اخبار اُمت


عالمِ اسلام پر امریکی یلغار نے ایک طوفان کی صورت اختیار کرلی ہے۔ یوں تو ہر مسلمان ہی مشکوک اور مشتبہ اور ہر مسلم ملک ’خطرناک‘ سمجھا جا رہا ہے مگر بعض خطے خصوصی توجہ کے مستحق قرار دیے گئے ہیں۔ یمن بھی ان میں سے ایک ہے۔ پاکستان کی طرح یمنی حکومت امریکا کی حامی‘ اتحادی اور نام نہاد ’خاتمۂ دہشت گردی‘ منصوبے میں فعال کردار ادا کرنے کی سنجیدہ کوشش کر رہی ہے۔ مگر امریکی قیادت کو ابھی تک مکمل اطمینان اور یک سوئی نہیں ہے۔       وقتاً فوقتاًذرائع ابلاغ پر چھائے ہوئے یہودی اور امریکی انتظامیہ میں گھسے ہوئے ان کے شاگرد یہ شوشہ بھی چھوڑتے رہتے ہیں کہ عالمِ جدید کے خطرناک ترین ’دہشت گرد‘ اسامہ بن لادن کا آبائی مسکن یمن ہی میں ہے۔ یہ اپنی جگہ ایک حقیقت بھی ہے کہ بن لادن خاندان سعودی عرب کے بہت سے دیگر طاقتور‘ مال دار اور بااثر خاندانوں کی طرح اصلاً حضرموت (یمن) سے تعلق رکھتا ہے مگر یمن کو نشانۂ انتقام بنانے کے لیے یہ دور کی کوڑی ہے۔

سعودی عرب کے جنوب میں واقع ۵ لاکھ ۲۸ ہزار مربع کلومیٹر رقبہ اور ایک کروڑ ۷۰لاکھ سے زاید آبادی پر مشتمل جمہوریہ یمن میں اس وقت مختلف علاقوں میں حکومتی فوج اور  مسلح سرکاری اہل کاروں کا مقابلہ سرکاری ذرائع کے مطابق ’القاعدہ‘ کے جنگجوئوں سے جاری ہے اور دونوں جانب کا بھاری جانی نقصان ہو رہا ہے۔ اس شورش کا مرکز یمن کے صدر مقام صنعاء سے تقریباً ۱۵۰ کلومیٹر شمال کی جانب صعدہ کے صوبے میں واقع ہے جو قبائلی مزاج‘ روایات اور پہاڑی جغرافیائی ماحول رکھتا ہے۔ مران کے پہاڑ امریکا مخالف عناصر کی پناہ گاہ ہیں اور ایک مذہبی رہنما حسن بدرالدین الحوثی ان کی قیادت کر رہا ہے۔ وہ زیدی شیعہ مسلک کا نمایندہ ہے اور حکومتی الزامات کے مطابق اس کا رابطہ ایک جانب لبنان کی شیعہ جہادی تنظیم حزب اللہ سے اور دوسری جانب اسامہ بن لادن سے ہے۔ یمن کی حکومت اس خانہ جنگی میں وسائل‘ مالی اور افرادی قوت ضائع کرنے کے ساتھ راے عامہ کی نفرت کا بھی شکار ہو رہی ہے‘ مگر امریکی پالیسی سازوں کے نزدیک ابھی   صدر علی عبداللہ صالح کی حکومت القاعدہ کو موثرانداز میں کچلنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔

الحوثی کا تعلق حزب اللہ سے جوڑنے کا دعویٰ خود صدرِ یمن نے علما سے ملاقات کے دوران کیا تھا مگر حزب اللہ کے لیڈر حسن نصراللہ نے کھلے عام اس کی تردید کر دی ہے (بحوالہ انٹرپریس نیوز سروس‘ روزنامہ ڈان‘ ۹ جولائی ۲۰۰۴ئ)۔ جہاں تک القاعدہ سے ان کا ناطہ جوڑنے کا معاملہ ہے وہ بھی محل نظر ہے اور امریکی و برطانوی ایجنسیوں کی عراقی ہتھیاروں کے متعلق رپورٹوں کی طرح نہایت غلط معلومات پر مبنی نظرآتاہے۔ الحوثی اور القاعدہ کا نام جن لوگوں کو دیا گیا ہے‘ ان کے خیالات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔  الحوثی کے پورے سیٹ اپ کا جو تعارف اسلام آن لائن پر دستیاب ہے وہ ان دعوئوں کا منہ چڑاتا ہے۔ ہاں یہ درست ہے کہ الحوثی کی طرح یمن کے سنی علما بھی امریکیوں سے بے پناہ نفرت کرتے ہیں اور اس کا اظہار بھی وہ کھلے عام کرتے رہتے ہیں۔ ان کو القاعدہ اور اسامہ کے ساتھی شمار کر کے پکڑا بھی گیا ہے اور گوانتاناموبے کے علاوہ افغانستان‘ مصر اور خود امریکا میں بھی ان کی نظربندی کی خبریں اب ساری دنیا میں گونج رہی ہیں۔

۱۱ستمبر کے واقعات کے بعد یمن پر خصوصی توجہ دی گئی۔ پکڑدھکڑ فوراً شروع ہوگئی۔ ردعمل کے طور پر یمن میں امریکی مشنریوں کو یمنی عوام نے قتل کیا‘ امریکی بحری جہاز کول اور فرنچ ٹینکر لمبرگ پر حملے ہوئے۔ چنانچہ القاعدہ کے شبہے میں کئی لوگوں کو پکڑ کر امریکا کے حوالے کر دیا گیا۔ اب ان میں سے ۱۵ کی رہائی کے لیے امریکی عدالتوں میں مقدمہ درج کرا دیا گیا ہے۔ عدالت نے سماعت کی اجازت بھی دے دی ہے۔ (ڈان‘ ۱۷ جولائی ۲۰۰۴ء )

یمنی پارلیمنٹ میں اگرچہ صدر کی جماعت حکمران پیپلز کانگریس کو اکثریت حاصل ہے مگر اپوزیشن بھی خاصی مضبوط ہے اور اس کے نمایندگان حکومتی ارکان سے کہیں زیادہ بیدارمغز‘ محنتی اور تعلیم یافتہ ہیں۔ پھر حکومت کی امریکا نواز پالیسی نے اسلامی گروپ اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں کو اپنے سیاسی منشور میں کئی امور میں اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے۔

قطر کے’اسلام آن لائن‘ نیٹ ڈاٹ‘‘ کی ویب سائٹ کے مطابق: ’’وزیر داخلہ رشاد العلیمی نے بیان دیا کہ حالیہ جھڑپوں میں صعدہ کے علاقے میں ۱۱۸ افراد قتل ہوگئے ہیں۔ یہ جھڑپیں الحوثی کے مسلح دستوں کے مقابلے پر ۲۰ جون کو شروع ہوئی تھیں اور ابھی تک جاری ہیں۔ ان جھڑپوں میں ۳۲ جوان اور افسران کام آئے ہیں‘ جب کہ ۸۶ انتہاپسند بھی مارے گئے ہیں‘‘۔

جب وزیرداخلہ یہ بیان دے رہے تھے اس وقت فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی نے اطلاع دی کہ الحوثی کے حامیوں نے جھڑپوں کے دوران سات مزید حکومتی کارندمے قتل کر دیے ہیں۔ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اور معلوم نہیں اس کا انجام کیا ہوگا۔ وزیرداخلہ نے اپنے پارلیمانی بیان میں یہ بھی کہا کہ الحوثی کے تمام ساتھیوں کو ماہانہ ۲۰۰ ڈالر معاوضہ ملتا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ کوئی خطرناک بیرونی قوت ان کی مالی امداد کر رہی ہے۔ وزیرموصوف اس کا کوئی ٹھوس ثبوت پارلیمان میں پیش نہ کر سکے۔ حزب مخالف کے رکن پارلیمان سلطان الفنوانی نے مطالبہ کیا ہے کہ اس نازک اور اہم مسئلے کا جائزہ لینے کے لیے پارلیمانی کمیٹی قائم کی جائے تاکہ حقائق سامنے آسکیں۔ حکومت نے ایک پارلیمانی کمیٹی مقرر کردی ہے جو الحوثی سے مذاکرات کرے گی اور ہتھیار ڈالنے کی ترغیب دے گی۔

حسن بدر الدین یمن میں تو کافی عرصے سے جانی پہچانی شخصیت تھی مگر اسے زیادہ عالمی شہرت حالیہ واقعات ہی سے ملی ہے۔ یہ سیاسی جماعت حزب الحق میں شامل تھا۔ اس کی عمر اس وقت ۴۵ سال ہے۔ حزب الحق کے ٹکٹ پر وہ ۱۹۹۳ء سے ۱۹۹۷ء تک رکن پارلیمان رہا۔ پھر اس نے سیاسی جماعت چھوڑ کر ’الشباب المومن‘ کے نام سے ایک الگ تنظیم قائم کرلی۔ ان کا نعرہ ’’مرگ بر امریکا‘ مرگ بر اسرائیل‘ لعنت بر یہود‘ فتح اسلام‘‘ تھا۔ پہلے یہ تعلیمی اداروں میں منظم ہوئے۔ پھر صعدہ کے علاقے میں دینی مدارس اور جامعات قائم کیں۔ شروع میں انھیں نہ صرف بے ضرر تنظیم سمجھا گیا بلکہ حکومت نے ان کی تعلیمی ضروریات کے لیے ان سے تعاون بھی کیا‘ خود صدرِمملکت نے حال ہی میں اس کا اعتراف بھی کیا ہے۔

قدس پریس کے حوالے سے اسلام آن لائن نے بیان کیا ہے کہ اسلامی جماعت’ ’التجمع الیمنی للاصلاح‘‘ کے اثرات زائل کرنے اور شیخ عبدالمجید زندانی کے سیاسی رسوخ کو محدود کرنے کے لیے حکومت کچھ عرصے سے ایسی مذہبی تنظیموں کی سرپرستی کر رہی تھی۔

عراق میں مقتدیٰ الصدر بھی اچانک جہادی منظر پرنمودار ہوا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے چھاگیا۔ وہ ابھی ۴۰سال سے بھی کم عمرکا نوجوان ہے۔ اسی طرح یمن میں بھی الحوثی چھا گیا ہے۔ اس کی عمر ۴۵سال ہے۔ دونوں علمی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ یمنی وزیرداخلہ کے بیان مطابق الحوثی کو مہدی المنتظرمانا جاتا ہے اور اس کے پیروکار اس کی مکمل وفاداری و اطاعت کا عہد کرتے ہیں۔

یہ بات دل چسپ ہے کہ ۱۹۹۴ء کی یمنی خانہ جنگی اور سیاسی بدامنی کے خاتمے کے لیے جن قوتوں نے حکومت کے ساتھ دیا تھا اور یمن کے اتحاد کے نعرے کو عوامی پذیرائی ملی تھی‘ وہ سب حکومت کی موجودہ پالیسی کے شدید مخالف ہیں۔ الاصلاح کے بانی رہنما اور یمن کی معروف یونی ورسٹی جامعہ الایمان کے روحانی پیشوا شیخ عبدالمجیدزندانی اگرچہ یمن کے اندر مسلح جدوجہد کے مخالف ہیں مگر وہ سیاسی مظاہروں کے ذریعے امریکا کے خلاف عوام کو سڑکوں پر لانے اور بڑے بڑے احتجاجی جلسوں کی مدد سے عراقی عوام کی حمایت کے فریضے سے کبھی غافل نہیں رہے۔ وہ اسی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جس سے صدرِ مملکت کا نسلی تعلق ہے اور تجزیہ نگاروں کی آرا اس بارے میں مختلف ہیںکہ دونوںمیں سے اس بہت بڑے قبیلے کی اکثریت کس کے ساتھ ہے۔ صنعاء اور دیگر شہروں میں الاصلاح کے پلیٹ فارم سے عوامی مظاہرے اور ملین مارچ کی کامیاب حکمت عملی اور قوت کا مظاہرہ الاصلاح کی قوت اور شیخ زندانی کی کرشمہ ساز شخصیت کا تعارف اور اعتراف ہے۔ شیخ زندانی نے عملاً جہادِ افغانستان میں حصہ لیا تھا اور اسامہ بن لادن کے قریب ترین ساتھی بلکہ اکانومسٹکے الفاظ میں روحانی رہنما کا درجہ رکھتے ہیں۔

شیخ عبدالمجید زندانی بارہا پاکستان آچکے ہیں۔ ان کا سیاسی منشور بالکل واضح ہے۔ وہ زیرزمین سرگرمیوں یا مسلمان معاشرے میں مسلح جدوجہد کو درست قرار نہیں دیتے۔ یمن میں آبادی کی کل تعداد سے تین گنا بندوقوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے اور یمنی نظام نے اس کی اجازت دے رکھی ہے۔ اکانومسٹ کے نمایندے مقیم قاہرہ نے ۴ جنوری ۲۰۰۳ء کی اپنی ایک رپورٹ کا آغاز ان الفاظ سے کیا تھا: ’’دنیا کا سب سے زیادہ بدقسمت شخص وہ ہے جسے شیر پر سواری کرنی پڑے یا پھر اسے یمن کا حکمران بنا دیا جائے۔ یہ ضرب المثل اس وقت کی ہے جب یمن میں اس کے شہریوں کی تعداد سے بندوقوں کی تعداد زیادہ تھی…‘‘

اسلام آن لائن کے مطابق شیخ زندانی بڑے محتاط ہیں مگر حکمت کے ساتھ اپنا جرأت مندانہ موقف اور اسلام دشمن قوتوں کے خلاف احتجاج ہر روز ذرائع ابلاغ کے ذریعے لوگوں تک پہنچاتے رہتے ہیں۔ ان کی رائے میں انتہا پسندی اور مسلح جدوجہد کی اصل وجوہات کو نہ حکومت یمن درخور اعتنا سمجھتی ہے‘ نہ ان کے امریکی سرپرست ہی اس بارے میں سنجیدہ ہیں۔ ان کے نزدیک امریکا کی یہ سرشت ہے کہ جو اس کے سامنے بچھتا چلا جائے وہ اسے دباتا چلا جاتا ہے‘ جو ڈٹ جائے‘ اس سے گفت و شنید اور مذاکرات کرتا ہے۔ امریکی ایجنسی ایف بی آئی کے ڈائریکٹر رابرٹ ملر کی صدرِ یمن سے حالیہ ملاقات اور امریکا کی طرف سے اس مطالبے کو کہ حکومت مزید آہنی شکنجہ استعمال کرے‘ علما اور قوم پرست لیڈروں نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کے نزدیک امریکی افسر کا لب و لہجہ ایک وائسرائے کا سا تھا‘ جب کہ صدرِمملکت سرتسلیم خم کیے چلے جارہے تھے۔ادھر یمن کے علما نے اس بات پر احتجاج کیا ہے کہ حکومت ملک میں امن قائم کرنے کے بجاے اسے بدامنی کے حوالے کرنے پر تلی بیٹھی ہے۔ ایک جانب پارلیمانی مصالحتی کمیٹی قائم کی گئی ہے اور دوسری جانب حکومتی اہل کاروں نے حسن الحوثی کے نائب اور سابق رکن پارلیمان عبداللہ عیظہ الرزامی کو قتل کر دیا ہے۔ یہ صورت حال کم و بیش ویسی ہی ہے جیسی حکومت پاکستان نے ہمارے قبائلی علاقوں وانا اور جنوبی وزیرستان میں پیدا کر رکھی ہے۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ ڈرامے کا ڈائریکٹر ایک ہی ہے‘ ایکٹر مختلف ہیں۔

جنوبی سوڈان کی بغاوت کے بعد اب مغربی سوڈان خانہ جنگی کی لپیٹ میں ہے۔ صوبہ دارفور میں ہنگاموں کا آغاز فروری ۲۰۰۳ء میں ہوا تھا۔ لیکن اس وقت امریکا سمیت دنیا کے کسی ملک نے ان کا ذکر نہیں کیا‘ کیونکہ تب امریکا سوڈانی حکومت کے ساتھ جنوبی علیحدگی پسندوں کا معاہدہ کروانے میں مصروف تھا۔ اس اثنا میں متعدد بار امریکی ذمہ داران نے سوڈانی حکومت کی وسیع النظری اور حقیقت پسندی کی تعریف کی‘ سوڈان کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کی بات آگے بڑھائی۔ یہ تجویز بھی زیربحث آئی کہ جنوبی باغیوں سے معاہدہ ہوجائے تو اس پر دستخط کرنے کے لیے فریقین واشنگٹن آجائیں تاکہ خود صدر بش اس معاہدے کو اپنی آشیرباد و ’’برکات‘‘ سے نوازیں۔ اس دوران باغیوں کے لیے زیادہ سے زیادہ حصہ حاصل کرنے کے لیے کوششیں جاری رہیں۔ دھمکیاں‘ لالچ‘ تعریفیں سب دائو آزمائے گئے۔ پھر جیسے ہی کینیا میں دو سال کے طویل مذاکرات کے بعد مئی ۲۰۰۴ء میں طرفین کے درمیان معاہدہ ہوگیا‘ تو دارفور دنیا کا خطرناک ترین مقام بن گیا۔ اقوام متحدہ کے نمایندہ براے سوڈان موکایش کابیلا کے الفاظ میں: ’’دارفور میں حقوق انسانی کے حوالے سے دنیا کی سب سے بڑی آفت ٹوٹ پڑی ہے‘‘۔

۲۹ جون کو امریکی وزیرخارجہ ۱۹ سال کے بعد پہلی بار سوڈان گیا تو اس نے بیان دیا: ’’اگر دارفور میں عرب ملیشیا کو نہ کچلا گیا تو سلامتی کونسل کے ذریعے کارروائی کریں گے‘‘۔ یعنی‘ سوڈان پر پابندیاں عائد کر دیں گے‘ فوج کشی کریں گے۔ امریکی مفادات کی محافظ اقوام متحدہ کا سیکرٹری جنرل کوفی عنان بھی اگلے روز خرطوم پہنچا اور اس نے بھی لَے میں لَے ملائی: ’’سوڈانی حکومت متاثرین تک مغربی امدادی ٹیمیں نہیں پہنچنے دے رہی‘‘۔

صوبہ دارفور سوڈان کے کل رقبے (۲۵ لاکھ کلومیٹر مربع) کا پانچواں حصہ ہے یعنی‘ ۵لاکھ ۱۰ہزار کلومیٹر مربع۔ سوڈان کے مغربی کنارے پر واقع ہونے کے باعث اس کی سرحدیں لیبیا‘ چاڈ اور جمہوریہ وسطی افریقا سے ملتی ہیں۔ کچھ لوگوں کو افریقی النسل اور وہاں کی اصل آبادی اور کچھ کو عربی النسل اور بعد میں آنے والے کہا جاتا ہے۔ دارفور جنوبی سوڈان سے یوں مختلف ہے کہ صوبے کی ۹۹ فی صد آبادی مسلمان ہے اور ایک سروے کے مطابق آبادی کے تناسب کے اعتبار سے دنیا میں حفاظ کرام کی سب سے زیادہ تعداد اس صوبے میںہے۔ صوبے کی زبوں حالی‘ فقر اور بھوک کے باعث تقریباً ہر موسم باراں میں قبائل کا آپس میں جھگڑا ہو جاتا ہے۔ گلہ بانی وہاں کا بنیادی پیشہ ہے۔ سوڈان میں کثیر تعداد میں پائی جانے گائیوں کا ۲۸ فی صد حصہ دارفور میں ہے‘ جن کی تعداد دو کروڑ ۸۰ لاکھ گائیں بنتی ہے۔ بارش کے بعد چراگاہوں پر جھگڑا معمول کی بات ہے۔ دارفور کا سب سے بڑا اعزاز یہ ہے کہ مہدی سوڈانی کی تحریک میں پوری کی پوری آبادی نے ان کا ساتھ دیا تھا۔ اس کے بعد بھی دارفور کو ہمیشہ مہدی خاندان اور ان کی پارٹی ’حزب الامۃ‘ کا گڑھ سمجھا گیا۔ لیکن صوبے کی کسمپرسی اور قبائلی جھگڑوں کے خاتمے کے لیے     نہ صادق المہدی حکومت کچھ کر سکی اور نہ ان سے قبل یا ان کے بعد کی حکومتیں۔

اس دوران وہاں مختلف سیاسی قوتیں ظہور پذیر ہوتی گئیں۔ ’تحریک آزادی سوڈان‘ کے نام سے باغیانہ عناصررکھنے والے پارٹی منی ارکون بیناوی کی زیرقیادت وجود میں آئی۔ ’تحریک انصاف و مساوات‘ کے نام سے خلیل ابراہیم کی سربراہی میں ایک پارٹی بنی‘ جس کے بارے میں کہا گیا کہ صدر بشیر سے علیحدگی کے بعد ڈاکٹر حسن ترابی اس کی حمایت کر رہے ہیں اور خلیل ابراہیم ڈاکٹر ترابی کے شاگرد و معتقد ہیں۔ لیکن سب سے بڑا گروہ عرب قبائل سے متعلق ان لوگوں کا بنا جن کی شہرت ’جنجوید‘ کے نام سے ہوئی۔ یہ تین الفاظ کا مجموعہ ہے‘ جن: شخص‘ جاو: G3 سے مسلح‘وید: گھڑسوار یعنی‘ G3گن سے مسلح گھڑسوارآدمی۔ امریکا سمیت تمام عالمی قوتیں سوڈانی حکومت پر الزام لگا رہی ہیں کہ:’ ’حکومت افریقی قبائل کے خاتمے کے لیے عرب جنجوید کو مسلح کر رہی ہے اور جنجوید نے بڑے پیمانے پر قتل عام کر کے لاکھوں افریقی قبائل کو بے گھر کر دیا ہے‘ اور وہ اب چاڈ اور سوڈان کے مہاجر کیمپوں میں پناہ گزین ہیں۔ کہا گیا کہ سوڈانی حکومت نے خود بھی جہازوں اور توپوں کے ذریعے بم باری کی ہے‘قتل عام کی مرتکب ہوئی ہے‘ اور اب عالمی امدادی تنظیموں کو امدادی سامان لے جانے سے روک رہی ہے اور یہ کہ جب تک جنجوید کا خاتمہ نہیں ہوجاتا‘ یورپی امدادی تنظیموں کو کھلی چھٹی نہیں دی جاتی۔ ’فاشر‘ اور ’نیالا‘ (شمال دارفور اور جنوب دارفور کے دارالحکومت) کی تعمیر و ترقی نہیں کی جاتی۔ سوڈان کے خلاف ہر ممکن کارروائیاں کی جاسکتی ہیں‘‘۔

