دسمبر۲۰۰۶

فہرست مضامین

کلام نبویؐ کی کرنیں

مولانا عبد المالک | دسمبر۲۰۰۶ | فہم حدیث

Responsive image Responsive image

حضرت عبداللہ بن خبیبؓ سے روایت ہے کہ ہم بارش کی رات اور سخت تاریکی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طلب میں نکلے کہ آپؐ کے پیچھے نماز پڑھیں۔ ہم نے آپؐ کو پالیا۔ آپؐ نے فرمایا: قُلْ (کہو)، میں خاموش رہا ‘کچھ نہ کہا۔ آپؐ نے دوبارہ فرمایا: قُلْ۔ میں نے پھر بھی کچھ نہ کہا۔ آپؐ نے پھرفرمایا: قُلْ۔ تب میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میں کیا کہوں؟ آپؐ نے فرمایا: قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ اور معوذتین پڑھو‘ شام کے وقت اور صبح کے وقت تین مرتبہ‘ یہ تمھیں ہرچیز کی جگہ کافی ہوجائیں گی۔ (ترمذی)

تعلیم و تربیت کا کیسا انداز ہے! پوری طرح متوجہ کرکے‘ شفقت و محبت کے ساتھ بات کو دل و دماغ میں اتار دینا کہ زندگی بھر بات نہ بھولے‘ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقۂ تعلیم ہے۔ آدمی ان تین سورتوں کے ذریعے اللہ رب العالمین کی پناہ میں آجاتاہے‘ جو کائنات کا حکمران ہے۔ تب اس کا کون سا کام ہے جو نہ ہوگا۔ جو اللہ کا ہوجائے‘ اللہ تعالیٰ اس کے ہوجاتے ہیں۔ اہلِ ایمان کا بڑا سہارا یہی ہے: وعلٰی اللّٰہ فلیتوکل المومنون، ’’اللہ ہی پر ایمان والے توکّل کریں‘‘۔(المائدہ ۵:۱۱)

سائب بن مہجاں شای تابعی ہیں‘ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمرؓ شام میں داخل ہوئے تو شام کے لوگوں کو خطاب کیا۔ اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کے بعد وعظ نصیحت کی‘ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم دیا‘ اس کے بعد فرمایا کہ جس طرح میں نے آپ لوگوں کے سامنے کھڑے ہوکر خطاب کیا ہے‘ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور خطاب فرمایا۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خطاب میں اللہ تعالیٰ سے تقویٰ‘ صلہ رحمی‘ باہمی تعلقات کی اصلاح کا حکم دیا اور فرمایا: جماعت سے وابستہ رہو‘ سنو اور اطاعت کرو‘ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہے۔ اللہ تعالیٰ جماعت کی حفاظت اور نصرت فرماتے ہیں۔ شیطان اکیلے شخص پر حملہ آور ہوتا ہے‘ دو سے دُور رہتا ہے۔ کوئی مرد (غیرمحرم) عورت کے ساتھ تنہائی نہیں کرتا مگر شیطان ان دونوں کے ساتھ تیسرا ہوتا ہے (یعنی گناہ میں مبتلا کرتا ہے)۔ جسے اپنی برائی کا دکھ اور نیکی پر خوشی ہو تو مسلمان اور مومن ہونے کی نشانی ہے۔ اور منافق کی نشانی یہ ہے کہ اسے برائی پر ذہنی تکلیف نہ ہو اور نیکی پر ذہنی خوشی اور مسرت نہ ہو۔ وہ اگر بھلائی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ سے اس پر ثواب کی اُمید نہیں رکھتا اور اگر برائی کرتا ہے تو اس پر اسے سزا کا کوئی ڈر نہیں ہوتا۔ دنیا کی طلب میں اچھے طریق کا اختیار کرو۔   اللہ تعالیٰ نے تمھاری روزی کا ذمہ لیا ہے۔ ہر ایک کو اس کے اس عمل کا جس پر وہ کاربند تھا‘ پورا پھل ملے گا۔ اپنے اعمال پر اللہ سے مدد مانگو‘ اس لیے کہ وہ جس عمل کو چاہتا ہے مٹاتا ہے اور جسے چاہتا ہے قائم رکھتا ہے۔ اس کے پاس ام الکتاب (لوح محفوظ) ہے۔ (بیہقی فی شعب الایمان)

