نبی کریمؐ کا ہر نقش ‘ہر قدم‘ ہر ادا‘ ہر بات ‘ ہر عمل ہمارے لیے بہترین اسوہ‘ قابل عمل نمونہ اور مثال کی حیثیت رکھتا ہے۔قرآن مجید نے خود اس بات کو بیان فرمایا ہے کہ تمھارے لیے اللہ کے رسول کی ذات میںبہترین اسوہ ہے۔ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (الاحزاب ۳۳:۲۱)۔ یہ اس لیے بھی ہے کہ اللہ کا رسول آتا ہی اس لیے ہے کہ اس کی پیروی و اطاعت کی جائے۔ یہ اطاعت و پیروی ہی وہ واحد چیز ہے جس میں اللہ کے رسول کی اطاعت، اللہ کی اطاعت کے برابر ہے۔جس نے رسول کی اطاعت کی‘ دراصل اس نے خدا کی اطاعت کی۔ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ ج (النسآء ۴:۸۰)
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْط(اٰل عمرٰن ۳:۳۱) اے نبیؐ، لوگوں سے کہہ دو کہ ’’ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھاری خطائوں سے درگزر فرمائے گا۔‘‘
یہ اس وجہ سے نہیں ہے کہ آپؐاللہ کے رسول ہیں‘بلکہ اس لیے کہ آپؐ کا اسوہ کامل ترین اسوہ ہے۔ وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ o (القلم ۶۸:۴)’’اور بے شک تم اخلاق کے بڑے مرتبے پر ہو‘‘۔گویا آپؐکا کردار اور آپؐکی سیرت انسانوں کے لیے ہرلحاظ اور ہرپہلو سے بہترین اور کامل نمونہ ہے۔
رسالت اور اسوۂ کامل، یہ دونوں باتیں لازم وملزوم ہیں۔ اس لیے کہ جو اللہ کا رسول ہو گا وہ لازماً اسوۂ کامل کا حامل بھی ہوگا‘ اور جواسوۂ کامل کا حامل ہو گا اسی کو اللہ تعالیٰ اپنی رسالت کے لیے منتخب فرمائے گا۔ تاہم اس کا ایک اور پہلو بھی ہے وہ یہ کہ اللہ کے رسولؐ کی زندگی کے بہت سارے پہلو ہیں۔ آپؐسربراہ ریاست بھی تھے اور قانون ساز بھی‘ باپ بھی تھے اور شوہر بھی، دوست اور ساتھی بھی تھے اور فوج کے سپہ سالار بھی‘نیز معلم و مربی بھی‘ اور یہ ساری حیثیتیں آپؐکی رسالت کی حیثیت کے تابع تھیں۔ لیکن رسالت کا بنیادی فریضہ یہ تھا کہ اللہ کی بندگی کا پیغام انسانوں تک پہنچایا جائے۔ اس لحاظ سے قرآن مجید نے جب یہ کہا کہ آپؐ اللہ کے رسول ہیں تو جہاں یہ بات واضح ہوگئی کہ اللہ کے رسولؐہونے کی حیثیت سے آپؐکا اسوہ قابل اتباع ہے، وہاں یہ بات بھی عیاں ہوگئی کہ اللہ کے رسول ہونے کی حیثیت سے رسالت کا فریضہ ادا کرنے میں اور کارِ رسالت انجام دینے میں بھی آپؐکا طریقہ ، آپؐکی روش اور آپؐکا اسوہ ہی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔
کارِ رسالت کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاکو شاہد ، مبشر، نذیر اور داعی الی اللّٰہ بنا کر بھیجا۔اس حوالے سے انبیا کی جس صفت پر بھی غور کیا جائے،اس کا حاصل یہی ہے کہ اللہ کے بندوں تک اللہ کی ہدایت اور اس کا پیغام پہنچے۔ رسول کے لفظ کے اندریہ حقیقت پوشیدہ ہے کہ وہ پیغامبر ہوتاہے اور جو پیغام لے کر آتا ہے اسے دوسروں تک پہنچاتاہے۔ یہ ایک ایسی ذمہ داری ہے کہ اللہ کے رسول کوئی اور کام کر پائیں یا نہ پائیں لیکن اُن سے اِن کی اس بنیادی ذمہ داری کے بارے میں لازماً سوال کیا جائے گا کہ تم نے اس کو کہاں تک ادا کیا۔ لوگ مانتے ہیں یا نہیں مانتے‘ پیچھے چلتے ہیں یا نہیں چلتے‘ پکار پر لبیک کہتے ہیں یا نہیں کہتے‘ اور اللہ کے رسول اس میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں ہوتے کہ اللہ کے دین کو سارے دینوں پر غالب کردیں‘ لیکن یہ فریضہ ایسا ہے جو بنیادی طور پہ لازماً ان کے ذمے کیا گیا ہے۔
یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ (المائدۃ۵:۶۷) اے پیغمبر‘ جو کچھ تمھارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دو۔
گویا اگر رسول نے پہنچانے کا کام سر انجام نہیں دیا تو فی الواقع اللہ نے جو پیغام دیاہے‘ اس کے پہنچانے کا حق ادا نہیں ہوا۔ یوں سمجھ لیں کہ رسالت کے سارے فرائض کا انحصار مخاطبین کے اُوپر ہے۔ وہ مانیں گے تو مومن وجود میں آئیں گے۔ وہ ساتھ دیں گے تو ساتھ چلنے والے ملیں گے لیکن ایسا بھی ہو سکتاہے ۹۰۰ برس رات دن پکارنے کے بعد بھی تھوڑے ہی لوگ ہوں جو ساتھ دینے کے لیے تیار ہوں۔ وَمَآ اٰمَنَ مَعَہٗٓ اِلاَّ قَلِیْلٌ o (ھود ۱۱:۴۰)’’اور تھوڑے ہی لوگ تھے جو نوحؑ کے ساتھ ایمان لائے تھے‘‘۔ اگر دعوت کے نتیجے میں تھوڑے لوگ ایمان لائیں یا لوگ دعوت رد کردیں تو اس پر رسول سے کوئی پرسش نہیں ہے۔ وہ اس کے لیے جواب دہ نہیں ہے۔ البتہ جس بات میں اس کی جواب دہی ہے وہ یہ ہے کہ اس نے دعوت پہنچانے کا کام اور لوگوں کو خدا کی طرف پکارنے کا کام کہاں تک انجام دیا۔ اگر اس نے اس کام کو مکمل کر دیا تو رسالت کا سب سے بنیادی فریضہ اور اس کی بنیادی ذمہ داری ادا ہوگئی۔
