مضامین کی فہرست


جنوری ۲۰۰۹

۲۶نومبر سے ۲۹ نومبر تک ممبئی کے پانچ مقامات پر جو قتل عام ہوا، اس نے پوری دنیا کی توجہ ایک بار پھر دہشت گردی کے مسئلے پر مرتکز کردی ۔ بھارتی میڈیا نے اس موقعے کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ دہشت گردی کے اس واقعے میں تقریباً ۲۰۰بے گناہ لوگ قتل ہوئے ،جن میں صوبہ مہاراشٹر کے اینٹی ٹیررسکواڈ (ATS)کے سربراہ ہیمنت کراکرے بھی شامل ہیں۔ اس واقعے سے ایک ہفتہ قبل خود بھارت کے تحقیقاتی اداروں نے یہ انکشافِ (حقیقت) کر دیا تھا کہ بھارت میں ہونے والی دہشت گردی کے سنگین واقعات میں بھارت کی انتہاپسند ہندو تنظیمیں اور بھارتی فوج کے سینئر افسر ملوث ہیں۔

فی الحقیقت بھارت میں دہشت گردی کے متعدد واقعات (بشمول سمجھوتا ایکسپریس کے دھماکے اور مالیگائوں کے دھماکوں) کے پیچھے بھارتی انتہا پسند ہندوتنظیم بجرنگ دل کے ملوث ہونے کے واضح شواہد موجود ہیں۔ مگر ان تنظیموں کے بے پناہ اثر ورسوخ کی وجہ سے ان کے خلاف کسی قسم کی کوئی کارروائی ناممکن ہے اور جب بھی ان کی نشان دہی کی جاتی ہے تو ان کو بچانے کے لیے خفیہ ہاتھ سرگرم عمل ہوجاتے ہیں۔

ممبئی میں کارروائی کرنے والے آٹھ دس نوجوان انتہائی پختہ کار کمانڈو تھے ۔ ان کے بارے میں خود بھارت کے ماہرین کی رائے ہے کہ ان کی کارروائی جرأت و دلیری، پیشہ وارانہ مہارت اور اہداف کے حصول کے لحاظ سے بے مثال تھی۔ جن مقامات کو نشانہ بنایا گیا وہاں عموماً امریکا ،اسرائیل، برطانیہ اور یورپ کے دوسرے ممالک کے اہم ترین افراد ٹھیرتے ہیں۔ اس کارروائی کے ذریعے یورپ، امریکا اور اسرائیل کو بھارت کی پشت پر کھڑا کردیاگیاہے۔ یہ کارروائی ایک ایسے موقعے پر کی گئی کہ بھارت میں عام انتخابات ہونے والے ہیں۔ انتہاپسند ہندوتنظیمیں اور بھارتیہ جنتا پارٹی انتخابات جیتنے کے لیے عین اس موقعے پر اس طرح کی کارروائیاں کرنے میں مہارت رکھتی ہیں۔ صوبہ گجرات میں بڑے پیمانے پر مسلم کش فسادات کروانے کے بعد جو انتخابات ہوئے، ان میں مذکورہ پارٹی کو واضح اکثریت مل گئی ۔ ۱۹۹۲ء میں بابری مسجد کو منہدم کرنے کے بعد بھی جنتا پارٹی پورے ملک میں انتخابات جیت گئی تھی، تب سے اس پارٹی کو انتخابات میں کامیابی کی کلید مل گئی اور وہ یہ ہے کہ انتخابات کے موقعے پر مسلم دشمن اور پاکستان دشمن فضا پیدا کردی جائے ۔ اس طرح ووٹروں کی اکثریت کو اپنے حق میں ہموار کیا جاسکتا ہے۔

حکومت پاکستان کی طرف سے ممبئی کے واقعے پر افسوس کااظہار کرنے اور اس کی مذمت کرنے اور بھارتی حکمرانوں کے دھمکی آمیزلہجے کے جواب میں خوشامدانہ طرز عمل اختیار کرنے کے باوجود، بھارتی حکومت نے پاکستان کو ذمہ دار ٹھیرایا اور کچھ پاکستانی تنظیموں اور چند پاکستانی شہریوں کو نامزد بھی کردیا۔ ساتھ ہی پاکستان کے خلاف جنگ کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کے عوام اور حکومت کو جنگ کا حقیقی خدشہ محسوس ہوا اور وزیراعظم نے اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے پوری قومی قیادت کو ایک مجلس مشاورت میں شرکت کی دعوت دی۔ سب ہی جماعتوں نے وزیراعظم ہائوس میں منعقدہ اس مشاورت میں شامل ہوکر قومی یک جہتی اور اتحاد کا بھرپور ثبوت دیا۔ اس مجلس میں شرکا کی اکثریت نے حکومت کو مشورہ دیا کہ سنگین خطرات کامقابلہ کرنے کے لیے حکومتی پالیسی میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔

پاک افغان سرحد قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک ہماری ایک محفوظ سرحد رہی ہے جس پر ہمیں کبھی بھی کسی مشکل کا سامنا نہیں کرناپڑا۔ یہاں تک کہ ۱۹۶۵ء اور ۱۹۷۱ء کی جنگوں میں افغانستان میں ظاہر شاہ کی حکومت کی طرف سے بھی، جو عموماً پختونستان کا ڈھنڈورا پیٹنے کی عادی تھی حکومت پاکستان کو یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ وہ اپنی مغربی سرحد سے بے فکر رہیں۔ اس کی بڑی وجہ خود قبائلی عوام اور افغان عوام کی اسلام دوستی تھی اور وہ پا ک بھارت جنگوں کے دوران پاکستان کے لیے کوئی مشکل پیدا کرنے کے حق میں نہیں تھے۔ لیکن جب سے نیٹو کی افواج نے افغانستان پر قبضہ جمایا ہے انھوںنے بھارت کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے کہ وہ پاک افغان سرحد پر قونصل خانوں کے نام سے اپنے جاسوسی اور تخریب کاری کے مراکز قائم کرکے پاکستان کے قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں ریشہ دوانیوں کا جال پھیلا دے۔ پاکستان میں ہونے والے دھماکوں میں یہ بھارتی ایجنٹ ملوث ہوتے ہیں اور طرفہ تماشا یہ ہے کہ ان دہشت گردی کو عدالتوں سے سزا ملنے کے باوجود حکومتِ پاکستان ان کی رہائی کے لیے بے تاب رہتی ہے۔ کشمیرسنگھ پرویز مشرف دور میںرہا کیا گیا۔ اب سربجیت سنگھ کے لیے فضا ہموار کی جارہی ہے۔


پرویز مشرف کی یہ پالیسی کہ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کے صف اول کے حلیف ہیںاور امریکا کواپنے اڈے استعمال کرنے ، اپنی فضا کو ان کے ہوائی جہازوں اور ان کے میزائلوں کے لیے کھولنے، انھیں رسد پہنچانے اوران کو اپنے خفیہ اور جاسوسی اداروں کی معلومات فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں، ملک و قوم کے مفاد کی بجاے امریکا کے مفاد میں تھی۔ بدقسمتی سے موجودہ حکومت بھی اسی پالیسی پر گامزن ہے ۔ اس پالیسی کے نتیجے میں حکومت نہ صرف افغانستان اور قبائلی علاقوں میں بلکہ اپنے ملک کے ہر حصے اور ہر طبقے میں میں عوام کی تائید سے محروم ہوگئی ہے۔

پاکستان جو روسی تسلط کے خلاف افغان عوام اور مجاہدین کا حلیف تھا طویل عرصے تک لاکھوں افغانوں کی پاکستان کی سرزمین پر موجودگی کے باوجود، داخلی طور پر بدامنی سے محفوظ رہا کیونکہ روس کے خلاف مجاہدین کی مدد کرنے میں پاکستان کے عوام حکومت کی تائید کررہے تھے ۔ لیکن جب روس کے بجاے امریکا اور نیٹو افغانستان پر قابض ہوگئے تو پاکستانی حکومت نے یوٹرن لیا اور مجاہدین اور افغان عوام کے خلاف امریکا کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ یہ پالیسی افغان، پاکستانی اور قبائلی عوام کی دینی امنگوں کے خلاف ہے۔ افغان مجاہدین روس کے خلاف جو ایک طویل صبر آزماجنگ لڑرہے تھے اور پاکستانی عوام میں جو عناصر ان کے پشتیبان تھے، وہ افغانستان کو اسلام کا قلعہ سمجھتے تھے اور اس تاریخی آزاداسلامی خطے کو کمیونزم کے چنگل میں جانے سے بچا کر اس کو ایک مکمل اسلامی ریاست میں تبدیل کرنا چاہتے تھے۔ ان کے لیے امریکی تسلط اسی طرح نامنظور ہے جس طرح روسی تسلط نامقبول تھا۔ لیکن پاکستانی حکومتوں نے کبھی عوامی اُمنگوں کا احترام نہیں کیا۔  اس لیے روسیوں کے نکلنے کے بعد یہ امریکا کے آلۂ کار بن گئے۔ یوں دشمن کو خود پاکستان کے اندر بدامنی پھیلانے کا موقع مل گیا ۔ اگر ہمارے حکمران امریکا کی مخالفت کی سکت نہیں رکھتے تو کم ازکم انھیں امریکا سے معذرت کرلینی چاہیے کہ افغانستان میں امریکی قبضہ برقرار رکھنے میں مدد دینے سے ہم قاصر ہیں کیونکہ یہ پالیسی ہمارے عوام کے لیے قابل قبول نہیںہے اور ہم اگر امریکا سے لڑنے اور اس کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہیں تو اپنے ملک کے عوام سے لڑنے اور انھیںزیر کرنے کے بھی قابل نہیںہیں۔ پچھلے مہینے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی قرار داد میں بھی حکومت کو مشورہ دیاگیاتھا کہ قبائلی عوام کے خلاف فوجی طاقت کا استعمال بند کردیا جائے اور گفت و شنیداور ترقیاتی کاموں کے ذریعے قبائل کا دل جیتنے کی کوشش کی جائے۔ اس وقت سوات ، باجوڑ ،مہمند ایجنسی ،درہ آدم خیل ،کرم ایجنسی اور وزیرستان کے لاکھوں عوام اپنے ملک کے اندر  بے گھر ہوچکے ہیں۔ ان کے خلاف امریکا کی ایماء پر آپریشن جاری ہے ۔ یہ قبائل ہمیشہ پاکستان کے وفادار رہے ہیں اور یہ پاکستان کی فوج کے لیے ایک ریزروفورس اور بازوئے شمشیر زن کی حیثیت رکھتے ہیں۔ خطرے کے اس موقع پر انھیں اعتماد میں لینا ناگزیر ہے۔ دینی جماعتوں کی طرف سے حکومت پاکستان کو یقین دہانی بھی کرائی گئی کہ اگر قبائل کے خلاف فوجی کارروائی روک دی جائے تو قبائل کو جو محب ِ وطن ہیں، قائل کیا جاسکتا ہے کہ وہ پاکستان کو کمزور کرنے کی کسی کارروائی کا حصہ نہیں بنیں گے۔

قومی جماعتوں نے حکومت کو مشورہ دیا کہ بھارت کے دبائو میں آکر اپنے شہریوں کے خلاف کوئی کارروائی کرنا خود بھارت کے ہاتھ مضبوط کرنے کے مترادف ہوگا۔ اس کے بجاے انھیں بھارت اور بین الاقوامی برادری کے سامنے شواہد پیش کرنے چاہییں کہ کس طرح بھارت ہماری مغربی سرحد پر قونصل خانے قائم کرکے انتشار اور بد امنی پھیلانے کی حوصلہ افزائی کررہا ہے۔

حکومت کو یہ مشورہ بھی دیا گیاہے کہ ہندستان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کے لیے بین الاقوامی برادری کو کشمیر اور پانی کا مسئلہ حل کروانے میں مدد کرنے پر آمادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اور بھارت دو ایٹمی طاقتیں ہیں۔ دونوں ایٹمی طاقتوں میں جنگ انسانیت کی تباہی ہے۔ بھارت اور پاکستان میں کوئی بھی ایسا احمق نہیں ہوگا جوکروڑوں انسانوں کی تباہی اور دونوں ممالک کو بھسم کرنے کے لیے آمادہ ہو۔ اس خطرے کے پیش نظردونوں ممالک مکمل جنگ سے توپرہیز کریں گے لیکن بھارت اپنی عددی اور مادی برتری کے سہارے دوسرے طریقوں سے پاکستان کو مرعوب کرنے کی کوشش کرے گا۔ خاص طور پر اس لیے بھی کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کے بہانے عالمی جنگ میں بھارت ،امریکا اور اسرائیل کا حلیف ہے ، بھارت ایک ارب کی آبادی کا ملک ہونے کی وجہ سے تجارتی لحاظ سے بھی بڑی منڈی ہے اور اس مادی دنیا میں اصولوں کی بجاے مادی منفعت ہی کو اہمیت حاصل ہے اس لیے عالمی طاقتیں عموماً ان کی موید ہیں لیکن اگر ہم امریکا اور بھارت کی دھمکیوں میں آکر شکست اور پسپائی اختیار کریں گے تو ہمیں اپنے آزادانہ وجود کو برقرار رکھنا بھی مشکل ہوجائے گا۔ اس لیے اپنی آزادی اور خودمختاری کی حفاظت کے لیے اپنی قوم کو ساتھ لے کر چلنا اور متحد کرنا ضروری ہے ۔وزیراعظم ہائوس میں قومی اتحاد کا مظاہرہ باتوں کی حد تک تو بہت کامیاب رہا لیکن عمل کے میدان میں حکومت نے اب تک کوئی ایک قدم بھی ایسا نہیں اٹھایا جس سے قوم کے اندر کوئی حوصلہ پیدا ہویا جس سے بین الاقوامی برادری کے سامنے ہمارا حقیقی موقف واضح ہوسکے ۔

اس کے برعکس سلامتی کونسل کی ایک کمیٹی نے پاکستان کی دینی جماعت اور خدمت خلق کے ایک بڑے ادارے ’جماعۃ الدعوۃ‘ کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا ۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مندوب حسین ہارون کا کہناہے کہ اس سلسلے میں ہمیں اپنا موقف پیش کرنے کا موقع نہیں ملا۔ تعجب ہے کہ جب پاکستانی حکومت کو سلامتی کونسل میں اپنا موقف پیش کرنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا تو واضح طور پر سلامتی کونسل کی کمیٹی کے یک طرفہ اور ایک نہایت غیرمنصفانہ فیصلے پر عمل درآمد کرنے میں کیوں اتنی بے تابی دکھائی گئی۔ جماعۃ الدعوۃ کے امیر پروفیسرحافظ محمد سعید اور ان کے چوٹی کے دس ذمہ داران کو فوراً ہی نظربند کرنے کے احکامات کیوں جاری کیے گئے اور جماعۃ الدعوۃ کے تمام دفاتر کو سربمہر کر کے اس کے اثاثوں کو کیوں منجمد کردیا گیا ہے ۔ یہ اس کے باوجود کیا گیا کہ حکومت کا کہناہے کہ انھیں بھارت کی حکومت کی طرف سے کوئی شواہد پیش نہیں کیے گئے، جن سے جماعۃ الدعوۃ یا لشکر طیبہ کے ممبئی کے واقعات میںملوث ہونے کا ثبوت مل سکتاہو۔ حکومت امریکا کا ایک نمایندہ نیگروپونٹے اسلام آباد میں بیٹھ کر سلامتی کونسل کی نامزد کردہ تنظیموں اور ان کے افراد کے خلاف کارروائی کی نگرانی کررہا تھا۔ ساتھ ہی برطانیہ کاوزیرخارجہ بھی اس مقصد کے لیے پاکستان پہنچ گیا۔ برطانوی وزیر خارجہ کی رعونت کا یہ عالم ہے کہ پاکستان کے صدر آصف علی زرداری کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں اس نے مطالبہ کردیا کہ عسکریت پسندوں سے پوچھ گچھ کرنے کا اختیار برطانوی پولیس کو دیا جائے۔اس دوران بھارتی ائیرفورس نے نہایت دیدہ دلیری سے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرکے حکومت کومرعوب کرنے کی کوشش کی ہے لیکن جو حکومت مغربی سرحد پر امریکا کے میزائل حملوں اور ان کے ڈرون طیاروں کے بلاروک ٹوک حملوں پر زبانی احتجاج کرنے سے بھی قاصر ہے اس سے کوئی کیوں گلہ کرے کہ انھوںنے بھارت کے فوجی طیاروں کی پاکستانی حدود کی خلاف ورزی کو ’تکنیکی غلطی‘ قرار دے کر بھارت کو اس جارحانہ کارروائی سے بری کردیا ہے۔


موجودہ عالمی اور علاقائی تناظر اور سلسلہ وار وقوع پذیر ہونے والے واقعات پر گہری نظر ڈالیں تو یوں لگتا ہے، اور اس کے کافی شواہد موجود ہیں کہ بین الاقوامی طاقتوں نے امریکا کی سرکردگی میں پاکستان کے بارے میںیہ فیصلہ کرلیا ہے کہ یہ ملک اپنے اسلامی نظریے اور ایٹمی طاقت ہونے کی وجہ سے ناقابلِ قبول ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ دستور اور موجودہ شکل میں پاکستان کا قائم رہنا امریکا اور اسلام دشمن طاقتوں کے مفاد میں نہیں ہے، لہٰذا:

(i)  اس کے حصے بخرے کیے جائیں۔

(ii)  اسے اسلامی ریاست کی بجاے سیکولر سٹیٹ بنا دیا جائے ۔

(iii)  اس کی ایٹمی طاقت کو نیست و نابود کردیا جائے یا کم از کم اپنے کنٹرول میں لے لیا جائے۔

ملک کے موقر اخبارات میں ایسے مضامین اور رپورٹیں شائع ہو رہی ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ بین الاقوامی سازشی طاقتوں کے ساتھ ساتھ ملک کے اندر ایسی قوتیں موجود ہیں جو مشرقی پاکستان کے سانحے کو دہرانا چاہتی ہیں اور سالمیتِ پاکستان کے خلاف سازش میں شریک ہیں۔ پاکستانی قوم اس امریکی ایجنڈے کامقابلہ کرنے کی سکت رکھتی ہے لیکن پاکستان کی موجودہ انتظامیہ اس کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس کے اندر اتنی صلاحیت ہے نہ جرأت و ہمت کہ امریکا کے مذموم عزائم سے نمٹنے کے لیے مناسب حکمت عملی طے کرے اور قوم کو آنے والے اس خطرے سے خبردار کرے بلکہ موجودہ صاحبانِ اقتدار توتذبذب اور بے یقینی کا شکار ہیں ۔ یہ تذبذب، بے یقینی، بزدلی اور ایمان کی کمزوری ہمیں تباہی کی طرف لے جا رہی ہے ۔ تباہی سے بچنے کے لیے اللہ کی مدد اور قومی بیداری کی ضرورت ہے۔

اِن تَنْصُرُوا اللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ o (محمد۴۷:۷) اگر مدد کرو گے تم اللہ کی تو وہ بھی تمھاری مدد کرے گا اور جما دے گا مضبوطی سے تمھارے قدم ۔

اللہ کی مد د کے لیے لازم ہے کہ ہم ابھی سے وہ کلمہ پڑھ کر اپنی قوم کو پکاریں جو عین جنگ کے وقت ایوب خان کو یاد آگیا تو پوری قوم اس کے ساتھ کھڑی ہوگئی تھی ۔ اس وقت کا انتظار کرنے کی بجاے سب لوگ سچے دل سے لا الٰہ الااللہ محمد رسول اللہ کا ورد کرتے ہوئے میدان میں نکلیں تو شکست خوردگی کی فضا اچانک یقین اور اعتماد کی فضامیں بدل جائے گی ، اللہ کی مدد آئے گی ، لیکن  یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم اپنی فوج کو یاد دلائیں کہ وہ اپنے شعار (motto) ’ایمان ،تقویٰ اورجہاد فی سبیل اللہ‘ کو صرف لکھا ہوا کافی نہ سمجھے، بلکہ اس پر عمل پیرا ہو اور پھر ہم فوج کو اپنی قوم کے خلاف امریکی جنگ لڑنے سے واپس بلالیں۔

فوج کو قبائل سے لڑا کر، جامعہ حفصہ اور لال مسجد پر چڑھائی اور وہاں مسلمان بچیوں کے قتلِ عام کے ذریعے دینی جماعتوں کی تائید سے محروم کرکے اور اب کشمیر ی تحریک مزاحمت میں سرگرم جہاد کے جذبے اور شہادت کے شوق سے سرشار مجاہدین کی حمایت سے دستبردار ہونے پر مجبور کرکے یکہ و تنہا کردیاگیا ہے۔ اس موجودہ حالت میں ہماری فوج ملک کے اندر سیکورٹی بحال کرنے پر قادر نہیں ہے۔ ملک کی حفاظت کے لیے فوج اور قوم کی یک جہتی لازم ہے ۔ سیکولر اور لادین عناصر کو پاکستان کی بقا سے کوئی دل چسپی نہیں ہے۔ وہ ایک سیکولر ہندستان میں رہتے ہوئے زیادہ آرام محسوس کریں گے اور امریکا اور بھارت کے زیر سایہ رہنے میں بھی انھیں کوئی عار نہیں ہوگا۔ اس ملک کا استحکام اور اس کی بقا انھی لوگوں کو عزیز ہے جو اسے اسلام کا قلعہ اور مسلم امت کے اتحاد کی علامت سمجھتے ہیں۔ انھی کے نزدیک اس ملک کے لیے جان و مال کی قربانی دینا سعادت دارین ہے۔ ان شاء اللہ یہ ملک قائم رہے گا اور اسلام کا مضبوط قلعہ بنے گا۔ مایوسیوں کے اندھیروں میں امیدوں کے چراغ روشن کرنے کی ضرورت ہے۔ دین سے وابستگی اور اللہ و رسولؐ سے وفاداری ہی سے زندگی کی حقیقی حرارت ملتی ہے۔ مفکرِپاکستان علامہ محمد اقبال نے اس نکتے کی یوں تشریح کی ہے:

ایں نکتہ کشایندہ اسرار نہان است
ملک است تن خاکی و دیں روح روان است
تن زندہ و جاں زندہ ز ربط تن و جان است
باخرقہ و سجادہ و شمشیر و سناں خیز
ازخواب گراں خواب گراں خواب گراں خیز
از خواب گران خیز!

(یہ نکتہ پوشیدہ رازوں کو کھولنے والا ہے کہ تن خاکی ملک ہے اور دین اس کی روح ہے۔ جسم و جان ایک دوسرے کے ربط کے نتیجے میں زندہ رہتے ہیں۔اس ربط کو قائم رکھنے کے لیے سجادہ اور خرقہ (اسلامی تہذیب کی علامتیں)اور شمشیر و سنان (سامانِ جہاد) لے کر اٹھ کھڑے ہوں اور گہری نیند سے بیدار ہوجائیں۔)

ایسے خطرات اور چیلنج جب کسی زندہ قوم کو پیش آتے ہیں تو وہ ان کی خوابیدہ طاقتوں کو بیدار کرنے، انھیں جھنجھوڑنے اور انھیں قربانیوں پر آمادہ کرنے کے لیے مہمیز کاکام دیتی ہیں۔ اس لیے فارسی کی ایک ضرب المثل ہے کہ  ع

عدو شرے برانگیزد کہ خیر ما دراں باشد

(خدا کرے کہ دشمن ایک ایسا شر برپا کردے کہ اس میں ہماری خیر ہو)۔


اس وقت جو خطرات ہمیں درپیش ہیں، وہ ہمیں اپنے طرز عمل کو یکسر تبدیل کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ ہم نے اپنی قوم کے نصف حصے کو غربت اور جہالت کے غار میں پھینک رکھاہے۔ ہمارے امرا اورسرمایہ دار اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کرکے اپنی قوم کو محروم کررہے ہیں۔ ہماری فوج کے اعلیٰ افسر آسایشوں کی زندگی گزارنے کے عادی ہوچکے ہیں اور وہ عام لوگوں سے الگ تھلگ ایک دوسری دنیا میں رہتے ہیں۔ ہمارے قومی وسائل پر ایک مراعات یافتہ طبقے کا مکمل قبضہ ہے۔ ہم اپنی قومی زبان سے محروم ہیں۔

ملک و قوم کے دگرگوں حالات اور ملک میں موجود بادشاہ گروں کے خود غرض طبقے کا تجزیہ کرنے کے بعد انگریزی معاصر ڈان میں ایک تجزیہ نگار اس کا حل پیش کرتے ہوئے گوہرافشانی کرتی ہیں :

اس وقت ریاست کا ڈھانچا موجود ہ سسٹم کے وزن کے نیچے دب کر بیٹھ رہاہے۔ ریاست کے انہدام کا یہ عمل اس وقت تک جاری رہے گا جب تک موجودہ سیاسی نقشے اور اقتدار کے سرچشموں کی نئی صورت گری نہیں کی جاتی۔ ریاست کو بھی نئی شکل میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ریاست کو مکمل ناکامی سے بچانے کی یہ واحد صورت ہے ۔ نکتہ آغاز کے طور پر یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ وفاق مزید نہیں چل سکتا۔ (روزنامہ ڈان، ۲۸نومبر ۲۰۰۸ء)

یہ سوچ ایک تجزیہ نگار کی آزادانہ سوچ نہیں ہے بلکہ یہ پاکستان کے سیکولر طبقے کی بارے میں امریکی دانش وروں کی سوچ کی عکاس ہے۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے سب سے پہلے ضروری ہے کہ ہم اپنے رب کی طرف رجوع کریں ۔ہماری سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ ہم اپنے خالق و مالک، اپنے رب اور اپنے پالنہارسے دُور ہو گئے ہیں۔ قرآن ہمیں پکارتا ہے :

اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُھُمْ لِذِکْرِ اللّٰہِ o (الحدید ۵۷:۱۶) کیا مومنین کے لیے وہ وقت نہیں آپہنچا ہے کہ ان کے دل اللہ کی یاد کے لیے نرم ہوجائیں۔

امریکی دانش وروں کے زیر اثر سیکولر تجزیہ نگار ہمیں بتاتے ہیں کہ فیڈریشن مزید نہیں چل سکتی۔ نئے سرے سے ریاست کی تشکیل کی ضرورت ہے۔ اسلامی نظریے کی بجاے سیکولرزم کے نظریے کے تحت پاکستان کو مختلف ریاستوں کے کنفیڈریشن میں تبدیل کیا جائے جنھیں الگ ہونے کا حق حاصل ہو۔ جس طرح یہ طبقہ، (سرخ و سفید سامراجیوں کی خواہشات کے مطابق) اسلامی ممالک کو لسانی بنیادوں پر ’نئے مشرق وسطیٰ‘ کے نام سے مزید تقسیم کرکے چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں منقسم کردینے کا متمنی ہے۔ اس کامقابلہ کرنے کے لیے اُمت ِ واحدہ اور  ع

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے

کے تصور کو ایک عملی حقیقت میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ امت مسلمہ ایک حقیقت ہے۔ اسلام ایک عالمگیر قوت ہے جو مشرق و مغرب میں اپنی حقانیت کے بل بوتے پر تیزی سے پھیل رہاہے۔ یہ اپنے ماننے والوں کو بڑی سے بڑی قربانی پر آمادہ کرنے کی قوت رکھتاہے۔ اس کے ماننے والے کروڑوں انسان جو دنیا کے مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں، اپنے آپ کو ایک قوم سمجھتے ہیں جو ’وحدت آدم‘ کے قرآنی نظریے پر ایمان رکھتے ہیں اور جو توحید کے عقیدے سے سرشار ہیں۔ جنھیں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات دنیا کی ہردوسری شے سے زیادہ محبوب ہے۔ یہ امت موجودہ عالمی فساد کو واقعتا ایک عالمی نظام میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ اس امت کے اسی تعمیری جذبے کو ابھارنے اور عالم انسانیت کو اس سے متعارف کرانا اس دور اور اس عہد کی ضرورت ہے:

فریادِ افرنگ و دل آویزیِ افرنگ
فریاد ز شیرینی و پرویزیِ افرنگ
عالم ہمہ ویرانہ ز چنگیزیِ افرنگ
معمارِ حرم! باز بہ تعمیرِ جہاں خیز
از خوابِ گراں ، خوابِ گراں ، خوابِ گراں خیز!
از خوابِ گراں خیز!

(افرنگ اور اس کی دلآویزی سے فریاد! افرنگ کی دلربائی اور حیلہ گری سے فریاد! ساری دنیا افرنگ کی چنگیزی سے ویران ہوچکی ہے، معمارِ حرم! جہان کی ازسرِنو تعمیر کے لیے اُٹھ۔ اس خوابِ گراں، خوابِ گراں، خوابِ گراں سے بیدار ہو، خوابِ گراں سے بیدار ہو۔)

 

کراچی صوبہ سندھ کا دارالحکومت، آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا شہر اور اہم بندرگاہ ہے۔ صنعت و تجارت کا مرکز ہے اور اس کی امتیازی شان یہ ہے کہ پاکستان کے تمام علاقوں کے لوگ یہاں آباد ہیں۔ اسی وجہ سے کراچی کو منی پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔ مرکز کو وفاقی محاصل کا ۶۰فی صد اور صوبہ سندھ کو اُس کی آمدنی کا تین چوتھائی حصہ شہر کراچی ہی سے ملتا ہے۔ اِسے ملک کی اقتصادی شہِ رگ ہونے کا فخر حاصل ہے۔ تشکیلِ پاکستان کے بعد تقریباً ۴ عشروں تک صوبہ سندھ کے شہری اور دیہی علاقے امن و امان کا گہوارہ تھے اور تمام لوگ محبت اور خلوص کے ساتھ شہر کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہے تھے۔

کراچی کی آبادی کا بڑا حصہ اُن مہاجرین (اور ان کی اولاد) پر مشتمل ہے جو تشکیلِ پاکستان کے بعد بھارت کے ان صوبوں سے یہاں منتقل ہوئے جہاں مسلمان اقلیت میں تھے۔ اس شہر کی دوسری بڑی آبادی پختونوں پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ پنجاب، بلوچستان اور اندرونِ سندھ کے افراد بھی یہاں موجود ہیں۔ مہاجروں میں تعلیم کے حصول کا جذبہ پایا جاتا ہے، لیکن کراچی میں سرکاری تعلیمی ادارے نہ ہونے کے برابر تھے، اسی لیے بہت سے لوگوں نے (جن میں مہاجر بھی شامل تھے) خود یہاں نجی اسکول و کالج قائم کیے۔ اس کے نتیجے میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد کراچی میں موجود ہے۔ یہاں مہاجروں، پختونوں، پنجابیوں اور بلوچوں میں کبھی کوئی اقتصادی تصادم نہیں رہا۔ پختون زیادہ تر محنت مزدوری اور ٹرانسپورٹ کے شعبے سے منسلک ہیں جن میں مہاجرین کو کوئی دل چسپی نہیں۔ لیکن مہاجروں میں بے چینی پائی جاتی تھی کیونکہ دیہی علاقوں کے لیے کوٹے (quota) اور ڈومیسائل کی وجہ سے مہاجر نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اہلیت کے باوجود سرکاری ملازمتوں سے محروم رہتی تھی۔ اسی طرح حکومت کے تحت دیگر بڑے ادارے جیسے  پی آئی اے، کے پی ٹی، اسٹیل مل وغیرہ میں بھی مہاجر نوجوانوں کو ان کی تعداد اور تعلیم کے لحاظ سے ملازمتوں میں حصہ نہیں ملتا۔ ملک گیر سیاسی جماعتیں ان شکایات کے حل کے لیے ہمیشہ کوشاں رہی ہیں، لیکن ان کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ اپنے سیاسی پروگرام کو صرف سندھ کے شہری علاقوں تک محدود رکھتے۔

اس پس منظر میں جنرل ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں ۱۹۸۱ء میں ایک مہاجر طلبہ تنظیم  ’آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن‘ (اے پی ایم ایس او) کے نام سے کراچی یونی ورسٹی میں قائم ہوئی، جسے خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی جس کے بعد الطاف حسین صاحب امریکا چلے گئے جہاں وہ  کئی سال رہے۔ مارچ ۱۹۸۴ء میں الطاف حسین نے مہاجر قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے نام سے ایک جماعت کی بنیاد ڈالی۔ انھوں نے کہا کہ مہاجروں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ انھیں تعصب کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور وہ اقتصادی ترقی اور سیاسی اقتدار میں شراکت سے محروم رہے ہیں۔ ملازمتوں کے لیے شائع ہونے والے سرکاری اشتہارات میں یہ ہدایت درج ہوتی ہے کہ کراچی، حیدرآباد اور سکھر کے لوگ درخواست دینے کی زحمت نہ کریں۔ اس طرح وہ ملازمتوں سے محروم رہتے ہیں اور اس طرح ان کے اندر بے بسی، محرومی اور نتیجتاً غم و غصے کے جذبات پیدا ہوئے اور بتدریج پرورش پانے لگے۔

ایم کیو ایم کو جنرل ضیاء الحق کا پورا تعاون حاصل تھا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ مقامی لسانی تنظیم کو آسانی سے قابو میں رکھا جاسکتا ہے اور اس کے ذریعے ملک گیر سیاسی جماعتیں بے اثر بنائی جاسکتی ہیں۔ جنرل ضیا کی اس پالیسی میں (اس وقت کے) سندھ کے وزیرِ اعلیٰ غوث علی شاہ اور کراچی میں تعینات بعض فوجی حکام بھی ایم کیو ایم کے معاون رہے۔

ان دل کش نعروں کے باوجود ایم کیو ایم کو زیادہ پذیرائی حاصل نہیں ہو سکی۔ جماعت اسلامی کے دیرینہ کارکن عبدالستار افغانی ۱۹۷۹ء سے ۱۹۸۷ء تک کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے میئر کے منصب پر فائز رہے اور کراچی کے عوام کے لیے ایسی خدمات انجام دیں جو آج بھی عوام کو یاد ہیں۔

کراچی میں ہونے والے ٹریفک کے بعض حادثات نے ایم کیو ایم کو مقبول بنا دیا۔   ۱۹۸۵ء میں ۵ اپریل کو بشریٰ زیدی کی ہلاکت اور ۹مئی اور ۱۴ مئی کے حادثات میں نوجوانوں کے کچلے جانے نے عوام کو مشتعل کردیا۔ بسوں اور ٹرکوں کو آگ لگا دی گئی۔ پولیس نے مظاہرین کو  تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس صورتِ حال میں کراچی میں بار بار کرفیو نافذ کرنا پڑا۔ فوج بھی طلب کی گئی۔ سیکڑوں افراد گرفتار کر لیے گئے اور سیکڑوں پولیس کے تشدد کا نشانہ بنے۔

کراچی میں ڈرائیوروں اور کنڈیکٹروں کی بڑی تعداد پختونوں پر مشتمل ہے۔ بسوں اور منی بسوں کی ملکیت میں پولیس بھی شریک ہے۔ اس صورت حال میں ٹرانسپورٹروں، ان کے حامیوں اور شہریوں کے درمیان تصادم کی فضا پیدا ہو گئی۔ ٹریفک کے مسلسل حادثات اور پولیس کے ظالمانہ رویے کے خلاف شہریوں کے جذبات بھڑک اٹھے۔ مہاجروں اور پختونوں کے درمیان فاصلے پیدا ہو گئے۔ نسلی اور لسانی منافرت کو فروغ ملا اور افسر شاہی اور نوکر شاہی نے شکایات کے اِزالے کے بجاے دوریاں پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

اپریل ۱۹۸۶ء میں بنگلہ دیش میں محصورینِ پاکستان کے ڈھاکا کیمپ میں آگ لگنے سے ۳۵ افراد جاں بحق ہو گئے۔ اورنگی میں مشرقی پاکستان سے آئے ہوئے افراد نے اس کے خلاف ایک پُرامن مظاہرہ کیا اور مطالبہ کیا کہ حکومت محصورین کی واپسی کو یقینی بنائے۔ پولیس نے بغیر کسی جواز کے ان پر پُرتشدد لاٹھی چارج کر کے مظاہرین کو زخمی کر دیا اور بڑی تعداد کو گرفتار کر لیا گیا۔

اس طرح ایم کیو ایم کی لسانی سرگرمیوں کے لیے میدان ہموار ہو گیا۔ اس نے اپنی بھرپور قوت کا پہلا مظاہرہ ۸ اگست ۱۹۸۶ء کو نشتر پارک کراچی میں منعقد ہونے والے جلسے میں کیا۔ جلسے میں پورے شہر سے مہاجروں نے جلوسوں کی شکل میں آکر بہت بڑی تعداد نے شرکت کی اور بارش کے باوجود کامل سکون کے ساتھ الطاف حسین کی تقریر سنی۔ اس کے بعد دوسرا بڑا جلسہ حیدرآباد پکا قلعہ میں منعقد ہوا۔ یہ بھی حیدرآباد کی تاریخ کا بہت بڑا جلسہ تھا۔ الطاف حسین نے مطالبہ کیا کہ مہاجروں کو پانچویں قومیت تسلیم کیا جائے۔ سندھ میں ہماری آبادی کے لحاظ سے حقوق دیے جائیں۔ شہری علاقوں میں ملازمت میں کیا جانے والا غیرمنصفانہ سلوک ختم کیا جائے، کوٹا سسٹم اور ڈومیسائل کی پابندیاں ختم کی جائیں۔ جو لوگ دوسرے علاقوں سے کراچی میں آکر یہاں آباد ہوئے ہیں، انھیں ان کے علاقوں میں واپس کیا جائے۔ پی آئی اے، کے پی ٹی، اسٹیل مل اور شپ یارڈ میں مہاجروں سے ناانصافی ختم کی جائے۔ کراچی میں مقامی پولیس تعینات کی جائے۔ کھوکھرا پار کا راستہ کھولا جائے اور یہ کہ کراچی منی پاکستان نہیں، سندھ کا بڑا شہر ہے۔ محصورین کو واپس لایا جائے۔ الطاف حسین نے یہ بھی کہا کہ مہاجروں کو قربانی کا بکرا بنایا گیا ہے لیکن اب مہاجر متحد ہیں اور اپنے حقوق لے کر رہیں گے۔

اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نومبر ۱۹۸۷ء میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم نے کراچی اور حیدرآباد میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ اس کے باوجود جماعت اسلامی ایک اہم جماعت کی حیثیت سے سرگرمِ عمل رہی۔ یہی وجہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں جماعت اسلامی کراچی کے سابق امیر نعمت اﷲ خان سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی کے ناظم (میئر) منتخب ہوئے۔ انھوں نے اہالیانِ کراچی کی قابلِ قدر خدمات انجام دیں، حتیٰ کہ جنرل پرویز مشرف کو بھی ان کی کارکردگی کی تعریف کرتے ہی بنی۔

۱۹۸۸ء کے بعد تمام انتخابات میں ایم کیو ایم نے سندھ کے شہری علاقوں میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ وہ صوبے اور مرکز میں مسلسل اقتدار میں شامل رہی۔ لیکن اس دوران وہ ان تمام دعووں کو بالکل بھول گئی جو اس نے اس سے قبل کراچی اور حیدرآباد میں ہونے والے جلسوں میں کیے تھے۔ ایم کیو ایم کے لیے قربانیاں دینے کے باوجود مہاجروں کو وہ کچھ حاصل نہ ہو سکا جس کا وعدہ ان سے کیا گیا تھا۔ البتہ ایم کیو ایم کے عہدے داروں نے اپنے لیے بہت کچھ حاصل کرلیا۔ الطاف حسین کے زیرِ استعمال جو ہنڈا موٹر سائیکل تھی اُسے نمایش کے لیے رکھا گیا لیکن آج متحدہ کے بہت سے کارکن قیمتی کاریں استعمال کرتے ہیں۔

۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کے بعد ایم کیو ایم کو جنرل پرویز مشرف کی بھرپور حمایت حاصل رہی۔ ۱۲مئی ۲۰۰۷ء کو معزول چیف جسٹس افتخار چودھری جب دیگر شہروں کی طرح کراچی بار کونسل کی دعوت پر یہاں آئے تو متحدہ نے پورا شہر کراچی سیل کر دیا۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ سے بڑے بڑے کنٹینر لگا کر راستے بلاک کر دیے گئے۔ جو جلوس افتخار چودھری کے استقبال کے لیے ایئرپورٹ جانا چاہتے تھے، اُن پر براہِ راست فائرنگ کی گئی جس سے ۵۰ سے زیادہ افراد جاں بحق ہو گئے لیکن جنرل پرویز نے اسلام آباد میں کہا کہ میں یہاں قوت کا مظاہرہ کر رہا ہوں اور کراچی میں ایم کیو ایم نے قوت کا مظاہرہ کیا ہے۔ ایم کیو ایم اس بات سے واقف ہے کہ اسے عوام میں پہلے جیسی مقبولیت حاصل نہیں ہے، اس لیے اب انتخابات میں وہ عوامی تائید پر انحصار کے بجاے دوسرے حربے استعمال کرتی ہے۔ بیلٹ بکس خود ہی ووٹوں سے بھر دیے جاتے ہیں اور اس ساری کارروائی میں اسے پولیس اور رینجرز کا خاموش تعاون حاصل رہتا ہے۔ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ ایم کیو ایم بہت حد تک عوامی مقبولیت کھو چکی ہے۔ اگر سندھ کے شہری علاقوں میں شفاف، غیرجانب دارانہ اور منصفانہ انتخابات ہوں تو یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ اسے کتنی مقبولیت حاصل ہے لیکن سابقہ تجربے کی روشنی میں منصفانہ انتخابات کا انعقاد فی الحال ممکن نظر نہیں آتا۔

سندھ کے شہری علاقوں میں ایم کیو ایم کی پوزیشن بہت مضبوط ہے۔ کراچی میں ان کا نامزد کیا ہوا گورنر (جس کے خلاف قتل کے فوجداری مقدمے ریکارڈ پر موجود تھے) طویل عرصے سے اس عہدے پر فائز ہے اور شہری حکومت بھی اسی کی ہے، اس کے باوجود متحدہ مسائل کے حل میں ناکام رہی ہے۔ متحدہ نے بہت بڑی تعداد میں اپنے کارکنوں کو مختلف اداروں میں ملازمتیں دلوائی ہیں جو اُن اداروں سے تنخواہ وصول کرتے ہیں لیکن کام پارٹی کے انجام دیتے ہیں۔

الطاف حسین کئی مہینے قبل سے کراچی کے لوگوں کو اس خطرے سے آگاہ کر رہے تھے کہ کراچی میں ۳ لاکھ سے زائد طالبان داخل ہو چکے ہیں جو کراچی اور پورے خطے کے امن کے لیے بڑا خطرہ ہیں لیکن سندھ کے وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا نے کہا کہ یہ بات درست نہیں ہے۔ کراچی میں طالبان کی آمد کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔ ابھی عید الاضحی سے قبل کراچی کے مختلف علاقوں میں غریب پختون، چوکیدار، ٹھیلا لگانے والے اور کاغذ چننے والے غریب پختون ہلاک کیے گئے۔ بعض مقامات پر مہاجر بھی مارے گئے۔ پورا شہر بدامنی کی لپیٹ میں رہا لیکن عید کی تعطیلات کے دوران کراچی میں مکمل امن قائم رہا اور اس طرح ایم کیو ایم نے ثابت کر دیا کہ اسے یہ قوت حاصل ہے کہ وہ جب چاہے کراچی میں بدامنی کو فروغ دے اور جب چاہے امن قائم کر دے۔

الطاف حسین نے اپنی یہ اہلیت ثابت کر دی ہے کہ وہ لندن میں بیٹھ کر پوری جماعت کو اپنے کنٹرول میں رکھ سکتے ہیں۔ انھوں نے برطانوی شہریت بھی حاصل کر لی ہے۔ وہ گاہے بگاہے کراچی، حیدرآباد اور دیگر شہروں میں ٹیلی فونک خطاب کرتے رہتے ہیں اور پارٹی کو ہدایت دیتے ہیں جن پر پوری طرح عمل کیا جاتا ہے۔ الطاف حسین کو حکمرانوں کی مکمل حمایت حاصل رہی ہے۔ پہلے جنرل پرویز مشرف ان کے حامی تھے، اب وہی کردار آصف زرداری اد اکر رہے ہیں۔ پاکستان کے تمام وزراے اعظم اور صدور (سواے سابق صدر غلام اسحاق خان) مہاجر اور اب  متحدہ قومی موومنٹ کے کراچی دفتر (جو نائن زیرو کے نام سے معروف ہے) جاتے رہے ہیں اور ایم کیو ایم کے لندن سیکرٹریٹ جا کر الطاف حسین سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔

بلاشبہہ ایم کیو ایم ایک انتہائی منظم تحریک ہے۔ اس وقت صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی کو اکثریت حاصل ہے لیکن اس کے باوجود اس نے متحدہ کو حکومت میں شریک کیا تاکہ شہری علاقوں میں امن و امان قائم رہے۔ اس کے باوجود کراچی میں ابھی تک ایسا نہیں ہوسکا۔ مرکز میں مسلم لیگ (ن) کی علیحدگی کے بعد پیپلز پارٹی کو اب دوسری جماعتوں کا تعاون حاصل کرنا ناگزیر ہے۔ اسے ایم کیو ایم کو حکومت میں شریک کرنا پڑے گا۔ اس میں تاخیر اس وجہ سے ہو رہی ہے کہ متحدہ اپنی مرضی کی وزارتیں لینے پر اصرار کر رہی ہے جو غالب گمان یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کو دینی پڑیں گی۔

اب وقت آگیا ہے کہ پوری سنجیدگی سے اِس بات پر غور کیا جائے کہ کراچی جو بڑی اہمیت کا حامل ہے، اسے دوبارہ کس طرح امن کا گہوارہ بنایا جائے جہاں پہلے کی طرح تمام لوگ محبت کے ساتھ اور لسانی تعصبات سے بلند ہو کر اپنا کردار ادا کریں اور کراچی پھر ماضی کی طرح ملک کی ترقی میں مثبت کردار ادا کرے اور ایسے حالات پیدا کیے جائیں کہ کوئی بھی قوت سندھ کے شہری علاقوں کو یرغمال نہ بنا سکے۔ میں متحدہ قومی موومنٹ سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنے طرزِ عمل پر نظرثانی کرے اور ان وعدوں کی تکمیل کرے جو اس نے اپنے ابتدائی دور میں کیے تھے۔ اگر اس نے ’مہاجر‘ سے بدل کر اپنا نام ’متحدہ قومی موومنٹ‘ کر لیا ہے تو اِس کا تقاضا ہے کہ وہ فی الحقیقت قومی دھارے میں آئے، تشدد اور جبر کے طریقے ترک کر دے اور پُرامن جمہوری راستہ اختیار کرے۔ مجھے یقین ہے کہ ان شاء اﷲ سندھ کے شہری علاقے ایک بار پھر ملکی سیاست میں اپنا اہم کردار ادا کریں گے۔ کراچی کی صنعتی اور تجارتی سرگرمیاں پھر بحال ہوں گی۔ سرمایہ اندرونِ ملک یا بیرونِ ملک منتقل نہیں ہو گا اور شہرِ کراچی کو ملک میں عزت اور احترام کا مقام حاصل ہو گا۔

 

دنیا میں ہر طریقِکار مقصد کی مناسبت سے طے کیا جاتا ہے۔ جب مقصد متعین ہوجاتا ہے تو پھر تمام وسائل حصولِ مقصد کے لیے لگا دیے جاتے ہیں اور آدمی جو بھی محنت اور مشقت کرتا ہے، اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اس مقصد کو اس کے قریب تر کر دے۔ اسی طرح ہمارا بھی ایک مقصد ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے ایک طریقِکار ہے جس کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی تمام صلاحیتوں، محنتوں اور وسائل کو اس میں صرف کردیں۔

ھمارا مقصد

ہمارا مقصد کیا ہے؟ جیسا کہ ہم میں سے ہر ایک جانتا ہے کہ ہمارا مقصد اقامتِ دین ہے، یعنی پورے کے پورے دین کو عملاً نافذ کرنا۔ اور یہ نفاذ صرف اپنے ہی ملک تک مقصود نہیں ہے بلکہ تمنّا یہ ہے کہ یہ پوری دنیا میں نافذ ہو اور پورا کرۂ ارضی حلقہ بگوشِ اسلام ہو جائے۔ لیکن اس کی ترتیب یہ ہے کہ یہ پہلے پاکستان میں نافذ ہو۔ اس کے بعد اس کے وسائل کو دین کی عالمی تبلیغ کے لیے استعمال کیا جائے۔

تبلیغ

تبلیغ کامفہوم اسلام کی تعلیمات کو فقط پہنچا دینا ہے، یعنی یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اخلاق، اعمال اور معاملات میں کیا کیا ہدایات دی ہیں، بندگانِ خدا کو ان چیزوں سے آگاہ کر دینے کا نام تبلیغ ہے۔ یہ سب امور واضح کر دینے کے بعد مبلغ کا کام ختم ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد اس کی ذمہ داری باقی نہیں رہتی۔ لیکن اقامتِ دین کے کام کا آغاز اس نکتے سے ہوتا ہے، جہاں تبلیغ کا کام ختم ہوتا ہے۔ تبلیغ اقامتِ دین کی تمہید ضرور ہے، لیکن یہ ختم ہو جاتی ہے، جب تعلیماتِ دین پہنچ جائیں۔ ہمارا مقصد صرف تبلیغ نہیںبلکہ اقامتِ دین ہے اور یہ ذمہ داری ہم نے از خود نہیں لی، بلکہ ہم پر  ڈالی گئی ہے، جیسا کہ قرآن میں آتا ہے: اَنْ اَقِیْمُوْا الدِّیْنَ (الشورٰی ۴۲:۱۳) کہ اس دین کو قائم کرو۔ چونکہ ہم انبیا کے وارث ہیں اس لیے یہ مقصد از خود ہمارا مقصد بن جاتا ہے۔

اقامتِ دین اور تبلیغِ دین

اگر ہم اپنے ذمے صرف تبلیغِ دین ہی کا فرض رکھتے تو ہمارا کا م بہت ہلکا تھا۔ تبلیغ کی   ذمہ داریاں زیادہ گراں نہیں ہیں۔ ایک شخص نماز کی تبلیغ کرتا ہے، وہ لوگوں کو ارکانِ نماز اور   طریقۂ نماز سے متعارف کراتا ہے اور مسجد کی ضرورت سے آگاہ کرتا ہے۔ مبلغ کی حیثیت سے اس کا کام یہاں ختم ہو گیا، کیونکہ تبلیغ کی حدود تلقین سے آگے نہیں بڑھتیں۔ لیکن جس شخص نے اپنے ذمے صرف تبلیغِ صلوٰۃ نہ لے رکھی ہو، بلکہ اقامتِ صلوٰۃ بھی ہو، اس کے کام کی حدود اس سے بہت آگے بڑھ جاتی ہیں۔ اس کے ذمے یہ بات بھی ہوتی ہے کہ وہ مسجد بنائے بھی اور اس کا انتظام و انصرام بھی کرے اور اس کی تعمیر کے لیے اینٹ چونا سیمنٹ بھی فراہم کرے۔ یہ سارے کام جب وہ کر رہا ہوتا ہے تو دور سے دیکھنے والا اسے شاید کسی دُنیوی شغل میںمنہمک سمجھتا ہو اور یہ جان سکتا ہو کہ یہ شخص عمارت کے لیے جو عمارتی سامان فراہم کر رہا ہے، وہ اقامتِ صلوٰۃ کا ضروری حصہ ہے اور اقامتِ صلوٰۃ اس وقت تک ہو نہیں سکتی، جب تک مسجد نہ بنے اور مسجد کی تعمیر کے لیے لازم ہے کہ اینٹ، پتھر اور چونا بہم پہنچایا جائے۔ جب مسجد تعمیر ہوگئی اور اس کی شکل و صورت ہر نگاہ کو دکھائی دینے لگی، تب معلوم ہوگا کہ یہ اقامتِ صلوٰۃ کا کام ہے۔ کچھ لوگ شاید عمارت کا قبلہ رخ ہونا   دیکھ کر اندازہ کرلیں کہ یہ اقامتِ صلوٰۃ کا کام ہو رہا ہے لیکن عام لوگ اس کی نوعیت سے اسی وقت آگاہ ہوتے ہیں جب کام پورا ہو چکتا ہے۔

ایسا ہی معاملہ اقامتِ دین کا ہے۔ لوگ اقامتِ دین کے بنیادی تقاضوں کو جب نہیں سمجھتے تو وہ متعجب ہوتے ہیں کہ یہ اقامتِ دین کاکیسا کام ہو رہا ہے۔ درآں حالیکہ یہ ساری ضروریات فریضہ اقامتِ دین کی ہیں جو پوری ہوں گی تو اقامتِ دین کاکام ہوگا۔ لوگ عام طور پر تبلیغ کوتو سمجھتے ہیں لیکن اقامتِ دین کی اصطلاح اُن کے لیے اجنبی ہوتی ہے اور وہ اس کے مفہوم اور تقاضوں کو کماحقہ نہیں سمجھ پاتے۔

جماعتِ اسلامی کا مقصد

اقامتِ دین، جماعت ِاسلامی کا صرف اجتماعی مقصد نہیں بلکہ اس کے ایک ایک رکن کا ذاتی مقصد بھی ہے۔ تبلیغ انفرادی طور پر بھی ہو سکتی ہے مگر اقامت کے لیے جدوجہد اجتماعی اور منظم ہونی چاہیے۔ جو لوگ اقامتِ دین کے تقاضوں کا شعور رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ ایک ایسا عملی کام ہے، جس کے لیے اجتماعیت کی ضرورت ہے۔ یہ کام منظم محنت کامحتاج ہے اور منتشر اور غیر منظم افراداسے ہرگز انجام نہیں دے سکتے۔

دنیا میں بعض ایسے اجتماعی ادارے بھی ہیں، جہاں ایک فرد اپنا ذاتی مقصد الگ رکھتے ہوئے بھی ان کے محدود مقاصد کی تکمیل میں شریک ہو سکتا ہے، مثلاً کوئی کلب ہے جو بالکل محدود مقاصد کے لیے وجود پذیر ہوا ہے، لوگ اس کے رکن بنتے ہیں اور کلب کے مقصد کے لیے کام کرتے ہیں، لیکن کلب کا مقصد ان کی اپنی شخصی زندگیوںکا مقصد نہیں ہوتا۔ جماعت اسلامی کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔ اس جماعت کا ہر رکن جس کو اپنا اجتماعی یا جماعتی مقصد جانتا ہے وہ اس کا ذاتی مقصد بھی ہے۔ ظاہر ہے کہ جو شخص دین کو اپنا مقصدِ زندگی بنالے، اپنی انفرادی زندگی میںبھی اور اجتماعی زندگی میںبھی، وہ اپنی ہر سعی اور اپنی محنت کی ہر رمق اس میںکیوں نہ لگائے، وہ ضرور لگائے گا۔

جماعت اسلامی کے کارکنوں کو اچھی طرح سے یہ ذہن نشین رکھنا چاہیے، یہ دین ان کا ذاتی مقصد بھی ہے۔ اگر ایک شخص نے اپنا کوئی مقصد زندگی مقرر کر لیا ہے تو پھر اس کے لیے فطری اور ضروری ہے کہ وہ اس کے حصول کے لیے اپنے تمام ذرائع، وسائل اور اپنا تمام وقت اور اپنی محنت و قابلیت اس میں لگا دے، کیونکہ وہ مقصد اس کا مقصدِ زندگی ہے اور وہ اسی کے لیے جیتاہے۔ اور اگر کوئی شخص اقامتِ دین کو اپنا مقصد زندگی قرار دے کر کام نہیں کرتا تو کہنا پڑے گا کہ وہ اس کا مقصد زندگی ہی نہیں۔ اگر اقامتِ دین اس کا مقصد زندگی ہوتا اور وہ اس کا شعور بھی رکھتا تو حضرت صدیق اکبرؓ کے طرز عمل کی یاد اسے ضرور بے چین کیے رکھتی ۔

اقامتِ دین : انفرادی تقاضے

  •  دین کا فھم: اِس مقصدِ زندگی کے کچھ تقاضے اور ضروریات ہیں۔ پہلی چیز یہ ہے کہ مقصدِ زندگی قرار دے لینے کے بعد اس کا علم وفہم ضروری ہے۔ جو شخص اپنے مقصد کا علم حاصل نہیں کرتا اور نہ اس کی فکر کرتا ہے، وہ اپنے مقصد کے شعور سے تہی دامن ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے مقصد کا علم و شعور حاصل کرے اور اس کے مطابق اپنے اندر استعداد پیدا کرے۔
  •  مطلوبہ اخلاقی اوصاف: دوسری چیز ہے، اپنے مقصد کے مطابق اپنے اندر اخلاق پیدا کرنا۔ مبلّغ کے لیے بس اتنا کافی ہے کہ وہ اچھے اخلاق کا حامل ہو۔ لیکن اقامتِ دین کے لیے اس سے کہیں زیادہ طاقت ور اور مضبوط سیرت کی ضرورت ہے۔ یہاں قدم قدم پر مخالف ہوائوں اور مزاحم قوتوں کا سامنا ہوتاہے، چپے چپے پر رکاوٹوں کی باڑیں کھڑی ملتی ہیں اور مقابلہ ہوتا ہے۔ پھر اس راہ میں صرف مزاحمتوں ہی سے سابقہ نہیں پڑتا، زیادتیوں سے واسطہ بھی درپیش ہوتا ہے۔ یہاں گالیاں بھی ملتی ہیں اور بہتانوں کی غلاظت بھی اپنے اوپر برداشت کرنی پڑتی ہے، اور جیل بھی دیکھنی پڑتی ہے اور لالچ اور ترغیب کی وادیاں بھی قطع کرنی پڑتی ہیں۔
  •  حکمت: تیسری ضرورت اس راہ میں حکمت کی ہے۔ اس مقصد کے حامل میں اتنی صلاحیت ہونی چاہیے کہ وہ ہر بلا کا سامنا حکمت سے کر سکے۔ راستے کا کوئی کانٹا اگر اس کا دامن کھینچتا ہے تو وہ اس سے اپنا دامن چھڑائے۔ اگر وہ دامن نہیں چھوڑتا تو اپنے دامن کا اتنا ٹکڑا پھاڑ کر پھینک دے اور اپنی منزل کو چل کھڑا ہو۔ یہ مقصد نوعیت میں خالص علمی ہے اور اس کا تقاضا ہے  کہ وقت ضائع نہ ہو، یکسوئی ہو اور صرف ایسی چیزوں کی جانب توجہ ہو جو حصولِ مقصد میں معاون و مددگار ہو سکتی ہیں۔ اس مقصد کا حامل بیکار بحثوں میں نہیں الجھتا۔ اپنا وقت ضائع نہیں کرتا ہے اور  نہ گالی کا جواب گالی سے دیتا ہے۔ یہ تقاضے مقصد کو ذاتی حیثیت میں اختیار کرنے کے تھے۔ اب اس کے جماعتی حیثیت میں تقاضوں کو بھی سمجھ لیجیے۔

اقامتِ دین: اجتماعی تقاضے

  •  موعظۂ حسنہ اور اس کے تقاضے: اس سلسلے میں سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ آپ موعظۂ حسنہ کو اختیار کیجیے۔ اقامتِ دین کرنے والوں کو حکمت کے ساتھ جائزہ لینا پڑے گا کہ عہد جدید کی کون کون سی گمراہیاں ہیں اور ان کا تدارک کیسے ہو سکتا ہے۔ ایک طبیب ِحاذق کی طرح دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ گمراہی کے کیا اسباب ہیں۔ فرد اور معاشرے کے امراض کی  تشخیص کرنی پڑے گی کہ بگاڑ کے کیا محرکات ہیںاور لوگ دین کی جانب کیوں رغبت نہیں کرتے، اس سے رکنے کی کیا وجوہ ہیں؟ان تمام انحرافات کے عوامل معلوم کرنے ہوں گے تاکہ انھیں   معلوم کرکے ان کا سدباب اور استیصال کیا جائے۔ موعظۂ حسنہ کا مطلب صرف شیریں بیانی نہیں، بلکہ یہ ہے کہ اصلاح کیسے ہو؟ مناظرہ بازی نہیں بلکہ مرض کو دور کرنے کی کوشش ہے تاکہ مریض صحت یاب ہوجائے۔ مریض حکیم کو گالی دے گا تو حکیم بُرا نہیں مانے گا، نہ اپنا مقصد ترک   کرے گا۔ اسی طرح اقامتِ دین کرنے والے کی نگاہ اپنے مقصد پرلگی رہتی ہے اور وہ راہ کے کانٹوں اور ان کی چبھن کی کبھی پروا نہیں کرتا۔
  •  تنظیم و تربیت اور دعوت: اس مقصد کی راہ کا دوسرا کام تنظیم و تربیت اور دعوت ہے۔ اقامتِ دین ٹھنڈے ٹھنڈے وعظوں سے انجام نہیں پا جاتا۔ اس کے لیے جہاد کی پتّا ماری کی ضرورت ہے اور جہاد کے لیے ضروری ہے کہ تنظیم ہو۔ جو لوگ اس مقصد کے حامل ہوں انھیں ایک رشتۂ نظم میں پرو دیا جائے۔ ان کے اندر فوج کا سا ڈسپلن اور ویسا ہی نظم ہو۔ پھر وہ باطل کی قوتوں کا مقابلہ کر سکیں گے۔ ڈھیلے نظم والی فوج کبھی فتح نہیں پا سکتی۔ اقامتِ دین کی سعی کامیابی سے کبھی ہم کنار نہیں ہو سکتی، جب تک یہ منظم اور باسلیقہ نہ ہوگی۔ واضح رہے کہ اقامتِ دین کا مسئلہ ہی اس وقت پیدا ہوتا ہے جب دین بے چارگی کی حالت کو پہنچ چکا ہو اور باطل نظریات کا غلبہ ہو چکا ہو،  اب ان غالب اور طاقت ور نظریات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے کوئی ڈھیلی ڈھالی قوت کار آمد نہیں ہوگی۔ اقامتِ دین کے لیے اجتماعیت کی نہ صرف مضبوط تنظیم ہونی چاہیے بلکہ اس کی تربیت بھی مسلسل ہونی چاہیے۔ جو مخالف قوتیں میدان میں اتری ہیں وہ رہنے کے لیے آئی ہیں، جانے کے لیے نہیں آئیں۔ اس لیے ان کا مقابلہ طاقت ور اور مضبوط تنظیم ہی سے کیا جا سکتا ہے۔ نظم کی جانب سے جو ہدایات جاری ہوں ان پرپوری پابندی سے عمل کیا جائے اور کوئی کام خود سری سے  نہ کیا جائے۔ تنظیم کے استحکام کا یہی راز ہے۔ یہ تنظیم و تربیت انتہائی ضروری ہے، چاہے اس قافلے میں مٹھی بھر آدمی ہی کیوں نہ ہوں۔ یہ تنظیم و تربیت ہی کی برکت ہے کہ مٹھی بھر آدمی لاکھوں کی بھیڑ پر غالب آئے۔
  •  توسیع دعوت: تیسرا کام اس سلسلے کا توسیع دعوت ہے۔ جو جماعت قائم ہوگی، ناگزیر ہے کہ وہ اپنی دعوت بھی پھیلائے اور عوام کی راے کو اپنے حق میں ہموار کرے۔ توسیع دعوت کا ایک راستہ اقتدار بھی ہے، لیکن یہ محض اتفاق ہے کہ کسی کو اقتدار مل جائے۔ یہ راستہ کوئی پایدار نہیں ہے اور اس کے بہت سے لوازمات ہیں، مثلاً اگر آپ کے ہاتھ میں اقتدار آتا ہے اور اقتدار کی مشینری آپ کی ہم نوا نہیںہوتی تو آپ اپنی تمام کوشش اور اخلاص کے باوجود کامیاب نہیں ہوسکتے۔ پایدار راستہ صرف عوام کے ساتھ رابطے کا ہے۔ ایک ایک فرد تک دین کا پیغام پہنچایا جائے۔ وہ فرد زندگی اور مملکت کے جس بھی شعبے میں ہوگا، وہ بجاے خود دین کے لیے قوتِ نافذہ بن جائے گا۔ جب ملک کی فضا اور راے عامہ میں یہ نظریات رچ بس جائیں گے تو اس کے بعد کوئی مخالف قوت، وہ چاہے کتنی ہی مقتدر کیوں نہ ہو، ٹکنے نہ پائے گی، اور نہ دین کی راہ میں مزاحم ہو سکے گی۔ اس غرض کے لیے بڑی محنت اور جان ماری کی ضرورت ہے۔

توسیعِ دعوت کے ساتھ ساتھ اتنا ہی ضروری یہ بھی ہے کہ آپ لوگوں کے اخلاق درست کرنے کی کوشش کریں۔ اگر اسلامی نظام یہاں قائم ہو بھی جاتا ہے توکیا ایسے بداخلاق لوگ اس کی غیر معاون رعایا ثابت نہ ہوں گے؟ معاشرے میں جتنی اخلاقی خرابیاں رونما ہوں گی، دین کی اقامت میں اتنی مشکلات پیدا ہوں گی۔ اس لیے آپ دعوت بھی پھیلائیں اور اخلاق کو بگڑنے سے بھی روکیں۔

  •  نـفاذِ اسـلام کے لیے تبدیلیِ اقتدار: اقامتِ دین کا چوتھا تقاضا تبدیلی ِاقتدار بہ حقِ اسلام ہے۔ جیساکہ آپ جانتے ہیں آپ کا مقصد معروف کا فروغ اور منکر کا استیصال ہے۔ مثال کے طور پر آپ قرآن میں سود کو حرام پاتے ہیں، لیکن عملی زندگی میں جب آپ کوئی کاروبار کرتے ہیں تو آپ کو جگہ جگہ سود سے سابقہ در پیش آتا ہے۔ شریعت میں بدکاری اور فحاشی ممنوع ہے، آپ گھر سے نکلتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ اسے ہر جگہ کھلی چھٹی ہے، کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں۔ حرام کو فروغ اور حلال کی راہ میں بندشیں ہیں۔ ایک حالت یہ ہے۔ دوسری حالت یہ ہے کہ ملک کی پوری انتظامی مشینری زور لگا دے کہ زنا بند ہو، سود ممنوع ہو، معروف پھیلے، منکر سکڑے۔ ان دونوں حالتوں میں کون سی حالت مطلوب ہے؟ ظاہر ہے دوسری حالت ہی مطلوب ہے۔

اب اگر دوسری حالت پیدا کرنے کی کوشش کی جائے، تو کیا یہ سیاست ہے؟ ہر شخص جانتا ہے کہ قرآن نافذ ہونے کے لیے آیا ہے، صرف تلاوت کے لیے نہیں۔ تعزیرات پاکستان پڑھنے کے لیے نہیں چلن کے لیے ہے۔ اگر کوئی شخص دوسری حالت کو مطلوب جانتا ہے، تو کیا وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ حالت خود بخود پیدا ہو جائے گی۔ اگر یہ حالت خود بخود پیدا ہونے والی ہوتی تو حضوؐر کو معرکہ ہاے بدروحنین در پیش نہ آتے۔ کوئی نہر کبھی دعائوں سے نہیںکھودی جاتی، اس کے لیے ہاتھ پائوں ہلانے پڑتے ہیں۔ دعائوں سے علم دین حاصل ہو سکتا تو دینی مدرسے قائم نہ ہوتے۔ سعی کے بغیر کوئی کام نہیں ہو گا۔ جیسا کہ قرآن کہتا ہے: لَیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی ، انسان کو بہرحال سعی کرنی پڑتی ہے۔ آج تک کسی کو یہ پھل انعام میں نہیں ملا۔

موجودہ حالات میں طریقِ کار

پاکستان بظاہر اس جماعت کو منتقل ہوا تھا جس نے مطالبہ پاکستان پیش کیا تھا، لیکن  بہ باطن یہ افسر شاہی [بیوروکریسی] کے ہاتھوں میںپہنچ گیا، اور بعد میں یہ بات بالکل کھل گئی کہ سب کچھ اتفاق سے نہیں ہوگیا بلکہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا جس کے تحت یہ ساری کارروائی کی گئی تھی۔ مصر میںلارڈ کرومر نے ایک مرتبہ کہا تھا: ’’ہم مسلمانوں کو آزادی تو دے دیں گے، لیکن اگر وہ اسلام کی طرف پلٹنا چاہیں گے، تو اسے ہم ہرگز برداشت نہیں کریں گے۔‘‘ انگریزوں نے اسی پالیسی کے تحت جب اس امر کا پورا اطمینان کر لیا کہ وہ جن کو اقتدار دے رہے ہیں کیا وہ ان کے رنگ میں پورے رنگے جا چکے ہیں، تو اسی اطمینان کی بنا پر انھوں نے اقتدار کو اس بیوروکریسی کی طرف منتقل کیا تھا جو ان کے رنگ میںپوری طرح رنگی ہوئی تھی۔

یہ لوگ درپردہ مملکت کو لادینی بنانے کے لیے زور لگاتے رہے اور ملی بھگت میں بعض سیاست دان بھی ان کے ہم نوا تھے۔ ہم نے جب اسلامی دستور کا مطالبہ کیا تو ان لوگوں کے کان کھڑے ہوگئے اور انھوں نے اس مطالبے کے اندر اپنی خواہشات کے خلاف ایک زبردست خطرہ پایا۔ لیکن وہ ابھی اس پوزیشن میںنہ تھے کہ اپنے آپ کو پوری طرح نمایاں کرکے میدان میں اتر آتے۔ سیاست دانوں میں بیش تر ایسے شریف النفس بھی تھے جنھوں نے اسلامی دستور کی پوری پوری حمایت کی۔ یہ کش مکش ۱۹۵۳ء تک اسی طرح جاری رہی۔ اس کے بعد اقتدار سیاست دانوں کے ہاتھ سے چھن کر سول سروس کے ہاتھ میں پہنچ گیا۔ ۱۹۵۴ء میں دستوریہ توڑ دی گئی۔ پھر۱۹۵۶ء میں دستور بنا، تو اس حلقے میں صفِ ماتم بچھ گئی۔ جب مسلسل ٹال مٹول کے بعد عام انتخابات کی تاریخ مقرر ہوئی تو [اکتوبر ۱۹۵۸ء میں جنرل ایوب خان صاحب کا] فوجی انقلاب آگیا۔ یہ فوجی انقلاب اسلامی دستور کا راستہ روکنے کے لیے آیا تھا۔ اگر یہاں سیکولرزم ہوتا تو غالباً یہ انقلاب نہ آتا۔

اس کے بعد آمریت آئی، پریس اور پلیٹ فارم پر پہرے بٹھا دیے گئے اور ادارہ تحقیقات اسلامی جیسے ادارے وجود میں لائے گئے۔ ان سب چیزوں کو ایک ترتیب کے ساتھ اپنے سامنے رکھ کر دیکھیے تو آپ کو صاف معلوم ہوگا کہ یہ سب کچھ اسلام کا راستہ روکنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ اسلام اگر اب آسکتا ہے تو صرف جمہوریت کے راستے سے آسکتا ہے۔ اقتدار عوام کے نمایندوں کو ملے گا تو اسلام آئے گا۔ لیکن آمریت ہرگز پسند نہیں کرتی کہ یہاں اسلام آئے۔ یہ اس راہ میں ایک سدِّگراں ہے۔ جب تک یہ نہ ہٹے گی، نفاذِ اسلام کے تمام مواقع بند رہیں گے۔(رحیم یار خان میں اجتماعِ کارکنان سے خطاب، ۲۳ مارچ ۱۹۶۸ء، بہ شکریہ ایشیا ۱۹مئی ۱۹۶۸ء، ص ۷-۹)

 

اسلام کا بنیادی اور آفاقی اصول ہے کہ ایک انسان کا قتلِ ناحق ساری انسانیت کا خون بہانے اور ایک معصوم انسان کی جان بچانا پوری انسانیت کی جان بچانے کے مترادف ہے، اور یہ بھی اسلام کے پوری انسانیت کے لیے رحمت ہونے کی دلیل ہے کہ اس سلسلے میں انسانوں کے درمیان مذہب، رنگ، نسل، جنس کی کوئی تفریق روا نہیں رکھی گئی ہے۔ مسلمان اورغیرمسلم دونوں کی زندگی محترم ہے اور قانون اور انصاف سے ہٹ کر کسی طرح بھی ایک انسان کو اس کی زندگی کے حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ اس اصول کی روشنی میں ممبئی ہو یا راولپنڈی، کابل ہو یا سوات، نیویارک ہو یا بغداد، قتلِ ناحق ایک جرم ہے اور اس کا ارتکاب کرنے والوں پر قانون کے مطابق گرفت اور عدل کے تقاضوں کی روشنی میں سزا کا مؤثر اہتمام انسانی معاشرے کو مہذب اور پُرامن رکھنے کے لیے ضروری ہے۔

ممبئی میں ۲۶ اور ۲۹نومبر ۲۰۰۸ء کے درمیان جو خونیں ہنگامہ برپا ہوا اور ۱۷۳ اِنسانوں کو جس بے دردی سے ہلاک کیا گیا اور سیکڑوں کو زخمی، وہ ایک المیہ ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے، کم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کے عوام سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان اور پوری دنیا کے دردمند انسانوں نے اس کی مذمت کی اور اصل مجرموں کو قرار واقعی سزا کا مطالبہ کیا۔ لیکن بھارت کی قیادت اور خصوصیت سے وہاں کے میڈیا اور ہندو انتہا پسندی کی تنظیموں نے جس طرح آنکھیں بند کر کے پاکستان اور نام نہاد ’اسلامی بنیاد پسندوں‘ کو نشانہ بنایا اور امریکا، مغربی اقوام اور خود اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے انصاف کے تمام مسلّمہ اصولوں کو یکسر نظرانداز کر کے پاکستان کی ایک دینی اور فلاحی تنظیم کو کسی ثبوت اور صفائی کا موقع دیے بغیر موردالزام ٹھیرایا اور پھر پاکستان پر سیاسی، معاشی اور عسکری دبائو کا نہ َختم ہونے والا سلسلہ شروع کردیا، اس نے ایک انسانی المیے کو ایک سیاسی کھیل میں تبدیل کردیا ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان کی موجودہ حکومت نے اس معاملے میں پہلے لمحے ہی سے جس بے بصیرتی اور کمزوری کا مظاہرہ کیا ہے، اس نے پاکستان کی مشکلات میںاضافہ اور اس پر منڈلانے والے خطرات کو دوچند کردیا ہے۔ صاف نظر آرہا ہے کہ بھارت اس واقعے کو پاکستان کو دبانے اور علاقے میں اپنے اور امریکی مقاصد اور اہداف کو حاصل کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ وہ ایک طرف خود اپنی کمزوریوں پر پردہ ڈالنے اور اپنے فتنہ جُو عناصر سے توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے تو دوسری طرف پاکستان پر اپنی گرفت مضبوط کرنے، ملک میں اپنے ہم نوا عناصر اور آلۂ کار قوتوں کو تقویت دینے اور امریکا اور یورپی اقوام کے تعاون سے پاکستان کو اپنی ایک باج گزار ریاست بنانے اور اس کے سیاسی نقشے میں اپنے مفید مطلب تبدیلیاں لانے کے مذموم مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے بڑی ہوشیاری سے چالیں چل رہا ہے۔

