نذرالحفیظ ندوی | دسمبر۲۰۰۶ | احوالِ عالم
حدیث شریف میں ظلم و زیادتی اور درندگی و سفاکی کی شدید مذمت آئی ہے‘اور خبردار کیا گیا ہے کہ مظلوم کی بددعا سے بچنا چاہیے کہ ظالم کے خلاف مظلوم کی دعا فوراً قبول ہوتی ہے اور آسمان سے آہوں کا جواب بہت جلد آتا ہے۔ ایک جگہ آیا ہے کہ شرک کے ساتھ تو حکومت چل سکتی ہے‘ ظلم کے ساتھ کوئی حکومت قائم نہیں رہ سکتی۔
مشہور مؤرخ و مفکر ابن خلدون نے ظلم کے دور رس اور سنگین نتائج کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس کا پہلا نتیجہ جو سامنے آتا ہے وہ انسانی آبادی کی تباہی و بربادی کی صورت میں ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ اس ملک کی پیداوار پر بھی اثرات پڑتے ہیں‘ یہاںتک آتا ہے کہ بادشاہوں کی نیتوں کا بھی اثر پڑتا ہے۔ انسانی تاریخ میں قوموں کے عروج و زوال کا جائزہ لینے سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ ظلم و سفاکی نے بڑی بڑی طاقت ور اور جابر سلطنتوں کے چراغ گل کردیے اور ان کا وجود صفحۂ ہستی سے مٹ گیا۔
المیہ یہ ہے کہ تاریخ پڑھی نہیں جاتی اور اگر پڑھی جاتی ہے تو اس سے عبرت و نصیحت حاصل نہیں کی جاتی۔ خاص طور پر حکمراں طبقہ نشۂ قوت سے سرشار بلکہ اس سے اتنا بدمست ہوجاتا ہے کہ وہ ان باتوں کی طرف توجہ بھی نہیں دیتا۔ وہ فوج و اسلحے کے ذریعے اپنی منوانے ہی کو اپنی حکومت کی کامیابی تصور کرتا ہے اور یہ سمجھ کر مطمئن ہوجاتا ہے کہ ہمارا ملک اتنا طاقت ور ہے کہ کوئی آنکھ اٹھا کر دیکھ نہیں سکتا‘ اور نہ کسی کے اندر اتنی جرأت ہی ہے کہ وہ ہمارے ملک کو نقصان پہنچاسکے۔
کچھ ایسا ہی تصور روس کے حکمرانوں نے اس وقت کیا تھا جب انھوں نے اشتراکی نظام کو پورے ملک پر نافذ کرنے کے لیے فوج اور اسلحے کا سہارا لیا اور ظلم و سفاکی اور درندگی کے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک کروڑ سے زائد انسانوں کو تہ تیغ کردیا گیا۔ روس کی جدید تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف وہاں کے مسلمانوں کولاکھوں کی تعداد میں موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔ جس سرزمین پر وہ سیکڑوں سال سے رہ رہے تھے‘ ان کو وہاں سے سنگینوں کے سایے میں بے دخل کرکے ہزاروں میل دُور سائبیریا کے علاقوں یا دوسرے ملکوں کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا گیا۔ ان کی جگہ روسیوں کو لاکر بسا دیا گیا۔
۱۹۲۰ء میں ایدل اور اورال کے علاقوں میں روسی سامراج کے تسلط سے پہلے مسلمانوں کی اکثریت تھی‘ لیکن ان علاقوں میں معدنی ذخائر کے انکشاف نے مسلمانوں پر مصائب کے پہاڑ توڑ دیے۔ روسی حکومت نے یہاں کی اکثریت کو سائبیریا جلاوطن کردیا۔ ان کی جگہ روسی بسایے گئے‘ اور یورپی طرز کے شہر اور بستیاں تعمیر کی گئیں۔ ۱۹۵۹ء کی مردم شماری سے معلوم ہوتا ہے کہ تاتاری مسلمان خود اپنی ہی جمہوریہ میں اقلیت بن کر رہ گئے۔
