جو کچھ بھارت نواز عوامی لیگ نے ڈھاکہ کی سڑکوں پر کیا ہے‘ کسی اسلامی تحریک یا مذہبی جماعت نے کیا ہوتا تو پوری دنیا میں نہ تھمنے والا پروپیگنڈا شروع ہوچکا ہوتا۔ درندگی‘ سفاکیت‘ وحشی پن سب الفاظ اس کے سامنے ہیچ ہیں۔ اس کی جو وڈیو ریکارڈنگ ہم تک پہنچی ہے اس کی چند جھلکیاں دیکھنے کے لیے بھی بڑا دل گردہ چاہیے۔ اگرچہ انسانی جان کا قتل بے حد سنگین جرم ہے پھر بھی روزانہ ہزاروں انسان قتل ہوتے اور دوسرے اس قتل کی خبر پاتے ہیں‘ لیکن جو قتل عام اکتوبر کے آخری ہفتے ڈھاکہ کی سڑکوں پر ہوا‘ خدا وہ دن دوبارہ کسی ملک و قوم کو نہ دکھائے۔ معاملہ کیا تھا؟ صرف یہ کہ بنگلہ دیشی دستور کے تحت عام انتخابات سے قبل جو عبوری حکومت سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس کی سربراہی میں بننی ہے ہمیں اس کا سربراہ منظور نہیں۔ پھر عوامی لیگ کے کارکن تھے‘ خنجر‘ بھالے‘ لٹھ اور آہنی سلاخیں تھیں اور اپنے ہی بھائی بندوں کا قتل عام تھا۔
اگرچہ بنگلہ دیش میں جمہوری روایات پاکستان سے زیادہ مستحکم ہورہی ہیں۔ الیکشن بھی وقت پر ہورہے ہیں۔ عبوری حکومت کا فارمولا بھی اتفاق راے سے نافذ ہے۔ لیکن بھارتی مقتدر قوتیں بنگلہ دیش میں اپنے نفوذ و تسلط کو کسی صورت کم یا ثانوی ہوتے نہیں دیکھ سکتیں۔ شیخ مجیب کی صاحبزادی اور ان کی پارٹی کی اصل پہچان ہی بھارت نوازی ہے‘ اس لیے گذشتہ انتخابات میں شکست کے بعد سے مسلسل دونوں مضطرب ہیں کہ کیسے واپسی ہو‘کیسے دوسری کسی بھی حکومت کو مفلوج و ناکام بنایا جائے۔
خالدہ ضیا حکومت کے پانچ برس کوئی سنہری دور تو نہیں تھے‘ لیکن میں نے اندرون و بیرون ملک رہنے والے جس بنگالی بھائی سے بھی پوچھا اس نے ’’پہلے سے اچھا ہے‘‘ کہہ کر نسبتاً اطمینان کا اظہار کیا۔ خاص طور پر جماعت اسلامی کے امیر اور سیکرٹری جنرل کی دو وزارتوں کی کارکردگی سب سے نمایاں اور استثنائی رہی۔ خالدہ ضیا اپنی کابینہ میں دوسرے وزرا کو بھی ان دونوں کی پیروی کی تلقین کرتی رہیں۔ لیکن الزامات اور بھارت نواز ذرائع ابلاغ کبھی تو بنگلہ دیش میں طالبنائزیشن کی دہائی دیتے رہے‘ کبھی القاعدہ سے ڈانڈے ملاتے رہے اور کبھی ہڑتالوں اور مظاہروں سے زندگی مفلوج کرنے کی سعی کرتے رہے۔
اب ایک بار پھر انتخابات کا معرکہ ہے۔ خالدہ ضیا کا چار جماعتی اتحاد اپنی سابقہ کارکردگی اور حسینہ شیخ روایتی ہتھکنڈوں اور بیرونی سرپرستی کے ساتھ میدان میں ہیں۔ لیکن اصل مقابلہ پیسے‘ پروپیگنڈے‘ بیرونی نفوذ اور کارکنان کی جفاکشی میں ہے۔ جو بھی ہو‘ نتائج جنوری میں سامنے آجائیں گے۔