یہ جاننا ہمارے لیے اس لیے بھی ضروری ہے کہ اکثر دعوت دین اور اقامت دین کا کام کرتے ہوئے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ وہ کام کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے جو دوسروں کے ماننے اور دوسروں کا ساتھ دینے اور اللہ کی خشیت اور حکمت پر منحصر ہے۔ جب وہ کام پورا نہیں ہوتا تو ہم مایوسی کا شکار ہو کر اس کام کو بھی چھوڑ دیتے ہیں جس کام سے کوئی مفر نہیں اور جس ذمہ داری کو کبھی ٹالا نہیں جا سکتا۔ وہ یہ کہ اللہ کے ایک ایک بندے تک اس کی ہدایت‘ اس کی زندگی کا پیغام‘ اللہ پر ایمان لانے کی دعوت‘ اس کی اطاعت کا مطالبہ اس کے سامنے پیش کیا جائے۔ یہی دراصل کارِرسالت کا ماحاصل ہے ۔ آج بھی جو اسلامی تحریک کا نام لیتاہے‘ اقامتِ دین کا دعوے دار ہے‘ وہ کوئی اور کام کر پائے یا نہ کر پائے لیکن اس کام کے لیے اس کی ذمہ داری اور اس کی جواب دہی ایسی ہے جس سے وہ چھوٹ نہیں سکتا جب تک کہ وہ اس کام کو کماحقہ، انجام نہ دے۔
اسوۂ رسالت کے تحت میں مختصراً دو چیزوں کا ذکر کروں گا اور یہ دونوں چیزیں بالکل لازمی اور ناگزیر ہیں۔دعوت کے ضمن میں اُن طریقوں کو صحیح طور پر استعمال کرنے کے لیے جو طریقے نبی کریمؐنے اختیار کیے ہیںایک خاص جذبہ، کیفیت اور روح درکار ہے۔ اس لیے کہ دعوت کا کام کوئی مجرد فنی مہارت کا کام نہیں ہے اور اس کو عام اصولوں کی طرح نہیں سیکھا جا سکتا۔ اس کام کے طریقے‘ اس کام کے راستے اسی وقت سیکھے جاسکتے ہیں اور ان پر عمل درآمد اسی وقت ہو سکتاہے جب ان کی پشت پر وہ کیفیت‘ وہ روح اور وہ جذبہ کار فرما ہو جو دعوت الیٰ اللہ کے لیے ضروری ہے‘ اور جس کی نمایاں مثال نبی کریمؐکی اپنی زندگی اور اپنا اسوۂ دعوت ہے۔
پہلی بات یہ ہے کہ دعوت کی ذمہ داری ایک بڑی بھاری ذمہ داری ہے جس کے احساس سے آپؐکا دل گراں بار تھا‘ جس کے بوجھ سے آپؐکو اپنی کمر ٹوٹتی ہوئی محسوس ہوتی تھی‘ جس کو اللہ تعالیٰ نے خود قول ثقیل(بھاری بات)سے تعبیر کیا ہے۔ یہ اس لیے تھا کہ یہ ذمہ داری کس کی طرف سے تھی‘ نیابت کس کی ہو رہی تھی‘ بات کس کی تھی جو دوسروںتک پہنچانا تھی اور جواب دہی کس کے سامنے تھی___ یہ اللہ کی طرف سے تفویض کردہ ذمہ داری تھی اور اس کی جواب دہی خود اپنے سامنے اور ربِ کائنات کے سامنے تھی۔ یہ ذمہ داری نہ کسی اجتماع میں رپورٹ تک محدود تھی‘ نہ صرف دنیا کے اندر کچھ کامیابی حاصل کرنے کے لیے تھی‘ بلکہ اللہ کے رسول اس منصب پر اپنے رب کی طرف سے فائز کیے گیے تھے اور رب کا دیا ہو کام ایسا تھا جو ہرحال میں‘ ہر طرح انجام دینا تھا۔
مجرد یہ احساس اور شعور کہ یہ میرے رب کا کام ہے‘ میں نے رب کے بندوں کو حق کی طرف بلانا ہے‘ ان کو غلط راستوں پر بھٹکنے سے بچا کر صحیح راستے پر لگانا ہے‘ یہ اپنی جگہ اتنی زبردست ذمہ داری تھی کہ اقراْ کا پیغام سننے کے بعد ہی حضوؐرکا نپتیـ‘ لرزتے اپنے گھر واپس آئے اور اپنی اہلیہ محترمہ سے کہا کہ زمّلونی‘ زمّلونی ‘مجھے اڑھا دو، مجھے اڑھا دو۔ مجھے اپنے نفس کے بارے میں ڈر ہے۔ اتنا عظیم الشان کام اقراْ (پڑھنے اور سنانے) کاکام‘ رب کے نام سے دنیا کو پکارنے کا کام‘ اور دنیا کو یہ پیغام دینا کہ علم کا سرچشمہ صرف اللہ کی ذات ہے‘ اس سے ماورا بے نیاز ہو کر، جو علم کا دعوے دار ہے‘ وہ قطعی غلط ہے‘ نیز اللہ کی ذات سے اور اللہ کی ہدایت سے پوری انسانی زندگی کا رشتہ جوڑنا‘ یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ o (العلق ۹۶:۱)‘ میں یہ پوری ذمہ داری پوشیدہ تھی اور حضوؐر اسی لیے کانپتے اور لرزتے ہوئے واپس آئے تھے اور یہ فرمایا تھا کہ مجھے اپنے نفس کے بارے میں ڈر اور خوف محسوس ہوتاہے۔ یہ اس مقامِ دعوت کی عظمت اور اس کی گراں باری تھی جس نے قلبِ مبارک پر اس کیفیت کو طاری کر دیاتھا۔
اس کے ساتھ ساتھ جو چیز تھی وہ صرف یہ نہیں تھی کہ دنیاکے اندر اتنا عظیم الشان کام درپیش ہے بلکہ یہ کہ اس کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ اگر اس کام کے اندر کوتاہی ہوئی توجو لوگ گمراہی کے راستے پہ جائیں گے‘ بھٹک جائیں گے اور غلط راہ پر پڑ جائیں گے‘ وہ جن کے سامنے حجت پوری نہیں ہوگی‘ اس کا ذمہ داروہ بھی ہوگا جس کے پاس پیغام حق ہو اور وہ اس کو پہنچانے سے قاصر رہے۔ اسی لیے جب آپؐ اس حوالے سے سوچتے تھے‘ آپؐ کے سامنے اس کا ذکر ہوتا تھا تو آپؐ لرزہ براندام ہو جاتے تھے، آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے تھے۔
