (evil) کا۔ لیکن ہم پاکستانیوں میں اتنی جرأتِ ایمان موجود ہے اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ تمام(انسانی) اقتدار اسلام کے قائم کردہ معیارات کے مطابق استعمال کیا جائے، تاکہ اس کا غلط استعمال نہ ہو سکے۔ تمام تر اقتدار ایک مقدس امانت ہے جو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں اس لیے تفویض (delegate) ہوا ہے، کہ ہم اسے بنی نوع انسان کی خدمت کے لیے استعمال کریں، تاکہ یہ امانت ظلم و تشدد اور خود غرضی کا آلہ نہ بن کر رہ جائے۔

بہرصورت میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں ،کہ اس سے ہماری ہرگز ہرگز مراد یہ نہیں ہے کہ ہم حکمرانوں اور بادشاہوں کے ’ظل الٰہی‘ (Divine Right of Kings) ہونے کے ازکار رفتہ نظریے کو پھر سے زندہ کریں۔ کیونکہ اسلامی جذبے کے تحت قرارداد کی تمہید میں اس حقیقت کو   کلی طور پر تسلیم کیا گیا ہے، کہ اﷲ تعالیٰ نے اختیارات سواے عوام (people) کے کسی اور کو تفویض نہیں کیے۔ اور اس کا فیصلہ خود عوام ہی کو کرنا ہو گا، کہ یہ اقتدار کن لوگوں کے ذریعے استعمال کیا جائے گا۔

اسی لیے قرارداد میں یہ بات واضح کر دی گئی ہے کہ ’مملکت تمام حقوق و اختیارات حکمرانی کو عوام کے منتخب کردہ نمایندوں کے ذریعے استعمال کرے گی‘۔ یہی جمہوریت کا نچوڑ (essence) ہے، کیونکہ عوام ہی کو ان اختیارات کے استعمال کا مجاز ٹھیرایا گیا ہے۔

میں نے ابھی یہ عرض کیا تھا کہ:’ اختیارات کے حقیقی حامل عوام ہیں‘۔ چنانچہ اس راستے کو اختیار کرنے سے قدرتی طور پر ’تھیاکریسی ‘ (Theocracy) کے قیام کا خدشہ جاتا رہتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ’تھیاکریسی ‘ کے لغوی معنی ’خدا کی حکومت‘ ہیں اور اس اعتبار سے تو پوری کائنات ہی ’تھیاکریسی ‘ قرار پاتی ہے۔ کیونکہ اس پوری کائنات کا کون سا گوشہ ایسا ہے، جہاں اﷲ تعالیٰ کو قدرت حاصل نہیں ہے؟ لیکن [علم سیاسیات کے] اصطلاحی معنوں میں تھیاکریسی ’برگزیدہ پادریوں کی حکومت‘ کو کہتے ہیں، جو محض اس بنا پر اختیار رکھتے ہوں کہ وہ ایسے اہل تقدس کی طرف سے خاص طور پر مقرر کیے گئے ہیں، جو اپنے مقام قدس کے اعتبار سے ان حقوق کے دعوے دار ہیں۔ اس کے برعکس میں اس امر پر جتنا بھی زیادہ زور دوں کم ہو گا، کہ اسلام میں اس تصورحکمرانی کی ہرگز کوئی گنجایش اور کوئی مقام نہیں ہے۔ اسلام، پاپائیت (Priesthood) یا کسی بھی حکومت مشائخ (Sacerdotal Authority) کو تسلیم نہیں کرتا۔ اس لیے اسلام میں ’تھیاکریسی ‘ کا سوال ہی پیدا نہیں ہو تا۔ اگر کوئی شخص اب بھی پاکستان کے نظام حکومت کے ضمن میں ’تھیاکریسی ‘ کا ذکر کرتا ہے، تووہ یا کسی شدید غلط فہمی شکار ہے یا پھر دانستہ طور پر شرارت آمیزی سے ہمیں بدنام کرنا چاہتاہے۔

جناب والا، اب میں آپ کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کراتا ہوں، کہ قرارداد مقاصد میں جمہوریت، حریت، مساوات، رواداری، اور سماجی عدل کے اصولوں پر زور دیا گیا ہے۔ اس کی مزید صراحت یہ کی گئی ہے کہ دستور مملکت میں ان اصولوں کو اس تشریح کے مطابق ملحوظِ نظر رکھا جائے، جو وضاحت اسلام نے ان الفاظ کی بیان کی ہے۔ ان الفاظ کی صراحت کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ یہ (الفاظ) بالعموم مبہم طور پر استعمال کیے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر مغربی طاقتیں اور اشتراکی روس دونوں اس امر کا دعویٰ کرتے ہیں کہ ’ان کے نظام حکومت جمہوریت پر مبنی ہیں‘ --- لیکن ہر شخص یہ بات جانتا ہے کہ دونوں نظام کس قدر مختلف ہیں۔ اس لیے یہ ضروری سمجھا گیا ہے، کہ ان الفاظ کے مفہوم کا تعین کر دیا جائے، تاکہ ہر شخص کے ذہن میںان کا واضح مفہوم آجائے۔

جس وقت ہم ’جمہوریت‘ کا لفظ اس کے اسلامی مفہوم میں استعمال کرتے ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے، کہ جمہوریت ہماری زندگی کے تمام پہلوؤں پر حاوی ہے اور اس کا اطلاق جتنا ہمارے نظام حکومت پر ہے، اتنا ہی ہمارے معاشرے پر بھی ہے۔ کیونکہ اسلام نے دنیا کو جن  عظیم الشان صفات سے مالا مال کیا ہے، ان میں سے ایک صفت عام انسانوں کی مساوات بھی ہے۔ اسلام، نسل، رنگ اور نسب کے امتیازات (discrimination) کو کبھی اور کسی سطح پر بھی تسلیم نہیں کرتا۔ اسلامی تواریخ کا یہ روشن باب ہے کہ انحطاط کے دور (decadence) میں بھی مسلم معاشرہ رنگ و نسل کے اُن تعصبات سے نمایاں طور پر پاک رہا ہے، جنھوں نے دنیا کے دوسرے انسانوں کے باہمی تعلقات کو زہر آلود کر دیا تھا۔

اسی طرح ہماری اسلامی تہذیب میں رواداری (tolerance) کی روایات بھی عظیم الشان ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ ازمنہ وسطیٰ میں اقلیتوں کو کسی نظام حکومت کے تحت وہ مراعات حاصل نہیں ہوئیں، جو مسلمان ملکوں میں انھیں حاصل تھیں۔ جس زمانے میں کلیسا (church) سے اختلاف رکھنے والے مسیحیوں اور مسلمانوں کو [ہولناک] اذیتیں دی جاتی تھیں، اور انھیں گھروں سے نکالا جاتا تھا اور پھر جب انھیں جانوروں کی طرح شکار کیا جاتا تھا اور مجرم قرار دے کر زندہ جلا دیا جاتا تھا، اُنھی دنوں اسلام ان سب [مظلوموں، زیردستوں اور مقہوروں] کا ضامن اور پناہ گاہ ثابت ہوا کرتا تھا، کہ جنھیں مظالم کا نشانہ بنایا جا رہا تھا، اور جو تنگ آ کر بھاگ نکلنے پر مجبور ہوجاتے تھے۔ زندہ جلانے کا تو تصور تک اسلام میں کبھی نہیںآیا۔

تاریخ کا یہ مشہور واقعہ ہے کہ جب’ سامیوں سے نفرت‘(anti-semitism) کے تحت بہت سے یہودیوں کو یورپ کے ممالک سے نکال دیا گیا، تو یہ سلطنت عثمانیہ تھی جس نے کھلے دل سے انھیں اپنے ہاں پناہ (shelter)دی تھی۔ مسلمانوں کی رواداری کا سب سے شان دار ثبوت یہ ہے کہ دنیا میں کوئی مسلم ملک ایسا نہیں جہاں اقلیتیں کافی تعداد میں موجود نہ ہوں، اور جہاں وہ اپنے مذہب اور ثقافت کو برقرار نہ رکھے ہوئے ہوں۔ سب سے زیادہ ہندستان کے اس برصغیر میں جہاں کبھی مسلمانوں کو لامحددود اختیارات حکمرانی حاصل تھے، غیر مسلموں کے حقوق کا پاس و لحاظ رکھا گیا اور ہمیشہ ان کا تحفظ کیا گیا۔

میں آپ کی توجہ اس حقیقت کی طرف بھی مبذول کرانا چاہتا ہوں، کہ مسلمانوں ہی کی سرپرستی میں ہندستان کی بہت سی مقامی زبانوں کو ترقی اور فروغ حاصل ہوا۔ بنگال سے تعلق رکھنے والے میرے دوستوں کو یاد ہو گا کہ یہ صرف مسلمان حکمرانوںہی کی حوصلہ افزائی کا نتیجہ تھا، کہ سب سے پہلے ہندوؤں کی مقدس کتابوں (scriptures)کا ترجمہ سنسکرت سے بنگالی میں کیا گیا۔ یہی وہ رواداری ہے جس کا تصور اسلام نے ہمیشہ پیش کیا ہے، اور جس میں اقلیتیں ذلت و رسوائی کی حالت میں نہیں رہتیں، بلکہ باعزت طریقے پر زندگی بسر کرتی ہیں۔ انھیں اپنے نظریات اور اپنی ثقافت کو فروغ دینے کے مواقع دیے جاتے ہیں، تاکہ وہ پوری قوم کی عظمت میں اضافہ کر سکیں۔

جہاں تک سماجی عدل (social justice) کا تعلق ہے، جناب محترم، میںیہ کہوں گا کہ اسلام اس میںشان دار اضافہ کرتا ہے۔ اسلام ایک ایسے معاشرے کے قیام کا حامی ہے، جس میں سماجی عدل کا تصور نہ تو بھیک اور خیرات پر مبنی ہے اور نہ ذات پات (اور رنگ و نسل) کی کسی تمیز پر موقوف ہے۔ اسلام جو سماجی عدل قائم کرنا چاہتا ہے، وہ ان بنیادی ضابطوں اور تصوارت پر مبنی ہے، جو انسان کی زندگی کو دوسروں کی محتاجی سے پاک رکھنے کے ضامن ہیں، اور جو آزادی و حریت کی دولت سے مالا مال ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ (قرارداد میں) جمہوریت، آزادی، مساوات، رواداری اور سماجی عدل کی ایسی تعریف کی گئی ہے، جس کی وجہ سے ہمارے خیال کے مطابق ان الفاظ کے عام معانی کی بہ نسبت زیادہ گہرے اور وسیع تر معانی پیدا ہوگئے ہیں۔

قرارداد مقاصد کی اس دفعہ کے بعد یہ درج ہے، کہ مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے کہ  وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات کے مطابق جو قرآن مجید اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں متعین ہیں، ترتیب دے سکیں۔ یہ امر بالکل ظاہر ہے کہ اگر مسلمان کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ اپنی زندگی دین اسلام کی تعلیمات کے مطابق بنا لے، تواس پر اصولی طور پر ہمارے کسی غیر مسلم بھائی کو کسی قسم کا اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔

جناب والا، آپ اس امر کو بھی مدنظر رکھیں، کہ حکومت ایک غیر جانب دار تماشائی کی حیثیت سے اس بات پر اکتفا نہیں کرے گی، کہ مسلمانوں کو اس مملکت میں صرف اپنے دین (مذہب) کو ماننے اور اس پر عمل کرنے کی آزادی حاصل ہو۔ کیونکہ حکومت کے اس طرز عمل سے ان مقاصد کی صریحاً خلاف ورزی ہو گی، جو مطالبہ پاکستان کے بنیادی محرک تھے۔ حالانکہ یہی مقاصد تو اس مملکت کا سنگ بنیادہونے چاہییں، جسے ہم تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ یہ مملکت ایک ایسا ماحول پیدا کرے گی، جو ایک حقیقی اسلامی معاشرے کی تعمیر میں ممد و معاون ثابت ہو گا، جس کا مطلب یہ ہے کہ مملکت پاکستان کو اپنی کوشش و کاوش میں مثبت پہلو اختیار کرنا ہو گا۔

جناب والا، آپ کو یاد ہو گا کہ قائداعظم محمد علی جناحؒ اور مسلم لیگ کے دوسرے مرکزی رہنماؤں نے ہمیشہ یہ بڑے واضح او ر غیر مبہم اعلانات (uniquivocal declarations) کیے ہیںکہ: ’پاکستان کے قیام کے لیے مسلمانوں کا مطالبہ اس حقیقت پر مبنی ہے کہ مسلمانوں کے ہاں اپنے ’طریق زندگی اور ضابطہ اخلاق‘ (way of life and code of conduct) موجود ہیں‘۔ انھوں نے بارہا اس امر پر بھی زور دیا ہے کہ اسلام کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ اﷲ اور بندے کے درمیان ایک ایسا نجی تعلق قائم ہو، جسے مملکت کے کاروبار(working of the state) میں کسی قسم کا دخل نہ ہو، بلکہ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ اسلام سماجی اخلاق کے متعلق معاشرے کے طرز عمل کی رہنمائی کرتا ہے۔اسلام محض ذاتی عقائد اور انفرادی اخلاق کا نام نہیں ہے، بلکہ وہ اپنے ماننے والوں سے توقع کرتا ہے کہ وہ ایک ایسے معاشرے کی تعمیر کریں، جس کا مقصد حیات صالح (good life) ہو۔ اہل یونان کے برعکس اسلام نے صالح زندگی کا جو تصور پیش کیا ہے، اس کی بنیادلازمی طور پر روحانی قدروں پہ قائم ہے۔

ان اقدار کو اہمیت دینے اور انھیں نافذ کرنے کے لیے مملکت پر لازم ہو جاتا ہے کہ وہ مسلمانوں کی سرگرمیوں کی اس طریقے پر ہم نوائی کرے، کہ جس سے ایک ایسا نیا سماجی نظام (social order) قائم ہو جائے، جو اسلام کے بنیادی اصولوں پر مبنی ہو۔ ایک ایسا سماجی نظام کہ جس میں جمہوریت، حریت، رواداری اور سماجی عدل شامل ہیں۔ ان امور کا ذکر تو میں نے محض بطورمثال کیا ہے، کیونکہ وہ اسلامی تعلیمات جو قرآن مجید اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر مشتمل ہیں، محض اسی بات پر ختم نہیں ہو جاتیں۔ کوئی مسلمان ایسا نہیںہو سکتا جس کا اس پر ایمان نہ ہو کہ کلام اﷲ اور اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی اس کے روحانی فیضان کے بنیادی سرچشمے ہیں۔ ان سرچشموں کے متعلق مسلمانوں میں کوئی اختلاف راے نہیں ہے اور اسلام کا کوئی ایسا مکتب فکر نہیں، جو ان کے وجود کو تسلیم نہ کرتا ہو۔

لہٰذا، کسی بھی ایسے فرقے کو جو پاکستان میں اقلیت میں ہو، اس مملکت کی نیت (intention) کی طرف سے اپنے دل میں کوئی غلط فہمی نہیں رکھنی چاہیے۔ یہ مملکت ایک ایسا اسلامی معاشرہ پیدا کرنے کی کوشش کرے گی، جو باہمی تنازعات سے پاک ہو۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اعتقادات کے معاملے میں وہ مسلمانوں کے کسی مکتب فکر کی آزادی کو سلب کرے گی۔ کسی مکتب فکر کو خواہ وہ اکثریت میں ہو یا اقلیت میں، یہ اجازت نہیں ہو گی کہ دوسروں کو اپنا حکم قبول کرنے پر   مجبور کرے، بلکہ اپنے اندرونی معاملات اور فرقہ وارانہ اعتقادات میں تمام فرقوں کے لیے   وسعت خیال و عمل کا اہتمام ہوگا اور کامل آزادی کو یقینی بنایا جائے گا۔ درحقیقت ہمیں یہ امید ہے کہ مختلف مکاتب فکر اُس منشا کے مطابق عمل کریں گے، جو اس حدیث نبویؐ میں مذکور ہے: ’میری اُمت [کے لوگوں ]میں اختلاف راے ایک رحمت ہے‘۔ اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم اپنے اس ]فطری[ اختلاف کو اسلام اور پاکستان کے لیے باعث استحکام بنائیں اور چھوٹے موٹے مفادات کے لیے کوئی ناجائز فائدہ نہ اٹھائیں، کیونکہ اس طرح پاکستان اور اسلام دونوں کمزور ہو جائیں گے۔ بسا اوقات اختلافات راے ہم آہنگی اور ترقی کا ذریعہ بن جاتے ہیں، لیکن یہ صرف اسی وقت ہو سکتا ہے کہ جب راے کے اختلافات میں اس امر کی اجازت نہ دی جائے کہ وہ ہمارے حقیقی نصب العین کو جو اسلام کی خدمت اور اس کے مقاصد کو ترقی دیتا ہے، اسے نظروں سے اوجھل کر دیں۔ پس ظاہر ہے کہ قرارداد میں اس دفعہ کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو ایک ایسا سیاسی نظام قائم کرنے کی سہولت دی جائے، جس کی تجربہ گاہ (laboratory) میں وہ دنیا کو عمل کر کے دکھا سکیں، کہ اسلام دنیا میں نہ صرف ایک متحرک اور ترقی پسند طاقت ہے، بلکہ وہ ان گوناگوں خرابیوں کا علاج بھی مہیا کرتا ہے، جن میں آج نوع انسانی مبتلا ہے۔ کیونکہ مسلمانوں کو اپنی پستی اور محکومی کے طویل دور میں ہمیشہ اس قسم کے موقع کی تلاش رہی ہے۔