۱۹۲۶ء میں جب صنعتی ترقی کا آغاز ہوا تو ’کریمیا‘ کی آبادی ۱۱لاکھ مسلمانوں پر مشتمل تھی‘ لیکن اس پوری آبادی کو سنگینوں کے سایے میں سائبیریا دھکیل دیاگیا۔ ان کی بڑی تعداد ایک ہفتے بعد جب سائبیریا پہنچی تو نصف سے زائد لوگ راستے کی صعوبتوں کی وجہ سے بغیر کھانے پینے کے دم توڑگئے‘ جو سائبیریا پہنچے تو ان کو جہنم سے بدتر زندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ بوڑھے مرد و عورت اور بچوں کی بڑی تعداد راستے میں ہی ختم ہوگئی۔ جو سخت جان نکلے ان کو پُرمشقّت کاموں میں لگا دیا گیا۔ جب ۵۰سال کے بعد ان جلاوطن لوگوں کو اپنے وطن واپسی کی اجازت ملی توچند ہزار ہی واپس آئے‘ مگر ان کے وطن کا نقشہ بدلا ہوا تھا۔ روسی نسل کی اکثریت ہے اور وہی سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔
۱۹۲۶ء میں وسط ایشیا کی پانچ جمہوریتوں میں مسلمانوں کی مجموعی تعداد ۷۸ فی صد تھی جو گھٹتے گھٹتے ۱۹۶۵ء میں ۳۵ فی صد رہ گئی۔ روسیوں کی اکثریت ہوگئی اور مسلمان اقلیت میںآگئے۔ قازقستان کی ۱۰۰ فی صد مسلم آبادی اتنی گھٹ گئی کہ صرف ۲۹ فی صد رہ گئی۔ ۷۰ سے ۸۰ فی صد روسی اور یوکرینی ان علاقوں پر قابض ہوگئے۔
۱- روسیوں اور روسی حدود میں بسنے والے اہلِ یورپ کو لاکھوں کی تعداد میں وسط ایشیا کے مختلف ملکوں میںمنتقل کردیا گیا۔
۲- مقامی مسلمانوں کی اکثریت اور ان کے مختلف قبائل کو مختلف الزامات لگاکر سائبیریا اور دُور دراز خطوں میں جلاوطن کردیا گیا۔ اس طرح لاکھوں انسان ہلاک ہوگئے۔ قازقستان کے مسلمانوں کی اجتماعی نسل کشی کا اندازہ اس سے کیاجاسکتا ہے کہ ۱۹۲۶ء کی مردم شماری کے مطابق ان کی آبادی ۴۰ لاکھ تھی‘ ۱۹۳۹ء میں یہ آبادی ۲۶لاکھ اور ۱۹۵۹ء میں ۱۵لاکھ رہ گئی۔ آبادی میں وہ اضافہ بھی نہیں ہوا جو فطری طور پر ہوا کرتا ہے۔
شیشان‘ انگوش کروشائی‘ بلکار اور کریمیا کے مسلمانوں کا حشر اس سے بدتر ہوا۔ اسی طرح بشکیریا کی پوری آبادی ۳لاکھ تھی‘ ان سب کو انتہائی مختصر وقت میں مردوں کو الگ اور عورتوں کو الگ ٹرین میں بٹھا کر سائبیریا بھیج دیا گیا۔ جب ۱۹۵۹ء میں ان علاقوں کے اصل باشندوں کو سائبیریا سے واپسی کی اجازت دی گئی تو ۵ ہزار سے زیادہ تعداد نہ تھی‘ ان کی جایداد پر روسی قابض تھے۔
امیر شکیب ارسلان ۱۹۲۱ء میں روس گئے تھے۔ ان کے ایک سوال کے جواب میں روسی پارلیمنٹ کے اسپیکر نے بتایا کہ روس میں مسلمانوں کی تعداد ساڑھے تین کروڑ ہے‘ لیکن ۱۹۵۹ء کی مردم شماری میں روسی مسلمانوں کی تعداد ۲کروڑ ۴۲ لاکھ رہ گئی۔
مسلمانوں کی اجتماعی نسل کشی کے علاوہ ان کے خاندانی شیرازے کو منتشر کرنے کے لیے سخت قوانین بنائے گئے۔ تعلیم کے تیزاب میں ان کے اسلامی سانچے کو ختم کردیا گیا۔ ان کی مخصوص شناخت کو ختم کرنے کے لیے ایک طاقت ور اور مطلق العنان اور سفاک و جابر سلطنت جو کچھ کرسکتی ہے وہ سب اس نے اختیار کیا‘ اور اپنے طور پر یہ تصور کرلیا کہ روسی سلطنت میں کوئی مسلمان اب مسلمان نہیں رہا۔ ۷۰ سال سے زائد ظلم و سفاکی کی چکی پورے زور وشور سے چلتی رہی‘ لیکن کاغذ کی یہ کشتی جب چلتے چلتے ڈوبنے لگی اور ظلم کی ٹہنی نے پھل دینے سے انکار کردیا تو یہ حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ مسلمان اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ زندہ ہیں‘ آبادی گھٹ رہی ہے اور مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے۔ سیاسی‘ اقتصادی‘ فوجی اور اخلاقی اعتبار سے سوپرپاور روس خود اپنا جنازہ اپنے کاندھوں پر اٹھانے کے قابل نہیں رہا‘ اس کو ایک طاقت ور سہارے کی ضرورت ہے۔