سوڈانی صدر عمر حسن البشیر نے انقلاب کی پندرھویں سالگرہ پر ان الزامات کا جواب دیتے ہوئے کہا: ’’دارفور کا مسئلہ ہماری حکومت وجود میں آنے سے پہلے کا ہے اور ہم (جنوب کی جنگ میں جلتے رہنے اور اپنے خلاف اقتصادی پابندیوں کے باوجود) اس کے حل کی کوششیں کرتے رہے ہیں۔ ’جنجوید‘ سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ صرف لٹیروں اور ڈاکوئوں کا ایک گروہ ہے اور حکومت ان سے بھی اسی طرح جنگ کرے گی جیسے کسی بھی دوسرے باغی سے‘‘۔ انھوں نے یہ بھی کہا: ’’لیکن ہمیں یہ نہ سمجھایا جائے کہ ہم صرف عرب قبائل کو تو اسلحے سے پاک کردیں اور دوسروں کو رہنے دیں۔ ہم بلااستثنا ہر قانون شکن سے ہتھیار چھین کر رہیں گے‘‘۔ انھوں نے اس بات کی بھی نفی کی کہ دارفور میں (امریکی دعوے کے مطابق) نسلی تطہیر کی کوئی کارروائی جاری ہے۔ صدربشیر نے نام لیے بغیریہ الزام بھی لگایا کہ ’’بیرونی ہاتھ اب سوڈان میں ایک نیا فتنہ کھڑا کرنا چاہتے ہیں اور دارفور کے بہانے سوڈان میں وسیع تر مداخلت چاہتے ہیں‘‘۔

باغیوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کے نتیجے میں جو اسلحہ برآمد ہوا ہے‘ وہ اسرائیل کا بنا ہوا ہے۔ اسرائیل اس سے قبل جنوبی باغیوں اور پڑوسی ممالک کو بھی بڑے پیمانے پر اسلحہ فراہم کرچکا ہے۔ امریکا بھی دارفور کے ذریعے سوڈان میں اپنے قدم جمانا چاہتا ہے۔ مصری اخبارات نے بعض سوڈانی سیاست دانوں کے حوالے سے یہ خبر شائع کی ہے کہ کولن پاول نے اپنے دورہ خرطوم میں یہ ’’فراخ دلانہ‘ تجویز دی کہ’ ’دارفور میں امن قائم کرنے کے لیے امریکا اپنے ۲۵ ہزار فوجی سوڈان بھیجنا چاہتا ہے‘‘۔ تجزیہ نگاروں کے بقول اس سے ایک طرف تو امریکا سوڈان کے حال ہی میں دریافت ہونے والے پٹرول میں سے اپنا حصہ لینا چاہتا ہے۔ جس کی بڑھتی ہوئی پیداوار کے باعث آیندہ پانچ سال میں اس کی روزانہ پیداوار ۲۰لاکھ بیرل ہوجائے گی۔ دوسری طرف عراق و افغانستان میں درپیش نقصانات سے توجہ ہٹانے میں مدد ملے گی اور آیندہ امریکی انتخابات میں بش کاایک یہ کارنامہ بھی بیان کیا جا سکے گا کہ اس نے سوڈان میں افریقی قبائل کو امن لے کر دیا‘ اس لیے اب امریکی سیاہ فام ووٹ کا حق دار ہے۔ کولن پاول کے دورے پر تبصرہ کرتے ہوئے سوڈانی وزیرخارجہ مصطفی عثمان اسماعیل نے بیان دیا کہ ’’اگر تو پاول کا دورہ دارفور میں ایک انسانی بحران میں قابو پانے میں مدد دینے کے لیے ہے تو ہم اس کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ لیکن اگر یہ دورہ عالمی برادری کو ہمارے خلاف لاکھڑا کرنے یا امریکا کے انتخابی معرکے میں کامیابی کی خاطر ہے تو اس سے نہ تو دارفور کو کوئی فائدہ ہوگا اورنہ دوطرفہ تعلقات کو‘‘۔

امریکی پالیسی کے قطب نما معروف ادارے انٹرنیشنل کرائسس گروپ ICG نے ۹مئی کو اپنی ایک رپورٹ میں سوڈانی حکومت کو دھمکاتے ہوئے کہا تھا کہ: ’’دارفور جنگ نہ صرف سوڈان اور چاڈ کی حکومتوں کے لیے بالواسطہ خطرہ ہے بلکہ اس میں یہ صلاحیت بھی ہے کہ      اس سے سوڈان کے باقی علاقوں میں بھی بغاوت بھڑک اٹھے… یہ بھی ممکن ہے کہ سوڈان کے       مشرق و مغرب میں ایسی مزید باغی تحریکیں اٹھ کھڑی ہوں‘‘۔ اس کے بعد اس ادارے نے   کچھ تجاویز سوڈان حکومت کو دی ہیں‘ جن میں سرفہرست عالمی نگرانی اور عالمی امدادی تنظیموں کو شورش زدہ علاقوں میں بلاروک ٹوک جانے کی ضمانت دینا اور جنجوید کا خاتمہ ہے۔ پھر سلامتی کونسل کے لیے سفارشات ہیں کہ انسانی حقوق کے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی مذمت کرے اور عالمی مذاکرات کا اہتمام کرے اور پھر امریکا ‘برطانیہ‘ اٹلی اور ناروے سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ مزید عالمی دبائو کے ذریعے ان تمام رکاوٹوں کو ختم کرے جو دارفور میں انسانی عالمی قوانین کی خلاف ورزیوں کی مذمت کی راہ میں آڑے آتی ہیں‘‘۔ ان ممالک سے یہ بھی کہاگیا ہے کہ وہ ’’فرانس اور چاڈ کو شامل مشورہ رکھیں‘‘۔

اگرچہ ان سفارشات‘ بیانات اور دھمکیوں کے ساتھ ہی ساتھ امریکا اور حواریوں نے اس وضاحت کی کوشش بھی کی ہے کہ وہ سوڈان کے خلاف لشکرکشی نہیں چاہتے‘ لیکن یورپی یونین کی عسکری کمیٹی کے سربراہ فن لینڈ کے جنرل گوسٹاف ہاگلان نے یہ بیان دے کر ’غلط فہمی‘ دُور کردی کہ ’’یورپی فوجی قوت صوبہ دارفور میں داخل ہو سکتی ہے‘‘۔

اس طرح سوڈان کے خلاف اب ایک نیا خطرناک اسٹیج تیار کیا جا رہا ہے۔ جنوبی علیحدگی پسندوں کے ساتھ معاہدے میں کہا گیا ہے کہ’ ’اگر جنوبی حلیف معاہدے سے مطمئن نہ ہو سکے تو  حق خودارادی استعمال کرتے ہوئے چھے سال کے بعد ریفرنڈم کے ذریعے سوڈان سے علیحدہ ہوسکیں گے‘‘۔ جنوبی سوڈان کا رقبہ سوڈان کا ایک چوتھائی ہے۔ یعنی دارفور اور جنوب مل کر سوڈان کا نصف رقبہ بنتے ہیں اور اس نصف کو  شورش زدہ کر دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ICG کے ’خدشات‘ کی روشنی میں مشرقی سوڈان کے ’البجا‘ اور شمالی سوڈان کے ’الکوش‘ قبائل کو بھی باور کروایا جا رہا ہے کہ تم تو بہت مظلوم و محروم قبائل ہو‘ جب کہ خرطوم میں بیٹھے حکمران پٹرول کی   بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔

سوڈان کے خلاف دن بدن تنگ کیا جانے والا گھیرا کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن دو متضاد وجوہات نے اس کی سنگینی و اہمیت میں انتہائی اضافہ کر دیا ہے۔ ایک وجہ تو سوڈان کی کمزوری کا ہے کہ بدقسمتی سے انقلاب کی بانی قیادت صدر عمرحسن البشیر اورڈاکٹر حسن ترابی میں اختلافات حتمی قطع تعلقی اور جنگ کی کیفیت تک پہنچا دیے گئے ہیں۔ اب بھی ڈاکٹر ترابی اپنے کئی ساتھیوں سمیت جیل میں محبوس ہیں اوران پر بغاوت کا الزام لگا دیا گیا ہے۔ سب اپنے پرائے اس پر متفق ہیں کہ اس لڑائی سے (اس میں خواہ کتنے ہی اصولی اختلافات ہوں) طرفین ہی نہیں سوڈان کمزور ہوا ہے اور دشمن اس پر جھپٹنا پہلے سے آسان سمجھتا ہے۔ دوسری وجہ سوڈان کی قوت کا باعث ہے کہ گذشتہ چند سال میں چین اور سوڈان کے تعاون سے دریافت ہونے والے پٹرول کی مقدار و معیارنے امریکا سمیت سب کی رال ٹپکا دی ہے۔ بھارتی بنیا بھی وہاں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرچکا ہے۔

دارفور‘ جنوبی سوڈان اور قبائلی اختلافات کی آڑ میں امریکا و یورپ کی حتی المقدور کوشش یہی ہوگی کہ تقسیم سوڈان کا ہوا دکھا کر وہاں زیادہ سے زیادہ رسوخ و مداخلت ممکن بنائی جائے  خواہ اس کے لیے فوج کشی ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔ انھیں سوڈان کے اندرونی حالات سے زیادہ شہ اس بات سے مل رہی ہے کہ ان حالات سے براہِ راست متاثر ہونے والے ملک مصر سمیت تمام  مسلم ممالک‘ اس ساری صورت حال سے لاتعلق بیٹھے ہیں۔

۲۰۰۴ء کو انتخابات کا سال کہا جا رہا ہے‘ اس لیے کہ اس سال ۸۰ ممالک میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ اس فہرست میں بہت سے مسلم ممالک بھی ہیں۔ انتخابات تو بھارت میں بھی ہوئے ہیں جن میں بڑے بڑے مسلم ممالک سے زیادہ مسلمان ووٹروں نے حق ووٹ استعمال کیا ہے۔ مسلم ممالک پر عموماً الزام یہ ہے کہ یہاں جمہوریت نہیں ہے اور انتخابات بھی ۹۹ فی صد کامیابی والے ہوتے ہیں۔ اسلام اور جمہوریت کی بحث اپنی جگہ‘ جمہوریت اور انتخابات کی بحث بھی کافی وزن رکھتی ہے۔ انتخابات کو جمہوریت کی علامت کہا جاسکتا ہے۔ لیکن ایسے انتخابات بھی ہوتے ہیں کہ جمہوری اقدار کو نشوونما دینے کے بجاے ان کا کریا کرم ہی ہوجائے۔ گذشتہ عرصے میں تین مسلم ممالک انتخابات سے گزرے‘ ان کا ایک مختصر جائزہ پیش ہے۔

  • انڈونیشیا میں وفاقی پارلیمان کے انتخابات ۵ اپریل ۲۰۰۴ء کو منعقد ہوئے۔ سیکولر نظریات میں یقین رکھنے والی دو بڑی جماعتیں اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئیں۔ مغربی دنیا میں شائع والے کئی تجزیوں اور تبصروں میں اس امر پر سُکھ کا سانس لیا گیا کہ ’اسلام پسندوں کا خطرہ ٹل گیا ہے اور جمہوریت کا بول بالا ہوا ہے‘۔ آیندہ ۵ جولائی کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں موجودہ صدر میگاوتی سکارنوپتری کی شکست کے واضح امکانات موجود ہیں۔ اُس کی سب سے بڑی وجہ اقتصادی تنزل‘ ملازمتوں کی عدم فراہمی اور میگاوتی کی اکثر معاملات سے نگاہ چُرانے کی پالیسی ہے۔ جمہوری پارٹی نے اپنے ہی ووٹروں کو مایوس کیا ہے اور اُن کے غضب کا نشانہ بنی ہے۔

انڈونیشیا کو دنیا کے سب سے بڑے مجمع الجزائر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ ۱۸ہزار جزائر میں ۲۲ کروڑ انسان بستے ہیں‘ جب کہ ۸۸ فی صد مسلمان‘ ۹ فی صد عیسائی‘ اور ۲ فی صد ہندو یہاں آباد ہیں۔ شرحِ تعلیم ۸۳ فی صد ہے۔ جنرل سوہارتو کے اقتدار کے ۳۲ سال نہ ہوتے تو انڈونیشیا کی تاریخ بالکل مختلف ہوتی۔ آج کے انڈونیشیا میں ۲۱ کروڑ افراد خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں‘ جب کہ ایک کروڑ افراد ملازمت سے محروم ہیں اور ۳ کروڑ افراد کو صرف جُزوقتی روزگارمہیا ہے۔ ان حالات میں ریاستی بدعنوانی‘ حکومتی نااہلی اور اقتصادی مسائل کے موضوعات ہی تمام انتخابات پر چھائے رہے کیونکہ ان مسائل کے حل کے لیے نہ گولکر پارٹی کچھ کرسکی نہ جمہوری پارٹی۔

سابق صدر سوہارتو کی گولکر پارٹی نے ۵۵۰ کے ایوان میں ۱۲۸ نشستیں حاصل کرلی ہیں اور آیندہ صدارتی انتخابات میں جنرل ورانٹو گولکر پارٹی کے امیدوار ہوں گے۔ اُن کے بارے میں گمان ہے کہ انڈونیشیا کے لیے وہ ایک مربوط اقتصادی پروگرام ترتیب دے سکیں گے۔ اُن کے مخالفین اُن پر الزام لگاتے ہیں کہ سوہارتو اور اُس کے اہلِ خانہ‘ نیز اُن کے اعزہ و اقربا ملکی دولت کو دونوں ہاتھوں سے تین عشروں تک لُوٹتے رہے ہیں اور ورانٹو ان کے دستِ راست بنے رہے۔ اُن پر دوسرا بڑا الزام یہ ہے کہ مشرقی تیمور میں جب علیحدگی کی تحریک چل رہی تھی تو مشرقی تیمور کے عیسائیوںکے ساتھ فوج نے ظلم و زیادتی کی اور اُس وقت اُس علاقے میں فوج کے کمانڈر جنرل ورانٹو تھے۔ ڈھائی برس قبل چینی متمول آبادی کے خلاف عوامی ردعمل میں فوج کچھ نہ کرسکی۔ جب کئی شہروں میں فسادات پھوٹ پڑے تھے اور لُوٹ مار کا بازار گرم تھا اور اس   لُوٹ مار میں فوجی بھی مالِ غنیمت حاصل کر رہے تھے۔

آزادی کے ۵۵ برسوں میں ہونے والے دوسرے قومی انتخابات میں برسرِاقتدار جمہوری جدوجہد پارٹی نے اندازے سے بہت کم ۱۰۸ نشستیں حاصل کی ہیں۔ یہ انتخابی نتائج نسبتاً چونکا دینے والے ہیں۔ جمہوری پارٹی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ غریبوں کی پارٹی ہے‘ اور مزدور کسان دوست پارٹی ہے۔ یہ اسلام پسند یا تعصب پھیلانے والی پارٹی نہیں۔ لیکن انتخابی نتائج میں راے دہندگان نے میگاوتی کی کارکردگی پر عدمِ اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ اگر میگاوتی دوسری چھوٹی جماعتوں کو اپنے ساتھ بھی ملا لے‘ تب بھی اُس کی جماعت کے لیے صدارتی انتخابات میں کامیاب ہونا مشکل ہے۔ اسی لیے پارٹی نے ایک سابق جرنیل کو صدارتی اکھاڑے میں اُتارنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ بھی شنید ہے کہ یہ پارٹی معروف دانش ور اور اسلامی رہنما امین رئیس کو نائب صدارت کا عہدہ دے دے گی۔ انڈونیشیا کے صحافتی حلقوں میں یہ بات مشہور ہے کہ سابق صدر عبدالرحمن واحد کو کچھ نظر نہیں آتا تھا لیکن میگاوتی کو کچھ سنائی نہیں دیتا اور کئی اہم سیاسی مسائل حل طلب پڑے رہتے ہیں۔

حالیہ انتخابات میں ۲۴ پارٹیوں نے حصہ لیا۔ کئی فٹ چوڑے بیلٹ پیپر کی خبریں پریس میں آچکی ہیں۔ ان انتخابات کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ سابق صدر عبدالرحمن واحد کی پارٹی کو   ۷فی صد ووٹ ملے ہیں اگرچہ اُن کا دعویٰ ہے کہ اُن کے ۳ کروڑ حامی ہیں۔ اسی طرح دائیں بازو کی بیداری پارٹی PANکو بھی ۶ فی صد ووٹ ملے جس کی سربراہی امین رئیس کر رہے ہیں اور اُن کو سابقہ انتخابات میں بھی اتنے ہی ووٹ ملے تھے۔ امین رئیس آیندہ انتخابات میں صدارتی امیدوار بننے کے لیے صلاح مشورہ کر رہے ہیں۔ اُن کی شناخت مسلم دانش ور کی ہے۔

انڈونیشیا کی سیاست میں ایک اہم پیش رفت انصاف و خوش حالی پارٹی (PKS)کے ووٹ بنک میں اضافہ ہے۔ اس پارٹی میں تعلیم یافتہ لوگوں کی اکثریت ہے اور یہ قومی و عالمی معاملات پر راے عامہ کو متحرک کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ۱۹۹۹ء میں ہونے والے انتخابات میں اس پارٹی نے ۵.۱ فی صد ووٹ حاصل کیے تھے‘ جب کہ اس بار اس نے ۴.۷ فی صد ووٹ اور ۴۵ نشستیں حاصل کی ہیں۔ اس جماعت نے صاف ستھرا معاشرہ‘ نیز بدعنوانی‘ سازش‘ اقربا پروری نامنظور کے نعرے پر انتخابی مہم چلائی۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ آیندہ پانچ برسوں میں اس جماعت نے تنظیمی طور پر بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا تو آیندہ انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرسکتی ہے۔ عراق پر ۲۰ مارچ ۲۰۰۳ء کو امریکا نے حملہ کیا تو اس جماعت نے احتجاجی مظاہروں میں ۳ لاکھ افراد کو سڑکوں پر لاکھڑا کیا تھا۔ ربڑ‘ قدرتی وسائل اور افرادی قوت سے مالا مال اس ملک کو ایک باصلاحیت قیادت ہی تعمیروترقی کے راستے پر ڈال سکتی ہے‘ ورنہ بدعنوانی اور کھربوں کے غبن نے اس کی اقتصادیات کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ اسلامی فکر کی حامل جماعتوں اور جہادی گروہوں پر حکومت ہاتھ ڈال چکی ہے اور ابوبکر بشیر ان کا مشقِ ستم بنے ہوئے ہیں‘ نام نہاد ’’دہشت گردی کے خلاف مہم‘‘ کا خاتمہ بھی اہلِ انڈونیشیا کے دل کی آواز ہے۔

  • ملایشیا میں انڈونیشیا کی طرح مَلے (Mlay)قوم آباد ہے۔ لیکن دونوں ممالک کی معیشت اور قومی اُٹھان اور افراد کے طرز و معیارِ زندگی میں واضح فرق ہے۔ انڈونیشیا میں   فی کس آمدنی ۳ہزار امریکی ڈالر‘ جب کہ ملایشیامیں ۹ ہزار امریکی ڈالر ہے۔ انڈونیشیا کے برعکس ملایشیا میں خوشحالی کا دور دورہ نظرآتا ہے اور ایسے افراد بھی بآسانی مل جاتے ہیں جو محنت و صلاحیت سے مضبوط کاروباری ساکھ بنا چکے ہیں۔

۱۹۵۷ء میں برطانیہ سے آزادی کے بعد یہاں پارلیمان کے انتخابات باقاعدگی سے ہورہے ہیں۔ قومی اسمبلی کے لیے گیارھویں انتخابات ۲۱ مارچ ۲۰۰۴ء کو منعقد ہوئے۔ ۱۹۷۸ء سے یونائیٹڈ مَلے نیشنل آرگنائزیشن (UMNO) یہاں برسرِاقتدار ہے۔ اُس کے قائدین کا اعلان ہے کہ ہماری جماعت قدامت پرست نہیں‘ بلکہ روشن خیال اسلام پر یقین رکھتی ہے اور ڈاکٹر مہاتیرمحمد اس کی رہنمائی کرتے رہے ہیں۔مہاتیر کی اقتدار سے برضا و رغبت دست برداری کو انتہائی مثبت اقدام کے طور پر دنیا بھر میں سراہا گیا اور نائب وزیراعظم عبداللہ بداوی نے وزیراعظم کے طور پر اقتدار سنبھالا۔ بطور وزیراعظم بداوی اور کابینہ کے لیے یہ انتخابات سب سے بڑا امتحان تھے۔ وزارتِ عظمیٰ کا تمام دور اُنھوں نے حزبِ اختلاف کو کمزور کرنے اور ’امنو‘ کی جڑیں گہری کرنے میں گزارا جس میں وہ بے انتہا کامیاب رہے۔ پارلیمان کی ۲۱۹میں سے ۱۹۰نشستیں ’امنو‘ نے جیت لی ہیں۔ آیندہ پانچ برس ’امنو‘ کو کسی مضبوط حزبِ اختلاف کا سامنا نہیں رہے گا۔ اگر جمہوری روایات کے اتباع میں حزبِ اختلاف کو نشوونما پانے کا حق دیا گیا تو یہ خوش آیند اقدام تصور کیا جائے گا۔

اسلامی نظریات کی حامل اسلامی پارٹی ملایشیا (پاس) نے خلافِ معمول قابلِ قدر کامیابی حاصل نہ کی۔ کلنتان کے صوبے میں ’پاس‘ تین بارپہلے بھی حکومت بنا چکی ہے اور ان انتخابات میں صوبائی اسمبلی میں اس بار اتنی نشستیں بمشکل حاصل کی ہیں کہ آیندہ حکومت بناسکے۔ لیکن ترنگانو کے صوبے میں اس جماعت کو واضح شکست ہوئی ہے۔ ’پاس‘ کے مرشدعام نک عبدالعزیز اور اس کے مرکزی صدر عبدالہادی آوانگ صوبائی نشستوں پر کامیاب ہوئے ہیں‘ جب کہ وفاقی اسمبلی میں ’پاس‘ نے صرف سات نشستیں حاصل کی ہیں۔ یہ نتائج اُن کے لیے بھی مایوس کن ہیں۔ وہ انتظامیہ کی ملی بھگت کو خارج از امکان قرار نہیں دے رہے ہیں۔

ملایشیا کے سیاسی حالات پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ بداوی کی مہم کی نگرانی       براہِ راست مہاتیرمحمد نے کی اور ۱۱ستمبر کے واقعات اور جدید اسلام کے نعرے پر انتخابی مہم چلائی گئی۔ ’پاس‘ کے بارے میں مشہور کیا گیا کہ یہ دو رکعت کے امام‘ ملّا لوگ ہیں‘انھیں جدید چیلنجوں کا علم نہیں ہے۔ یہ عورتوں کے حقوق کے مخالف ہیں اور غیرمسلموں کے ساتھ امتیازی سلوک پر یقین رکھتے ہیں۔ طالبان نما اسلام اس دور میں نہیں چلے گا‘ شریعت کی باتیں کرنا حالات سے ناواقفیت اور قوم کو پتھر کے دور میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔ظاہر ہے ملایشیا کے عوام ۱۹۹۸ء کے اقتصادی بحران کے بعد کوئی نیا خطرہ مول لینے کو تیار نہ تھے۔ امریکا بہادر کی دہشت گردی مخالف مہم نے بھی اس میں کردار ادا کیا۔ کلنتان اور ترنگانو میں ’پاس‘ کی صوبائی حکومتیں جو مثبت اقدامات کرتی رہی ہیں اُن کو بھرپور انداز میں ذرائع ابلاغ کے ذریعے متعارف نہ کرایا گیا۔

