’پاکستان ___ خوف‘ دباؤ‘ بیرونی مداخلت…‘ (نومبر ۲۰۰۶ئ) کا یہ جملہ: ’’اتاترک کسی ایک وارگیمز کا اسیر ہوجاتا تو آج ترکی کا کوئی وجود دنیا کے نقشے پر نہ ہوتا‘‘ (ص ۱۳) خوش گوار تاثر دیتا ہے‘ جب کہ واقعہ یہ ہے کہ مصطفی کمال پاشا کے بارے میں خود یورپی‘ یہودی اور ترک ماخذ سے شائع ہونے والی دستاویزات ثابت کرتی ہیں کہ کمال پاشا ایک قوم پرست ہیرو سے زیادہ مغرب کے فکری سامراج کا گماشتہ تھا‘ جسے ہیرو کا درجہ دینے میں خود مغرب نے کردار ادا کیا اور جس نے ترکوں کے جذبات کو اسلامی حوالوں اور قرآن کے نام پر استعمال کیا۔ ترک عرب نسل پرستی کے جذبات کو گہرا کیا اور اسلامی تشخص کو مٹانے کے طاغوتی ایجنڈے کی پاس داری کی۔ آج ۸۲ برس گزر جانے کے باوجود ترکیہ‘ ظالم سیکولرازم کے شکنجے میں پھنسا ہوا ہے۔ وہ یورپی یونین کی طرف بے حال ہوکر لپکتا ہے‘ مگر یورپ اسے دھتکار کر کہتا ہے: ابھی مزید اسلام سے دُور ہٹو۔
اسی طرح اسلامی نظریاتی کونسل کے بارے میں یہ تاثر کہ پہلی بار انھیں اپنے مقام‘ کردار اور استحقاق کا احساس ہوا (ص ۲۰)‘ توجہ طلب ہے۔ اس میں کسی شک و شبہے کی گنجایش نہیں ہے کہ موجودہ اسلامی نظریاتی کونسل‘ اسلامی سے زیادہ تجدد پسند نظریاتی کونسل ہے۔ اس کونسل کے موجودہ چیئرمین اور اکثر ارکان کا فکری قبلہ جنرل مشرف کی کھلنڈرانہ لادینیت اور حددرجہ معذرت خواہانہ جدیدیت سے روشنی پاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس ادارے نے سب سے زیادہ مؤثرانداز میں اپنے مقام‘ کردار اور استحقاق کے شعور کا مظاہرہ جناب تنزیل الرحمن کی صدارت کے دور میں کیا جنھوں نے اس کونسل کی سال ہا سال کی کارکردگی کو رپورٹوں کی صورت میں شائع کرکے بامعنی دبائو بڑھایا (لیکن سیاسی اور صحافتی برادری نے ساتھ نہ دیا)۔ بعدازاں جناب ایس ایم زماں نے بھی بڑی حکمت کے ساتھ اسی سمت میں کام کیا‘ جب کہ موجودہ نظریاتی کونسل کے کرتا دھرتا تو اس کا ۴۴ سالہ ریکارڈ دریابرد کرنے کے مشن پر گامزن ہیں۔
’غیرمسلموں میں دعوت، چند تجربات‘ (نومبر ۲۰۰۶ئ) نے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ محترم صوفی محمد اکرم نے اپنے تجربات بیان کر کے دل و دماغ میں فکر کی ایک تیز لہر دوڑا دی ہے۔ خاص طور پر ایک عیسائی کا یہ کہنا کہ مسلمانوں کے مقابلے میں اس کے عیسائی بھائیوں کا کردار بہتر ہے (ص ۸۷) پڑھ کر کانپ کر رہ گیا۔ میری ایک عیسائی سے دوستی ہے‘ لیکن مجھے کبھی انھیں اپنے سچے دین کی طرف مائل کرنے کی توفیق نہیںہوئی۔
’سنیے، آپ کا بچہ آپ سے کچھ کہہ رہا ہے‘ (نومبر ۲۰۰۶ئ) میں غوروفکر اور عمل کے لیے اہم نکات سامنے آئے۔
پروفیسر خورشید احمد صاحب کا مضمون ’جرنیلی آمریت کی تباہ کاریاں‘ (اکتوبر ۲۰۰۶ئ) بہت پسند آیا۔ آپ نے جس خوب صورت اور دلیرانہ انداز کے ساتھ کلمۂ حق بلند کیا ہے اور جرنیلی آمریت کی تباہ کاریوں سے پردہ اٹھایا ہے وہ آپ ہی کا حصہ ہے۔ کئی در وا ہوئے‘ کئی انکشافات سامنے آئے۔ اللہ ہمارے ملک کو جرنیلی آمریت کی تباہ کاریوں سے محفوظ رکھے‘ آمین!
پروفیسر خورشید صاحب کا شیخ ابوبدرؒ (اکتوبر ۲۰۰۶ئ) پر تعزیتی تاثراتی شذرہ خوب ہے مگر عنوان میں تسامح ہوا ہے: ’امام خیرالعمل‘ درست نہیں۔ عربی میں شیخ کو ’رائد العمل الخیری‘ کا لقب دیا جاتا ہے (جس کا مطلب ہے: رفاہی یا رفاہ عامہ کے کاموں کے امام/قائد)۔ اسے اُردو ترکیب میں ڈھالنا مقصود تھا تو امام عمل الخیر یا امام العمل الخیری کہا جاتا‘ جب کہ موجودہ ترکیب کا مفہوم ہے: (خیرالعمل یعنی)نماز کے امام۔ اس لیے کہ ’خیرالعمل‘ نماز سے استعارہ ہوتا ہے!
خرم مرادؒ کے شہ پارے ایمان کو تازگی اور یقین کو ثبات و استحکام اور دلوں کو زندگی بخشنے والے ہیں۔ یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔
’رمضان المبارک ‘ (اکتوبر ۲۰۰۶ئ) ایمان افروز مضمون تھا‘ تاہم اس میں فتح مکہ کی تاریخ ۱۰ رمضان ۸ھ لکھی گئی ہے جوغلط ہے۔ مکہ ۲۱ رمضان کو فتح ہوا۔ (سیرت ابن ہشام‘ الرحیق المختوم)
’عید سعید: چند غورطلب پہلو‘ (اکتوبر ۲۰۰۶ئ) میں جن چار راتوں کی فضیلت بیان کی گئی ہے‘ صحیح نہیںہے‘ ایسی تمام روایات کا تعلق ضعیف‘ مجہول‘ منکر وغیرہم سے ہے اور سب کو فقہاے کرامؒ اور محدثینؒ نے موضوعات میں شامل کیا ہے۔ ان میں رمضان المبارک کی راتوں اور خاص کر لیلۃ القدر کا ذکر نہیں ہے جس کی تلاش میں رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا جاتا ہے۔