مضامین کی فہرست


مارچ ۲۰۰۹

۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات، اپنی تمام کمزوریوں اور بے قاعدگیوں کے باوجود قوم کے اس عزمِ صمیم کے مظہر تھے کہ جنرل پرویز مشرف کا ۸ سالہ دورِ اقتدار پاکستان کی تاریخ کا تاریک ترین باب تھا اور عوام جنرل مشرف کے ساتھ اس کی ان پالیسیوں سے بھی مکمل نجات چاہتے ہیں جن کے نتیجے میں ملک کی آزادی اور حاکمیت پر ضربِ کاری لگی ہے۔ پاکستان کی نظریاتی شناخت بری طرح مجروح ہوئی ہے اور ملک امن و امان اور عدل و انصاف سے یکسر محروم ہوگیا ہے۔ عدلیہ، پارلیمنٹ اور انتظامیہ کے ادارے غیرمؤثر اور آمریت کے آلۂ کار بن گئے ہیں جس کے نتیجے میں دستور عملاً معطل ہوگیا ہے اور عوام اپنے حقوق سے یکسر محروم ہوگئے ہیں۔ ’دہشت گردی‘ کے خلاف امریکی جنگ میں آلۂ کار بننے سے ملک کی فوج اپنے ہی عوام کے خلاف صف آرا ہوگئی ہے اور  فوج اور قوم کے درمیان جو اعتماد اور ہم آہنگی کا رشتہ تھا وہ ٹوٹ گیا ہے۔ فوج عوام کی بے زاری، بے اعتمادی اور نفرت کا نشانہ بنتی جارہی ہے۔ فاٹا، شمالی علاقہ جات اور بلوچستان ہی نہیں، پورا ملک امن و امان سے محروم ہوگیا ہے اوردہشت پسندی، لاقانونیت اور راے عامہ کے ذریعے تبدیلی پر عوام کا اعتماد اٹھتا جارہا ہے۔ الیکشن کمیشن سیاسی قیادت کا آلۂ کار بن گیا ہے اور عدالت کو انتظامیہ نے اپنا تابع مہمل بنالیا ہے۔ معاشی حالات، خوش کن وعدوں کے باوجود روز بروز خراب ہورہے ہیں۔ غربت بڑھ رہی ہے، بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پیداوار میں جمود ہے، قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، قرضے بڑھ رہے ہیں، اِسی طرح بجٹ، تجارت اور بین الاقوامی ادایگیاں پاکستان کی تاریخ کے بدترین خسارے کی مظہر ہیں۔

ان حالات میں عوام نے تبدیلی کے حق میں ووٹ دیا اور کسی ایک جماعت کو نہیں بلکہ دونوں بڑی جماعتوں، یعنی پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کو یہ ذمہ داری سونپی کہ ملک کو اس دلدل سے نکالیں اور دستور، قانون کی حکمرانی، عدلیہ کی آزادی، پارلیمنٹ کی بالادستی، امن و امان کے قیام اور معاشی عدل اور استحکام کی طرف پیش قدمی کریں۔ نئے سفر کا آغاز پی پی پی اور نواز لیگ کے اشتراک سے ہوا اور امید بندھی کہ شاید قومی مفاہمت کے ذریعے ملک حقیقی جمہوریت کی طرف رواں دواں ہوسکے گا۔ مگر افسوس کہ سیاسی قیادت نے قوم کو بری طرح مایوس کیا اور ذاتی مفاد، جماعتی عصبیت، مفاد پرست طبقات سے گٹھ جوڑ اور امریکا کی کاسہ لیسی کی پرانی ڈگر کو نہ صرف جاری رکھا بلکہ اس میں کچھ اور بھی اضافہ کردیا۔ عدلیہ کی بحالی اور آزادی پر ایک اور بھرپور ضرب لگائی۔ دستور کے ۱۲اکتوبر ۱۹۹۹ء کی صورت میں بحالی کے وعدے کو پامال کیا اور ۳نومبر ۲۰۰۷ء کے صریح غداری (high treason) کے اقدام کو سینے سے لگاکر مشرف کے چھوڑے ہوئے جمہوریت کُش نقشے میں مزید رنگ بھرنے کا کام اپنے سر لے لیا۔ پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے راستے الگ ہوگئے مگر درپردہ معاملہ بندی کا سلسلہ جاری رہا جس سے نہ حکومت کی اصلاح ہوسکی اور نہ حزبِ اختلاف اپنا حقیقی کردار ادا کرسکی۔ حکومت پر عوام کا اعتماد بری طرح مجروح ہوا اور آج حکومت کے بارے میں عوام کی بے زاری کا گراف اس سے بھی کچھ اُوپر جاچکا ہے جو الیکشن کے وقت مشرف حکومت کے بارے میں تھا۔ اس ایک سال کا جائزہ لیا جائے تو بڑی تکلیف دہ اور تشویش ناک صورت حال سامنے آتی ہے جس کا ادراک ضروری ہے۔

  •  دستورکُش اور ملک دشمن اقدامات: فروری ۲۰۰۷ء کے انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی پارلیمنٹ اور حکومت کی پہلی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ ۳نومبر ۲۰۰۷ء کے دستورکُش اور ملک دشمن اقدام کو صاف الفاظ میں خلافِ دستور قرار دے کر کالعدم کرتی تاکہ اس کے نتیجے میں عدلیہ کی جو تباہی ہوئی ہے اس کی اصلاح و درستی ہوپاتی۔ تعجب ہے کہ آج تک نہ پارلیمنٹ نے اس اقدام کو کالعدم قرار دیا ہے اور نہ اسے ضروری ترامیم کے ساتھ جائز (validate) قرار دیا ہے۔ اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ آج تک ملک ایک خلافِ دستور اور ملک دشمن اقدام کے تاریک سایے تلے زندگی گزار رہا ہے اور قیادت اور پارلیمنٹ کو کوئی احساس تک نہیں کہ وہ قانون کی پامالی اور انصاف کی درماندگی پر اقتدار کا تخت سجائے بیٹھی ہے۔ قوم چیخ رہی ہے، اپوزیشن جماعتیں احتجاج کر رہی ہیں، وکلا ملک کے کونے کونے سے اس صورت حال کے خلاف بھرپور تحریک چلا رہے ہیں مگر حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔
  •  مشرف دور کی پالیسی پر عمل پیرا:پیپلزپارٹی کا کردار اس پورے معاملے میں بہت ہی مایوس کن ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ زرداری صاحب اور ان کے معاونین کا ٹولا، جو امریکا اور برطانیہ کے تعاون سے، مشرف سے قومی مفاہمت آرڈی ننس (NRO) کے نام پر ایک سودے بازی (ڈیل) کے نتیجے میں برسرِاقتدار آیا، وہ دستور اور میثاقِ جمہوریت، ان کے اپنے مسلم لیگ (ن) سے معاہدات اور عوام کے مینڈیٹ سب کو نظرانداز کرکے محض ذاتی مفادات کے تحفظ کے لیے اپنی ساری صلاحیتیں صرف کررہا ہے اور پوری ڈھٹائی سے مشرف دور ہی کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے۔ زرداری صاحب نے تمام اہم عہدوں پر ان لوگوں کو مسلط کیا ہے جن سے ان کے مفادات وابستہ رہے ہیں اور جن کا سیاسی جدوجہد میں کوئی کردار نہیں تھا۔ صدارت پر منتخب ہونے کے لیے ہرطرح کے جوڑ توڑ سے کام لیا اور صدر کے لیے جو دستوری تقاضے ہیں کہ وہ غیر جانب دار ہو اور وفاق کی علامت ہو، اس کو  پسِ پشت ڈال کر پارٹی کی سربراہی بھی اپنے پاس ہی رکھی اور اس کے ساتھ اپنے ہاتھوں میں وہ سارے اختیارات مرتکز کرلیے جو جنرل مشرف نے دستور کو مسخ کر کے اپنی گرفت میں لے لیے تھے۔ قوم کے مطالبے کے باوجود، اپنے اثاثوں کا اعلان نہیں کیا اور ہیراپھیری کا وہ کردار جاری رکھا جس کی بنا پر وہ ملک ہی نہیں، پوری دنیا میں بدنام تھے۔ عملاً صدر چیف ایگزیکٹو کا کردار ادا کر رہا ہے اور سارے فیصلے پارلیمنٹ تو کجا کابینہ میں بھی نہیں، ایوانِ صدر میں ہورہے ہیں، نیز صوبوں کے گورنروں کو اپنے آلۂ کار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ زرداری صاحب کے اس طرزِ حکمرانی نے سیاسی نظام کی چولیں ہلا دی ہیں اور تقسیمِ اختیارات اور توازنِ قوت کا پورا نظام درہم برہم ہوکر رہ گیا ہے۔
  • امریکی تابع داری میں دو ھاتھ آگے: امریکی ایجنڈے پر عمل درآمد کے حوالے سے، زرداری حکومت مشرف سے بھی دوہاتھ آگے ہے۔ خود امریکا میں جو تبدیلی اوباما کے صدر منتخب ہونے سے آئی تھی اور جس کی بنیاد پر امریکا سے تعلقات کی نئی نقشہ بندی کے امکانات پیدا ہوگئے تھے، اسے ضائع کردیا گیاہے اور امریکا کی گرفت ہمارے قومی معاملات پر کچھ اور بھی سوا ہوگئی ہے۔ ڈرون حملوں میں اس ایک سال میں معتدبہ اضافہ ہوا ہے اور اب تویہ بھی حقیقت سامنے آرہی ہے کہ ڈرون حملے نہ صرف ملی بھگت سے ہورہے ہیں بلکہ اس کے لیے پاکستان ہی کی سرزمین کو استعمال کیا جا رہا ہے جس کا اعتراف امریکا کی سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کی سربراہ نے صاف لفظوں میں کیا ہے اور گوگل (google) کے نقشہ جات کا دقتِ نظر سے مطالعہ کرنے والوں نے نشان دہی بھی کردی ہے کہ بلوچستان اور سندھ کی سرحد پر خاران تحصیل کے علاقے ودھ میں امریکی فوجی اڈا ہے جس میں ڈرون رکھے گئے ہیں۔ ان کا کنٹرول امریکا میں سنٹرل کمانڈ کے پاس ہے اور وہ پاکستان ہی کی سرزمین کو پاکستانیوں کے قتلِ عام کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور صرف شمالی اور جنوبی وزیرستان اور باجوڑ کو ہی نہیں بلکہ کرم ایجنسی تک کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ زرداری حکومت اس مجرمانہ اور خونی کھیل میں برابر کی شریک ہے اور زبانی احتجاج فقط ایک نمایشی عمل ہے جس سے اس گھنائونے جرم میں شرکت پر پردہ نہیں ڈالا جاسکتا۔

امریکا ’اور مارو اور مارو‘ (do more)  کے مطالبات کر رہا ہے۔ امریکی نمایندے ہالبروک نے نہ صرف امریکی دبائو کو بڑھایا ہے بلکہ اس کی موجودگی میں دو مرتبہ ڈرون حملے ہوئے۔ ممبئی کے واقعے کے بارے میں بھی زرداری کے دست ِ راست مشیر داخلہ نے پریس کانفرنس کرکے جس جوش و خروش سے بھارت کے الزامات کو اپنے سر لیا ہے، اس نے امریکا اور بھارت کے اس خطرناک کھیل کو اور بھی گمبھیر کردیا ہے۔ آج پاکستان اس قیادت سے محروم ہے جو پاکستان کے مفاد کے لیے سر اُٹھاکر اور خم ٹھونک کر کھڑی ہوسکے اور امریکا کے ایجنڈے سے براء.ت کا اعلان کرسکے۔ امریکی تحقیقی ادارے اعتراف کر رہے ہیں کہ افغانستان میں ۷۲ فی صد علاقے پر طالبان کا قبضہ ہے اور ۲۰۰۸ء کا سال افغانستان میں امریکی اور ناٹو افواج کے لیے اور خود وہاں کے عوام کے لیے  سخت ترین رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے نمایندے نے سرکاری طور پر اعلان کیا ہے کہ افغانستان میں غیرحربی (non-combatant) سویلین شہریوں کی ہلاکت میں ۴۰ فی صد اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں ۲۰۰۸ء میں ۲۱۱۸ معصوم شہری لقمۂ اجل بنے ہیں اور ان میں سے ۵۵۲ افراد ہوائی حملوں کے نتیجے میں ہلاک ہوئے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے شہریوں کی تحفظ کی سالانہ رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ: ’’امریکا، ناٹو اور افغان افواج نے اقوام متحدہ کے مطابق ۲۰۰۷ء میں ان فورسز نے ۶۲۹ سویلین ہلاک کیے۔ ۲۰۰۸ء میں پچھلے برس کے مقابلے میں ۳۱ فی صد زیادہ سویلین ہلاک کیے‘‘۔

یہی صورت حال فاٹا اور سوات کی ہے جہاں پاکستانی افواج کے اقدام کے نتیجے میں صرف گذشتہ ۱۷ ماہ میں ۵ ہزار معصوم انسان شہید ہوچکے ہیں اور باجوڑ سے ۴ لاکھ اور سوات سے ۶لاکھ لوگ بے گھر ہوکر اپنے ہی ملک میں مہاجر بن گئے ہیں۔

واضح رہے کہ پاکستان کے لیے ۲۰۰۸ء کا سال دہشت گردی کے حوالے سے بدترین سال رہا ہے۔ پاک ادارہ براے مطالعات امن (Pak Institute for Peace Studies) کی تازہ رپورٹ (بی بی سی، ۱۹ جنوری ۲۰۰۹ء) کی رُو سے ایک سال میں جس میں اقتدار پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں بشمول اے این پی، ایم کیو ایم اور جمعیت علماے اسلام (ف) کے پاس تھا، ملک میں دہشت گردی (بشمول حکومتی دہشت گردی) کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ۸ہزار تک پہنچ گئی ہے اور زخمیوں کی تعداد ۹۵۰۰ سے زائد ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ: ’’دہشت گردی کے واقعات میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں ۷۰۰ فی صد اضافہ نوٹ کیا گیا ہے‘‘۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردی کے واقعات سب سے زیادہ صوبہ سرحد میں ہوئے ہیں جن کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہے۔ اس کے بعد بلوچستان کا نمبر ہے جہاں گذشتہ سال ۶۴۲، قبائلی علاقے میں ۳۸۵، پنجاب میں ۳۵، سند ھ میں ۲۵، اسلام آباد میں ۷، آزاد کشمیر میں ۴ اور شمالی علاقہ جات میں ایک واقعہ ہوا ہے۔

یہ خونچکاں داستان صرف اس دہشت گردی کی ہے، جسے قوت کے ذریعے ختم کرنے کے دعوے سے کارروائیاں کی جارہی ہیں۔ قتل، چوری، ڈاکے، عصمت دری، خودکشی اور دوسرے جرائم اس کے سوا ہیں۔ انسانی حقوق کے کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق خودکشی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے جو اوسطاً ہر ماہ ایک سو سے متجاوز ہیں۔

یہ ہے ملک میں امن و امان کی اصل صورت حال اور زرداری گیلانی حکومت اس ناکام پالیسی پر اور بھی مستعدی کے ساتھ کاربند ہے۔ انسٹی ٹیوٹ فار پیس کی متذکرہ بالا رپورٹ کے مطابق ۲۰۰۳ء سے (جب حکومت نے اس پالیسی کا آغاز کیا۔) ۲۰۰۸ء تک مجموعی طور پر ۱۳ ہزار افراد جانیں کھوچکے ہیں۔ اس رپورٹ میں یہ دل خراش دعویٰ بھی کہا گیا ہے کہ ’’پاکستان عراق اور افغانستان میں دہشت گردی سے ہونے والی ہلاکتوں میں دونوں سے آگے ہے‘‘___ اناللّٰہ وانا الیہ رٰجعون۔

عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی ۱۳ فروری ۲۰۰۹ء کی رپورٹ میں کہا ہے کہ صرف سوات میں ۱۲۰۰ افراد ہلاک اور ۵ لاکھ بے گھر ہوچکے ہیں۔ اس رپورٹ کے یہ الفاظ کس قدر   شرم ناک ہیں:

طالبان نے لوگوں کی جان اور حقوق کی توہین کی ہے، جب کہ دوسری طرف پاکستان کی سیکورٹی فورسز نے ان بنیادی حقوق کو پامال کیا ہے جن کی وہ بظاہر حفاظت کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ (بی بی سی، ۱۳ فروری ۲۰۰۹ء)

ان حالات میں جب بھی حکومت نے اپنے عوام سے مذاکرات کرنے اور امن بحال کرنے کے لیے کسی معاہدے کی کوشش کی ہے تو اس پر امریکا برافروختہ ہوا ہے اور اس نے  براہِ راست ڈرون حملوں میں اضافہ کر کے ان معاہدات کو سبوتاژ کرنے کی ’خدمت‘ انجام دی ہے۔ یہ ہے دہشت گردی کے خلاف اس کے ’تعاون‘ کی ایک شکل___

اس وقت بھی (وسط ِ فروری میں) جو معاہدہ سوات میں شرعی قوانین کے نفاذ اور امن کی بحالی کے لیے ہوا ہے اس پر امریکا، ناٹو، بھارت تینوں نے مخالف ردعمل کا اظہار کیا ہے اور زرداری صاحب دستخط کرنے میں لیت و لعل کر رہے ہیں۔ نیز ان کے ترجمان مسئلے کو اُلجھانے میں لگے ہوئے ہیں، حتیٰ کہ خود اے این پی کے سربراہ اسفندیارولی تک بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ شریعت کے نفاذ کا کوئی مسئلہ نہیں، یہ تو صرف ۱۹۹۹ء کے ایک قانون میں کچھ ترمیم کی گئی ہے۔ حالانکہ اے این پی کی باقی قیادت خصوصیت سے اس کے سیکرٹری جنرل زاہد خان بار بار کہہ رہے ہیں کہ ہم نے شریعت کے نفاذ کا معاہدہ کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت پر عوام کا اعتماد ختم ہوچکا ہے اور وعدوں اور معاہدات کی تقدیس باقی نہیں رہی ہے۔ اس کی بدترین مثال عدلیہ بشمول چیف جسٹس کی بحالی کے سلسلے میں ایک نہیں، دو دو معاہدوں کا زرداری صاحب کا توڑنا ہے۔ اس کے بعد حکومت کے کسی قول و قرار کا اعتبار باقی نہیں رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی نے شریعت کے نفاذ کے اصولی مسئلے کی بھرپور تائید کے باوجود، اس کھیل کا حصہ بننے سے انکار کردیا ہے جو ایک ناقابلِ اعتبار حکومت سرحد میں کھیل کر رہی ہے۔ دراصل یہ کھیل پرویز مشرف کے سابقہ دور سے زرداری گیلانی دور تک اُسی یکساں انداز میں کھیلا جارہا ہے۔

  •  پارلیمنٹ کی بالادستی کے دعوے کی حقیقت: دستور کی بحالی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے قیام کے سلسلے میں بھی پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں کا کردار بڑا مایوس کن ہے۔ اس حکومت کے وزیرقانون دستوری ترامیم کا جو پیکج لائے تھے اس پر ہم بھرپور محاکمہ کرچکے ہیں۔ یہ ترامیم دستور کا حلیہ مزید بگاڑنے کا نسخہ تو ہیں، دستور کی ۱۹۹۹ء کی پوزیشن پر بحالی کا نہیں۔ اس بارے میں حکومت کی مجرمانہ غفلت اس کے اصل عزائم کی آئینہ دار ہے۔ اور ایک نئی عوامی جدوجہد کا تقاضا کرتی ہے جس کا نقطۂ آغاز ۱۲مارچ کا وکلا کا لانگ مارچ اور ۱۶ مارچ کا اسلام آباد کا دھرنا ہوسکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ وکلا تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے اداروں کو ساتھ لے کر چلیں۔ پھر یہ کہ صرف ایک احتجاج پر سارا انحصار نہیں کرنا چاہیے، اس کے لیے بڑی دقتِ نظر، مکمل ہم آہنگی اور تعاون سے منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت اور اس کے حواری اس تحریک کو سبوتاژ کرنے کی ہرممکن کوشش کر رہے ہیں اور ان کی ان حرکتوں سے ان کی جمہوریت پسندی کا پول کھل چکا ہے۔ البتہ اس امر کا پورا پورا اہتمام ہونا چاہیے کہ جمہوریت کی بحالی اور عدلیہ کی عصمت کی حفاظت کی یہ تحریک کسی طالع آزما کے لیے کوئی موقع نہ فراہم کرے۔
  •  ناقص طرزِ حکمرانی: حکومت کا امور مملکت کی مناسب انجام دہی (governance) کا ریکارڈ سخت مایوس کن ہے۔ پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی کابینہ بنانے کا شرف زرداری گیلانی حکومت کو حاصل ہوا ہے۔ ایک ایک وزیر پر محتاط اندازے کے مطابق سالانہ اخراجات ۴کروڑ روپے کے قریب ہیں۔ اس غریب ملک میں ۶۲وزرا پر مشتمل مرکزی کابینہ بنائی گئی ہے،   ۱۵ مزید افراد کو وزیر کا درجہ اور مراعات دی گئی ہیں۔ پارلیمانی سیکرٹریوں اور مشیروں کی فوج ظفرموج ان کے علاوہ ہے۔ اور ’حکمرانی‘ کا یہ حال ہے کہ اس کا کوئی وجود ہی نظر نہیں آرہا۔ ہر وزیر اپنا اپنا سُر الاپ رہا ہے اور حکومت کی پالیسیوں میں کوئی ہم آہنگی اور تال میل دُور دُور تک نظر نہیں آتا۔ وزیرخارجہ ایک بات کہتے ہیں، جب کہ وزیردفاع دوسری۔ داخلہ کے مشیر اپنی ڈفلی بجا رہے ہیں اور وزیراطلاعات صاحبہ چرب زبانی کے ساتھ کذب بیانی کا ریکارڈ قائم کر رہی ہیں۔ رشوت اور کمیشنوں کا بازار پھر گرم ہے اور عالمی ادارے (Transparency International) نے سالِ گذشتہ کو ماقبل کے سالوں سے خراب تر قرار دیا ہے۔ اس خرابی سے، ہر اس شخص اور ادارے کو سابقہ پیش آتا ہے جو موجودہ حکومت کے کارپردازوں کو کوئی بھی کام یا منصوبہ پیش کرتا ہے۔
  •  مربوط معاشی پالیسی کا فقدان: معیشت کی حالت کو دیکھا جائے تو وہ اوربھی زبوں حال ہے۔ ایک سال میں تین وزراے خزانہ کا تحفہ ملک کو دیا گیا اور چار بار خزانہ کے سیکرٹریوں کا تبادلہ کیا گیا ہے۔ معاشی میدان میں کوئی ایک بھی قابلِ ذکر اقدام نظر نہیں آتا۔ البتہ آئی ایم ایف کے جال میں ایک بار پھر ملک کو پھنسا دیا گیا ہے اور اس کی ساری شرائط کو قبول کر کے پیداواری عمل کو بری طرح متاثر کیا گیا ہے۔ اسٹیٹ بنک کا ڈسکائونٹ ریٹ ۱۵ فی صد ہے جس کی وجہ سے سرمایہ کاری ٹھپ ہے۔ ۲۰ سے۲۴ فی صد پر قرض لے کر کون نفع آور کاروبار کرسکتا ہے۔ تیل کی قیمتیں عالمی منڈیوں میں ۱۴۸ ڈالر سے کم ہوکر ۳۶ اور ۴۰ ڈالر پر آگئی ہیں مگر حکومت نے تیل کی قیمتوں میں متناسب کمی کا راستہ اختیار نہیں کیا اور ایک اندازے کے مطابق صرف اس مد میں عوام سے ۸۰ ارب روپے سے زیادہ وصول کیا جا رہا ہے۔ بجلی، گیس، پانی تینوں کی حالت دگرگوں ہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ نے زندگی عذاب بنا دی ہے۔ زراعت بری طرح متاثر ہورہی ہے اور صنعتی پیداوار میں ۶ فی صد سے زیادہ منفی رجحان ہے۔ کپڑے کی صنعت جو کُل ملکی صنعت کا ۶۰ فی صد ہے، شدید بحران کا شکار ہے اور ایک جائزے کے مطابق ۳۰ سے ۴۰ فی صد فیکٹریاں بند ہوگئی ہیں یا صلاحیت سے بے حد کم پیداوار دے رہی ہیں۔ درآمدات اسی طرح جاری ہیں اور برآمدات میں اضافے کے بجاے کمی ہے۔ بیرونی قرض کا بار ۳۶ ارب ڈالر سے بڑھ کر اب ۵۰ ارب ڈالر تک  پہنچ گیا ہے۔ آئی ایم ایف سے پہلے ۶ء۷ ارب ڈالر کی بات کی تھی جس کا نصف مل چکا ہے اور اب مزید ۴ ارب حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس سے صرف آئی ایم ایف کے قرضوں میں ۱۰ سے ۱۱ ارب ڈالر کا بوجھ ملک پر پڑے گا۔ ادھر ملک سے سرمایہ برابر باہر جا رہا ہے۔ بے روزگاری بڑھ رہی ہے اور تازہ ترین اندازوں کے مطابق اب آبادی کا ۴۰ سے ۴۵ فی صد، یعنی ۶سے ۷ کروڑ انسان غربت کی سطح سے کم پر زندگی گزار رہے ہیں اور مستحقین کو مالی مدد پہنچانے کی جو اسکیم شروع کی گئی ہے وہ متاثرین کے آٹھویں حصے کو بھی کوئی مؤثر ریلیف نہیں دے سکے گی۔ نیز اس نظام میں سیاسی دخل اندازی اور کرپشن کی تباہ کاریاں اس کے سوا ہیں۔

اس وقت سب سے بڑا مسئلہ حالات کے صحیح ادراک کا فقدان اور کسی ہمہ جہت اور مربوط معاشی پالیسی کا عدم وجود ہے۔ نج کاری، بدعنوانی اور قومی اثاثہ جات کو کوڑیوں کے مول غیرملکیوں کی طرف منتقل کرنے کا ذریعہ بن گئی ہے مگر اس پر دوبارہ عمل شروع ہوگیا ہے جس کے معیشت پر دُوررس منفی اثرات پڑیں گے۔ اس عرصے میں روپے کی بین الاقوامی قیمت میں ۲۵ فی صد کمی واقع ہوگئی ہے جس کے نتیجے میں بیرونی قرضوں کا بار ۷۰۰ ارب روپے بڑھ گیا ہے۔ درآمدات مہنگی ہوگئی ہیں اور برآمدات میں طلب پوری کرنے کی صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے کوئی اضافہ نہیں ہو پا رہا۔ معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کی گرفت معیشت پر موجود ہی نہیں ہے۔ خارجہ سیاست ہو یا داخلی معاملات ہوں، کیفیت یہ ہے کہ  ع

تن ہمہ داغ داغ شد ، پنبہ کجا کجا نہم

(سارا بدن زخموں سے داغ داغ ہوگیا ، پھایا کہاں کہاں رکھوں؟)

  •  ملک دشمن قوتوں کا ھدف : ان حالات میں عوام میں نہ صرف حکومتی کارکردگی پر عدمِ اطمینان بلکہ خود جمہوری عمل سے مایوسی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کچھ لوگ مایوس ہوکر تشدد اور خونی انقلاب کا راستہ اختیار کر رہے ہیں تو کچھ مایوس ہوکر ہاتھ پر ہاتھ دھرے کر بیٹھ گئے ہیں، حالانکہ یہ وقت قومی احتساب، نئی سوچ بچار، خطرات کے صحیح ادراک، اصلاح کی مثبت حکمت عملی کی تیاری اور اس پر قوم کو منظم اور متحرک کرنے کا ہے۔ یہ ملک اللہ تعالیٰ کا عطیہ ہے اور قوم کے ہاتھوں میں ایک عظیم امانت ہے۔ امریکا اور یورپ کے اداروں کی سوچ کا اگر احاطہ کیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ اس وقت ان کا اصل ہدف پاکستان بن گیا ہے اور اس کی بنیادی وجہ پاکستان کا اسلامی تشخص اور اس کی نیوکلیئر صلاحیت ہے۔ امریکا اس علاقے کے سیاسی نقشے کو تبدیل کرنے کے مذموم منصوبے پر عمل کر رہا ہے اور بھارت اور اسرائیل اس سلسلے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ کبھی ۲۰۱۵ء کی بات کی جاتی ہے اور کبھی ۲۰۲۰ء اور ۲۰۲۵ء کی لیکن سب کا ہدف پاکستان کے نقشے کو تبدیل کرکے، اس کی نیوکلیئر صلاحیت پر قبضہ کرنا ہے۔ افغانستان میں امریکا، بھارت اور خود موساد، اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔

ممبئی کا واقعہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اور پاکستان پر امریکا کے مسلسل حملے حالات کو ایک ایسے رُخ پر لے جانے کے لیے ہیں کہ ایک طرف اقوامِ عالم خاکم بدہن پاکستان کو ایک ناکام ریاست قرار دے کر یو این کے کسی پروانے کے سہارے ہمارے ایٹمی اثاثہ جات پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنائیں۔ دوسری طرف پاکستان کے تصور (image) کو میڈیا کے ذریعے اتنا خراب کردیا جائے کہ ملک تنہا ہوکر رہ جائے۔ کسی مذموم بین الاقوامی کارروائی کے لیے فضا سازگار ہوجائے۔ فوج کو ملک کے دفاع کی جگہ مغربی سرحدات پر ایک نہ جیتنے والی جنگ میں جھونک دیاگیا ہے اور اس دلدل سے فوج کے نکلنے کی ہرکوشش کو ناکام بنانے کی سعی کی جارہی ہے۔ قوم اور فوج کے درمیان اعتماد اور تعاون کا رشتہ ٹوٹ چکا ہے۔ اب اگر اسے دوبارہ بحال کرنے میں کوئی کوتاہی کی جاتی ہے تو یہ خودکشی سے کم نہیں ہوگا۔ فوج کی قیادت کو بھی آنکھیں کھولنی چاہییں۔ ایک طرف فوج کو اپنی ہی قوم کے خلاف ایک گندے کھیل  میں جھونک دیا گیا ہے تو دوسری طرف فوج اور آئی ایس آئی کو بڑے منظم طریقے سے ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے۔

اس سلسلے میں تازہ ترین کوشش وہ اہم کتاب ہے جو امریکا کے سی آئی اے کے سابق کارندوں کی روایات پر نیویارک ٹائمز کے ایک صحافی ڈیوڈ ای سنگر (David E. Sanger) نے The Inheritance: The World Obama Confronts کے نام سے شائع کی ہے۔ اس کا اصل ہدف پاکستانی فوج اور خصوصیت سے آئی ایس آئی ہے۔ دوسری طرف بھارت کی قیادت بھی ممبئی کے واقعے کے سلسلے میں کھل کر آئی ایس آئی کو ہدف بنائے ہوئے ہے۔

ان حالات میں پاکستانی عوام، سیاسی قیادت اور فوجی قیادت کو بڑی دانش مندی اور سمجھ داری سے معاملات کو طے کرنا ہوگا۔ اس کے بنیادی دائرے تین ہونے چاہییں:

۱- پاکستانی فوج کو دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ میں شرکت سے نکالنا اور اسے ان اصل اور حقیقی خطرات کے مقابلے کے لیے تیار اور مستعد رکھنا جو ملک کو درپیش ہیں۔

۲- بنگلہ دیش کے ماڈل پر فوج کے کسی ایسے کردار کے خلاف پیش بندی جس میں سیاسی حالات کے بگاڑ کا سہارا لے کر اسے دوبارہ سیاست میں ڈالنے کا کھیل کھیلا جائے۔ فوج کے سیاسی کردار نے فوج کے مزاج، تصور (image) اور کردار سب کو بُری طرح مجروح کیا ہے۔ یہ ملک اور فوج دونوں کے لیے تباہی کا راستہ ہے، اس لیے یہ دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہونا چاہیے۔

۳- ملک کے سلامتی کے لیے مثالی نمونے (paradigm) کی ازسرنو تشکیل کی جائے جس میں فوج کو حقیقی خطرات کا بھرپور مقابلہ کرنے کے لائق بنایا جائے اور اس کی تربیت اور پوری پلاننگ صرف اور صرف دفاعی ضرورتوں کے تحت ہو۔ فوج کو امریکا کی دخل اندازیوں سے بھی محفوظ کیا جائے۔ٹریننگ کے نام پر امریکا نے فوج میں اپنی لابی اور شراکت داری کا جو منصوبہ بنایا ہے، اسے بروقت روکا جائے۔

  •  قومی مفاھمت کی ضرورت: اس وقت جو نہایت مشکل اور گمبھیر حالات ملک کو درپیش ہیں، ملک کو ان سے نکالنے کے لیے صحیح راستہ تصادم کا نہیں بلکہ حقیقی قومی مفاہمت کا ہی ہوسکتا ہے۔ وہ مفاہمت نہیں جو کرپشن اور سیاسی اور معاشی جرائم سے گلوخلاصی کے لیے کی گئی ہے، بلکہ وہ مفاہمت جو اصولوں پر مبنی ہو اور جس کے ذریعے ملک کو حقیقی جمہوری راستے پر ڈالا جاسکے۔ اس کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات ضروری ہیں:

ا- ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کے مجرمانہ اقدام کو فی الفور کالعدم قرار دیا جائے اور عدلیہ کو اس کی ۳نومبروالی شکل میں اور اصل عدلیہ کے ۳ نومبر والے ۷ ججوں کے متفقہ فیصلے کی روشنی میں بحال کیا جائے۔

ب- جنرل پرویز مشرف کا احتساب ہو اور اسے دفاع کا پورا موقع دے کر دستور کی خلاف ورزیوں اور سیاسی جرائم کی قرار واقعی سزا دی جائے۔

ج- کُل جماعتی مشاورت کے ذریعے ایک حقیقی قومی مفاہمت کی فضا پیدا کی جائے اور تمام قومی عناصر کو ۱۹۷۳ء کے اصل دستور کی بنیاد پر ایک نئے قومی عمرانی معاہدے پر متفق کیا جائے جس میں دستور کی بحالی، پارلیمنٹ کی بالادستی اور اختیارات اور وسائل کی منصفانہ تقسیم پر اتفاق راے پیدا کیا جائے۔

د- امریکا کی ’دہشت گردی کی جنگ‘ سے اپنے کو الگ کیا جائے اور ملک کے لیے صحیح خطوط پر سلامتی کے مثالی نمونے کی تشکیل نو ہو۔

ر- ایک متعین مدت کے لیے قومی سطح پر عبوری انتظام ہو تاکہ اصل دستور اور اس قومی میثاق کی روشنی میں نئے انتخاب کے ذریعے عوام کو اپنی قیادت منتخب کرنے کا موقع دیا جائے۔

ھ- ملک کی معیشت کو خودانحصاری کی بنیاد پر ایک ہمہ جہت، حقیقت پسند اور مربوط معاشی پالیسی کے ذریعے مرتب اور منظم کرنے کا منصوبہ بنایا جائے۔ ملک کے اہل ترین ماہرینِ معاشیات کے مشوروں سے ایک ایسا معاشی پروگرام بنایا جائے جو قومی وسائل کو قومی مقاصد اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے بروے کار لاسکے۔

و- تمام سیاسی مسائل کو افہام و تفہیم، مذاکرات اور سیاسی طریق کار کے اصول کے مطابق سلجھانے کی کوشش کی جائے۔

ز- میڈیا کی آزادی کے ساتھ عوام کے حقوق کی پاس داری کو ریاستی پالیسی کا مرکزو محور بنایا جائے۔ عوام کو اعتماد میں لیا جائے اور مکمل شفافیت کے ساتھ ان کو پاکستان کے دفاع، تحفظ اور نظریاتی تشخص کی حفاظت کے لیے منظم کیا جائے۔

ک- ۱۲ اور ۱۶ مارچ کے پروگرام کو  پُرامن جمہوری انقلاب کا نقطۂ آغاز بنایا جائے تاکہ پاکستان کی سیاست کو صحیح رُخ پر ڈالا جاسکے اور ملک و قوم اس وقت جس بحران میں مبتلا ہیں، اس سے نجات حاصل کی جاسکے۔

یہ وقت قیادت ہی نہیں پوری قوم کے لیے امتحان کا وقت ہے۔ ہمارے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ بحیثیت قوم اس چیلنج سے نبردآزما ہونے کے لیے کمربستہ ہوجائیں۔

 

دہشت گردی کسی نہ کسی شکل میں انسانی تاریخ کے ہر دور میں موجود رہی ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قانون نافذ کرنے والوں نے اسے ہمیشہ ہی ایک جرم تصور کیا ہے۔ دہشت گردی کا ارتکاب کرنے والے اس کا جواز ظلم اور ریاستی قوت کے مجرمانہ استعمال کے مقابلے میں مزاحمت کے نام پر کرتے رہے ہیں، نیز اسے قوت کے عدم توازن کا توڑ کرنے والوں کے خلاف بجاطور پر ایک ہتھیار ایک حد تک تصور کیا جاتا رہا ہے اور بین الاقوامی قانون اور روایات میں اس کے گنجایش بھی نکالی جاتی رہی ہے، جب کہ حکومت کے اربابِ کار اسے جرم قرار دے کر اس کے مرتکبین کو قانون کے تحت سزا دینے کا راستہ اختیار کرتے رہے ہیں۔

۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے نیویارک اور واشنگٹن کے واقعات کے بعد امریکا نے دہشت گردی کو ایک جرم کے بجاے جنگ کا نام دیا اور اس کے خلاف دنیا بھر میں طبلِ جنگ بجانے کے ساتھ  ملکی قانون اور بین الاقوامی قانون دونوں کو یکسر نظرانداز کرکے عملاًافغانستان اور عراق پر فوج کشی کردی۔ دہشت گردی کے خلاف قانون سازی کا ایک سلسلہ تمام ہی مغربی ممالک میں بے دردی سے شروع ہوگیا اور محض شبہے کی بنیاد پر گرفتاریاں، ملک بدری، قانون نافذ کرنے والے   اداروں کے ہاتھوں لوگوں کا بے دریغ اغوا، تفتیش میں تعذیب، قانونی دفاع کے حق سے محرومی اور بین الاقوامی قانون کو یکسرنظرانداز کرتے ہوئے دوسرے ممالک کی حاکمیت اور آزادی کی پامالی، ’قومی مفادات کے تحفظ‘ کے نام پر فوج کشی، بم باری اور سرحدات کی بے دریغ خلاف ورزی کا راستہ اختیار کیا گیا۔

ہم نے اس ریاستی دہشت گردی پر پہلے دن ہی سے گرفت کی اور اس کے جواز میں دیے جانے والے دلائل کا توڑ کیا۔ مسلم ممالک کے اہلِ علم کی ایک نمایاں تعداد نے اس ریاستی دہشت گردی پر مضبوط دلائل کی بنیاد پر تنقید کی، لیکن امریکا اور یورپ کے انسانی حقوق کے علَم برداروں کی بڑی تعداد نے اس ظلم اور زیادتی پر خاموشی اختیار کی۔ البتہ امریکا کی نام نہاد جنگ جیسے جیسے   طویل ہوئی، اس کے خلاف آوازیں اٹھنے لگیں اور اسی ہفتے جنیوا میں’قانون دانوں کے عالمی کمیشن‘ کے آٹھ رکنی پینل نے ۱۵۰ صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ Assessing Damage Urging Action شائع کر دی ہے۔ اس پینل کی سربراہی آئرلینڈ کی سابق صدر اور اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کی ہائی کمشنر میری رابن سن (Marry Robinson) تھیں اور اس کے دوسرے شرکا میں دنیا کے کئی ماہرینِقانون اور سابق جج تھے۔ اس رپورٹ میں ان قوانین پر بھرپور گرفت کی گئی ہے جو دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں اور جن کی زد قانون اور بین الاقوامی قانون کے مسلّمہ اصولوں پر پڑ رہی ہے۔ رپورٹ میں دہشت گردی کو جنگ نہیں ایک جرم اور انسانیت کے لیے خطرہ قرار دیا گیا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بات بھی واضح کر دی ہے کہ دہشت گردی پر گرفت کے نام پر قانون اور بنیادی حقوق کے تحفظ کے مسلّمہ اصولوں سے انحراف کا کوئی جواز نہیں۔ اس سلسلے میں جوقانون سازی اور عملی اقدامات امریکا اور دوسرے ممالک نے کیے ہیں وہ قانون کے مسلّمہ اصولوں سے متصادم ہیں جن کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا۔ اس رپورٹ کے چند اہم اقتباسات اس لائق ہیں کہ ان کا دقتِ نظر سے مطالعہ کیا جائے اور دہشت گردی کے مقابلے کے نام پر قانون اور انصاف کے پورے نظام کو جس طرح تہہ و بالا کیا گیا ہے اس کی اصلاح کی جائے ورنہ انسانیت کے لیے یہ سودا بہت خسارے کا سودا ہوگا:

’دہشت گردی‘ ایک حقیقت ہے اور اس سے جو خطرات درپیش ہیں، ان کو خفیف سمجھنا ایک غلطی ہوگا۔ ان خطرات کا مقابلہ ریاستوں کا فرض ہے مگر دہشت گردی کی مخالفت کے نام پر کیے جانے والے موجودہ متعدد اقدامات نہ صرف غیرقانونی ہیں بلکہ ان کے  منفی نتائج رونما ہو رہے ہیں۔ پینل اس نتیجے تک پہنچا ہے کہ ان کے نتیجے میں انسانی حقوق کے قوانین کی بنیادوں کو جو نقصان پہنچا ہے وہ اندازے سے بہت زیادہ ہے۔

دہشت گردی مخالف قوانین، پالیسیوں اور طریقوں کا جائزہ لینے کی، اور جو نقصان ہوا اس کاتدارک کرنے کے لیے عالمی، علاقائی اور قومی سطحوں پر اقدامات کی فوری ضرورت ہے۔

پینل نے صاف لفظوں میں کہا ہے کہ:

نائن الیون سے پہلے جو قانونی فریم ورک موجود تھا وہ انتہائی مضبوط اور مؤثر ہے اور خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر اعتبار سے کافی ہے۔

پینل نے دوٹوک انداز میں امریکا اور دوسرے جمہوری ممالک پر سخت گرفت کی ہے کہ وہ قانون کے بنیادی اصولوں کو پامال کر کے ایک سنگین انسانی جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں:

  •   بہت سی ریاستیں خود اپنے معاہداتی اور روایتی قانون کے تقاضوں سے منحرف ہو رہی ہیں۔ اس طرح ایک خطرناک صورت پیدا ہوگئی ہے جس میں دہشت گردی اور دہشت گردی کے خوف نے عالمی حقوقِ انسانی کے بنیادی قانون (بشمول پہلے سے طے شدہ اصول جیساکہ ٹارچر، ظالمانہ اور غیرانسانی توہین آمیز سلوک، افراد کا اغوا اور غیرمنصفانہ مقدمات کی ممانعت) کو پامال کر دیا ہے۔
  •   لبرل جمہوری ریاستیں ماضی میں انسانی حقوق کے اصولوں کا دفاع کرتی رہی ہیں،  مگر اب وہ ان اصولوں کی خلاف ورزی کرکے عالمی قانون کو رفتہ رفتہ کمزور کر رہی ہیں۔ یہ حکومتیں دوسری حکومتوں کی ان کارروائیوں میں جوحقوق کی پامالی کا موجب ہیں یا شریک ہیں یا کم از کم خاموش رہ کر ان کی ساجھی بن رہی ہیں۔
  •   دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے فوج داری قانون ہی مقابلے کا اولین ذریعہ (primary vehicle) ہونا چاہیے۔ پینل کی تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ ریاستوں نے دہشت گردی کی دھمکیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مروجہ قوانین و ضوابط اور آزمودہ طریقوں سے احتراز کیا ہے، تاہم اگر ریاستوں کو عوام کو زندگی اور سلامتی کے تحفظ کی ذمہ داری ادا کرنا ہے، تو دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے مروجہ فوج داری عدالتی نظام ہی اولین فریم ورک ہونا چاہیے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ:

  •   نائن الیون کے بعد کے بہت سے قوانین اور پالیسیوں کو، مثلاً غیر معینہ مدت کے لیے بلامقدمہ حراست اور فوجی عدالتوں وغیرہ کو بے دریغ استعمال کیا جارہا ہے حالانکہ ان کو ماضی میں بھی آزمایا گیا ہے اور یہ اکثر و بیش تر ناکام رہے ہیں۔ ’غیرمعمولی خطرے‘ کی وجہ سے ریاستوں کو تاریخی مثالوں سے سبق سیکھنے کی طرف سے آنکھیں بند نہیں کرلینا چاہیے۔ مثال کے طور پر یہ نہایت ضروری ہے کہ ایک آزاد سویلین عدلیہ برقرار رکھی جائے جو دہشت گردی کے خلاف اقدامات پر جواب دہی کو یقینی بنائے۔ جن اقدامات کو عارضی کہا جاتا ہے وہ بالآخر مستقل ہوجاتے ہیں اور دہشت گردی کے وسیع تر تصورات کا ان کے بیان کردہ مقاصد سے بہت آگے بڑھ کر اطلاق کیا جاتا ہے۔
  •   ریاستوں نے احتیاطی تدابیر، مثلاً ملک بدری، پابندیوں کے احکامات، دہشت گرد افراد اور تنظیموں کی فہرست پر اپنا انحصار بڑھا دیا ہے۔ پینل کو تشویش ہے کہ غیرمصدقہ شواہد اور ناقص خفیہ معلومات کو افراد اور تنظیموں کے خلاف اقدام کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے جس کے بڑے تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ نیز پینل کو اس نوعیت کے اقدامات کے خلاف مؤثر اپیل کا مناسب طریقہ فراہم نہ ہونے پر بھی تشویش ہے۔
  •   پوری دنیا میں خفیہ ایجنسیوں نے نئے اختیارات اور وسائل حاصل کرلیے ہیں لیکن اس کے ساتھ قانونی اور سیاسی جواب دہی کا جو اہتمام ضروری ہے وہ مفقود ہے۔ پینل اس نتیجے تک پہنچا ہے کہ قابلِ اعتماد خفیہ معلومات ضروری ہیں لیکن جواب دہی بھی ضروری ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ عالمی خفیہ اداروں کے باہمی تعاون کے لیے واضح پالیسیاں اور طریق کار طے کیے جائیں۔
  •   بہت سی ریاستوں میں مشتبہ دہشت گردوں کی حراست اور تفتیش پر رازداری کا پردہ پڑا ہوا ہے جس سے ٹارچر ، ظالمانہ ،غیر انسانی اور توہین آمیز طریقوں کو راستہ ملتا ہے، جب کہ ایسی خلاف ورزیوں پر سزا کا خوف بھی نہ ہو۔ عدالتوںاور وکلا تک تیزرفتار اور مؤثر رسائی ممکن بنائی جانی چاہیے تاکہ اس قسم کی قانونی خلاف ورزیوں سے نجات مل سکے۔

رپورٹ کا سب سے اہم حصہ وہ ہے جس میں امریکا پر بھرپور گرفت کی گئی ہے اور  دہشت گردی کے لیے جنگ (war) کے مثالیے کے استعمال کو مؤثر الفاظ میں رد کیا گیا ہے۔

  •   امریکا کی قیادت میں وار آن ٹیرر نے عالمی انسانی حقوق کے بنیادی اصولوں کو اور انسان دوست قانون (Humanitarian Law) کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ امریکا کو استحصال پر مبنی قوانین، پالیسیوں اور طریقوں کو جو دہشت گردی کے خلاف جنگ سے وابستہ ہیں، واضح طور پر مسترد کرنا چاہیے۔ ماضی کی خلاف ورزیوں پر ایک شفاف اور جامع تحقیقات کروانا چاہیے اور متاثرہ افراد کو مناسب تلافی دینا چاہیے۔ دیگر ریاستوں کو بھی، خاص طور پر ان کو جو اِن خلاف ورزیوں میں مجرمانہ طور پر شریک ہیں، جنگ کے اس طرح کے تصور کو مسترد کرنا چاہیے۔

جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔ اس رپورٹ میں امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا پول پوری طرح کھول دیا گیا ہے اور دنیا کی تمام جمہوریت پسند اور انسانی حقوق کی پاس داری کرنے والی حکومتوں اور افراد کے لیے اس کا پیغام یہ ہے کہ دنیا کو ریاستی دہشت گردی کی اس جنگ سے نجات دلانے کے لیے مؤثر جدوجہد کریں اور ان انسانی اقدار کے تحفظ کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں، تاکہ انسانیت نے جو کچھ صدیوں کی جدوجہد کے بعد حاصل کیا ہے وہ امریکا کی اس سامراجی جنگ کے نتیجے میں پامال نہ ہو جائے۔

اس رپورٹ کی روشنی میں پاکستان کو امریکا کی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کے بارے میں اپنی پالیسی پر فوری طور پر نظرثانی کرنا چاہیے۔ پارلیمنٹ کی مشترکہ قرارداد میں بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی جو آمریت کے دور میں راہِ اعتدال اور حق و انصاف کے اصولوں سے دُور ہٹ گئی تھی، اس کی تبدیلی وقت کی اولین ضرورت ہے۔

اس رپورٹ سے پارلیمنٹ کے اس موقف کو مزید تقویت ملی ہے اور اس امر کی ضرورت ہے کہ خارجہ پالیسی کو امریکا کی غلامی سے آزاد کیا جائے اور پاکستان کی خارجہ اور داخلہ پالیسیاں  حق و انصاف پر مبنی ہوں اور ان کا ہدف پاکستان کے مفاد کا تحفظ ہو، امریکا کی کاسہ لیسی نہیں۔

 

اے لوگو! جن کو محمدؐ رسول اللہ کی بدولت راہِ راست نصیب ہوئی ہے، تم ان کی قدر پہچانو اور ان کے احسانِ عظیم کا حق ادا کرو۔ تم جہالت کی تاریکیوں میں بھٹک رہے تھے، اس شخص نے تمھیں علم کی روشنی دی۔ تم اخلاق کی پستیوں میں گرے ہوئے تھے، اس شخص نے تمھیں اٹھایا اور اس قابل بنایا کہ آج محسود خلائق بنے ہوئے ہو۔ تم وحشت اور حیوانیت میں مبتلا تھے، اس شخص نے تم کو بہترین انسانی تہذیب سے آراستہ کیا۔ کفر کی دنیا اسی لیے اس شخص پر خار کھا رہی ہے کہ اس نے یہ احسانات تم پرکیے، ورنہ اس نے کسی کے ساتھ ذاتی طور پر کوئی برائی نہ کی تھی۔ اس لیے اب تمھاری احسان شناسی کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ جتنا بُغض وہ اس خیرمجسم کے خلاف رکھتے ہیں اسی قدر بلکہ اس سے زیادہ محبت تم اس سے رکھو، جتنی وہ اس سے نفرت کرتے ہیں، اتنے ہی بلکہ اس سے زیادہ تم اس کے گرویدہ ہوجائو، جتنی وہ اس کی مذمت کرتے ہیں، اتنی ہی بلکہ اس سے زیادہ  تم اس کی تعریف کرو، جتنے وہ اس کے بدخواہ ہیں اتنے ہی بلکہ اس سے زیادہ تم اس کے خیرخواہ بنو اور اس کے حق میں وہی دعا کرو جو اللہ کے فرشتے شب و روز اس کے لیے کر رہے ہیں کہ اے  ربِّ دوجہاں! جس طرح تیرے نبیؐ نے ہم پر بے پایاں احسانات فرمائے ہیں، تو بھی ان پر   بے حدوبے حساب رحمت فرما، ان کا مرتبہ دنیا میں بھی سب سے بلند کر اور آخرت میں بھی انھیں تمام مقربین سے بڑھ کر تقرب عطا فرما۔(جلد ۴، حاشیہ ۱۰۷، صفحہ ۱۲۴)


اِس جامع فقرے [مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمھارے درمیان انصاف کروں] کے کئی مطلب ہیں:

ایک مطلب یہ ہے کہ میں ان ساری گروہ بندیوں سے الگ رہ کر بے لاگ انصاف پسندی اختیار کرنے پر مامور ہوں۔ میرا کام یہ نہیں ہے کہ کسی گروہ کے حق میں اور کسی کے خلاف تعصب برتوں، میرا سب انسانوں سے یکساں تعلق ہے، اوروہ ہے سراسر عدل وانصاف کا تعلق۔ جس کی جو بات حق ہے، میں اس کا ساتھی ہوں، خواہ وہ غیروں کا غیر ہی کیوں نہ ہو۔ اور جس کی جو بات حق کے خلاف ہے میں اس کا مخالف ہوں، خواہ وہ میرا قریب ترین رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔

دوسرا مطلب یہ ہے کہ میں جس حق کو تمھارے سامنے پیش کرنے پر مامور ہوں اس میں کسی کے لیے بھی کوئی امتیاز نہیں ہے، بلکہ وہ سب کے لیے یکساں ہے۔ اس میں اپنے اور غیر، بڑے اور چھوٹے، غریب اور امیر، شریف اورکمین کے لیے الگ الگ حقوق نہیں ہیں، بلکہ جو کچھ ہے وہ سب کے لیے حق ہے، جو گناہ ہے وہ سب کے لیے گناہ ہے، جو حرام ہے وہ سب کے لیے حرام ہے اور جو جرم ہے، وہ سب کے لیے جرم ہے، اِس بے لاگ ضابطے میں میری اپنی دانست کے لیے بھی کوئی استثنا نہیں۔

تیسرا مطلب یہ ہے کہ میں دنیا میں عدل قائم کرنے پر مجبور ہوں۔ میرے سپرد یہ کام کیا گیا ہے کہ میں لوگوں کے درمیان انصاف کروں، اور اُن بے اعتدالیوں اور بے انصافیوں کا خاتمہ کروں جوتمھاری زندگیوں میں اور تمھارے معاشرے میں پائی جاتی ہیں۔

ان تین مطالب کے علاوہ اس فقرے کا ایک چوتھا مطلب بھی ہے جو مکہ معظمہ میں نہ کھلا تھا مگر ہجرت کے بعد کھل گیا اور وہ یہ ہے کہ میں خدا کا مقرر کیا ہوا قاضی اور جج ہوں، تمھارے درمیان انصاف کرنا میری ذمہ داری ہے۔(ج ۴، ح ۲۸، ص ۴۹۵-۴۹۶)


جس سیاق و سباق میں یہ آیت (لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ) ارشاد ہوئی ہے، اس کے لحاظ سے رسولِؐ پاک کے طرزِعمل کو اس جگہ نمونے کے طور پر پیش کرنے سے مقصود اُن لوگوں کو سبق دینا تھا جنھوں نے جنگ ِ احزاب کے موقع پر مفاد پرستی و عافیت کوشی سے کام لیا تھا۔ اُن سے فرمایا جا رہا ہے کہ تم ایمان و اسلام اور اتباعِ رسولؐ کے مدعی تھے۔ تم کو دیکھنا چاہیے تھا کہ جس رسولؐ کے پیرووں میں تم شامل ہوئے ہو اُس کااس موقع پر کیا رویّہ تھا۔ اگر کسی گروہ کا لیڈر خود عافیت کوش ہو، خود آرام طلب ہو، خود اپنے ذاتی مفاد کی حفاظت کو مقدّم رکھتا ہو، خطرے کے وقت خود بھاگ نکلنے کی تیاریاں کر رہا ہو، پھر تو اس کے پیرووں کی طرف سے اِن کمزوریوں کااظہارمعقول ہوسکتا ہے مگر یہاں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حال یہ تھا کہ ہرمشقت جس کا آپؐ نے دوسروں سے مطالبہ کیا، اسے برداشت کرنے میں آپؐ خود سب کے ساتھ شریک تھے، بلکہ دوسروں سے بڑھ کر ہی آپؐ نے حصہ لیا۔ کوئی تکلیف ایسی نہ تھی جو دوسروں نے اٹھائی ہو اور آپؐ نے نہ اٹھائی ہو۔ خندق کھودنے والوں میں آپؐ خود شامل تھے۔ بھوک اور سردی کی تکلیفیں اٹھانے میں ایک ادنیٰ مسلمان کے ساتھ آپؐ کا حصہ بالکل برابر کا تھا۔ محاصرے کے دوران میں آپؐ ہر وقت محاذِ جنگ پر موجود رہے اور ایک لمحے کے لیے بھی دشمن کے مقابلے سے نہ ہٹے۔   بنی قریظہ کی غداری کے بعد جس خطرے میں سب مسلمانوں کے بال بچے مبتلا تھے اسی میں آپؐ کے بال بچے بھی مبتلا تھے۔ آپؐ نے اپنی حفاظت اور اپنے بال بچوں کی حفاظت کے لیے کوئی خاص اہتمام نہ کیا جو دوسرے مسلمانوںکے لیے نہ ہو۔ جس مقصدِعظیم کے لیے آپؐ دوسروں سے قربانیوں کا مطالبہ کررہے تھے اُس پر سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر آپؐ خود اپنا سب کچھ قربان کردینے کو تیار تھے۔ اس لیے جو کوئی بھی آپؐ کے اتباع کا مدعی تھا، اسے یہ نمونہ دیکھ کر اس کی پیروی کرنی چاہیے تھی۔

یہ تو موقع و محل کے لحاظ سے اس آیت کا مفہوم ہے مگر اس کے الفاظ عام ہیں اور اس کے منشا کو صرف اسی معنی تک محدود رکھنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ صرف اسی لحاظ سے اُس کے رسولؐ کی زندگی مسلمانوں کے لیے نمونہ ہے، بلکہ مطلقاً اسے نمونہ قرار دیا ہے۔ لہٰذا اس آیت کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان ہرمعاملے میں آپؐ کی زندگی کو اپنے لیے نمونے کی زندگی سمجھیں اور اس کے مطابق اپنی سیرت و کردار کو ڈھالیں۔(ج ۴، ح ۳۴، ص ۸۰-۸۱)


شیطان کو سخت تشویش لاحق ہوتی ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ حق و باطل کی جنگ میں کمینگی کا مقابلہ شرافت کے ساتھ اور بدی کا مقابلہ نیکی کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ کسی طرح ایک ہی مرتبہ سہی، حق کے لیے لڑنے والوں، اور خصوصاً اُن کے سربرآوردہ لوگوں، اور سب سے بڑھ کر اُن کے رہنما سے کوئی ایسی غلطی کرا دے جس کی بنا پر عامۃ الناس سے یہ کہا جاسکے کہ دیکھیے صاحب، برائی یک طرفہ نہیں ہے، ایک طرف سے اگر گھٹیا حرکتیں کی جارہی ہیں تو دوسری طرف کے لوگ بھی کچھ بہت اُونچے درجے کے انسان نہیں ہیں، فلاں رکیک حرکت تو آخر انھوں نے بھی کی ہے۔ عامۃ الناس میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ ٹھیک انصاف کے ساتھ ایک طرف کی زیادتیوں اور دوسری طرف کی جوابی کارروائی کے درمیان موازنہ کرسکیں۔ وہ جب تک یہ دیکھتے رہتے ہیں کہ مخالفین ہرطرح کی ذلیل حرکتیں کر رہے ہیں، مگر یہ لوگ شائستگی و شرافت اور نیکی و راست بازی کے راستے سے ذرا نہیں ہٹتے، اُس وقت تک وہ ان کا گہرا اثر قبول کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اگر کہیں ان کی طرف سے کوئی بے جا حرکت، یا ان کے مرتبے سے گری ہوئی حرکت سرزد ہوجائے، خواہ وہ کسی بڑی زیادتی کے جواب ہی میں کیوں نہ ہو، تو ان کی نگاہ میں دونوں برابر ہوجاتے ہیں، اور مخالفین کو بھی ایک سخت بات کا جواب ہزار گالیوں سے دینے کا بہانہ مل جاتا ہے...

اس مقام کی بہترین تفسیر وہ واقعہ ہے جو امام احمد نے اپنی مسند میں حضرت ابوہریرہؓ سے نقل کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کو بے تحاشا گالیاں دینے لگا۔ حضرت ابوبکرؓ خاموشی کے ساتھ اس کی گالیاں سنتے رہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم انھیں دیکھ کر مسکراتے رہے۔ آخرکار جناب صدیقؓ کا پیمانۂ صبر لبریز ہوگیا اور انھوں نے بھی جواب میں اسے ایک سخت بات کہہ دی۔ اُن کی زبان سے وہ بات نکلتے ہی حضوؐر پر شدید انقباض طاری ہوا جو چہرئہ مبارک پر نمایاں ہونے لگا اور آپؐ فوراً اُٹھ کر تشریف لے گئے۔ حضرت ابوبکرؓ بھی اُٹھ کر آپؐکے پیچھے ہولیے اور راستے میں عرض کیا کہ یہ کیا ماجرا ہے، وہ مجھے گالیاں دیتا رہا اور آپؐ خاموش مسکراتے رہے، مگر جب میں نے اسے جواب دیا تو آپؐ ناراض ہوگئے؟ فرمایا: ’’جب تک تم خاموش تھے، ایک فرشتہ تمھارے ساتھ رہا اور تمھاری طرف سے اس کو جواب دیتا رہا، مگر جب تم بول پڑے تو فرشتے کی جگہ شیطان آگیا۔ میں شیطان کے ساتھ تو نہیں  بیٹھ سکتا تھا‘‘۔ (ج ۴، ح ۴۰،ص ۴۵۹)


 

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اَلرَّحْمٰنُ o عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ (الرحمٰن ۵۵:۱-۲) نہایت مہربان (خدا) نے اس قرآن کی تعلیم دی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے جب اپنے تعارف کی تجدید چاہی تو بجاے اپنی کسی اور صفت ِ حسنہ کے صفت ِ رحمت کو تعارف کا حوالہ بنایا۔ میں نے تجدید ان معنوں میں کہا کہ پہلا تعارف  تو عالمِ اَرواح میں اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ ط (الاعراف ۷:۱۷۲) کہہ کر کرایا تھا جس کا جواب انسانوں نے بَلٰی کہہ کر دیا تھا کہ ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں۔ پھر سیدنا حضرت آدم ؑ سے لے کر سیدنا حضرت عیسٰی ؑتک جتنے انبیا و رسل آئے سب نے اُس کا تعارف خالق و مالک اور دیگر صفات کے حوالے سے کرایا لیکن انبیا و رسل کے دنیا سے جانے کے بعد شیطان نے دیگر عقائد کی طرح  اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کے بارے میں بھی بگاڑ پیدا کردیا۔ بطورِ خاص یہودیوں نے باری تعالیٰ کو صرف جبار، قہار، منتقم اور حد یہ ہے کہ حاسد ہستی کے طور پر متعارف کرایا کہ اس نے بنی اسرائیل کی عظیم الشان ریاستوں کو بربناے حسد صفحۂ ہستی سے مٹا دیا۔ درآں حالے کہ اُن ظالمانہ ریاستوں کو مٹاکر اپنے بندوں کو ان کے ظلم و جور سے نجات دلانا عنوانِ رحمت ہی تھا۔

اب ذرا اس پر غور فرمایئے کہ باری تعالیٰ نے اپنا تعارف قرآنِ کریم کی ابتدا ہی میں رحمن اور رحیم کے الفاظ سے کرایا تو اس کی حکمت کیا تھی؟

حکمت یہ تھی کہ ایک طرف تو یہودیوں کے اس تصور کی نفی کی جائے کہ اللہ تعالیٰ ظالم ہے۔ دوسرے یہ کہ بندوں کو اپنی بے پناہ محبت کا شعور و ادراک عطا کیا جائے۔ رحمن و رحیم کی اصل دیکھیے تو دونوں الفاظ ’رحم‘ سے بنے ہیں جس کے معنی خواتین کے جسم کا وہ حصہ ہے جسے بطن کہا جاتا ہے اور جہاں بچے کا وجود تشکیل پاتا ہے ۔ اس حوالے سے رحمت کے معنی اس محبت کے ہوتے ہیں جو ایک ماں کو اپنے پیٹ کی اولاد سے ہوتی ہے جسے مامتا کہا جاتا ہے۔ کیوں کہ انسان کے علم اور تجربے میں ماں کے جذبۂ محبت سے بڑھ کر کسی اور محبت کا جذبہ نہیں تھا، اس لیے اللہ تبارک تعالیٰ نے اسی جذبے کو اپنی محبت کا حوالہ بنایا۔

رحمن و رحیم کے الفاظ کے معنی.ٰ کی تفصیل میں جایئے تو معلوم ہوگا کہ دونوں الفاظ تفضیلِ کُل (superlative) سے بھی آگے کے صیغے، یعنی مبالغے کے صیغے میں ہیں۔ اس صیغے کے الفاظ  کسی شے کی ناقابلِ تصور بہتات کے معنی دیتے ہیں جیسے اُردو میں استعمال ہونے والے الفاظ طوفان اور ہیجان ہیں۔ گویا ان الفاظ کے معنی.ٰ ہوئے ہزاروں مائوں کی محبت سے بڑھ کر محبت کرنے والی ذات۔

مفسرین نے ایک ہی مادے سے بننے والے ان دو الفاظ کی ایک توجیہہ تو یہ کی ہے کہ گو دونوں صفاتی الفاظ مبالغے کے صیغے میں ہیں لیکن ان میں سے ایک، یعنی رحمن کا لفظ رحمت کی فراوانی کا ترجمان ہوتے ہوئے بھی کماحقہٗ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا تصور پیش کرنے سے قاصر تھا۔ اس لیے اس تصور کو مزید واضح کرنے کے لیے اس کا مترادف لفظ رحیم لایا گیا۔ دوسری تشریح یہ ہے کہ صفت ِ رحمانی رحمت کی عمومیت اور صفت ِ رحیمی رحمت کی خصوصیت کو ظاہر کرتی ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ رحمن الدنیا ہے جو اپنی مخلوق کو بلاکسی تمیز کے اپنی نعمتوں سے نوازتا ہے، اور رحیم الآخرت ہے کہ اپنے ارشاد: لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ (ابراھیم ۱۴:۷) کے مطابق آخرت میں اپنے شکرگزار بندوں کو اُن نعمتوں سے نوازے گا جن کا قرآن اور حدیث کے مطابق ذہنِ انسانی تصور تک نہیں کرسکتا۔

اللہ تعالیٰ کی شانِ رحمن والی نعمتوں کا شمار کرنا چاہیں تو وہ شمار میں نہ آسکیں گی:

وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَا ط (ابراھیم ۱۴:۳۴) اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو نہیں کرسکتے۔

یہ سماعت، یہ بصارت، یہ ماں کی مامتا، اور باپ کی شفقت، یہ زمین پر ملنے والی لاتعداد سبزیاں اور طرح طرح کے خوش ذائقہ پھل، یہ ہوا اور پانی، یہ نعمتیں بے حساب بھی ہیں اور بے بدل بھی۔ کسی ایک نعمت کی افادیت کا شعور حاصل کرنا ہو تو اُسے روز مرہ کی زندگی سے خارج کرکے زندگی کا نقشہ بنایئے تو زندگی معدوم ہوتی نظر آئے گی۔ اب آیئے اس تناظر میں تلاوت شدہ  آیت ِ مبارک، یعنی اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ کا جائزہ لیں۔

اللہ تعالیٰ بجا طور پر اپنی کسی بھی نعمت کو اپنے رحمن ہونے کی دلیل بنا سکتا تھا لیکن اُس نے نزولِ قرآن کو ان معنی.ٰ  میں اپنی صفت ِ رحمانی کی دلیل بنایا ہے کہ نعمت ِ ہدایت کی یہ تکمیلی شکل وہ بنیادی نعمت ہے جو جملہ نعمتوں سے استفادے کا طریقہ سکھلاتی ہے اور جو نعمت قرآن کے بتلائے ہوئے طریقے سے ہٹ کر استعمال کی جائے، وہ نعمت، نعمت نہیں رہتی بلکہ انسان کے اپنے اور دوسروں کے لیے زحمت اور سبب ِ ہلاکت بن جاتی ہے۔ قرآنی ہدایت کے مطابق اُسے استعمال میں لایا جائے تو نہ صرف یہ کہ اُس کے فوائد حاصل ہوتے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق نعمتوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اس میں یہ بات بھی مضمر ہے کہ ایسا کرنے والے بندے شکرگزار قرار پائیں گے اور اپنی شکرگزاری کے صلے میں اس دنیا کی نعمتوں میں اضافے کے ساتھ دوسری دنیا کی بے مثال اور لازوال نعمتوں کے بھی مستحق قرار پائیں گے۔

آیئے دیکھتے ہیں کہ شکرِ نعمت کے تقاضے کیا ہیں جن کی تکمیل پر انسان ازدادِ نعمت کا سزاوار ٹھیرتا ہے۔ شکرِنعمت کے تین اہم تقاضے یہ ہیں:

اوّل یہ کہ انسان کو نعمت کی افادیت اور اہمیت کا شعور و ادراک حاصل ہو کیونکہ ادراک کے بغیر وہ نہ اس نعمت کی قدر کرے گا اور نہ اُس سے فائدہ اٹھا سکے گا۔ مثال کے طور پر ایک پاگل شخص کی جیب میں اگر آپ ہزار روپے کا نوٹ بھی ڈال دیں تو اُس کی قدر کے عدم شعور کی بنا پر وہ اس کے لیے بے کار شے ہوگا اور ممکن ہے وہ اُسے پھاڑ کر پھینک دے اور اس طرح وہ نعمت ضائع ہوجائے۔

دوم یہ کہ نعمت کے مفید ہونے کے شعور کے مطابق اس نعمت کو عملاً استعمال بھی کیا جائے ورنہ محض شعور کسی کام نہیں آئے گا، مثلاً وہ نوٹ کسی کنجوس شخص کی جیب میں بھی عدم استعمال کے نتیجے میں بے کار ہی رہے گا اور یہ بھی کفرانِ نعمت کی ایک شکل ہوگی۔

سوم یہ کہ اُس نعمت کے فوائد میں دوسرے لوگوں کو بھی شریک کرلیا جائے۔

آیئے اب اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں میں سے ایک نعمت پانی کو لیتے ہیں۔ پانی کے  بے مثل نعمت ہونے کا واضح ثبوت یہ ہے کہ قرآن کے مطابق ہرشے کی تخلیق پانی ہی کی مرہونِ منت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَـآئِ کُلَّ شَیْئٍ حَیٍّ ط (الانبیا ۲۱:۳۰) ۔گویا جہاں پانی مفقود ہے، زندگی بھی مفقود ہے۔

اس کی افادیت کے پورے شعور کے لیے ذرا تفصیل سے غور کیجیے کہ اوّلاً تو اس مائع کی تشکیل جن دو گیسوں کے ایک خاص تناسب یعنی H2O سے ہوئی ہے، اُن میں H ہائیڈروجن   یعنی جلنے والی اور O یعنی آکسیجن بھڑکانے والی گیس ہے۔ یہ قدرت خداوندی کا معجزہ نہیں تو کیا  ہے کہ H2O شعلہ نہیں شبنم ہے۔ پھر اس لازمۂ حیات کی انسانوں کو فراہمی پر غور کیجیے تو اسے قدرتِ خداوندی نے اس کثیرمقدار میں مہیا کردیا ہے کہ زمین پر پانی کا رقبہ تین چوتھائی اور خشکی کا ایک چوتھائی ہے، چنانچہ کوئی سرمایہ دار اجارہ داری کے ذریعے اس سے غریبوں کو محروم نہیں کرسکتا۔ پھر سمندر کے پانی کو نمکین بنا دیا گیا کہ آبی مخلوق کے گلنے سڑنے سے پیدا ہونے والے زہریلے جراثیم اس نمک سے مرجائیں۔ پھر اس حیرت انگیز حقیقت پر بھی غور کیجیے کہ دنیا کی ہرمادی شے  گرمی سے پھیلتی اور سردی سے سکڑتی ہے لیکن پانی ۴ ڈگری درجۂ حرارت پر پھیل کر اپنا حجم بڑھاتا اور رقیق حالت سے ہلکا ہوکر پانی کے ذخائر پر ڈھکنا بن کر اُنھیں جمنے سے بچاتا ہے تاکہ ایک طرف آبی مخلوق جم کر ختم ہونے سے بچ جائے اور دوسری طرف انسانوں، حیوانوں اور نباتات کو پانی ملتا رہے۔

آگے چلیے، اگر سمندر کے کھارے پانی کو میٹھا کرنے کے لیے نمک جدا کرنے کے پلانٹ لگانے پڑتے تو ساری دنیا کی دولت بھی مطلوبہ مقدار میں کھاری پانی کو میٹھا کرنے پر خرچ ہوجاتی، پھر بھی صرف دولت مند ہی پانی پی کر زندہ رہتے۔ شانِ رحمن دیکھیے کہ سورج اور زمین کا متعینہ فاصلہ رکھ کر اور زمین کو گردش میں لاکر عملِ تبخیر کے ذریعے کڑوے پانی کو میٹھا اور عملِ تقطیر کے ذریعے سمندری کثافتوں سے پاک کردیا۔ کیا یہ کام انسان کے بس کا تھا___ اور آگے چلیے   اور یہ کرشمہ قدرت بھی دیکھیے کہ پانی جیسی بھاری چیز کو کہ جس کی ایک بالٹی باورچی خانے سے  غسل خانے تک لے جانا دُوبھر ہوتا ہے، ہوا جیسی ہلکی چیز کے دوش پر رکھ کر پورے کرئہ ارض تک آب رسانی (water supply) کا نظام قائم کردیا۔ بصورتِ دیگر سمندر سے ہزاروں میل کے فاصلے پر پانی پہنچانا ناممکنات میں سے تھا۔ نیز اگر فراہمیٔ آب یعنی بارش کے نظام کے ساتھ سطح زمین پر مسام نہ ہوتے اور زمین کے مرکز میں کھولتے ہوئے لاوے کے اُوپر پانی کے ذخائر جیسے قدرتی زیرزمین سقاوے (underground tank) نہ بنے ہوتے تو موسلادھار بارش سیلاب بن کر بستیوں کو غرق کردیتی۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے پانی بھی نپے تلے انداز میں برستا اور ذخیرہ ہوجاتا ہے، وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآئِ مَـآئًم بِقَدَرٍ فَاَسْکَنّٰہُ فِی الْاَرْضِق (المؤمنون ۲۳:۱۸) (اور ہم نے آسمان سے پانی برسایا پھر اُسے زمین میں ٹھیرایا)، اور بستیوں کی ہلاکت کے بجاے آبادی اور زرخیزی کا سبب بنتا ہے۔

پھر اگر پانی زراعت اور دیگر ضروریات کے لیے زیادہ مقدار میں درکار ہو تو بالاے بام ذخائر یعنی پہاڑوں کی پگھلی ہوئی برف سے جاری ہونے والے دریائوں کا پانی موجود ہے۔ وہاں اِسے رقیق رہنے کی صورت میں رُکے ہونے کی وجہ سے سڑنے اور زہریلا ہونے سے بچانے کے لیے برفانے کا انتظام کردیا گیا۔ پھر دیکھیے وہ سورج جو پانی کو بھاپ بناکر پہاڑوں پر لے جاتا ہے وہی اُسے بقاے حیات کی ضمانت بناکر واپس وادیوں اور میدانوں میں لے آتا ہے اور زائد پانی کو دوبارہ مستقل ذخیرۂ آب یعنی سمندر میں لا ڈالتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت کی تشکیل، تدوین، تقطیر، ترسیل اور حیاتِ آفرینی کا ادراک انسان کو حیرت انگیز تشکر سے آشنا کردیتا ہے لیکن اس ادراک کے نتیجے میں اگر اس کا استعمال خدا اور رسولؐ کے بتائے ہوئے عادلانہ نظام کے تحت نہ ہو تو پانی چوری کے نتیجے میں یہ حیات آفریں عنصر ہلاکت آفریں بن جاتا ہے اور دنیا کا بہترین نہری نظام ہونے کے باوجود اور پانی کی فراوانی کے باوجود ایک طرف ہم پاکستانی غذائی قلت کا شکار ہیں، دوسری طرف کثیرالمقاصد ڈیم متنازع مسئلہ بن کر  رہ جاتے ہیں اور ہمیں توانائی کے بحران کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