ایک اسلامی معاشرہ تعمیر کرنے کے مقصد میں ہم نے غیر مسلموں کے حقوق کو کبھی نظرانداز نہیں کیا۔ اگر ہم اقلیتوں کی آزادی میں مداخلت کرنے کی کوشش کرتے تو یہ ایک غیراسلامی فعل ہوتا، اور ایسا کر کے ہم یقینا اپنے دینی احکام کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے۔ اقلیتوں کو    اپنے اپنے مذہب پر چلنے، اس کی حفاظت کرنے یا اپنی ثقافت کو فروغ دینے سے کسی طرح روکا نہیں جائے گا۔ اسلامی ثقافت کے نشوونما کی تاریخ بتاتی ہے، کہ مسلمان حکومتوں اور سلطنتوں کے تحت زندگی بسر کرنے والی اقلیتوں کی ثقافتیں اس دولت میں اضافہ کرنے کا موجب ہوئی ہیں، جسے مسلمانوں نے بطور وراثت حاصل کر کے فروغ دیا ہے۔میں اقلیتوں کو یقین دلاتا ہوں کہ ہمیں اس امر کا پورا پورا احساس ہے کہ اگر اقلیتیں انسانی علم و فکر کی دولت میں اضافہ کر سکنے کے قابل ہوں گی، تو یہ امر پاکستان کی نیک نامی میں چار چاند لگائے گا اور اس سے قوم کی زندگی اور توانائی میں   قابل قدر اضافہ ہو گا۔ اس لیے اقلیتوں کو نہ صرف مکمل آزادی کی توقع کرنی چاہیے، بلکہ یہ امید بھی رکھنی چاہیے کہ اکثریت ان کے ساتھ قدر دانی اور احترام کا وہی برتاؤ کرے گی، جو تاریخ میں ہمیشہ مسلمانوں کا طرۂ امتیاز رہا ہے۔

جناب والا، قرارداد کے مطابق طرز حکومت وفاقی ہونا چاہیے، کیونکہ جغرافیائی حالات اسی قسم کی طرز حکومت کا تقاضا کرتے ہیں۔ اس صورت میں، جب کہ ہمارے ملک کے دو حصوں کے درمیان ایک ہزار میل سے بھی زیادہ فاصلہ موجود ہے۔مجلس دستور ساز، ان جغرافیائی وحدتوں کو ایک دوسرے سے قریب تر لانے اور بہتر رابطے پیدا کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گی، جن سے ہماری قوم پوری طرح متحد و منظم بن جائے۔ بلاشبہہ میں نے ہمیشہ صوبہ پرستی کے جذبات کو بھڑکانے کی کوششوں کی سخت مخالفت کی ہے، مگر میں اس امر کو واضح کر دینا چاہتا ہوں، کہ میں غیر منصفانہ یکسانیت کا حامی بھی نہیں ہوں۔ میرا خیال ہے کہ جن علاقوں اور جغرافیائی اکائیوں پر پاکستان مشتمل ہے، ان سب کو ہماری قومی زندگی کی خوبیاں بڑھانے میں حصہ لینا چاہیے۔ لیکن میں یہ بھی واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ہمیں کسی ایسی بات کی اجازت نہیں دینی چاہیے، کہ جو کسی طرح بھی پاکستان کی قومی وحدت کو کمزور کرنے کا ذریعہ بنے۔ ہم آبادی کے مختلف طبقوں کے موجودہ باہمی تعلقات کو بہتر بنانے کا بندوبست کرنے کا پختہ عزم و ارادہ رکھتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے مجلس دستور ساز کو اس مسئلے پر ازسرنو غور کرنا ہو گا، کہ کون سے امور مرکز کے تحت ہونے چاہییں اور کون سے امور صوبوں کے پاس رہیں؟ -- مزید یہ کہ ہمارے نئے نظام میں صو بوں کا تعین کس طرح کیا جائے؟

صدر محترم، بعض بنیادی حقوق کے تحفظ کا یقین دلانا بھی ایک رسمی سی بات ہو گئی ہے۔ لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہمارا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ ہم ایک ہاتھ سے حقوق دیں اور دوسرے ہاتھ سے انھیں واپس لے لیں۔ میں اس بات کے ثبوت میں بہت کچھ کہہ چکا ہوں، کہ ہم حقیقی معنوں میں ایک آزاد رو حکومت بنانا چاہتے ہیں، جس کے تمام ارکان کو زیادہ سے زیادہ آزادی حاصل ہو گی۔ قانون کی نظر میں تمام شہری برابر ہوں گے۔ لیکن اس بات کا یہ مطلب نہیں ہے، کہ ان فرقوں کے شخصی قانون (personal law) کا تحفظ نہیں کیا جائے گا۔ قانون، حیثیت اور انصاف کے معاملے میں مساوات ہماراعقیدہ ہے۔

یہ ہمارا پختہ یقین ہے اور ہم نے اکثر جگہ اس کا اعلان کیا ہے، کہ پاکستان مفاد پرستوں اور مال دار طبقوں کی ہوس زر کے لیے نہیں بنا ہے، بلکہ اسلام کے بنیادی اصولوں پر ایک منصفانہ معاشی نظام تعمیر کرنا ہمارا مقصد ہے۔ کیونکہ یہ اصول دولت کی بہتر تقسیم میں اور ناداری کو ختم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ اپنے عروج و کمال پر پہنچنے میں جو وجوہ انسانیت کی راہ میں مانع ہیں، وہ افلاس اور پس ماندگی ہیں، اور پاکستان سے ہم (ان شاء اﷲ) ان کو مٹا کر چھوڑیں گے۔ اس وقت ہمارے عوام غریب و ناخواندہ اور ان پڑھ ہیں، چنانچہ ہمیں ضرور ان کا معیار زندگی بلند کرنا ہے۔ انھیں افلاس اور جہالت کی زنجیروں سے ضرور آزاد کرانا ہے۔

جہاں تک سیاسی حقوق کا تعلق ہے، تو اس ضمن میںحکومت کی اجتماعی حکمت عملی کے تعین میں اور ان لوگوں کے انتخاب میں ہر شخص کو دخل ہو گا، جو حکومت چلانے کے لیے منتخب کیے جائیں گے، تاکہ وہ لوگ جن کے ہاتھوں میں حکومت کا نظم و نسق ہو، وہ مفاد عامہ کا خیال رکھتے ہوئے اپنے فرائض انجام دے سکیں۔ چونکہ ہمیں یہ یقین ہے کہ خیالات کے اظہار پر کوئی پابندی عائد نہیں ہو سکتی، اس لیے ہم نہیں چاہتے کہ کسی شخص کو اس کے خیالات کے اظہار سے باز رکھیں۔ نہ ہم کسی کو جائزقانونی اور اخلاقی مقاصد کے پیش نظر عوامی رابطے اور انجمن سازی سے روکنا چاہتے ہیں۔  مختصر یہ کہ ہم اپنے نظام حکومت کی بنیاد آزادی، ترقی اور سماجی عدل پر قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ہم سماجی عدمِ توازن کو اس طریقے سے ختم کرناچاہتے ہیں، کہ کسی کو نقصان نہ پہنچے اور انسانی خیالات اور جائز رجحانات پر بھی پابندیاں عائد نہ ہوں۔

جناب والا، اقلیتوں کے بہت سے مفادات ایسے ہیں جن کا وہ بجا طور پرتحفظ چاہتے ہیں۔ یہ قرارداد ان حقوق کے برملا تحفظ کی ضامن ہے۔ ہماری خصوصی ذمہ داری معاشی اعتبار سے پس ماندہ لوگوں کی دست گیری سے منسوب ہے۔ ہم اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ ہیں کہ   وہ بغیر کسی قصور کے اپنی موجودہ قابل رحم حالت میں مبتلا ہیں۔ پھریہ بھی حقیقت ہے کہ ہم ان    ہم وطنوں کی اس معاشی زبوں حالی تک پہنچنے کے کسی طرح بھی ذمہ دار نہیں ہیں۔ لیکن چونکہ وہ ہمارے شہری ہیں، اس لیے ہماری خاص طور پر یہ کوشش ہو گی، کہ ہم انھیں دوسرے آسودہ حال شہریوں کے دوش بدوش لے آئیں، تاکہ وہ ان ذمہ داریوں کو سنبھال سکیں، جو ایک آزاد اور ترقی پسند مملکت کے شہری ہونے کی حیثیت سے ان پر عائد ہوتی ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ جب تک ہمارے عوام میں پس ماندہ طبقے موجود ہیں، ہمارے معاشرے کی ترقی کی رفتار سست رہے گی۔ لہٰذا، مملکت کی تعمیر کے لیے یہ ضروری ہے ،کہ ہم ان پس ماندہ اور زیردست طبقوں کے بنیادی، معاشی اور سماجی مفادات کو ملحوظ رکھیں۔

آخر میں، میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں اور ہمیں پختہ یقین ہے کہ ہم پاکستان کی بنیادیں ان اصولوں پر قائم کر کے، جن کی وضاحت کی گئی ہے، اس مملکت کو ترقی کی راہ پر ڈال دیں گے۔ وہ دن دور نہیں جب پاکستان ایک ایسا ملک بن جائے گا، جس کے باشندے بلا تمیز عقیدہ و حیثیت اس پر فخر کیا کریں گے۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارے عوام بڑی صلاحیتوں کے حامل ہیں۔ اپنی بے بہا قربانیوں اور اس قابل تعریف نظم وضبط کی بدولت جس کا مظاہرہ انھوں نے ایک ابتلائی اور تاریک دور میں کیا ہے، وہ تمام دنیا سے خراج تحسین حاصل کر چکے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ایسی قوم نہ صرف زندہ رہنے کی مستحق ہے، بلکہ وہ انسانیت کی فلاح اور ترقی میں بھی لازمی طور پر اضافہ کرے گی۔ یہ ضروری ہے کہ ہماری قوم اپنے جذبۂ قربانی کو زندہ رکھے اور اپنے اعلیٰ نصب العین پر قائم رہے۔ پھر قدرت خود اسے اس بلند مقام پر پہنچا دے گی، جو دُنیاوی امور کی انجام دہی کے سلسلے میں اس کے لیے موزوں ہے، اور اسے انسانیت کی تاریخ میں زندہ جاوید بنا دے گی۔

جناب والا، یہ قوم زبردست کامیابیوں کی روایات رکھتی ہے۔ اس کی تاریخ شان دار کارناموں سے بھرپور ہے۔ اس نے زندگی کے ہر شعبے میں کامیابی کے ساتھ پورا پورا حصہ لیا ہے۔ ہماری قوم کی بہادری کے کارنامے فوجی تاریخ کی زینت ہیں۔ یہ وہ قوم ہے جس کے ارکان    نظم و نسق نے ایسی روایات قائم کی ہیں، جو زمانے کی دست برد سے اب تک محفوظ ہیں۔ اس کے تخلیقی فنون، شعر و شاعری، فن تعمیر اور جمالیاتی ذوق نے دنیا بھر سے خراج تحسین وصول کیا ہے۔ روحانی عظمت کے لحاظ سے یہ قوم عدیم المثال ہے۔ اب پھر یہی قوم راہ عمل پر گام زن ہے اور اگر اسے ضروری مواقع میسر آ جائیں تو وہ اپنی شان دار کامیابیوں کی سابقہ عظیم الشان روایات سے بھی بہتر کام کر دکھائے گی --- قرارداد مقاصد اس ماحول کو پیدا کرنے کی طرف پہلا قدم ہے، جس سے قوم کی روح پھر سے بیدار ہو جائے گی۔

اﷲ تعالیٰ نے ہم لوگوں کوقوم کی اس نشاتِ ثانیہ کے زبردست عمل میں حصہ لینے کے لیے منتخب کیا ہے، خواہ وہ حصہ کتنا ہی حقیر اور غیر اہم کیوں نہ ہو۔ ہم ان زبردست اور گونا گوں مواقع سے، جو آج ہمیں حاصل ہیں، محو حیرت ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان مواقع سے خردمندی اور    دُور اندیشی کے ساتھ فائدہ اٹھائیں۔ مجھے اس میں ذرہ برابر بھی شک نہیں، کہ اﷲ کے فضل و کرم سے جس کی رحمت سے پاکستان قائم ہوا ہے، ہماری یہ کوششیں ہماری بڑی سے بڑی توقعات سے   بڑھ چڑھ کر بار آور ثابت ہوں گی۔

بڑی قوموں کو اپنی میراث روز روز نہیں ملتی۔ قوموں کی نشاتِ ثانیہ کا دروازہ ہر روز نہیں کھلتا۔ قدرت ہر روز مظلوموں اور محکوموں کو نہیں ابھارتی اور انھیں شان دار مستقبل کی طرف بڑھنے کی باربار دعوت نہیں دیتی۔ روشنی کی کرنیں افق پر ظاہر ہو کر طلوع ہونے والے روز روشن کا پیش خیمہ بن رہی ہیں اور ہم اس طلوع کا اس قرارداد کی شکل میں خیر مقدم کرتے ہیں۔

__ ۲ __

مولانا شبیر احمد عثمانی

جناب صدر محترم!

قرار داد مقاصد کے اعتبارسے جو مقدس اور محتاط تجویز آنریبل مسٹر لیاقت علی خاں صاحب نے ایوان ہذا کے سامنے پیش کی ہے، میں نہ صرف اس کی تائید کرتا ہوں، بلکہ آج اس بیسویںصدی میں (جب کہ ملحدانہ نظریات حیات کی شدید کش مکش اپنے عروچ پر پہنچ چکی ہے) ایسی چیز کے پیش کرنے پر موصوف کی عزم و ہمت اور جرأت ایمانی کو مبارک باد دیتا ہوں۔

اگر غور کیا جائے تو یہ مبارک باد فی الحقیقت میری ذات کی طرف سے نہیں، بلکہ اس پسی ہوئی اور کچلی ہوئی روح انسانیت کی جانب سے ہے، جو خالص مادہ پرست طاقتوں کی حریفانہ حرص و آز اور رقیبانہ ہوس ناکیوں کے میدانِ کارزار میں مدتوں سے پڑی کراہ رہی ہے۔ اس کے کراہنے کی آوازیں اس قدر درد انگیز ہیں کہ بعض اوقات اس کے سنگ دل قاتل بھی گھبرا اٹھتے ہیں، اور اپنی جارحانہ حرکات پر نادم ہوکر تھوڑی دیر کے لیے مداوا تلاش کرنے لگتے ہیں۔ مگر پھر علاج و دوا کی جستجو میں وہ اس لیے ناکام رہتے ہیں، کہ جو مرض کا اصل سبب ہے اسی کو دوا اور اکسیر سے سوا سمجھ لیا جاتا ہے۔

یاد رکھیے، دنیا اپنے خود ساختہ اصولوں کے جس جال میں پھنس چکی ہے، اس سے نکلنے کے لیے جس قدر پھڑ پھڑائے گی، اسی قدر جال کے حلقوں کی گرفت اور زیادہ سخت ہوتی جائے گی۔ وہ صحیح راستہ گم کر چکی ہے۔ جو راستہ اب اختیار کررکھا ہے، اس پر جتنے زور سے بھاگے گی، وہ حقیقی فوزو فلاح کی منزل سے دور ہی ہوتی چلی جائے گی۔

ہمیں اپنے نظام حیات کو درست اور کامیاب بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارا انجن جس لائن پر اندھا دھند چلا جا رہا ہے اسے تبدیل کریں، اور جس طرح بعض دفعہ لائن تبدیل کرتے وقت گاڑی کو کچھ پیچھے ہٹانا پڑتا ہے، ایسے ہی صحیح لائن پرآگے بڑھنے کی غرض سے ہم کو پیچھے ہٹنا پڑے تو کچھ مضائقہ نہیں۔ اگر ایک شخص کسی راستے پر بے تحاشا دوڑ رہا ہے اور ہم دیکھیں کہ چند قدم آگے بڑھنے پر وہ کسی ہلاکت کے غار میں جا پڑے گا تو ہم خاموش نہیں رہ سکتے۔ اسے ادھر سے پیچھے ہٹاکر صاف اور سیدھی شاہراہ پر ڈالنے کی کوشش کریں گے۔ یہی حال آج دُنیا کا ہے۔ اگر ہماری اس نئی اور بے چین دنیا کو اپنے تباہ کن مصائب سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے، تو اسے حالات کا بالکل جڑ بنیاد سے از سر نو جائزہ لینا ہوگا۔ کسی درخت کی شاخوں اورپتوں پر پانی چھڑکتے رہنا    بے کار ہے، اگر اس کی جڑ جوسیکڑوں من مٹی کے نیچے دبی ہوئی ہے مضبوط نہ ہو۔

آج کے بہت سے بکھرے ہوئے مسائل خواہ ان سے آپ کو کتنی ہی دل چسپی اور شغف کیوں نہ ہو، کبھی ٹھیک طور پر سنور اور سلجھ نہیں سکتے، جب تک ان کے اصول بلکہ اصل الاصول درست نہ ہو جائے۔ ’قدامت پرستی‘ اور ’رجعت پسندی‘ کے طعنوں سے نہ گھبرائیے،بلکہ کشادہ دل و دماغ کے ساتھ، ایک متجسّسِ حق کی طرح الجھی ہوئی ڈور کا سرا پکڑنے کی کوشش کیجیے۔ جو باتیں طاقت ور اور ذی اقتدار قوموں کے زبردست پروپیگنڈے یا غیر شعوری طور پر ان کے حاکمانہ اقتدار اور مسحور کن مادی ترقیات کے زور و اثر سے بطور مسلمات عامہ، اصول موضوعہ اور مفروع عنہا صداقتوں کے [طور پر] تسلیم کرلی گئی ہیں، انھی پر تجدید فکر و نظر کی ضرورت ہے۔ اس پکے ارادے کے ساتھ کہ جس چیز پر ہم صدیوں کی کاوشوں کے نتیجے میں اعتقاد جمائے بیٹھے تھے، وضوح حق [یعنی اظہار حق] کے بعد ایک لمحے کے لیے اس پر قائم رہنا ہم جرم عظیم سمجھیں گے۔ اگر دنیا کو انسانیت کی حقیقی فلاح کے لیے کسی نتیجے پر پہنچنا ہے، تو اُسے اُن قدیم اور اٹل نظریات پر ضرور غور کرنا ہوگا، جنھیں مادی اور معاشی مسابقت کی بے تحاشا دوڑ میں بہت سی قومیں پیچھے چھوڑ آئی ہیں۔

