۲۰۰۴ء کو انتخابات کا سال کہا جا رہا ہے‘ اس لیے کہ اس سال ۸۰ ممالک میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ اس فہرست میں بہت سے مسلم ممالک بھی ہیں۔ انتخابات تو بھارت میں بھی ہوئے ہیں جن میں بڑے بڑے مسلم ممالک سے زیادہ مسلمان ووٹروں نے حق ووٹ استعمال کیا ہے۔ مسلم ممالک پر عموماً الزام یہ ہے کہ یہاں جمہوریت نہیں ہے اور انتخابات بھی ۹۹ فی صد کامیابی والے ہوتے ہیں۔ اسلام اور جمہوریت کی بحث اپنی جگہ‘ جمہوریت اور انتخابات کی بحث بھی کافی وزن رکھتی ہے۔ انتخابات کو جمہوریت کی علامت کہا جاسکتا ہے۔ لیکن ایسے انتخابات بھی ہوتے ہیں کہ جمہوری اقدار کو نشوونما دینے کے بجاے ان کا کریا کرم ہی ہوجائے۔ گذشتہ عرصے میں تین مسلم ممالک انتخابات سے گزرے‘ ان کا ایک مختصر جائزہ پیش ہے۔
انڈونیشیا کو دنیا کے سب سے بڑے مجمع الجزائر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ ۱۸ہزار جزائر میں ۲۲ کروڑ انسان بستے ہیں‘ جب کہ ۸۸ فی صد مسلمان‘ ۹ فی صد عیسائی‘ اور ۲ فی صد ہندو یہاں آباد ہیں۔ شرحِ تعلیم ۸۳ فی صد ہے۔ جنرل سوہارتو کے اقتدار کے ۳۲ سال نہ ہوتے تو انڈونیشیا کی تاریخ بالکل مختلف ہوتی۔ آج کے انڈونیشیا میں ۲۱ کروڑ افراد خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں‘ جب کہ ایک کروڑ افراد ملازمت سے محروم ہیں اور ۳ کروڑ افراد کو صرف جُزوقتی روزگارمہیا ہے۔ ان حالات میں ریاستی بدعنوانی‘ حکومتی نااہلی اور اقتصادی مسائل کے موضوعات ہی تمام انتخابات پر چھائے رہے کیونکہ ان مسائل کے حل کے لیے نہ گولکر پارٹی کچھ کرسکی نہ جمہوری پارٹی۔
سابق صدر سوہارتو کی گولکر پارٹی نے ۵۵۰ کے ایوان میں ۱۲۸ نشستیں حاصل کرلی ہیں اور آیندہ صدارتی انتخابات میں جنرل ورانٹو گولکر پارٹی کے امیدوار ہوں گے۔ اُن کے بارے میں گمان ہے کہ انڈونیشیا کے لیے وہ ایک مربوط اقتصادی پروگرام ترتیب دے سکیں گے۔ اُن کے مخالفین اُن پر الزام لگاتے ہیں کہ سوہارتو اور اُس کے اہلِ خانہ‘ نیز اُن کے اعزہ و اقربا ملکی دولت کو دونوں ہاتھوں سے تین عشروں تک لُوٹتے رہے ہیں اور ورانٹو ان کے دستِ راست بنے رہے۔ اُن پر دوسرا بڑا الزام یہ ہے کہ مشرقی تیمور میں جب علیحدگی کی تحریک چل رہی تھی تو مشرقی تیمور کے عیسائیوںکے ساتھ فوج نے ظلم و زیادتی کی اور اُس وقت اُس علاقے میں فوج کے کمانڈر جنرل ورانٹو تھے۔ ڈھائی برس قبل چینی متمول آبادی کے خلاف عوامی ردعمل میں فوج کچھ نہ کرسکی۔ جب کئی شہروں میں فسادات پھوٹ پڑے تھے اور لُوٹ مار کا بازار گرم تھا اور اس لُوٹ مار میں فوجی بھی مالِ غنیمت حاصل کر رہے تھے۔