طویل تقاریر کے بجاے اختصار سے اہم اور بنیادی امور کے بیان کا کتنا اچھا نمونہ ہے۔ یہ مثال بھی ملتی ہے کہ عمال حکومت اپنی طرف سے ضروری باتیں بیان کرکے‘ اہم تر باتیں اللہ کے رسولؐ کی طرف سے بھی بیان کریں کہ سننے والوں کے لیے اس کی اپنی تاثیر ہے۔ غیرمحرم عورت کے ساتھ تنہائی میں جو اندیشے ہیں اس کا بیان اتنے اہم سرکاری خطاب میں ہو رہا ہے۔ اس سے ایک طرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ امر جو ’روشن خیالی‘ کے دور میں معمولی بات ہے‘ کتنا اہم ہے۔ دوسرے یہ بھی کہ سربراہ ملک‘ عوام کے اخلاق کے لیے فکرمند ہوتا ہے (نہ کہ اخلاق بگاڑنے پر کمربستہ)۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ سے روایت ہے: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ مکرمہ سے روانہ ہوا۔ ہم عربوں کے قبیلوں میں سے ایک قبیلے کے پاس پہنچے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بستی سے الگ تھلگ ایک گھر پر نظرڈالی‘ اور اس کی طرف چلنا شروع کردیا۔ جب ہم اس کے پاس پہنچے تو پتاچلا کہ یہاں تو صرف ایک خاتون ہے۔ اس نے کہا: اللہ کے بندے! میں ایک عورت ہوں اور میرے ساتھ کوئی بڑا آدمی نہیں ہے۔ اگر آپ لوگ مہمان بننا چاہتے ہیں تو بستی کے بڑے کے پاس چلے جائیں۔ شام کا وقت تھا۔ آپؐ نے اس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ اتنے میں اس کا ایک بیٹا بکریوں کو ہنکاتا ہوا پہنچ گیا۔تب اس خاتون نے اپنے بیٹے سے کہا: بیٹے! اس بکری کو لواور اس کے ساتھ یہ چھری بھی پکڑلو اور دونوں مہمانوں کو جاکر دے دو اور ان سے کہو کہ میری ماں آپ سے کہتی ہے کہ اس بکری کو ذبح کرلیں‘ خود بھی کھائیں اور ہمیں بھی کھلائیں۔

جب بیٹا نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس آگیا اور اپنی ماں کا پیغام پہنچایا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چھری لے جائو‘ ہمارے پاس پیالہ لے کر آئو۔ اس نے عرض کیا: ماں چراگاہ میں چلی گئی ہے اور بکری کے تھنوں میں دودھ نہیں ہے۔ اس لیے پیالے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپؐ نے فرمایا (تم اس بات کو چھوڑو) بس پیالہ لے آئو۔ وہ پیالہ لے آیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری کے تھنوں پر ہاتھ پھیرا‘ پھر دودھ دوہا یہاں تک کہ پیالہ بھر گیا۔ وہ پیالہ آپؐ نے بچے کو دیا اور فرمایا: اپنی ماں کو دے آئو‘ چنانچہ وہ ماں کے پاس لے گیا۔ اس نے اتنا دودھ پیا کہ سیر ہوگئی۔ بچہ پیالہ لے کر واپس آیا‘ آپؐ نے دوبارہ پیالہ بھر کر اسے دیا اور فرمایا: دوسرا پیالہ بھی لے آئو۔ وہ دوسرا پیالہ لایا‘ آپؐ نے اس میں بھی دودھ دوہا‘ اور حضرت ابوبکرصدیقؓ کو دودھ پلایا۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پیا۔ وہ رات ہم نے وہیں گزاری‘ پھر ہم دوبارہ منزل کی طرف چل پڑے۔