ممکن ہے کہ ’امنو‘ کو دو تہائی اکثریت ملنے کے بعد بداوی کی حکومت ایسے قوانین پاس کروا لے جس سے ملک کے وقار کو دھچکا پہنچے۔ ’روشن اسلام‘ کی پیروی کرتے ہوئے مغربی ثقافت کے لیے راہیں ہموار کر دے اور عوام کے لیے نظریاتی و اخلاقی مشکلات پیدا ہوجائیں‘ کیونکہ بے انتہا طاقت اندھا کر دیتی ہے۔ داخلی سلامتی کے ایک قانون پر تو پہلے ہی عمل درآمد ہو رہا ہے کہ کسی بھی شخص کو وجہ بتائے اور مقدمہ چلائے بغیر جیل میں غیرمعینہ مدت تک رکھا جاسکتا ہے۔ سابقہ نائب وزیراعظم انور ابراہیم کا مقدمہ بھی سب کے علم میں ہے۔ انھیں سیاسی مخالفت کی بنا پر عمرقید کی سزا سنائی گئی۔ انور ابراہیم کی بیگم نے انصاف پارٹی قائم کی اور صرف ایک نشست حاصل کر سکیں۔ اقتصادی میدان میں حکومت کو ایسی متوازن پالیسیوں کی تشکیل کی شدید ضرورت ہوگی جس سے درمیانہ طبقہ اور غریب طبقہ بھی خوش حالی کے ثمرات سے فائدہ اٹھا سکے اور ملک کی اکثریت سیاسی انتقام اور قانونی بندشوں سے نجات حاصل کرسکے۔ امید ہے مہاتیرمحمدجوغلطیاں باصرار دُہراتے رہے ہیں‘ بداوی اُن سے پرہیز کریں گے۔

  • الجزائر میں ۸ اپریل کو صدارتی انتخابات ہوئے۔ ۱۹۹۱ء کے انتخابات میں فوج نے مداخلت کرکے اسلامی نجات محاذ کی کامیابی کا راستہ روک لیا تھا اور اس کے بعد ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی تھی۔ حکومت اور مخالفین کے درمیان مسلسل جنگ نے ایک لاکھ باشندوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔ حکومت کے تابع ذرائع ابلاغ کا اصرار ہے کہ قانون دشمنوں کا صفایا کردیا گیا ہے‘ تاہم مسلح باغی زیرِزمین چلے گئے ہیں۔ حکومت کہتی ہے امن قائم ہو رہا ہے۔

پانچ برس قبل بھی صدارتی انتخابات ہوئے تھے اور حکومت نے سرکاری مشینری کو     بے دریغ اور کھلے عام اس طرح استعمال کیا کہ انتخابات سے عین ایک روز قبل تمام صدارتی امیدواروں نے انتخابات کا مقاطعہ کر دیا تھا۔ موجودہ انتخابات اس لحاظ سے دل چسپ تھے کہ اسلامی نجات محاذ پر حسب معمول پابندی عاید ہے۔ ۶لاکھ حاضر فوج سے ووٹ ڈلوائے گئے اور یہ سہولت بھی تھی کہ چاہیں تو اپنے افسران کے سامنے ووٹ ڈال سکتے ہیں۔ دیگر صدارتی امیدواروں کو جلسے منعقد کرنے اور ریلیاں نکالنے کی محدوداجازت دی گئی۔ ۳کروڑ ۴۰ لاکھ آبادی کے اس ملک میں ایک کروڑ ۸۰ لاکھ راے دہندگان ہیں۔ اُن کی ۵۸ فی صد تعداد نے صدارتی انتخابات میں ووٹ ڈالے اور ظاہر ہے استبداد پسند صدر نے واضح اکثریت حاصل کرنا ہی تھی‘ سوکرلی۔ صدر عبدالعزیز بوتفلیکا نے من پسند نتائج کے لیے دھڑلے سے نوکرشاہی کو استعمال کیا۔ صدارتی انتخابات کے لیے کاغذات جمع کرانے والوں کی اکثریت کو بے بنیاد الزامات کی بنا پر انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا گیا۔ ذرائع ابلاغ نے بوتفلیکا کی گراں قدر قومی خدمات اور ملکی استحکام میں تابناک کردار کے فسانے شب و روز عوام کو سنائے۔

ان نام نہاد انتخابات میں اسلام پرستوں کے نمایندے کے طور پر عبداللہ جاب اللہ‘ الاصلاح پارٹی کی طرف سے حصہ لے رہے تھے‘ نتائج کا تو علم ہی تھا‘ تاہم تمام تر پابندیوں کے باوجود وہ اسلام پسند اور حکومت مخالف ووٹروں کو کسی نہ کسی طرح پولنگ اسٹیشن تک لانے میں کامیاب رہے اور کُل ڈالے گئے ووٹوں کا ۵فی صد حاصل کر کے تیسرے نمبر پر رہے۔ ان کی شکست پر اُن سے تبصرہ کرنے کو کہا گیا تو اُنھوں نے کہا کہ: جو کچھ عالمِ عرب میں اور جو کچھ الجزائر میں ہوتا چلا آ رہا ہے‘ اس لحاظ سے یہ جمہوریت بھی غنیمت ہے۔

عبدالعزیز بوتفلیکا کے صدارتی انتخابات اہلِ پاکستان کے لیے اجنبی نہیں ہیں۔ پاکستان کے دو سابقہ فوجی حکمران یہ کام احسن طریقے سے ریفرنڈم کے نام پر انجام دے چکے ہیں۔ عبدالعزیز بوتفلیکا ۸۵ فی صد ووٹ حاصل کر کے صدارت کے منصب پر دوبارہ فائز ہوچکے ہیں۔ سیکڑوں بربر مخالفین جو پہاڑوں میں روپوش ہیں اور ان کے استبداد سے تنگ ہیں‘ آیندہ کیا پالیسی اختیار کرتے ہیں‘اس کا تعین آنے والا وقت ہی کرے گا۔

فرانس کو روشنیوں‘ خوشبوئوں‘ فنون اور آزادی کا ملک کہا جاتا ہے۔ عراق پر امریکی جارحیت کے خلاف آواز اٹھا کر‘ عالمی سیاست میں بھی فرانس اور جرمنی نے اپنا علیحدہ تشخص قائم کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ فرانس میں مسلمانوں کی تعداد یورپ میں سب سے زیادہ ہے۔ یورپ میں مقیم ۲ کروڑ مسلمانوں میں سے ۶۰لاکھ صرف فرانس میں رہتے ہیں‘ ۳۰ لاکھ جرمنی میں اور تقریباً ۲۰ لاکھ برطانیہ میں۔ فرانس میں زیادہ تر مسلم آبادی شمال مغربی افریقی ممالک الجزائر‘ تیونس‘ مراکش اور چنددیگر افریقی ممالک سے آکر بسی ہے۔

مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد پندرھویں اور سولھویں صدی میں ہی فرانس منتقل ہوگئی تھی۔ ۱۴۹۲ء میں سقوطِ غرناطہ کے بعد اندلس میں ان کا جینا دوبھر کر دیا گیا تو۳لاکھ افراد ملک بدری پرمجبورہوگئے‘ جب کہ اس سے کئی گنابڑی آبادی شہید کر دی گئی۔گذشتہ صدی کے آغاز میں سمندر پار پڑوسی ممالک پر فرانسیسی استعمار‘منظم ثقافتی حملوں اور قرب مکانی کی وجہ سے بھی ان ممالک سے بڑی تعداد میں لوگ فرانس جا بسے۔ عالمی جنگوں کے خاتمے کے بعد فرانس کی تعمیرنو کے لیے مطلوب افرادی قوت بھی زیادہ تر یہیں سے حاصل کی گئی۔

دورِحاضرمیں فرانسیسی مسلمانوں کی اکثریت وہاں صرف مہاجرت نہیں بلکہ شہریت اور برابری کی قانونی حیثیت رکھتی ہے۔ ۱۹۱۷ء میں فرانس میں پہلی باقاعدہ اسلامی کونسل بنی۔ ۱۹۲۶ء میں اس نے بڑی پیرس مسجد بنائی۔ ۱۹۸۲ء میں ایک قانون کے ذریعے مسلمانوں کو اپنی تنظیمیں اور ادارے رجسٹرڈ کروانے کی باقاعدہ اجازت دے دی گئی اور اب وہاں بڑی تعداد میں مسلم ادارے تعلیمی‘ ثقافتی‘ علمی اور تربیتی سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں۔

مسلمانوں اورفرانس کے تعلقات کی پوری تاریخ میں یہ پہلو اہم ترین رہا ہے کہ انھیں کیونکر فرانسیسی تہذیب و ثقافت میں ڈھالا جائے۔ عہداستعمار میں الجزائر اور پڑوسی ممالک ان کوششوں کا بنیادی ہدف رہے۔ عربی زبان کو عرب ممالک میں اجنبی بنانے کی کوشش کی گئی۔ لباس و طعام یکساں کر دیے گئے اور ہر طرف فرانسیسی تہذیب غالب ہوتی چلی گئی۔ فرانس کے اندر بھی یہ کش مکش جاری رہی لیکن نرمی اور خاموشی سے۔ اکثریت اس بات کو اپنا فطری حق سمجھتی ہے کہ اپنی تہذیب وثقافت اقلیت کی زندگی میں غالب کر دے۔

فرانسیسی مسلمانوں نے پورے اخلاص و محنت سے فرانس کی تعمیرمیں حصہ لیا‘ فرانس کے قوانین کا احترام کیا اور فرانس کے قومی مفادات کو اپنے مفادات سمجھا۔ فرانس کے سیکولر قوانین نے ہر شہری کو دین و اعتقادی آزادی کی ضمانت دی۔ بعض اوقات ایسا ہوا کہ کسی فرد یا ادارے نے کسی مسلم فرانسیسی کی آزادی مذہب کو مقید کرنا چاہا تو خود اعلیٰ سطحی حکومتی ذمہ داروں نے مداخلت کرتے ہوئے ان رکاوٹوں کو دُور کر دیا۔ ۱۹۸۹ء اور پھر ۱۹۹۲ء میں جب بعض طالبات کو حجاب‘ یعنی اسکارف سے منع کرنے کی کوشش کی گئی تو عدلیہ کے اعلیٰ ترین ادارے اسٹیٹ کونسل نے یہ فیصلہ دیا کہ ’’دینی شعائر کا التزام ریاست کے سیکولر نظام سے متصادم نہیںہے‘‘۔

حال ہی میں سابق فرانسیسی وزیر برنرسٹازے کی زیرصدارت تشکیل پانے والی کمیٹی نے یہ کہتے ہوئے تمام سرکاری تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی لگا دی ہے کہ ہم کوئی بھی دینی علامت لے کر مدارس میں آنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ اس طرح مسلم طالبات کے حجاب‘ عیسائیوں کے صلیب کے نشان اور یہودیوں کی مختصر ٹوپی کیپا‘ تعلیمی اداروں میں ممنوع قرار  دے دیے گئے ہیں۔ صدر شیراک نے تیونس کے ایک مدرسے کا دورہ کرتے ہوئے بیان دیا کہ ’’مکمل سیکولر فرانسیسی حکومت طالبات کواجازت نہیں دے سکتی کہ وہ اپنے ہدایت یافتہ ہونے کا اعلان کرتی پھریں۔ حجاب میں جارحیت کی جھلک دکھائی دیتی ہے‘‘۔ انھوں نے کہا کہ ’’فرانس میں مسلمانوں کی اکثریت سے ہمیں کوئی شکوہ نہیں ہے اور ہماری حکومت فرانس ہجرت کرجانے والوں کواپنے ماحول و معاشرے میں ڈھالنے کی پوری سعی کر رہی ہے۔ لیکن ظاہری دینی علامتوں اور دوسروں کو کھلم کھلا اپنے دین کی طرف بلانے کی اجازت نہیں دے سکتے‘‘۔ اس سے پہلے فرانسیسی وزیراعظم جان پیررافاران بھی کہہ چکے تھے کہ ’’سرکاری اسکولوں میں حجاب کو بہرصورت مسترد کر دینا چاہیے‘‘۔

برنرسٹازے کمیٹی نے ۱۱ دسمبر ۲۰۰۳ء کو اپنی رپورٹ میں ایک طرف تو دینی ’’علامت‘‘ قرار دیتے ہوئے حجاب کو ممنوع قرار دے دیا۔ ساتھ ہی مسلمان کمیونٹی کے لیے عیدالاضحی اور مسیحیوں کے لیے عیدغفران کو سرکاری چھٹی قرار دینے کی سفارش کی تاکہ مذاہب کی آزادی کا تاثر باقی رہے۔

یہ سفارشات تیار کرتے اور حکومت کی طرف سے انھیں منظور کرتے ہوئے جس    بڑی حقیقت کو فراموش کرنے کی کوشش کی گئی وہ اسلام میں حجاب کی حیثیت و اہمیت ہے۔  فرانسیسی حکمران یقینا جانتے ہوں گے کہ اسلامی حجاب‘ مسیحی صلیب یا یہودی کیپا کی طرح کوئی علامت نہیں‘ خالق کی طرف سے قرآنِ کریم و سنت نبویؐ میں دیا جانے والا صریح حکم ہے۔ مسلمانوں میں یہ فقہی اختلاف تو رہا ہے کہ حجاب کی کیفیت و حدود کیا ہوں‘ چہرے کو ڈھانپا جائے یا چہرہ و ہاتھ کھلے رکھتے ہوئے باقی پورا جسم ڈھانپا جائے‘ لیکن کوئی بھی مسلمان اس امرِقرآنی کا انکار نہیں کرسکتا کہ وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِھِنَّ عَلٰی جُیُوْبِھِنَّص (النور۲۴: ۳۱)‘خواتین اپنی چادریں (سر کے علاوہ) اپنے سینوں پر بھی ڈالے رکھیں۔

اس حیرت ناک فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے مختلف فرانسیسی ذمہ داران کی طرف سے مختلف مضحکہ خیز تاویلات سامنے آئیں۔ کبھی کہا گیا: ’’طالبات کو ان کے گھر والوں کی طرف سے حجاب پر مجبور کیا جاتا تھا‘ انھیں اس جبر سے نجات دلانا مقصود ہے‘‘۔ کبھی کہا گیا: ’’خواتین و مرد برابر ہیں۔ حجاب سے مرد و زن میں تفرقہ رواج پاتا ہے‘‘۔ کبھی کہا گیا: ’’مذہبی تفریق کو بلاتفریق ختم کر دیا گیا ہے۔ یہودیوں اور عیسائیوں پر بھی پابندی عائد ہوئی ہے‘‘۔ لیکن ان تمام تاویلوں کا بودا پن خود یہ تاویلیں پیش کرنے والوں کو بھی بخوبی معلوم ہے۔ اگر صلیب و کیپا کے ساتھ ہلال و ٹوپی کا تقابل ہوتا تو شاید اتنی حیرت نہ ہوتی لیکن یہاں تو سارے کا سارا ہدف ہی مسلمان ٹھیرے کہ وہ اپنے رب کا حکم مانیں یا فرانسیسی حکومت کا۔

سابق وزیرتعلیم کلوڈ الاجر نے اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’سیکولرازم کو اسلام کے مطابق نہیں ڈھلنا‘ اسلام کو فرانسیسی سیکولرازم کے مطابق ڈھلنا ہوگا‘‘۔ اسی طرح کی ایک بات ۱۶۰۰ عیسوی میں پیڈروفرانکیزا نے اپنے آقا شاہ فلپ سوم سے اپنی سفارشات میں کہی تھی۔ اس نے کہا تھا: ’’ہمیں ہرممکنہ اقدامات کرتے ہوئے مسلمانوں کو اس بات سے روکنا ہوگا کہ وہ اپنے مُردوں کو اپنے دینی رواج کے مطابق دفن کریں۔ ہمیں ان کی زبان‘ ان کا مذہبی لباس‘ حلال گوشت پر ان کا اصرار‘ ختم کرنا ہوگا۔ ان کی مساجد و مدارس اور حمام ڈھا دینا ہوں گے‘‘۔ لیکن جب ان سفارشات پر عمل درآمد کروانے کی ہرممکن کوشش کرنے کے بعد بھی انھیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو اسی فرانکیزا نے دوبارہ لکھا: ’’ان مسلمانوں سے خیر کی اُمید نہیں۔ یہ موت قبول کرلیں گے‘ اپنی دینی روایات نہیں چھوڑیں گے‘‘۔

حالیہ فرانسیسی فیصلے کا تجزیہ کرتے ہوئے لاتعداد تجزیے لکھے گئے ہیں لیکن ہالینڈ سے ایک عرب تجزیہ نگار یحییٰ ابوزکریا کا یہ تبصرہ اہم ہے کہ ’’فرانس میں اتنی بڑی مسلم آبادی ہے کہ ان کی خواتین کے مقدس و عفیف حجاب نے فرانس کے عریاں و فحش کلچر کو خطرے میں ڈالنا شروع کر دیا تھا‘‘۔ جیسے جیسے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے‘ ان میں اور خود غیرمسلموں میں بھی اسلامی تعلیمات سے آگاہی کا شعور بڑھتا جا رہا ہے۔ اس ضمن میں خود مغرب میں جنم لینے اور پرورش پانے والے مغربی مسلمان نوجوان مغرب کے لیے بڑا   سوالیہ نشان بن گئے ہیں۔ یہ نوجوان انھی کی زبان‘ انھی کی اٹھان رکھتے ہیں۔ اپنے قانونی و اخلاقی حقوق و فرائض سے آگاہ ہیں‘ شراب و شباب کی غلاظت سے محفوظ ہیں اور اپنے دین کو ہر چیز سے زیادہ قیمتی و مقدس سمجھتے ہیں۔ اس نسل کو اس ’’متشدد دینی سوچ‘‘ سے بچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

اس عجیب فرانسیسی فیصلے پر مختلف اطراف کا ردعمل بھی عجیب تھا۔ صدربش نے جو مسلمانوں کے خلاف پالیسیوں کے سرخیل ہیں‘ اسکارف کے حق میں بات کی اور کہا کہ مسلم خواتین کو یہ حق ملنا چاہیے کہ اپنے مذہب کے مطابق سر پر اسکارف رکھ سکیں۔ امریکہ میں بھی اس کی آزادی ہے۔ دوسری طرف عالمِ اسلام کے تاریخی مرجع جامعہ الازھر کے سربراہ محمد سیدطنطاوی نے ارشاد فرمایا: ’’اسکارف کے خلاف احکامات فرانس کا اندرونی مسئلہ ہے‘ ہم مداخلت نہیں کرسکتے۔ فرانس کو اپنی مرضی کے مطابق قانون سازی کا حق ہے۔ جو مسلمان خواتین فرانس میں رہتی ہیں وہ اضطرار کی حالت میں اسکارف چھوڑ سکتی ہیں‘‘۔ البتہ جامعہ الازھر کے باقی علماے کرام اور خود مفتی مصر نے دوٹوک الفاظ میں کہا: ’’حجاب صریح حکم خداوندی ہے۔ کوئی علامت یا اختیاری امر نہیں۔ مخلوق میں سے کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ خالق کے حکم سے متصادم احکام جاری کرے‘ یا ان پر عمل درآمد کرے۔ یہی موقف مغرب ومشرق میں مسلم اکثریت کا ہے۔ ۱۷ جنوری ۲۰۰۴ء کو یورپ کے اکثر اور لبنان‘مصر‘ اُردن‘ ترکی‘عراق سمیت متعدد ممالک میں ہزاروں خواتین کے مظاہروں اور اجتماعات میں اس موقف کا اعادہ کیا گیا۔

۱۱ دسمبر کو برنر سٹازے کمیٹی کی رپورٹ سامنے آنے سے پہلے صدرشیراک نے ۳ سے ۵دسمبر کو تیونس کا دورہ کیا اور تیونس میں حجاب پر پابندی کی توصیف و ستایش کی۔ فرانسیسی اخبارات نے ’’بے پردہ تیونس‘‘ کے عنوان سے بڑی بڑی سرخیاں سجاتے ہوئے فرانس کے کئی علاقوں میں یہ اخبار مفت تقسیم کیا۔ واضح رہے کہ تیونس ایسا اکلوتا مسلم ملک ہے جہاں کے دستور میں اسکارف پر پابندی (شق ۱۰۸) ہے۔ سر پر اسکارف رکھنے والی خواتین کو تعلیم‘ ملازمت‘   حتیٰ کہ علاج کے حق سے بھی محروم کردیا جاتا ہے۔ ترکی میں بھی یہ مسئلہ گمبھیر ہے لیکن وہاں یہ پابندی دستور میں نہیں‘ اعلیٰ تعلیمی کونسل کے احکامات کے طور پر لاگو ہے۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تمام تر پابندیوں‘ تعذیب اور سزائوں کے باوجود ان دونوں ممالک میں بھی اسکارف رکھنے والی خواتین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ حکمران اس اضافے پر حیران و ششدر ہیں۔ فرانس میں یہ پابندی لگنے کے بعد وہاں بھی اس تعداد میں اضافہ ہونے لگا ہے۔ عام مسلمانوں کے دل میں یہ احساس قوی تر ہوا ہے کہ فرانس میں لگنے والی اس پابندی کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لیا گیا‘ تو یہ وبا دیگر مغربی ممالک میں بھی پھیلتی چلی جائے گی۔ اب بلجیم سے بھی یہ صدا اٹھی ہے کہ پاسپورٹ اور شناختی کارڈوں کی تصویر میں تمام خواتین کا ننگے سر ہونا ضروری ہے۔ فرانس میں اس پابندی پر احتجاج اس متعدی مرض کو پھیلنے سے روکنے کی ایک لازمی تدبیر بھی ہے۔

ایٹمی ہتھیار بنانے کے منصوبے سے لیبیا کی پسپائی کا اعلان گذشتہ ماہ کی سب سے بڑی خبر بنا رہا اور امریکہ نے بجا طور پر اسے اپنی فتح قرار دیا۔ کرنل قذافی کا امیج عالمِ اسلام میں  ایک دم مجروح ہوکر کاغذی شیرکی سطح پر آگیا۔ البتہ مغرب میں انھیں کچھ خیرسگالی حاصل ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ اس فیصلے کے پیچھے کرنل قذافی کا اتنا زیادہ ہاتھ نہیں جتنا کہ ان کے بیٹے     سیف الاسلام قذافی کا ہے۔ خود سیف الاسلام نے برطانوی اخبار کو انٹرویو میں بتایا کہ انھوں نے ہی اپنے والد کو قائل کیا تھا۔ ممکن ہے قذافی اپنا امیج بچانے کی خاطر یہ تاثر دے رہے ہیں کہ فیصلے کا کریڈٹ یا ڈس کریڈٹ ان کے بیٹے کو جاتا ہے‘ تاہم مغربی میڈیا کی یہ اطلاعات قابلِ غور ہیں کہ فیصلہ راتوں رات نہیں ہوا بلکہ مغرب کے ساتھ سفارت کاری کا عمل کئی ماہ سے جاری تھا۔