انسانیت کے ان مجرموں نے جو خوں ریز ڈراما کھیلا تھا‘ ۷۰ سال کے بعد اس پر سے پردہ اٹھا تو کروڑوں انسان تباہ وبرباد ہوچکے تھے‘ انسانی تہذیب و ثقافت کا جنازہ نکل چکا تھا‘ افغانستان میں ذلت آمیز شکست نے اس کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔ آج کل ماہرین اسی اشتراکی سلطنت کی لاش کا پوسٹ مارٹم کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں یہاں مختصراً ایک تجزیہ پیش کیا جارہا ہے۔ ۷۰سال کے بعد روس کی روسیاہی دیکھ کر آپ کو یقین آجانا چاہیے کہ سوپرپاور امریکا اور اس کی حلیف طاقتوں کا بھی یہی حشر ہونے والا ہے بلکہ عراق پرحملے سے اس کا آغاز بھی ہوچکا ہے۔
۲۰۰۵ء میں‘ ماسکو میں‘ روسی ماہرین کی کانفرنس اس بات پر غور کرنے کے لیے ہوئی تھی کہ روس کے اقتصادی اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے وسائل کیسے مہیا کیے جائیں۔ ماہرین نے اعداد وشمار کی روشنی میں سب سے پہلے اس تلخ حقیقت کی طرف اشارہ کیا کہ ۱۹۹۲ء سے ۲۰۰۵ء تک کی مدت میں روس کی آبادی میں ۹۰ لاکھ کی کمی ہوگئی۔ اس آبادی میں ۳۵ لاکھ ان لوگوں کی ہے جن کی عمریں ۱۶سال سے کم ہیں۔ اس طرح پورے ملک میں صرف ۱۱ لاکھ وہ خواتین ہیں جو بچے پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ آبادی میں اس غیرمعمولی کمی کی وجہ سے ہرسال ۱۱ ہزار بستیاں اور ۲۹۰ شہر روسی نقشے سے غائب ہورہے ہیں۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ جغرافیائی اعتبار سے ۱۲ہزار بستیاں نقشے میں تو موجود ہیں‘ وہاں مکانات بھی ہیں لیکن آبادی سے بالکل خالی ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق ہر روز عملی لحاظ سے دوبستیاںویران ہورہی ہیں۔ ماہرین نے اس آبادی میں کمی کے جو ظاہری اسباب بتائے ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں:
امریکی دانش ور پیٹرک بیوکانن نے امریکی معاشرے میں مرنے والوں کی کثرت اور پیدا ہونے والوں کی قلت کا تجزیہ کرکے یہی نتیجہ اخذ کیا ہے اور خبردار کیا ہے کہ اگر امریکیوں کی تعداد اس طرح گھٹتی رہی تو ۵۰سال کے اندر امریکا پر مشرق کے کالے حکمرانی کریں گے۔ اس نے روس و اسرائیل اور یورپ کے بارے میں یہی پیشن گوئی کی ہے۔ غالباً یہی خوف ہے جو امریکا اور اس کے حلیفوںکے دل و دماغ پر حاوی ہے۔
جو روسی خواتین بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں ان کی عمریں ۱۵ سے ۴۸ سال کے درمیان ہے۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق روس میں ۱۰ لاکھ خواتین ہمیشہ کے لیے بانجھ ہوچکی ہیں۔ قصبات اور دیہاتوں کو ان میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ خواتین کے بالمقابل جو روسی مرد بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں ان کی تعداد ۵۰لاکھ ہے۔ روسی ذرائع کے مطابق ۱۵ ہزار روسی خاندان طبی اعتبار سے بچے پیدا کرنے کے قابل نہیں۔ ۶۹ فی صد ایسے خاندان ہیں جوایسے مختلف جسمانی امراض میں مبتلا ہیں جو اولاد پیدا کرنے میںمانع ہیں۔
