دسمبر۲۰۰۶

فہرست مضامین

حدود قوانین میں ترمیم - ایک مطالعہ

جسٹس(ر) مولانا محمد تقی عثمانی | دسمبر۲۰۰۶ | فقہ و اجتہاد

Responsive image Responsive image

حال ہی میں ’تحفظ خواتین‘ کے نام سے قومی اسمبلی میں جو بل منظور کرایا گیا ہے، اس کے قانونی مضمرات سے تو وہی لوگ واقف ہوسکتے ہیں جو قانونی باریکیوں کا فہم رکھتے ہوں، لیکن عوام کے سامنے اس کی جو تصویر پیش کی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ حدود آرڈی ننس نے خواتین پر جو بے پناہ مظالم توڑ رکھے تھے، اس بل نے اُن کا مداوا کیا ہے، اور اس سے نہ جانے کتنی ستم رسیدہ خواتین کو سکھ چین نصیب ہوگا۔ یہ دعویٰ بھی کیا جارہا ہے کہ اس بل میں کوئی بات قرآن و سنت کے خلاف نہیں ہے۔

آئیے ذرا سنجیدگی اور حقیقت پسندی کے ساتھ یہ دیکھیں کہ اس بل کی بنیادی باتیں کیا ہیں؟ وہ کس حد تک اِن دعوؤں کے ساتھ مطابقت رکھتی ہیں؟

پورے بل کا جائزہ لیا جائے تو اس بل کی جوہری (substantive)باتیں صرف دو ہیں:

۱- پہلی بات یہ ہے کہ زنا بالجبر کی جو سزا قرآن و سنت نے مقرر فرمائی ہے ، اور جسے اصطلاح میں ’حد‘کہتے ہیں، اُسے اس بل میں مکمل طور پر ختم کردیا گیا ہے۔ اس کی رُو سے زنابالجبرکے کسی مجرم کوکسی بھی حالت میں وہ شرعی سزا نہیں دی جاسکتی، بلکہ اُسے ہر حالت میں تعزیری سزا دی جائے گی۔

۲- دوسری بات یہ ہے کہ حدود آرڈی ننس میں جس جرم کو زنا موجبِ تعزیر کہا گیا تھا،  اُسے اب ’سیاہ کاری‘ (fornication) کا نام دے کر اس کی سزا کم کردی گئی ہے، اور اس کے ثبوت کو مشکل تر بنادیا گیا ہے۔

اب ان دونوں جوہری باتوں پر ایک ایک کرکے غور کرتے ہیں:

زنا بالجبر: شرعی سزا

زنا بالجبر کی شرعی سزا (حد) کو بالکلیہ ختم کردینا واضح طور پر قرآن و سنت کے احکام کی خلاف ورزی ہے۔ لیکن کہا یہ جارہا ہے کہ قرآن و سنت نے زنا کی جو حد مقرر کی ہے، وہ صرف اس صورت میں لاگو ہوتی ہے جب زنا کا ارتکاب دو مرد و عورت نے باہمی رضا مندی سے کیا ہو، لیکن جہاں کسی مجرم نے کسی عورت سے اس کی رضامندی کے بغیر زنا کیا ہو، اس پر قرآن و سنت نے کوئی حد عائد نہیں کی۔ آئیے پہلے یہ دیکھیں کہ یہ دعویٰ کس حد تک صحیح ہے؟

قرآنی ھدایات

۱۔ قرآن کریم نے سورئہ نور کی دوسری آیت میں زنا کی حد بیان فرمائی ہے:

الزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوا کُلَّ واحِدٍ مِّنْھُمَا مِائۃَ جَلْدَۃٍ ص (النور ۲۴:۲) جو عورت زنا کرے، اور جو مرد زنا کرے، ان میں سے ہر ایک کو ۱۰۰ کوڑے لگاؤ۔