ایک طرف تو جواب دہی کا یہ احساس تھا جس کے بوجھ سے آپؐکو اپنی کمر ٹوٹتی ہوئی محسوس ہوتی تھی تو دوسری طرف خود وحی کے نزول کا مرحلہ بھی بہت کٹھن تھا۔ اس سے نہ صرف جسم کے اُوپر بوجھ پڑتا تھا بلکہ جب یہ کلام نازل ہوتا تھا تو اس کے بوجھ سے اونٹنی بھی بیٹھ جایا کرتی تھی اور آپؐکی پیشانی پر پسینے کے قطرے نمودار ہوا کرتے تھے۔ یہ تمام کیفیات کلامِ حق اور ہدایت الٰہی کو وصول کرکے پہنچانے کی ذمہ داری کا احساس کا نتیجہ تھیں۔
فَلَنَسْئَلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْھِمْ وَلَنَسْئَلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَo (الاعراف۷:۶) پس یہ ضرور ہو کر رہنا ہے کہ ہم اُن لوگوں سے باز پرس کریں جن کی طرف ہم نے پیغمبر بھیجے ہیں، اور پیغمبروں سے بھی پوچھیں( کہ انھوں نے پیغام رسانی کا فرض کہاں تک انجام دیا اور انھیں اس کا کیا جواب ملا)۔
یہ سوال صرف انھی سے نہیں ہو گا جو مخاطب تھے کہ تم نے یہ بات کیوں رد کردی‘ بلکہ مرسلین جن کو رسول بنا کر بھیجا گیا‘ ان سے بھی سوال کیا جائے گا کہ تم نے اپنی ذمہ داری کو کہاں تک ادا کیا۔ یہ کتنی بڑی ذمہ داری تھی‘ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ایک ایسا بوجھ تھا جس سے کمر ٹوٹتی محسوس ہوتی اور بدن لرزتا اور کانپتا تھا‘ اور جواب دہی کا احساس دل و دماغ کے اُوپر چھایا رہتا تھا۔
یہ ذمہ داری رب کی طرف سے تھی کہ اللہ کے بندوں کو بھٹکنے سے بچا کر صحیح راستے پر لگایا جائے۔ ذرا تصور کیجیے کہ وہ دل اور وہ قلب جو انسانوں کی محبت سے سرشار ہو‘ جو ۴۰ سال سے دن رات انسانوں کی خدمت کے اندر لگا ہوا ہو‘ اس کو جب یہ معلوم ہو کہ یہ وہ پیغام ہے جس سے انسان آگ سے بچ کر اللہ کی جنت کی طرف جا سکتے ہیں تو آپ سوچ سکتے ہیں کہ اس کی کیفیت کیا ہو گی۔ نبی کریمؐ نے اس بات کو یوں بیان فرمایا کہ میری مثال ایسی ہے جیسے کسی نے آگ جلائی، اور جب آگ روشن ہو گئی تو لوگ پروانوں کی طرح آگ میں گرنے لگے اور مجھ کو مغلوب کرکے آگ میں گرنے لگے‘ اور میں تمھاری کمر پکڑ کر تم کو بچا رہا ہوں اور تم ہو کہ آگ کے اندر گرے جا رہے ہو۔ اگر اپنا بچہ آگ کے قریب چلا ئے‘ یا کسی حادثے کا شکار ہوجائے‘ یا تباہی کے گڑھے پر کھڑا ہو تو قلب کی جو کیفیت ہو گی وہی نبی اور داعی کے قلب کی کیفیت ہوتی ہے اور ہونی چاہیے۔
ایک نبی کی حیثیت اپنی قوم کے لیے باپ کی سی ہوتی ہے۔ وہ کتنی ہی گمراہ کیوں نہ ہو‘ وہ اس کو نصیحت اور خیر خواہی سے آخر وقت تک بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ وہ اس کے اُوپر غصے و ناراضی اور مایوسی کا اظہار نہیں کرتا۔ اگر وہ پتھر بھی کھاتا ہے تو دعا کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت دے اور صحیح راستے پر لگائے ۔ وہ اپنی ذات کے لیے نہ کچھ اجر مانگتا ہے اور نہ انتقام کا طالب ہوتاہے۔ اس کی ساری محبت اور دشمنی صرف اللہ کے لیے اور اس کے پیغام کے لیے ہوتی ہے۔ اسی کیفیت کی وجہ سے نبی کریمؐدن، رات اسی فکر کے اندر گھلا کرتے تھے اور ہر داعیِ حق کو بھی گھلنا چاہیے کہ کس طرح یہ پیغام عام ہو۔ دل کی یہ فکر عمل کے اندر ظاہر ہوتی تھی۔ گھر گھر جانا، گلیوں میں گھومنا‘ لوگوں کو دعوت دینا‘ اپنے گھر پر بلانا اور دعوت دینا‘ پہاڑی پہ چڑھ کے وعظ کہنا‘ حج کے موقع پر خیموں کے اندر جانا‘ ہر موقع سے فائدہ اٹھانا‘ ہر آنے جانے والے سے موقع نکال کر حکمت کے ساتھ اپنی بات کہنا‘یہ سب کس طرح ہو، اسی فکر میں آپؐدن رات گھلا کرتے تھے۔
آپؐکی اس کیفیت کو قرآن مجید نے مختلف الفاظ میں بیان کیا ہے۔ کہیں فرمایا کہ کیا اس فکر میں تم اپنا گلا گھونٹ ڈالو گے۔ کہیں اس کے لیے حرص کا لفظ استعمال ہوا۔ کہیں فرمایا: لَقَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ (التوبۃ ۹:۱۲۸)’’دیکھو! تم لوگوں کے پاس ایک رسول آیا ہے جو خود تم ہی میں سے ہے، تمھارا نقصان میں پڑنا اس پر شاق ہے، تمھاری فلاح کا وہ حریص ہے‘‘۔گویا بھلائی اور دعوت حق کی طرف بلانے کے لیے نبی کی فکر اور آرزو اور تمنا لالچ کی حدتک پہنچی ہوتی ہے۔جس طرح لالچی آدمی برابر سوچتا رہتا ہے کہ مطلوبہ چیز کو کس طرح حاصل کرے‘ اس کے پیچھے پڑا رہتاہے‘ اپنا سب کچھ اس کے لیے لگاتا ہے‘ وہی کیفیت نبی کریمؐکی تھی اور وہی کیفیت ہر داعیِ حق کی بھی ہونی چاہیے۔