اس خاتون نے آپؐ کی یہ برکت دیکھی تو آپؐ کا نام مبارک رکھ دیا‘ اور وہ آپؐ کو مبارک کے نام سے پکارتی تھی۔ اس کے بعد اس کی بکریاں بھی بہت زیادہ ہوگئیں‘ چنانچہ بکریوں کا ایک ریوڑ لے کر وہ مدینہ طیبہ آگئی۔ حضرت ابوبکرصدیقؓ کا اس طرف سے گزر ہوا تو اس کے بیٹے نے    انھیں دیکھ کر پہچان لیا اور اپنی ماں کو آواز دی: اماں جان! یہ وہ آدمی ہے جو مبارک ذات کے ساتھ تھا۔ وہ حضرت ابوبکرصدیقؓ  کے پاس آئی اور پوچھا: اللہ کے بندے! تمھارے ساتھ جو آدمی تھے وہ کون تھے؟ حضرت ابوبکرؓ نے کہا: تمھیں پتا نہیں وہ کون تھے؟ اس نے عرض کیا: نہیں۔    اس پر حضرت ابوبکرصدیقؓ  نے فرمایا: وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ کہنے لگی کہ مجھے ان کے پاس لے جائو۔ حضرت ابوبکرصدیقؓ اسے آپؐ کے پاس لے گئے۔ آپؐ نے اسے کھانا کھلایا‘ عطیات دیے‘ پنیر اور دیہاتیوں کے سازوسامان اور کپڑوں کے جوڑے پیش کیے۔ وہ مسلمان ہوگئی۔ (کنزالعمال‘ ج۸)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ اور اس کی تاثیر کا کیا حسین منظر ہے۔ آپؐ کی برکت کا مشاہدہ کرنے والی خاتون خود بخود مسلمان ہوجاتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے اعزاز کا بدلہ بہترین اعزازواکرام کے ساتھ اُتارتے ہیں۔ ہدیہ دینا‘ خصوصاً دُور سے ملنے آنے والوں کو‘ اسلامی اخلاق کا تقاضا اور    سنت رسولؐ کی پیروی ہے۔ اس کے اپنے فوائدو برکات ہیں۔اس واقعے سے یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ جب بندے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں تو ان کے معاش کا مسئلہ اللہ تعالیٰ خود حل فرما دیتے ہیں۔ بکری کے خشک تھنوں میں بھی دودھ اتر آتا ہے۔ غیب سے رزق کا سامان میسر ہوجاتا ہے۔

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

جب ایک آدمی اپنے گھر سے بسم اللّٰہ توکلت علی اللّٰہ لا حول ولا قوۃ الا باللّٰہ (میں اللہ کے نام سے نکلا‘ میں نے اس پر توکل کیا‘ کوئی حرکت اور کوئی قوت نہیں مگر اللہ تعالیٰ کے ساتھ) پڑھ کر نکلتا ہے تو ایسے شخص کو آواز دی جاتی ہے (فرشتہ آواز دیتا ہے): ’’تجھے ہدایت دی گئی‘ تیرے تمام کاموں کے لیے اس قدر مدد کی گئی جتنی کافی ہوجائے اور تجھے ہرشر سے بچا لیا گیا۔ شیطان تمام کے تمام اس سے دُور ہوجاتے ہیں۔ ایک دوسرا شیطان دُور ہوجانے والے شیطان اور اپنے آپ سے کہتا ہے: ’’تم کیسے اس شخص کو نقصان پہنچا سکتے ہو جسے ہدایت دے دی گئی‘ جس کے لیے بقدر کفایت مدد کی گئی‘ اور اسے ہرشر سے بچالیا گیا‘‘۔ (سنن ابی داؤد‘ سنن ترمذی)

جب ایک شخص صرف زبان سے نہیں بلکہ پورے شعور اور اخلاص نیت سے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگ کر‘  اللہ پر بھروسا کرکے نکلے تو وہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں آجاتا ہے اور اس کی مدد کا مستحق ہوجاتا ہے۔ وہ جسمانی اور روحانی دونوں لحاظ سے محفوظ ہوجاتا ہے۔ شیطان اس کو گمراہ کرنے سے مایوس ہوجاتے ہیں۔

آج کے حالات میں ہر جگہ مسلمان کو اللہ تعالیٰ کی حفاظت اور نصرت کی ضرورت ہے۔ انسانوں اور جنات کی شکل میں شیطان مسلمان کے خون کے پیاسے ہیں۔ ان کو مٹانے اور کفروشرک اور فسق و فجور میں مبتلا کرنے میں پوری قوت اور تمام وسائل کے ساتھ‘ زوروشور سے مصروف اور اس میں دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کے گھروں سے انھیں ایجنٹ میسر ہیں۔ ایسے میں اللہ تعالیٰ سے تعلق اور اسی پر توکل کی ڈھال ہر مسلمان کے لیے موجود ہے۔ اہلِ ایمان اس دعا کو ڈھال بناکر اپنے گھروں سے نکلیں تواللہ تعالیٰ کی نصرت اور حفاظت سے کامیاب و کامران اور مامون ہوکر اپنے گھروں کو واپس لوٹیں گے۔