دوسری طرف ناجائز بچوں کی کثرت نے بھی روسی معاشرے کو نئے نئے مسائل سے دوچار کردیا ہے۔ روسی وزارت داخلہ کے پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق ۲۵ لاکھ بچے سڑکوں پر آوارہ گردی کرتے ہیں۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہوا کہ ان کی تعلیم کا کوئی انتظام نہیں۔ ۷۰ لاکھ بچے یتیم خانوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ روس اور مغربی ملکوں میں ایسے بچوں کو بھی یتیموں میں شمار کیاجاتا ہے جن کو والدین پیدا کرکے چھوڑدیتے ہیں۔ اعداد وشمار یہ بھی بتاتے ہیں کہ روس میں ناجائز بچوں کا تناسب ۴۰ فی صد ہے۔ ہرسال اس میںاضافہ ہوتا رہتا ہے۔ مثال کے طور پر ۱۹۸۹ء میں ان کا تناسب ۲۰ فی صد تھا جو ۲۰۰۰ء میں ۲۸ فی صد اور ۲۰۰۵ء میں ۴۰ فی صد ہوگیا۔
روس کے چوٹی کے ڈاکٹر کا‘ جو بچوں کے امراض کا ماہر ہے‘ کا کہنا ہے کہ ۵۹ فی صد بچے پیدایش کے بعد ہی سے صحت کی خرابی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ خواتین کو مناسب غذا نہیں ملتی۔ دوسری بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ خواتین منشیات کی عادی ہوتی ہیں۔ دوران حمل شراب و سگریٹ کی کثرت کی وجہ سے بچوں پر مضر اثرات ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر ولاڈیمیر کا کہنا ہے کہ معذور بچوں کی تعداد بھی بڑھتی جارہی ہے۔ اس وقت ۶ لاکھ ۴۲ ہزار بچے اپاہج اور معذور ہیں۔ ۱۰ہزار ایسے بچے ہیں جو ایڈز سے متاثر والدین سے پیدا ہونے کی وجہ سے مریض ہیں۔
پیٹرک بیوکانن نے اپنی فکرانگیز کتاب مغرب کی موت میں امریکا اور مغربی ممالک کی آبادی میں غیرمعمولی کمی کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ امریکا اور مغربی ملکوں کو فی الحال چار محاذوں پر سنگین خطرات واضح طور سے درپیش ہیں:
پہلی بات جو انتہائی سنگین اور دُور رس نتائج کی حامل ہے وہ یہ ہے کہ ان ملکوں کی آبادی ختم ہورہی ہے۔ دوسرا سنگین مسئلہ یہ ہے کہ اجتماعی طور پر مختلف قوموں نے ہجرت کر کے ان ملکوں کو اپنا مسکن بنالیا ہے۔ یہ مہاجرین ایسے ہیں جو مختلف رنگ و نسل اور عقائد و مذاہب اور ثقافت و تہذیب سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کی وجہ سے مغرب کی شناخت ہمیشہ کے لیے تبدیل ہوکر رہ جائے گی۔ تیسرا بڑا سنگین خطرہ یہ ہے کہ یہ مہاجرین مغرب کی ثقافت و تہذیب کے دشمن ہیں‘اور مغرب کے عقائد و ادیان اور اخلاق کے کٹر دشمن ہیں۔ اس صورت حال نے مغربی ملکوں کو انتشار و پراگندگی سے دوچار کردیا ہے۔ چوتھا سنگین خطرہ یہ ہے کہ مغربی قوموں میں اتحاد و اتفاق کا فقدان ہے اور جو لوگ اپنے کو دانش ور اور مفکر کہتے ہیں وہ ایک عالمی حکومت کا خواب دیکھ رہے ہیں لیکن یہ اس وقت ہوگا جب مغرب کا خاتمہ ہوچکا ہوگا۔