آخر میں اِسی پانی کی نعمت کے حوالے سے ایک تاریخی واقعہ بیان کر کے اپنی گفتگو ختم کروں گا۔

ذرا چشمِ تصور وا کر کے دیکھیے کہ سرزمینِ عرب پر صحرا میں ایک چشمہ رواں ہے۔ دو مسافر تشنگی دُور کرنے اس کی جانب آرہے ہیں، ایک ذرا آگے اور دوسرا تھوڑا پیچھے۔ پہلے پہنچنے والا فرد کنارے پر بیٹھ کر پیاس بجھانا چاہتا ہے لیکن قبل اس سے کہ پانی کا چُلّو ہونٹوں تک پہنچے، عقب میں آنے والا شخص تلوار نکال کر اس کا سر قلم کردیتا ہے کہ وہ بڑے قبیلے کا فرد تھا اس سے پہلے چشمے سے کسی کا پانی پی لینا اُس کی توہین تھی، جس کی سزا موت تھی۔ پھر مقتول کے قبیلے نے قاتل کو قتل کیا اور پھر دونوں قبیلوں اور ان کے حلیفوں کی جنگ پورے ۴۰ سال جاری رہی۔ تلواروں نے سیکڑوں افراد کا خون پیا اور اس چشمے کا ایک چُلّو کسی کا حلق تر نہ کرسکا۔ وجہ تھی نعمت ِ ہدایت سے محرومی۔ اُس کے نتیجے میں منافیِ شکر رویہ، خدا سے بیگانگی، تکبر اور زعمِ خدائی___ بن گئی نا حیات آفریں نعمت ہلاکت خیز مصیبت۔

جب سرزمینِ عرب کو نسخۂ ترکیب استعمال یعنی قرآن عظیم الشان اور بُرہانِ رحمانی میسر آیا تو چشمِ فلک نے اس کے برعکس ایک ایسا منظر دیکھا کہ حیرت سے دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی۔ آپ بھی چشمِ تصور سے وہ ایمان افروز منظر دیکھیے کہ اُسی سرزمینِ عرب پر میدانِ جنگ میں تین زخمی مجاہد حالت ِ نزع میں ہیں۔ اس حالت میں ایک زخمی کی نحیف سی آواز اُبھرتی ہے: العطش (پانی) چچازاد بھائی دوڑ کر پانی کا برتن منہ سے لگایا چاہتا ہے کہ دوسرے مجاہد کی نحیف تر آواز پہلے کے کان میں پڑتی ہے: العطش، پہلا مجاہد منہ بند کر کے، ہاں اُس نزع کی کیفیت میں کہ شاید انسان کی سمندر پی کر بھی پیاس نہ بجھے، دوسرے مجاہد کی طرف اشارہ کردیتا ہے۔ پھر دوسرے کے ساتھ بھی یہی معاملہ پیش آتا ہے، کہ اس کے کان میں تیسرے کی آواز آتی ہے: العطش! اُسے بھی اپنی جان سے زیادہ اپنے ساتھی مسلمان کی زندگی اور تسکین عزیز ہے۔ وہ بھی اس نعمت ِگراں مایہ کو تیسرے تک پہنچانے کا اشارہ کرتا ہے۔ پانی پلانے والا تیسرے مجاہد کی جانب تیزی سے بڑھتا ہے    لیکن تیسرا اس دوران میں اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کرچکا ہوتا ہے۔ پانی والا اُلٹے قدموں دوسرے زخمی کی طرف آتا ہے تو وہ بھی شہادت کے درجے پر فائز ہوچکا ہے۔ اسی طرح وہ دیکھتا ہے کہ اس کا چچازاد بھائی بھی اپنے اس ایثار پر گویا مطمئن و سرخ رُو ہوکر اپنے رب کے حضور جاچکا ہوتا ہے۔

یہ تینوں شہید دمِ نزع زبانِ قال سے تو کچھ کہنے کی سکت کہاں رکھتے تھے لیکن زبانِ حال سے کہہ گئے کہ، اب جب کہ ہم قرآن کریم سے شکرِنعمت کا فہم و اِدراک حاصل کرچکے اور رحمت للعالمینؐ کے فیضِ تربیت سے اس رویے کو اپنا چکے ہیں تو شانِ رحمن سے میسر آنے والی اس نعمت کو حوضِ کوثر کے جام سے کیوں نہ تبدیل کرلیں کہ جس سے سیرابی کے بعد روزِ حشر سے گزر کر جنت میں داخلے تک مطلق پیاس نہ لگے اور جنت میں اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق یہ منظر ہو: یُسْقَوْنَ مِنْ رَّحِیْقِ مَّخْتُوْمٍ o خِتٰمُـہٗ مِسْکٌ ط (المطففین ۸۳:۲۵-۲۶) (وہاں اہلِ ایمان کو) نفیس ترین سربند شراب پلائی جائے گی جس پر مُشک کی مُہر لگی ہوگی۔

آپ نے ایک نعمت کے حوالے سے کفرانِ نعمت اور شکرِ نعمت کے دو انسانی رویے ملاحظہ کیے۔ اب اپنے آپ سے سوال کیجیے کہ ہم قرآن جیسی نعمت کے حوالے سے شکرگزار ہیں یا ناشکرے؟ حکیم الامت نے مشیت ِ الٰہی کی ترجمانی کرتے ہوئے کیا خوب کہا ہے    ؎

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر

آیئے میرے ساتھ دُہرایئے:

رَبَّنَا ظَلَمْنَـآ اَنْفُسَنَا وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَo (الاعراف ۷:۲۳) اے رب، ہم نے اپنے اُوپر ستم کیا، اب اگر تو نے ہم سے درگزر نہ فرمایا اور رحم نہ کیا تو یقینا ہم تباہ ہوجائیں گے۔


(جامع مسجد منصورہ، لاہور میں، بعد نماز فجر تذکیر، ۱۷ دسمبر ۲۰۰۸ء)

 ترجمہ: ذوالقرنین

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ مبارکہ کی اتباع کے کم از کم تین اہم پہلو بنیادی اہمیت کے حامل ہیں:

فرد کی باضابطہ تربیت

اس کا ایک پہلو فرد کی باضابطہ تربیت ہے تاکہ وہ ہمہ وقت شعور اور بیداری کی حالت میں رہے اور ضبطِ نفس (discipline) کے ساتھ اپنی زندگی بسر کرے۔

انسان کی روحانی ترقی کے نقطۂ نظر سے الل ٹپ سرزد ہونے والے افعال اور ان افعال سے جنم لینے والی عادات اُن رکاوٹوں کی مانند ہیں، جو رکاوٹوں والی دوڑ میں شریک گھوڑوں کی راہ میں کھڑی کی جاتی ہیں۔ ضروری ہے کہ ایسے افعال اور عادات کو کم سے کم اختیار کیا جائے جو طبیعت کے روحانی ارتکاز کو منتشر کرنے کا باعث بنتے ہوں۔ ہونا یہ چاہیے کہ ہم جو کچھ بھی کریں، وہ ہمارے اپنے ارادے اور ضابطۂ اخلاق کے تابع ہو۔ لیکن اس مقام تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہمہ وقت اپنی ذات کا مشاہدہ و محاسبہ کرنے کی صلاحیت پیدا کی جائے۔ اللہ کا ذکر اور اس کی عبادت محاسبۂ نفس کا ذریعہ ہیں، جن سے پوری طرح استفادہ کرنے کے لیے نبی کریم صلی اللہ  علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کی عبادت ایسے کرو جیسے تم اسے دیکھ رہے ہو‘‘۔(بخاری)

ضبط ِنفس کی ضرورت بیان کرتے ہوئے حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:  ’’تم خود اپنا محاسبہ کرو، قبل اس سے کہ تمھارا محاسبہ کیا جائے‘‘۔

حقیقت یہ ہے کہ عبادت کا اسلامی تصور صرف مذہبی فرائض تک محدود نہیں ہے، بلکہ فی الحقیقت وہ ساری انسانی زندگی پر محیط ہے اور اس کا ہدف ہمارے روحانی وجود کو ہمارے مادی وجود سے   جوڑ کر ایک وحدت میں سمونا ہے۔ لہٰذ ا،ہماری کوششوں کا حتی الامکان ہدف یہ ہونا چاہیے کہ ہم   اپنی زندگیوں میں سے خود فراموشی کی کیفیت اور ایسے عوامل کو جڑ سے اکھاڑ دیں جو انسان کے روحانی و مادی وجود میں یک جہتی پیدا نہیں ہونے دیتے۔ مشاہدۂ نفس اس راہ میں پہلا قدم ہے… یہ وہ انتہائی یقینی طریقہ ہے جس کی مدد سے فرد اپنے نفس کے مشاہدے اور احتساب کی تربیت کر سکتا ہے اور اپنی عادات اور اپنی روزمرہ زندگی کے بظاہر غیر اہم افعال کو اپنے شعور کے تابع کر سکتا ہے۔ بعض چھوٹی چھوٹی باتیں اور بظاہر غیر اہم افعال اور عادات ذہنی تربیت کے  سیاق و سباق میں فی الحقیقت ہماری زندگی کے بڑے کاموں کے مقابلے میں کہیں زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ’بڑی بڑی باتیں‘ اور ’عظیم کام‘ اپنی بڑائی کی وجہ سے ہمیشہ واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں، لہٰذا وہ کم و بیش ہمیشہ ہمارے شعور میں رہتے ہیں۔ لیکن ’چھوٹی چھوٹی‘ باتیں بہ آسانی نظر انداز ہو جاتی ہیں اور ہمارے کنٹرول سے بچ نکلتی ہیں، حالانکہ فی الحقیقت یہ کہیں زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہیں، اور ان کی مدد سے ہم ضبط ِنفس کی صلاحیتوں کو کہیں زیادہ نتیجہ خیز اور اثر انگیز بنا سکتے ہیں۔

ہو سکتا ہے کہ یہ بات بجاے خود اہم نہ ہو کہ کس ہاتھ کے ساتھ کھانا کھایا جانا چاہیے یا یہ کہ داڑھی کی کیا اہمیت ہے؟ لیکن نفسیاتی اعتبار سے یہ بات انتہائی اہم ہے کہ زندگی کے معاملات کو محض الل ٹپ عادت کے طور پر نہیںبلکہ باقاعدہ ارادے کے تحت انجام دیا جائے۔ اس لیے کہ  اس طرح ہم اپنے آپ کو محاسبۂ نفس اور اخلاقی پابندیوں پر عمل کرنے کے لیے تیار رکھ سکتے ہیں۔ اگرچہ دیکھا جائے تو بظاہر یہ کوئی آسان کام دکھائی نہیں دیتا۔ ذہنی طور پر سست ہونا، جسمانی طور پر سست ہونے سے زیادہ نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ ایک ایسے شخص کو لمبی سیر  کے لیے لے جائیں، جو اکثر بیٹھے رہنے کا عادی ہو، تو وہ جلدی تھک جائے گا اور پیدل چلنے کے قابل نہیں رہے گا۔ لیکن اس کے برعکس وہ شخص نہیں تھکے گا جو عمر بھر پیدل چلنے کا عادی رہا ہو۔   اس کے لیے یہ سیر تھکن کا باعث نہیں ہو گی اور وہ اسے ایک خوش گوار جسمانی ورزش کے طور پر لے گا۔ اس سے یہ حکمت اور (مومنانہ) طرزِ زندگی کی یہ رمز مزید واضح ہو جاتی ہے کہ سنت کے دائرے میں انسانی زندگی کے تقریباً ہر پہلو کو کس لیے شامل رکھا گیا ہے۔ اگر ہم سے مسلسل اپنے تمام اعمال اور خطاؤں کو جانچنے پرکھنے کا تقاضا کیا جاتا رہے تو ہماری محاسبۂ نفس کی استعداد بھی مسلسل بڑھتی رہے گی، اور ایک خاص مدت کے بعد ہماری فطرتِ ثانیہ بن جائے گی۔ جب تک  یہ تربیت جاری رہے گی، ہمارا اخلاقی تساہل بھی کم سے کم تر ہو تا چلا جائے گا۔

لفظ ’تربیت‘ کے استعمال سے قدرتی طور پر یہ مراد ہے کہ اس کا نتیجہ تربیتی عمل کے مقصد پر منحصر ہو گا۔ اگر سنت پر عمل زوال پذیر ہو کر محض حرکات و سکنات کا ایک معمول بن جائے تو اس کی تعلیمی و تربیتی قدرو قیمت بھی ختم ہو کر رہ جاتی ہے ۔ گذشتہ صدیوں میں مسلمانوں کا طرزِ عمل بھی کچھ ایسا ہی رہا ہے۔ جب رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضوان اللہ اجمعین اور ان کے بعد آنے والی نسلوں نے اپنی زندگی کے ہر معاملے کو اپنے آقا ؐکے اسوۂ حسنہ کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی تو انھوں نے مکمل فہم و شعور کے ساتھ، ہدایت پر مبنی ہر اس حکم کے سامنے  سرتسلیم خم کر دیا، جو روحِ قرآن کے مطابق ان کی زندگیوں کی تشکیل میں معاون ہو سکتا تھا۔ اسی شعور اور ارادے کی بدولت وہ اتباعِ سنت سے پوری طرح فیض یاب ہو سکے۔ اگر بعد کے زمانوں میں آنے والے مسلمان ان نفسیاتی امکانات سے بھر پور فائدہ نہ اٹھا سکے، جن کا دروازہ کھلتا ہی سنت کی پیروی سے ہے تو یہ نعوذ باللہ ’سنت‘ کی خامی نہیں تھی۔

اس پورے گذشتہ عہد میں، مسلمانوں کے انحطاط اور اضمحلال کا ایک سبب کسی نہ کسی حد تک تصوف بھی ثابت ہوا ہے، جو انسان کی فعّال توانائیوں کو غیراہم قرار دیتا ہے اور ان توانائیوں پر زیادہ زور دیتا ہے جو محض تاثرات و تصورات کے ادراک میں معاون ہو سکتی ہیں۔ چونکہ سنتِ نبویؐ پر عمل اسلام کے ابتدائی ایام ہی سے مسلمانوں کی زندگی کا حصہ بن چکا تھا، اس لیے دور اوّل سے متصل زمانے میں تشکیل پانے والا صوفی ازم دین کی اس بنیاد کو زائل کرنے میں کامیاب تو نہ ہوسکا، لیکن وہ اس کی فعّال قوت کا اثر کسی حد تک کم کرنے کا سبب ضرور بنا رہا۔ اس کی سب سے بڑی  وجہ یہ تھی کہ صوفیوں کے نقطۂ نظر سے سنت ایک ایسی مجرد علامت بن کر رہ گئی، جس کی اہمیت  نظریاتی و تصوراتی تو تھی، مگر عملی نہیں تھی۔ وہ اسے محض روحانی اور صوفیانہ تناظر میں دیکھتے تھے۔ دوسری جانب مذہبی علما اور فقہا کے نزدیک اسلام محض ایک فقہی یا قانونی نظام تھا۔

نتیجتاً عامتہ المسلمین کے لیے سنت اپنے حقیقی معانی کھو چکی تھی۔ اس کے باوجود کہ مسلمان قرآنی تعلیمات سے استفادہ کرنے اور سنت نبویؐ کی روشنی میں قرآنی تعلیمات کی تعبیر اور ان کی تفہیم کے عمل سے محروم ہو چکے تھے، لیکن تعلیماتِ نبویؐ کے سیاق و سباق اور ان کی تعبیر کے پیچھے کارفرما تصور میں قطعاً کوئی فرق نہیں آیا۔ وہ آج بھی پوری طرح قابلِ اطلاق ہیں۔ چنانچہ کوئی وجہ نہیں کہ ایک بار پھر سنتِ نبویؐ کو عملی زندگی کا حصہ نہ بنایا جاسکے۔

دوسری جانب ناقدین کہتے ہیں کہ سنت کا مقصد محض علامتوں پہ اصرار، ظواہر پرستی اور رسوم کے پابند زاہد خشک تیار کرنا ہے۔ ان نقادوں [اور سنت کے منکروں] کا یہ تبصرہ جھوٹ پر مبنی طعن سے زیادہ کچھ حیثیت نہیں رکھتا۔ فی الحقیقت اتباعِ سنت کا مقصد با شعور، صاحبِ عزیمت اور حوصلہ مند مردانِ کار تیار کرنا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ و صحابیاتؓ اسی طرح کے انسان تھے۔ وہ قلب ِبیدا رکے مالک ہمہ دم متحرک اور احساسِ ذمہ داری سے ہر قدم اٹھانے والے لوگ تھے۔ کردار کی یہی وہ خوبیاں ہیں، جن میں ان کی کرشماتی صلاحیت و استعداد کا راز پوشیدہ ہے اور انھی خوبیوں کی بدولت انھوں نے اپنی انسانیت ساز تاریخی کامیابیوں سے دنیا کو حیران کر دیا تھا۔ بلاشبہہ یہ اتباعِ سنت ہی کا اولین اور منفرد پہلو ہے۔

معاشرتی اھمیت و افادیت

اتباعِ سنت کا دوسرا پہلو اس کی معاشرتی اہمیت و افادیت ہے۔ یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ بالعموم معاشرتی کش مکش ایک دوسرے کے افعال و عزائم کے بارے میں غلط فہمیوں سے جنم لیتی ہے۔ معاشرے کے افراد کا بے شمار مزاجوں اور ذہنی رجحانات میں تقسیم ہونا ایسی    غلط فہمیوں کا باعث بنتا ہے۔ مختلف مزاجوں سے مختلف عادات اور رویے پروان چڑھتے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ پختہ تر ہو جاتے اور پھر وہ مختلف افراد کے درمیان دیوار بن کر حائل ہوجاتے ہیں۔ لیکن اگر اس کے برعکس معاشرہ ایک ہی جیسی اقدار پر مبنی عادات کا حامل رہے تو زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ افراد ایک دوسرے کے ہمدرد و غم خوار ہوں گے اور ذہنی طور پر ایک دوسرے کو زیادہ اچھی طرح سمجھ سکیں گے۔ لہٰذا اسلام، جو معاشرے اور فرد دونوں کی یکساں بھلائی اور بہبود کا خواہاں ہے، اس نکتے پر زور دیتا ہے کہ معاشرے میں شامل افراد کو منظم انداز میں یکساں عادات اور مجلسی آداب کی تربیت دی جائے، خواہ ان کا معاشرتی و معاشی مرتبہ ایک دوسرے سے کتنا ہی مختلف کیوں نہ ہو۔

حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی اس سے بڑھ کر معاشرے کی تشکیل و تعمیر کرتی ہے۔ یہ معاشرے کو باہم مربوط اور مستحکم بناتی ہے اور ایسی باہمی منافرتوں کا سدباب کرتی ہے جو مغربی معاشرے میں ’معاشرتی سوالات و اعتراضات‘ کے نام پر پیدا کی گئیں، اور جن کی وجہ سے مغربی معاشرہ، فکر، نظر اور عمل کے بہت بڑے تضاد و فساد کا شکار ہوا۔ ایسے معاشرتی سوالات اس وقت سر اٹھاتے ہیں جب یہ محسوس کیا جانے لگے کہ بعض ادارے، روایات اور رسم و رواج   بے بنیاد، خام اور ناقص ہیں، لہٰذا ان پر تنقید کی اجازت ہونی چاہیے تاکہ ’مثبت‘ تبدیلیوں کے لیے راہ ہموار کی جاسکے۔ اہلِ مغرب کے اس المیے کے برعکس جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے، وہ اپنے آپ کو احکامِ قرآن کا پابند اور اس پابندی کے نتیجے میں رسولؐ اللہ کے احکام کا بھی پابند سمجھتے ہیں۔

مسلم معاشرے کی ظاہری شکل و صورت کے برقرار رہنے کا بنیادی سبب یہ ہے کہ مسلمان اپنے معاشرے کو تشکیل دینے والے عوامل کو الہامی اور ابدی سمجھتے ہیں۔ جب تک یہ عقیدہ قائم ہے معاشرتی تشکیل کے بنیادی عوامل کو تبدیل کرنے کی نہ تو کوئی ضرورت ہے اور نہ اس کی کوئی خواہش سر اٹھائے گی۔ انھی حقائق کی روشنی میں ہم قرآن کریم کے اس حکم کی حکمت اور منشا کو سمجھ سکتے ہیں کہ مسلمانوں کو ’بنیانِ مرصوص‘ یعنی سیسہ پلائی دیوار کی طرح متحد ہونا چاہیے۔ اگر ہم اس اصول کا اطلاق اپنی اجتماعی زندگی پر کریں تو معلوم ہو گا کہ معاشرے کو ذیلی مسائل اور جزوی ’اصلاحات‘  کے لیے اپنی توانائیاں خرچ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، کہ ان کی جو بھی قدرو قیمت ہے وہ محض  وقتی و عارضی ہے۔ اسلامی معاشرے کو فکری و طبقاتی کش مکش کے الجھاؤ سے نکل کر قانونِ الٰہی اور  اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے اپنے مادی و فکری مسائل کے حل کے لیے توانائیاں بروے کار لانا چاہیے۔ یہی وہ طریقہ ہے جس سے فرد کے روحانی ارتقا کے لیے کوششوں کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ یہی اسلامی معاشرتی تنظیم کا حقیقی نصب العین ہے۔

رھـبر کاملؐ

آئیے، اب اتباعِ سنت کے تیسرے پہلو کا جائزہ لیتے او ردیکھتے ہیں کہ اس پر پابندی سے عمل کرنا کتنا ضروری ہے۔ اس نظامِ حیات میں، ہماری روزمرہ زندگی کی متعدد جزئیات نبی کریمؐ کے اسوۂ حسنہ پر مبنی ہیں۔ ہم جو کچھ بھی کریں، ہمیں ہمیشہ یہ خیال رہتا ہے کہ اس معاملے میں   نبی کریمؐ کا عمل کیا تھا یا انھوں نے اس بارے میں کیا فرمایا۔ یوں بنی نوع انسان کی عظیم ترین  شخصیت ہماری روزمرہ زندگی کے معمول میں رچ بس جاتی ہے، اس کا روحانی فیض حقیقی زندگی میں جاری و ساری رہتا اور ہمارے وجود کا مستقل اور فعال حصہ بن جاتا ہے۔ اس راستے کو منتخب کرنے کے بعد ہم شعوری طور پر زندگی کے ہر معاملے میں یہ معلوم کرتے رہتے ہیں کہ کس کس معاملے میں نبی کریمؐ کا طرز عمل کیا تھا۔ یہی ہے وہ صراطِ مستقیم جس پر چلتے ہوئے ہم بتدریج یہ جان لیتے ہیں کہ اللہ کے رسولؐ صرف وحی لانے والے ہی نہیں بلکہ وہ ساری زندگی کے لیے ہمارے رہبر بھی ہیں۔

اس مرحلے پر ہمیں لازماً یہ ایک فیصلہ کر لینا چاہیے کہ: آیا ہمیں حضرت محمدؐؐ کو دنیا کے دوسرے حکیم و دانا انسانوں کی طرح محض ایک حکیم و دانا انسان کے طور پر لینا چاہیے یا نوعِ انسانی کے لیے اللہ تعالیٰ کا آخری نبی اور رسول ماننا چاہیے جن کا ہر ہر فعل وحیِ الٰہی کے تابع تھا؟

اس بارے میں قرآن مجید کا نقطۂ نظر بالکل صاف، واضح اور ہر شک و شبہے سے بالا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں خاتم الانبیا اور رحمت للعالمینؐ بنا کر بھیجا۔ ان کی رہنمائی اور احکام کے کسی حصے سے منہ موڑنا خود اللہ تعالیٰ کی ہدایت سے منہ موڑنے یا اسے کم تر سمجھنے کے مترادف ہو گا۔ مزید برآں سنت پر عمل سے انحراف یا ایسا خیال رکھنے والا شخص اس سوچ کا حامل قرار پائے گا کہ اسلام کا پیغام کوئی حتمی پیغام نہیں، بلکہ انسانی مسائل کے جو متعدد مختلف حل پیش کیے گئے، ان میں سے وہ بھی ایک حل ہے، اور یہ فیصلہ اب فرد کی صوابدید پر ہے کہ ہم پیغامِ اسلام کو اختیار کریں یا کسی دوسرے حل کو جو غالباً یکساں طور پر سچا اور کارآمد حل ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ بظاہر ایک آسان راستہ ہے، کیونکہ اس پر چلتے ہوئے اخلاقی اور عملی طور پر کسی حکم یا ہدایت کی پابندی لازم نہیں رہتی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ راستہ ہمیں کہیں بھی لے جا سکتا ہے مگر روح اسلام کی طرف ہرگز نہیں لے جاسکتا۔ اس بارے میں قرآن مجید میں ارشاد ہوا:

اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ط (المائدہ ۵:۳) آج کے دن میں نے تمھارے لیے تمھارا دین  (نظام حیات) مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت (ہدایت) تمام کر دی اور تمھارے لیے اسلام کو دین چن لیا۔

ہم اسلام کو تمام دینی نظاموں کے مقابلے میں برتر سمجھتے ہیں کیونکہ یہ ساری کی ساری زندگی کو اپنے دامنِ رحمت میں سمیٹ لیتا ہے۔ اسلام بیک وقت دنیا اور آخرت، روح اور بدن اور فرد اور معاشرے کو یکساں اہمیت دیتا ہے۔ وہ نہ صرف انسانی فطرت کے ارفع امکانات کو نگاہ میں رکھتا ہے بلکہ اس میں مضمر مجبوریوں اور کمزوریوں کو بھی ملحوظ رکھتا ہے۔ اسلام ہم پر کسی ایسی ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا جسے ادا کرنا ہمارے لیے ممکن نہ ہو۔ وہ ہمیں اپنے ذاتی امکانات اور صلاحیتوں کو پوری طرح بروے کار لانے کے لیے رہنمائی عطا کرتا ہے اور فہم حق اور مشاہدۂ حق کے اس اعلیٰ مقام پر لے جاتا ہے جہاں نظریے اور عمل میں کوئی تضاد اور خلیج حائل نہیں رہتی۔

لاریب اسلام دوسرے راستوں کی طرح ایک راستہ نہیں بلکہ واحد راستہ (الصراط المستقیم) ہے، اور وہ برتر انسانؐ جس نے اس کی تعلیمات سے ہمیں روشناس کرایا، وہ انسانی تاریخ کے عظیم رہنماؤں میں سے محض ایک رہنما نہیں ہیں بلکہ ہادیِ خاص (The Guide) ہیں۔ اس ہادیِ برحقؐ کے ہر حکم پر عمل کرنا اور انؐ کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کرنا ہی اسلام ہے۔ اسی لیے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے روگردانی یا اسے ترک کرنا فی الواقع حقیقت ِاسلام سے روگردانی ہوگی۔

 

اِبتلا و آزمایش میں ثابت قدم رہنے اور اس سے کامیابی کے ساتھ عہدہ برآ ہونے کے متعدد طریقے اور راستے ہیں۔ مومن کی حیثیت سے ان کو سامنے رکھنا اور ان میں سے اپنی حالت کے مطابق کسی ایک دو یا زیادہ کو اختیار کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ طریقے واضح طور پر بیان کیے ہیں۔ ان میں سے بعض کا تذکرہ کیاجاتا ہے۔

عقیدۂ توحید پر ایقان

اِبتلا و آزمایش میں سے کامیابی سے گزرنے کے لیے بنیادی بات عقیدۂ توحید پر پختہ ایمان ہے۔ جتنا یہ عقیدہ مضبوط ہوگا، اتنا ہی آسانی سے مومن اِبتلا و آزمایش سے گزر جائے گا۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیوں میں بڑی بڑی آزمایشیں آئیں لیکن عقیدے کی پختگی کی وجہ سے ذرہ برابر قدم ڈگمگانے اور پسپائی اختیار کرنے کی حالت و کیفیت ان کے نزدیک نہیں آئی۔ حضرت بلالؓ پر کفارِ مکہ نے کتنی سختیاں کیں لیکن احد، احد ہی پکارتے رہے اور اِبتلا و آزمایش سے نکل آئے۔ ایسے سیکڑوں صحابہ کرام و تابعین تھے جنھوں نے اس طرح کا مظاہرہ کیا۔ اِبتلا وآزمایش کے بعد کے ادوار میں ایسے بہت سے مومن نظر آتے ہیں جو توحید کے عقیدے پر مضبوط ایمان کی وجہ سے کامیاب ہوکر نکلتے دکھائی دیتے ہیں۔

موجودہ دور کی گوناگوں آزمایشیں جیسے مصر میں اخوان المسلمین، اور وسطی ایشیا کے لاکھوں مسلمانوں کا خون بہایا گیا۔ فلسطین و عراق کے مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے، افغانستان میں بارود اور لوہے کی آگ برسائی گئی اور خون کے دریا بہائے گئے۔ پل چرخی اور گوانتانامو کی بدنامِ زمانہ جیلوں میں اللہ کے نام لیوائوں کو روح کو لرزہ دینے والی اذیتیں دی گئیں لیکن اللہ کے بندے عقیدۂ توحید پر پختہ یقین اور تعلق باللہ کی وجہ سے ذرا برابر نہیں ڈگمگائے اور ایک دفعہ پھر سنت ِابراہیمی ؑ کو دنیا کے سامنے زندہ کردیا۔

ابتلا و آزمایش کی دو صورتیں ہیں: ایک طرف ظلم وستم خوداپنی ذات پر اور بعض اوقات بیوی، بچوں اور خاندان والوں پر۔ اگر یہ کارگر نہ ہو تو پھر دولت اور جاہ و جلال کی طمع اور خوف۔  امام احمد بن حنبلؒ پر جب تک کوڑے برستے رہے بڑی ہمت و جرأت سے برداشت کرتے رہے لیکن جب دولت پیش کی گئی تو گھبرا گئے اور رونے لگے۔

آخرت پر یقین

اسلام میں آخرت کا عقیدہ اساسی و بنیادی ہے۔ مکی دور میں قرآن مجید نے اسے مختلف طریقوں سے بیان کر کے اپنے پیروکاروں کو ذہن نشین کرایا ہے۔ قرآن مجید کی ۱۱۴ میں سے ۱۰۰سورتوں میں آخرت کا تذکرہ موجود ہے۔ پھر جتنی تفصیل آخرت کے بارے میں ہے اور جنتیوں اور دوزخیوں کے باہمی مکالمے، گفتگوئیں اور ان کی خواہشات بیان ہوئی ہیں، توحید و رسالت کے بعد شاید ہی کسی اور عقیدے کی اتنی تفصیل بیان ہوئی ہو۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ آخرت کے پختہ عقیدے کا انسانی زندگی پر گہرا اثر ہوتا ہے اور انسان کی سیرت و کردار کی تعمیر اور نشوونما میں اس کا بہت بڑا حصہ ہے۔

تعلق باللّٰہ

اِبتلا سے کامیابی کے ساتھ نکلنے کا توحید کے بعد سب سے مضبوط اور یقینی طریقہ اللہ کے ساتھ تعلق جوڑنا اور اسے پختہ کرنا ہے۔ اِبتلا کے جتنے واقعات قرآن مجید میں اور احادیث ِ مبارکہ میں بیان ہوئے ہیں ان کے اختتام پر تعلق باللہ کو مختلف پیرایوں سے بیان کیا گیا ہے، جیسے    سورۂ ملک (۶۷:۳-۴)، سورۂ قلم (۶۸:۲۸-۲۹)، سورۂ یونس (۱۰:۳۰)۔

تعلق باللہ کی متعدد صورتیں ہیں۔ انھیں حسب ِ حال اختیار کرنا چاہیے۔ چند ایک کا مختصراً تذکرہ کیا جاتا ہے۔

  •  اللّٰہ کا ذکر: اللہ تعالیٰ کی یاد زبان و دل اور احساس و شعور سے کرنا، اُٹھتے بیٹھتے، لیٹتے اور چلتے پھرتے ہر حال میں اللہ کا ذکر جاری رہے۔ بزرگوں نے بہت سے اذکار مسنونہ و ماثورہ لکھے ہیں۔ اللہ کا ذکر تعلق باللہ کی بنیاد ہے۔ قرآن مجید میں ذکراللہ کا کلمہ اور ترکیب ۲۹۰ مرتبہ آئی ہے۔ ان میں دو تہائی اللہ کی یاد کے لیے ہے۔ اس یاد میں تقویٰ کی کیفیت بھی ہے تو قلبی و روحانی پاکیزگی بھی۔مسنون دعائیں اور ماثورادعیہ زندگی کے تمام معاملات کے لیے بیان ہوئی ہیں۔ زندگی کا چھوٹے سے چھوٹا کام جیسے چھینک آنا، پانی پینا، کھانا کھانا، اس سے فارغ ہونا، حتیٰ کہ کپڑا پہننا، بیت الخلا میں داخل ہونا یا باہر نکلنا۔ کوئی تکلیف پہنچنا، کوئی راحت و نعمت حاصل ہونا بہرحال ذکراللہ سے خالی نہیں ہے۔ یہاںتک کہ دو افرادباہم ملیں تو سلام (ذکرودعا) سے ملیں۔
  •  نماز: نماز میں ذکر کے کئی پہلو ہیں بلکہ خود نماز کو ذکراللہ کہا گیا ہے:

اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ وَذَرُوا الْبَیْعَ (الجمعۃ ۶۲:۹) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب پکارا جائے نماز کے لیے جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو۔

سلف صالحین اور شہدا و دعاۃ کی زندگیوں میں دیکھتے ہیں کہ جب وہ آزمایش میں مبتلا ہوئے تو نماز کی طرف سبقت کی۔ قرآن مجید نے فرمایا: وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ (البقرۃ ۲:۴۵ و۱۵۳) ’’صبر اور نماز سے مدد لو اور تقویت حاصل کرو‘‘۔

نماز کے کئی اہم پہلو ہیں جیسے دلی اطمینان حاصل ہونا، اجروثواب کا ملنا، برائیوں سے بچنا، شیطان اور شیطانی وسوسوں سے محفوظ رہنا، دنیا اور آخرت کے خسارے سے بچنا اور اِبتلا سے بخیروخوبی گزر جانا، نیز نماز باجماعت اور نظامِ صلوٰۃ کی اپنی اہمیت ہے۔

بندہ جب نماز میں کھڑا ہوتا ہے تو اس کا براہِ راست اللہ سے تعلق جڑ جاتا ہے اور درمیان سے سب واسطے ہٹ جاتے ہیں۔ اسی لیے نماز کو مومن کی معراج کہا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ بندہ جب سجدے میں ہوتا ہے تو اللہ سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔

  •  تھجد: داعی اور مومن کامل کے لیے تہجد ضروری ہے۔ تہجد اللہ کا قرب حاصل کرنے، اللہ سے استعانت اور اس کی یاد کا بہترین طریقہ ہے، لہٰذا داعی حضرات اور آزمایش میں مبتلا شخص کے لیے اس کی ادایگی ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں نمازِ تہجد کو قیامُ اللیلقرار دیا ہے جس سے مراد سجدوں اور رکوعوں میں رات گزارنا، اللہ تعالیٰ سے گِڑگڑا کر دعائیں مانگنا اور اپنے کام میں تقویت حاصل کرنا ہے۔ (مزید تفصیل کے لیے مطالعہ کریں: بنی اسرائیل ۱۷:۷۹، المزمل ۷۳: ۲-۲۰، الفرقان ۴۰: ۶۴، الدھر ۷۶:۲۶، السجدہ ۳۲:۱۶، آل عمران ۳:۱۹۱، النساء ۴:۱۰۳)
  •  تلاوت قرآن مجید: تعلق باللہ کا ایک مضبوط ذریعہ کتاب اللہ کی تلاوت ہے۔ ارشاد باری ہے: وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا (اٰل عمرٰن ۳:۱۰۳) ’’سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑلو اور تفرقہ میں نہ پڑو‘‘۔ ایک روایت میں حبل اللہ قرآن مجید کو کہا گیا۔ آپؐ نے فرمایا: ’’قرآن اللہ کی مضبوط رسی اور اس کی سیدھی راہ ہے‘‘۔ (ابن کثیر، ج ۱، ص۳۸۸)

تلاوت کا لطف اور مزہ اس وقت حاصل ہوگا جب خوش الحانی، یک سوئی اور تفکر وتدبر کے ساتھ تلاوت کی جائے۔ اس قسم کی تلاوت سے وقتی طور پر دکھ درد دُور ہوجاتے ہیں اور آدمی اپنے آپ کو راحت میں محسوس کرتا ہے۔ لہٰذا صبح و شام اور سفروحضر میں تلاوت کا اہتمام ہونا چاہیے۔

مکہ مکرمہ کے ابتدائی دور میں اور مشکل اوقات میں صحابہ کرامؓ تلاوت کرتے تھے اور  کتاب اللہ کی تلاوت سے قوت اور سہارا لیتے تھے۔ حضرت جعفرؓ سے جب شاہِ حبشہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے قرآن مجید کی سورئہ تحریم کی تلاوت کی۔ اس سے ایک طرف ان کو اطمینان ہوا تو دوسری طرف یہ تلاوت ان کے لیے حق گوئی، بے باکی اور اِبتلا سے نکلنے کا ذریعہ بن گئی۔اس طرح تلاوت میں ضروری آداب کا ملحوظ رکھنا، صحیح تلفظ سے ادایگی، اس کے معنی اور مفہوم پر نظر رکھنا اور اس میں غورکرنا ضروری ہے۔ قرآن مجید کی تلاوت کی برکات اور فائدے حاصل کرنے کے لیے یہ دعا سکھائی گئی:

