دسمبر۲۰۰۶

فہرست مضامین

عبدالستار افغانی مرحوم

نذیر الحسن | دسمبر۲۰۰۶ | یاد رفتگان

Responsive image Responsive image

موت سے کس کو رستگاری ہے مگر بعض افراد کی موت کچھ اس شان کی ہوتی ہے کہ اس کی یادیں دل میں بسی رہ جاتی ہیں۔ جانے والا چلا جاتا ہے مگر اپنے پیچھے اپنے اعلیٰ کارنامے اور    خوش گوار یادیں ہمیشہ کے لیے چھوڑ جاتا ہے جو تادیر ذہن سے محو نہیں ہوپاتیں۔ محترم عبدالستار افغانی کی رحلت بھی کچھ اسی نوعیت کی ہے۔ وہ جنھیں عوام نے شہر کی مثالی تعمیروترقی پر ’باباے کراچی‘ کا خطاب دیا تھا‘ آج ہم میں نہیں۔ ۱۱ شوال ۱۴۲۷ھ (۵ نومبر ۲۰۰۶ئ) کو وہ اپنے خالق حقیقی سے جاملے___ انا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون۔

عبدالستار افغانی کے آباواجداد ۱۵۰ سال قبل افغانستان میں غازی امان اللہ خان کی بغاوت کے بعد ممبئی منتقل ہوگئے۔ بعدازاں ان کے خاندان کے افراد ۵۰سال ممبئی میں گزارنے کے بعد کراچی آگئے۔ وہ ۱۹۳۰ء میں کراچی کے علاقے لیاری میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم انھوں نے بی ایف اسکول لیاری سے حاصل کی اور پھر جامعہ کراچی سے بی اے کیا۔ سیاسی اور سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا رجحان ان کے اندر اوائل عمری ہی سے موجود تھا۔ ابھی ان کی عمر صرف ۱۴سال تھی کہ وہ جماعت اسلامی میں شامل ہوگئے اور تادمِ مرگ اس سے وابستہ رہے۔ کسی بھی سیاسی جماعت سے طویل عرصے تک وابستہ رہنے کی یہ ایک عظیم مثال ہے۔

سیاسی زندگی کا آغاز انھوںنے ۱۹۶۲ء میں ایوب خان کے زمانے میں بی ڈی سسٹم کا ممبر منتخب ہوکر کیا۔ پھر ایک عرصے تک وہ شہری کمیٹی کے رکن رہے مگر شہر کے سیاسی اُفق پر وہ اس وقت اُبھرکرسامنے آئے جب ۱۹۷۹ء میں‘ کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں چارسال کے لیے کراچی کے میئر منتخب ہوئے۔ ستایش کی تمنا اور صلے کی امید سے بے نیاز ہوکر عوام کی بے لوث خدمت پر کراچی کے عوام نے انھیں ۱۹۸۳ء میں دوبارہ میئر منتخب کیا۔

ان کی اصول پسندی پر مبنی سیاست‘ حق گوئی و بے باکی اور عوامی خدمت کسی سے     ڈھکی چھپی نہیں۔ کراچی کو روشنیوں کا شہر بنانے کے لیے ان کی شبانہ روز کاوشوں کے ان کے     ہم نوا و ناقد‘ سب ہی قائل ہیں۔ ان کی میئرشپ میں کراچی کی تعمیروترقی کا جس قدر کام ہوا ہے‘ کراچی کی تاریخ میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ: ’’میں کراچی کا میئر ہوں اور کراچی کا ہرعلاقہ اور ہربستی میری بستی ہے۔ ان بستیوںکا بسانا اور ان کو ترقی دلوانا میرا اولین فرض ہے‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی کی سیاسی جماعتیں اور عوام‘ پارٹی وابستگی سے بالاتر ہوکر ان کی خدمات کا اعتراف کرنے پر خود کو مجبور پاتے ہیں۔ ان کی نماز جنازہ میں تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں اور کارکنوں کی بڑی تعداد میں شرکت عبدالستار افغانی کی ہردل عزیزی کا کھلا ثبوت ہے۔

عبدالستار افغانی کی موت صرف ایک شخص اور پارلیمنٹیرین ہی کی موت نہیں بلکہ ایک زریں عہد کے خاتمے کا بھی اعلان ہے۔ بلاشبہہ عبدالستار افغانی نے اپنے طرزِ حکومت سے عہدِقرون اولیٰ کی طرزِ حکمرانی کی یاد تازہ کردی۔ ان کی زندگی سادگی‘ ایثار‘ قربانی‘ جدوجہد‘ زہد‘ قناعت‘ صبروشکر اور سب سے بڑھ کر عوامی خدمت سے مملو تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ قحط الرجال کے اس دور میں عبدالستار افغانی کا دم ہمارے لیے کسی نعمت ِ غیرمترقبہ سے کم نہ تھا  ع