بیوکانن اس حقیقت کا اعتراف کرتا ہے کہ ہم واضح طور پر یہ متعین نہیں کرسکتے کہ مغرب کا زوال اتنی تیزی سے کیوں ہو رہا ہے؟ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ مغربی قائدین و مفکرین کا اعتماد خود اپنی تہذیب پر سے اُٹھ چکا ہے؟ میری راے میں مغربی ملکوں کے زوال کے اسباب میں ایک بنیادی سبب دین و مذہب سے لاتعلقی اور حد سے بڑھی ہوئی مادی تعیش اور لذتیت میں انہماک ہے۔ بیوکانن نے اپنی کتاب کے آغاز میں ہی مغرب کی جنسی بے راہ روی اور بداخلاقی کے عمومی رواج کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بے قید زندگی کا دوسرا نتیجہ انسانی نسل کی کمی کی صورت میں سامنے آیا۔ جب اخلاقی نظام کی کمزور عمارت منہدم ہوگئی تو اسقاطِ حمل اور طلاق نے وبا کی شکل اختیار کرلی۔ شوہر اور بیوی کی خیانت عام ہوگئی‘ عورت کا وجود صرف لذت کے لیے رہ گیا‘ بچوں کی پیدایش کو مصیبت سمجھا جانے لگا۔ ایک برطانوی مصنفہ کٹرینا رانسگی کے اقتباس کا حوالہ دیتے ہوئے بیوکانن لکھتا ہے کہ صاف بات یہ ہے کہ جب سے مغرب میں عورت اور مرد کے درمیان مساوات کا نعرہ لگایا گیا‘ اسی وقت سے یہ بات طے ہوگئی کہ مغربی قوموں کی موت کا وقت قریب ہے۔
بیوکانن نے روسی آبادی میں کمی کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کارل مارکس نے جو غیرفطری نظام روس پر مسلط کیا تھا‘ اس کا لازمی نتیجہ یہی ہونا چاہیے تھا کہ روس کی آبادی میں غیرمعمولی کمی ہوجائے۔ اس لیے کہ اشتراکی نظام میں خاندان کا بنیادی تصور ہی نہیں تھا۔ مردوں کو الگ رکھا جاتا اور خواتین کو الگ‘ جو بچے پیدا ہوتے انھیں سرکاری نرسنگ ہوم میں رکھا جاتا۔ اس کا لازمی نتیجہ صرف ۶۰ سال کے اندر یہ سامنے آگیا کہ روس کی آبادی میں تیزی سے زوال آیا۔ صورت حال اتنی سنگین ہوگئی ہے کہ اگر اسی طرح سے روس کی آبادی گھٹتی رہی تو ۲۰۵۰ء تک ایشیا کے نقشے سے غائب ہوجائے گا‘ جو روسی باقی رہیں گے بھی وہ مغربی اورال کے علاقے میں ہوں گے یا پھر مشرقی یورپ ہجرت کرچکے ہوں گے۔ ان کی جگہ مسلمان لیں گے جن کی تعداد بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ بیوکانن کے تصور اور تحقیق کے مطابق مراکش سے خلیجی ملکوں تک ترک عرب سمندر کی موجیں سر اُٹھا رہی ہوں گی‘ کم سے کم اس پورے علاقے کی تعداد ۵۰۰ ملین مسلمانوں کی ہوگی۔ جنوبی ایشیا میں ایرانی‘ پاکستانی‘افغانی اور بنگلہ دیشی ملاکر ۷۰۰ ملین مسلمان ہوں گے۔ انڈونیشیا کے ۳۰۰ ملین مسلمان کے ساتھ بھارت‘ ملایشیا اور چین میں موجود مسلمانوں کو بھی ملا لیجیے کہ ان کی تعداد کتنی ہوتی ہے‘ اور ۲۰۵۰ء میں صورت کیا ہوجائے گی۔