بات شروع ہوئی تھی عبوری حکومت کی سربراہی پر اختلاف کے نتیجے میں عوامی لیگ کی قتل و غارت سے‘ کہ اس وحشی پن کا جو ذکر عالمی ذرائع ابلاغ میں ہوا ہے اصل حقائق کا عشرعشیر بھی نہیں تھا۔ ادھر غزہ سمیت فلسطین کے دیگر علاقوں میں صہیونی جارحیت بھی حسب معمول جاری ہے۔ نومبر کے آغاز میں صرف ایک ہفتے میں ۶۵ سے زائد افراد شہید کردیے گئے۔ بیت حانون کے ایک محلے پر بم باری کرکے دسیوں افراد شہید کردیے گئے جن میں سے ۱۳ ایک ہی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور ان میں سے سات معصوم بچے تھے۔ ساتھ ہی ساتھ فلسطین میں بھی نئی حکومت کی تشکیل کا عمل جاری ہے۔ صہیونیت نواز عالمی ذرائع ابلاغ نہ تو اس قتل عام کی صحیح عکاسی کر رہے ہیں اور نہ حماس کی اس سیاسی بصیرت و قربانی کی کہ پارلیمنٹ میں دو تہائی سے زائد اکثریت رکھنے کے باوجود وہ وسیع تر حکومت بنانے پر مصر ہے۔
وسط نومبر میں حماس کے سربراہ خالد المشعل سے فون پر اور لبنان میں ان کے خصوصی نمایندے اسامہ حمدان سے بالمشافہ تفصیلی گفتگو ہوئی۔ دونوں نے بتایا کہ ہم تو اپنی جیت کے فوراً بعد سے قومی حکومت کی تشکیل پر اصرار کر رہے تھے‘ لیکن تب ہماری پیش کش قبول نہ کی گئی۔ کچھ لوگ اور عالمی قوتیں چاہتی تھیں کہ ہماری حکومت اور فلسطینی عوام کا حصار کرکے ہمیں ناکام کردیا جائے۔ حماس کی حکومت ختم ہوگی تو دنیا بھر میں واویلا کیاجائے گا‘ دیکھا ناکام ہوگئے‘ اسلامی تحریکیں حکومت چلا ہی نہیں سکتیں۔ اس ضمن میں ہمارا اقتصادی بائیکاٹ کیا گیا۔ ہم نے کہا امداد نہیںدینا‘ نہ دیں ہم اُمت سے اپیل کرکے خود ہی وسائل مہیا کرلیتے ہیں‘ لیکن ہماری جمع کردہ رقوم بھی فلسطینی عوام تک پہنچنے نہ دی گئیں۔ کئی ملکوں میں ہمارے اکائونٹس منجمد کردیے گئے اور پھر بالآخر الفتح تحریک کے مسلح گروہوں اور صدر محمودعباس کی سیکورٹی فورسز کے دستوں کو سڑکوں پر لے آیا گیا اور ملازمین کو تنخواہ نہ ملنے کا بہانہ بناکر خانہ جنگی شروع کرنے کی کوشش کی گئی‘ لیکن بالآخر سب تدبیریں الٹی ہوگئیں اور عوام حماس کی تائید میں مزید یکسو ہوگئے۔ رمضان کے وسط میں جب باہم لڑائی کا خدشہ اورالزامات کا طوفان شدید تھا‘ وزیراعظم اسماعیل ھنیّہ نے ایک جلسۂ عام کا اعلان کیا‘ بغیر کسی سرکاری انتظام کے‘ لاکھوں لوگوں نے جمع ہوکر ان کا مؤقف سنا اور اعلان کیا کہ ’’ہمارا مسئلہ صرف روٹی نہیں‘ وہ تو کتوں کو بھی مل جاتی ہے‘‘۔
عوام کو حماس حکومت سے متنفر کرنے کی کوششوں کے ساتھ ہی ساتھ ایوان صدر نے یہ دھمکی بھی دی کہ حماس کی حکومت یا پارلیمنٹ معطل کردی جائے گی‘ لیکن اس کے لیے عملاً کوئی راستہ نہیں تھا۔ الفتح نے خود بیرونی سرپرستوں کے تعاون سے جو قانون سازی کی تھی‘ اس کے مطابق اگر حکومت توڑی جاتی ہے تو ایک عبوری حکومت فوراً بنانا پڑتی جس کی توثیق پارلیمنٹ سے ضروری تھی اور پارلیمنٹ میں حماس ہے۔ اور اگر پارلیمنٹ توڑی جاتی‘ تو نئے الیکشن ضروری تھے‘ جب کہ ہر سروے رپورٹ یہ رہی تھی کہ اس صورت حال میں انتخابات ہوئے تو حماس پہلے سے بھی زیادہ ووٹ حاصل کرسکتی ہے۔ کیونکہ چند ماہ کی حکومت میںاس نے ثابت کیا ہے کہ وہ غیرمعمولی طور پر امانت دار‘ فعال اور باصلاحیت حکومت ہے۔ اگر عوام بھوکے ہوتے ہیں تووزیراعظم خود بھی بھوکا ہوتا ہے۔ اس نے آج تک کوئی الائونس یا تنخواہ نہیں لی کیونکہ اس کے عوام کو پوری تنخواہیں نہیں مل رہیں۔ عوام یہ بھی جانتے ہیں کہ چند ماہ کی حکومت نے گذشتہ حکمرانوں کے کتنے بڑے بڑے اسیکنڈل بے نقاب کیے ہیں۔ جب فلسطینی عوام دشمن کی بم باری کی زد میں ہوتے تھے‘ ان کے حکمران دشمن سے کیا کیا گٹھ جوڑ کر رہے ہوتے تھے۔ اور یہ بھی کہ تمام تر پابندیوں کے باوجود جو سامانِ ضرورت (خاص طور پر پٹرول) جب مقبوضہ فلسطین پہنچتا تھا تو کس کس وزیر کا کتنا کتنا کمیشن اس میں شامل ہوتا تھا۔
اس صورت حال میں الفتح اور صدر محمود عباس کے سامنے اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہ بچاتھا کہ وہ یا تو اسی طرح تناؤ اور حصار باقی رہنے دے ‘ یا حماس کی قومی حکومت والی تجویز قبول کرلے۔ پہلی صورت میں یہ خطرہ برقرار رہتا کہ مزید عوام حماس کے گرد جمع ہوجائیں جو امریکی‘ صہیونی اور فلسطینی ایوانِ صدر کی سازشوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس لیے بالآخر قومی حکومت کا کڑوا گھونٹ برداشت کرلیا گیا۔ حماس کی اکلوتی شرط یہ ہے کہ قومی حکومت بنے تو اس ضمانت پر کہ اس کے بعد فلسطین کا اقتصادی حصار ختم کردیا جائے گا‘ جب کہ ایوان صدر مختلف شرطیں عائد کر رہا ہے‘ مثلاً اسماعیل ھنیّہ جیسا دبنگ لیڈر اس کاسربراہ نہیں ہوگا‘ یا یہ کہ فلاں فلاں وزارت ہمیں ملے گی خاص طور پر وزارتِ خارجہ۔ حماس نے ان کی یہ شرائط تسلیم کرلی ہیں۔ غزہ میں حماس کی قائم کردہ اسلامی یونی ورسٹی کے سابق سربراہ محمد شبیر شاید نئی حکومت کے سربراہ ہوں۔ وزارتیں پارلیمنٹ میں پارٹی حیثیت کے مطابق تقسیم ہوں گی‘ فلسطینی عوام کے روکے گئے فنڈ واپس مل جائیں اور اقتصادی حصار جزوی طور پر ختم ہوجائے گا۔
امریکا نے پہلے قومی حکومت کی تجویز کو مسترد کردیا تھا۔ صدربش اور اس کی وزیر کونڈالیزارائس نے اس کے خلاف بیان بھی دے دیے‘ لیکن پھر کئی صہیونی تجزیہ نگاروں کی اس رائے سے اتفاق کرنا پڑا کہ اگر کوئی بھی راستہ باقی نہ بچا تو جہادی کارروائیوں میں مزید تیزی آجائے گی۔ حماس کی قیادت کو اطمینان ہے کہ جو راستہ بھی ملے گا ہم اپنی منزل سے قریب تر ہوں گے۔ اسرائیل کے ناجائز وجود کو نہ پہلے کوئی دبائو ہم سے تسلیم کروا سکا ہے‘ نہ آیندہ کروا سکے گا۔ جہاد و انتفاضہ سے ہم نہ پہلے دست بردار ہوئے ہیں نہ آیندہ کوئی دست بردار کروا سکے گا۔ عزالدین قسام بریگیڈ نے خودساختہ راکٹوں سے صہیونی آبادیوں اور کئی ذمہ داروں کے گھروں کو نشانہ بنا کے پیغام دیا ہے کہ ہمیں تکلیف پہنچے گی تو تم بھی محفوظ نہ رہو گے۔ ہماری سرزمین مقبوضہ رہے گی تو جہادِ آزادی بھی اپنی منزلیں کامیابی سے طے کرتا رہے گا۔