پیپلزپارٹی کی اور اس کے اتحادیوں کی حکومت نے جس طرح اپنے منشور اور سیاسی دعوؤں کی خلاف ورزیاں کی ہیں، ملک کی آزادی، حاکمیت اور سالمیت کو دائو پر لگا دیا ہے، مشرف دور کی پالیسیوں پر جس بھونڈے انداز سے عمل کیا جا رہا ہے، معاشی حالات جس طرح اس کی گرفت سے نکل رہے ہیں، امن و امان کی جو زبوں حالی ہے، اور جس طرح شخصی اقتدار اور مفادات کی سیاست کو فروغ دیا جا رہا ہے، اس نے توقعات کے ان آبگینوں کو چکنا چور کردیا ہے جو جمہوریت کے احیا کے بارے میں فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے نتیجے میں قائم  کیے گئے تھے۔ ایک امریکی ادارے کے تازہ ترین سروے کے نتائج میں عوام کے ان احساسات کی مکمل عکاسی ہوتی ہے جس کی رو سے ۸۵ فی صد عوام حکومت کی کارکردگی سے مایوس ہیں اور ۱۰ ہی مہینوں میں حکومت سے ان کی مایوسی کی وہی کیفیت پیدا ہوگئی ہے جو مشرف کے دور کے آخری ایام میں تھی۔ بھارت اور امریکا حکومت کی اس کمزوری کا پورا پورا فائدہ اٹھا رہے ہیں اور علاقے کے سیاسی نقشے کو تبدیل کرنے، پاکستان کو سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا شکار کرنے اور ایسے حالات پیدا کرنے میں مصروف ہیں جن کے نتیجے میں پاکستان کی دفاعی صلاحیت بری طرح مجروح ہوجائے اور بالآخر اس کے نیوکلیر اثاثہ جات پر کسی بین الاقوامی ڈھونگ کے سہارے امریکا قبضہ کرسکے۔ یہ دور ازکار خدشات نہیں بلکہ امریکااور مغربی اقوام کے پالیسی ساز اداروں کے بنائے ہوئے سیاسی نقشے میں رنگ بھرنے کے لیے بھارت اور امریکا کے اسٹرے ٹیجک تعاون کے اہداف  معلوم ہوتے ہیں۔

ممبئی دھشت گردی: تین پھلو

ممبئی میں جو کچھ ہوا اور اسے جس طرح پاکستان کا گھیرائو کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، اس کا بے لاگ تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ بھارت اور مغربی میڈیا میں اس سلسلے میں جو کچھ لکھا جا رہا ہے اور بھارت کے ساتھ خصوصیت سے امریکا اور برطانیہ کی قیادت اور میڈیا جو نظریات فروغ دے رہے ہیں، ان کا جائزہ لیا جائے تو ان میں تین چیزوں کو بڑے سوچے سمجھے انداز میں  نمایاں کیا جا رہا ہے۔

۱- یہ سارا خون خرابا پاکستان کی ایک جہادی تنظیم لشکرِطیبہ کا کیا دھرا ہے جو جہادِ افغانستان کے اولیں دور (۱۹۸۰ء) میں وجود میں آئی تھی۔ پھر افغانستان سے روس کی پسپائی کے بعد کشمیر میں جہاد میں مصروف رہی اور اب کشمیر اور افغانستان ددنوں میں سرگرم ہے۔ پاکستان کی حکومت اتنی کمزور ہے کہ اس کی کوئی گرفت ان جہادی تنظیموں پر نہیں اور چونکہ پاکستان کی موجودہ حکومت اور خود امریکا اور یورپ بوجوہ بھارت اور پاکستان میں دوستانہ روابط کو فروغ دینا چاہتے ہیں تاکہ امریکا کی ’عالمی دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ میں پاکستان اہم کردار ادا کرتا رہے اور پاکستانی فوج امریکا کے دیے ہوئے اہداف، یعنی القاعدہ اور طالبان کی سرکوبی میں مصروف رہے۔ البتہ جہادی تنظیمیں اس دوستی کے محل کو درہم برہم کرنے پر تلی ہوئی ہیں اور اسی وجہ سے ممبئی میں یہ خون خرابا کیا گیا ہے تاکہ صلح اور دوستی کا یہ عمل رک جائے۔

یہی وجہ ہے کہ شروع میں بھارت اور امریکا کا پورا زوراس پر تھا کہ یہ کام غیرریاستی عناصر نے کیا ہے اور پاکستان کی حکومت آنکھیں بند کر کے اپنی ساری قوت سے ان غیرریاستی عناصر کی سرکوبی کرے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی سات سال پرانی ایک درخواست کو چشم زدن میں زندہ کر دیا ہے اور لشکرِطیبہ کے ساتھ جماعت الدعوۃ پر پابندی، اس کے تعلیمی اور خدمتی اداروں کی بندش اور اس کی قیادت کی گرفتاری کا اشارہ کردیا۔

بھارتی قیادت بار بار کہہ رہی ہے کہ ممبئی کے مسئلے کا کشمیر کے مسئلے سے کوئی تعلق نہیں بلکہ  یہ خالص بھارت دشمنی پر مبنی عمل ہے۔

۲- دوسرا نظریہ یہ ہے کہ بظاہر تو یہ کام لشکرطیبہ نے کیا ہے مگر دراصل اس کے پیچھے القاعدہ ہے جس نے نائن الیون کی طرز پر بھارت میں ایک بڑا آپریشن کیا ہے اور اس میں اسرائیل، امریکا اور یورپ کو نشانہ بنایا گیا ہے اور ان کے زعم میں ممبئی کے واقعے کو کشمیر یا پاک بھارت معاملات سے ہٹ کر عالمی دہشت گردی کی جنگ کے ایک حصے کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ نیویارک، واشنگٹن، میڈرڈ، لندن اور بالی کے سلسلے کی ایک کڑی ہے، اور چونکہ القاعدہ کا ان کی نگاہ میں مرکز اب افغانستان نہیں، پاکستان ہے، اس لیے سارادبائو پاکستان پر ہونا چاہیے کہ کھل کر اور پوری یکسوئی کے ساتھ القاعدہ اور طالبان کا قلع قمع کرنے میں لگ جائے اور اگر حکومت ِ پاکستان نہیں کرتی ہے تو پھر پاکستان پر جنگ مسلط کر کے یہ کام کیا جائے۔ بھارت کے لیے فوج کشی کا جواز تسلیم کیا جائے اور عالمی برادری اس کا ساتھ دے۔

۳- ایک تیسرا نظریہ یہ بھی پیش کیا جا رہا ہے کہ یا تو پاکستانی حکومت درپردہ اس پورے معاملے میں لشکرطیبہ اور دوسری جہادی تنظیموں کے ساتھ ہے یا سول حکومت کی گرفت فوج اور  انٹیلی جنس کے اداروں پر اتنی کمزور ہے کہ یہ ادارے اپنی من مانی کر رہے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو فوج اور انٹیلی جنس کے اداروں کو سبق سکھانے کی ضرورت ہے۔ پہلا طریقہ یہ ہے کہ پاکستان کی کمزور حکومت پر مزید دبائو ڈالا جائے اور اسے مجبورکیا جائے کہ وہ ان تمام قوتوں کو ختم کرے جو بھارت اور امریکہ کی نگاہ میں خطرہ ہیں یا ہوسکتی ہیں۔ اس کے لیے حکومت کو مجبور کیا جائے کہ جو جو مطالبہ بھارت کرے اس پر عمل کیا جائے اور اگر حکومت اندرونی دبائو یا کسی اور وجہ سے ایسا نہ کرے تو پھر بھارت کو شہ دی جائے اور وہ فوجی کارروائی کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرے۔ امریکا اور آئی ایم ایف اپنے اپنے انداز میں یہ دبائو ڈال رہے ہیں۔ امریکا کی سیاسی اور عسکری قیادت ٹڈی دل کی صورت میں پاکستان پر نازل ہورہی ہے اور مزید کارروائیاں کرو (do more)اور خطرے کو سنجیدگی سے لو (take the threat seriously) کے مطالبات کر رہی ہے، حتیٰ کہ امریکی کانگریس نے بھارت کی پارلیمنٹ سے بھی بڑھ کر ایک قرارداد منظور کرلی ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ مکمل تعاون کرے۔

یہ تین نظریات ہیں جن کے گرد بیش تر تجزیے گردش کر رہے ہیں۔ اس بات کو کہ بھارت اور امریکا دراصل علاقے کے سیاسی نقشے کو بدلنے کے لیے یہ سب کچھ کر رہے ہیں محض سازشی نظریہ (conspiracy theory) کا نام دیا جا رہا ہے حالانکہ ان تینوں منظرناموں میں کوئی بہت زیادہ فرق نہیں ہے کہ سب کا ہدف بالآخر پاکستان کو قابو میں کرنا ہے۔ اور جس بات کو کھلے انداز میں نہیں کہا جا رہا حالانکہ وہی اصل ہدف ہے، یعنی پاکستان کو کسی نہ کسی طرح بھارت کی چھتری تلے لے آیا جائے اور اس کے لیے اگر اس کے خدانخواستہ حصے بخرے کرنے پڑیں تو یہ بھی کرڈالا جائے۔ پاکستان کا اسلامی تشخص، قوم کا جذبۂ جہاد اور ملک کی ایٹمی اور دفاعی صلاحیت اصل ہدف ہیں۔ اس سلسلے میں جہادی قوتیں اور آئی ایس آئی کا خصوصی ذکر آتا ہے۔ ماضی میں فوج اور آئی ایس آئی کے کردار کے بارے میں ہمیں بھی شدید ترین تحفظات رہے ہیں اور ملکی سیاست میں ان کی بے جا مداخلت کی وجہ سے طرح طرح کی خرابیاں پیدا ہوتی رہی ہیں لیکن ملک کے دفاع اور بیرونی دشمنوں کے مقابلے کے لیے خفیہ اداروں کا کردار ہر ملک کی ضرورت ہے اور دفاع وطن کے لیے فوج اور ان اداروں کا مضبوط اور مقابلے کی قوت اور صلاحیت سے آراستہ ہونا ازبس ضروری ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ وہ دستور اور ملک کی سیاسی قیادت کے تابع رہیں اور ان پر حاوی نہ ہوجائیں۔ بھارت اور امریکا کا ہدف ان اداروں کو کمزور کرنا ہے، انھیں دستور اور جمہوری نظامِ عمل کا حصہ بنانا نہیں ہے۔ وہ فوجی آمریت جو امریکا نواز ہو اور وہ خفیہ ادارے اور ایجنسیاں جو امریکا کے مقاصد میں ممدومعاون ہوں، ان کا اس کے ’جمہوری ایجنڈے‘ سے کوئی ٹکرائو نہیں ہوتا۔

اس پس منظر میں اگر آپ ممبئی کے خونیں سانحے پر نگاہ ڈالیں تو صاف نظر آتا ہے کہ کسی حقیقی جہادی تنظیم کو اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا اور نہ پاکستان کی حکومت ہی کو اس سے بالواسطہ یا بلاواسطہ کوئی فائدہ ہوسکتا ہے۔ جہادی تنظیموں کا اصل میدان اس وقت افغانستان ہے اور ان کا ہدف یہ ہے کہ افغانستان کو امریکا اور ناٹو کی فوجوں کے قبضے سے نجات دلائی جائے۔ ممبئی میں    جو کچھ ہوا اس سے انھیں کیا فائدہ؟ اس کا تو اُلٹا نقصان ہے اور کوئی سمجھ دار قیادت جان بوجھ کر    خود اپنے پائوں پر کلھاڑی مارنے کی حماقت کیوں کرے گی؟

پاکستان کی موجودہ حکومت جب سے اقتدارمیں آئی ہے، بھارت کے سامنے ریشہ خطمی  بنی ہوئی ہے اور زرداری صاحب تو اپنی زندگی کا مشن ہی یہ بتا رہے ہیں کہ وہ بھارت سے دوستی اور معاشی اور ثقافتی اعتبار سے دونوں کو شیروشکر کرنا چاہتے ہیں بلکہ یہاں تک چلے گئے ہیں کہ ان کو ہرپاکستانی میں تھوڑا بہت ہندستانی نظر آتا ہے۔ جس دو قومی نظریے کی بنیاد پر ملک تقسیم ہوا تھا ان کا اس سے وفاداری کا کوئی تعلق اور رشتہ تک نہیں ہے۔ایسے حالات میں حکومت کے کسی کردار کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

رہا معاملہ القاعدہ کا، تو خود امریکی اداروں اور قیادت کے ارشادات کی روشنی میں اس کی کمر ٹوٹ چکی ہے اور وہ اپنے بقا کی جدوجہد کر رہی ہے۔ پھر اس کا اصل ہدف اس وقت امریکا ہے بھارت نہیں۔ فوج اور سامان کی نقل و حرکت اور ضروریات کی فراہمی کے اعتبار سے کوئی آپریشن کرنے کے لیے، اس کے لیے ممبئی سے زیادہ غیرموزوں کوئی جگہ نہیں ہوسکتی۔ پھر اسے کیا پڑی (logistics) ہے کہ وہ ممبئی میں جاکر اس نوعیت کا خونیں کھیل کھیلے۔

بہارتی دعووں کی حقیقت

بھارت کی اب تک کی اعلان شدہ معلومات کی روشنی میں ممبئی کا جو واقعہ سامنے آتا ہے، ذرا دیکھیے کہ اس سے کیا نقشہ بنتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ ۲۳نومبر کو یہ ۱۰افراد پاکستانی بحری جہاز کے ذریعے ممبئی کے قریب پہنچ کر کشتیوں کے ذریعے شہر پہنچے۔ سب سے پہلے ریلوے اسٹیشن پر غالباً تین افراد نے خون خرابا کیا اور جب ایک دہشت گرد (جسے اجمل عامرقصاب کہا جا رہا ہے اور اسے زندہ پکڑنے کی بات کی جارہی ہے وہ یہیں) بھارت کی پولیس کے ہاتھ آیا۔ باقی ۷ افراد نے تاج ہوٹل، اوبرائے ہوٹل اور یہودی مرکز پر قبضہ کیا۔ اس حساب سے ہوٹل میں ۴، دوسرے میں ۳ اور یہودی مرکز میں ۲ دہشت گردوں نے کارروائی کی اور ۶۰ گھنٹے تک ممبئی کی پولیس، کمانڈوز اور فوج کو تگنی کا ناچ نچاتے رہے۔ نہ معلوم یہ کون سی ماورائی مخلوق تھی کہ چند مہینوں کی تربیت سے ان میں وہ صلاحیتیں پیدا ہوگئیں اور تاج جیسے عظیم ہوٹل میں جس میں غالباً ۶۰۰ سے زیادہ کمرے ہیں، چار افراد نے سیکڑوں افراد کو یرغمال بنا لیا اور بھارتی کمانڈوز کی پوری فوج ظفرموج کو غیرمؤثر بنائے رکھا۔ یہ کیسے نابغۂ روزگار نوجوان تھے، جو ۳ دن میں ممبئی کی گلی گلی سے واقف ہوگئے اور تاج ہوٹل جیسے عظیم الشان ہوٹل کے چپے چپے پر انھیں قدرت حاصل ہوگئی۔ ہوٹل کی سیکورٹی کے نظام کو انھوں نے غیرمؤثر کردیا۔ پولیس کے اعلیٰ عملے خصوصیت سے انسدادِ دہشت گردی دستوں (ATS) کے تین چوٹی کے افسروں بشمول کرکرے کو، جنھوں نے ہندو دہشت گردوں اور ان کے فوج کے حاضر سروس معاونین کا پردہ چاک کیا تھا، اصل معرکے کی جگہ پر نہیں، ایک ہسپتال کی طرف بلاکر ہلاک کردیا۔

دہشت گردی کے ماہرین کی راے ہے کہ ممبئی جیسا آپریشن مقامی لوگوں کی بھرپور معاونت کے بغیر ممکن نہیں، اور ایسا آپریشن ۱۰ نہیں کم از کم ۵۰ سے ۶۰ افراد کی شرکت کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ لندن کے اخبار دی ٹیلی گراف نے اپنی ۱۶ دسمبر ۲۰۰۸ء میں اپنے ممبئی کے نمایندے  ڈیمین ایم راے (Damien Mcel Roy) کے توسط سے یہ رپورٹ شائع کی ہے کہ عسکریت پسندوں کو بھارتی عناصر کی معاونت حاصل تھی۔ یہ بھی ایک معما ہے کہ فروری ۲۰۰۸ء سے ممبئی میں کسی بڑے آپریشن کے بارے میں انٹیلی جنس کی مختلف رپورٹیں سامنے آرہی تھیں۔ ستمبر میں پانی کے راستے سے حملے کی رپورٹ بھی آئی۔ امریکی انٹیلی جنس نے بھی کم از کم دو بار رپورٹ دی۔ یہ ساری اطلاعات پولیس کو، حتیٰ کہ بحریہ کو بھی حاصل تھیں مگر ان سب کے باوجود کسی کو ان ۱۰ سرپھرے نوجوانوں کی آمد اور شہر کے پانچ حصوںپر قبضے کی کانوں کان خبر نہیں ہوئی۔ بھارتی اخبارات نے  یہ معلومات بھی دی ہیں کہ تاج ہوٹل کے پاس بحری محافظوں کا ادارہ واقع ہے جس کی اپنی سیکورٹی فورس ہے جو ۱۰ منٹ میں جاے حادثہ پر پہنچ سکتی تھی مگر اسے زحمت نہیں دی گئی اور کمانڈوز کے آنے میں کئی گھنٹے لگ گئے۔ ممبئی پولیس کے انسدادِ دہشت گردی دستوں (ATS) کے سربراہ ہیمانت کرکرے اور اس کے دو ساتھیوں کے پُراسرار قتل کے بارے میں بھارت کے وزیرمملکت براے اقلیتی امور عبدالرحمن انتولے (A.R. Antulay) کا بیان بھارتی پارلیمنٹ ہی نہیں پوری سیاسی دنیا میں ہلچل کا باعث ہواہے جس میں کہا گیا ہے کہ ان پولیس افسروں کی ہلاکت ایک معما ہے جس کی آزادِ تحقیق ہونی چاہیے۔ ان کو کس نے پیغام دے کر ہسپتال کے محاذ پر بلایا اور پھر ہلاک کردیا؟ اس کے لیے انھوں نے جو الفاظ استعمال کیے ہیں وہ یہ ہیں کہ:

a victim of terrorism plus something

ان کی موت کا فائدہ بی جے پی اور ہندو دہشت گردوں کے گروہوں کو ہوا ہے، کسی مسلمان گروہ کو نہیں۔ موصوف کے اس بیان پر ہندو انتہاپسند آتش سیخ پا ہیں اور ان کو برطرف کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن انتولے صاحب اپنی بات پر قائم ہیں اور ان کے اس موقف نے ممبئی کے پورے ہنگامے کی نوعیت ہی کو بدل کر رکھ دیاہے۔

عالمی راے عامہ

اب کھلے الفاظ میں یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ ممبئی کے واقعات کا فائدہ کس کو ہوا ہے اور کیا وہی ہاتھ اس کے پیچھے نہیں جو فائدہ اٹھانے والے ہیں؟ برین کلولی (Brian Cloughley) جس کے اہم مضامین یورپ اور ایشیا میں شائع ہوتے ہیں اور جو افواجِ پاکستان پر ایک کتاب کا مصنف ہے، وہ اپنے ۱۷ دسمبر ۲۰۰۸ء کے مضمون ممبئی کے واقعات سے فائدہ کس کا؟(Who Benefits from the Mumbai? ) میں لکھتا ہے:

ممبئی کے قتل و غارت سے نہ بھارت کی کانگریس کی اتحادی حکومت کو کوئی فائدہ ہوا ہے، نہ حملہ آوروں کو (سواے ایک کے سب مرچکے ہیں)، اور یقینا پاکستان کو بھی نہیں (جہاں اقوام متحدہ کے مطابق اس سال کے پہلے ۸ مہینوں میں ۱۴۴۵ شہری ہلاک ہوچکے ہیں)۔

پھر فائدہ کسے ہے؟ ایک جواب، بدقسمتی سے یہ ہے کہ بی جے پی، اور آر ایس ایس، وی ایچ پی اور شیوسینا میں اس کے حامیوں کو۔(ڈیلی ٹائمز، ۱۷ دسمبر ۲۰۰۸ء)

لندن کے روزنامہ دی گارڈین میں۱۸ دسمبر۲۰۰۸ء کی اشاعت میں سہیل حلیم کا مضمون India's Problems Lie Within شائع ہوا ہے جس میں مضمون نگار ہندستانی مسلمانوں اور ہندو دہشت گردوں کا خصوصیت سے ذکر کرتا ہے۔ مضمون کے یہ حصے خصوصیت سے مطالعے کے لائق ہیں:

جب بھارت اور پاکستان میں کشیدگی ختم ہوجائے اور ممبئی کے حملوں کی گرد بیٹھ جائے تو بھارت کی سیاسی قیادت کو اپنا جائزہ آپ لینا چاہیے۔ ہوسکتا ہے کہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے گروپ اس حملے میں ملوث ہوں، یا پاکستان کی بدنام آئی ایس آئی نے ان کو تربیت دی ہو، یا امداد فراہم کی ہو، لیکن بھارت کے اندر جو گڑبڑ ہے، اس کا الزام پاکستان پر دھرنا سیاسی حکمت کے خلاف ہے۔ دراصل بھارت خود اپنے آپ سے جنگ کی حالت میں ہے۔ ۲۰ برس سے کشمیر کا مسئلہ اپنی انتہا پر ہے اور بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں کا اس سے بھی زیادہ مدت سے۔ مگر بھارت کا خطرناک ترین مسئلہ اقلیتوں سے اس کا سلوک ہے۔ مسلمانوں کے حالات کے بارے میں سچرکمیٹی کی رپورٹ سے معلوم ہوا کہ سماجی، تعلیمی اور معاشی ہر حوالے سے وہ ہندو اکثریت سے بہت پیچھے ہیں۔ سول، فوج اور پولیس ملازمتوں میں ان کی نمایندگی ۴ فی صد سے زیادہ نہیں۔ تعلیمی سہولیات بھی بہت کم ہیں۔ اگر کچھ لوگ آگے نکلتے بھی ہیں تو وہ ہرقدم پر رکاوٹیں پاتے ہیں۔ ہندو قوم پرستوں کے رویے کے ساتھ مل کر یہ ناانصافی کے احساس کو بڑھاتا ہے۔ ۱۶ برس ہوئے بابری مسجد ہندو انتہاپسندوں نے زمین بوس کر دی تھی۔ اس کے بعد کے فسادات میں ایک ہزار مسلمان ہلاک ہوئے۔ تین ماہ بعد ممبئی میں بم دھماکوں میں ۲۵۰ ہندو مارے گئے۔ ہر دو طرف ان واقعات کے ذمہ داروں کے ساتھ جو رویہ رکھا گیا وہ تقابلی مطالعے کے لیے ایک عمدہ موضوع ہے۔ دھماکوں کے ملزموں نے ۱۵ برس جیل میں گزارے اور اب ان کو سخت سزائیں دی گئی ہیں، جب کہ پہلے والوں کے مقدمے عدالتوں تک بھی نہیں پہنچے۔

۲۰۰۰ء میںگجرات کے فسادات میں ایک ہزار سے زیادہ مسلمان مارے گئے، جب کہ زیادہ تر بیانات کے مطابق پولیس تماشا دیکھتی رہی اور مجرموں کو شہہ دی۔

گذشتہ چند برسوں میں بھارت میں جگہ جگہ دہشت گرد حملے ہوئے ہیں: دہلی، جے پور، حیدرآباد، احمد آباد، ورناسی، اجمیر، بنگلور۔ ان سب میں مختلف مسلم تنظیموں کو، مثلاً اسٹوڈنٹ اسلامک موومنٹ آف انڈیا (SIMI ) اور انڈین مجاہدین (جس کا نام حال ہی میں سنا گیا) ملوث کیا گیا۔ مسجد اور درگاہیں ان کا نشانہ تھیں۔

وہ لوگ جنھیں قانون نافذ کرنے اور تفتیش کرنے والے اداروں پر پہلے ہی اعتماد نہیں ہے وہ ان واقعات کو اس بات کا ثبوت سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کو غیرمنصفانہ طور پر ہدف بنایا جا رہا ہے۔ ان کا سادہ سوال یہ ہے: اسلامی دہشت گرد آخر اپنی عبادت گاہوںکو کیوں نشانہ بنائیں گے؟

اس صورت حال نے ایک اچھا موقع فراہم کر دیا ہے۔ اگر شفاف تحقیقات ہوں تو انصاف کے تقاضے پورے ہونے کا آغاز ہوجائے گا۔ مگر گجرات اور بابری مسجد فسادات بھلائے نہیں جاسکتے۔ معاشی اور سماجی فرق دُور کرنے پر زور دینا بڑی اچھی بات ہے مگر ابھی ایسے خاندان، بیویاں، بہنیں اور بیٹیاں موجود ہیں جو اپنے پیاروں کا افسوس کر رہی ہیں اور انصاف کی منتظر ہیں۔

ایک اورنہایت اہم مضمون بھارت کی مشہور دانش ور اور عالمی شہرت کی ناول نگار    ارون دھتی راے (Arundhati Roy) کا ہے جو لندن کے اخبار دی گارڈین میں ۱۳ دسمبر ۲۰۰۸ء کو شائع ہوا ہے۔ یہ پورا مضمون پڑھنے کے لائق ہے۔ آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ:

ہم اپنے المیوں کے باعث اپنے حقوق سے بھی ہاتھ دھو چکے ہیں۔ ممبئی المیہ کئی روز تک جاری رہا، اس دوران ہمارے میڈیا چینل ہمیں ۲۴گھنٹے مطلع کرتے رہے کہ ہم  ’بھارت کے نائن الیون‘ کا نظارہ کر رہے ہیں۔ جوں جوں برعظیم میں اضافہ ہوا، امریکی سینیٹ کے رکن جان مکین نے پاکستان کو وارننگ دی کہ اگر اس نے ’بدمعاشوں‘ کو گرفتار کرنے میں سُرعت سے کام نہ لیا تو مکین کی ذاتی اطلاع کے مطابق بھارت پاکستان میں ’دہشت گردی کے اڈوں‘ پر فضائی حملے کردے گا اور امریکا بھی کچھ نہ کرسکے گا کہ یہ ’بھارت کا نائن الیون‘ ہے۔

یہ بڑی عجیب بات ہے کہ نومبر ۲۰۰۸ء کے آخری ہفتے میں (مقبوضہ) کشمیر کے ہزاروں افراد جن کی نگرانی بھارت کے کئی ہزار فوجی کر رہے تھے، ووٹ ڈالنے کے لیے انتخابی مراکز پر لائنیں لگائے ہوئے تھے لیکن ادھر بھارت کے امیرترین شہر کا امیر ترین حصہ جنگ سے بُری طرح متاثر کپواڑہ کا منظر پیش کر رہا تھا جو مقبوضہ کشمیر کا سب سے زیادہ متاثر ضلع ہے۔

مسز راے مسلمانوں کی زبوں حالی، عیسائیوں پر مظالم، اور ہندو انتہا پسندوں کی ذہنیت اور کھلے کھلے انسانیت کش اقدامات کا ذکر کرنے کے بعد لکھتی ہیں:

ممبئی کے واقعات ۲۴ گھنٹے تک بھارت کے ۶۷ ٹی وی چینلوں سے نشر ہوتے رہے اور ان پر تبصرے بھی کیے گئے۔ تین دن اور تین راتیں نوجوانوں کا ایک مختصر گروپ (کُل تعداد ۱۰ بتائی جاتی رہی ہے) بھارت میں امن وامان قائم کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو تگنی کا ناچ نچاتا رہا۔ بالآخر ان میں سے ۹ کو ہلاک کردیا گیا۔ بھارتی ٹی وی چینل نے حملہ آوروں میں سے ایک کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت بھی نشر کی۔ اس نے اپنا نام بابر بتایا۔ اس نے بابری مسجد کو گرانے، گجرات میں مسلمانوں کے قتلِ عام اور کشمیر میں مظالم کا ذکر کیا۔ جب ٹی وی کے نمایندوں نے کہا کہ وہ تو گھیرے میں آچکے ہیں، ہتھیار کیوں نہیں ڈال دیتے؟ تو اس نے کہا کہ ’’شیر کی طرح ایک دن زندہ رہنا اور پھر جان دے دینا بہتر ہے‘‘۔

بھارت میں دہشت گردی کے مختلف واقعات اور اس سے عیاں ہونے والے طریقِ واردات (pattern) کا قدرے تفصیل سے ذکر کرنے کے بعد محترمہ راے مالے گائوں والے واقعے کا ذکر کرتی ہیں جس کی اولیں ذمہ داری مسلمانوں پر ڈالی گئی تھی اور آئی ایس آئی کو بھی اس میں ملوث کیا گیا تھا۔ مگر حقیقت کیا نکلی اور اس کے بعد اس حقیقت کو دریافت کرنے والے کا کیا حشر ہوا؟ ملاحظہ ہو:

مہاراشٹر کے انسدادِ دہشت گردی دستے (ATS) نے جو مالے گائوں کے ستمبر ۲۰۰۸ء کے دھماکوں کی تحقیقات کر رہا تھا، ایک ہندو مذہبی مبلغ سادھوی پراگیا، ایک نام نہاد   خدا پرست سوامی دیانند پانڈے اور بھارتی فوج کے ایک حاضر سروس لیفٹیننٹ کرنل پروہنت کو گرفتار کیا… شیوسینا، بی جے پی اور آر ایس ایس نے مہاراشٹر کے اے ٹی ایس کی مذمت کی، اس کے سربراہ ہیمانت کرکرے کو برا بھلا کہا، اور دعویٰ کیا کہ وہ ایک سیاسی سازش کا کردار ہے اور اعلان کیا کہ ’’ہندو دہشت گرد نہیں ہوسکتے‘‘۔

ایل کے ایڈوانی نے بڑے بڑے اجتماعات میں ولولہ انگیزتقاریر کیں اور انسدادِ  دہشت گردی دستوں کی مذمت کی کہ اس نے مقدس مرد و خواتین پر شبہہ کرنے کی جسارت کی۔

۲۵ نومبر کو اخبارات نے خبر دی کہ اے ٹی ایس مالے گائوں دھماکوں کے حوالے سے  وی ایچ پی کے سربراہ پراون ٹوگاڈیا کے بارے میں تحقیقات کررہا ہے۔ اگلے ہی دن قسمت کا کھیل سمجھیے کہ کرکرے ممبئی کے حملوں میں ہلاک ہوگیا۔ اب امکانات ہیں کہ جو بھی نیا سربراہ ہوگا اس پر مالے گائوں دھماکوں کی تفتیش کے حوالے سے سیاسی دبائو ڈالا جائے گا جس کا وہ مشکل سے مقابلہ کرسکے گا۔

Times Now ٹیلی ویژن کے اینکرپرسن ارناب گوسوامی نے اپنی لَے بڑھا دی ہے، اور وہ ان لوگوں کو نام لے کر کھلم کھلا برا بھلا کہہ رہاہے جنھوں نے پولیس اور فوج کے کردار پر سوال اٹھانے کی جرأت کی ہے۔

بھارت میں دہشت گردی کے واقعات کو نائن الیون کے عالمی پس منظر میں رکھ کر امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ اور دہشت گردوں کی امریکا کے خلاف جدوجہد کا خلاصہ   محترمہ راے یوں بیان کرتی ہیں:

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ امریکی حکمت عملی اس حد تک تو کامیاب ہے کہ نائن الیون جیسا حملہ اس کے بعد پھر نہیں ہوا ہے لیکن کچھ دوسرے لوگ کہیں گے کہ اب امریکا جن مشکلات سے گزر رہا ہے وہ ان سے بدتر ہیں۔ اگر نائن الیون دہشت گرد حملوں کا مقصد یہ تھا کہ امریکا اپنے اصل رنگ میں سامنے آجائے تو دہشت گردوں کو اس سے زیادہ کامیابی اور کیا مل سکتی تھی؟ امریکی فوج دو ناقابلِ فتح جنگوں میں پھنسی ہوئی ہے جس نے امریکا کو دنیا کا سب سے زیادہ قابلِ نفرت ملک بنا دیا ہے۔ ان دوجنگوں نے امریکی معیشت کو بڑی حد تک ادھیڑ دیا ہے، اور کیا خبر کہ بالآخر امریکی سلطنت کا بھی یہی حشر ہو۔ (کیا یہ ہوسکتا ہے کہ وہی مصیبت زدہ اور بم باری سے تباہ حال افغانستان جو سوویت یونین کا قبرستان بنا ، امریکا کا بھی بن جائے؟)کئی لاکھ افراد بشمول کئی ہزار امریکی فوجی عراق اور افغانستان میں اپنی جانیں کھو چکے ہیں۔ امریکا کے حلیفوں اور ایجنٹوں بشمول بھارت اور باقی دنیا میں امریکی مفادات پر نائن الیون کے بعد دہشت گرد حملوں کی کثرت میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہو گیا ہے۔ جارج بش جس نے نائن الیون پر امریکی ردعمل کی قیادت کی، ایک قابلِ نفرت شخصیت بن گیا ہے، نہ صرف بین الاقوامی طور پر بلکہ اپنے لوگوں کی نظروں میں بھی۔ کون کہہ سکتا ہے کہ امریکا دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت رہا ہے؟

محترمہ راے کہتی ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف قوانین اور ہوم لینڈ سیکورٹی سے سیکورٹی حاصل نہیں ہوسکتی۔ یہ صرف مخالفین کی زبان بندی کے حربے ہیں۔ امریکا تک میں سزایابی کی شرح (conviction rate) صرف دو فی صد ہے۔ جسے ہم دہشت گردی کہتے ہیں، اس کا راستہ اس طرح نہیں روکا جاسکتا۔ یہ ہمارے ہی اپنے کیے کا بدلہ ہے:

اس وقت ہم (بھارت) دوراہے پر کھڑے ہیں۔ ایک طرف کا راستہ انصاف کی طرف جاتا ہے اور دوسرا خانہ جنگی کی طرف۔ کوئی تیسرا راستہ نہیں ہے۔ ہم پیچھے بھی نہیں جاسکتے۔ راستے کا چنائو بھارتی حکومت کو کرنا ہے۔

بھارت کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے جی بالاکشنان (K.G Balakishnan) نے ۱۳ دسمبر ۲۰۰۸ء کو دہلی میں وزیراعظم من موہن سنگھ کی موجودگی میں ایک بین الاقوامی کانفرنس میں اپنے خطاب میں بڑے لطیف انداز میں دہشت گردی اور دہشت گردی کے نام پر دہشت گردی کے موضوع پر بڑا اہم خطاب کیا ہے جسے بھارت کے میڈیا نے تقریباً نظرانداز کیا ہے۔ صرف دی ہندو نے اس کا متن شائع کیا ہے ورنہ سارا آزاد پریس اسے بلاتکلف ہضم کرگیا ہے۔ پورا خطاب پڑھنے کے لائق ہے۔ صرف چند اقتباسات پیش کیے جارہے ہیں۔

جسٹس بالاکشنان بین الاقوامی قانون اور ملکی قانون کے دائرہ ہاے کار کا ذکر کرنے کے بعد ایک بڑے بنیادی مسئلے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جس کی وجہ سے پوری دنیا میں امن کو شدید خطرہ ہے:

مسلّمہ اصول اور ضابطے سرحدپار دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملوں کے لیے بین الاقوامی تعاون میں رکاوٹ ہیں۔ مجرموں کو حوالے کرنے یا تفتیش میں تعاون کے لیے دوطرفہ معاہدات نہ ہوں تو دہشت گرد حملوں کی تفتیش کے لیے کوئی ٹھوس بنیاد نہیں ہے۔ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے لیے قوموں میں باہمی تعاون کے واضح اور مرتب ضوابط نہیں ہیں، اس لیے امریکا جیسے ملکوں نے اپنے اصول خود وضع کیے، مثلاً پیشگی حملے کا اصول تاکہ بیرونی ملکوں میں دہشت گردی کے خلاف کارراوئی کے لیے جواز حاصل ہوسکے۔ لیکن صرف دہشت گردوں کا پیچھا لینا کسی قوم کی خودمختاری کے خلاف من مانی کارروائی کے لیے جواز نہیں ہوسکتا۔

افراد کے اقدام پر حکومتوں کو موردِ الزام ٹھیرائے جانے کے بارے میں بھارت کے  چیف جسٹس کہتے ہیں:

ایک دوسرا مسئلہ جو ممبئی کے واقعات سے سامنے آیا ہے وہ یہ ہے کہ ریاست کو غیر ریاستی عناصرکے اعمال کا ذمہ دار ٹھیرایا جائے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ حکومتوں کی اخلاقی  ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی سرزمین سے جنگجو گروپوں کی سرگرمیوں پر قابو پائیں اور روکیں لیکن یہ کہنا آسان اور کرنا مشکل ہے۔ مثال کے طور پر بہت سے دہشت گرد گروپ مغربی ملکوں سے جہاں کی پولیس اور جرائم کی روک تھام کے نظام برعظیم سے زیادہ بہتر اور سخت ہیں، اسلحہ اور مالی وسائل حاصل کرلیتے ہیں۔