اس میں نہ مایوسی کا گزر تھا اور نہ جھنجھلاہٹ کا‘ اور نہ اپنی قوم سے نفرت اور بے زاری کابلکہ شفقت و رحمت کے ساتھ مسلسل آپؐ اس کام کے اندر لگے رہے۔ یہاں تک کہ یہ تمنّاکہ جو دیکھنے والے نہیںہیں‘ کسی طرح ان کو دکھا دیں‘ جو سننے والے نہیں ہیں کسی طرح ان کو سنادیں‘ جو بھٹک رہے ہیں ان کو کسی طرح صحیح راستے پر لگا دیں۔ اس کی تصویر قرآن مجید نے یوں کھینچی کہ تم اندھوں کو راستہ نہیں دکھا سکتے‘ تم بہروں کو نہیں سناسکتے‘ یعنی جو جان بوجھ کر بھٹک گئے ہیںتم ان کو صحیح راستے پہ نہیں لگا سکتے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس ہدایت کے باوجود آپؐ کی یہ کیفیت کہ کسی نہ کسی طرح لوگ ہدایت پاجائیں‘بالکل آئینے کی طرح نمایاں ہوکر ہمارے سامنے آجاتی ہے۔
لوگوں کی ہدایت اور ان کو گمراہی سے بچانے کے لیے آپؐاس قدر بے قرار تھے کہ اگر لوگ نہیں مانتے تو کوئی ایسی نشانی آجائے جسے دیکھ کر لوگ ایمان لے آئیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ تم آسمان میں سیڑھی لگا کر چڑھ جائو‘ یا زمین کے اندر سرنگ کھود لو‘ یا اور کوئی نشانی لے آئو‘ یہ لوگ اس کے بعد بھی ماننے والے نہیںہیں۔ وہاں آپؐکی کیفیت یہ ہے کہ آسمان پرسیڑھی لگا کر یا زمین میں سرنگ لگا کر بھی اگر قبولِ اسلام کے لیے راہ ہموار ہوسکتی ہوتو ہوجائے۔ آسمان پہ سیڑھی لگا کے چڑھنا اور زمین میں سرنگ لگانا، یہ ہمارے ادب کے عام محاورے ہیں کہ اگر ضرورت پڑے تو کسی کام کو کرنے کے لیے انتہائی مشقت اور انتہائی کوشش کرنا‘ اور آپؐاس کے لیے بھی تیار رہتے تھے۔
یہ وہ چیز تھی جس کی وجہ سے داعی ہونا آپؐکی زندگی کا کوئی ایک پہلو نہیں تھا بلکہ آپؐ ہمہ وقت اور ہر دم داعی تھے اور اسی کو آپؐکے سارے کام میں بنیادی ترجیح حاصل تھی۔ جہاد اسی کے لیے تھا، تلوار اسی کے لیے اٹھائی گئی‘ خطوط اسی کے لیے لکھے گئے۔ ابتدا سے آخر تک سب سے بڑی فکر جو آپؐکے اُوپر غالب تھی وہ یہ تھی کہ اللہ کے بندوں تک یہ پیغام پہنچے اور آپؐسرخ رو ہو کر اپنے رب کے سامنے حاضر ہوں‘ اور لوگ گواہی دیں کہ ہاں‘ آپؐنے ہم تک پیغام پہنچا دیا‘ نصیحت کا حق ادا کر دیا، اور جو امانت آپؐکے سپرد ہوئی تھی وہ ہم تک پہنچ گئی۔ اس لیے آپؐدن رات اسی کام میں لگے رہتے تھے۔
مدینہ آمد پر آپؐنے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ ایک چھوٹی سی مسجد بنائی ۔ اس مسجد کا فرش سنگ ریزوں‘ ستون کجھور کے درختوں کے اور فرش پر کجھور کی چھال بچھی تھی ۔ اس کے بعد ۱۳ برس تک آپؐنے اس طرف توجہ نہیں کی کہ یہ مسجد پختہ ہو جائے‘ عالی شان عمارت بن جائے بلکہ آپؐاسی کام کے اندر لگے رہے کہ خدا کا پیغام دلوں کے اندر راسخ ہو جائے۔ آپؐکی کوشش تھی کہ ظاہر میں یہ عمارت شان دار ہو یا نہ ہو لیکن دلوں کے اندر دعوتِ حق کی عمارت ضرور شان دار تعمیر ہوجائے۔ یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ آپؐکے انتقال کے صرف ۱۰۰ برس کے اندر اندر اسپین سے لے کر ہندستان تک انتہائی عالی شان مسجدیں وجود میں آگئیں۔ اگر پہلے ہی دن آپؐکی توجہ دعوت سے ہٹ کر ان کاموں کے اندر لگ جاتی تو اس کا امکان کم تھا کہ وہ قوت وجود میں آتی جو اس دعوت کے جذبے سے سرشار ہو کر مدینہ سے نکلتی اور دنیا کے گوشے گوشے میں اس پیغام حق کو پہنچاتی۔ مقامِ دعوت کے سلسلے میں یہ آپؐ کا اسوہ اور ترجیح اول تھی جس کو سب سے پہلے سمجھنا ضروری ہے۔
دوسری بات جو جاننا ضروری ہے وہ یہ کہ وہ مضامین دعوت کیا تھے جس پر آپؐ شروع سے آخرتک اپنی توجہ مرکوز کیے رہے۔
مکی زندگی کے پہلے دن سے لے کر مدنی زندگی کے آخری دن تک آپؐ اس کام سے غافل نہیں ہوئے کہ اللہ کے بندوں کا تعلق اپنے رب کے ساتھ قائم ہو___یعنی بندگی کا تعلق، توکّل کا تعلق، خشیت کا تعلق، محبت کا تعلق اور اپنے آپ کو سپرد کردینے کا تعلق۔ اقراْ کے نام سے جو کام شروع ہوا تھا‘ وہ اپنے رب کی تسبیح ، حمد اور استغفار کے حکم تک جاری رہا۔ گویا نبی کریمؐکے مشن کی تکمیل تک جو کام جاری رہا وہ یہی تھا کہ اللہ کے بندے اللہ کے ساتھ جڑ جائیں۔جب تک وہ اللہ کے ساتھ نہیں جڑیں گے‘ ان کے اندر وہ قوت اور طاقت نہیں پیدا ہوگی جو اللہ کی زمین پر اللہ کے دین کو قائم کرنے کے لیے ناگزیر ہے۔
