مضامین کی فہرست


جون ۲۰۱۰

بسم اللہ الرحمن الرحیم

کسی ملک میں جمہوری نظام کے قیام اور استحکام کے لیے اوّلین شرط یہ ہے کہ وہاں انتخابات آزاد اور شفاف طریقے سے، اور مقررہ وقت پر ہوں۔ لیکن اس سے بڑی مبالغہ آمیزی بلکہ خودفریبی ممکن نہیں کہ محض انتخابات کو جمہوریت کے لیے کافی سمجھ لیا جائے۔ پھر ’عوامی عدالت‘ کے گمراہ کن نعرے کا سہارا لے کر یہ دعویٰ کیا جائے کہ: ’’انتخاب جیتنے کے بعد حکمرانوں کو اپنی من مانی کا کُلی اختیار حاصل ہوگیا ہے، اور ہرقیمت پر انھیں ایک متعین مدت کے لیے حکمرانی کے غیرمحدود اختیارات حاصل ہوگئے ہیں‘‘۔ ایسی سوچ نہ تو جمہوری ہے اور نہ دیانت و شائستگی کی عکاس۔

جمہوریت کی اصل بنیاد: قانون کی حکمرانی، مسلسل مشاورت کا نظام اور ہرقدم پر دستور، قانون، پارلیمنٹ اور عوام کے سامنے جواب دہی کے اصولوں پر قائم ہے۔ خصوصیت سے جن ممالک میں تحریری دستور ہے، ان کے بارے میں تو اس معاملے میں دو آرا ممکن نہیں کہ دستور ہی مملکت کا اساسی قانون ہے اور ریاست کا ہر ادارہ دستور کی تخلیق (creation) اور دستور کے مقرر کردہ حدود کا پابند اور اختیارات کا امین ہے۔

یہ عوام کا حق ہے اور ان کی ذمہ داری بھی، کہ وہ اپنی آزاد مرضی سے پارلیمنٹ کا انتخاب کریں اور ارکانِ پارلیمنٹ اس دستور کی حدود میں رہتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں ادا کریں۔ ریاست کے تمام ادارے بشمول پارلیمنٹ، انتظامیہ، عدلیہ، فوج اور ذرائع ابلاغ اپنے اپنے دائرے میں پوری آزادی، ذمہ داری اور جواب دہی کے ساتھ اپنا منصبی کردار ادا کریں۔ پارلیمنٹ کا کام یہ ہے کہ وہ قانون سازی، ملک کی خارجہ اور داخلہ پالیسیوں کی صورت گری، انتظامیہ کا انتخاب اوراس کی کارکردگی کی نگرانی کرے۔ اسی طرح انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ قانون کی پاس داری اور پالیسی سازی کے ساتھ، پارلیمنٹ اور عدلیہ کے فیصلوں کی مکمل تنفیذ کا اہتمام کرے۔ عدلیہ انصاف کی فراہمی، قانون پر عمل درآمد، اور دستور اور قانون کی تعبیر وتشریح کا فریضہ انجام دے، نیز عوام اور تمام اداروں کے بنیادی حقوق کی حفاظت اور نگہبانی کی ذمہ دار ہو۔ میڈیا کی آزادی اور بنیادی حقوق کی ضمانت ہی وہ ماحول پیدا کرتے ہیں جس میں جمہوریت پھل پھول سکتی ہے۔

ایک مہذب معاشرے میں کسی ایک ادارے کی دوسرے پر بالادستی کوئی مسئلہ نہیں ہوتی، بلکہ دستور کی بالادستی کی حدود میں ہر ادارے کو اپنا اپنا وظیفہ، آزادی اور ذمہ داری سے اداکرنے کا موقع فراہم کرنا چاہیے۔ اس تناظر میں موجودہ وفاقی حکومت نے جو طریق کار اپنایا ہے، وہ جمہوریت کے مستقبل کے لیے گوناگوں مشکلات اور خطرات کو جنم دے رہا ہے۔ اس لیے یہ بے حد ضروری ہے کہ ملک کی تمام جمہوری قوتیں ہوش مندی کا مظاہرہ کریں اور دستور کی پاس داری اور جمہوریت کے حقیقی فروغ کے لیے سینہ سپر ہوجائیں کہ اس نازک وقت میں معمولی سی لغزش بھی بڑے بھیانک اور خطرناک نتائج کا سبب بن سکتی ہے۔ گویا  ع

یک لحظہ غافل گشتم و صدسالہ راہم دور شد

سیاسی منظرنامہ

جنرل پرویز مشرف کا نوسالہ دورِ اقتدار (۱۹۹۹ئ-۲۰۰۸ئ) پاکستان کی تاریخ کا تاریک ترین دور ہے۔ اس زمانے میں جمہوریت کے ہراصول کو بڑی بے دردی سے پامال کیا گیا۔ دستور کی شکل بگاڑ دی گئی اور تمام دستوری و آئینی اداروں کو اپنی اپنی قانونی حدود میں کام کرنے کے مواقع سے محروم کر دیا گیا۔ فوج کی قوت کے ناجائز استعمال کے ذریعے شخصی آمریت کا نظام قائم کیا گیا۔ پارلیمنٹ، عدلیہ اور معاشرے کے اجتماعی اداروں کو غیرمؤثر کردیا گیا۔ فیڈریشن کے مسلّمہ اصولوں کے برعکس ایک طرز کا وحدانی نظام ملک پر مسلط کردیا گیا۔ دو صوبوں میں فوجی آپریشن کے ذریعے دستوری انتظام اور وسیع علاقوں کے امن و سکون کو درہم برہم کر دیا گیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ  ایک طرف پاکستان کے نظریاتی، تہذیبی اور اخلاقی تشخص کو تباہ و برباد کیا گیا، تو دوسری طرف امریکا کی محکومی کا وہ راستہ اختیار کیا گیا جس کے نتیجے میں سیاست، معیشت، ثقافت، تعلیم، غرض زندگی کا ہر شعبہ امریکا اور اس کے کارپردازوں کی گرفت میں آگیا۔ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر امریکی شعلہ باری نے پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ امریکی حکام اور سفارت کار ہرمعاملے میں دخیل اور ہرپالیسی پر اثرانداز ہوگئے اور قوم عملاً اپنی آزادی سے محروم ہوگئی، نیز  سالہا سال سے فوج اور قوم کے درمیان اعتماد اور محبت کا جو رشتہ تھا، اسے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ معاشی اعتبار سے بھی ملک ایسی صورت حال سے دوچار ہوگیا جس میں ترقی کا عمل منجمدہوکر رہ گیا۔ مالی نقصانات ۴۵سے ۵۰ بلین ڈالر کی حدوں کو چھونے لگے اور ملک بیرونی اور ملکی قرض کے پہاڑ تلے دبتا ہی چلاگیا۔ ان حالات میں طاقت کے نشے میں مست جنرل پرویز مشرف نے ۹مارچ ۲۰۰۷ء اور پھر ۳نومبر ۲۰۰۷ء کو ملک کی اعلیٰ عدلیہ پر بھرپور وار کیے، اور اس زعم پر کیے کہ وہ بلاشرکت غیرے حاکمِ مطلق ہے اور ہر ادارے کو اپنی مٹھی میں لے کر اپنے لامتناہی اقتدار کو مستحکم کرسکتا ہے، مگر اللہ کا منصوبہ کچھ اور تھا اور چیف جسٹس، اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان، ملک کی وکلابرادری، سیاسی کارکن، سول سوسائٹی اور میڈیا کے پُرعزم کارکنوں کی عوامی تحریک نے حالات کا رُخ تبدیل کر دیا۔

جنرل پرویز مشرف نے ایک آخری وار، سیاسی قوتوں کو تقسیم کرنے، بدعنوانیوں اور کرپشن کی دھلائی (laundering) کے لیے این آر او کی شکل میں کیا۔ ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت کو اپنے ساتھ ملا کر شراکت ِاقتدار کا ایک نیا بندوبست کرنے کی کوشش کی۔ مئی ۲۰۰۶ء میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے ایک اہم معاہدہ ’میثاقِ جمہوریت‘ کی شکل میں کیا تھا، جسے جمہوری جدوجہد کی تاریخ میں ایک سنگِ میل قرار دیا جا رہا تھا۔ اس کے ذریعے ان دو بڑی جماعتوں نے نہ صرف یہ کہ ماضی میں اپنی غلطیوں کا اعتراف کیا بلکہ آیندہ کے لیے ایک جمہوری لائحہ عمل (روڈمیپ) قوم کو دینے کی کوشش کی۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ اور جمہوریت کی طرف سفر کے باب میں یہ دستاویز چند جزوی کمزوریوں کے باوجود، ایک بڑا مثبت قدم تھی۔ اس میثاق میں ان دونوں جماعتوں نے خود آپس میں اور پوری قوم سے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ آیندہ ان میں سے کوئی بھی فوجی طالع آزمائوں سے کسی طرح کا معاملہ نہیں کرے گا، اختلافِ راے کے باوجود ایک دوسرے کو برداشت کریں گے اور ملک میں حقیقی جمہوریت، یعنی قانون کی حکمرانی، بنیادی حقوق کی پاس داری، دستور کی ۱۹۹۹ء کی شکل میں بحالی، آزاد اور شفاف انتخابات اور عدلیہ کی آزادی کے لیے جدوجہد کریں گے۔

حالات کی ستم ظریفی ہے کہ ادھر یہ معاہدہ ہو رہا تھا اور دوسری طرف جنرل پرویز مشرف اور پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کے درمیان خفیہ ملاقاتوں میں شراکتِ اقتدار کے نئے شاطرانہ انتظام کے تانے بانے ’این آر او‘ کی شکل میں مرتب کیے جا رہے تھے۔ اس انتظام میں امریکا اور برطانیہ دونوں کی حکمران قیادتیں شریک اور ضامن تھیں۔ اس سیاسی بندوبست کو آخری مراحل تک خفیہ رکھنے کی کوشش کی گئی، لیکن بالآخر بلی تھیلے سے باہر آگئی۔ اب تو بے نظیر بھٹو صاحبہ کے قتل کے بارے میں اقوامِ متحدہ کے کمیشن کی رپورٹ میں ہرچیز بہت ہی صاف لفظوں میں ساری دنیا کے سامنے رکھ دی گئی ہے۔ اس داستان سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ پیپلزپارٹی کی قیادت نے ’میثاقِ جمہوریت‘ کی کھلی خلاف ورزی کی اور جنرل مشرف کے ساتھ اشتراکِ اقتدار کا بندوبست کیا، جسے تاریخ نے درہم برہم کردیا۔ انجامِ کار پیپلزپارٹی پر سیاسی بے اعتمادی اور اصول فروشی کا ایسا دھبّا لگ گیا،جسے مٹایا نہیں جاسکے گا۔

اس پس منظر میں ۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات ہوئے، جن میں عوام نے ایک طرف جنرل پرویز مشرف اور اس کے سیاسی حلیفوں کو یکسر مسترد کر دیا۔ دوسری طرف بنیادی تبدیلی کی  توقع پر سیاسی جماعتوں کو اس طرح ووٹ دیا کہ کوئی ایک جماعت واضح اکثریت میں نہ آسکی۔  یوں سیاسی جماعتوں کے پاس مخلوط حکومت کے علاوہ کوئی اور راستہ نہ رہا۔ شروع میں ایک بار پھر میثاقِ جمہوریت پر دستخط کرنے والی جماعتوں نے مل کر حکومت قائم کرنے کی کوشش کی مگر نت نئی وعدہ خلافیوں اور سیاسی چال بازیوں سے ساجھے کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوٹ گئی۔ یہاں سے مفادپرستی کی سیاست کا نیا دور شروع ہوگیا۔ تمام ہی سیاسی جماعتوں نے، بشمول ان جماعتوں کے جنھوں نے اپنے اصولی موقف کی وجہ سے انتخابات میں شرکت نہیں کی تھی، مگر سب یہ چاہتے تھے کہ آمریت سے نجات، فوج کی سیاست میں عدم مداخلت اور نئے جمہوری سفر کی پیش رفت کی جائے۔ جس کی منزل دستور اور قانون کی حکمرانی، عدلیہ کی آزادی، پارلیمنٹ کی بالادستی، بنیادی حقوق کی پاس داری، سماجی انصاف اور معاشی خوش حالی کا حصول ہو۔ اس کے لیے اختلافات کی آگ کو ٹھنڈا کیا جائے اور قومی یک جہتی کی فضا پیدا کی جائے۔ جو بھی حکومت اس جمہوری دور کے آغاز میں قائم ہوگئی، اسے کام کرنے کا موقع دیا جائے۔ مشترکہ نکات میں تعاون کی راہیں تلاش کی جائیں اور انھیں کشادہ بھی کیا جائے، تاکہ ملک میں حقیقی جمہوریت کی طرف پیش رفت کا باب کھل سکے۔

یہی وجہ تھی کہ وزیراعظم کے انتخاب کے موقع پر سب جماعتوں نے اتفاق راے سے جناب سید یوسف رضا گیلانی کی تائید کی اور ۲۲؍اکتوبر ۲۰۰۸ء کو پارلیمنٹ نے آزاد خارجہ پالیسی کی تشکیل، قومی سلامتی کے نئے مثالیہ (paradigm) کی تشکیل اور ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے نمٹنے کے لیے نئی حکمت عملی کے متفقہ خطوط مرتب کیے۔ پھر اسی اسپرٹ میں تمام جماعتوں نے مکمل اتفاق راے سے دستور کو ۱۹۹۹ء کی صورت سے قریب ترین شکل میں بحال کرنے کے لیے اٹھارھویں دستوری ترمیم تیار کی اور اسے متفقہ طور پر منظور کیا۔

جمھوریت کا مستقبل اور خدشات

گذشتہ ۲۷ مہینوں میں یہ مثبت پیش رفت ہوئی، لیکن ہمیں بہت دکھ سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ مرکز میں جو حکومت اس زمانے میں برسرِاقتدار رہی ہے، اس نے یکسوئی اور اصول پرستی کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ خصوصیت سے پیپلزپارٹی اور اس میں بھی جناب آصف علی زرداری اور ان کے منظورِنظر گروہ نے ایک متوازی حکمت عملی پر عمل کیا۔ اپنے مخصوص مفادات کے تحفظ کے لیے عوام کے مینڈیٹ اور پارلیمنٹ کے متفقہ موقف کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے جو راستہ اختیار کیا، اس نے جمہوریت کی گاڑی کو پٹڑی پر چلنے کے مواقع سے محروم کر دیا۔ نتیجہ یہ سامنے آیا کہ ملک کو اداروں اور سیاسی اور دینی قوتوں کے درمیان کش مکش، ٹکرائو اور تصادم کی راہ پر ڈال دیا گیا۔ اس سلسلے میں جو رجحانات بہت کھل کر سامنے آگئے ہیں، ان میں سے اہم ترین یہ ہیں:

مفاھمت کا نام اور مفادات کا تحفظ

مفاہمت کے نام پر صرف مفادات کے تحفظ کا کھیل کھیلا گیا اور جو وعدے عوام سے کیے گئے تھے، ان سے سوچے سمجھے انداز میں انحراف کا راستہ اختیار کیا گیا۔ چونکہ حکومت کمزور تھی،    اس لیے جب حالات نے مجبور کیا تو پسپائی اختیار کی، لیکن کج روی کی مسلسل روش کوترک نہیں کیا۔ اس کی سب سے اہم مثال عدلیہ کے ساتھ اس حکومت کا رویہ ہے۔ وزیراعظم نے حلف اٹھاتے ہی ججوں کی حراست کو ختم کر دیا جس سے بڑی توقعات پیدا ہوئیں، لیکن پھر طرح طرح کے شوشے چھوڑ کر عدلیہ کی بحالی کو معرضِ التوا میں ڈال دیا گیا۔ کبھی دستور میں ترمیم کی بات کی، کبھی پارلیمنٹ کی قرارداد کا فسانہ گھڑا، کبھی وکلا کو تقسیم کرنے کا کھیل کھیلا اور ان چال بازیوں میں ایک سال ضائع کر دیا۔ بالآخر عوامی تحریک کے نتیجے میں جب ۱۵ مارچ ۲۰۰۹ء کو حالات حکومت کی گرفت سے نکلتے نظر آئے، اور مقتدر قوتوں نے بھی تعاون سے دست کش ہونے کا عندیہ دیا تو ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے عدلیہ کو بحال کر دیا گیا، اس طرح ایک طوفان ٹل گیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ماضی کی سیاسی قوتوں کی طرح اس حکومت نے بھی یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ آزاد عدلیہ سے خائف ہے اور ہرممکن طریقے سے عدلیہ کو اپنے دبائو میں رکھنے کی بار بار کوشش کرتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اللہ کی مشیت کے تحت اس کی ہرچال ناکام ہوئی، اور اسے ہر بار پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ عدلیہ میں تقرریوں کے معاملے پر جو تنازع کھڑا کیا گیا اس کے دوران دھمکی آمیز انداز میں یہاں تک کہہ دیاگیا کہ عدلیہ کو محض ایک نوٹیفیکیشن سے بحال کیا گیا ہے، پارلیمنٹ نے تو ابھی قرارداد منظور نہیں کی۔

اس طرح یہ تاثر دیا گیا کہ ہم کسی وقت بھی پانسہ پلٹ سکتے ہیں۔ لیکن حکمران یہ بھول گئے کہ عدلیہ کی بحالی محض ان کے نوٹیفیکیشن سے نہیں، عوامی تحریک کے دبائو کے نتیجے میں واقع ہوئی تھی، یعنی پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار عدلیہ اپنی استقامت اور عوام کی تائید اور اعتماد سے بحال ہوئی ہے اور اب وہ ایک محکوم عدلیہ نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں آزاد عدلیہ ہے، جس نے ۳۱جولائی ۲۰۰۹ء اور ۱۶دسمبر ۲۰۰۹ء کے فیصلوں کی شکل میں اپنی خودمختار اور آزادانہ حیثیت کو منوا لیا ہے۔ نیز عدلیہ نے انتظامیہ کی مداخلت کی بھی مزاحمت کی ہے اور عوام کے حقوق اور شکایات کے ازالے کے لیے احتیاط کے ساتھ مگر مؤثر کردار ادا کیا ہے۔ مارچ ۲۰۰۹ء سے اس وقت تک کی عدلیہ کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو بحیثیت مجموعی اس کا کردار بہت مثبت، باوقار اور دستور اورقانون کی حکمرانی کو مستحکم کرنے والا نظر آتا ہے۔ عدالتی فعالیت (judicial activism) اور عدالتی احتیاط کے درمیان ایک مناسب توازن نظر آتا ہے، جو ملک کے حالات اور عالمی تجربات دونوں کی روشنی میں لائق تحسین ہے۔ اس کے برعکس حکومت کا رویہ نہایت غیرتسلی بخش بلکہ اشتعال انگیز محسوس ہوتا ہے، اور انگریزی محاورے میں ’ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے‘ کی نظیر پیش کرتا ہے۔

اس دوغلے رویے کو سمجھنے کے لیے چند مثالیں سامنے رکھنا ضروری ہیں:

l ۳نومبر ۲۰۰۷ء کی عدلیہ کو بحال کرنے میں جس لیت و لعل کا مظاہرہ کیا گیا اور جس طرح بار بار موقف تبدیل کیا گیا اور پھر مجبور ہوکر اسے بحال کیا گیا، اس سے پہلی غلط مثال قائم ہوئی، اور اس کے نتیجے میں حکومت کے خلوص اور اصول پرستی کے باب میں شدید بے اعتمادی کی  فضا قائم ہوئی۔

  • عدالت کے ۳۱ جولائی ۲۰۰۹ء کے تاریخی فیصلے نے دستور کی حکمرانی، مارشل لا کے  نظام کی غیرقانونی حیثیت اور اس بارے میں خود عدالتوں کے ماضی کے رویوں کی تنقیص اور احتساب نے عدلیہ پر قوم کے اعتماد کو مزید مستحکم کیا، یوں ۱۶مارچ کے بعد کی عدلیہ کو ماضی کی عدلیہ سے ممیز کر دیا، لیکن حکومت نے اس تبدیلی کو دل سے قبول نہیں کیا اور خصوصیت سے عدلیہ میں چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری کی تجویز کردہ تقرریوں کے برعکس اپنی من مانی کرکے عدلیہ سے ٹکر کی ایک کھلی کوشش کی، جو الحمدللہ ناکام ہوئی۔ جس طرح عدلیہ کی بحالی پر حکومت کو مجبور ہوکر صحیح اقدام کرنا پڑا، بالکل اسی طرح مذکورہ دوسرے اہم موقع پر بھی اس نے منہ کی کھائی اور بالآخر عدلیہ کے فیصلے کو بالادستی حاصل ہوئی۔

دستور کی بحالی میں ٹال مٹول

دستور کی بحالی کے مسئلے کو بھی حکومت نے مسلسل ٹال مٹول کا شکار کیے رکھا۔ مارچ ۲۰۰۸ء سے لے کر مئی ۲۰۰۹ء تک ۱۴ مہینے ضائع کیے اور صرف ضائع ہی نہیں کیے، اس زمانے میں اپنا  ایک مسودّۂ ترمیم دستور تیار کیا، جو دستور کی بحالی سے زیادہ اس کا حلیہ مزید بگاڑنے کی ایک کوشش تھی۔ پارلیمنٹ، عوام اور میڈیا کے پُرزور ردِّعمل کی وجہ سے اس مسودّے کا پیدایش سے پہلے ہی اسقاط ہوگیا اور حکومت مجبور ہوئی کہ کُل جماعتی پارلیمانی کمیٹی قائم کرے، جسے مئی ۲۰۰۹ء میں قائم کیا گیا اور جس نے دو ماہ کے بعد اپنے کام کا آغاز کر کے مارچ ۲۰۱۰ء میں اٹھارھویں ترمیم کا مسودہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں پیش کر دیا۔

عدلیہ سے محاذ آرائی

این آر او کے قانون کے بارے میں حکومت نے بہت ہی متضاد رویے اختیار کیے۔ اس سیاہ اور شرمناک قانون سے سب سے زیادہ فائدہ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کی قیادت، کارکنوں اور ان سرکاری افسروں نے اٹھایا، جن پر کرپشن اور قتل و غارت گری یا ان میں معاونت کے سنگین الزامات تھے۔ عدالت نے اپنے ۳۱جولائی ۲۰۰۹ء کے فیصلے میں جنرل پرویزمشرف کے تمام آرڈی ننسوں کو خلافِ قانون قرار دیا، مگر عملی مشکلات سے ملک کو بچانے کے لیے ان آرڈی ننسوں کو بشمول    این آراو پارلیمنٹ کی طرف لوٹا دیا، کہ اگر ان کو جاری رکھنا چاہتی ہے تو چار مہینے کے اندر قانون سازی کے ذریعے انھیں حیاتِ نو دے دے۔

حکومت نے این آر او کو پارلیمنٹ میں پیش کیا، مگر اسے منظور نہ کراسکی۔ نتیجہ یہ کہ عدالت کو اس کے بارے میں فیصلہ کرنا پڑا۔ اس لیے کہ عدالت میں اکتوبر ۲۰۰۷ء سے اس کے خلاف رٹ  کا مقدمہ موجود تھا۔ حکومت نے عدالت میں این آر او کا دفاع نہیں کیا اور حکومت کے وکیل   جناب کمال اظفر نے اپنے تحریری بیان میں صاف لفظوں میں کہا : ’’این آر او کے تحت تمام مقدمات کو اس کے نفاذ سے پہلے کی صورت میں بحال کیے جانے پر حکومت کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا‘‘۔ جب عدالت نے اس بدنامِ زمانہ قانون کو اس کی تاریخِ پیدایش سے کالعدم قرار دیا، اور اس کے نتیجے میں احتساب، کرپشن پر گرفت، قوم کی لوٹی ہوئی دولت کو واپس لانے کے بارے میں گیارہ احکام جاری کیے تو حکومت کے ہوش اُڑ گئے۔ اس لیے کہ اس کے نتیجے میں جناب آصف زرداری کے خلاف سارے مقدمات بھی کُھل رہے تھے اور خصوصیت سے سوئس عدالت میں مقدمات کی بحالی اس کا لازمی تقاضا تھا۔ یہ وہ موقع ہے کہ حکومت نے عدالت کے خلاف نئی محاذآرائی کا آغاز کیا اور حکومت کے وزرا، سرکاری ترجمان اور پارٹی کے زیراثر وکلا نے بھانت بھانت کی بولیاں بولنا شروع کردیں۔ یہ سلسلہ اس وقت زور شور سے جاری ہے، اور وزیرقانون اس یورش کی قیادت بھی کررہے ہیں۔ گو ۲۵مئی کو عدالت ِ عظمیٰ میں جو معرکہ وہ سر کرنا چاہتے تھے، اور ان کے حواری    جس طرح انصاف کی مشینری کو اپنی ایک ہی ضرب سے پاش پاش کرنے کی فضا بنا رہے تھے، وہ تو ٹائیں ٹائیں فش ہوگئی، اور بقول غالب   ؎

تھی خبر گرم کہ غالب کے اُڑیں گے پُرزے

دیکھنے ہم بھی گئے تھے، پہ تماشا نہ ہوا

حکومت نے عدلیہ کے فیصلے کے مطابق تمام مقدمات کی بحالی، نیب کی تشکیلِ نو یا احتساب کے نئے نظام کے قیام کے سلسلے میں کوئی اقدام نہیں کیا۔ دو سال سے قومی اسمبلی میں احتساب کے نام پر جو کمزور اور خامیوں سے پُر مسودّۂ قانون زیرغور ہے، اس حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ عدالت کے فیصلے کے بعد، اس کی روشنی میں، مقدمات کے احیا اور ان کی مؤثر پیروی حکومت ِ وقت کی ذمہ داری ہے۔ لیکن حکومت جس دلدل میں پھنس گئی، وہ یہ تھی کہ بیش تر مقدمات جن پارٹیوں کے قائدین اور کارکنان کے خلاف تھے، ان کا تعلق دو حکمران جماعتوں سے تھا، یعنی پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم اور ان کو بچانے کے لیے حکومت نے ان مقدمات میں کوئی دل چسپی نہ لی، اور جو مقدمات بحال ہوگئے، ان کے بارے میں بھی ملزموں پر گرفت کے بجاے ان کی معاونت اور گلوخلاصی کا راستہ اختیار کیا۔ نیب کے ادارے کو عضومعطل بنا دیا گیا۔ جو سرکاری وکیل اس کے تابع مہمل نہ تھے، ان کو فارغ کر دیا گیا اور اپنے من پسند افراد کو اس میں لانے کی کوشش کی گئی۔ وزیرقانون، جو خود مختلف بے قاعدگیوں اور بدعنوانیوں کے الزام میں مطلوب تھے ان کو نیب کا ذمہ دار بنا دیا گیا۔ دو اٹارنی جنرل مستعفی ہوئے، وزارتِ قانون کے دو سیکرٹری مستعفی ہوئے، جوائنٹ سیکرٹری مستعفی ہوئے، اور عدالت کے احکامات کے مطابق سوئس عدالت میں مقدمات کی بحالی کے لیے خط پانچ مہینے گزرجانے کے باوجود نہیں بھیجا گیا، بلکہ وزیرقانون نے یہ تک فرما دیا کہ ’’ایسا کوئی خط نہیں بھیجا جائے گا اور اگر کسی نے بھیجا تو وہ میری لاش سے گزر کر جائے گا‘‘ (on my dead body) ۔  یہ عدالت کے خلاف اعلانِ جنگ نہیں تو اور کیا ہے؟ عدالت نے پھر بھی پورے تحمل اور بُردباری سے اپنے احکام پر عمل درآمد کا مطالبہ جاری رکھا۔ دیکھیے اس کا انجام کیا ہوتا ہے، البتہ حکومت نے حکم عدولی کے باب میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

صدر زرداری اور سوئس مقدمات

عدالت کے سامنے تو ان سطور کے لکھنے تک دستور کی دفعہ ۲۴۸ کے تحت صدر کے استثنا کی درخواست نہیں دی گئی تھی مگر اس پر میڈیا میں لفظی جنگ پورے زورشور سے جاری ہے، حالانکہ اگر زرداری صاحب کا دامن پاک ہے تو انھیں بڑھ کر عدالت سے صفائی کا پروانہ حاصل کرنا چاہیے۔ دفعہ ۲۴۸ کا سہارا لینے کے معنی تو یہ ہیں کہ دال میں کچھ کالا کالا موجود ہے، اور ان کا دامن پاک نہیں ہے۔ پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مقدمے کا تعلق ان کے صدر بننے سے برسوں پہلے کے زمانے سے ہے اور مسئلہ مالی معاملات کا ہے، جب کہ دفعہ ۲۴۸ میں استثنا صرف فوجداری معاملات میں ہے اور وہ بھی ان امور کے بارے میں جو زمانۂ صدارت سے متعلق ہوں۔

یہ معاملہ ایسا ہے جس پر ساری دنیا کے اخبارات میں اور امریکا کی سینیٹ کی خارجہ کمیٹی کی کارروائیوں میں سیکڑوں صفحات پر مشتمل مواد موجود ہے، اور سوئس عدالت میں بھی ابتدائی طور پر جرم ثابت ہوچکا ہے۔ اگر سوئس بنک میں ۶۰ملین ڈالر ان کے حساب میں موجود ہیں تو کیا یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ یہ رقم کہاں سے آئی؟ اگر یہ ان کی جائز کمائی ہے تو اس کی تفصیل سامنے آنی چاہیے کہ کہاں سے یہ رقم کمائی گئی؟ کیا اس پر ٹیکس ادا ہوا؟ اور یہ سوئٹزرلینڈ کے بنک میں کیسے پہنچی؟ اس وقت تو معاملہ اس ایک رقم کا ہے مگر امریکا اور یورپ کے اخبارات میں، اور سب سے بڑھ کر امریکی سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کی کارروائیوں میں خود سٹی بنک کے ذمہ دار افراد کی جو شہادتیں موجود ہیں اور بنک کے حسابات میں جو تفصیلات آئی ہیں، وہ عالمی ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ اس کے علاوہ امریکا، برطانیہ، سوئٹزرلینڈ، فرانس اور اسپین کے بنکوں کے حسابات کی جو تفصیل ان تمام مقامات پر موجود ہے اور جس میں سے کچھ خود پاکستان کے میڈیا خصوصیت سے جیو، آج اور   اے آروائی کے چینلوں پر دکھائی جاچکی ہے۔ ان میں۵ئ۱ ارب ڈالر کی خطیر رقم موصوف کے ذاتی یا ان کمپنیوں کے حسابات میں ہے جو ان کی ملکیت ہیں یا جن میں ان کا حصہ ہے۔ تو کیا اس قوم کا یہ حق نہیں کہ اسے معلوم ہو کہ اتنی بڑی رقم اقتدار کی اتنی قلیل مدت میں (یعنی ۱۹۸۸ء سے ۱۹۹۶ء تک) ان کے قبضے میں کیسے آئی؟ اگر وہ اپنی اس جائز کمائی کو عدالت میں ثابت کردیں تو اس سے ان کو بھی سرخ روئی حاصل ہوگی اور یہ قوم بھی مطمئن ہوجائے گی لیکن اگر وہ ثابت نہیں کرسکتے تو پھر دستور کی دفعہ ۲۴۸ کا سہارا ان کے دامن کو پاک ثابت نہیں کرسکتا، بلکہ وہ اس احساس کو تقویت پہنچاتا ہے کہ یہ رقم یا اس کا بڑا حصہ قوم سے لوٹا ہوا ہے اور اسے اس غریب قوم کی طرف لوٹایا جانا چاہیے جس کی ۷۶ فی صد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔

معاملہ صرف ایک فرد کا نہیں بلکہ اصول اور قوم کی دولت اور امانت کی حفاظت کا ہے، اور پھر اس کا تعلق کرپشن کی اس لعنت سے ہے جو پاکستانی قوم اور ملک کو گُھن کی طرح کھا رہی ہے۔ ورلڈبنک کی رپورٹ یہ کہتی ہے کہ پاکستان میں گذشتہ ۱۰ برسوں میں کرپشن میں چار گنا (۴۰۰ فی صد) اضافہ ہوا ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی ۲۰۰۹ء کی رپورٹ کے مطابق صرف ایک سال میں کرپشن میں ۱۰۰ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ یہ قوم جس پر قرضوں کا بوجھ اس وقت ۸ ارب۹۲کروڑ روپے سے متجاوز ہے، جو صرف قرضوں پر سود کی مد میں ۷۵۰ ارب روپے سالانہ ادا کررہی ہے، اور جس کو اس کے اربابِ اقتدار اور اصحابِ ثروت کرپشن کے ذریعے ہرسال ۱۸۰۰ ارب روپے سے محروم کررہے ہیں، اس کی قسمت کو بدلنے کے لیے کرپشن کے خاتمے کے سوا اور کون سا راستہ ہے؟ اگر عدالت ِ عالیہ یہ چاہتی ہے کہ کرپشن کے ذریعے جس نے بھی جتنی دولت ہڑپ کی ہے اور قوم کو دووقت کی روٹی سے محروم کیا ہے تو کیا وہ وقت نہیں آگیا کہ اب سب کا حساب ہو اور حق کو حق دار کی طرف لوٹایا جائے۔ اب یہ مسئلہ ایک فرد کا نہیں پوری قوم کا ہے اور احتساب اُوپر سے ہو جب ہی وہ مؤثر ہوسکتا ہے۔ اس لیے این آر او کے مقدمات کسی کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کے لیے نہیں بلکہ معاشی انصاف اور قانون کی حکمرانی کے قیام اور نظام کی اصلاح کے لیے ہیں۔ کیا یہ ظلم نہیں ہے کہ چند روپے چرانے والے کو تو جیل کی ہوا کھانی پڑے اور اربوں روپے لوٹنے والے دستور کی دفعہ ۲۴۸ کے پیچھے پناہ لے لیں، یہ انصاف نہیں کرپشن کی پشت پناہی ہے اور اس سلسلے کو اب ختم ہونا چاہیے۔

این آر او ہی کے سلسلے میں وزیرداخلہ رحمن ملک پر بھی مقدمات ہیں، اور ان کے ایف آئی اے کے دوسرے رفقاے کار بھی اس کی گرفت میں آتے ہیں۔ معاملہ چاہے ریاض شیخ کا ہو یا رحمن ملک کا، یا ان کے دوسرے معاونین کا، جن جن حضرات نے این آر او کے تحت گلوخلاصی حاصل کی ہے ان کو کھلے انداز میں عدالتوں میں اپنے خلاف الزامات کا دفاع کرنا چاہیے، اور حکومت کا فرض ہے کہ ان سب حضرات کو ان کے سرکاری عہدوں سے اس وقت تک کے لیے فارغ کر دے، جب تک ان کی بے گناہی عدالت کے ذریعے ثابت نہیں ہوتی۔ حکومت کا رویہ یہ ہے کہ وہ نہ تو ان مقدمات میں کوئی دل چسپی لے رہی ہے اور نہ آزادانہ عدالتی کارروائی کا موقع دے رہی ہے، حالانکہ یہ  اس کی دستوری ذمہ داری ہے کہ جن لوگوں پر الزام ہے کہ وہ ملک اور قوم کے وسائل میں خردبرد کے مرتکب ہوئے ہیں اور ان کے خلاف جو بھی شواہد اور دستاویزات موجود ہیں ان کو دیانت داری سے عدالت کے سامنے پیش کرے اور ملزموں کی صفائی کے لیے پھرتی نہ دکھائے بلکہ ملک وقوم کے وسائل کی حفاظت کے لیے اس کا حق اداکرے۔

بار بار یہ کہا گیا ہے کہ یہ مقدمات سیاسی وجوہ سے بنائے گئے ہیں اور یہ کہ ان لوگوں نے جیل کی صعوبتیں برداشت کی ہیں مگر ان پر جرم ثابت نہیں ہوا۔ ہم صاف کہتے ہیں کہ جن حضرات پر سیاسی وجوہ سے مقدمہ بنایا گیا ہو اور حقائق سے یہ ثابت ہوجائے تو نہ صرف ان کو باعزت بری کیا جائے اور قومی ذمہ داریاں ان کو سونپی جائیں بلکہ جن لوگوں نے ان کے خلاف غلط مقدمات بنائے، ان کو سزا دی جائے تاکہ وہ عبرت کا نشان بنیں۔ لیکن جن کے بارے میں سارے قرائن یہ پتا دیتے ہیں کہ ان کی دولت ان کی جائز آمدنی سے کوئی مناسبت نہیں رکھتی اور جو اپنی دولت کے ذرائع کا تسلی بخش جواز پیش نہیں کرسکتے، ان کو قرارِ واقعی سزا ملنی چاہیے اور قوم کی لوٹی ہوئی دولت قومی خزانے میں واپس آنی چاہیے۔

سزا کی معافی یا تخفیف کا صدارتی اختیار

زرداری صاحب نے اس سلسلے میں جو نیا ریکارڈ قائم کیا ہے وہ دستور کی دفعہ ۴۵ کا استعمال ہے جس کا تعلق سزا کی معافی یا تخفیف سے ہے۔ اصلاً تو یہ صدارتی اختیار دورِ بادشاہت یا سامراجی حکمرانی کے دور کی باقیات میں سے ہے اور اصولِ انصاف کے منافی ہے۔ لیکن اگر یہ تسلیم کربھی لیا جائے کہ عدل کے مقابلے میں احسان اور ترحم (mercy) کی بنیاد پر کچھ حدود کے اندر  یہ اختیار صدرِمملکت استعمال کرسکتا ہے تب بھی اصولِ قانون (jurisprudence) کے مطابق چند شرائط اور ضوابط ہیں جن کی پاس داری ضروری ہے۔ یہ اختیار غیرمشروط نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تخفیف یا معافی کے لیے ضروری شواہد اور دلائل ہونے چاہییں۔

کینیڈا کے دستور میں یہ گنجایش موجود ہے لیکن وہاں ایک نیشنل پے رول بورڈ ہوتا ہے   جو ہرکیس کے حالات کو سامنے رکھ کر سفارش کرتا ہے جس پر سربراہِ مملکت سزا میں تخفیف کرسکتا ہے۔ امریکا، برطانیہ اور بھارت میں معافی یا تخفیف کا یہ استعمال عدالتی محاکمے کے لیے کھلا ہے اور صدر یا ملکہ کے اعلان کو عدالتیں زیرغور لاسکتی ہیں، اورجہاں مناسب وجوہ موجود نہ ہوں اس تخفیف یا معافی کو ختم کرسکتی ہیں۔ بھارت کی سپریم کورٹ نے متعدد فیصلوں میں اس اختیار کے استعمال کے آداب و قواعد کی وضاحت کی ہے اور یہ اصول طے کیا ہے: ’’ہرامتیازی حق کو قانون کی حکمرانی کے تابع ہونا چاہیے‘‘۔( جسٹس ارجیت پسیات اور جسٹس کپادری)

بھارت کی سپریم کورٹ کے ان دو ججوں نے بڑی پتے کی بات کہی ہے:

معافی دینے کے لیے ذات، مذہب یا سیاسی وفاداری کا نامناسب لحاظ رکھنا ممنوع ہے۔ سیاسی مصلحت کی بنیاد پر قانون کی حکمرانی کو متاثر نہیں کیا جاسکتا۔ ان امور کا لحاظ رکھ کر چلنے سے قانون کی حکمرانی کا بنیادی اصول مسخ ہوگا اور یہ ایک خطرناک مثال قائم کرنے کے مترادف ہوگا۔