آمر حکومتیں ہمیشہ غیرملکی دبائو کے مقابلے میں پسپا ہوجاتی ہیں۔ اندرونِ ملک انھیں عوامی طاقت کا سہارا نہیں ہوتا چنانچہ انھیں ڈھیر ہونا ہی پڑتا ہے۔ لیبیا پر عالمی دبائو تولاکربی طیارے کے حادثے کے وقت سے ہی چلا آرہا ہے لیکن ماضی میں سوویت یونین موجود تھا‘    اس لیے ۱۹۹۰ء میں اس کے انہدام تک لیبیا نے آسانی سے اس دبائو کا مقابلہ کرلیا۔ ۹۰ء کے بعد کے حالات اس طرح کے ہوئے کہ لیبیا پر زیادہ توجہ نہ رہی۔ پہلے عراق کی جنگ چھڑی۔  پھر امریکی توجہ کا مرکز فلسطین رہا۔ سعودی عرب کے اندرونی مسائل بھی امریکی توجہ کھینچتے رہے۔ اسی دور میں بلقان کا مسئلہ اُبھرا اور کلنٹن دورِ حکومت میں امریکہ کی سب سے زیادہ توجہ اسی طرف رہی۔ پہلے بوسنیا اور پھر کوسووا کی صورت حال عالمی فلیش پوائنٹ بنی رہی۔ چنانچہ لیبیا کی پوزیشن اس نالائق طالب علم کی طرح رہی جس کی طرف استاد ابھی متوجہ نہ ہوا ہو۔ اس طرح وہ اپنا ایٹمی پروگرام خفیہ طور پر آگے بڑھاتا رہا۔ اس عمل میں اسے شمالی کوریا سے بھی مدد ملتی رہی۔ لیکن عراق پر حملے کے بعد سے لیبیا کو اپنی کمزور پوزیشن کا احساس ہونا شروع ہوا۔ گذشتہ ڈیڑھ ماہ میں ایران نے بھی اپنے ایٹمی پروگرام پر لچک دکھائی اور لیبیا کو محسوس ہوا کہ ایران اب عراق کے وار تھیٹر میں امریکہ کا عملاً اتحادی ہے اور اس کے ساتھ گرم محاذآرائی کی پالیسی بھی تبدیل ہورہی ہے۔ لیبیا نے دیکھا کہ وہ یکہ و تنہا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان نے نائن الیون کے بعد جس طرح اچانک یک طرفہ پسپائی دکھائی‘ عراق کی فتح اور لیبیا کی اپنے ایٹمی پروگرام سے  دستبرداری اسی کا دوسرا اور تیسرا حصہ ہے۔ امریکہ یکے بعد دیگرے مورچے فتح کرتا جا رہا ہے کیونکہ پاکستان نے اس کی ’’چین ری ایکشن‘‘فتوحات کا دروازہ کھول دیا ہے۔

برسرِاقتدار آنے کے بعد سے کرنل قذافی کی یہ شعوری کوشش رہی کہ وہ جمال ناصر کی جگہ لے لیں اور عرب دنیا کو عرب قوم پرستی کے نام پر متحد کریں۔ لیکن اس کوشش میں وہ عرب دنیا کو مزید منتشرکرنے کے سوا کچھ نہ کرسکے۔ عراق کی فتح سے قبل قذافی پان عرب ازم اور پان اسلام ازم سے تائب ہوکر عظیم تر افریقہ کے مبلغ بن چکے تھے اور پورے افریقہ کو ایک ہی ملک بنانے کا منصوبہ شروع کر چکے تھے۔ لیکن ان کا یہ منصوبہ اپنی کمزوری کی وجہ سے اور کچھ عراق پر امریکی قبضے کی وجہ سے ادھورا رہ گیا اور قذافی کو اپنی اور اپنے ملک کی فکر پڑ گئی۔

اپنے بچائو کے لیے سب سے پہلے انھوں نے لاکربی تنازعہ نمٹانا چاہا اور حادثے میں مرنے والوں کے لواحقین کو بھاری معاوضہ دینے کا اعلان کر دیا۔ یہ کھلا اعتراف تھا کہ لاکربی کے حادثے میں لیبیا سرکاری طور پر ملوث تھا۔ اس حادثے کی وجہ سے سلامتی کونسل نے جو پابندیاں لگائی تھیں‘ وہ اس نے مذکورہ اعلان کے بعد اٹھالیں۔ اس سے قذافی کو کافی ریلیف ملا اور اب انھوں نے مغرب اور امریکہ کی مزید ’’گڈوِل‘‘حاصل کرنے کی ٹھانی۔ کئی مہینے تک امریکہ اور مغرب کے سفارت کاروں سے رابطے اور خفیہ یقین دہانیوں کا عمل جاری رہا جس کے بعد اچانک دسمبر۲۰۰۳ء میں لیبیا کا یہ اعلان سامنے آکر پوری دنیا کو چونکا گیا کہ وہ وسیع تباہی والے ہتھیار بنانے کے اپنے منصوبے ترک کر رہا ہے۔ اس اعلان کو برطانیہ نے سراہا اور امریکہ نے اسے آزاد دنیا سے تعلقات بحال کرنے کے لیے ایک مثال قرار دیا۔ عرب لیگ نے لیبیا کے فیصلے کو سراہتے ہوئے آزاد دنیا سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل سے بھی ایسے ہی فیصلے کا مطالبہ کرے۔

برطانیہ کا سرکاری بیان یہ ہے کہ لیبیا کو قائل کرنے کے لیے سفارتی عمل نو ماہ سے جاری تھا۔ مغربی میڈیا کی تحقیقاتی رپورٹنگ سے یہ بات سامنے آئی کہ فیصلہ کُن مہینہ اصل میں اکتوبر کا تھا جب امریکی اور برطانوی انٹیلی جنس افسروں کی ایک مشترکہ ٹیم نے لیبیا میں قذافی کے ساتھ طویل مذاکرات کیے۔ یہ ٹیم دو ہفتے تک لیبیا میں رہی اور قذافی نے خود اسے اپنے اسلحی پروگرام کے خفیہ اڈوںکا معائنہ کرایا۔ ان میں میزائل سازی‘ کیمیائی اور حیاتیاتی اسلحے کے کارخانوں کے علاوہ ایٹمی پلانٹ بھی شامل تھا جس کے بارے میں امریکہ کی ابتدائی اطلاعات یہ تھیں کہ وہاں سات برس میں ایٹم بم بنانے کی صلاحیت حاصل کی جاسکتی ہے۔ لیکن جب ٹیم نے معائنہ کیا تو پتاچلا کہ سات برس کا اندازہ غلط تھا۔ لیبیا محض ایک ڈیڑھ سال کے فاصلے پر تھا۔

عالمی دبائو اور عالمی تنائو کے عوامل کے ساتھ ساتھ قذافی کو ایک داخلی چیلنج کا بھی سامنا تھا۔ اگرچہ ان کی آمرانہ حکومت ایک تہائی صدی سے قائم ہے اور اس دوران وہ تنقید کرنے والے ہر شخص کو موت کے گھاٹ اتارتے رہے ہیں لیکن نائن الیون کے آگے پیچھے کا زمانہ دوسرے ممالک کی طرح یہاں بھی زیرزمین اسلامی انتہاپسندی کے عروج کا زمانہ تھا۔ یہ انتہا پسند زیادہ مقبولیت اور طاقت حاصل کرتے نظر آرہے تھے۔ چنانچہ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے بھی ضروری تھا کہ امریکہ کی آغوش میں پناہ لی جائے۔ لیبیا کا دورہ کرنے والی انٹیلی جنس ٹیم کے ایک افسرنے خبر رساں ایجنسی رائٹر کو بتایا کہ انتہاپسندی کے خلاف جنگ میں ہم قذافی سے اشتراک کے لیے تیار ہیں۔ اس افسر نے بتایا کہ لیبیا میں انتہاپسندوں کے کئی گروپ موجود ہیں جو ہر طبقے کے لوگوں کو ڈرادھمکا رہے ہیں۔ رائٹر کی یہ رپورٹ ۲۰ دسمبر۲۰۰۳ء کو جاری ہوئی اور اس سے پتاچلا کہ آہنی پردوں والے لیبیا میں ’خطرناک‘ لوگوں کے ایک دو نہیں‘ کئی گروپ کام کررہے ہیں اور وہ اتنے طاقت ور بھی ہیں کہ مقابلے کے لیے تنہا لیبیا کی حکومت کافی نہیں‘ اسے امریکی تعاون بھی درکار ہے۔ رپورٹ سے ظاہر ہے کہ امریکہ ہر تعاون فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔

اسی ٹیم کے ایک اور افسر نے بتایا کہ سفارت کاری کا یہ سارا عمل ہم نے پوری طرح خفیہ رکھا اور ساری ملاقاتیں صرف لیبیا میں نہیں ہوئیں بلکہ بعض اجلاس یورپ میں بھی ہوئے۔ انھی افسروں نے بتایا کہ سلسلہ جنبانی کا آغاز خود قذافی نے وسط مارچ میں کیا تھا۔ ان ملاقاتوں میں قذافی کا طرزِعمل یہ تھا کہ وہ اپنے تباہ کن ہتھیاروں کے پروگرام کے بارے میں اعتراف پر اعتراف کیے چلے جا رہے تھے‘ یعنی خود ہی ایک ایک تفصیل بتا رہے تھے۔ افسروں کی مذکورہ ٹیم کو مہلک ہتھیار بنانے کے کم از کم ایک درجن اڈے دکھائے گئے۔ ٹیم کو وہ جدید اور ترقی یافتہ میزائل بھی دکھائے گئے جو شمالی کوریا نے ۱۹۹۰ء کی دہائی کے شروع میں اسے فراہم کیے تھے۔

ایک اور رپورٹ کے مطابق لیبیا کی اس پسپائی کے محرکات میں عالمی دبائو اور داخلی صورت حال کے علاوہ معاشی بحران بھی شامل تھا۔ اس رپورٹ کے مطابق لیبیا کی معیشت کو کمزوری کا سامنا ہے اور اس کے عوام کا معیارِ زندگی تیل پیدا کرنے والی خلیجی ریاستوں کے مقابلے میں گر رہا ہے۔ تاہم یہ عامل ثانوی نوعیت کا ہوسکتا ہے‘ بنیادی نہیں۔

شمالی کوریا کے علاوہ‘ لیبیا کے ایٹمی پروگرام میں تعاون کرنے کا الزام ایران اور پاکستان پر بھی لگ رہا ہے۔ جاپان کے ایک اخبار سانکی شمبون کی رپورٹ کے مطابق شمالی کوریا کے کئی درجن سائنس دان اور انجینیرکئی برس تک لیبیا میں تباہ کن ہتھیاروں کی تیاری میں ملوث رہے۔ اس سلسلے میں دونوں ممالک کے درمیان ۱۰۰ کے قریب معاہدے ہوئے۔ اسی طرح ایران کے بھی کئی انجینیرلیبیا میں خدمات سرانجام دیتے رہے۔ پاکستان کو خود قذافی کے بیٹے سیف الاسلام نے ملوث کیا۔ برطانوی اخبار انڈی پنڈنٹ کو انٹرویو میں اس نے بتایا کہ دسیوں لاکھ ڈالر کے معاوضے پر پاکستانی سائنس دانوں نے لیبیا کو اہم ایٹمی معلومات دیں جن کی وجہ سے لیبیا ایٹم بم بنانے کے قریب پہنچ گیا۔ پاکستان کی تردید اور غالباً خفیہ احتجاج کے بعد پاکستان میں لیبیا کے سفارت خانے نے جو وضاحتی بیان دیا اس میں بتایا کہ سیف الاسلام نے یہ بات ’’شاید‘‘ کے لفظ کے ساتھ کہی تھی۔

لیبیا کو توقع تھی کہ وہ اچانک امریکہ کا ڈارلنگ بن گیا ہے۔ اس لیے اب امریکہ اس پر سے عائد پابندیاں اٹھا لے گا لیکن اسے یہ معلوم کر کے سخت مایوسی ہوئی کہ صدربش ایسا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ بش نے واضح الفاظ میں بیان جاری کیا کہ لیبیا اپنے اسلحی پروگرام کو ختم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائے۔ جب وہ ایسا کرلے گا توہم جوابی خیرسگالی اقدام کریں گے‘      فی الحال پابندیاں نہیں اٹھائی جاسکتیں۔ ان پابندیوں کے تحت امریکہ میں لیبیا کے تمام اثاثے منجمد ہیں جن کی مالیت سیکڑوں ملین ڈالر ہے۔

لیبیا نے پسپائی میں مزید پیش رفت کرتے ہوئے اسرائیل سے بھی رابطے کیے ہیں اور مختصر عرصے میں دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کا قوی امکان ہے۔ لیبیا کے نمایندوں نے جنوری کے پہلے ہفتے میں اسرائیلی وزیراعظم شیرون سے ملاقات کی تھی اور ان سے استدعا کی تھی کہ بوجوہ اس ملاقات کو اخفا میں رکھا جائے‘ لیکن اسرائیل کے ایک اخبار نے یہ خبر شائع کر دی جس پر لیبیا نے برہم ہوکر اس امر کی تردید کر دی کہ وہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات بحال کرنے والا ہے‘ تاہم یہ قضیہ نہ ہونے کے برابر ہے اور جلد طے ہوجائے گا۔ یہ امر دل چسپی کا حامل ہے کہ انکشاف خود شیرون نے کیا۔ اسرائیلی ذرائع کے مطابق اسرائیل کی وزارتِ خارجہ لیبیا سے تعلقات کی بحالی کی حامی ہے لیکن شیرون کا کیمپ ایسا نہیں چاہتا۔

لیبیا نے بھی اپیل کی تھی اور امریکہ نے بھی کہا تھا کہ اب شمالی کوریا اور ایران بھی لیبیا کی پیروی کریں لیکن شمالی کوریا نے اس مطالبے کو مسترد کر دیا ہے۔ شمالی کوریا نے کہا ہے کہ اگر امریکہ کو ایسی کوئی توقع ہے تویہ اس کی حماقت ہے۔ یہ بیان ملک کی وزارتِ خارجہ نے دیا۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ لیبیا کی اس پسپائی کے بعد شام پر دبائو بڑھے گا جس نے ترکی سے دوستی بڑھا کر اس دبائو کا مقابلہ کرنے کی تیاری شروع کر دی ہے۔ صدر بش ۱۲ دسمبر کو شام پر اقتصادی اور سفارتی پابندیوں کی منظوری دے چکے ہیں جو شام کے محاصرے کا آغاز سمجھی    جانی چاہییں۔ امریکہ کے شام پر جو الزامات ہیں ان میں سرفہرست دو ہی ہیں۔ ایک تو یہ کہ دہشت گرد گروپوں کی امداد کر رہا ہے اور دوسرے یہ کہ وہ ہتھیار بنا رہا ہے۔ شام نے صرف ایک جوابی بیان دیا ہے کہ اسرائیلی خطرے کے پیشِ نظر اسے ہر قسم کااسلحہ بنانے کا حق حاصل ہے۔ عرب سفارتی حلقوں میں یہ رائے عام ہے کہ شام امریکہ سے ’’سفارتی صلح‘‘ کی کوشش کرے گا۔

سقوطِ بغداد (۹ اپریل ۲۰۰۳ئ)کے بعد صدام کی گرفتاری یا موت کی خبر کسی وقت بھی متوقع تھی اور یہ امریکہ کے لیے باعثِ خفت ہے کہ ’’فتح‘‘کے آٹھ مہینے کے بعد اسے یہ کہنے کا موقع مل رہا ہے کہ "We got him" (ہم نے اسے پکڑلیا!)۔

بظاہر معلوم یہی ہوتا ہے کہ مخبری یا صدام کے اپنے محافظوں کی بے وفائی کے سبب امریکہ اس تک پہنچ سکا اور اسے پہلے نشہ زدہ کیا گیا اور پھر گرفتاری کے ڈرامے کو ٹیلی وژن کے اسکرین پر دکھایا گیا۔ یہ بھی معنی خیز ہے کہ ۱۴ دسمبر۲۰۰۳ء کو گرفتاری کے اعلان سے ایک ہفتہ پہلے جنگی جرائم پر مقدمہ چلانے کے لیے عراقی ججوں پر مشتمل عدالت کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ گویا یہ سب اسی ڈرامے کی مختلف کڑیاں ہیں اور ہرمنظر سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دکھایا جا رہا ہے۔

امریکہ نے صدام کو ’جنگی قیدی‘ (prisoner of war) قرار دیا ہے اور وہ قابض فوجوں کی تحویل میں ہے۔ ہمیں صدام کی ذات سے کوئی دل چسپی نہیں اور اس نے جو کچھ کیا‘ اس کی سزا وہ اللہ کے قانونِ مکافات کے مطابق یہاں اور آخرت میں ضرور بھگتے گا--- جس میں وہ ذلت بھی شامل ہے جو اس کا مقدر ہوگئی ہے۔ لیکن یہ گرفتاری اور جس طرح اس کی تشہیر کی گئی ہے وہ امریکہ کے کردار کو سمجھنے کے لیے ایک کلید کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر امریکہ ایک مہذب ملک ہے تو وہ بھی بین الاقوامی قانون کا اسی طرح پابند ہے جس طرح دنیا کے دوسرے ممالک۔ لیکن امریکہ خود کو ہر قانون اور ضابطے سے بالا سمجھتا ہے اور ان تمام قوانین اور معاہدات بشمول جنیوا کنونشنز کو پرکاہ کے برابر بھی وقعت نہیں دیتا جو اسے جنگ اور جنگی قیدیوں کے باب میں کسی درجے میں بھی پابند کرتے ہیں۔ جنگ کے دوران جب عراق نے امریکہ کے جنگی قیدیوں کو ٹی وی پر دکھایا تھا تو امریکہ چیخ اُٹھا تھا کہ یہ جنیوا کنونشنز کے خلاف ہے۔ لیکن خود امریکہ نے جس طرح سے صدام کے بیٹوں کی لاشوں کی نمایش کی اور اب جس حقارت کے ساتھ صدام کو بہ ایں ریش دراز دکھایا‘شیوکیے جانے اور دانتوں سے ڈی این اے حاصل کرنے کے مناظرکو پیش کیا اور چوہے کے بل کی داستانیں نشر کیں‘ انھیں بھلا کون سے قانون یا ضابطے کے تحت جائز قرار دیا جا سکتا ہے۔

قیدیوں کی تحقیرایک مذموم حرکت اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے لیکن امریکہ کے لیے یہ سب روا ہے۔ اس نے تو اقوامِ متحدہ کے قائم کردہ جنگی جرائم کی کورٹ کو تسلیم کرنے تک سے انکار کر دیا ہے اور دنیا کے دوسرے ممالک سے دو طرفہ معاہدات کر رہا ہے کہ امریکہ کے فوجی بین الاقوامی کریمنل کورٹ کی دسترس سے باہر رہیں گے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ امریکہ ایک مہذب ریاست کا نہیں بلکہ ایک غنڈا ریاست (Rogue State) کا کردار ادا کر رہا ہے اور طاقت کے نشے میں چور‘ خود کو ہر قانون سے بالا رکھنا چاہتا ہے۔ اس طرح وہ  ایک عالمی لیڈر کا نہیں ایک Master اور Bully کا کردار ادا کر رہا ہے اور دنیا کی نگاہ میں اب امریکہ کی یہی پہچان ہے۔ پھر اگر دنیا کے لوگ امریکہ کو امن کے لیے خطرہ اور خود اپنے لیے ایک ناپسندیدہ کردار تصور کرتے ہیں تو اس میں ان کا کیا قصور؟ اس کے بعد بھی اگر صدربش یہی پوچھتے ہیں اہل دنیا ہم سے کیوں نفرت کرتے ہیں؟ تو اس کے سوا کیا کہا جائے کہ  ع

اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا

دوسرا پہلو‘ جس میں عرب اور مسلمان ممالک اور ان کی قیادتوں کے لیے بھی بڑا   سامانِ عبرت ہے اور خود امریکہ کے لیے بھی‘ یہ ہے کہ اب اس پر بحث ہو رہی ہے کہ صدام پر مقدمہ کیسے چلایا جائے؟ اس لیے کہ اگر یہ کھلا مقدمہ ہو اور صدام سارا کچا چٹھا عدالت کے سامنے رکھ دے تو صدام کے جرائم سے کہیں زیادہ خود امریکہ کے جرائم اور گھنائونے کردار کا نقشہ دنیا کے سامنے آئے گا اور معلوم ہوگا کہ امریکہ عرب‘ مسلم اور تیسری دنیا کے ممالک میں کیا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ صدام نے ۱۲ ہزار صفحات پر مشتمل جو دستاویز عام تباہی کے ہتھیاروں کے سلسلے میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کو دی تھی امریکہ نے اس میں سے ۹ ہزار صفحات پر masking tape لگا دیا تھا کہ اس میں اس کے اپنے کردار کا ذکر تھا۔اب یہ سب چیزیں کھل کر دنیا کے سامنے آئیں گی۔

اس کے علاوہ صدام کو صدام بنانے میں امریکہ نے کیا کردار ادا کیا ہے یہ بھی دنیا کے سامنے آرہا ہے۔ رچرڈسیل (Richard Sale)کی ایک تحقیقی رپورٹ کے بموجب جو اس سال اپریل میں یونائیٹڈ پریس انٹرنیشنل نے شائع کی ہے کہ امریکی سی آئی اے کا پہلا رابطہ نوجوان صدام حسین سے ۱۹۵۹ء میں قائم ہوا جو عراق کے مقبول عوام حکمراں جنرل عبدالکریم قاسم کو قتل کرنے کے منصوبے کے سلسلے میں تھا۔ جنرل عبدالکریم قاسم وہ شخص تھا جس نے عراق کی مغرب نواز شہنشاہیت کا تختہ الٹا تھا اور عراقی قوم پرستی اور اشتراکیت کے نظریے پر استوار بعث پارٹی کے ذریعے امریکہ نے اس کا کام تمام کر دیا۔ عرب محقق اور تجزیہ نگار عادل درویش کی کتاب UNHOLY BABYLON: The Secret History of Saddam's War میں پوری دستاویزی شہادتوں کے ساتھ صدام اور بعث پارٹی کے گھنائونے کردار اور ان کے   سی آئی اے سے تعلقات کی تفصیلات آچکی ہیں اور خود بعث پارٹی کے سیکرٹری جنرل نے اعتراف کیا تھا کہ "We came to  power on CIA train" (ہم امریکی گاڑی پر سوار ہوکر اقتدار میں آئے تھے)۔ اس گاڑی میں صدام حسین کا ایک خاص مقام تھا‘ یعنی پارٹی کی خفیہ جاسوسی تنظیم کی سربراہی۔ پارٹی کا یہی وہ عنصر تھا جو Iraqi National Guardsmen کے    عنوان تلے سیاسی مخالفین اورسی آئی اے کی فراہم کردہ فہرست کے مطابق لوگوں کو چن چن کر قتل کر رہا تھا۔