اس آیت میں ’زنا‘ کا لفظ مطلق ہے جو ہر قسم کے زنا کو شامل ہے، اس میں رضامندی سے کیا ہوا زنا بھی داخل ہے، اور زبردستی کیا ہوا زنا بھی‘ بلکہ یہ عقلِ عام (common sense) کی بات ہے کہ زنا بالجبر کا جرم رضامندی سے کیے ہوئے زنا سے زیادہ سنگین جرم ہے۔ لہٰذا اگر رضامندی کی صورت میں یہ حد عائد ہورہی ہے تو جبر کی صورت میں اس کا اطلاق اور زیادہ قوت کے ساتھ ہوگا۔

اگرچہ اس آیت میں ’زنا کرنے والی عورت‘ کا بھی ذکر ہے، لیکن خود سورئہ نور ہی میں آگے چل کر اُن خواتین کو سزا سے مستثنیٰ کردیا گیا ہے جن کے ساتھ زبر دستی کی گئی ہو، چنانچہ قرآن کریم کا ارشاد ہے:

وَمَنْ یُّکْرِھْھُنَّ فَاِنَّ اللّٰہَ مِنْم بَعْدِ اِکْرَاھِھِنَّ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo (النور ۲۴:۳۳) اور جوان خواتین پر زبردستی کرے تو اللہ تعالیٰ ان کی زبردستی کے بعد (ان خواتین کو)بہت بخشنے والا، بہت مہربان ہے۔

اس سے واضح ہوگیا کہ جس عورت کے ساتھ زبردستی ہوئی ہو، اسے سزا نہیں دی جاسکتی، البتہ جس نے اس کے ساتھ زبر دستی کی ہے ، اس کے بارے میں زنا کی وہ حد جو سورئہ نور کی آیت نمبر۲ میں بیان کی گئی تھی، پوری طرح نافذ رہے گی۔

احادیث مبارکہ

۲- ۱۰۰ کوڑوں کی مذکورہ بالا سزا غیر شادی شدہ اشخاص کے لیے ہے۔ سنتِ متواترہ نے اس پر یہ اضافہ کیا ہے کہ اگر مجرم شادی شدہ ہوتو اسے سنگسار کیا جائے گا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سنگساری کی یہ حد جس طرح رضامندی سے کیے ہوئے زنا پر جاری فرمائی، اسی طرح زنابالجبر کے مرتکب پر بھی جاری فرمائی۔

چنانچہ حضرت وائل بن حُجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک عورت نماز پڑھنے کے ارادے سے نکلی، راستے میں ایک شخص نے اُس سے زبردستی زنا کا ارتکاب کیا ۔ اس عورت نے شور مچایا تو وہ بھاگ گیا۔ بعد میں اُس شخص نے اعتراف کرلیا کہ اُسی نے عورت کے ساتھ زنا بالجبر کیا تھا ۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس شخص پر حد جاری فرمائی، اور عورت پر حد جاری نہیں کی۔

امام ترمذیؒ نے یہ حدیث اپنی جامع میں دو سندوں سے روایت کی ہے، اور دوسری سند کو قابلِ اعتبار قرار دیا ہے۔ (جامع ترمذی، کتاب الحدود‘ باب۲۲، حدیث۱۴۵۳، ۱۴۵۴)  

۳۔ صحیح بخاریؒ میں روایت ہے کہ ایک غلام نے ایک باندی کے ساتھ زنا بالجبر کا ارتکاب کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مرد پر حد جاری فرمائی، اور عورت کو سزا نہیں دی، کیونکہ اس کے ساتھ زبر دستی ہوئی تھی۔(صحیح بخاریؒ ، کتاب الاکراہ، باب نمبر۶)

لہٰذا قرآن کریم ، سنتِ نبویہ علی صاحبہاالسلام اور خلفاے راشدین کے فیصلوں سے     یہ بات کسی شبہے کے بغیر ثابت ہے کہ زنا کی حد جس طرح رضامندی کی صورت میں لازم ہے،  اسی طرح زنا بالجبرکی صورت میں بھی لازم ہے، اور یہ کہنے کا کوئی جواز نہیں ہے کہ قرآن و سنت نے زنا کی جو حد (شرعی سزا) مقرر کی ہے، وہ صرف رضامندی کی صورت میں لاگُو ہوتی ہے، جبر کی صورت میں اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔

شرعی سزا کا خاتمہ: اثرات کیا ھوں گے؟

سوال یہ ہے کہ پھر کس وجہ سے زنا بالجبر کی شرعی سزا کو ختم کرنے پر اتنا اصرار کیا گیا ہے؟ اس کی وجہ دراصل ایک انتہائی غیر منصفانہ پروپیگنڈا ہے جو حدود آرڈی ننس کے نفاذ کے وقت سے بعض حلقے کرتے چلے آرہے ہیں۔ پروپیگنڈا یہ ہے کہ حدود آرڈی ننس کے تحت اگر کوئی مظلوم عورت کسی مرد کے خلاف زنا بالجبر کا مقدمہ درج کرائے تو اُس سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ زنا بالجبر پر چار گواہ پیش کرے، اور جب وہ چار گواہ پیش نہیں کرسکتی تو اُلٹا اُسی کو گرفتار کرکے جیل میں بند کردیا جاتا ہے۔ یہ وہ بات ہے جو عرصۂ دراز سے بے تکان دہرائی جارہی ہے، اور اس شدت کے ساتھ دہرائی جارہی ہے کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ اسے سچ سمجھنے لگے ہیں، اور یہی وہ بات ہے جسے صدر مملکت نے بھی اپنی نشری تقریر میں اس بل کی واحد وجۂ جواز کے طور پر پیش کیا ہے۔

جب کوئی بات پروپیگنڈے کے زور پر گلی گلی اتنی مشہور کردی جائے کہ وہ بچے بچے کی زبان پر ہو‘تو اس کے خلاف کوئی بات کہنے والا عام نظروں میں دیوانہ معلوم ہوتا ہے، لیکن جو حضرات انصاف کے ساتھ مسائل کا جائزہ لینا چاہتے ہیں، میں انھیں دلسوزی کے ساتھ دعوت دیتا ہوں کہ وہ براہ کرم پروپیگنڈے سے ہٹ کر میری آیندہ معروضات پر ٹھنڈے دل سے غور فرمائیں۔

واقعہ یہ ہے کہ میں خود پہلے وفاقی شریعت عدالت کے جج کی حیثیت سے اور پھر ۱۷ سال تک سپریم کورٹ کی شریعت ایپلٹ بنچ کے رکن کی حیثیت سے حدود آرڈی ننس کے تحت درج ہونے والے مقدمات کی براہِ راست سماعت کرتا رہا ہوں۔ اتنے طویل عرصے میں میرے علم میں کوئی ایک مقدمہ بھی ایسا نہیں آیا جس میں زنا بالجبر کی کسی مظلومہ کو اس بنا پر سزا دی گئی ہو کہ وہ چار گواہ پیش نہیں کرسکی، اور حدود آرڈی ننس کے تحت ایسا ہونا ممکن بھی نہیں تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حدود آرڈی ننس کے تحت چار گواہوں یا ملزم کے اقرارکی شرط صرف زنا بالجبر موجب حد کے لیے تھی، لیکن اسی کے ساتھ دفعہ۱۰(۳) زنا بالجبر موجب تعزیر کے لیے رکھی گئی تھی جس میں چار گواہوں کی شرط نہیں تھی، بلکہ اس میں جرم کا ثبوت کسی ایک گواہ ، طبی معائنے اور کیمیاوی تجزیہ کار کی رپورٹ سے بھی ہوجاتا تھا۔ چنانچہ زنا بالجبر کے بیش تر مجرم اسی دفعہ کے تحت ہمیشہ سزا یاب ہوتے رہے ہیں۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ جو مظلومہ چار گواہ نہیں لا سکی ، اگر اُسے کبھی سزا دی گئی ہو تو حدود آرڈی ننس کی کون سی دفعہ کے تحت دی گئی ہوگی؟ اگر یہ کہا جائے کہ اُسے قذف(یعنی زنا کی جھوٹی تہمت لگانے) پر سزا دی گئی‘ تو قذف آرڈی ننس کی دفعہ۳ استثنا نمبر۲ میں صاف صاف یہ لکھا ہوا موجود ہے کہ جو شخص قانونی اتھارٹیز کے پاس زنا بالجبر کی شکایت لے کر جائے اُسے صرف اس بنا پر قذف میں سزا نہیں دی جاسکتی کہ وہ چار گواہ پیش نہیں کرسکا/کرسکی۔کوئی عدالت ہوش و حواس میں رہتے ہوئے ایسی عورت کو سزا دے ہی نہیں سکتی۔ دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ اُسی عورت کو رضامندی سے زنا کرنے کی سزا دی جائے، لیکن اگر کسی عدالت نے ایسا کیا ہو تو اس کی یہ وجہ ممکن نہیں ہے کہ وہ خاتون چار گواہ نہیں لا سکی، بلکہ واحد ممکن وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ عدالت شہادتوں کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچی کہ عورت کا جبر کا دعویٰ جھوٹا ہے‘ اور ظاہر ہے کہ اگر کوئی عورت کسی مرد پر یہ الزام عائد کرے کہ اس نے زبر دستی اس کے ساتھ زنا کیا ہے، اور بعد میں شہادتوں سے ثابت ہو کہ اس کا جبر کا دعویٰ جھوٹا ہے، اور وہ رضامندی کے ساتھ اس عمل میں شریک ہوئی تو اسے سزا یاب کرنا انصاف کے کسی تقاضے کے خلاف نہیں ہے۔لیکن چونکہ عورت کو یقینی طور پر جھوٹا قرار دینے کے لیے کافی ثبوت عموماً موجود نہیں ہوتا ، اس لیے ایسی مثالیں بھی اکّا دکّا ہیں‘ ورنہ ۹۹ فی صد مقدمات میں یہ ہوتا ہے کہ اگر چہ عدالت کو اس بات پر اطمینان نہیں ہوتا کہ مرد کی طرف سے جبر ہوا ہے ، لیکن چونکہ عورت کی رضامندی کا کافی ثبوت بھی موجود نہیں ہوتا ، اس لیے ایسی صورت میں بھی عورت کو شک کا فائدہ دے کر چھوڑ دیا جاتا ہے۔