اس دعوت کے اندر وہ کشش تھی کہ لوگ دوڑ کر آتے تھے او راسی کے ہو کر رہ جاتے تھے۔ اس لیے کہ خالقِ کائنات کی بندگی کے اندرجو لذت‘ جو نشہ اور جو کشش ہے، وہ کسی اورچیز کے اندر نہیں ہو سکتی۔ اس کی بندگی کی حدود، اس دنیا سے ماورا آخرت تک پھیلی ہوئی ہیں۔ جو اس کا ہوجاتا ہے پھر اس کے لیے دنیا کی کوئی قربانی، قربانی نہیں رہتی ۔جان‘ مال اور وقت‘ ہر چیز اس کے لیے حاضر ہوتی ہے۔ اس لیے کہ جس نے اس دعوت کی پکار پہ اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کردیا، گویا اس نے اپنا سب کچھ اللہ کے سپرد کردیا۔ اگر دنیا کے چھوٹے چھوٹے مقاصد لوگوں کو اپنی طرف کھینچتے رہتے تو ان کی زندگی کے اندر یہ انقلاب کبھی برپا نہ ہوتااور وہ اس طرح نہ بدلتے۔
بندگی کا یہ تعلق دنیا اور آخرت کے اُوپر محیط تھا۔ زمین و آسمان کی ساری وسعت سے زیادہ وسیع یہ تعلق تھا جو آپؐنے قائم کیا‘ اور اس کے نتیجے میں آخرت کا طلب گار بنا کر جنت کا خریدار بنادیا۔ فی الواقع یہ بہت بڑا انقلاب تھا جو نقطۂ نظر کے اندر ، فکر کے اندر، اور دل کے اندر پیدا ہوگیا۔ وہ دنیا میں رہتے ہوئے بھی دنیا کے طلب گار نہیں تھے اور جنت کے خریدار بن چکے تھے۔
یہ وہ سیدھی سادھی دعوت تھی کہ جو ایک بدو، ایک تاجر، ایک اَن پڑھ ‘ایک چرواہے یا کسی عالم اور پڑھے لکھے کے لیے یکساں طورپر پُرکشش دعوت تھی کہ آدمی اپنے خالق کا ہو کر رہے‘ اس کے ساتھ جڑ جائے‘ آخرت کا طلب گار ہو اور جنت کی قیمت کے اُوپر اپنے آپ کو راضی کر لے۔
آپؐنے جنت کو ایک ایسی حقیقت بنا دیا تھا جس کی انھیں خوشبو بھی آنے لگی تھی۔ مشہور حدیث ہے کہ ایک دفعہ آپؐنے ہاتھ آگے بڑھایا اور پھر پیچھے ہٹا لیا۔ صحابہ کرامؓنے پوچھا کہ آپؐنے ایسا کیوں کیا۔ آپؐنے فرمایا کہ میرے سامنے جنت تھی ۔ اگر میں اس کا خوشہ توڑ کے تم کو دکھا دیتا اور تمھارے درمیان لے آتا تو رہتی دنیا تک کے انسانوں کی غذا کے لیے یہ کافی ہوتا۔
ان کے لیے جنت کوئی افسانہ نہیں تھی جس کو وہ قرآن میں پڑھتے تھے اور گزر جاتے تھے، بلکہ ان کے لیے وہ ایک جیتی جاگتی زندہ حقیقت تھی۔ جب وہ نبی کریمؐکو اٹھتے بیٹھتے یا منبر کے اُوپر کھڑا دیکھتے تو سمجھتے تھے کہ سامنے جنت موجود ہے لیکن وہ جنت جہاد کے اندر پوشیدہ تھی۔ بندگیِ رب اور آخرت کی طلب اور جنت کا تعلق جہاد کے ساتھ جوڑ کے انسانی زندگی کے اندر آپؐ نے اسے راسخ اور مربوط کر دیا تھا۔ اب یہ جنت کے طلب گار وہ نہیں تھے جو گوشوں میں بیٹھ کر صرف درس دیں، بلکہ اس کے نتیجے میں ایک ایسی جماعت تیار ہوئی جو دنیا بھر کو آخرت اور بندگیِ رب کی دعوت دینے کے لیے نکل کھڑی ہوئی۔ لوگوں کے دل فتح ہوگئے، نسلوں کی نسلیں، قوموں کی قومیںاس دعوت کے گرد جمع ہوگئیں۔
خالق و رب کے ساتھ تعلق‘ آخرت کی طلب اور دنیا کے اندر انسانوں کو ہدایت پہنچانا اور اس کے لیے کوشش اور جدوجہد‘ یہ دراصل دعوت کا اصل مضمون تھا جس کے لیے کسی لمبے چوڑے فلسفے‘ منطق اور کتابوں کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ وہ بات تھی کہ ہر آدمی اپنے اندر اس کی پیاس محسوس کرتا تھا۔ وہ بدو‘ وہ چرواہے اور وہ تاجر جنھوں نے جب اس پیغام کو سنا اور اپنے آپ کو اس دعوت کے حوالے کردیا تو کسی منطق اور فلسفے کے بغیر ہی وہ دنیا کے امام اور لیڈر بن گئے۔
آپؐکے اسوہ ٔدعوت کا چوتھا پہلو یہ ہے کہ آپؐنے دعوت کے لیے وہ کون سے طریقے اختیار کیے کہ اس دعوت نے قوم کے بڑے حصے کو ایک مختصر مدت میں آپؐ کے گرد جمع کر دیا۔
نبی کریمؐانسانیت کے کس قدر ہمدرد، خیر خواہ اور دوسروں کے کام آنے والے تھے‘ اس کی ایک گواہی حضرت خدیجہؓنے دی۔ خدا کا پیغام وصول کرکے جب آپؐغارِ حرا سے گھبرائے گھبرائے گھر لوٹے اور آتے ہی لیٹ گئے اور کہنے لگے کہ مجھے کپڑا اوڑھا دو، مجھے کپڑا اوڑھا دو، اور فرمایا کہ مجھے اپنی جان کا ڈر ہے۔ حضرت خدیجہ نے آپؐکو حوصلہ اور تسلی دی اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ آپؐکو ہرگز ضائع نہیں کرے گا۔ اس لیے کہ آپؐصلہ رحمی کرتے ہیں ، رشتہ داروں اور اقربا کے حقوق ادا کرتے ہیں۔ بات کرتے ہیں تو سچ بولتے ہیں، جو لوگ معاشرے کے اُوپر بوجھ بنے ہوئے ہیں ان کا بوجھ اٹھا تے ہیں،جن کے پاس وسائل نہیں،جو یتیم ، بیوہ، غریب، اپاہج اور معذور ہیں،جو کمانہیں سکتے‘ ان کے لیے کما کر ان کی خدمت کرتے ہیں۔ آپؐمہمانوں کا احترام کرتے ہیں اور جو لوگ مشکلات کا شکار ہوں‘ ان کی مدد کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہرگز آپؐ کو ضائع نہیں کرے گا۔