بھارت ہی کی سپریم کورٹ کے ایک اور بنچ نے جس میں چیف جسٹس بالاکرشنان،  جسٹس پنچال اور جسٹس چوہان شامل تھے، لکھا ہے کہ اگر کوئی مجرم ایک منظورِ نظر فرد کی حیثیت رکھتا ہے اور اسے تخفیف یا معافی کو ایک سہولت کے طور پر دیا جاتا ہے تو یہ ’جرائم کے فروغ کے لیے ایک محرک‘ ہوگا اور وہ اسے ایک عظیم دھوکا قرار دیتے ہیں۔

ان اصولوں کی روشنی میں اگر آپ غور کریں تو زرداری صاحب نے جناب رحمن ملک اور   ریاض شیخ صاحب کے سلسلے میں جو کچھ کیا ہے وہ عظیم دھوکا اور انصاف کے قتل سے کم نہیں۔    رحمن ملک صاحب کو عدالت نے مجرم قرار دیا اور قانون میں عدالت کے اس فیصلے کے خلاف اپیل کے حق کی گنجایش موجود تھی، لیکن انصاف کے اس عمل کو ناکام کرتے ہوئے اور عدالت کے فیصلے کے چند گھنٹوں کے اندر اندر غالباً کسی باقاعدہ درخواست کے بغیر سزا کو معاف کر دینا اور وہ بھی اپنے ایک سیاسی وفادار ہی نہیں، اپنی ناک کے بال کو معافی دینا کسی جرم سے کم نہیں۔ اس پر وزیراعظم کا یہ ارشاد کہ ’’وزیرداخلہ کو جیل نہیں جانا چاہیے‘‘ اور بھی شرم ناک ہے، حالانکہ ان کا موقف یہ ہونا چاہیے تھا کہ ’’کسی مجرم کو وزیرداخلہ ہرگز نہیں ہونا چاہیے‘‘ لیکن اس حکومت کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ کرپشن اس کے گلہاے سرسبد کے لیے تمغاے افتخار ہے، کلنک کا ٹیکا نہیں۔ جعلی ڈگریوں پر   انتخاب لڑنے والے اور قوم کو دھوکا دینے والے نئے ٹکٹ کے مستحق ٹھیرتے ہیں اور وزیراعظم صاحب خود بنفس نفیس ان کی انتخابی مہم کے لیے تشریف لے جاتے ہیں اور کھلے کھلے الیکشن قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نہ صرف انتخابی مہم میں سرکاری حیثیت سے حصہ لیتے ہیں بلکہ علاقے کے لیے پیکج کا اعلان (سیاسی رشوت) بھی فرماتے ہیں۔ رحمن ملک صاحب کو جس جرم کے حوالے سے مقدمے کا سامنا کرنا پڑا تھا، اس میں چند تولے سونا اور چندلاکھ روپے سے متاثرہ فریق کو محروم کرنے کا ذکر بھی تھا، اور اس پر حکومت کے ایک ترجمان کا یہ ارشاد بھی اس پارٹی کے سیاسی کلچر کاآئینہ ہے کہ صرف چند تولے سونے اور چند لاکھ روپے کے لیے، اتنے بڑے آدمی کو سزا دینا ناقابلِ فہم ہے۔

جب قیادت کی اخلاقی حالت یہ ہوجائے تو پھر قوم کو تباہی اور ملک کو عذابِ الٰہی سے بچانے والی اور کیا چیز ہوسکتی ہے۔ ہم نے اس سلسلے میں یہ چند پہلو بڑے دکھ اور کرب کے ساتھ سپردِقلم کیے ہیں اور پوری دردمندی سے حکمرانوں سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہوش کے ناخن لیں،  اللہ کے عذاب اور عوام کے غیظ و غضب اور جذبۂ انتقام سے بچنے کی کوشش کریں۔

قانون کی حکمرانی ، وقت کا تقاضا

عدالت عوام کے حقوق اور قوم کی دولت کی حفاظت کے لیے قانون کے تقاضے پورے کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ انتقام نہیں انصاف کی طرف ایک قدم ہے۔ اسے اداروں کا تصادم کہنا بھی صحیح نہیں۔ عدالت کا تو فرضِ منصبی ہی یہ ہے کہ مظلوم کو ظلم سے بچائے اور ظالم کا ہاتھ روکے اور اسے قرارواقعی سزا دے تاکہ دوسروں کے لیے باعثِ عبرت ہو اور معاشرہ جرائم اور ظلم سے پاک ہوسکے۔ اب تک عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ نے جو کچھ کیا ہے، اسے عدالتی تحرک کہنا صحیح نہیں۔ عدالت دستور کے مطابق بنیادی حقوق اور حقوق میں مساوات کے اصول کی روشنی میں کمزوروں کی مدد اور منہ زور طاقت ور اور قانون توڑنے والوں کو قانون کی گرفت میں لانے کی کوشش کر رہی ہے، جب کہ حکومت عدالت کے فیصلوں کی خلاف ورزی، ان کے نتائج کو ناکام کرنے اور مسخ کرنے کی ناپاک سعی میں مصروف نظر آتی ہے، یا عدالت کے فیصلوں پر عمل کرنے میں لیت و لعل سے کام لے رہی ہے اور عدالت پر جانب داری اور سیاسی محرکات کے ناقابلِ التفات الزامات لگاکر اسے بلیک میل کرنے اور دفاعی پوزیشن میں ڈالنے کا کھیل کھیل رہی ہے۔     اسے عدلیہ اور انتظامیہ کا تصادم کہنا حقیقت سے دُور کی بھی مناسبت نہیں رکھتا۔ یہ انتظامیہ کی طرف سے عدالت کی حکم عدولی کرنے (defy) اور اسے دبائو میں لانے کی یک طرفہ یورش ہے۔ یہ نہ  صرف عدالت کی توہین ہے بلکہ قانون کو مسخ کرنے کی بھی کوشش ہے جو اس ملک اور جمہوریت کے مستقبل کے لیے فالِ بد ہے۔

حضرت علی کرم اللہ وجہٗ کا ارشاد ہے کہ معاشرہ کفر کے ساتھ تو زندہ رہ سکتا ہے مگر ظلم کے ساتھ نہیں۔ نظامِ عدل معاشرے کی صحت، زندگی، ترقی اور استحکام کی ضمانت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ بندے اپنے نبی اور رسول بنا کر جن مقاصد کے لیے بھیجے تھے، ان میں سرفہرست مقصد انسانوں کے درمیان انصاف کا قیام تھا (لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ، الحدید)۔ ہر مہذب اور جمہوری معاشرے کے لیے قانون کی حکمرانی اور انصاف کا قیام اولین ضرورت ہے۔ اور آج ہمارا حال اگر دگرگوں ہے تو اس کی ایک بڑی وجہ قانون کی حکمرانی کا فقدان، انسانوں کے درمیان عدل و انصاف کے قیام سے غفلت، دولت مند اور طاقت ور انسانوں کا قانون سے بالا ہونا اور کمزوروں اور مجبوروں پر ظلم اور ان کے حقوق اور اثاثوں پر دست درازی بگاڑ کی وجہ اور تباہی کا راستہ ہیں۔ حکومت کو اپنی روش فوری طور پر بدلنی چاہیے اور اس وقت سے ڈرنا چاہیے جب عوام کا غیظ و غضب وہ صورت اختیار کرلے جو اس ظالمانہ نظام کو تہ و بالا کرڈالے یا خدانخواستہ اللہ کا عذاب سب کو اپنی گرفت میں لے لے۔ عدالت کو انصاف اور دادرسی کا منبع ہونا چاہیے کہ اس سے معاشرے میں استحکام آتا ہے اور جمہوریت کی راہ ہموار ہوتی ہے۔

ہم اپنی معروضات کو انگلستان کے ایک نام وَر ماہر قانون لارڈ جیمز برایس کے ان  زریں الفاظ پر ختم کرتے ہیں اور اربابِ اقتدار کو مشورہ دیتے ہیں کہ ان الفاظ پر سنجیدگی سے    غور کریں اور اس قوم اور ملک کے لیے خیر اور فلاح کا ذریعہ بنیں، ظلم، فساد اور بگاڑ کا نہیں:

کسی حکومت کی حُسنِ کارکردگی جانچنے کا پیمانہ اس کے عدالتی نظام کی مستعدی سے بہتر  کوئی نہیں ہوسکتا، اس لیے کہ عام شہری کی سلامتی او رفلاح و بہبود کو کوئی چیز اس احساس سے زیادہ متاثر نہیں کرتی کہ وہ انصاف کے فوری اور یقینی حصول پر اعتماد کرسکتا ہے۔

زرداری گیلانی حکومت، امریکا کے ساتھ اسٹرے ٹیجک شراکت داری کے راگ الاپ رہی تھی۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی، واشنگٹن کے بعد اسلام آباد میں اسٹرے ٹیجک مذاکرات کی تیاریاں کر رہے تھے۔ اسی اثنا میں یکم مئی ۲۰۱۰ء کو نیویارک کے ٹائمز اسکوائر میں ایک وین سے دھواں نکلتا دیکھ کر ایک صومالی مسلمان خوانچا فروش کی اطلاع پر شہر میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ چند گھنٹے کے بعد ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے ڈرائونے خواب (nightmare) نے ایک بار پھر امریکا کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ ۳تاریخ کو امارات ایئرلانز کی پرواز سے ایک پاکستانی نژاد امریکی اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان فیصل شہزاد کو گرفتار کرلیا گیا۔ شروع میں اسے ’تنہا بھیڑیا‘ قرار دیا گیا، لیکن پھر جلد ہی امریکا اور خود پاکستان میں اس کے مبینہ ساتھیوں کی پکڑدھکڑ شروع ہوگئی۔

پاکستان اور امریکا کے دارالحکومتوں میں جس امریکی قیادت سے سر جوڑنے کی باتیں ہو رہی ہیں، اس نے سرتوڑنے کی دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔ امریکا کے قومی سلامتی کے مشیر جنرل (ر) جیمز جونز، سی آئی اے کے سربراہ لیون پانے ٹا اور افغانستان میں امریکی فوجوں کے کمانڈر جنرل میک کرسٹل اپنے مشیروں کے لائولشکر کے ساتھ اسلام آباد پر ڈرون حملوں کی طرح نازل ہوئے۔ امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن نے طرزِتکلم میں ۸۰ درجے کی تبدیلی لاکر پاکستان کو بش انتظامیہ کے مذموم لہجے میں  ’خطرناک نتائج‘ اور ’کچھ مزید کرنے‘ کی دھمکیوں پر مشتمل احکامات جاری کرنے شروع کردیے، یہاں تک کہہ دیا کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں میں کچھ لوگ ایسے ہیں، جو اسامہ اور مُلاعمر کے ٹھکانے سے واقف ہیں۔ امریکی میڈیا نے پاکستان کے خلاف بھرپور  ابلاغی جنگ کا آغاز کر دیا۔ یوں آن واحد میں دوستی اور نئے تعلقات کے سارے خیالی قلعے زمین بوس ہوگئے۔

فیصل شہزاد نے جو کچھ کیا وہ ’ایک معما ہے سمجھنے کا، نہ سمجھانے کا‘۔ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ، متمول اور ماڈرن گھرانے کا چشم و چراغ، جس کی اعلیٰ تعلیم امریکا میں ہوئی، جہاں وہ ۱۱ سال سے مقیم اور اب امریکی شہریت کا حامل ہے،اعلیٰ سوسائٹی میں اٹھنا بیٹھنا جس کا معمول ہو، اور امریکا کی ’معاشی دنیا‘ (Finance World) میں وہ ایک تربیت یافتہ کھلاڑی کی طرح دولت کمانے کا شغل کر رہا ہو، یکایک ایک دہشت گرد بن جاتا ہے۔ شمالی وزیرستان سے اس کے رشتے تلاش کرلیے جاتے ہیں اور اسے امریکا کی سیکورٹی کے لیے ایک چیلنج اور پاکستان کو دنیا بھر میں ’دہشت گردی‘ کے مرکز کے طور پر پیش کیا جانے لگتا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ یہ ’ماہر اور تربیت یافتہ دہشت گرد‘ جس وین کو دہشت گردی کے مبینہ مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے، اس میں کھاد (fertilizer) اور دھماکا خیز مواد استعمال ہی نہیں کیا جاتا اور پھر ایک الیکٹرک آلہ جو خودکار صلاحیت سے محروم ہے اور یوں وہ ایک ایسی جگہ جہاں پارکنگ کی اجازت نہیں ہے، چھوڑ کر اس اہتمام سے غائب ہوتا ہے کہ وین میں اس کی چابی لگی ہوئی ہے اور چابی میں موصوف کے گھر کا پتا بھی موجود ہے۔ اپنی شناخت کے لیے یہ تمام سہولتیں فراہم کرنے کے بعد وہ ۴۸گھنٹے گزرنے کے باوجود گرفت میں نہیں آتا، اور جب جہاز میں اس کو پکڑا جاتا ہے تو پہلے الفاظ وہ یہ ادا کرتا ہے: ’’میں آپ ہی کی توقع کر رہا تھا اور ہاں، آپ کون سی ایجنسی سے متعلق ہیں، ایف آئی اے یاکوئی اور‘‘۔

کیا وہ مبینہ دہشت گرد اتنا ہی اناڑی تھا، کہ جسے شمالی وزیرستان سے جوڑا جا رہا تھا۔  ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد امریکا کی خفیہ ایجنسیوں اور دہشت گردی کے خلاف ایک نہیں دسیوں نئی فورسز کے قیام، اور اربوں ڈالر سالانہ اخراجات کی بنیاد پر اعلیٰ ترین ٹکنالوجی کے ذریعے دہشت گردی کی ہرشکل کو قبل از وقت ناکام اور غیرمؤثر بنادینے کے تمام اہتمام دھرے کے دھرے رہ گئے۔ وہ سب فیصل شہزاد کو بھی نہ روک سکے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس میں فیصل شہزاد کی بچگانہ حرکات کی داد دی جائے یا امریکی ایجنسیوں کی نااہلی اور ناکامی کا نوحہ پڑھا جائے۔

اس واقعے کے چار ہفتے بعد بھی تفتیش کا بازار گرم ہے۔ دو ہفتے کے بعد فیصل شہزاد کو عدالت میں خفیہ طور پر پیش کرکے ریمانڈ لے لیا گیا ہے، اور پاکستان میں اب تک جو تفتیش ہوئی ہے اس میں موصوف کے اہلِ خانہ کو تو بے گناہ قرار دے کر چھوڑ دیا گیا ہے، البتہ چند دوسرے نوجوان اُٹھا لیے گئے ہیں، جن کو تختۂ مشق بنایا جا رہا ہے۔ اب تک جو معلومات سامنے آئی ہیں ان کی بنیاد پر اگر فی الحقیقت فیصل شہزاد نے خود یہ ڈراما رچایا ہے تو اس کی عقل کا ماتم ہی کیا جاسکتا ہے، اور اگر اسے کسی ادارے یا ایجنسی نے پاکستان پر دبائو بڑھانے اور شمالی وزیرستان میں پاکستان کو فوجی آپریشن پر مجبور کرنے کے لیے استعمال کیا ہے تو ان ایجنسیوں کی شاطرانہ کارکردگی کی داد ہی دینی چاہیے کہ آن کی آن میں منظر تبدیل کردیا۔ اگرچہ ہم اسے سازش قرار دینے کی پوزیشن میں نہیں، لیکن اس کے باوجود سارا معاملہ بظاہر ایک ڈراما ہی نظر آتا ہے۔ اسی طرح امریکی قیادت کے بیانات اور پاکستان آکر یہاں کی سیاسی اور عسکری قیادت پر دبائو ایسے سوالات کو اٹھاتا ہے جن کے جواب ابھی سامنے نہیں آئے۔

اس پورے واقعے نے سوچ بچار کے لیے کئی موضوعات نمایاں کردیے ہیں جن کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اگر فیصل شہزاد نے یہ سب کچھ خود کیاہے تو پھر امریکی دانش وروں اور دہشت گردی کے خلاف حکمت عملی وضع کرنے والوں کو اپنے بنیادی مفروضوں پر ازسرنو غور کرنا ہوگا۔ ان کی نگاہ میں اس وقت امریکا میں کی جانے والی دہشت گردی کا اصل محرک مذہبی عناصر ہیں، اور القاعدہ اس کی پشت پر ہے۔ دینی مدرسوں کے طلبہ اس فکر کی وجہ سے انسانی میزائل بن گئے ہیں۔ بالعموم غریب اور محروم طبقات کے نوجوانوں کو اس کام کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ’مسلمان دہشت گرد‘ کی جو تصویر امریکا، یورپ اور خود ہمارے اور دوسرے مسلمان ملکوں میں پیش کی گئی ہے، فیصل شہزاد اس میں کہیں جچتا دکھائی نہیں دیتا۔ اسی لیے حقائق کی تہ تک پہنچنے میں سرگرداں تجزیہ نگار بڑے بنیادی سوال اُٹھا رہے ہیں۔ اگر ان سوالات کا حقیقت پسندی سے جائزہ لیا جائے تو امریکا کی ۱۰سالہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر اختیار کردہ حکمت عملی کے غیرحقیقت پسند ہونے کے وجوہ کو سمجھا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں نیویارک ریویو آف بکس کے تازہ شمارے میں جو مضمون شائع ہوا ہے، اس کے چند اقتباسات اس لائق ہیں کہ ان پر سنجیدگی سے غور کیا جائے۔ خصوصیت سے امریکا اور پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو دہشت گردی کے پورے مسئلے کے بارے میں حکمت عملی پر ازسرِنو غور کرنا چاہیے، تاکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر دنیا کو جس دہشت گردی کے جہنم میں دھکیل دیا گیا ہے، اس سے نکلنے کی کوئی صورت بن سکے:

گذشتہ چند مہینوں میں، یہ اور جو دوسرے ممکنہ دہشت گرد گرفتار کیے گئے ہیں، ان میں اس کے علاوہ بہت کم کوئی بات مشترک ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔ امریکا کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے یہ لوگ ٹیکسی ڈرائیوروں اور خوانچا فروشوں سے لے کر مالیاتی تجزیہ نگاروں تک، مختلف معاشرتی اور معاشی طبقات سے وابستہ ہیں۔ اسلامی انقلابیت اور بیرونی انتہاپسند گروپوں سے ان کے اپنے رابطے کی نوعیت میں فرق ہے۔ ہم یہ فرض کرسکتے ہیں کہ جو چیز ان کو متحد کرتی ہے، وہ امریکا اور اس کی خارجہ پالیسی سے ایک بامقصد نفرت ہے، جس نے بتدریج انقلابیت کی جڑ پکڑی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ایک بڑی امریکا مخالف تحریک میں شامل ہونے کی خواہش کو بھی تیز کیا ہے۔

۱۱ستمبر کے بعد کے برسوں میں بہت سے اہلِ دانش اور صحافیوں نے کہا ہے کہ یورپ میں مسلم آبادیوں کے برعکس جہاں انتہاپسندی سے متعلق مسائل کو بہت شہرت ملی ہے، امریکا کی اپنی مسلمان آبادی اس انقلابیت سے محفوظ رہی ہے۔ لیکن ۱۰ برس بعد واضح تبدیلی نظر آرہی ہے۔ اس عمل کو سمجھنے اور اس کی گہرائی میں جانے کی کوشش کرنے کے بجاے امریکی صحافی اور امریکی حکومت بھی صرف اس فکر میں غلطاں دکھائی دیتے ہیں کہ معلوم کریں کون سا پاکستانی گروپ شہزاد کی تربیت کا ذمہ دار ہے، اور کیا اس کے القاعدہ سے روابط تھے؟ اس دوران میں امریکی سرزمین پر دہشت گردی کی ہر ناکام کوشش، درجنوں نوجوان امریکی مسلمانوں کو نت نئی کوشش کرنے اور کامیابی حاصل کرنے پر اُبھار سکتی ہے۔ جب تک اس طرح کی انقلابیت کی جانب لے جانے والے مسائل کے بہتر فہم اور ان کے حل کی کوشش نہ ہو تو ہم مستقبل میں ایسے حملوں کو روکنے کی منزل کے قریب بھی نہ آسکیں گے۔ (نیویارک ریویو بکس بحوالہ ڈیلی ٹائمز، ۱۶ مئی ۲۰۱۰ئ)

دہشت گردی کے مسئلے کے مختلف پہلوئوں پر ازسرِنو غور کرنے کے ساتھ پاکستان کے حکمرانوں اور فوجی قائدین کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے معاملات کو امریکا کی آنکھ سے دیکھنے کا رویہ ترک کریں اور امریکی مطالبات پر نئے محاذ کھولنے کی خطرناک حماقت سے باز رہیں۔ بدقسمتی سے سیاسی قیادت اور فوج نے امریکا کی جنگ میں شرکت اور پھر کمال تابع داری سے امریکا کی جنگ کو اپنی جنگ قرار دے کر جو نقصانات اٹھائے ہیں، ان کے پیش نظر اس دلدل میں اور بھی دھنستے چلے جانے کے راستے کو ترک کیا جائے۔ پارلیمنٹ نے ۲۲؍اکتوبر ۲۰۰۸ء کی مشترکہ قرارداد میں دہشت گردی کے مسئلے کا مقابلہ کرنے کے لیے واضح الفاظ میں جس حکمت عملی کی نشان دہی کی ہے، اس کو دیانت داری سے قبول کر کے اس نہ ختم ہونے والی اور کبھی نہ جیتی جانے والی جنگ سے اپنے آپ کو نکالنے کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ پاکستان نے اس جنگ میں امریکا کے چوکیدار کا کردار ادا کرکے سیاسی، معاشی، اخلاقی اور تہذیبی اعتبار سے جو نقصانات برداشت کیے ہیں، وہ   تباہ کن رہے ہیں۔ جتنی جلد اس خسارے کے سودے سے جان چھڑا لی جائے، اتنا ہمارے لیے  بہتر ہے۔

معاشی ’ترقی‘ کا ایک آسان نسخہ

دودھ میں ملاوٹ، کھانے پینے کی چیزوں اور مسالوں میں ملاوٹ، حتیٰ کہ دوائیوں میں ملاوٹ تو سنی تھی، لیکن موجودہ حکومت کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے اعداد وشمار میں ملاوٹ کے ذریعے معاشی ترقی کا ایک نادر کارنامہ انجام دیا ہے۔

معاشیات کے سارے ماہرین عام آدمی کے تجربات کی گواہی کی روشنی میں، یہ کہہ رہے تھے کہ ۲۰۱۰ئ-۲۰۰۹ء پاکستان کی معاشی تاریخ میں بہت ہی مشکل سال رہا ہے۔ معیشت، جن مشکلات سے دوچار رہی، ان میں بجلی اور گیس کا بحران، صنعتی پیداوار اور برآمدات میں کمی،   سرمایہ کاری کی سست روی، مہنگائی کا طوفان، بے روزگاری میں اضافہ، روپے کی عالمی قیمت میں کمی قابلِ ذکر ہیں، اور ان سب عوامل کی وجہ سے خود اسٹیٹ بنک کی مارچ ۲۰۱۰ء تک کی تمام ہی رپورٹوں میں معیشت میں شرحِ نمو (growth rate) کے بارے میں اندازہ تھا کہ وہ ۵ئ۲ اور ۳فی صد کے درمیان ہوگی اور بہت زور لگایا تو شاید ۵ئ۳ فی صد ہوجائے۔ لیکن کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ تھی کہ بجٹ سے ایک ماہ پہلے مئی ۲۰۱۰ء میں حکومت یہ انکشاف کرے گی کہ  سالِ رواں میں جی ڈی پی میں اضافہ ۱ئ۴ فی صد ہوگا۔ نیشنل اکائونٹس کمیٹی نے یہ اعلان کر کے سب کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا لیکن جب اس محیرالعقول تبدیلی کا سبب دریافت کیا گیا تو یہ حیران کن بات سامنے آئی کہ اس سال شرحِ نمو میں اضافہ دکھانے کے لیے گذشتہ دو سالوں کی شرحِ نمو پر نظرثانی کی گئی ہے تاکہ اس کی بنیاد (base) کو نیچے لے جاکر سالِ رواں میں ترقی کی رفتار کو زیادہ دکھایا جاسکے۔

پہلے دعویٰ کیا گیا ۰۸-۲۰۰۷ء میں ۱ئ۴ فی صد ترقی کا جو دعویٰ کیا گیا تھا وہ صحیح نہیں تھا، بلکہ اصل اضافہ ۷ئ۳ فی صد تھا۔ پھر نیا دعویٰ کیا گیا کہ یہ ۷ئ۳ فی صد نہیں ۳ئ۳ فی صد تھا اور اسی طرح ۰۹-۲۰۰۸ء میں اضافہ ۲ فی صد نہیں تھا، بلکہ صرف ۲ئ۱ فی صد تھا۔ اعداد وشمار میں اس رد وبدل کے نتیجے میں ۱۰-۲۰۰۹ء کے بارے میں دعویٰ کیا گیا کہ متوقع اضافہ ۳ فی صد نہیں، بلکہ ۱ئ۴ فی صد ہے۔ گویا ۰۹-۲۰۰۸ء کے مقابلے میں ساڑھے تین گنا اضافہ ہوا ہے جسے ایک ’عظیم کرشما‘ ہی کہا جاسکتا ہے۔

جب پوچھا گیا کہ معیشت کے تمام بڑے بڑے مراکز تو کوئی اچھی صورت حال ظاہر  نہیں کررہے اور خصوصیت سے توانائی کے بحران کی وجہ سے پیداوار میں یہ اضافہ قابلِ فہم نہیں ہے۔ اس کے جواب میں بتایا گیا کہ اصل اضافہ تعمیرات کے شعبے (construction industry)کی وجہ سے ہوا ہے، جس نے سالِ رواں میں ۱۵ فی صد کے حساب سے ترقی کی ہے، حالانکہ اسٹیل اور سیمنٹ دونوں، جو اس صنعت کے اہم ترین بنیادی اجزا ہیں، وہ تو مشکلات کا شکار رہے ہیں، پھر اس کے باوجود اس صنعت میں ۱۵ فی صد اضافہ کیسے ہوگیا؟ اس سوال کا کوئی معقول جواب پیش نہ کیا جاسکا۔ اسی طرح لائیوسٹاک میں بھی دگنا اضافے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ یوں اعدادوشمار کے ہیرپھیر سے معاشی ترقی کی رفتار میں اضافے کا شعبدہ دکھا دیاگیا۔ پاکستان کے کئی معروف ماہرین معاشیات، مثلاً ڈاکٹر ایس اکبر زیدی (ڈان، ۲۴ مئی ۲۰۱۰ئ) اور ڈاکٹر اشفاق حسین (دی نیوز، ۱۸ مئی ۲۰۱۰ئ) اور ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی (جنگ، ۲۵ مئی ۲۰۱۰ئ)نے اس ’کارنامے‘ پر اپنی حیرت کا اظہار کیا ہے۔ ڈاکٹر زیدی نے بڑی دردمندی سے ملکی معیشت کے ذمہ داروں کو  بڑا مفید مشورہ دیا ہے، جسے ہم ہدیۂ ناظرین کرتے ہوئے ہم بھی حکومت کی ٹیم کو ان کے اس طبع زاد کارنامے پر داد دیے بغیر نہیں رہ سکتے:

ان تمام عوامل کو دیکھتے ہوئے جنھوں نے گذشتہ دو برسوں میں پاکستان کی معیشت کو متاثر کیا ہے۔ میں نے ان میں سے صرف چند کو بیان کیا ہے۔ کوئی ایسا راستہ نظر نہیں آتا کہ پاکستانی معیشت میں اتنی معجزانہ بہتری رونما ہوسکے۔ اگر ایسا ہوا ہے، جیساکہ پاکستانی معیشت کے ذمہ داروں کا دعویٰ ہے کہ ہوا ہے، تو ہمیں ان کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ انھوں نے معاشی انتظامیات کی بنیادی منطق ہی کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ ضروری ہے کہ وہ اپنے کارناموں کے لیے ثبوت مہیا کریں، تاکہ دوسرے بھی سیکھ سکیں۔ (روزنامہ ڈان، ۲۴ مئی ۲۰۱۰ئ)

درس قرآن سورئہ جمعہ (۲)

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

قُلْ یٰٓـاََیُّھَا الَّذِیْنَ ھَادُوْٓا اِِنْ زَعَمْتُمْ اَنَّکُمْ اَوْلِیَـآئُ لِلّٰہِ مِنْ دُوْنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ o وَلاَ یَتَمَنَّوْنَـہٗٓ اَبَدًام بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْھِمْط وَاللّٰہُ عَلِیْمٌم بِالظّٰلِمِیْنَ o (الجمعۃ ۶۲: ۶-۷) اِن سے کہو، اے لوگو جو یہودی بن گئے ہو، اگر تمھیں یہ گھمنڈ ہے کہ باقی سب لوگوں کو چھوڑ کر بس تم ہی اللہ کے چہیتے ہو تو موت کی تمنا کرو۔ اگر تم اپنے اس زعم میں سچے ہو۔ لیکن یہ ہرگز اس کی تمنا نہ کریں گے۔ اپنے کرتوتوں کی وجہ سے جو یہ کرچکے ہیں، اور اللہ ان ظالموں کو خوب جانتا ہے۔

یھود کا باطل زعم

یہودیوں اور عیسائیوں کا یہ دعویٰ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر بیان کیا گیا ہے:

وَ قَالَتِ الْیَھُوْدُ وَ النَّصٰرٰی نَحْنُ اَبْنٰٓؤُا اللّٰہِ وَ اَحِبَّـآؤُہٗ ط (المائدہ ۵:۱۸) یہودی اور عیسائی کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے بیٹے ہیں اور اس کے چہیتے ہیں۔

وَ قَالُوْا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّآ اَیَّامًا مَّعْدُوْدَۃً ط (البقرہ ۲:۸۰) اور وہ (یہودی) کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ہرگز چھونے والی نہیں، اِلا.ّ یہ کہ چند روز کی سزا     مل جائے تو مل جائے۔

آج بھی یہودی اپنے آپ کو خدا کے چہیتے (chosen people) کہتے ہیں، یعنی ہم خدا کی چُنیدہ مخلوق ہیں۔ اسی طرح وہ خود کو children of Godبھی کہتے ہیں، یعنی ہم خدا کی اولاد ہیں۔ یہاں یہ فرمایا گیا کہ اگر تمھارا یہ زعم درست ہے کہ صرف تم اللہ کے ولی ہو اور کوئی دوسرا اللہ کی ولایت نہیں پاسکتا ہے اور جو قرب تمھیں اللہ کا حاصل ہے وہ کسی اور کو حاصل نہیں ہے تو پھر تمھیں موت کی تمنا کرنی چاہیے۔ اگر تم اپنے اس دعوے میں سچے ہو۔

موت کی تمنا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم واقعی اللہ کے محبوب ہو، اور وہ بھی تمھیں چاہتا ہے تو پھر تمھیں موت سے بھاگنا نہیں چاہیے۔ پھر تو تمھیں تمنا کرنی چاہیے کہ جلدی سے جلدی اپنے خدا کے ہاں پہنچو تاکہ تم اس کا حقیقی قرب حاصل کرسکو اور اُن انعامات سے بھی محظوظ ہوسکو جو اس نے اپنے چنیدہ بندوں کے لیے مخصوص کر رکھے ہیں۔ جو آدمی حقیقتاً اللہ تعالیٰ سے قرب رکھتا ہو اور فی الواقع اس کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ گہرا تعلق ہو تو وہ موت سے ڈرتا اور گھبراتا نہیں۔ اس کے لیے تو موت ایسی ہے جیسے اس کو وصالِ محبوب کا موقع مل رہا ہو۔ اس لیے یہ فرمایا گیا کہ اگر تم واقعی اللہ کے چہیتے ہو تو پھر تمھارے اندر موت سے گھبراہٹ کیوں ہے؟موت سے بھاگتے کیوں ہو؟ تمھیں تو اس کے لیے تیار ہونا چاہیے کہ جلدی سے جلدی اپنے رب کے پاس پہنچو لیکن اس کے برعکس قرآن کے الفاظ میں ان کا حال یہ ہے کہ: وَلاَ یَتَمَنَّوْنَـہٗٓ اَبَدًام بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْھِمْ، یعنی یہ ہرگز اس کی تمنا نہیں کریں گے، ان اعمال کی وجہ سے جو وہ اس سے پہلے کرچکے ہیں۔ اُن کے کرتوتوں کی بنا پر ان کے دلوں میں کبھی موت کی تمنا پیدا نہیں ہوسکتی۔ دوسرے الفاظ میں جو آدمی دنیاپرستی میں مبتلا ہو اور دنیا کے فوائد اور لذتوں کی طلب میں غرق ہو اور دنیا کے عشق میں مبتلا ہو، ایسا آدمی کبھی موت کے لیے تیار نہیں ہوسکتا۔ وہ تو موت کے تصور ہی سے بھاگے گا، کجا یہ کہ وہ اپنے رب سے ملاقات کی تمنا کرے، کیوں کہ موت اس کے لیے وصالِ محبوب نہیں ہے بلکہ ہجرِ محبوب ہے۔ وہ دنیا کی محبت میں مرا جاتا ہے، وہ وصالِ محبوب کی طرف توجہ اور اس کی تمنا کیسے کرے گا۔ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌم بِالظّٰلِمِیْنَ o ’’اور اللہ تعالیٰ (ان) ظالموں کو خوب جانتا ہے‘‘۔

قُلْ اِِنَّ الْمَوْتَ الَّذِیْ تَفِرُّوْنَ مِنْہُ فَاِِنَّہٗ مُلٰقِیْکُمْ ثُمَّ تُرَدُّوْنَ اِِلٰی عٰلِمِ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ o (۸) ان سے کہو، جس موت سے   تم بھاگتے ہو، وہ تو تمھیں آکر رہے گی۔ پھر تم اُس کے سامنے پیش کیے جائو گے جو پوشیدہ و ظاہر کا جاننے والا ہے، اور وہ تمھیں بتا دے گا کہ تم کیا کچھ کرتے رہے ہو۔

گویا تم موت سے خواہ کتنا ہی بھاگو اور کتنا ہی گھبرائو، اس کو تو اپنے مقررہ وقت پر لازماً آنا ہے، اور تم لازماً اپنے اُس رب کے سامنے پیش ہونے والے ہو جو ہر پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ہے، اور اپنے جن اعمال کی وجہ سے تم موت سے گھبراتے ہو، وہ سارے اعمال تمھارے رب کے علم میں ہیں۔ وہ تمھارے سارے اعمال تمھارے سامنے لاکر رکھ دے گا۔ اس وقت تمھارا کوئی باطل زعم اور جھوٹا دعویٰ تمھارے کسی کام نہ آئے گا۔ اس وقت تمھاری قسمت کا فیصلہ سراسر تمھارے اعمال کی بنیاد پر ہوگا۔

نمازِ جمعہ کی فرضیت

ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ وَذَرُوا ط الْبَیْعَ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ o (۹) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب پکارا جائے نماز کے لیے جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو، یہ تمھارے لیے زیادہ بہتر ہے۔ اگر تم جانو۔

یہاں سے سورئہ جمعہ کا دوسرا رکوع شروع ہو رہا ہے۔ پہلے رکوع میں یہودیوں کے متعلق یہ فرمایا گیا کہ یہ لوگ اہلِ عرب کو وحشی اور جاہل سمجھتے ہیں، اُن کو اُمّی کہتے ہیں۔ وہ عام اہلِ عرب کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی (نعوذباللہ) حقیر سمجھتے تھے۔ ان کے زعمِ باطل میں حضوؐر کو نبوت حاصل نہیں ہوسکتی تھی۔ اس پر فرمایا گیا: ہاں، ہم نے اسی قوم کے اندر اپنا نبیؐ مبعوث کیا ہے جو ان کے سامنے کتاب اللہ کی آیات سناتا ہے، اُن کا تزکیۂ نفس کرتا ہے، اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ تمھارے اس زعمِ باطل کے برعکس کہ عرب کے لوگ جاہل اور غیرمہذب ہیں اور تم حاملِ کتاب ہو لیکن تمھارا حال یہ ہے کہ تم نے اس کتاب کو پسِ پشت ڈال رکھا ہے، اس لیے تمھاری مثال اس گدھے کی طرح ہے جس پر کتابیں لدی ہوں اور اسے کچھ خبر نہ ہو کہ ان کتابوں میں کیا لکھا ہے۔ دوسری طرف تمھارے اخلاق کا حال یہ ہے کہ تم دنیا پر مر مٹتے ہو، موت کے تصور ہی سے گھبراتے ہو اور دعویٰ یہ کرتے ہو کہ تم اللہ کے برگزیدہ اور چُنیدہ لوگ ہو، اور تم اللہ کو بہت محبوب ہو۔

ان کو حقائق کا آئینہ دکھانے کے بعد اب خطاب کا رُخ مسلمانوں کی طرف ہو رہا ہے اور نمازِ جمعہ کے حوالے سے ان کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ جب جمعہ کی نماز کے لیے تمھیں پکارا جائے تو اللہ کی یاد کی طرف دوڑو۔

نماز کے لیے پکارے جانے سے مراد اذان ہے۔ قرآن مجید میں دو مقامات پر اذان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ یہاں ایک بات سمجھنے کی ہے۔ اس زمانے میں جن الفاظ میں لوگوں کو نماز کے لیے پکارا جاتا تھا اور آج بھی پکارا جاتا ہے، وہ الفاظ قرآن مجید میں بیان نہیں کیے گئے ہیں، البتہ ان کی طرف دو مقامات پر اشارہ موجود ہے۔ ایک تو یہ مقام ہے جس میں فرمایا گیا کہ جب نماز کے لیے پکارا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو، اور دوسری جگہ سورئہ مائدہ میں فرمایا گیا:

اِذَا نَادَیْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ اتَّخَذُوْھَا ھُزُوًا وَّ لَعِبًا ط (المائدہ ۵:۵۸) جب تم نماز کے لیے منادی کرتے ہو تو وہ (اہلِ کتاب اور کفار) اس کا مذاق اُڑاتے ہیں اور اس سے کھیلتے ہیں۔

گویا قرآن مجید میں کہیں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ نماز کے لیے منادی کرنے کا طریقہ کیا ہے۔ اذان کے الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود مسلمانوں کو سکھائے ہیں۔ اس سے یہ اندازہ ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا شریعت کے نظام میں کیا مقام ہے۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم ایک طریقہ مقرر کرتے ہیں اور قرآن مجید میں اس کا ذکر کر کے اس طریقے کی صحت کو تسلیم کیا جاتا ہے کہ گویا وہ ایک مسلّمہ چیز اور شریعت میں طے شدہ امر ہے۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کی اذان کے الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کیے ہوئے ہیں۔ اس کا پورا قصہ احادیث میں موجود ہے، چنانچہ اذان حضوؐر کے حکم سے جاری ہوئی اور اب اس کو شرعی اور قانونی حیثیت حاصل ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ قانون اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھا۔ وہ (نعوذ باللہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ذاتی فعل نہیں تھا۔

یہ نِدا جس کا ذکر یہاں نمازِ جمعہ کے لیے کیا گیاہے، دوسری اذان ہے جو خطبے کے وقت دی جاتی ہے۔ پہلی اذان حضوؐر کے زمانے اور حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے زمانے میں رائج نہیں تھی۔ اس کو حضرت عثمانؓ نے اپنے زمانے میں اس لیے رائج کیا کہ مدینے کی آبادی بہت بڑھ گئی تھی اور مسجد کے اندر خطبے کے وقت جو اذان دی جاتی تھی وہ پوری آبادی تک نہیں پہنچ سکتی تھی جس سے لوگ بروقت خبردار ہو جائیں کہ نماز کا وقت آگیا ہے۔ چنانچہ حضرت عثمانؓ نے مدینۂ طیبہ کے ایک اُونچے مکان کے اُوپر خطبے سے کافی دیر پہلے اذان دلوانے کا طریقہ مقرر کیا تاکہ پوری آبادی کو بروقت اطلاع ہوجائے کہ نمازِ جمعہ کا وقت قریب آگیا ہے اور وہ اس کے لیے تیار ہوجائے۔