صدام سی آئی اے ہی کے تعاون سے ترقی کی منزلیں طے کرتا ہوا بالآخر عراق کا مطلق العنان فرمانروا بنا اور اس حیثیت سے ہی وہ امریکہ کا منظورِ نظر تھا خاص طور پر جب امریکہ نے اسے ایران کے خلاف استعمال کیا۔ ۱۹۶۷ء کی جنگ کے بعد سے عراق پر بھی دوسرے عرب ممالک کی طرح پابندیاں لگی ہوئی تھیں۔ ایران کے خلاف جنگی خدمات کے عوض ۱۹۸۲ء میں صدر ریگن نے وہ پابندیاں اٹھائیں اور صدام کو صرف معلومات ہی نہیں بلکہ اسلحہ‘ کیمیاوی اور گیس کے ہتھیار اور ایک ارب ۲۰ کروڑ ڈالر کی مالی امداد بھی دی۔ اور وہ امداد اس کے علاوہ ہے جو سعودی عرب اور کویت سے دلوائی گئی۔ موجودہ سیکرٹری دفاع ڈونلڈ رمزفیلڈ جو اُس وقت ریگن کے نمایندے کے طور پر ۲۰ دسمبر ۱۹۸۳ء کو صدام سے ملے اور اسے ہر قسم کے تعاون کا یقین دلایا۔ پھر ۱۹۸۴ء میں بغداد کا دورہ کیا اور جس وقت صدام کردوں کے خلاف زہریلی گیس استعمال کررہا تھا جو امریکہ‘ برطانیہ اور جرمنی سے فراہم کی گئی تھی‘ تب کھلے عام امریکہ اس کی پیٹھ تھپک رہا تھا۔ یہ اور سارے حقائق ویسے تو اب کسی نہ کسی طرح سامنے آچکے ہیں لیکن امریکہ خائف ہے کہ صدام کے مقدمے کے ذریعے سے یہ ساری کالک اس کے منہ پر مَلی جائے گی۔ اس لیے وہ   بین الاقوامی مقدمے سے کنی کترا رہا ہے اور صدام کی سرپرستی کے اپنے گھنائونے کردار کے اس طرح طشت ازبام ہونے سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے۔

صدام کی گرفتار ی سے امریکہ کی مشکلات کا خاتمہ نہیں ہوابلکہ اس میں ایک نئے باب کا آغاز ہوا ہے۔ عراق میںامریکی قبضے کے خلاف جو تحریک برپا ہے اس میں کمی کا امکان نہیں اور صدام کی گرفتاری سے یہ بات بھی واضح ہو گئی ہے کہ اس کی پشت پر صدام نہیں (وہ تو ایک    تہہ خانے میں پناہ لیے ہوئے تھا اور منشیات کے ذریعے اپنے غم غلط کرنے میں مصروف تھا)‘ بلکہ پوری قوم ہے اور محض صدام یا القاعدہ کی دہائی دے کر اس کی توجیہہ نہیں کی جا سکتی۔

عالمِ اسلام کے لیے بھی اس میں عبرت کا مقام ہے کہ کس طرح وہ قائدین جو اس پر مسلط ہیں‘ وہ دوسروں کے آلہ کار رہے ہیں اور ہیں‘ اور وہ جو اپنے عوام پر ظلم ڈھانے کے لیے بڑے جری ہیں جب آزمایش آتی ہے تو کس طرح چوہوں کی طرح بلوں میں گھستے اور اپنی جان بچاتے نظر آتے ہیں۔ اس میں یہ سبق بھی ہے کہ وہ نظام جس میں باگ ڈور ایسے آمروں کے ہاتھ میں ہو‘ کتنا کمزور اور بودا ہوتا ہے اور کس طرح تاش کے پتوں کے گھروندے کی طرح  زمین بوس ہو جاتا ہے۔ استحکام‘ دستور اور قانون کی حکمرانی‘ اصولوں کی بالادستی اور اداروں کے استحکام سے حاصل ہوتا ہے۔ آج ہماری کمزوری کی اصل وجہ ہی اجتماعی نظام کا یہ بگاڑ اور اجتماعی احتساب کا فقدان ہے۔ خود اپنے گھر کی اصلاح وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ بات صرف عراق اور صدام کی نہیں‘ ہر مسلمان ملک اور وہاں پر مسلط ہر آمر کا مسئلہ ایک ہی ہے۔   نام اور جگہ مختلف ہے۔ اگر مسلم عوام یہ سبق سیکھ لیں اور اپنے معاملات ان باہر سے مسلط کیے جانے والے نام نہاد مسیحائوں کے ہاتھوں سے لے کر خود اپنے ہاتھوں میں لے لیں تو چند سالوں میں زندگی کا نقشہ بدل سکتا ہے۔ فاعتبروا یااولی الابصار!

مہاتیرمحمد اقتدار سے دستبردار ہوگئے ہیں۔ عبداللہ احمد بداوی وزارتِ عظمیٰ کا حلف اُٹھاچکے ہیں۔ دنیا بھر میں خیرمقدم کیا جا رہا ہے کہ مہاتیرمحمد اپنی رضامندی سے اقتدار سے الگ ہوئے۔ اسلامی ممالک کی کانفرنس میں ان کی تقریر کو اُمت مسلمہ کے نقطۂ نظر سے بہت سراہا گیا ہے۔

ملائیشیا میں مسلمان ۶۰ فی صد اور دیگر مذاہب کے پیروکار۴۰ فی صد ہیں۔ ڈاکٹر مہاتیرمحمد ۲۲ برس تک وزیراعظم رہے۔ اُنھوں نے نظامِ تعلیم اور معیارِ تعلیم کی بہتری کو اولین ترجیح بنایا‘ دنیا بھر سے لائق اساتذہ کو اپنے ملک میں اکٹھا کیا اور ملک کے معماروں کی تعمیر کا مستحکم نظام قائم کیا۔ ملایشیا کی موجودہ فی کس آمدن ۳ ہزار ۶سو امریکی ڈالر ہے۔ اُن کے دورِ اقتدار میں یہ ربڑ کی برآمد کرنے والے غیرترقی یافتہ ملک سے درمیانے درجے کے صنعتی ملک میں تبدیل ہوچکا ہے۔ جنوب مشرقی ایشیائی ممالک میں جو اقتصادی بحران ۱۹۹۷ء میں آیا اُس سے صرف ملائیشیا ہی محفوظ رہ سکا۔ اس وقت ملائیشیا کی برآمدات ۸۸ ارب امریکی ڈالر سے متجاوز ہیں‘ جب کہ حکومت کے محفوظ ذخائر کا اندازہ ۳۳ ارب امریکی ڈالر ہے۔

مہاتیرمحمد کی پالیسیوںکا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اُنھوں نے جاپان اور مغربی ممالک کے لیے سرکاری طور پر اس قدر سہولتیں فراہم کیں کہ وہاں کے صنعت کار ملائیشیا میں بلاروک ٹوک سرمایہ کاری کرنے لگے۔ سرکاری تحویل سے بیشتر کاروبار نجی شعبے کو منتقل کر دیا گیا۔ سرمائے کی گردش کی حدود واضح کی گئیں‘ اور سکّے کے بجاے سونے یا اسلامی دینار کو مسلم دنیا میں کرنسی بنانے کا نظریہ پیش کیا گیا تاکہ ڈالر کی بالادستی کو توڑا جا سکے۔ داخلی طور پر اُنھوں نے پوری قوم کو محنت کرنے اور آگے بڑھنے کا سبق دیا۔ اُن کا کہنا تھا جس طرح کمپنی کا ہر کارکن کام کرتا ہے اس طرح ہر شہری اپنا فرض ادا کرے۔ ڈاکٹر مہاتیر نے بوسنیا کی جنگ کے دوران‘ بوسنیا کے لیے ببانگ دہل آواز بلند کی‘ فلسطینیوں کے بارے میں بھی اُن کے بیانات شائع ہوتے رہتے ہیں۔ اُنھوں نے اقتدار سے دستبردار ہوکر اُن درجنوں مسلم سربراہوں کے لیے ایک مثال قائم کر دی ہے کہ جو کہتے ہیں کہ ہمارا ملک ہمارے دم سے یا ہماری اولاد کے دم قدم سے شاد آباد رہے گا‘ ہم چلے جائیں گے تو ملک تباہ ہو جائے گا۔

مہاتیرمحمدنے اسلامی ایشوز کے ترجمان کی حیثیت سے اپنی شناخت تسلیم کروائی‘ اور دوسری طرف معاشی خوشحالی کے لیے بھرپور کوشش کی۔ اُن کا نظریہ یہ تھا کہ اسلام‘ اقتصادی ترقی کے راستے میں رکاوٹ نہیں ہے اور اس پر وہ اور اُن کے ساتھی عمل پیرا رہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی فراموش نہ کرنا چاہیے کہ مہاتیراور اُن کی جماعت United Malay National Organization (UMNO) میں اس طویل عرصے میں حزبِ اختلاف کو برداشت کرنے کا حوصلہ کم ہی رہا۔ اُنھوں نے پریس کی آزادی پر کافی حد تک پابندی عاید کیے رکھی۔ حزبِ اختلاف کی اسلامی پارٹی ملایشیا،’پاس‘(PAS) اور دیگر جماعتوں کے ساتھ اُن کا رویہ سخت رہا۔ سابق قائد حزبِ اختلاف فاضل نور کی تقاریر سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت نے مخالفین کی کردارکُشی کی پالیسی اختیار کی۔ مخالفین کے لیے انٹرنل سیکورٹی ایکٹ (ISA) اور (OSA) جیسے قوانین ابھی تک روبہ عمل ہیں۔ اس کے تحت مقدمہ چلائے بغیر کسی بھی شخص کو غیرمعینہ مدت کے لیے پابند ِ سلاسل رکھا جا سکتا ہے۔ کلنتان اور ترنگانو کی ’پاس‘ کی حکومتوں کے لیے ہر اُس مرحلے میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں جہاں قانون سازی پر عمل درآمدکے لیے وفاقی حکومت کی منظوری درکار ہو۔ اَناکی جنگ لڑتے لڑتے مہاتیرنے انور ابراہیم جیسے نائب اور باصلاحیت قائد کو جیل خانے تک پہنچا دیا۔

اب سوال یہ ہے کہ مہاتیر کے بعد کا ملائیشیا کیسا ہوگا؟

ملائیشیا میں انتخابات کا شیڈول اپریل ۲۰۰۴ء میں جاری ہو جائے گا اور امید ہے کہ اکتوبر تک انتخابات کا مرحلہ مکمل ہو جائے گا۔ ’امنو‘ کے نمایندے اور موجودہ وزیراعظم عبداللہ احمد بداوی کی پالیسی یہ ہے کہ چینی النسل باشندوں اور ہندوئوں کے ووٹ کی تعداد میں اضافہ ہو۔

آیندہ کے سیاسی منظرنامے کے بارے میں سنٹر فار ماڈرن اورینٹ اسٹڈیز‘ برلن‘  جرمنی کے سربراہ ڈاکٹر فارش اے نور لکھتے ہیں: ڈاکٹر مہاتیرمحمد کے جانشین داتو عبداللہ احمدبداوی کے سامنے ایک بڑا چیلنج ہے اور وہ چیلنج یہ ہے کہ ریاست کے انتظامی ادارے(bureau cratic institutions) ازسرِنو ترتیب دیے جائیں‘ سرکاری نوکریاں اور عہدے قابلیت پر ہی فراہم کیے جائیں‘ سیاسی اقربا پروری پر پابندی ہو‘ عدلیہ کو آزادی سے کام کرنے کی اجازت دی جائے‘ حکومت برداشت‘ جمہوریت‘ اجتماعیت اور بنیادی انسانی حقوق کی علم بردار ہو۔ ملک کے کئی خطے اور آبادی کے مجموعے اُس اجتماعی خوشحالی سے بہرحال محروم ہیں کہ جن کا بیرونِ ملک خوب چرچا ہوتا ہے۔ اُن کے لیے بھی راہِ عمل متعین کی جائے۔

ملائیشیا کی قیادت کو یہ فراموش نہ کرنا چاہیے کہ معاشی خوش حالی کی قیمت پر جمہوری روایات اور ثقافتی ادارے متاثر ہوئے ہیں۔ شہروں پر آبادی کا دبائوبہت بڑھ گیا ہے۔ امیر اور غریب طبقات کے درمیان فرق میں اضافہ ہوا ہے اور شہری زندگی کے مسائل میں فلک بوس عمارتوں کی طرح اضافہ ہوتا چلا گیا ہے۔ زراعت اور ماہی گیری کے شعبے پسِ منظر میں جا رہے ہیں۔ مہاتیر کے بعد زیادہ عوامی پالیسیاں اختیار کرنے کی ضرورت پیش آئے گی۔

وفاق میں حکومت بنانے کے لیے ’پاس‘ کو شدید محنت کی ضرورت ہے۔ وفاقی اسمبلی میں ’پاس‘ کے ۳۹ ممبران ہیں۔ قدامت پرستی‘ عورتوں سے امتیاز اور آرتھوڈوکس ہونے کے پروپیگنڈے کے توڑ کے لیے مضبوط سیاسی و انتخابی اتحاد کی ضرورت ہے۔

اسلامی پارٹی ملائیشیا جو گذشتہ ۱۲ برس سے برسرِاقتدار مخلوط حکومت کی منفی پالیسیوں پر تنقید کر رہی ہے‘ اور اس نے کلنتان اور ترنگانو صوبوں میں حکومت بنانے کے بعد وفاقی اسمبلی میں بھی اصول پرست مضبوط حزبِ اختلاف کا کردار ادا کیا ہے‘ اپنے کردار کے ذریعے ملائیشیا کی ۴۰ فی صد غیرمسلم (ہندو‘ سکھ‘ چینی) آبادی کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہی ہے کہ ہماری پارٹی برسرِاقتدار آنے کے بعد اُن کو تبدیلی مذہب پر مجبور کرنے کی احمقانہ کوشش نہ کرے گی‘ اور وفاق میں حکومت بنانے کے بعد اُن کے سیاسی‘ معاشرتی اور اقتصادی حقوق پر ہرگز آنچ نہ آئے گی۔ خواتین کو امتیازی سلوک کا سامنا نہ کرنا پڑے گا جن کا ملائیشیا کے اخبارات میں چرچا رہتا ہے۔

۱۷ رمضان المبارک (یومِ بدر) کے موقع پر اسلامی پارٹی کے سربراہ داتوسری حاجی عبدالہادی آوانگ نے اسلامی ریاست کے قیام کے لیے مجوزہ دستاویز اہالیانِ وطن کے سامنے پیش کی۔ اس کے اہم ترین نکات کا خلاصہ حسب ِ ذیل ہے:

                ۱-            ریاست بلاتفریق مذہب و ملّت تمام شہریوں کے تمام حقوق کی مکمل ضمانت دے گی۔

                ۲-            وفاقی دستور میں اُسی وقت تبدیلی کی جائے گی جب یہ انتہائی ناگزیر ہو۔

                ۳-            تمام مذاہب کے پیروکار اپنی مذہبی روایات‘ ثقافتی رسومات پر عمل پیرا رہ سکیں گے۔

                ۴-            کسی بھی شخص کو مجبور نہ کیا جائے گا کہ وہ دین اسلام کو قبول کرے۔

                ۵-            عدلیہ اور مقننہ کا علیحدہ نظام برقرار رہے گا۔

                ۶-            ملازمتیں میرٹ اور اصولوں کی بنیاد پر مہیا کی جائیں گی۔ مذہب‘ نسل اور جنس کی بنا پر امتیاز نہ برتا جائے گا۔

                ۷-            شہریوں کے جمہوری حقوق کی پاسداری وفاقی دستور کے مطابق جاری رہے گی۔

                ۸-            عدلیہ‘ انتظامیہ اور مقننہ میں کوئی بھی شخص منتخب ہو سکے گا۔ نسلی اور لسانی گروہ کی بنا پر پابندی عائد نہ کی جائے گی۔

                ۹-            فروغِ تعلیم اور مادری زبان میں تعلیم کا حق‘ ریاست کو حاصل رہے گا۔

                ۱۰-         عورتوں کے لیے تعلیم‘ ملازمت‘ تجارت‘ سفر کے تمام حقوق برقرار رہیں گے اور اُن کے ساتھ جنس‘ مذہب اور لسانی گروہ کی بنا پر کسی قسم کا امتیاز روا نہ رکھا جائے گا۔

گذشتہ پانچ برسوں میں یونی ورسٹیوں کے انتخاب میں اسلامی پارٹی کے نامزد اور   ہم خیال طلبہ کامیاب ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ دونوں صوبوں کے خوش گوار تجربات کے اثرات بھی پھیل رہے ہیں۔ انتخابی مہم کے لیے تیاری جاری ہے۔ مہاتیر نے ایک ایسے وقت دست برداری کی ہے کہ اس کی پارٹی انتخابات جیت سکے۔ ’پاس‘ ایک سنجیدہ متبادل قیادت کے طور پر آگے بڑھ رہی ہے۔ اب ملائیشیا کے عوام کیا فیصلہ کرتے ہیں یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

عراق میں امریکی اور اتحادی افواج (بلکہ اقوامِ متحدہ کے مرکزی دفتر تک پربھی) حملوں کے ساتھ ساتھ‘ افغانستان سے بھی مختلف علاقوں میں طالبان کی کارروائیوں اور بعض علاقوں پر قبضے کی اطلاعات مسلسل آرہی ہیں۔ عراق کے حوالے سے تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان سے بھیجے جانے والے دستوں اور خصوصاً ان کے سربراہ کو اپنی حرام موت کا منظر پہلے سے ہی دیکھ لینا چاہیے لیکن افغانستان کے حوالے سے‘ خود گھرکے ایک بھیدی کے معروضانہ تجزیے سے اخذ کردہ مشاہدات پر ایک نظر شاید بند آنکھوں والوں کی آنکھیں بھی کھول دے۔ ان مشاہدات کی سند کے لیے برطانوی جریدے اکانومسٹ کا نام کافی ہے۔ شمارہ ۱۶ اگست ۲۰۰۳ء کے اس تجزیے کا آغاز عراق سے ہوتا ہے۔ ’’افغانستان‘ عراق پر حملے کی ریہرسل نہیں تھا… یہ غریب ہے‘ اس کے پاس تیل نہیں‘‘ (اس لیے اس تحریر کا آغاز بھی عراق سے کیا گیا ہے!)۔

افغانستان کو تباہ کرنے اور فتح کرنے کے بعد اصل کام تعمیرنو کا تھا۔ لیکن تعمیرنو تو دُور کی بات ہے‘ اصل مسئلہ تو امن و امان برقرار رکھنا اور کرزئی حکومت کے لیے اپنا حکم نافذ کرنا ہوگیا ہے (طالبان کے دور میں سب کچھ ٹھیک تھا۔ لیکن دنیا کو کیڑے ہی کیڑے نظر آتے تھے۔اب کس حال کو پہنچا دیا گیا ہے؟)۔

امریکہ کی قیادت میں ۱۲ ہزار اتحادی افواج کے ساتھ نیٹو کے زیراہتمام ترکی‘ جرمنی‘ برطانیہ اور ہالینڈ کی ۵ ہزار امن فوج (ISAF) اپنے فرائض ادا کر رہی ہے لیکن قیمت بھی ادا کررہی ہے۔ جون میں چار جرمن فوجی ایک حملے میں ہلاک ہوگئے‘ اسپین کا امن دستہ گھر واپس لے جانے والا جہاز گرگیا اور ۷۵ ہلاک ہوگئے (قیمت غالباً اس سے بہت زیادہ ادا کی جا رہی ہے)۔ لیکن جہاں امن کی اصل ضرورت ہے‘ یعنی کابل سے باہر‘ وہاں جانے میں امن دستوں نے ابھی کوئی دل چسپی ظاہر نہیں کی ہے۔ تعمیرنو کی چند صوبائی ٹیمیں (PRTS) بنائی گئی ہیں لیکن مزارشریف میں ۷۲ افراد کی ایک ٹیم کے سپرد اسکاٹ لینڈ کے برابر علاقہ ہے۔ اس سے ان کی ممکنہ کارکردگی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

امریکی افواج جنوبی افغانستان کو مستحکم کرنے کے لیے بڑی محنت کر رہی ہیں۔ اسامہ بن لادن اور ملا عمرکا کوئی پتا نہیں‘ لیکن جنوب کا علاقہ کم نہیں‘ زیادہ خطرناک ہوتا جا رہا ہے۔ بڑی بڑی کارروائیوں کے نتیجے میں چند افراد ہاتھ آتے ہیں جنھیں دہشت گرد کہا جاتا ہے۔ لیکن یہ عام دیہاتی بھی ہو سکتے ہیں (یہ ا کانومسٹ کے الفاظ ہیں)۔ انھیں تفتیش کے لیے بگرام کے ہوائی اڈے لے جایا جاتا ہے۔ وہاں کئی افراد مرچکے ہیں۔ اس سب پر امریکہ ۱۰ ارب ڈالر سالانہ خرچ کر رہا ہے۔

سوال یہ ہے کہ افغانستان بچے گا یا نہیں‘ یا کولمبیا کی طرح کا ملک ہو جائے گا؟

پُرامید لوگ کہتے ہیں: افغانستان گذشتہ ۲۴ سال میں اتنا مستحکم کبھی نہ تھا۔ دہشت گردی کے تربیتی کیمپ ختم کیے جا چکے ہیں۔ قومی حکومت کی بنیاد پڑ چکی ہے‘ دستور مرتب کیا جا رہا ہے‘ آیندہ سال خواتین کے ووٹ کے ساتھ انتخابات متوقع ہیں۔ معاشی ترقی ۲۸ فی صد رہی۔ ۲۰لاکھ مہاجرین جرمن واپس آئے ہیں۔

ناامید لوگ --- جو اپنے کو حقیقت پسند تصور کرتے ہیں --- کہتے ہیں: ایک تہائی ملک خطرناک علاقہ ہے جہاں امدادی کارکنان تک نہیں جاتے۔ کوئٹہ اور دوسرے شہروں میں طالبان لیڈر کھلے عام اسلحہ تقسیم کرتے ہیں۔ پاکستان خود اپنے پڑوسی کو غیرمستحکم کر رہا ہے۔ کئی دفعہ فائرنگ کا تبادلہ ہو چکا ہے۔ تعمیرنو کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے‘ لیکن ہوا کچھ بھی نہیں ہے۔ بڑی سڑکوں کی تعمیر کا کوئی منصوبہ مکمل نہیں ہوا ہے۔ کابل قندھار شاہراہ جس کے لیے صدربش نے ذاتی طور پر‘ اختتامِ سال کا ہدف دیا ہے‘ انجینیرسرگوشی کرتے ہیں کہ پپڑی جما کر بنائی جا رہی ہے جو دو تین سردیاں بھی برداشت نہ کر سکے گی۔