اَللّٰھُمَّ اجْعَلِ القُراٰنَ رَبِیحَ قُلُوبِنَا وَنُورَ صُدُورِنَا وَذَھَابَ ھُمُومِنَا وَجِلَائَ اَحْزَانِنَا، یااللہ! قرآن کو ہمارے دلوں کی بہار بنا دے، ہمارے سینوں کا نور بنا دے، ہمارے خوف کے دفع کرنے اور ہمارے غم کا مداوا بنادے۔

انبیا کی سیرت و کردار کا مطالعہ

اِبتلا میں عام طور پر سابقہ انبیا کی سیرت کا پڑھنا، اس میں غوروفکر کرنا،ان کی اِبتلا و آزمایش کا گہرا مطالعہ کرنا اور انھوںنے جس طرح ثابت قدمی دکھائی، اسے سامنے رکھنا اور ان کے اسوہ سے تقویت حاصل کرنا اور خود کو اس پر عمل کرنے کے لیے آمادہ کرنا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ انبیاے کرام کی سیرت میں صبر وثبات اور ثابت قدمی کے بے شمار نمونے سامنے آتے ہیں۔ عقیدت اور یقین سے ان کی سیرت کا مطالعہ کیا جائے تو انسان کو بڑی تقویت حاصل ہوتی ہے۔

سیرتِ مصطفٰیؐ سے رھنمائی

اِبتلا وآزمایش میں گرفتار شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت، سنت اور احادیث کا مطالعہ کرے تو قدم قدم پر آپؐ کی اِبتلاوآزمایش کے نمونے سامنے آئیں گے۔ دورِ طفولیت سے لے کر اس دنیا سے آپؐ کے تشریف لے جانے تک قدم قدم پر آپؐ کو مختلف آزمایشوں سے واسطہ پیش آیا ہے۔ ذہنی، جسمانی، مالی و معاشرتی اور تمدنی معاملات میں آپؐ کو تکالیف پہنچائی گئیں۔ آپؐ کے پیارے ساتھیوں کو بے حد ستایا گیا۔ لہٰذا آپؐ کے امتیوں اور پیروکاروں کو آپؐ کے اسوئہ حسنہ سے تقویت و اہمیت حاصل کرنی چاہیے۔ آپؐ کے ان فرمودات کو بھی سامنے رکھنا چاہیے جن میں ایک طرف سابقہ اُمم کے واقعات بتاکر ان کی ثابت قدمی اور صبر کی کیفیت بیان کر کے مثالیں دی گئی ہیں اور ساتھ ہی اِبتلا میں ثابت قدم رہنے کا اجروثواب بیان اور آخرت کی کامیابی کا مژدہ سنایا گیا ہے۔ یہ بھی تقویت کا ذریعہ ہیں۔

اجتماعیت سے جڑنا اور صالحین سے تعلق

اسلام کا مجموعی مزاج اور نظام اجتماعی ہے۔ اس میں انفرادیت اور انفرادی زندگی کا بہت کم حصہ ہے۔ لہٰذا مومن کو عام حالات میں بھی تنہائی سے بچنا چاہیے بلکہ اجتماعیت اختیار کرلینی چاہیے۔ ارشاد باری ہے: ’’تم میںایک اُمت ایسی ہونی چاہیے جو نیکی کی طرف بلائے جو معروف (بھلائی) کا حکم دے اور برائی سے روکے اور وہی لوگ کامیاب ہیں‘‘ (اٰل عمرٰن۳:۱۱۴)۔ مزید فرمایا: ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کا ساتھ دو‘‘۔ (التوبۃ ۹:۱۱۹)

اجتماعیت سے جڑنے سے، اور اجتماعیت بھی ایسی جو پورے دین پر عمل کرنے اور اسے نافذ کرنے کا کام کرتی ہو، آدمی سنبھل جاتا ہے، اسے سہارا ملتا ہے، تقویت پہنچتی ہے اور یہ ہمت افزائی کا سبب بن جاتی ہے اور اسے اِبتلا سے نکال لیتی ہے۔

اِبتلا کے دنوں میں صالحین سے تعلق مضبوط کرنا، اجتماعیت کے ذمہ داروں سے مزید قریب ہونا، ان سے اپنے حالات بیان کرنا، اپنی مشکلات اور مصائب کا اظہار کرنا، اپنے نفس کی حالت بتانا، ان سے رہنمائی اور مشورہ لینا چاہیے،اور وقتاً فوقتاً ان سے ملنا چاہیے۔ اگرنفس میں غرور و تکبر ہے یا غلط اوہام ہیں یا قوتِ فیصلہ کام نہیں کر رہی توان کا علاج معلوم کرنا چاہیے۔

ایک روایت ہے کہ آدم علیہ السلام نے کہا کہ اگر میں فرشتوں سے مشورہ کرتا تو نقصان نہ اٹھاتا‘‘۔ (شرح اربعین نووی ابن رجب حنبلی)۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: فَسْئَلُوْٓا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَo (النحل ۱۶:۴۳، الانبیا ۲۱:۷) ’’اہلِ علم سے پوچھو اگر تم نہیں جانتے‘‘۔ لہٰذا اہلِ علم و دانش اور اس راہ کے راہی، داعیوں اور مبلّغوں سے مشاورت کرنا فائدہ مند ہے۔ مشورہ اور خیر میںکئی پہلو ہیں، اس لیے مومن کو چاہیے کہ اچھے، نیک، باکردار لوگوں سے ہراہم معاملے میں مشورہ لیتا رہے اور اسے اپنا طریقہ و وتیرہ بنا لے۔ عام طور پر اِبتلا میں لوگ اس کے مختلف پہلوؤں اور گوشوں میں کھو جاتے ہیں اور اس سے نکل نہیں پاتے بلکہ نااہل اور نابلد لوگوں سے مشورہ کرنے کی وجہ سے مزید اُلجھ جاتے ہیں اور الجھے رہتے ہیں۔

دعوت کا کام

اِبتلا وآزمایش میں مومن کو چاہیے کہ دعوتی تحریکوں اور تنظیموں سے مل کر دعوتی اور اصلاحی کام کرے۔ خاص طور پر جماعت اسلامی سے مضبوطی و دل جمعی سے وابستہ ہوکر اعلاے کلمۃ اللہ اور اقامت ِدین کی کوشش کرے۔ اسی طرح دوسری دعوتی تنظیموں سے بھی حسب حال جڑا جاسکتاہے۔

جماعت اسلامی اور اخوان المسلمون کے پاس زمانۂ حال میں رہنمائی کرنے والا وسیع لٹریچر موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جزاے خیر دے کہ انھوں نے اسلام کے تمام انفرادی اور اجتماعی کاموں پر روشنی ڈالی ہے اور ہر زاویے سے اسلام کی نمایندگی اور وضاحت کی ہے۔  جماعت اسلامی کے شائع کردہ لٹریچر میں مولانا مودودیؒ کا وسیع لٹریچر اتنا جامع، مکمل اور دین کا احاطہ کیے ہوئے ہے کہ اگر درسِ نظامی کا ایک فارغ التحصیل عالم مطالعہ کرے تو وہ جدید علوم سے روشناس ہوجاتا ہے اور موجودہ دور کے تقاضوں کو سمجھ کر دین کے کام کا واضح لائحہ عمل پاتا ہے،  جب کہ جدید تعلیم یافتہ لوگوں کو دین کا فہم نصیب ہوتا ہے اور عمل کی ترغیب ملتی ہے۔

دعوتی کام کرنے سے دینی احکام کی عملی تعلیم حاصل ہوتی ہے اور انسان عملی طور پر دینی احکام کا عادی بن جاتا ہے۔ اسی لیے طبیعت میں دین رچ بس جاتا ہے۔ دعوتی کام میں کسی جماعت کے ساتھ ہونے سے ہم خیال اور ایک راہ کے راہی لوگوں سے جڑ جاتا ہے اور وہ ایک دوسرے کا سہارا بن جاتے ہیں۔ اگر ایک گر رہا ہے تو دوسرے اسے سنبھالنے کے لیے آگے   آتے ہیں۔ پھر معاشرتی، معاشی، اخلاقی لحاظ سے ایک دوسرے کے لیے معاون بن جاتے ہیں اور تنگی ترشی میں ایک دوسرے کو سہارا دیتے ہیں۔ اس طرح ایک کفالتی (مالی تعاون کا) نظام بن جاتا ہے۔ دنیا میں بہت ساری مثالیں ہیں۔ تازہ دور کی ایک مثال فلسطین کی سب سے بڑی جماعت حماس ہے جس نے لاکھوں مصیبت زدہ اور جنگ کے مارے ہوئے، لٹے پٹے خاندانوں کی ایک عرصے تک کفالت کرکے مدینہ کی مواخات کا سبق عملاً دہرایا۔

صبراختیار کرنا

صبر اِبتلا میں سے نکلنے کے لیے ایک اہم عنصر ہے۔ کتاب اللہ میں اِبتلا کا واقعہ بیان کرنے کے بعد عام طور پر صبر کا تذکرہ ہے۔ سورئہ بقرہ کی آیت ۱۵۷ میں ہے: وبشرالصابرین اور صبر کرنے والوں کو بشارت دے دیجیے۔ (مزید دیکھیے: سورہ محمد ۴۷:۳۱، البقرہ ۲: ۱۷۲-۲۴۹،اٰل عمرٰن ۳:۱۶-۱۷، ھود۱۱:۴۹، الصافات ۳۷:۱۰۳۔ الاحقاف ۴۶:۳۵،  الفرقان ۲۵:۴۲، الانعام ۶:۳۴، الکھف ۱۸:۲۸)

صبر کرنے سے بے قراری ختم ہوجاتی ہے۔ مشکلیں آسان ہوجاتی ہیں اور برداشت کی قوت پیدا ہوجاتی ہے اور ضبطِ نفس کی صفت سے بندہ متصف ہوجاتا ہے۔ قرآن مجید میں صبر کا کلمہ ۹۲ مرتبہ آیا ہے اور ان میں سے اکثر اِبتلا میں صبر کرنے کے لیے ہے۔

دعا کا ھتہیار

اِبتلا و آزمایش سے کامیابی کے ساتھ نکلنے کا ایک بڑا وسیلہ دعا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ  علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دعا مومن کا ہتھیار، دین کا ستون اور زمین و آسمان کا نور ہے‘‘(مشکوٰۃ)۔ دعا تعلق باللہ کا بڑا ذریعہ، دلی تسلی کا مضبوط وسیلہ، اجروثواب کا باعث، شیطان کے وسوسوںسے بچنے کا بہترین عمل اور دنیا وآخرت کے خسارے سے محفوظ رکھنے کا سبب ہے، لہٰذا مومن کو اِبتلا میں خاص طورپر اورعام حالات میں بھی دعا کی کثرت رکھنی چاہیے کیونکہ مومن کی دعا کبھی بے کار نہیں جاتی بلکہ اپنے اثرات دکھاتی ہے۔ یہ وہ عمل ہے جو بندہ بروقت، ہر جگہ اور ہر حالت میں کرسکتا ہے۔

علما و شھدا کو نمونہ بنانا

علما، شہدا، صالحین کی سیرت کو نمونہ بنانا چاہیے۔ اِبتلا میں گھرے ہوئے مومن کو چاہیے کہ سلف صالحین کی سیرت کا مطالعہ جاری رکھے اور ان سے تقویت حاصل کرے۔ ان کی سیرتوں میں سیکڑوں ہزاروں ایسے نمونے موجود ہیں جس سے اِبتلا میں رہنمائی ملتی ہے۔ ان نمونوں میں ان لوگوں کا اِبتلا میں صبروثبات، حق گوئی، تعلق باللہ نمایاں ہے۔ اس لیے اِبتلا میں گھرے ہوئے شخص کو ان کی سوانح حیات کا مطالعہ کرنا چاہیے۔

دعوت دین میں مصروف و مشغول لوگوں کو ان لاکھوں کروڑوں لوگوں کی غائبانہ دعائیں پہنچتی رہتی ہیں، نیز ان ساتھیوں کی طرف سے دعائیں ہوتی ہیں۔ ایک حدیث شریف میں ہے کہ ان کی دعائیں ان کو گھیر لیتی ہیں۔ بہرحال اِبتلا وآزمایش کے وقت انسان بہت ساری برائیوں سے بچ جاتا ہے اور شیطان کے وسوسوں اور شرارتوں سے محفوظ رہتا ہے۔

اس دور میں مسلم اُمہ پر اجتماعی طور پر اور دعوت کا کام کرنے والوں پر خاص طور پر بڑی اِبتلائیں اور آزمایشیں آئی ہیں۔ اس طرح انفرادی طور پر بھی کافی لوگ اس سے گزرے ہیں۔ ان میں مصر کے علما و دعاۃ اور صلحا گرفتار ہوئے، نیز شام، ترکی، سوڈان اور دیگر ممالک سے وابستہ افراد کی طویل فہرست ہے۔ ان کے ہراول دستے میں محمد بن عبدالوہاب، سید محمد احمد مصری سوڈانی، سیدجمال الدین افغانی، امام محمد عبدہٗ، رشید رضا مصری، امام حسن البنا شہید، سید ابوالاعلیٰ مودودی، مولانا محمودحسن، مولانا محمدقاسم نانوتوی، فقیرایپی، مُلّا شوربازار، مولانا تاج محمودامروٹی، سیدقطب شہید، عبدالقادر عودہ شہید شامل ہیں، جنھوں نے تمام تر خطرات و مشکلات کو انگیز کر کے اُمت کو روشن شاہراہ دی اور بہت بڑا علمی ذخیرہ چھوڑا۔ کچھ لوگ گھر سے بے گھر، وطن سے بے وطن اور بے بسی کی حالت میں ہجرت کر کے نکلے لیکن دین کے کام میں آخر دم تک مصروف رہے۔ ان کی فہرست تو بہت طویل ہے البتہ کچھ کا تذکرہ کیا جاتا ہے جیسے محمد غزالی، زینب الغزالی، عبدالبدیع صقر، محمد علی صابونی، ڈاکٹر یوسف قرضاوی، استاد عبداللہ العلوان، سعید رمضان، ڈاکٹر مصطفی السباعی، عبدالرحمن عزام، حسن الہضیبی، السید سابق، فواد سرگیں، عبدالوہاب خلاف، ڈاکٹر نبیل الطویل اور ڈاکٹر عبداللہ عزام شہید وغیرہ۔ یہ چند نام تو ان حضرات کے ہیں جنھوں نے زبان و قلم، علم وعمل سے جہاد کیا لیکن جنھوں نے اپنے مال ودولت اور جسم و جان سے اس راہ میں قربانیاں دیں وہ تو اَن گنت ہیں، ایک طویل فہرست ہے۔ اس دور میں عزیمت اور ثابت قدمی کی مثالیں افغانستان میں بگرام اور قندھار کی جیلیں، عراق کی ابوغریب اور گوانتاناموبے کے قیدیوں اور بہن عافیہ صدیقی کی ہے۔ یہ وہ شخصیات ہیں جو نشانِ راہ اور روشنی کے مینار ہیں۔

ایسے ہی لوگ اس آیت کے مصداق بنتے ہیں اور اس زمرے میں شامل ہوتے ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ وَ مَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًاo (الاحزاب ۳۳:۲۳) ’مومنوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ انھوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی‘‘۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی مدد کرتا ہے جو اپنے دل و جان سے اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی سے اصلاحِ حال کے لیے مصروف ہیں۔ فرمایا: وَ الَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت ۲۹:۶۹) ’’جو لوگ ہماری راہ میں جدوجہد کرتے ہیں ان کو ہم اپنی راہوں کی ضرور ہدایت دیتے ہیں‘‘۔

الغرض اِبتلا و آزمایش مومن کے لیے ایک لازمی منزل ہے، لہٰذا اسے پہچاننا، اس کا احساس و شعور رکھنا، اس میں ثابت قدم رہنا، اس سے صحیح طور پر نکلنے کے لیے جدوجہد کرنا اور روحانی و مادی وسائل ڈھونڈنا مومن کا وتیرہ ہے۔

اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں دنیا و آخرت کی کامیابی سے سرفراز فرمائیں۔ آمین!

 

اسلامی فکروثقافت کو اُس شعوری طرزِعمل اور رویّے سے تعبیر کیا جاسکتا ہے جو توحید کے نتیجے میں وحدتِ انسانیت، وحدتِ کائنات اور کائنات پر اللہ رب العزت کی مکمل حاکمیت وربوبیت کے اقرار کے ساتھ فرد اور معاشرے کے درمیان تعلق کی اصل بنیاد بِّر، تقویٰ، امربالمعروف اور  نہی عن المنکر کو قرار دیتا ہو۔ اس شعوری طرزِعمل کا اظہار، اس پر یقین رکھنے والے کی فکری تخلیق، ادب، شعر، فلسفہ اور اس کے ہنرمندی کے ہر عمل میں ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ سمرقند کا ماہر معمار ہو یا  ٹھٹھہ میں کاشی کار ٹائل اور ہندسی نقوش بنانے والا یا ریگستانِ تھر یا چولستان کا اُونٹ کی کھال سے لیمپ بنانے والا دست کار ہو، ان میں سے ہر ہرفرد کی مصنوعات میں اسلامی فکروثقافت کی روح کسی نہ کسی شکل میں جلوہ گر ہوتی ہے۔

اسلامی فکروثقافت جس روایت ِذکر، تفقہ، شعور و فکر اور الہامی ہدایت کی نمایندہ ہے اگر   بہ نظرِعمیق دیکھا جائے تو اس کی ہرسرگرمی مقاصد ِشریعت کی تکمیل کے پیشِ نظر سرانجام پاتی ہے۔   یہ مقاصد کیا ہیں اور کس طرح اسلامی فکروثقافت ان کے حصول میں مددگار ہوتی ہے، یہی اس مختصر تحریر کا موضوع ہے۔

فلسفۂ شریعت میں مقاصد ایک اہم اور مرکزی مضمون کی حیثیت رکھتے ہیں۔ چنانچہ امام غزالیؒ (۱۰۵۹ء-۱۱۱۱ء ) ہوں یا امام شاطبی (۷۹۰ھ/۱۲۸۸ء) یا محمد الطاہر ابن عاشور (۱۸۷۹ء-۱۹۷۳ء)، مقاصدالشریعہ کی اہمیت کے پیش نظر ان میں سے ہر فقیہہ نے اس موضوع کا حق ادا کیا ہے۔

حقیقت ِ واقعہ یہ ہے کہ مقاصد ِ شریعت کا تعلق نہ صرف فلسفۂ شریعت ِاسلامی بلکہ ہرہرعلمی کاوش کے ساتھ پایا جاتا ہے۔ چونکہ روایتی طور پر جن دینی درس گاہوں اور جامعات میں اسلامیات کے مضامین پڑھائے جاتے ہیں اس علم پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے، اس لیے وہ حضرات بھی جو فقہ کا مطالعہ کرتے ہیں، ان مقاصد سے سرسری طور پر گزر جاتے ہیں۔ معروف یہ ہے کہ یہ مقاصد پانچ ہیں لیکن ہم اس تحریر میں ان مقاصد پر غور کا آغاز اُس بنیاد سے کرنا چاہتے ہیں جو ہرانسانی فکر وعمل کے لیے اساس فراہم کرتی ہے، یعنی توحید۔

توحید وہ پہلا اصول، اساس اور مقصد ِشریعت ہے جو انسانی زندگی کے لیے ایک واضح   لائحہ عمل اور انسانی کاوش و عمل کے لیے ہدف اور منزل کا تعین کرتا ہے۔ روایتی طور پر یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ توحید اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کو وحدہ لاشریک ماننے کے عقیدے کا نام ہے، جب کہ وہ عقیدہ سے بہت آگے جاکر اس بات کی تصدیق کا نام ہے کہ کائنات میں اگر کوئی ابدی حقیقت ہے تو وہ صرف اور صرف اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی ذات اور اس کی حاکمیت ہے۔ اس حاکمیت کو شعوری طور پر تسلیم کرنے کے بعد ایک شاعر ہو یا ادیب، ایک صنعت کار ہو یا کاشت کار، ایک معلّم ہو یا ایک انجینیر اور طبیب، اس کی ہر ہر کاوش کا ہدف اور مقصد اس اصول کی پیروی سے وابستہ ہو جاتا ہے۔ وہ بہترین شعر کہنے کے بعد بھی یہی کہتا ہے کہ یہ میرا نہیں، میرے مالک کا کمال اور کرم ہے کہ اُس نے مجھ سے یہ بات کہلوا دی، حتیٰ کہ شعر کے سامعین بھی سبحان اللہ یا ماشا اللہ کہہ کر اصولِ توحید کی پیروی کرتے ہوئے برملا یہ اعلان کرتے ہیں کہ گو شعر عمدہ ہے لیکن تعریف کے قابل شاعر نہیں بلکہ اس کا خالقِ حقیقی اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہے۔ ایسے ہی ایک شخص ماہر معمار ہونے کے باوجود اپنے فنِ تعمیر میں کسی لمحے بھی توحید کے منافی کوئی پہلو نہیں آنے دیتا۔ چنانچہ مسجد کی تعمیر ہو یا کسی قلعہ، محل یا گھر کی تعمیر، جو اصول اس کی تعمیر کو دیگر عقائد کے معماروں سے ممتاز کرتا ہے وہ توحید کی تطبیق ہے۔ چنانچہ نقش و نگار اور بیل بوٹے زبانِ حال سے یہ گواہی دیتے ہیں کہ ان کی تزئین کرنے والا توحید پر یقین کے سبب نہ حیوانات کی، نہ انسانوں کی شبیہہ بناتا ہے، نہ ایسے مناظر اپنے فن میں لاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے والے ہوں۔ چنانچہ اسپین میں مسلمانوں کا فنِ تعمیر ہو یا شام، عراق، ترکی، وسط ایشیا اور جنوب ایشیا کے اعلیٰ تعمیراتی فن کے مظاہر، ہر عمارت انجینیر اور معمار کے ذہن، فکر اور عقیدے کا پتا دیتی ہے۔

شریعت یا الہامی قانون کا مقصد اولاً تمام قوانین پر اللہ کی بھیجی ہوئی شریعت کو حاوی کرنے کے ساتھ ساتھ تمام انسانیت کو وحدت کے رشتے میں پرو دینا بھی ہے۔ چنانچہ جہاں ایک مسلمان کے لیے توحید کا مفہوم اللہ وحدہٗ لاشریک کی حاکمیت و ربوبیت کا اقرار اور اپنے عمل سے اس کی تصدیق ہے، اس طرح ایک مشرک اور غیرمسلم کے لیے توحید کے مفہوم کا تقاضا اور مطالبہ اپنی زندگی سے تضادات کو دُور کرکے زندگی میں وحدانیت کا پیدا کرنا ہے۔ ایک غیرمسلم کے لیے بھی توحید میں یہ پیغام ہے کہ وہ دوہرے اخلاقی معیار کی جگہ زندگی میں وحدت قائم کرتے ہوئے سچائی، عدل، وفاداری اور پاکیزگی کو اپنا شعار بنائے اور جس طرح پوری کائنات نے تکوینی طور پر اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے اخلاقی اصولوں کی پیروی اختیار کرلی ہے اور ہوائیں ہوں یا تیزرفتار دریا، سمندر ہوں یا پہاڑ اور درخت یا چرندپرند سب اللہ کے بنائے ہوئے ضابطے کی پیروی کر رہے ہیں اور اس طرح تضاد اور ٹکرائو سے بچے ہوئے ہیں، بالکل اسی طرح کائنات میں وحدانیت کے پیش نظر وہ اپنی گھریلو زندگی اور سیاسی، معاشی، قانونی اور ثقافتی سرگرمیوں میں تضاد کو چھوڑ کر یک جہتی کے اصول کی پیروی اختیار کرلے۔ شریعت کی اصطلاح میں اسی کو توحید کہا جاتا ہے۔

اگر ایک تہذیب و ثقافت اس اصول کو مان لے تو وہ شعوری طور پر اپنے اندر کے تضادات کو دُور کرنے پر آمادہ ہوجاتی ہے اور بیک وقت بہت سے خدائوں کی بندگی سے نکل کر صرف ایک اصل کو اپنی بنیاد مان لیتی ہے۔ ان بہت سے خدائوں میں عصبیت کا خدا، ذات اور برادری کا خدا، عریانیت اور تکبر کا خدا ہی نہیں بلکہ وہ سب خدا بھی شامل ہیں جنھیں ہم روزگار، اقتدار اور دیگر مفادات کے خدا کہہ سکتے ہیں۔ زندگی میں وحدانیت کے قیام سے ان سب محدود، نمایشی اور زمینی خدائوں کے بجاے ایک فرد کی معاشی، سیاسی، معاشرتی، قانونی سرگرمیوں کا مقصد صرف ایک مالک اور آقا کے دیے ہوئے احکامات و تعلیمات کو زندگی اور معاشرے میں نافذ کرنا قرار پاتا ہے۔

اگر غور کیا جائے تو جن اصولوں اور اقدار کو ہم مقصد ِ شریعت قرار دیتے ہیں وہ مقصد ِ انسانیت بھی ہیں۔ انسانیت رنگ، نسل، عمر، جغرافیائی حدود سے ماورا وہ بنیاد ہے جو تمام انسانوں کو ایک  ماں باپ کی اولاد سمجھتے ہوئے یکساں بنیادی انسانی حقوق سے نوازتی ہے۔ اسی انسانیت کو اگر جغرافیائی سرحدوں، رنگ، نسل، ذات اور زبان کی تقسیم میں بانٹ دیا جائے تو ہرلمحے تضادات، ٹکرائو اور توڑ پھوڑ کا شکار ہونا اس کی قسمت بن جاتا ہے۔ گویا پہلا اصول (توحید) نہ صرف    اہلِ ایمان بلکہ بشمول غیرمسلمین، تمام انسانوں کے لیے، وجۂ اتحاد فراہم کرتے ہوئے، وحدتِ انسانیت کے قیام کا سبب بنتا ہے اور اس طرح بیک وقت مقصد ِ شریعت، مقصد ِ انسانیت کے لیے پہلی بنیاد اور اساس کی حیثیت رکھتا ہے۔

دوسرا بنیادی اصول جو شریعت کا مقصد بھی ہے اور جو انسانیت کے لیے بھی ایک رہنما اصول کی حیثیت رکھتا ہے۔ قرآن کریم کی وہ قدر ہے جسے ہم ’عدل‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ محدود انسانی عقل و نظر کی بنا پر ہم نے بالعموم اس سے وہ انصاف مراد لیا ہے جو عدالتوں، پنچایتوں یا جرگوں کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے جب کہ عدل ایک انتہائی وسیع، جامع اور عملی اصطلاح ہے جو معاشرتی، معاشی، سیاسی،مذہبی، اخلاقی اور ثقافتی و تہذیبی سرگرمیوں کو معنویت عطا کرتی ہے۔

اگر گہری نگاہ سے دیکھا جائے تو انفرادی سطح پر اگر ایک شخص اپنے نفس کا حق ادا نہیں کرتا، اپنی غذا، روحانی ضروریات، آرام اور کارکردگی میں عدم توازن کا شکار رہتا ہے تو اسلام اسے نفس پر ظلم قرار دیتا ہے۔ اگر وہ اپنے اہلِ خانہ کا حق ادا نہیں کرتا یا اپنے اعزہ و اقارب کو ان کا حصہ نہیں دیتا تو ان پر اور اپنے اُوپر ظلم کا مرتکب ہوتا ہے۔ ایسے ہی اگر وہ اپنے اہلِ محلہ کا حق ادا نہیں کرتا تو ان پر ظلم کا مجرم ٹھیرتا ہے۔ گویا عدل انفرادی اور معاشرتی سطح پر ایک مسلمان اور غیرمسلم دونوں کے لیے یکساں اہمیت رکھتا ہے اور صحت مند معاشرے کے قیام کے لیے مذہب، نسل، لون و لسان کی قید سے ماورا ہوکر شریعت تمام انسانوں کے لیے عدل کا قیام چاہتی ہے۔ چنانچہ اگر یہ کہا جائے کہ بقیہ تمام مقاصد ِشریعت اور مقاصد ِ انسانیت ان اولین دو ناقابلِ تغیر اصولوں کی پیروی اور اتباع کرتے ہیں تو مبالغہ نہ ہوگا۔

اگر غور کیا جائے تو تیسرا اہم مقصد ِشریعت جو مقصد ِ انسانیت بھی ہے یعنی انسانی جان کا تحفظ و بقا، دونوں اوّلین اصولوں سے وابستہ ہے اور اسلامی ثقافت و فکر میں بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ قرآن کریم نے مختلف مقامات پر اس اصول کو واضح الفاظ میں بیان کیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے: ’’قتلِ نفس کا ارتکاب نہ کرو جسے اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ‘‘ (بنی اسرائیل ۱۷:۳۳)۔مزید ’’جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اوروجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی‘‘۔ (المائدہ ۵:۳۲)

گویا قتلِ ناحق اولین تینوں مقاصد سے متصادم عمل ہے۔ یہ ایک جانب اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی حرام کی ہوئی جان کا ضائع کرنا اور اس کی صریح حکم عدولی کی بنا پر توحید کی نفی کرتا ہے۔ دوسری جانب حق کے منافی ہونے کی بناپر عدل کے اصول سے ٹکراتا ہے۔ تیسری جانب انسانیت کی بقا وتحفظ کی جگہ انسانیت کی تباہی و بربادی کا باعث بنتا ہے۔ نتیجتاً جو تہذیب و ثقافت توحید، عدل اور حرمت ِ نفس کے مثبت اصولوں پر قائم ہوگی اس میں نہ صرف حاکمیت الٰہی اور ربوبیت ِ خداوندی کی بنا پر انسانوں کے طرزِعمل میں بغاوت و تکبر کی جگہ اطاعت و بندگیِ رب ہوگی بلکہ انسان اپنے ساتھ، اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ، اپنے اہلِ وطن کے ساتھ، اپنے سیاسی، معاشی اور ثقافتی معاملات میں عدل سے کام لیں گے اور انسانی جان کی حرمت کے سبب زمین میں فساد، دہشت گردی اور  بے گناہوں کا خون بہانے سے احتراز کریں گے۔ ایسی تہذیب و ثقافت میں تشدد، درندگی، حقوق کی پامالی اور ناانصافی کے بجاے امن، سکون، تحفظ اور انسانیت پائی جائے گی۔

یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ دوسرے بنیادی اصول یامقصد (عدل) کے وسیع تر مفہوم پر غور کیا جائے تو سیاسی میدان میں افراد کا حق خود ارادیت، حقِ اجتماع، اظہار راے کی آزادی، تمام مناصب تک یکساں پہنچ، ملکی معاملات میں مشاورت میں شمولیت، سیاسی مسائل میں حق تنقید اور سیاسی رہنمائوں کا احتساب وہ بنیادی پہلو ہیں جن کے بغیر سیاسی عدل کا قیام نہیں ہوسکتا۔ ایسے ہی معاشی معاملات میں ایک فرد کا دولت پیدا کرنے کا حق، وراثت اور ہبہ کے ذریعے حصولِ مال، بازار میں مال کی افادیت کے پیش نظر معاشی دوڑ میں حصے کا حق، محنت کا جائز معاوضہ، ذخیرہ اندوزی کی ممانعت، دولت کی مصنفانہ تقسیم وہ بنیادی پہلو ہیں جو معاشی عدل کے قیام کے لیے شرط کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایسے ہی قانونی نقطۂ نظر سے ایک شہری کا دوسرے کے مقابلے میں بغیر تفریق مذہب و ملّت انصاف کا حصول، قوانین کا شفاف ہونا، نفاذ قانون میں اصول پرستی، حکام اور قاضیوں کا اہل، غیر جانب دار اور عدلیہ کا مکمل طور پر آزاد ہونا عدل کے قیام کے لیے ضروری ہیں۔ عدل کے ثقافتی پہلو بھی کچھ کم اہم نہیں۔ اگر کسی قوم پر بیرونی ثقافت مسلط کردی جائے، اس پر غیرملکی زبان، روایات، رہن سہن لباس، حتیٰ کہ شعروادب بلکہ لطائف بھی کسی دوسری ثقافت و تہذیب سے مستعار لے کر ذرائع ابلاغ کے ذریعے اس کے دل و دماغ میں اُتارنے کی کوشش کی جائے تو یہ عدل کے منافی ہے۔ اس وسیع تر تناظر میں توحید اور عدل دو ایسی بنیادیں اور اصول معلوم ہوتے ہیں جو بقیہ مقاصد کے ساتھ جوہری تعلق اور وابستگی رکھتے ہیں۔

توحید، عدل اور حرمت نفس کے اہم اور بنیادی مقاصد کے بعد اسلامی تہذیب و ثقافت کی چوتھی بنیاد اور مقصد ِ شریعت عقل و تمیز کی حریت ہے، یعنی شریعت ایسی تہذیب و ثقافت کا وجود چاہتی ہے جس میں انسان آزادیِ راے کا استعمال، دانش اور ہوش کی بنیاد پر کریں، جذبات میں اندھے ہوکر یا نشے میں مدہوش ہوکر نہ کریں۔ یہی وجہ ہے خمر (جو عقل کو ڈھانپ لے) یا سکر کو حرام قرار دیا گیا کہ شراب یا دیگر منشیات کا استعمال انسان کی عقل کو مائوف کردیتا ہے اور وہ سلامتیِ فکر اور آزادیِ راے کے ساتھ کوئی فیصلہ نہیں کرپاتا۔ ایک ایسی تہذیب و ثقافت کو جس کی بنیاد ہی شراب پر ہو اور جو شام ڈھلنے کا مقصد ہی یہ قرار دے کہ لوگ شراب خانوں، ناچ گھروں اور بُرائی کے اڈوں میں جاکر مدہوش ہوکر شام منائیں، ایک عقل دشمن اور فسق و فجور کی شائق تہذیب ہی کہا جاسکتا ہے۔

ایسی تہذیب و ثقافت عقل و دانش کے احیا و ترقی کی جگہ جذباتیت اور نفسانیت ہی کو فروغ دے سکتی ہے۔ اسلامی تہذیب و ثقافت میں اس قسم کے طرزِعمل اور رویے کی کوئی گنجایش نہیں۔ اسلامی ثقافت و تہذیب ایک پاکیزہ، ہوش مند اور عقل ودانش پر مبنی ثقافت ہے جہاں علم، معرفت، ذکروفکر، بھلائی اور معروف کی اشاعت کی بنیاد پر اخلاقی رویوں کا تعین ہوتا ہے۔

پانچواں اہم مقصد شریعت اہلِ ایمان کے دین کا تحفظ و ترقی ہے۔ چنانچہ قرآن کریم دین کی اصطلاح کو عبادات، مثلاً صلوٰۃ و زکوٰۃ، صیام اور عمرہ اور حج کے حوالے سے استعمال کرتا ہے اور ان کے متعین وقت پر توجہ اور شعور کے ساتھ ادا کرنے کو، نہ کہ میکانکی طور پر ان کی ادایگی کو، اسلامی تہذیب و ثقافت کی پہچان قرار دیتا ہے۔ قرآن کریم میں دین کی اصطلاح کو نہ صرف عبادت بلکہ اسلامی قوانین کے نفاذ کے لیے بھی استعمال کیا گیا ہے۔ چنانچہ سورئہ نور میں فرمایا گیا کہ بداخلاقی کے مرتکب مرد اور عورت پر حد کا اجرا کیا جائے اور اس طرح دین کے قیام میں تکلف، تردّد یا معذرت نہ کی جائے۔ چنانچہ حدود کے اجرا کو دین قرار دے کر قرآن کریم نے اصطلاح کے اس پہلو کو اجاگر کردیا (النور ۲۴:۲)۔ دین کے قیام اور تحفظ کے حوالے سے یہ بات بھی قرآن کریم نے سمجھائی ہے کہ انسانوں پر انسانوں کی حاکمیت کی جگہ اللہ رب العزت کی حاکمیت کو قائم کرنا اور اس کے نام کو بلند کرتے ہوئے تمام سیاسی اختیارات میں اسے حرفِ آخر قرار دینا ہی درحقیقت دین ہے۔ چنانچہ سورئہ یوسف میں فرمایا گیا: ’’اے زنداں کے ساتھیو! تم خود ہی سوچو کہ بہت سے متفرق رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب پر غالب ہے، اس کو چھوڑ کر تم جس کی بندگی کر رہے ہو وہ اس کے سوا کچھ نہیںہیں کہ بس چند نام ہیںجو تم نے اور تمھارے آباو اجداد نے رکھ لیے ہیں، اللہ نے اُن کے لیے کوئی سند نازل نہیں کی۔ حاکمیت و اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔ اس کا حکم ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو، یہی صحیح اور مستحکم دین ہے‘‘۔ (یوسف ۱۲:۴۰)

گویا دین سیاسی اقتدار کو اللہ کی مرضی کے تابع کرنے کا نام ہے جو شریعت کا ایک بنیادی مقصد ہے۔ یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ جہاں دین کا تحفظ و بقا دین اسلام کی برتری اور الحق ہونے سے تعبیر ہے وہیں اسلام یہ بھی چاہتا ہے کہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو ان کے مراسمِ عبودیت کی مکمل آزادی اور تحفظ حاصل ہو۔ چنانچہ ان کے عبادت خانوں کا تحفظ اور ان کی مذہبی آزادی کا حق بھی شریعت کے مقاصد میں شامل ہے۔ یہ بات محتاجِ دلیل نہیں کہ غیرمسلم شہریوں کے حقوق بطور ایک شہری کے وہی ہیں جو مسلمانوں کے ہیں۔