بغیر مقدمہ چلائے آزادی سے محروم کردینے کے بارے میں چیف جسٹس فرماتے ہیں:

حالیہ برسوں میں فرد کے حقوق محدود کرنے کے تباہ کن راستے کی سب سے نمایاں مثال گوانتانامو کے اسیروں کے ساتھ سلوک ہے۔یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ انھوں نے ہزاروں اسیروں کو طویل عرصے تک بغیر الزام لگائے قید رکھا یا آزادانہ قانونی چارہ جوئی کے مواقع بھی فراہم نہ کیے۔

امریکی انتظامیہ نے ان طریقوں کا دفاع یہ کہہ کر کیا کہ گوانتانامو کے اسیروں کو فوجی کمیشن، ریویو بورڈ اور ریویو ٹریبونلوں کے سامنے اپیل کا حق حاصل ہے۔ ۲۰۰۶ء کے ایک مقدمے میں یہ فیصلہ دیا گیا کہ دہشت گردی کے شبہہ میں گرفتار لوگوں کے ہیبیس کارپس (habeas corpus) کے حق سے انکار نہیں کیا جاسکتا، اور انھیں سول عدالتوں تک جانے کا موقع ملنا چاہیے۔ اس کا جواز یہ تھا کہ فوجی ٹریبونلوں کو یہ آزادی حاصل نہ تھی کہ وہ ان اسیروں پر مقدمہ چلائیں جنھیں فوجیوں ہی نے گرفتار کیا تھا۔

امریکا، برطانیہ اور بھارت کے دساتیر اور قانونی فیصلوں کی بنیاد پر تفتیش میں استعمال کیے جانے والے تشدد کے حربوں کے بارے میں چیف جسٹس نے فرمایا:

ہمیں قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے تعذیب (torture) اور دوسرے جبریہ تفتیشی طریقوں سے محتاط رہنا چاہیے۔ ان تفتیشی طریقوں کی مدد سے عموماً جھوٹے اعترافات کروائے جاتے ہیں۔ یہ دہشت گرد حملے روکنے میں کوئی مدد نہیں دیتے۔ ہمیں تمام افراد کے لیے، خواہ ان کے جرائم کتنے ہی گھنائونے کیوں نہ ہوں منصفانہ مقدمے کے حق کا علَم بردار ہونا چاہیے۔ اگر ہم اس حق میں کمزوری کا مظاہرہ کریں گے یہ تو ان لوگوں کے خلاف جو تشدد اور نفرت کا پرچار کرتے ہیں، اخلاقی کمزوری کا ثبوت ہوگا۔ ہمیں ایک بالغ نظر جمہوری معاشرے اور چند لوگوں کے اقدامات کے درمیان تمیز کرنا چاہیے۔

جسٹس بالا کرشن نے ممبئی اور دہلی کے واقعات کی روشنی میں جس واضح انداز میں قانون کی پوزیشن واضح کی ہے، وہ بھارت کی حکومت ہی نہیں ہماری اپنی حکومت اور امریکا اور یورپ کے بہت سے جمہوری ممالک کی حکومتوں کے لیے ایک تنبیہہ اور واضح رہنمائی کی حیثیت رکھتی ہے۔ انسان کی جان اور اس کی آزادی اور عزت کو جو خطرات نائن الیون کے بعد دہشت گردی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے رونما ہوئے ہیں، ان کا مقابلہ انسانی تہذیب کی حفاظت کے لیے ضروری ہے۔مستقبل کا انحصار قانون کی حکمرانی اور سب کے لیے انصاف کے قیام میں ہے۔ انصاف ہی وہ ضمانت ہے جو دہشت گردی سے بھی انسانیت کو نجات دلا سکتا ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر جو دہشت گردی ہو رہی ہے اس سے بھی۔

 

ایک پیچیدہ مسئلہ زمین پر زندگی کے آغاز کاہے۔ اس بارے میں اہلِ فلسفہ تو اسی طرح منقسم نظر آتے ہیں جس طرح وہ کائنات کی تشکیل یا تخلیق کے بارے میں تھے۔ ان کے خیالات کا جدید معاشروں پر کوئی خاص اثر اب نظر نہیں آتا۔ البتہ جدید دور میں سائنس اور علمِ حیاتیات سے تعلق رکھنے والے وہ لوگ جو ایک خدا کو ماننے کو تیار نہیں، یہ راے رکھتے ہیں کہ زندگی کا آغاز زمین پر تقریباً ۳ ارب سال قبل اتفاقاً پیدا ہوجانے والے موزوں ماحول اور حالات میں، زمین پر موجود مختلف عناصر، مثلاً آبی بخارات، امونیا، میتھین، ہائیڈروجن اور بلند درجۂ حرارت کے اتفاقاً ملاپ کے نتیجے میں پہلے ایک امینوترشہ (Amino acid)، پھر پروٹین اور اس سے ایک خلیہ (cell) کے تشکیل پانے سے ہوا۔ اس راے کو ایک سائنسی نظریے کے طور پر پیش کرنے والے ہیرالڈ یورے (Herald C. Urey) (۱۸۹۳ء-۱۹۸۱ء) اور اسٹینلے ملر (Stanley Miller) (۱۹۳۰ء-۲۰۰۷ء) تھے۔ ۱۹۵۳ء میں اپنی لیبارٹری میں ایک تجربے کے بعد ملر نے دعویٰ کیا کہ اس نے کچھ امینوترشے، جو کہ ایک خلیے کی تشکیل کے لیے ضروری پروٹین بنانے میں بنیادی کردار     ادا کرتے ہیں، مصنوعی طور پر پیدا کیے ہیں۔ گویا اس کا کہنا تھا کہ زندگی کی اتفاقاً تشکیل سے  متعلق نظریہ سائنسی طور پر بھی ثابت ہوگیا ہے۔

اس سے قبل ایک انگریز ماہر حیاتیات چارلس ڈاروِن (۱۸۰۹ء- ۱۸۸۲ء) اور ایک انگریز ماہر عمرانیات اور فلسفی ڈاکٹر ہربرٹ سپنسر (۱۸۲۰ء-۱۹۰۳ء) زمین پر زندگی کی تخلیق سے متعلق اپنا ’نظریۂ ارتقا‘ پیش کرچکے تھے۔ اس نظریے کے مطابق زندگی کی اَن گنت انواع میں جوتنوع پایا جاتا ہے وہ ایک طویل ارتقائی عمل کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے۔ تمام زندہ مخلوقات مشترکہ آبا و اجداد سے پیدا ہوئی ہیں مثلاً تمام پودے اور تمام جاندار تقریباً تین ارب سال قبل خود بخود پیدا ہونے والے بیکٹیریا سے ملتے جلتے زندہ نامیاتی سالموں (micro organisms) کے ارتقا کے نتیجے میں تشکیل پائے ہیں۔ دودھیل (ممالیہ) جانور، پرندے، رینگنے والے جانور، خشکی اور تری پر یکساں رہنے والے جانور اور مچھلیاں ۶۰ کروڑ سال قبل پانی میں رہنے والے نرم لجلجے کیڑوں (worms) سے ارتقا کے نتیجے میں بنے ہیں اور انسانوں اوردیگر دودھیل جانوروں کا جدِّامجد چوہے سے ملتا جلتا جانور (shrew) ہے، جو پندرہ کروڑ سال قبل بھی زمین پر موجود تھا اور موجودہ ترقی یافتہ انسان کے آبا و اجداد بندر ہیں جن سے وہ ارتقائی مراحل طے کر کے تقریباً دو لاکھ اور ایک لاکھ سال قبل کے دورانیے میں الگ نوع بن گیا۔

کائنات سے ماورا ایک خدا کے بغیر، زمین پر زندگی کے آغاز سے متعلق یہ نظریات اور بالائی کائنات کی تشکیل سے متعلق فلسفیوں اور سائنس دانوں کے نظریات، کچھ دوسرے ماہرین کی مخالفت کے باوجود، اور اس حقیقت کے باوجود کہ یہ نظریات ابھی تک سائنسی حلقوں میں متنازعہ ہیں، دنیا کے اکثر ممالک میں باقاعدہ سائنس کے طور پر پڑھائے جارہے ہیں اور ذرائع ابلاغ پر مؤثر اختیار کو استعمال کرتے ہوئے بڑی شدّومد سے ان کا پرچار کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے اگرچہ اب تک مذاہب کے موروثی اور معاشرتی اثرات کے سبب دنیا کے اکثر لوگ خدا کے وجود سے انکاری تو نہیں ہوئے لیکن خدا، وحی، مذہبی ضوابط اور حیات بعد الموت سے متعلق ان کے عقائد نہ صرف کمزور پڑ چکے ہیں بلکہ خدا اور مذہب سے ان کی لاتعلقی اور بیزاری میں بہت اضافہ ہوگیا ہے۔ اور یہی ان لوگوںکا ہدف ہے جو مادہ پرست ہیں۔ یہ افراد اکثر معاشروں میں حکومتوں اور ذرائع ابلاغ پر اختیار رکھتے ہیں، خدا اور اس کے سچے رسولؐ کی ہدایات کو اپنی شخصی آزادیوں کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں اور اپنے منصوبوں کو لبرلزم اور سیکولرزم جیسے نسبتاً نرم الفاظ میں پیش کر رہے ہیں۔

آیئے جائزہ لیں کہ زندگی کے آغاز سے متعلق مندرجہ بالا نظریات کی اصلیت کیا ہے؟

زمین پر زندگی کے اتفاقاً آغاز کا نظریہ اس مفروضے پر انحصار کرتا ہے کہ ایک خلیہ یا اس کا ابتدائی حصہ تقریباً ۳ ارب سال قبل موزوں ماحول اور حالات کے اچانک پیدا ہونے کے نتیجے میں پیدا ہوا تھا جس نے بعد کے ادوار میں اتفاقاً خودبخود دستیاب ہوتے چلے جانے والے موزوں اورمناسب ماحول میں ارتقائی مراحل طے کیے اور انواع کی موجودہ شکلوں تک ترقی کرلی۔ حقیقت یہ ہے کہ تمام نباتات، حیوانات اور انسانوں کے اجسام کروڑوں، اربوں خلیات پر مشتمل ہیں۔ ایک اوسط انسانی جسم میں ۲۰۰ اقسام کے تقریباً ۷۵۰ کھرب سے ایک ہزار کھرب تک خلیے ہوتے ہیں۔ ایک خلیہ خواہ انسانی ہو، حیوانی یا نباتی، ایک عظیم اور حیرت انگیز ڈیزائن رکھتا ہے۔ اپنی عملی شکل میں ایک خلیہ کسی شہر سے کم پیچیدہ نہیں ہے۔ اس میں توانائی پیدا کرنے والے مراکز بھی ہیں جسے خلیہ اپنے عمل کے لیے استعمال کرتا ہے۔ زندگی کے لیے مرکزی کردار ادا کرنے والے خامرے اور ہارمون تیار کرنے والی فیکٹریاں بھی ہیں، معلومات کا ذخیرہ (databank) ہے جہاں خلیے میں بننے والی پیداوار کا ریکارڈ جمع ہوتا ہے۔ ایسی فیکٹریاں اور ریفائنریاں ہیں جو خام مال تیار کرتی ہیں اور مواصلاتی نظام اور خام اور تیار مال کی گزرگاہیں ہیں اور خاص طرز کی پروٹین سے بنی ہوئی خلوی جھلی ہے جو خلیے میں اندر آنے اور باہر جانے والے مادوں کو کنٹرول کرتی ہے۔

ایک خلیہ امینوترشوں (amino acids)، خامروں یا پروٹین (enzymes)، آر این اے (Ribonucleic Acid)، ڈی این اے (Deoxyribonucleic Acid)، جین (gene) وغیرہ پر مشتمل ہوتا ہے۔ ہر خلیے میں ۲۰ امینوترشے ہوتے ہیں جو آپس میں زنجیر کی شکل میں مل کر پروٹینی سالمات تشکیل دیتے ہیں۔ انھی ۲۰ امینوترشوں میں نسبت و تناسب کی تبدیلی سے بڑی تعداد میں پروٹین کی اقسام بنتی ہیں۔ فرض کریں ۲۸۸ امینوترشوں پر مشتمل ایک اوسط حجم کا پروٹینی سالمہ بنانا درکار ہوتو ان ۲۰ امینوترشوں میں نسبت و تناسب کی تبدیلی سے پروٹین کی امینوترشوں کی زنجیروں کی اتنی بڑی تعداد میں سے صرف ایک زنجیر، ایک خلیے کے لیے مطلوب پروٹین بناتی ہے۔ ان امینوترشوں کی کتنی تعداد ایک مطلوبہ پروٹینی زنجیر بنانے کے لیے درکار ہے، اس بات کا تعین ڈی این اے میں موجود ان معلومات کی بنا پر ہوتا ہے جو چار خاص بنیادوں یا حروف (اب ان کو a,t,g,c، یعنی ان کے ناموں کے ابتدائی حروف سے پکارا جاتا ہے) کی خفیہ صورت میں محفوظ ہوتی ہیں۔ ان حروف کی ترتیب میں جو فرق ہوتا ہے وہی، اگر انسانی خلیے کا ذکر کریں، انسانوں کی جسمانی ساخت میں ہوتا ہے۔ ان معلومات کو جینیاتی کوڈ (genetic code) کہا جاتا ہے جن کی تعداد ایک ڈی این اے سالمے کے اندر تقریباً ساڑھے تین ارب تک ہوسکتی ہے، جب کہ یہ تعداد ہرجین میں مختلف ہوتی ہے۔

جسم کے ہرہر عضو کے لیے الگ الگ جین ہوتے ہیں جو ایک مادہ اور ایک نر کے کروموسوم کے ملاپ کے نتیجے میں تشکیل پاتے ہیں۔ دو ایکس کروموسوم مل کر ایک نوع میں مادہ اور ایک ایکس اور ایک وائی کروموسوم مل کر ایک نَر کی پیدایش کا باعث بنتے ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ امینوترشے ہمیشہ ایک ہی طرح کا اتفاق کرتے ہوئے ایک ہی طرح کی پروٹین بنائیں جو خلیے کی تعمیر میں مطلوب ہو اور ہمیشہ ایک ہی جیسی اور مطلوبہ تعداد میں اینٹیں یا بلاک تیار کریں؟ کیا یہ ممکن ہے کہ جینیاتی کوڈ کے اربوں حروف میں سے مطلوبہ حروف ہمیشہ اس طرح اتفاقاً ملیں کہ وہ مطلوبہ اعضا تشکیل دیں جو ایک متعین ڈیزائن کے مطابق ایک جسم کی بناوٹ میں حصہ لیں؟ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کیا اِن امینوترشوں، پروٹین، ڈی این اے، آر این اے اور جین کی تعداد اور حرکات کے پیچھے کوئی قوتِ متحرکہ ہے یا نہیں، جب کہ خود منطق اور سائنس دونوں علمی اور عملی طور پر تقاضا کرتے ہیں کہ ہرعمل کے پیچھے ایک قوتِ متحرکہ ہونی چاہیے؟

یورے اور ملر کے تجربہ گاہ میں کیے گئے تجربے سے صرف اتنا معلوم ہوا کہ امینوترشے ایک نہایت منضبط لیبارٹری میں قابویافتہ طریقے سے بنائے گئے نہ کہ اتفاقاً یا خود بخود بن گئے۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ اگر ملر ان تیار شدہ امینوترشوں کو لیبارٹری میں موجود کیمیائی ماحول سے فوراً الگ نہ کرلیتا تو وہ تباہ ہوجاتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی لیبارٹری کا ماحول اس کے فرض کردہ زمین کے ابتدائی ماحول سے بالکل مختلف تھا اور اس کا اعتراف ملر نے خود بھی کیا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ کچھ بے شعور خلیے اور جین خود بخود یا اتفاقاً فیصلہ کرلیں کہ ایک خوب صورت آنکھ بلکہ آنکھوں کی ایک جوڑی، ایک طویل قامت، دانتوں کا خوشنما دکھائی دینے والا سیٹ، یا ایک ستواں ناک کس طرح کے دوسرے جسمانی اعضا کے ساتھ مناسب لگے گی یا وہ خود یہ فیصلہ کرلیں کہ انسانی یا حیوانی اجسام میں جینیاتی خوبیاں ہمیشہ ایک زبردست تناسب اختیار کرتے ہوئے ایک متناسب اور انتہائی نتیجہ خیز وجود کی تشکیل کریں اور اس میں کبھی غلطی نہ کریں، جب کہ اتفاقات میں تو غلطی کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے۔ انسانی نسلوں کے متنوع پھیلائو کا باعث ایکس (x) اور وائی (y)کروموسوم کہے جاتے ہیں۔ خلیے یا جین یہ فیصلہ کیسے کرلیتے ہیں کہ زمین پر انسانی آبادی میں مردوں اور عورتوں کی تعداد ہمیشہ متناسب رہے تاکہ ایک کے لیے دوسرے کی تلاش مسئلہ نہ بنے۔ زمین پر موجود زندگی کی کروڑوں انواع کی پیدایش اور ان کے وقت ِ مقررہ پر خاتمے کا فیصلہ خلیوں میں موجود جین کیوں کر اس طرح سے کرسکتے ہیں کہ ان تمام ہی انواع کی تعداد ایک حد کے اندر محدود رہے۔ ایک خلیے یا ایک جین کے لیے کس طرح ممکن ہے کہ وہ ہمیشہ ہوائوںاور پرندوں کے ذریعے منتقل ہونے والے ہر نوع کے پولن میں سے صرف مطلوبہ پولن ہی کو بارآوری کے لیے چن لے اور ہمیشہ اتفاقاً وہی پھول یا پھل اور بیج پیدا کرے اور کبھی اس میں غلطی نہ کرے۔ ان بے شعور عناصر کے اندر یہ شعوری حرکات کہاں سے آئی ہیں؟ یہی سوال اللہ تعالیٰ قرآن مجید کی سورۃ الواقعہ میں کرتے ہیں:

نَحْنُ خَلَقْنٰکُمْ فَلَوْلاَ تُصَدِّقُوْنَ o اَفَرَئَ یْتُمْ مَّا تُمْنُوْنَ o ئَ اَنْتُمْ تَخْلُقُوْنَہٗٓ اَمْ نَحْنُ الْخٰلِقُوْنَ o نَحْنُ قَدَّرْنَا بَیْنَکُمُ الْمَوْتَ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوْقِیْنَ o عَلٰٓی اَنْ نُّبَدِّلَ اَمْثَالَکُمْ وَنُنْشِٔکُمْ فِیْ مَا لاَ تَعْلَمُوْنَ o وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْاَۃَ الْاُوْلٰی فَلَوْلاَ تَذکَّرُوْنَ o اَفَرَئَ یْتُمْ مَّا تَحْرُثُوْنَ o ئَ اَنْتُمْ تَزْرَعُوْنَہٗٓ اَمْ نَحْنُ الزّٰرِعُوْنَ o لَوْ نَشَآئُ لَجَعَلْنٰہُ حُطَامًا فَظَلْتُمْ تَفَکَّھُوْنَ o اِنَّا لَمُغْرَمُوْنَ o بَلْ نَحْنُ مَحْرُوْمُوْنَ o اَفَرَاَیْتُمُ الْمَآئَ الَّذِیْ تَشْرَبُوْنَ o       ئَ اَنْتُمْ اَنْزَلْتُمُوْہُ مِنَ الْمُزْنِ اَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُوْنَ o لَوْ نَشَآئُ جَعَلْنٰہُ اُجَاجًا فَلَوْلاَ تَشْکُرُوْنَ o اَفَرَئَ یْتُمْ النَّارَ الَّتِیْ تُوْرُوْنَ o ئَ اَنْتُمْ اَنْشَاْتُمْ شَجَرَتَھَا اَمْ نَحْنُ الْمُنْشِؤُنَ o نَحْنُ جَعَلْنٰھَا تَذْکِرَۃً وَّمَتَاعًا لِّلْمُقْوِیْنَ o (الواقعہ ۵۶: ۵۷-۷۳) ہم نے تمھیں پیدا کیا ہے پھر کیوں تصدیق نہیں کرتے؟ کبھی تم نے غور کیا، یہ نطفہ جو تم ڈالتے ہو، اس سے بچہ تم بناتے ہو یا اُس کے بنانے والے ہم ہیں؟ ہم نے تمھارے درمیان موت کو تقسیم کیا ہے، اور ہم اس سے عاجز نہیں ہیں کہ تمھاری شکلیں بدل دیں اور کسی ایسی شکل میں تمھیں پیدا کردیں جس کو تم نہیں جانتے۔ اپنی پہلی پیدایش کو تو تم جانتے ہی ہو پھر سبق کیوں نہیں لیتے؟ کبھی تم نے سوچا، یہ بیج جو تم ڈالتے ہو، ان سے کھیتیاں تم اُگاتے ہو یا اُن کے اُگانے والے ہم ہیں؟ ہم چاہیں تو ان کھیتیوں کو بُھس بنا کر رکھ دیں اور تم طرح طرح کی باتیں بناتے رہ جائو کہ ہم پر تو اُلٹی چٹّی پڑگئی، بلکہ ہمارے تو نصیب ہی پھوٹے ہوئے ہیں۔ کبھی تم نے آنکھیں کھول کر دیکھا، یہ پانی جو تم پیتے ہو، اِسے بادل سے تم نے برسایا ہے یا اس کے برسانے والے ہم ہیں؟ ہم چاہیں تو اسے سخت کھاری بنا کر رکھ دیں، پھر تم شکرگزار کیوں نہیں ہوتے؟ کبھی تم نے خیال کیا، یہ آگ جوتم سلگاتے ہو، اِس کا درخت تم نے پیدا کیا ہے، یا اس کے پیدا کرنے والے ہم ہیں؟ ہم نے اُس کو یاد دہانی کا ذریعہ اور حاجت مندوں کے لیے سامانِ زیست بنایا ہے۔

سوال یہ ہے کہ ان خلیات اور جینز کی حرکات اور تعامل کے پیچھے قوتِ متحرکہ اگر انسان نہیں ہے (اور یقینا نہیں ہے) تو پھر وہ خدا کے سوا کون ہوسکتا ہے؟ ان بے شعور خلیات میں تو اب تک کوئی ایسی قوت دریافت نہیں ہوئی جو ان کے باہمی ملاپ سے تشکیل پانے والے ایک انسانی یا حیوانی وجود میں ’زندگی‘ کی آمد کا باعث ہو (سائنس کی زبان میں ’زندگی‘ سے مراد کسی مادی وجود  کے اندر نظامِ ہضم، نظامِ نشوونما، اپنی نوع کی افزایش اور بقا کے لیے جدوجہد کی صلاحیت ہے)۔    علمِ حیاتیات یہ بتانے سے بھی قاصر ہے کہ تمام انواع کے اندر موجود جین میں وہ تحریریں جنھیں رمزی حروف (genetic codes) کہا جاتا ہے، کہاں سے آئے ہیں اور ان کا آپس کاتعامل کیوں کر اتنا حیرت انگیز اور نتیجہ خیز ہوتا ہے۔قرآنِ حکیم نے اس بحث کو سورئہ فرقان کی ان آیات میں سمیٹ دیا ہے جو ہم سب کے لیے باعث غوروفکر ہے:

نہایت متبرک ہے وہ جس نے یہ فرقان اپنے بندے پر نازل کیا تاکہ سارے جہان والوں کے لیے خبردار کردینے والا ہو___ وہ جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے، جس نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا ہے، جس کے ساتھ بادشاہی میں کوئی شریک نہیں ہے، جس نے ہر چیز کو پیدا کیا پھر اس کی ایک تقدیر (مقدار یا اندازہ) مقرر کی۔(الفرقان ۲۵: ۱-۲)

اسلامی فکروثقافت کی سب سے نمایاں پہچان اور خصوصیت اس کی روایت ِ علم ہے جس کا اوّلین اعلان پہلی وحی میں یوںکیا گیا: ’’پڑھو (اے نبیؐ) اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیداکیا، جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی، پڑھو اور تمھارا رب بڑا کریم ہے، جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا‘‘ (العلق ۹۶: ۱-۵)۔ ان پانچ انقلابی آیات میں قرآنِ کریم کے بھیجنے والے خالقِ کائنات نے اسلام اور دیگر مذاہب کے بنیادی فرق کو سمجھاتے ہوئے یہ اعلان فرما دیا کہ انسان کے بنیادی وظائف اور فرائض میں علم، پڑھنا اور تلاوت کرنا اولین حیثیت     رکھتا ہے، جب کہ مذہب کو بالعموم مشرق و مغرب میں اندھی تقلید، مافوق الفطرت کرشماتی امور اور رسوم و رواج اور مخصوص مراسمِ عبودیت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ آج بھی علمی ذہن کو مذہبی ذہن کی  ضد سمجھا جاتا ہے اور اگر کسی کے بارے میں کہا جائے کہ وہ مذہبی انسان ہے تو لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ وہ اندھی پیروی کرنے والا اور سائنسی اور علمی معاملات سے غیرآگاہ شخص ہے۔

اس ثقافت ِ علم میں وحی الٰہی کو بنیاد قرار دیتے ہوئے اس کی اشاعت اور توسیع کے لیے قلم کو ذریعہ قرار دیا گیا تاکہ قبلِ اسلام عرب میں جس قولی روایت (oral tradition) کا چرچا تھا،   اس سے آگے نکل کر اب کتاب اور قلم کے ذریعے علم کی ترویج و اشاعت کی روایت کو متعارف  کرایا جائے۔ یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ قرآنِ کریم نے عربوں کے اُس غرور و ناز کو بھی  دعوتِ مبارزت دی جو انھیں اپنی لسانی مہارت پر تھا اور انھی کی زبان میں ایک ایسی تقریر و تحریر پیش کر دی جس کے مقابل تمام شعرا اور ادیب مل کر بھی دس آیات بلکہ ایک آیت حتیٰ کہ ایک آیت جیسی ایک بات بنانے سے بھی قاصر رہے اور اس علمی اعجاز کو تاریخ کی قید سے آزاد کر کے قرآنِ کریم نے نہ صرف نازاں عربوں کو بلکہ بعد کے آنے والے تمام لسانی ماہرین کو یہ دعوتِ عام دے دی کہ وہ اس جیسا کلام اور پیغام اگر بنا سکتے ہوں تو بناکر دکھائیں۔ یہ علمی چیلنج ہر دور میں بہ شمول دورِحاضر قرآنِ کریم کے وحی من اللہ ہونے کی ایک بولتی ہوئی دلیل کے ساتھ ساتھ قرآنِ کریم پر غور کرنے اور تدبروتفکر کے ذریعے اس کے پیغام کو سمجھنے کی ایک عالمی دعوت بھی ہے۔

اس روایت ِ علم کی طرف البقرہ میں بھی اشارہ کیا گیا تھا جب فرشتوں سے تبادلۂ خیالات کے دوران ان سے کہا گیا کہ ذرا ان چیزوں کے نام تو بتائو، جو انسان کو پہلے سے تعلیم کردیے گئے تھے، فرشتوں کا جواب یہی تھا کہ وہ اپنے محدود علم سے زیادہ کچھ نہیں جانتے۔ چنانچہ ان سے کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ علم کے احترام میں صاحب ِ علم انسان کو سجدہ کریں (البقرہ ۲:۳۴)۔ یہ علم نہ تو تجربی تھا نہ قلبی واردات کا نتیجہ، اور نہ ظن و گمان پر مبنی بلکہ وہ معروضی علم تھا جسے وحی کا نام دیا گیا اور جو اوامر و نواہی کو جاننے کا مطلق ذریعہ قرار پایا۔

قرآنِ کریم میں سوا آٹھ سو سے زائد مقامات پر علم کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ ان مختلف مقامات کا جائزہ لے کر دیکھا جائے تو پہلی بات یہ نظر آتی ہے کہ حقیقی اور مطلق علم کا مصدر و منبع وحی ہے۔ چنانچہ سورۃ الرحمن میں فرمایا گیا: ’’انتہائی مہربان اسی نے قرآن کی تعلیم دی ہے‘‘ (۵۵:۱-۲) اس علم وتعلّم کو جگہ جگہ حکمت کے ساتھ وابستہ کیا گیا ہے۔ گویا تعلیم و حکمت انسانیت کی دو اہم بنیادی ضرورتیں ہیں۔ انبیاے کرام ؑ کی بعثت کا مقصد بھی علم و حکمت کی روایت کو فروغ دینا بیان کیا گیا: ’’درحقیقت اہلِ ایمان پر تو اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان خود انھی میں سے ایک ایسا پیغمبر اٹھایا جو اس کی آیات انھیں سناتا ہے، ان کی زندگیوں کو سنوارتا ہے، اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے‘‘۔(اٰل عمرٰن ۳:۱۶۴)

ذریعۂ علم کو وحی سے وابستہ کردینے کے نتیجے میں قرآنِ کریم نے علم کے ان دیگر ذرائع کی محدودیت کو بربناے دلیل کھول کر رکھ دیا جن کی بنیاد پر قبلِ اسلام اور بعد کی غیرالہامی ثقافتیں وجود میں آئیں۔ یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ دورِ جدید کی تہذیب اپنا ماخذ مادیت، ٹکنالوجی اور تجربی علم کو بتاتی ہے چنانچہ ہر وہ شے جو تجربے اور مادی پیمانے پر پوری نہ اُترتی ہو سیکولر تہذیب کی  نگاہ میں شک و شبہے کی تہذیب بن جاتی ہے۔

قرآنِ کریم نے وحی کو اس کی معروضیت (objectivity) اور خود خالقِ کائنات کا کلام ہونے کی بنا پر علم کے اعلیٰ ترین مقام پر رکھا ہے اور علم کی تمام دیگر اقسام کو وحی کا تابع قرار دیا ہے۔ یہاں یہ گمان نہ کیا جائے کہ اس بنا پر آیات کون اور آیاتِ قرآنی میں کوئی تضاد ہوسکتا ہے کیونکہ کائنات کی ہرشے بجاے خود برضا و رغبت یا بغیر رضامندی اللہ وحدہٗ لاشریک کو اپنا رب      مانتے ہوئے اپنے مسلم ہونے کا اعلان کرتی ہے: ’’اب کیا یہ لوگ اللہ کا دین چھوڑ کر کوئی اور  طریقِاطاعت چاہتے ہیں حالانکہ آسمان اور زمین کی ساری چیزیں چار و ناچار اللہ ہی کی تابع فرمان (مسلم) ہیں‘‘۔ (اٰل عمرٰن ۳:۸۳)

قرآن وضاحت کے ساتھ یہ بات بیان کرتا ہے کہ رب کریم نے ہردور کے لحاظ سے اپنے منتخب کردہ انبیاء و رسل کو علم و حکمت سے نوازا، کسی کو پرندوں اور حشرات الارض کی زبانیں سمجھنے کا علم دیا اور کسی کو مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو اللہ کے حکم سے صحت یاب کرنے کی صلاحیت دی (المائدہ ۵:۱۱۰) خاتم الانبیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں خصوصاً خطۂ عرب میں ادبی روایت اپنے عروج پر تھی اور ادیب، قصہ گو اور شعرا معاشرے میں اعلیٰ مقام رکھتے تھے۔ اس دور کا ایک عالمی چیلنج ادبی کمال تھا لیکن قرآنِ کریم نے اس ادبی چیلنج سے آگے جاکر نہ صرف حکایت ِبلیغ بلکہ ایسی ہدایت انسانوں کے سامنے کھول کر رکھ دی جو اپنی عالم گیریت، ہمہ گیریت اور جامعیت کے لحاظ سے تاحیات اپنی نظیر آپ رہے۔

اس روایت ِعلم کے اثرات براہِ راست انسانی شخصیت اور طرزِعمل میں ظاہر ہوئے۔ چنانچہ قرآن اس طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اُس سے خشیت کرتے ہیں‘‘ (فاطر۳۵:۲۸)۔ علم کی درجہ بندی اور مراحل کا تعین آسان کام نہیں ہے لیکن قرآن روایت ِعلم کو مستحکم کرنے کی تلقین کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی سمجھاتا ہے کہ انسان جتنا چاہے علم میں اضافہ کرتا چلا جائے لیکن علم کے تمام مدارج و منازل سے گزرنے کے باوجود انسان خالقِ علم سے زیادہ علیم نہیں ہوسکتا۔ سورئہ یوسف (۱۲:۷۶) میں کہا گیا: ’’ہم جس کے درجے چاہتے ہیں، بلند کردیتے ہیں۔ اور ایک علم رکھنے والا ایسا ہے جو ہر صاحبِ علم سے بالاتر ہے‘‘۔

گویا علم کی ہر نوع اور قسم میں درجہ کمال تک پہنچ جانے کے بعد بھی انسان اُس صاحب ِ علم ہستی کے قریب نہیں پہنچ سکتا، جسے پہاڑ کی تہوں میں پوشیدہ کیڑے کی ضروریات اور انسان کی خوابیدہ خواہشوں تک کا مکمل علم ہے۔

یہ روایت ِعلم کسی ایک نقطۂ عروج پر پہنچ کر سانس نہیں لیتی بلکہ مسلسل ترقی کی طرف مائل رہتی ہے۔ اہلِ ایمان اپنے رب سے ہرلمحہ یہ درخواست کرتے ہیں کہ ’’اور دعا کرو کہ اے رب مجھے مزید علم عطا کر‘‘(طٰہٰ ۲۰:۱۱۴)۔ قرآنِ کریم جس علمی روایت کو قائم کرنا چاہتا ہے اس کی بنیاد الہامی ہدایت ہے۔ یہ ہدایت ایک جانب انسان کے لیے ایک منطقی اور علمی ضرورت ہے تو دوسری جانب یہ عقل کی پہنچ اور حدود کا بھی تعین کرتی ہے۔ چنانچہ انسانی عقل وحی کی ضرورت، اہمیت اور کردار کو تسلیم کرتی ہے اور اپنی داخلی کیفیت کی بنا پر وحی کو وصول تو کرسکتی ہے، تخلیق نہیں کرسکتی۔ نتیجتاً رسوخ علمِ وحی کی صداقت کا شعور پیدا کرتا ہے مگر ’’ان میں جو راسخون فی العلم (پختہ علم رکھنے والے) ہیں اور ایمان دار ہیں وہ سب اُس تعلیم پر ایمان لاتے ہیں جو اے نبیؐ! تمھاری طرف نازل کی گئی ہے اور جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھی‘‘ (النساء ۴:۱۶۲)۔ فکر، ذکر، علم اور شعور کے بار بار بیان کرنے کا مقصد یہی نظر آتا ہے کہ قرآن انسان کو توہمات، ظن وگمان اور آبائی رسوم و رواج سے آزاد کر کے عقل و عدل کی بنیاد پر اپنے معاملات پر غور کرنے اور نتائج اخذ کرنے پر اُبھارنا چاہتا ہے، چنانچہ قرآنِ کریم آیاتِ کائنات کا تذکرہ ہو یا انسان کے لیے مقرر کردہ حدود وقوانین کا بیان گفتگو کا خاتمہ بالعموم اس نکتے پر کرتا ہے کہ یہ جو باتیں تمھیں سمجھائی جارہی ہیں، یہ اس لیے ہیں کہ تم عقلی رویہ اختیار کرسکو۔ بیوہ اور مطلقہ کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے؟ اس کی وضاحت کرنے کے بعد فرمایا گیا: ’’اس طرح اللہ اپنے احکام تمھیں صاف صاف بتاتا ہے، امید ہے کہ تم سمجھ بوجھ کر کام  کرو گے (لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ) (البقرہ ۲:۲۴۲) ’’گویا سمجھ بوجھ کا رویہ، تعقل کا طریقہ اختیار کرنا  مطلوب و مرغوب ہے اور ایسا نہ کرنا، غیرعقلی رویہ اختیار کرنا اللہ تعالیٰ کوناپسند ہے۔ یہی وجہ ہے جب تک اُمت مسلمہ کا قلبی اور فکری تعلق قرآنِ کریم کے ساتھ قریبی رہا، وہ نہ صرف قرآنِ کریم کے مفہوم و مدعا کو سمجھنے میں کامیاب ہوئی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ کائنات اور ماحول میں پائی جانے والی اللہ تعالیٰ کی آیات اور نشانیوں کا اِدراک کرنے اور اعلیٰ سائنسی ایجادات کرنے میں دوسروں سے آگے نکل سکی۔ ’’جو لوگ عقل سے کام لیتے ہیں ان کے لیے آسمانوں اور زمین، زمین کی ساخت میں، رات اور دن کے پیہم ایک دوسرے کے بعد آنے میں، اُن کشتیوں میں جو انسان کے نفع کی چیزیں لیے ہوئے دریائوں اور سمندروں میں رواں رہتی ہیں، بارش کے اُس پانی میں جسے اللہ اُوپر سے برساتا ہے، پھر اس کے ذریعے مُردہ زمین کو زندگی بخشتا ہے اور زمین میں ہرقسم کی جان دار مخلوق کو پھیلاتا ہے، ہوائوں کی گردش میں اور ان بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان تابع فرمان بناکر رکھے گئے ہیں، بے شمار نشانیاں ہیں‘‘۔ (البقرہ ۲:۱۶۴)