یہ نبی کریمؐکے اسوۂ دعوت کی ایک تصویر ہے۔ جو لوگ انسانوں کی تکالیف‘ مصائب‘ پریشانیوں اور ان کی خدمت سے غافل ہوں اور یہ چاہیں کہ محض درس و تقریر اور خطاب سے ہی لوگ دین کی طرف دوڑ پڑیں تو وہ یقینا سخت غلط فہمی کے اندر مبتلا ہیں۔ یہ دعوت اسی وقت عام آدمی کے دلوں کے اندر جگہ پیدا کرے گی جب اس کے داعی انسانوں کے ساتھ اپنے آپ کو اس طرح مربوط کریں کہ ان کے دلوں میں، آخرت میں آگ سے بچنے کی فکر بھی پیدا کریں اور ان کے دنیاوی مصائب و تکالیف کو بھی دور کرنے کی کوشش کریں۔ یہ دونوں چیزیں اس دعوت کے اندر سب سے نمایاں ہیں اور لازم و ملزوم بھی۔
آپؐکے اُوپر لوگوں کا اتنا اعتماد تھا کہ آپؐپہاڑی پر کھڑے ہو کر پوچھتے ہیں: اگر میں کہوں کہ اس پہاڑکے پیچھے سے ایک لشکر آ رہا ہے تو تم کیا کہوگے؟ لوگوں نے کہا کہ ہم تمھاری بات پر یقین کریں گے۔ لوگوں کا یہ وہ اعتماد تھاجو آپؐکو حاصل تھا۔ لوگ یہ سوچ نہیں سکتے تھے کہ یہ آدمی ہمارا بدخواہ بھی ہو سکتا ہے۔ اہلِ مکہ نے آپؐکی کتنی مخالفت کی‘ آپؐکے پیچھے پڑے رہے‘ آپؐکے اُوپر کتنا ظلم کیا‘ آپؐکا راستہ روکا‘ کانٹے بچھائے‘ پتھر مارے لیکن لوگوں کے ذہن میں یہ بات نہیں آتی تھی کہ خدانخواستہ آپؐجھوٹے ہیں یا آپؐ ان کے بدخواہ ہیں۔ ابوجہل تک نے کہا کہ یہ میں نہیں کہہ سکتا کہ آپؐ جھوٹے ہیں۔ مجھے تو یہ شکایت ہے کہ آپؐنے باپ کو بیٹے سے اور بھائی کو بھائی سے الگ کر کے قوم کو پھاڑ دیاہے۔ اس کے علاوہ آپؐکے خلاف اور کوئی شکایت نہیں ہے۔ لہٰذا اعتماد ہی وہ اصل ذریعہ ہے جس کے حصول کے بعد ہی اپنی دعوت آگے بڑھائی جا سکتی ہے۔
اس کی ایک عمدہ مثال عیسائیوں کے وفد سے نبی کریم ؐکا مکالمہ ہے۔ وہ لوگ جس طرح آئے اور مسجد نبوی ؐکے اندر ٹھیرے، وہاں ان کو اپنے طریقے کے مطابق عبادت کرنے کی سہولت دی گئی اور ان کی خاطر مدارات ہوئی‘ اور پھر یہ دعوت پیش کی گئی کہ آئو اس چیز کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیان مشترک ہے۔(اٰل عمرٰن ۳:۶۴)
دعوت حق اگر پیش کی جائے تو بڑی مشکل سے کوئی آدمی ملے گا جو پوری کی پوری دعوت کا مخالف ہو‘ اور پوری کی پوری دعوت کو رد کرنے کے لیے تیار ہو۔ کوئی نہ کوئی دعوت کا پہلو ایسا ہو گا جو اس کے اور داعی کے درمیان مشترک ہو گا جیسا کہ نبی کریمؐاور آپؐ کے مخاطبین کے درمیان مشترک تھا۔ دعوت کے اس بنیادی اصول پربات کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔
اگر آپ کبھی سیرت میں ان واقعات کا جائزہ لیں جو لوگوں کے قبولِ اسلام اور قبولِ دعوتِ حق کے سلسلے میں بیان ہوئے ہیں تو آپ دیکھیں گے وہ لوگ جنھوں نے قرآن سنا اوران کے دل کی دنیا بدل گئی‘ ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے ، جب کہ وہ لوگ جنھوں نے نبی کریمؐ کو قریب سے دیکھا‘ آپؐکی نرمی‘ شفقت اور محبت کا مزا چکھا اور جنھوں نے صرف آپؐکا چہرہ ہی دیکھا وہ اس دعوت کے گرویدہ ہوگئے۔ جس طرح لوہا مقناطیس سے چپک جاتا ہے، اسی طرح وہ آکر آپؐکی ذات سے، آپؐکی دعوت سے‘ آپؐکی جماعت سے چپک گئے اور ان کی تعداد کثیر ہے۔
ایک واقعے سے اس کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ ہم کچھ لوگ اونٹ لے کر مدینہ پہنچے اور ہمارا خیال تھا کہ ہم اونٹ فروخت کرکے کجھوریں خریدیں گے۔ اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ کیسے آئے ہو؟ ہم نے اپنا مقصد بیان کیا۔ ہم آپؐکو پہنچانتے نہیں تھے کہ کون ہیں۔ انھوں نے کہا: اچھا‘ میں نے تمھارا اونٹ خرید لیا۔ اس کی جو قیمت طے ہوئی ہے وہ تمھیں مل جائے گی۔ آپؐنے اونٹ کی نکیل تھامی اور چل دیے۔
جب آپؐنگاہوں سے اوجھل ہوگئے تو ہم نے سوچا کہ یہ ہم نے کیا کیا۔ نہ ہم ا س آدمی کو جانتے ہیں‘ نہ اس کا نام پتا معلوم ہے کہ کہاں رہتا ہے، اور نہ قیمت ہی وصول کی‘ اور جو مال بیچا تھا وہ بھی لے گیا ہے۔ پتا نہیں ملے گا یا نہیں؟ ہمارے سردار کی بیوی جو کہ اونٹ کے ہودج میں بیٹھی تھی‘ اس نے کہا کہ جس آدمی نے اس اونٹ کو خریدا ہے‘ اس کا چہرہ اتنا روشن تھا کہ یہ کسی جھوٹے آدمی کاچہرہ نہیں ہو سکتا۔ میں اس کی ضمانت دیتی ہوں۔ یہ قیمت تم کو لازماً پہنچ کررہے گی۔
چند لمحات گزرے تھے کہ ایک آدمی آیا اور پوچھنے لگا کہ کیا تم لوگوں نے اپنا اونٹ فروخت کیا ہے؟ ہم نے کہا : ہاں‘ ہم نے فروخت کیا ہے۔ اس نے کہا کہ یہ لو وہ قیمت جو تم نے طے کی تھی‘ اور یہ مزید تمھاری میزبانی اور مہمان داری کے لیے۔ اس طریقے سے یہ معاملہ طے ہوا۔
اسی طرح ایک اور قبیلے سے ایک عورت آئی اور واپس جا کر کہا کہ لوگو! محمدؐکے پیچھے چلو‘ اس لیے کہ ایسا سخی آدمی میں نے نہیں دیکھا۔ آپؐدونوں ہاتھوں سے بھر بھرکر لوگوں کو دیتے ہیں اور ان کی خدمت کرتے ہیں۔