کسی بھی مسلم ریاست کے غیرمسلم شہری ان تمام ریاستی حقوق کے مستحق ہیں جو عام حالات میں مسلمانوں کو ملتے ہیں۔ قرآن کریم یہ وضاحت کرنے کے بعد کہ دین، اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہی ہے، اہلِ کتاب حتیٰ کہ مشرکوں کو بھی اسلامی ریاست میں ان کے مراسمِ عبودیت سے محروم نہیں کرتا اور انھیں مکمل تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اس حیثیت سے اسلام وہ واحد دین ہے جو اپنی حقانیت، کاملیت اور جامعیت کے باوجود دیگر مذاہب کے ساتھ ایک مسلسل مکالمے کی شکل اختیار کرتا ہے اور ان پر اسلام کو زبردستی نافذ نہیں کرنا چاہتا۔ صحیح معنوں میں اس طرزِعمل کو مذہبی کثرتیت (religious pluralism) بھی کہا جاسکتا ہے اور یہ پہلو بھی اسلامی تہذیب و ثقافت کی ایک  منفرد مثبت خصوصیت یعنی رواداری کی نشان دہی کرتا ہے۔

چھٹا مقصد شریعت انسانی نسل کی بقا اور انسانی عزت و وقار کا تحفظ ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ انسانی برادری میں تعلقات کی بنیاد اخلاقی اور قانونی رشتوں پر استوار ہو۔ چنانچہ شریعت کا ایک مقصد ان رشتوں کے احترام یا حُرمت کو برقرار رکھنا ہے۔ اس غرض کے لیے نکاح کا ادارہ قائم کرنا اور زنا کو حرام قرار دیا جانا آنے والی نسلوں کے تشخص و انفرادیت کو تحفظ دیتا ہے اور خاندان کے ادارے کو تہذیب و ثقافت کی بنیاد قرار دیتا ہے۔ اگر انسانی جین (Gene) کا احترام نہ کیا جائے اور آزاد جنسی تعلقات کو ’انسانی حق‘ تسلیم کرلیا جائے تو معاشرے میں ایسے افراد کی کثرت ہوسکتی ہے جو بظاہر تو اعلیٰ تعلیم سے آراستہ ہوں لیکن خود اپنے نقطۂ آغاز اور اپنی آفرینش کے مقصد تک سے واقف نہ ہوں اور نتیجتاً معاشرتی اور خاندانی رشتوں کے قائم نہ ہونے کے نتیجے میں معاشرے کی بنیادی اکائی یعنی خاندان کا وجود معدوم ہوجائے اور بنیاد کے تباہ ہونے کے سبب خود تہذیب و ثقافت فطری موت سے ہمکنار ہوجائے۔ تہذیب و ثقافت معاشرے کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے اور اگر انسانی معاشرہ ہی باقی نہ رہے تو ثقافت بھی برقرار نہیں رہ سکتی۔

ساتواں مقصد شریعت احترامِ مال ہے یعنی شریعت یہ چاہتی ہے کہ انسانی معاشرے میں معاشی عدل ہو، معاشی اخلاقیات پر عمل کے نتیجے میں ہر فرد کی ملکیت ظلم و استحصال سے محفوظ ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ منصفانہ تقسیم دولت، وسائلِ فطرت سے استفادے کی آزادی اور معاشی لوٹ کھسوٹ سے تحفظ کا نظام پایا جائے۔ اس سے یہ مراد نہیں لی جاسکتی کہ اسلام اگر انفرادی حق ملکیت کو تسلیم کرتا ہے تو شریعت کا جھکائو سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کی طرف ہے۔ اسلام جہاں انفرادی ملکیت کے حق کو بعض شرائط کے ساتھ تسلیم کرتا ہے وہاں ہر صاحب ِحیثیت فرد پر معاشرتی ذمہ داریاں  بھی عائد کرتا ہے تاکہ دولت کی گردش، تقسیمِ دولت اور ضرورت مندوں کی ضروریات کی تسکین میں کوئی فرق نہ آنے پائے۔

ان سات مقاصد کے علاوہ بھی دیگر مقاصد پر علماے فقہ نے بحث کی ہے اور تفصیلات سے آگاہ کیا ہے لیکن ہم یہاں صرف ان معروف مقاصد کے حوالے سے یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ یہ مقاصد نہ صرف شریعت کے مقاصد ہیں جن کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ہمیں دین اسلام جیسی نعمت سے نوازا اور ہم سے قبل بنی اسرائیل کو ان ہی مقاصد کے حصول کے لیے تورات کی شکل میں شریعت دی، بلکہ اگر دیکھا جائے تو یہی مقاصد، مقاصدِ انسانیت بھی ہیں یعنی انسانیت کے اہداف اور اس کی منزلِ مقصود اور اس کے مطلوبہ انسان، معاشرہ، سیاسی نظام، معاشی نظام اور قانونی نظام کی بنیاد ہیں۔ یہی وہ اصول اور اہداف ہیں جن کو اگر پیش نظر رکھا جائے تو اسلامی تہذیب و ثقافت وجود میں آتی ہے اور اس کی فکری، عملی سرگرمیاں ان مقاصد کے حصول کے لیے اپنی تمام قوتوں کے ساتھ سرگرمِ عمل رہتی ہیں۔ جہاں یہ مقاصد اہلِ ایمان کو ایمان کے تقاضوں سے آگاہ کرتے ہیں وہیں یہی مقاصد غیرمسلموں کو انسانیت کے مقصد کے حوالے سے زندگی گزارنے کے لیے ایک عالم گیر اخلاقی ضابطے سے روشناس کراتے ہیں تاکہ غیرمسلم رہتے ہوئے بھی وہ اپنی زندگی میں وحدانیت پیدا کرسکیں۔ جادئہ عدل سے نہ ہٹیں اور اپنے معاملات میں انسانی زندگی بلکہ حیوانی اور ماحولیاتی زندگی کا بھی احترام کرنا سیکھیں۔

یہ مقاصد ِ شریعت ایک مسلمان کی زندگی کی تمام سرگرمیوں کے مقصد و منزل کا تعین کرتے ہیں۔ اپنی عالم گیریت اور مقاصد ِ انسانیت ہونے کے سبب یہ مقاصد غیرمسلموں کو بھی زندگی کے اہم معاملات میں رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے جو تہذیب جہاں کہیں بھی قائم ہوگی وہ اسلامی تہذیب و ثقافت کہلائے گی اور اس کے پھل نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ غیرمسلموں کے لیے بھی مفید ثابت ہوں گے۔

مقاصد کی اس مختصر گفتگو سے یہ بات واضح ہوکر سامنے آتی ہے کہ اسلامی فکروثقافت دراصل الہامی ہدایت، شریعت اور اس کے مقاصد کی تکمیل کے لیے ہی وجود میں آتی ہے۔ دین کی سرفرازی ہی ایک مومن کا مقصد ِ حیات ہے اور شریعت کا جامع اور مکمل طور پر نفاذ انسانیت کی فلاح اور ترقی کے لیے ایک لازمے کی حیثیت رکھتا ہے۔ جبر اور زبردستی کے ساتھ محض چند سزائوں کے نفاذ سے نفاذِ شریعت کا کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ عمل ایک ثمربار تہذیب و ثقافت کی بنیاد اور نشوو ارتقا کے لیے قوتِ محرکہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب!


(ڈاکٹر انیس احمد کے سلسلہ وار مقالے ’اسلامی فکروثقافت کی قرآنی بنیادیں‘ کی یہ چھٹی اور آخری قسط ہے۔)

بے نظیر بھٹو کی زندگی کا آخری سیاسی کارنامہ ’قومی مفاہمتی آرڈی ننس‘ (NRO- National Reconciliation Ordinance) تھا اور آخری کتاب Reconciliation۔ [کتاب کا پورا نام: مفاہمت: اسلام، جمہوریت اور مغرب ہے۔] وہ ۲۷دسمبر ۲۰۰۷ء    کی شام جلسۂ عام میں رونما ایک الم ناک حملے میں جاں بحق ہوئیں۔ اگلے روز ۲۸دسمبر کو     مارک اے سیگل نے اس کتاب کا دیباچہ لکھا، جب کہ ساتویں روز ۳ جنوری ۲۰۰۸ء کو ان کے شوہر  آصف علی زرداری، بیٹے بلاول اور بیٹیوں بختاور اور آصفہ نے کتاب کا اختتامیہ قلم بند کیا۔ ۳۲۸صفحات پر مشتمل یہ کتاب سائمن اینڈ شسٹر نے لندن، نیویارک اور ٹورنٹو سے ۲۰۰۸ء کے اوائل میں شائع کی ہے۔

عجیب اتفاق ہے کہ اس کتاب کا عنوان ہے: ’مفاہمت‘ مگر کتاب کے مندرجات میں کہیں کسی ایک سطر میں بھی مذکورہ ’مفاہمتی آرڈی ننس‘ کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی، حالانکہ اسی آرڈی ننس کی بنیاد پر نہ صرف ان کی جلاوطنی ختم ہوئی بلکہ ان پر اور ان کے شوہر آصف علی زرداری پر قائم کرپشن کے مقدمات ختم ہوئے اور سیاست میں ان کی واپسی ممکن ہوئی اور اس کے نتیجے میں پیپلزپارٹی کو نئی زندگی اور زرداری صاحب کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی صدارت ملی۔ ’مفاہمت‘ (deal) کے بارے میں یہ پُراسرار خاموشی بہت معنی خیز ہے۔

اس کتاب میں جو چیز زیربحث ہے وہ مغرب بلکہ امریکا اور مسلمان ہیں، مسلمان بھی وہ، جنھیں کٹہرے میں کھڑے ملزم بلکہ مجرم بن کر پیش کیا گیا ہے۔ کتاب کے مباحث کی تکرار، اس میں موجود پیغام کے رنگ اور اس کے اسلوبِ نگارش کو دیکھ کر بسااوقات یوں محسوس ہوتا ہے کہ  اس کتاب کا بیش تر حصہ بے نظیر بھٹو کا لکھا ہوا نہیں ہے، تاہم پیپلزپارٹی کے جنرل سیکرٹری جہانگیر بدر نے اس کتاب کو بے نظیر بھٹو کی: ’’وراثت کی آخری کڑی اور نعرئہ حق کی ایسی صدا قرار دیا ہے، جس کی بازگشت آنے والے زمانوں میں بھی گونجتی رہے گی‘‘۔ پاکستان کی ایک اہم سیاسی پارٹی کی رہنما سے منسوب اس کتاب کا مطالعہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس میں بیان کردہ وژن کو سمجھا جائے، اور جسے وصیت یا وراثت کہا گیا ہے، اس میں پائے جانے والے پیغام کے مضمرات کا احاطہ کیا جائے۔

کتاب میں متعدد مقامات ایسے ہیں کہ ان تحریروں کے اثرات مستقبل پر اثرانداز ہوں گے، اس لیے ضروری ہے کہ حق کی گواہی دی جائے۔ انسانی جان کا قتل جتنا بڑا جرم ہے، کم و بیش اتنا ہی بڑا جرم تاریخ کا قتل ہے۔ علمِ تاریخ، انسانی تجربے، اجتماعی زندگی کے حادثے، اور کارنامے کو اگلی نسلوں تک منتقل کرنے کا محضرنامہ ہوتا ہے۔ کیا ’مفاہمت‘ کے نام پر ’نفرت‘ کا درس دینا کوئی مناسب عمل ہے؟ اگرچہ کتاب کے دو تہائی مباحث اس امر کا مطالبہ کرتے ہیں کہ ان پر غور کرکے ان کا بے لاگ تجزیہ کیا جائے۔ مگر زیرنظر صفحات میں اس قدر تفصیل کی گنجایش نہیں، اس لیے ہم اپنے تجزیے کو صرف دو ایک مرکزی موضوعات ہی تک محدود رکھیں گے۔ اس مبحث کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا رہا ہے: ۱-اسلام اور عالمِ اسلام ۲- سید قطب، مولانا مودودی اور جماعت اسلامی۔

اسلام اور عالمِ اسلام

یہ درست ہے کہ دینی امور پر بات کرنا کسی فرد کی اجارہ داری نہیں ہے۔ مصنفہ نے اس کتاب میں متعدد جگہ دینی معاملات پر اپنے نتیجہ ٔ فکر کو پیش کیا ہے۔ اپنی بات کہنا ان کا حق ہے، مگر اس میں بہرحال یہ ضرور دیکھا جائے گا کہ وہ بات درست ہے یا نہیں۔ ایک جگہ لکھا ہے:

قرآن کی تفسیر میں یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ تفسیر کون کر رہا ہے۔ کئی مسلمان، خصوصاً جن کا تعلق مذہبی حکومتوں سے ہے، یقین رکھتے ہیں کہ صرف چند مخصوص لوگوں ہی کو قرآن کی تفسیرکرنے کا حق حاصل ہے، حالانکہ یہ بات درست نہیں ہے۔ قرآن کی تفسیر کو کسی ایک فرد یا مجلس تک محدود نہیں رکھا گیا۔ قرآن کی تفسیر کرنے کی آزادی ہرمسلمان کو حاصل ہے۔ تمام مسلمانوں کو قرآن کی تفسیر کرنے کا حق دینے کی ضمانت (یعنی حق اجتہاد) حاصل ہے۔ (ص ۶۵)

یہ لطیف نکتہ تو بڑے بڑے روشن خیالوں کو بھی نہ سوجھا تھا کہ قرآن کی تفسیر کرنے کا حق ہرفرد کو ہے۔ علما نے کہیں نہیں کہا کہ تفسیر کرنے کا حق ہمیں حاصل ہے، بلکہ انھوں نے صرف یہ کہا ہے کہ تفسیر کے لیے علم اور تقویٰ، عربی اور دینی نظائر پر گہری دسترس حاصل ہونی چاہیے، اور جو فرد بھی یہ دسترس حاصل کرلے وہ تفسیر کرسکتا ہے۔علما نے یہ بھی کہیں نہیں کہا کہ کسی مخصوص نسلی طبقے کو  یہ حق حاصل ہے، مگر انھوں نے یہ ضرور کہا کہ قرآن کے مفسر کو دین دار اور خدا ترس بھی ہونا چاہیے۔ مذکورہ پیراگراف میں مصنفہ نے ’اجتہاد‘ کو بھی ہرشہری کا ایسا حق قرار دینے کی کوشش کی ہے، جیساکہ وہ قانون کی تشریح کے لیے علم سے بے بہرہ ہرکس و ناکس کو حق دینے کے لیے    آمادہ نہیں ہوسکتیں، آخر یہ آزاد روی صرف دین اسلام کے ساتھ ہی کیوں؟مصنفہ نے برعظیم پاک و ہند میں جن افراد کو علمِ دین کی وضاحت کے لیے نامزد فرمایا ہے، وہ ہیں: ’’مولانا وحیدالدین اور خالد مسعود جیسے زندہ مصلح، جو اپنے جدت پسند علمِ دین کو ریاست کے ظلم وستم یا دھونس کا نشانہ بنائے بغیر پڑھا سکتے ہیں‘‘ (ص ۲۸۴)___ عورتوں کے حقوق پر بحث کرتے ہوئے لکھا گیا ہے:

حقیقت یہ ہے کہ پردے (veil) یا برقعے کا تعلق زیادہ تر قبائلی روایات سے ہے۔ روایت پرست ماضی میں صاحب ِ ثروت خواتین صرف عزیزوں کی شادیوں یا جنازوں میں شریک ہونے کے لیے گھروں سے نکلتی تھیں۔ یہ اُس وقت اِس خطے کا عام چلن تھا، مگر کسی بھی حوالے سے اسلام کی تعلیم نہیں تھا۔ (ص ۴۲)

اگر پردہ کرنا قبائلی روایت کا حصہ ہے تو پھر پردہ نہ کرنا بھی تو کسی قبیلے کی روایت کا حصہ ہوسکتا ہے۔ کیا عہد ِ رسالتؐ و عہدصحابہؓ میں یہ چیزیں محض قبائلی سلسلے کی کڑیاں تھیں یا ان کے لیے قرآن و سنت اور اسلامی روایات کا ایک گراں قدر تسلسل ہمیں رہنمائی دیتا آیا ہے؟ تاہم پردے یا حجاب کی شکلیں مختلف ادوار میں لوگوں کے ذوق اور ضرورت کے مطابق تبدیل ہوتی رہی ہیں۔ یہ چیز روایت کی اسیری یا دولت کے اظہار کا ذریعہ بھی نہیں تھی۔ مسلمان عورتیں کبھی جنازوں میں نہیں جایا کرتیں۔ اور آخر میں ان کا یہ لکھنا کہ ’’پردہ کسی بھی حوالے سے اسلام کی تعلیم نہیں‘‘۔ ایک بے بنیاد جسارت اور ایک غلط فتویٰ ہے ___ آگے چل کر وہ کہتی ہیں:

عورتوں کے لباس سے متعلق قرآن کی دو بڑی آیات کو حجاب کی دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، اور فقہا انھی کو استعمال کر کے عورتوں سے حجاب پہننے کا تقاضا کرتے ہیں--- حالانکہ آیت (الاحزاب:۶۷) خاص رسولؐ کے اہلِ بیت کے لیے ہے۔ (ص ۴۲)

مصنفہ کے نزدیک پردہ صرف بعد کے فقہا کی ذہنی اُپج ہے اور یہ کہ قرآن کا حکم صرف اور صرف رسولِؐ پاک کے اہلِ بیت اور بیویوں کے لیے تھا۔ یہ بصیرت افروز انکشاف، عبرت کے  کئی پہلو رکھتا ہے۔ انھوں نے مزید یہ بیان کیا ہے:

جب میں عُنفُوانِ شباب کو پہنچی تو میری والدہ [بیگم نصرت بھٹو صاحبہ] نے مجھ سے برقع (burqa) پہننے کے لیے کہا۔ [یہ سن کر] مجھے اچانک دنیا دھندلائی دھندلائی سی نظر آنے لگی۔ کپڑے کی اِن بندشوں تلے مجھے گرمی اور سانس لینے میں دقت محسوس ہوتی تھی۔ میرے والد [ذوالفقار علی بھٹو صاحب] نے مجھ پر صرف ایک نگاہ ڈالی اور کہا: ’’میری بیٹی کو پردہ (veil) کرنے کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔ میری والدہ نے فیصلہ کیا، اگر یہ پوری طرح لپیٹ لینے والا برقع نہیں پہنے گی تو پھر میں بھی نہیں پہنوں گی۔ اس طرح روایت شکنی کا آغاز ہوا--- اور رسولؐ نے تو کہا ہے کہ بہترین پردہ ’نظر کا پردہ‘ ہے۔ (ص ۴۳)

یہ واقعی انکشاف ہے کہ بیگم نصرت بھٹو صاحبہ نے اپنی بیٹی بے نظیر بھٹو کو برقعہ پہننے کے لیے کہا، مگر بھٹوصاحب نے پردے کی تجویز کو جھٹک دیا اور پھربیگم صاحبہ نے بھی برقع پہننے سے انکار کردیا۔ یوں روایت شکنی کا علَم بلند ہوا۔ اس میں توجہ طلب بات تو یہ ہے کہ بیگم صاحبہ ایک اصفہانی خاندان سے تعلق رکھنے والی ایران نژاد ماڈرن خاتون تھیں، جو بے نظیر کے سنِ بلوغت سے پہلے بھی کھلے چہرے کے ساتھ، سماجی مجالس میں شرکت کیا کرتی تھیں۔ جب انھوں نے خود برقع پہنا ہی نہیں تو ایسے میں، ان کی جانب سے ردعمل میں آکر برقع چھوڑنے کا اعلان ایک نئی بات ہے۔ اور جو بھٹو صاحب نے کہا یا جس تصور سے بے نظیر لرزاں و ترساں ہوئیں، وہ ان کا ذاتی احساس ہے، اس پر مزید کچھ کہنا لاحاصل ہے، تاہم قرآن، سنت، حدیث اور اسلامی سماجی روایات کو چھوڑ بھی دیں، تب بھی کم از کم ان تین حضرات کے بارے میں کیا کہیں گے جو اپنی وسیع المشربی کے باوجود پردے بلکہ برقعے کے قائل تھے، مراد ہیں: جدیدیت کے حدی خواں سرسیداحمد خاں، روشن خیالی کے ’امام‘ نیاز فتح پوری اور مغرب کے ظاہروباطن کے رازداں علامہ محمداقبال۔ کیا یہ لوگ بھی ’قبائلی طرزِ احساس کے قیدی‘ تھے؟ ___

مسلمانوں میں انتہا پسندی کا کھوج لگاتے ہوئے لکھتی ہیں:

ازمنہ وسطیٰ کے عالم احمد ابن تیمیہ [۱۲۶۲ء-۱۳۲۸ء]نے مسلمانوں اور غیرمسلموں کے درمیان ایک واضح حدِفاصل قائم کی اور کہا: ’’مسلم شہریوں کا یہ فرض ہے کہ ان [غیرمسلموں] کے خلاف بغاوت کریں اور جہاد کریں۔ اس فتوے کو کئی گروہوں نے نقل کیا۔ یوں ان کے نزدیک غیر مسلموں کے خلاف اعلانِ جہاد کرنا جائز ہے۔ (ص ۲۷-۲۸)

پہلی بات تو یہ ہے کہ امام ابن تیمیہ کو وحشی منگولوں کی بے رحمانہ یلغار روکنے کے لیے تلوار اٹھانا پڑی۔ اسلامی تاریخ کے اس عظیم محسن نے بذاتِ خود اس درندگی کو ایک ایسی سطح پر دیکھا، جس کا مشاہدہ ہمارے مغرب پلٹ اہلِ دانش نہیں کرسکتے۔ ظاہر ہے کہ حالت ِ جنگ اور تلواروں کی بارش میں وہ پھول کی پتیاں تو نچھاور نہیں کرسکتے تھے، بلکہ ایسی صورت حال میں اسلام جو رہنمائی دیتاہے، انھیں اس سے روشنی حاصل کرنا تھی۔ اب یہ مصنفہ یا ان کے مددگار اسکالروں کی تحقیق اور تخیل کی کرشمہ سازی ہے کہ امام ابن تیمیہ کے نزدیک ایک مسلمان کا کام ہروقت، ہر جگہ اورہر حالت میں یہی ہے کہ وہ غیرمسلموں پر جہاد کی تلواریں برساتا رہے۔ آگے چل کر ابن تیمیہ کو ان مجاہدین سے جوڑا گیا جو یہودی، نصرانی اور ہندو استعمار سے آزادی کے لیے مصروفِ جہاد ہیں۔ جو بات امام ابن تیمیہ نے کہی نہیں، اس کے لیے ان کو ذمہ دارکیوں قرار دیا جائے اور ان احوال و ظروف کو نظرانداز کیوں کیا جائے جس میں انھوں نے فتویٰ دیا اور تلوار اٹھانے کی بات کی تھی۔

اکیسویں صدی میں اہلِ مغرب کی تاریخ کروٹ لے رہی ہے، اور وہ سعودی حکمران جو ماضی میں ان کے ہاں ’اعتدال‘ کی علامت قرار دیے جاتے تھے، اب نئی عالمی صف بندی میں ان کے خلاف مغرب کی جانب سے گاہے گولہ باری دیکھنے میں آتی ہے۔ ۱۹۷۳ء میں سعودی فرماں روا شاہ فیصل بن عبدالعزیز نے اسرائیل کی پشت پناہی کرنے پر امریکا کو تیل کی سپلائی روکنے کی بات کی تو امریکی انتظامیہ نے ایک طرف دوستی اور دوسری جانب دشمنی اختیار کرنے کی دو رُخی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے سعودی مملکت کو نفرت کا نشانہ بنانا شروع کیا۔ اس کے ساتھ دوسرا شکار ’وہابیت‘ ہے۔ گذشتہ ۲۰۰ برس کے دوران مغربی استعماریوں نے ان کی اطاعت نہ کرنے والے مسلمانوں کو ’وہابی‘ کا نام دیا۔ اور ’وہابی‘ لفظ کے ساتھ متعدد بے بنیاد روایات منسوب کر کے مسلمانوں میں عمومی سطح پر نفرت کی آگ بھڑکائی گئی۔ موجودہ سعودی عرب کے علاقے نجد میں شیخ محمد بن عبدالوہاب (۹۲-۱۷۰۳ء) کے رفقا موجود تھے، تاہم بھارت، انڈونیشیا، چیچنیا، افریقہ وغیرہ میں جہاں بھی مسلم سرفروشوں نے گوری اقوام کے استعماری اقتدار کو للکارا تو انھیں وہابی کہہ کر بدنام کیا اور: ’’مارنے سے پہلے دشمن کو بُرا نام دینے‘‘ کی روایت کو آگے بڑھایا۔ مصنفہ نے لکھا ہے:

سُنّی اسلام میں اسلامی سُنّی شریعت کے چار مکاتب ہیں: حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی۔ سُنّی فرقے کے بیج سے ایک اور فرقہ نکل کر اُبھر رہا ہے جنھیں ’وہابی‘ کہا جاتا ہے، جو موجودہ دور میں سعودی عرب میں غالب اکثریت اور قوت رکھتا ہے۔ اس کے بانی محمد بن عبدالوہاب حنبلی مسلک کے پیرو تھے۔ سعودی بادشاہت، خاندانِ سعود پر مشتمل ہے اور وہابیت سلطنت کا سرکاری مذہب ہے۔ وہابیوں نے غیروہابی مسلمانوں کی قبریں مسمار کردیں۔ انھوں نے باجماعت نماز میں شرکت کو لازمی قرار دے دیا۔ وہابی خاص طور پر شیعہ مسلمانوں کے خلاف تھے۔ ۱۸۰۲ء میں وہابی افواج نے عراق میں کربلا پر قبضہ کرلیا اور اپنے ہتھے چڑھنے والے ہرمعلوم شیعہ مرد، عورت اور بچے کو موت کے گھاٹ اُتار دیا--- وہابیت ایک سخت گیر اور کٹّر مسلک ہے۔ یہ عیسائیوں، یہودیوں اور مسلمانوں کے چند فرقوں کو بھی مرتد قرار دیتا ہے۔ بعض وہابیوں کا کہنا ہے کہ شیعوں کو قتل کرنا ایک مذہبی فریضہ ہے۔ (ص ۵۱)

بلاشبہہ شیخ محمد بن عبدالوہاب کے رفقا نے ایسے مزار مسمار کیے تھے کہ جن پر ضعیف الاعتقادی کے باعث نذرونیاز اور توسّل و التجا کے عمل نے قبرپرستی کے قریب پہنچا دیا تھا مگر اس میں وہابی اور غیروہابی کی تمیز نہ تھی۔ اسی طرح باجماعت نماز کی ادایگی کسی وہابی کا حکم نہیں، بلکہ مردوں کے لیے یہ اللہ کے رسولؐ کا حکم ہے کہ وہ باجماعت نماز پڑھیں۔ ’وہابی سعودیوں‘ کو شیعہ مسلمانوں کا جانی دشمن قرار دینا بھی ایک افسانہ ہے اور کربلا پر ان کی یلغار کا جو نقشہ اس کتاب میں کھینچا گیا ہے وہ بذات خود فرقہ واریت کے شعلوں پر تیل چھڑکنے کے مترادف ہے۔ اس آگ کو بھڑکانے کے لیے مغرب کے پالیسی ساز نت نئے شوشے چھوڑتے رہتے ہیں۔ ہم یہاں پاکستان میں دیکھتے ہیں کہ شیعہ حضرات پر وقتاً فوقتاً افسوس ناک حملے کرنے والے چھوٹے سے جنگ جُو گروہ کا تعلق اہلِ حدیثوں (’وہابیوں‘) سے نہیں، بلکہ اس گروہ سے ہے کہ جس کے سیاسی گروپ کے ساتھ اکثر پیپلزپارٹی شراکتِ اقتدار کرتی چلی آرہی ہے۔ چونکہ سعودی مملکت اور خاص طور پر سلفیوں کو نشانہ بنانا آج کے مغربی حکمرانوں کو مطلوب ہے، اس لیے خاص طور پر اہلِ مغرب کے اس پروپیگنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے یہاں کہا گیا ہے کہ وہ ’عیسائیوں اور یہودیوں‘ کے دشمن ہیں۔ یہ اعلان مغربی تھنک ٹینک باربار کررہے ہیں، اور ان کی صداے بازگشت یہاں بھی موجود ہے۔ آگے چل کر لکھا ہے:

ترکی سے پاکستان تک کی مسلم آبادیوں میں مغرب، خصوصاً ریاست ہاے متحدہ امریکا کے لیے تحقیر اور دشمنی کے جذبات روز افزوں ہیں اور عراق کی جنگ [۱۹۹۱ء اور ۲۰۰۳ء تاحال] کو اس کی وجہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ فلسطین کی صورت حال کو ایک اور سبب کے طور پر سامنے لایا جاتا ہے۔ مغرب کی نام نہاد انحطاط پذیر اقدار کو بھی اکثر ایک حصے کے طور پر شاملِ بحث رکھا جاتا ہے۔ اپنے مسائل کے لیے دوسروں پر الزام دھرنا، اپنی ذمہ داری کو قبول کرنے سے کہیں زیادہ آسان ہے۔ [مغرب کے] غیرملکیوں اور نوآبادیاتی حاکموں کی مذمت بڑی آسانی اور بڑی تیزی سے کی جاتی ہے، مگر مسلم دنیا میں اپنے گریبان میں جھانکنے اور اپنی غلطیوں کو پہچاننے کے معاملے میں اتنی ہی کم آمادگی پائی جاتی ہے۔ (ص ۴)

’دانش وری‘ اور ’ٹھنڈے دل و دماغ‘ پر مبنی یہ بیان بھی مسلم دنیا کی مذمت اور امریکی حکومت کے لیے انسانیت سوز اقدامات کی طرف داری کا پہلو لیے ہوئے ہے۔ اصل بات آخر میں کی گئی ہے کہ مغرب اور نوآبادیاتی حاکموں کی مذمت ’بڑی آسانی اور بڑی تیزی‘سے کی جاتی ہے، مگر ’اپنے گریبان میں نہیں جھانکا جاتا‘۔

حقیقت یہ ہے کہ مسلم دنیا میں اپنی غلطیوں کو پہچاننے ، اور اپنے گریبان میں جھانک کر  اپنی خرابیوں کو دُور کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ صرف مغرب یا امریکا وغیرہ نہیں، بلکہ امریکا وغیرہ کے وہ دیسی ٹھیکے دار ہیں، جو سیاست اور اقتدار کے سرچشموں پر قابض ہیں، اور جنھیں استعماری حکمرانوں کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔ اسی چیز کا شعور رکھتے ہوئے مظلوم مسلمان، اپنے دکھوں کا سبب مغرب کی طاقتوں کو قرار دیتے ہیں اور یہ کوئی غلط بات بھی نہیں ہے۔ جس طرح وہ خود بھی گذشتہ برسوں میں پاکستانی آمر جنرل پرویز مشرف کو خرابی کا سبب قرار دیتی تھیں اور اس کا اہم ذمہ دار مغرب اور امریکا کو قرار دیتے ہوئے ان سے مطالبہ کرتی تھیں کہ وہ مشرف کی پشت پناہی چھوڑ دیں۔ یہ بات عام لوگ کہیں تو غلط، لیکن اگر وہ کہیں تو درست۔ غالباً اسی چیز کو ’خودمختاری‘ کہا جاتا ہے۔ اس سے قبل یہ بھی لکھا ہے:

دنیا بھر میں ایک ارب مسلمان جنگ ِ عراق پر غم و غصے کے اظہار میں اور اقوامِ متحدہ کی تائید کے بغیر امریکی فوجی مداخلت کے نتیجے میں مسلمانوں کی ہلاکتوں کی مذمت کرنے میں تو یک جا نظر آتے ہیں، مگر اس فرقہ وارانہ خانہ جنگی پر، جو اس سے کہیں زیادہ ہلاکتوں کا موجب بنی ہے، ایسے غم و غصے کا اظہار نہ ہونے کے برابر ہے۔ مسلم قائدین، عوام اور یہاں تک کہ دانش ور بھی شرم ناک طور پر اپنے برادر مسلمانوں کو بیرونی عناصر کے ہاتھوں پہنچنے والے نقصان پر تنقید کرنے میں خاصی سہولت محسوس کرتے ہیں، مگر [اس کے برعکس] جب مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں پر تشدد کی بات آتی ہے تو [ان پر] موت جیسی خاموشی چھا جاتی ہے۔ (ص ۳)

مسلمانوں کا زوال محض نوآبادیاتی نظام کی ناانصافی یا طاقت کی عالمی تقسیم کی وجہ سے نہیں ہوا۔ مسلم معاشروں کو خود بھی ذمہ دار اور جواب دہ ہونا پڑے گا۔ مسلم ممالک کے خزانے بھرے پڑے ہیں۔ (ص ۳۰۰)

چلیے، ان کم ظرف مسلمانوں کو تو مطلوبہ تنقید کرنے کی توفیق حاصل نہیں ہوئی، مگر اس کتاب کے اوراق پر یہ کارِعظیم بار بار کیا گیا ہے۔ کہاں عراق اور افغانستان میں مجموعی طور پر ۲۶لاکھ مسلمانوں کا قتل (جس میں پہلے روسی کمیونسٹ فوجوں کے ہاتھوں ۱۳ لاکھ افغانوں کے لیے موت اور پھر ۲۰۰۱ء کے بعد ان دونوں ملکوں میں مزید ۱۳ لاکھ بے گناہ انسانوں کا بہیمانہ قتل اور وہ بھی کسی ثبوت کے بغیر)۔ اس قتل پر احتجاج کرنے میں اس لیے مستقبل کے ’مسلم حکمران‘ لوگ خاصے محتاط ہیں کہ اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھنے کے لیے امریکا بہادر کی خوش نودی میں رخنہ آئے گا۔ مسلم دانش پر ماتم کناں مصنفہ کو یہ بات بھول گئی کہ جو فرقہ وارانہ خانہ جنگی انھیں نظر آرہی ہے،   وہ المیہ بھی دراصل اسی امریکی قبضے و یلغار اور مقامی لوگوں کا حق حکمرانی سلب کرنے کا نتیجہ ہے۔ اس لیے مسلم دانش اس المیے کو الگ حقیقت، جب کہ امریکی فوجی مداخلت اور اس سے پیدا شدہ وحشت و درندگی کو دوسری چیز سمجھتی ہے، تاہم مبالغہ آمیز فرقہ واریت کے افسانوی تذکرے سے بھری پڑی مسلم دنیا اسی کتاب کے اوراق پر نظر آتی ہے، حقائق کی دنیا میں نہیں:

مسلم دنیا کے اندر فرقوں، نظریوں اور اسلام کی تشریحات کے مابین ایک اندرونی خلیج، ایک متشدد محاذ آرائی موجود ہے، اور ہمیشہ موجود رہی ہے۔ اس تباہ کن کشیدگی نے بھائی کو بھائی کے خلاف لاکھڑا کیا ہے۔ آج مسلمانوں کے مابین یہ فرقہ وارانہ تشدد اس مجنونانہ، اور اپنی ہی جڑوں کو کاٹنے والی فرقہ وارانہ خانہ جنگی میں پوری طرح نظر آتا ہے۔ اور مسلم دنیا میں فرقہ واریت ہر موڑ پر نظر آتی ہے۔ (ص ۲)

میرے اس موقف کی تصدیق ہوتی ہے کہ ہمارے جدید دور کے اہم ترین تصادم اسلام اور مغرب کے درمیان نہیں، بلکہ اسلامی ریاستوں کے اندر اعتدال پسندوں اور جدیدیت کی قوتوں اور انتہا پسند اور جنونی قوتوں کے درمیان داخلی لڑائیوں کی صورت میں رونما ہوئے ہیں۔ (ص ۲۵۶)

مسلم دنیا، نظریوں اور فرقوں کی ایسی کسی عالم گیر اور متشدد محاذ آرائی کی تصویر پیش نہیں کرتی۔ اختلاف ہمیشہ اور ہر معاشرے میں رہا ہے، لیکن یہ گلے کاٹنے کا بحیثیت مجموعی ہولناک منظر یا تو اس کتاب میں نظر آتا ہے یا پھر سیکولر حلقوں کی اس خواہش کا پرتو ہے کہ دین کو اور دین دار طبقے کو بُرا کہنے کے لیے یہ بہانا تراشا جائے کہ دین اسلام تو بس فرقہ وارانہ لڑائیوں کا مذہب ہے۔ جس جنگ یا قتل و غارت کو کتاب میں پوری مسلم دنیا کا سرطان قرار دیا گیا ہے، وہ الم ناک فضا ’مہذب‘ امریکا اور اس کے اتحادیوں اور مسلم دنیا میں اس کے باج گزار حکمرانوں کی حکمت عملیوں کا نتیجہ ہے، اور وہ افسوس ناک صورت حال بھی انھی علاقوں میں ہے جہاں انھوں نے استعماری قبضہ جما رکھا ہے___ وضاحت کرتے ہوئے یہ بھی لکھا ہے:

۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے حملوں نے تصورِ خلافت سے تحریک حاصل کرنے والی خوں ریز محاذآرائی کے ہراول دستے، یعنی صلیبی جنگوں کی آمد کا اعلان کیا۔ جب جڑواں ٹاوروں کے جلنے اور منہدم ہونے کی تصویر ٹیلی وژن پر دکھائی گئی تو مسلم دنیا میں اس کا خیرمقدم دو مختلف طریقوں سے کیا گیا: ایک بڑی تعداد کا، اگرچہ بہت بڑی تعداد نہیں، ردِعمل خوف، خفت اور شرمندگی کا تھا، جب [اس پر] یہ واضح ہوا کہ تاریخ میں دہشت گردی کا یہ سب سے بڑا واقعہ اللہ اور جہاد کے نام پر مسلمانوں کے ہاتھوں انجام پایا ہے۔ مگر ایک ردعمل اور بھی تھا اور وہ یہ کہ کچھ لوگوں نے فلسطین کی گلیوں میں خوشی سے رقص کیا، کچھ نے پاکستان اور بنگلہ دیش میں مٹھائیاں بانٹیں… (ص ۳)

۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے المیے پر دنیا کے کسی مسلمان ملک یا شہر نے خوشی کا اظہار نہیں کیا۔ اگر فلسطین کے کسی شہری نے اسرائیلی مظالم کے دکھ سہتے سہتے، اس کے پشتی بان کو پہنچنے والے نقصان پر لمحہ بھر کے لیے کوئی مسرت کا اظہار کردیا، تو اسے ایک ارب اور ۳۰ کروڑ مسلمانوں کے ’ذہنی افلاس‘ کا حوالہ بنانا ظلمِ عظیم ہے۔ اس سانحے کو تو آج تک کسی ذمہ دار مسلمان لیڈر نے ’اللہ اور جہاد‘ کا مظہر قرار نہیں دیا۔ حادثے کے چند گھنٹوں کے اندر اندر امریکی صدربش نے اسامہ اور افغانستان سے اس کا رشتہ جوڑ ڈالا، اور تقریباً ۹ برس گزر جانے کے باوجود آج تک کسی کھلی عدالت میں اس الزام کو جرم کے طور پر ثابت نہیں کیا جاسکا۔ البتہ کروڑوں مسلمانوں پر الزام تراشی اور لاکھوں پر کسی تامّل اور جواز کے بغیر تعزیر جاری کرنے کا کام ضرور کیا گیا۔ بعدازاں مسلم دنیا میں امریکی مظالم کے خلاف جو ردعمل سامنے آیا، اس میں صرف مسلمان ہی نہیں، پوری دنیا کے خوددار، غیرت مند اور بہادر انسان شریک ہیں، جنھوں نے رنگ و نسل اور قوم و مذہب کی تفریق سے بالاتر رہتے ہوئے، افغانستان اور عراق پر امریکا اور اس کے اتحادیوں کی بدترین بم باری اور قتل و غارت گری کی نہ صرف مذمت کی، بلکہ جب بھی ان قاتل فوجوں کو نقصان پہنچا تو انھوں نے سُکھ کا سانس لیا۔ اس لیے امریکی فوجیوں سے ہمدردی اور مسلم اُمہ کی مذمت کا یہ یک طرفہ فتویٰ عدل سے خالی، حقائق سے رُوگردانی اور بے رحمانہ خود مذمتی کی دلیل ہے۔ اسی طرح ’صلیبی جنگوں‘ کی اصطلاح کو صدربش نے استعمال کیا تھا، کسی مسلمان لیڈر نے نہیں۔

کتاب میں مسلک دیوبند کے بارے میں درج یہ اقتباس بھی دل چسپ ہے:

دیوبند مسلک ایک قدامت پسند فرقہ ہے۔ دیوبندی، مسلم اقدار پر مغربی اثر کے حوالے سے متفکر رہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’مغربی‘ بننے کے بجاے ’مسلمانوں کو  اپنی پہچان، برقرار رکھنی چاہیے۔ یہ حنفی مسلک کی پیروی کرنے اور غیراسلامی افعال ترک کرنے کے حامی ہیں۔ (ص ۵۱- ۵۲)

حقیقت یہ ہے کہ دیوبندی ہی نہیں، یہاں کا ہر دین دار اپنے آپ کو مغرب کے فکری اور اعتقادی رنگ میں رنگنے کو دین کے تقاضوں کے منافی سمجھتا ہے، غیراسلامی افعال کو ترک کرنے کی تلقین اور تربیت کرتا ہے۔ اس بنیادی بات کو صرف اہلِ دیوبند سے منسوب کرنا، مشاہدے کی خامی، دین سے وابستگی رکھنے والے عام مسلمانوں کے بارے میں معلومات کی کمی اور دینی تعلیمات کے تقاضوں کو سمجھنے میں سوے فہم کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے۔ پھر یہ لکھنا کہ:

دیوبندیوں کا عقیدہ ہے کہ دینی اور دنیاوی معاملات کے درمیان کوئی حدِفاصل نہیں، اور یہ کہ اسلام زندگی کے ہر پہلو کو محیط ہے۔ جنوبی ایشیا میں داخلے کے لیے وہابی تحریک ایک عرصے سے دیوبندی مدرسوں میں سرمایہ کاری کرتی چلی آرہی ہے۔ (ص ۵۲)

دین اور دنیا کی تفریق کا قائل مغرب ہے، اسلام نہیں، بقول اقبال: ’جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘۔ اسلام کا سارا معاشی وعدالتی اور وراثتی نظام ایسی تفریق و تقسیم کو کسی درجے میں بھی تسلیم نہیں کرتا۔ اس لیے اسلام اہلِ مغرب کی خواہش کے مطابق دو رنگی کا شکار نہیں ہوسکتا۔ اسی یک جائی فکر کو اہلِ مغرب کبھی ’انقلابی اسلام‘ اور کبھی ’سیاسی اسلام‘ کا نام دیتے اور اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں۔ تاہم، اس ذیل میں دیوبند سے منسلک سب سے بڑی تبلیغی جماعت اور تصوف کے سلسلوں کا مسلک ’دین و دنیا‘ کے تعلق پر خاصا مختلف ہے، مگر اس نقطۂ نظر کو نظرانداز کردیا گیا ہے۔ آگے چل کر لکھا ہے:

مجھے خاص طور پر یاد آتا ہے کہ دہشت گردی کے نیٹ ورک ’الرشید‘ [ٹرسٹ] نے افغانستان کے طالبانی علاقوں میں جابجا تندور، یعنی اوون بیکریاں قائم کر رکھی تھیں۔ ہرروز مائیں اور باپ ان بیکریوں پر آکر اپنے گھرانوں کے لیے مختص کردہ ہرفرد    کے لیے ۳،۳نان لے کر جاتے۔ یہ خاندان بھوک سے مر رہے تھے، اب [’الرشید‘ کے طفیل] ان کے پیٹ بھرنے لگے تھے۔ ’الرشید‘ کی قائم کردہ ہر تندور بیکری میں اسامہ کی تصویر آویزاں ہوتی تھی، جو ماں باپ اس روٹی کا راشن یہاں سے حاصل کرتے، وہ اس کا کریڈٹ اسامہ بن لادن کو دیتے۔ (ص ۳۰۴- ۳۰۵)

یہ بیان بھی کذب آمیز رنگین بیانی کا شاہکار ہے۔ دیوبندی مسلک سے وابستہ ایک رضاکار تنظیم افغانستان کے بے آب وگیاہ ویرانوں میں ایسے کتنے تندور قائم کرسکتی تھی کہ انھیں افغانوں کی پوری نسلوں کو روٹی کے بدلے دہشت گردی کی فوج کا سپاہی بننے کا سبب قرار دیا جائے؟ دوسری بات یہ ہے کہ ’الرشید‘ والے اپنے رسالوں اور کتابوں میں خود اپنے بانی کی تصویر چھاپنے کو درست نہیں سمجھتے، تو بھلا اسامہ کی تصویر کو کیوں اپنی رضاکارانہ خدمت کا حوالہ بنائیں گے۔  یہ جھوٹ کسی مغربی پروپیگنڈا ٹکسال میں گھڑا گیا، جسے مبالغہ آمیز وسعت دے کر یہاں تھوپ دیا گیا ہے، اور ان کے تمام تر رفاہی و تعلیمی نیٹ ورک کو تباہ کرنے کے جواز کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔   یاد رہے کہ نائن الیون کمیشن رپورٹ کی سفارشات (باب ۱۲) میں متعین طور پر یہ کہا گیا ہے: مسلمانوں کی رفاہی تنظیموں کی شہ رگ کاٹ دی جائے، مسلم عورتوں میں آزاد روی کے فروغ   کے لیے ان کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی جائے۔ ثانوی درجے تک تعلیم پر مسلم ریاستوں کا کنٹرول کمزور بلکہ ختم کیا جائے وغیرہ وغیرہ۔ پہلے نکتے کی تکمیل کے لیے مذکورہ بالا مثال پیش کرنا سمجھ میں آتا ہے___ مصنفہ نے بیان کیا ہے:

امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے تعلیمی اور ثقافتی تبادلے کے پروگرام کی بدولت ہزاروں غیرملکی نوجوان ، جن میں سے کئی ایک کو آگے چل کر اپنے اپنے ملک کی قیادتیں سنبھالنی تھیں، امریکا پڑھنے، سیر کرنے، اور سیکھنے کے لیے آئے۔ اور جب یہ لوگ واپس [اپنے ممالک میں] پہنچے تو ہمیشہ آزاد اور قابل مواخذہ معاشروں کے مبلّغ بن کر سامنے آئے۔ وہ جو صدارت اور وزارتِ عظمیٰ کے عہدے تک پہنچے مجھ جیسے لوگ، انھوں نے تعلیم کے دوران میں حاصل ہونے والے جمہوری، صنفی مساوات اور آزادیِ اظہار کے اسباق کو اپنی اقوام کے طرزِعمل پر لاگو کیا۔ اپنے ساتھی [امریکی] طالب علموں کے ساتھ ہمارے گرم جوشانہ تعلقات آج بھی زندہ ہیں۔ اس لیے نوجوان لیڈروں کو مطالعاتی دوروں پر یہاں [امریکا] لانے اور یہاں کے خاندانوں کے ساتھ ٹھیرانے سے انھیں اپنی آنکھوں سے مغربی زندگی کا مشاہدہ کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔ (ص ۳۱۲- ۳۱۳)

کتاب میں جگہ جگہ اسی طرح کے مشورے امریکی حکومت کو دیے گئے ہیں۔ شاید مصنفہ کو   علم نہیں تھا (مگر مغرب سے قربت رکھنے والی مصنفہ کیوں کر لاعلم ہوسکتی ہیں؟) کہ یہی تجاویز اور   کم و بیش انھی الفاظ اور انھی اہداف کے ساتھ، عرب اور مسلم دنیا کے مستقبل کو قابو کرنے کے لیے اکتوبر ۲۰۰۳ء میں امریکی ایوانِ نمایندگان کی رپورٹ Changing Minds Winning Peace میں امریکی سفیروں، دانش وروں اور The Muslim World after 9/11 میں رینڈ کارپوریشن ۲۰۰۴ء نے پیش کی تھیں، جن کو مؤثر ’تریاق زہر‘ سمجھ کر عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔ پیش نظر یہی رکھا گیا ہے کہ: مسلمان اقوام کو امریکی مرضی کے تابع بنانے کے لیے وہاں کے    مؤثر طبقوں کی اولادوں کو یہاں لاکر ذہنی غسل دیا جائے اور یہاں کی تہذیب کا دل دادہ بنایا جائے، اور یہاں کے ’لوگوں‘ [غالباً خفیہ ایجنسیوں] سے مضبوط رابطے قائم کرائے جائیں،تاکہ وہ     واپس جاکر، بدلے ہوئے دل و دماغ اور تطہیرشدہ فکرونظر کے ساتھ اپنی ریاستوں کو امریکا کے تابع بناسکیں___ آگے بڑھیں تو انکشاف ہوتا ہے:

مغرب میں مسلمانوں کا معیارِ زندگی غیرمعمولی حد تک بلندہے۔ بہت سی جگہوں پر یہ غیرمسلموں کے برابر یا ان سے بھی بلند تر ہے… مسلمانوں نے ان مغربی ممالک میں نہ صرف اپنے لیے خیرمقدمی جذبات محسوس کیے، بلکہ کوئی انکار نہیں کرے گا کہ انھیں وہاں اپنے مذہب اور ثقافت پر عمل پیرا ہونے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ (ص ۳۱۵)

اس بیانیے کو ٹھنڈے دل سے دیکھیں تو یہ کسی امریکی سفارت خانے کے پروپیگنڈا پمفلٹ کے ایک ٹکڑے سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا۔ ’چند مسلمانوں‘ کو مجموعی طور پر وہاں محنت مشقت کرنے والے لاکھوں مسلمانوں کی حالت زار کی بہتری سے تشبیہہ وہی قارون دے سکتا ہے، جو خود اپنی آسایش و آسودگی کے مماثل سبھی لوگوں کو سُکھ چین کی زندگی گزارتے ہوئے محسوس کر رہا ہو۔ آج مغرب اور امریکا میں مسلمانوں کی عظیم اکثریت قدم قدم پر جس مذہبی و سماجی تعصب کا شکار ہے، جس طوفانی پروپیگنڈے کا ہدف ہے اور جس کے نتیجے میں کم و بیش ہرمسلمان مشکوک انسان قرار پا رہا ہے، بھلا ایسے میں کون کہہ سکتا ہے کہ وہاں رہنے والے: ’’مسلمانوں کا معیارِ زندگی غیرمعمولی حد تک بلند ہے‘‘۔ اپنے استدلال کے لیے ہم مختلف مثالوں اور خود مغربی آرا پر مبنی سروے رپورٹوں سے نظائر پیش کرنے کے بجاے، سوال اٹھاتے ہیں کہ یہ: ’مذہب اور ثقافت پر عمل کرنے کی مکمل آزادی‘ کا کون سا نمونہ ہے کہ مغرب ایک مسلمان بچی کے سر پر ڈیڑھ فٹ کا اسکارف بھی برداشت نہیں کر رہا، مگر دوسری طرف مکمل عریانی کو وسعتِ نظر قرار دے رہا ہے۔ کتاب کے اختتامی اوراق میں اس بیانیے سے کون سا پیغام دینا مقصود ہے؟

بھارت سے مرعوبیت تو کئی حوالوں سے اس کتاب کا حصہ ہی ہے، لیکن کیا ضروری ہے کہ تواریخ کا حوالہ بھی غلط درج کیا جائے۔ لکھا ہے:

بھارت نے ۱۹۴۹ء میں دستور منظور کیا اور ۱۹۴۹ء ہی میں عام انتخابات منعقد کرائے، جب کہ پاکستان میں پہلے عام انتخابات ۱۹۷۰ء میں ہوئے۔ (ص ۱۶۹)

پہلی بات یہ ہے کہ بھارتی دستور ۲۶نومبر ۱۹۴۹ء کو منظور اور ۲۶ جنوری ۱۹۵۰ء کو نافذ ہوا، اور عام انتخابات ۱۹۵۱ء میں ہوئے۔ جہاں تک دستورِ پاکستان کا تعلق ہے اس کی منظوری میں بیوروکریسی کی سازش اور دستور ساز اسمبلی کے جاگیردار ارکان کی عدم دل چسپی نے مسلسل روڑے اٹکائے، تاہم جب ۱۹۵۶ء میں دستور پاکستان منظور ہوکر نافذ ہوگیا اور ۱۹۵۹ء کے اوائل میں عام انتخابات کی راہ ہموار ہوگئی، لیکن اس مرحلے تک پہنچنے سے قبل ہی میجر جنرل اسکندر مرزا نے بحیثیت صدر، ۷ اکتوبر ۱۹۵۸ء کو ملک میں مارشل لا نافذ کرکے جنرل ایوب خان کو سیاہ و سفید کا مالک بنا دیا، دستور پاکستان کو منسوخ کیا اور ۲۴ اکتوبر کو جمہوریت پر شب خون مارنے والے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی آٹھ رکنی کابینہ میں ذوالفقار علی بھٹو نامی نوجوان ایڈووکیٹ بھی شامل تھے۔ پھر ۲۸ اکتوبر کو دوبارہ وزارت تشکیل دی تو اس میں بھی بھٹوصاحب کو وزیر مقرر کیا گیا، جو جون ۱۹۶۶ء تک فوجی ڈکٹیٹر ایوب خان کے دست ِ راست بنے۔ بے نظیر صاحبہ نے اس کتاب میں جمہوریت کی پامالی کا بہت رونا رویا ہے۔ مقامِ عبرت ہے کہ جمہوریت کے قتل میں اور ان کے والد ِ گرامی، فوجی ڈکٹیٹر کے ساتھ شامل تھے۔

کتاب میں تاریخ کے ساتھ مختلف مقامات پر دل چسپ کھیل کھیلا گیا ہے۔ اس مناسبت سے بہت سی متنازع فیہ باتیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ چند سطریں ملاحظہ ہوں:

  • لاڑکانہ کے دوروں (tours)کے دوران میں قائداعظم میرے دادا [سر شاہ نواز بھٹو] کے ہاں ان کے گھر میں قیام کیا کرتے تھے۔ (ص ۱۶۳) 
  • مارشل لا نومبر ۱۹۶۹ء تک جاری رہا۔ (ص ۱۷۵)
  • مجیب اپنی بات پر اڑا رہا، وہ تنہا پرواز چاہتا تھا،  وہ جنرل یحییٰ خاں کے ہاتھوں میں کھیلتا رہا، اور یکم مارچ کو جنرل یحییٰ نے قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کردیا۔ (ص ۱۷۹) 
  • ۲۵ مارچ کو یحییٰ خاں نے فوجی کریک ڈائون کا حکم دیا، ایک بے رحمانہ فوجی کریک ڈائون۔ (ص ۱۸۰)  
  • ۱۹۷۱ء کی جنگ نے دو ہفتوں کے اندر اندر پاکستانی افواج کو اکھاڑ پھینکا۔ (ص ۱۸۱) 
  • ۹۰ ہزار سے زائد پاکستانی فوجی جنگی قیدی بن گئے۔ (ص ۱۸۲)

تحریکِ پاکستان پر لکھی جانے والی کتابوں میں قائداعظم کے لاڑکانہ کے دوروں کا سراغ نہیں ملتا۔ نومبر ۱۹۶۹ء کے برعکس یحییٰ خان کا مارشل لا دسمبر ۱۹۷۱ء تک ہی نہیں، بلکہ بعد میں بھٹوصاحب کے دورِ حکومت میں۱۹۷۲ء تک جاری رہا۔ شیخ مجیب تو ضد میں جتنا اَڑے رہے، وہ اپنی جگہ ایک المیہ ہے، لیکن فروری ۱۹۷۱ء میں خود بھٹوصاحب نے ’اُدھر تم، اِدھر ہم‘ اور ’’۳ مارچ [۱۹۷۱ء] کے طے شدہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے مغربی پاکستان سے جو رکن اسمبلی ڈھاکا گیا، مَیں اس کی ٹانگیں توڑ دوں گا‘‘ جیسی دھمکیاں دے کر جنرل یحییٰ کی فوجی جنتا کے ہاتھ مضبوط کیے،اس پر دبائو ڈالا اور یکم مارچ کو اجلاس ملتوی کرا دیا۔ اس اعلان سے مشرقی پاکستان میں لاکھوں غیربنگالیوں کو موت کے گھاٹ اُتارنے کا سامان کیا گیا۔ اور پھر جب ڈھاکا میں جنرل یحییٰ خاں نے فوجی ایکشن کا حکم دیا تو اُس وقت جنرل موصوف سے ملاقات کر کے نکلنے والے آخری فرد کا نام ذوالفقار علی بھٹو تھا۔

اس بے رحمانہ فوجی ایکشن کے چندگھنٹوں بعد بھٹوصاحب نے مغربی پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی یہ بیان دیا: ’’خدا کا شکر ہے پاکستان بچ گیا‘‘۔ (روزنامہ مساوات اور روزنامہ نواے وقت، لاہور، ۲۷ مارچ ۱۹۷۱ء) اور جس پاکستانی فوج کو دو ہفتوں کے اندر اندر اُکھاڑ پھینکنے کی بات کی گئی ہے، وہ عملاً چھے ماہ سے بغیر تازہ کمک کے لڑ رہی تھی، جسے تین اطراف سے بھارتی فوج، روسی مدد، کمیونسٹ گوریلا فورس اور مکتی باہنی گھیرے ہوئے تھی۔ اسی طرح ۹۰ہزار فوجی، جنگی قیدی نہیں بنے تھے، بلکہ لگ بھگ ۴۵ہزار فوجی قید ہوئے تھے___ درمیان کی کڑیوں کو اُڑا کر اور من پسند واقعات کو بلاسیاق و سباق نمایاں کرکے بیان کرنا تاریخ نگاری نہیں، دیانت سے عاری منفی پروپیگنڈا ہے۔

وطن عزیز میں یہ ایک غلط روایت ہے کہ حکومتیں نصابِ تعلیم پر طبع آزمائی کرنا اپنا حق سمجھتی ہیں۔ اسی روایت پر عمل کرتے ہوئے جنرل ضیا الحق نے بھی نصابِ تعلیم کو دو مرتبہ ترمیم و اضافے کی مشق سے گزارا۔ مگر یہ کام فوج کے ہیڈکوارٹر نے نہیں بلکہ ’صوبائی نصابی بورڈوں‘ اور ’قومی نصابی ادارے‘ نے کیا تھا۔ وہ کتابیں آج بھی دیکھی جاسکتی ہیں کہ ان میں کس ’جرم‘ کا کتنا ارتکاب کیا گیا۔ اب زیرتبصر کتاب کا یہ حصہ ملاحظہ کیجیے:

جنرل ضیاء اپنے انتہا پسند اتحادیوں کا وفادار دوست ثابت ہوا، اس نے اسکولوں کی نصابی کتابوں کو بھی تبدیل کردیا اور تحریکِ پاکستان اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں ان کے منفی کردار کو سفید چولا پہنا دیا۔ نصاب میں شامل ہونے والی کتب پاکستان میں فوجی حکومت کی حمایت کرتیں، ہندوئوں کے خلاف نفرت پھیلاتیں، [مسلم] جنگوں کو شان و شوکت کا مظہر بناکر پیش کرتیں اور پاکستان پر مشتمل علاقے کی ۱۹۴۷ء سے پہلے کی تاریخ کو مسخ کرکے پیش کرتیں۔ (ص ۱۸۹)

یہ سارا بھاشن، اصل میں امریکی حکومت کی اس ’فکرمندی‘ کا مبالغہ آمیز اظہار ہے کہ جس کے تحت پاکستان ہی نہیں، بلکہ پورے عالمِ اسلام کے تعلیمی اداروں میں پڑھائے جانے والے نصاب کو گذشتہ ۹برس سے نشانہ بنایا گیا ہے۔ پاکستان میں ایس ڈی پی آئی کی بدنامِ زمانہ رپورٹ میں قومی نصابِ تعلیم کو ہدف بنا کر یہ ثابت کیا گیا تھا کہ: ’’دو قومی نظریے کی تدریس یہاں پر انتہاپسندی کو پروان چڑھا رہی ہے‘‘۔ پھر یہ کہا گیا کہ: ’’محمدبن قاسم اور پاک بھارت جنگوں میں نشانِ حیدر لینے والے کرداروں کے حالات پڑھ کر بچوں میں بھارت سے دشمنی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں ‘‘۔ ۱۹۴۷ء سے پہلے کی تاریخ کے بارے میں کہا گیا کہ: ’’نصابی کتابیں پڑھ کر طالب علموں میں برطانیہ کے نوآبادیاتی دور کے حوالے سے انگریزوں کے خلاف جذبات پیدا ہوتے ہیں‘‘۔ یہ سب باتیں جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت (۱۹۹۹ء-۲۰۰۸ء) میں، امریکی منشا کے مطابق مشتہر کی گئی تھیں۔ مذکورہ بالا اقتباس بھی انھی خیالات کی نمایندگی کر رہا ہے۔

پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن) کی اتحادی اور ’اعلانِ جمہوریت‘ پر دستخط کرنے والی ایک حلیف پارٹی ہے۔ گذشتہ پانچ برسوں کے دوران میں میاں محمد نوازشریف نے پیپلزپارٹی کے کسی سابقہ دورِحکومت کو کسی شکوے اور طعنے کا موضوع نہیں بنایا، مگر اس کتاب میں ایک حلیف ہونے کے باوجود نوازشریف مسلسل سوقیانہ تنقید کا نشانہ بنے نظر آتے ہیں۔ بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں، تاہم صرف ایک مثال دیکھیں: ’’نواز شریف نے آئی ایس آئی کو طالبان کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے فروغ کی اجازت دے رکھی تھی‘‘ (مفاہمت، ص ۲۱۱)۔۱؎ ان امور پر وضاحت پیش کرنا مسلم لیگ (ن) کی ذمے داری ہے، تاہم مصنفہ کتاب میں طالبان حکومت کی آمد کا پورا ملبہ فوج اور میاں نوازشریف پر ڈال کر اپنا دامن جھاڑ کر الگ جاکھڑی ہوئی ہیں۔ مگر کیا غلط بیانیوں سے تاریخی حقائق کا چہرہ مسخ کیا جاسکتا ہے؟

واقعاتی ترتیب دیکھیں تو ۱۹۹۳ء کے وسط میں پیپلزپارٹی نے صدر غلام اسحاق خاں اور فوج کی مدد سے وزیراعظم میاں نواز شریف کو اقتدار سے بے دخل کرادیا، پھر ۱۹۹۳ء میں ہونے والے انتخابات میں اکثریت حاصل کی اور نومبر ۱۹۹۶ء تک بلاشرکت غیرے حکومت کی۔ دوسری طرف نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ: ۱۹۹۴ء کے اوائل میں طالبان پارٹی کے طور پر وجود میں آتے اور نومبر ۱۹۹۴ء میں وہ قندھار کا کنٹرول سنبھالتے ہیں۔ ستمبر ۱۹۹۵ء میں ہرات ان کے زیرنگیں ہوتا ہے اور ستمبر۱۹۹۶ء میں وہ کابل پر قبضہ کرلیتے ہیں___ اس پورے عرصے میں پیپلزپارٹی کے وفاقی وزیرداخلہ میجر جنرل نصیراللہ بابر بڑے فخریہ انداز سے اس آپریشن کی   سرپرستی کرتے نظر آتے ہیں اور خود پیپلزپارٹی کی حکومت بھی خوش نظر آتی ہے کہ اس نے مجاہدین کا ’علاج بالمثل‘ کرکے انھیں بے اثر کردیا ہے۔ امریکی حکومت بھی پیپلزپارٹی کے ذریعے طالبان کے اس طلوع میں مددگار بنتی اور سُکھ کا سانس لیتی ہے۔ ان حقائق سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ  اُس زمانے میں فوجی قیادت سے ان کے تعلقات خوش گوار تھے۔ موصوفہ نے اعتراف کیا ہے:

اپنے دوسرے دورِ حکومت [۹۶-۱۹۹۳ء] میں فوج کے سربراہوں جنرل وحید کاکڑ اور جنرل جہانگیر کرامت کے ساتھ میرے اچھے تعلقات تھے… اسی طرح جب تک جنرل جاوید اشرف قاضی آئی ایس آئی کے سربراہ رہے، اس وقت تک آئی ایس آئی سے بھی میرے اچھے تعلقات تھے۔ (ص ۲۰۸)

تاریخ پر نظر ڈالیں تو طالبان کا آغاز، طلوع اور افغانستان پر قبضہ، پیپلزپارٹی کے دورِحکومت میں ہوا، مگر ان کی ذمہ داری صرف فوج اور نواز شریف پر ڈالتے ہوئے یوں دامن بچالینے کو کسی طرح بھی معروضی عمل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یاد رہے کہ پروفیسر برہان الدین ربانی اور  گل بدین حکمت یار کو ۱۹۷۳ء ہی کے وسط میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اعتماد میں لے کر افغانستان میں کمیونسٹ روس اور بھارت کے گہرے اثرات کو نشانہ بنانے کا کام شروع کردیا تھا جب سردار دائود نے ظاہرشاہ کا تختہ اُلٹ کر حکومت پر قبضہ جمایا تھا۔ افغانستان پر بھارتی اور روسی گرفت کو کمزور کرنے کے لیے بھٹوصاحب کے رابطہ کار کی ذمہ داری جنرل نصیراللہ بابر ہی ادا کررہے تھے۔ (جاری)

 

۹۶ لاکھ مربع کلومیٹر مساحت اور ایک ارب ۴۰ کروڑ کی آبادی پر مشتمل چین، تیز تر تبدیلی کے مراحل طے کر رہا ہے۔ مجموعی طور پر یہ تبدیلی مثبت ہے، اسی لیے ایک دنیا آنے والے دور میں چین کے نمایاں اقتصادی اور سیاسی کردار کا اعتراف کر رہی ہے۔ ایک وقت وہ تھا کہ جب یہ نعرہ چینی عوام کے لیے ضابطۂ حیات بنایا گیا: جو بھی فیصلہ چیئرمین مائوزے تُنگ کرے اسے تسلیم کرو، اور جو بھی ہدایات چیئرمین مائوزے تُنگ دے اس کی پیروی کرو۔ ۱۹۷۶ء میں مائوزے تُنگ کا انتقال ہوگیا۔ ان کے جانشین ڈِنگ ژیاؤپنگ نے مئی ۱۹۷۷ء میں اعتراف کیا کہ اس ’نظریۂ جو بھی‘ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی خامیوں کا مداوا ضروری ہے۔ مئی ۱۹۷۸ء میں پارٹی کی طرف سے ایک نیا اصول متعارف کروایا گیا:’’تجربہ اور عمل (practice) ہی سچائی جاننے کا واحد پیمانہ (sole criterion) ہے‘‘۔

دھیرے دھیرے تبدیلی کا عمل شروع ہوگیا۔ چین ایک محدود اور قومیائے ہوئے اقتصادی نظام سے کھلی منڈی کے نظام میں ڈھلتا چلا گیا۔ ۱۹۸۵ء میں چین نے ہتھیاروں میں نمایاں کمی کرتے ہوئے یہ اعلان بھی کردیا کہ وہ کسی صورت ایٹمی اسلحے کے استعمال میں پہل نہیں کرے گا اور نہ کبھی اپنی یہ صلاحیت ہی کسی غیر ایٹمی ملک کے خلاف استعمال کرے گا۔ یہ بات چین کی آیندہ پالیسی کی ایک واضح علامت تھی۔ یہ ایک اعلان تھا کہ اصل توجہ اختلافات اور لڑائیوں پر نہیں اقتصادی ترقی پر دینا ہے۔ سرکاری الفاظ میں اسے چینی طرز کا کمیونزم کہا گیا، یہ چینی نظام، سرمایہ دارانہ طرزِحیات اور مارکیٹ اکانومی کی راہ میں رکاوٹ نہیں، معاون تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ۲۰۰۱ء میں چین کو ۵سال کے عبوری عرصے کے لیے عالمی تنظیم تجارت WTO کا رکن بن لیا گیا اور یہ عرصہ مکمل ہونے پر ۲۰۰۷ء میں باقاعدہ اور حتمی رکنیت دے دی گئی۔ ۲۰۰۷ء ہی میں چینی دستور میں باقاعدہ ترمیم کرتے ہوئے انفرادی ملکیت کا قانون بنا دیا گیا۔ ہوجِن تائو پارٹی کے سربراہ اور پھر ملک کے صدر منتخب ہوئے تو تبدیلیوں کا سفر تیز تر ہوگیا۔

چینی حکمران پارٹی ’کمیونسٹ پارٹی آف چائنا‘ (CPC) کی دعوت پر امیرجماعت اسلامی قاضی حسین احمد کی سربراہی میں جماعت کا ۸ رکنی وفد چین کے ایک ہفتے کے دورے پر گیا تو ہمارے میزبان سیکرٹری خارجہ لیوھونگ شائی (Lu Hongcai)نے شاید انھی دوررس تبدیلیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’گذشتہ ۱۵ برسوں میں ہمارے دونوں ملکوں میں بڑی اہم تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں لیکن ایک چیز ناقابلِ تبدیل ہے اور وہ ہے پاک چین دوستی۔ دونوں ملکوں کے لیے یہ دوستی ناگزیر اور ابدی ہے‘‘۔ اس سے قبل محترم قاضی صاحب بھی کہہ چکے تھے کہ ہم دوپڑوسی، دو بھائی اور دو دوست ہیں۔ ہمارا یہ مضبوط رشتہ ہمارے تمام تر اندرونی اختلافات سے بالاتر ہے۔ چین سے مضبوط دوستی ہمارے لیے ایک قومی موقف کی صورت اختیار کرچکی ہے۔

اس سے پہلے مارچ ۲۰۰۰ء میں ہماری طرف سے پیش رفت کے نتیجے میں محترم قاضی صاحب تین روز کے لیے چین آچکے تھے۔ مجھے یاد آیا کہ تب ایک چینی ذمہ دار نے کہا تھا کہ اب یہ جملہ روایتی لگتا ہے کہ پاک چین دوستی ہمالیہ سے زیادہ بلند، دیوارِ چین سے زیادہ مضبوط اور سمندر سے زیادہ گہری ہے، بلکہ اب ہماری دوستی ہر مادی تمثیل سے بالاتر ہے۔گذشتہ دورے میں ہم صرف دارالحکومت بیجنگ گئے تھے، اس بار تین اہم شہروں کا دورہ رکھا گیا۔ ہمارے میزبان کہہ رہے تھے کہ اگر چین کی ۲ہزار سالہ تاریخ کا مطالعہ کرنا ہو تو بیجنگ، ۵ہزار سالہ تاریخ کے جائزے کے لیے شیان (صوبہ شانسی) اور گذشتہ ۱۰۰ سالہ تجارتی واقتصادی ترقی کا جائزہ لینا ہو تو شنگھائی کا دورہ مفید ہوتا ہے۔ ہم نے اسی لیے آپ کے لیے ان تینوں شہروں کا انتخاب کیا ہے۔

ہزاروں سال پر مشتمل چین کی تاریخ انتہائی دل چسپ حقائق لیے ہوئے ہے۔ اس دورے میں بھی اس کے کئی اہم پہلو سامنے آئے، آیئے ان میں سے ایک منظر دیکھتے ہیں۔ یہ ۲ہزار سال پہلے کا منظر ہے۔ تب چینیوں کی اکثریت زندگی بعد موت پر ایمان رکھتی تھی لیکن آخرت کا تصور خرافات میں کھو چکا تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ دوسری زندگی میں بھی وہ پہلے جیسی زندگی ہی گزاریں گے جس میں اسی طرح پورے اسبابِ زندگی کی ضرورت ہوگی جیسے اَب ہے۔ تب ان کے شہنشاہ نے ابدی زندگی اور دوامِ اقتدار کو یقینی بنانے کے لیے اپنی افواج کو اپنے مجسمے تراشنے کا حکم دیا۔ ۷ہزار مجسمے یوں تراشے گئے کہ نہ صرف اصل سے مشابہت رکھتے ہوں بلکہ ساتھ ہی ان کے عسکری مناصب کا بھی اہتمام کیا گیا ہو اور ان کے لباس کا بھی۔ سپاہیوں کے علاوہ ان کے گھوڑوں کے مجسمے بھی اسی کاریگری سے تراشے گئے اور سب کو لمبی لمبی سرنگیں اور مورچے کھود کر قطار اندر قطار ایستادہ کردیا گیا۔ ۱۱ لمبی کھائیوں میں صف در صف کھڑے مجسموں کی یہ فوج اپنا اسلحہ بھی ساتھ لیے کھڑی تھی۔ سب کا رخ اسی ایک جانب کیا گیا جدھر سے دشمن افواج آنے کا خدشہ ہوسکتا تھا۔ ’ٹیراکوٹا جنگ جوؤں‘ (Tera Cotta warriors) کا یہ عجائب گھر شیان کے مضافات میں واقع ہے۔ ایک بوڑھے دہقان کی نشان دہی پر کہ جس نے اپنے بچپن میں اس کا ذکر اپنے آبا و اجداد سے سنا تھا، یہ اہم دریافت ۱۹۷۴ء میں سامنے آئی۔ ۱۹۷۵ء میں اس پر عجائب گھر تعمیر ہونا شروع ہوا اور ۱۹۷۹ء میں عام لوگوں کے لیے کھول دیا گیا۔ مزید تلاش اور مزید تعمیرات کا کام اب بھی جاری ہے اور اس محیرالعقول دریافت کو دنیا کا آٹھواں عجوبہ کہا جا رہا ہے۔ مصر کے اہرامات بھی اسی ذہنیت و اعتقاد کا کرشمہ تھے کہ ابدی زندگی کا حصول اور حیاتِ نو میں بھی سلطانی کا تاج سر پہ سجا ہو۔ یہ خواب ایک عجوبے میں بدل کر رہ گیا، اور دوسروں کے لیے عبرت کا سامان بن گیا۔ مٹی یا سونے سے اپنے مجسمے بنانے والے خاک ہوگئے اور رہتی دنیا تک زندگی کی بے ثباتی کا اعلان کرگئے۔

تاریخ قدیم کے آثار میں شیان کی ساڑھے بارہ سو برس قدیم جامع مسجد بھی انتہائی پُرشکوہ ہے۔ اگرچہ مزید دیکھ بھال کی متقاضی ہے لیکن اہلِ ایمان کے سجدوں سے منور ہے۔ اپنی مسجد کی طرح اس میں سربسجود انسان بھی مزید دیکھ بھال کے محتاج ہیں۔ قرآن کریم کی تلاوت انتہائی مشکل و مشقت سے کرتے ہیں، گاہے قرآن کے الفاظ تک سمجھنا دشوار ہوجاتا ہے۔ بعض عجیب رسوم و رواج میں بھی بندھے ہیں، لیکن اپنے رب اور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے سرشار ہیں۔ امام مسجد نے خطبۂ جمعہ سے قبل پورے وفد کا فرداً فرداً تعارف کروایا۔ پھر قاضی صاحب کو خطاب کی دعوت دی جو کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ… کے عنوان سے تھی۔ نماز سے قبل اپنے دفتر میں سادہ مگر محبت کی شیرینی سے معمور تواضع کی۔ مسجد کے دروازے سے نکل رہے تھے تو اُوپر لکھا ہوا تھا: المَساجِدُ أَسْوَاقُ الآخِرَۃ، ’’مساجد آخرت کے بازار ہیں‘‘۔

بعد از نماز قریبی آبادی میں ایک مسلم گھرانے سے ملاقات کے لیے گئے تو ضعیف العمر لیکن چاق و چوبند سربراہ خاندان جناب خالد نے چینی زبان میں خوب صورت انداز سے خود لکھا ہوا طغریٰ پیش کیا۔ شعر مکمل دعوت تھا:

قرآن چاند ہے جومجھے ہی نہیں سب کو منور کرتا ہے۔ اسلام روشن شاہ راہ ہے جو مجھے ہی نہیں سب کو منزل تک پہنچاتی ہے۔