اسے یوں خیال کیجیے کہ کتنی صدیوں تک سکون ارض کے متعلق بطلیموس کا نظریہ ۱- دُنیا پر مستولی رہا اور فیثا غورث کی آواز پر کسی نے توجہ نہ کی۔۲- پھر ایک وقت آیا کہ ہزاروں من مٹی کے نیچے دبا ہوا وہ بیج جو فیثا غورث دبا گیا تھا، زمین کے سینے کو چاک کرکے باہر نکلا اور برگ و بار لا کر رہا۔ سچائی کا پرستار کبھی اس کی پروا نہیں کرتا کہ کسی زمانے میں یا طویل عرصے تک لوگ اس کے ماننے سے آنکھیں چرائیں گے، یا ناک بھوں چڑھائیں گے۔ حق اکیلا رہ کر بھی حق ہی رہتا ہے۔ اسے یقین ہے کہ ایک دن ضرور آئے گا، کہ جب اس کے جھٹلانے والے زمانے کے دھکے مکے کھاکر اسی کے دامن میں پناہ لینے پر مجبور ہوں گے۔ آج وہ دن قریب آرہا ہے اور جیسا کہ آنریبل جناب لیاقت علی خاں نے فرمایا:’روشنی کی کرنیںاُفق پر ظاہر ہو کر طلوع ہونے والے روز روشن کا پیش خیمہ بن رہی ہیں‘۔

ضرورت ہے کہ ہم اپنے کو خفاش [چمگاڈر] صفت ثابت نہ کریں، جو دن کی روشنی کو دیکھنے کی تاب نہیں لاسکتی۔ پاکستان، مادیت کے بھنور میں پھنسی ہوئی اور دہریت و الحاد کے اندھیروں میں بھٹکی ہوئی دنیا کو روشنی کا ایک مینار دکھانا چاہتا ہے۔ یہ دنیا کے لیے کوئی چیلنج نہیں، بلکہ انسانیت کے لیے پر امن پیغام حیات و نجات ہے اور اطمینان اور خوش حالی کی راہ تلاش کرنے والوں کے لیے سہولت مہیا کرتا ہے۔ ہمارا غیر متزلزل عقیدہ ہے کہ دنیا کے لیے عموماً اور پاکستان کے لیے خصوصاً کسی قسم کا نظام تجویز کرنے سے پہلے پوری قطعیت کے ساتھ یہ جان لیناضروری ہے کہ، اس تمام کائنات کا جس میں ہم سب اور ہماری یہ مملکت بھی شامل ہے، مالک اصلی اور حاکم حقیقی کون ہے؟ اور ہے یا نہیں؟

اب اگر ہم اس کا مالک کسی خالق الکل اور مقتدر اعلیٰ ہستی کو مانتے ہیں، جیسا کہ میں خیال کرتا ہوں کہ اس ایوان کے تمام ارکان و اعضا کا یہ عقیدہ ہوگا، تو ہمارے لیے یہ تسلیم کرنا ناگزیر ہوگا کہ کسی مالک کی خصوصاً اس مالک علی الاطلاق کی مِلک میں ہم اسی حد تک تصرف کرنے کے مجاز ہیں، جہاں تک کہ وہ اپنی مرضی سے ہمیں اجازت دے دے۔ ملکِ غیر میں کوئی غاصبانہ تصرف ہمارے لیے جائز نہیں ہوسکتا۔ پھر ظاہر ہے کہ کسی مالک کی اجازت و مرضی کا علم اس کے بتلانے ہی سے ہو سکتا ہے۔ سو، اللہ تعالیٰ نے پیغمبر علیہم السلام اسی لیے بھیجے، اوروحی ربانی کا سلسلہ اسی لیے قائم کیا، کہ انسانوں کو اس کی مرضی اور اجازت کے صحیح حدود معلوم کرا دیے جائیں۔ اسی نکتۂ خیال کے پیش نظر ریزولیوشن میں: ’اسی کے مقرر کردہ حدود کے اندر‘ کے الفاظ رکھے گئے ہیں اور یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جہاں سے دینی اور خالص مادی حکومتوں کی لائنیں ایک دوسرے سے الگ ہو جاتی ہیں۔

یہ نظریہ کہ:’ دین و مذہب کا تعلق انسان اور اس کے مالک سے ہے، بندوں کے باہمی معاملات سے اسے کچھ سروکار نہیں، نہ سیاست میں اس کا کوئی دخل ہے‘۔ اسلام نے کبھی تسلیم نہیں کیا۔ ممکن ہے دوسرے مذاہب جو آج کل دنیا میں موجود ہیں، ان کے نزدیک یہ نظریہ درست ہو اور وہ خود کسی جامع و حاوی نظام حیات سے تہی دامن ہوں، مگر جہاں تک اسلام کا تعلق ہے ایسے تصور کی اس میں کوئی گنجایش نہیں، بلکہ اس کی تمام تر تعلیمات اس باطل تصور کی دشمن ہیں۔

قائد اعظم مرحوم نے ۱۷ ستمبر ۱۹۴۴ء کوگاندھی جی کے نام جو خط لکھا تھا، اس میں لکھتے ہیں:

قرآن، مسلمانوں کا مکمل ضابطہ ٔ حیات ہے۔ اس میں مذہبی اور مجلسی، دیوانی اور فوجداری، عسکری اور تعزیری، معاشی اور معاشرتی، غرض کہ سب شعبوں کے احکام موجود ہیں۔ مذہبی رسوم سے لے کر روزانہ کے امور حیات تک، روح کی نجات سے لے کر جسم کی صحت تک، جماعت کے حقوق سے لے کر فرد کے حقوق و فرائض تک، دنیوی زندگی میں جزا و سزا سے لے کر عقبیٰ کی جزا و سزا تک، ہر فعل، قول اور حرکت پر مکمل احکام کا مجموعہ ہے۔ لہٰذا، جب میں یہ کہتا ہوں کہ مسلمان ایک قوم ہیں تو حیات و مابعد حیات کے ہر معیار اور ہر مقدار کے مطابق کہتا ہوں۔

۱۹۴۵ء میں قائداعظم مرحوم نے عید کا پیغام دیتے ہوئے کہا کہ:

ہر مسلمان جانتا ہے کہ قرآنی تعلیمات محض عبادات اور اخلاقیات تک محدود نہیں، بلکہ قرآن کریم مسلمانوں کا دین و ایمان اور قانون حیات ہے، یعنی مذہبی، معاشرتی، تجارتی، تمدنی، عسکری، عدالتی اور تعزیری احکام کا مجموعہ ہے۔ ہمارے رسول ؐ کا ہم کو یہ حکم ہے کہ ہر مسلمان کے پاس اللہ کے کلام پاک کا ایک نسخہ ضرور ہو اور وہ اس کا بغورمطالعہ کرے، تاکہ یہ اس کی انفرادی و اجتماعی ہدایات کا باعث ہو۔

قائداعظم نے ان خیالات وعزائم کا بار باراظہار کیا ہے۔ کیا ایسی واضح اور مکرر تصریحات کے بعد کوئی شخص یہ کہنے کی جرات کرسکتا ہے کہ سیاست و حکومت، مذہب سے کوئی علاقہ نہیں رکھتی، یا یہ کہ اگرآج قائداعظم زندہ ہوتے تو یہ ’قرار دادمقاصد‘ پیش نہیں ہوسکتی تھی۔

قرآن حکیم میں صاف صاف ارشاد ہے:

فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَایَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْماً (النساء ۴:۶۵) نہیں، اے محمدؐ، تمھارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے۔ جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں۔ پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں، بلکہ سربسرتسلیم کرلیں۔

اور[قرآن کریم مزید یہ کہتا ہے]:

وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ o (المائدہ۵:۴۴) جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں....الظّٰلِمُوْنَ (البقرہ ۲:۲۲۹) وہی ظالم ہیں.... الْفٰسِقُوْنَ (البقرہ ۲:۹۹) جو فاسق ہیں۔

اس موقع پر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام میں دینی حکومت کے معنی ’پاپائیت‘ یا ’کلیسائی حکومت‘ کے نہیں ہیں۔ بھلا جس بت کو قرآن نے اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ [انھوں نے اپنے علما اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے۔ التوبہ ۹:۳۱]  کہہ کر توڑا ہے، کیا وہ اسی کی پرستش کو جائز رکھ سکتا ہے؟

اسلامی حکومت سے مراد وہ حکومت ہے، جو اسلام کے بتائے ہوئے اعلیٰ اور پاکیزہ اصول پر چلائی جائے۔ اس لحاظ سے وہ ایک خاص قسم کی اصولی حکومت ہوگی۔ ظاہر ہے کہ کسی اصولی حکومت کو چلانا خواہ مذہبی ہو یا غیر مذہبی دراصل انھی لوگوں کا کام ہو سکتا ہے، جو ان اصولوں کو مانتے ہوں۔ جو لوگ ان اصولوں کو نہیں مانتے، ایسی حکومت، انتظام مملکت میں ان کی خدمات تو ضرور حاصل کرسکتی ہے، مگر مملکت کی جنرل پالیسی یا کلیدی انتظام کی باگ ان کے ہاتھ میں نہیں چھوڑ سکتی۔

اسلامی حکومت دراصل نیابتی حکومت ہے۔ اصل حاکم خدا ہے۔ انسان زمین پر اس کا خلیفہ ہے، جو حکومت درحکومت کے اصول پر دوسرے مذہبی فرائض کی طرح نیابت کی ذمہ داریوں کو بھی خدا کی مقرر کردہ حدود کے اندر پورا کرتا ہے۔

مکمل اسلامی حکومت، حکومت راشدہؓ ہوتی ہے۔ لفظ ’رشد‘ حکومت کے انتہائی اعلیٰ   معیارِ حسن و خوبی کو ظاہر کرتا ہے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ حکومت، حکومت کے کارکن، اور مملکت کے عوام کو نیکوکار ہونا چاہیے۔ قرآن نے حکومتِ اسلامی کی یہی غرض و غایت قراردی ہے، کہ وہ انسانوں کو اپنے دائرۂ اقتدار میں نیکیوں کا حکم دے اور برائیوں سے روکے۔

اسلام آج کل کی سرمایہ پرستی کے خلاف ہے۔ اسلامی حکومت اپنے خاص طریقوں سے جو اشتراکی طریقوں سے الگ ہیں، جمع شدہ سرمایے کی مناسب تقسیم کا حکم دیتی ہے، اس کو دائر و سائر رکھنا چاہتی ہے۔ مگر اس کام کو اخلاقی، نیز قانونی طریقے پر عام خوش دلی، عدل، اور اعتدال کے ساتھ کرتی ہے۔ اسلامی حکومت شخصی ملکیت کی نفی نہیں کرتی۔ مناسب حد تک ’راس المال‘ رکھنے کی اجازت دیتی ہے۔ زائد سرمایے کے لیے ملّی بیت المال قائم کرتی ہے۔ جس میں سب کے حقوق مشترک ہیں اور اس سرمایے کی تقسیم سے سرمایے اور افلاس کے درمیان توازن اور اعتدال کو بحال رکھتی ہے۔

’شوریٰ‘ اسلامی حکومت کی اصل ہے: وَاَمْرُہُمْ شَوْرٰی بَیْنَہُمْ ص(الشورٰی ۴۲:۳۸)۔ اسلامی حکومت دنیا میں پہلا ادارہ ہے، جس نے شہنشاہیت کو ختم کرکے استصواب راے عامہ کا اصول جاری کیا، اور بادشاہ کی جگہ عوا م کے انتخاب کردہ امام (سربراہ ریاست ) کو حکومت عطا کی۔ محض توریث [وراثت] یا جبر و استبداد کے راستوں سے بادشاہ بن بیٹھنا اسلام کے منشا کے سراسر خلاف ہے۔ وہ جمہور کی مرضی اور انھی کے ہاتھوں سے اسٹیٹ کو اختیار دلاتا ہے۔ ہاں، انھیں یہ حق نہیں دیتا کہ وہ امارت کی کوئی تنظیم نہ کریں اور اقتدار اپنے ہی پاس روک کر انتشار، ابتری اور طوائف الملوکی پھیلادیں۔ یہ اولیت کا ایسا شرف ہے، جو اسلامی حکومت کو دنیا کی تمام جمہوریتوں پر حاصل ہے۔

اسلامی سلطنت کا بلند ترین منتہاے خیال یہ ہے کہ سلطنت کی بنا جغرافیائی، نسلی، قومی، حرفتی، اور طبقاتی قیود سے بالا تر ہو کر انسانیت اور ان اعلیٰ اصولوں پر ہو، جن کی تشیید و ترویج کے لیے وہ قائم کی جاتی ہے۔

اسلامی حکومت پہلی حکومت ہے، جس نے اس منتہاے خیال کو پورا کرنے کے لیے اپنی خلافت راشدہ کی بنیاد انسانیت پر رکھی۔ یہ حکومت اپنے کاموں میں راے عامہ، مساوات حقوق، آزادیِ ضمیر، اور سادگی کا امکانی حد تک خیال رکھتی ہے۔

اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ اپنے قلمرو میں بسنے والے تمام غیر مسلموں سے جو شرائط طے ہوئے ہوں [ان کے] جان، مال، آبرو، مذہبی آزادی اور عام شہری حقوق کی پوری حفاظت کرے۔ اگر کوئی طاقت ان کے جان و مال وغیرہ پر دست درازی کرے تو حکومت اس سے جنگ کرے، اور ان [غیر مسلم شہریوں] پر کوئی ایسا بار نہ ڈالے، جو ان کے لیے ناقابل تحمل ہو۔ جو ملک صلحاً حاصل ہوا ہو، وہاں کے غیرمسلموں سے جو شرائط طے ہوئے ہوں، ان کی پوری پوری پابندی کی جائے۔ پھرغیر مسلموں کے یہ حقوق محض اکثریت کے رحم و کرم پر نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کا عائد کیا ہوا ایک فرض ہے، جس سے کسی وقت بھی انحراف جائز نہیں۔

اس کے بعد دینی حکومت کی مزعومہ خرابیوں کا جہاں تک تعلق ہے، جواب میں اتنا کہنا کافی ہوگا کہ علم و تحقیق کی روشنی میں موجودہ ترقی یافتہ حکومتوں کے طور طریقوں کو خلفاے اربعہ ؓ کے   بے داغ عہد حکومت کے مقابلے میں رکھ کر مفاد عامہ کے لحاظ سے وزن کر لیا جائے۔ آج ظلم و جبر، عہدشکنی، مالی دست برد، کشت و خون، بربادی و ہلاکت، انسانی جماعتوں کی باہمی دشمنی، افراد کی  عدم مساوات اور جمہور کے حقوق کی پامالی کی جو مثالیں دور بین سے دیکھے بغیر صاف نظر آرہی ہیں، خلفاے [راشدینؓ] کے ترقی یافتہ عہد میں اس کا خفیف سا نشان بھی نہ ملے گا۔ غرض یہ کہ بیان کردہ خرابیاں اسلامی حکومت کی خرابیاں نہیں ہیں، بلکہ ان انسانی گمراہیوں سے اخذ کی گئی ہیں، جنھوں نے خالص مادی طرز حکومت کی داغ بیل ڈالی ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ گاندھی جی نے اسی نکتے کی طرف اشارہ کیا تھا، جب ۱۹۳۷ء میں آپ نے کانگرسی وزرا کو یہ ہدایات دیں کہ: ’تم ابوبکرؓ اور عمرؓ کی سی حکومت قائم کرو‘، نیز قائداعظم مرحوم نے دستور کی اسی اساس کی طرف اشارہ کیا تھا، جب ۱۹۴۳ء میں بمقام جالندھر، آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی صدارت کرتے ہوئے فرمایا کہ:’’میرے خیال میں مسلمانوں کا طرزِ حکومت آج سے ساڑھے تیرہ سو سال قبل قرآن حکیم نے فیصلہ کر دیا تھا‘‘۔

قائداعظم نے نومبر ۱۹۴۵ء میں پیر صاحب مانکی شریف کے نام جو خط لکھا، اس میں  صاف صاف لکھ دیا تھا کہ:

اس بات کے کہنے کی ضرورت ہی نہیں کہ قانون ساز اسمبلی، جس میں بہت زیادہ اکثریت مسلمانوں کی ہو گی، مسلمانوں کے لیے ایسے قانون بنا سکے گی جو اسلامی قانون کے خلاف ہو اور نہ پاکستانی غیر اسلامی قانون پر عمل کر سکیںگے۔

اس قسم کے اعلانات قیام پاکستان سے پہلے قائد اعظم اور دوسرے زعماے [مسلم] لیگ کی طرف سے برابر ہوتے رہے، جن کا بخوف طوالت ہم استیعاب نہیں کرسکتے۔