سنت اور بدعت کا فرق

اس واقعے سے بدعت کے مفہوم پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ بدعت ہر اُس چیز کو نہیں کہتے جو نئی نکالی گئی ہو۔ ہر چیز جو پہلے سے شریعت میں موجود نہ ہو اور بعد میں مفادِ اُمت کے لیے رائج کی جائے، اس کو بدعت کہنا صحیح نہیں ہے۔ دراصل بدعت اور سُنت کے درمیان ایک بڑا نازک اور لطیف فرق ہے۔ اگر ایک آدمی شریعت کے قواعد کو ملحوظ رکھتے ہوئے اور شریعت کے مقاصد کو سمجھتے ہوئے کوئی ایسا نیا کام کرے (جو شریعت کے ان مقاصد کو جو شریعت میں اہمیت رکھتے ہیں) پورا کرنے میں مددگار ہوتا ہو تو وہ کام نیا ہونے کے باوجود بدعت نہیں ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی چیز ایسی ہے جو شریعت کے نظام کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتی ہے بلکہ اس کی ضد میں پڑتی ہے اور شریعت کے مقاصد کو پورا کرنے کے بجاے اُن مقاصد کو نقصان پہنچاتی ہے اور اس کو اُٹھا کر مسلمانوں کی زندگی میں رائج کر دیا جائے، تو یہ بدعت ہے۔

دوسرے لفظوں میں ایک چیز شریعت کے ساتھ مناسبت رکھتی ہے اور ایک چیز مناسبت نہیں رکھتی۔ چنانچہ جو چیز مناسبت نہیں رکھتی، وہ بدعت ہے اور جو چیز مناسبت رکھتی ہے وہ بدعت نہیںہے۔ جمعہ کے وقت پہلی اذان کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ یہ حضوؐر کے زمانے میں رائج نہیں تھی اور شیخین حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ دونوں کے زمانے میں بھی نہیں تھی۔ لیکن حضرت عثمانؓ نے اس کو جاری کیا۔ اب یہ بھی معلوم ہے کہ صحابۂ کرام نے اس وجہ سے اس کو قبول کیا اور اس پر اعتراص نہیں کیا، کیونکہ یہ اس مقصد کے خلاف نہیں بلکہ اُس مقصد کو پورا کر رہی تھی، جس مقصد  کے لیے اذان کا طریقہ مقرر کیا گیا تھا۔ اس وجہ سے صحابہ کرامؓ میں سے کسی نے اس پر اعتراض نہیں کیا کہ آپ یہ کیا بدعت نکال رہے ہیں۔

یہ دوسری اذان ہے جس کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے اور یہ وہ ا ذان ہے جس کے سننے کے بعد پھر خرید و فروخت حرام ہوجاتی ہے۔ پہلی اذان کو سننے کے بعد خرید و فروخت حرام نہیں ہوتی کیوں کہ اس کا اہتمام اس لیے کیاگیا ہے کہ اگر کوئی اُس کو سن کر غسل کرنا چاہے، یا اپنے کام سمیٹ کر اور وضو کرکے نماز کے لیے چلنا چاہے تو اسے اس کا موقع مل جائے اور وہ اس کے لیے تیار ہوکر نکل سکے۔ چنانچہ اگر کوئی شخص دوسری اذان سن کر، جب کہ خطبہ شروع ہونے والا ہو، اس وقت کوئی کاروبار کرے اور کسی قسم کے دنیوی کام میں لگا رہے تو پھر یہ ایک حرام فعل ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نمازِ جمعہ کے وقت کاروبار اور بیع و شراء (خرید وفروخت) کا ممنوع ہوجانا خود جمعہ کی فرضیت کی دلیل ہے۔

جمعہ کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ شریف پہنچنے کے بعد شروع کی تھی۔ مدینہ پہنچ کر آپؐ نے جو ابتدائی کام کیے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ آپ نے جمعہ کی اقامت کا اہتمام شروع فرما دیا۔ پہلے اس دن کو (جس کو اب جمعہ کہتے ہیں) یوم العروبہ کہا جاتا تھا۔ یہ اس کا قدیم نام تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کو جمعہ کی نماز کے لیے مخصوص کیا اور پوری آبادی کے لیے جمع ہوکر باجماعت نماز پڑھنے کا حکم جاری کیا، تو اس وجہ سے اس دن کا نام یوم الجمعہ قرار پا گیا۔

اللّٰہ کے ذکر کی طرف دوڑنے سے مراد

نمازِ جمعہ کی اذان سن کر ’’اللہ کی طرف دوڑو‘‘ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لوگ دوسری اذان سن کر بھاگنا شروع کردیں۔ شریعت کا منشا یہ نہیں ہے کہ آپ سڑکوں پر بھاگتے ہوئے نماز کے لیے جائیں، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت ہے کہ نماز کے لیے وقار اور سکینت کے ساتھ جائو۔ پس فَاسْعَوا کا مطلب یہ ہے کہ نماز کی طرف جانے میں جلدی کرو، تساہل سے کام نہ لو۔ چنانچہ سَعی سے مراد یہاں دوڑنا نہیں ہے، بلکہ اہتمام کرنا ہے، جلدی کرنا ہے تاکہ آدمی دوسرے کاموں میں مشغول رہ کر نماز سے غافل نہ ہوجائے، اس میں دیر نہ کردے۔

ذِکْرُ اللّٰہِ سے مراد جمعہ کا خطبہ اور نماز دونوں ہیں___ دوڑو اللہ کے ذکر کی طرف، یعنی اتنی جلدی کرو کہ خطبہ کے موقع پر پہنچ کر اسے سن سکو۔

احادیث میں اس کی تفصیل یہ آئی ہے کہ جمعہ کی نماز کے وقت جو شخص خطبے سے پہلے جائے اس کی کیا حیثیت ہے، جو شخص خطبے کے دوران میں جائے اس کی کیا حیثیت ہے، اور جو خطبہ کے آخر میں جائے اس کی کیا حیثیت ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جمعہ کے روز ملائکہ ہر آنے والے کا نام اس کی آمد کی ترتیب کے ساتھ لکھتے جاتے ہیں۔ پھرجب امام خطبے کے لیے نکلتا ہے تو وہ نام لکھنا بند کردیتے ہیں اور ذکر (یعنی خطبہ) سننے میں لگ جاتے ہیں‘‘۔ (متفق علیہ)

حکم ہے کہ ہرمسلمان جمعہ کا خطبہ سنے، چنانچہ یہ طے کر دیا گیا کہ جس وقت امام جمعہ کا خطبہ دینے کے لیے نکل آئے، اس وقت کوئی کام جائز نہیں ہے سواے اس کے کہ آدمی اس کو توجہ سے سنے، حتیٰ کہ آدمی نفل نماز بھی نہ پڑھے اور کسی سے کوئی بات بھی نہ کرے۔ صرف خطبے کی طرف توجہ رکھے ___ شریعت کا قاعدہ یہ ہے کہ جس وقت کے لیے جو عبادت مقرر کی گئی ہے اس وقت وہی سب سے اہم ہے۔ اس وقت کوئی دوسری عبادت کرنا، خواہ کتنی ہی بڑے درجے کی ہو، غلط ہوگا۔ چونکہ نمازِ جمعہ کے وقت مقصود یہ ہے کہ خطبہ سنا جائے، اس لیے حکم دیا گیا کہ خطبے کے دوران میں بالکل خاموش رہا جائے۔ کوئی کسی قسم کی آواز نہ نکالے اور اگر کوئی شخص بولے تواس کو زبان سے منع بھی نہ کرے، صرف اشارے سے منع کرے۔ اگر خطبے کے دوران میں کوئی شخص بول رہا ہو اور آپ نے اس کو خاموش رہنے کے لیے کہا تو آپ نے بھی وہی کام کیا جو وہ کر رہا ہے۔ اس وجہ سے خطبے کے موقع پر مکمل طور پر خاموش رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔

اس کے بعد فرمایا گیا: وَذَرُوا الْبَیْعَ ،’’اور بیع کو چھوڑ دو‘‘۔ بیع سے مراد محض خریدوفروخت نہیں ہے بلکہ تمام دنیوی کام ہیں۔ لوگوں کی توجہ صرف اس طرف ہونی چاہیے کہ جلدی سے جلدی تیار ہوکر خطبے کے وقت مسجد میں پہنچ جائیں۔ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ، ’’یہ تمھارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو‘‘۔

اس جگہ یہ بات بھی سمجھ لیجیے کہ جمعہ فرض ہے مگر کچھ شرائط کے ساتھ۔ ہر آزاد، عاقل و بالغ مرد کے لیے جمعہ کی نماز پڑھنا اور اس کا خطبہ سننا فرض ہے۔ وہ کسی حالت میں اس کو نہیں چھوڑ سکتا، اِلا.ّ یہ کہ وہ مسافر ہو۔ گویا مسافر پر جمعہ فرض نہیں ہے۔ عورت اور بچے کے اُوپر بھی فرض نہیں ہے۔ مریض پر بھی فرض نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص کسی بیمار کی تیمارداری میں لگا ہوا ہو تو اس پر بھی فرض نہیں ہے۔ اپاہج اور معذور پر بھی فرض نہیں ہے، لیکن فرض نہ ہونے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اگر وہ جاکر جمعہ کی نماز پڑھ لے تو اس کی نماز ادا نہیں ہوگی۔ نہیں، وہ ادا ہوجائے گی اور پھر جمعہ کی جگہ اس کے لیے ظہر کی نماز پڑھنی لازم نہیں ہوگی۔ اسی طرح غلام کے اُوپر نمازِ جمعہ فرض نہیں ہے۔ اگر وہ نماز کے لیے نہ جائے تو مضائقہ نہیں ہے، لیکن اگر نماز کے لیے چلا جائے تو اس کی نماز ہوجائے گی۔

نماز کے بعد کاروبار کا غلط مفھوم

فَاِِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo (۱۰) پھر جب نماز پوری ہوجائے تو زمین میں پھیل جائو اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے رہو، شاید کہ تمھیں فلاح نصیب ہوجائے۔

یہ جو فرمایا کہ جب نماز پوری ہوجائے تو زمین میں پھیل جائو اور اللہ کا فضل تلاش کرو تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایسا کرنا لازم ہے، یعنی یہ کوئی حکم نہیں ہے کہ جمعہ کی نماز پڑھتے ہی لوگ نکلیں اور جاکر اپنا کاروبار شروع کر دیں۔ اس کو لازم نہیں کیا گیا بلکہ مراد صرف یہ ہے کہ اگر ایسا کیا جائے تو اس کی اجازت ہے۔ کاروبار پر پابندی صرف جمعہ کی نماز تک تھی۔ اس کے بعد آزادی ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسا سورئہ مائدہ میں فرمایا گیا: وَ اِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا (المائدہ ۵:۲) ’’جب تم احرام کھول دو اور احرام سے نکل آئو تو اس کے بعد شکار کرو‘‘۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ احرام کھولتے ہی پہلا کام آدمی یہ کرے کہ جاکر شکار کرے۔ گویا یہ فرض ہے کہ احرام کھول کر   شکار کرو، نہیں بلکہ مدعا یہ ہے کہ پہلے تم کو حالت ِ احرام میں شکار کرنے سے منع کیا گیا تھا، لیکن اب، جب کہ تم احرام سے نکل آئے ہو تو شکار کرسکتے ہو۔

بعض لوگ اس آیت کو بنیاد بناکر یہ حکم نکالتے ہیں کہ دیکھیے صاحب، جب یہ فرمایا گیا ہے کہ نماز سے فارغ ہوکر کاروبار کے لیے زمین میں پھیل جائو تو آپ کیسے کہتے ہیں کہ جمعہ کا دن چھٹی کا دن ہونا چاہیے۔ گویا اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن میں یہ حکم تو آگیا ہے کہ اتوار کا دن چھٹی کا دن ہے، البتہ جمعہ کے روز چھٹی کرنا جائز نہیں ہے۔ ان احمقوں کو نہیں معلوم کہ قدیم ترین زمانے سے جو تین الہامی کتابیں پہلے سے موجود ہیں ان کو ماننے والوں میں سے ایک گروہ نے اپنا مذہبی دن ہفتہ کو قرار دے رکھا ہے اور وہ ہزاروں برسوں سے اس کی پابندی کر رہے ہیں، حتیٰ کہ جب پہلی جنگ ِ عظیم کے بعد امریکا و برطانیہ کی ایک سازش کے تحت اسرائیلی ریاست قائم ہوئی تو سب سے پہلے جو کام یہودیوں نے کیے، ان میں سے ایک یہ تھاکہ انھوں نے سبت (ہفتہ) کا دن ہفتہ وار چھٹی کے لیے مقرر کیا۔ اسی طرح انھوں نے عبرانی زبان کو اپنی قومی زبان اور سرکاری اور تعلیمی زبان قرار دیا۔ انبیا اور رسولوں کو ماننے والی جو دوسری قوم ہے، یعنی عیسائی، تو وہ اپنا مذہبی دن اتوار کو مانتے ہیں۔ تیسری قوم جو انبیا اوررسالت کو ماننے والی ہے، یعنی مسلمان، تو اس کا مذہبی دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے جمعہ کا دن قرار دیا تھا۔ جمعہ کا دن اس لیے رکھا گیا کہ اس روز اہلِ ایمان باقی کاموں سے فارغ اور آزاد رہ کر نہائیں، صفائی کریں، غسل کر کے نماز کے لیے جائیں اور جب نماز سے فارغ ہوکر نکلیں تو شریعت نے آپ کو اجازت دی ہے کہ آپ اپنا کاروبار کرسکتے ہیں، جیساکہ وَ اِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا (المائدہ ۵:۲) کے الفاظ سے احرام کی پابندی ختم ہونے کے بعد شکار کرنے کی اجازت ظاہر ہوتی ہے۔ لیکن جمعہ کی نماز کے بعد کاروبار کرنے کی اجازت کو حکم کے معنوں میں ثابت کرنے سے جمعہ کو چھٹی قرار دینے کی بات تو غلط ہوگئی، البتہ دورِ غلامی میں انگریزوں نے مسلمانوں میں پہلے سے رائج جمعہ کی رخصت کر کے جب اپنے مذہب کے مطابق اتوار کا دن چھٹی کے لیے مخصوص کرلیا تو اب وہ ہمیشہ کے لیے فرض ہو گیا۔

انگریزوں کی غلامی سے نجات پاکر اور خیر سے آزاد ہوجانے کے باوجود یہ حماقت کی باتیں یہاں کی جاتی ہیں، جب کہ دنیا کے تمام مسلمان ملکوں میں جمعہ ہی ہفتہ وار چھٹی کے دن کے طور پر رائج ہے۔ جب کبھی ہم وہاں جاتے ہیں تو ہمیں شرمندہ ہونا پڑتا ہے کہ سواے ترکی کے باقی تمام ملکوں میں جمعہ کا دن چھٹی کا دن ہوتا ہے اورترکی کا حال آپ کو معلوم ہے کہ وہاں مصطفی کمال نے اپنی قوم کے ساتھ اور مسلمانوں کے مسلّمہ عقاید اور شعائر کے ساتھ کیا معاملہ کیا تھا۔ چنانچہ آج اگر ہم کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی ہفتہ وار تعطیل کا دن جمعہ ہونا چاہیے تو اس پر اعتراض بے معنی ہے۔ ظاہر ہے کہ مسلمانوں کو اس بات کی ضرورت ہے کہ جمعہ کے روز ان کو اس غرض کے لیے کافی وقت دیا جائے تاکہ وہ اطمینان کے ساتھ نماز کے لیے تیار ہوسکیں۔

دنیا کے تمام مسلمان ملکوں میں یہی شعار رائج رہا ہے، حتیٰ کہ جیسے پہلے اشارہ کیا گیا، انگریزی حکومت کے زمانے میں تمام ہندستان میں اگرچہ اتوار کو چھٹی ہوتی تھی لیکن تمام مسلمان ریاستوں میں چھٹی کا دن جمعہ ہی تھا۔ ریاست بہاولپور، بھوپال اور حیدرآباد دکن میں بھی جمعہ چھٹی کا دن تھا۔ بھوپال اور رام پور جیسی چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں جمعہ کو چھٹی ہوتی تھی۔ اس آیت کے الفاظ ’’جمعہ کی نماز سے فارغ ہوکر کاروبار کرو‘‘ سے یہ استدلال صحیح نہیں ہے کہ جمعہ کے دن چھٹی نہیں ہونی چاہیے۔

کثرت سے ذکر

وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo اللہ کو کثرت سے یاد کرو، توقع ہے کہ تم فلاح پائوگے۔

اس حکم کا مطلب یہ ہے کہ نمازِ جمعہ سے فارغ ہوکر جب تم اپنے کاروبار پر لگو تو اس مصروفیت کے دوران میں اپنے اللہ کو یاد رکھو اور کثرت سے اس کا ذکر کرو۔ جمعہ کے دن تم کو ذکر کے لیے بلانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو تھوڑا ساوقت نماز کے لیے مقرر ہے وہ اللہ کے ذکر کے لیے رکھو اور باقی وقت میںتم اللہ سے غافل ہوسکتے ہو۔ نہیں، بلکہ مراد یہ ہے کہ جب تم نماز سے فارغ ہوکر اپنے کاروبار کے لیے نکلو تو اپنے اللہ کی طرف متوجہ رہو۔ اس وقت بھی کثرت سے اللہ کا ذکر کرتے رہو۔ پھر اس ذکرسے مرادکوئی خاص قسم کا ذکر نہیں ہے کہ آپ، مثلاً سبحان اللہ، سبحان اللہ ہی پڑھتے رہیں، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ آدمی کسی حال میں بھی اللہ کی یاد سے غافل نہ ہو، کاروبار بھی کرے تو اللہ کو یاد رکھے۔ ویسے بھی ایک مسلمان کی زبان سے اپنے دن رات کے اوقات میں، الحمدللہ، ان شاء اللہ، ماشاء اللہ وغیرہ کے جو الفاظ نکلتے ہیں، یہ سب اللہ کا ذکر ہی ہے۔ زندگی کے مختلف معاملات انجام دیتے ہوئے جب آدمی کسی نہ کسی طرح اللہ کا ذکر کرتا رہتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ اللہ کو بھولا نہیں، اس سے غافل نہیں ہوا۔

تجارتی قافلے کی آمد پر صحابہؓ کا رویہ

وَاِِذَا رَاَوْا تِجَارَۃً اَوْ لَھْوَانِ انْفَضُّوْٓا اِِلَیْھَا وَتَرَکُوْکَ قَـآئِمًا قُلْ مَا عِنْدَ اللّٰہِ خَیْرٌ مِّنَ اللَّھْوِ وَمِنَ التِّجَارَۃِ ط وَاللّٰہُ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ o (۱۱) اور جب انھوں نے تجارت اور کھیل تماشا ہوتے دیکھا تو اس کی طرف لپک گئے اور تمھیں کھڑا چھوڑ دیا۔ ان سے کہو، جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ کھیل تماشے اور تجارت سے بہتر ہے۔ اور اللہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔

جیساکہ آغاز میں بیان کیا گیا، یہ بالکل ابتدائی زمانے کی بات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مدینہ تشریف آوری کے بعد نمازِ جمعہ کا طریقہ مقرر کیا تو مدینہ میں لوگ ابھی پوری طرح تربیت یافتہ نہیں تھے۔ وہ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اور جمعہ کا طریقہ نیا نیا مقرر کیا گیا تھا۔ اس لیے لوگ ابھی پوری طرح اس کے آداب اور طور طریقوں سے واقف نہیں ہوئے تھے۔ دوسری طرف اسی زمانے میں چونکہ اہلِ مدینہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ہاں جگہ دے کر تمام کفارِ عرب سے دشمنی مول لے لی تھی، اس لیے عرب کے لوگوں نے مدینہ کے لوگوں کا ایک طرح سے معاشرتی اور معاشی مقاطعہ کر رکھا تھا۔ ان سے کاروباری تعلقات کاٹ لیے تھے جس سے مدینہ کے لوگوں کی معاشی حالت بہت خراب ہوگئی تھی۔ مہاجرین جو مکہ معظمہ اور عرب کے دوسرے حصوں سے ہجرت کر کے آئے تھے اور اُن کی اکثریت اس حال میں آئی تھی کہ اپنے گھربار،    مال اسباب سب کچھ چھوڑ کر صرف تن کے کپڑوں میں نکل آئے تھے اور ان کے لیے کوئی ٹھکانہ یہاں نہیں تھا۔ ان کی معاشی حالت بھی بہت خراب تھی اور مدینہ کی ایک چھوٹی سی بستی میں ایسے خستہ حال مہاجرین کے آنے سے، اور یہاں کے لوگوں پر اُن کا بار پڑ جانے سے دونوں کی معاشی حالت پر اس کا بُرا اثر پڑا تھا۔ پیش نظر آیات میں جس واقعے کا ذکر آیا، وہ اسی زمانے میں پیش آیا تھا۔

احادیث میں یہ قصہ اس طرح آیا ہے کہ ایک تجارتی قافلہ مدینہ طیبہ میں آیا۔ تجارتی قافلوں کا جو طریقہ اُس زمانے میں رائج تھا وہ یہ تھا کہ جب قافلے والے کسی بستی میں پہنچتے تھے تو ڈھول تاشے بجاتے تھے، اور ان کے ساتھ کچھ حبشی غلام وغیرہ بھی ہوتے تھے۔ وہ اس ڈھول تاشے کے ساتھ کچھ اُچھل کود کرکے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے تھے۔ اس طرح گویا بستی کے لوگوں کو خبردار کرتے تھے کہ ایک تجارتی قافلہ آگیا ہے۔ اتفاق کی بات ہے کہ عین جمعہ کی نماز کے وقت ایک تجارتی قافلہ باہر سے آیا اور اس نے آکر ڈھول تاشے بجانے شروع کیے، تو وہ لوگ جو اس وقت مسجد میں نمازِ جمعہ کے لیے جمع تھے، اپنی پرانی عادت کی بنا پر ڈھول تاشوں کی آواز سن کر ان کی توجہ اس قافلے کی طرف ہوگئی۔ اس کے ساتھ ان کو یہ اندیشہ بھی لاحق ہوا کہ جو لوگ جمعہ کے لیے نہیں آئے ہیں، وہ اچھااچھا مال خرید کر لے جائیں گے اور خرید و فروخت کا ایک اچھا موقع ہاتھ سے نکل جائے گا۔ ابھی تک مدینہ میں غیرمسلم بھی موجود تھے۔ یہودی بھی تھے اور منافقین کی ایک بڑی تعداد بھی موجود تھی جس کی بنا پر ان کو یہ پریشانی ہوئی کہ اگر ہم یہاں بیٹھے رہے تو دوسرے  لوگ آکر اچھا اچھا مال خرید کر لے جائیں گے۔ دوسری طرف ہم اپنا مال قافلے والوں کے ہاتھ اچھے داموں بیچ بھی نہیں سکیں گے، اس طرح دوہرا نقصان ہوگا۔

تربیت کی حکمت

دراصل اس زمانے میں تجارتی قافلے اس غرض کے لیے آتے تھے کہ باہر کا مال لاکر مقامی آبادی کے ہاتھ بیچیں اور ان کے ہاں اگر کوئی چیز خریدنی ہے تو خرید کر ساتھ لے جائیں۔ چنانچہ جو لوگ مسجد میں جمع تھے، وہ بالکل بے ساختہ، عین خطبے کے دوران میں اُٹھ کر مسجد سے باہر نکل گئے اور حضوؐر کھڑے رہ گئے۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ صرف آٹھ آدمی مسجد میں رہ گئے۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ صرف ۱۲ آدمی مسجد میں رہ گئے، اور بعض روایات میں ان کی تعداد زیادہ سے زیادہ ۴۰ کی بتائی گئی ہے۔ اگر ۴۰ کی تعداد کو بھی مان لیا جائے تب بھی بڑی اکثریت جو وہاں موجود تھی وہ اُٹھ کر چلی گئی۔ کیونکہ ظاہر بات ہے کہ مدینے میں مسلمانوں کی تعداد محض اتنی کم تو نہیں تھی۔ مہاجرین کے علاوہ انصار کی بھی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ اس لیے صورتِ واقعہ یہی نظر آتی ہے کہ ایک بڑی اکثریت اُٹھ کر چلی گئی اور بہت تھوڑے سے لوگ مسجد میں باقی رہ گئے۔ اب چونکہ یہ ایک اضطراری حرکت تھی اور لوگ بھی غیر تربیت یافتہ تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کے اُوپر سخت گرفت نہیں فرمائی بلکہ صرف اس کا ذکر کردینے پر اکتفا کیا۔ اگر کہیں لوگ تربیت یافتہ ہونے کے بعد اور ایک کافی مدت اسلام میں گزار لینے کے بعد اس طرح کی حرکت کے مرتکب ہوتے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر انتہائی شدید گرفت کی جاتی، چونکہ یہ ابتدائی حالت تھی اس وجہ سے اس انداز میں توجہ دلائی گئی ہے، اور یوں ذکر کیا گیا کہ جن لوگوں نے تجارت اور لَہو کو دیکھا، یعنی وہ کھیل تماشا دیکھا جو قافلے والے کرر ہے تھے، اور تجارت کا موقع دیکھا تو حضوؐر کو خطبہ دیتے ہوئے کھڑا چھوڑ کر اس کی طرف اُٹھ کر چلے گئے۔ پھر تعلیم و تربیت کے انداز میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ بات کہلوائی گئی کہ:

قُلْ مَا عِنْدَ اللّٰہِ خَیْرٌ مِّنَ اللَّھْوِ وَمِنَ التِّجَارَۃِ وَاللّٰہُ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ    (اے نبیؐ!) ان لوگوں سے کہو کہ اللہ کے پاس جو کچھ ہے وہ اس لہو اور کھیل تماشے سے اور اس تجارت سے زیادہ بہتر ہے اور اللہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔

اس طرح یہ بات سمجھائی گئی کہ تم اس خیال سے کہ رزق حاصل کرنے کا ایک موقع ہاتھ سے نکل جائے گا، اللہ کے رسولؐ کو کھڑے چھوڑ کر قافلے کی طرف نکل بھاگے لیکن یہ نہ سوچا کہ رزق تو اللہ کے پاس ہے،اور بہترین رزق دینے والا وہی ہے۔ اگر یہ موقع نکل بھی جاتا، تو کیا ہوتا، تمھارا رزق تو ختم نہ ہوجاتا۔

اب دیکھیے کہ ان الفاظ سے صاف مترشح ہوتا ہے کہ یہاں انداز عتاب کا نہیں ہے، غضب اور غصے کا بھی نہیں ہے، بلکہ اس طریقے سے لوگوں کی تربیت فرمائی گئی، کیوں کہ ان سے یہ غلطی اضطرار کی بنا پر، اور تربیت یافتہ نہ ہونے کی بنا پر سرزد ہوئی تھی۔ محض اسلام کا ابتدائی عہد ہونے کی بناپر ان سے جو قصور ہوا تھا، وہ نعوذ باللہ کوئی ارتداد کا فعل نہیں تھا، یا دین سے بے پروائی کا، یا رسولؐ اللہ کے ساتھ نعوذ باللہ بے احترامی کا برتائو کرنے کا کوئی تصور دُور دُور تک ان کے ذہن میں نہیں تھا، نہ ہوسکتا تھا۔ اگر وہ رسولؐ اللہ سے معاذاللہ بے پروا ہوتے تو صرف چند ماہ قبل (ہجرت کے وقت) وہ اتنا عظیم خطرہ مول ہی کیوں لیتے کہ خود جاکر مکہ سے حضوؐر کو ساتھ لے کر آئے تھے، اور ایسے ایسے پکے عہدوپیمان کیوں کرتے کہ اگر سارا عرب بھی ہمارا دشمن ہوگا اور ہم سے لڑے گا تو ہم آپ کے لیے جانیں قربان کر دیں گے۔

ظاہر بات ہے کہ انصارِ مدینہ کی طرف سے ایسی کوئی کمزوری دکھانے کا سوال ہی پیدا  نہیں ہوتا تھا۔ یہ کوتاہی سراسر اُن سے اضطراری حالت میں اور تربیت میں کمی کی بنا پر ہوئی تھی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان پر عتاب اور غضب کا اظہار کرنے کے بجاے ان کی بڑی شفقت کے ساتھ تربیت فرمائی اور سمجھایا کہ یہ کام تم سے درست نہیں ہوا۔ تم کو سمجھنا چاہیے کہ اللہ کے پاس جو کچھ ہے وہ اس تجارت اور کھیل کود سے زیادہ بہتر ہے جس کی طرف تم چلے گئے تھے۔ خوب سمجھ لو کہ اللہ کے ذکر سے کوئی چیز افضل نہیں اور یقین رکھو کہ اللہ ہی بہتر رزق دینے والا ہے۔ (جمع و تدوین: حفیظ الرحمٰن احسن)

حضرت زیاد بن لبیدؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: یہ اس وقت ہوگا جب علم اٹھ جائے گا۔ میں نے عرض کی: یارسولؐ اللہ! علم کیسے اٹھ جائے گا، جب کہ ہم قرآن پڑھتے ہیں اور اپنے بچوں کو بھی پڑھاتے ہیں اور ہماری اولاد اپنی اولاد کو پڑھائے گی اور اس طرح یہ سلسلہ قیامت تک چلتا رہے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمھاری ماں تمھیں روئے، میں تو تمھیں مدینہ کا سمجھ دار ترین شخص سمجھتا تھا۔ کیا یہ یہودی اور عیسائی تورات و انجیل نہیں پڑھتے، لیکن اس میں جو (احکامات) ہیں ان پر عمل نہیں کرتے۔ (ابن ماجہ حدیث ۴۰۴۸)

سید ابو الاعلی مودودیؒ کے الفاظ میں قرآن کریم شاہ کلید ہے جو مسائل حیات کا ہر قفل کھول دیتی ہے۔ لیکن اگر اس کتابِ حیات اور شاہ کلید کا مقصد صرف طاقوں پر سجانا اور دھو دھو کر پلانا ہی سمجھ لیا جائے، اس نسخۂ کیمیا کو صرف آواز و انداز کے حُسن اور سانس کی طوالت آزمانے کا ذریعہ سمجھ لیا جائے، تو یقینا کائنات کی عظیم ترین نعمت پاس ہوتے ہوئے بھی، بندہ علمِ حقیقی سے محروم ہوجاتا ہے۔

صحابۂ کرام کو اسی لیے حیرت ہوئی کہ یارسولؐ اللہ! کتابِ الٰہی ہمارے درمیان ہوگی اور پھر بھی علم نہ رہے گا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے محبت و تنبیہ سے عربوں کا معروف جملہ دہراتے ہوئے فرمایا: اپنی کتاب پڑھنے کا دعویٰ تو یہودی اور عیسائی بھی کرتے ہیں لیکن پھر بھی مغضوب علیہم اور ضالین ہوگئے۔

o

حضرت ابو موسی الاشعریؓ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے جو علم و ہدایت دے کر بھیجا ہے اس کی مثال (بابرکت) بارش کی طرح ہے۔ کچھ زمین ایسی زرخیز ہوتی ہے کہ اس بارش سے خوب سرسبز و شاداب ہوکر لہلہا اٹھتی ہے۔ کچھ زمین ایسی پتھریلی ہوتی ہے کہ اس سے وہاں کوئی فصل و شادابی تو نہیں ہوتی، البتہ وہ پانی کو محفوظ کرلیتی ہے۔ (خود تو محروم رہتی ہے) لیکن لوگ اس سے خود بھی سیراب ہوتے ہیں اور اپنی فصلوں اور مال مویشی کو بھی سیراب کرلیتے ہیں۔ لیکن کچھ زمین ایسی صحرائی ہوتی ہے کہ نہ تو خود لہلہاتی ہے اور نہ پانی ہی محفوظ کرتی ہے۔ یہی مثال انسانوں کی ہے کہ کچھ نے اللہ کے دین کو سمجھ لیا اور اللہ نے میرے ذریعے بھیجی جانے والی ہدایت کو ان کے لیے فائدہ بخش بنادیا۔ کچھ نے اس کو خودبھی اسے سیکھا اور دوسروں کو بھی سکھایا، اور کچھ نے اس کی جانب سر اٹھا کر بھی نہ دیکھا، اللہ نے جو ہدایت میرے ذریعے عطاکی ہے اسے قبول نہ کیا۔ (بخاری، حدیث ۷۹)

خیر و برکت کی موسلادھا ر بارش تو باغات، فصلوں، میدانوں، صحراؤں اور چٹانوں پر، ہر جگہ ہوتی ہے لیکن نصیب اپنے اپنے ہیں۔ معلم انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم مثال دے کر سمجھا رہے ہیں کہ گھر آئی نعمت سے خود بھی جھولیاں بھر لو اور دوسروں کے نصیب بھی جگا دو۔

o

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر کوئی بندہ بیمار پڑ جائے یا سفر میں ہو تو بھی    اس کے اُن نیک اعمال کا اجر جاری رہتا ہے جو وہ (صحت مندی اور حضر میں) کیا کرتا تھا ۔ (بخاری، حدیث ۲۹۹۶)

اللہ کے اجر و احسان کے پیمانے ہی مختلف ہیں۔ بندہ اپنے مہربان خالق کی عطائوں کا تصور تک نہیں کرسکتا۔ بندہ نیکیوں اور حسن عمل کا خوگر بن جائے، نیت خالص رکھے، تو خدانخواستہ کسی معذوری کی صورت میں بھی ان نیکیوں کا اجرجاری رہتا ہے۔ گویا صحت، عافیت اور راحت کے لمحات میں بندے کی نیکیاں دگنی اہمیت رکھتی ہیں۔ نہ صرف اس لمحۂ موجود میں کامیاب کرتی ہیں بلکہ انھی کی بنیاد پر ہنگامی حالات میں بھی نیکیوں کے کھاتے جاری رہتے ہیں۔

o

حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم روزِ محشر ننگے پاؤں، ننگے بدن اور غیر مختون اٹھائے جاؤ گے۔ حضرت عائشہؓ نے عرض کی: یارسولؐ اللہ! مرد و عورت  سب اکٹھے…؟ سب ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہوں گے؟ آپؐ نے فرمایا: صورت حال اتنی شدید ہوگی کہ اس جانب تو کسی کا دھیان تک نہ جائے گا۔ (بخاری، حدیث ۶۵۲۷)

قرآن و حدیث میں مذکور روز محشر کی تمام ہولناکیاں ذہن میں رکھتے ہوئے پھر اس حدیث کا مطالعہ کریں تو اصل بات سمجھ میں آتی ہے۔

انسان بالکل اس حالت میں اٹھائے جائیں گے کہ جس میں پہلی بار پیدا کیے گئے۔ مال و متاع، رشتے ناتے، القاب و عہدے، سب دنیا ہی میں رہ جائیں گے۔ صرف اور صرف بندے کے اعمال ساتھ دیں گے۔ ایک اور حدیث کے مطابق ساری خلقت اپنے اپنے اعمال کے مطابق، پسینے میں ڈوبی ہوگی۔ کچھ ٹخنوں تک اور کچھ لوگوں کا پسینہ ان کے ناک تک پہنچ کر لگام کی صورت میں ان کے منہ میں جارہا ہوگا۔

حیرانی و پریشانی سے پوچھا گیا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا سوال دیکھیں اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جامعیت پر مبنی جواب۔ اس قدر ہولناک صورت حال میں بھلا کس کا دھیان اس جانب جائے گا کہ سب مرد و زن عریاں ہیں۔ سب کو اپنی نجات و آخرت کی فکر لگی ہوگی۔ مطلب یہ ہوا کہ دنیا میں بھی عریانی، فحاشی اور غلاظت و تباہی کا شکار وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو آخرت کی ہولناکیوں سے غافل یا  بے خبر ہوں۔

o

حضرت ابو مسعودؓ راوی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں کو گذشتہ انبیا ؑ کی جو باتیں عطا ہوئی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ: ’’اگر تم حیا نہیں کرتے تو جو چاہے کرتے پھرو‘‘۔(بخاری، حدیث ۶۱۲۰)

حیا انسان کا زیور ہی نہیں شیطان کے مقابلے کے لیے، اہم ترین ہتھیار بھی ہے۔ بندہ حیا کھودے تو اس نے سب کچھ کھودیا۔ گویا پھر وہ اللہ کے ذمے سے نکل گیا، پھر وہ جانوروں سے بدتر ہے جو چاہے کرتا پھرے۔

مختصر حدیث اسلامی تہذیب کا اہم ترین اصول ہے اور اس کا اطلاق کسی محدود اخلاقی دائرے پر نہیں، زندگی کے ہر شعبے پر ہوتا ہے۔ حیا نہ رہی تو ہرمعاملے میں حدود سے تجاوز ہوگا۔

o

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ اسے جسمانی عافیت نصیب ہو، وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ پُرامن ہو اور اس کے پاس اس روز کی خوراک ہو، تو گویا اسے ساری دنیا کی نعمتیں جمع کرکے دے دی گئیں۔ (ترمذی، حدیث ۲۳۴۶)

بندہ یہ تو محسوس ہی نہیں کرتا کہ عافیت سلامتی اور اپنوں کا ساتھ بھی کوئی نعمت ہے۔ کسی کے پاس صرف اس روز کے کھانے کا انتظام و گنجایش ہو تو لوگ اسے فقیروں میں بھی آخری درجہ دیتے ہیں۔ لیکن ارشاد نبویؐ ہے: سمجھو دنیا کی ساری نعمتیں جمع ہوگئیں۔ نعمت کا شکر ادا ہوجائے تو جو خالق آج دے رہا ہے، وہی کل بھی ضرور دے گا۔

اللہ تعالیٰ کسی دنیاوی نعمت کی نفی نہیں کرتا، نہ اس سے منع ہی کرتا ہے لیکن نعمتوں کا احساس و اہمیت،  دل و دماغ میں تازہ رہنا چاہیے تاکہ حقیقی شکر ادا ہوسکے اور دل اصل، یعنی آخرت کی کمائی سے     جڑا رہے۔

o

حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھانے کے (دوسری روایت میں ہے گندم کے) ایک ڈھیر کے پاس سے گزرے۔ آپؐ نے ڈھیر میں ہاتھ ڈالا تو انگلیوں کو نمی محسوس ہوئی۔ آپؐ  نے اس کے مالک سے پوچھا: یہ کیا ہے؟ اس نے جواب دیا: یارسولؐ اللہ! اس پر بارش ہوگئی تھی۔آپؐ  نے فرمایا: ’’اس گیلی (گندم) کو اوپر کیوں نہ کردیا کہ لوگ اسے دیکھ سکتے۔جس نے دھوکا دیا وہ مجھ سے نہیں ہے‘‘۔ (ترمذی، حدیث ۱۳۱۵)

واقعے کے آخر میں فرمائے گئے چند الفاظ انتہائی جامع، بنیادی اور ہلا دینے والے ہیں۔ دھوکا دہی اور جعل سازی جس نوعیت کی ہو، جس میدان میں ہو، امتی کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق سے     محروم کردیتی ہے۔ ’’وہ مجھ سے نہیں‘‘ یعنی میرا اس سے کوئی تعلق نہیں‘‘--- العیاذ باللہ۔ تھوڑا سا دنیاوی مفاد اور ہمیشہ کا خسران۔ اے اللہ! ہم سب کو اس نقصان سے محفوظ رکھ!