ہزاروں اور سیکڑوں برس پرانے اور پھر موجودہ چین کے محیرالعقول مناظر دیکھتے ہوئے اگر موجودہ چین کے نظریے، فلسفے اور دورِ جدید کا حال دو لفظوں میں بیان کرنا چاہیں تو وہ ہیں: اقتصادی ترقی اور محکم نظام۔ خود حکمران پارٹی کے دستور میں اس کا ذکر یوں کیا گیا ہے: ’’تعمیرچین تاکہ وہ عصرِحاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ، ایک اشتراکی، خوش حال، جمہوری، جدید اور مربوط ریاست بن سکے‘‘۔ ریاست اور حکمران پارٹی اصل میں دونوں ایک ہوچکے ہیں۔ پارٹی کا سربراہ ہی ریاست اور مسلح افواج کا سربراہ بھی ہے۔ ریاستی امور ریاستی ادارے ہی چلاتے ہیں، لیکن ان کی تمام تر پالیسی سی پی سی کی سنٹرل کمیٹی اور پارلیمنٹ کی مختلف کمیٹیاں ہی طے کرتی ہیں۔ ریاست کے دیگر نمایندے اس پالیسی پر عمل درآمد کرتے ہیں۔ اس محکم نظام کی تمام تر توجہ اقتصادی ترقی پر ہے۔ جن کتب کے حوالے سے آغاز میں مائوزے تُنگ اور ڈِنگ ژیائوپنگ کے خیالات کا ذکر کیا ان کے مطابق چین اپنی سالانہ قومی پیداوار کے لحاظ سے ۲۰۰۷ء میں چھٹے سے چوتھے اور اب تیسرے نمبر پر آگیا ہے۔ ۲۰۰۷ء میں چین کی کُل قومی پیداوار ۲۴کھرب ۹۵۳ ارب یوآن تھی۔ روپوں میں جاننے کے لیے اس رقم کو ۱۱ سے ضرب دے لیجیے۔

عالمی اقتصادی بحران کا منفی اثر چین پر بھی پڑ رہا ہے، لیکن ان کے بقول یہ نہ صرف   قابلِ برداشت ہے بلکہ وہ اس کے سدباب کے لیے اقدامات بھی کررہے ہیں۔ دنیابھر بالخصوص ترقی پذیر دنیا سے دوستی کے نئے رشتے استوار کیے جارہے ہیں۔ عین ان دنوں میں کہ جب ہم چین میں تھے، صدر ہوجن تائو چار افریقی ممالک سینیگال، تنزانیہ، مالی اور ماریشس کے علاوہ سعودی عرب کے دورے پر تھے۔ ہر جگہ اقتصادی تعاون کے نئے معاہدے ہوئے۔ سعودی عرب میں عرفات، مزدلفہ اور منیٰ کے درمیان ریل چلانے کے منصوبے پر دستخط ہوئے۔ ۶۵ء۶ ارب سعودی ریال کی لاگت سے بننے والا یہ منصوبہ ۲ سال کے اندر مکمل ہوجائے گا۔ China Dailyکے مطابق مکہ اور مدینہ کے درمیان ریل کے منصوبے پر بھی پیش رفت ہوئی ہے جس کے بعد یہ مسافت صرف ڈیڑھ گھنٹے میں طے ہوجایا کرے گی۔ ماریشس میں ۲۷۰ ملین، تنزانیہ میں ۱۱۴ ملین اور سینیگال میں ۹۰ملین ڈالر کے منصوبوں کے علاوہ ۱۰ ہزار ٹن خوردنی تیل کے معاہدے پر بھی دستخط ہوئے۔ اسی دوران چین نے روس کی دو بڑی کمپنیوں کو ۲۵ ارب ڈالر کا قرض دیتے ہوئے ان سے بھی معاہدے کیے ہیں۔ عرب چین بزنس فورم وجود میں آیا اور اس کی دوسری کانفرنس منعقد ہوچکی ہے۔ سوڈان چین مضبوط تعلقات کا حال تو بین الاقوامی تعلقات کا ہر طالب علم جانتا ہے۔

ان تمام اقتصادی معاہدوں اور تجارت کے فروغ کے علاوہ ایک اور بات جس پر چین توجہ دے رہا ہے وہ کفایت شعاری ہے۔ ہم ۹ فروری کو علی الصبح بیجنگ پہنچے تو پورا بیجنگ شہر تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ صرف اہم شاہ راہوں پر سٹریٹ لائٹ جل رہی تھیں۔ لیاقت بلوچ صاحب نے جہاز کے عملے سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ رات کے پچھلے پہر لوڈشیڈنگ کر کے توانائی کی بچت کی جاتی ہے۔ ۲۰۰۸ء میں اولمپکس کے شان دار انتظامات نے دنیابھر کو ششدر کردیا تھا۔ اس کی تیاریوں کے ضمن میں تیراکی کے لیے ایک انوکھا تالاب بنایا گیا۔ اگرچہ ہم یہ تالاب دیکھنے نہیں گئے لیکن ہمیں بتایا گیا کہ پوری وسیع و عریض عمارت کی دیواریں پانی کے شفاف بلبلوں کی صورت میں بنائی گئی ہیں۔ ہر ایک بلبلے کا حجم اتنا ہے کہ اس کی صفائی کے لیے آدمی اس کے اندر بآسانی کھڑا ہوسکتا ہے۔ اس بلبلے کا ایک فائدہ یہ بھی بتایا گیا کہ دن کے وقت سورج کی روشنی ہی کافی رہتی ہے، بجلی کی بچت ہوگی۔ ان دنوں چین کے بعض صوبوں میںگذشتہ ۳۰ سال کے دوران بدترین قحط کی اطلاعات ہیں۔ تشویش ہرکسی کو ہے لیکن حکومت مطمئن ہے کہ غذائی ضروریات کا انتظام کیا جاچکا ہے۔ قحط کی پیش بندی کے لیے پانی کے استعمال میں بچت کی خصوصی منصوبہ بندی کی گئی ہے اور ہدف یہ رکھا گیا ہے کہ ۲۰۲۰ء میں پانی کی کھپت میں ۶۰ فی صد تک کمی لے آئی جائے گی صرف پانی کو ضیاع سے بچانا ہوگا۔ ان تمام تدابیر کے باوجود عالمی اقتصادی بحران نقصانات کا سبب بن رہا ہے اور ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ ۳ماہ میں چین کی برآمدات میں ۵ء۱۷ فی صد کمی آئی ہے۔

جماعت کے وفدکا دورۂ چین اندرون و بیرون ملک یکساں توجہ کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ کہیں تعریف و ستایش میں مبالغہ ہے اور کہیں تنقید و تنقیص میں۔ درحقیقت یہ دورہ جماعتی پالیسی کا تسلسل، ایک اہم قومی ضرورت، عالمِ اسلام کے لیے دُوررس خدمت اور دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان دوستی کے مزید مضبوط اور گہرے تعلقات قائم کرنے کی ایک کامیاب کوشش ہے۔ اس دوستی کے لیے سی پی سی کے چار رہنما اصول: برابری، باہم احترام، آزادی اور ایک دوسرے کے اندرونی مسائل میں عدمِ مداخلت بہت جامع اور مطلوب اصول ہیں۔ امریکا اپنے عالمی تعلقات میں سب سے پہلے انھی چار اصولوں کی دھجیاں اڑاتا ہے۔ اس لیے ناکامی در ناکامی کا سامنا کر رہا ہے۔ دونوں پارٹیوں کے درمیان مفاہمت کی جس دستاویز پر سیدمنور حسن صاحب اور نائب وزیرخارجہ نے دستخط کیے ہیں اس میں مسئلۂ کشمیر کا واضح اور اصولی ذکر اہم ترین پیش رفت ہے۔ اس وقت چین اور بھارت کے درمیان تقریباً ۵۰ ارب ڈالر کی تجارت ہو رہی ہے، اس سب کچھ کے باوجود اس واضح اور دوٹوک موقف کے اعادے کے لیے ہماری درخواست مان لینا یقینا ایک قابلِ اعتماد دوست کے لیے ہی ممکن ہوسکتا ہے۔ ہم نے بھی تائی وان، تبت اور سنکیانگ سمیت چین کے کسی علاقے میں علیحدگی کی تحریک کی حمایت نہ کرنے کے قومی موقف کا اعادہ کیا ہے۔ علیحدگی پسندی کی بات، خود سنکیانگ کے اکثر مسلمانوں کے لیے اجنبی ہے لیکن بعض طاقتیں اسے بڑھانا اور پھیلانا چاہتی ہیں۔ اس سے واضح براء ت یقینا چینی مسلمانوں کے لیے بھی راحت کا ذریعہ بنے گی۔ شیان کی ساڑھے بارہ سو برس قدیم مسجد کے علاوہ بیجنگ میں ایک ہزار سال پرانی مسجد ہے۔ چین کے کئی علاقوں میں مسلمانوں کی بڑی تعداد پائی جاتی ہے۔ چین کے جس شہر میں چلے جائیں تلاش کیے بغیر بڑی تعداد میں حلال کھانوں کے ریسٹورنٹ مل جاتے ہیں۔ ایک اہم سفارت کار بتارہے تھے کہ ایک قبر کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کی قبر ہے، اوروہ خود اس کی زیارت کرچکے ہیں۔ چینی مسلمانوں کی یہ قدیم اور مضبوط بنیادیں وہاں ان کے ابدی اثرات اور روشن مستقبل کا اعلان ہیں، علیحدگی پسندی کی تحریک نہیں۔

 

صومالیہ میں خد ا خدا کر کے ایک ایسی حکومت وجود میں آگئی ہے جس سے صومالی اور دیگر افریقی ممالک کے لوگوں کو امید بندھ گئی ہے کہ طویل خانہ جنگی، افراتفری اور انتشار کے بعد صومالیہ کے حالات سنبھل جائیں گے اور نفاذِ شریعت کی طرف بھی پیش رفت ہوسکے گی۔نئی حکومت کے سربراہ ۴۵ سالہ شیخ شریف احمد معتدل، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور روحانی سلسلے اویسیہ کے راہ نما ہیں۔ انھوں نے اپنی پارلیمان سے مشاورت کے بعد ایک اور نوجوان عمر عبدالرشید علی شرمارکے، کو وزیراعظم نامزد کیا ہے۔ وہ بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ، ماہر سفارت کار، اور ملک کے پہلے صدر عبدالرشید علی شرمارکے، کے فرزند ہیں۔ صدر شرمارکے، کو فوجی انقلاب کے دوران قتل کر دیا گیا تھا۔ مرحوم کے بارے میں عام صومالی اب تک اچھی رائے رکھتے ہیں۔ نئی حکومت کے سامنے بہت بڑے چیلنج ہیں۔ موجودہ حالات میں صومالیہ پر حکومت کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ یہ فی الحقیقت کانٹوں کا تاج ہے جو ان دونوجوانوں نے سر پر سجالیا ہے۔ اللہ ان کی مدد کرے۔

صومالیہ براعظم افریقہ کا پس ماندہ ترین ملک ہے، جس کی آبادی ۱۰۰ فی صد مسلمان ہے۔ قرنِ افریقہ میں واقع یہ ملک ۶ لاکھ ۳۷ ہزار ۶سو ۵۷ مربع کلومیٹر رقبے کو محیط ہے، جس میں سے بہت بڑا حصہ صحرائی اور بالکل بنجر ہے۔ کچھ پہاڑی علاقے بھی ہیں اور ساحلِ سمندر کے ساتھ بھی ۶ہزار ۳ سو کلومیٹر لمبی پٹی لگتی ہے، جس میں خلیج عدن، بحیرہ عرب اور بحرہند کے ساحل شامل ہیں۔ جوبا اور شبلی نامی دو دریا بھی اس ملک سے گزرتے ہیں لیکن ان سے کوئی خاطرخواہ زرعی و صنعتی فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ اُونٹ، بھیڑبکری اور گائے پالتو جانور ہیں۔ بیش تر لوگ چرواہے ہیں۔ یورینیم اور تیل کے وسیع ذخائر موجود ہیں مگر ابھی تک انھیں حاصل کرنے کا کوئی جامع منصوبہ عمل میں نہیں لایا جاسکا۔

صومالیہ کو برطانوی اور اطالوی استعمار سے ۱۹۶۰ء میں آزادی ملی۔ آزادی کے فوراً بعد صومالیہ کی اپنے ہمسایے کینیا سے سرحدی علاقوں کے تنازع پر جنگ چھڑ گئی جس میں دونوں ملکوں کا خاصا نقصان ہوا مگر صومالیہ کے متنازع علاقوں پر برطانیہ، امریکا اور عالمِ مغرب کی اشیرباد سے کینیا کا قبضہ تسلیم کرلیا گیا۔ صومالیہ کا پہلا صدر عبدالرشید علی شرمارکے، ایک صاف ستھرا سیاست دان تھا مگر طبعاً کمزور تھا۔ اس لیے ملک میں بدنظمی اور کرپشن کی وجہ سے عدمِ اطمینان پیدا ہوا۔ ان حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فوج کے سربراہ میجر جنرل محمد زیاد برّے نے ۱۵ اکتوبر ۱۹۶۹ء کو بغاوت کرکے ملک پر قبضہ کرلیا اور صدر شرمارکے، کو قتل کردیا گیا۔ یوں ملک پر فوجی آمریت مسلط ہوئی جو ۱۹۹۱ء تک قائم رہی اور جب اس کا خاتمہ ہوا تو صومالیہ بدترین خانہ جنگی کی لپیٹ میں تھا۔

آمریت ملکوں اورقوموں کے لیے ہمیشہ زہرِقاتل ثابت ہوتی ہے۔ زیاد برّے کے ملک سے فرار ہو جانے کے بعد اب تک کوئی متحدہ حکومت صومالیہ میں قائم نہیں ہوسکی۔ وقتاًفوقتاً مختلف مسلح گروہ اور قبائلی لشکر دارالحکومت مقدیشو پر قابض ہوتے رہے مگر پورا ملک ایک حکومت کے تحت متحد ہونے کے بجاے مختلف گروپوں کے زیرتسلط رہا۔ کینیا کے ساتھ صومالیہ کے تعلقات معمول پر آئے تو بدقسمتی سے اس کے شمالی ہمسایے ایتھوپیا سے نئی جنگ چھڑ گئی۔ ادھر ایتھوپیا میں ہیلے مینگستو کا تختہ اُلٹ کر میلس زیناوی (Meles Zenawi) برسرِاقتدار آگیا، اور یہ اسی طرح امریکی مہرہ ہے جس طرح پاکستان اور افغان حکمران۔ امریکا کے اشارے پر ایتھوپیا کی فوجیں اگست ۲۰۰۱ء میں صومالیہ میں امن قائم کرنے کے بہانے داخل ہوئیں جوچند ماہ قبل تک وہاں موجود رہی ہیں اور بے پناہ قتل و غارت گری اور لوٹ مار کا ارتکاب کرتی رہی ہیں۔

صومالیہ میں بہت سے جنگ جُو سردار اپنی چھوٹی چھوٹی ریاستیںقائم کیے بیٹھے تھے۔   فرح عدید ۱۹۹۲ء میںمقدیشو پر قابض تھا۔ اس نے امریکی فوجیوں کو پکڑ کر مقدیشو کی سڑکوں پر گھسیٹا تھا جس کے نتیجے میں امریکی تو وہاں سے دم دبا کے بھاگ گئے مگر انھوں نے ایتھوپیا کے ذریعے صومالیہ سے خوب انتقام لیا۔ افریقی اتحاد کی تنظیم (OAU) اور دوسری عالمی تنظیموں نے کوشش کی کہ صومالیہ میں اتفاق راے پیدا ہوجائے اور امن و امان کی کوئی صورت بن سکے مگر یہ تمام کوششیں صومالیہ کے اسلام پسند حلقوں کو مجوزہ سیٹ اَپ سے خارج کرنے پر مرتکز رہیں۔ صومالی اپنی طبیعت کے لحاظ سے افغانوں سے بہت مشابہت رکھتے ہیں۔ اگر ہم صومالیہ کو افریقہ کا افغانستان کہیں تو   یہ غلط نہ ہوگا۔ صومالی جفاکش اور بہادر قوم ہیں اور اسلام سے محبت ان کی گھٹی میں پڑی ہے۔

اگست ۲۰۰۴ء میں عالمی اداروں کے دبائو کے تحت مختلف گروپوں کے درمیان کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں ایک معاہدہ طے پایا جس میں ۲۷۵ نامزد ارکان پرمشتمل ایک پارلیمان وجود میںآئی۔ دو ماہ بعد نیروبی ہی میں صومالیہ کے نیم خودمختار صوبے ارض البنط (pant land) کے راہنما عبداللہ یوسف کو وفاقی حکومت کا عبوری صدر بنا دیا گیا جو امریکا کا منظورِنظر تھا۔ صاحب ِموصوف نے نیروبی ہی میں اپنے منصب کا حلف اٹھایا اور اسی دن افریقی یونین سے درخواست کردی کہ وہ ۲۰ہزار فوجی صومالیہ میں امن قائم کرنے کے لیے بھیجے۔ چونکہ اس نئے صدر کی ذاتی شہرت بھی اچھی نہیں تھی اور ملک میں عمومی حمایت سے بھی وہ محروم تھے، اس لیے زیادہ دیر اپنا مصنوعی اقتدار قائم نہ رکھ سکے۔ اس عرصے میں نفاذِ شریعت کے لیے ملک میں اسلامی عدالتوں کے نام سے ایک تحریک چل رہی تھی جو دن بہ دن لوگوں میں مقبول ہورہی تھی۔ اسلامی عدالت اتحاد نے صرف ۴ ماہ کی لڑائی کے بعد جون ۲۰۰۶ء میں دارالحکومت مقدیشو اور دیگر اہم مقامات پر قبضہ کرلیا۔ ان لوگوں نے تھوڑے عرصے میں امن و امان کی حالت بہت بہتر بنا دی۔

اس دور میں بھی موجودہ صدرِ مملکت، اسلامی عدالت یونین کے چیئرمین شیخ شریف احمد کو وسیع تر مشاورت میں صدرِ مملکت بنانے کا فیصلہ ہوا تھا مگر امریکی سرپرستی میں قائم عبوری پارلیمنٹ مقیم نیروبی نے اسلامی انتظامیہ کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور ایتھوپیا اور امریکا کو مداخلت کی دعوت دی۔ اس کے بعد حبشہ کی فوجی پیش قدمی شروع ہوئی۔ امریکا کی مکمل سرپرستی میں دسمبر ۲۰۰۶ء میں حبشہ کے زمینی حملے کے ساتھ ہی امریکی گن شپ ہیلی کاپٹرز کے ذریعے فضائی حملے شروع ہوگئے اور یوں صومالیہ کا امن پھر تباہ و برباد ہوگیا۔ اس طرح ایتھوپیا (عملاً) اور امریکا (بالواسطہ) ملک پر مسلط ہوگئے۔ اسی عرصے میں مسلم نوجوانوں کی ایک تنظیم ’الشباب‘ کے نام سے وجود میں آئی۔ امریکا نے اسے القاعدہ کی ایک شاخ قرار دیا۔ بدقسمتی سے الشباب اور اسلامی عدالت اتحاد نے اپنے اپنے راستے الگ کرلیے جس سے اسلام پسند قوتیں کمزور ہوئیں۔ صومالیہ کے حالات سے باخبرتجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ الشباب میں کچھ عناصر باہر سے داخل (induct) کیے گئے تھے جو اس اختلاف کے شعلوں پر تیل چھڑک رہے تھے۔ یوں مفاہمت کی ہر کوشش دم توڑ گئی۔

ستمبر ۲۰۰۷ء میں اریٹیریا کے دارالحکومت اسمارا میں اسلام پسندوں کا ایک نیا اتحاد وجود میں آیا، جسے انھوں نے اتحاد براے آزادیِ نو صومالیہ (Alliance for the Re-liberation of Somalia) کا نام دیا۔ امریکا کے منظورِنظر صدر عبداللہ یوسف نے نومبر ۲۰۰۷ء میں نورحسن حسین کو وزیراعظم نامزد کیا لیکن صومالیہ پر کوئی حقیقی رٹ قائم کرنے میں یہ حکومت بُری طرح ناکام رہی۔ صدر اور وزیراعظم ایک دوسرے سے برسرِپیکار ہوگئے۔ دسمبر ۲۰۰۸ء میں صدر نے وزیراعظم کو معزول کردیا اور محمود محمد گلید کو وزیراعظم نامزد کیا گیا مگر پارلیمان نے اس کے تقرر کو مسترد کردیا۔ اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی ادارے اس نتیجے پر پہنچ گئے تھے کہ اتحاد براے آزادیِ نو صومالیہ کی شرکت کے بغیر مسائل حل نہیں ہوسکتے۔

صدر عبداللہ یوسف، ذلیل و رسوا ہوکر ۲۹دسمبر ۲۰۰۸ء کو صدارت چھوڑ کر گوشہ نشین ہوگیا۔ نئے فارمولے کے تحت ۳۱ جنوری ۲۰۰۹ء کو جبوتی میں ایک نئی عبوری پارلیمنٹ وجود میں آئی، جس میں ۲۰۰ ارکانِ اسمبلی اسلامی گروپوں سے اور ۷۵ مختلف قبائل سے نامزد کیے گئے۔ ہرقبیلے کو اس کے حجم کے مطابق نمایندگی دی گئی۔ اس اجلاس میں کثرت راے سے شیخ شریف احمد کو صومالیہ کا   نیا صدر چن لیا گیا۔ اپنے انتخاب کے بعد انھوں نے متوازن اور معتدل انداز میں ملکی بحران کو    قومی اتفاق راے سے حل کرنے کا اعلان کیا۔ ۱۹۹۱ء کے بعد سے یہ اس شورش زدہ ملک کی پندرھویں حکومت ہے۔ اس کی کامیابی و ناکامی کے بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے کیونکہ ’الشباب‘ نے اس نئے سیٹ اَپ کو قبول نہیں کیا اور بعض علاقوں میں ان کازور ہے۔ الشباب کی قیادت ایک نوجوان شیخ حسن ظاہر اویس کر رہے ہیں جو ایک بہادر اور جنگ جُو نوجوان ہیں اور امریکا نے ان کے سر کی قیمت مقرر کر کے انھیں اشتہاری ’دہشت گرد‘ قرار دیا ہوا ہے۔

۷ فروری ۲۰۰۹ء کو شیخ شریف احمد مقدیشو میں اپنی عبوری پارلیمنٹ کے ساتھ تشریف لائے تو ہزاروں لوگوں نے ان کا والہانہ استقبال کیا۔ شیخ شریف البغال قبیلے سے ہیں جو معروف اور محترم سمجھا جاتا ہے۔ وہ جولائی ۱۹۶۴ء میں پید ا ہوئے۔ انھوں نے اپنی تعلیم لیبیا اور سوڈان میں مکمل کی۔ سوڈان میں قیام کے دوران وہ اخوان کی دعوت سے بھی متاثر ہوئے۔ وہ معتدل مزاج اور نیک نفس انسان ہیں۔ بیش تر صومالیوں کی طرح شیخ شریف بھی حافظ قرآن ہیں اور اویسی سلسلے کے روحانی پیشوا ہیں۔ انتہائی ملنسار، بُردبار اور اعلیٰ تعلیم یافتہ صومالی صدر خود کو استاد (معلم) کہلانے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ ان کا تخصص علومِ جغرافیہ میں ہے۔ شیخ شریف کے بارے میں عام تجزیہ نگار پُرامید ہیں کہ وہ مسائل کو حل کرلیں گے۔

شیخ شریف نے حلف اٹھانے کے بعد جبوتی میں ارکانِ پارلیمنٹ کا اجلاس بلایا اور اتفاق راے سے ایک نوجوان عمر عبدالرشید علی شرمارکے، کو پارلیمنٹ کا وزیراعظم نامزد کیا ہے۔ موصوف ایک سابق سفارت کار ہیں جو اقوام متحدہ میں بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ وہ امریکا کے تعلیم یافتہ ہیں اور صومالیہ کے ناگفتہ بہ حالات کی وجہ سے کینیڈا میں منتقل ہوگئے تھے۔ انھیں ایک ماہ کے اندر کابینہ نامزد کرنا ہوگی، جس کی منظوری پارلیمنٹ سے ضروری ہے۔ ان کا تعلق ایک بڑے قبیلے دارود سے ہے۔ وہ آزاد صومالیہ کے پہلے صدر کے بیٹے ہیں۔ صدر اور وزیراعظم کو عمومی طور پر لوگوں کی حمایت حاصل ہے مگر ’الشباب‘ تنظیم نے صدر کے بارے میں تو زیادہ سخت تبصرہ نہیں کیا تھا البتہ نامزد وزیراعظم پر شدید الفاظ میں تنقید کی ہے۔ دوسری جانب یہ بھی سنا جا رہا ہے کہ امریکا نامزد وزیراعظم کوقبول کر لے گا مگر شاید نومنتخب صدر کو زیادہ عرصہ برداشت نہ کرسکے۔ شیخ شریف ایتھوپیا کو بھی سخت ناپسند ہیں۔ حبشہ کی فوجوں کی یلغار کے بعد شیخ شریف کو جلاوطنی اختیار کرنا پڑی تھی۔

تقریباً ۹۰ لاکھ آبادی پر مشتمل یہ وسیع و عریض خطہ بدحالی، خانہ جنگی، قحط سالی اور قتل و غارت گری کی وجہ سے بدترین بحران کا شکار ہے۔ صومالیہ کو بحری قزاقی کا بھی سامنا ہے جو تجارتی بحری جہازوں کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صومالیہ کے انتہائی دگرگوں حالات نے ہی ان لوگوں کو جرائم پر مجبور کردیا ہے۔ پوری دنیا کو صومالیہ کے مسائل پر سر جوڑ کر اس کا کوئی حل تلاش کرنا ہوگا۔ اگر یہاں امن قائم نہ ہوسکا تو بحرہند اور خلیج عدن کے تجارتی راستے مستقل خطرات کی زد میں رہیں گے۔ موجودہ حکومت سے قیامِ امن اور نفاذِ شریعت کے لیے بہت سی توقعات وابستہ ہیں۔

 

استاذ محترم پروفیسر آسی ضیائی مرحوم (۱۹۲۰ء-۲۰۰۹ء) جن کا اصل نام امان اللہ خان تھا، سے پہلی ملاقات ۱۹۵۱ء میں مرے کالج سیالکوٹ کی لائبریری اور ہوسٹل کے درمیان واقع ایک چھوٹی سی مسجد میں ہوئی (اس کالج کے شعبہ اُردو سے وہ یکم اکتوبر ۱۹۴۸ء کو بطور لیکچرار اُردو وابستہ ہوئے تھے)۔ روشن چہرہ، کشادہ پیشانی اور رعنائی شباب کی کشش لیے ہوئے اس شخصیت سے اولین ملاقات کا ایک خوش گوار تاثر ہمیشہ ذہن میں محفوظ رہا۔ یہ خوش گواری محض ایک خوب صورت اور محترم شخصیت کی ملاقات کا تاثر تھا یا اس کا کوئی سبب اور بھی تھا؟ ماضی کے اوراق کی خاصی اُلٹ پلٹ کے بعد یہ عُقدہ کھلا کہ اُن سے یہ ملاقات کسی اجنبی سے ملاقات نہ تھی بلکہ ایک غائبانہ شناسا شخصیت سے بالمشافہہ ملاقات تھی۔ ایک ادبی اور علمی شخصیت کی حیثیت سے ان کی تحریروں کے حوالے سے شناسائی پہلے سے موجود تھی۔ میں نے ۱۹۵۱ء میں مرے کالج میں سالِ اول میں داخلہ لیا تو اُس زمانے تک چراغِ راہ کے وسیلے سے ان کے نام سے واقف ہوچکا تھا۔

استاذِ محترم سے ملاقاتوں کا سلسلہ پھر یوں مستقل ہوگیا کہ جماعت اسلامی شہرسیالکوٹ کے ہفتہ وار اجتماعات میںباقاعدگی سے شرکت ہوتی تھی، جہاںآسی صاحب کے ذمے بھی کوئی تقریر یا گفتگو پروگرام میں شامل ہوتی تھی۔

جہاں تک یاد پڑتا ہے ان کی پہلی ادبی تحریر جو مجھے پڑھنے کا موقع ملا، وہ ان کا وہ مفصل محاکمہ تھا جو انھوں نے محترم نعیم صدیقی کے مرتب کردہ چراغِ راہ کے ضخیم ’شعرنمبر‘ پر لکھا تھا۔ یہ خاص نمبر ۱۹۵۱ء میں شائع ہوا اور یہ حلقۂ ادب اسلامی پاکستان کے ادبی محاذ کی سرگرمیوں کا ایک بھرپور تعارف پیش کرتا تھا۔ جنوری ۱۹۵۳ء میں شائع ہونے والے چراغِ راہ ہی کے ضخیم ’خاص نمبر‘ میں جناب آسی کی شخصیت کا تعارف نعیم صدیقی صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں لکھا (یاد رہے کہ اس زمانے میں آسی صاحب اپنا نام عاصی ضیائی رام پوری لکھتے تھے)۔ نعیم صاحب لکھتے ہیں:

عاصی ضیائی ہے تو رام پوری، مگر رام پور کی مخملی ٹوپی سے بالکل مختلف! اُجلا اور چوڑا چہرہ، شخصیت کا ترجمان!___ ہاتھ میں ہمیشہ چرمی کاغذات دان، اور اس کاغذات دان میں اُردو بحیثیت گھر کی زبان محفوظ۔ کسی خانے میں روزمرہ، کسی میں محاورہ، کسی میں  گُل بکاولی اور چہار درویش کی زبان، کسی میں اخلاقِ جلالی کی، کسی میں بائبل کے ترجمے کی!

زبان جس شخص کے گھر کی ہو، اُسے قدرت چاہے پروفیسر ہی بنائے رکھنے پر کیوں نہ بضد ہو، وہ ادیب بنے بغیر رہ ہی نہیں سکتا___ یسُوف کے وعظ کا مصنف! ہمارا واحد تمثیل نگار! خاکہ اُڑانے کا ماہر، تنقیدی انفرادیت کا حامل!

اس زمانے میں تحریکِ ادبِ اسلامی نے چند برسوں میں ثقہ اہلِ قلم کی روشن کہکشاں آراستہ کر لی تھی، جس کی وسعت اور تابندگی میں ۱۹۵۸ء تک بہت قیمتی اضافہ ہوچکا تھا، لیکن ۱۹۵۸ء کے مارشل لا نے اس تحریک کو ایسا نقصان پہنچایا کہ اس پر صرف ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔ بعد میں یہ محفل پھر کبھی اس شان کے ساتھ آراستہ نہ ہوسکی۔ بقول شاعر   ؎

چھٹے اَسیر تو بدلا ہوا زمانہ تھا
نہ بہار تھی، نہ چمن تھا، نہ آشیانہ تھا

استاذ محترم کی پوری زندگی درس و تدریس اور شعروادب کے میدان میں مختلف النوع انداز کی تصنیف و تالیف میںگزری۔ طبیعت میں ایک عجیب طرح کی بے نیازی اور ایک حد تک اِنفعالی روش کے اثرات رہے۔ وہ کسی زوردار تحریک کے بغیر نہیں لکھتے تھے، خواہ وہ تحریک داخلی ہو یا خارجی۔ ان سے ادب کے میدان میں بہت کام لیا جاسکتا تھا لیکن اگر ایک طرف وہ بے نیاز اور گوشہ گیر رہنا پسند کرتے تھے، تو دوسری طرف کوئی ایسا فعال ادبی حلقہ یا ادارہ بھی موجود نہ تھا جو اُن سے ان کے مقام و مرتبہ کے مطابق کام لیتا۔ تاہم اس کے باوجود وہ مختلف اصنافِ ادب میں اتنا قیمتی سرمایہ چھوڑ گئے ہیں جو اپنی جگہ بے حد وقیع ہے اور پوری طرح ادبِ صالح اور ادبِ نافع کی تعریف میں آتا ہے۔ اگر اُن کے چھوڑے ہوئے سرمایۂ ادب کے بھرپور تحقیقی مطالعے کی کوئی سبیل نکلے تو اندازہ ہوگا کہ وہ کیا گوہرِ گراں مایہ تھا جس کی اب تک پوری طرح پہچان نہ ہوسکی۔ ان کے مقام و مرتبے کی حقیقی قدرشناسی (evaluation) کے ساتھ اُردو ادب کا تعمیری رُجحان رکھنے والی ایک قدآور ادبی شخصیت کا بھرپور تذکرہ ایک منارئہ نور کی صورت میں آنے والوں کے لیے محفوظ ہوسکتا ہے۔

آسی ضیائی کی تصنیفات و تالیفات کا سرسری تعارف کرانے کے لیے بھی کئی صفحات درکار ہیں جس کی یہاںگنجایش نہیں۔ صرف چند کتابوں کے نام ملاحظہ فرمایئے: 

  • کھوٹے سکّے (۱۹۵۰ء)، افسانے، ڈرامے، تراجم 
  • کلامِ اقبال کا بے لاگ تجزیہ (۱۹۵۷ء) کلام اقبال کا ایک نئے رُخ سے تجزیاتی مطالعہ 
  •   شب تاب چراغاں (۱۹۵۷ء) اُردو شاعری کا عہد بہ عہد مطالعہ، ہر عہد کے نمایندہ شعرا کے کوائف اور نمونۂ کلام کے حوالے سے 
  • دُرست اُردو (۱۹۶۰ء) اصلاحِ زبان و تلفظ کے موضوع پر کتاب 
  •   تاریخ زبان و ادب اُردو (۱۹۹۲ء)  اعلیٰ ملازمتوں کے مقابلے کے امتحانات کے لیے نصابِ مطالعہ
  • تحسینِ اُردو (۱۹۶۸ء)  اعلیٰ ثانوی جماعتوں کے لیے قواعد و انشا کے موضوع پر ایک کتاب۔ شریک مصنف: طاہر شادانی، حفیظ الرحمن احسن 
  •   رگِ اندیشہ(۱۹۹۴ء) مجموعۂ نظم و غزل 
  •   یادیں کچھ کرداروں کی(۱۹۹۷ء) ریاست رام پور کے بعض ناقابلِ فراموش کرداروں کی قلمی تصویریں
  • داستان گوانیس(۱۹۹۷ء) انیس کی مرثیہ گوئی کا ایک انقلابی رُخ سے مطالعہ
  • ترجمہ انجیل برناباس(۱۹۷۴ء) بائبل کے اسلوب میں اس نایاب کتاب کا معرکہ آرا ترجمہ۔ خیال رہے کہ اس کتاب کا ترجمہ سید مودودیؒ کی خصوصی تحریک پر انھی کے فراہم کردہ انگریزی اڈیشن سے کیا گیا۔   یہ انجیل حضرت عیسٰی ؑ کی حقیقی تعلیمات کا سب سے صحیح بیان ہے۔

آسی صاحب کے بے شمار مقالات مختلف رسائل میں بکھرے پڑے ہیں جن کو جمع کرکے کتابی صورت میں یک جا شائع کرنے کی ضرورت ہے۔

موصوف کے ذاتی کوائف میں چند چیزیں خاص طور پر لائقِ تذکرہ ہیں لیکن یہاں ان کے بھی صرف عنوان ہی لکھے جاسکتے ہیں۔ایک، ان کے استاذ اور اُردو ادب کی ایک قدآور شخصیت پروفیسر رشیداحمد صدیقی صاحب کے بارے میں اُن کے تاثرات۔ دوسرے، سید مودودیؒ کی طرزِنگارش اور فکری وعلمی انداز استدلال کے بارے میں ان کا دل چسپ اور فکرافروز مطالعہ و تبصرہ۔ تیسرے، اپنے استاذ محترم رشیداحمد صدیقی کے اسلوبِ گفتار کی پیروی میں ان کے بعض دل چسپ اقوال، مثلاً: محکمۂ تعلیم میں بالعموم وہ لوگ آتے ہیں، جو کر تو بہت کچھ سکتے ہیں، لیکن اپنی علم دوستی یا عمل دشمنی کی وجہ سے کرتے کچھ نہیں۔ چوتھے، ان کا غیرمعمولی حافظہ کہ بعض اوقات برسوں پہلے کی سنی ہوئی بعض نظمیں بے تکلف سنا دیتے۔ کبھی گفتگو میںاچانک کہتے کہ ۲۵، ۳۰ سال پہلے (مثال کے طور پر) چند اشعار ہوئے تھے جوتحریری طور پر محفوظ نہیں ہیں لیکن ایک شعر کچھ اس طرح تھا۔ پھر اس کے بعد دوسرا، پھر تیسرا شعر چلا آتا اور اس طرح مدتوں پہلے کی کہی ہوئی پوری نظم سنا دیتے!

ان کی شخصیت کا ایک منفرد پہلو ان کا وہ پُرتپاک اندازِ ملاقات تھا جب وہ ہر آنے والے سے خلوص و محبت، گرم جوشی، خندہ پیشانی اور مسکراتے چہرے سے ملتے تھے۔ دورانِ گفتگو حسب ِ موقع پرانی یادوں اور کسی اہم بات کا تذکرہ، نیز اپنے مخصوص انداز میں اشعار سنانا ہمیشہ یاد رہے گا    ؎

وَے صورتیں الٰہی، کس دیس بستیاں ہیں
اب جن کے دیکھنے کو آنکھیں ترستیاں ہیں

یکم اگست ۱۹۲۰ء کو رام پور میں جنم لینے والی یہ یگانۂ روزگار شخصیت مختصر سی علالت کے بعد ۱۴ جنوری ۲۰۰۹ء کی دوپہر کو اپنے خالقِ حقیقی سے جاملی۔ اس شام جنازے کے وقت ان کے چہرے پر وہی تابانی تھی جو ۵۸ سال پہلے میں نے ان کے چہرے پر دیکھی تھی۔ نمازِ جنازہ  محترم قاضی حسین احمد نے پڑھائی اور مرحوم کی شخصیت کا تذکرہ بڑی خوب صورتی اور محبت کے ساتھ فرمایا۔ بالآخر اقبال ٹائون کے اس قبرستان میں آسودئہ خاک ہوگئے جہاں ہمارے بہت سے تحریکی بزرگ پہلے سے جنت کے باغوں میں محوِ استراحت ہیں___ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ!