بہرحال، ان بیانات کے پڑھنے کے بعد کسی مسلم یا غیر مسلم کو ہمارے مقصد اور مطمح نظر کو سمجھنے میں کوئی ابہام و اشتباہ نہیں رہ سکتا، اور جس قدر باتیں آئین و نظام اسلامی کے متعلق بطور اعتراض آج کہی جارہی ہیں، ان سب کے سوچنے کا وقت وہ تھا: جب پوری صراحت کے ساتھ یہ اعلانات کیے جارہے تھے۔ جب یہ سب کچھ جان کر اور سمجھ کر دوسری قوم نے تقسیم ہند کے فیصلے پر دستخط کیے اور پاکستان کی اقلیت نے ان مقاصد کو مانتے ہوئے ہمارے ساتھ اشراک عمل کیا۔اب پاکستان قائم ہونے کے بعد اس نقطۂ نظر سے انحراف کی کوئی وجۂ جواز ان کے پاس موجود نہیں۔ انھیں یہ بھی معلوم ہے کہ انڈین یونین کا قیام تو ہندو اور نیشنلسٹ مسلمانوں کی مخلوط مساعی سے عمل میں آیا ہے۔ لیکن پاکستان کا حصول خالص مسلم قوم کی مساعی اور قربانیوں کا رہین منت ہے، اور ان کی قومی خصائص و ممیزات کے تحفظ کا داعیہ اس کا محرک ہوا ہے۔ اب اگر ایسی سیدھی اور صاف بات کو بھی بھلا دیا جائے تو اس کا کچھ علاج ہمارے پاس نہیں۔

اس موقع پر یہ بات بھی فراموش نہ کیجیے کہ آج دنیا میں معاشی اختلال اور اقتصادی    عدم توازن کی وجہ سے ملحدانہ اشتراکیت (کمیونزم) کا سیلاب ہر طرف سے بڑھتا چلا آرہا ہے۔ اس کا صحیح اوراصولی مقابلہ اگر دنیا میں کوئی نظام کر سکتا ہے تو وہ صرف اسلام کا اقتصادی نظام ہے۔ اگر ہم پاکستان یا عالم اسلام کو اس بھیانک خطرے سے بچانا چاہتے ہیں، تو اس کی واحد صورت یہی ہے کہ پاکستان میں صحیح اسلامی نظام کا اعلان و آغاز کریں، اور تمام اسلامی ممالک کو اسلام کے نام پر اسی کی دعوت دیں۔ اگر اس طرح تمام اسلامی ممالک آئینی طور پر متحدہ ہوگئے تو قدرتی طور پر  وہ وحدت اسلامی قائم ہو جائے گی، جس کی ہم سب مدت سے آرزو رکھتے ہیں، اور جو اشتراکیت اور سرمایہ پرستی دونوں کی روک تھام کے لیے مضبوط آہنی دیوار کا کام دے گی۔

بہت سے لوگوں کو یہ خیال گزرتا ہے کہ: ’ابھی تک ہمارا کاروبار جس ڈگر پر چل رہا ہے، اسلام اور اسلامی آئین کا اعلان کرکے ہم اسے ایک دم کیسے بدل سکتے ہیں؟ یہ تو ہمارے     اجتماعی حالات میں ایسا انقلاب عظیم ہوگا جو ہماری قومی زندگی کی کایا پلٹ کررکھ دے گا، اور جس کے لیے ہمیں جدید کانسٹی ٹیوشن کے چلانے کے لیے کثیر تعداد میں مناسب رجال کار تیار کرنے پڑیں گے، اور [اس کے لیے] بہت طویل عرصہ درکار ہوگا‘___ میں کہتا ہوں کہ ان حضرات کا یہ خیال ایک حد تک صحیح ہے، لیکن اسلامی نظام کا مطالبہ کرنے والے بھی اسے بخوبی محسوس کرتے ہیں۔

اسلامی آئین و نظام کے اعلان سے غرض یہ ہے کہ مملکت کا اصلی نصب العین اور اس کی انتہائی منزل مقصود واضح اور مستحضر ہو جائے، تاکہ اس کی روشنی میں ہمارا جو قدم اٹھے، وہ ہم کو آخری منزل سے قریب تر کرنے والا ہو۔ یہ کام ظاہر ہے کہ بتدریج ہوگا اور بتدریج ہی ہوسکتاہے۔ جو کام فی الحال کیے جاسکتے ہیں، وہ فوراً کرنے ہوں گے، اور جن کاموں کے لیے سردست حالات ساز گار نہیں ہیں وہ فوراً نفاذ پذیر نہ ہوں گے، بلکہ حکیمانہ اسلوب پر حالات کوساز گار بنانے کی ہر امکانی کوشش عمل میں لائی جائے گی۔ بہرحال انسان اسی چیز کا مکلف ہے، جس کی وہ استطاعت رکھتا ہے۔

یہی وہ بات ہے جو میں تقسیم سے قبل اپنے مختلف بیانات و خطبات میں کھول کر کہہ چکاہوں۔ چنانچہ خطبہ لاہور میں، میں نے عرض کیا تھا کہ: ’جس طرح رات کی تاریکی آہستہ آہستہ  کم ہوتی اور دن کی روشنی بہ تدریج پھیلتی ہے، یا جس طرح ایک پر انا مریض دھیرے دھیرے  صحت کی طرف قدم اٹھاتا ہے، دفعتہً وبَغْتَہًً بیماری سے چنگا نہیں ہوجاتا، اسی طرح پاکستان ہماری قومی صحت اور ہماری مکمل ترین آزادی کے نصف النہار کی طرف تدریجی قدم اٹھائے گا‘۔

جناب صدر محترم!

آخر میں ایوان ہذا کے معزز ممبران کی خدمت میں، میں عرض کروں گا، کہ اس ڈھیلے ڈھالے ریزولیوشن سے گھبرانے اور وحشت کھانے کی کوئی وجہ نہیں۔ اسلامی فرقوں کے اختلافات تحریک پاکستان کی برکت سے بہت کم ہو چکے ہیں، اور اگرچہ کچھ باقی ہیں تو ان شاء اللہ برادرانہ مفاہمت سے صاف ہو جائیں گے۔ کیونکہ تمام اسلامی فرقے اور ملک، آج اسلامی نظام کی ضرورت کو بہت شدت کے ساتھ محسوس کر رہے ہیں۔ اور میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارے غیر مسلم دوست بھی اگر ایک مرتبہ تھوڑا سا تجربہ کرکے دیکھ لیں گے، تو اگلی اور پچھلی سب تلخیاں بھول جائیں گے اور بہت مطمئن رہیں گے، بلکہ فخر کریں گے کہ ہم سب پاکستانیوں نے مل کر عام ہیجان اور اضطراب کے زمانے میں انسانیت عامہ کی اس قدر عظیم الشان خدمت انجام دی، وَمَاذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ بِعَزَیزَ۔

اب بڑا اہم کام ہمارے سامنے یہ ہے کہ دستور سازی کی مہم ایسے قابل ، فہیم، مضبوط اور محتاط ہاتھوں کے سپرد ہو ،جو اس ریزولیوشن کے خاص خاص نکتوں کی حفاظت کرسکیں، اس کے    فحوا [مفہوم] کو بخوبی سمجھ سکیں، اور جو دستور تیار کیا جائے وہ صحیح لائن سے ہٹنے نہ پائے۔ یہ بہت کٹھن مرحلہ ہے، جو اللہ ہی کی توفیق سے آسان ہو گا۔ بہرحال ہم آیندہ کام کرنے میں ہر قدم پر اس چیز کے منتظر رہیں گے، وَبِاللّٰہِ التُّوْفِیْقَ۔

 

جنرل (ر) پرویز مشرف کے دورِ نامسعود میں جس نام نہاد روشن خیالی کا بیج بوکر ایک زہریلا پودااُگایا گیا تھا، پیپلزپارٹی کے دورِ حکومت میں وہ سیکولرزم، اباحیت پسندی اور فکری انتشار اور نظریۂ پاکستان سے انکار جیسے کڑوے کسیلے اور زہریلے برگ و بار لے آیا ہے۔ پیپلزپارٹی بظاہر تو صبح وشام ’عوام عوام‘ کی رَٹ لگاتی ہے اور ’جمہوریت جمہوریت‘ کی دُہائی بھی دیتی ہے مگر پاکستان کی نظریاتی جہت کے ضمن میں اسے نہ تو عوام کی اُمنگوں کی کوئی پروا ہے نہ جمہور کی خواہشات کا کوئی پاس و لحاظ۔ اس کے برعکس یہ پارٹی بلاتامّل ہر وہ اقدام کر گزرتی ہے جس سے پاکستان کی نظریاتی شناخت دھندلی ہوتی ہے اور جس سے اسلامی شریعت کے نفاذ میں رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں۔

کیا پاکستان اس لیے بنایا گیا تھا کہ یہاں حکمران طبقہ (سرکاری منصب داروں، نوکر شاہی اور برسرِاقتدار پارٹی کے وزرا وار ممبران پارلیمنٹ کی بڑی تعداد سمیت) واضح طور پر بدعنوانیوں،   بے ایمانیوں اور طرح طرح کی کرپشن کی بہتی گنگا میں نہاتا نظر آئے؟ پھر یہ کہ ان کے متعدد اہم لوگ پاکستان کی نظریاتی شناخت کے منکر اور سیکولرزم اور ’روشن خیالی‘ کے وکیل بن جائیں؟ حقیقت یہ ہے کہ زیرنظر کتاب کے مؤلف نے بجا طور پر لکھا ہے کہ پاکستان میں سیکولر لابی، اس کی نظریاتی بنیادوں پر تیشہ چلانے میں سرگرمِ عمل ہے اور اس سلسلے میں اُنھیں سیکولر دانش وروں، بعض بھارتی صحافیوں، رقص و موسیقی کے دل دادگاں، میلوں، ٹھیلوں اور بسنت کے شائقین، ویلنٹائن ڈے اور میراتھن ریس کے رسیا، بعض سرکاری عہدے داروں اور کچھ غیرسرکاری کالم نگاروں، برقی ذرائع ابلاغ، اینکروں کے ایک طبقے اور چند اخبارات کی تائید حاصل ہے۔ ان لوگوں نے ایک جتھا بنا لیا ہے اور اُنھیں قائدعظم کی ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر کی صورت میں ایک ہلدی کی گانٹھ مل گئی ہے، جس کے  بل بوتے پر انھوں نے سیکولرزم اور آزاد خیالی کی دکان کھول لی ہے۔ حالیؔ کیا خوب کہہ گئے   ؎

مال ہے نایاب، پر گاہک ہیں اکثر بے خبر
شہر میں حالیؔ نے کھولی ہے دکان سب سے الگ

اگر آپ اس ٹولے کی صفوں پر نظر ڈالیں اور ان کے ماضی پر غور کریں تو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ یہ طبقہ پرلے درجے کا موقع پرست ہے۔ ان موقع پرستوں میں ایک تو وہ ’ترقی پسند‘ ادیب اور دانش ور صحافیوں کا طائفہ شامل ہے، جس کا ’قبلہ‘ روزِ اوّل ہی سے ماسکو رہا ہے۔ ۱۹۱۷ء میں ’سرخ سویرا‘ طلوع ہوا تو روس کے سوا انھیں ساری دنیا میں اندھیرا نظر آنے لگا۔ یہ لوگ کریملن سے جاری ہونے والے ہرنظریے، بیان اور موقف کو وحی کا درجہ دیتے ہوئے اس پر آمنّا وصدقنا کہتے رہے۔ یہ حضرات افغانستان پر روسی حملے کے فوراً بعد روسی ٹینکوں کو طورخم پر ہار پہنانے کے لیے بے تاب نظر آتے تھے، مگر مجاہدین نے یہ موقع ہی نہ آنے دیا، بلکہ روسی فوجوں کا منہ پھیر دیا۔ اس کے نتیجے میں جب اشتراکی روس منہدم ہوگیا توانھوں نے ’عظیم باپ اسٹالن‘ کی مدح خوانی سے ہاتھ اُٹھاتے ہوئے اور روس سے منہ موڑ کر اپنا رُخ واشنگٹن کی طرف پھیرلیا۔ ’قبلۂ اوّل‘ سے انھوں نے ترکِ تعلق تو نہیں کیا مگر اب طاقت کا سرچشمہ چوں کہ وہائٹ ہائوس میں منتقل ہوگیا ہے (اور ویسے بھی روسی آقا کنگلے ہوچکے ہیں) اس لیے قلابازی کھانا ضروری تھا۔

موقع پرستوں میں دوسرا طبقہ سرحدی گاندھی کے جانشینوں کا ہے۔ یہ ان سرخ پوشوں کے وارث ہیں جنھوں نے صوبہ سرحد کو پاکستان کے بجاے، بھارت میں شامل کرانے کے لیے   ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر ریفرنڈم میں منہ کی کھائی۔ اب انھوں نے اقتدار کی خاطر، اس پیپلزپارٹی کی حاشیہ برداری میں عار محسوس نہیں کی جس نے ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں صوبہ خیبر میں ان کی معاون و معاہد مفتی محمود کی جمہوری حکومت کو غیرقانونی طور پر برطرف کیا۔ لیاقت باغ میں ۲۳مارچ کے جلسے میں سیدھی سیدھی فائرنگ کرکے (قدرے چھوٹے پیمانے پر) جلیانوالہ باغ کا رِی پلے کیا، اور پھر جنھوں نے ان کے لیڈر ولی خاں کو جیل میں ڈالا، اور ان کی جان کے درپے رہے۔ یہ بھی ہماری سیاست کا المیہ ہے کہ خان عبدالولی خان جیسے بااصول راہ نمائوں کی وراثت ایسے موقع پرستوں کے ہاتھ آئی ہے جنھوں نے سرخ پوشی ترک کر کے امریکی پوشش پہن لی ہے۔ ’بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا‘ کے مصداق یوں اب واشنگٹن سے ان کے ’رومان‘ نے انھیں صوبہ خیبر کی ’خواجگی‘ کیا عطا کی ہے کہ وہ روشِ بندہ پروری کے منکر ہوگئے ہیں۔ ان کے وزرا علی الاعلان  نظریۂ پاکستان کا انکار کرتے نظر آتے ہیں۔

اس منظر اور صورتِ حال کو سامنے رکھتے ہوئے، پیشِ نظر کتاب پاکستان اور اسلامی نظریہ کا مطالعہ کیا جائے تو اس کے مباحث و محتویات کی معنویت بخوبی واضح ہوتی ہے۔

پروفیسر خورشیداحمد نے ۱۹۶۱ء میں ماہنامہ چراغِ راہ کے ’نظریہ پاکستان نمبر‘ میں ایک تحریری مذاکرہ شائع کیا تھا۔ جس میں پاکستان اور بیرونِ پاکستان کے چوٹی کے ۲۴ دانش وروں نے پاکستان کی نظریاتی جہت اور اُس کی اسلامی شناخت پر اپنے اپنے انداز میں اظہار خیال کیا تھا۔ اس مذاکرے کا مجموعی تاثر اس قدر واضح تھا کہ صدر ایوب خان کی حکومت اسے ہضم نہیں کرسکی اور رسالے کو جابرانہ طریقے سے بند کر دیا۔ پروفیسر صاحب نے عدالتِ عالیہ میں اس اقدام کو چیلنج کیا تو عدالت نے ’’اس پابندی کو باطل قرار دے دیا‘‘۔ مذکورہ قلمی مذاکرے کو چراغِ راہ سے بازیافت کر کے مختصر حواشی اور پروفیسر صاحب کے نئے دیباچے کے ساتھ (منشورات، منصورہ لاہور سے) کتابی شکل میں شائع کیا گیا ہے۔

ایک ایسے ماحول میں جب مطالبۂ پاکستان کے اصل اور بنیادی محرک (پاکستان کا مطلب کیا، لا الٰہ الا اللہ) کو ڈھٹائی کے ساتھ نظراندازکرکے واضح طور پر جعل سازی کی جارہی ہے، اور پاکستان کی اسلامی شناخت پر گرد اُڑائی جارہی ہے اور پاکستان مخالف لابی بھارتی، اسرائیلی اور امریکی سرپرستی کے منہ زور گھوڑے پر سوار اپنے کالم نگاروں، اینکروں کے ذریعے، مخالفین کے کشتوں کے پشتے لگا رہی ہے، مذکورہ قلمی مذاکرے کی اشاعتِ نو بہت برمحل ہے۔ یہ ایسا صاف شفاف آئینہ بھی ہے جو قارئین کو بلاکم و کاست پاکستان کی اصل شناخت سے روشناس کراتا ہے۔      اس مذاکرے میں شامل تمام ہی شخصیات اپنے دور کی سربرآوردہ، اور اپنے اپنے شعبوں (قانون، تعلیم، سیاست، ادب، منصفی، فکروتحقیق، تجارت، معیشت وغیرہ) میں مسلّمہ طور پر واجب الاحترام مانی جاتی تھیں۔ تقریباً تمام ہی اصحابِ فکرونظر اس بات پر متفق ہیں کہ دو قومی نظریہ ہی قیامِ پاکستان کی بنیاد ہے۔ ممتاز عالمِ دین مولانا مفتی محمد شفیع کہتے ہیں: ’’دو قومی نظریے کو نظرانداز کردیا جائے تو پھر پاکستان بنانے کی کوئی وجۂ جواز باقی نہیں رہتی (ص ۱۶۴)‘‘۔ معروف ادبی نقاد، محقق اور استاد ڈاکٹر سیدعبداللہ کہتے ہیں کہ: ’’پاکستان اسی نظریے کی خاطر معرضِ وجود میں آیا تھا۔ اس بنیادی حقیقت سے ہٹ کر پاکستان کے جواز کی کوئی صورت باقی نہیں رہ جاتی‘‘ (ص ۱۰۹)۔ ماہر تعلیم، دانش ور اور ادبی نقاد پروفیسر حمیداحمد خاں کہتے ہیں: ’’پاکستان کے بقا، قیام اور استحکام کے لیے اسلامی نظریے کی ضرورت اور اہمیت بڑی بنیادی اہمیت رکھتی ہے اور وہ اس لیے کہ پاکستان جب قائم ہوا تھا تو نظریاتی بنیاد پر ہی قائم ہوا تھا۔ پاکستان نام ہی ایک نظریاتی تنظیم کا مظہر ہے اور اگر وہ اس نظریے سے وابستہ نہ رہے جو اس کے قیام کی غرض و غایت تھا، تو پاکستان کا قیام ہی بے معنی ہوجاتا ہے‘‘۔ (ص ۸۵)