حدود آرڈی ننس کے تحت پچھلے ۲۷ سال میں جو مقدمات ہوئے ہیں، ان کا جائزہ لے کر اس بات کی تصدیق آسانی سے کی جاسکتی ہے ۔ میرے علاوہ جن جج صاحبان نے یہ مقدمات سنے ہیں‘ اُن سب کا تاثر بھی میں نے ہمیشہ یہی پایا کہ اس قسم کے مقدمات میں جہاں عورت کا کردار مشکوک ہو‘تب بھی عورتوں کو سزا نہیں ہوتی، صرف مرد کو سزا ہوتی ہے۔

چونکہ حدود آرڈی ننس کے نفاذ کے وقت ہی سے یہ شور بکثرت مچتا رہا ہے کہ اس کے ذریعے بے گناہ عورتوں کو سزا ہورہی ہے، اس لیے ایک امریکی اسکالر چارلس کینیڈی یہ شور سن کر ان مقدمات کا سروے کرنے کے لیے پاکستان آیا۔ اس نے حدود آرڈی ننس کے مقدمات کا جائزہ لے کر اعداد و شمار جمع کیے ، اور اپنی تحقیق کے نتائج ایک رپورٹ میں پیش کیے جو شائع ہوچکی ہے۔ اس رپورٹ کے نتائج بھی مذکورہ بالا حقائق کے عین مطابق ہیں۔ وہ اپنی رپورٹ میں لکھتا ہے:

"Women fearing conviction under section 10(2) frequently bring charges of rape under 10(3) against their alleged partners. The FSC finding no circumstantial evidence to support the latter charge, convict the male accused under section 10(2)...... the women is exonerated of any wrong doing due to reasonable doubt' rule." (Charles Cannedy: The Status of Women in Pakistan in Islamization of Laws P.74)