عالم میں تجھ سے لاکھ سہی تو مگر کہاں

)۲(

شمیم احمد

کسے معلوم تھا کہ کراچی کی ایک غریب بستی کے ایک غریب خاندان کا سپوت‘ گندی گلیوں میں کھیلنے کودنے والا بچہ بڑا ہوکر عروس البلاد کراچی کا رئیس اور ڈیفنس و کلفٹن جیسے پوش علاقے کا رکن قومی اسمبلی بن جائے گا۔ قدرت نے انھیں بچپن ہی سے منفرد مزاج و ودیعت کردیا تھا۔ انھوں نے گلی ڈنڈا کھیلا اور کنچے بھی چلائے لیکن اپنی بستی کے عوام کی خدمت اور فلاحی کاموں میں بھرپور کردار ادا کرتے رہے۔ ابھی وہ میٹرک بھی نہ تھے کہ نوعمری میں شادی ہوگئی۔ ساتھ ساتھ جوتے کی ایک دکان میں انھیں بٹھا دیا گیا۔ یہیں سے ان کی عملی زندگی کا آغاز ہوا۔

سیاسی زندگی کا آغاز ایوب خان کی بنیادی جمہورت سے کیا۔ پھر کراچی کی تاریخ میں    یہ منفرد اعزاز بھی انھیں حاصل ہوا کہ وہ بلدیۂ عظمیٰ کراچی کے دو مرتبہ میئر منتخب ہوئے۔ ان کی کامیابی کا راز ان کی اصول پسندی اور ضابطے کی پابندی تھی۔ کسی کی ترقی ہو یاکسی کا تقرر‘ کسی کا ٹھیکہ ہو یا کسی کا ذاتی کام‘ ضابطے کا دامن کبھی نہ چھوڑا۔ رشتہ دار ہوں یا پارٹی کے لوگ‘ دوست ہوں یا جنرلوں کی سفارش‘ ہمیشہ اپنے اصولوں پر ڈٹے رہے۔

وہ ایک بااصول اور خوددار شخص تھے۔ اصولوں کے لیے اہلِ خانہ‘ عزیز واقربا اور خاندانی برادری کو بھی خاطر میں نہ لاتے‘ جو کہ ایک کڑی آزمایش ہوا کرتی ہے۔ اپنے بیٹے کی میڈیکل کالج میں داخلے کے لیے سفارش محض اس لیے نہ کی کہ میں کسی کا حق نہیں مارنا چاہتا۔ بڑے بیٹے کا پیدایشی کارڈ اس لیے نہ بنایا اور صاف انکار کردیا کہ وہ میئر کی حیثیت سے کسی گم شدہ یا غائب شدہ ریکارڈ پر دستخط نہیں کرسکتے۔ خاندان کے اکثر لوگ ان سے اس بنا پر ناراض رہتے تھے کہ افغانی‘ میئر بن کر بھی ہمارے کام نہیں کرتا اور ہمارے بچوں کو ملازمتیں نہیں دیتا۔ مگروہ خلاف ضابطہ کام کرنے کے لیے کبھی تیار نہ ہوئے۔

ایک بار ضیاء الحق کے ذاتی دوست صدر کی سفارش لے کر ان کے پاس آئے اور ایک کام کے ایگریمنٹ کے لیے کہا۔ افغانی صاحب نے جواب دیا کہ میں صدر کا ملازم نہیں ہوں بلکہ   اہلِ کراچی کا خادم ہوں۔ میں وہ کروں گا جو شہر کے فائدے میں ہوگا‘ لہٰذا آپ صدر سے کہہ دیں کہ وہ یہ ایگریمنٹ خود کرلیں۔ جب ایم کیوایم نے کارپوریشن پر قبضہ کیا توانھوں نے بہت  چھان پھٹک کی لیکن افغانی صاحب کا ایک معمولی فیصلہ بھی خلاف ضابطہ نہ پایا‘ اور بدعنوانی کا کوئی ایک الزام بھی عائد نہ کرسکے۔

نئے نئے میئر بنے تھے۔ کے ڈی اے کی گورننگ باڈی کے اجلاس میں ڈائرکٹر ظل احمد نظامی صاحب نے سب ممبران کے لیے پلاٹ کی تجویز پیش کی۔ افغانی صاحب نے کہا کہ میں  اہلِ شہر کی خدمت کے لیے میئر بنا ہوں‘ اپنی خدمت کے لیے نہیں۔ چنانچہ یہ منصوبہ رہ گیا۔