آپؐکی سخاوت‘ آپؐ کی شجاعت‘ آپؐکی نرمی‘ یہ وہ چیز تھی جو لوگوں کو اس دعوت کے ساتھ ‘ اس پیغام کے ساتھ چپکائے ہوئے تھی۔ قرآن مجید نے بھی اس بات کو یوں بیان کیا ہے:
فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ ج وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ ص (اٰل عمرٰن۳:۱۵۹) (اے پیغمبرؐ) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے نرم مزاج واقع ہوئے ہو۔ ورنہ اگر کہیں تم تُند خو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمھارے گرد وپیش سے چَھٹ جاتے۔
یہ بات اس بات کے اُوپر گواہ ہے کہ مجرد پیغام کی سچائی کثیر لوگوں کو کسی بھی دعوت کے گرد جمع نہیں کر سکتی۔ جب تک اس دعوت کو پیش کرنے والے اس کردار سے بھی آراستہ نہ ہوں‘ جو کردار اُن لوگوں کے لیے باعث کشش ہو اور نرمی و محبت کاپیغام لے کر آتا ہو۔
آپؐنے دو صحابہ کرامؓکو کسی قبیلے میں دعوت کے لیے بھیجا تو کہا: دیکھو‘ نفرت نہ پیدا کرنا۔ بات اس طرح مت کہنا کہ لوگ اپنے رب سے نفرت کرنے لگیں۔ بات اس طرح کہنا کہ آسانی اور سہولت ہو اور لوگ رغبت کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہوں۔ یہ آپؐ کی رحمت اور شفقت تھی جس نے لوگوں کو آپؐکے چاروں طرف جمع کر دیا۔
اس دعوت میں مقابلہ‘ لڑائی‘ کش مکش اور جدوجہد بھی تھی۔ لیکن کش مکش اور جدوجہد منتقمانہ ذہنیت کے ساتھ یا بدلہ لینے کی ذہنیت اور فکر کے ساتھ نہیں تھی، بلکہ اس پوری جدو جہد میں ہر وقت یہی فکر غالب تھی کہ یہ لوگ نادان ہیں‘ یہ جانتے نہیں ہیں، جذبات سے مغلوب ہوچکے ہیں اور جاہلیت کے پنجے کے اندر پھنسے ہوئے ہیں۔یہ اگر آج آکر حق کے مقابلے پر کھڑے ہوئے ہیں‘ اس کی وجہ باطنی خباثت نہیں بلکہ دھوکے اور فریب کے اندر مبتلا ہوناہے۔ پھر ان کے لیے دعاگو بھی رہے کہ اے اللہ! انھیں ہدایت دے۔
طائف کے اندرآپؐ کو پتھر بھی مارے گئے‘ آپؐکاخون بہایا گیا، اس کے باوجود کہ آپؐلوگوں سے بدلہ لے سکتے تھے اور ان کو دو پہاڑوں کے درمیاں پیس سکتے تھے، پہاڑوں کا فرشتہ بھی حاضر تھا کہ آپؐحکم دیں تو اس بستی کو پیس کر رکھ دوں‘ لیکن آپؐنے فرمایا: نہیں، میں اس بات سے مایوس نہیں ہوں کہ ان کی نسل میں سے ایسے لوگ اٹھیں جو ہدایت کے راستے پر آئیں۔
غزوۂ اُحدمیں آپؐزخمی ہوگئے، آپؐکے دندان مبارک شہید ہوگئے۔ اس کے باوجود آپؐکی زبان مبارک پر یہ الفاظ نہیں تھے کہ لوگو! اُٹھو اور اس کا بدلہ لو‘ بلکہ یہ الفاظ تھے:رب اھد قومی فانھم لایھدون، اے اللہ! میری قوم کو صحیح راستے پر لگا، اس لیے کہ یہ جانتے نہیں ہیں۔ ان کی یہ روش اس وجہ ہے کہ اس سے واقف نہیں ہیں۔
اسوۂ دعوت کے ضمن میں یہ چند بنیادی باتیں ہیں۔اگر ان باتوں کو آج داعیِ حق سمجھ لیں کہ جو کام ہم نے اپنے ذمے لیا ہے اور ہر مسلمان کو اپنے ذمے لینا چاہیے‘ یہ اس لیے ہے کہ یہ ہمارا بنیادی فرض ہے۔ یہ دراصل کارِ رسالتؐ ہے۔ کوئی اور کام اپنی منزل پر پہنچے یا نہ پہنچے‘ یہ وہ کام ہے جس کو ہر صورت میں انجام دیا جانا چاہیے۔یہ بات ہم میں سے ہر ایک کو اپنے سامنے ہمیشہ رکھنی چاہیے کہ میرے گردو پیش جتنے لوگ ہیں ان کو صحیح راستے پر لانے کے لیے میں جواب دہ ہوں۔ پھر مجھے اس پوزیشن میں ہونا چاہیے کہ زندگی کے کسی بھی مرحلے میں ، میں ان سے کھڑے ہو کر پوچھوں‘ خواہ اپنی بیوی بچوں سے پوچھنا پڑے یا اپنے محلے والوں سے‘ یا کھیتوں میں کام کرنے والوں سے پوچھنا پڑے یا فیکٹری میں کام کرنے والے مزدوروں سے‘ یا اپنے کاروبار یا ملازمت میں ساتھ کام کرنے والوں سے پوچھنا پڑے کہ کیا میں نے تم تک حق کا پیغام پہنچا دیا ہے، تو لوگ کہیں کہ ہاں، پہنچا دیاہے۔ ماننا یا نہ ماننا یہ لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔ یہ ان کا اپنا فعل اور اپنا امتحان ہے۔ ہم کتنا ہی چاہیں‘ چاہے اس کے لیے اپنی جان ہی گھلا ڈالیں:
اِنَّکَ لَا تَھْدِیْ مَنْ اَحْبَبتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ ج (القصص ۲۸:۵۶) اے نبیؐ!تم جسے چاہو اسے ہدایت نہیں دے سکتے، مگر اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتاہے۔
گویا یہ تمھارے ہاتھ میں نہیں کہ تم صرف اپنے چاہنے اور خواہش سے لوگوں کو صحیح راستے پر لگاسکو۔ لوگوں کا اپنا ارادہ اس کے اندر بنیادی چیز ہے۔ توفیق بھی چاہنے پر ملتی ہے:
اَللّٰہُ یَجْتَبِیْٓ اِلَیْہِ مَنْ یَّشَـآئُ وَیَھْدِیْٓ اِلَیْہِ مَنْ یُّنِیْبُ o (الشورٰی۴۲:۱۳) اللہ جسے چاہتا ہے اپنا کر لیتا ہے، اور اپنی طرف آنے کا راستہ اُسی کو دکھاتا ہے جو اُس کی طرف رجو ع کرے۔