انسان کا سب سے بڑا دشمن اس کا اپنا نفس ہے جو اس کے اندر گھسا بیٹھا ہے۔ یہی نفس اسے برائی اور گناہ کی طرف مائل کرتا ہے۔ اسی نفس کے تزکیے اور راہِ راست پر رکھنے کا کام انسان کے سپرد ہوا ہے۔ پس اگر آپ اپنے نفس کی خبر نہ لیں تو وہ سرکش ہو جاتا ہے۔ اگر آپ اسے ملامت کرتے رہیں گے تو وہ نفسِ لوامہ بن جائے گا، اور راہِ راست پر لانے کی یہ کوشش جاری رہے تو رفتہ رفتہ نفسِ مطمئنہ بن جائے گا اور آپ ان بندگانِ خدا میں شامل ہوجائیں گے جو اللہ سے راضی ہوں اور اللہ ان سے راضی ہو۔

اپنے نفس کا تزکیہ اور محاسبہ صرف وہی کرسکتا ہے جس میں اپنے نقائص کو جاننے، اور اعتراف کرنے کا حوصلہ ہو، اور ساتھ ہی وہ اتنا اصلاح پسند بھی ہو کہ اپنے نقائص کو دُور کرنے، اور ان کی جگہ خوبیاں پیدا کرنے کی تڑپ بھی رکھتا ہو۔ ایسے ہی شخص سے توقع کی جاسکتی ہے، کہ وہ اپنے آپ کو برائیوں سے پاک کرنے کی جدوجہد کرے۔

انسان کا برائی کی طرف مائل ہونے میں سب سے بنیادی سبب اس کی غفلت ہے۔ انسان کو جب ضروریاتِ زندگی بآسانی اور کثرت سے مل رہی ہوں تو وہ آہستہ آہستہ دنیا میں کھو جاتا ہے اور دین سے غفلت برتنے لگتا ہے اور دنیا کی ہوس کا شکار ہوجاتا ہے۔ اسی غفلت کے نتیجے میں وہ یہ بات بھول جاتا ہے کہ وہ کس مقصد کے لیے پیدا کیا گیا ہے اور کیا کر رہا ہے۔ اس غفلت سے انسان کو بیدار کرنے کے لیے انسانی ضمیر کو جھنجھوڑنا ناگزیر ہے۔

انسانی زندگی میں اخلاق کی اہمیت بھی اسی وجہ سے ہے کہ انسان اخلاق کے پیمانے پر اپنے آپ کو پرکھ سکے، اچھے اخلاق اپنا لے اور بُرے اخلاق سے اجتناب کرے۔ انسان اخلاق کے بل بوتے پر دوسروں کے دلوں پر حکومت کیا کرتا ہے۔ اخلاق سے دشمن، دوست بن جاتا ہے۔ اخلاق ہی وہ شے ہے جس سے پتھر دل موم ہو جایا کرتے ہیں۔ اخلاق ایک دوسرے کے اندر  انس و محبت پیدا کرتا ہے۔ اخلاق سے انقلاب آجاتا ہے۔ اخلاق سے بڑی بڑی جنگیں سر کرلی جاتی ہیں۔ جس انسان میں اخلاق جیسی کوئی صفت نہ ہو تووہ اکھڑمزاج، بدتمیز اور کھردرا کہلاتا ہے۔ اس کے رویے سے زندگی تلخ ہوجاتی ہے، تعلقات کشیدہ ہوجاتے ہیں۔ انسان تو انسان حیوان بھی خوف کھانے لگتے ہیں، لہٰذا ہمیں اپنے اخلاق کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے تاکہ بداخلاقی سے گریز کرسکیں اور لوگوں کی نظروں سے گرنے سے بچے رہیں۔

بعض لوگوں کی خودپسندی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ اپنے طرزِعمل پر کسی کے ذرا سے جائز اعتراض کو بھی اپنی عزتِ نفس پر حملہ خیال کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک عزت نفس اور غیرت کا مفہوم یہی ہے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے۔ ایسے لوگوں کو اگر زندگی میں اپنی کسی غلطی پر معافی مانگنا پڑ جائے تو ان کے لیے یہ مرحلہ موت سے کم نہیں ہوتا۔ وہ اپنے بڑے سے بڑے دینی اور دنیوی نقصان کو گوارا کرلیں گے مگر معافی مانگنے کی ذلت کو گوارا نہیں کریں گے۔ اس کے برعکس کچھ لوگ منکسرالمزاج ہوتے ہیں۔ اپنے آپ کو غلطیوں سے بالا نہیں سمجھتے اور جھوٹی آن پر ایمان نہیں رکھتے۔ یہ لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ یہاں معاف کرا لینا قیامت میں سزا پا لینے سے بدرجہا بہتر ہے۔ ایسے لوگوں سے جب کوئی خطا ہوتی ہے تو وہ بآسانی معافی مانگ لیتے ہیں، اور معافی مانگنے کے بعد کافی راحت محسوس کرتے ہیں۔

نفس کے ساتھ جہاد کرنے کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ نفس سے جہاد کو جہادِ اکبر کہا گیا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ فرماتے ہیں کہ کافروں کے ساتھ جہاد کرنا چھوٹا جہاد ہے مگر نفس کے ساتھ جہاد کرنا بڑا جہاد ہے۔ حضرت شداد بن اوسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دانا وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے اور موت کے بعد کے لیے عمل کرے، اور عاجز وہ ہے جو اپنے نفس کی خواہشوں کے پیچھے لگا رہے اور اللہ تعالیٰ سے اُمیدیں باندھے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ جس نے اپنے نفس کا جائزہ لیا وہ نفع میں رہا، اور جس نے غفلت برتی وہ گھاٹے میں رہا، اور جو اللہ سے ڈرا وہ بے خوف ہوگیا۔ سورئہ شمس میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا o وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا o (الشمس ۹۱: ۹-۱۰) یقینا فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اس کو دبا دیا۔

حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن آدم علیہ السلام کے بیٹے کے پائوں اس وقت تک سرک نہیں سکتے جب تک کہ اس سے پانچ چیزوں کے بارے میں سوال نہ کر لیا جائے: ۱-عمر، کن کاموں میں صرف ہوئی؟ ۲- جوانی، کن مشاغل میں گزری؟ ۳-مال، کن طریقوں سے کمایا؟ ۴- مال، کن مصارف میں خرچ کیا؟ ۵- جو علم حاصل کیا تھا، اس پر کہاں تک عمل کیا؟

محاسبۂ نفس کے سلسلے میں ایک اہم بات جو پیش نظر رہنی چاہیے، وہ یہ ہے کہ ابتدا میں جب انسان یہ عمل شروع کرتا ہے تو اسے کچھ مایوسی سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ روزانہ اپنا محاسبہ کرتے ہوئے اسے یہی احساس ہوتا ہے کہ وہ تو اپنی ذرا سی بھی اصلاح نہیں کرسکا۔ اس سے دل برداشتہ ہونے کے بجاے محاسبۂ نفس کے عمل کو صبر سے برابر جاری رکھنا چاہیے اور مایوس ہوکر اسے ترک نہیں کرنا چاہیے۔

محاسبۂ نفس کے حوالے سے چند اہم تقاضوں کا ذیل میں تذکرہ کیا جا رہا ہے:

  • کبر اور خود پسندی: انسان کا بدترین عیب کبر و غرور اور خودپسندی ہے جو ایک سراسر شیطانی فعل ہے۔ جو شخص یا گروہ اس بیماری میں مبتلا ہو، وہ اللہ کی تائید سے محروم ہوجاتا ہے۔ کبریائی صرف اور صرف اللہ ہی کی ذات کے لیے مخصوص ہے۔ نفس کی ایک ذرا سی ڈھیل اور شیطان کی ایک ذرا سی اُکساہٹ اسے تکبر اور خودپسندی میں تبدیل کردیتی ہے۔
  • تنگ دلی: مزاج کی بے اعتدالی سے ملتی جلتی ایک اور کمزوری تنگ دلی ہے، جسے قرآن پاک میں شُح نفس سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس میں انسان خود جتنا بھی پھیلتا چلا جائے، اسے اپنی جگہ تنگ ہی نظر آتی ہے اور دوسرے جس قدر سکڑ جائیں، اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ پھیلے ہوئے ہیں۔ اپنے لیے ہر رعایت چاہتا ہے مگر دوسروں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتتا۔ یہ رویہ ان صفات سے بالکل برعکس ہے جو اسلامی زندگی کے قیام کی جدوجہد کے لیے مطلوب ہیں۔
  • غصہ اور اشتعال انگیزی:کچھ لوگ غصے میں آکر بے قابو ہوجاتے ہیں اور اشتعال میں آکر ایسی حرکت کربیٹھتے ہیں جس پر انھیں بعد میں پچھتانا پڑتا ہے۔ غصے کی وجہ سے جھگڑا اور فساد برپا ہوجاتا ہے۔ نصیحت کی گئی ہے کہ انسان کو جب کسی معاملے کا فیصلہ کرنا ہو تو وہ اس بات کا یقین کرلے کہ وہ غصے کی حالت میں نہ ہو۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’طاقت ور شخص وہ نہیں ہے جو کشتی میں دوسرے کو پچھاڑ دے، بلکہ طاقت ور تو درحقیقت وہ ہے جو غصے کے موقع پر اپنے اُوپر قابو پالے‘‘۔ گویا غصے میں آکر کوئی ایسی حرکت نہیں کرنی چاہیے جو اللہ اور اس کے رسولؐ کو ناپسند ہو۔
  • وقت کی قدر: عموماً لوگ وقت کی قدر کرنا نہیں جانتے۔ انھیں یہ معلوم نہیں کہ انسان کے ہاتھ میں اصلی دولت وقت ہی ہے۔ جس نے وقت کو ضائع کیا، اس نے سب کچھ ضائع کردیا۔ وقت ایک گراں قدر دولت ہے۔ اس کی مثال ایک برف فروش کی سی ہے۔ اگر دکان دار نے برف کے پگھلنے سے پہلے اسے فروخت کر دیا تو نفع کما لیا، ورنہ گھاٹے میں رہا۔ اسی طرح ایک ضرب المثل مشہور ہے ’’تب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت‘‘۔ اسی لیے انسان کو چاہیے کہ وہ وقت کا صحیح استعمال کرے اور غفلت سے دُور رہے۔
  • قرآن سے تعلّق: ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم دو اہم چیزیں اپنی اُمت کے لیے چھوڑ گئے: ایک قرآن اور دوسری آپؐ کی سنت۔ قرآنِ مجید، اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بہت بڑا معجزہ ہے۔ ہم اس مقدس کتاب سے صرف اسی وقت مکمل طور پر مستفید ہوسکتے ہیں، جب اس کا صحیح حق ادا کریں۔ اس کا حق صرف اسی وقت ادا ہوسکتا ہے جب ہم اس کی صحیح تلاوت کرسکیں، اس کے معنی و مطلب کو سمجھ سکیں، اس کے ایک ایک حکم پر سختی سے عمل پیرا ہوں، اور اس پیغام کو اپنے بیوی بچوں، پڑوسیوں، دوست احباب اور رشتہ داروں اور غیرمسلموں کو پہنچائیں۔ ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اپنا محاسبہ کرکے یہ جانیں کہ ان تمام ذمہ داریوں کو ہم کس حد تک نبھا رہے ہیں۔ قرآن پاک کی تلاوت کے لیے تجوید کا خصوصی اہتمام ضروری ہے اور اس کے بغیر تلاوت کا حق ادا نہیں ہوتا۔
  • نماز اور محاسبۂ نفس: نمازوں کو برباد کرنے والی سب سے عام آفت کسل مندی اور سستی ہے۔ یہ بیماری جب کسی شخص کو لاحق ہوتی ہے تو نہ وہ وقت کی پابندی برقرار رکھ سکتا ہے،  نہ جماعت کا اہتمام قائم رکھ سکتا ہے اور نہ نماز میں حضور قلب کی کیفیت رکھ سکتا ہے۔ ایسا شخص آہستہ آہستہ نماز سے غفلت برتنے لگتا ہے اور اگر پڑھتا بھی ہے تو بالکل بے جان اور بے روح نماز۔

نماز کی دوسری عام آفت وسوسہ ہے۔ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہی آدمی کے ذہن پر وسوسوں اور پراگندہ خیالات کا ہجوم ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو بندے کی نماز سے جتنی محبت ہے شیطان کو اس سے اتنی ہی دشمنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دورانِ نماز ابلیس کے کارندوں کا حملہ سب سے زیادہ سخت انھی لوگوں پر ہوتا ہے جو اس کے مقابل میں قوتِ ایمانی کا ثبوت دیتے ہیں۔ وسوسوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لیے تین باتیں مفید ہیں:

  • جس وقت یہ کیفیت ہو کہ شیطان سے اللہ کی پناہ مانگی جائے اور ذہن کو اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ کیا جائے
  • نماز کے کلمات صرف دل میں نہ پڑھے جائیں بلکہ زبان سے اس طرح پڑھیں کہ خود ان کو سن سکے
  •  روزہ مرہ زندگی میں اپنے خیالات کو پاکیزہ اور بلند رکھنے کی کوشش کیجیے۔

نماز میں ایک حادثہ چوری کا بھی پیش آیا کرتا ہے۔ وہ اس طرح کہ بعض لوگ وضو اور نماز میں اتنی جلدی کرتے ہیں کہ وہ ان کے کسی بھی رکن کا حق ادا نہیں کرپاتے۔ وضو اور نماز کے ارکان اطمینان سے ادا کرنے چاہییں، ورنہ وضو اور نماز فاسد ہوجائیںگے۔

نماز کی سب سے عام اور زیادہ خطرناک آفت ریا ہے۔ ریاکاری یہ ہے کہ جب کسی کے سامنے نماز ادا کی جائے تو اس طرح گویا کوئی بہت متقی اور پرہیزگار ہے، اور جب اکیلے میں نماز پڑھی جائے تو بس دوچار ٹھونگیں مار لی جائیں۔

حضرت احنف بن قیس تابعیؒ کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ ان کی عبادت کا خاص وقت رات کو ہوتا تھا۔ جب سب لوگ میٹھی نیند کے مزے لے رہے ہوتے تو وہ اپنے رب کے حضور حاضر ہوکر اظہارِ بندگی کرتے اور اپنے اعمال کا جائزہ لیتے۔ وہ چراغ جلا کر اس کی لَو پر اپنی انگلی رکھتے اور اپنے نفس سے مخاطب ہو کے کہتے کہ فلاں فلاں کام کرنے پر کس چیز نے تجھے آمادہ کیا تھا۔

  • روزہ اور محاسبۂ نفس: روزے کا محاسبہ انسان کی آنکھیں کھول دیتا ہے کہ روزے کے دوران اس نے جانے اور انجانے میں کتنے ایسے اعمال کیے ہیں جن کی وجہ سے اس کا روزہ فاسد ہوسکتا تھا۔ سب سے پہلے ہرمومن کو اپنے ذہن میں روزے کے مقصد کو رکھنا چاہیے اور سختی سے روزوں کی پابندیوں پر عمل کرے اور زیادہ سے زیادہ وقت عبادت میں صرف کرے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو لوگ رمضان کے روزے ایمان و احتساب کے ساتھ رکھیں گے ان کے گذشتہ گناہ معاف کردیے جائیں گے، اور ایسے میں جو لوگ ایمان و احتساب کے ساتھ رمضان کی راتوں میں نوافل (تراویح و تہجد) پڑھیں گے ان کے (سب پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے)۔ (بخاری ، مسلم)

اکثر لوگ روزے کے مقصد کو ملحوظ نہیں رکھتے۔ ان کے نزدیک ماہِ رمضان خاص طور پر کھانے پینے کا مہینہ ہوتا ہے۔ ان کا یہ بھی خیال ہوتا ہے کہ اس مہینے میں کھانے پینے پر جتنا بھی خرچ کیا جائے، اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا کوئی حساب نہیں ہوگا۔ اس خیال کے لوگ اگر خوش قسمتی سے کچھ خوش حال بھی ہوں تو پھر تو فی الواقع ان کے لیے روزوں کا مہینہ کام و دہن کی لذتوں سے متمتع ہونے کا موسم بہار بن کے آتا ہے۔ وہ روزے کی پیدا کی ہوئی بھوک اور پیاس کو نفس کشی کے بجاے نفس پروری کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ وہ صبح سے لے کر شام تک طرح طرح کے پکوانوں کے پروگرام بنانے اور ان کو تیار کرانے میں اپنا وقت صرف کرتے ہیں اور افطار سے لے کر سحر تک اپنی زبان اور اپنے پیٹ کی تواضع میں وقت گزارتے ہیں۔

آدمی جب بھوکا اور پیاسا ہوتو اس کا غصہ بڑھ جاتا ہے۔ جہاں کوئی بات ذرا بھی مزاج کے خلاف ہوئی تو فوراً اس کو غصہ آجاتا ہے۔ روزے کے مقاصد میں سے یہ بھی ہے کہ جن کے مزاج میں غصہ زیادہ ہو، وہ روزے کے ذریعے سے اپنی اصلاح کریں اور غصہ کرنے سے پرہیز کریں۔

روزے کی ایک عام آفت یہ بھی ہے کہ بہت سے لوگ جن کی ذہنی تربیت نہیں ہوئی ہوتی کھانے پینے اور زندگی کی بعض دوسری دل چسپیوں سے علیحدگی کو ایک محرومی سمجھتے ہیں، اور اسی محرومی کے سبب سے ان کے لیے دن کاٹنے مشکل ہوجاتے ہیں۔ اس مشکل کا حل وہ یہ نکالتے ہیں کہ بعض ایسی دل چسپیاں تلاش کرلیتے ہیں جو ان کے خیال میں روزے کے مقصد کے منافی نہیں ہوتیں، مثلاً تاش کھیلنا، ڈرامے دیکھنا، گانے سننا اور بے مقصد مطالعہ کرنا۔ دوستوں میں بیٹھ کر گپیں ہانکتے ہیں جس میں وہ جھوٹ اور غیبت جیسے گناہوں کے مرتکب بھی ہوتے ہیں۔ خیال رہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو آدمی روزہ رکھتے ہوئے باطل کلام اور باطل کام نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

  • انفاق اور محاسبۂ نفس: انفاق کے محاسبے سے ریا، تکبر اور احسان فراموشی وغیرہ جیسے گناہوں سے ہماری آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ اگر ہم اپنا محاسبہ نہ کریں تو ہمیں کبھی یہ پتا نہ چلے گا کہ ہم نے جو انفاق کیا ہے آیا وہ پاکیزہ بھی ہے یا نہیں، اور اس سے اللہ راضی بھی ہے یا نہیں۔

بہت سے لوگ اللہ کی راہ میں خرچ تو کرتے ہیں لیکن دل کی فیاضی اور حوصلے کے ساتھ نہیں بلکہ ان کے پیش نظر صرف ایک مطالبے کو کسی نہ کسی طرح پورا کر دینا ہوتا ہے۔ جس طرح وہ حکومت کا ٹیکس ادا کرتے ہیں، اسی بددلی اور افسردگی کے ساتھ کسی دینی و مذہبی کام کے لیے بھی  کچھ مال نکال دیتے ہیں۔ اس بددلی کے سبب سے اللہ کی راہ میں وہ چیزیں دیتے ہیں جن کا دینا ان کے دل پر گراں نہ گزرے، جو ان کی ضرورت سے بالکل فاضل ہوں یا جس سے کم از کم ان کو کوئی بڑا فائدہ اُٹھا سکنے کی توقع نہ ہو۔ اگر قربانی کریں گے تو ایسے جانور کی جو کم قیمت اور      بے حیثیت ہو۔ اس طرح کا انفاق نہ صرف یہ کہ کوئی خیر و برکت پیدا نہیں کرتا بلکہ وہ سرے سے   اللہ تعالیٰ کے ہاں شرفِ قبولیت ہی نہیں پاتا۔ اس کی تائید سورۂ بقرہ کی یہ آیت کرتی ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبْتُمْ وَ مِمَّـآ اَخْرَجْنَا لَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَلَا تَیَمَّمُوا الْخَبِیْثَ مِنْہُ تُنْفِقُوْنَ وَلَسْتُمْ بِاٰخِذِیْہِ اِلَّآ اَنْ تُغْمِضُوْا فِیْہِ وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ o (البقرہ ۲:۲۶۷) اے لوگو جو ایمان لائے ہو۔ جو مال تم نے کمائے ہیں اور جو کچھ ہم نے زمین سے تمھارے لیے نکالا ہے، اس میں سے بہتر حصہ راہِ خدا میں خرچ کرو۔ ایسا نہ ہو کہ اس کی راہ میں دینے کے لیے بُری سے بُری چیز چھانٹنے کی کوشش کرنے لگو، حالانکہ وہی چیز اگر کوئی تمھیں دے، تو تم ہرگز اسے لینا گوارا نہ کرو گے، الا یہ کہ اس کو قبول کرنے میں تم اغماض برت جائو۔ تمھیں جان لینا چاہیے کہ اللہ بے نیاز ہے اور بہترین صفات سے متصف ہے۔

انفاق کو برباد کرنے والی ایک بہت بڑی آفت لوگوں کے ساتھ بدسلوکی ہے۔ وہ مانگنے والوں کو دے تو دیتے ہیں مگر اتنی جھڑکیاں اور ایسا توہین آمیز سلوک کرتے ہیں کہ جتنی نیکیاں کماتے ہیں اس سے کہیں زیادہ گناہ اپنے سر مول لے لیتے ہیں۔ دوسروں کی عزتِ نفس کو مجروح کرکے انفاق کرنا اللہ کو سخت ناپسند ہے۔ اہلِ ایمان تو دوسروں کی مدد اپنا فرض سمجھ کر کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے قبولیت کی دعا کرتے ہیں کہ وہ اسے شرفِ قبولیت بخشے نہ کہ کسی پر احسان جتاتے ہیں۔

  • حج اور محاسبۂ نفس: ہر مسلمان کی زندگی میں حج ایک بار اس وقت فرض ہوتا ہے جب کہ وہ صاحبِ استعداد ہو۔ حج کے لیے دنیا کے ہرملک اور ہرکونے سے مسلمان جمع ہوجاتے ہیں تو بھیڑ کی وجہ سے کئی دقتوں اور دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حج کے ہر رکن کو ادا کرنے میں حاجیوں کو کافی مشکلات ہوتی ہیں۔ ایسے وقت میں صبروتحمل کے مظاہرے کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ اگر آدمی حج کے ارکان ادا کرتے وقت اپنا محاسبہ بھی کرتا رہے تو اس کو ارکان ادا کرنے میں آسانی بھی ہوگی اور انجانے میں ہونے والی گناہوں اور لغزشوں سے بھی محفوظ رہے گا۔

روز مرہ زندگی میں جو لوگ شریعت کے احکام و آداب کی پابندیوں کے عادی نہیں ہوتے وہ حج کے موقع پر کچھ زیادہ ڈھیلے ڈھالے ہوجاتے ہیں، اور قدم قدم پر ان سے ایسی باتیں صادر ہوتی ہیں جو اس فسق کے تحت آتی ہیں جسے قرآن پاک نے حج کے سلسلے کی ایک آفت قرار دیا ہے۔ بہت سے لوگ بات بات پر لڑتے جھگڑتے ہیں۔ بے تکلفی میں گالی گلوچ کرتے ہیں اوراپنے ساتھیوں کو اذیت دیتے ہیں۔ ان امور سے اجتناب کرنا چاہیے۔

حج کے سلسلے کی ایک مشکل یہ بھی ہے کہ عام طور پر لوگ حج کے شعائر اور مناسک کی روح اور حقیقت سے بالکل بے خبر ہوتے ہیں۔ بس لوگ عقیدت کے جذبے کے ساتھ جاتے ہیں اور معلم حضرات ان سے جو رسوم ادا کرواتے ہیں، آنکھیں بند کرکے ان کو ادا کیے چلے جاتے ہیں۔ نہ حج اور عمرے کا فرق معلوم، نہ طواف کی حقیقت کاپتا، نہ حجراسود کو بوسا دینے کا مدعا واضح، نہ معلوم کہ سعی کیوں کی جاتی ہے۔قربانی کی اصلی روح کیا ہے، رمی جمرات سے ہمارے اندر کس روح کو زندہ رکھنا اور بیدار رکھنا مقصود ہے وغیرہ سے بے خبر ہوتے ہیں۔

  • ایک قابلِ تقلید مثال: حضرت حنظلہ اسید رضی اللہ عنہ جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتبین میں سے تھے، کہتے ہیں: ایک مرتبہ میری ملاقات حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ہوئی۔ انھوں نے پوچھا: اے حنظلہ! تم کیسے ہو؟ میں نے عرض کیا: حنظلہ منافق ہوگیا۔ ابوبکر صدیقؓ نے کہا: سبحان اللہ، آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ میں نے کہا: جب ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں اور آپؐ ہمیں جنت و جہنم کے بارے میں بتا رہے ہوتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ جنت و جہنم ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں اور ہمیں اس کا عین الیقین حاصل ہے، مگر جب ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس سے اُٹھ جاتے ہیں تو بال بچے اور دنیاوی مشاغل میں اس قدر مگن ہوجاتے ہیں کہ اکثر باتیں بھول جاتے ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے کہا: اللہ کی قسم! یہی حال میرا بھی ہے۔ پھر ہم دونوں رسول اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ میں گویا ہوا: اے اللہ کے رسول! حنظلہ منافق ہوگیا! رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا: ہم آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں اور آپؐ ہمیں جنت جہنم کے بارے میں بتلا رہے ہوتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ جنت و جہنم ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں، مگر جوں ہی آپؐ کی مجلس سے اُٹھ کر جاتے ہیں۔ بیوی بچوں اور دیگر مشاغل میں پھنس جاتے ہیں تو ہم بہت کچھ بھول جاتے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے! اگر تم لوگ سدا ویسے ہی رہو جیسے میرے پاس رہتے ہو اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے رہو تو فرشتے تمھارے بچھونوں پر اور تمھارے راستوں میں تم سے مصافحہ کریں گے۔ یاد رکھو    اے حنظلہ! ایک وقت کاروبار کے لیے اور ایک وقت پروردگار کی یاد کے لیے ہے۔ یہ بات آپؐ نے تین مرتبہ فرمائی۔

محاسبۂ نفس کے یہ مختلف پہلو ہیں جن سے اس کی اہمیت اُجاگر ہوتی ہے۔ محاسبۂ نفس    نہ صرف تزکیۂ نفس کے لیے ناگزیر ہے بلکہ ذاتی اصلاح اور خود احتسابی کے لیے بھی ضروری ہے۔ انسان چونکہ ضعیف العقل ہے اس لیے وہ بہت جلد شیطان کے وسوسوں اور ورغلانے کا شکار ہوجاتا ہے۔ اپنے محاسبے کی وجہ سے انسان اپنی عاقبت سنوارنے میں کامیاب ہوجاتا ہے، اور شیطان کے وسوسوں اور ورغلانے سے محفوظ رہتا ہے، اور ساتھ ہی ساتھ اپنے خالق و مالک کی رضامندی اور خوشنودی کے حصول کا باعث بھی بنتا ہے۔ ہمیں محاسبۂ نفس اور خود احتسابی کو اپنا معمول بنانا چاہیے۔

عصرِحاضر کی مسلم ’دانش وری‘ کا دعویٰ یہ ہے کہ قرآن کریم سے گہرے اور غیرمعمولی تعلق کا اظہار کیا جائے، مگر عملاً اس کے معانی و مطالب میں خوب کھینچ تان کی جائے اور دُور کی کوڑیاں لائی جائیں۔ حدیث کے معتبر و مستند ذخیروں کی طرف رجوع کیے بغیر انھیں اوہام پر مبنی، ناقابلِ اعتبار اور سائنسی و عقلی اعتبار سے ناقابلِ قبول بلکہ لائق رد قرار دیا جائے۔ عربی زبان کی معمولی شُدبد کے ذریعے قرآنی الفاظ پر دقیق لغوی بحث کی جائے اور اپنے اخذکردہ معانی پر اصرار کیا جائے۔ اپنے اختصاص کے میدان کو دین و شریعت کی روح اور اصل قرار دے کر پورے دین کو  اس کے گرد گھمایا جائے۔ ایسی ہی دانش وری کا ایک نمونہ وہ کتاب ہے جو ابھی حال ہی میں قرآن میں آبی وسائل اور انجینیری کے نام سے آئی ہے۔ اس کے مصنف جناب ڈاکٹر سید وقار احمد حسینی ہیں، جنھوں نے آبی وسائل کی انجینیرنگ میں امریکا سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

گذشتہ صدی کے ربع آخر میں عالمی سطح پر بعض مسلم دانش وروں نے جدید علوم کی اسلامی تشکیل (Islamization of Knowledge) کا نعرہ بلند کیا تھا۔ ان حضرات کی علمی و فکری کاوشیں اگر اپنی صحیح حدود میں رہتیں تو ان کی کوششیں قابلِ قدر، موجب ِ تشکر اور باعث فخر ہوتیں، لیکن محسوس ہوتا ہے کہ اچھے آغاز کے بعد رفتہ رفتہ ان میں غلو دَر آیا۔ جھنجھلاہٹ میں مبالغہ آمیزی کی جانے لگی، قرآنی آیات سے بہ تکلف جدید علوم کے اصول و قواعد، بلکہ جزئیات تک اخذ کی جانے لگیں اور اسے ’قرآن کے سائنسی اعجاز‘ کا نام دیا گیا۔

قرآن حکیم کتابِ ہدایت ہے۔ اس میں اسلام کے بنیادی عقائد، بالخصوص توحید اور آخرت پر استدلال کے لیے مظاہر کائنات، مثلاً آسمان، زمین، سورج، چاند، ستارے، پہاڑ، سمندر، صحرا، دریا، کشتی، پانی، بادل، برق و باراں، ہوا، آندھی، طوفان، پھول، پھل، پودے، درخت، باغ، کھیتی، غلہ، دھوپ، سایہ، تاریکی، روشنی وغیرہ کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ وجہ استدلال کو اتنا عام رکھا گیا ہے کہ ہرذہنی سطح کا شخص بہ آسانی اسے سمجھ سکتا ہے۔ یہ کوئی سائنس کی کتاب تو نہیں ہے کہ اس سے جدید علوم کی کلیات و جزئیات اخذ کی جائیں، لیکن ’علوم کو اسلامیانے‘ کے علَم برداروں نے شعوری یا غیرشعوری طور پر قرآن کو سائنس کی درسی کتاب بنا دیا ہے۔ مولانا مودودیؒ نے   سورئہ یوسف کی آخری آیت میں تَفْصِیْلَ کُلَّ شَیٔیٍ کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’بعض لوگ ’ہرچیز کی تفصیل‘ سے مراد خواہ مخواہ دنیا بھر کی چیزوں کی تفصیل لے لیتے ہیں اور پھر ان کو یہ پریشانی پیش آتی ہے کہ قرآن پاک میں جنگلات، طب، ریاضی، اور دوسرے علوم و فنون سے متعلق    کوئی تفصیل نہیں ملتی‘‘ (تفہیم القرآن، ج۲، ص ۴۳۸)۔ اب ’علوم کو اسلامیانے‘ کے علَم برداروں نے یہ پریشانی بھی دُور کر دی ہے اور تمام طبیعیاتی علوم کی تفصیلات قرآن کریم سے اخذ کرلی ہیں۔

جناب مصنف کا شمار بھی ’علوم کواسلامیانے‘ کی فکر پیش کرنے والوں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے اپنے ڈھنگ سے تعلیم، آبی وسائل کی انجینیرنگ، آبی قوانین، ماحولیات، معاشیات، معاشی انجینیرنگ اور فلسفہ تاریخ و سائنس جیسے علوم کو ’اسلامیانے‘ کی کوشش کی ہے۔ آبی وسائل کے علوم کو انھوں نے کس طرح ’اسلامایا‘ ہے اور اس کے لیے انھیں کتنی دُور کی کوڑی لانی پڑی ہے، اس کے نمونے زیرمطالعہ کتاب میں ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔

مصنف موصوف کے نزدیک آبی وسائل کا علم اور انجینیرنگ ’قرآن کا سب سے اہم موضوع‘ ہے۔ یہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر ’فرض‘ ہے۔ اس کا شمار ’اعمالِ صالحہ‘ میں ہوتا ہے۔ اس سے پہلوتہی ’کفر‘ ہے۔ حقیقت میں یہی ’فقہ‘ ہے اور اس میدان میں عقل پر مبنی جدید فکر اور سوچ ہی ’اجتہاد‘ ہے، وغیرہ وغیرہ۔ لکھتے ہیں: ’’اسلامی علوم اور ٹکنالوجی اپنے علوم کے لحاظ سے اور تخصیصی طور پر آبی وسائل اور دیگر علوم سے بحث کرنے والے اور اس کے دیگر شعبہ جات قرآن کے سب سے اہم امور ہیں‘‘ (ص ۵۷)۔ ’’علوم آبی وسائل اور انجینیرنگ فی الاصل قرآنی، اسلامی، مذہبی، اور الہامی علوم ہیں۔ اسلامی اخلاقیات اور قانون کی اصطلاح میں بحیثیت معلوماتِ عامہ اس علم کا حصول ’فرضِ عین‘ یعنی ہرشخص کی اپنی ذمے داری ہے، جب کہ ان علوم میں تخصص حاصل کرنا  ’فرضِ کفایہ‘ ہے‘‘ (ص ۵۰)۔ ’’آبی وسائل کے علوم کو سیکھنا اور ان کو عملی جامہ پہنانا ’اعمالِ صالحہ‘ کی تعریف میں آتا ہے، جن پر اللہ تعالیٰ نے اس دنیا اور آخرت میں اپنے انعامات کا وعدہ کیا ہے‘‘ (ص ۶۳)۔ ’’پانی یا اس جیسے دیگر قدرتی وسائل کے فروغ کے ذریعے زندگی کے لیے معاون نظام فراہم کرنا ’جہاد‘ ہے‘‘ (ص ۸۶)۔ ’’آبی وسائل و ذرائع کی بدانتظامی اور غلط استعمال ’کفر‘ ہے‘‘ (ص ۱۹۳)۔ ’’پانی میں شامل نقصان دہ عناصر کی تحقیق کے لیے آبی وسائل کے اسلامی سائنس اور آبی سائنس کے خدائی قانون کا خصوصی علم ’فقہ‘ ہے‘‘(ص ۱۹۹)۔وہ اعداد و شمار سے بھی کام لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’علوم آبی وسائل سے متعلق قرآن میں ۹۴۱ آیات وارد ہوئی ہیں، جب کہ نماز کا ذکر ۸۱بار، زکوٰۃ ۳۲ بار، حج کا ۸بار اور روزے کاچھے بار ہوا ہے‘‘۔ (ص ۵۹)

یہ اعداد و شمار صحیح نہیں ہیں۔ قرآنی انڈیکس پر سرسری نظر ڈالنے سے ان کی غلطی واضح ہوجاتی ہے۔ پھر آبی وسائل سے متعلق قرآنی آیات کی کثرت کی حقیقت یہ ہے کہ، مثلاً قرآن میں زمین (الارض) اور آسمان (السمائ/السماوات) کے الفاظ ۵۶۰ آیتوں میں آئے ہیں۔   فنی طور سے یہ آیات علوم آبی وسائل سے کیوں کر متعلق ہوسکتی ہیں؟ اس طرح تو دنیا کے ہرعلم اور اس کی ہرشاخ سے ان کو مربوط کیا جاسکتا ہے۔ یہ آیات اصلاً اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی وحدانیت کے اثبات کے لیے آئی ہیں۔ فی الحقیقت ان کا آبی وسائل کے استعمال کی کسی بحث سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

مصنف نے بزعم خود ’آبی وسائل کے علم اور انجینیری‘ سے متعلق قرآنی آیات کے اقتباسات نقل کر کے ان کی تشریح کی ہے۔ ان میں سے بہت سی آیات عمومی توجہ دلاتی ہیں، لیکن مصنف نے انھیں بھی خوب کھینچ تان کر علوم آبی وسائل سے متعلق کر دیا ہے۔ مثلاً سورئہ فاتحہ کی پہلی ہی آیت اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ کی یہ تشریح کی ہے: ’’تمام عالموں کا پرورش کرنے والا، آبی طبیعیات ارضی کے جہانوں کی تمام قوتوں اور مظاہر کا حاکم، منتظم، پالنے والا اور تکمیل کرنے والا‘‘ (ص ۱۰۳) lسورئہ بقرہ کی آیت ۱۰۷: ’’آسمانوں اور زمین کی فرماں روائی اللہ ہی کے لیے ہے‘‘ سے یہ اخذ کیا ہے: ’’پانی اور اس سے متعلقہ زمینی وسائل اور فضائی مظاہر کا اللہ تعالیٰ تنہا مالک اور مختارِکل ہے‘‘ (ص ۱۵۸)l سورئہ بقرہ کی آیت ۲۰۸: ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً، نقل کرکے  اس کی یہ تشریح کی ہے: ’’اس کا مطلب طبیعیات و کیمیا، معاشیات و نفسیات اور دیگر اشیا کو خدا نے جس طریقے پر بنایا، واضح کیا اور حکم دیا ہے اس کو اسی طرح سمجھنا اور اس کا عملی اطلاق کرنا ہے‘‘ (ص۸۳) l’’اسلام کی مکمل اتباع اور اس میں پورے کے پورے داخل ہوجانے میں یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ پانی اور اس سے متعلقہ دیگر قدرتی وسائل اور ذرائع کو ترقی دی جائے اور اس کا بہتر استعمال کیا جائے‘‘۔ (ص ۱۷۱)

  • سورئہ شعرا میں حضرت ابراہیم ؑنے اللہ تعالیٰ کی جو صفات بیان کی ہیں ان میں یہ بھی ہے: ’’جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے‘‘ (آیت ۷۹)۔ اسے مصنف علم آبی وسائل سے یوں جوڑتے ہیں: ’’خدا ہمیں کس طرح کھانا، پانی اور صحت دیتا ہے اور ہمیں ان کے حصول کے لیے کیا جاننا اور کرنا چاہیے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہمیں آبی وسائل کی سائنس اور انجینیری کو بھی فروغ دینا اور اس کا استعمال کرنا ہوگا‘‘ (ص ۱۹۸)l سورئہ بقرہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیے گئے اس حکم کا ذکر کیا ہے: ’’میرے اس گھر کو طواف کرنے والوں کے لیے پاک رکھو‘‘ (آیت:۱۲۵)۔ اسے انھوں نے آبی وسائل سے یوں مربوط کر دیا ہے: ’’اس گھر کو اس کے مقاصد کے حصول کے لیے پاک و صاف رکھنا ضروری ہے، اس کے لیے لازمی ہے کہ زم زم کے اس  چشمے کو آلودگی سے محفوظ رکھا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کے علاقے اور آب اندوختوں کو  بھی محفوظ رکھا جائے‘‘ (ص ۱۶۲)۔ غرض کوئی بھی آیت ہو اور اس کا کوئی بھی موضوع ہو،    مصنف موصوف کھینچ تان کر اسے آبی وسائل کے علم اور انجینیری سے لاجوڑتے ہیں اور اس سے  اپنا خودساختہ مفہوم نکال لیتے ہیں۔ قرآن مجید کے متن و مفہوم میں ایسی معنوی تحریف کے نمونے کتاب میں جگہ جگہ دیکھے جاسکتے ہیں۔