آزادی کے ۵۵ برسوں میں ہونے والے دوسرے قومی انتخابات میں برسرِاقتدار جمہوری جدوجہد پارٹی نے اندازے سے بہت کم ۱۰۸ نشستیں حاصل کی ہیں۔ یہ انتخابی نتائج نسبتاً چونکا دینے والے ہیں۔ جمہوری پارٹی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ غریبوں کی پارٹی ہے‘ اور مزدور کسان دوست پارٹی ہے۔ یہ اسلام پسند یا تعصب پھیلانے والی پارٹی نہیں۔ لیکن انتخابی نتائج میں راے دہندگان نے میگاوتی کی کارکردگی پر عدمِ اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ اگر میگاوتی دوسری چھوٹی جماعتوں کو اپنے ساتھ بھی ملا لے‘ تب بھی اُس کی جماعت کے لیے صدارتی انتخابات میں کامیاب ہونا مشکل ہے۔ اسی لیے پارٹی نے ایک سابق جرنیل کو صدارتی اکھاڑے میں اُتارنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ بھی شنید ہے کہ یہ پارٹی معروف دانش ور اور اسلامی رہنما امین رئیس کو نائب صدارت کا عہدہ دے دے گی۔ انڈونیشیا کے صحافتی حلقوں میں یہ بات مشہور ہے کہ سابق صدر عبدالرحمن واحد کو کچھ نظر نہیں آتا تھا لیکن میگاوتی کو کچھ سنائی نہیں دیتا اور کئی اہم سیاسی مسائل حل طلب پڑے رہتے ہیں۔
حالیہ انتخابات میں ۲۴ پارٹیوں نے حصہ لیا۔ کئی فٹ چوڑے بیلٹ پیپر کی خبریں پریس میں آچکی ہیں۔ ان انتخابات کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ سابق صدر عبدالرحمن واحد کی پارٹی کو ۷فی صد ووٹ ملے ہیں اگرچہ اُن کا دعویٰ ہے کہ اُن کے ۳ کروڑ حامی ہیں۔ اسی طرح دائیں بازو کی بیداری پارٹی PANکو بھی ۶ فی صد ووٹ ملے جس کی سربراہی امین رئیس کر رہے ہیں اور اُن کو سابقہ انتخابات میں بھی اتنے ہی ووٹ ملے تھے۔ امین رئیس آیندہ انتخابات میں صدارتی امیدوار بننے کے لیے صلاح مشورہ کر رہے ہیں۔ اُن کی شناخت مسلم دانش ور کی ہے۔
انڈونیشیا کی سیاست میں ایک اہم پیش رفت انصاف و خوش حالی پارٹی (PKS)کے ووٹ بنک میں اضافہ ہے۔ اس پارٹی میں تعلیم یافتہ لوگوں کی اکثریت ہے اور یہ قومی و عالمی معاملات پر راے عامہ کو متحرک کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ۱۹۹۹ء میں ہونے والے انتخابات میں اس پارٹی نے ۵.۱ فی صد ووٹ حاصل کیے تھے‘ جب کہ اس بار اس نے ۴.۷ فی صد ووٹ اور ۴۵ نشستیں حاصل کی ہیں۔ اس جماعت نے صاف ستھرا معاشرہ‘ نیز بدعنوانی‘ سازش‘ اقربا پروری نامنظور کے نعرے پر انتخابی مہم چلائی۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ آیندہ پانچ برسوں میں اس جماعت نے تنظیمی طور پر بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا تو آیندہ انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرسکتی ہے۔ عراق پر ۲۰ مارچ ۲۰۰۳ء کو امریکا نے حملہ کیا تو اس جماعت نے احتجاجی مظاہروں میں ۳ لاکھ افراد کو سڑکوں پر لاکھڑا کیا تھا۔ ربڑ‘ قدرتی وسائل اور افرادی قوت سے مالا مال اس ملک کو ایک باصلاحیت قیادت ہی تعمیروترقی کے راستے پر ڈال سکتی ہے‘ ورنہ بدعنوانی اور کھربوں کے غبن نے اس کی اقتصادیات کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ اسلامی فکر کی حامل جماعتوں اور جہادی گروہوں پر حکومت ہاتھ ڈال چکی ہے اور ابوبکر بشیر ان کا مشقِ ستم بنے ہوئے ہیں‘ نام نہاد ’’دہشت گردی کے خلاف مہم‘‘ کا خاتمہ بھی اہلِ انڈونیشیا کے دل کی آواز ہے۔