امریکہ کا آدمی ("boy") کرزئی تنہا اور بے اثر ہے۔ اصل طاقت صوبوں کے وارلارڈز کے پاس ہے۔ دستور میں الٹ پھیر ہو جائے گا۔ انتخابات ملتوی ہو جائیں گے۔ عورتیں بے اثر رہیں گی۔ معیشت میں ضرور بہتری ہوئی ہے لیکن صفر سے آغاز ہو تو ذرا سی بھی نظرآتی ہے۔اس وقت یہ ۱۹۷۸ء سے نصف ہے۔ یہ کہنا کہ کوئی انسانی المیہ نہیں ہے‘ حقیقت کو نظرانداز کرنا ہے۔ اکثریت کو طبی سہولت میسر نہیں۔ زچہ و بچہ کی ہلاکت کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ یہاں ہے۔ ہیضہ اور وبائی امراض بڑھ رہے ہیں۔ جس ساڑھے ۴ ارب ڈالر امداد کا وعدہ تھا‘ اس میں سے صرف ایک ارب ڈالر ملی ہے۔ اس کا بھی بیش تر حصہ تنخواہوں اور غیرملکیوں کی چمکتی دمکتی کاروں میں چلا جاتا ہے۔

ان نکات پر نہ ختم ہونے والی بحث جاری رکھی جا سکتی ہے اور کابل میں بیش تر لوگ یہی کرتے ہیں۔ لیکن دستور اور معیشت کیسے بھی ہوں‘ دو عناصر ایسے ہیں جو سب کچھ تباہ کر سکتے ہیں۔

سب سے پہلے پانی کا مسئلہ ہے۔ ۸۰ فی صد افغان کاشت کاری پر زندگی گزارتے ہیں لیکن افغانستان میں پانی اور قابلِ کاشت زمین نہیں ہے۔ ۷۰ کے عشرے میں صرف ۵ فی صد زمین کو پانی نصیب تھا۔ جنگ نے اسے نصف کر دیا۔ پھر سات سال کا خشک سالی کا دور آیا۔ پانی کی سطح بے حد نیچی ہوچکی ہے۔ مویشی مرگئے ہیں۔ فصل ہے ہی نہیں۔ پہاڑوں میں پانی کے ذخائر بنانا اورآب پاشی کا نظام تعمیر کرنا بہت مہنگے منصوبے ہیں۔

دوسرا مسئلہ منشیات کا ہے۔ دنیا کی تین چوتھائی اور یورپ کی ساری افیون افغانستان سے آتی ہے۔ پشتون گلہ بان اب اس تجارت میں مصروف ہوگئے ہیں۔ پریشانی یہ ہے کہ منشیات‘ خشک سالی اور عدمِ استحکام ایک دوسرے کو پروش کرتے ہیں۔ افیون پیدا کرنے والے پانچ میں سے تین بڑے صوبے--- ہلمند‘ ارزگان‘ قندھار‘ زیادہ غیرمستحکم اور خشک سالی کا شکار ہیں۔

صرف ایک صوبے غور کی مثال لیں۔ یہ کابل سے چار گھنٹے کی مسافت پر ہے‘ ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر۔ غور کے ۳ ہزار ملائوں میں سے بیش تر اَن پڑھ ہیں۔ یہاں صرف پانچ ڈاکٹر ہیں۔ ساڑھے ۷لاکھ آبادی ‘ بیش تر نئے واپس آنے والے مہاجرین پر مشتمل ہے۔ ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ مویشی مرچکے ہیں یا بیچے جا چکے ہیں۔ ہر شخص مقروض ہے۔ لوگوں نے اپنی بیٹیاں تک فروخت کی ہیں۔ کچھ نے افیون کاشت کی ہے لیکن برف باری نے فصل تباہ کر دی۔ اب اگلی فصل کا انتظار ہے اور قرض بڑھ رہا ہے۔

پورے صوبے میں صرف ۵۰ عورتیں لکھ پڑھ سکتی ہیں۔ لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے میں اب بھی مشکلات ہیں۔ قرض کی ادایگی‘ منافع یا قتل کے جھگڑوں کے تصفیے میں لڑکیوں کا مالِ منقولہ کی طرح لین دین کیا جاتا ہے۔

اس وقت افغانستان کی ایک تہائی معیشت افیون پر منحصرہے۔ گذشتہ سال ایک ارب ۲۰کروڑ ڈالر اس سے ملے۔ جب یہ ایڈنبرا اور پراگ میں گلوکوز اور اینٹ کے برادے سے مل کر رگوں میں داخل کی جاتی ہے‘ اس کی قیمت ۲۵ ارب ڈالر ہوچکی ہوتی ہے۔ افیون کی کاشت کو اب باقاعدہ حیثیت حاصل ہوگئی ہے (کون یاد دلائے کہ ملاعمر نے طالبان کے دور میں اسے ختم کر دیا تھا)۔ جمہوریت بھی انھی نودولتیے کمانڈروں کا ہتھیار ہے جن کے پاس افیون کی رقم ہے۔ وہ ابھی سے اگلے سال کے انتخابات کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ایک فرد کا کہنا ہے کہ ہم اس نقد رقم کا مقابلہ کس طرح کریں جو ان لوگوں کے پاس ہے۔

اکانومسٹ آخر میں لکھتا ہے کہ ’’جنھوں نے افغانستان کی تباہی میں حصہ لیا‘ ان کی کچھ ذمہ داری ہے کہ اسے واپس ٹھیک کر دیں‘‘۔

کاش! ہم اپنے گریبان میں جھانکیں۔

بحرین ‘ مراکش ‘یمن‘ ترکی اور پاکستان کے بعد اب اُردن میں بھی اسلام پسندوں نے انتخابات میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔ اخوان المسلمون نے’’اسلامک ایکشن فرنٹ‘‘ کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لیا اور ۱۰۴ عام نشستوں میں سے ۱۶‘ اور خواتین کی چھ مخصوص نشستوں میں سے ایک پر کامیابی حاصل کی۔ اسلامک ایکشن فرنٹ اُردن کی واحد سیاسی جماعت ہے جس نے اتنی تعداد میں نشستیں حاصل کی ہیں۔

کامیاب ہونے والوں میں سے اکثر نے آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیا۔ ان کا تعلق بدوی قبائل سے ہے‘ یا یہ وہ ارکان ہیں جو گذشتہ حکومتوں میں وزیر رہے ہیں اور ان کو حکومتی سرپرستی حاصل رہی ہے۔ بعض ایسی سیاسی جماعتیں جن کا عالم عرب میں بڑا نام تھا‘ ایک بھی نشست حاصل نہیں کر سکیں۔ بائیں بازو کی نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ نے انتخابات میں ۱۴نمایندے نامزد کیے لیکن ایک بھی کامیاب نہ ہو سکا۔ اسی طرح تحریکِ اصلاح جمہوریت نے ۲۳ نمایندے نامزد کیے جن میں سے صرف تین کامیاب ہوسکے‘ ان میں سے دو عیسائی ہیں۔

اخوان المسلمون نے ۱۹۹۷ء کے عام پارلیمانی انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔ حالیہ انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی شرح‘ ۱۹۸۹ء سے جاری اس براے نام جمہوری نظام کے تحت ہونے والے انتخابات میں سب سے زیادہ ‘یعنی ۵۹ فی صد رہی۔ کل رائے دہندگان کی تعداد ۲۳لاکھ ۲۵ ہزار ہے۔ یہ انتخابات شاہِ اُردن عبداللہ الثانی کے دورِ حکومت میں منعقد ہونے والے پہلے انتخابات ہیں۔ انھوں نے اسلامی تحریک کے انتخابات میں حصہ لینے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’اخوان المسلمون اُردن کے سیاسی و معاشرتی دھارے کا حصہ ہے‘‘۔

اسلامک ایکشن فرنٹ کے قائدین نے انتخابی عمل کے شفاف ہونے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ فرنٹ کے سربراہ منصور حمزہ کہتے ہیں: ’’اگر ہمارے ہاں منصفانہ قانون ہوتا تو ہم بہ آسانی اکثریت حاصل کر سکتے تھے‘‘۔ ایک ووٹ کے قانون پر تقریباً تمام ہی سیاسی جماعتوں نے اعتراضات کیے‘ جس کی وجہ سے آزاد اور قبائلی اُمیدواروں کو بے حد فائدہ پہنچا جو حکومت کو مطلوب تھا۔ فرنٹ کے سربراہ نے اس قانون کو غیرمنصفانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’اس قانون کی وجہ سے ہماری نشستوں میں خاصی کمی ہوئی ہے۔ مزید یہ کہ انتخابی حلقہ بندی اس طریقے سے کی گئی جو اسلام پسندوں کی کامیابی میں رکاوٹ بنے۔ اُردن کو ۴۶ انتخابی حلقوں میں تقسیم کیا گیا لیکن حلقوں کی حدبندی حقیقت پسندانہ نہیں تھی۔ کہیں ضلع کی سطح پر حدبندی کی گئی توکہیں تحصیل کی سطح پر۔ حدبندی کرتے وقت آبادی کا لحاظ بھی نہیں رکھا گیا۔ کہیں ۱۰ہزار شہریوں کے لیے ایک نشست مقرر کی گئی تو کہیں ایک لاکھ ۱۵ ہزار شہریوں کے لیے ایک نشست‘‘۔ اس طرح کی ترکیبوں سے ہم لوگ پاکستان میں اچھی طرح واقف ہیں۔

ایک اور انتخابی قانون کا براہِ راست منفی اثر اسلامک ایکشن فرنٹ پر پڑا۔ اس قانون کی رُو سے باپردہ خواتین کے لیے ووٹ ڈالتے ہوئے چہرے سے نقاب اُتارنا لازمی قرار دیا گیا۔ فرنٹ نے اس قانون کی شدید مخالفت کرتے ہوئے تجویز دی کہ انتخابی عملے میں عورتوں کو شامل کر دیا جائے تاکہ باپردہ خواتین کو ووٹ ڈالنے میں کوئی دشواری نہ ہو لیکن اُردن کی حکومت نے اس تجویز کو ماننے سے انکار کر دیا۔ وزیرداخلہ سے جب اس ظالمانہ قانون کے بارے میں سوال کیا گیا کہ گذشتہ انتخابات میں تو خواتین پر انتخابی عملے کے سامنے نقاب اُتارنے کی پابندی نہیں تھی۔ اب ایسا کیوں کیا گیا ہے؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ ’’ہم نے اس بارے میں شرعی مجلسِ فتاویٰ سے رائے لی ہے‘ جس نے ووٹ ڈالتے ہوئے خواتین کو انتخابی عملے کے سامنے نقاب اُتارنے کی اجازت دی ہے۔ یہ گواہی کی ہی ایک قسم ہے‘ اس لیے اس میں کوئی گناہ نہیں‘‘۔

اُردنی حکومت نے اسلامک ایکشن فرنٹ کی کامیابی کوانتخابی عمل کے شفاف ہونے کی دلیل قراردیتے ہوئے کہا کہ اگر انتخابی عمل شفاف نہ ہوتا تو فرنٹ کو اتنی نمایاں کامیابی نہ ملتی۔ بالخصوص وہ شخصیات انتخابات میں کامیاب نہ ہوتیں جو حکومت کی شدید ترین مخالف ہیں۔ ان میں ڈاکٹر محمد ابوفارس‘ ڈاکٹر علی العتوم‘ الشیخ عبدالمنعم اور انجینیرعلی ابوالسکرکے نام قابل ذکر ہیں۔

اسلامک ایکشن فرنٹ نے ملکی سیاست میں عورت کے کردار کی مسلمہ اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے محترمہ ڈاکٹر الحیاۃ المسیمی کو خواتین کی مخصوص نشست کے لیے نامزد کیا‘ جنھوں نے چھ مخصوص نشستوں کے لیے ڈالے جانے والے ووٹوں میں سے ۷ ہزار ایک سو ۳۳ ووٹ حاصل کیے‘ جب کہ باقی پانچ کامیاب ممبرخواتین نے مجموعی طور پر ۵ ہزار ۵ سو ۴ ووٹ حاصل کیے۔ ان نشستوں پر خواتین امیدواروں کی کل تعداد ۵۴ تھی۔ اس طرح محترمہ ڈاکٹر المسیمی الحیاۃ نے تمام خواتین امیدواروں کوملنے والے ووٹوں کا ۵۶ فی صد حاصل کیا۔

ان انتخابات کو اعداد و شمار کے آئینے میں دیکھا جائے تو یہ منظرنامہ ترتیب پاتا ہے:

  •   اسلامی تحریک کے نامزد کردہ ۳۰ نمایندوں میں سے ۱۷ نے کامیابی حاصل کی۔ اس طرح تحریک کی کامیابی کا تناسب ۵۷ فی صد رہا۔
  •   فرنٹ نے پارلیمنٹ کی کل ۱۱۰ نشستوں میں سے ۴. ۱۵ فی صد کے تناسب سے ۱۷نشستوں پرکامیابی حاصل کی‘ جب کہ عام (لسٹ) انتخابی قانون کے تحت منعقد ہونے والے انتخابات میں۱۹۹۳ء میں ۱۶ اور ۱۹۸۹ء میں ۲۲نشستیں حاصل کی تھیں۔ حالیہ انتخابات میں حکومت نے (ایک ووٹ) کا قانون متعارف کرایا جس سے تحریک کی کارکردگی پر گہرا اثر پڑا۔اس قانون کی رو سے تحریک کوئی انتخابی اتحاد بھی نہ بنا سکی۔
  •  فرنٹ کے کامیاب ارکان نے ایک لاکھ ۳۹ ہزار ۲ سو ۲۹ ووٹ حاصل کیے جو پارلیمنٹ کے تمام کامیاب ارکان کے حاصل کردہ کل ووٹوں کا ۲.۲۸ فی صد ہے۔
  •  فرنٹ کے تمام نمایندوں (کامیاب و ناکام) کو کل ایک لاکھ ۶۶ ہزار ۸ سو ۴۷ ووٹ ملے جو کہ انتخابات میں ڈالے گئے ووٹوں کی کل تعداد کا ۵.۱۲ فی صد ہے۔
  •  حالیہ انتخابات میں فرنٹ کے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد ۱۹۹۳ء میں حاصل کردہ ووٹوں سے ۸۱ ہزار (۴۵ فی صد) زیادہ ہے۔
  •  جن ۱۴ حلقوں میں فرنٹ کے نمایندوں نے کامیابی حاصل کی‘ ان میں سے انھوں نے ۱۱ حلقوں میں پہلی‘ چار میں دوسری اور دو میں تیسری پوزیشن حاصل کی۔
  •  اسلامی تحریک نے اُردن کے دارالحکومت عمان اور دیگر بڑے شہروں زرقا‘ اربد اور رصیفہ پر توجہ مرکوز رکھی اور عمان کی ۲۳ میں سے سات‘ اربد کی ۱۶ میں سے دو اور زرقا کی ۱۰ میں سے تین نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔

فوری حل طلب مسائل: پارلیمنٹ کی تشکیل کے بعد فوری حل طلب مسائل یہ سامنے ہیں:

                ۱-            ان قوانین کا جائزہ لینا جوگذشتہ دو برس کے دوران پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کے بعد نافذ کیے گئے۔ جن میں (ایک ووٹ) کا قانون اور بلدیاتی اداروں کے بارے میں نافذ کیے گئے قوانین سرِفہرست ہیں۔ ان کے مطابق حکومت کو اختیار حاصل ہے کہ وہ میئر اور بلدیاتی اداروں کے آدھے ممبران نامزد کرے۔

                ۲-            عراق کی موجودہ صورت حال اور اُردنی معیشت اور عالم عرب پر اس کے اثرات کا جائزہ لینا۔

                ۳-            فلسطین کے نقشۂ راہ (روڈمیپ) میں اُردن کا کردار اور صہیونی حکومت سے تعلقات معمول پر لانا۔

                ۴-            اُردن کے معاشی و معاشرتی حالات کے تناظرمیں نعرہ ’’اُردن سب سے پہلے‘‘ کے مضمرات کا جائزہ۔

فرنٹ کے سربراہ حمزہ منصور نے ان مسائل کے بارے میں اپنے اراکین کی ترجیحات بیان کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے سیاسی و معاشرتی طرزِعمل کی نگرانی‘ صہیونی حکومت سے تعلقات معمول پر لانے کا سدباب اور فلسطینیوں اور عراقیوں کی جدوجہد اور مزاحمت میں ان کی مدد کرنا ہمارا اولیں فرض ہوگا۔ہم ان قوانین کے خلاف ووٹ دیں گے جن کے ذریعے عام شہریوں کی آزادی کو سلب کیا گیا ہے۔ حکومت کی کارکردگی پر نظر رکھیں گے اور شہریوں کو ٹیکسوں کے بوجھ سے نجات دلانے کے لیے ہرممکن اقدام کریں گے۔

اسلامک ایکشن فرنٹ نے اعلان کیا ہے کہ ہم صرف اپنی شرائط پر شریکِ اقتدار ہوسکتے ہیں‘ دوسروں کی مسلط کردہ شرائط کے ساتھ حکومت میں شامل نہیں ہوں گے۔ ہم ایک ایسی حکومت میں شامل ہوسکتے ہیں جو ’’معاہدہ وادی عربہ‘‘ کی مخالف اور صہیونی استعمار کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی بات نہ کرے۔ یہ شرائط آیندہ حکومت کے لیے تسلیم کرنا بظاہر ناممکن نظر آتا ہے۔

فرنٹ کے کامیاب امیدوار بیشتر نوجوان ہیں۔ اس حوالے سے منصور حمزہ نے کہا کہ: ’’ہم نے ایک ایسا سیاسی قدم اٹھایا ہے جو شاید تمام عرب سیاسی جماعتوں کے لیے مثال ہو۔ ہم نے پارٹی کے جنرل سیکرٹری کی مدت انتخاب دو سال کر دی ہے۔ اس مدت میں صرف دو سال کی اور توسیع ہو سکتی ہے‘ اس کے بعد اس کو اپنے پیچھے آنے والوں کے لیے جگہ خالی کرنا ہوگی۔ یہ چیز ہم نے اس سیاسی مطلق العنانیت کے جواب میں کی ہے جو ہم عالم عرب میں پاتے ہیں۔ ہم نے انتخابات میں پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی شرکت یا عدمِ شرکت کے بارے میں غور کیا اور فیصلہ کیا کہ اعلیٰ قیادت کو پارلیمانی عمل سے دُور رکھا جانا چاہیے‘ کیوں کہ ایک تو یہ عمل مکمل فراغت کا متقاضی ہے اور دوسرا یہ کہ ہم چاہتے ہیں کہ تنظیمی قیادت ہی پارلیمانی گروپ کا مرجع ہو۔ پارلیمانی قیادت کو پارلیمنٹ میں مختلف دبائو کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے ان کے فیصلے متاثر ہو سکتے ہیں‘‘۔

اُردن کے انتخاب میں آزاد امیدوار بہت زیادہ تعداد میں کامیاب ہوئے جن کا تناسب پارلیمنٹ میں ۸۰ فی صد ہے۔ اس طرح آیندہ حکومت بھی ایسے آزاد ارکانِ اسمبلی ہی تشکیل دیں گے جن کا کوئی سیاسی منشور ہے نہ ایجنڈا۔

ان انتخابات میں اسلامک ایکشن فرنٹ کے علاوہ کوئی بھی سیاسی جماعت قابلِ ذکر کارکردگی دکھانے میں ناکام رہی ہے۔ حتیٰ کہ دارالحکومت عمان میں کسی بھی قومیت پسند یا بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی جماعت کا کوئی امیدوار کامیاب نہیں ہوسکا۔ یہ اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ اسلام پسند جماعتوں کی نسبت دوسری سیاسی جماعتوں کی عوامی مقبولیت میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ یہی کچھ صورتِ حال مصر‘یمن‘ ترکی اور پاکستان کے انتخابات سے بھی ظاہر ہے۔ جہاں پر روایتی جماعتیں (قومیت پسند‘ اشتراکی‘ لبرل اور لادینی جماعتیں) عام شہری کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہیں۔

اگر ان انتخابات کو علاقائی تناظر میں دیکھیں تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ عوام میں اسلامی تحریک کی جڑیں مضبوط ہوئی ہیں اور اسلامی تحریکوں کی دعوت کے میدانِ کار میں وسعت پیدا ہوئی ہے۔

آیندہ لائحہ عمل: اسلامک ایکشن فرنٹ کے سربراہ حمزہ منصور نے تحریک کے آیندہ لائحہ عمل کے بارے میں کہا کہ: ’’تحریک ملک اور پارلیمنٹ میں موجود اچھے عناصر سے تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔ ہم نے گذشتہ گیارھویں پارلیمنٹ میں ’’پارلیمانی یونٹی‘‘ کے نام سے اتحاد بنایا تھا۔ جس میں اسلامی‘ سیاسی‘ نیشنلسٹ‘ لبرل اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ہر قسم کے افراد موجود تھے اور جس کے نتیجے میں اسلامی فرنٹ کے سابق سربراہ ڈاکٹر عبداللطیف تین سیشنوں کے لیے پارلیمنٹ کے اسپیکرمنتخب ہوئے۔ ابھی ہم ارکان پارلیمنٹ کی صورتِ حال کا بغور مطالعہ کر رہے ہیں کیوں کہ اس پارلیمنٹ میں ۸۰ ایسے ممبران ہیں جو پہلی دفعہ منتخب ہوکر آئے ہیں۔ ہم ایسے افراد کو ساتھ رکھیں گے جن سے تعاون ممکن ہے۔ چاہے ان کا تعلق کسی وسیع تر گروپ سے یا اتحاد کی کسی بھی شکل سے ہو۔ ہم ہر اس شخص سے تعاون کے لیے تیار ہیں جو ملک و ملّت کی خدمت کرنا چاہتا ہے۔