کئی مقامات پر مشہور نومسلم دانش ور علامہ محمد اسد کے ترجمۂ قرآن The Message of The Quranکی تعریف و تحسین کی گئی ہے، اور اس سے استفادے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ اس ترجمۂ قرآن کی جس خاص بات کی طرف مصنف نے بھی اشارہ کیا ہے، یہ ہے کہ اس میں آیات کی جدید سائنسی تشریح کی گئی ہے (ص ۳۷، ۹۲) آیات کو سائنسی اصولوں کے تابع بنانے اور انھیں   نام نہاد عقلی چوکھٹوں میں فٹ کرنے کے معاملے میں خود مصنف، محمداسد کے ہم فکر ہیں۔

مثال کے طور پر فرعون کی غرقابی اور بنی اسرائیل کی نجات کا تذکرہ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر آیا ہے۔ مصنف نے سورئہ بقرہ (۴۷، ۵۰) اور سورئہ طٰہٰ (۷۷-۷۹) کی آیات کی تشریح میں لکھا ہے: ’’بنی اسرائیل بے خوف ہوکر دریا کو پار کرگئے۔ ان کی اس بے خوفی کی وجہ وہ یقینی معلومات تھیں جو انھیں ایک متعینہ مقام پر مدوجزر کی کیفیات سے متعلق حاصل تھیں۔ موسیٰ علیہ السلام اور ان کے پیروان ’صحیح سائنسی معلومات‘ کا اطلاق کر رہے تھے، جو یا تو ان کے تجربے اور مشاہدے سے انھیں حاصل ہوئی تھیں یا پھر یہ معلومات انھیں کسی اور ذریعے سے فراہم کی گئی تھیں‘‘ (ص ۱۱۶-۱۱۷)۔ جوار بھاٹے والی توجیہ تو اور متجددین بھی کرتے ہیں، البتہ مصنف ان سے بھی دوقدم آگے ہیں۔ وہ یہ عقلی توجیہ کرنے کے ساتھ مسلمانوں کو نصیحت کرتے ہیں: ’’اللہ اور اسلام پر ایقان رکھنے والے مسلمانوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ سمندری جوار بھاٹے (مدوجزر) کی ان گھٹتی بڑھتی کیفیات سے متعلق علم حاصل کریں، تاکہ اس کے فوائد حاصل کرسکیں اور ان سے ہونے والے نقصانات سے بچا جاسکے، جیساکہ اس قصے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے‘‘۔ (ص ۱۱۶)

تاہم، مشکل یہ ہے کہ قرآنی الفاظ ان کی اس توجیہ کا ساتھ نہیں دیتے۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل مدوجزر کی یقینی معلومات کے سبب بے خوف نہیں تھے، بلکہ انھیں تو آخر تک   لشکرِ فرعون کے ذریعے اپنی گرفتاری کا اندیشہ ستا رہا تھا، چنانچہ انھوں نے اپنے پیچھے لشکر کو آتے دیکھا تو گھبرا کر پکار اُٹھے: ’’ہم تو پکڑے گئے‘‘ (الشعر۲۶:۶۱)۔ اس موقعے پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰی ؑ کو وحی کی کہ سمندر پر اپنا عصا مارو، اس سے سمندر پھٹ گیا اور درمیان میں خشک راستہ نکل آیا: ’’ان کے لیے سمندر میں سے سوکھی سڑک بنا لے‘‘ (طٰہٰ ۲۰:۷۷) لیکن مصنف اس موقع پر بھی آیت کے ساتھ زورآزمائی سے نہیں چوکتے۔ وہ اس کی تشریح ان الفاظ میں کرتے ہیں: ’’حضرت موسٰی ؑ کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا کہ بحراحمر کو پار کرنے کے لیے وقت اور مقام کا انتخاب (اضرب، ضرب لگائو) کریں اور اس کو پار کرنے کے لیے طریقہ (طریقاً) اختیار کریں (ص۱۱۶)۔ افسوس کہ قرآن کے الفاظ اور اس کا پورا اندازِ بیان اس درفطنی کی تائید نہیں کرتا۔

کتاب کے مترجم نے آیاتِ قرآنی کا ترجمہ بلاصراحت مولانا مودودیؒ کی تفہیم القرآن سے لیا ہے۔ اس بنا پر کئی مقامات پر تضاد کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ مصنف کچھ کہنا چاہتے ہیں اور مولانا مودودیؒ کے ترجمے سے کچھ اور مفہوم نکلتا ہے، مثلاً سورئہ بقرہ (۱۶۴) میں اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّھَارِکو اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں شمار کیا گیا ہے۔ مولانا مودودیؒ نے اس کا ترجمہ ’رات اور دن کا پیہم ایک دوسرے کے بعد آنا‘ کیا ہے، جب کہ مصنف ’اختلاف‘ سے عدم اتفاق، ناموافقت، حالت، کیفیت یا مرتبہ میں فرق، غیریکساں، مختلف، ناموزوں، بے جوڑ یا غیرمتفق ہونا‘ مراد لیتے ہیں اور رات اور دن کے درمیان اختلاف کو ’سائنسی حقیقت‘ قرار دیتے ہیں (ص۱۱۲-۱۱۳)۔ لِاِِیْلٰفِ قُرَیْشٍ کا ترجمہ مولانا مودودیؒ نے یہ کیا ہے: ’’چونکہ قریش مانوس ہوئے‘‘، جب کہ مصنف ایلاف کے معنی: ’اقرارنامہ، ضمانت اور امان‘ بتاتے ہیں۔ (ص ۲۰۰)

عصری دانش وری کے اظہار کے لیے ضروری ہے کہ دین کے دوسرے بنیادی ماخذ ’سنت‘ پر ہاتھ صاف کیا جائے، چنانچہ اس معاملے میں بھی مصنف نے بڑی بے باکی سے اپنے خیالات کا اظہار ان لفظوں میں کیا ہے: ’’آج سنت سے متعلق وہی کتابیں باقی بچی ہیں جو صرف مشہور و معروف ہیں اور جو نماز کے طریقوں، اسلام کے دیگر ستونوں اور عبادتی رسوم و رواج سے متعلق روایات پر مبنی ہیں۔ ان میں خدا اور رسولؐ سے منسوب وہ غلط روایات بھی شامل ہیں جو غلامی، بلانکاح باندیوں سے تعلقات اور عموماً عورتوں سے متعلق ہیں‘‘ (ص ۶۷)۔ ’’سنت کی جو سب سے مشہور اور زیراستعمال کتب ہیں وہ ’صحاح ستہ‘ ہیں۔ ان میں بہت سی ایسی روایات اور احادیث بھی وارد ہوئی ہیں جو قرآن، عقل اور طبعی علوم (فطرت کائنات میں اللہ تعالیٰ کی آیات اور خدا کی سنت) سے ٹکراتی ہیں، اس لیے انھیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کرنا نہایت غلط اور اہانت آمیز ہے۔ مثال کے طور پر بخاری اور دیگر کتب احادیث میں بعض ایسی روایات ملتی ہیں جن میں عورتوں کو مردوں سے کم تر قرار دیا گیا ہے۔ یہ تمام غلط ’روایات‘ ہیں جو حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کردی گئی ہیں۔ یہ قرآن میں بتائے گئے معیارِ تقویٰ کے اصولوں سے ٹکراتی ہیں، لہٰذا یہ صحیح کہلائے جانے کی مستحق نہیں ہیں۔ ان روایات کو جو ’اخلاقی‘ اور عقلی لحاظ سے ناقابلِ یقین اور سائنسی لحاظ سے غیرصحیح معلوم ہوں، انھیں جھوٹی اور خدا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت پر مبنی قرار  دے کر چھانٹ دینا چاہیے‘‘۔ (ص ۶۶)

اس طرح کی نامعقول باتیں بہت سے ’دانش ور‘ قرآن کریم سے متعلق بھی کہتے ہیں۔ مصنف بار بار یہ تاکید کرتے ہیں کہ ’ان نام نہاد مذہبی کتابوں‘ کی جگہ مسلمانوں کو کتاب الخراج اور کتاب الاموال نامی کتابوں کی طرف رجوع کرنا چاہیے، جو ’حقیقی سنت‘ کی ترجمان اور صحیح حدیث کی کتابیں ہیں (ص ۱۲، ۴۳، ۶۳ وغیرہ)، حالانکہ ان کتابوں کا استناد بخاری اور مسلم جیسی کتابوں سے کم تر ہے۔ اُمت کے نزدیک ’صحاح ستہ‘ کو قبولِ عام حاصل ہے، ان میں زندگی کے جملہ پہلوئوں پر معتبر اور مستند حدیثوں کو جمع کر دیا گیا ہے۔ اس کے مقابلے میں کتاب الخراج اور کتاب الاموال نامی کتابیں زندگی کے صرف ایک خاص پہلو سے بحث کرتی ہیں۔ اس لیے ان کا درجہ اُمت کے نزدیک ’صحاحِ ستہ‘ سے فروتر ہے۔ سنت کو بے اعتبار کرنے، احادیث کا درجہ گھٹانے اور معتبر کتب حدیث کو مشکوک بنانے کی کوششیں پہلے دشمنانِ اسلام انجام دیا کرتے تھے، افسوس کہ اب اس کی کمان ’روشن خیال‘ مسلم دانش وروں نے سنبھال لی ہے۔

مصنف کی بے خبری کا شاہکار ان کی یہ تحقیق ہے: ’’آبی و زرعی قوانین سے متعلق بخاری میں صرف چند روایات ملتی ہیں، جب کہ امام مالک کے مجموعے میں ایک بھی روایت اس سلسلے کی نہیں پائی جاتی‘‘ (ص ۶۷)۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ موصوف نے ان کتابوں کو ہرگز نہیں دیکھا ہے۔ بخاری میں کتاب الوضو، کتاب الغسل، کتاب البیوع، کتاب الاشربۃ، کتاب الاطعمۃ، کتاب الحرث، کتاب المزارعۃ اور کتاب المسافاۃ وغیرہ کے تحت اس موضوع کی سیکڑوں احادیث ہیں اور موطا امام مالک میں کتاب الطہارۃ، کتاب البیوع، کتاب المسافاۃ، کتاب الطعام والشراب وغیرہ میں ایسی احادیث خاصی تعداد میں ہیں۔

مصنف کو شکوہ ہے کہ مسلمانوں نے ان میں تحریفات کردی ہیں۔ ان کے نزدیک:    ’’یہ عبادات مقصود بالذات نہیں ہیں، بلکہ ان کے ذریعے دیگر اہم مقاصد کا حصول مطلوب ہے‘‘ (۸۹)۔ ’’انحراف اور کج فکری کے حامل مسلمانوں نے ان کو اپنے آپ میں مقصد ٹھیرا لیا ہے اور خود کو ظاہری رسوم کا پابند بنا لیا ہے‘‘ (ص ۷۵)۔ پھر انھوں نے ان مقاصد کی بھی وضاحت کر دی ہے مثلاً: ’’حج کا ایک مقصد روے زمین کی سیاحت ہے‘‘ (ص ۷۷)۔ ’’حج کے ذریعے ساری دنیا کے مسلمانوں میں ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کرنا مقصود ہے، جہاں لوگ ایک مشترکہ زبان عربی میں آپسی تبادلہ خیال و گفتگو کرسکیں۔ اس کے نتیجے میں تجارت و تعلقات میں وسعت کے ساتھ  ٹکنالوجی کی منتقلی عمل میں آسکتی ہے‘‘ (ص ۱۹۱)۔ پھر یہ کہ مسلمانوں نے حج کے ادارے کو مسخ کرکے رکھ دیا اور خود کو اس فریب میں مبتلا کرلیا کہ صرف چند دعائوں کے پڑھ لینے اور میکانکی انداز سے چند رسوم کے ادا کرلینے سے ان کے تمام گناہ دھل جائیں گے۔ خدا نے کبھی اس بات کا وعدہ نہیں کیا کہ حج یا عمرہ کے ادا کرنے سے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے‘‘ (ص ۷۷)۔ زکوٰۃ کی مدات قرآن کریم میں متعین ہیں، لیکن مصنف کے نزدیک: ’’اس میں وہ پروجیکٹ بھی شامل ہیں جو آبی وسائل و ذرائع اور انجینیرنگ کی ترقی سے متعلق ہیں، جیسے سربراہی آب، آب پاشی، زراعت، جہازرانی اور آبی قدرت کے نظام وغیرہ‘‘۔ (ص ۷۳)

مصنف نے بہت سی باتیں غلط اور گمراہ کن بھی لکھی ہیں۔ مثال کے طور پر: ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دورِ نبوت کے پہلے تیرہ سالہ دور میں، جو مکی دور کہلاتا ہے، اس میں شراب کا کہیں ذکر نہیں کیا گیا۔ اس لیے کہ اس وقت اس سے کہیں زیادہ اہم مسائل درپیش تھے‘‘ (ص ۸۵)۔ اس سلسلے میں پہلی بات یہ عرض کرنی ہے کہ سورئہ نحل میں، جو مکّی ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور کھجور کے درختوں اور انگور کی بیلوں سے بھی ہم ایک چیز تمھیں پلاتے ہیں، جسے تم نشہ آور بھی بنالیتے ہو اور پاک رزق بھی‘‘ (آیت ۶۷)۔ مصنف یہاں کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ یہ کہ حرمت ِ شراب کے بارے میں سکوت اختیار کرلینا چاہیے؟ بعض مقامات پر بڑی بے باکی سے دینی قدروں پر تیشہ چلایا گیا ہے، مثلاً اللہ تعالیٰ نے جانوروں کا گوشت حلال اور قربانی کو مشروع کیا ہے، لیکن موصوف فرماتے ہیں: ’’مویشیوں کو بطور غذا، یہاں تک کہ قربانی کے مقاصد کے لیے بھی استعمال کرنا مناسب نہیں ہے۔ ان کا استعمال زمین کی بہتری اور آبپاشی کے لیے کیا جاناچاہیے‘‘۔ (ص ۱۵۶)

یہ کتاب ’قرآن میں آبی وسائل‘ کے موضوع پر مصنف کے مجوزہ سلسلۂ کتب کی پہلی جلد ہے۔ ابھی پانچ جلدیں اور آنی ہیں۔ خدا خیر کرے، نہیں معلوم ان میں مصنف کے کیسے کیسے ’اجتہادات‘ سامنے آئیں گے۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مغرب میں جا بسنے والے بعض نام نہاد مسلم دانش وروں کی ذہنی ساخت کس قدر تبدیل ہوکر رہ گئی ہے اور وہ اسلامائزیشن آف نالج کے نام پر کیسے کیسے گل کھلا رہے ہیں؟

علامہ اقبال کے زمانے میں سلطنت ِعثمانیہ کے سوا، عالم اسلام کے تمام خطوں پر غاصب استعماری مسلط تھے۔ سلطنتِ عثمانیہ داخلی خلفشار اور کمزوریوں میں گرفتار تھی، اس لیے اس کے مغربی دشمن اسے The sick man of the Europe کہتے تھے، اور اس پر دندانِ آز تیز کیے بیٹھے تھے۔ ۲۰ویں صدی کے ابتدائی عشروں میں ہندستان میں خلافت کی بقا اور بحالی کے لیے جو تحریک شروع ہوئی، اقبال اس کے پوری طرح مُویّد تھے۔ یہی زمانہ تھا جب یہودی سر زمین فلسطین میں اپنے قدم جمارہے تھے مگر مجموعی حیثیت سے ’مسئلہ فلسطین‘ ابھی ابتدائی مراحل میں تھا۔

یہود، فلسطین کے اصل باشندے (son of the soil) نہیں ہیں۔ وہ تقریباً تیرہ سو برس قبل مسیح اس علاقے میں وارد ہوئے، یہاں کے قدیم فلسطینیوں کو نکال باہر کیا اورخود ان کی سرزمین پر قبضہ کرکے بیٹھ گئے (یہ حرکت بالکل ویسی ہی ہے جیسے یورپ کے سفید فاموں نے ماردھاڑ کرکے امریکا کے قدیم باشندوں (ریڈ انڈینز) کی نسل کشی کی اور خود امریکا پر قابض ہوگئے)۔ آیندہ صدیوں میں یہود کئی بار فلسطین سے نکالے گئے اور ان کے ہیکل سلیمانی کو بھی نیست و نابود کردیا گیا۔ ان کی دربدری کے زمانے میں پورے یورپ میں کوئی اُنھیں منہ نہ لگاتا تھا۔ یہ مسلمان تھے جنھوں نے ان کی دستگیری کی۔ خاص طور پر اندلس کے مسلم حکم رانوں کے حسنِ سلوک کی وجہ سے، اندلس میں یہود طویل عرصے تک نہایت خوش و خرم رہے اور امن و اطمینان کی زندگی بسر کرتے رہے۔پھرسقوطِ غر ناطہ کے بعد جب عیسائیوں نے انھیں کھدیڑ کر وہاں سے نکالا تو وہ: ’’نہ کہیں جہاں میں اماں ملی‘‘ کی سی کیفیت سے دوچار ہوئے، ایک بار پھر پورے جہاں میں انھیں کہیں اماں ملی توعثمانی ترکوں کے ہاں۔ یہود مؤرخ سلطان سلیم عثمانی(۱۵۲۴ئ-۱۵۷۴ئ) کے اس احسان کو تسلیم کرتے ہیں کہ اس نے دیوارِ گریہ کی جگہ دریافت کر کے اس جگہ کو صاف کرا کے یہود کو وہاں جانے اور گریہ کرنے کی اجازت دی۔

احسان فراموشی یہود کی گھٹی میں پڑی ہے ۔ عثمانی سلطنت میں رہتے ہوئے وہ آسودہ و خوش حال ہوئے تو اُنھوں نے پر پُرزے نکالے اور فلسطین اور بیت المقدس پر قبضہ کرنے کی منصوبہ بندی کرنے لگے۔ معروف واقعہ ہے کہ یہودی دانش ور اور راہ نما ڈاکٹر تھیوڈور ہرزل (Theodor Herazl) نے سلطان عبدالحمید ثانی کو مالی امداد کا لالچ دے کر ’یہودی وطن‘ کے لیے ارضِ فلسطین کا ایک حصہ خریدنے کی درخواست کی جسے سلطان نے حقارت سے ٹھکرا دیا (فلسطین اس وقت تک سلطنت عثمانیہ میں شامل تھا)۔ اس پر یہودی انتقام پر اُتر آئے۔ سلطنت عثمانیہ اور سلطان کے خلاف ان کی سازشیں رنگ لائیں۔ ان کی پہلی کامیابی وہ تھی جب انجمن اتحاد و ترقی کی وزارت کے ذریعے ۱۹۱۴ء میں ایک ایسا قانون پاس کرایا گیا، جس کے ذریعے یہودیوں کو فلسطین میں زمینیں اور جایدادیں خریدنے کی اجازت مل گئی۔ ۱۹۱۶ء میںوہ بر طانیہ سے صہیونیت کی پشت پناہی کے طلب گار ہوئے۔ برطانیہ نے اس درخواست کو اعلانِ بالفور (دسمبر ۱۹۱۷ئ) کی شکل میں پذیرائی بخشی۔

انگریزوںکی ’بد دیانتی کے شاہ کار‘ اعلان بالفور کو، جنگِ عظیم اوّل کے تمام اتحادیوں کی توثیق حاصل تھی۔ جنگِ عظیم اوّل (۱۹۱۴ئ-۱۹۱۸ئ) کے خاتمے پر برطانیہ نے عربوں سے کیے گئے تمام تر وعدوں سے انحراف کرتے ہوئے فلسطین پر قبضہ کر لیا۔جس مجلسِ اقوام (League of Nations) کے بارے میں اقبال نے کہا تھا  ع

بہرِ تقسیمِ قبور، انجمنے ساختہ اند

اس نے بھی ۱۹۲۲ء میں یہ خطہ برطانیہ کے اِنتداب (mandate) میںدے دیا۔ یہ برطانوی اقتدار ایک یہودی حکومت ہی کے مترادف تھا، کیوں کہ انگریزو ں نے اپنی طرف سے فلسطین میں اپنا جو پہلا ہائی کمشنر مقرر کیا (سربرہٹ سیموئل) وہ بھی یہودی تھا۔

اسی زمانے میں مقاماتِ مقدسہ کے متعلق تنازعات کے حل کے لیے ایک رائل کمشن کے قیام کی تجویز انگریزوں کے زیرِ غور تھی۔ ایک مسلمان ممبر کے طور پر علامہ اقبا ل کو کمیشن کا ممبر بننے کی پیش کش کی گئی مگر انھوں نے بوجوہ ،معذرت کر لی۔

انگریزوں کی تائید اور سرپرستی میں دنیا بھر سے یہودی نقل مکانی کر کے ، فلسطین پہنچ رہے تھے اور ’آبادکاروں‘ کی حیثیت سے مختلف حیلوں بہانوں سے اور زور زبر دستی سے بھی فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضہ کرتے چلے جارہے تھے۔ اس کے نتیجے میں ۱۹۱۹ئ، ۱۹۲۸ء اور ۱۹۲۹ء میں یہودیوں اور مقامی فلسطینی آبادی کے درمیان متعدد خون ریز تصادم ہوئے۔

فلسطین ہو یا عالمِ اسلام کا کوئی اور خطّہ ،اقبال افرادِ ملت کوپیش آمدہ کسی بھی مصیبت یا آزمایش کی خبر سنتے تو بے چین اور پریشان ہو جاتے۔خنجر کہیں بھی چلتا، وہ اپنی جگہ تڑپ کر رہ جاتے۔فلسطین تو انبیاؑ کی سر زمین تھی، اقبال وہاں کے باشندوں کے الم ناک مصائب پر رنجیدہ کیوں نہ ہوتے۔مسلمانانِ لاہور نے ۷ ستمبر ۱۹۲۹ء کو انگریزوں کی یہود نواز پالیسیوں کے خلاف بطور احتجاج ایک جلسہ منعقد کیا جس کی صدارت علامہ اقبال نے کی تھی۔اسی زمانے میں یروشلم میں فلسطینیوں کے قتل و غارت کے ا لم ناک واقعات رونما ہوئے تھے۔آپ نے اپنے صدارتی خطبے میں یہودیوں کی ’’ہولناک سفاکی‘‘کی مذمت کی۔ علامہ نے یہودیوں کو یاد دلایا کہ ہیکل سلیمانی کے محل وقوع کی دریافت حضرت عمرؓ نے کی تھی اور یہ ان پر حضرت عمرؓکا احسان ہے ۔ پھر یہ کہ یہ مسلمان ہی تھے جنھوں نے بقول اقبال: ’’یورپ کے ستائے ہوئے یہودیوں کو نہ صرف پناہ دی بلکہ انھیں اعلیٰ مناصب پر فائز کیا‘‘۔

یہ کیسی احسان فراموشی ہے کہ بالفاظِ اقبال: ’’فلسطین میں مسلمان، ان کی عورتیں اور بچے بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کیے جا رہے ہیں‘‘۔ دراصل اعلانِ بالفور ہی کے زمانے میں یہودیوں نے فلسطینیوں کو ان کے وطن سے بے دخل کر کے زور زبردستی کے ذریعے ان کی زمینوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا تھا۔ ان کے دیہات کے دیہات تباہ کر دیے گئے۔ اگر کسی نے مزاحمت کی تو اسے قتل و غارت کا نشانہ بنایا گیا۔

سفرِ انگلستان (۱۹۳۱ئ) کے دوران میں ، جہاں بھی موقع ملا،علامہ اقبال نے فلسطین کے بارے میں کلمہ خیر کہنے سے گریز نہیں کیا، مثلاً: ایک موقع پر انگریزوں کو اہلِ فلسطین کے ساتھ انصاف کی تلقین کی ،اور فرمایا کہ اعلان ِ بالفور بالکل منسوخ کر دینا چاہیے۔ علامہ اقبال پر مسئلہ فلسطین کی نزاکت اور اہمیت اس وقت اور زیادہ واضح ہوئی جب انھوں نے بذاتِ خود فلسطین کا سفر کیا۔

دسمبر ۱۹۳۱ء میں فلسطین کے نو روزہ سفر کا اصل مقصد مؤتمر عالمِ اسلامی (اسلامی کانفرنس) میں شرکت تھی۔ کانفرنس کے داعی سید امین الحسینی تھے۔ اس میں تقریباً ۲۷ ملکوں اور علاقوں کے مندوبین شامل تھے جن میں اربابِ علم و فضل بھی تھے اور سیاسی او رملی راہ نما بھی۔ اسی طرح متعدد واجب الاحترام بزرگ شخصیات او رمجاہدینِ آزادی اور اپنے اپنے ملکوں کی سیاست میں سرگرم ممبرانِ پارلیمنٹ بھی۔ گویا قبلہ اوّل کے شہر میں عالمِ اسلام کی منتخب شخصیتیں جمع تھیں۔

یوں تو اس کانفرنس کے کئی مقاصد تھے لیکن سب سے اہم مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو فلسطین پر یہودیوں کے ناجائز قبضے کے سنگین مسئلے کا احساس دلایا جائے اور صہیونی خطرے کے خلاف    اتحادِ عالمِ اسلام کی تدابیر پر غور کیا جائے۔ کانفرنس کے دنوں میں علامہ اقبال اوران کے ہمراہ   غلام رسول مہر کانفرنس کی مختلف نشستوں میں شریک رہے۔ ایک نشست میں علامہ اقبال کو نائب صدر بناکر سٹیج پر بٹھایا گیا۔ انھوں نے بعض کمیٹیوں کے اجلاسوں میں شریک ہو کر رپورٹیں مرتب کرنے میں بھی مدد کی۔

قیامِ فلسطین کے دوران میں علامہ اقبال اور غلام رسول مہر کوجتنا بھی وقت اور موقع ملتا، وہ مقاماتِ مقدسہ اور آثارِ قدیمہ کی زیارت کو نکل جاتے۔ انھوں نے بیت اللحم میں کلیسا ے مولد مسیح دیکھا اور الخلیل میں متعدد پیغمبروں کے مدفنوںکی زیارت بھی کی۔ بیت المقدس شہر میں بھی انھوں نے بہت سے قابلِ دید مقامات، عمارات اور آثار دیکھے۔ ایک دن موقع پا کر انھوں نے فلسطین کے اسلامی اوقاف کا بھی معائنہ کیا۔

کانفرنس کے مندوبین کو فلسطین کے دوسرے شہروں کا دورہ کرنے کی دعوت ملی، مگر وہ سب جگہ نہیں جا سکے۔ قیام کے آخری دن شام کی نشست میں اقبال نے ایک مؤثر تقریر کی، جس میں عالمِ اسلام کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ اسلام کو الحادِ مادی اور وطنی قومیت سے خطرہ ہے۔ میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ آپ دل سے مسلمان بنیں۔ مجھے اسلام کے دشمنوں سے اندیشہ نہیں ہے، لیکن خود مسلمانوں سے مجھے اندیشہ ہے۔ اقبال نے نوجوانوں کا خاص طور پر ذکر کیا اور مندوبین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اپنے وطنوں کو واپس جاؤ تو روحِ اخوت کو ہر جگہ پھیلا دو اور اپنے نوجوانوں پر خاص توجہ دو۔

اقبال کے سفرِ فلسطین کا شعری ماحصل وہ معرکہ آرا نظم ہے جو ’ذوق شوق‘کے عنوان  سے بالِ جبریل میں شامل ہے ۔ نظم کے ساتھ اقبال نے یہ توضیح لکھنا ضروری سمجھا کہ ’’ان اشعار میں سے اکثر فلسطین میں لکھے گئے‘‘:

قلب و نظر کی زندگی، دشت میں صبح کا سماں

حسنِ ازل کی ہے نمود، چاک ہے پردۂ وجود

سرخ و کبود بدلیاں چھوڑ گیا سحابِ شب

گرد سے پاک ہے ہوا، برگِ نخیل دھل گئے

چشمۂ آفتاب سے نور کی ندیاں رواں

دل کے لیے ہزار سود، ایک نگاہ کا زیاں!

کوہِ اضم کو دے گیا رنگ برنگ طیلساں!

ریگِ نواحِ کاظمہ نرم ہے مثل پرنیاں!

یہ اشعار لکھتے ہوئے فلسطین کے مختلف علاقوں کے خوب صورت مناظر اقبال کے ذہن میں تازہ ہوں گے۔ سر سبز و شاداب علاقہ، پھلوں اور پھولوں کے قطار اندر قطار درخت اور پودے، دُوردُور تک پھیلے ہوئے سبزیوں کے کھیت، انگور، انجیر اور مالٹوں کے باغات اور پھر موسم بہار کا۔ بقول غلام رسول مہر: عرب دنیا میں اس سے زیادہ حسین خطہ اور کوئی نہ تھا، مگر فلسطینی اپنے ہی خطے میں اور اپنے ہی گھر میں اجنبی بنتے جا رہے تھے۔ آج سر زمین فلسطین دھواں دھواں ہے ۔

سفر فلسطین سے واپس آنے کے بعدبھی اقبال وائسرائے ہنداور برطانوی اکابر کو برابر احساس دلاتے رہے کہ برطانیہ کی فلسطین پالیسی صریحاً مسلم مخالفانہ ہے۔ اقبال نے اپنا یہ مطالبہ بھی برابر جاری رکھا کہ فلسطین میں یہودیوں کا داخلہ روکا جائے اور اعلان بالفور واپس لیا جائے۔ اقبال نے یہ بھی کہا کہ برطانوی پالیسی کے سبب مسلمانانِ ہند میں زبردست ہیجان و اضطراب پیدا ہو رہا ہے۔ اُسی کا نتیجہ تھا کہ ۲۴، ۲۵ ستمبر ۱۹۳۷ء کو کلکتے میں فلسطین کانفرنس منعقد ہوئی۔ علامہ اقبال اپنی کمزور صحت اور بیماری کے سبب اس میں شریک نہ ہو سکے لیکن وہ اپنے دلی جذبات کا اظہار اس طرح کر رہے تھے    ؎

جلتا ہے مگر شام و فلسطین پہ مرا دل

تدبیر سے کھلتا نہیں یہ عقدۂ دشوار

اسی زمانے میں انھوں نے کہاـ:

ہے خاکِ فلسطین پہ یہودی کا ہے اگر حق

ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا

مقصد ہے ملوکیتِ انگلیس کا کچھ اور

قصہ نہیں نارنج کا یا شہد و رطب کا

یہ ’’مقصد ہے … کچھ اور‘‘ اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ اپنے استعماری عزائم کو جاری رکھنے کے لیے برطانیہ مشرق وسطیٰ میں ایک مستقل اڈا یا ٹھکانا بنانا چاہتا تھا مگر علامہ اقبال اسے عالمِ اسلام کے لیے ازحد خطرناک سمجھتے تھے اور اس کے سدّباب کے لیے وہ بڑے سے بڑا اقدام اٹھانے  کے لیے بھی تیار تھے ۔ قائداعظم محمد علی جناح کے نام ۷؍اکتوبر ۱۹۳۷ء کے خط میں لکھتے ہیں:  ’’ذاتی طور پر میں کسی ایسے امر کی خاطر جیل جانے کو بھی تیار ہوں جس سے اسلام اور ہندستان متاثر ہوتے ہوں۔ مشرق کے دروازے پر مغرب کا ایک اڈا بننا اسلام اور ہندستان دونوں کے لیے پُرخطر ہے‘‘۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اقبال آزادیِ فلسطین کی خاطر انتہائی اقدام کے لیے بھی پُرجوش اور پُرعزم تھے۔

مسئلۂ فلسطین کے ضمن میں علامہ اقبال کا کارنامہ صرف یہی نہیں کہ انھوں نے فلسطین میں یہودیوں کی بتدریج بڑھتی ہوئی پیش رفت اور اس کے مضمرات اور خطرناک نتائج کو سمجھا اور اہل ہند کو ان سے آگاہ کیا بلکہ اس وقت مسلمانان ہند کی نمایندہ جماعت مسلم لیگ اور اس کے سربراہ قائداعظم محمد علی جناح (۱۸-۱۹۴۸ئ) کو بھی مسئلہ فلسطین کی نزاکت سے آگاہ کیا۔ چنانچہ اقبال کی وفات کے بعد بھی مسلم لیگ اور قائداعظم نے فلسطینیوں کی حمایت جاری رکھی۔

علامہ اقبال کی وفات کو پون صدی ہو چلی ہے۔ فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی آج بھی جاری ہے اور فلسطین کی مکمل آزادی تک، ان شاء اللہ جاری رہے گی۔ضربِ کلیم میں ’فلسطینی عرب سے ‘کے عنوان سے ایک چھوٹی سی نظم ہے جس میں وہ کہتے ہیں:

زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ

میں جانتا ہوں وہ آتش ترے وجود میں ہے!

تری دوا نہ جنیوا میں ہے ،نہ لندن میں

فرنگ کی رگِ جاں پنجہ ء یہود میں ہے!

سنا ہے میں نے غلامی کی امتوں سے نجات

خودی کی پرورش و لذت ِنمود میں ہے!

فلسطینیوں کی نمایندہ جماعت حماس، فلسطینیوں کی موجودہ تحریک آزادی میں مزاحمت کی ایک تابندہ علامت بن چکی ہے، اس نے علامہ اقبال کی نصیحت کو حرزِ جاں بنا لیا ہے اور وہ یہود کی غلامی سے نجات کے لیے اپنی سی تگ و دَو میں مصروف ہے۔ غزہ فی الوقت ایک محصور علاقہ ہے۔ ۴۰کلو میٹر طویل اور ۱۰ کلو میٹر عریض اور صرف ۱۵ لاکھ افراد پر مشتمل یہ آبادی تین اطراف سے دشمنوں سے اور ایک طرف سے ’دوستوں‘ سے گھری ہوئی ہے۔ ظلم، زیادتی، گرفتاری،جیل، تعذیب، تشدد، ناکہ بندی، بم باری، مکانوں کا انہدام، غرض کون سا حربہ ہے جو ان کے خلاف نہیں آزمایا گیا۔ ان پر فاسفورس بم تک برسائے گئے۔ شیخ احمد یاسین، عبدالعزیز رنتیسی اور اس طرح کے چوٹی کے فلسطینی دانش ور اور راہ نما شہید کردیے گئے مگر وہ صہیونیوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے انکاری ہیں اور ان کے غیرمتزلزل عزم جہاد و مزاحمت میں کمی نہیں آئی۔ آخر کیوں؟ اس لیے کہ ان کا ایمان سلامت ہے۔ اس کے برعکس ۵۰ سے زائد مسلم ملکوں کے حکمران الا ماشا اللہ (الا ماشا اللہ= ایران، شام، سوڈان، لبنان اور ترکی) صہیونیوں اور امریکیوں کے سامنے جھک چکے ہیں یا پھر کچھ بک چکے ہیں۔ یہ حکمران خصوصاً مسلم بادشاہتیں پسپائی اختیار کر چکی ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ ان کا ایمان کمزور ہے۔ علامہ اقبال کی چشمِ بصیرت نے پون صدی پہلے فلسطینیوں کو خبردار کیا تھا کہ عرب بادشاہتوں پر ہرگز اعتماد نہ کریں، کیونکہ یہ بادشاہ لوگ مسئلہ فلسطین پر کوئی آزادانہ فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ پون صدی، اقبال کی بصیرت پر گواہی دے رہی ہے۔

اور آخر میں ،صرف فلسطینیوں کے لیے ہی نہیں،عالمِ اسلام کی تمام اقوام کے لیے، وہ کشمیری ہوں یا افغانی، عراقی ہوں یا شیشانی، اقبال کا پیغام یہ ہے کہ    ؎

آسماں ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش

اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی

اہلِ ایران تو ربع صدی پہلے ظلمت ِشب کی گریز پائی اور نورِ سحر کے طلوع کا مشاہدہ کر چکے ہیں۔ اُنھیں علامہ اقبال کی بات پر یقین کرنا چاہیے کہ     ؎

شب گریزاں ہو گی آخر جلوۂ خورشید سے

یہ چمن معمور ہو گا نغمۂ توحید سے


وضاحت: یہ مضمون شعبۂ اُردو، تہران یونی ورسٹی کے تحت ۵؍مئی ۲۰۱۰ء کو منعقدہ     ایک روزہ بین الاقوامی اقبال سیمی نار میں پڑھا گیا۔ اس کی تیاری میں حسب ذیل کتابوں اور رسائل سے مدد لی گئی ہے:

۱-            اقبال اور جدید دنیاے اسلام، ڈاکٹر معین الدین عقیل، مکتبہ تعمیرانسانیت، لاہور، ۲۰۰۸ء

۲-            اقبال کی طویل نظمیں، رفیع الدین ہاشمی، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۰۴ء

۳-            (ماہ نامہ) ترجمان القرآن، لاہور میں عبدالغفار عزیز کے مضامین: فروری ۲۰۰۹ئ، نومبر ۲۰۰۹ء

۴-            خطبات، چہارم، سیدابوالاعلیٰ مودودی، ادارہ ترجمان القرآن، لاہور، ۱۹۸۵ئ۔

۵-            سفرنامہ اقبال، محمد حمزہ فاروقی (مرتب)۔ مکتبہ اسلوب، کراچی، ۱۹۸۹ئ۔

۶-            کلیاتِ اقبال اُردو، علامہ محمد اقبال، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، ۱۹۷۳ء

۷-            گفتارِ اقبال، علامہ محمد اقبال (مرتب: محمد رفیق افضل)، ادارہ تحقیقاتِ پاکستان، پنجاب یونی ورسٹی، لاہور، ۱۹۶۹ئ۔

۸-            مکاتیب اقبال بنام گرامی،علامہ محمد اقبال (مرتب: محمد عبداللہ قریشی)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۸۱ئ۔

۹-            Letters of Iqbal، علامہ محمد اقبال (مرتب: بی اے ڈار)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۷۸ئ۔

۱۰-         Speeches, Writings and Statements of Iqbal ، علامہ محمد اقبال (مرتب: لطیف احمد شروانی)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۷۷ئ۔

اُردن، سعودی عرب اور فلسطین کے سنگم پر واقع تاریخی شہر عقبہ میں قدم رکھا تو مقامی وقت کے مطابق رات کے آٹھ اور پاکستان میں گیارہ بج رہے تھے۔ عقبہ اُردن کے دارالحکومت عمان سے تقریباً ۳۵۰ کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔ جونہی شہر کی روشنیوں پر نگاہ پڑی تو نسبتاً راحت کا احساس ہوا کہ بالآخر منزلِ مقصود پر پہنچے۔ لیکن عمان سے ہمراہ آنے والے ساتھیوں نے حسرت بھری آواز میں کہا کہ یہ اُردن کا شہر عقبہ نہیں بلکہ مقبوضہ فلسطین، یعنی صہیونی ریاست اسرائیل کا شہر اِیلات ہے تو دل کو سخت صدمہ پہنچا۔ سوال کیا: کیا ہم عقبہ نہیں، اِیلات جا رہے ہیں؟ جواب دینے کے بجاے فلسطینی رفیق سفر نے اسٹیئرنگ گھمایا، دائیں جانب مڑتے ہی ذرا مختلف اور نسبتاً پرانی عمارتوں اور روشنیوں کا ایک اور علاقہ شروع ہوگیا اور کہا: ’’نہیں، یہ عقبہ ہے‘‘۔

رفیق سفر ڈاکٹر محمود برکات نے بتایا، عقبہ اور اِیلات اصل میں ایک ہی شہر تھا۔ تاریخ میں اس کا نام اَیلہ ملتا ہے۔ یہودیوں نے شہر کے آدھے اور بالائی حصے پر قبضہ کرکے اسے اپنا ایک سرحدی سیاحتی شہر بنا لیا ہے۔ پوچھا: اصل فلسطینی آبادی بھی ہوگی؟ ڈاکٹر محمود نے کہا: اب یہاں ایک بھی فلسطینی باقی نہیں رہنے دیا گیا، البتہ سیاح کثرت سے آتے ہیں۔