۱۹۵۷ء میں برطانیہ سے آزادی کے بعد یہاں پارلیمان کے انتخابات باقاعدگی سے ہورہے ہیں۔ قومی اسمبلی کے لیے گیارھویں انتخابات ۲۱ مارچ ۲۰۰۴ء کو منعقد ہوئے۔ ۱۹۷۸ء سے یونائیٹڈ مَلے نیشنل آرگنائزیشن (UMNO) یہاں برسرِاقتدار ہے۔ اُس کے قائدین کا اعلان ہے کہ ہماری جماعت قدامت پرست نہیں‘ بلکہ روشن خیال اسلام پر یقین رکھتی ہے اور ڈاکٹر مہاتیرمحمد اس کی رہنمائی کرتے رہے ہیں۔مہاتیر کی اقتدار سے برضا و رغبت دست برداری کو انتہائی مثبت اقدام کے طور پر دنیا بھر میں سراہا گیا اور نائب وزیراعظم عبداللہ بداوی نے وزیراعظم کے طور پر اقتدار سنبھالا۔ بطور وزیراعظم بداوی اور کابینہ کے لیے یہ انتخابات سب سے بڑا امتحان تھے۔ وزارتِ عظمیٰ کا تمام دور اُنھوں نے حزبِ اختلاف کو کمزور کرنے اور ’امنو‘ کی جڑیں گہری کرنے میں گزارا جس میں وہ بے انتہا کامیاب رہے۔ پارلیمان کی ۲۱۹میں سے ۱۹۰نشستیں ’امنو‘ نے جیت لی ہیں۔ آیندہ پانچ برس ’امنو‘ کو کسی مضبوط حزبِ اختلاف کا سامنا نہیں رہے گا۔ اگر جمہوری روایات کے اتباع میں حزبِ اختلاف کو نشوونما پانے کا حق دیا گیا تو یہ خوش آیند اقدام تصور کیا جائے گا۔
اسلامی نظریات کی حامل اسلامی پارٹی ملایشیا (پاس) نے خلافِ معمول قابلِ قدر کامیابی حاصل نہ کی۔ کلنتان کے صوبے میں ’پاس‘ تین بارپہلے بھی حکومت بنا چکی ہے اور ان انتخابات میں صوبائی اسمبلی میں اس بار اتنی نشستیں بمشکل حاصل کی ہیں کہ آیندہ حکومت بناسکے۔ لیکن ترنگانو کے صوبے میں اس جماعت کو واضح شکست ہوئی ہے۔ ’پاس‘ کے مرشدعام نک عبدالعزیز اور اس کے مرکزی صدر عبدالہادی آوانگ صوبائی نشستوں پر کامیاب ہوئے ہیں‘ جب کہ وفاقی اسمبلی میں ’پاس‘ نے صرف سات نشستیں حاصل کی ہیں۔ یہ نتائج اُن کے لیے بھی مایوس کن ہیں۔ وہ انتظامیہ کی ملی بھگت کو خارج از امکان قرار نہیں دے رہے ہیں۔
ملایشیا کے سیاسی حالات پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ بداوی کی مہم کی نگرانی براہِ راست مہاتیرمحمد نے کی اور ۱۱ستمبر کے واقعات اور جدید اسلام کے نعرے پر انتخابی مہم چلائی گئی۔ ’پاس‘ کے بارے میں مشہور کیا گیا کہ یہ دو رکعت کے امام‘ ملّا لوگ ہیں‘انھیں جدید چیلنجوں کا علم نہیں ہے۔ یہ عورتوں کے حقوق کے مخالف ہیں اور غیرمسلموں کے ساتھ امتیازی سلوک پر یقین رکھتے ہیں۔ طالبان نما اسلام اس دور میں نہیں چلے گا‘ شریعت کی باتیں کرنا حالات سے ناواقفیت اور قوم کو پتھر کے دور میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔ظاہر ہے ملایشیا کے عوام ۱۹۹۸ء کے اقتصادی بحران کے بعد کوئی نیا خطرہ مول لینے کو تیار نہ تھے۔ امریکا بہادر کی دہشت گردی مخالف مہم نے بھی اس میں کردار ادا کیا۔ کلنتان اور ترنگانو میں ’پاس‘ کی صوبائی حکومتیں جو مثبت اقدامات کرتی رہی ہیں اُن کو بھرپور انداز میں ذرائع ابلاغ کے ذریعے متعارف نہ کرایا گیا۔