اسی بات کو ذرا مختلف پیرایے میں یوں کہا گیا: ’’وہی زندگی بخشتا ہے، وہی موت دیتا ہے، گردشِ لیل ونہار اسی کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ کیا تمھاری سمجھ میں بات نہیں آتی (اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ) (المومنون ۲۳:۸۰)۔ اسی بات کو سورئہ نور (۲۴:۶۱)، سورئہ مائدہ (۵:۵۸) اور سورئہ نحل (۱۶:۶۷) میں سیاق و سباق کے کچھ فرق کے ساتھ بیان کیا گیا۔ مجموعی طور پر ان آیات پر غور کیا جائے تو واضح طور پر قرآن کا مدّعا یہی نظر آتا ہے کہ وہ انسان کو سوچ سمجھ اور عقل کے مناسب استعمال کی طرف پکار پکار کر بلا رہا ہے۔ سورئہ نحل میں اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتابِ ہدایت کو   بطور ایک نشانی کے بیان کرتے ہوئے آسمان اور زمین میں موجود نشانیوں، حیوانات کے ذریعے انسان کو ملنے والے فوائد کے تذکرے میں لقومٍ یومنون ، لقومٍ یسمعون، لقومٍ یعقلون اور لقومٍ یتفکرون کے الفاظ کا استعمال یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہر قابلِ مشاہدہ نعمت پر انفرادی اور اجتماعی طور پر عقل، سماعت اور فکر کا استعمال کرتے ہوئے دعوتِ فکر دی جارہی ہے۔ فکر، قلب اور عقل کا یوں بار بار دہرایا جانا ایک جانب ان کے درمیان بنائی ہوئی نظری دیواروں کو شعور سے خارج کرتا ہے اور دوسری جانب ان تمام وسائل و ذرائع کا استعمال انسان کو متحرک، productive اور pro-active بننے کی دعوت دیتا ہے۔ عقل وفکر کا یہ استعمال حیاتِ انسانی میں تقلید اور میکانکی طرزِعمل کے دخل کو کم سے کم تر کرتے ہوئے شعوری، عقلی اور علمی رویّے کو رواج دیتا ہے۔ یہ طرزِعمل مذہب کے روایتی تصور یعنی بربناے عقیدہ کسی چیز کو مان لینے کی ضد ہے۔ دینِ اسلام کا ایک امتیاز اس کی علمی روایت میں عقل، شعور، تجربے کا سرگرمی کے ساتھ استعمال کرنا اور علمی کاوشوں کے نتائج کے ذریعے انسانیت کے مسائل کا حل تلاش کرنا ہے۔ اس سلسلے میں صحت، تعلیم، ثقافت، دفاع، معیشت، سیاست غرض ہرہرشعبۂ حیات میں علمِ وحی اور عقل و شعور کے ساتھ اجتہاد کے ذریعے نئے اورقابلِ عمل حل تلاش کرنا، اسلامی علمی روایت کا ایک اہم کارنامہ ہے۔

اسلامی ثقافت و تہذیب کے نشوونما میں ذکروفکر کے بعد علم اور عقل کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ ان تمام عناصر میں ایک قریبی اندرونی ربط وتسلسل پایا جاتا ہے۔ یہ ایک دوسرے کی توثیق و تصدیق اور تکمیل کرتے ہیں اور ایک کلیت پسند (holistic) ثقافت کو وجود میں لاتے ہیں۔ قرآنِ کریم ان تمام عناصر کو تفقّہ کی اصطلاح میں یک جا کردیتا ہے۔ چنانچہ تفقّہ یا گہرے فکری تجزیاتی تحقیقی عمل میں علم و فکر، ذکر و شعور اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور نتیجتاً نئی فکر اور علم وجود میں آتے ہیں۔

تفقّہ میں عموماً سمجھنے اور رمزآشنائی کا مفہوم پایا جاتاہے۔ چنانچہ سورئہ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور پاکی کے تذکرے جو سات آسمانوں میں پائے جاتے ہیں۔ بیان کرنے کے بعد، فرمایا گیا: ’’کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کر رہی ہو، مگر تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں ہو‘‘ (بنی اسرائیل ۱۷:۴۴)۔ فاسقین اور منافقین کے غیرعقلی طرزِعمل پر تنقید کرتے ہوئے قرآنِ کریم فرماتا ہے: ’’اگر انھیں کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے، اور اگر کوئی نقصان پہنچتا ہے تو کہتے ہیں: اے نبیؐ! یہ آپؐ کی طرف سے ہے۔ کہو، سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ آخر ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ کوئی بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی‘‘ (النساء ۴: ۷۸)۔ سیاق و سباق کے اختلاف کے ساتھ یہی مفہوم سورئہ انعام کی آیت ۶۵ میں نظر آتاہے۔ چنانچہ یعلمون اور یفقھون کا مفہوم کسی شے کی حقیقت تک پہنچنے اور کسی معاملے کے مختلف پہلوئوں کا احاطہ کرنے کا نظر آتا ہے۔

قرآن میں دین میں گہری تحقیق، سوچ اور فکر کے عمل کو کسی خاص طبقے یا جماعت سے مخصوص نہیں کیا گیا ہے، جب کہ اسلام سے قبل ہندوازم میں اسے نسلی اور طبقاتی طور پر برہمن کے لیے مخصوص کردیا گیا تھا۔ یہودیت نے گو اسے نسلی استحقاق قرار نہیں دیا، لیکن ربی کو معاشرے میں عملاً وہ مقامِ تقدس حاصل ہوگیا جس میں وہ صرف تورات سمجھنے اور سمجھانے والا قرار پائے۔ اسلامی ثقافت و تہذیب میں تفقّہ یعنی انسان کے معاشی، سیاسی،معاشرتی مسائل بشمول عبادات و فرائض پر غور کرنے کے بعد ان کے مقصد، حکمت اور زمانے کے لحاظ سے مناسب انداز میں سرانجام دینے کے عمل کو تفقّہ قرار دیا گیا۔ قرآنِ کریم لقومٍ یفقھون کی اصطلاح استعمال کرتا ہے تو اس سے کوئی نسلی، طبقاتی گروہ مراد نہیں لیتا بلکہ اُمت ِمسلمہ کے ہرفرد کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ دین کی گہری فکر اور سمجھ پیداکرنے کے لیے قرآن و حدیث اور دیگر علوم و مسائل پر غور کر کے نتائجِ فکر اخذ کرسکے۔ چنانچہ سورئہ انعام میں اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ نعمتوں، ستاروں کے ذریعے سمندر اور صحرائوں کی تاریکی میں راستے معلوم کرنے، انسان کو ایک جان سے پیدا کرنے اور اعلیٰ ترین ساخت کے ساتھ بنانے کا تذکرہ کرنے کے بعد اسے لقومٍ یفقھون ’’سمجھ بوجھ رکھنے والے لوگوں‘‘ کے لیے نشانیاں قرار دیتا ہے (الانعام ۶:۹۸)۔ قرآنِ کریم میں تفقّہ اور غوروفکر کی یہ دعوت فکری جمود اور تقلید کا رد اور تنقیدی ذہن پیدا کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔

جو لوگ ماخذ دین پر غوروفکر نہیں کرتے اور اندھی پیروی میں لگے رہتے ہیں ان پر سخت تنقید کرتے ہوئے قرآنِ کریم خبردار کرتا ہے کہ: ’’انسانوں اور  ِجنوں میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کے سینوں میں دل ہیں، مگر وہ ان سے سوچتے نہیں، ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں، ان کے اس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں، وہ جانور ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کھوئے ہوئے ہیں‘‘۔ (الاعراف ۷:۱۷۹)

یہاں قرآنِ کریم نے انسان کے ذرائع علم و فکر میں بصارت، سماعت اور فواد کے تذکرہ کے ذریعے تفقّہ کے عمل کی وضاحت کرتے ہوئے غوروفکر کے مراحل کو بتانے کے بعد یہ بات سمجھائی کہ اگر بصارت، سماعت اور قلب یا دماغ کا صحیح استعمال نہ کیا جائے تو انسان اور حیوان میں کوئی وصفی فرق باقی نہیں رہتا بلکہ انسان حیوان کی سطح سے بھی گر جاتا ہے کیونکہ بہت سے حیوان ایسے ہیں جو محض بصارت کی بنیاد پر خطرات سے بچ جاتے ہیں اور بعض سماعت کی بنیاد پر خطرات کا شکار نہیں ہوتے جب کہ عقل و شعور اور فکر سے عاری انسان اللہ کی طرف سے دی گئی سماعت و بصارت اور تجزیاتی و عقلی صلاحیت کو استعمال نہ کرنے کے نتیجے میں خود کو حیوانات کی سطح سے بھی نیچے لے جاکر آنکھ دیکھی مکھی کھانے سے بھی نہیں شرماتا اور فواحش و منکرات کی من مانی تاویلات کر کے وہ طریقے اختیار کرتا ہے جن سے حیوانات بھی احتراز کرتے ہیں۔ عام مشاہدے کی بات ہے کہ جو تعذیب کے طریقے انسان انسانوں کے لیے اختیار کرتا ہے، جنسی لذت کے وہ انداز جو نہ صرف غیرفطری ہوں بلکہ ہرتہذیب میں ناپسند کیے جاتے ہوں دھڑلے سے استعمال کرتا ہے، مسکرات اور مخدرات کا استعمال کبھی شیشے کے نام سے کبھی کسی اور نام سے ایجاد کر کے کھلے عام فخر کے ساتھ کرتا ہے، یہ وہ سب انداز ہیں جنھیں قرآن کی ثقافت و تہذیب، اخلاقی بنیاد پر رّد کرتی ہے اور انسان کو تفقّہ، غوروفکر، تنقیدی ذہن کے ساتھ مطالعہ و مشاہدہ کی دعوت دیتی ہے۔

قرآنی ثقافت و تہذیب تفقّہ، منظم غوروفکر کرنے کے عمل کو نہ ایک ذہنی تفریح یا ذہنی شطرنج سمجھتی ہے اور نہ اسے کسی خاص طبقے تک محدود کرتی ہے۔ گویا اس ثقافت کا مزاج ہی تحقیق و جستجو کے ذریعے تلاشِ حق ہے۔ یہ ذہنوں کو روایت پرستی سے آزاد کرتی اور منظم طور پر ذکروفکر کے ذریعے ایسی تربیت فراہم کرتی ہے جس کے بعد مسائل کا منہ دیکھتے رہنے کے بجاے مسائل کے مناسب اخلاقی اور عملی حل خود چلتے ہوئے سامنے آجائیں۔

سورئہ توبہ میں اہلِ ایمان کو دعوتِ جہاد دینے کے بعد یہ بات سمجھائی جارہی ہے کہ گو جہاد افضل ترین عبادت ہے، لیکن جس مقصد کے لیے جہاد کیا جا رہا ہے یعنی قیامِ عدل، طاغوت اور ظلم و شرک کو مٹاکر خالقِ کائنات کی دنیا میں اس کے قانون کا نفاذ، اُس کو سمجھنے اور اس کے نفاذ کے لیے کارکن تیار کرنے کی غرض سے اہلِ ایمان کی ایک جماعت شہر میں دین کا شعور، مسائل سے آگاہی اور مشکلات کو دُور کرنے کے لیے الہامی ہدایت کو سمجھنے کی غرض سے تفقّہ، تحقیق،تذکیر و تفکیر میں مصروفِ عمل ہو اور جب مجاہدین جہاد سے واپس لوٹیں تو ان کی تعلیم و تربیت کے ذریعے انھیں نظامِ اسلامی کے نفاذ کے لیے تیار کریں۔ گویا یہاں معاملہ اہلِ سیف اور اہلِ قلم میں انتخاب کا نہیں ہے  بلکہ ایک اجتماعی ذمہ داری کے طور پر ان اہلِ سیف کو رموزِ قلم سے آگاہ کرنا ہے جو علمِ حقیقی کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی قیادت کی ذمہ داری کے حقوق ادا کرسکیں اور اللہ کی زمین پر اُس کی مرضی کے مطابق نظام رائج کرسکیں۔ قرآنی تہذیب و ثقافت کا یہ پہلو منفرد ہے کہ وہ زندگی کے ہرہرعمل میں غوروفکر کے بعد لائحہ عمل اختیار کرنے پر زور دیتی ہے اور اس غرض کے لیے ادارتی مدد اور ایسی تنصیبات (institutions) قائم کرنا چاہتی ہے جو اس عمل کو تواتر کے ساتھ جاری رکھ سکیں، چنانچہ قرآنِ کریم میں ارشاد ہوتا ہے: ’’اور کچھ ضروری نہ تھا کہ اہلِ ایمان سارے کے سارے ہی نکل کھڑے ہوتے، مگر ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کی آبادی کے ہرحصے میں سے کچھ لوگ نکل کر آتے اور دین کی سمجھ (تفقّہ فی الدین) پیدا کرتے اور واپس جاکر اپنے علاقے کے باشندوں کو خبردار کرتے تاکہ وہ (غیرمسلمانہ روش سے) پرہیز کرتے۔ (التوبہ ۹:۱۲۲)

قرآنِ کریم مسلسل یہ اصرار کرتا ہے کہ اہلِ ایمان فکر کریں، علم حاصل بھی کریں اور اس پر عمل بھی کریں۔ تحقیق و تنقید اور تجسسِعلمی کو اختیار کریں۔ شاید ہی کوئی صفحہ ایسا ہو جس پر یہ نہ کہا گیا ہو کہ تم ایسی قوم کیوں بن رہے ہو جو عقل کا استعمال نہیں کرتی، علم کی طرف راغب نہیں ہوتی، شعوروآگہی سے کام نہیں لیتی اور اس پر متواتر زور نہ دیا گیا ہو۔ اس حقیقت ِ واقعہ سے یہ بات بلاخوف تردید ثابت ہوتی ہے کہ اگر قرآن و حدیث کے احکامات، تعلیمات اور ترغیبات کواختیار کیا جائے یعنی ان کی لفظی اور معنوی اطاعت کی جائے تو مسلم ذہن میں نہ تو غلو پیدا ہوگا نہ اندھی تقلید، نہ تحقیق و جستجو سے بھاگ کر ماضی میں پناہ لینے کی خواہش۔ بلکہ ہر وہ فرد جو مسلم ہو یا غیرمسلم قرآنی تعلیم پر عمل کرنے کے نتیجے میں ایک علم کا شیدائی، تحقیق کا مردِ میدان اور غوروفکر کرنے والا حسّاس، باشعور، اللہ کا بندہ بنے گا۔

بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُمت ِمسلمہ کی قرآن و سنت سے دُوری اور قرآن وسنت کے اس pro-active پہلو کو نگاہ سے اوجھل کردینے کی بنا پر وہ فکری زوال رونما ہوا جس سے مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت کی رفتار سُست ہوکر ترقی ٔ معکوس میں تبدیل ہوگئی۔ قرآنی ثقافت و تہذیب اپنے اس حرکی اور جوہری پہلو کی بنا پر دنیا کی وہ واحد تہذیب ہے جو روایت علم و تحقیق کو بربناے وحی  اپنے ہر ماننے والے کے لیے انفرادی اور اجتماعی طور پر ایک فریضہ قرار دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تفقّہ فی الدین فرضِ کفایہ کی حیثیت سے ایک متفق علیہ کے طور پر ۱۵ سو سال سے اُمت مسلمہ کے شعور کا حصہ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اپنے شعور کا استعمال نہ کرے اور جان بوجھ کر روایت پرستی کا لبادہ اوڑھ کر اپنی مسلکی شخصیت پر فخر کرتے ہوئے اپنے مسلک کے خول میں بند رہنے اور صرف اپنے مسلک کو ’الحق‘ سمجھنے کے خواب میں مگن رہے۔ اسلامی ثقافت و تہذیب کی بنیاد جن الہامی اصولوں پر ہے، اگر انھیں نظرانداز کیا جائے گا تو اُمت ِمسلمہ لازمی طور پر اندھی تقلید کا شکار ہوگی۔

قرآنی ثقافت و تہذیب کے فکری اور علمی پہلوئوں پر غور کیا جائے تواس ثقافت کی معروضی بنیاد زیادہ روشن ہوتی جاتی ہے۔ بالعموم دنیا کی تہذیبوں اور ثقافتوں کو ان کے مخصوص خطوں، تاریخی ادوار یا اقوام سے وابستہ کیا جاتا ہے۔ ہم کہتے ہیں یہ رومیوں کی تہذیب ہے، یہ ماوراء النہر کی تہذیب ہے، یہ چین کی ثقافت ہے، یہ ہندو دیومالائیں ہیں، یہ Judia میں پروان چڑھنے والی ثقافت ہے، یہ بازنطینی تہذیب ہے وغیرہ۔ لیکن قرآنی ثقافت وہ واحد تہذیب ہے جس کی جڑیں زمین میں نہیں، کہیں اور ہیں اور اتنی پایدار اور مضبوط ہیں کہ ہردم شجرطیبہ کے بڑھنے، تناور ہونے اور رحمت بننے میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ وحی الٰہی کایہ کردار قرآنی تہذیب، ثقافت کو ایک منفرد مقام سے نوازتا ہے جس پر مزید غوروفکر کی ضرورت ہے۔ (جاری)

 

دکھ ، رنج و الم اورآلام و مصائب انسانی زندگی کا حصہ ہیں۔ ہر انسان کو اپنی زندگی میںکبھی نہ کبھی ایسے لمحات سے ضرور گزرنا پڑتا ہے جب وہ اپنے آپ کو انتہائی تنہا، دل شکستہ ، مایوس ، تھکا ہوا اور کمزور محسوس کرتا ہے۔ افسردگی و مایوسی کے یہ جذبات ماضی کے کسی غم کا نتیجہ بھی ہو سکتے ہیں اور مستقبل کے خوف کا بھی۔ حال سے وابستہ فکریں اور پریشانیا ں بھی اس کا سبب ہوسکتی ہیں۔ اسی وقتی افسردگی کو غمگین ہونا کہتے ہیں اور اگر یہی کیفیت زیا دہ عرصے تک یا مستقل طور پر طاری ہوجائے تو ڈیپریشن کا مرض بن جاتا ہے جس کی وجہ سے انسان کسی کام کا نہیں رہتا۔درحقیقت ہرانسان کی آلام و مصائب کوسہنے کی استعداد مختلف ہوتی ہے لیکن کوئی بھی فرد طویل عرصے تک    غم نہیں سہہ سکتا ہے۔لہٰذا یہ بھی اللہ تعالیٰ کی رحمتوں میں سے ایک رحمت ہے کہ اس نے خوشی اور   غم دونوں کی کیفیا ت کو عارضی بنایا ہے۔لیکن انسان کی فطری خواہش یہ ہے کہ وہ ایک ایسی زندگی گزارے جہاں اس کو کسی بھی قسم کا کوئی خوف و غم لاحق نہ ہو۔ جنت کی زندگی کی ایک خاص بات یہی ہوگی کہ وہاں اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کے لیے وَلاَ خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلاَ ھُمْ یَحْزَنُوْنَ (البقرہ ۲:۶۲)کی تصویر پیش کرتا ہے۔لیکن اس دنیا کے حوالے سے قرآن میں اللہ تعالیٰ فرما تے ہیں: لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ (البلد ۹۰:۴)، کہ انسان کو پیدا ہی مشقت میں کیا گیا ہے۔ اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آدم کا بیٹا اس حا لت میں پیدا کیا گیا ہے کہ اس کے پہلو میں ۹۹مصیبتیں ہیں‘‘۔(ترمذی)

غم انسانی زندگی کا ایک اہم جز ہے۔ یہ ایک ایسی قوت محرکہ ہے جو انسان کو ہمہ وقت اس کام کے لیے فکرمند کردیتی ہے جس کی فکراسے ہلکان کیے دیتی ہے۔ انسانی زندگی میں خوشی سے زیادہ غم کے اثرات ہوتے ہیں۔ لوگوں کی زندگیوںکا بدل جانا اور ان کا رخ تبدیل ہو جانا بھی اکثر اوقات کسی نہ کسی غم اور صدمے کے سبب سے ہوتا ہے۔ عام طور پر غم ا فراد کو مایوس کرنے کا سبب بنتا ہے لیکن ایک بندۂ مومن اپنی زندگی کے غموں کو بھی اللہ کی خوش نودی کا ذریعہ بناتا ہے اور جنت کا حق دار ٹھیرتا ہے اور یہ جبھی ممکن ہے جب ہمیں یہ علم ہو کہ و ہ کون سے غم ہیں جو نجات کا ذریعہ ہیں اور اللہ کی نگا ہ میں پسندیدہ ہیں، اور کون سے غم انسان کو جہنم کے قریب کرنے اور ذلت و پستی میں گرانے کا سبب بن سکتے ہیں۔

  •  دنیاوی چیزوں کا غم: زیادہ تر ا فراد دنیاوی چیزوں کے چھن جانے ، نہ ملنے اور  کم ہو جانے کی صورت میں فکر و غم میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اسی غم میں ا ولا د ، ما ل ، اثا ثے، تجارت، دنیا کی زیب و زینت بھی شا مل ہے۔ دراصل یہ غم انسان کے خسارے کا سبب ہے اور اس کی وجہ اس دنیاوی زندگی کو حقیقی اور ا صل متاع خیال کرنا ہے، جب کہ قرآن اس دنیا وی زندگی کی حقیقت کو ایک آزمایش بتا تا ہے اور دنیا کو دارالامتحان قرار دیتا ہے: ’’خوب جان لو کہ یہ دنیا کی زندگی اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک کھیل کود اور دل لگی اور ظاہری ٹیپ ٹاپ اور تمھارا آپس میں ایک دوسرے پر فخر جتانا اور ما ل و اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا‘‘۔(الحدید ۵۷: ۲۰)

اپنی زندگیوں کا جائزہ لیا جائے تو نہ جانے کتنے ہی ایسے غم ہیں جو صرف ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے اور فخر جتا نے کی بنا پر لاحق ہیں۔

ہمارے غموں کی فہر ست ایسے ہی ادنیٰ غموں پر مشتمل ہوتی ہے اور یہ فکریں ہم پر اتنی طاری ہوجا تی ہیں کہ شخصیت میں غیبت ، ٹوہ ، تجسس ، حسد ، جلن جیسے ا خلا قِ رذیلہ پیدا کر دیتی ہے، جب کہ دنیا کی زندگی وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ کے مصداق ہے۔اس لیے کہ ان چیزوں میں مقا بلے اور مسابقت کا انجام سواے خسارے کے کچھ نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان چیزوں پر دل شکستہ ہوکر مایوس ہونے یا مل جانے پر اترانے کا رویہ سخت ناپسندیدہ ہے۔ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی نظروں سے گر جاتے ہیں۔

قرآن کے مطابق دنیا کی مصیبتوں کی حقیقت کیا ہے؟ یہی کہ ’’اگر اللہ تجھے کسی مصیبت میں ڈا لے تو خود اس کے سوا کوئی نہیں جو اس مصیبت کو ٹال دے، اور ا گروہ تیرے حق میں کسی بھلائی کا ارادہ کرے تو اس کے فضل کو پھیرنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔و ہ ا پنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے، ا پنے فضل سے نوازتا ہے اور وہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے‘‘۔ (یونس ۱۰:۱۰۷)

ان آیات سے یہ با ت واضح ہوتی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی نہیں جو ہمیں نقصان سے نجات دلا سکے اور جو بھی مصیبت یا نقصا ن ہمیں پہنچتا ہے و ہ مِن جانب اللہ ہوتا ہے۔اس پر غم کرنا ، حد سے زیادہ آنسو بہا نا اور فکر میں مبتلا ہونا دراصل توکل علی اللہ کی کمی کو ظا ہر کرتا ہے۔ہمارے یہ چھوٹے چھوٹے لاحاصل غم ہماری زندگی کے ادنیٰ ترین مقاصد کی عکاسی کرتے ہیں۔جو انسان مادی چیزوں کے حصول کو ا پنا مقصد قرار دیتا ہے اس کی زندگی ما ل و دولت ، عہدے ، نمود و نمایش اور تفاخر کے حصول کے پیچھے اَلْھٰکُمُ التَّکَاثُرُ  کی عملی تصو یر بن جا تی ہے لیکن ان سب کے با و جو د نفس مطمئن نہیں ہوتا۔ خو شی کی ہرکیفیت میں ان چیزوں کے کم ہو جانے اور چھن جانے کا غم غالب آجاتا ہے اور زندگی عدمِ ا طمینا ن اور بے یقینی کا شکا ر رہتی ہے۔

  •  وسائل رزق کے محدود ھونے کا غم: غمِ روزگار ایک ایسا غم ہے جو ہر انسان کے سا تھ لگا ہوا ہے۔ ا کثر ا فراد اپنی صبح و شا م اسی غم کی نذر کرتے ہیں۔ رزق کی تنگی اور محدود وسائل کا ہر وقت شکوہ شکا یت کرنا یا صرف اور صرف معا ش کی جدوجہد میں    ُجتے رہنا زندگی کا مقصد بن جاتا ہے، حالانکہ ایک مومن کو اس با ت کا کامل یقین ہونا چاہیے کہ رزق کامالک اللہ تعالیٰ ہے اور مخلوق کے پاس رزق د ینے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ اس کی تنگی پر شکوہ کرنا اور ناجائز ذرا ئع اختیار کرنا مومن کی شان کے خلاف ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے: ’’آسمان اور زمین کے خزانوں کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں، جسے چاہتا ہے کھلا رزق دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تلا دیتا ہے، اسے ہرچیز کا علم ہے‘‘(الشوریٰ ۴۲:۱۲)۔ ایک اور مقام پر فرمایا: ’’پھر بتائو، کون ہے جو تمھیںرزق دے سکتا ہے اگر رحمن اپنا رزق روک لے؟‘‘(الملک ۶۷: ۲۱)

یہ تصورِ رزّاقیت جتنا کامل اور پختہ ہوگا انسان اتنا ہی بے خوف ، نڈر اور بہادر ہوگا۔ دنیا کا کوئی خوف اور غم اسے لاحق نہیں ہوگا اورا سے حق کے راستے سے نہیں ہٹا سکے گا اور زندگی کی  بھاگ دوڑ صرف اور صرف اس کے لیے وقف ہو کر نہ ر ہ جائے گی۔

  •  موت اور جدائی کا غم:  اپنے کسی عزیز رشتے دار کی موت پر غم کرنا جائزہے بلکہ یہ ایک فطری غم ہے لیکن اس میں بھی سواے بیوہ کے، کہ وہ اپنی عد ت کے ا یا م پو ر ے کر لے،  تین دن سے زیادہ غم منانا جا ئز نہیں ہے۔موت ایک ا ٹل حقیقت ہے: کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ ثُمَّ اِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ(العنکبوت ۲۹: ۵۷) ’’ہر متنفس کو مو ت کا مزہ چکھنا ہے پھر تم ہماری طرف ہی پلٹا کر لائے جائو گے‘‘۔

کسی قریبی فرد کی جدائی پر دل قدرتی طور پر غمگین ہوتا ہے خود رسول کریمؐ کی آنکھیں اپنے صاحبزا دے کی جدائی پر آنسوئوں سے تر ہو گئی تھیں۔ اسی طرح حضرت خدیجہ ؓ کی عظیم رفاقت کے ختم ہونے پر، اور ہمدرد چچا ا بوطا لب کے انتقال پر بھی آپؐ بے حد غم زدہ ہوئے تھے۔یہ و ہ فطری غم ہیں جن میں آنسوئوں کا بہنا اختیار میں نہیں رہتا بلکہ حدیث کے مطا بق یہ رحم کا جذبہ ہے جسے    اللہ نے اپنے بندوں کے دل میں رکھ دیا ہے۔ رحمت ِعالمؐ کے سب سے چھوٹے بیٹے کی جان کنی کے وقت آپؐ فرما رہے تھے کہ ’’ آنکھیں آنسو بہاتی ہیں ، دل دکھتا ہے ، مگر ہم زبا ن سے صرف وہی کہتے ہیں جس کو ہمارا پروردگار پسند کرتا ہے، اور ا ے ابراہیمؓ! ہمیں تیری جدائی کا بہت غم ہے‘‘۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے یہ منظر دیکھا تو کہا: ’’اے اللہ کے رسولؐ! آپ بھی رو رہے ہیں‘‘۔ فرمایا: ’’ابن عوفؓ ! یہ آنسو رحمت کی نشا نی ہیں ‘‘۔ تاہم، بعض اوقات یہ غم بھی شدت اختیار کرلے تو مایوسی کی کیفیت میں منہ سے کفریہ جملے نکل جاتے ہیں اور ناشکری کا رویہ اختیار کرلیا جاتا ہے۔ جو لوگ اللہ کی رضا پر راضی رہتے ہیں اور مصیبت کے وقت بھی اپنے رب کی رضا تلا ش کرتے ہیں ان کے لیے قرآن میں آتا ہے کہـ:

الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْ ٓا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّـآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَo (البقرہ ۲:۱۵۶)ا ن لوگوں پرجب کوئی مصیبت و ا قع ہو جا تی ہے تو کہتے ہیں کہ بے شک ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اور اسی کی طر ف لو ٹ کر جانے و الے ہیں۔

پھریہ ا حساس کہ موت اور زندگی اللہ کے اختیار میں ہے درا صل ایک آزمایش ہے جو انسان کو سکون بخشتا ہے۔ قرآن میں آتا ہے کہ’’ ہر جان دار کو موت کا مزہ چکھنا ہے اور ہم اچھے بُرے حالات میں ڈال کر تم سب کی آزمایش کر رہے ہیں، آخرکار تمھیں ہماری ہی طرف پلٹنا ہے‘‘۔ (الانبیا  ۲۱:۳۵)

حضرت معا ذ ؓ جب یمن کے گورنر تھے تو ان کا لڑکا وفات پا گیا۔ رسولِ کریمؐ نے تعزیتی خط میں لکھا کہ ’’ اگر تم نے آخرت کے اجر و ثواب کے لیے صبر کیا، تو تمھارے لیے خدا کی رحمت، عنایت اور ہدایت ہو، پس تم صبر سے کام لو۔ اور خیال رہے کہ کہیں تمھاری بے قراری اور بے صبری تمھیں اجر سے محروم نہ کر دے اور تمھیں پچھتانا پڑے، یقین کرو کہ بے صبری اور بے قراری سے کوئی مرنے والا لوٹ کر کبھی نہیں آیا، نہ اس سے دل کا غم ہی دور ہوسکتا ہے، جو حادثہ پیش آیا ہے اسے تو آنا ہی تھا۔ والسلا م ‘‘۔ غرض یہ کہ فطری غم و آلام بھی اللہ کی نظر میں اسی وقت قا بلِ قبول ہیں جب انسان ایمان و یقین کا د ا من ہا تھ سے نہ چھوڑ ے اور اللہ کی ر ضا پر را ضی ہو کرصبر سے کام لے۔

مومنانہ رویـہ

انسان کے ہر عمل کا تعلق اس کی سوچ سے ہے، اگر سوچ کا ر خ درست کر لیا جائے تو زندگی کی بہت سا ر ی مشکلات خود بخود کم ہو جائیں۔

حضرت ا بوہریرہ ؓ سے روا یت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تمھیں کوئی تکلیف، مصیبت پیش آئے تو یہ نہ کہو کہ’ اگر میں ایسا کرتا تو یو ں ہو جاتا ( یا نہ ہوتا ) ‘ بلکہ یہ کہا کر و کہ اللہ نے ہر چیز کو مقدر کر لیا ہے جو اس نے چا ہا وہ کر ڈالا۔ اس لیے کہ لَوْ یعنی اگر، شیطا ن کے عمل کا دروازہ کھول دیتا ہے۔(مشکوٰۃ )

اس حدیث میں انسان کی اس کمزوری کی طر ف اشارہ ہے کہ انسان اپنی حکمت اور تدبیر پر بھروسا کرتا ہے تو اس کی مصیبتیں ایک بھاری غم میں تبدیل ہو جا تی ہیں کہ ’’کاش! یہ کر لیا ہوتا ‘‘ اور ’’کاش! یہ نہ کیاہوتا‘‘۔ اسی طرح مو ت کے وقت یہ کہنا کہ’اچا نک مو ت تھی ‘، ’جلدی ہسپتال پہنچ جاتے تو ایسانہ ہوتا‘‘، اس طرح کی باتیں کرنا گویا ہمارے دلوں کی ایسی کیفیات کی عکاسی کرتا ہے کہ ہم اللہ کے فیصلوں پر راضی نہیں ہیں اور اس کے بجاے اپنی تدبیر ، حکمت اور عقل پر زیادہ اعتبار کرتے ہیں۔ لہٰذا جب مشکل درپیش ہوتی ہے تو انسان بجاے صبر کے بے صبری کا مظاہرہ کرتا ہے۔ مومن جب یہ یقین رکھتا ہے کہ ہر چیز مِن جانب اللہ ہوتی ہے تو اس کے دل کو ایک سکون اور اطمینان رہتا ہے۔

حضرت صہیب بن سنان ؓ کی روایت ہے کہ رسول کریمؐ نے فرمایا: مومن کا معا ملہ بھی عجیب ہے۔ اسے جو کچھ بھی پیش آئے و ہ اس کے لیے سرا سر خیر ہوتا ہے اور یہ دولت مومن کے سوا کسی کو نصیب نہیں۔ جب ا سے کوئی نعمت ملتی ہے تو اللہ کا شکر کرتا ہے اور جب ا سے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ (اللہ کے لیے) صبر کرتا ہے، اور (اس طرح) مصیبت بھی اس کے لیے سراسر خیر بن جا تی ہے۔ گویا صبراور شکر دو ایسے خوب صورت اعمال ہیں جو انسان کو اللہ کا پسندیدہ بندہ بنا دیتے ہیں۔ مصیبت پہنچنے کی صورت میں و ہ ا پنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے ناپسندیدہ کا موں سے روکتا ہے، یعنی صبر کرتا ہے، جب کہ نعمت ملنے پر اترا تا نہیں ہے کہ یہ سب میر ی اپنی تدبیر ، علم، تعلقا ت اور ا خلا ق کا حاصل کردہ ہے۔ایسے فرد کے غم اس کی درست سوچ کی و جہ سے کم ہو جاتے ہیں بلکہ نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ وقتی طور پر افسردہ ہونے کے بعد و ہ دوبارہ مصروفِ عمل ہوجاتا ہے اور اس پر مایوسی کی وہ کیفیت طاری نہیںہوتی جوایک غیردینی سوچ رکھنے و الے فرد پر ہوتی ہے بلکہ بندۂ مومن کے لیے ہرکرب ، قربِ الٰہی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔

  •  دعاؤں کی قبولیت :ہم سب سے زیادہ پریشان اور مایوس اس وقت ہوتے ہیں جب ہم کسی خا ص چیز کے طلب گار ہوتے ہیں اور اللہ سے دعا ئیں کر رہے ہوتے ہیں۔ ان لمحات میں جب ضرورت شدید ترین ہو، رب کے حضور گڑگڑا کر دعائیں ما نگی جا رہی ہوں، اَشک رُکتے نہ ہو ں کہ وہ ذاتِ کریم ہماری خواہش اور ضرورت کے مطا بق اس وقت ہماری دعا قبول کرلے۔ اگر اللہ تعالیٰ اپنی مصلحت اور حکمتوں کی بنا پر ہماری خواہش یا ضرورت کو اسی شکل میں پورا نہ کرے تو ہماری تڑپ و کرب کی کیفیت بے حد تکلیف دہ ہوتی ہے۔ ایسے میں ا کثر ا و قات بے ا نتہا ما یوسی اور غم کی شدید ترین کیفیت کا حملہ ہو جاتا ہے۔ یو ں تو دعا کوئی بھی ضائع نہیں ہوتی۔کچھ قبول ہو جاتی ہیں اور کچھ ہماری مصیبتوں اور گناہوں کو کم کر دیتی ہیں، اور ان میں سے بہت ساری نہ قبول ہونے والی دعائیں ان شا ء اللہ آخر ت میں ہمارے کام آئیں گی کہ جب یومِ آخرت بندۂ مومن خود یہ کہے گا کہ کا ش! دنیا میں میری کوئی دعا بھی قبول نہ ہوئی ہوتی۔ لیکن بعض اوقات انسان اپنی کم عقلی اور   محدود علم کی بنا پر ا یسی دعائیں مانگتا ہے جو سرا سر اس کے لیے شر ہوتی ہیں۔ قرآن میں آتا ہے  کہ: ’’انسان شر اس طرح مانگتا ہے جس طرح خیر ما نگنی چاہیے۔انسان بڑ ا ہی جلدباز واقع ہوا ہے‘‘۔(النحل ۱۶:۱۱)

اس بات کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ اللہ اپنی لا محدود قدرت کی و جہ سے و ہ علم رکھتاہے جو عا م انسان کو نہیں ہے اور ہمارا خالق بہتر جانتا ہے کہ کس وقت کون سی چیز ہمارے لیے بہترہے۔دعا ے ا ستخا رہ میں انسان کو یہی سکھایا گیاہے کہ انسان ا پنے ر ب سے و ہ خیر مانگے جو دین اورآخرت کی بہتری رکھنے والی ہو اور اسی سے را ستے کی آسانی مانگے۔ وہ تمام کام جو انسان کو دین و آخرت کی بھلائی سے محروم کر دیں، اُن سے بچنے اور اللہ کی پناہ میں آنے کی دعا کرے اور اللہ کے فیصلوں میں یکسوئی کا بھی طلب گار ہو۔ جب انسان اپنی ضرورت و خواہشات کو بھی اللہ کے سپرد کردیتا ہے اور اس کے لا محدود علم و قدرت سے ر ہنما ئی کا طلب گار ہوتا ہے تو اللہ ا پنے بندوں کے دلوں کو سکون و ا طمینان نصیب کرتاہے اور انھیں نعم البدل بھی عطا فرماتا ہے۔دلوں کا ا طمینا ن     اور معاملات میں یکسوئی کا حاصل ہونا صرف اور صرف اس وقت ممکن ہے جب انسانی عقل      اللہ رب العالمین کی قدرت و اختیار کے آگے جھک جائے اور کہے کہ وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْٓ اِِلَی اللّٰہِ اِِنَّ اللّٰہَ بَصِیْرٌم بِالْعِبَادِ (المؤمن ۴۰:۴۴) ’’اور اپنا معاملہ میں اللہ کے سپرد کرتا ہوں، وہ اپنے بندوں کا نگہبان ہے‘‘۔