بعض دیگر امور کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے انھوں نے کہا: ’’ہمارے پاس ایک اعلان کردہ منشور ہے جو ہم نے اپنے عوام کے سامنے رکھا ہے۔ ہم چند محوروں کے گرد کام کررہے ہیں۔ پہلا محور قانونی ہے‘ جس سے ہماری مراد قانونی اور دستوری دونوں پہلو ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سیاسی زندگی میں پارلیمنٹ کا وجود ناگزیر ہے اور کسی بھی طرح کے حالات میں اس کو تحلیل نہیں کرنا چاہیے۔ اسی طرح ہم چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ کا سیشن پورا سال جاری رہنا چاہیے‘ جب کہ ہمارے ہاں پارلیمنٹ کا سیشن چار ماہ کا ہوتا ہے۔ باقی آٹھ ماہ چھٹیاں ہوتی ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ سال میں گیارہ مہینے کام کرے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ اقتدار کے تسلسل کو برقرار رکھنا چاہیے اور اکثریتی پارٹی کو حکومت تشکیل دینے کا حق ہونا چاہیے۔ ملک بہت سے ایسے جزوقتی قوانین سے متاثر ہوتا ہے جو ہماری رائے میں غیردستوری ہیں۔ اگر ہمارے ہاں کوئی دستوری عدالت ہوتی تو وہ معاملات کا فیصلہ کرتی۔ ہم سب سے پہلے ایک دستوری عدالت قائم کریں گے جو اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ کون سا قانون دستور کے مطابق ہے اور کون سا قانون خلافِ دستور ہے‘‘۔

مقبوضہ فلسطین میں قائم صہیونی ریاست کا پرچم امن معاہدوں اور روڈمیپ کا پردہ چاک کرنے کے لیے کافی ہے۔ سفیدپرچم کے وسط میں چھ کونوں والا دائودی تارہ ایک مذہبی صہیونی ریاست کو ظاہر کرتا ہے اور اس کے اُوپر نیچے پرچم کے دونوں کناروں پر عمودی نیلی لکیریں اس صہیونی ریاست کی سرحدوں کا تعین کرتی ہیں۔ صہیونی کرنسی شیکل اور صہیونی پارلیمنٹ کنیسٹ کی پیشانی پر کندہ الفاظ ان سرحدوں کا زیادہ واضح اظہار کرتے ہیں: ’’تیری سرحدیں اے اسرائیل از فرات تا نیل‘‘۔ گویا پرچم کی دو لکیروں میں سے ایک دریاے نیل ہے اور دوسری دریاے فرات۔

نام نہاد عظیم تر اسرائیل کی سرحدیں اب کوئی راز نہیں۔ سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ۱۹۶۹ء میں سانحہ اقصیٰ پر خطاب کرتے ہوئے اس نقشے اور منصوبے کا ذکر ان الفاظ میں کیا تھا:

اس منصوبے کی جو تفصیل صہیونی تحریک کے شائع کردہ نقشے میں دی گئی ہے اس کی رو سے اسرائیل جن علاقوں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے ان میں دریاے نیل تک مصر‘ پورا اُردن‘ پورا شام‘ پورا لبنان‘ عراق کا بڑا حصہ‘ ترکی کا جنوبی علاقہ اور جگر تھام کر سنیے کہ مدینہ منورہ تک حجاز کا پورا بالائی علاقہ شامل ہے۔

مشرق وسطیٰ میں ہونے والے تمام اہم واقعات اسی صہیونی منصوبے کی تکمیل کا ایک حصہ ہیں۔ لایعنی امن مذاکرات اور سراب معاہدے اسی سفرکو مزید محفوظ بنانے کی عملی تدابیر ہیں۔ پہلی تحریک انتفاضہ کو کچلنے میں ناکامی ہوئی تو عراق کویت جنگ کے بعد یاسر عرفات سے اوسلو معاہدہ کیاگیا۔ اسے فلسطینی ریاست کا صدر بنانے کا خواب دکھاتے ہوئے اس کے وزیرداخلہ محمد دحلان کے ذریعے ہزاروں فلسطینیوں کو گرفتار‘ زخمی اور شہیدکروایا گیا۔ پھر جب اس معاہدے کے اصل اہداف میں سے ایک اور ہدف حاصل کرنے کی کوشش میں آرییل شارون مسجداقصیٰ میں جا گھسا تو تحریک انتفاضہ کا دوسرا دور شروع ہوگیا۔ نتن یاہو‘ ایہودباراک اور سو دن کے اندر اندر انتفاضہ کو کچل دینے کا اعلا ن کرنے والے شارون سمیت کسی سے شہادتوں کا سفر روکا نہ جاسکا۔

اب تیسری خلیجی جنگ کے بعد فلسطینیوں ہی کے ہاتھوں آزادی کی اس جدوجہد کو کچلنے کی نئی کوشش کی جارہی ہے۔ اعلان یہ کیا گیا ہے کہ فلسطینیوں کو علیحدہ آزاد ریاست دے دی جائے گی‘ اور تین مرحلوں میں ۲۰۰۵ء تک پورے روڈمیپ پر عمل کرلیا جائے گا۔ ہر مرحلے میں تاریخوں کے تعین کے ساتھ مخصوص ہدف حاصل کیے جائیں گے‘ لیکن سب سے اہم اور بنیادی ہدف‘ معاہدے کے نام ہی میں واضح کر دیا گیا ہے۔ معاہدے کا نام ہے: A performance based road map to a permanent two state solution to the Israeli-Palestinian conflict ’’اسرائیل فلسطین تنازعہ کے حل کے لیے دو مستقل مملکتوں کے قیام کے لیے‘ کارکردگی پر مبنی‘ روڈمیپ‘‘۔ اس کے دو پہلو نمایاں ہیں: تنازعے کا حل اور اس کا کارکردگی پر مبنی ہونا۔ تنازعے کا صہیونی حل تو پوری دنیا کو معلوم ہے کہ فلسطینیوں کا زن بچہ کولہو میں پیس دیا جائے گا۔ اب اس حل میں اضافہ یہ ہوگیا ہے کہ یہ کارکردگی فلسطینیوں ہی کو دکھانا ہوگی۔ اس بات کا اعادہ ہر مرحلے میں نمایاں طور پر کیا گیا ہے۔ مقدمے میں لکھا گیا کہ یہ ’’حل تشدد اور دہشت گردی کے خاتمے کے ذریعے صرف اس صورت میں حاصل ہوگا جب فلسطینی عوام کو ایسی قیادت ملے جو دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنے اور رواداری پر مبنی جمہوریت کے قیام کی خواہش اور اہلیت رکھتی ہو‘‘۔ یاسرعرفات امن کا نوبل انعام پانے کے باوجود یہ اہلیت ثابت نہیں کر سکے تو راستے کا آغاز ہی اسے ہٹانے اور بہائی مذہب کے ایک سپوت مرزا محمود عباس (ابومازن) کو قائد بنانے سے کیا گیا۔

پہلے مرحلے میں ۲۱ نکات پر مشتمل نقشۂ کار ہے۔ دیگ کے ایک دانے سے ہی اس کی حقیقت کھل جاتی ہے: ’’فلسطینی قیادت غیرمبہم اور بالکل واضح بیان جاری کرے گی جس میں اسرائیل کے امن و سلامتی سے زندہ رہنے کے حق کا اعادہ کیا جائے گا۔ (بھول جائیے کہ اسرائیل کبھی فلسطین تھا) اور اسرائیلیوں کے خلاف ہرجگہ فوری اور غیرمشروط جنگ بندی اور مسلح سرگرمیوں اور تشدد کے تمام اقدامات کے خاتمے کا اعلان کیا جائے گا۔ فلسطین کے تمام سرکاری ادارے اسرائیل کے خلاف ترغیب اور اُکسانے کا سلسلہ ختم کر دیںگے۔ فلسطینی اسرائیلیوں کے خلاف کہیں بھی تشدد اور حملوں یا ان کی منصوبہ بندی کرنے والے افراد اور گروپوں کو گرفتار کرنے اور ان کی سرگرمیوں کے خاتمے کے لیے واضح اور موثر کوشش کریں گے‘ دہشت گردی میں ملوث تمام لوگوں اور گروپوں کے خلاف مسلسل متعین اور موثراقدامات کا آغاز کریں گے اور دہشت گرد تنظیموں کا قلع قمع کریں گے‘‘۔

۲۱ نکات پر مشتمل اس نقشۂ کار میں ’’اسرائیل‘‘ کے ذمے کاموں کا ذکر کرتے ہوئے سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ ’’جب سیکورٹی کے شعبے میں جامع کارکردگی میں پیش رفت ہوگی (فلسطینیوں کے ذمے اصل کام کا ایک بار پھر اعادہ) تو اسرائیلی دفاعی فورسز بتدریج وہ علاقے خالی کر دیں گی جن پر انھوں نے ۲۸ ستمبر ۲۰۰۰ء کو یا اس کے بعد قبضہ کر لیا تھا‘‘۔ گویا کہ نصف صدی سے قبلۂ اول اور پوری سرزمین اقصیٰ پر قبضہ توعین حق ہے۔ ستمبر۲۰۰۰ء میں شارون کے مسجداقصیٰ میں جاگھسنے اور دوسری تحریک انتفاضہ شروع ہونے پر جن فلسطینی مہاجرکیمپوں اور جنین جیسی پناہ گزیں بستیوں پر صہیونی فوجوں نے چڑھائی کی تھی وہاں سے انھیں نکال لیا جائے گا۔

دوسرا مرحلہ جو تاریخوں کے اعتبار سے اب عملاً شروع ہو جانا چاہیے‘ نام نہاد خودمختاری کی حامل فلسطینی ریاست کے اعلان کرنے کا مرحلہ ہے۔ اسے دسمبر ۲۰۰۳ء تک پورا ہو جانا ہے۔ اس میں فلسطینی ریاست کا اعلان تو کر دیا جائے گا لیکن اس کی سرحدیں ’’وقتی اور عارضی‘‘ ہوں گی۔ اس موہوم اعلان ریاست میں بھی اصل ہدف وہی رہے گا کہ ’’سلامتی کے شعبے میں مسلسل عمدہ کارکردگی اور موثر سیکورٹی تعاون‘‘ اور یہ کہ’’ یہ مقصد اسی صورت میں حاصل کیا جا سکتا ہے جب فلسطینی عوام کی قیادت ایسے افرادکے ہاتھ میں ہو جو دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کریں گے‘‘۔

۰۵-۲۰۰۴ء میں تیسرے مرحلے میں بھی فلسطینی انتظامیہ کے کردار پر زور دیا گیا ہے۔ لکھا ہے: ’’تیسرے مرحلے کے مقاصد میں فلسطینی اداروں میں اصلاح‘ ان کے استحکام اور فلسطین سیکورٹی اداروں کی مسلسل موثر کارکردگی کے علاوہ یہ بات شامل ہوگی کہ اسرائیلی اورفلسطینی ۲۰۰۵ء میں مستقل حیثیت کے سمجھوتے کے متعلق مذاکرات کریں گے‘‘۔

فلسطینیوںکے ذریعے فلسطینیوں کو کچلنے کی مسلسل و موثر کارکردگی کے نتیجے میں صہیونی ریاست ان علاقوں سے اپنا قبضہ ختم کر دے گی جن پر ۱۹۶۷ء میں قابض ہوئی تھی۔

واضح رہے کہ ۱۹۴۸ء اور پھر ۱۹۶۷ء میں فلسطین کے ۸۰ فی صد علاقے پر صہیونی قبضہ ہوگیا تھا۔ اب مغربی کنارے اور غزہ کے جن علاقوںمیں فلسطینی ریاست کے قیام کا خواب دکھایاجا رہا ہے‘ اسے بھی یوں چیرپھاڑدیا گیا کہ وسیع ترصہیونی ریاست کے اندر ان علاقوں کی حیثیت محصور چھائونیوں سے زیادہ نہ ہو۔ کئی سال سے ایک صہیونی منصوبہ پوری یکسوئی سے جاری ہے کہ فلسطینی جانبازوں کے حملوں سے محفوظ رہنے کے لیے ان کے اور اپنے درمیان بلند‘ آہنی اور جدید آلات حرب و جاسوسی سے لیس دیوار کھینچ دی جائے۔ یہ آہنی دیوار فلسطینی آبادیوں کے گرد اس طور گھومتی ہے کہ ۳۵۰ کلومیٹر کی اصل مسافت بڑھ کر ایک ہزار کلومیٹر ہوگئی ہے۔ اس ایک ہزار کلومیٹر لمبی دیوار کی تعمیر پر ۲ ارب ڈالر خرچ کیے جا رہے ہیں‘ یعنی ہر ایک کلومیٹر پر ۲۰ لاکھ ڈالر۔

ابومازن کے ذریعے کیے جانے والے اقدامات کی رفتار اوسلو معاہدے کی نسبت تیز ترہے۔ تب پورے عمل کو ۱۰ سال پر پھیلا دیا گیا تھا‘ اب اڑھائی سال میں پورا کرنے پر زور ہے۔ تب مسجداقصیٰ میں جا گھسنے کی بات معاہدے کے سات سال بعد کی گئی تھی‘ اب سات ہفتے بھی نہیں گزرے کہ صہیونی سپریم کورٹ نے فیصلہ جاری کر دیا ہے کہ حرم اقصیٰ کسی مخصوص مذہب کی اجارہ داری نہیں۔ یہودیوں کو بھی وہاں جانے کی مکمل آزادی ہے۔

اس کے ساتھ ہی اسرائیلی فوج حماس کے رہنمائوں کو ہدف بناکر قتل کرنے کی پالیسی پر ببانگ دہل عمل پیرا ہے جس میں اسے امریکہ کی حمایت حاصل ہے۔ دوسری طرف مجاہدین کی شہادت طلب کارروائیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جن کے جنازوں میں ہزاروں فلسطینی ایمان افروز نعروں کے ساتھ شرکت کرتے ہیں۔

حماس الجہاد اور خود الفتح کے کئی شہادت طلب حملوں نے روڈمیپ کے سرپرستوں کو حقیقت کی ایک جھلک دکھا دی ہے۔ صہیونی ٹی وی چینل ’’۱‘‘ کے مراسلہ نگار ایٹان ریبورٹ نے شہادت طلب کارروائی کے بعد یہودی بستیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ’’اس علاقے میں حماس نے کرفیو لگا رکھا ہے۔ لوگ اپنے گھروں سے نکلتے ڈرتے ہیں۔ مختصراً یہ کہ یہاں ہر طرف خوف کا راج ہے‘‘۔ یہودی بستی کی ایک رہایشی فلونیٹ نے اپنے ٹی وی کو بتایا: ’’میں نے اور میرے شوہر نے ایک بار پھر پبلک ٹرانسپورٹ استعمال نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہمارا دفتر یہاں سے آٹھ کلومیٹر کی مسافت پر ہے‘ ہم دونوں یہ فاصلہ پیدل طے کرتے ہیں۔ یہ بہت مشکل کام ہے لیکن اس سے بھی مشکل بات یہ ہے کہ بندہ اپنے دفتر جانے کی کوشش میں موت کی وادی میں جااُترے‘‘۔ صہیونی ملٹری انٹیلی جنس کے شعبۂ ریسرچ کے سابق سربراہ جنرل دانی روچیلڈ نے عبرانی ریڈیو کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’’ہماری تمام تر فوجی کارروائیوں اور حملوں کے باوجود حماس کا شہادت طلب کارروائیوں میں کامیاب ہو جانا‘ مایوسی اور تشویش میں اضافے کا باعث ہے۔ اس صورت حال پر مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے اداروں کے تمام دعوے مبالغہ آمیز بلکہ مجرد خیال ہیں‘‘۔

خود وزیر امن تساحی ہنجبی نے کہا کہ ’’میں ہر لمحے فلسطینی فدائی کارروائیوں کی خبر سننے کے لیے خود کو تیار رکھتا ہوں‘‘۔ وزیرموصوف نے کہا کہ ہمارے ایک اجلاس میں ایک اعلیٰ افسر نے ہمیں بتایا کہ ’’یہ توقع کہ کل فدائی کارروائی ہوگی اتنی ہی یقینی ہے جتنی یہ کہ کل سورج طلوع ہوگا‘‘۔ وزیر موصوف نے دعویٰ کیا کہ اب بھی ہم ۹۵ فی صد کارروائیوں کو ناکام بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ روزنامہ معاریف لکھتا ہے: ’’وہ جب بھی دہشت گردی کی کارروائیوں کو کچلنے کی بات کرتے ہیں‘ ثابت یہ ہوتا ہے کہ ان دعووں کی زمینی حقیقت کچھ بھی نہیں ہوتی۔ ہم نے اب تک ہر طریقہ آزمالیا۔ ہم نے مغربی کنارے اور غزہ سمیت تمام علاقے اپنے کنٹرول میں لے لیے لیکن بے فائدہ۔

ستمبر ۲۰۰۰ء سے شروع ہونے والی تحریک انتفاضہ کے دوران ۱۱۹ شہادت طلب کارروائیاں ہوئیں۔ ۷۸ کارروائیاں ناکام رہیں جن میں سے ۳۰ کارروائیاں فلسطینی خواتین کرنا چاہتی تھیں‘ جب کہ پانچ خواتین اپنے مشن میں کامیاب رہیں۔ (صہیونی اخبار یدیعوت احرونوت‘ ۲۳ مئی ۲۰۰۳ئ)

گھنی فلسطینی آبادی کے علاقے خالی کرنا ان کی دفاعی ضرورت ہے۔ خود شارون کے سابق وزیردفاع جنرل بنیامین بن ایعازر نے حماس کی کارروائیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا: ’’ہمیں ان بہت سے مسلمہ حقائق سے دست بردار ہونا پڑے گا جن سے ہم ماضی میں سختی سے چپکے ہوئے تھے۔ ہم سڑکوں‘ کلبوں اور چائے خانوں میں اپنے شہریوں کا قتلِ عام صرف اس صورت روک سکتے ہیں کہ ہم فلسطینیوں کے علاقے سے نکل آئیں اور ان کی ایسی حکومت منظور کرلیں جو مغربی کنارے اور غزہ میں اقتدار سنبھال لے۔ فلسطینیوں کا سامنا کرنے کے لیے فوجی حل کی بات اب بھی کی جا سکتی ہے لیکن ہمارے تمام انتظامات کے باوجود حماس کی کارروائیاں اس امر کی دلیل ہیں کہ فلسطینی عوام کے جذبۂ مزاحمت کا فوجی علاج حقیقت پسندانہ نہیں ہے‘ اور جو اب بھی اس پر  مصرہے وہ خود کو دھوکا دیتا ہے‘‘۔ (الامان‘ لبنان۶/۶)

ایک طرف تو یہ حقائق ہیں‘ فلسطینی عوام کے جذبۂ شہادت سے صہیونی درندے شکست خوردہ ہیں لیکن دوسری طرف مسلم حکمران روڈمیپ کے تیسرے مرحلے کے ان نکات پر عمل کرنے کے لیے بے تاب ہیں جن کا حکم انھیں دیا گیا ہے۔ وہاں لکھا ہے: ’’عرب ریاستیں اسرائیل کے ساتھ معمول کے مکمل تعلقات کا قیام تسلیم کریں گی‘‘۔ مصرکے شہر شرم الشیخ اور اُردن کے شہر عقبہ میں صدربش کی زیرسرپرستی ہونے والے سربراہی اجلاسوں میں محمود عباس کی تقریب رونمائی کی گئی اور کھلے لفظوں میں فلسطینی جانبازوں کو دہشت گرد قرار دیا گیا۔

روڈمیپ بظاہر چند فی صد فلسطینی علاقے خالی کرنے کا اعلان ہے لیکن حقیقت میں فلسطینی مزاحمت کو کچلتے ہوئے مزید توسیعی منصوبوں کا نقطۂ آغاز ہے۔ روڈمیپ کے چند روز بعد ہی صہیونی وزیر سیاحت بنی ایلون نے اعلان کیا کہ دریاے اُردن کے مشرقی کنارے (یعنی کہ اُردن میں) فلسطینیوں کے لیے متبادل وطن تشکیل دیا جائے۔ اگر بنی ایلون کا اعلان کردہ یہ سات نکاتی منصوبہ تکمیل کی جانب بڑھتا ہے تو یہ عظیم تر اسرائیلی ریاست کی جانب اگلا جارحانہ اقدام ہوگا۔

ڈاکٹر عبدالحق انصاری جماعت اسلامی ہند کے نئے امیر (براے میقات ۲۰۰۳ئ-۲۰۰۷ئ) منتخب ہوئے ہیں۔ آپ نے تحریکی لٹریچر سے تعارف کے بعد‘ ندوۃ العلما سے عالمیت کا کورس کیا۔ اس کے بعد سرائے میر میں مولانا اخترحسن اصلاحی سے علم تفسیرحاصل کیا۔علی گڑھ سے ۱۹۵۹ء میں فلسفہ میں ایم اے کیا۔ ۱۹۶۲ء میں فلسفۂ اخلاق‘ ابن مسکویہ کی تعلیمات کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۶۵ء میں شانتی نکیتن (بنگال) میں فلسفے کے لکچرر سے تدریس کا آغاز کیا اور پھر شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے صدر مقرر ہوئے۔ ۱۹۷۲ء میں ہارورڈ یونی ورسٹی سے ماسٹر ان تھیالوجیکل اسٹڈیز (MTS) کی ڈگری حاصل کی۔ ۹۵-۱۹۸۵ء تک ام درمان یونی ورسٹی (سوڈان)‘ کنگ فہد یونی ورسٹی (ظہران) کنگ سعود یونی ورسٹی (ریاض) میں تعلیم و تحقیق کی خدمات انجام دیں۔ تصوف اور شریعت پر مبسوط تحقیقی کتاب تصنیف کی۔ سعودی عرب میں تحریک کے کام کو نہایت منظم انداز میں ٹھوس بنیادوں پر آگے بڑھایا۔ سعودی عرب سے واپسی پر ۱۹۹۵ء میں ایک تحقیقی ادارہ سنٹر فار ریلجس اسٹڈیز اینڈ گائیڈنس (CRSG) بھی قائم کیا۔ تحریک کی طرف سے وقتاً فوقتاً عائد کی جانے والی متعدد ذمہ داریاں نبھاتے رہے ہیں۔ گذشتہ دو میقاتوں میں مرکزی شوریٰ کے رکن رہے۔ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ امیرجماعت کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد جماعت اسلامی ہند کے حوالے سے ان کی ترجیحات اور حکمت عملی پرمبنی مختصر تحریر ذیل میں پیش کی جا رہی ہے۔ (ادارہ)

انسانی وسائل کا فروغ اور اس کی زیادہ سے زیادہ فراہمی ہماری ترجیح اول ہے۔ ہرمیدان میں جو کارکن مصروف عمل ہیں‘ ان کی ماہرانہ تربیت کے ذریعے ارتقا اور ان میں جِلا پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ داعی‘ صحافی‘ مفکرین اور محققین‘ قائدانہ صلاحیت کے   حامل لوگوں کی تیاری اولین ترجیح ہوگی۔ اس ضمن میں تحریکی کارکنوں کی تربیت کے پیش نظر  دینی مطالعے اور رہنمائی کا ایک مرکز (سی آر ایس جی) کے نام سے قائم کیا گیا تھا۔ اس کو دوبارہ فعال بنانے کی سعی کی جائے گی۔ اس میں تیار ہونے والے کارکنوں سے تحریکی کاموں کی   انجام دہی میں بھرپور استفادہ کیا جائے گا۔ میری خواہش ہے کہ مرکز کے اسٹڈی گروپ کے نظم کو مزید مستحکم اور فعال بنانے کی طرف توجہ دی جائے۔