روس کی آبادی میں غیرمعمولی کمی کے اسباب کا تجزیہ کرتے ہوئے روسی پارلیمنٹ کا رکن ڈاکٹر شامل سلطانوف لکھتا ہے کہ جہاں تک روس کا تعلق ہے وہ اقتصادی‘ سماجی‘ ثقافتی و تہذیبی اعتبار سے مغربی دنیا کا ایک جز ہے۔ روسی قوم کی شناخت کا مسئلہ بڑا پیچیدہ بن گیا ہے‘ چونکہ ۱۹۶۰ء کے بعد سے مغربی کلچر میں اس نے اپنے کو پوری طرح ضم کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا‘ اس لیے مغربی ملکوں ہی کی طرح روسیوں کا بھی ذہن کام کرنے لگا۔ دوسری طرف جو مشکلات پیش آئیں وہ یہ تھیں کہ جن قوموں کو اشتراکی نظام نے زبردستی ان کی سرزمین سے نکال دیا تھا وہ ۱۹۶۰ء کے بعد اپنے اپنے علاقوں میں واپس آنے لگیں‘ ان کی آبادی بڑھنے لگی۔ اس لیے کہ وہ اپنے خاندانی شیرازے کو کسی نہ کسی حد تک باقی رکھنے میں کامیاب رہے تھے۔
روسی اتحاد کا شیرازہ بکھرنے سے اخلاقی اور اقتصادی بدحالی نے کمزور و ناتواں روسی ڈھانچے کو توڑ کر رکھ دیا۔ غیرمعمولی اقتصادی بدحالی سے مجبور ہوکر ہزاروں خاندان ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ فوج اور کارخانوں میں کام کرنے کے لیے آدمی نہیں مل رہے ہیں۔ سب سے بدتر حالت فوج کی ہے کہ صحت کی خرابی‘ اقتصادی بدحالی کی وجہ سے وبائی شکل اختیار کرچکی ہے۔ فوج میں بھرتی کے قابل نوجوانوں کی شدید کمی ہے۔ فوج میں مختلف مناصب کی ۵۰ ہزار سے زائد جگہیں چھے سال سے خالی ہیں۔ کارخانوں اور دفاتر میں مردوں کے بجاے عورتوں کی کثرت ہے۔ وہ بھی صحت کی خرابی کی وجہ سے پورے وقت کام کرنے سے معذور ہیں۔ سب سے زیادہ چھٹیاں خواتین ہی لیتی ہیں۔ اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ ۲۰۱۰ء میں روس کو ہرسال ۷ لاکھ کام کرنے والے باہر سے منگوانے پڑیں گے۔ اس کے ۲۵ سال بعد ۵ ملین کام کرنے والوں کی ضرورت ہوگی تاکہ روز مرہ کی زندگی سے متعلق بنیادی کام انجام دیے جائیں۔ اس صورت حال نے روسی مفکرین کو حیران کردیا ہے کہ صرف روسی آبادی ہی کم نہیں ہو رہی ہے بلکہ کام کرنے والے آدمی بھی غیرمعمولی حد تک کم ہوئے جارہے ہیں۔
روسیوں کی صحت جسمانی اعتبار سے ہی خراب نہیں بلکہ نفسیاتی‘ ذہنی اور اعصابی امراض کی بھی ان میں کثرت ہے۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق صرف مرکزی شہروں کا حال یہ ہے کہ ۳لاکھ روسی پاگل خانوں میں ہیں۔ ۸ لاکھ ہمیشہ نفسیاتی علاج کے لیے طبی مراکز سے رجوع کرتے رہتے ہیں۔ تقریباً ۵۰ فی صد روسی ذہنی اور اعصابی امراض کا شکار ہیں۔ روسیوں کی عمر کا تجزیہ کرتے ہوئے ماہرین نے لکھا ہے کہ تقریباً ہر روسی اپنی عمر کے ۱۰ سال صرف اس فکر میں گزاردیتا ہے کہ اس کا مرض کیا ہے‘ اور وہ کیوں ان بیماریوں کا شکار ہے‘ اور ان امراض سے نجات کیسے پاسکتا ہے؟ سرکاری اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ ہرسال ۶۰ ہزار روسی خودکشی کرلیتے ہیں۔ یہ تعداد ان کے علاوہ ہے جو سڑک کے حادثوں میں مرتے ہیں۔
روس میں منشیات کے استعمال کی کثرت نے بھی آبادی کو غیرمعمولی طور پر متاثر کیا ہے‘ بلکہ ماہرین نے اس کا اعتراف کیا ہے کہ مردوں اور عورتوں میں احساسِ کمتری اور زندگی کے بے مقصد ہونے اور کسی سماجی و اخلاقی نظام سے مربوط نہ ہونے کی وجہ سے روسی شراب ان کی زندگی کا جز بن گئی ہے۔ ۳۰ فی صد مرد منشیات کی وجہ سے جلد زندگی سے ہاتھ دھو لیتے ہیں۔