ادیب، شاعر اور سفارت کار میاں بشیر احمد تحریکِ پاکستان کے سرگرم کارکن تھے، ان کا خیال ہے کہ ’’اسلامی نظریہ ہی پاکستان کی اساس اور وجۂ جواز ہے‘‘ (ص ۷۷)۔ معروف ناول نگار، شاعر اور بیوروکریٹ فضل احمد کریم فضلی نے کہا: ’’اسلامی نظریے ہی نے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے دلوں کو گرمایا، روح کو تڑپایا اور اُنھیں ایک ایسا نصب العین بخشا جس کے لیے وہ لٹنے، تباہ ہونے، بسے بسائے گھر اُجاڑنے اور اپنی جان تک قربان کرنے پر تیار ہوگئے‘‘۔ (ص ۱۲۱)

چراغِ راہ کے سوالات میں یہ بھی پوچھا گیا تھا کہ گذشتہ برسوں میں پاکستان اسلامی نظریے سے قریب آیا ہے یا اُس سے دُور ہٹا ہے؟ اور اسی طرح یہ کہ اسلامی نظریے کو عملاً     بروے کار لانے کے لیے کون سے اقدامات ضروری ہیں؟ مذاکرے کے شرکا نے نہ صرف ان سوالوں کے جواب دیے ہیں بلکہ اُن وجوہ کا بھی ذکر کیا ہے جو پاکستان کو اسلامی نظریے سے قریب آنے میں مانع رہی ہیں، اور پھر یہ بھی بتایا ہے کہ اسلام کے نفاذ کے لیے زمین کو ہموار کرنا کس قدر ضروری ہے۔ اس سلسلے میں فرزندِ اقبال جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال کہتے ہیں: ’’اسلامی نظریے کو عملاً بروے کار لانے کے لیے ذہنیتوں میں انقلاب لانا ضروری ہے‘‘ (ص ۸۰)۔ ایک اور چیز جس کی طرف ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، ڈاکٹر سید عبداللہ اور پروفیسر حمیداحمد خاں نے متوجہ کیا ہے، وہ نظامِ تعلیم کی اصلاح ہے۔ اس ضمن میں معروف مؤرخ، دانش ور، سابق رئیس الجامعہ کراچی اور وزیرتعلیم ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کا خیال ہے کہ اوّل ہمارے اساتذہ کے کردار میں اسلام کا   عمل دخل ضروری ہے۔ دوسرے، ہماری ذہنیتوں کو وہی تعلیم بدل سکتی ہے جو طلبہ کے اندر ’صحیح دینی ذوق‘ پیدا کرے اورٹھیٹھ اسلامی ذہنیت اور رجحانات کی حوصلہ افزائی کرے۔(ص ۶۳)

پروفیسر حمید احمد خاں کہتے ہیں: جب تک تعلیم میں بنیادی اصلاحات نہ کی جائیں گی، ہمارے طالب علم اسلامی نظریے سے مانوس نہ ہوں گے۔ اُن کے نزدیک بنیادی اصلاحات میں قرآن و سنت کا فہم، فارسی، عربی اور اُردو کی تعلیم، انگریزی کے بجاے اُردو ذریعۂ تعلیم اور استاد اور شاگرد کا بہتر سطح پر باہمی تعلق شامل ہیں۔ (ص ۹۲)

خان لیاقت علی خان سے لے کر بے نظیر بھٹو تک پاکستان کے تمام وزراے اعظم اور   غلام محمد سے لے کر زرداری تک (بشمول ایوب خان، یحییٰ خان، چودھری فضل الٰہی، جنرل ضیاء الحق، فاروق لغاری اور جنرل مشرف) سبھی صدورِ مملکت سال میں دو بار قائداعظم اور علامہ اقبال کو ہمیشہ خراجِ تحسین پیش کرتے رہے لیکن علامہ اقبال اور قائداعظم جس قسم کے پاکستان کی تعمیر چاہتے تھے یا پاکستان کو جس منزل کی طرف لے جانا چاہتے تھے (وہ منزل اسلامی نظام کی منزل تھی اور ایک جدید اسلامی ریاست کی منزل تھی)، ان لوگوں نے ہمیشہ اس راہ میں روڑے اٹکائے بلکہ جس کسی نے نظامِ اسلامی کا مطالبہ کیا، اسے پکڑا، جیل میں ڈالا، یا اُسے پاکستان مخالف قرار دے کر پروپیگنڈا مشینری سے بدنام کرنے کی کوشش کی۔ اب دیکھیے علامہ اقبال نے خطبۂ الٰہ آباد میں مسلمانوں کے لیے ’منظم اسلامی ریاست‘ کا ذکر کیا تھا اور اس کے بعد اُنھوں نے نظریۂ قومیت کی بحث میں مولانا حسین احمد مدنی کے فرمودات کے جواب (روزنامہ احسان، ۹مارچ ۱۹۳۸ء ) میں واضح کر دیا تھا کہ فقط ’’انگریز کی غلامی سے آزاد ہونا منتہاے مقصود نہیں ہے بلکہ ہمارا مقصد اسلامی حکومت کا قیام ہے۔ ایک باطل کو مٹاکر، دوسرے باطل کو قائم کرنا چہ معنی دارد؟ ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ ہندستان کلیتاً نہیں تو ایک بڑی حد تک دارالاسلام بن جائے لیکن اگر آزادیِ ہند کا نتیجہ یہ ہو کہ جیسا دارالکفر ہے،ویسا ہی رہے یا اس سے بھی بدتر بن جائے تو مسلمان ایسی آزادیِ وطن پر ہزار مرتبہ لعنت بھیجتا ہے، ایسی آزادی کی راہ میں لکھنا بولنا، روپیا صرف کرنا، لاٹھیاں کھانا، جیل جانا، گولی کا نشانہ بننا سب کچھ حرام اورقطعی حرام سمجھتا ہے‘‘۔ (مقالاتِ اقبال، مرتبین: سیّد عبدالواحد معینی، محمدعبداللہ قریشی، آئینہ ادب، لاہور، ۱۹۸۸ء، ص ۲۷۹)

علامہ اقبال کی یہ بات ہوبہو مولانا مودودیؒ کی تائید تھی۔ مولانا مودودی علامہ اقبال کے مذکورہ بالا بیان سے پہلے یہ کہہ چکے تھے کہ: ’’انگریز کی غلامی کے بند توڑنا ضرور آپ کا فرض ہے۔ [مگر] آپ کا کام باطل کو مٹاکر حق قائم کرنا ہے۔ ایک باطل کو مٹا کر دوسرے باطل اور بدتر باطل کو قائم کرنا نہیں ہے‘‘ (ترجمان القرآن، صفر ۱۳۵۶ھ [اپریل ۱۹۳۷ء]،جلد۱۰، عدد۲،ص ۹۰)۔ پھر ایک ماہ بعد مولانا نے لکھا: ’’یہ ملک، کلیتاً نہیں تو ایک بڑی حد تک دارالاسلام بن جائے لیکن اگر آزادیِ ہند کانتیجہ یہ ہو کہ یہ جیسا دارالکفر ہے ویسا ہی رہے یا اس سے بدتر ہوجائے تو ہم بلاکسی مداہنت کے صاف صاف کہتے ہیں کہ ایسی آزادیِ وطن پر ہزار مرتبہ لعنت ہے اور اس کی راہ میں بولنا، لکھنا، روپیا صرف کرنا، لاٹھیاں کھانا اور جیل جانا سب کچھ حرام قطعی حرام ہے‘‘۔ (ترجمان القرآن، ربیع الاوّل ۱۳۵۶ھ [مئی ۱۹۳۷ء] جلد۱۰، عدد ۳، ص ۱۶۹-۱۷۰)

قیامِ پاکستان کے بعد قائداعظم نے انھی خطوط پر ۲۵ جنوری ۱۹۴۸ء کو یہ کہا تھا کہ: ’’لوگوں کا ایک طبقہ [اور یہاں اُن کی مراد وہی سیکولر اور دو قومی نظریے سے منحرف طبقہ ہے جس کی ذُریت آج اسلامی نظریے کو مسخ کرنے میں پیش پیش ہے] جو دانستہ طور پر شرارت کرنا چاہتا ہے، یہ پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ پاکستان کے دستور کی اساس شریعت پر استوار نہیں کی جائے گی۔ حالانکہ  آج بھی اسلامی اصولوں کا اُسی طرح زندگیوں پر اطلاق ہوتا ہے جس طرح تیرہ سو برس پیش تر ہوتا تھا‘‘۔ (قائداعظم: تقاریر و بیانات، جلد۴، بزمِ اقبال لاہور، ص ۴۰۲)

قائدعظم نے جس ’شرارتی طبقے‘ کی طرف اشارہ کیا ہے، پروفیسر حمیداحمد خاں نے اس کے بارے میں ذرا کھل کر بات کر دی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’میرے خیال میں اس نظریے کی طرف بڑھنے میں وہ تمام قوتیں مزاحم ہیں جو ۱۴ سو برس پہلے کبھی ابوجہل کی شکل میں رونما ہوئی تھیں اور کبھی مسیلمہ کذاب کا روپ دھارتی تھیں۔ نام تو بس ایک اضافی سی چیز ہے کہ اپنے اپنے زمانے کے مطابق نام بدل جاتے ہیں۔ لیکن وہ جو شرارِ بولہبی ہے، وہ ہر وقت زندہ ہے اور اسلام سے برسرِپیکار بھی ہے‘‘۔ (ص ۸۶)

پروفیسر حمیداحمد خاں جسے ’شرارِ بولہبی‘ اور قائداعظم جسے ’شرارتی طبقہ‘ کہتے ہیں، اس کا ذکر ہم زیرنظر تحریر کے ابتدائی حصے میں کرچکے ہیں___ اس حوالے سے ہم زیرنظر کتاب میں شامل مولانا مودودی کی چند سطور سیکولر دانش وروں کے غوروفکر کے لیے یہاں نقل کرتے ہیں۔     مولانا لکھتے ہیں: ’’…مسلمان ہونے کے تو معنی ہی یہ ہیںکہ ہمارے خیالات اسلامی ہوں، ہمارے سوچنے کا انداز اسلامی ہو، معاملات پر ہم اسلامی نقطۂ نظر ہی سے نگاہ ڈالیں اور اپنی تہذیب و تمدن، سیاست، معیشت اور فی الجملہ اپنے پورے نظامِ زندگی کو اسلام کے طریقے پر چلائیں۔ اگر ہم ایسا نہ کریں تو آخر کس بنا پر ہم اپنے آپ کو مسلمان کہنے کے حق دار ہوسکتے ہیں؟ مسلمان ہونے کا دعویٰ بھی کرنا اور پھر اپنی زندگی کے مختلف گوشوں میں کسی غیراسلامی نظریے پر کام بھی کرنا، لازماً یہ معنی رکھتا ہے کہ یا تو ہم منافق ہیںاور دل سے مسلمان نہیں ہیں، یا پھر ہم جاہل ہیں اور اتنا شعور بھی نہیں رکھتے کہ مسلمان ہونے کے کم سے کم منطقی تقاضے کیا ہیں؟‘‘ (ص ۳۳)۔ ہمارا خیال ہے کہ پاکستان کی اسلامی شناخت پر گرد اُڑانے والے سیکولر دانش وروں کو غور کرنا چاہیے کہ ان کی اپنی ’شناخت‘ کیا ہے؟

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلامیوں اور سیکولرسٹوں کے درمیان جو کش مکش اور پیکار جاری ہے، زیرنظر کتاب دانش و برہان کے اسلحے کے ذریعے اسلامیوں کے ہاتھ مضبوط کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ بقول مرتب: ’’آج پاکستان جن مسائل میں گھرا ہوا ہے، اس کا واحد حل دوقومی نظریے کی بازیافت اور اسلامی نظریۂ حیات کے لیے مکمل یکسوئی میں پوشیدہ ہے‘‘۔ (ص ۲۸)

(پاکستان اور اسلامی نظریہ، پروفیسر خورشیداحمد، مرتب: سلیم منصور خالد۔ منشورات، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۴۹۰۹-۰۴۲۔ صفحات: ۲۴۸۔ قیمت: ۲۷۵ روپے۔)

 

اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں بھیجنے کے بعد نعمتوں سے نوازا اور ساتھ ہی چند حدود کو بھی مقرر کر دیا تاکہ انسان ان حدود کو توڑ کر دوسروں کا استحصال نہ کرے۔ ان حدود ’حلال و حرام‘ کے ساتھ عمدہ اخلاق کے بھی احکام دیے۔ اخلاق لفظ ’خلق‘ کی جمع ہے۔ ’خلق‘ کا لفظ عام طور پر عادت، خصلت اور خُو کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ راغب اصفہانی کے نزدیک: ’’خلق کا لفظ عادت اور خصلت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جن کا تعلق بصیرت سے ہوتا ہے‘‘ (المفردات فی غریب القرآن، ص ۱۵۸)۔ جیساکہ قرآن مجید میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ارشاد ہے: وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍo (القلم ۶۸:۴) ’’اور بے شک آپؐ اخلاق کے بلند ترین مرتبے پر ہیں‘‘۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد ہی اخلاق کی تکمیل بیان کیا گیا ہے: ’’مجھے حُسنِ اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیا ہے‘‘(موطا)۔ اسوئہ حسنہ سے تزکیہ اخلاق کی واضح ترغیب ملتی ہے۔  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’نیکی اچھے اخلاق کا نام ہے‘‘(مسلم)۔ نبی کریمؐ نے کامل مومن اس شخص کو قرار دیا جس کا اخلاق بہترین ہو: ’’مومنوں میں سب سے زیادہ کامل ایمان اس کا ہے جس کے اخلاق سب سے بہتر ہیں‘‘۔ (سنن ابوداؤد)

اسلام کا نظامِ اخلاق ہماری زندگی کے ہرشعبے پر محیط ہے۔ رائج الوقت معاشی نظاموں میں بداخلاقیاں اس طرح سرایت کرچکی ہیں کہ ان میں حلال و حرام کی تمیز ہی مٹ کر رہ گئی ہے۔ انسانوں کو اپنے معاشرے میں ساتھ رہتے ہوئے بھی لوگوں کے معاشی حقوق کا احساس نہیں۔ اسلام اخلاقیات کو ایمانیات کے ساتھ مربوط کرتا ہے تاکہ انسان اخلاقی ترغیبات سے دوسروں کے حقوق ادا کرے اور کسی کے حق پر دست درازی نہ کرے۔ انسان کی زندگی میں لاتعداد خواہشات ہوتی ہیں، لیکن ان کو پورا کرنے کے وسائل محدود ہیں۔ نتیجتاً انسان اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے دوسروں کے حقوق پر دست درازی شروع کردیتا ہے۔ اگر انسان اخلاقی اصولوں کو اپنائے تو مختلف خواہشات کو ایک اصولِ واحد کے تحت منظم کر کے پُرسکون زندگی بسر کرسکتا ہے۔

اسلام کی اخلاقی تعلیمات معیشت، سیاست اور نظامِ عبادت میں اسی طرح جاری و ساری ہیں جس طرح جسم میں گردش کرتا ہوا خون۔ عصری نظامِ تجارت میں معاشی بداخلاقیاں رائج ہیں۔ احتکار (ذخیرہ اندوزی) ہی کو لے لیں کہ اشیا فروخت کرنے کے لیے بازار میں نہیں لائی جارہی ہیں۔ غذائی اجناس کو ضائع کیا جا رہا ہے، ناپ تول میں کمی، بدعہدی، سود، رشوت اور ملاوٹ وغیرہ___ ان کی وجہ سے صارفین کا استحصال ہوتا ہے۔ ارتکاز دولت کو تقویت ملتی ہے اور طبقاتی کش مکش پروان چڑھتی ہے۔ اسلام معاشی استحصال کے خاتمے کے لیے معاشی اخلاقیات کی تعلیم دیتا ہے۔ ذیل میں چند اہم نکات پیش ہیں:

  •  ناجائز ذرائع آمدن کی ممانعت: اسلام میں ناجائز ذرائع دولت کی ممانعت ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُمْ(النساء ۴:۲۹) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھائو، ماسواے تجارت جو کہ تمھاری باہمی رضامندی سے ہو۔

حافظ ابن کثیر (م: ۷۷۴ھ) اس آیت کے ضمن میں لکھتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ نے باطل طریقوں سے مال کھانے کی ممانعت فرمائی ہے، جیسے سودخوری، قمار بازی، اور ایسے ہی ہر طرح کے ناجائز ذرائع جن سے شریعت نے منع فرمایا ہے‘‘(تفسیر ابن کثیر)۔ حرام مال سے مراد صرف کھانا نہیں بلکہ مال کا ناجائز استعمال اور اپنے تصرف میں لے آنا ہے۔ باطل سے مراد ہے ہر ناجائز طریقہ جو عدل و انصاف، قانون اور سچائی کے خلاف ہو۔ اس کے تحت جھوٹ، خیانت، غضب، رشوت، سود، سٹہ، جوا، چوری اور معاملات کی وہ ساری قسمیں آتی ہیں جن کو اسلام نے ناجائز قرار دیا ہے۔