ممکن ہے کہ ’امنو‘ کو دو تہائی اکثریت ملنے کے بعد بداوی کی حکومت ایسے قوانین پاس کروا لے جس سے ملک کے وقار کو دھچکا پہنچے۔ ’روشن اسلام‘ کی پیروی کرتے ہوئے مغربی ثقافت کے لیے راہیں ہموار کر دے اور عوام کے لیے نظریاتی و اخلاقی مشکلات پیدا ہوجائیں‘ کیونکہ بے انتہا طاقت اندھا کر دیتی ہے۔ داخلی سلامتی کے ایک قانون پر تو پہلے ہی عمل درآمد ہو رہا ہے کہ کسی بھی شخص کو وجہ بتائے اور مقدمہ چلائے بغیر جیل میں غیرمعینہ مدت تک رکھا جاسکتا ہے۔ سابقہ نائب وزیراعظم انور ابراہیم کا مقدمہ بھی سب کے علم میں ہے۔ انھیں سیاسی مخالفت کی بنا پر عمرقید کی سزا سنائی گئی۔ انور ابراہیم کی بیگم نے انصاف پارٹی قائم کی اور صرف ایک نشست حاصل کر سکیں۔ اقتصادی میدان میں حکومت کو ایسی متوازن پالیسیوں کی تشکیل کی شدید ضرورت ہوگی جس سے درمیانہ طبقہ اور غریب طبقہ بھی خوش حالی کے ثمرات سے فائدہ اٹھا سکے اور ملک کی اکثریت سیاسی انتقام اور قانونی بندشوں سے نجات حاصل کرسکے۔ امید ہے مہاتیرمحمدجوغلطیاں باصرار دُہراتے رہے ہیں‘ بداوی اُن سے پرہیز کریں گے۔
پانچ برس قبل بھی صدارتی انتخابات ہوئے تھے اور حکومت نے سرکاری مشینری کو بے دریغ اور کھلے عام اس طرح استعمال کیا کہ انتخابات سے عین ایک روز قبل تمام صدارتی امیدواروں نے انتخابات کا مقاطعہ کر دیا تھا۔ موجودہ انتخابات اس لحاظ سے دل چسپ تھے کہ اسلامی نجات محاذ پر حسب معمول پابندی عاید ہے۔ ۶لاکھ حاضر فوج سے ووٹ ڈلوائے گئے اور یہ سہولت بھی تھی کہ چاہیں تو اپنے افسران کے سامنے ووٹ ڈال سکتے ہیں۔ دیگر صدارتی امیدواروں کو جلسے منعقد کرنے اور ریلیاں نکالنے کی محدوداجازت دی گئی۔ ۳کروڑ ۴۰ لاکھ آبادی کے اس ملک میں ایک کروڑ ۸۰ لاکھ راے دہندگان ہیں۔ اُن کی ۵۸ فی صد تعداد نے صدارتی انتخابات میں ووٹ ڈالے اور ظاہر ہے استبداد پسند صدر نے واضح اکثریت حاصل کرنا ہی تھی‘ سوکرلی۔ صدر عبدالعزیز بوتفلیکا نے من پسند نتائج کے لیے دھڑلے سے نوکرشاہی کو استعمال کیا۔ صدارتی انتخابات کے لیے کاغذات جمع کرانے والوں کی اکثریت کو بے بنیاد الزامات کی بنا پر انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا گیا۔ ذرائع ابلاغ نے بوتفلیکا کی گراں قدر قومی خدمات اور ملکی استحکام میں تابناک کردار کے فسانے شب و روز عوام کو سنائے۔
ان نام نہاد انتخابات میں اسلام پرستوں کے نمایندے کے طور پر عبداللہ جاب اللہ‘ الاصلاح پارٹی کی طرف سے حصہ لے رہے تھے‘ نتائج کا تو علم ہی تھا‘ تاہم تمام تر پابندیوں کے باوجود وہ اسلام پسند اور حکومت مخالف ووٹروں کو کسی نہ کسی طرح پولنگ اسٹیشن تک لانے میں کامیاب رہے اور کُل ڈالے گئے ووٹوں کا ۵فی صد حاصل کر کے تیسرے نمبر پر رہے۔ ان کی شکست پر اُن سے تبصرہ کرنے کو کہا گیا تو اُنھوں نے کہا کہ: جو کچھ عالمِ عرب میں اور جو کچھ الجزائر میں ہوتا چلا آ رہا ہے‘ اس لحاظ سے یہ جمہوریت بھی غنیمت ہے۔
عبدالعزیز بوتفلیکا کے صدارتی انتخابات اہلِ پاکستان کے لیے اجنبی نہیں ہیں۔ پاکستان کے دو سابقہ فوجی حکمران یہ کام احسن طریقے سے ریفرنڈم کے نام پر انجام دے چکے ہیں۔ عبدالعزیز بوتفلیکا ۸۵ فی صد ووٹ حاصل کر کے صدارت کے منصب پر دوبارہ فائز ہوچکے ہیں۔ سیکڑوں بربر مخالفین جو پہاڑوں میں روپوش ہیں اور ان کے استبداد سے تنگ ہیں‘ آیندہ کیا پالیسی اختیار کرتے ہیں‘اس کا تعین آنے والا وقت ہی کرے گا۔