ایک صاحب کا گڈانی ہلز پر قبضہ تھا۔ انھوں نے ۶۰۰گز کے ۵۰ پلاٹوں کی پیش کش کی جو افغانی صاحب نے مسترد کردی۔ آٹھ سالہ دور میں کتنے ہی ایسے واقعات ہوئے ہوں گے۔ آج‘  جب کہ سیاست اور منصب کا مطلب ہی مال کمانا ہوگیا ہے‘ ایسی درخشندہ مثالیں مستقبل کے لیے امید پیدا کرتی ہیں۔ ان کے کسی سوانح نگار کو تفصیل سے سب کچھ جمع کرنا چاہیے۔

عبدالستار افغانی صاحب بے باک و جرأت مند تھے۔ ایک بار ضیاء الحق کو اہالیانِ کراچی کی جانب سے فریئر گارڈن میں استقبالیہ دیا گیا۔ اس میں میئر کی حیثیت سے افغانی صاحب کو استقبالیہ خطاب کرنا تھا۔ گورنر عباسی نے افغانی صاحب کو لکھی ہوئی تقریر پڑھنے کو دی۔ انھوں نے چند جملے اس تحریر میں سے پڑھے۔ پھر اسے ایک طرف رکھ کر وفاقی و صوبائی حکومتوں کے کراچی کے مفاد کے خلاف غیرمنصفانہ سلوک پر بھرپور روشنی ڈالی جس پر گورنر صاحب بہت ناراض ہوئے۔

میئرشپ کے دوران ایک ہی کار پر اکتفا کیا اور سرکاری گھر کو کبھی اپنا گھر نہیں بنایا۔ سرکاری گاڑی سے کے ایم سی کا جھنڈا اس لیے اُتروا دیا کہ مجھے خاص ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ سرکاری بنگلہ بھی یہ کہہ کر واپس کردیا کہ میں غریب آدمی ہوں اور عوام کا خادم ہوں‘ اے سی والے بنگلے کی عادت نہیں ڈالنا چاہتا۔ حرص و ہوس‘ جھوٹ اور فریب ان کے قریب سے بھی نہیں گزرے۔

عبدالستار افغانی صاحب کو اپنامافی الضمیر پُرزور طریقہ سے ادا کرنے کی مہارت تھی۔ وہ ایک اچھے خطیب تھے۔ ان کا خطاب غیرضروری باتوں سے پاک ہوتا تھا۔ موضوع پر جچاتلا اظہارِخیال کرتے تھے۔

میئرشپ کے بعد ان کا سارا وقت جماعت اسلامی کراچی کے دفتر کے لیے وقف تھا۔ یہاں بھی اسی طرح آتے تھے جیسے کارپوریشن کے دفتر جاتے تھے۔ دفتر میں کوئی ہو یا نہ ہو‘ لیکن وقت اتنا ہی دیتے جتنا معمول تھا تاکہ کوئی سائل مایوس نہ لوٹ جائے۔ اکثر لوگ ذاتی کام سے یا بستی کے حوالے سے افغانی صاحب سے رجوع کرتے تھے۔ لوگوں کا کام اس طرح کرتے تھے جیسے کوئی ماتحت اپنے حاکم کا حکم بجا لا رہا ہو۔

عبدالستار افغانی صاحب ہمیشہ اپنی شناخت جماعت اسلامی کے حوالے سے کراتے تھے‘ حالانکہ شہر میں ان کی شخصیت کی اپنی نمایاں حیثیت تھی۔ افغانی صاحب ہر صاحب ِ فکر کی طرح تمام مسائل  پر اپنی راے رکھتے تھے لیکن ایک کارکن کی طرح اطاعت کا جذبہ بدرجہ اتم تھا۔ تحریکی زندگی میں کئی بار قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں‘ مگر اوائل عمری سے تحریک سے وابستہ ہوئے اور    تادمِ آخر یہ وابستگی قائم رہی۔ ۱۹ مئی ۱۹۹۱ء کو جماعت اسلامی کی رکنیت کا حلف اٹھایا۔ وہ مجسم تحریک تھے۔ذاتی حیثیت میں وہ ایک بہت ہی سادہ شخصیت تھے۔ لوگوں میں گھل مل کر رہتے تھے۔ طبیعت میں مزاح بھی پایا جاتا تھا اور بے تکلفی سے پیش آتے تھے۔ بروقت اشعار کا استعمال ان کی طبیعت کا خاصا تھا۔

قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس سے قبل بظاہر تندرست تھے۔ کوئی یہ نہیں سمجھ سکتا تھا کہ وہ اتنی جلد رخصت ہوجائیں گے۔ لیکن گردوں کے مرض نے آلیا اور وہ اپنے رب سے ملاقات کے لیے چلے گئے___ انا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون۔

یہ ان کی خدمات اور تحریکی مقام کا اعتراف تھا کہ محترم قاضی حسین احمد نے مرکزی شوریٰ کے اجلاس کے دوران کراچی آکر نماز جنازہ پڑھائی اور اہلِ کراچی سے تعزیت کی۔