امام شافعیؒ (م: ۳۰۴ھ) لکھتے ہیں: تم تجارت میں باہمی رضامندی کی خریدوفروخت یا کرایہ داری کے ساتھ مال کھائو، لیکن ہر رضامندی تجارت میں معتبر نہیں ہوتی۔ رضامندی     شرعی حدود کے اندر ہونی چاہیے۔ تجارت میں سود کا مال اور قرض حلال نہیں ہے اور نہ ایسا مال لینے اور دینے والے کے درمیان سٹہ بازی اور گروی جائز قرار پاتی ہے۔ یہاں تک کہ اگر دونوں طرف سے رضامندی بھی ہو، کیونکہ ان کی رضامندی شریعت الٰہی کے برعکس ہے‘‘۔(الام،ج ۳،ص ۳)

نبی اکرمؐ نے افضل عمل حلال کمائی کے لیے جدوجہد کو قرار دیا ہے: ’’اعمال میں افضل حلال ذرائع سے کمانا ہے‘‘(کنزالعمال، ج ۷، ص ۷)۔ اسی طرح آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’افضل ترین کمائی وہ تجارت ہے جو خیانت اور جھوٹ سے پاک ہو، اور انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا ہے‘‘۔(ایضاً)

عصری نظامِ تجارت کو اسلامی اصولوں سے ہم کنار کرنا ضروری ہے جس میں حلال و حرام کو واضح کیا جائے اور اخلاقی اقدار کو روشناس کروایا جائے تاکہ معیشت خوش حالی سے ہم کنار ہوسکے۔ احتکار اور اتلافِ مال کے بجاے اشیا کو مناسب قیمتوں پر فروخت کیا جائے۔ ایفاے عہد، سچائی، شرکت، مضاربت، اخوت اور عدل و احسان کو متعارف کروایا جائے، جیساکہ ناپ تول کے بارے میں آتا ہے: ’’اے تولنے والے تولو اور جھکتا ہوا تولو‘‘ (ابن ماجہ)۔ ان اخلاقی اقدار ہی کے ذریعے نظامِ تجارت ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے۔

  •  اسراف اور تبذیر: اسراف سے مراد لغو امور پر خرچ کرنا، احتیاجات (ضروریات) سے زیادہ خرچ کرنا، انسان کو جو چیز پسند آئے اس کو خرید لینا، جو جی چاہے کھا لینا ہے، اور مال کو حق کے علاوہ خرچ کرنا، گناہ کے کاموں پر خرچ کرنا چاہے وہ ایک درہم ہی کیوں نہ ہو۔ اگر جائز اور بھلائی کے کاموں پر خرچ کیا جائے تو وہ تبذیر کے زمرے میں نہیں آئے گا۔ گویا اسراف سے مراد جائز اشیا پر خرچ کرنے میں حد سے تجاوز کرنا ہے، جب کہ تبذیر سے مراد ناجائز امور پر خرچ کرنا ہے۔ شادی بیاہ کی رسموں اور غمی کے موقع پر کئی غیرضروری رسم و رواج پر خرچ بھی اسراف میں آتا ہے، جب کہ دوسری طرف غریب طبقے میں احساسِ کمتری اور مصائب میں اضافہ ہوتا ہے۔ بخیل شخص اپنی بنیادی ضروریات، اہل و عیال ، رشتہ داروں، ضرورت مندوں اور سائلین پر خرچ کرنے سے اجتناب کرتا ہے۔ عادتِ بخل کے سبب دولت چند ہاتھوں میں مرتکز ہوکر رہ جاتی ہے۔ معیشت میں اشیا کے لیے صارفین کی طلب میں کمی واقع ہوجاتی ہے اور حسد و نفرت کے جذبات پروان چڑھتے ہیں۔ اسی لیے اسلام میں اسراف و تبذیر سے منع کیا گیا ہے:

وَّ کُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَo (اعراف ۷:۳۱) کھائو پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو، اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْٓا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ ط وَ کَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّہٖ کَفُوْرًا o  (بنی اسرائیل ۱۷:۲۷) فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔

شاہ ولی ؒ اللہ فرماتے ہیں: ’’عیاشی اور عیش پسندی میں امکان و توفیق جس شکل میں بھی ہو شرع کی نظر میں سخت ناپسندیدہ ہے، کیونکہ اس کی وجہ سے انسان اسفل السافلین میں جاگرتا ہے اور انسان کے قواے فکریہ پر تاریکی کے بادل چھا جاتے ہیں‘‘۔ (حجۃ اللّٰہ البالغۃ)

  •  خرچ میں اعتدال: اسلام صَرف میں ’اصولِ اعتدال‘ کو متعارف کرواتا ہے:

وَالَّذِیْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ قَوَامًاo (الفرقان ۲۵: ۶۷) جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل، بلکہ اُن کا خرچ دونوں انتہائوں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے۔

ایک دوسرے موقع پر فرمایا:

وَلَا تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُوْلَۃً اِلٰی عُنُقِکَ وَ لَا تَبْسُطْھَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًاo (بنی اسرائیل ۱۷:۲۹) نہ تو اپنا ہاتھ گردن سے باندھ رکھو اور نہ اسے بالکل ہی کھلا چھوڑ دو کہ ملامت زدہ اور عاجز بن کر رہ جائو۔

ایک شخص کی دانائی میں یہ بات بھی شامل ہے کہ وہ اپنی معیشت میں اعتدال کی راہ اختیار کرے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’کھائو پیو اور پہنو اور صدقہ کرو، اسراف و تکبر کے بغیر‘‘ (بخاری)۔ حضرت حذیفہؓ فرماتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں چاندی کے برتنوں میں کھانے پینے سے منع فرمایا ہے، نیز ریشم اور دیباج کے کپڑے پہننے اور بچھانے سے بھی۔ (بخاری)

اسلام یہ بھی ہدایت کرتا ہے کہ صارف خرچ کرنے میں ’عدل‘ سے کام لے، یعنی جہاں روکنا ضروری ہو وہاں روکا جائے اور جب خرچ کرنا ضروری ہو وہاں خرچ کیا جائے۔ پس خرچ کی ضرورت کی جگہ پر روک رکھنا بخل ہے اور روک رکھنے کی ضرورت کی جگہ خرچ کرنا اسراف ہے اور ان دونوں کے بین بین خرچ کرنا اچھا ہے۔

اسلام ہمیں خرچ کرنے میں قناعت کا حکم دیتا ہے۔ قناعت سے مراد یہ ہے کہ حلال ذرائع سے انسان کو جو کچھ ملے،اس پر وہ راضی اور مطمئن ہوجائے۔ زیادہ حرص و لالچ نہ کرے کیونکہ   حرص و طمع انسان کو حرام ذرائع کو اپنانے پر مجبور کردیتی ہے۔ وہ انسان جس کو ایمان کی دولت نصیب ہو، گزربسر کا سامان میسر ہو، اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ اسے قناعت جیسی نعمت عطا فرما دے، تو اس سے بڑھ کر خوش نصیب انسان دنیا میں اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ نبی کریمؐ کا ارشاد ہے: ’’امیر ہونا سامان بہت ہونے سے نہیں بلکہ دل سے ہے‘‘ (مسلم،ترمذی)۔ آپؐ نے مزید ارشاد فرمایا: ’’اس شخص نے فلاح پائی جو اسلام لایا اور اسے ضرورت کے مطابق رزق دیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی روزی پر قناعت دی‘‘ (مسلم،ترمذی)۔ فلاح سے مراد قلبی سکون اور آخرت کے عذاب سے چھٹکارا ہے۔

  •  سود کی ممانعت: ملکی سطح پر اگر نظامِ مالیات کا جائزہ لیا جائے تو یہ سود پر مبنی ہے۔ سودی نظام نہ صرف قوموں کی معاشی بدحالی کا سبب ہے بلکہ معاشرے سے محبت و اخلاص کے جذبات کو بھی ناپید کر رہا ہے۔ سودخور انسانی ہمدردی سے عاری اور دوسروں کی مجبوریوں سے فائدہ اُٹھانے کے درپے ہوتا ہے۔ سودی نظام میں ایثار و احسان جیسی اخلاقی قدروںکا تصور بھی محال ہے۔ عالمی اقتصادی نظام سودی سامراجیت کو پروان چڑھاتا ہے۔ قوموں میں بُغض و عداوت کا بیج بوتا ہے جو بالآخر جنگ کا پیش خیمہ بھی بن جاتا ہے۔ اسلام میں سود کی قطعی حُرمت کا حکم ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ o فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖج (البقرہ ۲:۲۷۸-۲۷۹) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، خدا سے ڈرو اور جو کچھ تمھارا سود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو، اگر واقعی تم ایمان لائے ہو۔ لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا، تو آگاہ ہوجائو کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے تمھارے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔

سود کی ممانعت حدیث نبویؐ سے بھی ثابت ہے: ’’سود ۷۰ گناہوں کے برابر ہے، جیسا کوئی اپنی ماں سے نکاح کرے‘‘(ابن ماجہ)۔ نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’معراج کی رات مجھے کچھ لوگوں پر گزارا گیا جن کے پیٹ مکانوں کے مانند تھے۔ ان میں سانپ باہر سے نظر آتے تھے۔ میں نے جبرئیل ؑ سے کہا: یہ کون لوگ ہیں؟ انھوں نے کہا: یہ سودخور ہیں‘‘۔(ابن ماجہ)

نظامِ مالیات کی دوسری بڑی بداخلاقی غیرضروری ٹیکسوں کا نظام ہے۔ ان ٹیکسوں کی بھرمار نے صارفین کو مشکلات کا شکار کر دیا ہے۔ اسلام زکوٰۃ اور صدقات کے نظام کو رائج کرتا ہے۔ زکوٰۃ کو فرض قرار دینے کے ساتھ غریبوں کا حق قرار دیا۔ وَفِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ (الذاریات ۵۱:۱۹)’’اور ان کے مالوں میں سوال کرنے والے اور محروم لوگوں کا حق ہے!‘‘، تاکہ غریبوں کی عزتِ نفس برقرار رہے، اور آج زکوٰۃ لینے والا کل دینے والا بن جائے۔ دنیا آج اس نہج پر سوچتی ہے کہ سودی قرضوں کے بغیر ترقی ممکن ہی نہیں۔ اگر وہ صرف ایک نظر تاریخ پر ڈالیں تو ان کو راہِ عمل مل سکتی ہے۔ حضرت عمرفاروقؓ کے عہد میں زکوٰۃ دینے والے تو ملتے تھے   مگر لینے والا نہیں ملتا تھا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قرآن و سنت کی اعلیٰ اخلاقی اقدار جو کہ حرام ذرائع دولت کا خاتمہ اور گردش دولت کے عمدہ اصولوں سے متعارف کرواتی ہیں، کو اپنایا جائے،    نیز مادہ پرستانہ رویوں کو چھوڑ کر احسان و ایثار جیسے اوصاف کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنایا جائے۔  اسلام خیرخواہی، ایثار، تعاون اور احسان کا دین ہے۔

آج بھی اگر اسلامی نظامِ اخلاق کو معیشت کے اندر نافذ کیا جائے تو غربت کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ عوام الناس کی مادی و روحانی خوش حالی ممکن ہے۔ معیشت ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ نظامِ معیشت میں اخلاق کی بنیاد نفع اندوزی اور ملّی فوائد پر رکھی جاتی ہے۔ انھیں ہر وقت شکست و ریخت اور تبدیلی کا خطرہ رہتا ہے، اور ایسا نظامِ پایدار نہیں ہوتا۔ مسلمانوں کی معاشی پس ماندگی کا ایک سبب اخلاقی گراوٹ، مذموم صفات اور ناپسندیدہ خصائص میں آلودہ ہونا ہے۔ لہٰذا ہر ذی ہوش مسلمان کا فرض ہے کہ اصلاح اخلاق کی جانب توجہ دے، اور جیسے بھی ممکن ہو اخلاق کو انفرادی و اجتماعی سطح پر سنوارا جائے تاکہ مستقبل میں ہم دنیا کی قوموں میں ایک معزز قوم بن کر اُبھر سکیں۔ (لیکچرار لاہور کالج براے خواتین یونی ورسٹی، لاہور)

 

چند عصری مسائل، ڈاکٹر انیس احمد۔ ناشر: منشورات، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۴۹۰۹- ۰۴۲۔ صفحات: ۴۱۰۔ قیمت: ۲۹۶ روپے۔

فقہی مسائل اور فتاویٰ کے حوالے سے جب بھی کسی کتاب کا تصور آتا ہے تو مشکل الفاظ، طویل جملے، بھاری بھرکم عبارتیں، جائز ہے، ناجائز ہے کی صورت میں عدالتی انداز کے حکم ذہن میں گھومنے لگتے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد جو کہ تعلیم، علومِ اسلامیہ، تقابل ادیان اور دعوت و ابلاغ میں معروف مقام رکھتے ہیں، زیرتبصرہ کتاب میں رویتی اسلوب سے ہٹتے ہوئے عصری مسائل کا جواب دیا ہے اور عصرِحاضر کے ایک اہم تقاضے اور علمی ضرورت کو پورا کیا ہے۔

ڈاکٹر انیس احمد نے جس شجرِعلم کے سایے میں پرورش پائی، اس کی آبیاری سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے کی تھی جن کا داعیانہ انداز ان کے اظہارِ بیان پر غالب تھا۔ اس لیے آپ نے جب بھی کسی مسئلے کے جائز یا ناجائز کا فیصلہ سنایا تو پہلے پورے سلیقے سے معاملے کے تمام پہلوئوں کا جائزہ لیتے ہوئے، مسائل کو احسن انداز میں سمجھانے اور قائل کرنے کی کوشش کی۔ معاملے کے کسی جزو کی وضاحت پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ اس کے دینی، معاشرتی اور سماجی پہلوئوں کا جائزہ بھی لیا، تاکہ سائل فتوے پر عمل کرنے سے پہلے اچھی طرح سوچ بچار کرلے۔

یہ کہنا بہت آسان ہے کہ طلاق ہوگئی، چھوڑ دو، اختیار کرلو، لیکن سائل کو ایک اچھا مسلمان بنانا، اسے بہتر معاشرتی زندگی کے لیے تیار کرنا اور معاشرے کا مفید اور کارآمد فرد بنانا انتہائی ضروری ہے، تاکہ سائل ذہنی طور پر قائل اور قلبی طور پر مطمئن ہوجائے۔ زیرنظر کتاب میں بیش تر مسائل کا جواب دیتے ہوئے ایسا ہی اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔ اس میں سید مودودیؒ کے انداز کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔

بعض مسائل کے حوالے سے احساس ہوتا ہے کہ اگر فقہی مراجع کا ذکر نسبتاً مفصل انداز میں آجاتا تو شاید فقہی مزاج رکھنے والوں کی تشفی زیادہ ہوجاتی۔ بیش تر مسائل کے حوالے سے قرآنی آیات اور احادیث کا ذکر نسبتاً تفصیل سے کیا گیا ہے۔ بدقسمتی سے معاشرے میں مختلف قسم کے تعصبات میں پلنے والے لوگ اپنی جہالت اور ذاتی اختلافات کی بنا پر اُن فتاویٰ کو خاطر میں نہیں لاتے جن میں بعض معروف فقہا کا حوالہ موجود نہ ہو، حالانکہ قرآن و سنت کا حوالہ اصل ہے اور فقہاے اُمت نے انھی ذرائع سے مسائل کو سمجھا اور سمجھایا ہے۔

کتاب میں جدید و قدیم دونوں طرح کے مسائل کا ذکر موجود ہے جو عصری ضرورت کے حوالے سے کتاب کی معنوی اہمیت افادیت کو نمایاں کرتے ہیں۔ چند مرکزی موضوعات حسب ذیل ہیں: lبچوں کو فقہ کی تعلیم lشادی سے قبل ملاقاتیں lپریشان کن گھریلو مسائل کا حل lمشترکہ خاندانی نظام: چند عملی مسائل lمساجد میں خواتین کی شرکتlتحدید نسل اور تربیت اولاد lٹیلی فون پر دوستی اور ریڈیو پروگرام میں گفتگو lانشورنس کا متبادل lاسلامی بنکاری: چند ذہنی الجھنیں    lمذہبی جماعتوں کی ناکامی lوقت اور صلاحیتوں کی تقسیم اور کارِ دعوت lآرمی میں رگڑا کی روایت l طبی اخلاقیات اور دواسازکمپنیاں۔ یہ فقہی مسائل ترجمان القرآن میں وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہے ہیں، اور اب انھیں کتابی صورت میں یک جا شائع کیا گیا ہے۔کتاب خاص طور پر جدید مسائل سے دوچار نوجوانوں اور عام مسلمانوں کے لیے بہت مفید ہے۔ (حبیب الرحمٰن عاصم)


The Real Face of India: Myth and Realities ، ریاض احمد چودھری۔ ملنے کا پتا: فوکسی پلازا، فرسٹ فلور، ۴۳کمرشل ایریا، کیولری گرائونڈ، لاہور کینٹ۔ صفحات:۲۲۲۔ قیمت: ۶۰۰ روپے/۳۰ امریکی ڈالر۔

بھارت کو جمہوری ملک سمجھا جاتا ہے۔یہ تصویر کا صرف ایک پہلو ہے۔ تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ اپنی اقلیتوں کے ساتھ اس کا سلوک بے حد ناروا ہے۔ اس نے ہمسایہ ممالک میں سازشوں کے جال پھیلا رکھے ہیں۔کشمیریوں کی تحریکِ آزادی کو دبانے کے لیے ظلم و تشدد کا بازار الگ سے گرم کر رکھا ہے۔ ان میں سے ہر موضوع تفصیلی مطالعے کا حق دار ہے۔