عقبہ میں تھوڑا سا آگے بڑھے تو بڑے بڑے بینر اور اشتہارات دکھائی دینے لگے: مـہرجان الـفتح الـعمری لـبیت الـمقدس، ’’حضرت عمرؓ کی فتح بیت المقدس کا جشن‘‘۔ پانچ سات منٹ کی ڈرائیونگ کے بعد ہم عقبہ جاپہنچے۔ میدان کھچاکھچ بھرا تھا۔ منتظمین کے بقول اس شہر کی تاریخ میں یہ سب سے بڑا اجتماع تھا۔ پورے ملک سے لوگ شریک تھے۔ یہ جشنِ فتح عین اس جگہ منایا جا رہا تھا جہاں خلیفۂ ثانی حضرت عمر بن الخطابؓ نے فتح پانے کے بعد بیت المقدس جاتے ہوئے رات کا پڑائو ڈالا تھا۔ یہ ۲مئی کادن تھا، اسی دن اسی جگہ اور اسی وقت پروگرام کے انعقاد نے شرکا میں خصوصی جوش و جذبہ پیدا کر دیا تھا۔

پروگرام کی دوسری نمایاں انفرادیت یہ تھی کہ فلسطین کے کنارے پر واقع اہم عرب ملک اور اس کے تاریخی شہر میں منعقد ہونے کے باوجود اس کا کوئی مقرر عرب نہیں تھا۔ اخوان المسلمون اُردن کے سربراہ ڈاکٹر ھمام سعید پوری قیادت کے ہمراہ موجود تھے لیکن انھوں نے بھی چند منٹ کے رسمی اور خیرمقدمی کلمات کے علاوہ کچھ نہ کہا۔ اس جشن فتح بیت المقدس کے صرف چار مقرر تھے اور چاروں عجمی۔ ملایشیا، ترکی، جنوبی افریقہ اور پاکستان سے ایک ایک مقرر کو بلایا گیا تھا، البتہ سعودی عرب سے معروف شاعر ڈاکٹر عبدالرحمن العشماوی آئے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر عشماوی کے ۲۵انقلابی شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ ہمارا ان سے پہلا باقاعدہ تعارف سانحۂ بابری مسجد کے وقت ہوا تھا۔ انھوں نے اس موقع پر دہشت گرد ہندوئوں کی مذمت کرتے ہوئے شہید    بابری مسجد کا مرثیہ لکھا تھا، جو اَب ان کے دیوان میں شامل ہے۔

عمان ایئرپورٹ سے سیدھا عقبہ چلے آنے کے باوجود ہم چونکہ قدرے تاخیر سے پہنچے تھے، اس لیے پروگرام سے ترکی کے ذمہ دار خطاب کر رہے تھے۔ یہ وہی ترک رفاہی تنظیم ہے جس نے چند ماہ قبل غزہ جانے والے امدادی قافلۂ ’شہ رگِ حیات‘ کا اہتمام کیا تھا۔ چند ہی منٹ بعد  ان کا خطاب ختم ہوا اور راقم کو یہ کہہ کر تقریر کی دعوت دے دی گئی کہ یہ پورے برعظیم پاک و ہند کی نمایندگی کریں گے۔ سفر کی طوالت، ابھی چند لمحے پہلے مقبوضہ فلسطین کے یہودی شہر اِیلات کو دیکھنے کا صدمہ اور ایک پُرجوش جشن فتح… اللہ تعالیٰ کی خصوصی مدد شاملِ حال رہی۔ تقریر ختم کر کے   بیٹھا ہی تھا کہ کچھ دیر بعد اسٹیج سیکرٹری نے اپنا موبائل فون کان سے لگائے ہوئے اعلان کیا کہ ہمارا بالکل کوئی پروگرام نہیں تھا کہ کسی عرب مقرر کا خطاب ہو۔ لیکن جشن فتح کی پوری کارروائی براہِ راست کئی عرب  ٹی وی چینلوں پر دکھائی جارہی ہے۔ غزہ سے وہاں کے محصور فلسطینیوں کے قائد، فلسطین کے منتخب وزیراعظم اسماعیل ھنیہ نے خود فون کر کے خواہش ظاہر کی ہے کہ وہ بھی آپ کے ساتھ شریک ہونا چاہتے ہیں۔ مجمعے میں پھر ایک تلاطم برپا ہوگیا اور اسماعیل ھنیہ نے مختصر لیکن جامع خطاب کیا۔ انھوں نے بھی اس بات کو خاص طور پر سراہا کہ عرب مقررین کے بجاے عالمِ اسلام کے نمایندوں کو بلایا گیا ہے، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسئلہ فلسطین کسی قومیت یا علاقے کا نہیں، پوری اُمت مسلمہ کا اہم ترین مسئلہ ہے۔ اس پر قابض صہیونی ریاست کو تسلیم کرنا سنگین جرم اور خیانت ہے۔

پروگرام کے اختتام پر مہمانوں کو شہر کے ایک ریسٹورنٹ میں کھانے کے لیے لے جایا گیا۔ تقریباً ڈیڑھ سو افراد شریک تھے۔ کھانے کے بعد شرکا کے مابین مختصر گفتگو ہوئی۔ لوگ پاکستان کے حالات بھی جاننا چاہتے تھے۔ میں نے جب پرویز مشرف کے افلاطونی فلسفے ’سب سے پہلے پاکستان‘ پر بات کی تو سب شرکا خصوصی طور پر متوجہ اور متبسم ہوئے۔ اُردن میں نوجوان بادشاہ عبداللہ بن حسین کی قدآدم تصویریں لگی ہیں اور اکثر کے ساتھ یہ ’قولِ زریں‘ تحریر ہے: الاردن أولا ’سب سے پہلے اُردن‘۔ گویا پورے عالمِ اسلام کو ایک ہی تعویذ گھول گھول کر پلایا جارہا ہے۔

رات تقریباً ایک بجے (پاکستانی وقت کے مطابق صبح کے چار بجے) کمروں میں پہنچایا گیا اور ساتھ یہ حکم نامہ بھی کہ صبح فجر کی نماز کے فوراً بعد، یعنی پانچ بجے ہم نے دوبارہ سفر کا آغاز کرنا ہے اور آج کا دن بہت یادگار دن ہوگا۔ عین فجر کے بعد ہمارے میزبان اور اخوان کی مرکزی قیادت ہماری رہایش گاہ پر موجود تھی اور سفر کا آغاز ہوگیا۔ نکلتے ہوئے عقبہ شہر کی کچھ مزید جھلکیاں دیکھیں۔ جدھر سے گزرے دوسری جانب اسرائیلی آبادی منہ چڑا رہی تھی۔ اِیلات نسبتاً بلندی پر واقع ہے۔ چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں بھی ہیں، اس لیے عقبہ کے تقریباً ہر موڑ سے نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ اس صدمہ خیز منظر میں خیرواُمید کا یہ پہلو بار بار ذہن میں آیا اور اس کا اظہار بھی کیا کہ سرزمین فلسطین یہاں آنے اور رہنے والوں کو بار بار اور ہرلمحے یاد دلاتی ہے کہ میں تمھاری منتظر ہوں!

صہیونی قید میں گرفتار سرزمین اقصیٰ سے سرگوشیاں اور عہدوفا کی تجدید کرتے عقبہ سے روانہ ہوئے تو یہ ایک آرام دہ بس میں اجتماعی روانگی تھی۔ بتایا گیا کہ آج ہمیں تقریباً ۵۰۰ کلومیٹر کی مسافت طے کرنا ہے۔ اس میں ہم اُردن کے جنوب مغربی کونے سے چلیں گے اوردارالحکومت عمان سے گزرتے ہوئے شمال مغربی کنارے پہنچیں گے۔ عقبہ میں حضرت عمر بن خطابؓ کے ہاتھوں فتح بیت المقدس کی یاد تازہ ہوئی تھی۔ یہاں کے باسی بتا رہے تھے کہ اہلِ عقبہ نے ۱۶ہجری میں  حضرت عمر بن خطابؓ کی سفر بیت المقدس میں بھی معاونت کی تھی اور جب ۱۸ ہجری میں مدینہ منورہ میں شدید قحط پڑا تو ریاست اسلامی کے دیگر علاقوں کی طرح اہلِ عقبہ نے بھی امیرالمومنین کی اپیل پر بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔

ہمارا قافلہ کہیں توقف کیے بغیر چلتا رہا۔ ایک جگہ رُک کر نمازیں پڑھیں۔ ایک صاحب نے مشورہ دیا، سڑک کنارے فروخت ہونے والے تازہ کھیرے خرید لو اور اسی کو آج دوپہر کا کھانا شمار کرلو… موسم انتہائی خوش گوار، رفقاے سفر ایک سے بڑھ کر ایک اور گفتگو بے حد مفید تھی۔ سیکڑوں کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا کسی پر بھی گراں نہ گزرا۔

حضرت عمر فاروقؓ کا ذکر چلا تو ان کے سفر بیت المقدس کے بارے میں معلومات کا تبادلہ ہوا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے زمانے سے ہی حضرات خالد بن ولید، ابوعبیدہ بن الجراح، عمرو بن العاص، شرحبیل بن حسنہ، یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہم جمیعا جیسے جلیل القدر صحابہ کرام رومیوں سے جہاد میں مصروفِ کار تھے۔ ایک سے ایک بڑا معرکہ اہلِ ایمان کی شان دار کامیابی پر منتج ہوا اور بالآخر ایلیا (بیت المقدس) کے دروازوں تک جا پہنچے اور اس کا محاصرہ کرلیا۔ جب اہلِ ایلیا کی ہرکوشش ناکام ہوگئی اور انھیں یقین ہوگیا کہ اب شکست یقینی ہے تو انھوں پیش کش کی کہ اگر تمھارا امیر خود آجائے تو ہم بیت المقدس کی چابیاں ان کے حوالے کرتے ہوئے شکست تسلیم کرلیںگے۔ حضرت عمرؓ کو اطلاع دی گئی تو مشاورت کے بعد وہ فلسطین کو روانہ ہوئے۔ مدینہ منورہ سے نکلتے ہوئے حضرت علی بن ابی طالبؓ کو اپنا قائم مقام مقرر کرگئے۔ ۴۱راتوں کے سفر کے بعد بیت المقدس پہنچے۔ محصورین نے آکر معاہدہ کیا۔ حضرت عمر بن الخطابؓ نے معاہدے کی تحریر کا آغاز ان الفاظ سے کیا: بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ یہ وہ عہد ہے جس کی رُو سے اللہ کے بندے،امیرالمومنین عمرؓ نے اہلِ ایلیا کو امن کی ضمانت دی۔ اس نے ان کی جان، مال، عبادت گاہوں، کلیسائوں اور صلیبیوں کو امان دی۔ ان کے بیماروں، صحت مندوں اور تمام باشندوں کو امان دی۔ اس نے عہد کیا کہ نہ تو ان کے کلیسائوں میں کوئی دوسرا رہایش پذیر ہوگا، نہ انھیں ڈھایا جائے گا۔ ان میں سے ان کا کوئی سامان یا ان کی صلیبیں نہیں نکالی جائیں گی۔ ان کے اموال سے کچھ نہ لیا جائے گا، نہ انھیں ان کا دین بدلنے پر مجبورکیا جائے گا، نہ ان کے ساتھ بیت المقدس میں یہودیوں میں سے کسی کو آنے کی اجازت دی جائے گی۔ اہلِ ایلیا کو اس کے مقابل اسی طرح جزیہ ادا کرنا ہوگا۔

اسی طرح کی چند مزید عبارتوں سے معاہدے کا متن مکمل ہوا اور اس پر امیرالمومنین کے علاوہ ان کے سپہ سالاروں خالد بن ولید، عمرو بن العاص، عبدالرحمن بن عوف اور معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہم کے دستخط ثبت ہوگئے۔ اس معاہدے کی عبارت کے ایک ایک لفظ میں مسلمانوں اور مسلمانوں سے دشمنی رکھنے والوں کے لیے بہت سی نشانیاں اور سبق ہیں۔

عصر سے کچھ پہلے ہم ’ساکب‘ نامی ایک قصبے سے گزرے جس کے بعد کا راستہ نسبتاً تنگ اور چڑھائی کا تھا۔ گاڑیاں اور سواریاں بھی نہ ہونے کے برابر تھیں، البتہ کہیں کہیں بورڈ کے ذریعے رہنمائی کی گئی تھی۔ کچھ مشکل چڑھائیاں چڑھنے کے بعد ہم ایک بلنداور ہموار پہاڑ کے اُوپر تھے، جس کے ہر طرف، ڈھلوانوں کے دامن میں لہلہاتے کھیت تھے۔ پہاڑ کے کنارے پر پہنچے تو عجیب وغریب ناقابلِ بیان اور دل کی دنیا میں ہیجان پیدا کردینے والا منظر تھا۔ عقبہ میں فلسطین، اُردن اور سعودی عرب کی تکون کے بعد، اب ہم ایک اور تکون کے کنارے پر تھے۔ ہم جہاں کھڑے تھے۔ یہ اُردن کی سرحد کا آخری کنارا تھا۔ وادی میں بہنے والے دریاکے دوسرے کنارے پر صہیونیوں کے جابرانہ قبضے میں سسکتی سرزمین فلسطین تھی اور ہمارے دائیں ہاتھ شام کی سرزمین تھی۔ اس وادی اور میدان میں حضرت خالد بن ولید اور حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہما کی زیرقیادت تاریخ کا انوکھا معرکہ یرموک برپا ہوا تھا۔

ہمارے پروگرام کے نگران ڈاکٹر سعود ابومحفوظ نے پہلے سامنے پھیلی سرزمین فلسطین اور اس پر دُور تک تعمیرشدہ یہودی بستیوں پر نگاہ دوڑائی اور پھر وادیِ یرموک اور یہاں روپذیر ہونے والے واقعات بتانا شروع کیے۔ کہنے لگے: وہ سامنے ٹیلے پر خالد بن ولیدؓ کا خیمہ تھا۔ اس ٹیلے پر کھڑا ہونے سے پوری وادی نظروں میں رہتی ہے۔ مسلمان لشکر نے یہاں پڑائو ڈالا، ان کی تعداد ۳۸ہزار کے لگ بھگ تھی، جب کہ بعض صحیح روایات کے مطابق دشمن کی تعداد ۴ لاکھ تھی۔ لڑائی شروع ہوئی تو اس ٹیلے سے خالدؓ نے قیادت کی۔ مسلسل چھے روز تک وہ اسی ٹیلے پر رہے۔ مسلمان بڑی تعداد میں زخمی ہوگئے تھے۔ کچھ لوگوں نے راے دی کہ لشکر کو بچاکر یہاں سے نکل جانا چاہیے لیکن حضرت ابوسفیانؓ نے راے دی کہ اگر آج اس سرزمین سے نکل گئے تو پھر کبھی اِدھر واپس نہ آسکوگے۔ ساتویں روز پورے لشکر نے اپنی تمام قوت صَرف کر دی، ساتھ ہی ساتھ سب نے مزید دعائوں اور تلاوتِ قرآن کا اہتمام کیا۔ پورے لشکر سے تلاوت کی آواز آرہی تھی۔ اللہ کے حکم سے اہلِ ایمان غالب آئے اور اس شکست کے بعد پھر پورے خطے سے دشمن کا خاتمہ ہوگیا۔ بیت المقدس کی فتح کا اصل آغاز یہاں سے ہوچکا تھا۔

ڈاکٹر ابومحفوظ کہنے لگے کہ بیت المقدس اپنی تاریخ میں ۲۷بار فتح ہوا ہے۔ ان میں ۲۶مرتبہ اسی راستے سے فتح ہوا ہے۔ بتانے لگے وہ اُوپر جو پہاڑ نظر آ رہا ہے صلاح الدین ایوبی نے اس کے اُوپر اپنا قلعہ تعمیر کیا اور پھر اس پورے علاقے میں ایسے ۱۵ قلعے بنائے۔کہنے لگے: ان میں سے کئی قلعے دو ہفتے سے بھی کم عرصے میں تعمیر کیے گئے۔ معرکۂ یرموک کے ساتھ ساتھ اب صلاح الدین ایوبی کا ذکر شروع ہوگیا تھا۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے اس عظیم تاریخ کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا تھا۔ پوری وادی یرموک یہاں سے کھلی کتاب کی طرح دکھائی دے رہی تھی۔ یہ بھی نظر آرہا تھا کہ ایک ہی مسلم ریاست کو کس طرح تین ٹکڑیوں میں فلسطین، شام اور اُردن میں تقسیم کر دیا گیا ہے لیکن اس اہم مقام پر جوایک لمبوترا پتھر نصب کیا گیا تھا، اس پر نقشے کے ذریعے جولان، جبل طور، طبریا جھیل اور دریاے یرموک واضح کیے گئے تھے۔

اس وادی کی بہت سی تفصیلات باقی تھیں بالخصوص طبریا جھیل کے اس پار ہرپہاڑ کے پیچھے کوئی نہ کوئی اہم فلسطینی شہر ہے اور سامنے دائیں ہاتھ جو پہاڑ ہے اس کے دامن میں بیت المقدس کی بہاریں پھر کسی صلاح الدین ایوبی اور خالد بن ولید کی منتظر ہیں!

حضرت معاذ بن جبلؓ ان معدودے چند صحابہ کرامؓ میں سے ہیں کہ جن سے رسول اکرمؐ نے خصوصی طور پر اظہارِ محبت کیا۔ آپؓ کی قبر بھی یہیں ہے اور اس پر حدیث کے یہ الفاظ درج ہیں: ’’معاذ مجھے آپؓ سے محبت ہے‘‘۔ محبوبِ نبیؐ معاذ بن جبلؓ کے ساتھ ہی ان کے صاحبزادے عبدالرحمن بن معاذؓ کی قبر ہے۔ یقینا آس پاس اور بھی کئی صحابہ کرامؓ کی قبریں ہوں گی۔ رات گئے واپس پہنچے۔واقعی ایک تاریخی دن کا اختتام ہوا۔ آج کے دن تین تاریخی فتوحات کی سرزمین دیکھنے کی سعادت ملی، فتح عُمری، معرکۂ یرموک اور معرکۂ حطین۔

اگلے روز بھی کئی اہم پروگرام اور ملاقاتیں تھیں۔ اخوان کے ہم خیال ایف ایم ریڈیو پر انٹرویو، دو اسلامی پروڈکشن سنٹرز کا دورہ، جب کہ اخوان المسلمون اُردن کے قائدین پاکستان اور افغانستان کے بارے میں جاننا چاہ رہا تھے۔ اگر وقت بچا توعصر کے بعد دنیا کا سب سے کڑوا اور سب سے انتہائی نشیب میں واقع سمندر بحرمُردار دیکھنا شامل تھا۔ سطح سمندر سے ۴۵۰فٹ گہرا، البحر المیت (Dead Sea) بھی عجیب و غریب روایات کا امین ہے۔ اسی علاقے میں   حضرت لوط علیہ السلام کی قوم پر اللہ کا عذاب ٹوٹا۔ کچھ روایات کے مطابق یہی سمندر وہ جگہ ہے کہ جہاں پہلی قوم بستی تھی۔ بدکاری میں تمام حدیں پھلانگ گئی تو آسمان تک لے جاکر اوندھے منہ زمین پر پٹخ دی گئی اور اُوپر سے پتھروں کی بارش کر دی گئی۔ افسوس کہ اس جاے عبادت کو تفریح و عیاشی کا اڈا بنایا جا رہا ہے۔ بحرمُردار تقریباً ۷۱کلومیٹر لمبا ہے۔ اس کا مشرقی کنارہ اُردن ہے اور سامنے دکھائی دینے والا مغربی کنارہ صہیونیوں کے زیرتسلط فلسطین، حکومت اُردن تقریباً پورے مشرقی کنارے پر بڑے بڑے ہوٹل اور تفریح گاہیں تعمیر کر رہی ہے۔ میں نے پوچھا: یہاں اُردنی شہری تو زیادہ دکھائی نہیں دے رہے، نہ دارالحکومت سے صرف ۵۰ کلومیٹر کے فاصلے پر ہونے کے باوجود یہاں ٹریفک کا کوئی رش ہے تو یہ اتنے ہوٹل کیوں بنائے جارہے ہیں؟ رفیق سفر نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے کہا: ان میں زیادہ تر غیرملکی لیکن بنیادی طور پر خود اسرائیلی شہری آکر ٹھیرتے ہیں۔ میری حیرت کو بھانپتے ہوئے مزید بتایا کہ یہودیوں کو مقبوضہ فلسطین سے اُردن آنے کے لیے کسی ویزے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ جب چاہیں بغیر پاسپورٹ کے یہاں آتے ہیں۔ ان تفریح گاہوں میں ان کی زیادہ تر مصروفیت جوے بازی اور دیگر محرمات کا ارتکاب ہے۔ انھیں یہ سہولت بھی حاصل ہے کہ اگر وہ اُردن کے دوسرے علاقوں میں جانا چاہیں تو اپنا تحفظ یقینی بنانے کے لیے  سرحد پر پہنچ کر اسرائیلی نمبرپلیٹ اُتاریں، اُردنی نمبرپلیٹ لگائیں اور سکون سے جہاں چاہیں، جائیں۔ ان کی تمام تر حفاظت کی ذمہ داری حکومت اُردن کے سر ہے۔

بحرمُردار اس لیے بھی مُردار کہلاتا ہے کہ اس میں نمکیات کا تناسب انتہائی زیادہ ہے۔ اتنا زیادہ کہ اس میں کوئی سمندری مخلوق بھی زندہ نہیں رہ سکتی۔ چکھنے پر اندازہ ہوا کہ کھاری پن کڑواہٹ کی حد تک پہنچا ہوا ہے۔ بحرمُردار کی سطح مزید اور مسلسل نیچے جارہی ہے جس کا اندازہ اس کے کنارے دیکھنے سے بھی ہوتا ہے۔ جگہ جگہ پانی کی سابقہ سطح کے نشان جمے ہوئے ہیں۔ نمکیات کی سطح اس قدر بڑھی ہونے اور بڑھتی چلے جانے کا ایک سبب یہ بھی ہے۔ یہ سمندر اس لیے بھی مُردار کہلاتا ہے کہ اس میں کوئی آبی دھارا آکر نہیں ملتا۔

یہاں قدرتِ خداوندی کا ایک معجزہ یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ سڑک کے ایک کنارے پر تقریباً تین منزلہ عمارت جتنا گہرا بحرمُردار ہے اور سڑک کے دوسرے کنارے چھوٹے بڑے پہاڑ۔    ان پہاڑوں سے جگہ جگہ چشمے پھوٹتے ہیں۔ رفیقِ سفر نے سڑک کنارے گاڑی کھڑی کی اور ہم  ایک مختصر سی آبشار کے پاس چلے گئے۔ پانی کو ہاتھ لگا کر دیکھا تو سخت گرم… اتنا گرم کہ زیادہ دیر ہاتھ اندر نہ رکھا جاسکے۔ ویسے وہ انتہائی شفاف اور میٹھا پانی ہے اور زمین کے اندر سے راستہ بناتا ہوا بحرمُردار میں جا ملتا ہے۔ خالق نے ہر چیز کو ایک مخصوص مقدار و حساب سے بنایا ہے کہ بحرمُردار کو متعینہ موت تک باقی بھی رکھنا ہے لیکن روز بروز کم بھی کرنا ہے۔

عشاء کے بعد وہاں سے واپس آرہے تھے اور رفیق سفر مختلف موڑوں پر رُکتا ہوا چلاجارہا تھا۔ ایک موڑ پر گاڑی رُکی اور سڑک کے کنارے کھڑے ہوکر وہ دکھانے لگا: دیکھو! وہ دُور جو روشنیاں نظر آرہی ہیں وہ بیت المقدس کی ہیں۔ حیرت، خوشی اور صدمے کے ملے جلے جذبات نے پھر قلب و ذہن کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ رب ذوالجلال نے محبوب کو عرش پر بلایا تو مکہ مکرمہ سے سیدھا آسمان پر نہیں لے گیا بلکہ یہاں سے مسجداقصیٰ لے کر آیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا قبلہ اور آپؐ کی سجدہ گاہ یہودیوں کے نرغے میں ہے اور مسلم ممالک آزادی اقصیٰ کے بجاے اقصیٰ کی اسیری مستحکم کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔

فلسطین و اُردن کا ایک ایک کونہ اور ایک ایک پتھر اپنے اندر صدیوں کی آپ بیتی لیے ہوئے ہے، اسے مسلسل دہراتے رہنے کی ضرورت ہے۔ عمان ایئرپورٹ سے رخصت کرتے ہوئے میزبان نے بتایا کہ ہم نے مشاورت کے بعد آپ کی اس تجویز سے اتفاق کیا ہے کہ حضرت عمرؓ کے ہاتھوں بیت المقدس کی فتح کا جشن ہر سال منایا جائے اور دنیا بھر میں منایا جائے تاکہ اس کے اسباق و حقائق کے منظر کی تبدیلی کے عمل کو تیز تر کرسکیں۔

’’ایک ،دو، تین___ نہیں، یہ تو چار، پانچ، چھے درجن سے بھی زیادہ ہیں، جنھوں نے  بی اے کی جعلی ڈگری کی بنیاد پر صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے انتخابات میں نشستیں حاصل کی ہیں‘‘۔ یقینی بات ہے کہ خود ہارنے والے امیدواروں کی بھی ایک بڑی تعداد نے ایسے ہی حلفیہ بیان داخل کرائے ہوں گے، جس میں غلط اعداد و شمار کے سچا ہونے کی قسم کھائی گئی تھی۔ یاد رہے کہ ایسے جھوٹے ارکانِ اسمبلی کی ایک قابلِ لحاظ تعداد کے ساتھ گذشتہ اسمبلیاں (۰۷-۲۰۰۲ئ) پانچ سال مکمل کرچکی ہیں، اور دوسری اسمبلیوں نے دو سال پورے کرلیے ہیں۔

یہ امر جس قدر افسوس ناک ہے، اپنے نتائج کے اعتبار سے اس سے بہت زیادہ سنگین ہے۔ جعلی ڈگریوں کے اجرا سے پیدا شدہ جرائم کا یہ سلسلہ، ان جعلی اور جھوٹے دعووں سے جاملتا ہے، جنھیں بعض مہاجرین نے متروکہ املاک کو ہتھیانے کے لیے قیامِ پاکستان کے فوراً بعد استعمال کرنا شروع کیا تھا۔ اس لوٹ کھسوٹ میں چند بااثر تو مال و متاع لے اُڑے، مگر مہاجرین کی بہت بڑی تعداد اپنے جائز حق سے بھی محروم رہ گئی۔ نتیجہ یہ کہ حسرت، ناکامی اور محرومی کے اس زہر    نے ہزاروں خاندانوں کے مستقبل کو ڈس لیا۔ جھوٹ کے اس کاروبار نے آنے والے دنوں میں  قسم قسم کی سماجی بیماریاں پیدا کیں۔ مثال کے طور پر:

۱- پس ماندہ علاقوں کے بچوں کے لیے کوٹے کی محفوظ نشستوں پر شب خون مارنے    کے لیے جعلی ڈومیسائل تیار کر کے اپنے بچوں کو ڈاکٹر، انجینیریا سول سرونٹ بنانا۔

۲- پی ایچ ڈی کی جعلی ڈگریاں حاصل کر کے معاشرے پر دھونس جمانا، ملازمت میں ترقیاں پانا، گریڈ حاصل کرنا، اور ماہانہ دس پندرہ ہزار روپے بھتہ وصول کرنا (اس قماش کی دھاندلی زدہ ڈگریوں میں خون پسینہ ہمسایے کا، سفارش دوست کی، ماہانہ وظیفہ ریاست کا اور صرف نام اپنا استعمال ہوتا ہے)۔

۳- صوبائی اور قومی اسمبلی کے لیے ۲۰۰۲ء میں لازم کیا گیا کہ کم از کم گریجوایٹ فرد اس انتخاب میں حصہ لے سکے گا۔ اس قانون کا احترام کرنے اور معقول طریقے سے اس کو تبدیل کرانے کے بجاے، قومی قیادت کے لیے سامنے آنے والوں کی ایک تعداد نے جعل سازی کا ارتکاب کیا اور جعلی ڈگریوں کے ساتھ کاغذات نامزدگی داخل کرائے اور الیکشن میں کامیابی حاصل کی۔

خاص طور پر ۱۹۵۵ء کے بعد وحدتِ مغربی پاکستان (ون یونٹ) کے زمانے سے، اور پھر بعد میں بھی جعلی ڈومیسائل کی بنیاد پر، پیشہ ورانہ تعلیمی اداروں میں داخلہ حاصل کرنے کے لیے، سیاست دانوں اور اعلیٰ سرکاری ملازمین کی ملی بھگت نے پس ماندہ علاقوں میں احساسِ محرومی کو    نہ صرف بڑھایا، بلکہ اس کے نتیجے میں مرکز گریز قوتوں کو وجود بخشا اور تقویت دی۔ دیکھا جائے تو اس دھاندلی سے محض چند سو طالب علموں نے حق داروں کی حق تلفی کی، لیکن جوابی ردعمل میں وہاں سے ملک کے کروڑوں شہریوں کو نفرت کا پیغام ملا۔ جن لوگوں نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی ہے، اور جو ریاست کے معاملات کے امین ہیں، ان کا یہ اقدام ملک سے بے وفائی، اختیارات کے ناجائز استعمال اور دھاندلی کا مرتکب قرار پایا، مگر قوم بے بسی میں ان کا احتساب تک نہ کرسکی۔

جعلی ڈگریوں کے اجرا میں اس نوعیت کی مثالیں سامنے آئی ہیں:

پہلی یہ کہ کچھ لوگوں کو وہم ہے کہ نام کے ساتھ ’ڈاکٹر‘ لگانے سے غالباً عزت میں اضافہ ہوتا ہے یا اس سے زندگی ذرا لمبی ہوجاتی ہے۔ حالانکہ یہ دونوں فضول وہم ہیں۔ جنرل محمد ضیا الحق مرحوم کی حکومت میں وزیرخزانہ ڈاکٹر محبوب الحق مرحوم نے پی ایچ ڈی کرنے والوں کے لیے چند ہزار روپوں کا اضافی الائونس دینے کا اعلان کیا، تو اس چیز نے ’عزت‘ کے بحران پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ ’جیب‘ گرم کرنے کا دروازہ بھی کھول دیا۔ یوں جائز، اہل اور محنتی محققین کے ساتھ فراڈ، نالائق اور جعلی ’ڈاکٹروں‘ کی بھی ایک فصل تیزی سے پک پک کر تیار ہونا شروع ہوئی۔

حکومت نے لوگوں کو تحقیق کے راستے پر چلنے کے لیے اُبھارا مگر یونی ورسٹیوں کے   بعض اساتذہ نے یہاں بھی جرم کا ارتکاب کیا، انھوں نے اپنے ہاتھوں سے متعدد جعل سازوں کو ڈاکٹریٹ کی عباے فضیلت پہنانے کا گناہ کیا۔ اس ضمن میں اپنے گروہ کو نوازنے کے ’بے لوث‘ جذبے اور تعلقات کی برکھا نے جل تھل کردیا۔ ایسی ’پی ایچ ڈیوں‘ میں عموماً شعبہ ہاے اسلامیات، اور شعبہ ہاے ادبیات، پھر سماجیات، نمایاں نظر آتے ہیں۔ اگر گہرائی میں جاکر دیکھا جائے تو  مذہبی طبقے کے ایک گروہ نے ایسی ڈاکٹریٹ حاصل کرنے میں زیادہ سرگرمی دکھائی ہے۔ بعض مقالے تو کسی ’گھوسٹ محقق‘ نے لکھے، پروف دوسرے لوگوں نے پڑھا اور بعض مقالے دس بارہ لوگوں نے انٹ شنٹ ٹکڑے جوڑ کر تیار کیے اور مستقبل کے ڈاکٹر صاحب نے، محض کمپوزنگ کرانے اور جِلد بنوانے کا کرب برداشت کیا۔ دوسری طرف ۵سو ڈالرفیس دے کراسپین یا امریکا سے ڈگریاں حاصل کرنے کی مثالیں بھی موجود ہیں۔ طرفہ تماشا دیکھیے کہ ایسے مقالات پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری کا اعلان کرنے کے ساتھ، مقالے کی قدروپیمایش کرنے والے محققین کی اس راے کا پورا احترام کیا جاتاہے: ’’ڈگری دے دی جائے، مقالہ شائع کرنے کی اجازت نہ دی جائے‘‘۔ کیا ایسے مقالات میں ریاست کا کوئی خفیہ راز پوشیدہ ہوتا ہے یا کوئی مخرب اخلاق حوالہ؟ اصل میں یہ مقالے اس قابل نہیں ہوتے کہ اشاعت کے بعد یونی ورسٹی کی نیک نامی کا سبب بن سکیں۔ بعض دُوراندیش ڈاکٹر صاحبان تو انتظامیہ سے ملی بھگت کرکے اپنے مقالے کی کاپی لائبریری تک پہنچنے ہی نہیں دیتے، اور مقالے کا اسقاط اپنے یا یونی ورسٹی کلرکوں سے کراد یتے ہیں۔ اسی کو کہتے ہیں: آزادی! کس وقت شوکت تھانوی کا افسانہ ’سودیشی ریل‘ یاد آیا ہے۔

ان دوسری قسم کا تعلق بعض مذہبی عناصر سے جڑتا ہے۔ اگرچہ دینی مدارس کے اساتذہ کرام، تقویٰ، للہیت اور علم و ایثار میں اپنا ثانی نہیں رکھتے، اور یہی وجہ ہے کہ جب وہ کاغذ کے ایک ٹکڑے پر لکھ کر دے دیا کرتے تھے کہ: ’’اس برخوردار سے مَیں نے سنا اور اسے پڑھانے کی اجازت دی‘‘ تو وہ فرد علما کی صف میں شامل ہوجاتا تھا۔ جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے بجاطور پر  دینی مدارس سے درسِ نظامی پاس کرنے والے طالب علموں کو ایم اے عربی اور ایم اے اسلامیات کے برابر تسلیم کرنے کا اعلان کیا ، تو اس چیز پر اظہارِ تشکر کے بجاے، مختلف فرقہ وارانہ مسالک نے اپنے امتحانی نظام میں لچک پیدا کی یا نمبر دینے میں سخاوت کا مظاہرہ کیا، یا اپنے ہم مسلکوں کو ڈگری دینے میں فراخ دلی کا ثبوت دیا۔ اس طرح وہ فضا پیدا ہوئی، جس میں خود دینی مدارس کے   علماے کرام کو سخت دل گرفتگی میں یہ کہنا پڑا: ’’اس ایم اے کے برابر درجے کی ڈگری نے تو ہمیں سخت نقصان پہنچایا ہے۔ اس دوڑ میں شرکت کی خواہش نے حصولِ علم کی خواہش کو بُری طرح پامال اور گریڈ ۱۷ کی نوکری حاصل کرنے کی بھوک میں اضافہ کیا ہے‘‘۔ پھر ایسا بھی ہوا کہ بعض دینی مدارس کے بورڈوں نے اور بعض منتظمین نے وہ راستہ اختیار کیا، جس پر ندامت کے پسینے کے سوا اور کیا بہایا جاسکتا ہے۔ ان جملوں سے یہ نہ سمجھا جائے کہ تمام وفاق یا دینی مدارس کا ہرطالب علم اسی طرح کر رہا ہے، حاشا وکلا ایسا نہیں ہے، مگر اُوپر جو صورت بیان کی گئی ہے، اس کے بھی خاطرخواہ شواہد موجود ہیں۔ نقل یا دھاندلی ہر جگہ جرم ہے، لیکن اگر اس بیماری کا چلن مذہبی طبقے میں جڑ پکڑ لے تو صورت حال دھماکا خیز ہوجاتی ہے۔

تیسری قسم ہماری یونی ورسٹیوں اور کالجوں کے ان پروفیسر صاحبان پر مشتمل ہے، جنھوں نے ترقیاں پانے کے لیے، ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے حصول میں ایسی خیانت کاری (plagarism) کی مثالیں پیش کی ہیں کہ سر ندامت سے جھک جاتا ہے۔ ان ’ڈاکٹروں‘ نے مقالوں کی تیاری میں حددرجہ جادوگری دکھائی ہے۔ یہ ایسا موضوع ہے جس پر الگ مضمون کی گنجایش ہے۔

پھر چوتھی صورت یہ سامنے آئی کہ جب بی اے کی ضرورت پورا کرنے کے لیے براہِ راست ایم اے کی ڈگری کے برابر مذہبی وفاق کی ڈگری مل سکتی ہے تو اس سے کیوں نہ استفادہ کیا جائے۔ اسی باعث ایک تعداد نے مذہبی بورڈوں کی ڈگری سے اپنی امیدواری کو ’جائز‘ بنایا۔ اگرچہ ایسی مثالیں درجن بھر ہی کیوں نہ ہوں، مسند ِ ارشاد و تقویٰ کے وارثوں کو سوچنا چاہیے کہ ان کی ساکھ کو کن ظالموں نے نقصان پہنچا کر جگ ہنسائی کا سامان مہیا کیا ہے۔

اس کے بعد ہے باری اُس نوعیت کی، جس کے تحت بی اے کی جعلی ڈگریاں لے کر دھڑلے سے انتخابات میں حصہ لیا گیا۔ ایسے ہرکیس کو بدترین جعل سازی بلکہ ڈاکا زنی اور   دہشت گردی کا کیس تصور کرتے ہوئے تحقیقات کی جانی چاہیے۔ اگر پارلیمنٹ، سقراط کے الفاظ میں: ان لوگوں کا گڑھ نہیں ہے جو عوام کے بجاے صرف اپنے ہی مفاد پر نظر رکھتے ہیں۔ تو پھر انھیں اس بارے میں قانون سازی کرنا ہوگی۔ وگرنہ عدالت، عوام اور میڈیا اپنا راستہ خود تلاش کرلیں گے۔ اس پس منظر میں صرف ۲۰۱۰ء کی چند خبریں ملاحظہ فرمایئے:

  • ۲۸ مارچ ۲۰۱۰ء دی نیوز انٹرنیشنل اسلام آباد میں عثمان منظور نے رپورٹ کیا: ’’جعلی ڈگریوں کے حامل مزید ارکانِ پارلیمنٹ خطرے کی زد میں آگئے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے   رکن قومی اسمبلی جمشید دستی اور مسلم لیگ ق کے رکن اسمبلی نذیر جٹ نے سپریم کورٹ میں جعلی ڈگری ثابت ہونے کے بعد استعفا دے دیا ہے، مگر یہیں پر ایک دل چسپ منظر یہ بھی دیکھیے: صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب آصف علی زرداری کی جانب سے یہ چیز ریکارڈ پر لائی گئی تھی کہ انھوں نے پیڈنٹن [Pedinton] اسکول، لندن سے ’کاروباری انتظامیات‘ اور معاشیات میں ڈگری لی تھی۔ تاہم ۲۰۰۸ء کے عام انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کی ویب سائٹ سے یہ ثبوت ہٹا دیا گیا۔ دراصل تحقیق کاروں نے پیڈنٹن اسکول کو لندن ہی نہیں بلکہ پورے برطانیہ میں تلاش کرنے کی بارہا کوشش کی، مگر کسی جگہ اس ادارے کو موجود نہ پایا گیا۔ برٹش کونسل نے بھی برطانیہ میں ایسے کسی ادارے کا وجود تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ تاہم اس سے ملتا جلتا ایک ادارہ پیڈنگٹن [Pedington] سڈنی، آسٹریلیا میں مل گیا، مگر وہاں پر صرف نرسری سے انٹرمیڈیٹ تک تدریس ہوتی ہے۔  اندریں اثنا صدر آصف زرداری کی ہمشیرہ ڈاکٹر عذرا صاحبہ نے دی نیوز کے رپورٹر عمرچیمہ کو بتایا کہ: ’’میرے بھائی آصف نے سینٹ پیٹرکس کالج کراچی سے ڈگری کا امتحان پاس کیا تھا‘‘، مگر معلوم کرنے پر کالج انتظامیہ نے اپنے ریکارڈ میں ایسے کسی فرد کا نام نہ پایا۔