  •  تقدیر پر ایمان :ایمان کا ایک ا ہم جز تقد یر پر ایما ن ہے۔گویا اس با ت کو سچے دل سے ما نا جائے کہ دنیا میں ہر چیز اور ذرہ ذرہ اللہ کے حکم اور مشیت سے کام کر رہا ہے، اور تمام حالات و واقعات اللہ کے علم میں ہیں۔ زندگی کی و ہ فکر یں جن کے لیے انسان اپنی زندگی کے قیمتی ترین لمحات وقف کر دیتا ہے، یعنی زندگی ، موت ، اولاد ، شادی رزق، غرض یہ کہ ہر وہ چیز جو اللہ نے تقد یر میں طے کردی ہے انسان اس کو اپنے ذمہ لے کر پریشان رہتا ہے اور آنسوبہاتا ہے، مضطرب رہتا ہے۔ حالانکہ یہ اللہ کی رحمتوں میں سے ایک بہت بڑی رحمت ہے کہ اس نے انسان کو ان تمام چیزوں کی فکر سے آزاد کر دیا ہے اور دنیا میں جس مقصد کے لیے بھیجا ہے، اس کے لیے ہمہ وقت مصروفِ عمل رہنے کا مطالبہ کیا ہے۔

انبیاے کرا م ؑاور صحا بہ کرام ؓ جن کی زندگیا ں ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں، ان کی شخصیات کا تعارف و ہ پیشہ ، یا وہ عُہدہ نہیں ہے جو انھیںدنیاوی اعتبا ر سے حاصل تھا بلکہ ان کی سیرت و شخصیت کا نما یاں وصف ان کا اللہ کے دین کی دعوت اور اقامت دین کے لیے جدوجہد میں حصہ لینا ، اور اس نصب العین کے حصول کے لیے اپنی زندگیوں کو وقف کر دینا ہے۔ غمِ روزگار ، ا ولا د اور روز مرہ زندگی کے غم انسان ہونے کے ناطے اُنھیں بھی لاحق ہوں گے لیکن ان کا حصہ ان کی زندگیوں میں اتنا ہی تھا جتنا اس عارضی زندگی کی اہمیت ہے۔ایک مسافر اور ا جنبی کی حیثیت سے رہنے و الے فرد کو اس عارضی زندگی میں صرف منزل تک پہنچنے کی پریشانی ہوتی ہے جو کہ بندۂ مومن کے لیے جنت ہے۔ باقی عارضی پریشانیوں کو دُور کرنے کا نہ اس کو اختیارہے نہ طاقت ہی ۔لہٰذا و ہ اپنی توانائیاں ایسے لاحاصل غم میں ضائع نہیں کرتا جس کا کوئی حاصل نہیں۔حضرت زید بن ثابت ؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا:’’جو شخص دنیا کو ا پنا نصب ا لعین بنائے گا ، اللہ اس کے دل کا اطمینا ن و سکون چھین لے گا اور ہر وقت مال جمع کرنے اور ا حتیا ج کا شکا ر ہوگا ، لیکن دنیا کا حصہ اتنا ہی اسے ملے گا جتنا اللہ نے اس کے لیے مقدر کیا ہوگا۔ اور جن لوگوں کا نصب العین آخرت ہوگی ، اللہ تعالیٰ ان کو قلبی سکون نصیب فرما ئے گا اور ما ل کی حر ص سے ان کے قلب کو محفوظ رکھے گا اور دنیا کا جتنا حصہ ان کے مقدر میں ہوگا وہ لازماً ملے گا۔‘‘(ترغیب و ترہیب)

  •  دنیاوی غم کا حاصل :کا میا ب، پُرسکون ، پُرمسرت زندگی جس میں کوئی خوف ہو نہ رنج، انسان کا ایک خواب ہے۔ جب انسان کسی تکلیف ، مصیبت اور پریشانی سے گزرتا ہے تو و ہ لازماً یہ سوچتا ہے کہ دنیا کی مصیبتو ں اور تکا لیف کا کیا فا ئد ہ، یا یہ کہ اللہ تعالیٰ کو ہماری تکا لیف سے کیا ملتا ہے ؟یہ سوال کہ خالق کو کیا ملتا ہے مخلوق کے دائرے سے باہرہے۔اس لیے کہ خالق ان تمام باتوں سے ماورا ہے بلکہ یہ سوچ تو رکھنی ہی نہیں چاہیے کہ خالق کو کیا ملتا ہے۔ اللہ اپنی ذات و صفات اور اختیارات میں لامحدود ہے۔ آدمی اس تک ہرگز نہیں پہنچ سکتا ہے۔سوال تو یہ کرنا چاہیے کہ ہمیں کیا ملتا ہے؟

اس سوال پر انسان سوچے تو اس کے لیے عملِ خداوندی کے ہزار مثبت پہلو اور پُرسکون زندگی کی بے شمار بنیادیں نکل آئیں:

۱- انسان کے ا و پر مصیبتیں نہ آئیں تو ا سفل سا فلین کے درجے تک پہنچنے میں د یر نہیں لگتی۔ اس کی زندگی کھا ؤ پیو، عیش و آرا م کے دائرے تک ہی محدود ہو جائے اور وہ ایک شترِ بے مہار کی سی زندگی گزارے۔

۲- غم اور مشکلات ہی انسان کو یہ شعور عطا کرتے ہیں کہ یہ تمام نعمتیں اللہ کی عطا کردہ ہیں اور اس کے ا پنے زورِ بازو کا نتیجہ نہیں ہیں۔ وہ جب چا ہے انھیں وا پس لے لے، اور جب چا ہے کسی بھی نعمت کے نقصان یا جدائی سے دوچار کر دے۔ اس لیے ایسا انسان کسی بھی ناکامی پر ملول اور مایوسی کی کیفیت سے دوچا ر نہیں ہوتا۔

۳-یہ مصیبتیں ہی دراصل صبر کرنا سکھاتی ہیں اور شکر کے جذبے سے بھی آشنا کرتی ہیں۔

۴- ہر چیز مِن جا نب اللہ ہے اور یہی ہمارے رویوں کا امتحان ہے۔ اللہ تعالیٰ اچھے برے حالات میں ڈال کر ہماری آزمایش کرتا ہے کہ ہم اللہ کی طر ف رجوع کرنے و الے ہیں یا بندوں سے امیدیں وابستہ کیے بیٹھے ہیں۔

۵-  انسان اس حقیقت سے بھی آشنا ہوتا ہے کہ نہ تو ر نج وآلام ہمیشہ کے لیے ہیں اور نہ خو شیا ں اور مسرتیں ہی ۔ یہ تمام چیز یں وقتی طور پر دنیا کی زندگی کا حصہ ہیں اور اللہ کی طر ف سے ایک آزمایش ہیں۔ با قی رہ جانے و الی صرف نیکیا ں ہیں جو انسان کے کام آتی ہیں۔

یہ مال اور اولاد محض دنیاوی زندگی کی ایک ہنگامی آرایش ہے۔ اصل میں تو باقی رہ جانے والی نیکیاں ہی تیرے رب کے نزدیک نتیجے کے لحاظ سے بہتر ہیں اور اُنھی سے اچھی امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں۔ (الکھف ۱۸:۴۶)

۶- ہماری مشکلات اور مصیبتیں جن پر ہم اللہ سے را ضی رہتے ہیں اور صبر و شکر کا مظاہرہ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے صلے میں ہماری خطاؤں سے درگزر کرتا ہے۔حدیث ہے کہ : مسلمان کو جو رنج، دکھ، غم، تکلیف اور پریشانی آتی ہے، حتیٰ کہ اگر اس کو ایک کانٹا بھی چبھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو اس کی کسی نہ کسی خطا کا کفا ر ہ بنا دیتا ہے۔( بخاری ، مسلم)

۷- رنج و غم دل کو گداز کرتا ہے اور ایسا دل اللہ کے کلا م کے ا ثرا ت کو جلد قبول کرتا ہے۔ اس سے نہ صرف قربِ الٰہی نصیب ہوتا ہے بلکہ رحم ، ہمدردی اور محبت کے جذبات پروان چڑھتے ہیں   ؎

متاع بے بہا ہے درد و سوز آرزو مندی
مقامِ بندگی دے کر نہ لوں شانِ خدا وندی

۸- انسان عا رضی چیزوں کی و قعت اور اور ان سے دل لگا نے کے انجام سے بھی واقف ہو جاتا ہے۔ اس طرح باقی رہ جانے والی جنت اور اس کے حصول کے لیے تیاری کرتا ہے اور دنیا کے غموں پر اس کا ر و یہ یہ ہوتا ہے کہ و ہ جنت کی د ا ئمی خو شیوں اور آرا م کا طلب گار رہتا ہے۔

غم کا مثبت پھلو

ان غموں میں سے کچھ غم ایسے ہیں جو انسان کی زندگی کو مثبت ر خ دیتے ہیں او ر جن کا کرنا آخرت میں انسان کی نجات کا با عث بنتا ہے اور اسے اللہ کا پسندیدہ بندہ بنا دیتا ہے۔

  •  گناھوں پر غمگین ھونا : گناہوں پر غمگین ہونے کی کیفیت انسان پر طاری ہو تو وہ توبہ کی جانب راغب ہوتا جاتا ہے۔ انسان کو ا پنے گناہوں پر لازماً ایک غم و صدمے کی سی کیفیت میں رہنا چاہیے۔ یہ غم انسان کو اللہ کا قرب عطا کرتا ہے اور خشیت ِ الٰہی کا موجب بنتا ہے۔اس غم میں نکلنے و الے آنسو بھی اللہ کی نظر میں انتہائی مقبول ہیں۔ حدیث ہے کہ ’’جن دو آنکھوں پر دوزخ حرام کر دی گئی ہے ان میں سے ایک آنکھ و ہ ہے جو اللہ کے خوف سے رو د ی، اور د و سر ی آنکھ وہ ہے جو جہاد فی سبیل اللہ میں پہر ہ دیتے ہوئے را ت کو جا گنے و الے مجا ہد کی آ نکھ ہے‘‘ (ترمذی )۔ اسی طرح ایک اور حدیث کے مطا بق جو د و قطر ے اللہ کی نگاہ میں محبوب ہیں، ان میں ایک وہ آنسو کا قطرہ ہے جو اللہ کی یاد اور خوف سے نکلے اور دو سرا وہ خون کا قطرہ جو اللہ کی ر اہ میں جہاد کرتے ہوئے مجا ہد کے جسم سے نکلے۔توبہ و استغفا ر اور اللہ کی طر ف پلٹنے کا عمل انسان کے ا خلا ص اور   دل سوزی کو ظا ہر کرتا ہے۔ ایسے میں انسان ا پنے قصوروں کو یا د کر کے لرزتا ہے، اس کی اندرونی حالت اور بے تابی اسے اللہ کے حضو ر دل و دما غ کے سا تھ جھک جانے پر آما دہ کر تی ہے۔حدیث ہے کہ ’’اے لوگو ! اللہ کی طر ف پلٹواور اس سے ا پنے گناہوں کی مغفرت چاہو ، میں دن میں سو سو بار استغفار کرتا ہوں‘‘۔ (مسلم)

اپنے گناہوں پر غمگین ہونے و الے ا فراد درا صل اللہ کی عظمت و ہیبت سے لرزتے ہیں۔ پھر اپنی کو تاہیوں، غفلتوں اور اپنی بے بسی اور عا جزی کا ا ظہار دعا کے الفاظ میں کرتے ہیں۔ یہ وہ  غم ہے جو دل کو سکون اور ا طمینا ن سے بھر دیتا ہے اور اُسے اللہ کا مقرب بنا دیتا ہے۔

  •  نیکیوں کے مواقع کہو د ینے کا غم: و ہ ا فرا د جن کی زندگیوں کا محور و مرکز    اللہ رب العا لمین کی ر ضا او ر جنت کا حصول ہوتا ہے، وہ صرف ایک ہی غم و فکر میں مبتلا رہتے ہیں کہ کسی طرح ان کی غفلت و لا پروائی سے کوئی بھی ایسا مو قع ضائع نہ ہو جائے جس میں وہ نیکی سے محروم رہ جائیں۔ یہ غم دراصل اتباعِ رسولؐ بھی ہے اور ایک داعی کے شایانِ شان بھی ہے۔ قرآن اس کو مسابقت و مقابلے کا عمل قرار دیتا ہے۔ دنیا کا کون سا ایسا انسان ہے جو مقابلہ نہیں کر رہا۔ ہرفرد کسی نہ کسی مقا بلے میں شریک ہے لیکن نیکیوں میں سبقت لے جانے کا مقابلہ اور ان کے مواقع ضائع کر دینے کا غم اللہ کو محبوب ہے۔

غور کیجیے کہ اللہ تعالیٰ کس طرح سے نیکی کی طرف سبقت لے جانے کی ترغیب دے رہا ہے: ’’دوڑو اور ایک دوسر ے سے آگے بڑھنے کی کو شش کر و ا پنے ر ب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسما ن و زمین جیسی ہے‘‘(الحدید ۵۷:۲۱)۔ یہ غم ایک مومن کی متا ع ہے کہ اس دوڑ میں و ہ پیچھے نہ ر ہ جائے۔ اسی فکر و ا ضطراب نے لوگو ں کے دلوں کو حق کی طرف مائل کیا ہے۔ یہی غم لوگوں کو فلاح کا را ستہ دکھانے اور ا نھیں جہنم کی آگ سے بچانے کے جنون میں تبدیل ہوجاتا ہے۔

  •  غمِ عقبٰی: ایمان لا نے کے بعد آخرت کی جواب دہی کا خوف انسان کے اندر ہو تو اس کا ہرعمل خود بخود درست ہو جاتا ہے۔غمِ عقبیٰ ایسا غم ہے جو انسان کے اعما ل اور مختلف معاملات کو درست رخ پر استوار رکھتا ہے۔نبی کریمؐ اور صحابہ کرام ؓ کی سیرت سے ان پاک باز انسانوں کا اس غم میں آنسو بہا نا اور اس کی فکر میں پریشان ہونا ثا بت ہوتا ہے۔یہی نہیں بلکہ مرنے کے بعد قبرکی ہولناکی اور جواب دہی کے غم میں صحا بہ کرا مؓ ہنستے ہنستے رونے لگ جایا کرتے تھے۔

دراصل یہ وہ غم تھے جو ان عظیم ا فراد کو ہلکان کیے رکھتے تھے۔ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہؓ کے زانو پر سر رکھے سو رہے تھے کہ حضرت عائشہؓ کی آنکھ سے آنسو ٹپکے اور آپؐ کی آنکھ کھل گئی۔ فکرمند ہو کر پوچھا: ’’ا ے عائشہ ؓ! تمھیں کس غم نے رُلا دیا؟ اُم المومنینؓ گویا ہوئیں: ’’یارسولؐ اللہ! مجھے جہنم کی یاد آگئی___ اُس نے رُلا د یا۔پھر پوچھا: ’’یارسولؐ اللہ! کیا قیامت کے دن آپؐ ا پنے گھر والوںکو یا د رکھیں گے ؟ ‘‘ رسولِ کریمؐ نے فرمایا: ’’اے عائشہ! تین مقامات ایسے ہوںگے جہاں کوئی کسی کو یا د نہ رکھے گا ، نہ خبر لے گا۔ عندالکتاب، وہ وقت جب اعمال نامہ کھولا جائے گا، عندالمیزان، وہ وقت جب اعمال تولے جائیں گے اور عندالصراط وہ وقت جب پل صراط پر سے گزارا جائے گا‘‘۔ اسی طرح ایک با ر اللہ کے نبیؐ نے کچھ لوگوں کو کھِل کھلا کر ہنستے دیکھا تو آپؐ نے فرمایا کہ ’’اگر تم لذتوں کا خا تمہ کرنے والی موت کو زیادہ یاد کرتے تو وہ تمھیں ہنسنے سے روک دیتی‘‘ (ترمذی)۔ اسی طرح حضرت عثمان بن عفا ن ؓ کے آزاد کردہ غلا م ہا نی کا بیان تھا کہ حضرت عثمانؓ جب کسی قبر کے پاس کھڑے ہوتے تو اتنا روتے یہاں تک کہ اپنی داڑ ھی تر کرلیتے ، کہ قبرآخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے۔

انسان کو غم پالنے کا شعور ہو تو وہ ایسے غم پالتا ہے جس سے اس کی آخرت بھی سنور تی ہے اور دنیا کے معاملات بھی درست ہو جاتے ہیں۔ ایسے ہی غم کا سبق ہمیں اسوۂ رسولؐ سے بھی ملتا ہے اور اسی کی عکاسی صحابہ کرام ؓ کی زندگی سے بھی ملتی ہے۔ یہ وہ فرق ہے جو ہماری اور اُن کی زندگیوں میں پایا جاتا ہے۔ غم وہ حقیقت ہے جس کے بغیر انسانی زندگی کا تصور نہیں ، فرق صرف اتنا ہے کہ ہم کون سے غموں کو اہمیت دیتے ہیں، کون سی باتیں ہمیں مضطرب کرتی ہیں اور کس پریشانی میں ہمارے آنسو بہتے ہیں۔ فطری غموں اور روز مر ہ کی تکا لیف پر آنسو بہانا بھی منع نہیں لیکن صرف انھی معاملات پر آنسو بہانہ اور غمگین رہنا بھی پسندیدہ نہیں ہے۔

  •  اعلٰی ترین غم :غم کا براہِ را ست تعلق ہمارے مقصدِ زندگی سے ہے، جتنا اعلیٰ ہمارا مقصدِ حیات ہوگا اتنا ہی ہمہ گیر اور گہرا ہمارا غم ہوگا۔ دنیا کے چھوٹے چھوٹے مقا صد چھوٹے غم اور تکلیف لیے ہوئے ہوتے ہیں۔ ایک مسلما ن کے لیے اقامتِ دین سے بڑھ کر اعلیٰ مقصد اور کون سا ہوگا! یہ مقصد تو تخلیقِ آدم کی بنیاد ہے۔ اسی مقصد کی ہمہ گیریت اور بھاری ہونے کا ا حساس ہی تو انبیاے کرام ؑ کو مضطرب و پریشان رکھتا تھا۔ حضور اکرمؐ کے بارے میں قرآن میں آتا ہے کہ ’’شاید آپ تو ان لوگوں کے پیچھے رنج و غم میں ا پنے کو ہلاک ہی کر ڈالیں گے، اگر یہ لوگ اس کلا مِ ہدایت پر ایمان نہ لا ئیں‘‘۔ (الکھف ۱۸: ۶)

خود نبی کریمؐ اپنی اس کیفیت کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ: ’’میری مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی اور جب آس پاس کا ماحول آگ کی روشنی سے چمک اٹھا تو پتنگے اس پر گرنے لگے، اور و ہ شخص پو ر ی قوت سے ان پتنگوں کو آگ سے روک رہا ہے لیکن پتنگے ہیں کہ اس کی کوششوں کو ناکام بنائے دے رہے ہیں اور آگ میں گرے پڑ رہے ہیں۔ اسی طرح میں تمھیں کمر سے پکڑ پکڑ کر آگ سے روک ر ہا ہوں اور تم ہو کہ آگ میں گرے پڑ رہے ہو‘‘۔

یہ فکر کی وہ کیفیت ہے جو دنیا کے معز ز ترین گروہ کے اضطراب کو ظاہر کر تی ہے۔ان کا غم صرف یہ تھا کہ کسی طرح انسانیت کو فلاح کا را ستہ دکھا دیا جائے۔یہ وہ غم تھا جو ا نبیاے کرا م کو ان کے اعلیٰ ترین مقصد ِ زندگی کی وجہ سے ہلکان کیے دیتا تھا۔لہٰذا ایک بندۂ مومن کو اس غم سے بڑھ کر اور کون سا غم عزیز ہوگا، جب کہ جہنم کے سیاہ گہرے شعلے نافرمانوں کے لیے بھڑکا ئے جا رہے ہوں، انسانیت اللہ کی حدود کو توڑ کر درکِ ا سفل کی پستی میں گرتی چلی جا رہی ہو،کمزوروں و مظلوموں سے جینے کا حق چھینا جا ر ہا ہو اور طاقت ور دنیا کی ہر چیز پر قبضہ کرنے کے لیے چڑھے چلے جا رہے ہوں، ایسے میں صرف ایک ہی غم اور ایک ہی فکر غالب ر ہتی ہے کہ دنیا میں ظلم کے نظا م کا خاتمہ ہوسکے، سسکتی انسانیت اسلام کے سائے تلے پنا ہ لے سکے اور نجات کی راہ پا جائے۔ یہی وہ غم تھا  جو تمام ا نبیا کو ہلکان کیے دیتا تھا، یہی فکر تھی جو حضرت ا برا ہیم ؑ کو ا پنے شیرخوار بچے اور بیوی کو    وادیِ غیرذی زرع میں چھوڑ کر جانے کے لیے تیا ر کر دیتی ہے۔ یہی ا حساس تھا جو حضرت موسٰی ؑ کو فرعون کے دربار میں کلمۂ حق بلند کرنے کا حوصلہ دیتا ہے۔ یہی وہ ا ضطراب تھا جو نبی کریمؐ کو غارِحرا کی تنہائی سے نکال کر یاایھا المدثر کا خطاب عطا کراتا ہے۔طائف کے میدان میں لہولہان  کرا دیتا ہے۔ اس فکر ہی میں کبھی شعب ابی طالب کا دشوارگزار مرحلہ آتا ہے تو کبھی عکاظ کا میلہ۔ اسی غم کی قوت بدر و اُحدکے معرکے برپا کراتی ہے اور اسی غم سے قیصروکسریٰ کے ایوان لرز ا ٹھتے ہیں۔ اسی کی کڑی فتح مکہ کا سبب بنتی ہے۔ غرض ہر جگہ، ہر لمحے اور ہر وقت صرف یہی فکر غالب رہتی ہے کہ اللہ کا پیغام اللہ کے بندوں تک پہنچ جائے اور اللہ کی زمین میں اللہ کا دین نا فذ ہو جائے۔

آپ کو کون سا غم عزیز ھے؟

یہاں اپنی زندگیوں کا جائزہ لینا ضر وری ہے۔ ہماری زندگیوں میں کون سا غم ہے جو ہمیں پریشان و مضطر ب رکھتا ہے۔ کیا ہم بھی بندۂ درہم و دینارہیں جن کے لیے نبیؐ نے فرمایا: ’’تباہ ہوجائے دینار کا بندہ اور درہم کا بندہ اور کمبل (چادر) کا بندہ، اور اگر ا سے د یا جائے تو خو ش اور نہ دیا جائے تو غصے ! تباہ ہوجائے اور منہ کے بل گرے۔ کانٹا چبھے (تو اللہ کرے کہ ) نہ نکلے۔مبارک ہو اس بندے کو جو اللہ کی راہ میں ا پنے گھوڑے کی باگ تھامے ہوئے ہو ، بال بکھرے ہوئے ہوں اور پائوں گرد آلود! اگر ا سے پہرے پر لگایا جائے تو پہرا دے اور اگر پچھلے لشکر میں چھوڑ د یا جائے تو پچھلے لشکرہی میں رہے۔ اگر ا جازت مانگے تو اجازت نہ ملے اور اگر سفارش کرے تو اس کی سفارش نہ سنی جائے۔ (بخا ری ، کتاب الجھاد)

یہ حدیث ہر اس بندے کے لیے وعید ہے کہ جو حبّ دنیا اور ما ل و دولت کے پیچھے اپنی جان، وقت اور صلا حیتیں صرف کرتا ہے، جب کہ و ہ ان سا ری کوششوں کے باوجود اپنی تقدیر سے نہیں لڑسکتا ہے، لیکن خوشخبری و مبارک باد ہے اس شخص کے لیے جو اللہ کے راستے پر اپنی جان کھپا دینے کی وجہ سے قا بلِ فخرہے اور مبا رک باد کا مستحق ہے۔ حالاںکہ اس کی دنیاوی حیثیت اتنی بھی نہیں کہ کوئی اس کی با ت کو قا بلِ تو جہ سمجھے۔

ہر وہ فرد جو ایمان کا دعویٰ کرتا ہے اس کو یہ جانچ لینا چاہیے کہ و ہ ا پنے دعویٰ ایمان میں کتنا سچا اور کھرا ہے۔کیا اس کی زندگی میں کوئی ایسا لمحہ گزرا جب اس کا دل اس لیے غمگین ہو ا ہو کہ دنیا میں اللہ کی حدود پامال ہو رہی ہیں ، اللہ کی راہ میں لڑنے والے ذلیل کیے جا رہے ہیں ،قرآن کی آیات کے من چاہے معنی نکالے جا رہے ہیں، تو کیا اس کا دل اسی طرح دکھ اور تکلیف محسوس کرتا ہے جب اسے کسی ذاتی مصیبت یا آزمایش کا سامناکرنا پڑتا ہے ؟ کیا راتوں کی بیداری کا سبب کبھی یہ فکر بھی ہو ئی کہ اقامتِ دین کی اس جدوجہد میں اس کا اپنا حصہ کیا ہے ؟ کیا اس نے ا پنے حصے کا کام کر لیا ہے ؟ کیا وہ ایمان کی آزمایش کا صرف دعویٰ کرتا ہے یا اس کا عملی نمونہ بھی ہے؟ کیا اس کی جان و مال اللہ رب العالمین کے لیے وقف ہے؟، کیااس کی بھاگ دوڑ صرف دنیا کی عزت، مرتبہ و مقام ہی کے لیے ہے ؟ کیااس کی فکر اولاد کی ڈگری ، آمدنی و شادی تک ہی محدود ہے، یا ان کو اللہ کا بندہ بنانے اور صالحین کا امام بنانے کی بھی ہے؟ کیا اس نے کبھی اپنی اولاد کے لیے یہ دعا کی جو حضرت ابراہیم ؑ نے کی تھی؟یا اس کا شما ر ان ا فراد میں ہے کہ جو ایمان کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن اپنی جان و مال اپنی دنیا بنانے کے لیے وقف کر دیتے ہیں، جو اللہ سے رجوع تو کرتے ہیں لیکن صرف اپنی مصیبتوں سے نجات کے لیے ، اور جن کے دل امت کے فکر و غم سے خالی ہیں۔کتنے افراد ایسے ہیں جن کی راتوں کی سسکیاں ان مجاہدین کے لیے ہوتی ہیں جو اللہ کے دین کی خا طر گوانتانامو اور ابوغریب میں ظلم کاشکا رہیں۔جو ان مظلوموں کے لیے مضطرب رہتے ہیں جن کو کمزور پا کر دبا لیا گیا ہے اور ڈالروں کے عوض جن بہنوں اور بیٹیوں کی عزتوں کو نیلام کر دیا گیا ہے۔

آئیے جائزہ لیجیے کہ کیا ہم سب کے لیے امت کی مشکلات بھی ایسی ہی ہیں جیسے ہماری ذاتی مشکلات؟ کیا اس کے زخم بھی اسی شدت کے ساتھ محسوس ہوتے ہیں جیسے ا پنے جسم پر لگے زخم؟ جائزہ لیں کہ ہماری آہیں ، سسکیاں ، راتوں کا جاگنا ، دل کا افسردہ ہونا، اور پریشان ہونا کس کے سبب ہے؟کون سا غم ہے جو ہمیں ہلکان کیے دے ر ہا ہے ؟ ہمارا دل کس سوزوغم کا شکار ہے؟ہمیں کون سی بے قراری ہے؟ اور اگر ان سوالوں کے جواب ہمارے پاس نہیں ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ہم ان غموں سے نا آشنا ہیں تو پھر دعا کیجیے کہ ہم ان بے قرار داعیوں میں شا مل ہوجائیں جن کا شوق و ولولہ ، تڑپ ، سوز ، درد،لگن اور حوصلہ اُن کو کسی طرح چین سے بیٹھنے نہ دیتا ہو، جن کی جان صرف اس غم میں ہلکان ہوتی ہے کہ کسی طرح یہ انسانیت قرآن کے سا ئے تلے آجائے۔جن کا اضطراب اللہ کے دین کے نفا ذ کے لیے ہوتا ہے وگرنہ اللہ کو ایسے غمگین دلوں کی کوئی پروا نہیں جو اس دھوکے کی زندگی کے مل جانے اور نہ ملنے پر مشتمل ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ’’ اگر کہیں اللہ لوگوں کے ساتھ برا معا ملہ کرنے میں بھی اتنی ہی جلدی کرتا جتنی وہ دنیا کی بھلا ئی مانگنے میں جلدی کرتے ہیں تو ان کی مہلت ِعمل کبھی کی ختم کر دی گئی ہوتی۔ (مگر ہمارا یہ طریقہ نہیں ہے ) اس لیے ہم ان لوگوں کو جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے ان کی سرکشی میں بھٹکنے کے لیے مہلت دے دیتے ہیں۔ انسان کا حا ل یہ ہے کہ جب اس پر کوئی سخت وقت آتا ہے تو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے ہم کو پکارتا ہے مگر جب ہم اس کی مصیبت کو ٹال دیتے ہیں تو ا یساچل نکلتا ہے کہ گویا اس نے کبھی کسی بُرے وقت پر ہم کو پکارا ہی نہ تھا۔ اس طرح حد سے گزر جانے والوں کے لیے ان کے کرتوت خوش نما بنا دیے گئے ہیںـ‘‘۔ (یونس ۱۰:۱۱-۱۲)

اللہ سے دعا ہے کہ ہم حقیقی غموں کا شعورحاصل کریں اور ان ہی غموں سے اپنی زندگیوں کو مزین کر یں جو ہماری فلاح و نجات کا سبب بنیں۔

 

ترجمہ وتبصرہ: سلیم منصور خالد

دنیا کے سامنے اپنی قابلِ قبول تصویر (soft image) پیش کرنے کے شوق اور اپنے کو ’روشن خیال‘ ثابت کرنے کے لیے پاکستان کے مقتدر طبقے نے جو اقدامات کیے ہیں، ان میں سے ایک افواجِ پاکستان میں صرف تعلیم اور میڈیکل کے شعبوں میں نہیں، بلکہ خاص لڑاکا (combatant) شعبوں میں خواتین کی بھرتی ہے۔ اس کی حکمت یا مصلحت تو حکمران ہی جانیں، ہمیں تو یہ خیال آتا ہے کہ کیا ملک میں صحت مند مردوں کی کمی پڑگئی ہے، یا وہ سب ختم ہوگئے ہیں کہ محاذ پر عورتوں کو بھیجنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا۔

عصرِحاضر کے ’روشن خیال‘ مرد کی مجبوری ہے کہ اسے گھر سے باہر نفس کی تسکین کا سامان چاہیے۔ اسی مقصد کے حصول کے لیے پورا فلسفۂ مساوات مرد و زن گھڑا گیا، عورت بچاری کو یہ پٹی پڑھا دی گئی کہ ہرشعبے میں برابری کے بغیر اس کا کوئی مقام نہیں۔ چنانچہ اسے ہر شعبے اور ہرمیدان میں شمعِ محفل بنا دینا ہی ’ترقی پسندی‘ اور ’روشن خیالی‘ کا مطمحِ نظر قرار پایا ہے۔محفل تو ایک طرف، ٹریفک وارڈن بھرتی کر کے اسے چوراہوں پر کھڑا کردیا گیا ہے، جہاں وہ آٹھ آٹھ گھنٹے کھڑے ہوکر ڈیوٹی دیتی اور ٹریفک کو اشاروں سے کنٹرول کرتی نظر آتی ہے۔

ایک میدان کھیل کا بھی ہے۔ عورتوں کی ہاکی، کرکٹ کے بعد اب فٹ بال کے مقابلے بھی ہو رہے ہیں۔ منتخب لڑکیوں کے باقاعدہ ٹریننگ کیمپ لگائے جاتے ہیں، لطف یہ کہ (پاکستان اور افغانستان کو) اس ’کارخیر‘ میں امریکی محکمہ خارجہ خصوصی بلکہ فراخ دلانہ مالی مدد دیتا ہے اور تقریبات میں ان کا قونصل جنرل مہمانِ خصوصی بنایا جارہا ہے۔

اس تحریر کا موضوع افواج میں خواتین کی موجودگی سے پیدا ہونے والے مسائل و معاملات پر نظر ڈالنا اور ان کا جائزہ لینا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں حقیقی موضوعات پر ریسرچ کی روایت بہت کمزور ہے۔ ہمارے ہاں کسی یونی ورسٹی کے متعلقہ شعبے نے اب تک خواتین کی شرکت کے اس غیرمعمولی مسئلے کے تمام پہلوؤں کا کسی تحقیق میں کوئی احاطہ نہیں کیا، تاہم جن کی برابری کی دوڑ میں ہم یہ سب کچھ کر رہے ہیں کہ اپنی روایات اور عقائد و نظریات بھی پسِ پشت ڈال دیے ہیں، وہاں کا ایک جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔  اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان معاشروں میں، تحقیق کی ایک مضبوط روایت موجود ہے (ترقی کا ایک سبب یہ بھی ہے) اور حقائق کو منظر ِعام پر لانے میں کوئی لحاظ آڑے نہیں آتا۔ اسی لیے، ہمارے ہاں جن امور پر پردہ پڑا رہتا ہے، وہاں اُن پر کھلے عام مباحثہ کیا جاسکتا ہے۔

زیرترجمہ مضمون Why Soldiers Rape? ایک خاتون اسکالر ڈاکٹر ہیلن بینڈکٹ (Helen Bendict) نے اپنی اُس کتاب سے لے کر ۱۳ اگست ۲۰۰۸ء کو انٹرنیٹ پر پیش کیا ہے، جو اپریل ۲۰۰۹ء میں بیکن پریس، امریکا سے شائع ہونے والی ہے۔ مضمون کے مطالعے میں یہ امر پیشِ نظر رہے کہ اہلِ مغرب یا مغرب زدہ اہلِ مشرق کے ہاں باہمی رضامندی سے بدکاری نہ کوئی جرم ہے اور نہ کسی قسم کا نوٹس لینے کی چیز ہے۔ البتہ زنا بالجبر (rape) ان کے ہاں بھی قابلِ مذمت جرم ہے۔ اس مضمون میں بالجبر ہی کا تذکرہ ہے، بالرضا کا نہیں۔ (مترجم)


امریکی فوج کی کیپٹن جینفر ماچمر (Jennifer Machmer) نے کانگریس کمیٹی کے سامنے حلفیہ بیان دیا ہے کہ: ’’۲۰۰۳ء کے دوران میں، جب وہ امریکی افواج کے ساتھ کویت میں متعین تھی، تب اس پر جنسی حملے کیے گئے۔ واقعہ یہ ہے کہ دورانِ جنگ یا حالتِ امن، دونوں صورتوں میں مسلح کمانڈروں کے ماتحت ملازمت کرنے والی فوجی خواتین کی جنسی بے حرمتی کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہورہا ہے۔ اس صورت حال کی نقاب کشائی کے لیے تحقیق کاروں اور ذرائع ابلاغ نے دیانت داری سے کھوج لگایا ہے۔

اس جرم میں زیادہ توجہ کا مرکز فوجی عورتیں ہی رہتی ہیں کہ جن پر ان کے مرد ساتھی، اپنے پیشہ ورانہ تعلقات اورروابط کے دوران میں حملہ آور ہوتے ہیں۔ یہ صورت حال ان عورتوں کی ذہنی صحت اور ملازمت کی زندگی دونوں کو سخت صدمہ پہنچاتی ہے، حالانکہ اس شعبے میں خدمات کے  پیشِ نظر بہترین مواقع اور مناسب و معقول حوصلہ افزانی ملنی چاہیے۔یہ موضوع  سنجیدہ بحث کا تقاضا کرتا ہے، مگر دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ اس بحث کے اہم اور بنیادی نکات کو سرے سے نظرانداز کردیا جاتا ہے۔

مسلح افواج میں خواتین پر جنسی حملوں کے اسباب پر غوروفکر کرتے وقت یہ سوچنا ازبس ضروری ہے کہ ان کی روک تھام کیسے ممکن ہے؟ اس تناظر میں ہمارا بنیادی سوال یہی ہے کہ: ’’فوجی مرد اپنی ساتھی فوجی عورتوں پر جنسی حملہ کیوں کرتے ہیں؟‘‘

ہماری عام شہری زندگی میں بھی زنا بالجبر(rape) کا جرم ناپسندیدہ حد تک پایا جاتا ہے۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف جسٹس کی رپورٹ کے مطابق ہر چھے میں سے ایک عورت زندگی میں ایک بار اس جرم کا نشانہ بنتی ہے، لیکن اصل حقائق تو اور بھی زیادہ خراب صورت پیش کرتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ [مغربی] معاشرہ ایک وبائی مرض کی طرح اس فعلِ بد میں  مبتلا ہوتا جا رہا ہے۔