مصنف پاکستان کے معروف صحافی ہیں۔ طویل عرصے تک روزنامہ پاکستان ٹائمز اور روزنامہ فرنٹیرپوسٹ کے ساتھ منسلک رہے۔ اُنھوں نے بھارت کی خارجہ پالیسی اور اس کے عالمی کردار کے حوالے سے موقع بہ موقع جو مضامین تحریر کیے، اُنھیں کتابی صورت میں یک جا کردیا گیا ہے۔ ان میں معلومات، تجزیہ اور بھارت کے اصل چہرے کی نقاب کشائی بھی ہے۔ آغاز میں بتایا گیا ہے کہ ہندومت نے کس طرح بدھ مت کو اُکھاڑ پھینکا۔ پھر اُن حالات کا تجزیہ کیا گیا ہے جن میں پاکستان وجود میں آیا۔ ایک باب میں ۲۰کروڑ اچھوتوں کا تذکرہ ہے۔ علاوہ ازیں ۱۹۸۴ء میں اندرا گاندھی کے قتل کے بعد سکھوں کے قتلِ عام کا ذکر، پھر تحریکِ آزادیِ کشمیر ایک لاکھ کشمیریوں کی شہادت کا تذکرہ ہے۔ دوسری جانب بھارت کے کروڑوں لوگ خطِ غربت سے نیچے کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جن میں بڑی تعداد اقلیتوں کی ہے۔ مصنف کا بنیادی سوال یہ ہے کہ ان حالات کے باوجود بھارت ۷ء۳۲ ارب ڈالر دفاعی بجٹ پر کیوں خرچ کرتا ہے؟

کتاب سے بھارت کی اندرونی تصویر بھی سامنے آتی ہے۔ ایک سروے کے مطابق ۱۹۹۷ء اور ۲۰۰۵ء کے درمیان ڈیڑھ لاکھ بھارتی کسان خودکشی کرچکے ہیں مگر داخلی مسائل حل کرنے کے بجاے بھارتی حکومتوں کی تمام توپوں کا رُخ پاکستان، چین اور بنگلہ دیش کی طرف ہے۔  مختلف بھارتی صوبوں میں علیحدگی کی تحریکیں جاری ہیں: اُڑیسہ، جھاڑکھنڈ اور چھتیس گڑھ کی تحریکیں، مسلح باغیوں کے ہمراہ سرگرمِ عمل ہیں۔ نیکسلائیٹ تحریک ان میں سب سے نمایاں ہے۔ خالصتان کی تحریک کے بارے میں بھی تفصیلی مضمون شامل ہے۔

اس جانب بھی توجہ دلائی ہے کہ بھارت کی اکثریتی حکومت، اقلیتوں کے خلاف ناروا اقدامات کرتی رہتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ’شیوسینا‘ جیسی انتہاپسند تنظیموں کی سرپرستی بھی جاری  ہے، جو بھارت میں غیرہندو کے باقی رہنے کے حق ہی میں نہیں ہیں۔ جس کا نتیجہ مساجد اور گرجا گھروں کو آگ لگانے اور مسلمانوں کو زندہ جلائے جانے (احمدآباد) جیسے واقعات کی  صورت میں نکلتا رہتا ہے۔ بھارتی مسلح افواج کے غیراخلاقی کردار پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس پہلو کا تفصیل سے جائزہ لینے کی ضرورت تھی۔ تاہم عام بھارتی فوجی اور سینیر جرنیل تک ایسے ایسے اخلاقی جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں جس کی مثال دنیا کی دیگر فوجوں میں مشکل ہی سے ملے گی۔

مصنف کا کہنا ہے کہ بھارت افغانستان کی موجودہ حکومت کے ساتھ مل کر پاکستان کا گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ چین، نیپال،مالدیپ، بنگلہ دیش، بھوٹان میں بھارتی کارروائیوں کا اجمالی جائزہ پیش کیا گیا ہے اور قارئین کو یہ حقیقت بتائی گئی ہے کہ بھارت نے کشمیریوں کی تحریکِ آزادی کودبانے کے لیے کس قدر وحشیانہ قوت کا استعمال کیاہے۔ نہ اُسے اقوامِ متحدہ کا اندیشہ ہے نہ امریکا کا ڈر۔ بچوں، بوڑھوں، عورتوں، مردوں کے ساتھ جس درندگی کا مظاہرہ کیا گیا ہے اُس کی تفصیلات مضامین کی صورت میں بھی موجود ہیں اور درجنوں تصاویر بھی شامل کردی گئی ہیں جن کو دیکھ کر انسان کانپ اُٹھتا ہے۔ اس کتاب کا خاص باب ’پانی کے مسئلے‘ کے بارے میں ہے۔ اس معاملے میں بھارت نے پاکستان کو قحط زدہ ملک بنانے کی مسلسل کوشش کی ہے۔ ادھر پاکستانی حکمران ہیں جو ہرقیمت پر بھارت سے صلح کرنا چاہتے ہیں۔

کتاب میں حقیقت پسندانہ تجزیے سے بھارت کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ تاہم جن موضوعات پر قلم اُٹھایا ہے اُن میں سے ہر موضوع پر ایک نہیں کئی کتابیں تحریر کی جانی چاہییں۔ مصنف، پاکستانی قوم کی طرف سے شکریے کے مستحق ہیں کہ جنھوں نے اپنے قلم کو بھارت جیسے ملک کے حقیقی چہرے کو سامنے لانے میں صرف کیا۔ (محمد ایوب منیر)


اُردو میں حج کے سفرنامے، ڈاکٹر محمد شہاب الدین۔ ناشر: یونی ورسل بُک ہائوس، عبدالقادر مارکیٹ، جیل روڈ، علی گڑھ، بھارت۔ صفحات: ۵۲۸۔ قیمت: ۲۹۵ روپے (بھارتی)

حج بیت اللہ ایک سعادت ہے، جو کروڑوں لوگوں میں چند لاکھ کو نصیب ہوتی ہے۔ اس محرومی کے مادی اسباب میں: کہیں عزم و ارادے کی کمی، کہیں ترجیحات کا نقص اور کہیں مالی تنگ دستی آڑے آتی ہے۔ تاہم ہرمسلمان کا دل اپنے مولد و مسکن وطن کے علاوہ جس خطۂ زمین میں اٹکا رہتا، یا اس خاکِ ارضی کی طرف لپکتا ہے، وہ ہے ارضِ حجاز، حرمین الشریفین۔

ایسے خوش نصیبوں میں اب تک کروڑوں لوگوں نے اس سفرِفوزوفلاح سے اپنے روحانی وجود کو معطر کیا ہے، تاہم چند ہزار ایسے بھی ہیں جنھوںنے اس جادۂ شوقِ محبت کی کیفیات و تاثرات کو قلم بند کرنے کی کوشش کی ہے۔ زیرنظر کتاب، اُردو میں لکھے اور شائع شدہ ایسے ہی سفرناموں کا ایک فنی اور تاثراتی جائزہ ہے۔ یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ مصنف نے تمام شائع شدہ سفرناموں کو جانچا، پرکھا ہے، البتہ پاکستان اور بھارت وغیرہ میں شائع ہونے والی ایک قابلِ ذکر تعداد کو ضرور پیشِ نظر رکھا ہے۔

ابتدا میں سفرنامہ حج پر بحیثیت صنفِ ادب بحث کی گئی ۔ مصنف لکھتے ہیں: ’’حج نامہ وہ بیانیہ صنفِ ادب ہے، جس میں حج نامہ نگار، دورانِ سفرحج یا سفر سے واپسی پر اپنے مشاہدات، واقعات، تجزیات اور قلبی تاثرات کو تحریر کرتا ہے‘‘ (ص ۳۳)۔ ’’حج کا سفر مادی دنیا سے روحانی دنیا کا سفر ہے… اس سفر میں بندہ اپنے رب کے گھر کی عظمت سے بھی آشنا ہوتا ہے… حج کا سفر، سفرِآخرت کی مشق بھی ہے‘‘ (ص ۳۴)۔ ’’حج نامہ نگار جب سرزمینِ حجاز میں سفر کرتا ہے تووہ محض حال ہی کا اسیر نہیں ہوجاتا، بلکہ اس کے ساتھ وہ ماضی میں بھی سفر کرتا ہے۔ وہاں کی ہر چیز کو نہایت شوق و تجسس کے ساتھ دیکھتا ہے۔ منظر وموضوع کی وحدت کے باوجود حج ناموں میں جذبات نگاری اور منظرکشی میں خاصا تنوع نظر آتا ہے‘‘ (ص ۳۶)۔ اس تجزیاتی باب میں فنی گہرائی اور ادبی کمال کے ساتھ تنقید نگاری کی گئی ہے۔

اُردو حج ناموں کا پس منظر زیربحث لاتے ہوئے متعین کیا ہے کہ اُردو میں پہلا سفرنامہ حج ماہِ مغرب المعروف کعبہ نما از منصب علی خاں ۱۸۷۱ء میں شائع ہوا۔ ۱۹۰۱ء تا ۲۰۰۹ء تک کے سفرناموں کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ حج کے اُردوتراجم پر نہ صرف بحث کی گئی ہے، بلکہ  چنیدہ حج ناموں سے اقتباسات پیش کر کے، قاری کو طرزِ بیان کی گوناگوں لذتوں سے خوش کام کیا گیا ہے۔ یہ کتاب ادبی حوالے سے ایک قیمتی اضافہ تو ہے ہی، مگر ساتھ ساتھ قاری کے دل و دماغ کو اس مرکز ثقل سے جوڑنے کا وسیلہ بھی ہے، جسے ہم دو لفظوں سے متعین کرتے ہیں: حرمین الشریفین۔ (سلیم منصور خالد)


مکاتیب طالب ہاشمی بنام مولانا عبدالقیوم حقانی، ترتیب: حافظ عبیداللہ عابد۔ ناشر:    القاسم اکیڈمی، جامعہ ابوہریرہ، برانچ پوسٹ آفس خالق آباد، ضلع نوشہرہ۔ صفحات: ۲۰۵۔ قیمت: درج نہیں

مشاہیر کے خطوط کو چھاپنے کا رجحان روز افزوں ہے۔ اس کتاب میں طالب ہاشمی مرحوم کے ۱۹۹۲ء سے ۲۰۰۷ء تک کے ۸۱ خطوط کو زمانی ترتیب سے یک جا کیا گیا ہے۔ تین دیباچوں میں مکتوب الیہ، مرتب کتاب اور حافظ محمد قاسم نے مرحوم کی شخصیت اور اُن سے اپنے روابط پر روشنی ڈالی ہے (ان میں تکرار ہے، ایک ہی دیباچہ کافی تھا)۔ ہرخط کے موضوع کے اعتبار سے خط کا  مختصر یا طویل عنوان قائم کیا گیا ہے، مثلاً: ’’اماں جی مرحومہ و مغفورہ۔ ماہنامہ القاسم کے ساتھ والہانہ محبت۔ علامہ شبلی سرسیّد کے ہم کیش اور ہم عقیدہ نہیں تھے۔ سرسیّد کے عقائد و نظریات سے تو مجھے گِھن آتی ہے۔ ذرا ذرا سی بات کا دھیان اور کمالِ احتیاط۔ ٹکٹ لگانے اور بُک پوسٹ کے بارے میں مشورہ۔ قابلِ رشک علمی اور اشاعتی مقام اور اصلاحِ تلفظ و اِملا۔ بعض اُردو الفاظ کی ترکیب اور تذکرۃ المصنفین‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ ایک دل چسپ بات یہ ہے کہ بعض مشاہیر جیسے    علامہ اقبال اور رشیداحمد صدیقی کی طرح طالب ہاشمی نے بھی اپنے خطوط نہ چھاپنے کی ہدایت کی مگر اقبال اور رشیداحمد صدیقی کی طرح طالب ہاشمی کے مکتوب الیہ نے بھی اس ہدایت کو نظرانداز کرتے ہوئے زیرنظر مجموعہ شائع کردیا ہے (اس کی افادیت میں کلام نہیں)۔

ان خطوں سے طالب ہاشمی کا طبعی انکسار، درویشانہ افتادِ طبع، علمی کاموں میں اُن کا انہماک، تاریخی واقعات کی صحت کے لیے فکرمندی اور کوشش و کاوش وغیرہ کا اندازہ ہوتا ہے۔ وہ القاسم اکیڈمی کی مطبوعات اور ماہنامہ القاسم کے خاص نمبروں کی تعریف کرتے مگر دوسرا رُخ بھی دکھاتے تھے، یعنی تبصرہ کرتے ہوئے بڑے حکیمانہ طریقے سے حقائق و واقعات اور کتابت اور اِملا کی غلطیوں کی نشان دہی بھی کرتے اور ساتھ ہی لکھ دیتے کہ ’’چھوٹے موٹے تسامحات تو ہرعلمی اور تحقیقی کتاب میں رہ جاتے ہیں۔ ان سے نہ مصنف کی عظمت پر کوئی حرف آتا ہے اور نہ شارح کی عظمت پر (ص۴۴)۔ اپنے بارے میں لکھتے ہیں: ’’جب میری کسی تالیف کی کمزوریوں کی کوئی صاحب نشان دہی کرتے ہیں تو مجھے بے حد مسرت ہوتی ہے اور میں تبصرہ نگار کا شکرگزار ہوتا ہوں‘‘ (ص ۵۳)۔ مکتوب نگار بعض الفاظ کے تلفظ، عربی الفاظ پر اعراب اور بعض کے اِملا کے بارے میں بہت حسّاس تھے لیکن مرتب اور ناشر نے طالب ہاشمی کے خط چھاپتے ہوئے ان کے اِملا کا خیال نہیں رکھا (سہواً یا ازراہِ غفلت)، مثلاً ان کے نزدیک رویئے، دعوئوں، لیجئے، دیئے، سینکڑوں وغیرہ غلط، اور رویّے، دعووں، لیجیے، دیے، سیکڑوں صحیح ہے۔ مگر کتاب میں کئی مقامات پر غلط املا اختیار کیا گیا ہے، مثلاً: ص۲۰، ۱۶۵ وغیرہ ۔

اگرچہ بظاہر ان خطوں کے عنوانات بہت ہی عمومی قسم کے معلوم ہوتے ہیں، لیکن بعض خطوں میں نہایت فکرانگیز اور پتے کی باتیں پڑھنے کو ملتی ہیں، مثلاً: ’’کسی کے روحانی مقام و مرتبے کا اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کوعلم نہیں‘‘ (ص ۱۵۵)،’’قول و فعل کا تضاد اور اخلاصِ عمل کا فقدان، یہ ہیں دو چیزیں جو ہمارے ملک کے ۹۰ فی صد مشائخ کو لے ڈوبی ہیں‘‘ (ص ۵۹)۔  وقت کے حکمرانوں سے ’فیض‘ پانے والے علما اور مشائخ کے بارے میں طالب ہاشمی نے بہت سخت الفاظ استعمال کیے ہیں۔ مدیر القاسم سے گزارش ہے کہ وہ موعودہ ’مکاتیب ِ مشاہیر نمبر‘ میں صحت اِملا کا خاص خیال رکھیں اور پروف خوانی بھی زیادہ توجّہ اور کاوش سے کروائیں۔ اگر ہرخط کو نئے صفحے سے شروع نہ کریں اور ہرخط پر جَلی عنوان نہ لگائیں تو نمبر کی ضخامت کم ہوگی اور قیمت بھی۔ (رفیع الدین ہاشمی)

تعارف کتب

  •  خانگی زندگی اور اسوئہ حسنہ ، ڈاکٹر سید عزیز الرحمن۔ ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈمی، کراچی۔ تقسیم کار: اکیڈمی بُک سنٹر، ڈی ۳۵، بلاک ۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی۔ فون: ۳۶۳۴۹۸۴۰-۰۲۱۔ صفحات: ۴۶۔ قیمت: ۴۰ روپے۔ [نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ سے خانگی زندگی کے مختلف پہلوئوں (خاندان، والدین سے رویہ، بحیثیت شوہر، اولاد سے تعلق، اہلِ قرابت سے روابط، ملازمین سے رویہ) کو پیش کیا گیا ہے۔ اہلِ خانہ کے حقوق اور خاندان کے استحکام، نیز پُرمسرت گھریلو زندگی پر سیرتِ طیبہ سے عملی رہنمائی۔]
  •  ہند، ہندی اور ہندستان ، شفق ہاشمی۔ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی۔ تقسیم کار: اکیڈمی بُک سنٹر، ڈی-۳۵، بلاک ۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی ۷۵۹۵۰۔ صفحات: ۱۸۔ قیمت: درج نہیں۔[ہندی زبان اور ہندستان کے بارے میں ایک تہذیبی اور لسانیاتی مختصر مگر جامع جائزہ۔ مصنف کے بقول: برصغیر کی یہ اکثریتی قوم جو خود کو ہندو اور اپنے دھرم کو ہندومت کہتی ہے، اب تک یہ بتانے سے قاصر ہے کہ آخر یہ نام اور نسبت انھیں کہاں سے ملی؟ درحقیقت ’ہند‘ عربی الاصل ہے۔ عرب اس خطے کو بلاد الھند والسند کہتے تھے۔ ہندی لفظ ’کالکی اوتار‘ کا مطلب بھی نبی آخرالزماںؐ بنتا ہے۔ حقائق و شواہد بتاتے ہیں کہ یہ قوم بھی ایک روز اپنے اصل کی طرف رجوع کرے گی۔]
  •  خاندان کو لاحق خطرات اور ممکنہ لائحہ عمل ، پروفیسر ڈاکٹر جہاں آرا لطفی۔ ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی۔ تقسیم کار: اکیڈمی بُک سنٹر، ڈی-۳۵، بلاک ۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی ۷۵۹۵۰۔ صفحات: ۲۴۔ قیمت: ۲۰ روپے۔[کسی بھی تہذیب و تمدن کی اساس، خاندان کو لاحق ممکنہ اندرونی و بیرونی خطرات، نیز     ان معاشرتی مسائل کا تذکرہ جو خاندان کو کمزور کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔]
  •  آس نے دل کا ساتھ نہ چھوڑا ، [قانتہ رابعہ۔ ناشر: ادبیات، ملنے کا پتا: ادارہ مطبوعاتِ سلیمانی،    رحمان مارکیٹ، غزنی سٹریٹ ،اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۲۳۲۷۸۸۔ صفحات: ۲۲۴۔ قیمت: ۱۸۰ روپے۔ [اقدار کی زبوں حالی اور معاشرے کی شکست و ریخت کی نشان دہی اور اصلاح پر مبنی دل چسپ اور معاشرتی  افسانے۔ ایک مثبت سوچ اور قادرِمطلق کی وحدانیت پر کامل یقین دلانے کی کاوش۔]
  •  انبیاء کرام ؑکا بچپن ، تالیف: عبدالوارث ساجد، نظرثانی: احمد درویش۔ ناشر: صبح روشن پبلشرز، چیٹرجی روڈ، اُردوبازار،لاہور۔ فون: ۴۲۷۵۷۶۷-۰۳۲۱۔ صفحات: ۱۹۲۔ قیمت:۱۴۰ روپے۔[نبی رحمتؐ اور دیگر   سات انبیاے کرام ؑ کا تذکرہ۔ اگرچہ واقعات کے چنائو میں احتیاط برتی گئی ہے تاہم بعض مقامات پر اسرائیلی روایات کا اثر بھی ملتا ہے۔ بچوں کے لیے دل چسپ، افسانوی انداز میں معلوماتی اور مفید کتاب۔]
  •  باتیں سمندروں کی ، پروفیسر ڈاکٹر وقار احمد زبیری۔ ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی۔ تقسیم کار:  اکیڈمی بُک سنٹر، ڈی-۳۵، بلاک ۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی ۷۵۹۵۰۔ صفحات: ۳۶۔ قیمت: درج نہیں۔[کہانی ہی کہانی میں بچوں کے لیے مختلف سمندروں (بحرالکاہل، بحراوقیانوس، بحرہند، بحراحمر، بحرمردار، بحرکیسپین، بحرروم) کے متعلق دل چسپ معلومات، نیز: سمندر میں مدوجزر کا بننا، پانی کا نمکین ہونا، مختلف خطرات کے تذکرے کے ساتھ ساتھ سمندر کے اندر پائی جانے والی مختلف اقسام کی مچھلیوں اور دیگر آبی حیوانات وغیرہ کے بارے میں رنگین تصاویر کے ساتھ اہم معلومات۔]