اسی طرح پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما اور وفاقی وزیر عدل و قانون جناب بابر اعوان کی ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے بارے میں قوی شکوک و شبہات موجود ہیں، جب کہ وہ اس بات سے انکاری ہیں۔ بابر اعوان نے مونٹی سیلو [Monticello] یونی ورسٹی سے ڈگری لینے کا دعویٰ کر رکھا ہے، اور صورت یہ ہے کہ امریکی ایجوکیشنل فائونڈیشن (USEF) نے تصدیق کی ہے کہ: ’’یہ یونی ورسٹی نہ تو ڈگری پروگرام کرا سکتی ہے اور نہ پی ایچ ڈی کے کورس ہی پیش کرسکتی ہے، بلکہ اس نام نہاد    یونی ورسٹی کو ۲۰۰۰ء میں اس نوعیت کے فراڈ کرنے پر ۱۷ لاکھ ڈالر جرمانہ کرکے بند کر دیا گیا تھا‘‘۔ پھر ہائرایجوکیشن کمیشن بھی اس یونی ورسٹی کو جعلی قرار دیتا ہے۔ دوسری جانب مسلم لیگ (ق) فارورڈ بلاک کے رکن قومی اسمبلی میاں طارق محمود (گجرات) کی ڈگری بھی مشکوک ہے۔ اس میں     دل چسپ امر یہ ہے کہ میاں طارق محمود (پیدایش: ۵مئی ۱۹۵۵ئ) ۱۹۷۱ء میں سرگودھا بورڈ سے میٹرک کا امتحان دینے کے لیے رجسٹرڈ ہوئے، مگر وہ میٹرک کا امتحان پاس نہ کرسکے۔ انھوں نے جس طارق محمود کی ۲۰۰۳ء کی گریجوایشن کی ڈگری جمع کروا کے نامزدگی منظور کرائی، اس طارق محمود کی تاریخ پیدایش ۲مارچ ۱۹۷۸ء ہے، اور اس نے گوجرانوالہ بورڈ سے ۱۹۹۵ء میں انٹر کا امتحان پاس کیا تھا۔ یاد رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے رکن اسمبلی حاجی ناصر ایسی جعلی مذہبی ڈگری لینے کے جرم میں نااہل قرار پاچکے ہیں۔ جنرل مشرف کابینہ کے دو وزراے مملکت بھی جعلی ڈگریوں سے آراستہ تھے۔ سابق سینیٹر پری گل آغا کی ڈگری کو بھی چیلنج کیا گیا، مگر کوئی جواب دینے کے بجاے ۱۷ویں ترمیم جیسا کارنامہ انجام دے کر، وہ اپنی مدت پوری کرکے ریٹائر ہوئی ہیں۔ (روزنامہ، دی نیوز انٹرنیشنل، ۲۸ مارچ ۲۰۱۰ئ)

  • پنجاب صوبائی اسمبلی کے ۲۹ ارکان کی جعلی ڈگریوں پر مشتمل کیس لاہور ہائی کورٹ کے انتخابی ٹریبونل میں زیرسماعت ہیں، جس میں تینوں پارٹیوں مسلم لیگ (ن)، مسلم لیگ (ق) اور پیپلزپارٹی کے وابستگان شامل ہیں۔ یاد رہے ان مبینہ ۲۹ ملزم ارکانِ اسمبلی میں پانچ خواتین  ارکانِ اسمبلی بھی جعلی ڈگریوں کی حامل قرار دی جارہی ہیں (The Peninsula،قطر، ۲ مئی ۲۰۱۰ئ)
  • منڈی بہائوالدین سے پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی محمدطارق تارڑ، ملتان یونی ورسٹی سے بی اے کی ڈگری حاصل کرنے کے دعوے دار ہیں، مگر وہ اپنا نام تک انگریزی میں نہیں لکھ سکتے۔ ان کا مقدمہ لاہور ہائی کورٹ ملتان بنچ میں زیرسماعت ہے ( دی نیشن، لاہور، ۱۲ مئی ۲۰۱۰ئ)
  • مسلم لیگ (ن) نے پنجاب صوبائی اسمبلی کے ان ۵۴ ارکان اسمبلی کی فہرست تیار کی ہے، جو اگرچہ مختلف سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھتے ہیں، مگر ان میں قدر مشترک ایک ہی ہے، اور  وہ ہے گریجوایشن کی جعلی ڈگریاں۔ (روزنامہ ڈیلی ٹائمز، لاہور، ۷مئی ۲۰۱۰ئ)

ذرا غور کیجیے کہ جن لوگوں نے جھوٹ کے بل بوتے پر حقِ نمایندگی حاصل کیا، ان کے ہاتھوں قانون سازی کی حیثیت کیا ہوگی۔ حیرت ہوتی ہے ان لوگوں پر جو ایسے لوگوں کو دوبارہ اپنی پارٹیوں میں نہ صرف شامل کر رہے ہیں، بلکہ انھیں پارٹی ٹکٹ اور عہدے بھی دے رہے ہیں (جعل سازی پر نااہل قرار پانے والے جمشید دستی کو بڑی دیدہ دلیری سے پیپلزپارٹی نے پھر   قومی اسمبلی کی رکنیت کے لیے نامزد کیا اور وہ جیت بھی گئے)۔ اس میں زیادہ افسوس ناک طرزِعمل الیکشن کمیشن کا رہا ہے کہ جس نے ایسی عذرداریوں کی سماعت کے لیے سال ہا سال ضائع کیے، حالانکہ یہ مقدمے دو، تین پیشیوں سے زیادہ بحث و تفتیش کے متقاضی نہ تھے۔ یعنی یہی معلوم کرنا تھا کہ فلاں فرد نے جو بی اے کی ڈگری جمع کرائی ہے، کیا متعلقہ یونی ورسٹی اسے اپنے ریکارڈ کے مطابق درست قرار دیتی ہے؟ (ارکانِ اسمبلی کی ایسی دستاویزات کے اندرجات الیکشن کمیشن اپنی ویب سائٹ پر بھی مہیا کرسکتا تھا)۔ اسی طرح مذہبی بورڈوں سے منسوب ایسے مشکوک امیدواروں سے، عدالت میں قرآن، حدیث اور سبع معلقہ سے آٹھ آٹھ سطروں کا ترجمہ سن کر ان کی اہلیت کو متعین کیا جاسکتا تھا، بلکہ خود براہِ راست دینی امور پر بحث بھی اُن کی حقیقت کو بے نقاب کرسکتی تھی۔ (یہ کوئی انہونی بات نہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے میڈیکل کالجوں اور انجینیرنگ یونی ورسٹیوں میں داخلے کے لیے حافظِ قرآن امیدواروں کی محض سند کی بنیاد پر اہلیت کا فیصلہ نہیں کیا جاتا، بلکہ    تین رکنی بورڈ براہِ راست ان امیدواروں سے قرآن سن کر ان کی اہلیت کا فیصلہ کرتا ہے)۔ لیکن افسوس کہ ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا، اور یہ نمایندے فریب کاری کرتے ہوئے، عزت کے مقام اور قانون سازی کی مسند پر بیٹھے مزے اُڑاتے رہے۔

یہاں لازم ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کو دیکھیں: ارشاد ہے:

  • ’’ایک بندئہ مومن کی فطرت میں خیانت اور جھوٹ کا وجود ممکن نہیں‘‘ (مسنداحمد، بیہقی)۔
  • ’’یہ بہت بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے بھائی سے کوئی جھوٹی بات بیان کرو، حالانکہ وہ تم کو اس بیان میں سچا سمجھتا ہو‘‘(ابوداؤد)۔
  •  ’’جس شخص نے حاکم کے سامنے جھوٹی قسم کھائی، تاکہ اس کے ذریعے کسی مسلمان کا مال مار لے، تو قیامت کے دن اللہ کے سامنے اس حال میں اس کی پیشی ہوگی کہ اللہ اس پر سخت غضب ناک اور ناراض ہوگا‘‘(بخاری، مسلم)۔ l ’’جو شخص خیانت کرنے والے کی خیانت کو چھپائے تو وہ بھی اسی [خیانت کار] کی مانند ہے‘‘ (ابودائود)___ ان احادیث مبارکہ سے ایسے جعل ساز ڈگری یافتگان کی حیثیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

اور اب یہ خبر ملاحظہ ہو:

  •  ’’پاکستان الیکشن کمیشن نے ان ارکان صوبائی و قومی اسمبلی کے بارے میں، جنھوں نے جعلی ڈگریوں کی بنیاد پر الیکشن میں حصہ لیا، انھیں سبق سکھانے اور سیاسی عمل سے باہر نکال دینے کے لیے حکم جاری کیا ہے۔ قائم مقام چیئرمین الیکشن کمیشن جسٹس جاوید اقبال نے ہدایت کی ہے کہ جعلی ڈگریوں والے ممبران اسمبلی کے خلاف فوج داری مقدمات درج کیے جائیں، ایسے مقدمات قانون کے مطابق فوری طور پر نمٹائے جائیں، اور انھیں آیندہ الیکشن میں حصہ لینے سے روکا جائے۔ جعلی دستاویزات اور جھوٹے بیاناتِ حلفی داخل کرنا سنگین بدعنوانی کے زمرے میں آتا ہے، ان کے خلاف عوامی ایکٹ ۱۹۷۶ء (سیکشن ۷۸) کے تحت سیشن جج کے روبرو جانا لازم ہے‘‘ (روزنامہ ایکسپریس، نواے وقت، جنگ، ۷ مئی ۲۰۱۰ئ)

کیا جناب جاوید اقبال کی اس خواہش کا حشر بھی ’این آر او‘ والے فیصلے پر عمل درآمد کے نام پر بلی چوہے کا کھیل تو نہیں بنا دیا جائے گا؟ مگر ظاہر ہے دعوے کا جواب دعویٰ بھی ہوتا ہے اور بقول ہیگل: Thesis کا Anti-Thesis۔ اسی کا نتیجہ دیکھیے کہ چیئرمین الیکشن کمیشن کے بیان کے چھے روز بعد اسی الیکشن کمیشن کے سیکرٹری صاحب فرماتے ہیں: ’’فروری ۲۰۰۸ء کے عام انتخابات کے بعد الیکشن کمیشن میں ۷۰ پیٹشنز جعلی ڈگریوں سے متعلق تھیں۔ الیکشن کمیشن ان میں سے ۲۴ پر فیصلے دے چکا ہے۔ جعلی ڈگریوں کی بنیاد پر گذشتہ عام انتخابات میں حصہ لینے والے نااہل نہیں ہیں‘‘ (روزنامہ نواے وقت، لاہور، ۱۳ مئی ۲۰۱۰ئ)۔ اس اُڑتی ہوئی دھول میں چیئرمین صاحب کا فرمایا سچ سمجھا جائے یا سیکرٹری صاحب کو معتبر جانا جائے۔ قانون کا احترام کیا جائے یا احکامِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پاس داری کی جائے۔

موشگافیوں کو چھوڑ کر حکومت کو چاہیے کہ وہ ان لوگوں کو، جو جعلی ڈگریاں لے کر مسندِ تدریس پر بیٹھے ہیں یا مسندِ حکومت پر براجمان ہیں، ان کو نااہل قرار دینے کے ساتھ، ان سے تمام وصول شدہ تنخواہوں، الائونسوں اور تحفوں کو نہ صرف واپس لے، بلکہ بھاری جرمانے بھی وصول کرے۔ مزید یہ کہ فراڈ کے جرم کی جو سخت ترین سزا ممکن ہے، اسے بھی ان پر نافذ کرے۔ احتساب اور شفافیت نے آخر کہیں سے تو اپنے سفر کا آغاز کرنا ہے۔ پاکستان کے عوام اس قافلۂ عدل کے مدتوں سے منتظر ہیں۔ شاید وہ گھڑی آن پہنچی ہے ، جب کہہ سکیں کہ ’ہم دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘۔

ترجمہ: سمیع الحق شیرپائو

جغرافیائی اعتبارسے بنگلہ دیش وہ اسلامی ملک ہے جس کی سرحدیں کسی اسلامی ملک سے نہیں ملتیں ۔ آٹھویں صدی عیسوی میں اسلام سے روشناس ہونے والا یہ ملک جنوب اور جنوب مشرق ایشیائی ممالک کے درمیان ایک پُل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ انڈونیشیا اورپاکستان کے بعد سب سے زیادہ مسلم آبادی والا ملک ہے، جہاں ۱۳کروڑ سے زائد مسلمان آباد ہیں۔

بنگلہ دیش کی اسلامی جماعتیں، دینی ادارے اور علما ومشائخ ملک میں اسلامی اقدار و ثقافت کے فروغ میں بھر پور کردار ادا کر رہے ہیں۔ بنگلہ دیش چونکہ اقتصادی طور پر ایک کمزور ملک ہے، اس لیے مغربی ممالک اور غیر ملکی این جی اوزاسے اپنی محفوظ شکارگاہ سمجھتے ہیں۔ عوامی لیگ کی سیکولر حکومت ان ممالک اور این جی اوز کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے اسلام سے وابستگان کو دیوار سے لگانے اور اسلامی اقدار کا قلع قمع کرنے پر عمل پیرا ہے۔ عوامی لیگ کی حکومت کو بائیں بازو کی تنظیموں کے علاوہ ملکی و غیر ملکی ہندئوں کی بھر پور حمایت حاصل ہے۔

بنگلہ دیش کی موجودہ صورت حال کوسمجھنے کے لیے گذشتہ ۴۰ برس پر محیط اس ملک کے تاریخی واقعات پرمختصر نگاہ ڈالنا ضروری ہے۔

بنگلہ دیش ۱۹۷۱ء میںنو ماہ کی خوں ریز جنگ کے بعد پاکستان سے الگ ہوا۔اس جنگ میں بنگالی اورانڈین آرمی نے حصہ لیا تھا۔ آزادی کے فورا بعد متحدہ پاکستان کی حمایت کی پاداش میں اسلامی جماعتوں اور علما ومشائخ کے گرد گھیرا تنگ کیا جانے لگا۔ بنگلہ دیش کے پہلے حکمران شیخ مجیب ابتدا میںجمہوریت پسند تھے اور انھوں نے ملک [یعنی متحدہ پاکستان] میںجمہوریت کے فروغ کے لیے   بہت تگ ودو کی، لیکن اقتدار سنبھالتے ہی وہ ایک جابر حکمران کے روپ میں نمودار ہوئے۔ تب یک جماعتی نظام نافذ کرتے ہوئے انھوںنے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی لگادی اور عدلیہ اورمیڈیا کی آزادی کو ختم کردی۔

۱۹۷۰ء کے انتخابات میں عوامی لیگ کی قیادت نے متعدد بار قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ملک میں قرآن وسنت کے خلاف کوئی قانون نہیں نافذ کریں گے۔لیکن انھوں نے وعدہ خلافی کی اور اقتدار حاصل کرنے کے بعد سیکولرزم اور اشترکیت کو ملک کے دستور کا بنیادی حصہ قرار دیا، اسلامی جماعتوں اور دینی اداروں کے خلاف کریک ڈائون کیااور سیکڑوں علما ومشائخ کو پابند سلاسل کردیا۔ شیخ مجیب الرحمن نے بعد میں عام معافی کا اعلان کیااور تمام گرفتارشدگان کو رہا کردیا۔   عام معافی کے اس اعلان کے بعد مذہبی رہنما مطمئن ہوگئے کہ اب انھیں مزید سیاسی انتقام کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔

۱۵؍اگست ۱۹۷۵ء کو شیخ مجیب قتل کردیے گئے تو جنرل ضیاء الرحمن نے حکومت سنبھالی۔ انھوں نے مسلمانوں کے پُرزور مطالبے پر دستور میں بنیادی تبدیلی کی اور پانچویں ترمیم کے ذریعے دستور کے آغاز میں بسم اللہ کا اضافہ کیا اور سیکولرزم اور اشتراکیت کی جگہ ایمان باللہ ، یقین محکم اور عدل کو دستور کا حصہ بنادیا۔ انھوںنے جمہوریت کو بحال کرتے ہوئے تمام سیاسی پارٹیوں کو آزادانہ کام کرنے کی اجازت دی۔ اس طرح دینی جماعتوں کو بھی کام کرنے کا موقع مل گیا، اور بنگلہ دیش کے ایک دفعہ پھر عالم اسلام کے ساتھ تعلقات استوار ہونے لگے۔

۲۰۰۶ء میں چار جماعتی اتحاد نے محترمہ خالدہ ضیا کی قیادت میں کامیابی کے ساتھ پانچ سالہ حکومت مکمل کی اوراقتدار نگران حکومت کے سپرد کیا، تاکہ غیر جانب داری کے ساتھ انتخابات کرائے جاسکیں۔ عوامی لیگ اور ان کے حلیف، ملک میں دینی جماعتوں کی پذیرائی نہیں چاہتے، اس لیے انھوں نے جماعت اسلامی کے کارکنوں پر حملہ کیا، تاکہ ملک میں خوف ہراس کی فضا پیدا کی جائے اور انتخابات ملتوی ہوں۔ تاہم، نگران حکومت نے انتخابات کرانے کے وعدے کی پاس داری کا عہد کیا۔ اس دوران میں آزاد ذرائع سے متعددد فعہ سروے سے یہ بات سامنے آئی کہ اگر چارجماعتی اتحاد برقرار رہا تو آیندہ حکومت بھی وہی بنائیں گے۔

اس دوران دینی اور ان کے اتحادی جماعتوں کو پیچھے ہٹانے کی اندرونی اور بیرونی سازشیں جاری رہیں، جس کے نتیجے میں نگران حکومت کی کوششیں ناکام ہوئیں اور انتخابات ملتوی کردیے گئے۔ ۲۰۰۷ء کے آغاز سے ایمرجنسی نافذ ہوئی، جو دو سال تک جاری رہی۔ ۲۰۰۸ء میں انتخابات کرائے گئے جس میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کے نتیجے میں عوامی لیگ برسر اقتدار آگئی ۔ عوامی لیگ نے آتے ہی جماعت اسلامی اوراس کی اتحادی جماعتوں پر تشدد شروع کیا اور اسی حکومت نے پانچویں ترمیم ختم کرنے کے لیے سپریم کورٹ سے اجازت حاصل کی ہے اور اگر پانچویں ترمیم ختم ہوتی ہے تو دستور میں درج ذیل تبدیلیاں رونما ہوں گی:

__ اسلام مخالف سیکولر نظریات کی واپسی ہوجائے گی۔

__ دستور کے آغاز سے بسم اللہ ختم کردی جائے گی۔

__ تمام اسلامی جماعتوں پر پھر سے پابندی لگ جائے گی۔

__ جنرل ضیاء الرحمن کے تمام فیصلے کالعدم قرار دیے جائیں گے اور یوں ملک میں ایک طویل اورلاحاصل قانونی جنگ کا آغاز ہو جائے گا۔

__ اس دستور کی رو سے حکومت اسلامی ممالک کے ساتھ برادرانہ تعلقات استوار کرنے کی پابند نہیں ہوگی۔

۱۹۹۶ء میں عوامی لیگ جب دوسری مرتبہ بر سر اقتدار آئی تو آئین میں بنیادی تبدیلی کی بھرپور کوشش کی گئی، لیکن پارلیمنٹ میں دوتہائی اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے اسے تب کامیابی حاصل نہ ہو سکی تھی۔ اب وہ دسمبر ۲۰۰۸ء کے نام نہاد انتخابات میں دو تہائی اکثریت حاصل کرچکی ہے اور اس کے بل بوتے پر ملک کو سیکولر بنانے کا موقع اس کے ہاتھ آیا ہے۔

جنوری ۲۰۰۹ء میں عوامی لیگ کی حکومت نے جماعت اسلامی اور دیگر قومی جماعتوںکے خلاف سخت موقف اپناتے ہوئے ان کے سربراہان کے ساتھ منفی بلکہ توہین آمیز رویہ اختیار کیا ہے، اور ان کے خلاف مختلف مقدمات دائر کیے ہیں۔ متعدد اعلیٰ ریٹائرڈ فوجیوں پر الزام عائد کیا گیاکہ ان کے پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ روابط ہیں۔ ان کو میڈیا کے سامنے پیش کرکے انھیں پورے ملک میں رسوا کیا۔ جنگی جرائم سے منسوب لوگوں کی ایک جعلی فہرست مرتب کی ،جس میں جماعت اسلامی کے قائدین کے نام بھی شامل کر دیے گئے اور ان کی ہر قسم کے نقل وحرکت پرمکمل پابندی لگادی۔

عوامی لیگ نے اپنے اس عمل کے نتیجے میں دینی مدارس کو بھی نہیں بخشا۔ حکومت میں آتے ہی اس کے وزرا اور خاص طور سے وزیر قانون نے مدرسوں کے خلاف زہر اُگلنا شروع کردیااور انھیں قدامت پسندی اور دہشت گردی کے مراکز قراردیے۔ ساتھ ہی ساتھ حکومت نے مدارس کے لیے سیکولر ایجنڈے پر مبنی تعلیمی پالیسی کا بھی اعلان کردیا۔

ملک میںجہاں کہیں بھی قتل وغارت یا خونریز جھڑپ کا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے، تو آنکھیں بند کرکے حکومت فوراً اسے اسلامی جماعتوں کے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کرتی ہے ۔ اس کی بڑی اہم مثال فروری ۲۰۰۹ء میں سرحدی محافظین کی جانب سے فوجی افسروں کے خلاف بغاوت کی کوشش تھی، جس میں۵۷ فوجی افسر قتل ہوئے۔ حکومت نے اس واقعے کا الزام بھی جماعت پر لگادیا، تاہم بعد میں اس کا جھوٹ واضح ہوا اور فوجی تحقیقات سے پتا چلا کہ اس کے پیچھے خود بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کا ہاتھ تھا۔ چونکہ الزام بھارت پر آرہا تھا، اس لیے حکومت نے تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کو منظر عام پر نہ آنے دیا، بلکہ اس کے باوجود اپوزیشن کو اس کے لیے مورد الزام ٹھیرا رہی ہے۔لیکن عوام جانتی ہے کہ یہ ملکی دفاع کو کمزور کرنے کی ایک گھناؤنی سازش ہے۔

حکمران عوامی لیگ اپنے مخالفین کا مکمل صفایا چاہتی ہے ۔ گذشتہ دنوں پارٹی قیادت کے سامنے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے برملا کہا کہ ہم اپوزیشن پارٹیوں کو قانون کے شکنجے میں جکڑ کر منظر سے نہیں ہٹانا چاہتے ہیں، بلکہ ہمارا ایجنڈا یہ ہے کہ سول سروس، فوج، تعلیم اور دیگر شعبوں میں ان کے حمایت یافتہ افراد کا خاتمہ کریںاور ان کی جگہ عوامی لیگ کے جوانوں کو بھرتی کریں۔

اس پالیسی کے تحت درجنوں اعلیٰ افسران کو اہم مناصب سے برطرف کیا گیااور ان کی جگہ عوامی لیگ کے حمایت یافتہ افراد کا تقرر کیا گیا،اور جہاں کہیں انھیں مناسب شخص نہ ملا، وہاں ریٹائرڈ افراد کو لگا دیا گیا۔ کئی ایسے افسران کو جبری ریٹائرمنٹ پر بھیج دیا، جو ان کے ہم خیال نہیں تھے، پھر ان کی جگہ بھی اپنے من پسند افراد کو مقرر کر دیا۔ حتیٰ کہ عدلیہ میں تقرریوں میں بھی بے قاعدگی سے کام لیا گیااور ہم خیال ججوں کو تعینات کیا گیا۔فروری ۲۰۰۹ء کے سرحدی محافظین کی جانب سے بغاوت کے واقعے کے بعد خفیہ طور پر فوج کے اسلام پسند اور محب وطن افسران کو نکال باہر کرنے کا عمل اب بھی جاری ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ امریکا میں مقیم اور ایک یہودی خاتون سے شادی کرنے والے شیخ حسینہ کے برخوردار سجیب واجد نے عام انتخابات سے قبل ایک امریکی جریدے میں اپنے مضمون میں لکھا تھا:’’ بڑی تعداد میں اسلامی دہشت گردوں کو فوج میں بھرتی کیا گیاہے جس کا تناسب ۳۰ فی صد بنتا ہے‘‘۔

درحقیقت عوامی لیگ کی حکومت نئی تعلیمی پالیسی کے تحت دین سے نابلد نسل تیار کرنا چاہتی ہے۔ اس نظام تعلیم کے تحت طلبہ کو دین کے بنیادی مسائل کے بارے میں اسکولوں کے اندر آگاہی حاصل نہیں ہوگی، کیوں کہ اسلامیات نام کا کوئی مضمون اسکولوں کے نصاب میں شامل نہیں ہے۔ دینی قیادت کو خدشہ ہے کہ اس تعلیمی پالیسی کی وجہ سے نئی نسل دین اسلام کے بنیادی اصولوں سے بھی ناواقف رہے گی۔

دوسری جانب نئی تعلیمی پالیسی کے تحت حکومت دینی مدارس کے نصاب میں بھی بڑے پیمانے پر تبدیلی کا ارادہ رکھتی ہے۔مدارس کے نصاب میں دینی مضامین کوکم اور عصری علوم کے مضامین کی تعداد کو بڑھایا جا رہا ہے ۔ بظاہر تو حکومت یہ سب کچھ دینی مدارس کی ترقی اور اسے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے نام پر کر رہی ہے۔ حالانکہ ان میں سے ہر قدم اس کے برعکس ہے۔ اسی لیے مدارس نے اس پالیسی کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے: ’’یہ مدارس کو ختم کرنے کی سازش ہے، جس کے ذریعے حکومت ملک کو ایک لادینی ریاست بنانا چاہتی ہے‘‘۔ حکومت انھی مدارس کو اپنے سیکولر ایجنڈے کی تکمیل میں رکاوٹ سمجھتی ہے۔

جماعت اسلامی کے حامی طلبہ کی تنظیم اسلامی چھاترو شبر کو بھی سخت عتاب کا نشانہ بنایا گیااور اس کے متعدد رہنما گرفتار کرلیے گئے ۔ گرفتاریوں کا سلسلہ ابھی جاری ہے۔ امن قائم کرنے والے ادارے گرفتارشدگان کو مسلسل جسمانی اور نفسیاتی طور پر تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ سخت زدوکوب کے بعد انھیںمسلمان قائدین کے خلاف بیانات دینے پر مجبور کیاجارہا ہے، جسے حکومت بڑی دلیری کے ساتھ ذرائع ابلاغ کے سامنے پیش کرکے داد وصول کرتی ہے۔

عوامی لیگ کی اسلام دشمنی اور اسلامی اقدار سے نفرت ہر سطح پر عیاں ہورہی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے عورتوں کو مساوی حقوق دینے اور انھیں مردوں کے برابر کھڑا کرنے کے نام پر میراث میں مرد وزن کو مساوی حصہ دینے کی خواہش ظاہر کی جو کہ قرآن وسنت کی صریح خلاف ورزی ہے۔ قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ اور مرد کے لیے[میراث میں] دوعورتوں کے برابر حصہ ہے‘‘۔( النسائ:۴:۱۱)

عوامی لیگ نے اپنی پارٹی کے ان رہنمائوں اور کارکنوں کو بچانے کا فیصلہ کر رکھا ہے، جن کے خلاف ۲۰۰۱ء سے لے کر ۲۰۰۸ء تک مختلف مقدمات درج ہوئے تھے۔ عوامی لیگ کی موجودہ حکومت نے اب تک وزیر اعظم سمیت عوامی لیگ کے رہنمائوں اور کارکنوں پر ۲ہزار سے زائد مقدمات کو یہ کہہ کر خارج کردیے ہیں کہ یہ محض سیاسی بنیادوں پر قائم کیے گئے تھے۔ ان سنگین مقدمات میں جماعت اسلامی کے کارکنوں کے قتل کے مقدمات بھی شامل ہیں۔ جنھیں ۲۸؍ اکتوبر کو دن دھاڑے عوام الناس کے سامنے قتل کیا اور لاشوں کی بے حرمتی کی گئی تھی۔ قتل کے یہ تمام مناظر متعدد ٹی وی چینلوں نے براہ راست نشر کیے۔

ان دگر گوں حالات میں جماعت اسلامی بنگلہ دیش درج ذیل تجاویز پیش کرتی ہے:

۱- بنگلہ دیش کے موجودہ حالات کا غور سے جائزہ لیا جائے۔ حکومت کے اسلام دشمن اور معاندانہ رویے پر کڑی نظر رکھی جائے، اور اس بارے میں ایک جامع رپورٹ تیار کی جائے۔

۲- اندرون و بیرون ملک سے حکومت پر دبائو ڈالا جائے کہ وہ جنگی جرائم کے نام پر جماعت اسلامی اور دیگر قومی جماعتوں پر ظلم نہ کرے۔

۳- اسلامی تعلیمات اور قرآن وسنت کے خلاف قانون سازی سے روکنے کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالا جائے۔

۴- دستور کے آغاز سے بسم اللہ کو حذف کرنے کی حکومتی کوشش کو ناکام بنایا جائے، اور ایمان باللہ اور یقین محکم کے بجاے دستور میں سیکولرازم اور اشتراکیت کے الفاظ کو شامل کرنے سے روکاجائے۔ (المجتمع، شمارہ ۱۸۹۹، ۲۴؍ اپریل ۲۰۱۰ئ)

مہمان داری

سوال: میں اور میرے چند دوست اس بات کے قائل ہیں کہ مہمان کے لیے گھر میں جو کچھ حاضر ہو،لے آنا چاہیے۔ اس سے مہمان داری آسان ہوجاتی ہے (اگر میں خود کہیں مہمان بنوں تو بھی میزبان سے یہی توقع رکھتا ہوں)۔ لیکن احادیث میں تین دن تک مہمان کی خصوصی میزبانی کی تاکید آئی ہے۔ کیا ان احادیث کی روشنی میں ہمارے رویّے کو درست قرار دیا جاسکتا ہے؟ اگرچہ معقول آمدنی بھی ہو لیکن مہنگائی کا مسئلہ بھی اپنی جگہ ہے اور وقت کی کمی بھی آڑے آتی ہو؟

جواب: مہمان داری کی حدود کیا ہیں اور قرآن وسنت اس سلسلے میں کیا رہنمائی فراہم کرتے ہیں، ایک تفصیل طلب سوال ہے۔ جو نکات آپ نے اپنے سوال میں اٹھائے ہیں ان پر اختصار کے ساتھ یوں غور کیا جاسکتا ہے:

اوّلاً: مہمان یا سفر کر کے آنے والے مہمان کے لیے کھانے پینے کا معقول بندوبست کرنا۔ حضرت ابراہیم ؑ کے پاس جب دو مہمان آئے تو ان کے لیے دُنبے کا ذبح کرنا اور ان کے سامنے وافر مقدار میں کھانا پیش کرنا سنت ِ ابراہیمی ؑاور ان کی اُمت کے لیے ایک عملی مثال ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ گو حضرت ابراہیم ؑ ہماری طرح گھر میں جو دال دلیہ موجودہوتا پیش کرسکتے تھے لیکن انھوں نے مہمانوں کے اکرام اور تواضع کے لیے خصوصی طور پر دُنبے ذبح کروا کے کھانا تیار کرایا۔ گویا عام روزمرہ کے کھانے کے مقابلے میں زیادہ اہتمام کیا گیا۔

یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ موجودہ دور میں جب وقت میں برکت نہیں رہی، اور معاشی مسائل نے افراد کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے، ایسے میں روز مہمانوں کے لیے بڑے پیمانے پر تواضع کا اہتمام کرنا مشکل ہے، تاہم یہاں اس پہلو سے بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ وقت اور مال کی برکت میں کمی کیوں آئی ہے؟ کیا اس کا سبب یہ نہیں ہے کہ ہم اپنے بھائی کے لیے وہ پسند نہیں کرتے جو اپنے لیے پسند کرتے ہیں، اور چاہتے ہیں کہ اپنی ضروریات کا معاملہ ہو تو دل کھول کر خرچ کریں لیکن اگر کوئی مہمان آئے تو سادگی کی دلیل کے سہارے کم سے کم اہتمام کیا جائے۔ بلاشبہہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ اسراف کو پسند نہیں فرماتے اور کھانے پینے کے حوالے سے یہ اصول بیان کردیا گیا کہ کھائو پیو لیکن اسراف نہ کرو (الاعراف ۷:۳۱)۔ اس آیت مبارکہ سے یہ بات پھر بھی ثابت نہیں ہوتی کہ مہمان کو صرف دال دلیہ پر ٹرخا دیا جائے اور خود لذیذ کھانے کھائے جائیں۔ ہمارے ہاں تو مہمان نوازی کرتے ہوئے خود بھوکا رہنے، بچوں کو بھوکا سُلانے کی روایت بھی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے سراہا ہے۔

تین دن تک مہمان داری کا مفہوم بھی یہی سمجھ میں آتا ہے کہ اس عرصے میں مقابلتاً زیادہ اہتمام کیا جائے، اور پھر مہمان کو گھر کے افراد کی طرح سے عزت و احترام کے ساتھ اکل و شرب میں شریک کیا جائے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ تین دن بعد مہمان کو چلے جانے کے لیے کہا جائے۔

عملی طور پر اگر دیکھا جائے تو رزق کا وعدہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے نہ صرف انسانوں بلکہ پرندوں سے بھی کیا ہوا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ وہ اپنا کھانا ساتھ اٹھائے نہیں پھرتے اور گو صبح کو خالی پیٹ نکلتے ہیں لیکن شام کو بھرے پیٹ کے ساتھ اپنے مسکن پر واپس آتے ہیں۔ گویا ہر مہمان جو آتا ہے وہ اپنا رزق اللہ کی طرف سے لے کر آتا ہے اور اس کی آمد کی بنا پر گھروالوں کو بھی روز مرہ کے کھانے سے مقابلتاً بہتر کھانا مہمان کے بہانے کھانے کو مل جاتا ہے۔

مہمان داری کے لیے بنیادی شرط خلوصِ نیت ہے۔ اگر مہمان کا استقبال یہ کہہ کر کیا جاتاہے کہ اھلًا وسھلًا تو پھر اسے اپنے گھر والوں کی طرح معقول غذا اور آرام پہنچانا میزبان پر فرض ہوجاتا ہے۔ بجٹ لازمی طور پر ایک حقیقت ہے لیکن خلوصِ نیت سے مہمان داری برکت و سعادت کا باعث ہوتی ہے۔ تاہم، بے جا تکلف اور اِسراف سے بچنے کا بھی اہتمام ہونا چاہیے۔ اپنے وسائل میں رہتے ہوئے مہمان کی تواضع اور خاطرداری، اسلامی آداب میں سے شامل ہے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)


روزمرہ استعمال کی چیزیں عاریتاً دینے میں قباحت

س: روزمرہ استعمال کی اشیا دوسروں کو نہ دینا کوئی اچھی بات نہیں اور اسلام نے اس کی ممانعت بھی کی ہے۔ وَیَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَ (الماعون ۱۰۷:۷) ’’اور معمولی ضرورت کی چیزیں (لوگوں کو) دینے سے گریز کرتے ہیں‘‘۔ یہ اچھا بھی نہیں لگتا کہ استعمال کی کوئی چیز ہمارے گھر میں پڑی رہے اور کسی کے کام نہ آئے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں لوگ چیزوں کو عموماً صحیح استعمال نہیں کرتے بلکہ خراب کردیتے ہیں۔ ہماری اپنی گاڑی، اسکوٹر سے لے کر بیلچا اور کدال تک عموماً دوسروں کے ہاں سے خراب ہوکر واپس آتے ہیں، یا بروقت واپس نہیں آتے اور یوں پریشانی اٹھانا پڑتی ہے۔  پھر آج کل چیزیں خریدنا بھی مشکل ہے۔ ایسے میں کیا کرنا چاہیے؟

ج: عام استعمال کی اشیا دوسروں کو عاریتاً دینا اخوت، اتحاد اور ایثار کے جذبے کو تقویت دینے کا ایک ذریعہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی درست ہے کہ عموماً لوگ عاریتاً لی ہوئی چیز کو احتیاط سے استعمال نہیں کرتے۔ نتیجتاً چیز دینے والے کو تکلیف اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن کیا ہاتھ کی پانچوں انگلیاں برابر ہوتی ہیں؟ اگر افراد طبائع کے لحاظ سے یکساں نہیں ہوسکتے تو ہمارا یہ تصور کرنا کہ ہروہ شخص جو کوئی چیز عاریتاً لے گا، اسے خراب کرکے ہی لائے گا، درست خیال نہیں کہا جاسکتا۔

اصل مسئلہ افراد کی تعلیم و تربیت اور ان میں احساسِ ذمہ داری کے پیدا کرنے کا ہے۔ ہمارے نظامِ تعلیم اور گھر کے ماحول میں اس پہلو سے سخت کمی پائی جاتی ہے۔ عاریتاً کوئی چیز دینے سے انکار کرنے کے بجاے ہمیں دوسروں کو اس طرف متوجہ کرنا چاہیے کہ جس حال میں ایک چیز دی جارہی ہے اسی میں واپس آئے۔ بتدریج افراد کی اصلاح ہوگی اور ان میں احساس ذمہ داری پیدا ہوگا۔ تاہم، اگر بار بار توجہ دلانے پر بھی کسی کی اصلاح نہ ہو تو معذرت کی جاسکتی ہے۔(ا-ا)


الوداعی پارٹی یا استقبالیہ کا جواز

س: فوجی و سرکاری ملازمین ایک دوسرے کو الوداعی پارٹی یا استقبالیہ دیتے ہیں۔ الوداعی پارٹی دینے والے حضرات جو اس کے اخراجات برداشت کرتے ہیں وہ بعد میں آنے والے لوگوں سے پارٹی اور تحفہ رخصت ہوتے ہوئے لیں گے۔ گویا جانے والوں نے جو کچھ کھایا یا جو بصورت تحفہ وصول کیا اس کا خرچ موجود لوگ دیتے ہیں اور موجودہ لوگ جب جائیں گے تو بعد میں آنے والے اس کے اخراجات برداشت کریں گے۔ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا ہے۔ کیا ایسی پارٹی یا تحفہ وصول کرنے کا شرعی جواز ہے؟

ج: فوجی یا سرکاری ملازمین کا اپنے بھائیوں کو الوداعی یا استقبالیہ پارٹی دینا ایک اچھی روایت ہے۔ اس میں ممانعت کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ اس میں صرف اس قدر احتیاط سے کام لینا چاہیے کہ یہ اسراف و تبذیر اور فخر و مباہات سے خالی ہو۔ اس میں ادلے کا بدلہ والی بات نہیں ہے۔ اس لیے کہ جانے والے کو جنھوں نے کھانا دیا ہے، جب کھانا دینے والوں کی باری آئے گی تو انھیں جانے والا نہیں بلکہ اسی پوسٹ اور منصب کے دوسرے احباب کھانا دیں گے اور وہ بھی اس نیت سے کھانا نہیں دیں گے کہ جانے والے انھیں کھانے کے بدلے میں کھانا دیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تو یہ تھا کہ کسی نے آپ کو ہدیہ دیا تو آپ اسے موقع ملنے پر ہدیہ پیش کیا کرتے تھے۔ ہدیے اور ہبہ کا بدلہ دیا کرتے تھے۔ یہ ایک اخلاقی طریقہ ہے جس کی رہنمائی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے۔ واللّٰہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)