 

خواتین کے لیے تفریح کے مواقع

سوال: اسلامی نقطۂ نظر اور پاکستان کے معاشرتی ماحول کو سامنے رکھتے ہوئے ایک عورت یا لڑکی بطور تفریح کیا کچھ کرسکتی ہے، اس ضمن میں چند سوالات پیش ہیں:

آیا یونی ورسٹی کی طرف سے ’ایک روزہ تفریحی دورے‘ (ٹرپ) میں شرکت کی جاسکتی ہے یا نہیں؟ اسی طرح کیا یونی ورسٹی میں ہونے والی مختلف تقریبات میں بھی شرکت کی جاسکتی ہے؟

کیا ڈرامے وغیرہ خواہ وہ کسی ٹی وی چینل سے آرہے ہوں بطور تفریح دیکھے جاسکتے ہیں، جب کہ اس کا اتنا جنون نہ ہو کہ ڈرامے کے لیے باقی تمام مصروفیات ترک کردی جائیں؟

لڑکیوں کا گھر سے باہر یا پارک وغیرہ میں تفریح کے لیے جانا کیسا ہے، جب کہ اجازت اس وقت تک نہیں ملتی جب تک کہ مرد ساتھ نہ ہوں۔ اس بات کو عموماً ہمارے معاشرے میں اچھا نہیں سمجھا جاتا۔

جہاں تک اچھی کتابیں پڑھنے کا شوق ہے، اول تو شہروں میں کتب خانے ہی نہیں ہوتے اور اگر ہوں بھی تو گھروالے عموماً جانے کی اجازت نہیں دیتے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کتابیں پڑھ کر کیا کرنا ہے۔ اگر اتنی ہی فارغ ہو تو گھر کے فلاں فلاں کام کردو۔ دوسرے یہ کہ کتابیں بہت مہنگی ہوتی ہیں۔ میری مراد ایسی تحریروں یا کتابوں سے ہے جو ہلکی پھلکی ہوں، مثلاً ناول، افسانے یا جاسوسی کہانیاں وغیرہ۔

بعض لڑکیاں گھریلو کاموں میں دل چسپی رکھتی ہیں، جیسے سلائی کڑھائی، کھانا پکانا یا گھر کی آرایش وغیرہ۔ بعض لڑکیاں بوریت سے اُکتا کر تفریح کے طور پر غلط راہوں پر چل نکلتی ہیں، جیسے انٹرنیٹ پر فضول چیٹنگ یا رانگ نمبرز وغیرہ میں وقت گزارنا۔ اگر انھیں توجہ دلائی جائے تو کہتی ہیں کہ ہم ایسا تفریحاً کرتی ہیں۔ کیا یہ مناسب ہے؟

ان نکات کی روشنی میں خواتین کے لیے تفریح کا مقصد واضح فرما دیں۔

جواب: آپ نے تفریح کے مقصد اور ذرائع کے حوالے سے بہت اہم سوال اٹھایا ہے بالخصوص ایسی فضا میں جب برقی ذرائع ابلاغ نے ایک عام ناظر کو یہ بات باور کرا دی ہے کہ تفریح صرف ٹی وی پر درآمد کردہ مغربی یا ہندستانی ناچ گانوں، ٹاک شوز اور اخلاق برباد کرنے والے ڈراموں ہی سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح ابلاغ عامہ نے یہ بات بھی ذہنوں میں بٹھا دی ہے کہ اسلامی چینل کا مطلب کسی صاحب ِ علم کی تقریر یا کسی عامل کا فون پر لوگوں کی قسمت بتانے اور زرق برق لباس میں نعت سنانے یا فال نکالنے یا قوالی پیش کرنے کا نام ہے۔ گویا ایک تفریح   وہ ہے جو ۷۰ سے اُوپر چینل ہندو اور مغربی ثقافت کے ذریعے پیش کر رہے ہیںاور دوسری تفریح   وہ ہے جو ’اسلامی‘ ہے۔ عوام الناس اس میں جس کو چاہیں انتخاب کر کے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔

میری نگاہ میں یہ تصورات تفریح کے اسلامی تصور کی نمایندگی نہیں کرتے۔ ایک مسلمان لڑکی یا خاتون اور ایسے ہی ایک مسلمان طالب علم یا نوجوان کس طرح تفریح کرے، اس سوال کا جواب قرآن وسنت ہی میں تلاش کرنا ہوگا۔

قرآن کریم سے یہ بات تو ثابت ہے کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ چاہتے ہیں کہ ان کا بندہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور احسانات اور اس کی آیات کو سمجھنے کے لیے سیر اور گشت کے ذریعے تفریح حاصل کرے چنانچہ فجر کے بعد طلوعِ شمس کا منظر، پرندوں کی چہک، بادِنسیم کے جھونکے، یہ فطری ذرائع انسان کو تفریح اور تازگی بخشنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ایسے ہی قرآنِ کریم کی تلاوت انسان کے جسم اور دل و دماغ کے لیے سامانِ تسکین فراہم کرتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا صرف تلاوتِ قرآن کی سماعت اور مناظر فطرت کو دیکھنا ہی تفریح فراہم  کرتا ہے یا ایک مسلمان لڑکی یا خاتون تفریح کے مزید ذرائع سے بھی استفادہ کرسکتی ہے؟ اس میں اصول یہ ہے کہ ہر وہ شے جس کی ممانعت نہ کی گئی ہو، اصلاً مباح ہے۔ لہٰذا تاریخی مقامات کی سیر، کسی عجائب گھر یا لائبریری میں جاکر معلومات میں اضافہ کرنا، یونی ورسٹی کی طالبات کے ساتھ کسی ایسے تعلیمی و تفریحی مقام پر جانا جو محفوظ ہو اور جہاں اختلاط کا امکان نہ ہو، یا کسی ایسی تقریب میں شرکت کرنا جہاں صحت مند شاعری یا ادبی نگارشات پیش کی جا رہی ہوں___ ایسی تفریحات ہیں جن کی شریعت میں بظاہر ممانعت نہیں کی گئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود حضرت حسان بن ثابتؓ سے اشعار سنے ہیں، اور جسمانی کرتب دکھانے والے افراد کے کرتب اُم المومنین سیدہ عائشہؓ کو دیکھنے کی اجازت دی ہے۔

خیال رہے کہ اس بنیاد پر یہ راے قائم کرلینا کہ اولمپک میں حصہ لینے والی چینی خواتین کی جسمانی ورزش کو جائز قرار دے دیا جائے، درست نہیں۔ ہاں، اگر تمام جسم ڈھکا ہو، صرف خواتین کی محفل ہو تو ایک مسلمان لڑکی جوڈوکراٹے کے ساتر لباس میں اپنی اور موجود خواتین کی تفریح کا سامان کرسکتی ہے یا دیگر کھیلوں میں حصہ لے سکتی ہے۔ لباس ایسا ہونا چاہیے جس سے جسم کے خدوخال واضح نہ ہوتے ہوں اور ناظرین میں جنسِ مخالف کے افراد نہ پائے جاتے ہوں۔ اسی طرح ایسے ڈرامے جن کے مکالمے اور مناظر بے حیائی اور فحاشی کی طرف نہ لے جاتے ہوں، دیکھے جاسکتے ہیں۔ ٹی وی پر آنے والے کرکٹ میچ اور اس قسم کی دیگر سرگرمیوں کے دیکھنے میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی سواے اس کے کہ کوئی بھی تفریح عبادات اور اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل کردینے والی نہ ہو۔

آپ نے بالکل درست لکھا ہے کہ گذشتہ چند سالوں میں کتابوں کی قیمت میں اضافہ اور پڑھنے والوں میں کمی ہوئی ہے۔ اس کا علاج صرف ایک ہے کہ کتابوں کے مطالعے کی عادت کو فروغ دیا جائے تاکہ کتابیں بڑی تعداد میں طبع ہوں اور اس بنا پر ان کی قیمتوں میں تخفیف ہوسکے۔ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ باقاعدہ منصوبہ بندی کرکے ہرمحلے میں کم از کم ایک لائبریری ایسی قائم کی جائے جس میں ایک مقررہ ممبرشپ فیس کے عوض تعمیری اور پاک ادبی کتب فراہم کی جائیں جن میں اسلامی اور دعوتی لٹریچر بھی شامل ہو۔ یہ ایک تحریکی ضرورت ہے اور اس پر خاص توجہ کی ضرورت ہے۔ ایسی لائبریریاں مخیر حضرات کے تعاون سے بھی قائم کی جاسکتی ہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ تفریح محض ناچ گانے سے نہیں بلکہ ہر اُس کام سے حاصل کی جاسکتی ہے جسے آپ تفریح کی غرض سے کریں۔ ایک تعمیری ناول اگر آپ تفریح کے لیے پڑھیں تو اس کا نفسیاتی اثر اُس سے بہت مختلف ہوگا جو یہ ناول نصاب کے لازمی مضمون کے طور پر پڑھنے سے ہوگا۔

یہ بات درست نہیں ہے کہ لڑکیاں کوئی تفریحی مطالعہ کرنے کے بجاے صرف کھانے پکانے یا سلائی کڑھائی کے کام میں لگی رہیں۔ بلاشبہہ یہ سب کام ان کے لیے مفید ہیں لیکن والدین کو چاہیے کہ وہ لڑکیوں کو اپنی علمی اور ادبی سطح بلند کرنے کے لیے مناسب مواقع فراہم کریں۔

جہاں تک تعلق پارک میں تفریح کرنے کا ہے، اگر ایسا کرنا محفوظ ہو تو لازماً اسے کریں لیکن موجودہ لاقانونیت اور عدمِ تحفظ کی فضا میں محض اپنے ’انسانی حقوق‘ کو استعمال کرنے کے شوق میں خود کو کسی خطرے میں نہ ڈالیں۔ اگر آپ کے ہمراہ کوئی محرم مرد ہو تو خطرہ کم ہوگا۔ اسی بنا پر والدین نہیں چاہتے کہ ان کی بچیاں تنہا یا سہیلیوں کے ساتھ پارک میں تفریح کے لیے جائیں۔ اگر بعض پارک خواتین کے لیے مخصوص ہوں اور محفوظ بھی ہوں تو بغیر کسی مرد کو ہمراہ لیے وہ گروپ کی شکل میں جاسکتی ہیں۔

مسلمان لڑکیاں خود ایسے گروپ تشکیل دے سکتی ہیں جن میں چار پانچ لڑکیاں ساتھ مل کر کلامِ اقبال ترنم سے پڑھ کر لطف اندوز ہوں یا اپنے تحریر کردہ مکالمے اور ڈرامے صرف خواتین کے سامنے پیش کرکے فرحت حاصل کریں۔ اسی طرح اچھے اشعار کے مقابلے، بیت بازی، لطائف کا مقابلہ اور ایسی ہی دوسری سرگرمیاں ہیں جو relax کرنے اور تفریح کے لیے اختیار کی جاسکتی ہیں۔ ہمیں تفریح میں بھی کوشش کرنی چاہیے کہ لادینی تہذیبوں کو ماننے والے افراد سے مختلف ہوں اور ان میں تعمیری رجحان پایا جائے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)

 

سراپا رحمت (رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم اور رفاہی کام)، مؤلف: پروفیسر امیرالدین مہر۔ ناشر: غزالی اکیڈمی، میرپور خاص۔ صفحات: ۱۶۰۔ قیمت: ۱۲۰ روپے۔

سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم وہ سدابہار پاکیزہ اور محبوب موضوع ہے جس پر حضرت حسانؓ بن ثابت سے لے کر پوری اسلامی تاریخ میں آپؐ کی سیرتِ طیبہ، صورتِ مبارکہ، آپؐ کے پاکیزہ و تاباں اخلاق، اعمال و افعال اور زندگی کے تمام گوشوں پر مسلسل کہا، لکھا اور نشر کیا جا رہا ہے۔ لیکن یہ ذخیرہ اتنا وسیع، عمیق اور زیادہ ہے کہ مزید اس پر لکھنے اور پڑھنے کا تقاضا موجود ہے۔

سیرتِ طیبہؐ کو حیطۂ تحریر میں لانے کی ایک کوشش مولانا امیرالدین مہر نے بھی کی ہے۔ انھوں نے آپؐ کی سیرت کا رفاہی، اصلاحی، فلاحی اور خدمت ِ خلق کا پہلو بیان کیا ہے۔ اس کتاب کے دو بڑے حصے ہیں۔ ایک حصے میں آپؐ کے وہ کارنامے، اعمال و اقدام بیان کیے گئے ہیں جو آپؐ نے بنفسِ نفیس سرانجام دیے، اور دوسرے حصے میں آپؐ کی وہ احادیث، ارشادات و فرمودات ہیں جن سے خدمت ِ خلق اور رفاہی کاموں کی ضرورت، اہمیت اور اس کے دنیوی و اخروی اثرات و ثمرات اور اجروثواب کا تذکرہ ہے، جیسے آپؐ کا حلف الفضول میں شرکت، حجراسود کا نصب کرنا، مظلوم و یتیم کا حق دلانا اور میثاقِ مدینہ کا معاہدہ ۔ اس طرح آپؐ نے مدینہ منورہ اور گردونواح کے باشندوں میں امن قائم کردیا۔ اسی طرح مواخات، اصحابِ صفہ کی خدمت، مسجدقبا اور مسجدنبویؐ کی تعمیر وغیرہ ہے۔ اس سے ایک طرف سیکڑوں مہاجرین کی آمد کا مسئلہ حل ہوا تو دوسری طرف تعلیم و تربیت کا بندوبست بھی ہوگیا ہو اور اسلامی ریاست مستحکم ہوئی۔

اپنے موضوع پر یہ منفرد کتاب ہے اس لیے کہ اُردو زبان میں پہلی مرتبہ سیرت کے اس پہلو کو موضوع بنایا گیا ہے۔ یوں اہل علم و فضل کی توجہ اس طرف منعطف کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ سیرت کے اس پہلو کو نمایاں کر کے پیش کریں، اور اسلام اور حاملینِ اسلام کے بارے میں اس تاثر کو دُور کیا جاسکے کہ مسلمانوں میں رفاہی کام کی وہ اہمیت نہیں ہے جو دوسرے مذاہب اور آزاد خیال لوگوں میں ہے۔ سیرت کے اس پہلو پر ایسی تحریر آنے سے یہ تاثر دُور ہوگا اور رفاہی کام کرنے والے حق الیقین سے کام کریں گے۔

مولانا امیرالدین مہر دعوتی و تبلیغی حلقوں میں جانی پہچانی علمی شخصیت ہیں۔ انھوں نے اُردو اور سندھی میں ۴۰ کے قریب کتابیں اور کتابچے مرتب کیے اورترجمے کیے ہیں۔ ان کے منجملہ تالیفات و تصنیفات میں قرآن مجید کا سندھی ترجمہ، تفہیم القرآن اور تلخیص تفہیم القرآن کا سندھی ترجمہ نمایاں ہیں۔ (شہزاد چنا)


ناموسِ رسالتؐ کے سات شہید، راے محمد کمال، ناشر: جہانگیر بک ڈپو، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۷۲۲۰۷۸۹۔ صفحات: ۴۴۸۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔

ایک مسلمان کے لیے حب ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم، ایک جذبے، روح اور خوشبو کی مانند ہے، جسے قانون اور علمِ سماجیات کے پیمانوں پر تولا اور پرکھا نہیں جاسکتا۔ اس جذبے کی لذت و حلاوت کا ذائقہ وہی وجود چکھ سکتا ہے، جس کا نام خود خالقِ کائنات سے مسلم رکھا ہے۔

۲۰ویں صدی کے پہلے چار عشرے جہاں سیاسی و سماجی ہنگامہ خیزی کے لیے برعظیم کی تاریخ کا ایک اہم دور تصور کیے جاتے ہیں، وہیں ناموسِ رسالتؐ کے باب میںیہ زمانہ روشنی کا  ایک مینار بن کر سامنے آتا ہے۔ ہندو آریہ سماجیوں نے جب بھی رسولِؐ خدا کی شانِ اقدس میں پے درپے گستاخانہ جسارتیں کیں، مسلمان نوجوانوں نے پروانہ وار آگے بڑھ بڑھ کر اپنے ایمان اور جان کی گواہی پیش کی۔ یہ کتاب انھی جان نثاروں کے احوال پر مشتمل ہے۔ مثال کے طور پر عبدالرشید شہید [۱۴ نومبر ۱۹۲۷ء]، علم دین شہید [۳۱ اکتوبر ۱۹۲۹ء]، عبدالقیوم شہید [۱۹ مارچ ۱۹۳۵ء]،محمد صدیق شہید [۹ مارچ ۱۹۳۵ء]، مرید حسین شہید [۲۴ستمبر ۱۹۳۷ء]، میاں محمد شہید [۱۲اپریل ۱۹۳۸ء]۔ کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ ان کے احوال و واقعات کا مطالعہ کیا جائے تو شہادت کی یہ زندہ علامتیں، روشنیاں بکھیرتے ہوئے ایمان کی دنیا سیراب کرتی ہیں۔

مصنف نے محنت، محبت، سلجھائو اور متوازن اسلوب کے ساتھ ملّی تاریخ کے ان روشن نقوش کو یک جا پیش کیا ہے، جن کی روشنی میں دو قومی نظریہ پوری آب و تاب کے ساتھ نکھر کر سامنے آجاتا ہے۔ ہمارے سیکولر دانش وروں کی کج فہمی اور متحدہ قومیت کے طرف داروں کی کور فہمی کی دُھند، مطالعہ کرتے ہوئے بتدریج صاف ہوجاتی ہے۔ یہ حقیقت بھی اُبھر کر سامنے آتی ہے کہ اگرچہ ہندودانش، مسلمانوں کے دینی جذبات پر پے درپے حملہ آور رہی، تاہم یہ ممکن نہ ہوا کہ ایمانی وابستگی کے ساتھ مسلمان، ہندو اکثریت کی غلامی قبول کرلیتے۔ گویا کہ تخلیقِ پاکستان میں حب ِ رسولؐ کے ان درخشاں حوالوں اور گستاخیِ رسولؐ کے اذیت ناک واقعات نے ایک طاقت ور عنصر کی حیثیت سے ایک نمایاں کردار ادا کیا ۔ (سلیم منصور خالد)


First Things First for Inquiring Minds and Yearning Hearts، خالد بیگ۔ ناشر: ٹائم مینجمنٹ کلب، گیزری، ڈی ایچ اے، کراچی۔ ملنے کا پتا: کتاب سرائے، الحمدمارکیٹ، اُردو بازار لاہور۔ صفحات: ۴۲۱۔ قیمت: درج نہیں۔

لندن سے شائع ہونے والے شہرئہ آفاق انگریزی مجلے امپیکٹ نے ایک نسل کی رہنمائی کی ہے۔ اس مؤقر جریدے میں اوّلین کالم First Things First کے عنوان سے شائع ہوتا رہا۔ اس کالم کے اثرات ابھی تک امپیکٹ کے قارئین کے دلوں پر نقش ہیں۔ ان مضامین کو مفید ومؤثر پاکر کتابی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔

زیرنظر کتاب ایک ایسے درد دل رکھنے والے صاحب ِ دل کے تاثرات ہیں جو مغرب کے تہذیبی رویوںاور طرزِعمل سے بخوبی آگاہ ہے اور انسانیت کو درپیش مسائل کا احاطہ کرنے کے ساتھ ساتھ خوب صورتی سے ان کا اسلامی حل پیش کرنے کی کوشش کرتاہے، اُس کا انداز دوست کا بھی ہے، عالم دین کا بھی، اور معاملات کو اُن کی تہہ تک سمجھنے والے دانش ور کا بھی۔

خالد بیگ نے انسان کو مخاطب کیا ہے۔ دو دوتین تین صفحات کی مختصر دل نشین تحریروں میں وہ کوئی انتہائی بنیادی سوال اٹھاتے ہیں اور پھر قاری کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنے دل ودماغ کے دریچے وَا کرے اور سوچے کہ مادہ پرست تہذیب، خصوصاً سائنس و ٹکنالوجی کو خدا سمجھنے والے انسان، انسانیت کے آنسو پونچھنے میں ناکام کیوں رہے ہیںاور آج، دنیا کو جنگ و جدل، غربت، بیماری،  عدمِ انصاف اور عدم رواداری جیسے مصائب کا کیوں سامنا ہے؟

ابتدائی چار ابواب میں کلامِ پاک، سنت ِ رسولؐ ، بنیادی عقائد، عبادات کو موجودہ پس منظر میں زیربحث لایا گیا ہے۔ علاوہ ازیں اصلاحِ ذات، خواتین، تعلیم، تاریخ، سیکولرزم، مسلم اتحاد کے موضوعات پر بھی قلم اٹھایاگیا ہے۔

اکثر مضامین کا آغازکسی نہ کسی تازہ ترین واقعے سے ہوتا ہے جو مغربی دنیا میں وقوع پذیر ہوا ہو، پھر وہ انسانی ذہن کو جھنجھوڑتے ہیں۔ اُمت مسلمہ کے تابناک ماضی کے ساتھ صحابہ کرامؓ کا ایمان افروزتذکرہ بھی ملتا ہے۔ اسی اثنا میں ہمیں حیران کن معلومات بھی مل جاتی ہیں، مثلاً یہ کہ دنیا میں چوتھائی ٹریلین ڈالر کی رقم شراب نوشی میں صرف کردی جاتی ہے یا یہ کہ ترقی یافتہ مغرب میں بھی ایک سے بڑھ کر ایک ’توہم پرست‘ اور ’وہمی‘ موجود ہے یا یہ کہ مالتھس کے آبادی اور خاندان کے بارے میں نظریات زمین بوس ہوچکے ہیں۔ یہ مضامین حرکت و عمل پر اُبھارتے ہیں۔ اندازِ بیان سادہ اور پُرلطف ہے۔ اس کے کئی زبان میں تراجم بھی شائع ہوچکے ہیں۔ (محمد ایوب منیر)


تاریخ فلسطین، ڈاکٹر محسن محمد صالح۔ مترجم: فیض احمد شہابی۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور۔ صفحات: ۳۵۲۔ قیمت: ۱۸۰ روپے۔

فلسطین کی سرزمین، انبیا اور قبلہ اول کی سرزمین کہلاتی ہے۔ نبیؐ مہربان کے سفرمعراج نے بھی اس کے تقدس و احترام میں اضافہ کیا۔ فلسطین اس وقت سلگتا ہوا مسئلہ ہے۔ یہودی تسلط،  عالمی قوتوں بالخصوص امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ کے تعاون سے جاری ہے اور فلسطینیوں کو سرزمینِ فلسطین سے بے دخل کرنے کا کھیل گذشتہ نصف صدی سے جاری ہے۔ ہمارے بے حس مسلم حکمرانوں کا کردار کچھ کم نہیں ہے۔

خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد برطانوی استعمار نے ۱۹۴۸ء میں صہیونی ریاست کا بیج بویا جو آج ایک ناسور کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ اہلِ فلسطین اپنی آزادی اور حقوق کے لیے حالت ِ جنگ میں ہیں۔ ہر طرح کا ظلم اُن پر آزمایا گیا، لالچ دیے گئے مگر وہ آزادی سے کم کسی پر راضی نہیں۔

تاریخ فلسطین، ڈاکٹر محمد صالح کی انگریزی کتاب History of Palestine کا رواں، شُستہ اور خوب صورت اُردو ترجمہ ہے۔کتاب فلسطین کی تاریخ کا ہرہر پہلو سے جامع احاطہ پیش کرتی ہے۔ فلسطین، فلسطینی عوام، مقاماتِ مقدسہ، یہودیت، صہیونیت اس کے ظہور، صہیونیت بارے اسلامی موقف، اسرائیل، عرب اسرائیل جنگیں، آزادیِ فلسطین کی تحریکیں، امن منصوبے، اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں کا کردار جیسے موضوعات اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے۔

ڈاکٹر محسن محمد صالح خود فلسطینی ہیں اور فلسطین کے بارے میں حقائق، ان کے مشاہدے اور تحقیق پر مبنی ہیں۔ یہ کتاب دانش وروں، طلبہ، صحافیوں اور اہلِ علم کے لیے نادر تحفہ ہے۔ فلسطین کے بارے میں اتنا یک جا مواد کم ہی دیکھنے میں آیا ہے۔ (عمران ظہور غازی)

تعارف کتب

  •   نقوشِ سیرت ؐ، عتیق الرحمن صدیقی۔ ناشر: دارالتذکیر، رحمن مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۷۲۳۱۱۱۹۔ صفحات: ۲۲۳۔ قیمت (مجلد): ۲۴۰ روپے۔ [نبی کریمؐ کی سیرتِ مبارکہ کے مختلف نقوش کا تذکرہ، عملی زندگی کے اندر ہمارے رویوں پر تنقید کے ساتھ عصرحاضرکے لیے عملی رہنمائی۔ سیرت کی معروف کتب کی خوشہ چینی اور جدید و قدیم تفاسیر سے استفادہ بھی کیا گیا ہے۔ بجا توجہ دلائی گئی ہے کہ دنیا کو درپیش مسائل نئے نہیں، جب بھی زمامِ کار ائمہ ضلالت کے ہاتھ آئی تو انسانیت کو انھی مسائل کا سامنا کرنا پڑا ___ نجات کی راہ نبی کریمؐ کا طریق ہے۔]
  •  صلُّوا علیہ وآلہٖ ، (فضائل درود و سلام)، محمدوقاص۔ ناشر: محنت پبلی کیشنز، پوسٹ بکس نمبر۳۲، جی ٹی روڈ، واہ کینٹ۔ فون: ۴۵۳۵۳۳۴-۰۵۱۔ صفحات: ۵۱۔ قیمت: درج نہیں۔[حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اظہارِمحبت کا بہترین ذریعہ درود شریف کا استحضار ہے۔ درود کے فضائل پر بہت سی کتب دستیاب ہیں۔ درود کا مقصد ضرورت، حکمت و فضیلت اور احادیث میں درود کے وارد شدہ الفاظ کے موضوع پر اس کتابچے میں درودشریف کی علمی حیثیت بیان کی گئی ہے جو اس کی انفرادیت بھی ہے اور ایک اہم علمی ضرورت بھی۔ آخری فصل میں نبی کریمؐ کے ادب و مقام پر بحث کی گئی ہے۔]
  •  حیاتِ طیبہ کا ایک دن ، پروفیسر عبدالحمیدڈار۔ ناشر: نشریات، لاہور۔ ملنے کا پتا: کتاب سراے، الحمدمارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۷۳۲۰۳۱۸-۰۴۲۔ صفحات: ۶۷۔ قیمت: درج نہیں۔ [حضوؐر کی کتابِ زیست کا ایک ورق جس میں سیرت نبویؐ کی ایسی تمام تعلیمات کو یک جا کردیا گیا ہے جو ہماری ۲۴گھنٹے کی روزمرہ زندگی میں سنت کا ایک مکمل اور بھرپور نمونہ پیش کرتی ہیں۔ سیرتِ رسولؐ پر ایک مختصر جامع کتاب، تعمیرسیرت اور تزکیۂ نفس کے لیے نمونۂ عمل۔]

ڈاکٹر اختر حسین عزمی ،پتوکی

ترجمان القرآن کا نیا سرورق بامقصد اور دیدہ زیب ہونے کے اعتبار سے پسند آیا۔ سرورق پر درج آیت ترجمان جس فکر کا علَم بردار ہے، اس کی صحیح ترجمانی ہے۔

دانش یار ‘لاہور

’اُمت مسلمہ کو درپیش چیلنج اور ہماری ذمہ داری‘ (فروری ۲۰۰۹ء) میں ڈاکٹر انیس احمد نے SWOT کی اصطلاح سے اُمت مسلمہ کی قوتوں، کمزوریوں، مواقع اور خطرات کا جامع تجزیہ کیا ہے۔ یہ چشم کشا اور    بصیرت افروز اداریہ تحریک کے منصوبۂ عمل، تقریر و گفتگو اور اہلِ دانش کے غوروفکر کے لیے اہم نکات پر مبنی ہے۔

سید فیاض الدین احمد ‘ برطانیہ

ڈاکٹر انیس احمد نے ’اُمت مسلمہ کو درپیش چیلنج اور ہماری ذمہ داریوں‘ کے موضوع پر عرق ریزی سے نظر ڈالی ہے۔ بلاشبہہ اُمت مسلمہ بہت سی کمزوریوں کے باوجود روشن مستقبل کی حامل ہے۔ اب اس کا کیا کیاجائے کہ ڈاکٹر کی صحیح تشخص کے باوجود مریض دوا ہی نہ پینا چاہے! ایسے میں مریض اچھا نہیں ہوسکتا۔ عصاے موسوی ہاتھ میں ہونے کے باوجود اس کو جب تک پھینکا نہ جائے وہ سحر سے پیدا شدہ سانپوں کو کھا نہیں سکتا۔ اسلامی تحریکات بھی اب ایسا لگتا ہے کہ تھک گئی ہیں۔ کسی نئے مودودی یا حسن البنا کی ضرورت ہے یہی مشکل اور فی الحال لاینحل سوال ہے۔ ہم سب لوگوں کو اس پر سوچنا ہوگا۔ اللہ اپنے دین کی حفاظت تو خود کرتا ہے۔

عبدالرشید صدیقی ‘برطانیہ

ڈاکٹر انیس کا ’اسلامی فکروثقافت کی قرآنی بنیادیں‘ کے تحت سلسلۂ مضامین فکرانگیز اور بے حد مفید ہے لیکن اسے عام فہم بنانے کی ضرورت ہے۔ ’علم و تفقہ‘ (جنوری ۲۰۰۹ء) میں قرآن کی ۱۰ آیات بلکہ ایک آیت جیسی آیت بنا لانے پر قریش کو دعوتِ مبارزت دینے کا ذکر ہے(ص ۵۴)۔ اس میں یقینا ان سے سہو ہوا ہے۔ قرآن نے جو چیلنج پیش کیا تھا وہ یا تو پورے قرآن کا یا ۱۰ سورتوں یا صرف ایک سورت کا تھا نہ کہ آیات کا۔ پورے قرآن کا ذکر سورئہ بنی اسرائیل (۱۷:۸۸) میں، سورتوں کا ذکر سورئہ ہود (۱۱:۱۳) میں، جب کہ ایک سورت کا ذکر سورئہ بقرہ (۲:۲۳) اور سورئہ یونس (۱۰:۳۸) میں ہے۔ اس کی تصحیح فرما لیں۔

حکیم محمد یحییٰ عزیز ڈاہروی ‘کوٹ رادھاکشن

’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ کی ناکامی‘ (فروری ۲۰۰۹ء) کے تحت جو کچھ تحریر کیا گیا حقیقت ہے۔     بش جائے یا اوباما آئے، عالمِ کفر کی ذہنیت ایک ہی ہے۔ جب تک عالمِ اسلام کو حقیقی قیادت میسر نہیں آتی، ہماری حالت نہیں بدلے گی۔ ’توحید اور اس کے عملی تقاضے‘ اور ’اِبتلا وآزمایش‘ قابلِ تعریف ہیں۔ فی الواقع عقیدۂ توحید ورسالت میں پختگی کے بعد عملی زندگی میں نکھار آتا ہے۔

سیمی نذیر ‘کراچی

نئے سال کا پہلا شمارہ عمدہ مضامین سے آراستہ تھا۔ پروفیسر عبدالغفور احمد کا ’کراچی کا مسئلہ‘ (جنوری ۲۰۰۹ء) دکھتی رگ پر ہاتھ رکھنے کے مترادف ہے۔ کراچی کا پس منظر جان کر لگا کہ یہ واقعی پاکستان کے لیے انگوٹھی کا نگینہ اور اقتصادی شہ رگ ہے۔ خدا کرے کراچی ایک بار پھر ماضی کی طرح امن کا گہوارہ بن جائے۔

مولانا مودودیؒ کی تحریر ’محض تبلیغ نہیں، اقامت دین‘ نے تو دل و دماغ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ بالخصوص یہ جملے تو تصورِ دین کو نکھار کر رکھ دیتے ہیں: قرآن نافذ ہونے کے لیے آیا ہے، صرف تلاوت کے لیے نہیں۔ تعزیراتِ پاکستان پڑھنے کے لیے نہیں چلن کے لیے ہے۔ اس کے علاوہ نفاذِ شریعت کے لیے طریق کار، اخلاقی اوصاف، حکمت، اقامت دین کے انفرادی و اجتماعی تقاضے، تنظیم و تربیت جیسے اہم نکات کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے جو اسلامی تحریک کی اصل خصوصیات ہیں جن سے ہماری توجہ ہٹتی جارہی ہے۔

سعید بدر منیر ،(بذریعہ ای میل)

’قرآن اور یہ کائنات‘ (دسمبر ۲۰۰۸ء) اے رشید کی قابلِ قدر کاوش ہے اور جدید ذہن میں اٹھنے والے سوالات کا بخوبی جواب دیا گیا ہے۔ مضمون نگار کو مزید سائنسی موضوعات پر قرآن کی روشنی میں قلم اٹھانا چاہیے۔

عابد محمود ‘لاہور

جناب عبدالغفار عزیز کی تحریر ’ہرکارخیر میں پیش پیش،  الشیخ عبداللہ المطوعؒ، (دسمبر ۲۰۰۸ء) پڑھ کر احساس ہوا کہ اصل تجارت کیا ہے اور کیسے کی جاتی ہے، اور دامنِ اسلام آج بھی کیسے کیسے لعلوں سے بھرا ہوا ہے! ابوبدر جیسے کردار ہی پوری انسانیت کی آبرو ہوا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔

فارحہ کمال ‘کراچی

حج پر مختلف مسلمان ملکوں کے حاجیوں کو آپس میں ملنے کا موقع ملتا ہے۔ ایک دوسرے کی زبان نہیں آتی لیکن دین کا رشتہ اجنبیت کی دیوار ہٹا دیتا ہے۔ اس مرتبہ حج کے موقع پر ایک ایرانی خاتون سے بات چیت کی کوشش کی تو فارسی نہ جاننے کی وجہ سے بات تو نہ ہوئی لیکن اُس نے انگلیوں سے V بناکر کہا: احمدی نژاد، میں خوش بخت۔ یہ سن کر میری نظریں زمین پر گڑگئیں: ’مشرف، زرداری‘ مَیں بدبخت۔

 

انسان کے جتنے کام بھی ہوتے ہیں وہ دیکھنے میں اگرچہ اعضا و جوارح سے سرزد ہوتے ہیں لیکن ان کا حقیقی منبع اور اصلی مرکز ذہن ہی ہوتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ذہنوں کی کیفیتیں بھی الگ الگ ہوتی ہیں۔ بعض ذہن تو ایسے ہوتے ہیں جن میں کوئی خاص قسم کے افکار نہیں ہوتے بلکہ پراگندہ اور منتشر خیالات جم جاتے ہیں، پھر ان سے ظاہر ہونے والے تمام خارجی افعال میں بے ربطی، پراگندگی اور انتشار عیاں ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف دوسری قسم کے ذہن وہ ہوتے ہیں جن میں کوئی عمدہ اور مضبوط عملی فکر موجود ہوتا ہے، جس کا رسوخ و ثبات پوری طرح چھایا رہتا ہے، اور اس کے نتیجے کے طور پر جو امور، خارجی مظاہر میں نمودار ہوتے رہتے ہیں وہ اتنے ہی راسخ اور ثابت ہوتے ہیں جس قدر ان کا ذہنی پہلو مضبوط ہوتا ہے۔ بہرحال انسانی سیرت کی تشکیل کرنے والی اصل قوت اس کی باطنی کیفیت ہی ہے اور اس کیفیت ہی سے انسانوں کی صلاحیتوں اور قابلیتوں کو ظاہری تکمیل کا سروسامان کار مہیا ہوتا ہے۔ انسان کے ظاہر میں جو اقوال و افعال، حرکات و سکنات، ظاہر ہوتے رہتے ہیں وہ اصل میں اس کی معنوی استعداد کے نہایت سچے اور حقیقی ترجمان ہوتے ہیں۔ یہی باعث ہے کہ دنیاے انسانی میں اجتماع و تنظیم، اتحاد و اتفاق، ترتیب و ہم آہنگی کے لیے کسی نہ کسی نہایت مضبوط ذہنی بنیاد کی ضرورت پیش آتی ہے، جو ایک طرف انفرادی طور پر ہرفرد میں موجود ہو اور دوسری طرف مجموعی اعتبار سے اجتماعی طور پر پوری جماعتی زندگی میں موجود رہے، ورنہ کسی متحد نظامِ فکر کا وجود میں آنا ممکن ہی نہیں ہوسکتا۔ ’ایمان‘ اصل میں اسی انقلاب انگیز کیفیت کو کہتے ہیں جو انسان کے اندر صحیح علم و معرفت، فہم وفراست، حکمت و یقین اور فکرونظر کے خالص طریقۂ استعمال سے پیدا ہوجاتی ہے، پھر اس سے انسان کے ذہن و دماغ میں ایک خاص قسم کا سلجھائو پیدا ہوتا ہے، اور اس کے بعد انسانی فطرت کے اصلی خدوخال نمایاں ہوتے ہیں۔ اس کے متعلقہ اغراض و مقاصد پورے ہونے شروع ہوجاتے ہیں۔ انسان اپنے منشاے تخلیق کو اپنے   خالق و مالک کی مرضی کے ٹھیک ٹھیک مطابق ادا کرنے لگ جاتا ہے اور اس کا وجود نہ صرف خود اس کے لیے بلکہ پوری نوع انسانی کے لیے اور کُل کائنات کے لیے مفید ترین بن جاتا ہے۔ (’مقتضیات ایمان‘،    سید صبغۃ اللہ بختیاری، ترجمان القرآن، جلد۲۸، عدد۱، محرم ۱۳۶۵ھ، دسمبر ۱۹۴۵ء، ص ۲۶-۲۷)