[امریکی] فوج میں معاملہ اس سے بھی زیادہ بدتر ہے۔ شہری زندگی کے مقابلے میں، فوجی زندگی میں یہ جرم دو گنا زیادہ ہوتا ہے اوروہ بھی خاص طور پر جنگ کے دنوں میں۔ حالانکہ تربیت کے دوران فوجیوں کو یہی پڑھایا، سکھایا اور بار بار ذہن نشیں کرایا جاتا ہے کہ: ’’یہاں پر انھیں ایک دوسرے کا احترام بالکل اس انداز سے کرنا ہے کہ جیسے وہ ایک خاندان کے افراد ہوں‘‘۔ اس لیے فوج میں زنابالجبر کو عام شہری تصور کے برعکس، ایسے خونی اور محترم رشتے کے ساتھ زنا گردانا جاتا ہے کہ جہاں شادی نہیں ہوسکتی، مگر اس اہتمام کے باوجود صورت حال میں کوئی تبدیلی واقع ہوتی   نظر نہیں آتی۔ جو مرد عموماً اس گھنائونے جرم کا ارتکاب کرتے ہیں، وہ اپنی شکار کردہ عورتوں سے  بڑی عمر کے ہوتے ہیں اور فوج کے بڑے عہدوں پر فائز ہوتے ہیں۔ گویا کہ انھوں نے اپنے  منصب کی دھونس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ جرم کیا، حالانکہ ان خواتین کو تحفظ فراہم کرنا ان کی   منصبی ذمہ داری تھی۔

[امریکی] محکمہ دفاع کی رپورٹیں ظاہر کرتی ہیں کہ زنا بالجبر کی ۹۰ فی صد متاثرہ عورتیں کم تر درجات (جونیئر رینکس) پر ڈیوٹی دے رہی ہوتی ہیں، اور ان کی اوسط عمر ۲۱ برس کے لگ بھگ ہوتی ہے، جب کہ حملہ آور (assailants) مردوں میں کمیشنڈ [بااختیار] اور نان کمیشنڈ افسروں کے علاوہ عام فوجی جوان، جن کی اوسط عمر ۲۸سال ہے، شامل پائے گئے ہیں۔

فوجی زندگی اور فوجی نظم و ضبط میں اس جرم [ریپ] کو روکنے کے لیے سخت گیر قوانین کی موجودگی کے باوجود یہ مرض بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ ۲۰۰۵ء میں [امریکی مسلح افواج کے مرکز] پینٹاگون نے اس جرم کی اطلاع دینے کے حوالے سے طریق کار اور دستورالعمل میں مزید اصلاحات کیں، مگر بدقسمتی سے اس سوال پر کہ: ’’آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟‘‘ فہمیدہ اور تجربہ کار ماہرینِ سماجیات و نفسیات سے تبادلۂ خیال کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ البتہ اس کا سادہ سا جواب یہ دیا ہے کہ: ’’فوجی کلچر، جنگ کی نوعیت اور حملہ آور مردوں کی نفسیات ہی اس جرم کے محرکات ہیں‘‘۔ مگر یہ ایک ادھورا جواب ہے۔

’’فوجی کلچر اور اس کلچر کا عورتوں کے بارے میں رویہ‘‘ ایک ایسا موضوع ہے، جس پر منطق اور دانش پر مبنی ۲ رپورٹیں ہمارے سامنے ہیں: پہلی رپورٹ لکھنے والی ڈیوک یونی ورسٹی، امریکا میں قانون کی پروفیسر میڈلین مورس (Madeline Morris) ہیں، جنھوں نے ۱۹۹۶ء میں ایک تحقیقی مقالہ سپردِ قلم کیا: By Force of Arms: Rape, War and Military Culture [اسلحے کے زور پر: زنابالجبر، جنگ اور فوجی کلچر]۔ یہ مقالہ Duke Law Journal [ڈیوک لا جرنل، جلد۴۵، ص۶۵۱، ۱۹۹۶ء] میں شائع ہوا، جب کہ دوسری کتاب ۲۰۰۴ء میں یونی ورسٹی آف کیلے فورنیا میں لوک ورثے (folklore) کی پروفیسر کارل برکی (Carol Burke) نے لکھی، اس کتاب کا نام ہے: Gender, Folklore and Changing Military Culture [جنس ، لوک ورثہ اور بدلتا فوجی کلچر] اور اسے بیکن پریس نے شائع کیا۔

ان دونوں تحقیقات میں، محققین نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ:’’ فوجی کلچر اپنی فطرت کے اعتبار سے، اس کلچر کے ناقدین کی تنقید، مشاہدے اور تنقیدی حدِادراک سے بھی زیادہ عورتوں کے لیے توہین انگیز مزاج رکھتا ہے۔ جب یہ فوجی حضرات آپس میں مل بیٹھتے ہیں تو بعض اوقات ان کے مابین خواتین کی توہین کے اس عمل کے بارے میں مقابلے بازی تک کی نوبت بھی آجاتی ہے کہ کون کس قدر اور کتنے تسلسل سے یہ رویہ اختیار کیے رکھتا ہے‘‘۔ مگر اس کے باوجود یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ: ’’فوجی کیوں اپنی ساتھی عورتوں سے زنابالجبر کا ارتکاب کرتے ہیں؟‘‘

[۲۰۰۳ء میں مسلط کردہ امریکی] عراق جنگ کے بارے میں ایک جہاں دیدہ جنگی ماہر نے توہینِ نسواں اور زن بے زاری کے اس رویے کو اپنی کتاب Warrior Writers(جنگ جُو قلم کار) میں قلم بند کیا ہے، اور یہ کتاب ۲۰۰۸ء میں شائع ہوئی ہے جس میں امریکی میرین فوجیوں کے بارے میں درج ہے: ’’مشق کرانے والا استاد (ڈرل انسٹرکٹر) اپنے ملنے والے ہم پیشہ فوجیوں کو ایک ڈھیٹ اور بے شرم فرد کی طرح ہر رات عورتوں کی توہین و تذلیل کا سبق دیتا، اور اس طرح نئے زیرتربیت فوجیوں کو میرین فوجی بناتا نظر آتا ہے‘‘۔

پروفیسر میڈلین مورس اور پروفیسر کارل برکی، دونوں ہی اس فوجی زبان کے رموز کو  کھول کر بیان کرتی ہیں جس کا محور، ہر وقت عورتوں کی تذلیل ہے: ’’[امریکی] افواج میں اس وقت ۱۴فی صد عورتیں ملازمت کر رہی ہیں۔ یہاں ڈرل کرانے والے استاد محکمانہ طور پر اس امر کے پابند ہیں کہ وہ زیرتربیت فوجیوں کو نہ نسلی تعصب پر مبنی جملوں سے مخاطب کریں گے، نہ ان کے نام بگاڑیں گے، نہ لعنت، ملامت اور گالی بکیں گے۔ مگر یہی ڈرل استاد، زیر تربیت عورتوں کو مخاطب کرتے ہوئے حسب ِ معمول ذلیل کرتے رہتے ہیں، اور پھر اپنے غصے کے اظہار کے لیے پکارتے اور ڈانٹتے ہوئے جو القاب انھیں دیتے ہیں، وہ کچھ اس طرح ہیں: اوفاحشہ(bitch)، ہم جنس زدہ لڑکی، گندی نالی، لونڈیا وغیرہ بلکہ بعض اوقات وہ کسی زیرتربیت لڑکی کو شرم گاہ کے لیے استعمال ہونے والے بازاری لفظ سے موسوم کر کے بھی پکارنے سے دریغ نہیں کرتے۔ اگر ہم ان فوجی مردوں کی روزمرہ زبان کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کا یہ طرزِ تکلم اپنی فطرت میں عورتوں کی جنسی توہین کی آلودگی سے مملو ہونے کے سوا کچھ اور نہیں ہے‘‘۔

یہ فوجی بڑی آسانی سے ہیجان انگیز اور فحش چیزیں (پورنوگرافی) اپنے مطالعے میں لاتے اور ایک دوسرے کو دیتے ہیں۔ یاد رہے کہ ان فحش چیزوں کی ترسیل اور انھیں اپنے پاس رکھنا امریکی مسلح افواج میں قانونی طور پر ممنوع ہے۔ لیکن یہ چیزیں فوجیوں کو آسانی سے، ڈاک کے ذریعے یا شہری اربابِ تعلق کے ذریعے مل جاتی ہیں۔ ڈیوک یونی ورسٹی کے اسکالر پروفیسر میڈلین مورس کے مطابق: ’’ہوش مندی سے دیکھا جائے تو فوج میں فحش اشیا کی ترسیل، گردش اور زنا بالجبر میں اضافے کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔ ان فوجیوں کو عشروں سے عورت کی جنسی تذلیل کے نغمے کھلے عام گنگناتے دیکھا جاسکتا ہے‘‘۔

فوج کی ایک سپاہی میکیلا مونٹویا (Mickiela Montoya) جو ۲۰۰۵ء سے ۲۰۰۶ء کے دوران میں ۱۱ماہ تک عراق میں امریکی افواج کے ساتھ خدمات انجام دیتی رہی، وہ اس منظرنامے کو ایک دوسرے انداز سے بیان کرتی ہے: ’’اگر تم ایک عورت ہو تو پھر ایک فوجی مرد کی نگاہ میں تمھاری تین ہی حیثیتیں ہیں: ایک جنسِ آوارہ ، ایک نمایشی چیز یا پانی بہانے کی جگہ۔ ایک ہم منصب فوجی نے مجھے یہ بتایا: میں یہ سوچتا ہوں کہ مسلح افواج میں عورتوں کا وجود مردوں کو سمجھ دار بنانے کے لیے ایک فرحت انگیز شیرینی سے زیادہ کچھ نہیں‘‘۔ اسی جوان نے مجھے یہ بھی بتایا کہ: ’’ویت نام کی جنگ کے دوران امریکی فوجیوں کے لیے بدن فروش طوائفیں موجود تھیں، مگر عراق کی جنگ میں ہمیں    یہ سہولت دستیاب نہیں، اسی لیے فطری طور پر ہمارا رخ اپنی فوجی عورتوں کی طرف ہی ہوتا ہے‘‘۔

گوشت خور درندوں کے ہاتھوں شکار کا نشانہ بننے والے جان داروں کی طرح ہی، فوجی کلچر میں عورت کی حیثیت کا مشاہدہ کرنے کی متعدد مثالیں سامنے آتی ہیں۔ انسانی تاریخ کی جنگوں میں عورتیں ایک جنسی مالِ غنیمت کی طرح فاتح فوجیوں کے ہاتھ لگتی تھیں۔ اس لیے خود اپنی افواج میں اپنی ہی فوجی عورتوں کو جب اذیت ناک جنسی تجربے سے گزرنا پڑتا ہے تو انھیں حیرت زدہ نہیں ہونا چاہیے کہ عشروں اور زمانوں سے وہ اِسی فعل کا نشانہ بنتی چلی آرہی ہیں۔

  •   ویت نام کی جنگ اور اس کے بعد لڑی جانے والی [امریکی] جنگوں میں عسکری خدمات انجام دینے والے سابق فوجیوں کی ایک نفسیاتی معالج ڈاکٹر ماورین مردوخ (Maureen Murdoch) کا مطالعہ ۲۰۰۴ء میں تحقیقی مجلے ملٹری میڈیسن (Military Medicine) میں شائع ہوا ہے۔ اس مقالے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ: ’’مسلح افواج میں خدمات انجام دینے والی ۷۱ فی صد عورتوں نے بتایا ہے کہ ملازمت کے دوران ان کو زنا بالجبر کا شکار کیا گیا یا پھر جنسی طور پر نشانہ بنایا گیا‘‘۔
  •  ۲۰۰۳ء میں ایک ماہر نفسیات ڈاکٹر اینے سیڈلر (Anne Sadler) اور اس کی معاون ساتھیوں کے ویت نام جنگ سے لے کر عراق جنگ میں حصہ لینے والی امریکی فوجی عورتوں کے مشاہدات کے مطابق: ۳۰ فی صد عورتوں نے برملا اعتراف کیا کہ دورانِ ملازمت ہم زنا بالجبر کے صدمے سے دوچار ہوئیں۔ یہ مطالعہ امریکن جرنل آف انڈسٹریل میڈیسن (AJIM) میں شائع ہوا۔
  •  ۱۹۹۵ء میں ڈاکٹر ماورین مردوخ نے ایک تحقیقی مطالعہ کیا۔ اس کے مطابق عراق پر حملے، اور اس سے قبل کی جنگوں میں شریک [امریکی] فوجی عورتوں کے تجربات کے مطابق: ’’۹۰ فی صد کو جنسی طور پر ہراساں کیا گیا‘‘۔
  •   ۲۰۰۷ء میں سابق فوجیوں کے ادارے ’ڈیپارٹمنٹ آف ویٹرن افیرز‘ (DVA)نے ایک سروے کرایا جس میں معلوم ہوا کہ عراق اور افغانستان کی جنگ سے واپس لوٹنے والی سابق فوجی عورتوں میں سے ۴۰ فی صد عورتوں نے کہا کہ دورانِ ملازمت ہماری آبروریزی کی گئی۔

امریکی محکمہ عدل (ڈیپارٹمنٹ آف جسٹس) کے ۲۰۰۵ء میں تحقیقی مطالعے میں تسلیم کیا گیا ہے کہ اس فضا کے سبب صرف ۶۰ فی صد عورتیں مقدمے درج کراتی ہیں اور ۴۰ فی صد عورتیں خون کا گھونٹ پی کر رہ جاتی ہیں۔ فوجی زندگی کا معاملہ اس سے زیادہ بدتر جبر اور مخصوص گھٹن کی فضا سامنے لاتا ہے۔ایسی فضا میں رپورٹ کرنے والی خواتین کو پست، کمزور اور ڈرپوک (cowardly) نہیں کہا جائے گا تو اور کیا کہا جائے گا؟

ان وجوہ کے باعث [امریکی] افواج میں عورتیں آبروریزی کے ۸۰ فی صد واقعات کی کبھی رپورٹ درج نہیں کراتیں، اور پینٹاگون نے جس چیز کو اپنی رپورٹ ۲۰۰۷ء میں پیش کیا ہے، وہ ایک بڑے سمندری پہاڑ کا سطح آب پر نظر آنے والا محض چھوٹا سا حصہ ہے۔

گذشتہ دو برسوں کے دوران میں نے ۴۰ یا اس کے لگ بھگ سابقہ فوجی عورتوں کے انٹرویو کیے ہیں۔ ان میں سے دو عورتوں نے بتایاکہ: ’’عراق اور افغانستان میں تعیناتی کے دوران ہمارے ساتھی مردوں (کامریڈز) نے بڑے تسلسل کے ساتھ ہمیں جنسی طور پر ہراساں کیا‘‘۔ ایئرفورس کی سارجنٹ مارٹی ربیرو (Marti Ribeiro) نے ذاتی تجربہ بیان کیا: ’’ملازمت کے آٹھ برسوں میں تربیت، اور ۲۰۰۳ء سے ۲۰۰۶ء تک تعیناتی کے دوران مجھے بے دردی سے مسلسل جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا رہا ہے‘‘۔

اسی طرح ایک سابق فوجی خاتون نے بتایا: ’’آخر تھک ہار کے مجھے اپنی ہی طرح کے لباس میں، اپنی ہی فوج میں موجود دشمن (enemy)سے جنگ ختم کرنا پڑی۔ جہاں میں تعینات تھی، وہاں ایک نان کمیشنڈ سینیر افسر مجھے مسلسل ہراساں کرتا رہا۔ وہ بڑے تسلسل کے ساتھ، موقع پاتے ہی مجھ سے میری جنسی زندگی کے بارے میں سوال داغ دیتا۔ اپنی بیرک میں وقت بے وقت اور بالکل نامناسب اوقات میں مجھے طلب کرکے ایسے سوال کرتا، جن کو پوچھنے کا وہ کوئی حق نہیں رکھتا تھا۔ پھر میرے ایک کرنل صاحب نے کچھ اس انداز سے مجھے جنسی طور پر ہراساں کرنے کی کوشش کی کہ میں بیان بھی نہیں کرسکتی۔

۲۰۰۷ء میں پینٹاگون نے افواج میں جنسی حملوں کی رپورٹ میں بتایا ہے کہ: ’’۲۰۰۷ء میں آبروریزی کے ۴۷ فی صد مقدمات، تفتیش کے دوران معقول حوالے نہ ہونے کی وجہ سے مسترد کردیے گئے، اور صرف ۸فی صد مقدمات فوجی عدالت میں فیصلے کے لیے بھیجے گئے‘‘۔ یہ ادھوری تصویر اس کرب ناک صورت حال کو بخوبی واضح کردیتی ہے جسے جنسی تشدد کی شکار فوجی عورتیں  اپنے کانوں سے سنتی اور آنکھوں سے دیکھتی ہیں۔ عورتوں کے شکاری ان مردوں کو پینٹاگون،  سرزنش کرتے ہوئے عدالتی عمل سے بالا بالا، کچھ انتظامی تادیب کرکے بس فارغ کردیتا ہے۔ اس کے برعکس عام شہری زندگی میں جنسی تشدد کے ۴۰ فی صد مجرموں کو بہرحال سزا مل جاتی ہے۔

اس سنگین صورت حال میں بہتری لانے کے لیے حسب ذیل اصلاحات کو رواج دیا جائے:

  •    خواتین فوجیوں کو احترام دیا جائے اور انھیں ترقیاں دی جائیں۔ ہائی کمان کی طرف سے زیادہ احترام ملنے کے نتیجے میں وہ اپنے نچلے درجات کے مرد ساتھیوں کی زیادتی کا کم شکار ہوں گی۔
  •    فوجی افسروں اور ماتحت فوجیوں کو ذہن نشین کرایا جائے کہ زنابالجبر محض ایک تشدد نہیں، بلکہ جنگی جرم بھی ہے۔
  •    جو مرد اپنی ساتھی عورتوں پر جنسی حملہ کریں انھیں فوج سے برطرف کردیا جائے۔
  •    فوج کے اندر فواحش (پورنوگرافی) کی ترسیل کو سختی سے روک دیا جائے۔
  •     فوجی تربیت اور مشق کے دوران، جنس سے آلودہ زبان اور الفاظ کے استعمال کو ممنوع قرار دیا جائے۔
  •   افسروں کو تربیت دی جائے کہ وہ عورتوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور احترام سے پیش آئیں۔
  •   ایسے فوجی صلاح کاروں کو تربیت دی جائے کہ جو فوجی عورتوں اور مردوں کو صرف حالت ِ جنگ ہی میں سہارا نہ دیں، بلکہ اس کے ساتھ ان میں جنسی حملوں کے رجحان کے خاتمے اور بچپن میں پیش آنے والے ناروا رویوں کا نفسیاتی علاج بھی کریں۔
  •   آخر میں سب سے اہم بات یہ کہ عراق میں جنگ کو ختم کریں۔

تبصرہ از مترجم: اس مضمون کا تحقیقی معیار قابلِ قدر ہے، البتہ فاضل مصنفہ نے آخر میں جو حل تجویز کیا ہے،وہ ادھورا اور تضاد پر مبنی ہے۔ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مقالہ نگار اس الٰہی ہدایت سے آگاہ نہیں کہ جس میں خالقِ کائنات نے عورت اور مرد کو پیدا کرکے، انھیں ان کی فطرت کے مطابق فرائض سونپے ہیں۔

جس تہذیب نے انسان اور کائنات کو محض ایک حادثہ قرار دے کر نسلوں کی نسلیں پروان چڑھائی ہیں، اور انسان کو محض ایک جانور کی ترقی یافتہ شکل گردانا ہے، اور انسانی زندگی کو صرف لطف، سرور اور مادی کشاکش کا ڈراما قرار دیا ہے، وہاں بھلا کیسے اخلاقی معیار اور معاشرتی توازن قائم ہوسکتا ہے۔ اس توازنِ اخلاق و معاشرت کا نقاش تو صرف اللہ تعالیٰ ہی ہوسکتا ہے کہ جو کسی مادی فائدے کی طلب و حسرت سے بے نیاز اور اپنی مخلوق کے دلوں میں چھپے رازوں سے باخبر اور انھیں رہنمائی دینے والا ہے۔ یہ رہنمائی اس نے الہامی کتابوں اور پیغمبروں کے ذریعے عطا کی ہے۔

اس پس منظر میں دیکھا جائے تو یہ کوئی معمولی درجے کا مضمون نہیں ہے، بلکہ حسرتوں، عبرتوں اور نوحوں کی ایک دردناک داستان ہے۔ یہ مضمون تفریح طبع کا سامان مہیا نہیں کرتا، بلکہ قائدانہ مقام کی حامل تہذیب کے رِستے ہوئے ناسور پر نشتر زنی کرتا ہے۔

آخر میں سوال یہ ہے کہ پاکستان کے فعال جنگی اداروں میں عورتوں کی تعیناتی ہمارے کس تہذیبی پیمانے سے مناسبت رکھتی ہے؟ کیا اس دیوانگی کے نتیجے میں ’مزید کرو‘ (do more) کی رسیا وہ مغربی دنیا واقعی ہم پر مہربان ہوجائے گی، جسے اصل چڑ اس بات سے نہیں ہے کہ  ہمارے آئینی یا فوجی اداروں میں عورتوں کو بھرتی کیوں نہیں کیا جا رہا ہے، بلکہ ان کے لیے اصل مسئلہ خود ’مسلمان اور اسلام‘ ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو بے چارے مغرب زدہ مسلمان اور خود مغرب میں مسلمان ملک بوسنیا اور کوسووا کے مسلمانوں کو عہدِحاضر کی بدترین قتل و غارت گری کا نشانہ نہ بننا پڑتا۔

اسی طرح یہ حیلے بازی بھی کسی واقعاتی یا فکری دیانت سے مناسبت نہیں رکھتی کہ ایسے تمام فیصلے اکیلے جنرل مشرف نے کیے تھے۔ نہیں، یہ فیصلے لازماً ہماری مسلح افواج کے اداروں ہی نے ’مشرف‘ کی صدارت میں کیے تھے۔ اب ان کے لیے بہتر راستہ یہی ہے کہ وہ مے خانۂ مغرب کے احوال سے اور اپنے زمان و مکان کے فساد سے عبرت حاصل کریں۔ عورتوں کو پائلٹ بناکر  فضائوں میں اڑانے، اور مسلح افواج میں کمیشن دے کر یونٹوں میں خوار کرنے، اور رینجرز میں بھرتی کرکے سرحدوں کی چوکیداری کرانے یا سڑکوں، چوراہوں اور شاہراہوں پر دوڑانے کے جاہلانہ فیصلوں کو واپس لیں۔ قوم کی بچیوں کو عزت، تحفظ اور آسودگی کے ساتھ خدمات انجام دینے کے متبادل مواقع مہیا کیے جاسکتے ہیں، لیکن انھیں ’نمایشی گڑیا‘ بناکر مغربی فرعونوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی ’روشن خیالی‘ پر مبنی عیاشی کی یہ قوم، یہ ملّت، یہ تہذیب اور یہ دین اجازت نہیں دیتے۔

 

مسئلہ جبروقدر: چند الجھنیں

سوال: فرض کیجیے کہ ایک شخص نہایت نیک اور پرہیزگار ہے اور وہ اپنی ساری عمر خدا کی بندگی اور اطاعت میں گزارتا ہے مگر موت کے قریب وہ ایک سخت جان لیوا بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے اور تکلیف کی شدت اس قدر بڑھ جاتی ہے (آخر ہر انسان کی برداشت کی ایک حد ہے) کہ وہ نعوذ باللہ کفریہ کلمات کہنے لگتا ہے اور اسی پر اُس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ دوسری طرف ایک ایسا شخص ہے جس کی ساری عمر گناہوں میں گزری اور جس نے کبھی بھولے سے بھی کوئی نیک کام نہیں کیا۔ اُس کی موت کے بالکل قریب اُسے کسی ذریعے سے ہدایت مل جاتی ہے اور اُس پر اُس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ مذہبی عقیدے کے مطابق پہلا شخص جہنمی، جب کہ دوسرا جنتی ہے۔ کیا   یہ ناانصافی نہیں ہے کہ ساری عمر کی غلامی کو محض ایک نافرمانی پر نظرانداز کردیا جائے  اور دوسری طرف ساری عمر کی نافرمانی کو محض چند لمحات کی اطاعت کی وجہ سے معاف کردیا جائے؟

میرے ذہن میں جبروقدر کے مسئلے کے حوالے سے چند اُلجھنیں ہیں۔ اس ضمن میں چند سوالات درج ذیل ہیں:

۱- قرآن و حدیث کے مطابق انسان کو اِس دنیا میں عمل کی آزادی عطا کی گئی ہے جس کا حساب اُسے آخرت میں دینا پڑے گا۔ انسان کو ارادے کی آزادی ہے اور اُس کی جواب دہی آخرت میں ہوگی تو مختلف اقوام کو سزا اسی دنیا میں کیوں دی گئی؟

۲- ایک شخص آسودہ حال ہے اور وہ نیک اور پرہیزگار ہے۔ دوسری طرف ایک شخص کو زندگی بھر مصائب و آلام کا سامنا ہے اور قدم قدم پر وہ سخت آزمایش سے دوچار ہوتا ہے۔ اس کے لیے ایمان لانا،ارکانِ دین پر عمل کرنا اور نیک زندگی گزارنا بہت مشکل ہے۔ اگر وہ کسی نہ کسی طرح اس میں کامیاب ہوجاتا ہے تو آخرت میں اُسے بھی اُس جنت کا انعام دیا جائے گا جو پہلی قسم کے شخص کودیا گیا۔ کیا یہ صریح ناانصافی نہیں ہے؟

۳- ایک سوال جو بظاہر سب سے سادہ لیکن درحقیقت سب سے پیچیدہ ہے وہ یہ ہے کہ خدا نے ہمیں اِس دنیا میں کیوں بھیجا ہے؟ ہماری تخلیق کیوں کی گئی ہے؟ کیا محض اس لیے کہ وہ یہ دیکھ سکے کہ کون اُس کی اطاعت کرتا ہے اور کون نہیں اور پھر پہلی قسم کے لوگوں کو ہمیشہ کے لیے خوشیوں اور رحمتوں بھری جنت اور دوسری قسم کے لوگوں کو ہمیشہ کے لیے بھیانک آگ میں جلا سکے؟

جواب: تقدیر کے مسئلے میں آپ کو جو الجھن پیش آئی ہے ، اس کی تین وجوہ ہیں:

ایک یہ کہ آپ نے صرف جزا و سزا کے پہلو پر نظر ڈالی ہے۔ یہ نہیں سوچا کہ انسان کو جو نعمتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملی ہوئی ہیں، اتنی قیمتی ہیں کہ دنیا کے تمام انسان، تمام حکومتیں، تمام ڈاکٹر، تمام اطبا اور تمام دولت مند جمع ہوکر اپنی ساری قوتیں، صلاحیتیں اور اموال بھی صرف کریں تووہ سب مل کر انسان کو دل و دماغ اور دوسری جسمانی قوتیں نہیں دے سکتے اور نہ زندگی کی نعمت سے سرفراز کرسکتے ہیں۔ تب ایک انسان پر اللہ تعالیٰ کی کتنی مدت کی عبادت اور اطاعت لازم آتی ہے اور کیا کوئی بھی انسان اس کی عطاکردہ زندگی کا حق ادا کرسکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ اگر انسان ساری زندگی اللہ کی عبادت میں گزار دے، تب بھی وہ سابقہ نعمتوں کا حق ادا نہیں کرسکتا چہ جائیکہ وہ اس پر جنت کا حق دار ہو۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کسی کو اس کا عمل جنت میں داخل نہیں کرے گا۔ حضرت عائشہؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! آپؐ کو بھی نہیں۔ اس پر آپؐ نے فرمایا: ہاں، میں بھی جنت میں اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی سے داخل ہوںگا۔ اس لیے اہلِ اسلام کا عقیدہ ہے کہ جنت اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ تب وہ آدمی جو ساری عمر اسلام پر قائم رہا آخر میں اللہ کی طرف سے سخت تکلیف آئی تو وہ زندگی بھر کی نعمتوں کو بھول کر تھوڑے عرصے کی تکلیف سے، جو آخرت کی دائمی راحتوں کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں، دین سے بیزار ہوگیا تووہ جنت کا کیسے مستحق ہوسکتا ہے؟

رہی یہ بات کہ جب ارادے کی آزادی حاصل ہے تو اللہ تعالیٰ دنیا میں سزا کیوں دیتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ارادے کی آزادی بے شک اللہ تعالیٰ نے دی ہے لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ اگر آدمی اپنے ارادے کو غلط استعمال کرتا رہے تو اس کو دنیا میں کھلی آزادی دے دی جائے کہ وہ لوگوں کے حقوق پر ڈاکے ڈالتا رہے، لوگوں کوقتل کرتا رہے اور اہلِ ایمان اور انبیا کو اذیتیں پہنچاتا رہے۔ اگر اس طرح سے آزادی دے دی جائے تو پھر دنیا ظلم سے بھر جائے۔ ایمان و اسلام والے دنیا میں زندہ نہ رہ سکیں۔ دنیا نمرودوں، فرعونوں، قارونوں اور ہامانوں سے بھرجائے۔ آج جو ظلم کفار اور ان کے اتحادیوں نے برپا کیا ہے، وہ برپا رہے اور ایمان والے ذلیل و خوار ہوجائیں۔اس کا علاج یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ظالموں کو مہلت ِ عمل کے بعد پکڑے تاکہ اہلِ ایمان خوش ہوجائیں اور انھیں سکون ملے۔ یہ بات معقول ہے۔ قرآن پاک بیان کرتا ہے کہ ’’ان قصوں میں دانش مندوں کے لیے عبرت ہے‘‘۔

دوسری چیز جو آپ نے نظرانداز کی ہے وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ رحمن ورحیم ہے اور اس کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے۔ دوزخ میں وہی جائے گا جو خود دوزخ میں جانا چاہتا ہے۔

تیسری چیز جسے آپ نے نظرانداز کیا ہے وہ یہ کہ ہمارا علم ناقص ہے اور اللہ تعالیٰ کا علم، علمِ محیط ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ انسان اس کی بندگی کریں، اپنے ارادے اور اختیار سے وہ اللہ پر ایمان لائیں اور جنت میں جائیں۔ اگر کفر کریں تو دوزخ میں جائیں۔ اللہ تعالیٰ کو جو انسان کا خالق و مالک ہے، حق ہے کہ انسانوں کو آزمائے، جنت اور دوزخ میں داخل کرے جب کہ وہ نبیوں، رسولوں اور کتابوں کے ذریعے انسان پر اتمامِ حجت کرچکا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے انبیا علیہم السلام بھیجے۔ انھوں نے انسانوں کو دوزخ سے بچانے کے لیے دوڑ دھوپ کی، تکلیفیں اٹھائیں۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی ضد اور عناد کی وجہ سے ایمان نہ لائے بلکہ کفر پر قائم رہے، اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے پر تلا رہے تو پھر اس کی جگہ دوزخ ہی ہونی چاہیے۔

آخری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی انسان کے سامنے جواب دہ نہیں ہے۔ قیامت کے روز حساب و کتاب ہوگا۔ اعمال نامے ہرانسان کے سامنے ہوں گے۔ ان کو میزان میں تولا جائے گا اور انسان بول اُٹھے گا کہ اللہ تعالیٰ نے عدل کیا ہے، جب کہ ظالم اپنے ظلم کا اعتراف کرکے دوزخ میں داخل ہوں گے۔ لہٰذا انسان کو چاہیے کہ اپنے آپ کو اپنے خالق و مالک کے سپرد کردے، اور وسوسوں کا جواب اعوذ باللّٰہ من الشیطن الرجیم پڑھ کر دے۔ اللہ ہم سب کو ہدایت دے، آمین!(مولانا عبدالمالک)

زکوٰۃ، حج، میراث

س: ۱- ایک عورت نے جس کی عمر ۵۲ سال ہے، اب شادی کی ہے۔ اس کے پاس نقد رقم نہیں ہے۔ ضرورت سے زائد کپڑے اور زیورات ہیں۔ خاوند نے اسے زکوٰۃ کے لیے کہا ہے۔ کیا وہ صرف ایک سال موجودہ کی زکوٰۃ دے یا سابقہ سب برسوں کی؟

۲- زیور بیچ کر حج کے لیے رقم بن جاتی ہے۔ کیا محرم کا انتظار کرے یا خاوند کو ’حجِ بدل‘ کے لیے بھیج دے؟ اس کے خاوند نے پہلے تین حج کیے ہوئے ہیں لیکن چوتھی بار یا  بطور محرم کے جانے کے لیے استطاعت نہیں ہے۔

۳- حجِ بدل کی صورت میں میاں بیوی کو برابر کا ثواب ملے گا یا بیوی کے ثواب میں کمی واقع ہوگی؟ بیوی کی صحت حج کی اجازت نہیں دیتی۔

۴- کیا بنک میں زیور شرعاً جمع ہوسکتے ہیں، جب کہ استعمال بھی نہیں کرنے ہیں؟

۵- ایک ۶۶ سالہ مرد ایک بچیوں کے مدرسے کا مہتمم ہے، معلمات سب خواتین ہیں۔ ضرورت پر مہتمم بچیوں کے چہرے کی طرف دیکھ سکتا ہے یا حجاب کرے؟

۶- عشر، زکوٰۃ، نمازوں کا کفارہ اور قربانی کی کھالیں، گلیوں کی تعمیر پر خرچ ہوسکتی ہیں یا نہیں؟ مقامی بچوں کی قرآن خوانی کی تعلیم پر مذکورہ بالا آمدن خرچ ہوسکتی ہے؟ کیا رہایشی بچوں کا مدرسہ (غیرمقامی) مدرسہ کی تعریف میں آئے گا۔

۷- شادی کے بعد عورت کے جہیز میں مرد کا حصہ بھی ہے یا عورت تنہا مالکہ ہے؟   اٹے وٹے (ادلے بدلے) کی شادی ہوئی۔ ایک سال بعد ایک عورت زچگی کے وقت فوت ہوگئی ہے جب کہ دوسری اپنے گھر آباد ہے۔ کیا فوت ہوجانے والی عورت کے جہیز کا خاوند مالک ہے یا والدین واپس لے سکتے ہیں؟

ج:  آپ کے سوالات کے جواب درج ذیل ہیں:

۱- زیورات ضرورت سے زائد مال ہے۔ اس لیے اس کی زکوٰۃ اتنے برسوں کی دینا ہوگی جتنے برسوں کی زکوٰۃ باقی ہے۔

۲- حج عورت پر اس وقت فرض ہوتا ہے، جب اس کے پاس اپنے لیے اور محرم کے لیے زادِ راہ ہو یا محرم اپنے طور پر خرچ کرسکتا ہو اور وہ بھی حج پر جا رہا ہو۔ لہٰذا ایسی عورت پر جس کے پاس محرم یا شوہر کے لیے خرچ کی استطاعت نہ ہو اور اپنے خرچ پر جانے والا شوہر یا محرم نہ ہو تو  اس پر حج فرض نہیں ہوتا۔

۳- حجِ بدل فرض میں ہوتا ہے، نفلی حج میں حجِ بدل نہیں ہوتا۔ چونکہ آپ نے جس خاتون کے بارے میں سوال کیا ہے اس پر حج فرض نہیں، اس لیے حجِ بدل بھی نہیں۔

۴- بنک میں زیور جمع ہوں تو اس کا عوض نہیں لے سکتے، اس لیے اپنے پاس رکھیں یا بنک میں جمع کرا دیں، اس پر کوئی معاوضہ نہ لیں۔

۵- مہتمم ۶۶ سالہ کے لیے بھی ضروری ہے کہ طالبات اس سے پردہ کریں، خصوصاً آج کل کے دورِ پُرفتن میں بہت زیادہ ضروری ہے۔

۶- عشر، زکوٰۃ، نمازوں کا کفارہ، قربانی کی کھالوں کا مصرف، فقرا، مساکین اور زکوٰۃ کی مدات ہیں۔ گلیوںکی تعمیر میں یہ رقوم نہیں لگ سکتیں۔ مقامی بچوں کے مدرسے کو عطیات سے چلایا جائے۔ زکوٰۃ صرف ایسے مدارس کو دی جائے جہاں رہایشی طلبہ ہوں اور وہ فقرا اور مساکین ہوں، اپنا خرچ خود نہ اُٹھا سکتے ہوں۔

۷- جہیز عرف میں عورت کی مِلک میں ہوتا ہے، سوائے اس سامان کے جو مرد کے استعمال کے لیے خاص ہو۔ لہٰذا عورت کی وفات کے بعد حصصِ وراثت کے مطابق تقسیم ہوگا۔ واللّٰہ اعلم! (ع - م )

 

دہشت گردی اور مسلمان، (عالمِ اسلام کا مقدمہ، عالمی ضمیر کی عدالت میں)، ثروت جمال اصمعی۔ ناشر: انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، نصر چیمبرز، بلاک ۱۹، مرکز ایف سیون، اسلام آباد۔  فون: ۲۶۵۰۹۷۱-۰۵۱۔ صفحات: ۲۵۰ ۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔

نائن الیون سے لے کر اب تک زبردست ابلاغی مہم کے ذریعے دنیا بھر کے انسانوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ لاقانونیت، فسطائیت، جبروتشدد اور ظلم و زیادتی کے ہر بڑے واقعے کے پیچھے مسلمانوں کا ہاتھ ہے۔ اِس طاقت ور مہم کا مقصد صرف یہ ہے کہ مسلمان نہ صرف اپنی تہذیب و ثقافت، براے نام اقتدار اور شناخت سے محروم ہوجائیں بلکہ دہشت گردی کی عالم گیر جنگ کے دست و بازو بن کر ہر اُس علامت کو بیخ و بن سے اُکھاڑ پھینکیں جس کا تعلق قرآن، شریعت، اسلامی نظام یا مسلم طرز زندگی سے ظاہر ہوتا ہو۔