جن عورتوں کو دفعہ ۱۰(۲) کے تحت ( زنا بالرضا کے جرم میں) سزایاب ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے، وہ اپنے مبینہ شریک جرم کے خلاف دفعہ۱۰(۳) کے تحت (زنابالجبر کا ) الزام لے کر آجاتی ہیں۔ فیڈرل شریعت کورٹ کو چونکہ کوئی ایسی قرائنی شہادت نہیں ملتی جو  زنا بالجبر کے الزام کو ثابت کرسکے، اس لیے وہ مرد ملزم کو دفعہ۱۰(۲) کے تحت (زنا بالرضا) کی سزا دے دیتا ہے۔۔۔۔۔اور عورت’شک کے فائدے‘ والے قاعدے کی بنا پر اپنی ہرغلط کاری کی سزا سے چھوٹ جاتی ہے۔

یہ ایک غیر جانب دارغیرمسلم اسکالر کا مشاہدہ ہے جسے حدود آرڈی ننس سے کوئی ہمدردی نہیں ہے‘ اور ان عورتوں سے متعلق ہے جنھوں نے بظاہر حالات رضامندی سے غلط کاری کا ارتکاب کیا، اور گھر والوں کے دباؤ میں آکر اپنے آشنا کے خلاف زنا بالجبر کا مقدمہ درج کرایا۔ اُن سے چار گواہوں کا نہیں، قرائنی شہادت (Circumstantial evidence) کا مطالبہ کیا گیا، اور وہ قرائنی شہادت بھی ایسی پیش نہ کرسکیں جس سے جبر کا عنصر ثابت ہوسکے۔ اس کے باوجود سزا صرف مرد کو ہوئی، اور شک کے فائدے کی وجہ سے اس صورت میں بھی ان کو کوئی سزا نہیں ہوئی۔

کیاترمیم قرآن و سنت کے مطابق ھے؟

لہٰذا واقعہ یہ ہے کہ حدود آرڈی ننس میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جس کی رُو سے زنا بالجبر کا شکار ہونے والی عورت کو چار گواہ پیش نہ کرنے کی بناء پر اُلٹا سزایاب کیا جاسکے۔ البتہ یہ ممکن ہے اور شاید چند واقعات میں ایسا ہوا بھی ہو کہ مقدمے کے عدالت تک پہنچنے سے پہلے تفتیش کے مرحلے میں پولیس نے قانون کے خلاف کسی عورت کے ساتھ یہ زیادتی کی ہو کہ وہ زنا بالجبر کی شکایت لے کر آئی، لیکن انھوں نے اسے زنا بالرضا میں گرفتار کرلیا۔ لیکن اس زیادتی کا حدود آرڈی ننس کی کسی خامی سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس قسم کی زیادتیاں ہمارے ملک کی پولیس ہر قانون کی تنفیذ میں کرتی رہتی ہے۔ اس کی وجہ سے قانون کو نہیں بدلا جاتا۔ ہیروئن رکھنا قانوناً جرم ہے، مگر پولیس کتنے    بے گناہوں کے سرہیروئن ڈال کر انھیں تنگ کرتی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ہیروئن کی ممانعت کا قانون ہی ختم کردیا جائے۔

زنا بالجبر کی مظلوم عورتوں کے ساتھ اگر پولیس نے بعض صورتوں میں ایسی زیادتی کی بھی ہے تو فیڈرل شریعت کورٹ نے اپنے فیصلوں کے ذریعے اس کا راستہ بند کیا ہے، اور اگر بالفرض اب بھی ایسا کوئی خطرہ موجود ہو تو ایسا قانون بنایا جاسکتا ہے جس کی رُو سے یہ طے کردیا جائے کہ زنابالجبر کی مستغیثہ کو مقدمے کا آخری فیصلہ ہونے تک حدود آرڈی ننس کی کسی بھی دفعہ کے تحت گرفتار نہیں کیا جاسکتا۔ اور جو شخص ایسی مظلومہ کو گرفتار کرے، اُسے قرار واقعی سزا دینے کا قانون بھی بنایا جاسکتا ہے۔ لیکن اس کی بنا پر ’زنا بالجبر‘ کی حدِّ شرعی کو ختم کردینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔

لہٰذا زیر نظر بل میں زنا بالجبر کی حدِّ شرعی کو جس طرح بالکلیہ ختم کردیا گیا ہے، وہ قرآن و سنت کے واضح طور پر خلاف ہے‘ اور اس کا خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتی سے بھی کوئی تعلق  نہیں ہے۔