ڈاکٹر شاملی سلطانوف اور ڈاکٹر فلاڈیمیر (ماہر امراض اطفال) دونوں کا تجزیہ یہ ہے کہ جو بچے پیدا ہورہے ہیں ان کی بڑی تعداد جسمانی ‘ ذہنی اور نفسیاتی امراض کی شکار ہوتی ہے۔ ان بچوں میں صرف ۳۵ فی صد ہی ذہنی اور جسمانی اعتبار سے بہتر ہوتے ہیں۔ ۳۸ فی صد تعداد ایسی ہے جو ذہنی اور جسمانی نشوونما کے اعتبار سے ناقص ہوتی ہے‘ اور یہ لوگ مستقل معذوروں اور اپاہجوں میں شمار کیے جانے لگتے ہیں۔ معذور ہونے کی وجہ سے مافیا کے لوگ ان بچوں کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ روسی شاہراہوں پر کم سن بچے اور بچیوں کو بڑی تعداد میں گداگری کرتے یا چوری و فریب دہی اور جیب تراشی میں مصروف دیکھا جاسکتا ہے۔ حکومت کے پاس وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں۔ رفاہی اداروں اور سماجی تنظیموں کا وجود ہی نہیں جو ان معذور اور آوارہ گرد بچوں کی طرف توجہ کرے‘ البتہ غیرسرکاری تنظیموں نے جن کا تعلق یورپ و امریکا سے ہے‘ مختلف ایجنسیوں کے ذریعے جب اپنی نگرانی میں انھیں لیا تو اندازہ ہوا کہ ان کے جسمانی اور نفسیاتی امراض پر اخراجات غیرمعمولی ہورہے ہیں‘ اور جن مقاصد (عیسائیت کی تبلیغ اور فوج میں بھرتی) کے لیے ان کو لایا گیا تھا ‘ان میں وہ مفید ثابت نہیں ہو رہے ہیں اور نہ کارخانوں میں کام کے لائق ہیں۔
دونوں ڈاکٹروں نے روسی بچوں کی جسمانی اور عقلی صحت کا تجزیہ کرتے ہوئے اس کی بنیادی وجہ یہ بتائی کہ عام طور سے روسی خواتین منشیات (سگریٹ اور شراب نوشی)‘ نیزدورانِ حمل انگریزی ادویات کے استعمال اور ازدواجی زندگی کے ناہموار ہونے کی وجہ سے خود بھی مختلف امراض کا شکار ہوتی ہیں‘ اس لیے لازمی طور پر روسی بچے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ دوسری طرف مغربی ممالک جن سنگین غیرفطری امراض میں مبتلا ہیں‘ یعنی ایڈز وغیرہ یہ بھی اب پھیل رہا ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ روسی مردوں کی قوت مردانگی خطرناک حدتک کم ہوگئی ہے۔ اس میں جہاں غذائی نظام کا دخل ہے وہیں اخلاقی امراض کی کثرت اور اعصابی و نفسیاتی خلل کا بھی دخل ہے۔ روس اور مغربی ملکوں میں نامردوں کا تناسب ۸۰ فی صد تک پہنچ چکا ہے۔ ماہرین نے جائزہ لے کر بتایا ہے کہ مغربی ملکوں ہی کی طرح ۳۰ اور ۴۰ سال کی عمر کے درمیان مردوں کے اندر بچے پیدا کرنے کی صلاحیت ختم ہو رہی ہے۔ ان ماہرین نے بتایا ہے کہ فحاشی اور بے حیائی اور جنسی انارکی کے واقعات جہاں بھی زیادہ ہیں وہاں کے مردوں کی مردانگی اور عورتوں کی نسوانی خصوصیت تیزی سے ختم ہوجاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ خاندانی نظام کا شیرازہ بکھرجانے کی وجہ سے بچوں کی پیدایش اوران کی تعلیم و تربیت کو بوجھ سمجھ لینے کی بنا پر بھی مغربی ملکوں کی طرح روسی معاشرے پر اثر ہوا۔
روسیوں نے چونکہ مغربی طرز زندگی کواختیار کرلیا ہے اس لیے انھیں بھی انسانوں کے بحران کا سامنا ہے۔ ان کو سب سے زیادہ تشویش یہ ہے کہ روس دنیا کے نقشے پر کیسے باقی رہے گا‘ اس کی فوج دن بدن کم ہو رہی ہے‘ بڑی تعداد میں لوگ نقل مکانی کر رہے ہیں‘ اور جو ہیں‘ ان سے سوپرپاور کا بھرم کیسے باقی رہے گا!