جادو، جنات سے بچاؤ کی کتاب، حافظ عمران ایوب لاہوری پر تبصرہ جنوری (۲۰۱۱ء) میں شائع ہوا۔ کتاب ملنے کا درست پتا یہ ہے: نعمانی کتب خانہ، حق سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور فون: ۴۲۰۶۱۹۹-۰۳۰۰

 

ڈاکٹر توقیر احمد بٹ ، ملتان

’ حُب ِرسولؐ اور اس کے تقاضے‘ (فروری ۲۰۱۱ء) میں بجا طور پر توجہ دلائی گئی ہے کہ واقعی ہم اسوئہ حسنہ پر عمل کرکے ہی ہادیِ اعظمؐ سے محبت کے دعوے کو سچ ثابت کرسکتے ہیں نہ کہ نمایشی محبت کے ذریعے۔   بلوچستان کے پُرآشوب حالات پر مولانا عبدالحق ہاشمی صاحب کی تحریر ’سلگتا بلوچستان‘ (فروری ۲۰۱۱ء) فکرانگیز ہے۔ یقینا نظریۂ پاکستان جیسی متفقہ بنیاد اور بلوچستان کے ساتھ ساتھ تمام صوبوں کے بنیادی حقوق ادا کرکے ہی پاکستان کو متحد رکھا جاسکتاہے۔ اس کے ساتھ ساتھ غیرملکی ایجنسیوں کے کردار کو بھی ختم کرنا ضروری ہے۔

عرفان احمد بھٹی ،لاہور

’عدلیہ کی آزادی اور ججوں کا تقرر‘ (فروری ۲۰۱۱ء) میں ایک حساس موضوع پر پارلیمنٹ کے کردار اور دیگر ممالک میں اس کے نظائر پیش کرکے اس بات کو ثابت کیا گیا ہے کہ ججوں کے تقرر میں پارلیمنٹ کا کردار ہونا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسے ممالک میں جہاں ارکانِ پارلیمنٹ اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہوں اور صرف اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے ہی اتحاد اور اختلاف کرتے نظر آتے ہوں، عدلیہ کو ان کے تابع کرناکیسا ہوگا؟

ڈاکٹر طاہر سراج ، ساہیوال

’سُلگتا بلوچستان‘ (فروری ۲۰۱۱ء) انتہائی فکرانگیز ہے۔ ہمارے حکمران، مقتدر قوتیں اپنے اقدامات سے معاشرے میں انتہاپسندی کوفروغ دیتی ہیں۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی بھی اسی طبقے کی ناعاقبت اندیشی کے سبب ہوئی تھی، اور اب بلوچستان میں بھی انتشار انھی کی پالیسیوں کے سبب ہے۔ اللہ وطن عزیز کی حفاظت فرمائے۔ آمین!

محمد ناصر ، نوشہرہ

بلوچستان میں حکومت کی عدم توجہ کا تو کیا کہنا، ایک عام پاکستانی بھی نہ تو کبھی بلوچستان دیکھنے کا سوچتا ہے اور نہ وہاں کوئی کاروبار کرنے کا ارادہ ہی رکھتا ہے جس سے یہ صوبہ حکومتی و عوامی سطح پر تنہائی کا شکار ہوا ہے۔

عبد الرؤف ،بہاول نگر

’قبولِ اسلام کا سفر‘ (فروری ۲۰۱۱ء) نومسلم لورین بوتھ کا انٹرویو نہ صرف معلوماتی بلکہ ایمان افروز ہے۔ حجاب کے بارے میں ان کے خیالات اور عام مغربی معاشروں کا ردعمل اور نماز کے بارے میں جو کیفیت اور کشش انھوں نے محسوس کی وہ ہم جیسے کوتاہیوں بھرے مسلمانوں کے لیے بڑا اہم محرک ثابت ہوتی ہے۔ بچوں کا اسلام قبول کرنے پر ردعمل اور احساسات، سب ایمان افروز ہیں۔ میری گزارش ہے کہ اس طرح کی ایمان افروز تحریریں گاہے بگاہے شائع کی جائیں۔

ظہیرعباس جوئیہ ،میکلوڈ گنج

’۶۰ سال پہلے‘ اور ’سنابل العلم‘ دومفید سلسلے ہیں۔ ان کے ذریعے ہم وہ علم حاصل کرتے ہیں جو بعض اوقات کسی طویل مقالے یا مضمون سے حاصل ہوتا ہے۔ ’۶۰سال پہلے‘ کے تحت’آزادیِ تنقید‘ (فروری ۲۰۱۱ء) ایک اہم انتخاب ہے۔ ہمارے معاشرے میں، حتیٰ کہ دینی لوگوں میں بھی مداہنت جڑ پکڑ رہی ہے۔ اس کی وجہ سے انفرادی اور اجتماعی کردار میں بے حسی اور غلطیوں پرچشم پوشی کا رویہ اپنایا جا رہا ہے۔ اس سے نہ صرف اصلاح کا پہلو متاثر ہو رہا ہے بلکہ برائیوںکو فروغ مل رہا ہے۔ شعائر اسلام کے بارے میں تضحیک آمیز رویہ اور دین کی بنیادی اقدار پرحملہ ہو رہا ہے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ تنقیدومحاسبے کو اپنی زندگی کا لازمی جزو بنا لیں، اور تنقید کو خوش دلی سے قبول کریں، نیز تنقید ومحاسبہ کرنے میں شرعی حدود سے تجاوزنہ کریں۔

حامد علی فاروق ،لاہور

’کلامِ نبویؐ کی کرنیں‘(فروری ۲۰۱۱ء) میں ایک جامع دعا کا ذکر کیا گیا ہے (ص ۳۱)۔ عربی متن میں چند مقامات پر اعراب غلط ہیں، درست الفاظ یہ ہیں: خَیْرِ، شَرِّ مَا اسْتَعَاذَ، اَلْمُسْتَعَانُ۔

محمد شاکر عالم ،علی گڑھ، بھارت

عبدالغفار عزیز کا چشم کشا مضمون ’وکی لیکس: ہمارے لیے کیا سبق ہیں؟‘ (جنوری ۲۰۱۱ء) ہمیں یہودیوں کی ان خفیہ چالوں سے واقف کراتا ہے جس کے نتائج مستقبل میں بڑے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ اس کو پڑھنے کے بعد خواہش ہوئی کہ اگر یہ مضمون بھارت کے رسالوں میںبھی شائع ہوجاتا تو یہاں کے مسلمانوں کے لیے کافی مفید ثابت ہوتا۔

سمیع اللّٰہ بٹ ،لاہور

’۳۰ لاکھ کے قتل کا المیہ‘ (جنوری ۲۰۱۱ء)کی اشاعت متعدد حوالوں سے قابلِ اعتراض ہے۔ پہلا یہ کہ جس قرآنی آیت سے آغازِ کلام کیا گیا ہے، وہ اس المیے سے بے جوڑ ہے۔ دوسرا یہ کہ اس امر میں صفائی کا کوئی محل نہیں ہے کہ ۳۰ لاکھ قتل ہوئے یا نہیں ہوئے۔ دراصل مشرقی پاکستان کا المیہ پاکستانی اقتدار پر قابض اسٹیبلشمنٹ کے امتیازی سلوک کا شاخسانہ تھا۔ تیسرا یہ کہ مضمون نگار نے غیر جانب دار ہونے کے برعکس ایک وکیل صفائی کا کردار ادا کیا ہے، جس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ یہ چیز عصبیتِ جاہلیہ ہے، اور ترجمان القرآن کے اوراق کو ایسی عصبیت سے آلودہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔

عبدالرشید صدیقی ،برطانیہ

’بغیر وضو کے قرآن مجید کی تلاوت‘ (اگست ۲۰۱۰ء) کے مسئلے پر محترم مولانا عبدالمالک صاحب کا جواب نظر سے گزرا۔ اس کے بارے میں قارئین کے سامنے دوسرا نقطۂ نظر اور دلائل بھی آجائیں تو بہتر ہوگا۔ مولانا شمس پیرزادہؒ نے اپنی تفسیر دعوۃ القرآن، جلد سوم، صفحات ۱۹۸۴ تا ۱۹۸۵ میں سورۂ واقعہ کی آیت    لاَّ یَمَسُّہٗٓ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ o (۵۶:۷۹) کے تشریحی نوٹ میں اس مسئلے پر مفصل بحث کی ہے۔ ان کے نزدیک اس آیت میں ایسا کوئی حکم نہیں دیاگیا ہے بلکہ یہاں فرشتوں کے قرآن کو چھونے کا ذکر ہے۔جہاں تک موطا کی اس حدیث کا تعلق ہے کہ ’’قرآن کو صرف وہی چھوئے جو طاہر ہو‘‘، یہاں طاہر سے لازماً مراد باوضو شخص نہیں ہے بلکہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو جنابت سے پاک ہو۔ قرآن اور حدیث کے ان تصریحی احکام کے پیشِ نظر موطا کی مذکورہ بالاحدیث کا مفہوم یہی متعین ہوتا ہے کہ کوئی ایسا شخص جس نے جنابت سے اور کسی عورت نے حیض سے پاکی حاصل نہ کی ہو، وہ قرآن کو ہاتھ نہ لگائے۔

آخر میں لکھتے ہیں: قرآن کی تلاوت اور اس کے مطالعے کے لیے باوضو ہونا یقینا باعثِ خیروبرکت ہے کیونکہ باوضو ہونے کی صورت میں پاکیزگی کا زیادہ احساس ہوتا ہے اور خیالات کو پاکیزہ رکھنے میں بڑی مدد ملتی ہے، لیکن وضو کے بغیر قرآن کو ہاتھ لگانے کو حرام قرار دینا فقہی شدت کے سوا کچھ نہیں۔ یہ شدت موجودہ زمانے میں لوگوں کو زبردست مشکلات میں ڈالنے والی ہے کیونکہ قرآن کے نسخوں کو فروخت کرنا، ان کو خریدنا اور ان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا، ان کو چھاپنا اور ان کی جِلدبندی کرنا سب کے لیے وضو کی قید کوئی عملی بات نہیں ہے۔ یہ قید اشاعتِ قرآن کے سلسلے میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ یہ کتاب خوب صورت جزدان میں بند رکھنے کے لیے نہیں ہے، بلکہ اس لیے ہے کہ اس سے قدم قدم پر رہنمائی حاصل کی جائے اور اس کو بہ کثرت پھیلایا جائے۔ واقعہ یہ ہے کہ دین میں جو آسانیاں تھیں وہ فقہی شدت کی وجہ سے برقرار نہیں رہ سکیں۔

  •  سورئہ واقعہ کی آیت لاَّ یَمَسُّہٗٓ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ o (۵۶:۷۹) کی تفسیر میں مولانا مودودی نے تفسیری اقوال بھی نقل کیے ہیں اور ان کا محاکمہ بھی فرمایا ہے۔موضوع سے متعلق احادیث بھی نقل فرمائی ہیں۔ صحابہ کرامؓ کے اقوال بھی نقل کیے ہیں اور فقہاے کرام، ائمہ اربعہ اور ظاہریہ کے مسالک بھی نقل کیے ہیں۔ غالب اکثریت کی یہی راے نقل کی ہے کہ بلاوضو قرآنِ پاک کو ہاتھ لگانا جائز نہیں ہے۔ صرف مالکیہ نے تعلیم وتعلم سے  تعلق رکھنے والوں کے لیے کچھ آسانیاں پیدا کی ہیں۔امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام مالک اور امام احمدکے نزدیک بلاوضو قرآن پاک کو ہاتھ لگانا منع ہے۔ البتہ ظاہریہ کے نزدیک جائز ہے (ملاحظہ فرمائیں: حاشیہ ۳۹، تفسیر سورئہ واقعہ، تفہیم القرآن، پنجم، ص ۲۹۱)۔ (مولانا عبدالمالک)

ابونعمان ،بحرین

’کلام نبویؐ کی کرنیں‘ (دسمبر ۲۰۱۰ء) میں سود کے بارے میں حدیث کی تشریح کرتے ہوئے عملی اقدام اُٹھانے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ اس ضمن میں پیش رفت پر مبنی مضامین بھی ترجمان القرآن میں شائع کرنے کی ضرورت ہے۔

سال ختم ہوتے ہوتے مسلمانوں کی راے عام پوری طرح اُس مطالبۂ حق پر متفق ہوگئی جو  آغازِ سال میں پیش کیا گیا تھا، اور مارچ ۱۹۴۹ء میں دستورساز اسمبلی کو طوعاً و کرہاً قرار داد مقاصد پاس کرنی پڑی۔

جماعت اسلامی کو یہ دعویٰ نہیں ہے کہ مطالبے کی یہ مہم سراسر اس کی طاقت سے کامیاب ہوئی ہے۔ بلاشبہ ملک کی تمام اسلامی جماعتوں اور تمام دین پسند عناصر کی قوت اس میں شریک تھی، اور اس میں ان لوگوں کا بھی حصہ تھا جو نہ اُس وقت جماعت کے دوست تھے، نہ آج ہیں۔ مگر اس سے کون انکار کرسکتا ہے کہ جماعت اسلامی ہی اُس کی اصل محرک تھی اور اگر یہ منظم طاقت اس کی پشت پر نہ ہوتی تو اُن منتشر آوازوں سے جو وقتاً فوقتاً اسلامی نظام کے حق میں اُٹھتی رہتی تھیں، اس مطالبے کا ایک باقاعدہ مہم کی شکل اختیار کرنا، اور پھر کامیابی کی منزل تک پہنچنا کسی طرح ممکن نہ تھا۔ اس حقیقت کو وہ لوگ بھی جانتے ہیں جنھوں نے اس مہم کے سلسلے میں کچھ کام کیا ہے اور وہ برسرِاقتدار گروہ بھی جانتا ہے جسے اس کے آگے سرِتسلیم خم کرنا پڑا ہے۔

جو لوگ سیاسی معاملات کا فہم نہیں رکھتے وہ شاید آج تک بھی یہ اندازہ نہیں کرسکے ہیں کہ یہ کس قدر اہم اور ضروری قدم تھا جو جماعت نے اُٹھایا اور کس قدر بروقت اُٹھایا۔ آج اس کی اہمیت اور اس کے دُوررس نتائج ہم بیان بھی کریں تو وہ ان کی سمجھ میں نہیں آسکتے، لیکن اگر خدانخواستہ ہم اس میں ناکام ہوگئے ہوتے اور یہاں آئینی طور پر لادینی اصولوں کو ریاست کی بنیاد بنانے کا فیصلہ ہوچکا ہوتا،  تو ہمارے بھائیوں کو معلوم ہوجاتا کہ یہاں اسلام کے علَم برداروں کا مستقبل کیسا خطرناک ہے۔ اب یہ سراسر اللہ کا فضل ہے کہ کم از کم اس نوزائیدہ ریاست کا دستوری نصب العین تو اسلام کے عین مطابق بن چکا ہے اور آئینی حیثیت سے کفر کے مقابلے میں اسلام کی پوزیشن مضبوط ہوگئی ہے۔ اس پر مزید فضل یہ ہے کہ راے عام پوری طرح اس آئینی پوزیشن کی حمایت پر کمربستہ ہے اور اس کو کسی فریب سے بدل ڈالنا کوئی آسان کام نہیں رہا ہے۔ (’اشارات‘، سیدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۳۵، عدد ۵، جمادی الاولیٰ ۱۳۷۰ھ، مارچ، ۱۹۵۱ء، ص ۳۲)