ثروت جمال اصمعی نے اس کتاب میں دلائل کے ساتھ یہ ثابت کیا ہے کہ انصاف کے کٹہرے میں کھڑا مسلمان سب سے بڑا ظالم نہیں بلکہ سب سے بڑا مظلوم ہے۔ جس عالمی استعمار نے سوپرپاور کے سائے تلے ایران، عراق، لبنان، افغانستان، فلسطین، بوسنیا میں مقتل سجائے ہیں، وہی اصل ظالم و جابر ہے، اور اس کی سازشوں کو سنجیدگی سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔

پروفیسر خورشیداحمد نے دیباچے میں تحریر کیا ہے کہ: مغربی اور امریکی مآخذ سے آنے والی چشم کشا دستاویزات کو بنیاد بناکر ثروت جمال اصمعی نے اس کتاب میں عالمِ اسلام کا موقف اور مقدمہ عالمی راے عامہ کے سامنے پیش کردیا ہے۔ ان کا اسلوب سادہ، منطقی، غیرجذباتی اور ہرانصاف پسند کو اپیل کرنے والا ہے۔

کتاب ۱۵ ابواب پر مشتمل ہے۔ مصنف نے بہ دلائل یہ ثابت کیا ہے کہ مغرب آمروں کا سرپرست ہے۔ نائن الیون یہود امریکی سازش تھی۔ افغانستان پر حملے کا مقصد دراصل کیسپین کے تیل تک رسائی حاصل کرنا تھا۔ عراق کو سُنّی شیعہ اور کُرد علاقوں میں تقسیم کرنے کی سازش برسوں قبل تیار کی گئی تھی۔ مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے سفید جھوٹ جس طرح گھڑے جاتے ہیں ان کی مثالیں بھی دی گئی ہیں۔ علاوہ ازیں سعودی عرب اور پاکستان بھی اُن کے اگلے اہداف میں شامل ہیں۔ اسرائیل کی حمایت میں واشنگٹن نے گذشتہ ۶۱ برس میں جو اقدامات کیے ہیں اور جس طرح تل ابیب کو قوت اور عالمِ عرب کو ہزیمت پہنچائی گئی ہے، اس کا مفصل تذکرہ ہے۔ اس ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے تھنک ٹینک، قرض فراہم کرنے والے ادارے، سرکاری ایوان اور غیرسرکاری تنظیمیں جس طرح سے کام کر رہی ہیں، اُس کا بخوبی احاطہ کیا گیا ہے۔ آخر میں اس گرداب سے نکلنے کے لیے مسلم حکمرانوں، اسلامی تحریکوں، غیرسرکاری تنظیموں اور اہلِ فکر و دانش کے لیے جو حل تجویز کیا گیا ہے وہ بھی تفصیلی مطالعے کا حق دار ہے۔

نیلسن منڈیلا سے منسوب یہ جملہ خصوصی توجہ کا مستحق ہے کہ ’مسلمان اپنا مقدمہ مغرب کے حکمرانوں کے سامنے پیش کرتے ہیں، جب کہ ہم نے اپنا مقدمہ مغرب کے عوام کے سامنے پیش کیا‘‘۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں کا مقدمہ اور نقطۂ نظر عالمی راے عامہ کے سامنے ناقابلِ تردید حقائق اور شواہد کے ساتھ پیش کیا جائے۔ مغرب میں اسلام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور اہلِ علم اور عوام کی سطح پر مسلمانوں کے موقف کو جاننے کی خواہش کے پیشِ نظر، بقول مصنف:  ’’اگر مغربی پالیسی سازوں کے مسلمانوں کے خلاف الزامات اور مہم جوئی کے اصل مقاصد، مغرب کے عام لوگوں کے سامنے سلجھے ہوئے انداز میں واضح کیے جائیں، اور مسلمان مغربی راے عامہ کی عدالت میں اپنا مقدمہ مستحکم دلائل و شواہد کے ساتھ پیش کریں تو ان کی یہ کوشش بے نتیجہ نہیں    رہے گی‘‘۔ (ص ۱۲)

زیرنظر کتاب اسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ایک اہم کاوش ہے۔ حکمرانوں کو شیشے میں اُتارنے، نوجوان نسل کو جدید تعلیم، تعلیمی اداروں اور انٹرنیٹ کے ذریعے ’آزاد کلچر‘ سے روشناس کرانے اور عراق و افغانستان کے بعد لبنان، شام، پاکستان اور سعودی عرب کی اسلامی افواج کو استعمار کے غلام بنانے کے لیے جو سازشیں تیار کی جارہی ہیں، ان کے تفصیلی جائزے کے لیے بھی مصنف کو مذکورہ موضوعات پر قلم اٹھانا چاہیے۔ اسلام، عالم اسلام اور مسلمانوں کے مستقبل سے  دل چسپی رکھنے والے ہر شخص کو اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ (محمد ایوب منیر)


Islam: Essence and Spirit [اسلام: حقیقت اور روح]، محمد زبیر فاروقی۔ ناشر: دعوہ اکیڈمی، انٹرنیشنل اسلامک یونی ورسٹی، اسلام آباد۔ صفحات: ۹۸۔ قیمت: ۷۰ روپے

اسلام، پیغمبرؐاسلام اور اسلام کے معاشی، معاشرتی اور سیاسی نظام کے خلاف جس قدر مضامین، تجزیے، ریسرچ رپورٹیں اور کتابیں منظرعام پر آچکی ہیں، اُن کو مدنظر رکھا جائے تو مسلم دنیا کا ردعمل محدود بلکہ نہ ہونے کے برابر محسوس ہوتا ہے، تاہم موقع بہ موقع ایسی کتابیں منظرعام پر آتی رہتی ہیں جن سے یہ تاثر دُور ہوتا ہے۔

محمد زبیر فاروقی پیشے کے لحاظ سے انجینیرہیں۔ قبل ازیں اُن کی کتاب اسلام اور اُمت مسلمہ کو درپیش جدید چیلنج کے موضوع پرIslam, The Muslim World Community and Challenges of the Modern Age کے نام سے ۱۹۹۷ء میں شائع ہوچکی ہے۔ زیرنظر کتاب اس کا تسلسل ہے۔

پیش لفظ میں ظفر اسحاق انصاری کے اس نقطۂ نظر سے اتفاق کیا جانا چاہیے کہ مغربی ممالک اور مغربی عوام میں اسلام اور اسلامی تعلیمات کے بارے میں غلط فہمی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ کسی بھی اسلامی ملک میں، اسلامی شریعت کو بھرپور طریقے پر نافذ نہیں کیا گیا ہے، نہ اس کے نفاذ کی عملی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اس صورت حال میں مسلمانوں کو دہشت گرد، تنگ نظر اور امنِ عالم کا ’دشمن‘ قرار دینے کی دوڑ نہ ہو تو کیا ہو؟

چھوٹے چھوٹے مضامین میں انصاف، توازن، سماجی شعور، ایمان، توحید، شانِ رسالتؐ، نظائر کائنات، تحصیلِ علم، ماحولیاتی امور، دورِصحابہؓ اور جدید چیلنجوں، مثلاً جوہری توانائی، سماجی ارتقا، میڈیا وار اور اسلام کے خلاف جنگ کو قرآن و حدیث اور مؤثر دلائل کے ساتھ موضوع بحث بنایا گیا ہے۔

اس کتاب میں خاندانی نظام اور اسلام کی اقتصادی برکات اور اسلامی احیا کے موضوعات کو بھی شامل کرلیا جاتا تو اس کی افادیت میں اضافہ ہوجاتا۔ (م - ا- م)


شہدا کی سرزمین وادیِ بالاکوٹ، ریاض احمد۔ ناشر: حرا بک سنٹر، ۱۳۷- اے، فرسٹ فلور، برنی پلازا، بالاکوٹ۔ صفحات:۱۶۸۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

وادیِ بالاکوٹ، جنت نظیر وادی ہونے سے زیادہ سیداحمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید اور ان کی تحریک مجاہدین کے حوالے سے پہچانی جاتی ہے۔ اکتوبر ۲۰۰۵ء میں آنے والے زلزلے نے اس وادی کو ایک اور زاویے سے شہرت دی اور یہ علاقہ زلزلے سے بری طرح متاثر ہوا۔

زیرنظر کتاب وادیِ بالاکوٹ کے ایک جامع مطالعے کی حیثیت رکھتی ہے۔ مصنف نے بڑی عرق ریزی سے وادیِ بالاکوٹ کی تاریخ، جغرافیے، محل وقوع، آبادی، تعلیمی صورت حال، آب و ہوا، تاریخی اہمیت، پہاڑ، جنگلات، فصلوں، جانوروں، شکار، کھیلوں، قوموں، قبیلوں، رسم و رواج، لباس و خوراک غرضیکہ مختلف پہلوؤں پر تحقیق کر کے وادی سے متعلق بنیادی معلومات کو یک جا کردیا ہے۔ فاضل مصنف نے تحریکِ مجاہدین، سیداحمد شہیداور شاہ اسماعیل شہید کے تذکرے کے ساتھ مختصراً کشمیر و افغانستان کے شہدا کے حالاتِ زندگی بھی قلم بند کردیے ہیں۔

اس کتاب کا ایک نمایاں پہلو اکتوبر ۲۰۰۵ء میں آنے والے خوفناک اور ہلاکت خیز زلزلے کے پس منظر اور پیش منظر کا تجزیہ کرتے ہوئے قرآن وسنت کی روشنی میں اللہ کی طرف سے قوموں کی آزمایش اور عذاب کا جائزہ لینا ہے۔ وادی کی خوب صورت تصاویر کے علاوہ زلزلے سے وادی کے مختلف علاقوں میں تباہی کی تصاویر بھی شاملِ اشاعت ہیں، نیززلزلے کے پہلے اور زلزلے کے بعد کی احتیاطی تدابیر کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔

ایک اور اہم موضوع امدادی اداروں اور این جی اوز کی سرگرمیوں کا جائزہ اور ان کے پس پردہ مقاصد کا تجزیہ ہے کہ یہ ادارے مسلمانوں میں کام کرتے ہوئے کس طرح مسلمانوں کو دیگر مذاہب کی طرف راغب کرتے ہیں۔ خوب صورت سرورق کے ساتھ وادیِ بالاکوٹ پر یقینا یہ ایک جامع کتاب ہے۔ (پروفیسرمیاں محمد اکرم)


سیارہ (سالنامہ ۲۰۰۸ء)، مدیر: آسی ضیائی، حفیظ الرحمن احسن۔ ملنے کا پتا: ایوانِ ادب، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۴۲۰۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

علمی و ادبی مجلہ سیارہ تعمیری اور فلاحی ادب کا نقیب ہے۔ اس کے مؤسس نعیم صدیقی مرحوم تھے جو اپنی دیگر مصروفیات کے ساتھ ساتھ سیارہ کو ایک معیاری ادبی جریدہ بنانے کے لیے عمربھر کوشاں رہے۔ اُن کی وفات کے بعد اُن کے رفقاے کار آسی ضیائی اور حفیظ الرحمن احسن اس کارِخیر کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

یہ شمارہ مختلف شعری و نثری اصناف سے عبارت ہے۔ غزلیات، منظومات، حمدیہ و نعتیہ  کلام کے ساتھ ساتھ تحقیقی و تنقیدی مقالات، افسانہ، انشائیہ، مزاح، غرض ہر صنفِ ادب کی نمایندگی موجود ہے۔’داناے راز‘ کے عنوان سے تفہیمِ اقبال سے متعلق گوشے میں ایک مذاکرہ اور دو مضامین شامل ہیں۔ مضامین ڈاکٹر عبدالمغنی اور ڈاکٹر مقبول الٰہی کے ہیں جن میں باترتیب ’طلوعِ اسلام‘اور ’قادیانیت اور اقبال‘ کا مطالعہ کیا گیا ہے۔ مذاکرہ ڈاکٹرنیرمسعود (لکھنؤ)، شمس الرحمن فاروقی (الٰہ آباد) اورعرفان صدیقی مرحوم (بھارت) کے مابین ہے۔ گوشے ہی کا نہیں پورے رسالے کا اہم ترین حصہ ہے۔ یہ مذاکرہ لکھنؤ ریڈیو سے نشر ہوا تھا۔ اس کی تحریری صورت اس رسالے میںشامل کی گئی ہے۔ موضوع شعرِاقبال کی مختلف جہتیں ہیں۔

مقالات کے حصے میں مختلف موضوعات پر انورسدید، عاصی کرنالی، محمدسلیم ملک، جمیل یوسف، مجاہد سید، ضیغم شمیروی اور ممتاز عمر کے مقالے شامل ہیں۔ ایک گوشہ م-نسیم کی یاد میں قائم کیا گیا ہے۔ م-نسیم ۲۰۰۷ء میں انتقال کرگئے تھے اور برعظیم پاک و ہند کی اُردو ادبی دنیا میں بطور افسانہ نگار معروف تھے۔ اس گوشۂ خاص میں اُن کی خدماتِ عالیہ کا جائزہ لیا گیا ہے۔

’رفتگاں‘ کے تحت شعیب عظیم اور علامہ قمررعینی، حامدحسین اور ضیا محمد ضیا کو خراجِ عقیدت پیش کیا گیاہے۔ اس کے علاوہ پچھلے ایک سال کے دوران وفات پانے والے اُردو دنیاکی اہم شخصیات کا مختصر ذکر شامل ہے۔

مجلے میں ۲ انشایئے اور ۶ افسانے بھی شامل ہیں۔ بازنوشت کے طور پر قرۃ العین حیدر اور ذوالفقارتابش کی تحریریں شاملِ اشاعت ہیں۔مکاتیب کے گوشے میں خطوطِ فرخ درانی بنام  جعفر بلوچ موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر مقبول الٰہی سے مکالمہ بھی اس شمارے کا حصہ ہے۔ غیرملکی ادب کی نمایندگی بھی ہے اور ایک فارسی نثریے کا ترجمہ ’فاتح رومی‘ کے نام سے جلیل نقوی نے    کیا ہے۔

شاعری (غزلیات اور منظومات) میں شان الحق حقی، نعیم صدیقی، انورسدید، ناصرزیدی، رومی کنجاہی، قاضی حبیب الرحمن، غالب عرفان اور آسی ضیائی کے علاوہ دیگر متعدد شعرا کی غزلیات سیارہ کا حصہ ہیں۔ منظومات میں نعیم صدیقی، علیم ناصری، انورمسعود، جعفر بلوچ، تحسین فراقی اور حفیظ الرحمن احسن کے اسما نمایاں ہیں۔

آخر میںتقریباً ۱۹ کتب پر تبصرے شامل کیے گئے ہیں اور ادارے کے نام مختلف احباب کے خطوط شائع کیے گئے ہیں۔ غرض یہ رسالہ اپنی تعطلِ اشاعت کے باوجود، ادبِ اُردو کی خدمت کی اپنی قابلِ ستایش کوشش کیے جا رہا ہے۔ (ساجد صدیق نظامی)


ڈاکٹر عبدالخالق: حیات و خدمات، میاں خالد محمود۔ ملنے کا پتا: دارالاصلاح، بھائی پھیرو، ملتان روڈ، ضلع قصور۔ صفحات: ۴۲۶۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔

ڈاکٹر عبدالخالق مولانا مودودیؒ کے دیرینہ رفیق اور جماعت اسلامی کے بزرگ رکن تھے۔ زیرنظر کتاب ان کی حیات و خدمات کا تذکرہ ہے۔ مرحوم اخلاص، فقرو درویشی اور اعلیٰ اخلاق کے سراپا اور مثالی مبلغ و داعی الی اللہ تھے۔ مولانا مودودی کی ہدایت پر بھائی پھیرو کو دعوتِ دین اور شہادتِ حق کے فریضے کی ادایگی کے لیے تاحیات اپنا مسکن بنایا اور دارالاصلاح کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ ماہر چشم ہونے کے ناطے جہاں جسمانی امراض کا علاج کرتے، وہاں روحانی تزکیے کا بھی سامان کرتے، نیز لوگوں کے دکھ درد میں شریک ہوتے اور ان کے مسائل کے حل کے لیے بھرپور کوشش کرتے۔

تفہیم القرآن سے ان کو خصوصی شغف تھا۔ اسی کی بنیاد پر درس قرآن دیتے اور تفہیم القرآن کلاس کا باقاعدہ اجرا کراتے۔ کارکنوں کو ہدایت کرتے تھے کہ بلاناغہ اس کا مطالعہ کریں۔ بنیادی طور پر کتاب مصنف کی ڈائری ہے جس سے مرحوم کی شخصیت، جدوجہد اور خدمات کا بخوبی احاطہ ہوجاتا ہے۔ ذکرو اذکار، روحانیت اور شرکاے پروگرام کی تواضع کا خصوصی اہتمام ان کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو تھا۔ دعوت و تربیت اور کردار سازی کے لیے مفید رہنمائی ہے۔ (امجد عباسی)


اہم کام پہلے، اسٹیفن آر کووے، اے روجر میرل، ربیکا آر میرل، مترجم: حافظ مظفرمحسن۔ملنے کا پتا: علم و عرفان پبلشرز، اُردو بازار، لاہور- فون: ۷۳۵۲۳۳۲۔ صفحات: ۳۸۴۔ قیمت: ۲۵۰روپے۔

مقاصدِحیات کے تفاوت سے قطع نظر ،مشرق و مغرب میں آسودگی، بہتر زندگی گزارنے اور کامیابی کی خواہش اکثر لوگوں میں صدیوں سے نہ صرف موجود ہے بلکہ روز بروز بڑھ رہی ہے۔ ترقی یافتہ قوموں نے محنت کی عادت اور وقت کی بہتر تنظیم اور استعمال کے ذریعے زندگی گزارنے کے سلیقے سیکھ لیے اور ان کے ہاں دانش ور، ماہرین نفسیات اور ماہرین سماجیات نت نئے طریقوں سے عوام کو آگاہ کرتے ہیں کہ منصوبہ بندی اور سوچ بچار سے کس طرح زندگی گزارنے کے لیے ترجیحات کا تعین کیا جائے۔ زیرنظر کتاب میں بھی انھی ترجیحات کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔

کتاب ۴ حصوں اور ۱۵ ابواب پر مشتمل ہے۔ اس میں ایسے محنتی اور ذہین لوگوں کے تجربات بھی مذکور ہیں جنھوں نے اپنی ذہانت سے مشکلات پر قابو پایا اور زندگی میں ترجیحات کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ کام کی نوعیت اور اہمیت کو سمجھا جائے اور اہمیت کی شناخت ہی زندگی کے حقیقی رُخ کی سمت نما ٹھیرتی ہے۔ مصنفین کا کہنا ہے کہ اہم کام پہلے ہی حقیقی رُخ ہے۔ کتاب میں وقت کی تنظیم (ٹائم مینجمنٹ) کا نظریہ ایک نئے انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ ترجیحات کے تعین کے لیے عملی تدابیر بتائی گئی ہیں، نیز پُرسکون اور کامیاب زندگی کے لیے عملی رہنمائی دی گئی ہے۔ کتاب ذرا ٹھیرٹھیر کر پڑھنے کا تقاضا کرتی ہے۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)


شہید ناموسِ رسالتؐ، رانا عبدالوہاب۔ ناشر: ادارہ مطبوعات طلبہ، ۱-اے،ذیلدار پارک، اچھرہ، لاہور۔ صفحات: ۱۷۴۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔

علامہ اقبال نے ایک موقع پر مسلمانوں کی بے حسی کے پیش نظر انھیں راکھ کا ڈھیر قرار دیا تھا مگر راکھ کے اس ڈھیر کے اندر کہیں کہیں چھپی چنگاریاں بھی موجود ہیں جو جذبۂ عشق رسولؐ کی بدولت شعلۂ جوالہ بن جاتی ہیں۔ عامر عبدالرحمن چیمہ بھی ایسی ہی ایک چنگاری تھا جس نے ناموسِ رسالتؐ کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کردیا۔

زیرنظر کتاب میں اولاً گستاخِ رسولؐ کی سزا اور تاریخ کے ان واقعات کا ذکر کیا گیا ہے جب سرور کونین ؑکی شان اقدس میں بعض بدبختوں نے اس جرم کا ارتکاب کیا۔ قرآن و حدیث میں اس کے متعلق ارشادات بھی دیے گئے ہیں۔ ثانیاً اس کتاب میں عامر عبدالرحمن شہید کی زندگی بچپن، لڑکپن، نوجوانی اور خاندانی حالات کا تذکرہ ہے۔ ثالثاً ان کے گھر کے افراد کے تاثرات اور مولانا اظہرمسعود اور عرفان صدیقی کی نگارشات شامل ہیں جو عامر عبدالرحمن کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے لکھی گئی ہیں۔شہید دورِ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ رہے۔ یہ تفصیلات پہلی بار سامنے آئی ہیں۔ (محمد ایوب لِلّٰہ)


تاجرو جنت کیسے جائو گے؟، مولانا مفتی محمد ارشاد۔ ناشر: زم زم پبلشرز، شاہ زیب سنٹر، نزد مقدس مسجد، اُردو بازار، کراچی۔ صفحات: ۱۸۰۔ قیمت: ۱۴۰ روپے۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ اسے آزمائے، دنیا میں رہے لیکن دنیا ہی کا  ہوکر نہ رہ جائے۔ تجارت کے پیشے میں رزق کا ۹۰ فی صد حصہ رکھا گیا ہے۔ بظاہر ایک خالص دنیوی کام لیکن اسی کام کو دینی ہدایات کے مطابق انجام دیا جائے تو یہ جنت میں لے جائے گا، اور اگر جواب دہی سے بے نیاز ہوکر نفس کے کہنے پر عمل کیا جائے تو جہنم میں لے جاسکتا ہے۔

تجارت کے بارے میں اللہ کے رسولؐ کی جو بھی ہدایات ہیں مولانا مفتی محمد ارشاد نے وہ سب اس ۲۰۰ صفحے کی اس کتاب میں جمع کردی ہیں۔ ضروری فقہی مسائل بھی آگئے ہیں۔ سود کے حوالے سے بھی ذکر موجود ہے۔ ۱۸ صفحات کی فہرست پر نظرڈالی جائے تو کتاب کی وسعت کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے ایک تاجر کا طرزِعمل کیا ہونا چاہیے؟ اس بارے میں جو کچھ پہلے پڑھا تھا،وہ سب اس کتاب میں موجود ہے۔ مگر یہ کتاب اپنی موجودہ صورت میں ملک کے کتنے تاجروں کے ہاتھ میں جائے گی جو اس سے استفادہ کریں یا عمل کریں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وقت کے مقبول ترین بزنس مینجمنٹ کے نصاب میں اس کے ضروری نکات آجائیں۔ دوسری ضرورت یہ ہے کہ اس میں سے عملی باتیں اخذ کر کے مختصر معیاری اور خوبصورت شائع کی جائے اور بازاروں میں گھوم کر ہر تجارت کرنے والے کے ہاتھ میں پہنچائی جائے۔ ناجائز حرام کمائی پر وعید سے آغاز کے بجاے اختتام اس پر ہوتا تو بہتر ہوتا۔(مسلم سجاد)


سنہرے لوگ، ڈاکٹر محمد وسیم انجم۔ ناشر: انجم پبلشرز، کمال آباد۳، راولپنڈی۔ صفحات:۲۱۰۔  قیمت: ۲۰۰ روپے۔

یہ کتاب ۱۶ مذہبی، سماجی اور ادبی، معروف اور غیرمعروف شخصیات کے خاکوں اور تعارفات پر مشتمل ہے۔ ان میں سے چند ایک معروف ہیں، مثلاً ڈاکٹر بشیرسیفی، زہیرکنجاہی، حکیم یوسف حسن وغیرہ مگر زیادہ تر افراد غیرمعروف ہیں۔ لیکن شہرت اور نام وری سے قطع نظر ڈاکٹر وسیم انجم کے ممدوح غیرمعروف لوگ بھی اپنے کردار اور عمل کے لحاظ سے نادر روزگار حیثیت رکھتے ہیں اور ان کی وضع داری، نیک نفسی اور بلندکردار کی وجہ سے ان میں ایک کشش محسوس ہوتی ہے۔ ان میں کچھ شہدا ہیں اور کچھ بزرگانِ دین۔ کہیں کہیں عبارت بوجھل محسوس ہوتی ہے اور کہیں جملوں کی طوالت کے سبب تحریر کا حسن ماند پڑ جاتا ہے۔ مصنف نے خاکے لکھتے ہوئے غیر جانب داری سے کام لیا ہے، تاہم ان کے ہاں ہمدردی کا پہلو موجود ہے جو خاکہ نگاری کا ایک بنیادی وصف مانا جاتا ہے۔ بعض اوقات یہ احساس ہوتا ہے کہ ممدوح حضرات کے متعلق مصنف کا مشاہدہ کچھ زیادہ گہرا نہیں ہے۔ کتاب میں ماضی کے چند دل چسپ واقعات کا ذکر بھی ملتا ہے۔ مجموعی حیثیت سے   وسیم انجم کی یہ کاوش قابلِ ستایش ہے۔ (رضوان احمد مجاہد)

تعارف کتب

  •  اہل علم کے خطوط، محمد یوسف نعیم۔ ملنے کا پتا: مکتبہ ایوبیہ، اے ایم نمبر۱، برنس روڈ، کراچی۔ صفحات: ۱۲۸۔ قیمت: ۸۰ روپے۔[مؤلف کے نام متعدد اہلِ قلم کے خطوط۔ بڑا موضوع: علمی مسائل و نکات۔ مؤلف کے اپنے خطوط بھی شامل ہیں۔ مکتوب الیہم کے مختصر سوانح۔ بعض خطوں میں مفید نکتے آگئے ہیں مگر زیادہ تر خطوط کو بحیثیت ایک ’یادگار‘ کے محفوظ کرنے کی سعی کی گئی ہے۔]
  •  بندئہ مومن، محمد صدیق تہامی۔ ملنے کا پتا: مکان ۱۰۲۸، سیکٹر جی،۱۰/۴، اسلام آباد۔ صفحات: ۱۱۸۔ قیمت: ۱۲۰ روپے۔ [قرآن مجید کا جامع تعارف، اسلام کے بنیادی عقائد، عبادات کا مقصد اور تقاضے، اخلاقی تعلیمات، اسلامی معاشرت، رزقِ حلال، آخرت کی فکر اور احوال، اللہ سے محبت اور اصلاح احوال کے لیے توبہ کی روش کے تحت ان رویوں کو پیش کیا گیا ہے جو ایک مسلمان کے کردار اور شخصیت کا حصہ ہونے چاہییں۔ خواتین سے اسلام کے مطالبات اور فرائض و حقوق کے علاوہ ان رسوم و رواج پر بھی گرفت کی گئی ہے جو دین کے نام پر ادا کی جاتی ہیں۔ درس قرآن دینے والوں کے لیے ایک مفید کتاب۔]

 

حافظ عمر فاروق بزمی ، وہاڑی

’آیئے! مل کر عہد کریں!‘ (دسمبر ۲۰۰۸ء) ایک مؤثر تحریر ہے جسے پڑھ کر تحریک پیدا ہوئی۔ ڈاکٹر رخسانہ جبیں کے ایمان افروز خطاب نے فکرونظر اور قلب و ذہن کو نئے ولولے اور جوش و جذبے سے ہم کنارکیا۔ بالخصوص اسلام کے موجودہ حالات کا چودہ سو سال قبل کے دینِغریب سے موازنہ کرکے عالمی منظرنامہ پیش کیا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی دعوت تعلق باللہ اور توجہ الی اللہ کے ساتھ ساتھ صبغۃ اللّٰہ میں رنگ کر پیش کریں اور اللہ سے اپنے عہد کو ایک نئے عزم اور ولولے سے وفا کریں۔

شفیق الاسلام فاروقی ‘لاہور

دنیا کے کسی حصے میں انتہاپسندی اور تشدد کا کوئی معمولی واقعہ پیش آجائے تو عالمی میڈیا اُس کا ذمہ دار طالبان کو گردانتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری سیاسی و دینی جماعتیں امریکا کی دہشت گردی اور  عالمی امن دشمنی کو بے نقاب کریں کہ لاکھوں انسانوں کی اُس کے ہاتھوں ہلاکت سے اُس پر قابض صہیونی لابی کے اصل عزائم کیا ہیں؟

عتیق الرحمٰن صدیقی ‘ ہری پور

ترجمان القرآن منفرد نوعیت کا ایک معیاری جریدہ ہے۔ اس کی تحریریں جان دار، فکرافروز اور معلومات افزا ہوتی ہیں۔ اس میں املا کی غلطی ہو یا عبارت میں ذرا سا جھول، یا زبان میں معمولی سی لغزش تو اچنبھا ہوتا ہے۔ اس پہلو پر مزید توجہ کی ضرورت ہے۔ دسمبر ۲۰۰۸ء کے شمارے میں پروف کی چند اغلاط یہ ہیں: ’استعانت کی طلب‘ (ص ۲۳) اس لیے محل نظر ہے کہ استعانت میں طلب کا مفہوم شامل ہے۔ ’خودداری‘ کو خوداری (ص۲۲) لکھا گیا ہے۔ براہیمیت کو براہمیت (ص ۲۵) تحریر کیا گیا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ سے نسبت کا اقتضا یہ ہے کہ براہیمیت لکھا جائے۔ ’یومِ عرفہ کا پیغام‘ سوز و گداز میں گندھی ہوئی تحریر ہے مگر اس میں تکرار گراں گزرتی ہے۔ ’تزکیہ و تدبر‘ خوب مضمون ہے۔ اگر اسے زیادہ سہل اور قابلِ فہم بنایا جاسکتا تو بہتر ہوتا۔

حافظ نصیر عثمانی ‘کراچی

’تفہیم القرآن سے فائدہ اٹھایئے‘ (ستمبر ۲۰۰۸ء) ایک قابلِ قدر مضمون ہے جس میں ایسی عملی تدابیر تجویز کی گئی ہیں جن پر عمل کر کے پوری فضا کو قرآن کی دعوت سے منور کیا جاسکتا ہے، اور اس طرح سیدمودودی کی اس نصیحت پر کہ ’’قرآن و سنت کی دعوت لے کر اٹھو اور پوری دنیا پر چھا جائو‘‘ عمل کیا جاسکتا ہے۔

ثمینہ شفیع  ‘ اوکاڑہ

اس وقت دنیا معاشی بحران سے دوچار ہے۔ مبصرین کی راے کے مطابق شاید عالمی حالات میں تبدیلی آنے والی ہے، اور ایک ہم ہیں کہ ہماری نظریں خدا کی بجاے امریکا پر ہیں۔ اپنے ملک کے سربراہوں سے میری گزارش ہے کہ خدارا اپنی بنیادوں پر خود کھڑا ہوکر اپنے رب پر کامل بھروسا کریں اور زمینی خدائوں کی پوجا چھوڑ دیں۔ یاد رکھیے زمین و آسمان کا حقیقی مالک اللہ تعالیٰ ہے، نہ کہ امریکا۔

محمد عبدالرشید ‘کلکتہ

اگر ملک و ملّت کو امریکی استعمار واستبداد کے چنگل سے نجات دلانا ہے، تو پہلے قدم کے طور پر پیپلزپارٹی کی کاسہ لیس حکومت سے گلوخلاصی حاصل کرنا اور ساتھ ہی دوبارہ انتخابات کرانا ازبس ضروری ہے۔ ظاہر ہے کہ اس مقصدِعظیم کے لیے جنرل پرویز مشرف کے آخری ایام میں چلائی جانے والی عوامی تحریک سے بھی بڑھ چڑھ کر زیادہ فقیدالمثال عوامی تحریک کی ضرورت ہوگی۔ بے شک یہ کارعظیم علماے کرام ہی سرانجام دے سکتے ہیں۔ اس لیے کہ بے کردار سیاسی بازی گروں اور عیار ملحدین کے مقابلے میں آج بھی عوام الناس علماے کرام ہی پر اعتمادِ کُلّی رکھتے ہیں۔ امید ہے کہ امریکا جیسے بدترین دشمنِ اسلام سے نبٹنے کی خاطر آپس کے مسلکی اختلافات کو بھلا کر اور ملحدین کے عیارانہ ہتھکنڈوں سے چوکنا رہ کر، علما قرآن و سنت کی عطاکردہ  اخوت اسلامی کے تحت آپس میں مخلصانہ روابط پیدا کریں گے اور اس ملّی فریضے کو بہ احسن انجام دیں گے۔

ڈاکٹر طاہر سراج ‘ساہیوال

گذشتہ دنوں ترجمان القرآن کی اشاعت میں اضافے کی مہم (ستمبر تا نومبر ۲۰۰۸ء) چلی اور پرچہ تحفہ دینے کے لیے رعایتی قیمت پر فراہم کیا گیا۔ میں نے کوشش کی کہ اس اسکیم سے فائدہ اٹھائوں اور ہر ماہ  ۱۰۰ پرچے لے کر تقسیم کیے، الحمدللہ! ترجمان کا تعارف کرانے اور اس کی مقبولیت بڑھانے کے لیے میں اکثر دوایک صفحات اپنی قرآن کلاس کے شرکا کو سناتا ہوں۔ لوگ بے حد توجہ سے سنتے ہیں۔

میں ایک بنیادی مرکز صحت میں بطور میڈیکل آفیسر کام کرتا ہوں۔ دیہاتی علاقے میں میرے پاس دو سنٹر ہیں۔ میں نے توسیع اشاعت مہم کے دوران قریباً ۲۰، ۲۰ شمارے ہرسنٹر پر مختلف افراد کو دیے جن میں دفتر کا عملہ، قریب کے ہائی اسکولوںکے اساتذہ، گائوں کی مساجد کے خطیب اور سماجی اور سیاسی کارکنان شامل ہیں۔ ان سب سے مؤثر رابطے کا یہ بہترین ذریعہ ہے۔ آج دیہات میں بھی تعلیم یافتہ افراد کی کمی نہیں، اس لیے ترجمان ہر جگہ پہنچایا جاسکتا ہے۔

  •   بہت سے لوگوں نے اسی طرح جذبے سے کیا، لیکن جو کرسکتے تھے، اور نہیں کیا، انھیں توجہ کرنا چاہیے۔

 

شریعت ِ اسلامی کی یہ ایک مستقل اسپرٹ ہے کہ وہ زندگی میں اپنا پورا غلبہ بلاشرکت غیرے چاہتی ہے اور اگر غیراللہ کا کوئی اقتدار انسانوں پر اپنا دامن پھیلانا چاہتا ہے تو وہ اپنے متبعین کو اس کا باغی دیکھنا چاہتی ہے، نہ کہ مطیع و وفاشعار۔ جس نظامِ حق کو گائے کی قربانی جیسے معمولی مسئلے میں غیراللہ کی مداخلت گوارا نہیں ہے، وہ آخر اسے کیسے برداشت کرسکتا ہے کہ سیاست اور معیشت اور معاشرت کے اہم مسائل میں خدا سے سرکشی کرنے والی کوئی قوت اپنی مرضی کو اللہ کے بندوں پر نافذ کرے۔

شریعت ِ اسلامی کی یہی اسپرٹ ہمیشہ نظام کفروجاہلیت کے خلاف اربابِ حق کو صف آرا کرتی رہی ہے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشین گوئی پوری ہوتی رہی ہے کہ میری اُمت میں جہاد قیامت تک جاری رہے گا، اور نہ کسی عادل کا عدل اسے ختم کرسکے گا نہ کسی ظالم کا ظلم۔ یہی اسپرٹ ہمیشہ تجدیدِ اسلام کی تحریکوں کی محرک رہی ہے اور اسی نے صالحین کو ماحول کی خوفناکیوں کے آگے جھک جانے سے روکا ہے۔

مگر جہاں یہ اسپرٹ مسلمانوں میں کمزور ہوگئی ہے وہاںانھوں نے اپنی اسلامیت میں کتربیونت کرکے ہر قسم کے نظام ہاے طاغوت کو نہ صرف یہ کہ گوارا کرلیا ہے، بلکہ حد یہ کہ اسے چلانے اور مستحکم رکھنے اور اس کا تحفظ کرنے کی خدمات تک سرانجام دینے کے لیے تاویلیں کرلی ہیں۔

یہ بات اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ گائوکشی اگر طاغوت کی روک سے مباح کے بجاے واجب ہوجاتی ہے تو پھر امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے نظام کا قائم کرنا جو پہلے ہی فرض اور بہت بڑا فرض ہے، باطل کی طرف سے کسی مزاحمت کے پیدا ہوجانے پر دین کے ہرفرض سے بڑا فرض ہوجاتا ہے اور اس سے چشم پوشی کرکے اگر مسلمان ہزار نفلی عبادتیں بھی کرے تو وہ بے معنی ہیں۔

درحقیقت کسی غیرالٰہی طاقت کی مداخلت فی الدین چاہے کتنے ہی چھوٹے معاملے میں ہو، مسلمان کے عقیدۂ توحید پر براہِ راست ضرب لگاتی ہے ... ظاہر ہے کہ اس اعلان پر مسلمان کا امن و سکون سے بیٹھے رہنا تک اس کے ایمان کو مشتبہ کردیتا ہے، کجا یہ حال کہ اس اعلان کے اعلانچی خود مسلمان ہوں بلکہ دوسروں سے بالجبر اسے منوانے کے لیے اپنی قوتیں باطل کے ہاتھ فروخت کریں۔ پس اصلی مسئلہ قربانیِ گائو کا نہیں ہے، بلکہ عقیدۂ توحید کی حفاظت کا سوال ہے، اور اس کی حفاظت میں کوتاہی کر کے ہم کس اخروی بہبود کی امیدیںقائم کرسکتے ہیں! (’رسائل و مسائل‘، مولانا مودودیؒ، ترجمان القرآن، جلد۲۹، عدد ۵، ذی القعدہ   ۱۳۶۵ھ، اکتوبر  ۱۹۴۶ء، ص۵۹-۶۰)