کاروبار میں والد کے ساتھ اولاد کی شرکت

اسلامی فقہ اکیڈمی کا انیسواں سیمی نار صوبہ گجرات کے ضلع بھروچ کے معروف علمی ادارہ ’جامع مظہر سعادت ہانسوٹ‘ میں ۲۷ تا ۳۰ صفرالمظفر ۱۴۳۱ھ، مطابق ۱۲ تا ۱۵ فروری ۲۰۱۰ء بروز جمعہ تا دوشنبہ منعقد ہوا۔ سیمی نار کے اختتام پر کئی اہم فقہی مسائل پر سفارشات پیش کی گئیں۔ کاروبار میںوالد کے ساتھ اولاد کی شرکت کے مسئلے پر کئی عملی مسائل پیش آتے ہیں۔ اس حوالے سے فقہی رہنمائی پیش ہے۔ (ادارہ)

شریعت اسلامیہ نے مسلمانوں کو معاملات صاف رکھنے کی طرف خاص توجہ دلائی ہے، اس لیے مسلمان اپنی معاشرت میں معاملات صاف رکھنے کا خاص اہتمام کریں، خصوصاً تجارت اور کاروبار میں اس کی اہمیت بہت ہی زیادہ ہے۔ ایک شخص تجارت کر رہا ہے، اور اس کی اولاد بھی اس کاروبار میں شریک ہے تو جو بیٹے باپ کے ساتھ کاروبار میں شریک ہورہے ہیں، ان کی حیثیت (شریک، اجیر یا معاون کے طور پر) شروع سے متعین ہوجائے تو خاندانوں میں ملکیت کے اعتبار سے جو نزاعات پیدا ہوتے ہیں ان کا بڑی حد تک سدباب ہوجائے گا۔ اس لیے اس طرح کے معاملات میں پہلے سے حیثیت متعین کرنے کا اہتمام کیا جائے۔

اگر والد نے اپنے سرمایے سے کاروبار شروع کیا، بعد میں اس کے لڑکوں میں سے بعض شریک کار ہوگئے، مگر الگ سے انھوں نے اپنا کوئی سرمایہ نہیں لگایا اور والد نے ایسے لڑکوں کی کوئی حیثیت متعین نہیں کی، تو اگر وہ لڑکے باپ کی کفالت میں ہیں تو اس صورت میں وہ لڑکے والد کے معاون شمار کیے جائیں گے اور اگر باپ کی زیرکفالت نہیں ہیں تو عرفاً جو اُجرتِ عمل ہوسکتی ہے، وہ ان کو دی جائے۔

اگر والد کے ساتھ بیٹوں نے بھی کاروبار میں سرمایہ لگایا ہو اور سب کا سرمایہ معلوم ہو کہ کس نے کتنا لگایا ہے تو ایسے بیٹوں کی حیثیت باپ کے شریک کی ہوگی، اور سرمایے کی مقدار کے تناسب سے شرکت مانی جائے گی، سواے اس کے کہ سرمایہ لگانے والے بیٹے کی نیت والد کے یا مشترکہ کاروبار کے تعاون کی ہو شرکت کی نہ ہو۔

اگر کاروبار کسی لڑکے نے اپنے ہی سرمایے سے شروع کیا ہو لیکن بہ طور احترام دکان پر والد کو بٹھایا ہو یا اپنے والد کے نام پر دکان کا نام رکھا ہو، تو اس صورت میں کاروبار کا مالک لڑکا ہوگا۔ والد کو دکان پر بٹھانے یا ان کے نام پر دکان کا نام رکھنے سے کاروبار میں والد کی ملکیت و شرکت ثابت نہ ہوگی۔

باپ کی موجودگی میں اگر بیٹوں نے اپنے طور پر مختلف ذرائع کسب اختیار کیے اور اپنی کمائی کا ایک حصہ والد کے حوالے کرتے رہے تو اس صورت میں باپ کو ادا کردہ سرمایہ باپ کی ملکیت شمار کی جائے گی۔

اگر کسی وجہ سے والد کا کاروبار ختم ہوگیا لیکن کاروبار کی جگہ باقی ہو، خواہ وہ جگہ مملوکہ ہو یا کرائے پر حاصل کی گئی ہو، اور اولاد میں سے کسی نے اپنا سرمایہ لگاکر اسی جگہ اور اسی نام سے دوبارہ کاروبار شروع کیا، تو اس صورت میں جس نے سرمایہ لگاکر کاروبار شروع کیا، کاروبار اس کی ملکیت ہوگا، والد کی نہیں۔ لیکن وہ جگہ (خواہ مملوکہ ہو یا کرایے پر لی گئی ہو) دوبارہ کاروبار شروع کرنے والے کی نہیں بلکہ اس کے والد کی ہوگی۔ والد کی وفات کی صورت میں اس میں تمام ورثا کا حق ہوگا، اور اسی طرح کاروبار کی گڈوِل بھی باپ کا حق ہے اور اس کی وفات کے بعد تمام ورثا کا حق ہوگا۔

اس موضوع سے متعلق سماج میں پیش آنے والے مختلف مسائل ہیں جن کو واضح کرنے اور عام مسلمانوں کو ان سے واقف کرانے کی ضرورت ہے۔ اس لیے یہ اجتماع اکیڈمی سے اپیل کرتا ہے  کہ وہ اس سلسلے میں ایک مفصل رہنما تحریر تیار کرے اور ان میں جو مسائل قابلِ تحقیق ہوں    حسب ِ گنجایش آیندہ منعقد ہونے والے سیمی ناروں میں انھیں اجتماعی غوروفکر کے ذریعے طے کرے۔

ائمہ و خطبا اور علماے کرام سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقے میں معاملات کی بہتری کے سلسلے میں ذہن سازی کریں، اور شرکت و میراث وغیرہ کے جو شرعی اصول و احکام ہیں ان سے لوگوں کو آگاہ کریں۔ خاص طور پر والدین ، اولاد، بھائیوں اور میاں بیوی کے درمیان شرکت کے مسائل سے واقفیت ضروری ہے۔

Muhammad The Prophet Par Excellence & The Divine Origin of The Quran [نبی اکرمؐ اور قرآن کلامِ الٰہی]،  پروفیسر محمد اسلم۔ ناشر: دعوہ اکیڈمی،فیصل مسجد، اسلام آباد۔ صفحات: ۵۰۲۔ قیمت: ۶۰۰ روپے۔

مستشرقین نے ایک طرف تو قرآن کو (نعوذ باللہ) کلامِ الٰہی کے بجاے نبی کریمؐ کی خودساختہ کتاب ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، اور دوسری طرف نبیِ مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر طرح طرح کے اعتراضات عائد کیے ہیں۔ زیرنظر کتاب کے مصنف نے طویل مطالعے کے بعد مغربی اہلِ قلم کی تحریروں سے ان اعتراضات کے جواب پیش کیے ہیں۔ اہلِ مغرب خصوصاً عیسائی اور یہودی مستشرقین نے دین اسلام، پیغمبرؐاسلام اور قرآن مجید کو ہدفِ تنقید بنایا ہے، اُس کے رد میں سادہ اور آسان زبان میں مرتبہ یہ کتاب ایک معقول جواب کی حیثیت رکھتی ہے۔ مصنف نے درجنوں عیسائی مصنّفین کی تحریروں سے ضروری اور متعلقہ حوالہ جات یک جا کردیے ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ نبی کریمؐ کی امانت و دیانت، خاندانی، زندگی اور بطور سربراہ مملکت کردار کو ہر دور کے نام وَر اہلِ علم و دانش نے ہر قسم کی آلایشوں سے پاک قرار دیا ہے۔

’اسلام کے خلاف یہود و نصاریٰ کے ردعمل کا پس منظر‘ میں، مصنف بتاتے ہیں کہ سائنسی میدان میں ہمہ پہلو ترقی کے باوجود، یورپ کا ذہن ’روایت پرست‘ ہے۔ اس لیے دین اسلام کے خلاف گھسے پٹے الزامات کو نئے الفاظ کے ساتھ دُہرایا جا رہا ہے۔مصنف نے برنارڈشا،       بوس ورتھ سمتھ، پروفیسر کل ورلے، ینز، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے متعدد دانش وروں کی گواہی یک جا کردی ہے جس کے مطابق اسلام کے خلاف نفرت اور نبی علیہ السلام کے خلاف الزامات کے ذریعے عالمِ انسانیت کو دین اسلام سے دُور رکھنے کی کوشش کی گئی ہے، اور اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ خصوصاً کیتھولک اور پروٹسٹنٹ اُن گمراہیوں کی طرف رُخ ہی نہ کریں جو انبیا ؑکے دین میں، خرافات کی صورت میں اکٹھی کردی گئی ہیں۔

مصنف نے بتایا ہے کہ سیدنا مسیح علیہ السلام کی تعلیمات کے برعکس خداے واحد کا تصور تثلیث کی صورت میں تبدیل کردیا گیا، پھر اسلام کے خلاف نفرت کی آگ کو برس ہا برس ہوا دی جاتی رہی۔ بطور ثبوت مؤلف نے سوزینی، جان ملٹن، جان لاک، تھامس ایملن، جوزف پریسٹلے، تھیوفی لس لینڈے، وغیرہ کی تحریروں سے اقتباس پیش کیے ہیں۔

اس اہم تحقیقی تصنیف کا دوسرا حصہ نبی علیہ السلام کی ذاتِ گرامی کا تاریخ کی روشنی میں جائزے پر مشتمل ہے۔یہ تفصیلی باب نبی اکرمؐ کی پیدایش سے لے کر زمانۂ قبل نبوت کے ۴۰سال، مکّی زندگی کے ۱۳سال اور مدنی زندگی کے ۱۰برسوں کا احاطہ کرتا ہے۔

کتاب کے تیسرے حصے میں قرآن کے اسلوب وابلاغ کو زیربحث لایا گیا ہے۔ اس باب میں انجیل کے اُن حصوں میں سے کچھ مثالیں بھی پیش کی گئی ہیں کہ جو توحیدِ خالص کے پیغام کی علَم بردار ہیں۔ انجیل اور قرآن کے جن واقعات میں مماثلت ہے اُن کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے۔ آثارِ کائنات سے مثالیں پیش کی گئی ہیں کہ کس طرح کائنات کی ایک ایک چیز خداے واحد کی ہستی اور اُس کی حکمت کی عکاس ہے۔

مستشرقین کے اعتراضات کی حقیقت اور علمی بددیانتی اور اسلام اور مغرب کے درمیان موجودہ کش مکش کو سمجھنے میں دل چسپی رکھنے والوں کے لیے یہ کتاب ایک نادر ونایاب تحفہ ہے۔ (محمد ایوب منیر)


قرآن کریم میں رسول اکرمؐ کا عالی مقام، مولانا عبدالرحمن کوثر مدنی۔ ناشر: زم زم پبلی کیشنز، نزد مقدس مسجد، اُردو بازار، کراچی۔ فون: ۳۲۷۶۰۳۷۴-۰۲۱۔ صفحات: ۲۷۲۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

قرآن مجید کی جن آیات میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل، آپؐ کو ملنے والے معجزات اور آپؐ کی سیرتِ کاملہ کا تذکرہ ہے، زیرنظر کتاب ان آیات کے مطالعے اور تفسیر پر مبنی ہے۔ سیرتِ مصطفیؐ پر ہزاروں کتابیں لکھی جاچکی ہیں اور آیندہ بھی لکھی جائیں گی لیکن زیرتبصرہ کتاب ایک نئے انداز میں عشق مصطفیؐ پیدا کرتی ہے: ’’میں نے قرآن کی تفسیر میں سیرت کو پڑھا‘‘ کے مصداق سیرتِ رسولؐ پر حق کی گواہی ہے۔

غلو سے بچتے ہوئے سیرت کو بیان کرنا انتہائی مشکل کام ہے مولانا مفتی عبدالرحمن کوثر مدنی نے اس مشکل کو انگیز کرتے ہوئے ایک خوب صورت کتاب پیش کی ہے جو عاشقانِ مصطفیؐ کی نگاہ انتخاب میں مقام حاصل کرے گی اور سیرت کے مطابق عمل کو مہمیز دے گی۔ اگر ذاتِ مصطفیؐ پر دورِحاضر میں ہونے والے اعتراضات اور حملوں کا بھی احاطہ کرلیا جاتا تو کتاب کی افادیت میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا۔(معراج الھدٰی صدیقی)


سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ، علامہ محمد ناصرالدین الالبانی، تہذیب و اختصار: ابوعبیدہ مشہور بن حسن آلِ سلمان، مترجم: عبدالحمید سندھی۔ ناشر: فضلی بک،سپرمارکیٹ، ۳/۵۰۷، ٹمپل روڈ، اُردو بازار، کراچی۔ صفحات: ۸۹۰۔ قیمت: ۷۰۰ روپے

علامہ ناصرالدین الالبانی (۱۹۱۴ئ-۱۹۹۹ئ) کو علمِ حدیث میں ممتاز مقام حاصل تھا۔ یوں تو اُن کے سبھی تصنیفی کام وقیع ہیں مگر سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ اور سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ کو نسبتاً زیادہ شہرت ملی۔ متعدد جلدوں پر محیط یہ سلسلے باہمت علماے حدیث کی کاوشوں سے اُردو قارئین تک بھی پہنچ گئے ہیں۔

علامہ البانی کی سلسلۂ احادیث صحیحہ کا زیرنظر اختصار اُن کے شاگرد کا مرتب کردہ ہے۔ ۳ہزار سے زائد صحیح احادیث کو ۲۸ عنوانات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اخلاق و آداب، عقیدہ و ایمان، عبادت و تجارت، حکومت و امارت، طہارت و نظافت اور سفروجہاد کے موضوعات سے متعلق احادیث کا رواں ترجمہ کیا گیا ہے۔ مرتب نے اصل کتب کی احادیث میں سے انتخاب کرکے احادیث کی پوری اسناد کے بجاے سند کا اختصار درج کیا ہے۔ اس مجموعے میں شامل احادیث کا نمبرشمار نیا ہے، اصل کتاب کے مطابق نہیں، تاہم حواشی میں سلسلۂ صحیحہ کا حدیث نمبر درج کردیاگیا ہے۔

علامہ الالبانی کے اس مجموعۂ احادیث میں صحاحِ ستہ کے علاوہ حدیث کے معروف اور بنیادی مجموعوں سے احادیث لی گئی ہیں۔ ایک ہی جِلد میں ان تمام مباحث کو سمیٹ دیا گیا ہے۔ ناشر (اور مترجم) نے اس ضخیم مجموعے کو اِعراب (زیر، زبر، پیش) سے آراستہ کرنے میں غیرمعمولی محنت سے کام لیا ہے۔ اس بنا پر متن احادیث کو صحت کے ساتھ پڑھنا آسان ہوگیا ہے۔ تخریجِ احادیث کو مناسب حد تک مختصر رکھا گیا ہے۔ تخریج کا متن کے اندر نمبر اُردو کے بجاے عربی عبارت پر دیا جاتا تو بہتر ہوتا۔ احادیث کی تخریج میں درجنوں کتب کے نام آئے ہیں، کتاب کے آخر میں کتابیات دینی چاہیے تھی۔ مترجم نے اتنے بڑے مجموعے کو اُردو قالب میں ڈھالنے کی صبرآزما مشقت اٹھائی۔یہ مجموعہ اپنی جامعیت اور صحت کی بنا پر بہت مفید ہے۔ (ارشاد الرحمٰن)


Who Killed Karkare? [کرکرے کا قاتل کون؟]، ایس ایم مشرف، ناشر: فیرس میڈیا اینڈ پبلشنگ لمیٹڈ،۸۴- ڈی، ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر نئی دہلی- صفحات: ۳۳۵، مع اشاریہ۔ قیمت: ۱۵ ڈالر۔

ہمسایہ ملک بھارت کی دنیا الگ ہے اور چہرہ بھی وہ نہیں، جو ظاہر میں دکھائی دیتا ہے۔ اس بات کی تصدیق زیرنظر کتاب کرتی ہے۔ اگرچہ اس کا عنوان یہ ہے کہ ’’کرکرے کا قاتل کون؟‘‘  مگر سچی بات ہے کہ اس بے گناہ، فرض شناس اور پیشہ ورانہ دیانت کے حامل افسر کے قتل نے، اُن خوف ناک مناظر سے پردہ ہٹایا ہے، جنھیں ’سیکولرزم‘ ، ’جمہوریت‘ اور ’روشن خیالی‘ کے نام پر بھارتی نیتائوں نے چھپا رکھا تھا۔

مصنف بھارتی صوبہ مہاراشٹر کے سابق انسپکٹر جنرل پولیس ہیں۔ اپنی پیشہ ورانہ فرض شناسی کے باعث اُن کی حب الوطنی بھارت میں کسی شک و شبہے سے بالاتر ہے۔ جب انھوں نے دیکھا کہ ہیمنت کرکرے جیسے دیانت دار افسر نے مذہبی یا نسلی تعصب سے بالاترہوکر، ممبئی ریل بم دھماکے (۱۱ جولائی ۲۰۰۶ئ)، مالیگائوں بم دھماکے (۸ستمبر ۲۰۰۶ئ)، سمجھوتا ایکسپریس بم دھماکے (۱۹فروری ۲۰۰۷ئ)، اجمیردرگاہ دھماکے (۱۱؍اکتوبر ۲۰۰۷ئ)، سلسلہ وار دھماکے (۲۳ نومبر ۲۰۰۷ئ)، جے پور دھماکے (۱۳ مئی ۲۰۰۸ئ)، احمدآباد بم دھماکے (۲۶جولائی ۲۰۰۸ئ)، دہلی بم دھماکے (۱۳ستمبر ۲۰۰۸ئ) وغیرہ کی تحقیقات میں عجیب و غریب مماثلت دیکھتے اور ایک ہی نوعیت کا تال میل پاتے ہوئے یہ متعین کیا:’’ان دھماکوں کے پیچھے مسلمانوں کا ہاتھ نہیں ہے‘‘، بلکہ کرکرے نے واضح طور پر اشارہ بھی کیا کہ اس بہیمانہ قتل و غارت کے ذمہ دار کون ہیں، تو انھوں نے اس حقیقت کو   بے نقاب کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسی نشان دہی نے ہندو قوم پرستوں کے ہاتھوں ہیمنت کرکرے کو  ممبئی میں قتل کرا دیا، تاکہ سچائی کو دیکھنے والی آنکھ اور اسے بیان کرنے والی زبان ہمیشہ کے لیے بندکردی جائے۔

مشرف نے اپنی اس تحقیقی کتاب میں بڑی جاں سوزی سے اس فسطائی ذہنیت کا کھوج لگایا ہے، جس نے انیسویں صدی سے لے کر آج تک ہندستان میں ہندو مسلم فسادات کی آگ دہکا رکھی ہے۔ انھوں نے اپنے طویل محکمانہ تجربے، گہرے مشاہدے، وسیع سماجی مطالعے اور بے شمار فسادات پر لکھی جانے والی تحقیقاتی رپورٹوں کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ بھارت میں ہندو قوم پرستی، اصل میں برہمنیت کا دوسرا روپ ہے، اور یہی اس فساد کی جڑ ہے، اور اس نے بھارت کے امن و سکون کو برباد کر رکھا ہے۔ ان واقعات کے پیچھے سازش، سنگ دلی، سرکاری محکموں خصوصاً انٹیلی جنس بیورو میں موجود ’ہندوتا‘ کے علَم برداروں کا اتحاد کام کر رہا ہے اور ہندستان کے ۲۰کروڑ مسلمانوں کو ہر آن دہشت کے دبائو میں رکھ کر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل چاہتا ہے۔

بھارت میں یہ کتاب ایک سال کے اندر تین بار شائع ہوچکی ہے۔ ہمارے ہاں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جن کے لیے دو قومی نظریہ کوئی پایدار اصول یا مستقل نظریہ نہیں، فقط ایک وقتی ردعمل کا نام ہے، وہ اگر اس کتاب کو پڑھیں گے تو ان پر چودہ طبق روشن ہوجائیں گے۔ وہ لوگ جن کی نظر کو بھارتی فلموں کی چکاچوند نے چندھیا دیا ہے، اگر اس کا مطالعہ کریں گے تو جان لیں گے کہ ’دوستی‘ اور ’ایک ہی کلچر‘ کی باتیں فقط سُراب ہیں، اور ان پر بھارت کے نام نہاد جمہوری سیکولرزم کی قلعی کھل جائے گی۔ یہ کتاب اگرچہ ایک پولیس افسر کے قتل سے منسوب ہے، مگر اس میں بھارتی تعصب اور مسلم دشمنی کی تاریخ کی زندہ تصویر اُبھر کر سامنے آجاتی ہے۔ (سلیم منصور خالد)


۵-اے ذیلدار پارک، حصہ اول و دوم۔ مرتبین: مظفربیگ،حفیظ الرحمن احسن۔ ناشر: البدر پبلی کیشنز، راحت مارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات (علی الترتیب): ۳۲۳، ۴۶۱۔ قیمت : ۲۲۰ ، ۲۵۰ روپے۔

لاہور کی نواحی بستی اچھرہ میں واقع ۵-اے ذیلدار پارک، نہ صرف مولانا مودودی مرحوم کی رہایش گاہ تھی بلکہ اسی عمارت میں ۲۷برس تک جماعت اسلامی پاکستان کا مرکز بھی قائم رہا۔ اس مناسبت سے نہ صرف پاکستان، بلکہ دنیا بھر سے متلاشیانِ حق مولانا سے رہنمائی کی غرض سے ۵-اے، ذیلدار پارک کا رُخ کیا کرتے تھے۔

مولانا مودودیؒ کا مدتوں یہ معمول رہا کہ نمازِ عصر کے بعد اپنے گھر (۵-اے، ذیلدارپارک) کے سبزہ زار میں ملاقاتیوں کے درمیان آکر بیٹھ جاتے اور لوگوں کے سوالات اور اِشکالات کے جواب دیتے۔ سوال جواب کی اس محفل میں بڑے قیمتی نکات سامنے آتے مگر ابتدائی زمانے میں میں انھیں محفوظ کرنے کی کوئی صورت نہ تھی۔ مظفربیگ (مرحوم)، مدیر آئین نے اپنے قارئین کو بھی صاحبِ تفہیم القرآن کی اس مجلس سے مستفید کرنے کا عزم کیا۔ پہلے پہل ان کے ایما پر    رفیع الدین ہاشمی ان نشستوں میں ہونے والی گفتگو کو مرتب کرنے لگے۔ پہلا کالم ۲۷ جون ۱۹۶۵ء کو آئین میں شائع ہوا۔ بعدازاں جناب حفیظ الرحمن احسن اور پھر خود مظفربیگ مرحوم نے بھی وقتاً فوقتاً یہ ذمہ داری ادا کی۔آئین کا یہ سلسلہ بہت مقبول ہوا اور لوگ اس کے منتظر رہتے۔

اس مجلس میں دینی حقائق، فقہی مسائل اور سائنس و فلسفے جیسے موضوعات بھی چھڑجاتے اور کچھ عام قسم کی سرسری باتیں بھی ہوتیں، نیز ملکی حالات بھی زیربحث آتے: ایوب خان کے    زمانۂ اقتدار کے آخری ایام، جنرل یحییٰ خان کے ۱۹۷۰ء کے عام انتخابات، دستور سازی کے مسائل، جماعت اسلامی کی انتخابی پالیسی اور جدوجہد، شیخ مجیب الرحمن کے چھے نکات کا ہنگامہ،  سقوطِ مشرقی پاکستان کا سانحہ، ذوالفقارعلی بھٹو کا دورِ حکومت اور اسلامی سوشلزم، بھٹو کے خلاف عوامی احتجاج اور تحریک نظامِ مصطفیؐ، مولانا مودودی سے بھٹو کی ملاقات اور ان کی تجاویز وغیرہ۔ اس طرح کتاب ہذا میں ہماری تاریخ کے بڑے نازک اور ہنگامہ خیز دور کی عکاسی ہوتی ہے۔

مولانا مودودیؒ کے سوال و جواب پر مبنی تین مجموعے ۵-اے ذیلدار پارک کے زیرعنوان تین حصوں میں شائع کیے گئے تھے۔ زیرتبصرہ کتاب ہلکے پھلکے انداز میں علمی نکات اور عملی معاملات پر ایک قیمتی مجموعہ ہے۔ اس سے مولانا مودودی کی شخصیت کے منفرد پہلو، نیز تحریکی جدوجہد کے مختلف مراحل کی روداد بھی سامنے آتی ہے۔ تین حصوں پر مشتمل یہ کتاب سالہا سال سے چھپتی چلی آرہی ہے۔ اب ناشر نے کتاب کے پہلے اورتیسرے حصے کو شائع کیا ہے، مگر دوسرا حصہ کسی وجہ سے شائع نہیں کیا جاسکا تو انھوں نے تیسرے حصے پر ’دوم‘ لکھ دیا ہے۔ یہ ایک نامناسب بات ہے، اور اس سے قارئین اُلجھن کا شکار ہوں گے۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس کی وضاحت کی ضرورت تھی۔ (عمران ظہور غازی)


گوانتانامو میں پانچ سال، مراد کرناز، اُردو ترجمہ: ریاض محمود انجم۔ ناشر: منشورات، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون:۳۵۴۳۴۹۰۹-۰۴۲۔ صفحات: ۲۸۸۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔

مُراد کرناز، کی یہ روداد صرف ترک نژاد جرمن نوجوان کی آپ بیتی ہی نہیں بلکہ گوانتانامو جیل میں بدترین تشدد کا نشانہ بننے والے ہزاروں افراد کی رودادِ زندگی بھی ہے۔ تہذیب و تمدن کی دعوے دار عالمی طاقتوں نے افغانستان سے سیکڑوں افراد کو صرف شبہے میں گرفتار کیا اور مجرموں تک پہنچنے کی کوشش میں معصوم شہریوں پر جس قسم کے مظالم توڑے گئے اُس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے قلم کانپ اُٹھتا ہے۔ مُراد کرناز کو ۳ ہزار ڈالر کے عوض فروخت کیا گیا تھا۔ اُس نے ۱۶۰۰ دن اس طرح کاٹے کہ اُسے جنسی تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا، قیدتنہائی میں رکھا گیا، سونے نہ دیا گیا، انتہائی گرم اور انتہائی ٹھنڈے کمروں میں رہنے پر مجبور کیا گیا، لیکن اُس کا عزم و ارادہ کمزور نہ ہوا۔ وہ  کس جرم کوقبول کرنے کا اعلان کرتا، جب کہ اُس نے کوئی جرم کیا ہی نہیں تھا! گوانتانامو جیل میں قیدیوں پر اس قدر ظلم و تشدد کیا گیا کہ ان میں سے درجنوں قیدی ہلاک ہوگئے اور سیکڑوں کی یہ حالت ہوگئی کہ وہ اپنے آپ کو موت کے شکنجے میں جکڑا ہوا پاتے۔

ریڈکراس کی کوششوں سے پانچ برس بعد مُراد کرناز، اپنے گھر والوں کے درمیان لوٹ آیا۔ مُراد کرناز سے تفتیش کس طرح کی جاتی تھی، اُس کا ایک انداز یہ تھا: ’’اُنھوں نے برقی سلاخ میرے پیروں کے تلووں کے نیچے رکھ دی، بیٹھے رہنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا، ایسے معلوم ہوتا تھا کہ جیسے میرا بدن خود بخود اُچھل رہا ہو۔ میں نے برقی رَو اپنے پورے بدن میں سرایت کرتے ہوئے محسوس کی۔ میں سخت اذیت اور تکلیف میں مبتلا تھا۔ مجھے اپنے بدن میں گرمایش، جھٹکے اور اینٹھن محسوس ہوتی۔ میرا خیال تھا کہ میں اس اذیت میں مر جائوں گا‘‘.... ایک اور قیدخانے کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’یہ ایک ایسا قیدخانہ تھا جہاں کسی قسم کی خلوت کا تصور نہ تھا۔ہماری گفتگو پر بھی پابندی تھی اور پھر ایک مضحکہ خیز قانون یہ تھا کہ پہرے داروں سے گفتگو تو درکنار، ان کی طرف دیکھ بھی نہیں سکتے تھے۔ مزید ستم یہ کہ ہم ریت میں اپنی اُنگلیوں سے کوئی خیالی تصور یا تحریر بھی نقش نہیں کرسکتے تھے بلکہ مسکرانا بھی قوانین کی خلاف ورزی میں شامل تھا‘‘۔ مترجم ریاض محمود انجم کے ترجمے میں طبع زاد تحریر جیسی روانی ہے۔ (محمد ایوب منیر)


تعارف کتب

  • محسن نسواں ، شگفتہ عمر۔ ناشر: دعوۃ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد۔ صفحات: ۴۰۔ قیمت: ۳۲ روپے۔ [معاشرے میں عورت کا کردار اور اس کے حقوق کا تعین ہمیشہ افراط و تفریط کا شکار رہا ہے۔ فی الواقع محسنِ نسواں اگر کوئی ہستی ہے تو نبی کریمؐ کی ہستی ہے جس نے خواتین کے لیے ہر دائرے میں حقوق و فرائض کی ادایگی میں وہ توازن قائم کیا جس کی نظیر تاریخِ انسانی پیش کرنے سے قاصر ہے۔ زیرنظر کتابچے میں سرورِعالمؐ کے خواتین پر احسانات کے واقعات کو ۳۷ عنوانات کے تحت دل نشین اور دل کش اسلوبِ بیان میں پیش کیا گیا ہے۔]
  • عباد الرحمن ، پروفیسر الطاف طاہر اعوان۔ ناشر: اذانِ سحر پبلی کیشنز، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ ص ۳۲۰۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔ [اللہ کے محبوب بندوں کی صفات، عبادات، ذمہ داریوں اور بشارتوں کا بیان۔ اس غرض کے لیے پورے قرآن مجید کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس موضوع پر ایک جامع مطالعہ اپنے جائزے اور عمل کے لیے عباد الرحمن کی صفات کا آئینہ فراہم کر دیا گیا ہے۔ بقول مؤلف: اس کا مقصد مطالعہ کرنے والے کے دل میں ارتعاش پیدا کرنا اور انقلاب کے لیے تحریک بیدار کرنا ہے۔]

سیّاف محمود ،گوجرانوالہ

اٹھارھویں ترمیم پر ’اشارات‘ (مئی ۲۰۱۰ئ)بہ یک وقت دو قسم کا رنگ لیے ہوئے تھے: پہلا یہ کہ متوازن، جامع، منصفانہ نقطۂ نظر کے حامل، جن پر گروہی تعصب کی پرچھائیں تک نہیں بلکہ توازن کے ساتھ حقائق کو پیش کیا گیا ہے۔ دوسرا یہ کہ منتخب اداروں کی کتنی زبردست اہمیت ہے، اگر وہاں پر نمایندگی نہ ہو یا نمایندگی  کم ہو تو ملک و ملّت کے مستقبل کے لیے کیسے خطرات پیدا ہوسکتے ہیں۔ مجموعی طور پر یہ ایک یادگار تحریر تھی۔


احمد علی محمودی ،حاصل پور

’اٹھارھویں ترمیم- خوش آیند پیش رفت‘ (مئی ۲۰۱۰ئ) اپنے موضوع پر جامع اور مفصل تجزیہ ہے۔ تاہم، اس تحریر کے آخر میں ایک عنوان کے تحت ’جماعت اسلامی کا نقطۂ نظر‘ بھی پیش کیاگیا ہے۔ اس کے مطالعہ اور تحریر کے عنوان کو اگر ہم مدنظر رکھیں تو اٹھارھویں ترمیم کو خوش آیند پیش رفت کا عنوان دینا مناسب نہیں۔  بہت سے اہم نکات کمیٹی کی تائید حاصل نہ کرسکے۔


عائشہ خانم ، ملتان

ترجمان القرآن میں الحمدللہ ، دین کے فہم کے ساتھ معاش اور سماج کے مطالعے کے لیے مفید تحریریں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ شمارہ مئی میں خصوصاً ’بھارت اور عالمِ اسلام‘ تو آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔ کیا عرب دنیا اس صورتِ حال سے بے خبر ہی رہے گی؟ اسی طرح لوڈشیڈنگ پر بھی اچھا معلوماتی مضمون شائع کیا گیا ہے۔


صفدر حسین ، مری

’اصلاح کا کام کب تک؟‘ (اپریل ۲۰۱۰ئ) ۶۰ سال پہلے کی یہ تحریر مایوسی کی جڑیں کاٹ دینے والی ہے، اور نعیم صدیقی مرحوم کی یاد بھی تازہ ہوگئی۔ ’اسلام اور ماحولیات‘ (اپریل ۲۰۱۰ئ) اپنے موضوع پر ایک  جامع تحریر ہے۔ مضمون پڑھ کر اندازہ ہوا کہ ماحولیات کا موضوع محض انسانی حقوق کی تنظیموں کا ہی نہیں ہے بلکہ ماحول کا تحفظ اللہ کا نائب ہونے کے ناطے ہرمسلمان کا فرض ہے۔ اُمت مسلمہ کو اس کے لیے اپنا کردار اداکرناچاہیے۔ ایک توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ اسی مضمون میں ترجمہ سورئہ احزاب کا لکھا گیا ہے لیکن حوالہ سورئہ جن کا دیا گیا ہے (ص ۶۵)۔ اسی طرح سورئہ حجرات کی آیت کے ترجمے کے سامنے سورۃ البقرہ لکھا گیا ہے   (ص ۷۴)۔ اگرچہ ایسا سہواً ہوا ہے، تاہم اس حوالے سے بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔


حافظ محمد ایوب ، اسلام آباد

مولانا معین الدین خٹک سے ایک بار پوچھا کہ تحریک کے ابتدائی کارکنان کے بارے میں کچھ بتائیں۔ کچھ سوچ کر بولے۔ ۱۹۵۲ء کراچی میں جماعت ِ اسلامی کا اجتماعِ عام منعقد ہوا۔ رفقا کے قافلے بسوں اور ٹرینوں کے ذریعے جوق در جوق کراچی کی طرف چل پڑے۔ موضع شیخ سلطان ٹانک (سرحد) کے تین ساتھیوں نے جو بے انتہا غریب تھے، اجتماع میں شرکت کا ارادہ کرلیا۔ کسی دوسرے ساتھی سے نہ مالی تعاون لیا اور نہ جماعت کے بیت المال ہی پر بوجھ بنے۔ یہ مذکورہ تینوں ساتھی کراچی کی جانب پیدل چل پڑے۔ ایک آنہ کی دو روٹیاں اور جی ٹی روڈ پر ایسے ہوٹل بھی ہوا کرتے تھے جہاں آنہ روٹی دال مفت بھی مل جایا کرتی تھی۔ دن بھر سفر کرتے، رات کسی مسجد میں نمازِ عشاء کے بعد آرام کرتے اور نماز فجر پڑھ کر سفر جاری رکھتے۔ استقبالیہ کیمپ سہراب گوٹھ لبِ سڑک تھا۔ ناظم استقبالیہ نے آمدہ قافلہ سے دریافت کیا کہ جناب آپ کہاں سے اور کیسے پہنچے؟ جواب سن کر کیمپ میں موجود کارکنان حیران رہ گئے۔ اجتماع گاہ میں قائد تحریک سیدمودودیؒ کو اطلاع  دی گئی۔ مولانا استقبالیہ میں تشریف لائے اور اس قافلے کا خود استقبال کیا۔ اِس قافلے کو قافلۂ سخت جان کا نام سیدصاحب نے دیا۔ ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھ گئے۔ سب کی آنکھوں سے موتی چھلک پڑے: ’’یااللہ! یہ تیرے بندے صرف تیری رضا اور تیرے دین کی بقا کے لیے جوتکالیف اُٹھا رہے ہیں ان کی قربانیوں کو قبول فرما، آمین!

صحیح تصورِ دعوت

جن اصحاب پر دعوت کا یہ تصور اپنی پوری وسعتوں کے ساتھ واضح نہیں ہے، اُن کو جماعت اسلامی کی بہت سی سرگرمیاں دعوت کے ماورا بلکہ دعوت سے متضاد معلوم ہوتی ہیں، اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ دعوتِ دین کو  پسِ پشت ڈال کر اسے ایک گونہ کمزور کر کے کچھ دوسرے سیاسی کام کیے جا رہے ہیں۔ اس قسم کے حضرات جماعت اسلامی کی دعوت کے کسی نئے مرحلے میں داخل ہونے پر بہت اُپراتے ہیں کہ یہ کیا ہونے لگا۔ چنانچہ جب جماعت ’مطالبۂ نظامِ اسلامی‘ کی ابتدائی تحریک لے کر آگے چلی تو بھی ان کو کھٹک ہوئی، پھر جب انقلابِ قیادت کی صدا بلند کی گئی تو اُس وقت بھی ان کو الجھن ہوئی، پھر جب شرکتِ انتخاب کا فیصلہ کیا گیا تو بھی ان کو شکایت ہوئی کہ جماعت دین سے سیاست کی طرف لڑھک گئی ہے۔ علیٰ ہذا القیاس، اب جب ’احتجاجی مظاہرے‘ کا نیا مرحلہ سامنے آیا تو اس پر اِن حضرات کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کہ کجا دعوتِ اسلامی اور کجا احتجاجی مظاہرے، حالانکہ یہ سب کچھ عین جائز اور حق ہے، اور یہ سب کچھ دعوتِ دین سے الگ نہیں۔

یہ دعوتِ دین کا تصور جب تک درست ہوکر اپنی پوری وسعتوں کے ساتھ ذہنوں میں جاگزیں نہ ہوگا، ہمارے بہت سے معترضین اور خیرخواہ جماعت اسلامی کے بارے میں صحیح راے قائم کرنے پر قادر نہ ہوسکیں گے۔ خدا جانے کہاں سے یہ عجیب و غریب تخیل بھی دلوں میں آگھسا ہے کہ جو دین کی دعوت دے، وہ بس دعوت ہی دے، کچھ اور نہ کرے۔ ایک داعی جماعت کے لیے یہ جائز نہیں سمجھا جاتا کہ وہ اقتدار پر تنقید کرے یا اُس سے کسی اجتماعی حق کا مطالبہ کرے، یا اُس کے مظالم کے خلاف احتجاج کرے۔ اس نظریے کے لیے خود دین میں کوئی دلیل نہیں ہے، بلکہ درحقیقت یہ بھی ایک نتیجہ ہے، جامد مذہبیت سے متاثر چلے آنے کا...

درحقیقت یہ بات پلّے باندھ لینے کی ہے کہ دعوتِ دین کے معنی یہ ہیں کہ اسلام کے نظام کو برپا کرنے کے لیے جتنے لوازم درکار ہوں ان کو فراہم کیا جائے اور جتنی رکاوٹیں حائل ہوں اُن کو راستے سے ہٹا دیا جائے۔ ان دونوں مقاصد کے لیے جائز حدود میں جو جو کچھ بھی اقدام کیے جائیں گے وہ سب دعوتِ دین کی تعریف میں داخل ہوں گے۔ ان میں سے کسی کے متعلق یہ نہیں کہاجاسکتا کہ یہ اقدام دعوت کو پسِ پشت ڈالنے والا ہے۔ یہ ہے صحیح تصورِ دعوت، اور اس تصورِ دعوت کے ساتھ کام کرنے والی جماعتوں اور تحریکوں کو بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ (’اشارات‘، ادارہ، ترجمان القرآن، جلد۳۴، عدد ۱،رجب ۱۳۶۹ھ، جون۱۹۵۰ئ، ص ۶-۸)