سوپر پاور کی قوت ختم ہونے اور جزوی طور پر مسلمان جمہوریتوں کے آزاد ہونے کے بعد مسلمانوں کی شرح پیدایش میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ۱۰ سال کے اندر حیرت انگیز طریقے سے مسلمانوں کی شرح پیدایش میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔ اس اضافے نے مغربی مفکرین کو بھی چونکا دیا ہے‘ اور وہ یہ پیش گوئی کرنے لگے ہیں کہ ۲۰۵۰ء تک مسلمانوں کی تعداد روسیوں سے دوگنی ہوجائے گی اور وہی کلیدی عہدوں پر ہوں گے۔
روسی مفکرین کا تجزیہ ہے کہ اگرچہ اقتصادی حالات اچھے نہیں ہیں‘ سیاسی استقرار بھی نہیں ہے‘ پھر بھی مسلمانوں کا خاندانی شیرازہ منظم ہے اور اخلاقیات کا پابند بھی۔ جو لوگ ۱۰ سال پہلے تک ملحد اور بے دین تھے اور حکومت کے جبر کی وجہ سے اسلام سے الگ تھلگ تھے وہ اب پوری آزادی سے دین کی طرف واپس آرہے ہیں۔ عورتوں میں پہلے سے زیادہ دین داری آگئی ہے‘ مذہبی شعائر کی ادایگی میں وہ مردوں سے آگے رہتی ہیں۔ انھوں نے اقتصادی تنگی کے باوجود گھر میں رہ کر بچوں کی تربیت کو ترجیح دی ہے‘ نیز گھروں اور اپنے محلے میں موجود انجمن کے مراکز اور مساجد میں دینی تعلیم میں مشغولیت کو اپنے لیے پسند کیا ہے۔ وہ مغربی لباس کے بجاے اسلامی لباس کو پسندکرتی ہیں۔ ان کے طرزِ زندگی میں بڑی تیزی سے انقلاب آرہا ہے۔ نوجوانوں کی ایک تعداد شام و مصر‘ سعودی عرب اور یمن میں دینی تعلیم کے اسلامی مراکز کا رخ کر رہی ہے۔ اسلامی لٹریچر کی عرب ملکوں سے آمد نے مسلمانوں کے اندر خوداعتمادی پیدا کی ہے۔ وہ بڑے پیمانے پر ویران مساجد کو آباد کرنے لگے ہیں۔ اقتصادی پریشانی کے باوجود مساجد اورمدارس پر وسائل صرف کر رہے ہیں‘ اور حج کے ذریعے بھی عالمِ اسلام سے اپنا رابطہ مضبوط کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ترکی کے ذریعے ٹی وی پروگرام اور اسلامی تاریخ اور اسلام کے مجاہدین‘ مجددین و مصلحین سے متعلق سیریز ان تک پہنچ رہے ہیں۔ اس سے مسلمانوں میں دینی شعور بیدار ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ خود روسیوں میں اسلام قبول کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے‘ جب کہ روسی خواتین میں مردوں کے مقابلے میں اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے۔ (بہ شکریہ: تعمیرحیات‘ لکھنؤ‘ ستمبر ۲۰۰۶ئ)