میری ذاتی رائے میں ملک کے اندر ’’مبنی براقدار سیاست‘‘ کے تصور کو عام کرنے اور اس میں جان ڈالنے کے سلسلے میں جماعت بڑا اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ اگر ممکن ہو سکے تو اس کے لیے کسی درجہ نیم آزاد اور موثرمیکانزم وجود میں لایا جائے۔ مسلمانانِ ہند کی سیاسی قوت کو ملکی سیاست پر اثرانداز ہونے کے قابل بنانا بھی میں ضروری سمجھتا ہوں۔ ملکی مسائل کے سلسلے میں عوامی شعور بیدار کرنے‘ نیز ان کے جامع اور مناسب حل کے لیے پُرامن اور تعمیری اقدامات کی فضا پیدا کرنے کی طرف توجہ دلانے کی بھی ضرورت ہے۔

نوجوانوں کی قوتوں کو مجتمع کر کے انھیں تعمیری کاموں کی طرف موڑنے کے لیے منظم سعی کی ضرورت ہے۔ نوجوانوں کو منظم کرنے کی طرف خصوصی توجہ دی جائے گی۔ تعلیمی میدان میں جماعت جو سعی و جہد کر رہی ہے اسے مزید مستحکم اور منظم کرنے کی اور اس میں تیزی لانے کی ضرورت ہے۔ اگر ضرورت ہو تو اس میدان میں تبدیلیوں سے ہچکچانا نہیں چاہیے۔ طلبہ تنظیم  ایس آئی او اور جماعت کے درمیان ایسے مشترکہ کام کیا ہوسکتے ہیں‘ سوچا جانا چاہیے۔ ایسے کاموں میں طلبہ کو ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے۔

مسلمانوں کی اصلاح‘ اخلاقی اور سماجی ترقی کے لیے ٹھوس اقدامات کی سخت ضرورت ہے۔ جب تک کہ کچھ ٹھوس اقدامات نہ کیے جائیں‘ اُمت مسلمہ کی اصلاح و ترقی مشکل ہے۔  اسلامی تحریک کو عوامی تحریک کی حیثیت تک پہنچانے کے لیے جن اقدامات کی ضرورت ہے اس کا جائزہ لینے اور تجاویز مرتب کرنے کے لیے ضروری تدابیر اختیار کرنا بھی ہمارے پیش نظرہے۔ گائوں اور دیہات کو مرکز بنا کر وہاں کی مختلف ضرورتوں کی تکمیل کے ذریعے گائوں کے لوگوں کی ہمہ گیر ترقی اور اخلاقی و انسانی اقدار کے فروغ کی طرف توجہ دینا چاہتا ہوں۔ جماعت کے پیغام اور عقائد‘ نظریات کی طرف لوگوں کو براہِ راست دعوت دینے اور اس کے لیے کارکنوں میں آمادگی پیدا کرنے کی طرف بھی توجہ دی جائے گی۔

تحریک کے اندر اور سماج میں خواتین کا مقام‘ کردار اور حصہ واضح طور پر ادا ہو‘ اس کے لیے بتدریج آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ انھیں مردوں کے ساتھ برابر کا حصہ دار بنانے کی ضرورت ہے۔

میڈیا کے سلسلے میں جامع اسکیم کی تیاری پیش نظر ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی طرف اور اس کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ کے استعمال کی ترویج کی طرف توجہ دینے کی بڑی ضرورت ہے۔

بیرون ملک اسلامی اسکالروں سے میری ملاقات ہوا کرتی تھی اور اب بھی بہت سارے لوگوں سے خط و کتابت ہے۔ ان تعلقات کو مزید مستحکم اور منظم کرنے کی کوشش ہوگی۔

عقیدہ و مذہب کی آزادی بنیادی انسانی حقوق میں سے ہے۔ اس پر کسی طرح کی پابندی برداشت نہیں کی جانی چاہیے۔ اگر کوئی قانون اس آزادی کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہو تو اس کے خلاف قانونی و عدالتی چارہ جوئی اختیار کرنی پڑے گی اور ہم اس سے گریز نہیں کریں گے۔ (ماخوذ: سہ روزہ دعوت‘ دہلی‘ یکم مئی ۲۰۰۳ئ)

’’دہشت گردی کے خلاف جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی‘ لیکن عراق میں امریکہ کی فتح سے ہمارے لیے ایک نئی روشن صبح طلوع ہوئی ہے جس کے بعد دنیا کبھی دوبارہ اس طرح کی نہیں ہوسکتی جس طرح اس جنگ سے پہلے تھی۔ اسرائیل اس نئی اور بہتر دنیا کا ایک فعال ملک ہوگا‘‘--- یہ الفاظ ہیں صہیونی دانش ور موشیہ ایرنز کے جو بڑے صہیونی روزنامہ ہآرٹس میں ۱۵اپریل ۲۰۰۳ء کو شائع ہوئے۔

وہ مزید لکھتا ہے: ’’اسرائیل کے لیے امریکہ کی جیت ایک بڑی خوش خبری ہے کیونکہ عالم عرب میں اسرائیل کا سب سے بڑا دشمن ‘ جس نے اسے کیمیائی اسلحے کی دھمکی دی اور ۱۹۹۱ء کی جنگ میں اس پر میزائل چلائے‘ شکست کھا گیا۔ اس کی شکست کے بعد عراق اسرائیل کے ساتھ صلح کے لیے واضح اور نمایاں قدم اٹھائے گا‘‘۔ یہ صرف موشیہ ایرنز ہی نہیں خود امریکی و صہیونی ذمہ داران آئے روز طرح طرح کے بیانات دے رہے ہیں۔ شارون کہتا ہے: ’’اب ایک سنہری موقع ہاتھ لگا ہے اور میں اسے کسی صورت ضائع نہیں ہونے دوں گا‘‘۔

امریکی وزیرخارجہ کولن پاول نے اپنے صہیونی ہم منصب سلفان شالوم سے ملاقات کے دوران کہا: ’’ہماری کامیابی پورے خطے میں دہشت گرد اور شدت پسند طاقتوں کے خاتمے کا آغاز ہے‘ اور آپ بہت جلد‘ مختلف ممالک اور تنظیموں کی پالیسیوں سے اس کے آثار واضح طور پر دیکھ لیں گے‘‘۔ شارون نے اس موقع پر امریکی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ’’شام کی حکومت پرشدید ترین دبائو ڈالے تاکہ وہ شام میں موجود فلسطینی تنظیموں کا خاتمہ کر دے اور ایران سے اپنے تعلقات منقطع کر لے (صہیونی روزنامہ یدیعوت احرونوت‘ ۱۵ اپریل ۲۰۰۳ئ)۔ سابق روسی وزیراعظم پریماکوف نے اپنے ایک انٹرویو میں صورت حال کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا: ’’شارون اور اس کا احاطہ کیے ہوئے لوگ امریکہ کو بہرصورت شام کے مقابل لانا چاہتے ہیں کیونکہ شام پر حملہ درحقیقت انھی لوگوں کی جنگ ہے جو عسکری ذرائع سے مسئلے کا حل چاہتے ہیں‘‘۔ (الشرق الاوسط‘ ۱۶ اپریل ۲۰۰۳ئ)

اس ضمن میں اب تک شام پر مختلف الزامات لگائے جا چکے ہیں۔ اس کے پاس تباہ کن ہتھیاروں کے بارے میں امریکی ذمہ داران اپنے عراق والے بیانات متعدد بار دہرا چکے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ: ’’ہمارے پاس اس بارے میں ثبوت ہیں‘‘۔ ’’شام نے یورپی ممالک سے اپنے نام پر عراق کے لیے ہتھیار خریدے‘‘۔ ان ہتھیاروں میں رات کے وقت دیکھ سکنے والی خطرناک دوربینیں بھی شامل ہیں۔ پھر کہا گیا کہ ’’دورانِ جنگ شام سے مجاہدین اور شامی فوجی عراق بھیجے‘‘۔ اب کہا جا رہا ہے: ’’عراق سے سائنس دان اور دیگر عراقی ذمہ داران شام میں پناہ لیے ہوئے ہیں‘‘۔ وائٹ ہائو س کے ترجمان ایری فلیشر نے تو ہر گردن میں پورا آجانے والا پھندا پھینک دیا ہے کہ ’’شام دہشت گردی کی پشت پناہی کرتا ہے‘‘۔ یہی بات صہیونی تجزیہ نگار زائیف شیف لکھتا ہے: ’’شام حزب اللہ کے ساتھ مل کر عراق کو امریکی فوجیوں کے لیے لبنان بنانا چاہتا ہے‘‘۔ امریکی نائب وزیرخارجہ رچرڈ آرمٹیچ کا کہنا ہے: ’’حزب اللہ القاعدہ سے بھی کہیں زیادہ خطرناک ہے‘‘۔

۱۸ اپریل ۲۰۰۳ء کا صہیونی روزنامہ ہآرٹس لکھتا ہے: ’’لگتا ہے کہ اس بار امریکی کانگریس زیادہ موثر کردار ادا کرے گی۔ وہ اپنی وزارت خارجہ کے اس فیصلے کے انتظار میں نہیں رہے گی کہ وہ شام کو باقاعدہ برائی کا محور قرار دے۔ عراق میں جو کچھ ہوچکا ہے اور شام و عراق کے مابین جو تعاون سامنے آچکا ہے‘ اس کے بعد بشارالاسد کے ساتھ کسی اور زبان میں ہی بات کرنا ہوگی۔ اب یہ برداشت نہیں کیا جا سکتا کہ دمشق میں بیٹھے فلسطینی جہادی لیڈر اسرائیلی شہروں میں بسیں اُڑانے کے احکام جاری کرتے رہیں اور دمشق و حلب محفوظ رہیں‘‘۔ مزید لکھتا ہے: ’’اس وقت دنیا میں کسی اور ملک کے پاس اتنا قابلِ استعمال کیمیائی اسلحہ نہیں ہے جتنا شامیوں کے پاس ہے‘‘۔ البتہ صہیونی تجزیہ نگار نے یہ وضاحت نہیں کی کہ کیا یہ کیمیائی اسلحہ (اگر ہے تو) اسرائیل کے پاس موجود ۱۹قسم کے مہلک کیمیائی و حیاتیاتی اسلحے سے بھی زیادہ ہے‘ خود امریکہ کے اسلحے سے بھی زیادہ ہے کہ جس کا دفاعی بجٹ اب ۴۲۲ ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے جو دنیا بھر کے تمام ممالک کے مجموعی دفاعی بجٹ سے متجاوز ہے۔ واضح رہے کہ روس کا دفاعی بجٹ ۶۵ارب ڈالر‘ چین کا ۴۷ ارب ڈالر‘ جاپان کا ۳.۴۰ ارب ڈالر‘ برطانیہ کا ۴.۳۵ ارب ڈالر‘فرانس کا ۶.۳۳ ارب ڈالر اور جرمنی کا ۵.۲۷ ارب ڈالر سالانہ ہے۔

ایک طرف تو شام کے خلاف جنگ کی آگ بھڑکائی جا رہی ہے دوسری طرف خود فلسطینی محاذ پر ایک خاموش انقلاب برپا کر دیا گیا ہے۔ ۲۰۰۲ء کے اختتام پر بش (خورد) نے اعلان کیا تھا کہ فلسطینیوں کو نئی قیادت منتخب کرنا ہوگی‘ حالیہ قیادت سے مزید کوئی بات چیت نہیں ہوسکتی۔ یاسرعرفات نے ایک آدھ بار یہ کہا کہ جیسے ہی انتخابات کے لیے مناسب حالات پیدا ہوئے انتخابات کروا کے نئی فلسطینی قیادت چن لی جائے گی‘ لیکن آخرکار ۸ مارچ کو دستور میں تبدیلی کرتے ہوئے ایک نیا عہدہ تراش لیا گیا۔ محمود عباس (ابومازن) کو فلسطینی اتھارٹی کا وزیراعظم چن لیا گیا۔ محمود عباس صہیونی و امریکی قیادت کے ساتھ مذاکرات میں دونوں کے اعتماد پر پورے اُترے تھے۔ اوسلو معاہدے کے پیچھے اصل کردار ابومازن ہی کا تھا۔ اسے وزیراعظم بنوانے کا اصل مقصد یاسرعرفات کو نمایشی صدر بنا کر اس کے تمام اختیارات سلب کرلینا ہے۔ صہیونی تجزیہ نگار ایلیکس فش مین یدیعوت احرونوت میں لکھتا ہے: ’’فلسطینیوں کے حملے اور شدت پسندی روکنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یاسرعرفات اور اس کے قریبی ساتھی ہیں۔ یہ لوگ مسلح جدوجہد جاری رکھنا چاہتے ہیں‘‘۔ (۱۸ اپریل ۲۰۰۳ئ)

ساری دنیا کو یاد ہے کہ ۱۹۸۷ء میں پہلی تحریک انتفاضہ شروع ہوئی تو اسے کچلنے کے لیے یاسرعرفات کے ذریعے فلسطینی اتھارٹی تشکیل دی گئی اور ۱۹۹۳ء میں اوسلو معاہدے کے ذریعے فلسطین کے اڑھائی فی صد رقبے میں فلسطینی ریاست اور باقی ساڑھے ستانوے فی صد سرزمین پر اسرائیلی ریاست بنانے کا اعلان کیا گیا۔ یاسرعرفات کو عالمِ اسلام کے تمام حکمرانوں کے سامنے مثالی لیڈر کے طور پر پیش کیا گیا۔ یاسرعرفات نے امریکی اور صہیونی امداد سے متعدد سیکورٹی فورسز تشکیل دیں اور ہر آزادی پسند لیڈر اور مجاہد کو گرفتار کرنا شروع کر دیا۔ غزہ میں مشرق وسطیٰ کا سب سے بڑا جواخانہ اور علاقے کی بڑی زیرزمین جیل تعمیر کی گئی۔ قومی سلامتی کی ذمہ داری محمد دحلان نامی ایک شخص کو سونپی گئی جس نے اپنے فلسطینی بھائی بندوں کو ٹھکانے لگانا شروع کر دیا۔ لیکن پھر حالات نے پلٹا کھایا‘ ۱۹۹۹ء کے اختتام پر تحریکِ انتفاضہ کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا۔ شہادتوں کی نئی تاریخ رقم کی جانے لگی۔ شارون نے بھی بہیمیت کی انتہا کر دی۔ جنین اور دیگر فلسطینی علاقوں کو ٹینکوں سے روندا جانے لگا‘ میزائل برسنے لگے لیکن شہادتی کارروائیوں کو نہ روکا جا سکا۔ یاسرعرفات کو بھی اس کے ہیڈکوارٹر میں محصور ہونا پڑا۔ گولہ باری کا نشانہ بننا پڑا‘ اور اب اسے امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا جا رہا ہے۔

محمود عباس کی سب سے بڑی خوبی یہ بتائی جاتی ہے کہ وہ فلسطینی تحریک پر سے عسکری چھاپ ختم کرنا چاہتا ہے۔ وہ فلسطینیوں کی عسکری اور شہادتی کارروائیاں ختم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یدیعوت احرونوت لکھتا ہے: ’’ابومازن کی کابینہ یاسرعرفات کی کابینہ سے یکسر مختلف اور فلسطینی تاریخ کا ایک حقیقی اہم موڑ ہے۔ اس میں پیشہ ور‘ صاحب اختصاص‘ صاف ستھری شخصیتیں شامل ہیں۔ اس میں شامل سب سے نمایاں شخصیت وزیرداخلہ محمد دحلان کی ہے جس نے حماس کی قیادت کو ابھی سے یہ باور کروا دیا ہے کہ اگراس نے نئی قیادت کے احکام نہ مانے تو وہ ان سے اسی طرح نمٹے گا جیسے ۱۹۹۶ء میں نمٹا تھا۔ دحلان ایسے پیغامات دے کر ان تنظیموں سے عملاً تصادم چاہتا ہے تاکہ انھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سبق سکھا دے۔ اس ہفتے ایک ایسا واقعہ پیش آیا ہے جو اسرائیل کے لیے بڑی نیک فالی ہے۔ فلسطینی انتظامیہ نے سامرہ کے علاقے میں ایک اہم جہادی لیڈر کو گرفتار کر لیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگرچہ ابھی پٹرول دریافت نہیں ہوا لیکن اس کی موجودگی کے بڑے قوی امکانات و آثار ہیں‘‘۔ (۱۸ اپریل۲۰۰۳ئ)

واضح رہے کہ ابومازن نے اپنی کابینہ کے لیے جو نام پیش کیے ہیں ان میں سات افراد ایسے تھے جو یاسر عرفات سے کھلم کھلا بغاوت کرچکے ہیں۔ محمددحلان بھی ان میں سے ایک ہے جسے یاسرعرفات نے بڑی رشوت کھانے اور قومی مفادات سے غداری کے الزام میں نکال دیا تھا۔ اب اسی کا نام وزیرداخلہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ پہلے اسی کو وزیراعظم کے لیے لائے جانے کی افواہیں بھی تھیں۔ یاسرعرفات نے وزارتِ داخلہ کے لیے دحلان کا نام یکسر مسترد کر دیا ہے‘ لیکن صہیونی مشیرابومازن کو مشورہ دے رہے ہیں کہ تم وزارت داخلہ کا عہدہ اپنے پاس ہی رکھنے کا اعلان کر دو اور دحلان کو وزیرمملکت بنا کر وزارتِ داخلہ عملاً اس کے سپرد کر دو۔

صہیونی منصوبہ یہ ہے کہ عراق پر امریکی تسلط‘ شام و ایران کے خلاف بلند بانگ دھمکیوں اور دنیا بھر پر امریکی جنگی مشنری کی دھاک کو مستحکم کرنے کی کوششوں کے دوران ہی فلسطینی مسئلے سے چھٹکارا پا لیا جائے۔ اسی موقع پر بڑی تعداد میں فلسطینیوںکو عراق واُردن میں بسانے کے منصوبے بھی سامنے لائے جا رہے ہیں ۔ بش عنقریب ایک روڈمیپ کا اعلان کرنے والے ہیں۔ اس کا مسودہ کہیں سامنے نہیں آیا لیکن شارون نے اعلان کر دیا ہے کہ ہمیں اس پر ۱۴اعتراضات ہیں ۔ سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ اس میں ملک بدر لاکھوں فلسطینیوں کے حق واپسی پر بھی بات کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ اس کے بقول یہ ایک ایسا سرخ خط ہے جسے پار کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جا سکتی۔

صہیونی وزیرخارجہ شالوم کے الفاظ ہیں: ’’ہم یہ اطمینان چاہتے ہیں کہ فلسطینیوں کی واپسی کا مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا جائے۔ روڈمیپ میں اس بات کا اشارہ بھی نہیں ہونا چاہیے‘‘۔ تل ابیب میں امریکی سفیر ڈینیل کیرٹزر نے فوراً ہی صہیونی حکمرانوں کے در پہ حاضری دیتے ہوئے انھیں تسلی دلائی اور کہا کہ ’’روڈ میپ اصل حل نہیں ہے یہ تو صرف مذاکرات شروع کرنے کا ایک بہانہ ہے‘‘۔ اسی دوران امریکی کانگریس کے ۲۳۵ اور امریکی سینیٹ کے ۷۰ ارکان نے اپنی حکومت سے مطالبہ کیا کہ ’’حکومت امریکہ کو شارون حکومت کے ساتھ کوئی تصادم مول نہیں لینا چاہیے‘‘۔ اسی مضمون کے کئی خطوط بش کی مشیرہ براے قومی سلامتی کونڈالیزا رائس کو متعدد صہیونی تنظیموں کی طرف سے موصول ہوئے۔ (صہیونی روزنامہ معاریف)

سابق امریکی وزیرخارجہ ہنری کسنجر نے کہا تھا: ’’القدس جانے کا راستہ بغداد سے گزرتا ہے‘‘۔ کیا اس کی بات اس معروف صہیونی ماٹو کی طرف اشارہ تھا کہ ’’اے اسرائیل تیری سرحدیں فرات سے نیل تک ہیں‘‘ (حدودک یا اسرائیل من الفرات الی النیل)‘ یا اس نے پہلے صہیونی وزیراعظم بن گوریون کے اس جملے کو عراق پر منطبق کرنے کی کوشش کی تھی جس میں اس نے کہا تھا کہ ’’اسرائیل کی سلامتی صرف اس بات میں مضمر نہیں ہے کہ اس کے پاس ایٹمی اسلحہ ہو بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ ہر اس ایٹمی طاقت کو تباہ کر دیا جائے جو اس میدان میں اسرائیل کے مقابل ہو اور اس کے وجود اور علاقائی مفادات کو خطرے میں ڈالتی ہو‘‘۔ کسنجرکا یہ معروف جملہ آج کے حالات پر بھی پوری طرح درست بیٹھتا ہے۔

سقوطِ بغداد کے بعد اب القدس کی تحریک آزادی کو ختم کرنے کی سعی کی جا رہی ہے۔ عالمِ اسلام اس صہیونی امریکی منصوبے کی راہ میں رکاوٹ تو کیا اس میں شرکت کے لیے بے تاب دکھائی دیتا ہے۔ حالانکہ خود صہیونی نقشہ نویس اپنے اس نقشۂ کار کے متعلق شکوک کا شکار ہیں۔ ایلیکس فش مین لکھتا ہے: ’’اس پورے معاملے میں اصل خطرہ یہ ہے کہ ابومازن یاسرعرفات کی جگہ تو لے لے لیکن وہ سیاسی اور امن و امان سے متعلقہ مقاصد حاصل نہ ہوں جو اسرائیل چاہتا ہے‘ دہشت گردی جاری رہے۔ اس صورت میں کیا ہوگا‘ کیا اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہماری پوری کی پوری پالیسی ہی غلط تھی‘‘ (یدیعوت احرونوت‘ ۱۸ اپریل ۲۰۰۳ئ)۔ لیکن پاکستانی وزیرخارجہ کا بیان ملاحظہ فرمایئے: ’’عراق کے بعد فلسطین اور پھر کشمیر کامسئلہ حل ہوگا‘‘، یعنی ہم نہ صرف سقوطِ بغداد اور فلسطین کا کانٹا نکل جانے کے لیے بھی ذہناً تیار بیٹھے ہیں بلکہ اس کے بعد مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بھی امریکہ ہی کی طرف نظریں اٹھاتے ہیں۔

یہ بات پتھر پہ لکیر ہے کہ فلسطین کے سربراہ موعود ابومازن کا انجام عبرت ناک ہوگا۔ اپنے مجاہدین اور اپنی قوم کے بجائے دشمن کے کام آنے والا ہر بدقسمت عبرت کا نشان ضرور بنتا ہے‘ لیکن کیا پاکستان‘ اہل پاکستان‘ اور کارپردازانِ پاکستان کے لیے بھی اس میں کوئی پیغام‘ کوئی سبق ہے!