دنیا کے اندر نظامِ حق قائم ہو یا نہ ہو‘ یہ بھی ہماری ذمہ داری نہیں۔ نظام حق کے لیے کام کرنا ہم پرفرض ہے لیکن اس کو قائم کر دینا یہ ہماری ذمہ داری نہیں ہے۔ خدا کے بے شمار انبیا تھے جو دنیا سے رخصت ہوگئے‘ کئی برس کی جدوجہد کے بعد رخصت ہوگئے‘ مگر ان کی قوموں نے ان کی بات مان کر نہیں دی۔ وہ اپنی آنکھوں سے اس نظام کو قائم ہوتا نہیں دیکھ سکے۔قرآن مجید نے خود فرمایا:
وَ اِنْ مَّا نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُھُمْ اَوْنَتَوَفَّیَنَّکَ فَاِنَّمَا عَلَیْکَ الْبَلٰغُ وَعَلَیْنَا الْحِسَابُo ( الرعد ۱۳:۴۰)اور اے نبیؐ، جس بُرے انجام کی دھمکی ہم ان لوگوں کو دے رہے ہیں اس کا کوئی حصہ خواہ ہم تمھارے جیتے جی دکھا دیں یا اس کے ظہور میں آنے سے پہلے ہم تمھیں اٹھالیں، بہر حال تمھارا کام صرف پیغام پہنچا دینا ہے اور حساب لینا ہمارا کام ہے۔
گویا حساب لینااللہ تعالیٰ کی ذمہ داری ہے اور پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے۔ پہنچانے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ جس طرح چاہا پہنچا دیا اور فرض ادا ہوگیا، بلکہ اس سے مراد حکمت اور خوب صورتی کے ساتھ، دل کو موہ لینے والے طریقوں اور پورے سوز و درد کے ساتھ پہنچانا ہے۔ یہ وہ بنیادی ذمہ داری ہے جس سے ہم بچ نہیں سکتے‘ جس کی جواب دہی ہم کوکرنا پڑے گی۔ ہرمسلمان کو یہ جواب دہی عام انسانوں تک دعوت پہنچانے کے حوالے سے کرنا پڑے گی۔ یہ جواب دہی اس حوالے سے بھی ہے کہ جو لوگ اس نعمت‘ اس ہدایت اور اس ذمہ داری سے واقف نہیںتھے، آیا ہم نے ان کے سامنے اس کو پیش کیا یا نہیں ۔
وَمَآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ ج اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰی رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo (الشعرآء ۲۶:۱۰۹) میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں۔ میرا اجر تو رب العالمین کے ذمے ہے۔
میں اپنی بات کو اس حدیث کے اُوپر ختم کروں گا جس میں نبی کریمؐنے فرمایا ہے کہ قیامت کے روز ایک آدمی بارگاہِ رب میں حاضر ہوگا اور اس سے اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ میں بھوکا تھا، تم نے مجھے کھانا کیوں نہیں دیا ؟وہ کہے گا کہ پروردگارتو سارے جہانوں کا رب ہے تو بھلا کہاں بھوکا ہوتا اور تجھ کو کھانا کیسے دیتا؟ اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میرا فلاں بندہ بھوکا تھا اور تو نے اس کو کھانا نہیں دیا۔ اسی طریقے سے وہ اس سے بیمار اور پیاسے کے بارے میں سوال کرے گا۔ احادیث میں مختلف چیزیں مختلف روایات میں بیان ہوئی ہیں۔ لیکن وہ تمام انسانوں کی مادی ضروریات ہیں‘ یعنی کھانا، پانی، لباس، دوا کہ جن پر اس کی دنیا کی فلاح اور بھلائی کا انحصار ہے۔ اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ جہاں اللہ کے بندوں کی یہ ساری ضروریات پوری کرنے کے بارے میں سوال کیا جائے گا‘ تو کیا وہاں یہ سوال نہیں ہو گا کہ میرا فلاں بندہ گمراہ ہو کر جہنم کی راہ پر جارہا تھا اور تم نے اس کو کیوں نہیں بچایا؟ یہ سوال اگر کیا جائے گا تو اس سوال کا جواب ہمارے پاس تیار ہونا چاہیے۔
وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًاo اِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللّٰہِ لَا نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآئً وَّلَا شُکُوْرًاo (الدھر۷۶:۸-۹) اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں(اور اُن سے کہتے ہیں کہ )، ہم تمھیں صرف اللہ کی خاطر کھلا رہے ہیں‘ ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ۔
اگر دعوت پر خلوص ہو اوراس کے پیچھے یہ روح اور جذبہ کارفرما ہو ،اس کی ہر وقت اورہر دم لگن ہو، اس کے ساتھ اپنے بھائی کے لیے سوز اور تڑپ ہو اور اس کا دکھ درد بانٹنے کی کوشش ہو، اور پھر یہ سب کسی اجر یا صلے کے لیے نہ ہو بلکہ اس لیے ہو کہ اللہ تعالیٰ ہم سے خوش ہو اورہماری اس کے سامنے حجت قائم ہو جائے۔ اس کیفیت اور جذبے کے ساتھ‘ اس پیغام کو لے کر اگر آپ ذمہ داری کے ساتھ‘ اپنے گائوں‘ محلے‘ تحصیل اور ضلع میں کھڑے ہو جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ چند برسوں کے اندر اندر یہ پیغام عام نہ ہو، اور انسانوں کی کثیر آبادی کم سے کم اس سے واقف نہ ہوجائے۔ ماننا یا نہ ماننا اور دلوں کا موڑنا اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ (کیسٹ سے تدوین: امجد عباسی)