مجرم کے لیے دنیا میں قصاص ہے اور آخرت میں عذاب ۔مجرم اس قصاص اور عذاب کے درمیان ایسے پستا ہے جیسے چکی کے دو پاٹوں کے درمیان گیہوں۔ہمارا رب تو کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ وہ تو بڑا رحیم و مہربان ہے ۔اللہ نے اپنے رسولوں کو بشیر ونذیر بنا کر بھیجا ہے اور ہر نبی و رسول نے سب سے پہلے اپنے گھر والوں اوراپنے قریب ترین لوگوں کو ڈرایا اور آگاہ کیا اور انھیں صاف صاف کہہ دیا کہ برائیوں سے بچو‘ میں خدا کے حضور تمھارے کسی کام نہ آ سکو ں گا ۔قیامت کے روز باپ بیٹا ایک دوسرے کے کام نہ آسکیں گے‘کوئی رشتہ ڈھال نہ بن سکے گا‘وہاںتواعمال کا محاسبہ ہوگا اور میزان کھڑی کی جا ئے گی : ’’اور ہم نے ہرانسان کے اعمال کو (بہ صورت کتاب)اس کے گلے میں لٹکادیا ہے اور قیامت کے روز وہ کتاب اسے نکال دکھائیں گے‘جسے وہ کھلا ہو ادیکھے گا‘‘ (بنی اسرائیل۱۷:۱۳)۔ وہاں کسی کی ذرہ برابر نیکی بھی رائیگاں نہیں جائے گی۔لیکن جس نے رتی بھر برائی کی ہو گی وہ اسے بھی دیکھ لے گا۔
مگر افسوس کہ ہم اپنی زندگی میں ان تمام حقائق سے واقف لیکن یکسر غافل رہتے ہیں۔ ہمارے کان‘ ہماری آنکھیں‘ ہمارے ہاتھ‘ ہمارے پاؤں اور ہمارے دل و دماغ سب ہماری خواہشات کی تکمیل میں لگے رہتے ہیں۔ زر اندوزی ہمارا مطمح نظر بن جاتاہے ‘خواہ حلال طریقے سے ہو یا حرام ذریعے سے ۔کوئی تمیزنہیں رہتی۔ نہیں جانتے کہ ہم اپنے ہی ہاتھوں اپنے لیے تباہی کا گڑھا کھود رہے ہیں‘اور یہ کہ ہم اپنی بدبختی کے خود ہی ذمہ دار ہیں۔اللہ تعالی نے ہمارے لیے ان بہت سے لوگوں کی مثالیں بیان فرمائی ہیں جو ہم سے قوت وطاقت میں کہیں زیادہ تھے۔ ان کے پاس مال ودولت کی بہتات تھی مگر وہ اس سب کے باوجود نشانِ عبرت بن کر رہ گئے:
جب وہ ہمارے سامنے حاضر ہوں گے اس روز تو ان کے کان بھی خوب سُن رہے ہوں گے اور اُن کی آنکھیں بھی خوب دیکھتی ہوں گی‘ مگر آج یہ ظالم کھلی گمراہی میں مبتلا ہیں۔ اے نبیؐ، اِس حالت میں‘ جب کہ یہ لوگ غافل ہیں اور ایمان نہیں لارہے ہیں‘ انھیں اُس دن سے ڈرا دو‘ جب کہ فیصلہ کردیا جائے گا اور پچھتاوے کے سوا کوئی چارئہ کار نہ ہوگا۔(مریم ۱۹:۳۸-۳۹)
ہاں‘ جس روز یہ لوگ خداے قہارو جبار کے حضور پیش ہوں گے ‘اس دن ان سرکشوں‘ جابروں‘ قاتلوں‘مجرموں اور غاصبوں کا حال کون نہ دیکھے گاکہ ان کی گردنوں میں ذلت وخواری کے طوق ہوں گے‘پائوں میں بے بسی کی زنجیریں اور ہاتھوں میں ناکامی ورسوائی کی ہتھکڑیاں ہوں گی۔ان پر لعنت برس رہی ہو گی۔ان کے گناہوں نے انھیں ہر طرف سے گھیر رکھا ہوگا‘اور یہی نہیں‘وہ ایک دوسرے پر بھی لعنت بھیج رہے ہوں گے:
وَلَوْ تَرٰٓی اِذِ الظّٰلِمُوْنَ مَوْقُوْفُوْنَ عِنْدَ رَبِّھِمْ ج یَرْجِعُ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضِ نِ الْقَوْلَ ج یَقُوْلُ الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِلَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْا لَوْلَا ٓ اَنْتُمْ لَکُنَّا مُؤْمِنِیْنَ o قَالَ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْا لِلَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْٓا اَنَحْنُ صَدَدْنٰکُمْ عَنِ الْھُدٰی بَعْدَ اِذْ جَآئَ کُمْ بَلْ کُنْتُمْ مُّجْرِمِیْنَ o (السبا ۳۴: ۳۱-۳۲) کاش! تم دیکھو اِن کا حال اُس وقت جب یہ ظالم اپنے رب کے حضور کھڑے ہوں گے۔ اُس وقت یہ ایک دُوسرے پر الزام دھریں گے۔ جو لوگ دنیا میں دبا کر رکھے گئے تھے وہ بڑے بننے والوں سے کہیں گے کہ ’’اگر تم نہ ہوتے تو ہم مومن ہوتے‘‘۔ وہ بڑے بننے والے اِن دبے ہوئے لوگوں کو جواب دیں گے ’’کیا ہم نے تمھیں اُس ہدایت سے روکا تھا جو تمھارے پاس آئی تھی؟ نہیں‘ بلکہ تم خود مجرم تھے‘‘۔
اس روز عذاب صرف جابروں اور سرکشوں کو ہی نہیںہو گا بلکہ ان کے ساتھ ساتھ وہ بزدل بھی شریک ہو ں گے جنھوں نے ظلم وتعدی کے خلاف اقدام سے گریز کیا تھا ۔جو پستی پر رضامند ہوگئے تھے اور یوں وہ خدا کے باغیوں کے دست و بازو بن گئے تھے۔
اس دن حق کا منادی پکار پکار کر کہے گا: کہاں ہیں وہ لوگ جو کہا کرتے تھے ’’ہم بہت سا مال واولاد رکھتے ہیں ‘ہم کو عذاب نہیں ہو گا‘‘۔ کہاں ہیں وہ متکبر ‘جنھوں نے اللہ کی عظمت وکبریائی کے سامنے خود کو بڑا سمجھنے کی جسارت کی۔کہاںہیں وہ مجرم جنھوںنے بے گناہوں کو قتل کیا‘ جنھوں نے سازش کر کے بھائی کو بھائی سے لڑا دیا۔ جنھوں نے ایک خدا‘ایک رسولؐ اور ایک کتاب کو ماننے والوں سے ایک دوسرے کے گلے کٹوائے۔جنھوں نے معصوموں کی جان لی۔ کہاں ہیں وہ بے حس اور ننگِ انسانیت ‘انسان نما درندے جنھوں نے روے زمین کو نفرت وآتش و آہن سے بھر دیا۔کہاں ہیں وہ جنھوں نے کلمۂ حق اور قول صداقت کو جھوٹ اور افترا قرار دیا۔کہاں گئے وہ لوگ جو یہ سمجھتے تھے کہ وہ ہمارے سامنے پیش نہیں ہو ں گے۔
ہاں‘ حق کا منادی پکار پکار کر کہے گا:’’آج حسرت وندامت کا دن ہے اور آج انھیں ان کے کرتوتوں کی مکمل سزامل کر رہے گی‘‘۔
آج کے اس مظلوم ملک پاکستان کو انھی مجرموں ‘خائنوں‘بد کرداروں‘ظالموں اور قاتلوں کا سامنا ہے۔بے گناہ اور معصوم ظلم وتشدد کا نشانہ بن رہے ہیں اور اُن کی اغراض پوری ہورہی ہیں ۔
لیکن کیا مجرم بچ جائیں گے؟ مجرم بھاگ کر کہاں جاسکیں گے؟خداے ذوالجلال مہلت کا وقفہ ضرور دیتا ہے۔وہ رسی تو دراز کردیتا ہے تاکہ ہر ظالم اپنا پیمانہ خوب بھر لے لیکن مہلت تو بالآخر ختم ہو جاتی ہے۔مجرم کی دراز رسی ہی اس کے گلے کا پھندا بن جاتی ہے۔پیمانہ لبریز ہوتے ہی خدا مجرم کو پکڑ لیتا ہے:
وَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰہَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ ط اِنَّمَا یُؤَخِّرُھُمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیْہِ الْاَبْصَارُ o مُھْطِعِیْنَ مُقْنِعِیْ رُئُ وْسِھِمْ لَا یَرْتَدُّ اِلَیْھِمْ طَرْفُھُمْ ط وَاَفْئِدَتُھُمْ ھَوَآئٌ o (ابراھیم ۱۴:۴۲-۴۳) اب یہ ظالم لوگ جو کچھ کررہے ہیں‘ اللہ کو تم اس سے غافل نہ سمجھو۔ اللہ تو انھیں ٹال رہا ہے اُس دن کے لیے جب حال یہ ہوگا کہ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی ہیں‘ سر اُٹھائے بھاگے چلے جارہے ہیں‘ نظریں اُوپر جمی ہیں اور دل اُڑے جاتے ہیں۔